اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
کیا دعا مانگنا تفویض کے خلاف ہے، اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
سب سے پہلے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ تفویض کیا چیز ہے اور دعا کا کیا مطلب ہے۔ اس سے ساری بات سمجھ میں آ جائے گی۔ تفویض کا معنی ہے، اللہ جل شانہ کے اوپر اپنے کام کو چھوڑ دینا، اس معنی میں نہیں کہ انسان کام نہ کرے اور اپنا کام بھی اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ پاک کے فیصلے پر دل سے راضی ہو جائے۔ مثلاً میں ایک محنت کر رہا ہوں۔ میرے ذہن میں یہ ہے کہ اس کا نتیجہ ایسا ہونا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا کچھ اور ہے، محنت کرنے کے با وجود نتیجہ ویسا نہ آئے ، اپنے فیصلے پر اللہ کے فیصلے کو ترجیح دینا تفویض کہلاتا ہے۔ انسان کو اپنا فیصلہ کمزور نظر آئے اور اللہ کا فیصلہ مضبوط اور اچھا نظر آئے، یہ تفویض ہے۔ قرآن پاک میں تفویض کے بارے میں یہ آیت کریمہ ہے:
﴿وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ (المومن: 44)
ترجمہ: ”اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ سارے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔“
ہمارے گاؤں میں دیہاتی لوگ جب کسی بڑی شخصیت کے پاس کوئی معاملہ لے کر جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ ہمارے مائی باپ ہیں جو آپ کا فیصلہ ہے وہی ہمارا فیصلہ ہے، آپ ہم سے زیادہ جانتے ہیں، آپ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، اس وجہ سے ہم اپنی بات نہیں کریں گے بلکہ جو آپ فرمائیں گے وہ ٹھیک ہے۔ یہ تفویض کی ایک دنیاوی صورت ہے، اس میں اپنی بات پر ایک دوسرے انسان کی بات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
جب کوئی اللہ پاک کے فیصلہ کے سامنے اپنا فیصلہ یا متوقع نتیجہ چھوڑ دیتا ہے تو اسے تفویض کہتے ہیں۔
جب آپ کسی نیک آدمی پہ بھروسہ کریں تو وہ دل سے کوشش کرتا ہے کہ آپ کے بھروسہ پہ پورا اترے اور وہ کام کرے جو آپ کے حق میں زیادہ بہتر ہو، اور اللہ پاک تو سب سے زیادہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے، اپنے بندوں کی ہر ضرورت کو جاننے والے اور ان کے سب سے زیادہ خیر خواہ ہیں، تو پھر ہر معاملہ انہی کے سپرد کیوں نہ کیا جائے۔
ہم ایک دفعہ اپنے مکان کے لیے سید پور روڈ پر ایک ٹال سے لکڑی خریدنے کے لئے گئے۔ وہاں پر ایک پٹھان ہوتے ہیں، بڑے اچھے دیانت دار آدمی ہیں۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہم لکڑی خریدنے آئے ہیں۔ انہوں نے کچھ تفصیل پوچھی کہ لکڑی کس کام میں استعمال کرنی ہے۔ ہم نے انہیں مطلوبہ تفصیل بتا دی۔ وہ ہمارے لئے اس ٹال میں سے لکڑیاں تلاش کرنے لگے۔
بہترین لکڑی تلاش کرنا بڑا مشکل فن ہے، یہ جاننا کہ ایک تنے سے آپ کو کیا کیا چیزیں ملیں گی، عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ بظاہر تو ایک تنا ہی نظر آ رہا ہوتا ہے، اس تنے کو دیکھ کر یہ حساب لگانا کہ اسے کاٹنے چیرنے اور صاف کرنے کے بعد اس سے یہ یہ چیزیں بن جائیں گی، یہ کافی مشکل کام ہے، جو لوگ اس کے ماہر ہوتے ہیں وہ ایسے تنے اور لکڑی کے ایسے ٹکڑے منتخب کرتے ہیں جن سے زیادہ سے زیادہ چیزیں بن جائیں۔
خیر وہ ہمارے لئے لکڑیاں چن چن کر نکالنے لگے، ہم بھی ان کے ساتھ تھے، کوئی لکڑی ہمیں مناسب نہ لگتی تو ہم کہتے کہ یہ ٹھیک نہیں لگ رہی اسے نہ لیں۔ جب بھی میں ایسی کوئی بات کہتا تو وہ پیچھے ہو کے کہتا کہ اچھا پھر آپ ساری لکڑیاں خود ہی چن لیں، میں نہیں کرتا، یہ لکڑی آپ کے سامنے ہے، قیمت آپ کو معلوم ہے، جو چاہے لے جائیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ میں اس کام کو اور اس چیز کو جانتا ہوں اس لئے مجھے خود سوچنے دیں اور لکڑیاں منتخب کرنے دیں۔ اگر آپ نے خود ہی یہ کام کرنا ہے تو پھر آپ ہی کر لیں میں کچھ نہیں کہوں گا۔ آخر ہمیں ان کی بات ماننی پڑی اور ہم نے کہا کہ آپ ہی کریں۔
اصل بات یہی ہے کہ جو ماہر ہے اور خیر خواہ بھی ہے معاملہ اس کے سپرد کر دو۔ اللہ جل شانہ اپنے کاموں کو خوب جانتا ہے، اپنے کاموں کی حکمتوں کو خوب جانتا ہے اور ہماری ضرورتوں کو بھی خوب جانتا ہے اور ہم سے زیادہ ہمارا خیر خواہ ہے۔ مثلاً اللہ پاک ہمیں کہتا ہے کہ گناہ نہ کرو۔ کیا اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ ہے؟ یا اللہ پاک ہمیں کہتا ہے کہ نمازیں پڑھو، روزے رکھو۔ کیا اس میں اس کا کوئی فائدہ ہے؟ اللہ پاک نے ہمارے ہی فائدے کے لئے ہمیں یہ احکام دئیے ہیں، ہمیں تھوڑی سی مہلت ملی ہے، اس مہلت میں ہم نے سب کچھ کرنا ہے، آخرت کے لیے تیاری کرنی ہے۔ ہم جتنا وقت ضائع کریں گے ہمارا نقصان ہو گا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اپنا نقصان نہ کریں۔ وہ ہم سے زیادہ ہمارا خیر خواہ ہے، ہم سے زیادہ ہماری ضرورت کو جانتا ہے تو پھر ہم کیوں اپنے معاملات اللہ پاک پر نہ چھوڑیں۔ اللہ پاک کو سب سے زیادہ اپنا خیر خواہ اور ہماری ضرورتوں کو سب سے زیادہ جاننے والا سمجھ کر معاملات اس کے سپرد کر دینا، اسی کو تفویض کہتے ہیں۔
یہ تو تفویض کی بات تھی اب سمجھیں دعا کیا چیز ہے؟ اپنی حاجت کو عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے سامنے پیش کرنا، یہ دعا ہے، چاہے اپنی حاجت دل سے پیش کر و چاہے زبان سے پیش کرو۔ بعض لوگ خاموش دعا کرتے ہیں ان کی دعا میں الفاظ نہیں ہوتے۔ اللہ پاک اس کو بھی سنتا اور سمجھتا ہے۔ یہ ساری بے زبان مخلوق اسی طرح اللہ پاک سے مانگتی ہے، اللہ جل شانہ ان کی زبان کو جانتے ہیں اور ان کا مانگنا پسند کرتے ہیں، خود قرآن پاک میں فرمایا:
﴿اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ﴾ (المومن: 60)
ترجمہ: ”مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا “۔
اللہ جل شانہ کا حکم ہے کہ ہم اس سے مانگا کریں۔ اور ہم اللہ پاک پر جو تفویض کرتے ہیں وہ اللہ پاک کے مقام اور اس کی شان کے مطابق کر تے ہیں، جب ہمیں اللہ پاک کا مقام معلوم ہو گیا تو اللہ پاک کے حکم کا مقام بھی معلوم ہو گیا کہ اللہ پاک کے حکم کا مقام کیا ہے۔ اس حکم پر عمل کرنا تفویض کے خلاف نہیں ہو گا۔
ایک دفعہ میں انٹرویو دے رہا تھا تو انٹرویو لینے والوں نے ایک عجیب سوال کیا۔ انہوں نے پوچھا کہ سورہ فاتحہ کیا چیز ہے؟ میں نے کہا: دعا ہے۔ انہوں نے کہا جو تمہاری قسمت میں اللہ نے لکھا ہے وہ تو ویسے بھی ہونا ہی ہے تو پھر دعا مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا: اتنا آپ کو پتا ہے، اِس سے آگے مجھے پتا ہے۔ انہوں نے کہا: آپ کو کیسے زیادہ پتا ہے؟ میں نے کہا: اصل میں بات یہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے حکم کا پتا ہے، اللہ پاک نے حکم دیا ہے کہ مجھ سے مانگو۔ میں تو اللہ پاک کا حکم پورا کروں گا مجھے اللہ پاک کا حکم عزیز ہے، اس سے کیا ہوتا ہے کیا نہیں ہوتا اس کا مجھے پتا نہیں ہے نہ ہی مجھے اس کا پتا لگانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک اپنی باتوں کو خوب جانتا ہے، اس نے ہمیں دعا کا حکم کیوں دیا یہ اس کو خوب پتا ہے۔ چونکہ میں جانتا ہوں کہ اللہ پاک مجھ سے زیادہ جانتے ہیں لہٰذا میں وہی کروں گا جو اللہ تعالیٰ مجھ سے کہیں گے۔ وہ یہ جواب سن کر چپ ہو گئے۔
انٹرویو کے بعد کسی وقت ان سوال کرنے والے صاحب سے ملاقات ہوئی، انہوں نے ہی بعد میں مجھے منتخب کیا تھا، انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے سوال کے جواب سے بڑے متاثر ہو گئے تھے۔ آپ نے بہت اچھا جواب دیا تھا۔
دعا ایسی چیز ہے کہ جو لوگ دعا نہیں کرتے، ان سے اللہ ناراض ہوتے ہیں اور جو دعا کرتے ہیں ان سے اللہ پاک راضی ہوتے ہیں۔ دعا بذات خود ایک عبادت ہے۔
”اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ“ (ترمذی: 3371)
ترجمہ: ”دعا عبادت کا مغز ہے“۔
دعا ہی اصل عبادت ہے کیونکہ عبادت در اصل عبدیت اور بندگی کو کہتے ہیں اور سب سے زیادہ بندگی دعا میں ہے۔
لہٰذا دعا اور تفویض دونوں کو اس طرح جمع کیا جا سکتا ہے کہ اپنی حاجت کو سامنے رکھ کر جو اپنے لیے بہتر سمجھتے ہو وہ مانگو، خوب عاجزی سے مانگو، با قاعدہ گڑگڑا کر مانگو، مانگنے میں کوئی کسر نہ چھوڑو لیکن دل سے اس فیصلہ پر راضی رہو جو اللہ کی طرف سے ہو۔ لہٰذا دعا مانگنا اور اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا، ان دونوں کاموں میں دعا اور تفویض جمع ہو گئے۔ دعا پر بھی عمل ہو گیا اور تفویض میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ دونوں باتیں جمع کی جا سکتی ہیں۔
سوال نمبر2:
بیعت کر لینے کے بعد نا دانستہ طور پر بعض اوقات آداب میں کوئی غلطی ہو جائے تو اس کا نقصان ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ خیال آتا ہے کہ بیعت نہ کی ہوتی تو کم از کم اس نقصان سے تو بچے رہتے۔ کیا ایسا سوچنا صحیح ہے یا غلط۔ جو لوگ بیعت نہیں ہوتے ان کو بھی کیا ایسے نقصان ہوتے ہیں؟
جواب:
یہ ایک عملی سوال ہے، لوگوں کو اس قسم کے اشکالات پیش آتے ہیں۔
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان مرتد ہو جائے (نعوذ باللہ) تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم مسلمان نہ ہوتے تو اچھا تھا، مسلمان ہونے میں یہ خطرہ ہو سکتا ہے کہ کہیں مرتد نہ ہوجائیں، کیا مرتد ہونے سے بچنے کے لئےیہ بات کہنا ٹھیک ہو گا کہ ہم مسلمان ہی نہ ہوتے تو بہتر تھا کم سے کم مرتد ہونے کا خطرہ تو نہ ہوتا۔ ظاہر ہے ایسا کہنا اور ایسی سوچ رکھنا غلط ہے۔ اسی طرح بیعت کے بعد غلطی ہونے کے ڈر سے بیعت نہ ہونا بھی غلط ہو گا۔
بیعت ایک مستحب عمل ہے جو اصلاح نفس کے لئے کیا جاتا ہے۔ باقی جانے انجانے میں کوئی غلطی اور بے ادبی ہو تو اس بارے میں یہ عرض کروں گا کہ اگر معاملہ دل کا ہے تو بے ادبی کیوں ہو گی، اور جب بیعت کی جائے تو پھر دل کو شامل کیوں نہ کیا جائے؟ جب پتا ہے کہ میں اپنے دل کو صاف کرنے کے لیے بیعت کر رہا ہوں، معاملہ دل کا ہے تو پھر بے ادبی کیوں کی جائے آخر کیوں اپنے نقصان کو دعوت دی جائے ایسا کام ہی نہ کیا جائے، جس سے نقصان ہوتا ہو۔ البتہ اگر سیکھنے کے دوران کوئی غلطی ہوتی ہے تو وہ ہر جگہ معاف ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کو پتا ہوتا ہے کہ اس کے دل میں کجی ہے یا صاف ہے۔ لہٰذا اللہ پاک اسی پہ فیصلہ فرما دیتے ہیں۔ اور اگر بندہ ابھی سیکھ رہا ہو تو سیکھنے والوں کو زیادہ رعایت ملتی ہے، جب تک کوئی سیکھ رہا ہے تب تک اس کی غلطی معصوم لگتی ہے۔ بعض دفعہ مشائخ کسی بات پہ ڈانٹتے ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں شاید اس سے ناراض ہو رہے ہیں حالانکہ یہ ناراض ہونا نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کی تربیت کر رہے ہوتے ہیں، اگر وہ اپنے کام کو جانتے ہیں تو ناراض کیوں ہوں گے۔ ان کا کام لوگوں کو اللہ کے ساتھ ملانا ہوتا ہے یا توڑنا ہوتا ہے، انہوں نے جن لوگوں کو اللہ کے ساتھ ملانا ہے ان سے ناراض کیوں ہوں گے، وہ ناراض نہیں ہوتے، بس ڈانٹ رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ڈانٹنے کو ناراضگی سمجھتے ہوں تو پھر تو اصلاح ہی نہیں ہو سکتی۔ اصلاح میں دو چیزیں شامل ہیں، ترغیب و تحریض، ڈرانا اور لالچ دینا۔ یہ دونوں چیزیں ہر جگہ ہیں، قرآن میں بھی یہ ترغیب و تحریض موجود ہے، کبھی جہنم سے ڈرایا جا رہا ہے کبھی جنت کے انعامات بتائے جا رہے ہیں۔ مشائخ کے ہاں بھی یہی دو چیزیں ہوتی ہیں، وہ کبھی لوگوں کو بشارتیں سنا رہے ہوتے ہیں خوشخبریاں سنا رہے ہوتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی دھمکا بھی رہے ہوتے ہیں کبھی ڈانٹ بھی رہے ہوتے ہیں۔ جو سمجھنے والے ہیں ان کو ڈانٹ میں فائدہ نظر آتا ہے۔
