اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
میں جس وقت ذکر کرتا ہوں تو آپ کا خیال ذہن میں لے آتا ہوں اور یوں تصور کرتا ہوں کہ آپ کے سامنے بیٹھا ہوں، اس طرح میری توجہ برابر رہتی ہے اور ذکر سے مجھے فائدہ پہنچاتا ہے۔ کیا میں یہ صحیح کرتا ہوں؟
جواب:
مشائخ کے ہاں پہلے یہ طریقہ استعمال کیا جاتا تھا۔ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اس کے قائل ہیں۔ اسے ”تصورِ شیخ“ کہتے ہیں، ”تصور شیخ“ کا مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی شیخ کی مجلس میں بیٹھا ہوتا ہے تو زیادہ بہتر توجہ حاصل ہوتی ہے اور وہ بہت اچھے طریقے سے اعمال کرتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شیخ کے قریب کھڑا ہو کر جماعت میں نماز پڑھ رہا ہو تو اس کا شیخ کی طرف دھیان تو نہیں ہو گا لیکن اس کی نماز زیادہ کامل ہو گی کیونکہ وہ سمجھ رہا ہو گا کہ میں اپنے شیخ کے پاس کھڑا ہوں۔ اس کیفیت کی وجہ سے اس کی نماز زیادہ اچھی ہو گی۔ اگر وہ تلاوت کر رہا ہو گا یا دوسرے نیکی کے کام کر رہا ہو گا ان میں زیادہ للّٰہیت پائی جائے گی۔ شیخ کے پاس حقیقت میں موجود ہونے کا ایک اثر ہے، اس اثر کو تصور کے ذریعے سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جیسے حدیث میں آتا ہے:
”اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَانَّکَ تَرَاہُ وَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ“ (صحیح بخاری: 15)
ترجمہ: ”یہ کہ تو اللہ کی عبادت ایسے کرے گویا کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا، پس بے شک وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے“۔
اس میں بھی تصور اور توجہ ہی کا ذکر ہے کہ آدمی یہ تصور کر لے جیسے وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ در حقیقت اللہ کو کوئی دیکھ تو نہیں سکتا لیکن اگر تصور کرے کہ میں دیکھ رہا ہوں تو اس کا فائدہ ہوتا ہے، اس کو کیفیتِ احسان کہتے ہیں۔ اس پہ بہت زور دیا گیا ہے۔
اسی طرح اگر ہم شیخ کے ساتھ حقیقت میں موجود نہ ہوں لیکن شیخ کے تصور کے ساتھ ہوں تو اس کا بھی فائدہ ہوتا ہے لیکن آج کل کا دور ایسے فتنہ کا دور ہے کہ اچھی چیزوں کا بھی بعض دفعہ نقصان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے آج کے دور میں ”تصورِ شیخ“ سے منع کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ تصور اتنا پختہ ہو جاتا ہے کہ بندہ واقعی سمجھنے لگتا ہے جیسے میں شیخ کے ساتھ بیٹھا ہوں یہاں تک کہ بعض دفعہ ندائے غیب کا مسئلہ ہو جاتا ہے اور ندائے غیب ممنوع ہے، اس سے اعتقاد میں خلل پڑ جاتا ہے۔ اس نقصان کی وجہ سے اب تصور شیخ سے منع کیا جاتا ہے۔ اگر خود بخود کسی کو تصور آ جائے کہ میں شیخ کے ساتھ بیٹھا ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن از خود خیال لانا نہیں چاہیے، اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پہلے ایسا کیا جاتا تھا اور کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا لیکن آج کل کا دور الگ طرح کا ہے، اب ایسا تصور نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر خود بخود آ جائے تو ہم منع نہیں کرتے کیونکہ اس کے ذریعے سے واقعی فائدہ ہوتا ہے۔ اگر اللہ پاک اپنی طرف سے لے آتا ہے تو ٹھیک ہے اللہ پاک اس کو سنبھال بھی لے گا۔ ہاں اگر سالک خود بخود لاتا ہے تو پھر اس کا ذمہ دار بھی وہی ہو گا۔
ہمارے شیخ کا معمول تھا کہ جو لوگ اس تصور کو خود لاتے تھے حضرت انہیں منع فرماتے تھے اور جن کو خود خیال آجاتا تھا انہیں منع نہیں فرماتے تھے۔ ایک بار میں نے خود پوچھا تھا کہ حضرت مجھے آپ کا خیال خود بخود آ جاتا ہے۔ فرمایا کوئی بات نہیں مبارک ہو یہ تو محبت کی وجہ سے ہے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت معافی چاہتا ہوں کہ میں نے آپ کو تصاویر بھیجیں، در اصل یہ میرے آباء و اجداد کی نشانیاں ہیں جو ہمارے پاس مہروں کی صورت میں موجود ہیں، یہ تصاویر بہت پرانے دور کی ہیں تقریباً چھ سات سو سال پرانی ہیں، جو کہ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہیں اور کافی اچھی حالت میں ہیں اس لئے میرا دل کر رہا تھا کہ آپ کو دکھاؤں۔
جواب:
چونکہ اس بات کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا اس کا جواب موخر کیا جاتا ہے۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے کہ اگر معمولات کے لئے کوئی ایک خاص وقت مقرر کر لوں تو بہتر ہے یا پورے دن میں جب بھی وقت ملے کر لیا کروں۔ کیونکہ میری بیٹی چھوٹی ہے، اس کی وجہ سے روزانہ ایک وقت پابندی کرنا مشکل ہوتا ہے۔
جواب:
خواتین کے ساتھ اس قسم کے مسائل پیش آتے ہیں بالخصوص جب ان کی چھوٹی اولاد ہو تب اس قسم کے مسائل زیادہ ہوتے ہیں۔ آپ دو اصول ذہن میں رکھیں اور ان پہ عمل کریں تو آپ کو فیصلہ کرنے میں مشکل نہیں ہو گی۔
کسی منزل تک پہنچنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ منزل تک پہنچنے کے لئے جو راستہ مقرر ہے اس پر مستقل مزاجی کے ساتھ چلتے جائیں، رستے میں کہیں بھٹکیں نہ اور واپس بھی نہ مڑیں تو یہ راستہ بڑی جلدی طے ہو جاتا ہے اور انسان منزل تک نسبتاً جلدی پہنچ جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تھوڑا سا سفر طے کریں پھر راستے سے ہٹ کر کسی اور طرف لگ جائیں یا واپس آ جائیں، پھر دوبارہ سفر شروع کریں، پہلے اس راستے پر پہنچیں پھر آگے چلنا شروع کریں۔ اس طریقے سے بھی مسافر اپنی منزل تک پہنچ تو جاتا ہے لیکن اس طرح کرنے میں کافی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ بہرحال پھر بھی یہ دوسرا طریقہ بالکل نہ چلنے سے تو بہتر ہے۔ جو آدمی چلنا شروع ہی نہ کرے وہ تو پہنچ ہی نہیں پائے گا، رک رک کے چلنے والا بالکل نہ چلنے والے سے بہتر ہے۔
آپ کے مسئلہ کے حل کے لئے بہتر تو یہی ہے کہ اپنا ایک وقت مقرر کر لیں اسی وقت میں معمولات کیا کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ چونکہ آپ کی مجبوری بھی ہے، اس وجہ سے آپ کے لئے گنجائش ہے کہ آپ پندرہ منٹ، آدھا گھنٹہ، یا ایک گھنٹہ اپنے معمولات کو وقت سے آگے پیچھے کر سکتی ہیں، اس میں اتنا حرج نہیں ہے لیکن اس سے زیادہ فرق نہ ڈالیں، اگر ایک گھنٹہ سے زیادہ لیٹ ہونے لگا تو پھر آہستہ آہستہ آپ کی عادت ہی ختم ہو جائے گی اور اس سے بہت نقصان ہو گا۔ لہٰذا آپ اول تو پوری کوشش کریں کہ مقررہ وقت پر اپنے معمولات ادا کر یں لیکن اگر کسی دن ممکن نہ ہو تو وقت آگے پیچھے کر سکتی ہیں لیکن اس کی مقدار ایک گھنٹہ سے زیادہ نہ ہو۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم حضرت جی۔ میرے پاس کپڑے دھونے کا انتظام بیت الخلاء کے اندر ہے، جگہ کافی کھلی ہے۔ اکثر کپڑے دھوتے ہوئے حضرت والا کے بیانات ایئر فونز کے ذریعے سنا کرتی ہوں۔ ابھی خیال آیا کہ اس میں کسی قسم کی بے ادبی تو نہیں ہے؟ حضرت جی رہنمائی فرمائیے کہ اس عمل کو جاری رکھوں یا چھوڑ دوں؟
جواب:
یہ ایک فقہی مسئلہ ہے مناسب یہ ہے کہ کسی مفتی صاحب سے پوچھا جائے۔ ابھی میں اپنی معلومات کے مطابق بتا دیتا ہوں لیکن آپ اس پہ فیصلہ نہ کریں، حتمی مسئلہ کسی مفتی صاحب سے پوچھیں۔ ہماری معلومات کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ اگر بیت الخلاء ایسا ہی ہو جیسے آج کل فلش سسٹم ہوتا ہے، اور بالکل صاف ستھرا ہو اس میں کوئی گندگی وغیرہ نہ پڑی رہتی ہو تو پھر وہ ناپاکی والے حکم میں نہیں آتا۔ اس میں آدمی بات وغیرہ کر اور سن سکتا ہے۔ لیکن چونکہ اس میں بھی شبہ ہے، ہو سکتا ہے کچھ حضرات حتمی مسئلہ اس طرح نہ بتائیں اور احتیاط کے پہلو کو ترجیح دیں۔ اس وجہ سے بہتر یہ ہے کہ آپ کسی مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھ لیں۔