ایک عالم ہم سے بیعت ہیں، وہ مجھے فرماتے ہیں کہ جتنا مجھے آپ کے ڈانٹتے وقت فائدہ ہوتا ہے اتنا مجھے آپ کی دوسری چیزوں سے فائدہ نہیں ہوتا، آپ کے ڈانٹنے سے مجھے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
مشائخ کو اللہ جل شانہ نے یہ مقام دیا ہوتا ہے کہ وہ مخلوق اور اللہ کے درمیان واسطہ بنتے ہیں، ایک کڑی ہوتے ہیں۔ یعنی ایک طرف اللہ ہے دوسری طرف مخلوق ہے اور درمیان میں مشائخ حضرات ہیں۔ ان کا کام بڑا نازک ہوتا ہے اور بڑا اہم بھی ہوتا ہے، ان کو اس چیز کا احساس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شیخ کو یہ چیز عطا فرمائی ہے کہ جب وہ ڈانٹ رہے ہوتے ہیں تو زبان سے تو ڈانٹ رہے ہوتے ہیں مگر دل سے کھینچ رہے ہوتے ہیں، اس وجہ سے ان کی ڈانٹ سمجھنے والوں کے لیے دور کرنے والی نہیں ہوتی بلکہ وہ اور قریب ہوجاتے ہیں۔
حضرت مولانا مدنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ کتابوں میں لکھا ہے۔ حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرا بیان صبح سے کچھ دیر پہلے ختم ہوا تو میں تھوڑی دیر کے لئے لیٹ گیا۔ سحری کا وقت بالکل قریب تھا۔ میری ہلکی سی آنکھ لگ گئی، کچھ دیر بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی میرے پاؤں دبا رہا ہے۔ دبانے کا انداز عجیب تھا کہ اس سے آرام بھی مل رہا ہے اور نیند بھی بھاگی جا رہی ہے، عموماً ایسا نہیں ہوتا، جب دبانے سے آرام مل رہا ہو تو ساتھ ساتھ نیند آ رہی ہوتی ہے۔ میں نے آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ میرے پیر دبا رہے تھے۔ میں فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور عرض کی کہ حضرت میرے مردود ہونے میں اگر کوئی کسر باقی ہو تو مہربانی کر کے مجھے معاف کر دیں، آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ نماز کا وقت قریب ہے تو میں نے سوچا آپ کی نماز نہ رہ جائے، آپ کو اٹھا دوں۔
بہر حال میں یہ عرض کر رہا تھا کہ مشائخ جب ڈانٹ رہے ہوتے ہیں تو اس ڈانٹنے کے ساتھ ساتھ دل سے کھینچ رہے ہوتے ہیں، ان کے دل کی توجہ ہر اس آدمی کو حاصل ہوتی ہے جسے ڈانٹا جا رہا ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ڈانٹ میں ایک اپنائیت ہوتی ہے جس کو اس اپنائیت کے قابل سمجھا جاتا ہے اسی کو ڈانٹا جاتا ہے، جو اس اپنائیت کے قابل نہیں سمجھا جاتا اسے نہیں ڈانٹا جاتا۔ بعض لوگ خشک پتے کی طرح ہوتے ہیں، تھوڑی سی ہوا چلی اور بس وہ کٹ کے گر پڑے۔ اس لئے خشک پتوں کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ ڈانٹا انہی کو جاتا ہے جن کا تعلق مضبوط ہوتا ہے اور ان کو ڈانٹنے میں فائدہ ہوتا ہے۔
یہ سب باتیں نہ جاننے کی وجہ سے بعض لوگ اس مسئلے میں پریشان ہو جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اگر بیعت نہ کی ہوتی تو اچھا تھا کہ اس بے ادبی کے نقصان سے تو بچ جاتے۔ اس کا جواب میں نے تفصیل سے مثالوں سمیت عرض کر دیا ہے۔ لہٰذا آدمی کو بیعت کے ثمرات دیکھ کر ڈانٹ وغیرہ برداشت کرنے کا حوصلہ رکھنا چاہیے، کیونکہ ڈانٹ اسی کے لیے مفید چیز ہے۔
سوال نمبر3:
بیعت کے فوائد و ثمرات نظر بھی آ رہے ہوں شیخ سے فائدہ بھی مل رہا ہو مگر پھر بھی مکمل طور پہ دل مائل ہونے میں وقت لگ رہا ہے، ایسا کیوں ہے؟ جب سب کچھ سامنے ہے پھر بھی کیوں مکمل طور پر مائل نہیں ہو جاتے؟
جواب:
یہ بڑی سادگی کا سوال ہے، اس میں بہت سادگی ہے۔ کیونکہ یہ سوال کرنے والا دو بڑی چیزوں کو گول کر رہا ہے جن پہ پوری دنیا چل رہی ہے، ایک شیطان اور دوسرا نفس۔
لوگ سب کچھ جاننے سمجھنے کے با وجود اپنی اصلاح کرانے کے لئے اس وجہ سے تیار نہیں ہوتے کہ شیطان اور نفس ان کو آنے نہیں دیتے۔ شیطان اور نفس آپ کو کیوں اس طرف آنے دیں گے۔ نہ شیطان آنے دے گا نہ آپ کا نفس اس طرف مائل ہو گا، کیونکہ اس میں نفس ہی کی تو آزمائش ہو رہی ہے نفس ہی کو تو رگڑا جا رہا ہے۔ لہٰذا وہ اس کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہو گا۔
دوسری طرف یہ بات ہے کہ پانی کو اوپر چڑھانے کے لیے تو محنت کی ضرورت ہے مگر نیچے لانے کے لیے محنت کی ضرورت نہیں ہے، اسی طرح نفس کو برائیوں سے دور رکھنے اور اس کی اصلاح کے لئے تو محنت لگے گی، مگر برائیوں کی طرف جانے میں کوئی زور نہیں لگے گا۔ اپنی اصلاح کر لینے میں نفس کے اوپر بھی بوجھ ہے اور شیطان کے ساتھ تو اس میں پوری مخالفت ہے، لہٰذا یہ دونوں اس کام کی بھرپور مخالفت کریں گے، لہٰذا آپ کو سب کچھ سمجھ آ جانے کے با وجود بھی با قاعدہ اس طرف آنے میں مشکلات ہوں گی۔
اس وجہ سے اگر سب چیزیں صاف نظر آنے کے با وجود دل مائل نہیں ہو رہا تو دل کو زبردستی مائل کرنا چاہیے، دل خود سے مائل نہیں ہو گا اس کو مائل کرنا پڑتا ہے۔ خود سے تو یہ برائی کی طرف ہی جا سکتا ہے ہاں اچھائی کی طرف کوشش کرنی پڑتی ہے۔
قرآن میں ”قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا“ (الشمس: 9) فرمایا گیا ہے۔ اس میں لفظ ”زَکّٰی“ استعمال ہوا ہے یعنی کامیاب وہ ہو گا جو اپنا تزکیہ کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کامیابی کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ اور آگے فرمایا ”دَسّٰی“ یعنی نامراد ہو گا وہ شخص جو اسے گناہوں میں چھوڑ دے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خرابی کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں بس گناہوں میں چھوڑ دینا کافی ہے، جبکہ کامیابی کے لئے محنت کرنی پڑے گی، نفس کی صفائی کرنی پڑے گی، تزکیہ کرنا پڑے گا۔ برائی کے لئے محنت کی ضرورت نہیں ہے، اچھائی کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔
سوال نمبر4:
ایسا سننے میں آیا ہے کہ کھٹی چیزیں کھانے سے انسان کند ذہن ہوتا ہے۔ کیا یہ ٹھیک بات ہے؟
جواب:
یہ میرا شعبہ نہیں ہے بلکہ یہ حکیموں اور ڈاکٹروں کا شعبہ ہے۔ یہ سوال ان سے پوچھا جائے۔ ہم نے سارے سوالات کے جوابات دینے کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا۔ اب مجھ سے کوئی معاشیات کا سوال پوچھے کہ کس کاروبار میں نفع زیادہ ہے تو میں اس کو جواب نہیں دوں گا وہ تو ہمارا کام نہیں ہے۔
سوال نمبر5:
کوئی بھی عمل مسلسل 40 دن تک کرنے سے پختہ ہو جاتا ہے، مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ چار پانچ سال مسلسل کوئی عمل کرنے کے بعد بھی لوگ عمل کو چھوڑ دیتے ہیں، مثلاً کسی نے داڑھی رکھی اور پھر منڈوا لی۔
جواب:
یقیناً 40 دن تک کوئی عمل کرنے سے اس کا پختہ ہو جانا حدیث شریف سے ثابت ہے۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی شرم نہیں ہے کہ 40 دن تک مسلسل اگر کوئی نیک عمل کر لے تو وہ پختہ ہو جاتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو 40 دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز باجماعت پڑھے، اس کو دو پروانے مل جاتے ہیں ایک جہنم سے خلاصی کا دوسرا نفاق سے بری ہونے کا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو 40 دن تک روکے رکھا۔ ایک مہینے کے لئے بلایا تھا مگر دس دن مزید روکے رکھا اور 40 دن پورے کروا دیئے۔ یہ بات تو قرآن سے بھی ثابت ہے، حدیث شریف سے بھی ثابت ہے کہ کسی عمل کو 40 دن تک کرنے سے کچھ فرق ضرور پڑتا ہے۔
اب آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں کہ بعض لوگ 40 دن سے زیادہ عرصہ تک کوئی عمل کرنے کے بعد بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ جیسے آپ اچھائی کے لئے محنت کر رہے ہیں اسی طرح دوسری محنتیں بھی تو دنیا میں چل رہی ہیں۔ آپ دیکھیں کہ ایک مکان بننے میں کتنا سارا وقت لگ جاتا ہے، کئی دن، ہفتے اور بعض اوقات مہینے بھی لگ جاتے ہیں لیکن گرنے میں کتنا وقت لگتا ہے، ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت لگتا ہے، بلکہ سیکنڈز کے اندر سارا گھر گر سکتا ہے۔
اس لئے جو عمل چالیس دن لگا کر پختہ کیا گیا ہے اس کی حفاظت کرنا بھی آدمی کے ذمہ ہے، جیسے یہ عمل کچھ عرصہ میں پختہ ہوا ہے، اگر اس کی حفاظت نہ کی گئی تو یہ کچھ عرصہ میں کمزور بھی ہو سکتا ہے اور بالکل ختم بھی ہو سکتا ہے۔ اگر آدمی شیطان اور نفس سے اپنی مسلسل حفاظت نہ کرے تو پھر خراب ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔
اوپر جانے میں کافی محنت لگتی ہے، لیکن اگر بلندی سے گرے تو نیچے آنے میں بس چند لمحے ہی لگیں گے۔ جیسے میں سیڑھیوں پہ جا رہا ہوں، بیسویں سیڑھی تک پہنچتے ہوئے مجھے کچھ وقت تو لگے گا لیکن اگر میں بیسویں سیڑھی سے گر پڑوں تو زمین پہ آنے میں بس چند لمحے ہی لگیں گے۔ لہٰذا روحانیت کے معاملے میں بھی احتیاط سے چلیں، گریں نہیں، جو گرتا ہے اس کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے کہ اپنے اعمال سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لیکن جیسے دنیا میں انسان اپنے آپ کو گرنے سے بچاتا ہے، یہاں بھی اپنے آپ کو گرنے سے بچائے۔ انسان اپنی کوشش کا مکلف ہے اور کوشش بہرحال کرنی چاہیے چاہے کچھ بھی ہو۔
سوال نمبر6:
کیا کوئی خاتون اس مقام تک پہنچ سکتی ہے کہ اجازت، خلافت اور تربیت کا ذمہ لے سکے؟
جواب:
تصوف اور بیعت و طریقت سے بحیثیت مجموعی مردوں کے مقابلے میں خواتین کو اس لئے زیادہ فائدہ پہنچتا ہے کہ ان کی ابتدا سے ہی نیت خالص ہوتی ہے کیونکہ انہیں خلافتوں کے چکر میں نہیں پڑنا ہوتا انہیں اللہ پاک نے ان چیزوں سے بچایا ہوا ہے یہ ان کی ذمہ داری ہی نہیں ہے۔
ایک دفعہ ایک خاتون نے مجھ سے کہا کہ مرد کی شہادت مکمل ہے عورت کی شہادت مکمل کیوں نہیں، آدھی کیوں ہے۔ میں نے کہا: جن کی شہادت مکمل ہے وہ کب شہادت دیتے ہیں کہ تمہیں اپنی فکر پڑ گئی ہے کہ میری شہادت مکمل کیوں نہیں ہے۔ ہمیں تو ایسے مردوں کی ضرورت رہتی ہے جو وقت پر شہادت دیں، وہ تو شہادت دینے سے بھاگ جاتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ خلافت و اجازت ایک ذمہ داری ہے اور ذمہ داری کے لئے کچھ چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے پہلے اس کے لئے جو چیز ضروری ہے وہ یہ کہ اس ذمہ داری کے حامل کے اندر اتنی قوت ہو کہ وہ اپنے جذبات پہ قابو رکھ سکے اور کوئی فیصلہ جذبات کی رو میں بہہ کر نہ کرے۔ عورتوں میں یہ چیز بہت کم ہوتی ہے۔ وہ اکثر و بیشتر جذبات سے مغلوب ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کو ناقص العقل کہا جاتا ہے کیونکہ جو جذبات سے مغلوب ہو گا وہ ناقص العقل ہو گا اس کی عقل پہ اثر پڑے گا۔ مرد بھی اگر جذبات میں فیصلہ کرے گا تو ناقص العقل ہو جائے گا۔ عورتوں میں اس کا تناسب زیادہ ہوتی ہے، اس لئے اکثر پر کل کا حکم لگا دیا گیا ہے۔