سوال نمبر5:
مفتی صاحب نے بیان میں فرمایا کہ اگر آدمی اپنے علاقہ کے تھانہ کی حدود سے نکلے اور 48 میل سفر کا ارادہ ہو تو وہ مسافر کہلائے گا۔ تھانہ سے کیا مراد ہے کیا تھانہ اور پولیس چوکی ایک ہی حکم میں آتی ہے؟
جواب:
کتبِ فقہ کے مطابق مسئلہ یوں ہے کہ جب آدمی شہر کی حدود سے باہر نکلے تب مسافر بنے گا۔ شہر کی حدود سے مراد یہ ہے کہ جہاں تک شہر سمجھا جاتا ہے۔ تھانہ یا چوکی صرف علامت کے طور پر ہے کہ اس کے بعد وہ شہر نہیں رہتا کوئی اور علاقہ شروع ہو جاتا ہے لیکن اگر کسی طرف تھانہ نہیں ہے تو حدود تو اس طرف بھی ہوں گی۔ اس وجہ سے اصل بات حدود کی ہے، تھانہ یا چوکی حدود ختم ہونے کی صرف ایک علامت ہے۔ عرف میں جس مقام کو اس شہر کی آخری حد سمجھا جاتا ہے وہی شہر کی آخری حد ہو گی۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی۔ اکثر دل میں قبر اور قیامت کا بہت زیادہ خوف طاری ہو جاتا ہے اور آنسو نکل آتے ہیں۔ اللہ پاک آپ سے اور آپ کے گھر والوں سے راضی ہوں۔
جواب:
یہ ایک حال ہے اور یہ حال ان شاء اللہ مبدل بہ اعتدال ہو جائے گا۔ نہ تو اتنا خوف چاہیے کہ انسان کام نہ کر سکے اور نہ ہی اتنی امید چاہیے کہ انسان بے فکر ہو جائے۔ دونوں باتوں کے درمیان رہنا چاہیے کیونکہ ایمان خوف اور امید کے درمیان ہوتا ہے، لہٰذا درمیان کی حالت کو حاصل کرنا پڑے گا۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم شاہ صاحب۔ اللہ آپ کو صحت اور ایمان کی دولت عطا فرمائے اور اس میں اضافہ فرمائے۔ میں نے اللہ کے کرم اور آپ کی رہنمائی میں دیا ہوا ذکر مکمل کر لیا ہے۔ 200 دفعہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، 400 دفعہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“، 600 دفعہ ”حَق“ اور 300 دفعہ ”اَللّٰہ“ جہری طور پر۔ آگے رہنمائی کی درخواست کرتا ہوں۔
جواب:
اب آپ 200 دفعہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، 400 دفعہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“، 600 دفعہ ”حَق“ اور 500 دفعہ ”اَللّٰہ“ جہری طور پر پڑھ لیا کریں۔ باقی چیزیں وہی ہیں۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم حضرت۔ آپ سے کچھ سوالات پوچھنے ہیں۔
ایمان مضبوط بنانے کے لئے کوئی خاص عمل بتا دیجیے۔
سجدہ تلاوت سنت ہے یا واجب؟
توبہ کیسے کرنا چاہیے جو اللہ کو قبول ہو اور دوبارہ وہ گناہ نہ ہو؟
جواب:
جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے اور جن چیزوں کی وجہ سے ایمان باقی رہتا ہے انہی کو مضبوط بنانے سے ایمان مضبوط ہو گا۔ اس بارے میں سورۃ بقرہ کا پہلا رکوع بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
﴿الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ﴾ (البقرۃ: 3، 4)
ترجمہ: ”جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔ اور جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں“۔
اس کے مطابق غیب پر ہمارا ایمان مضبوط ہو جائے، نماز کا قیام اور راہ خدا میں خرچ کرنا ہماری فطرت بن جائے، قرآن و سنت ہر بڑے اور چھوٹے معاملہ میں ہمارے رہنما بنیں اور ہمارا آخرت پر کامل یقین ہو جائے تو پھر ہمارا ایمان مضبوط بنتا جائے گا۔
ایمان بالغیب، ایمان بالرسول اور ایمان بالآخرۃ یہ تین چیزیں ایسی ہیں جو دل میں پختہ ہوں تو اعمال کرنا آسان ہو جاتے ہیں۔ جبکہ نماز قائم کرنا اور راہ خدا میں خرچ کرنا یعنی بدنی اور مالی عبادات کا اہتمام کرنا اور ان میں حتی المقدور کوشش کرنا، یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کو صحیح طریقے سے عمل میں لایا جائے تو ایمان پختہ ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ایمانی تذکروں کو سننے سے، صحبت صالحین سے، کثرت ذکر سے اور موت کی یاد سے ایمان زیادہ بڑھتا ہے اور اعمال کی بھی توفیق ہوتی ہے۔
سجدہ تلاوت سنت ہے یا واجب؟
سجدۂ تلاوت واجب ہے۔
توبہ کیسے کرنا چاہیے جو اللہ کو قبول ہو اور دوبارہ گناہ نہ ہو؟
میں یہ تو بتا سکتا ہوں کہ ایسی توبہ کی کیا شرائط ہیں جو اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو۔ ایسی توبہ میں تین چیزیں ہونی چاہئیں۔ (1)۔ اس بات پر شرمندگی ہو کہ میں نے غلط کام کیا۔ (2)۔ جس گناہ سے توبہ کر رہا ہے اس سے رک جائے۔ (3)۔ اس گناہ کو آئندہ نہ کرنے کا عزم کر لے۔
بنیادی شرطیں یہی تین ہیں ان کے علاوہ دو اضافی چیزیں اور بھی ہیں:
(4) ایک اضافی چیز یہ ہے کہ اگر اس گناہ کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے تو اس بندہ سے وہ حق معاف بھی کروائے، جب تک وہ بندہ معاف نہیں کرے گا تب تک معافی نہیں ہوتی۔
(5) دوسری اضافی چیز یہ ہے کہ اگر وہ گناہ کسی ایسی عبادت سے متعلق تھا جسے وقت پہ ادا نہ کریں تو قضا لازم ہوتی ہے، جیسے نماز روزہ وغیرہ۔ تو پھر اس کی قضا جلد جلد پوری کرے۔
اگر کوئی اس قسم کی توبہ کرے گا تو اللہ پاک سے یہی امید کرنی چاہیے کہ وہ توبہ قبول فرما لیتا ہے کیونکہ اللہ پاک توّاب ہے، توبہ قبول فرمانے والا ہے، رجوع کرنے کو بہت پسند فرماتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے یہی امید کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتے ہیں۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم سر۔ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے اللہ آپ کو لمبی عمر عطا فرمائے۔ میں نے ایک جگہ پڑھا ہے کہ ہم اللہ سے جیسا گمان رکھتے ہیں اللہ پاک ہمارے ساتھ اسی گمان کے مطابق سلوک کرتے ہیں۔ ازراہ کرم اس بارے میں یہ بتا دیں کہ اللہ پاک سے مثبت اور اچھے گمان رکھنے کے لئے ہمیں کیا عمل اختیار کرنے چاہئیں۔ آپ نے جو ذکر دیا تھا وہ جاری و ساری ہے بس تھوڑے سے دن باقی ہیں۔ جیسے ہی ذکر کے دن مکمل ہو جائیں گے تو میں آپ سے دوبارہ رجوع کروں گا۔ اللہ آپ کو لمبی عمر عطا فرمائے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ السلام علیکم۔
جواب:
یہ سوال تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی پوچھے کہ نماز پڑھنے کا حکم ہے تو میں کیا کروں کہ نماز پڑھی جائے، بھئی کرنا کیا ہے، نماز پڑھو۔ اسی طرح اللہ سے مثبت گمان رکھنے کے لئے یہی ضروری ہے کہ اس سے اچھا گمان رکھو۔ پہلے تو اس کے تمام احکام پر حتی المقدور عمل کرو پھر اس سے اچھا گمان رکھو کہ وہ انہیں قبول فرمائے گا اور دنیا و آخرت میں کامیاب فرمائے گا۔
آج کل کا مسئلہ ہے کہ لوگ خود کچھ نہیں کرتے، کہتے ہیں بس کوئی پھونک مار دی جائے اور سب کچھ خود بخود ہو جائے۔
یہ تو بالکل واضح چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مثبت امید رکھنا چاہیے کیونکہ اللہ جل شانہ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے۔ یہ حتمی بات ہے اس کے اندر کوئی پیچیدگی نہیں ہے، کوئی کمزوری نہیں ہے اور کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جب اللہ پاک ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہیں تو اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھنی چاہیے اور اپنے اوپر خطا کا گمان رکھنا چاہیے۔
ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دورانِ گفتگو فرمایا: میں جو بات کر رہا ہوں اگر یہ صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے۔
اپنی طرف غلطی کا گمان کرنا چاہیے اور اللہ کی طرف سے اچھا گمان کرنا چاہیے۔ یہ ہر معاملے اور ہر عمل کی بات ہے۔ اگر مزید سمجھنا ہو تو سورۃ کہف میں حضرت خضر علیہ السلام کے جو تین واقعات بیان ہوئے ہیں ان کے الفاظ میں غور کریں جواب مل جائے گا۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم۔
حرمین شریفین میں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ ان کے راستے حدود حرم سے علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں۔ عام دنوں میں چیک پوسٹوں پر مسلم یا غیر مسلم کی شناخت نہیں کی جاتی، بظاہر ہر کوئی آ جا سکتا ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم حدودِ حرم میں داخل ہو جائے تو کیا ہوتا ہے اس بارے میں مختلف لوگوں سے مختلف باتیں سنی ہیں۔ آپ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔ کچھ لوگ قانونی پہلو کا ذکر کرتے ہیں کہ اگر حدودِ حرم میں غیر مسلم پکڑا جائے تو کیا ہوتا ہے۔ آپ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ روحانی طور پر کیا کچھ ہوتا ہے۔ اکثریت کہتی ہے کہ اللہ کے فضل سے ایسے لوگ جلد یا بدیر مسلمان ہو جاتے ہیں۔ کچھ نے کہا کہ غیر مسلموں کی مزاحمت محسوس ہوتی ہے۔ اس پر کچھ روشنی ڈالیں۔
جواب:
اس پر میں روشنی ضرور ڈالوں گا لیکن پہلے آپ تھوڑی سی روشنی اس پر ڈالیں کہ اس سوال کا جواب ملنے سے آپ کی کتنی اصلاح ہو جائے گی۔ آپ اپنی اصلاح سے بالکل بے فکر ہیں اور ان چیزوں کی فکر آپ کو زیادہ ہے۔ اگر آپ سے اس کے بارے میں قبر میں پوچھا جائے گا پھر تو اس کا جواب ضروری ہے لیکن اگر آپ سے اس کے بارے میں پوچھ نہیں ہو گی تو پھر اس کو چھوڑیں اور جن چیزوں کے بارے میں پوچھ ہونی ہے ان کے جواب جان لیں، ان چیزوں کی تیاری کر لیں اور اپنی اصلاح کروا لیں۔
قبر میں یہ پوچھا جائے گا کہ تمہارا رب کون ہے، تمہارا دین کیا ہے، تمہارا رسول کون ہے۔ اس لئے آپ رب کی معرفت، رسول کی اطاعت اور دین پر عمل کی تیاری کر لیں۔
قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ کامیاب وہ شخص ہے جس نے نفس کے رذائل کو دبا کر تزکیہ حاصل کر لیا، اس لئے آپ نفس کی اصلاح کروا لیں، کیونکہ جس نے نفس کو ایسے ہی چھوڑ دیا قرآن پاک کے مطابق وہ شخص تباہ و برباد ہو گیا۔
آپ آرام سے بیٹھے ہوئے ایسے سوال کرتے ہیں جن کا آپ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تو بحثوں والے سوال ہیں ان بحثوں والے سوالوں میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان کا جواب اگر دیا بھی جا سکے تو ان سوالوں کے لئے اس فورم کو استعمال کرنا ہی نہیں چاہیے۔ آپ اس طرح کریں کہ اپنی اصلاح کے اوپر توجہ دیں یہ چیز بہت ضروری ہے، موت سے پہلے پہلے اصلاح فرضِ عین ہے۔ آپ کی کوشش ہر لمحہ یہ ہونی چاہیے کہ میں جہنم سے بچ جاؤں، میری نماز میں خرابی نہ رہے، میرا کوئی عمل ریا کی وجہ سے ضائع نہ ہو جائے، کہیں میں تکبر کی وجہ سے مارا نہ جاؤں۔ یہ باتیں آپ کے لئے سوچنے کی ہیں۔ اس وجہ سے اُن باتوں کی فکر میں زیادہ نہ پڑیں جو صرف بحث کی باتیں ہیں، ان باتوں کی فکر کریں جو آپ کے لئے اہم اور ضروری ہیں۔ میں ازروئے ہمدردی یہ باتیں کہہ رہا ہوں۔ میں نے آپ کو بعض سوالوں کے جوابات دے دیئے، لیکن ان چیزوں میں پڑنے کا ہمارا ذوق نہیں ہے۔ اس لئے یہ بات ضروری ہے کہ انسان ان بحثوں میں بالکل نہ پڑے، لوگ بہت ساری سیاسی بحثیں بھی کرتے ہیں، فقہی بحثیں بھی کرتے ہیں اور بال کی کھال اتارتے ہیں لیکن جب عمل کی بات آتی ہے تو عمل صفر ہوتا ہے۔ اس لئے انسان کو عمل پہ آنا چاہیے اور عمل کی کیفیت صحیح ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سوچ کی توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت کی خدمت اقدس میں سوال عرض ہے۔ بدھ کے روز مکتوبات شریفہ کی مجلس مبارکہ میں حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کا فرمان زیرِ بیان آیا کہ بعض لوگوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے متعلق کلام و مکالمہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں کلام و متکلم والا ربط نہیں ہے بلکہ خالق و مخلوق والا ربط ہے۔ یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام نے شجر مبارکہ کے کی تجلی کے واسطے سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ جو کلام کیا تو یہ خالق و مخلوق والا معاملہ تھا نہ کہ کلام کا متکلم والا معاملہ۔ پھر فرماتے ہیں کہ اسی طریقے سے جبرائیل علیہ الصلوۃ و السلام نے جو قرآن مقدس اللہ تبارک و تعالیٰ سے سنا وہ بھی خالق و مخلوق والا تھا نہ کہ کلام و متکلم والا۔
سوال یہ ہے کہ ہم لوگ جس قرآن پاک کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا کلام جانتے ہیں، اس کو ہم اللہ کی صفت سمجھتے ہیں نہ کہ اللہ کی مخلوق۔
عقیدہ کے طور پر ہم مانتے ہیں کہ قرآن پاک اللہ کا کلام ہے نہ کہ اللہ کی مخلوق ہے۔ حضرت والا نے بھی بارہا اس کا ذکر فرمایا ہے۔ امام احمد بن حنبل کے واقعات بھی سامنے ہیں اور اہل سنت والجماعت کا عقیدہ پیش نظر ہے۔ اس مضمون کو کیسے سمجھیں تاکہ غلطی نہ ہو۔ رہنمائی کے لئے مشکور رہوں گا۔
دوسرا سوال خدمت اقدس میں عرض ہے کہ حضرت والا نے مکتوبات شریفہ کے بیان کے ضمن میں فرمایا کہ کلام نفسی اور کلام لفظی مشترک ہیں، اس کی نسبت اللہ کی طرف ایسی نہیں کی جا سکتی جیسے اللہ نے یہ خود کہا ہے۔
حضرت اس مضمون کو کیسے سمجھیں۔ ہم روزانہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا، اور یہ کہتے ہیں ”صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمُ“ (اللہ نے سچ کہا ہے)۔ جبکہ پہلی تصریحات کے مطابق یہ کلام ایسا نہیں جیسے اللہ نے خود کہا ہو۔ اس تعارض کو کیسے حل کیا جائے۔ جزاکم اللہ خیر۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
جواب:
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سوال کافی نازک ہے۔ ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا ہے۔ بات کو سمجھنے کے لئے چند چیزیں سامنے رکھنی پڑیں گی۔
ایک تو یہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو صفات اور ذات کی بحث چھیڑی ہے۔ ”حقیقتِ جذب و سلوک“ میں ذات اور صفات کی بحث موجود ہے، اس بات کو سمجھنے کے لئے اسے دوبارہ پڑھنا چاہیے۔
شان کا تعلق ذات کے ساتھ ہے۔ صفات شان سے ظہور میں آتی ہیں۔ صفات خارج میں ہوتی ہیں جبکہ شیون ذات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔
کلامِ الہی اللہ پاک کی صفت ہے۔ صفت خارج میں ہوتی ہے۔ ہم کلام کو صفت مانتے ہیں۔ صفات کا تعلق شان سے ہوتا ہے اور شان کا تعلق ذات سے ہوتا ہے۔ یہ صفتِ کلام بھی شان سے ظہور میں آئی ہے یہ خود شان نہیں ہے۔ شان کا تعلق ذات کے ساتھ ہے، صفت تو خارج میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض صفات اللہ پاک اور انسان میں مشترک ہو جاتی ہیں، جیسا کہ صفت کریم، صفت رحیم وغیرہ۔
اس سے معلوم ہوا کہ صفت کا تعلق شان کے ساتھ ہوتا ہے اور شان کا تعلق ذات کے ساتھ ہوتا ہے۔ بلاشبہ صفت شان سے ظہور میں آتی ہے لیکن وہ خود شان نہیں ہوتی، حضرت نے یہ ساری بات بہت تفصیل سے سمجھائی ہے۔