جرمنی میں مجھ سے خواتین نے پوچھا کہ مرد عورت کو طلاق دے سکتا ہے عورت مرد کو طلاق نہیں دے سکتی، ایساکیوں؟
میں نے کہا: مجھے بتائیں کہ آپ لوگوں کے تجربہ کے مطابق عورت زیادہ جذباتی ہے یا مرد۔ جواب ملا کہ عورت زیادہ جذباتی ہے۔
میں نے کہا کہ کیا آپ کو کوئی ایسا واقعہ یاد ہے کہ آپ نے کوئی کام جذبات میں کیا ہو اور فوراً اس پہ پچھتائی ہوں۔ کہنے لگیں: جی ہاں دن میں کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے۔
میں نے کہا: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت زیادہ جذباتی مخلوق ہے، کیا کسی جذباتی مخلوق کے ہاتھ میں ایسی تلوار پکڑا نی چاہئے جو آن کی آن میں دو خاندانوں کو جدا کر دے۔ کہنے لگیں کہ ایسا تو نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے کہا: بس اسلام بھی یہی کر رہا ہے کہ یہ ذمہ داری عورت پہ نہیں ڈال رہا کیونکہ وہ اس ذمہ داری کی اہل نہیں ہے۔ ہاں اگر عورت پہ ظلم ہو رہا ہو تو اس کا حل ہے کہ وہ خلع لے لے۔ لیکن خلع میں وقت ملتا ہے، معاملات آپس میں طے کرنے کے لئے کچھ وقت دیا جاتا ہے حکم مقرر کئے جاتے ہیں، ایک عورت کی طرف سے ایک مرد کی طرف سے، پہلے وہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پھر بھی اگر صلح صفائی نہ ہوسکے تو پھر عدالت فیصلہ دے دیتی ہے۔
مشاہدہ ہے کہ زیادہ تر طلاق کا مطالبہ عورت کی طرف سے ہوتا ہے اور طلاق کے بعد سب سے زیادہ پشیمان بھی عورت پہ ہوتی ہے، روتی بھی وہی ہے۔ وہ اپنی جذباتیت کی وجہ سے پریشانی اٹھاتی ہے۔ چونکہ عورت میں جذباتیت زیادہ ہے اور اجازت و خلافت اور تربیت کے معاملات میں جذبات سے بہت دور رہنا ہوتاہے۔ اس میں عواقب پہ نظر رکھنا ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مرد شیخ کے ساتھ مرد تو آمنے سامنے مل لیں گے، مردوں کے لئے تو کوئی مشکل نہیں، اگر کسی عورت کو اصلاح کرانی ہو گی تو وہ بھی فون پہ بات کر لے گی یا پردے میں بیٹھ کے بات کر لے گی۔ لیکن اگر عورت خلیفہ ہوئی تو اس کے ساتھ مردوں سے میل جول میں مشکلات پیش آئیں گی، اور سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
ان وجوہات کی بنا پر عورت اس ذمہ داری کی اہل نہیں ہے۔ یہ تو عقلی دلائل ہیں اور نقلی دلیل یہ ہے کہ کبھی کسی عورت کو نبیہ نہیں بنایا گیا، خلافت نبوت کا پرتو ہے، خلیفہ اور شیخ کو نبیوں والا کام یعنی تبلیغ و ارشاد اور دعوت و اصلاح ہی کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا اگر عورت نبیہ نہیں ہے تو پھر خلیفہ بھی نہیں ہو گی۔
ان وجوہات کی بنا پر عورت کو خلیفہ نہیں بنایا جاتا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ بعض اوقات بہت سوچ بچار کے بعد اگر فائدہ نقصان سے زیادہ نظر آ رہا ہو تو ایسی صورت میں عورت کو محدود ذمے داری دی جا سکتی ہے، جیسے ہم نے بھی بعض خواتین کو تربیت کی کچھ محدود ذمہ داریاں تو دی ہیں لیکن ان کو ہم نے خلیفہ نہیں بنایا۔ ، لیکن خلیفہ نہیں بنایا۔ عورتوں کے کام میں یہ بہت اہم اور ضروری چیز ہے کہ نگرانی مردوں کی ہو۔ کام عورتوں کا ہو گا لیکن نگرانی مردوں کی ہو۔ اور یہ تجویز عورتوں کی طرف سے ہی ہمارے پاس آئی ہے کہ نگرانی کی ذمہ داری مر د لے لے، ورنہ اگر عورت کسی چیز کی ذمہ داری اٹھاتی ہے تو دوسری عورتیں آسانی سے ان کی بات نہیں مانتیں، پریشانیاں شروع ہو جاتی ہیں، لڑائی جھگڑے بد گمانیاں اور اس قسم کی بہت ساری چیزیں ہو جاتی ہیں۔ اس سب سے بچنے کے لئے عورتوں کے کاموں کی نگرانی بھی مردوں کو کرنی پڑتی ہے، بے شک باہر سے کریں۔ کم از کم اتنا سوچنے کا موقع مرد کو ملتا رہے کہ کام ٹھیک ہو رہا ہے یا غلط ہو رہا ہے، اس کی ذمہ داری ایک مرد کو اٹھانی پڑتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ عورت خلیفہ نہیں بن سکتی، ہاں اسے تربیت کی کچھ محدود ذمہ داری ضرور دی جا سکتی ہے لیکن اس کے لئے بھی شرط یہ ہے کہ اس کا نگران مرد ہو۔
سوال نمبر7:
شیخ کی صحبت اور بیعت سے ایمان کی سلامتی نصیب رہتی ہے، شیخ بھی حضور ﷺ کی مثل ہے مگر اکثر کتب میں صحابہ کا مرتد ہونا لکھا ہوا ہے، اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے، کیونکہ حضور ﷺ کی صحبت تو سب سے زیادہ افضل تھی؟
جواب:
بڑا اچھا سوال ہے، اس لحاظ سے کہ اس سے ایک چیز ثابت ہو رہی ہے۔ واقعتاً شیخ کی صحبت اور بیعت سے ایمان کی سلامتی نصیب رہتی ہے، لیکن یہ اکثریتی کلیہ ہے۔ ہر چیز میں استثنائیات ہمیشہ ہوتی ہیں۔ بعض چیزیں بعض قوانین سے مستثنیٰ ہوتی ہیں۔ استثنائیات پر عام حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
عمومی طور پر شیخ کی صحبت اور بیعت سے ایمان کی سلامتی نصیب ہو جاتی ہے لیکن کبھی کبھی انسان کا نفس اور باطن اتنا بد ہو جاتا ہے کسی وجہ سے کوئی ایسا اندرونی جذبہ اس پہ اتنا غالب آ جاتا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے شیخ کے فیض سے بھی محروم ہو سکتا ہے، جیسے یہود پر آ گیا۔ یہ سارے پیغمبروں کے ساتھ رہے ہیں، اور یہ پیغمبروں کی ہی اولاد ہیں۔ لیکن ان پر حسد، بغض اور تکبر کا جذبہ ایسا غالب آ یا کہ وہ ہدایت سے محروم ہو گئے، کسی پر قبیلے کی عصبیت غالب آ گئی کسی پر علم کا غرہ آ گیا، جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو بہتر سمجھا، اپنے پہ نظر پڑ گئی اور خدا سے نظر ہٹ گئی لہٰذا ہدایت سے محروم ہو گئے۔ صحابہ میں سے بھی اگر کوئی ہدایت سے محروم ہو ا اور مرتد ہوا ہے تو ان میں بھی وجوہات یہی تھیں۔ اللہ پاک نے صحابہ کے ذریعے سے مختلف چیزیں دکھائیں اور تمام معاملات واضح فرمائے۔ اللہ پاک ان کو بالکل پاک و صاف بھی رکھ سکتا تھا جیسے کہ صحابہ کو محفوظ رکھا ہے لیکن احکام کا عملی نفاذ دکھانا اور سمجھانا بھی تھا، لہٰذا بعض لوگوں سے ایسا ہو گیا کہ وہ عبرت کا نمونہ بن گئے۔ بعض دفعہ عبرت کا نمونہ بنایا جاتا ہے تاکہ باقی لوگوں کو فائدہ ہو۔ ہمیں ان کی پیروی نہیں کرنی چاہیے جو عبرت کا نمونہ بنے ہیں۔
مشائخ کی صحبت میں بھی عمومی طور پہ تو فائدہ ہوتا ہے لیکن اگر کسی کی بد بختی لکھی ہو تو اس کو کوئی ختم نہیں کر سکتا، کبھی کبھار بد بختی مصیبت بن جاتی ہے۔
ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ایک صاحب بیعت ہوئے تھے۔ یہ بہت عبرت ناک واقعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ تو یہ صاحب بیعت ہوئے تھے اور حضرت کی تربیت میں چل رہے تھے، پتا نہیں کس کے دھوکے میں آ گئے کس کی باتوں میں آ گئے کسی نے کیا بتایا وَ اللہ اَعْلَم ساری تفصیلات معلوم نہیں ہیں لیکن اس نے ایک دن حضرت کو خط لکھا کہ حضرت مجھے اپنی بیعت سے نکال دیں۔ حضرت نے فرمایا: اچھا ٹھیک ہے نکال دیا۔
اس تعلق میں مرید اصل ہوتا ہے، پیر کا نمبر تو اس کے بعد آتا ہے۔ مرید ارادہ کرنے والے کو کہتے ہیں، ارادہ مرید کا ہوتا ہے پیر اس کو تسلیم کرتا ہے۔ اس لئے جب اس نے کہہ دیا کہ مجھے اپنی بیعت سے نکال دیں تو حضرت نے فرمایا ٹھیک ہے نکال دیا۔
بعض دفعہ شیطان انسان کے اوپر سوار ہو جاتا ہے۔اس کی جو شامت آئی تو حضرت کو دوسرا خط لکھا کہ حضرت مجھے اپنی دعا سے بھی نکال دیں۔ اب یہ تو کوئی بد بخت بھی نہیں کر سکتا کہ کسی مسلمان کی دعا سے ہی نکل جائے۔ چلو بیعت سے نکل گئے ٹھیک تھا، دعا سے نکالنے کی بھی بھلا درخواست کی جاتی ہے، دعا کے لئے تو کافر سے بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس میں کیا تُک ہے کہ اپنے آپ کو ایک خیر سے محروم کر دیا جائے۔ لیکن بد بختی بد بختی ہوتی ہے، میرے خیال میں شاید یہ پہلی بے ادبی کی سزا تھی۔ بہرحال حضرت نے فرمایا کہ اچھا ٹھیک ہے دعا سے بھی نکال دیا۔
اس کے بعد 12 سال تک اس کی طرف سے خاموشی رہی۔ کچھ پتا نہیں کدھر ہے، کیا کر رہا ہے زندہ بھی ہے یا نہیں۔ 12 سال کے بعد اس کا ایک خط آیا جس میں لکھا تھا کہ میں یہ خط جیل سے لکھ رہا ہوں، ہمارا سارا خاندان لڑائیوں میں تباہ ہو گیا ہے، ساری جائیداد بک گئی ہے، اکثر رشتے دار مارے گئے ہیں، جو باقی ہیں ان میں زیادہ تر جیلوں میں ہیں، میں بھی جیل سے لکھ رہا ہوں، آپ مجھے معاف کر دیں، آپ کی گستاخی مجھے اس مقام پر لے گئی ہے۔
حضرت نے فرمایا: کاش ان کو کوئی سمجھا دیتا کہ اس نے اپنے ساتھ کیا کر دیا، ہم تو کچھ بھی نہیں ہیں لیکن جن کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں وہ بڑے لوگ ہیں، اللہ پاک ان کی لاج رکھتے ہیں۔
یہ بد بختی ہوتی ہے۔ اب وہ شخص عبرت کا نمونہ بن گیا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی ہوا۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے دو طالب علم دعا کروانے کے لئے آئے۔ حضرت نے دونوں کے لئے دعا کر دی۔ یہ اللہ پاک کا فیصلہ ہوتا ہے کہ کس کے لئے قبول کرے کس کے لئے نہ کرے، اس کی اپنی حکمتیں ہوتی ہیں۔ ہوا یوں کہ ایک کا کام ہو گیا دوسرے کا نہیں ہوا۔ جس کا کام نہیں ہوا، اس نے حضرت کے پاس آ کے کہا کہ حضرت آپ نے میرے لئے دعا نہیں کی صرف اس کے لئے کی۔ حضرت نے کہا بیٹا میں نے آپ کے لئے بھی دعا کی تھی۔ حضرت بہت ہی زیادہ شفیق تھے، اتنے کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ خیر حضرت نے کہا بیٹا میں نے آپ کے لئے دعا کی تھی۔ اس نے کہا حضرت آپ نے میرے لئے دعا نہیں کی۔ حضرت نے پھر فرمایا کہ بیٹا میں نے آپ کے لئے بھی دعا کی تھی اب اللہ پاک کی مرضی ہے وہ جو چاہے کرے۔
جب تین چار دفعہ اس نے ایسا کہہ دیا تو حضرت خاموش ہو گئے، وہ مسلسل بات کرتا رہا مگر حضرت خاموش تھے۔ جب کافی دیر تک حضرت کچھ نہیں بولے تو اس کو احساس ہوا کہ حضرت نے بات محسوس کر لی ہے، معاملہ گڑبڑ ہو گیا ہے۔ اب اس نے معافی مانگنی شروع کی اور کہا: حضرت معذرت چاہتا ہوں میں نے آپ کے دل کو تکلیف پہنچائی۔ حضرت اس پر بھی کچھ نہیں بولے، خاموش رہے۔ اس کے بعد اس نے منت سماجت کرنی شروع کی حضرت اس پر بھی کچھ نہیں بولے حتیٰ کہ وہ با قاعدہ رو پڑا، حضرت پھر بھی خاموش رہے، جب اس نے کافی دیر تک اصرار کیا تو انہوں نے کہا: بیٹا اب سب کچھ ختم ہو گیا ہے اب کچھ نہیں ہو سکتا، بس جو ہونا تھا وہ ہو گیا ہے اب میں کیا کر سکتا ہوں۔
یہ بھی عبرت کا نمونہ ہے کہ وہ اتنے بڑے در سے محروم ہو گیا، جب خود شیخ فرما رہے ہیں کہ میں نے تمہارے لئے دعا کی اور یہ کہتا ہے تم نے میرے لئے دعا نہیں کی تو گویا شیخ پر جھوٹ بولنے کا الزام لگا رہا ہے۔ اب وہ تو اس کو معمولی بات سمجھ رہا تھا لیکن اللہ کے نزدیک یہ بات بہت بڑی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات مقلب القلوب ہے، اللہ تعالیٰ کسی کا دل بدل دے تو اس کے لئے کیا مشکل ہے۔ فیصلہ تو ادھر سے آتا ہے۔ بہر حال بعض لوگ عبرت کا نمونہ بن جاتے ہیں، ہمیں ان کے حالات اور انجام سے عبرت اور سبق حاصل کرنا چاہیے اور اپنی حفاظت کرنی چاہیے۔