حضرت نے مختلف جگہوں پہ مکتوبات شریفہ میں ایک بات ارشاد فرمائی ہے، وہ یاد رکھنی چاہیے کہ انسان معرفت باری تعالیٰ میں ایک سفر طے کرتا ہے جسے تشبیہ سے تنزیہ تک کا سفر فرمایا ہے۔ ابتداءً انسان تشبیہ کے مرحلہ میں ہوتا ہے۔ اللہ پاک کی ذات وراء الوراء ہے اللہ پاک کی ذات کو کوئی دیکھ نہیں سکتا اور اس کی کوئی مثال بھی نہیں ہے۔ اس وجہ سے وہ تشبیہ میں ہوتا ہے، جو مختلف تجلیات تنزل کے طور پہ ہوتی ہیں وہ ان سے استنباط کرتا ہے اور اللہ پاک نے بھی اسی لئے کچھ ایسے انتظام کئے ہوئے ہیں جس کے ذریعے سے لوگ خالق کو نہ دیکھ سکنے کے باوجود بھی وہ فائدہ حاصل کر سکیں جو خالق کو دیکھنے کے ساتھ حاصل ہو سکتا ہے۔ ان میں سے ایک تو خانہ کعبہ کی تجلئ مسجودی ہے۔ خانہ کعبہ خدا نہیں ہے لیکن اس کی طرف ہم ایسے سجدہ کرتے ہیں جیسے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں کیونکہ اللہ کے حکم کے مطابق وہاں تجلی مسجودی ہے ہم اللہ کے حکم سے اسی تجلی مسجودی کی طرف سجدہ کرتے ہیں۔ چونکہ حکم اللہ کا ہوتا ہے لہٰذا یہ سجدہ اللہ کو ہی ہوتا ہے۔ یہ اللہ پاک نے انسان کی سمجھ اور استطاعت کے مطابق ایک انتظام فرمایا ہے۔ اس طرح کلام کی بھی تجلی ہے موسیٰ علیہ السلام کے سامنے جو چیز ظہور میں آئی وہ اللہ پاک کے کلام کی تجلی تھی۔
اللہ تعالیٰ جب کسی چیز پہ اپنی تجلی فرماتے ہیں، وہ تجلی خدا نہیں ہوتی لیکن اس سے وہ چیز ظہور میں آ جاتی ہے جس سے فائدہ حاصل ہو جاتا ہے جس کے لئے وہ تجلی نازل کی جاتی ہے۔
اب آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں۔ اللہ جل شانہ اس قرآن پاک میں ہمارے ساتھ اس طرح بات نہیں کر رہے ہوتے جس طرح ہم لوگ اسباب کے ساتھ بول رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں بولنے کے لئے زبان چاہیے لیکن اللہ پاک کے لئے زبان ہونا ضروری نہیں ہے۔
قرآن کریم میں بعض جگہ اللہ پاک کے لئے اعضا کا ذکر آیا ہے، کہیں ید (ہاتھ) کا ذکر آیا اور کہیں ساق (پنڈلی) کا ذکر آیا ہے، یہ در اصل اللہ پاک کی مخصوص تجلیاں ہیں۔ چونکہ انسان براہ راست اللہ پاک کو نہیں سمجھ سکتا، تو پھر اسے انسانی ذہن کے مطابق ہی سمجھایا گیا، انسان کے پاس ایسی کوئی مثال نہیں ہے جو اس کے ذہن سے باہر کی ہو، اگر اس کے ذہن و عقل کی پہنچ سے باہر کی ہو گی تو وہ اسے سمجھے گا ہی نہیں، اس لئے انسان کی عقل کے دائرہ میں اتر کر اللہ پاک کی بعض صفات کو اس طرح ذکر کیا گیا کہ اللہ کا ہاتھ بھی ہے اور پنڈلی بھی ہے، چونکہ انسان انہی الفاظ میں سمجھ سکتا ہے، ورنہ درحقیقت اس سے مراد یہ نہیں کہ اللہ پاک کے یہ سب اعضاء ہیں، بلکہ اس سے مراد اللہ پاک کی قدرت اور مخصوص تجلیات ہیں۔ انہیں ان الفاظ میں ذکر کرنے کی ضرورت یہ ہے کہ انسان تشبیہ کے بغیر سمجھ نہیں سکتا، لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ تشبیہ صرف سفر کا ایک پڑاؤ ہے، اللہ پاک کو ہمہ قسم کی تشبیہ سے پاک ماننا بھی ضروری ہے۔ اس پاک ماننے کو تنزیہ کہتے ہیں۔ انسان تشبیہ سے تنزیہ کا یہ سفر طے کرتا ہے۔ جتنی زیادہ تشبیہ میں انسان ہوتا ہے اتنا زیادہ دور ہوتا ہے، جتنا جتنا تنزیہ کے قریب ہوتا جاتا ہے اتنا اتنا اس میں کمال کی صفات آتی جاتی ہیں۔ عمر بھر تشبیہ سے تنزیہ کا سفر جاری رہتا ہے۔
کیونکہ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا تنزیہ کا سفر بہت آگے کا تھا خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے انہوں نے اس میں بہت سفر کیا تھا، ظلال سے آگے کو گزر گئے تھے۔ اس لئے اپنے حال اور اپنے وقت کے مطابق بات کر رہے ہیں، یہ باتیں اس انداز میں ان کے زمانہ میں کرنا ضروری تھا۔
شیخ کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ مرید کو تشبیہ سے آہستہ آہستہ تنزیہ کی طرف لائے اگر کوئی بالکل ہی تنزیہ کی بات پہلے کر لے تو مرید چل نہیں سکے گا اور اگر اس کو تشبیہ سے نکالا نہیں جائے گا تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
اس لئے اصل شیخ وہ ہوتا ہے جو موقع کے مطابق پہلے مرید کے ساتھ تشبیہ والا معاملہ کرتا ہے پھر آہستہ آہستہ اس کو تنزیہ کی طرف لاتا ہے۔ شیخ کا کمال یہی ہوتا ہے۔ وہ روح کے ذریعے سے اللہ پاک سے لیتا ہے اور نفس کے ذریعے لوگوں کو دیتا ہے۔
”عبقات“ میں تجلیات کی بحث بہت اہم ہے۔ اگر تجلیات کا مفہوم صحیح معنوں میں سمجھ آ جائے تو یہ سب اشکالات حل ہو جاتے ہیں۔
عبقات میں تجلیات کی بحث پڑھتے ہوئے ہم نے یہ مثال دی تھی کہ "Simulation Software" میں ایک ڈرائیونگ سیکھنے والا پروگرام ہوتا ہے، اس کے ذریعے جب کوئی ڈرائیونگ سیکھتا ہے تو اس کے سامنے ساری چیزیں ویسی ہی ہو رہی ہوتی ہیں جیسے اصل میں ہوتی ہیں، اس میں گئیر بھی تبدیل کیا جا رہا ہوتا ہے، سٹیرنگ سے گاڑی موڑتے بھی ہیں۔ وہ یہ سب کچھ اپنے ہاتھ سے کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے کرنے سے یہ ساری چیزیں وقوع پذیر سکرین پر ہی ہو رہی ہوتی ہیں۔ اس میں اور آدمی میں صرف ارادہ کا تعلق اور نسبت ہوتی ہے۔
اسی طرح اللہ پاک اور اس کے کلام کی مثال ہے۔ اللہ پاک نے اپنے ارادے سے اس کلام کو پیدا کیا، لیکن چونکہ اس کے اسباب ایسے نہیں جیسے ہمارے اسباب ہیں اور اس کا کچھ حصہ ہماری طرح ہے، لہٰذا وہ کلام لفظی مشترک ہو گیا، اس کے کچھ حصے ہماری طرح ہیں اور کچھ کا تعلق ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ تو اس میں اللہ والی جو بات ہے اسے تو ہم محسوس ہی نہیں کر سکتے۔ اللہ پاک کی تنزیہ میں کوئی جتنا جتنا آگے جائے گا وہ اسے اپنی استطاعت کے مطابق محسوس کرتا جائے گا۔ تجلی اعظم کا تصور بھی اسی لئے ہے کہ تجلی اعظم ہماری آخری حد ہے اس سے آگے کوئی نہیں جا سکتا۔
اسی وجہ سے اس بات میں اختلاف ہے کہ آپ ﷺ نے معراج شریف کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے یا نہیں۔ جو حضرات کہتے ہیں کہ دیکھا ہے ان کا موقف یہ ہے کہ در اصل آپ ﷺ اس مکان سے نکل کر لا مکاں میں چلے گئے تھے اس وجہ سے اللہ پاک کا دیدار کر پائے کیونکہ اللہ پاک کا دیدار اِس مکان میں ہو ہی نہیں سکتا۔ کچھ حضرات فرماتے ہیں کہ نہیں، نبی ﷺ نے اللہ پاک کو دیکھا ہی نہیں ہے۔
بہرحال قرآن پاک کو بے شک اللہ پاک نے پیدا فرمایا ہے لیکن اس کی تخلیق ایسی نہیں ہے جیسی ہماری ہے اور یہ اس طرح کی مخلوق نہیں ہے جیسے ہم ہیں۔ بلکہ اس کی تخلیق صفات کے لحاظ سے ہے اس لئے ہم یوں کہتے ہیں کہ یہ اللہ جل شانہ کی صفت ہے، صفت کا تعلق شیون کے ساتھ ہے کہ صفت شیون کے ذریعے سے ظہور میں آتی ہے اور شان کا تعلق اللہ کی ذات کے ساتھ ہے۔
جب یہ معلوم ہوا کہ قرآن پاک کلام الٰہی ہے، باری تعالیٰ کی صفت ہے، اور صفت خارج میں واقع ہوتی ہے ذات میں نہیں۔ تو اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ خارج میں واقع ہونے کی وجہ سے اس کے سمجھنے کے لحاظ سے کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن کا تعلق ہمارے ساتھ ہو گا، اور شان سے اس کا ظہور ہونے کی وجہ سے اس کا باقی حصہ ایسا ہو گا جس کا تعلق ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ صفت کے بارے میں حضرت نے بہت تفصیل کے ساتھ فرمایا ہے کہ یہ خارج میں واقع ہوتے ہیں ذات میں نہیں۔ اگر یہ بات آپ کی سمجھ میں آ گئی ہو تو ان شاء اللہ العزیز آپ اس پر کچھ غور کر سکیں گے۔ باقی یہ ہے کہ یہ تو تشبیہ سے تنزیہ کا سفر ہے آپ جتنا جتنا آگے بڑھیں گے اتنی اتنی سمجھ آتی جائے گی۔
سوال نمبر12:
صفات کو تنزل کیسے کہہ سکتے ہیں؟
جواب:
صفات کو تنزل نہیں کہتے۔ صفات کا تعلق شیون کے ساتھ ہے اور شیون کا تعلق ذات کے ساتھ ہے۔ اس بحث میں نہ پڑیں بلکہ یوں کہیں کہ صفات کا ظہور شیون سے ہے، شان کا تعلق ذات کے ساتھ ہے اور صفات خارج میں وجود رکھتی ہیں۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم مرشدی میرا دل بہت گندہ ہے۔ میں اپنے دل میں ایک بھی نور کی کرن نہیں دیکھتا اور دماغ بھی گندہ ہے۔ یہ کس طرح نورانی بنے گا۔ یہ ایسا ہو جائے کہ اچھے کاموں کے بارے میں وسوسہ کوئی بھی آئے راہ حقیقت کو نہ چھوڑوں۔ معمولات پورے کر رہا ہوں۔
جواب:
اپنے دل کو گندا سمجھنا تو اچھی بات ہے لیکن اس گندگی پر مطمئن ہونا اچھا نہیں ہے لہٰذا جو اپنے دل کو گندا سمجھتا ہے اس کا مطلب ہے وہ صفائی کی فکر میں ہے۔ تو یہ حالت اچھی ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک شخص نے کہا کہ میں نے اپنے دل کو ایک پھولدار صندوق سمجھا تھا اور سمجھا تھا کہ یہ تو بہت خوبصورت ہے لیکن اندر دیکھا تو اس میں گند ہی گند تھا۔
حضرت نے فرمایا: ان شاء اللہ یہ جو گند آپ کو نظر آ رہا ہے یہ کھاد بنے گا اور اس سے کیفیات کے پھول اور پھل پیدا ہوں گے۔ آپ بھی اپنے دل میں گند محسوس ہونے کی وجہ سے پریشان نہ ہوں، معمولات اور شیخ سے رابطہ کی بدولت ان شاء اللہ العزیز یہ دل نورانی بنے گا اور اعمال کی توفیق ہو گی۔
سوال نمبر14:
حضرت جی لذتوں کو توڑنے والی چیز موت کی یاد کا اہتمام کیسے کیا جائے۔
جواب:
اس کے لئے ایک دعا ہے:
”اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْ الْمَوْتِ وَ فِیْمَا بَعْدَ الْمَوت“
ترجمہ: ”اللہ میرے لئے موت اور موت کے بعد والی چیزوں میں برکت ڈال دیجیے“۔
اس کو ہر نماز کے بعد پانچ دفعہ دہرانا چاہیے۔ اس کے علاوہ جو چیزیں موت کی یاد کے ساتھ منسلک ہیں ان کا اہتمام کرنا چاہیے، جیسے جنازہ کے ساتھ جانا یا کسی وقت بیٹھ کر یہ بات سوچنا کہ مرنا ہے۔ اس قسم کی چیزوں سے فائدہ ہوتا ہے۔
سوال نمبر15:
میں جب باھر نکلتا ہوں تو دل میں یہ آتا ہے کہ لوگ مجھے اچھا سمجھیں۔
جواب:
اس خیال کو رد کرنا چاہیے۔ اور یہ سوچ رکھنی چاہیے کہ میں ایسا ہو جاؤں کہ اللہ جل شانہ مجھے اپنا سمجھیں، میں اللہ کا بن جاؤں، بس یہ خیال کریں۔ لوگوں سے نظریں ہٹا کر اللہ کی طرف لانی چاہئیں۔
سوال نمبر 16:
میں اپنے آپ میں یہ مرض دیکھتا ہوں کہ اپنی اصلاحِ نفس سے زیادہ دنیا بدلنے کی سوچ و فکر ہے۔ جب یہ سوچ زیادہ بڑھ جاتی ہے تو آپ کے بتائے ہوئے اعمال چھوٹنے لگتے ہیں۔
جواب:
یہ حقیقت ہے کہ شیطان بہکانے کا ماہر ہے اور وہ دو طریقوں سے وار کرتا ہے، پہلے یہ وار کرتا ہے کہ برائی اور گناہ میں مبتلا کرے، مثال کے طور پر معاذ اللہ کسی کو کفر میں مبتلا کرتا ہے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر اس کو بڑے گناہ میں مبتلا کرتا ہے، اگر بڑے گناہ میں مبتلا نہ کر سکے تو پھر چھوٹے گناہوں کی کثرت میں مبتلا کرتا ہے، الغرض کسی نہ کسی گناہ میں اس کو لے آتا ہے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر خیر کے جو کام وہ کر رہا ہے ان کو چھڑاتا ہے، اور ان کو چھڑانے کے لئے اس کے پاس بہت سے طریقے ہیں مثلاً یہ شخص جو فرما رہے ہیں کہ مجھے دنیا کے بدلنے کی سوچ آ جاتی ہے یہ بھی شیطان کا ایک حربہ ہے۔
کیا میں یہاں بیٹھے بیٹھے امریکہ کو بدل سکتا ہوں؟ میں یورپ کو بدل سکتا ہوں؟ جو کام میں نہیں کرسکتا وہ مجھ سے کروا رہا ہے، اور جو کام میں کر سکتا ہوں وہ مجھے چھڑا رہا ہے۔ تو شیطان کا یہ کام ہے جس کے شیطان کو طریقے بھی بہت آتے ہیں۔ اگر کسی کو عقل ہو تو وہ اس سے بچ سکتا ہے مثلاً وہ سوچتا ہے کہ جو کام میرے ذمہ ہے میں نے وہ کرنا ہے، جو کام میرے ذمہ نہیں ہے میں اس کے لئے دوسرا کام کیوں چھوڑوں۔ اور ایسا شخص اپنے شیخ سے رابطہ کرے، وہ اس کو سنبھال لیں گے۔ شیطان کے داؤ میں نہیں آنا چاہیے۔
سوال نمبر 17:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک تحقیق پڑھی کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں حضرت نے علمِ حدیث سے ثابت کیا کہ حدیثِ جبرئیل میں جس کیفیتِ احسان کا ذکر ہے اس سے مراد نہ تو مراقبات ہیں اور نہ ہی مراقبہ کے درجات ہیں، حضرت کی تحقیق علمِ تصوف سے منطبق لگتی ہے۔ کیونکہ اگر یہ مراقبات ہیں تو پھر مراقبات مقاصد میں شامل ہوئے، حالانکہ مراقبہ تو ذریعہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کوئی جوگی والا مراقبہ سیکھ لے تو اسے محسن نہیں کہہ سکتے کیونکہ احسان مراقبہ کا نام نہیں ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب:
در اصل کیفیتِ احسان ایک خاص کیفیت کا نام ہے۔ اس کو یوں سمجھیں جیسے کہا جاتاہے:
’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ ”ترجمہ: مر جاؤ اس سے پہلے کہ تم مر جاؤ“ حالانکہ وہ انسان مرا ہوا تو نہیں ہوتا، بلکہ اس کو احساس دلانا مقصود ھے تاکہ وہ کام کر سکے، کیونکہ موت کے بعد انسان کو بہت افسوس ہو گا کہ میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ تو یہ افسوس اس کو اسی وقت ہونا چاہیے، اگر اِس وقت ہو گیا تو وہ توبہ و استغفار کر لے گا اور اس کو فائدہ ہو جائے گا۔
اسی طرح کیفیتِ احسان بھی یہ ہے کہ عبادت ایسے کرو جیسے خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر خدا کو دیکھ نہیں پا رہے ہو، یہ کیفیت تمہیں حاصل نہیں ہے تو کم از کم یہ تو جان لو کہ خدا تمہیں یقیناً دیکھ رہا ہے۔
اگر ہماری یہ کیفیت پکی ہو جائے تو کیا ہم گناہ کر سکیں گے؟ پھر ہم گناہ نہیں کر سکیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ بہت اہم کیفیت ہے، اسی کیفیت کو حاصل کرنے کے لئے مراقبات، ذکر اذکار اور اشغال کیے جاتے ہیں۔ تو یہ شغل، ذکر اور مراقبہ اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے ہیں اور جو حاصل ہو رہا ہے وہ ’’کیفیت‘‘ ہے۔ کیفیت احسان ایک کیفیت ہے جبکہ مراقبات کیفیت نہیں ہیں۔
سوال نمبر18:
حضرت جی میری طبیعت کچھ دنوں سے عجیب ہو گئی ہے دل پر بوجھ سا رہتا ہے، اعمال کرنا مشکل ہو گیا ہے، دماغ کرنا چاہتا ہے، دل روکتا ہے، سمجھ نہیں آ رہی۔ مہربانی کر کے رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
حضرت تھانوی رحمة الله عليہ کو کسی نے کہا کہ حضرت میرا نماز پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ حضرت نے فرمایا: جب سو فیصد نمبر لینے کا وقت آ گیا تو بھاگتے ہو؟ کیونکہ جب آپ کا جی چاہے گا تو کچھ نمبر تو اس چاہنے کی وجہ سے کٹ جائیں گے کیونکہ اللہ کی طرف سے یہ چیز آپ کو مل گئی۔ 100 نمبر آپ کو تب ملیں گے جب آپ صرف اللہ کے لئے کریں گے۔ جب آپ کا نفس نہیں چاہتا اور آپ کریں گے تو صرف اللہ کے لئے ہو گا، اپنے مزے کے لئے نہیں ہو گا۔ لہٰذا اگر کسی کا جی نہیں چاہتا اور وہ کوئی نیک عمل کرے، کوئی اچھا عمل کرے تو یہی موقع ہے کہ اس میں زیادہ کما سکتا ہے اس وقت ہمت کر کے اس کام کو کرنا چاہیے، پیچھے نہیں ہونا چاہیے۔
سوال نمبر19:
حضرت شیخ صاحب! مجھ میں صبر، تحمل اور برداشت کی بہت کمی ہے، مجھے غصہ بہت جلدی آ جاتا ہے، جس کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں۔ مجھے کوئی ایسا عمل یا مجاہدہ دیں جس سے میری یہ عادت ختم ہو جائے اور مجھ سے کوئی زیادتی کرے تو میں صبر اور تحمل سے کام لوں۔
جواب:
ما شاء اللہ جذبہ بہت اچھا ہے لیکن ہر بیماری کا دو قسم کا علاج ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ اس بیماری کی کیفیات کو فوری طور پہ دور کر لو۔ لیکن اصل بیماری کا علاج لمبا چلتا ہے جیسے اگر کسی کو ٹی بی کا مرض ہو اور اس بیماری میں اسے بخار ہو جائے تو فوری طور پر بخار کے لئے پیرا سیٹا مول دیں گے۔ کیا پیرا سیٹا مول سے ٹی بی ختم ہو جائے گی؟ ٹی بی تو ختم نہیں ہو گی لیکن وہ بخار اس وقت ختم ہو سکتا ہے۔ لہذا اس قسم کے غصے کے پیچھے جو مرض ہے جب تک اس کا ازالہ نہیں ہو گا وہ چیزیں باقی رہیں گی۔ البتہ اگر اس دوران غصہ میں آجائے تو فوری طور پر کیا کرنا چاہیے؟
فوری طور پر اس کا علاج یہ ہے کہ جب کسی کو غصہ آ جائے تو اگر وہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہے تو لیٹ جائے، پانی پی لے، جگہ بدل لے، سامنے اگر چھوٹا ہے تو اپنے پاس سے ہٹا دے، اگر سامنے بڑا ہے تو اس سے ہٹ جائے۔
بہر حال فوری علاج تو انسان اس طرح کر سکتا ہے لیکن اس کا اصل علاج یہی ہے کہ اگر انسان اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے تو اس سوچ کو ختم کر دے، اسی کو فنا کی کیفیت کہتے ہیں۔ جب فنا کی یہ کیفیت حاصل ہوتی ہے تو پھر اس کے بعد ساری چیزیں ہٹ جاتی ہیں، اس کے لئے محنت کرنی ہے، اس میں ذکر بھی ہے، مجاہدہ بھی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا اس کے بعد یہ مستقل علاج ہو گا۔ لیکن فوری علاج تو بہر حال کرنا پڑے گا۔
سوال نمبر20:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز فرمائے اور آپ کو صحت عطا فرمائے۔ (آمین) حضرت جی دو مہینے ہونے کو ہیں ملازمت نہیں مل رہی، والدین کی وفات ہو چکی ہے، بزرگوں میں سے ساس ہی ہیں جو اس معاملہ میں پریشان ہیں، کل وہ درود شریف کا ورد کرتے کرتے سو گئیں، خواب میں دیکھا کہ ایک حسین شخص آسمان سے بہت خوبصورت تختی لے کر آتے ہیں اور میری ساس کو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اپنے نام بھیجے ہیں اور آپ کی دعائیں قبول ہو جائیں گی۔ اس خواب میں بشارت تو ہے۔ کیا کچھ پڑھنے کی طرف اشارہ بھی ہے؟
جواب:
تہجد کے وقت اسماء الحسنیٰ کا ورد کریں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے ان کے وسیلے سے دعا مانگا کریں۔
اللہ جل شانہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
سوال نمبر21:
السلام علیکم، حضرت جی آپ نے فرمایا تھا کہ استخارہ کی مسنون دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے اور دعائیں کرتے وقت نفسیاتی طور پر کسی ایک طرف جھکاؤ نہیں ہونا چاہیے۔
اگر کوئی فیصلہ کرنا ہو، وقت کم ہو لیکن اگر دل میں کسی بات کے بارے میں کچھ آ رہا ہو تو اکثر دعائیں پڑھنے کے بعد بھی اس طرف ذہن جاتا رہتا ہے، ذہن ایک بات پر مرتکز نہیں ہو پاتا، ایسے میں کیا کیا جائے۔ مجھے یہ پتا ہے کہ میں بالکل سمجھدار نہیں ہوں، لیکن ہر چھوٹی چھوٹی بات پر آپ سے مشورہ کرنے لگوں تو یہ بھی مناسب نہیں کہ بار بار آپ کو تکلیف دوں۔ فوراً کوئی فیصلہ کرنا ہو تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی۔ نفسیات سے الگ ہو کر کیسے استخارہ ہو سکتا ہے؟
جواب:
نفسیات سے الگ ہو کر فیصلہ کرنے کا تو میں نے نہیں کہا تھا۔ بلکہ اس سے مراد یہ تھا کہ استخارہ کے بعد جو چیز اللہ تعالیٰ آپ کے دل پر بھیجے اسے آپ کا نفس متاثر نہ کرے یا آپ کا کوئی خیال متاثر نہ کر ے، وہ صرف اور صرف وہی چیز ہو جو استخارہ سے آپ کے دل میں آئی ہو۔
استخارہ میں اللہ پاک سے مانگنا ہوتا ہے اور اس میں یہی بات اصل ہوتی ہے کہ چونکہ ہمیں اللہ سے مانگنا ہے اس لئے مانگنے میں جتنا اخلاص ہو گا اللہ تعالیٰ کی طرف جتنی توجہ ہو گی، اللہ کی طرف سے اتنی مدد آئے گی۔ اس لئے آپ دل سے مانگیں اور اس چیز کو بھی ذہن میں رکھیں کہ یا اللہ! میں کچھ بھی نہیں جانتی، جو بھی تیری طرف سے ہو اس کی طرف میری رہنمائی فرما دے اور مجھے اس میں کسی شک یا کسی غلطی کے حوالے نہ کرنا۔ استخارہ کے ساتھ یہ دعا بھی پڑھ لیں تو ان شاء اللہ کامیابی ہو جائے گی۔ ”یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِی شَانِیْ کُلَّہ وَ لَا تَکِلْنِی اِلیٰ نَفْسِیْ طَرْفَةَ عَیْن“ یہ دعا بھی پڑھی جا سکتی ہے: ”اللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَهٗ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَه“۔
سوال نمبر22:
جب تک ہم نفس اور شیطان کے اثر میں ہیں، قلب، نفس اور عقل کی اصلاح نہیں ہوئی تب تک صحیح طور سے رجوع الی اللہ کیسے ممکن ہے؟
جواب:
عاجزی کے ساتھ ممکن ہے۔ آدمی یوں کہے کہ یا اللہ! مجھے تو کچھ بھی نہیں آتا اور رونا شروع کر دے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ سے مانگے تو اللہ تعالیٰ ضرور سیدھا راستہ دکھاتے ہیں۔
سوال نمبر23:
حضرت جی السلام علیکم۔ میرے سوالات خیال کے متعلق ہیں۔ کیا خیال دل میں آتا ہے یا دماغ میں، کیا خیالات اندر سے پیدا ہوتے ہیں یا باہر سے کوئی الہام کرتا ہے، برے خیالات کہاں سے آتے ہیں اور اچھے خیالات کہاں سے آتے ہیں، برے خیالات سے کیسے بچیں رہنمائی فرمائیں؟ جزاک اللہ۔
جواب:
ان سب چیزوں پر ہم اپنی کتاب فہم التصوف میں بحث کر چکے ہیں۔ اس کا پورا ایک باب اس موضوع پر ہے، جس کا نام ”باب الخواطر“ ہے۔ خواطر خیالات کو کہتے ہیں۔ میں کچھ دیر پہلے اسی باب کو دیکھ رہا تھا۔ اس کا کچھ حصہ سنا دیتا ہوں۔ فہم التصوف کے صفحہ نمبر 342 پر خواطر کے عنوان کے تحت لکھا ہے:
”کسی بندے کے دل میں جو خیال آتا ہے اسے خاطر کہتے ہیں وہ کبھی خیر ہوتا ہے کبھی شر ہوتا ہے، خیر کا خیال کبھی من جانب اللہ ہوتا ہے کبھی فرشتے کی جانب سے ہوتا ہے، جس کا نام مُلْھِمْ ہے اور کبھی شیطان کی جانب سے بھی ہوتا ہے۔ شر کا خیال شیطان کی طرف سے یا نفس کی طرف سے اور کبھی کبھی حکمتاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو خیر ہوتی ہے وہ اکراماً ہوتی ہے یا اتمامِ حجت کے لئے ہوتی ہے اور جو شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے وہ امتحاناً ہوتا ہے اور محنت میں ڈالنے کے لئے ہوتا ہے۔ مُلْھِمْ کی طرف سے ہمیشہ خیر ہی دل پر وارد ہوتی ہے، کیونکہ اس کا کام ہی یہی ہے، جیسے شیطان انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے اس طرح ملہم بھی انسان کے ساتھ ہوتا ہے، یعنی ایک شیطانی چینل ہوتا ہے اور ایک رحمانی چینل“۔
میں اکثر کہتا ہوں شیطان کی طرف سے جو خیر ہوتی ہے وہ مکر و استدراج ہوتا ہے یہ صورتاً تو خیر نظر آتا ہے لیکن اس کے اندر شر چھپا ہوتا ہے، مثلاً کسی اعلیٰ خیر کو روکنے کے لئے کسی جھوٹی خیر میں مبتلا کرنا۔ اور جو شر ہوتا ہے وہ اغوا کرنے کے لئے یا ذلیل کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ نفس کی طرف سے جو شر ہوتا ہے وہ بے راہ روی کے لئے یا راہ حق کے مجاہدات سے بچنے کے لئے ہوتا ہے اس میں بہت کم خیر ہوتی ہے۔ نفس کی بات جس کو ہم حدیث نفس کہتے ہیں وہ بھی تو خیال ہی ہوتا ہے، حدیث نفس میں یہی ہوتا ہے کہ نفس کی خواہشات سامنے آتی ہیں، اسی طرف انسان کا ذہن جاتا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ دل میں خیال آتا ہے اور دماغ سے ہم اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ خیالات کی دنیا بھی ایک دنیا ہے اور اس کے ذریعے سے اچھے کام بھی ہو سکتے ہیں اور غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں۔
سوال نمبر24:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت اقدس کی خدمت میں دو سوال عرض ہیں۔
1: بعض دفعہ نا سمجھی میں اگر اپنے شیخ کے مزاج یا تصوف کے اصول کے خلاف کوئی کام ہو جائے اور خواب میں اس کی تنبیہ ہو جائے تو کیا پھر بھی اس غلطی کا بیان کرنا ضروری ہے؟