سوال نمبر8:
سوال یہ ہے کہ عوام الناس کو حکم ہے کہ:
﴿كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ (التوبۃ: 119)
ترجمہ: ”سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو۔“
جب کہ خواص اور سچوں کے لئے حکم ہے کہ بری صحبت سے بچو، تو دونوں کیا کریں؟
جواب:
میرے خیال میں دونوں کو اپنے اپنے لحاظ سے حکم دیا گیا ہے۔ اس میں یہ تخصیص نہیں ہے کہ پہلا حکم عام لوگوں کے لئے ہی ہے اور دوسرا خواص کے لئے ہی ہے۔ بلکہ دونوں حکم عوام و خواص سب کے لئے ہیں۔ بری صحبت سے سب کو بچنا چاہیے، اسی طرح سچے لوگوں کے ساتھ بھی سب کو رہنا چاہیے۔
حدیث شریف میں ہے کہ بری صحبت سے خلوت اچھی ہے اور اچھی صحبت خلوت سے اچھی ہے۔ یہ حکم ہر ایک کے لئے عام ہے، لہٰذا بری صحبت سے بچنا اور اچھی صحبت کو اختیار کرنا، یعنی اپنے آپ کو نقصان سے بچانا اور فائدے کو حاصل کرنا یہ تو ہر ایک کے لئے ہے۔ اسی طرح سچوں کے ساتھ رہنا یہ حکم بھی سب کے لئے ہے، جو جس کے لئے صادق کا درجہ رکھتے ہیں اسے ان کے ساتھ ہونا چاہیے۔
سوال نمبر9:
حضرت نیک اور سچے لوگوں کے لئے اس کا حل کیا ہے، کہ ان کی صحبت حاصل کرنے کے لئے کوئی برا بندہ ان کے پاس آتا ہے، اس برے بندے کے لئے تو یہ اچھی صحبت ہے، لیکن نیک آدمی کے لئے بری صحبت ہو جائے گی، وہ کیسے اس کی صحبت سے بچیں۔
جواب:
برے کی صحبت سے بچنے کا مطلب یہ ہے کہ ان بروں کی صحبت سے بچو جو اپنی برائی پر ہر حال میں قائم رہنا چاہتے ہیں، یہ ان بروں کے بارے میں نہیں جو اپنی برائی ختم کرنا چاہتے ہیں اور اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ جو برے اپنی اصلاح کے لئے آتے ہیں وہ تو آپ کے لئے خام مال ہے وہ تو آپ کے لئے کام کا میدان ہے ان سے دور نہیں ہونا۔ ہاں جو برے لوگ برائی کے اوپر جمے ہوئے ہیں ان سے بچنا لازم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تو اصلاح کے طلب گار ہی نہیں ہیں۔ ایسی صحبت سے تو ہر صورت میں بچنا چاہیے۔ البتہ ایک سوال پھر بھی رہ جاتا ہے کہ کسی کے پاس برے لوگ اپنی اصلاح کے لئے آتے ہوں، ان کو دھتکارنا تو نہیں بلکہ ان کی اصلاح کرنی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی حفاظت کا بندوبست بھی رکھنا ہے، جیسے ڈاکٹر لوگ موذی بیماریوں کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا بندوبست کرتے ہیں۔ ماسک وغیرہ استعمال کرتے ہیں، علاج معالجہ کے بعد فوراً صابن سے ہاتھ دھونا اور پھر بعد میں تولیہ سے اس کو صاف کرنا وغیرہ، یہ سب حفاظتی تدابیر کرتے ہیں۔ اسی طرح روحانی علاج میں بھی اپنے لئے کچھ حفاظتی تدابیر ہوتی ہیں۔ جب بھی کچھ ایسے لوگ آ جائیں جن کے دل میں مسائل ہیں، وہ آپ کے پاس آ کر کچھ نہ بھی کرے صرف آپ کے سامنے بیٹھ ہی جائے تو آپ کا دل متاثر ہونا شروع ہو جائے گا آپ کو نقصان ہونا شروع ہو جائے گا اور اس کو فائدہ ہونا شروع ہو جائے گا۔ گرم اور سرد چیز یں ایک دوسرے سے اثر لے رہی ہیں، سرد چیز گرم سے اثر لے کر تھوڑی تھوڑی گرم ہو رہی ہے اور گرم چیز سرد سے اثر لے کر تھوڑی تھوڑی ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ یہی معاملہ اچھے اور برے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اچھے اور برے قریب بیٹھ جائیں تو آہستہ آہستہ برا اچھے سے اثر لیتا ہے اور اچھا ہونے لگتا ہے اور اچھا برے سے اثر لینے لگتا ہے اور تھوڑا تھوڑا برا ہونے لگتا ہے۔ یہ محسوس نہیں ہوتا لیکن ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کے لئے پھر مشائخ یہ کرتے ہیں کہ اپنی خلوت کو ایسی چیزوں سے مزین کرتے ہیں کہ جو نقصان ہوا ہے وہ دور ہو جائے۔
حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کا کام چونکہ تبلیغ کا تھا، اور اس کام میں تو ملنا ہی ان لوگوں سے ہوتا ہے جو دین سے دور ہوں، اور انہیں دین کے قریب لانا ہوتا ہے۔ حضرت کا معمول تھا کہ وہ فرماتے تھے کہ میں کہیں گشت کے لئے جاتا ہوں تو صلحا کی جماعت کے ساتھ جاتا ہوں اس کے باوجود لوگوں کے ساتھ ملنے سے میرا دل متاثر ہو جاتا ہے پھر میں یوں کرتا ہوں کہ رائے پور شریف جاتا ہوں یا سہارنپور شریف جاتا ہوں یا پھر مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔ رائے پور شریف اور سہارنپور شریف میں خانقاہیں تھیں، خانقاہوں میں اچھی صحبت تھی اور اگر وہ میسر نہ ہوسکے تو پھر مسجد میں اعتکاف کرتے تھے تاکہ کم از کم خلوت تو ہو جائے اور خلوت میں ایسے اعمال کئے جائیں کہ برا اثر دور ہو جائے۔ اس طرح کی احتیاط سے آدمی بروں کی صحبت کے منفی اثرات سے بچ سکتا ہے۔
سوال نمبر11:
حضرت ہم یہ بات سنتے ہیں کہ تعجیل نہیں کرنی چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ یہ حکم بھی آتا ہے:
﴿فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِؕ﴾ (الذاريات: 50)
ترجمہ: ”لہذا دوڑو اللہ کی طرف“۔
اور نماز کے افضل وقت میں پڑھنے کا حکم آتا ہے۔ اس سے ذرا تعارض سامنے آتا ہے، کہ جلدی بھی نہیں کرنی اور دوڑنا بھی ہے، جلدی بھی نہیں کرنی اور اول وقت میں نماز پڑھنی بھی ہے۔ اس بارے میں وضاحت فرما دیجیے کہ جلدی کہاں پر کرنی ہے اور اس سے بچنا کہاں پر ہے۔
جواب:
دونوں حکم الگ الگ چیز کے بارے میں ہیں۔ تعجیل سے بچنا الگ موقع کے بارے میں ہے اور جلدی کرنے کا حکم الگ موقع کے بارے میں ہے۔ تعجیل سے بچنے سے مراد یہ ہے کہ نتیجے میں تعجیل نہ کرو۔ یعنی آپ جلدی نتیجہ چاہیں کہ میں جلدی سے بزرگ بن جاؤں ایسی تعجیل سے بچنے کا حکم ہے۔ اور دوسری جگہ عمل کی بات ہے، کہ جب عمل کرنے کا وقت آئے تو جتنا جلدی ممکن ہو عمل کر لو، اس میں دیر نہ کرو۔ جب کوئی نیک کام کا موقع ہو تو دیر نہ کرو ایسا نہ ہو کہ پھر خیال نہ رہے اور وہ عمل رہ نہ جائے۔ عمل میں جلدی کرنا مستحب لیکن نتیجے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ نتیجہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اگر خدانخواستہ تم نتیجے میں تعجیل کرو گے تو اللہ پر بد گمانی ہو جائے گی کہ میں تو عمل کر رہا ہوں اور اللہ پاک نتیجہ نہیں بھیج رہے۔ یہ تو اللہ پر بد گمانی ہے جس کا بہت بڑا نقصان ہے اور یہ بہت بڑی بغاوت ہے۔
سوال نمبر12:
بعض اوقات نیک اعمال کرنے کو دل بالکل تیار نہیں ہوتا، اس کا کیا کریں۔ فرائض اور حلال و حرام وغیرہ میں تو کوئی رعایت نہیں ہوتی، لیکن مستحبات اور افضل اعمال پر بعض مرتبہ دل آمادہ نہیں ہوتا۔
جواب:
یہ بڑا اچھا سوال ہے کہ بعض اعمال پر انسان بالکل نہیں تیار ہوتا جو مستحب اعمال ہیں۔ فرائض واجبات تو کرتے ہیں لیکن جو مستحب اعمال کرنے چاہئیں جن کی بڑی فضیلتیں ہیں ان کی طرف دل آسانی سے مائل نہیں ہوتا۔
در اصل ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جو عوام میں تو بہت زیادہ ہے، تھوڑی تھوڑی خواص میں بھی پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر آدمی چاہتا ہے کہ میں نیک بن جاؤں لیکن مجھے کچھ کرنا نہ پڑے۔ اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں مال دار بن جاؤں لیکن مجھے کچھ نہ کرنا پڑے تو یہ شیخ چلی والی باتیں ہوں گی۔ شیخ چلی ذہن میں منصوبے بناتا تھا لیکن عملی طور پہ کچھ نہیں کرتا تھا، منصوبہ بڑا لمبا ہوتا تھا جبکہ عمل کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ انسان حاصل تو بہت کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے کچھ کرنا نہیں چاہتا۔ آدمی کہتا ہے، سب خود بخود ہو جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اللہ جل شانہ چاہتے تو سارے کفار کو آن کی آن میں مسلمان بنا دیتے اس کے لئے کیا مشکل ہے لیکن اللہ پاک نے سب کو اسباب کی دنیا میں چھوڑا ہوا ہے، خیر کے اسباب بھی بنا دیئے شر کے بھی بنا دیئے، خیر کے بارے میں بھی علم دے دیا شر کے بارے میں بھی دے دیا، خیر کے ارادے بھی دے دیئے شر کے بھی دے دئیے۔ کوئی خیر اختیار کر رہا ہے کوئی شر اختیار کر رہا ہے اسی کے مطابق پھر فیصلہ ہوتا ہے۔
جب سب چیزوں کا علم ہے، اپنے اندر قوت بھی ہے، اس قوت کے ذریعے جو کرنا چاہیں کیا بھی جا سکتا ہے تو پھر خود بخود ہونے کا تصور نہ کیا جائے، بلکہ اس کے لئے جتنی کوشش آپ کریں گے اتنا ہی اللہ تعالیٰ آپ کے لئے راستے کھولے گا۔
﴿ وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ﴾ (العنكبوت: 69)
ترجمہ: ” اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انھیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے۔“
جو جتنی محنت کرتا ہے اس پہ اتنے رستے کھلتے ہیں۔ اگر کسی کے لئے راستے نہیں کھل رہے تو اس کا مطلب ہے ہماری طلب اور محنت میں کمی ہے۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ اس موقع پر اکثر ایک شعر ذکر فرمایا کرتے تھے ؎
ان کے الطاف شہیدی تو ہیں مائل سب پر تجھ سے کیا بیر تھا اگر تو کسی قابل ہوتا تجھ سے کوئی بیر تھوڑی ہے۔ اللہ پاک ناانصافی نہیں کرتا۔ تم اپنا کام کرو، دیکھو اللہ پاک دیتے ہیں یا نہیں دیتے۔ اللہ جل شانہ ضرور دیتے ہیں لیکن اللہ پاک سے لینے کے طریقے ہیں، ان طریقوں کو انسان اختیار کرے جن میں ایک طریقہ صحبت صالحین ہے، دوسرا ذکر اللہ کی کثرت ہے، تیسرا موت کی یاد ہے۔ چوتھا ہے اللہ پاک سے زیادہ مانگنا۔ یہ چار طریقے ہیں ان چار طریقوں کو استعمال کر لیں ان شاء اللہ رستہ ملے گا۔
سوال نمبر13:
اپنے معمولات وغیرہ پورے کرنے کے بعد کون سا ذکر کرنا چاہیے، اسم ذات کے ذکر میں زیادہ فائدہ ہے یا دوسرے اذکار زیادہ مفید ہیں، کیا بعض ایسے اذکار بھی کرسکتا ہے جو شیخ نے تو نہ بتائے ہوں لیکن سالک کو ان کے ذریعے استحضار پیدا ہوتا ہو اور وہ اپنے اندر زیادہ تبدیلی محسوس کرتا ہو۔
جواب:
اگر شیخ نے ان کو آزاد کر دیا ہے یعنی ان کی تکمیل ہو گئی ہے تو پھر تو شرح صدر کے مطابق جو بھی وہ اپنے لئے طے کرے گا وہی بہتر ہو گا، لیکن اگر ابھی و زیر تربیت ہے تو اس صورت میں جو شیخ نے بتایا ہو گا وہی اس کے لئے زیادہ مفید ہے چاہے اس نے تیسرا کلمہ ہی بتایا ہو۔ اس کی اصلاح اسی میں ہو گی۔
اگر تیسرا کلمہ اور اسم ذات دونوں بتائے ہوں تو جتنا بتایا ہے اتنا کر لے اس کے علاوہ اگر وقت بچے اور وہ مزید اذکار کرنا چاہے تو اور شیخ نے اضافی ذکر کرنے کی اجازت دی ہو تو کر لے، اگر اجازت نہ دی ہو تو پھر نہ کرے۔ اس لئے کہ اصلاحی ذکر کے ساتھ قویٰ کے تعلقات ہیں، اس کا جسم، اعضا اور اعصاب پر اثر پڑتا ہے، لہٰذا یہ ذکر اپنے طور پر نہیں کرنا چاہیے، جتنا شیخ بتائے اس سے زیادہ نہ کرے اور کم بھی نہ کرے، ہاں درود شریف تسبیحات استغفار وغیرہ پڑھ سکتا ہے۔ اس کی مثال دوائی کی طرح ہے جیسے دوائی کی ذمہ داری ڈاکٹر کی ہوتی ہے مریض کی نہیں ہوتی، البتہ پھل وغیرہ مطابق کھا سکتا ہے اور مفید چیزیں بھی کھا سکتا ہے لیکن دوائی کے معاملے میں اپنے ڈاکٹر کو مطلع کرنا ضروری ہوتا ہے، اگر ایسی کوئی بات ہے تو اپنے شیخ اپنے مربی سے پوچھ لے وہ اس کو بتا دے گا کہ کتنا ذکر کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