جواب:
شیخ کو وہ ساری باتیں بتانی ضروری ہوتی ہیں جو اصلاح سے متعلق ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے خواب سے جو مطلب لیا ہے وہ صحیح ہے یا غلط، اس کا پتا آپ نہیں لگا سکتے، اس کی نشاندہی شیخ ہی کر سکتا ہے۔ کہتے ہیں: ”رَاْیُ الْعَلِیْلِ عَلِیْلٌ“ بیمار کی رائے بھی بیمار ہوتی ہے۔ لہذا عین ممکن ہے کہ نفس کے چنگل میں پھنسا ہوا آدمی خواب کی تعبیر بھی نفس کے مطابق ہی لے لے۔ اس وجہ سے شیخ کو بتانا ضروری ہے۔ عین ممکن ہے کہ شیخ وہی بات کر لے جو آپ سمجھ رہے ہوں اس سے تائید ہو جائے گی اور اگر تائید نہ ہوئی تو کوئی تبدیلی تبدیلی ہو جائے گی، دونوں صورتوں میں آپ کا فائدہ ہے، بہر حال بتانا چاہیے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب میں ٹھیک ہو جاؤں گا پھر شیخ کو بتاؤں گا۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے اور بہت عام غلطی ہے۔ میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ یہی کام آپ جسمانی بیماری میں بھی کیا کریں، ڈاکٹر کے پاس تب جایا کریں جب آپ کی بیماری ٹھیک ہو جائے، پھر ان کو سمجھ آتی ہے کہ وہ کیا غلطی کر رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ گناہ ہو گیا، توبہ بھی ہو گئی اور اس گناہ سے حفاظت بھی ہو گئی۔ کیا اب شیخ کو بتانا چاہیے یا نہیں بتانا چاہیے۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ بتانا چاہیے۔ اس کی وجہ ہے کہ توبہ سے وہ گناہ تو معاف ہو گیا لیکن اس کے اثرات آپ کے اوپر ہو سکتے ہیں۔ آپ یہ بات نہیں معلوم کر سکتے کہ آپ پر اثرات ہیں یا نہیں، لیکن شیخ کو پتا چل سکتا ہے، وہ آپ کو بتائے گا کہ آپ کے اوپر اس گناہ کے اثرات ہیں یا نہیں اور اس کے مطابق آپ کو آگے چلائے گا۔
سوال نمبر25:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت والا مرشدی و مولائی کی خدمت اقدس میں رہنمائی و ہدایت کے لئے سوال عرض ہے۔ ایک صاحب اور ان کی اہلیہ کی طرف سے ایک سوال آیا۔ کہتے ہیں ہماری اور ہماری اہلیہ کی بیعت ایک عرب شیخ سے ہے جن کا تعلق شاذلی سلسلہ سے ہے۔ وہ بیرون ملک میں ہوتے ہیں کبھی کبھار ادھر آتے ہیں تو ان کی عمومی مجلس میں ہم شریک ہو جاتے ہیں۔ اہلیہ مستورات کی مجلس میں شریک ہوتی ہیں اور میں مسجد میں آ جاتا ہوں۔ سال میں ایک دو دفعہ ان کی زیارت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا، وٹس ایپ، ٹیکسٹ میسج، کال یا ای میل وغیرہ کسی طریقے سے ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوتا۔ ان کا نمبر ہی نہیں دیا جاتا۔ البتہ کچھ حضرات ایک ویب سائٹ چلاتے ہیں وہ جوابات دیتے رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر ہم کسی اور سے رہنمائی لے لیں تو کیا یہ ہمارے شیخِ بیعت کی بے ادبی تو نہیں ہو گی۔
جواب:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ انتہائی نازک سوال ہے۔ جواب دینے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ میں تصوف کے چند متعین اصولوں کو سامنے رکھ کر اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
میرے نزدیک تصوف اصلاح کے لئے ہے۔ اصلاح نفس، اصلاح قلب اور اصلاح عقل کے لئے تصوف سے کام لیا جاتا ہے۔ اصلاح ایک فن ہے، یہ محض برکت نہیں ہے۔ اگر محض برکت کی بات ہوتی تو دعا سے بڑی برکت والی اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔ پھر تو آدمی دعا کر کے فارغ ہو جائے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ صرف دعا سے اصلاح نہیں ہوتی، بلکہ اس میں کچھ اور چیزوں کی ضرورت ہے۔ اور وہ چیزیں ہیں، شیخ کی رہنمائی میں علاج اور شیخ سے مسلسل رابطہ۔
عموماً ایسا ہوتا ہے کہ بعض مشائخ کا حلقہ کافی وسیع ہو جاتا ہے، اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ سال میں ایک دو دفعہ ہی ان سے ملاقات ہو سکتی ہے وہ بھی اجتماعی طور پر نہ کہ انفرادی ملاقات۔ اور اصلاح کے لئے اتنی ملاقات کافی نہیں ہے، اگر کافی ہے تو پھر ڈاکٹری کے شعبہ میں ایسا کریں کہ کسی ڈاکٹر کے لیکچر میں سال میں ایک دو بار بیٹھ جایا کریں، کیا اس سے علاج ہو جائے گا؟ ایسا ممکن نہیں ہے۔
اب اس بات پہ کچھ غور کر لیتے ہیں کہ شیخِ بیعت کے ہوتے ہوئے کسی اور سے اصلاح کروانے میں پہلے شیخ کی بے ادبی تو نہیں؟ جہاں تک ادب کا تعلق ہے اس بارے میں یہ عرض ہے کہ شیخ کا ادب بھی ضروری ہے اور طریق کا ادب بھی ضروری ہے۔ کیونکہ طریق بنیادی اصلاح کے لئے ہے۔ اگر آپ طریق کا ادب کرتے ہیں تو اس میں یہ ہو گا کہ آپ کو اپنے شیخ کی غیر موجودگی میں کم از کم شیخ تعلیم تو ہر صورت میں چاہیے۔ جس کا آپ کے ساتھ رابطہ ہو سکتا ہو۔ اس میں اپنے شیخِ بیعت کا ادب اس طرح کر لیں کہ اگر شیخ تعلیم سے فائدہ ہو رہا ہے تو اس کو اپنے شیخ کا فیض سمجھیں اور سمجھیں کہ اللہ پاک نے اس شیخ کی برکت سے مجھے یہ موقع عطا فرما دیا ہے کہ مجھے شیخ تعلیم مل گیا اور میری اس کے ذریعے اصلاح ہو رہی ہے۔ اگر یہ نیت ہو تو کسی اور سے اصلاح کروانے میں اپنے شیخ تعلیم کی بے ادبی نہیں ہو گی آپ اپنے پرانے شیخ سے لا تعلق بھی نہیں ہوں گے اور آپ کا علاج بھی ہو جائے گا۔
بیعت ضروریاتِ اصلاح میں سے نہیں ہے بلکہ برکات اصلاح میں سے ہے۔ اس صورت میں بیعت نہ کرے لیکن شیخ تعلیم کے ساتھ ایسے ہی تعلق رکھے جیسے بیعت والے شیخ کے ساتھ کیا جاتا ہے، کیونکہ اس وقت وہ آپ کے لئے شیخ تعلیم ہے۔ شیخ تعلیم ایک ہی ہوتا ہے اس لئے کئی لوگوں کے ساتھ تربیت کا تعلق نہ رکھے۔ اس میں یہ بات دیکھے کہ جن سے رابطہ ہو سکتا ہو جن سے فائدہ ہو سکتا ہو ان سے ایسے ہی رابطہ رکھے جیسے اپنے شیخ کے ساتھ رکھتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اپنے پرانے شیخ کے ساتھ عقیدت کا تعلق بر قرار رکھے، محبت کا تعلق بر قرار رکھے ان کے لئے دعائیں کرتا رہے اور دعائیں لیتا رہے، تربیت شیخِ تعلیم سے کرواتا رہے۔ اگر یہ طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس میں نہ کوئی بے ادبی ہے نہ کوئی خیانت ہے۔ خیانت اس لئے نہیں ہوئی کہ آپ نے اپنی ضرورت کے مطابق کام کیا ہے، کیونکہ آپ کی ضرورت ہے، آپ کی مجبوری ہے، اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو جس مقصد کے لئے آپ نے بیعت کی تھی وہ مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ یہ دو باتیں ذہن میں رکھیں تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
سوال نمبر26:
اگر کسی اور اللہ والے شیخ سے رہنمائی لے تو کیا اپنے پہلے شیخ کو اطلاع دینی پڑے گی کہ ہم نے ایسا کیا یا نئی بیعت کئے بغیر بھی کسی سے رہنمائی لے سکتے ہیں؟
جواب:
یہ بتانا اس وقت مفید ہو گا جب پہلا شیخ اس دوسرے شیخِ تعلیم کو جانتا ہو گا، اگر نہ جانتا ہو تو پھر بتانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس سے خواہ مخواہ کا تردد ہو گا۔ آپ شیخِ تعلیم سے اپنی اصلاح کرواتے رہیں اور اپنے شیخ کے ساتھ عقیدت بھی برقرار رکھیں۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا نہ خیانت ہے نہ بے ادبی ہے اور نہ ضرورت سے غفلت ہے۔ تینوں باتیں ایک ہی جگہ اکٹھی ہو جائیں گی۔
سوال نمبر27:
السلام علیکم۔ میرا سوال سلوک سے متعلق ہے۔ سلوک میں اپنے مختلف احوال مختلف موقعوں پر مربی کو بتانے کے بعد سالک نے دیکھا کہ وہ جن احوال کو اچھا سمجھتا تھا ان پر ڈانٹ پڑی ہے اور جن کو برا سمجھتا تھا ان پہ تسلی ملی ہے۔ اس سے سالک اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرا اچھے اور برے کا تعین کرنے کا پیمانہ خراب ہے۔ اس سے سالک کا اپنی عقل اور سمجھ پر سے اعتماد اٹھ گیا، اب اس کو شیطان اور اپنے نفس سے خطرہ محسوس ہونے لگا کہ یہ دونوں خراب ہیں میں ان کے پاس رہ کر کہیں محروم نہ رہ جاؤں اس حالت میں دل فوراً مربی کی طرف بھاگتا ہے کہ وہی اللہ کی طرف رہنمائی اور تحفظ کا ذریعہ ہیں۔ اب سالک اللہ کے فضل و کرم سے مربی کی رہنمائی کے سایہ میں خود کو محفوظ پاتا ہے کہ میری حالت کتنی ہی بگڑی ہو مگر مربی مجھے اکیلا نہیں چھوڑے گا بلکہ ان شاء اللہ ایک نہ ایک دن مجھے اس حالت تک پہنچا ہی آئے گا جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔
جیسے ایک بزرگ نے اپنے مرید کے امتحان کے لئے اس کے اوپر کوڑا پھینکوایا تھا پہلی بار اس کا رد عمل ویسا نہیں تھا جیسا ہونا چاہیے تھا، لیکن اس کے شیخ نے اسے اس حالت پر چھوڑا نہیں بلکہ اس مقام پر پہنچایا جس پر اسے پہنچنا تھا۔ اس طرح سالک کو بالکل تسلی ہو جاتی ہے اور وہ اپنا سب کچھ اپنے مربی کے حوالہ کرتا ہے۔ اس حالت پر میرے ذہن میں یہ سوال ہے کہ سب کچھ مربی کے حوالے کر دینا کیا درست ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مربی پہ سب کچھ اس لئے چھوڑ رہا ہے کہ اپنی ذمہ داری سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔
جواب:
یہاں دو چیزیں ہیں دونوں کو درست طریقے سے سمجھنا اور عمل کرنا ہو گا۔ جو کام سالک نے خود کرنا ہے وہ شیخ پہ نہ چھوڑے اور جو شیخ کا ہے وہ خود نہ کرے۔ اس پہ غور کرنے سے ساری بات سمجھ میں آ جائے گی۔ یہ بالکل ایسی بات ہے کہ آپ سبب اختیار کر لیں اور دعا مسبب الاسباب سے مانگیں، کیونکہ اسباب میں جان ڈالنے والا اللہ ہے اور اس کا حکم ہے کہ اسباب اختیار کرو۔ اس لئے سبب خود اختیار کریں، اور دعا اللہ سے مانگیں۔ نہ تو اللہ کا حکم ٹوٹے اور نہ ہی اللہ پاک سے غفلت ہو۔ یہ دونوں کام ہونے چاہئیں۔
اگر کسی کو مربی پر اتنا اعتماد ہو گیا ہے کہ وہ سوچتا ہے میں سب کچھ اب مربی کے حوالے کرتا ہوں تو الحمد للہ یہ بڑی دولت ہے۔ تجربہ یہ کہتا ہے کہ جس سالک کو جتنا زیادہ اعتماد مربی پہ ہو گا اس کی اصلاح اتنی جلدی ہو گی۔ علاج بتانا مربی کا کام ہے اسے مکمل طور پر مربی کے حوالہ کر دے اور اس علاج پر عمل کرنا خود سالک کی ذمہ داری ہے، اس لئے اپنی ذمہ داری سے ذرا بھی غافل نہ ہو۔ اس طریقے پر عمل کرے تو ان شاء اللہ خیر ہی خیر ہے۔
سوال نمبر28:
السلام علیکم حضرت! چھوٹے بیٹے کے پاس زیادہ دیر بیٹھوں یا رات کو اسے سلانے لگوں تو مجھے اچانک غصہ آ جاتا ہے۔ رات بھی ایسا ہوا تھا۔ جب اسے سلا رہا تھا تو اچانک غصہ آیا، میں نے اس کو غصہ میں آ کے مارا جس پہ بعد میں مجھے ندامت و افسوس اور دکھ ہوا، میں نے تہجد میں صلوۃ التوبہ پڑھ لی تھی اور کافی دیر تک استغفار بھی کیا لیکن دل ابھی تک بوجھل اور نادم ہے۔ میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اللہ پاک آپ کو عقل نصیب فرما دے یہ عقل کی کمی کی بات ہے۔ آپ کے مارنے سے اس کو کیا فائدہ ہوا؟ اگر کوئی فائدہ ہوا ہے پھر تو آپ کا مارنا ٹھیک ہو سکتا ہے، لیکن اگر کوئی فائدہ نہیں ہوا تو آپ نے غلط بات کی ہے۔ بہرحال جس غلطی سے تجربہ حاصل ہو اور آئندہ کے لئے وہ نہ دہرائی جائے تو وہ غلطی غلطی نہیں رہتی۔ اب آپ اس سے تجربہ حاصل کر لیں اور آئندہ کے لئے دھیان رکھیں کہ جس کام کا فائدہ نہ ہو اسے نہ کریں۔
سوال نمبر29:
السلام علیکم میرے عزیز و محترم مرشدی دامت برکاتھم! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں ان شاء اللہ۔ حضرت ایک دو دن سے مجھے نور کے چھوٹے چھوٹے دھبے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں کبھی لال رنگ کے، کبھی سفید رنگ کے اور کبھی نیلے رنگ کے بھی نظر آتے ہیں۔
جواب:
ان چیزوں کی طرف توجہ نہ دیا کریں یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔
سوال نمبر30:
حضرت جی آپ کا ایک ملفوظ پڑھا جس میں آپ نے لکھا ہے کہ انسان کے اندر ایک حِس ہوتا ہے جب آدمی سے غلط بات ہو جائے تو اس کے لطائف پھڑکنے لگتے ہیں۔ حضرت جی میرے ساتھ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جب غصہ آئے یا کوئی اور بات ہو جائے تو لگتا ہے کوئی چیز ہے جو میرے اندر کافی زور زور سے ہلنے لگ گئی ہے جیسے دل کی دھڑکن ایک دم سے تیز ہو جاتی ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
یہ ایک طبعی چیز ہے یہ روحانی چیز نہیں ہے۔ جب انسان غصہ میں ہوتا ہے تو اس کا دل تیزی سے دھڑکتا ہے اور خون بھی جوش مارنے لگتا ہے چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ اس حالت کا روحانیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ غصہ میں یہ آثار ایک کافر کو بھی پیش آتے ہیں اور مسلمان کو بھی اسی طرح پیش آتے ہیں۔ سب کے ساتھ یہ معاملہ ایک طرح ہی ہے۔
بعض لوگوں کے لطائف بالکل باریک ہوتے ہیں محسوس نہیں ہوتے لیکن جس وقت کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو غلطی کی وجہ سے وہ تھوڑی دیر کے لئے کثیف ہو جاتے ہیں اور محسوس ہونے لگتے ہیں۔
سوال نمبر31:
کسی نے سوال کیا: حضرت معمولات کرنے کو دل نہیں چاہتا، ذکر بھی جلدی میں کرتا ہوں، نماز بھی بس ایسے ہی پڑھتا ہوں۔ بالکل دل نہیں لگ رہا حالانکہ میں دو مہینے مصروف بھی نہیں ہوں۔
اس پر میں نے جواب دیا کہ میرا آپ کو جواب دینے کو دل نہیں کرتا۔ دل نہیں چاہتا کہ آپ کو جواب دوں۔ آپ بتائیں کیا کروں؟
اس پر ان کا جواب آیا: حضرت معاف کر دیجئے اب سے ان شاء اللہ پوری کوشش کروں گا۔
جواب:
اللہ کا شکر ہے کہ انہیں عقل تو آ گئی، اب اسے بر قرار رکھنا ہے ایسا نہ ہو کہ پھر کبھی آپ کی عقل یہی بات سوچنے لگ جائے، اور آپ کے سب اعمال کو صفر سے ضرب ہو جائے۔ یہ بات انسان کو سمجھنی چاہیے کہ جو چیزیں انسان کو دوائی کے طور پہ دی جاتی ہیں انہیں کھانا خود ہوتا ہے۔ ڈاکٹر آپ کے لئے دوائی نہیں کھا سکتا اور کوئی دوائی نہیں کھا سکتا وہ آپ نے خود کھانی ہے۔ انسان کو اس سلسلے میں عقل سے کام لینا ہوتا ہے۔ عقل کی بات یہ ہے کہ فائدہ و نقصان اپنا ہے۔ ایک آدمی اپنی خیر نہیں چاہتا تو اس کے ساتھ کیا کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے ڈاکٹر عمر صاحب ذرا جذباتی ہیں۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ اگر آپ کے پاس ایسا مریض آئے جس نے دوائی نہ کھائی ہو تو انہوں نے کہا کہ میں اسے ایک کلو مٹھائی دوں گا کہ جاؤ شوق سے یہ کھاؤ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کی بات بالکل صحیح ہے۔ اب ایسے آدمی کے ساتھ کیا کیا جا سکتا ہے جو خود اپنا علاج نہیں کرنا۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ جو آدمی خود کشی کرنا چاہتا ہے اس کو نہیں بچایا جا سکتا۔ اس کے ساتھ آپ کیا کریں گے، کب تک پکڑیں گے، جب بھی اسے موقعہ ملے گا وہ اپنے آپ کو مار دے گا۔ انسان کو ان چیزوں میں عقل سے کام لینا چاہیے۔
سوال نمبر32:
ایک صاحب نے مجھے کچھ آڈیوز بھیجی ہیں جن میں سے ایک آڈیو میں یہ بات کی ہے کہ آج کل کچھ لوگ ایسے ہیں جو خواتین کو یا گھر کے کسی فرد کو ٹیلی فون کر کے کہتے ہیں کہ ہم فوج کی طرف سے بات کر رہے ہیں، آپ سے کچھ معلومات لینی ہیں۔ معلومات کے نام پہ ساری تفصیلات وغیرہ لے لیتے ہیں پھر وہ معلومات ڈاکوؤں کے پاس چلی جاتی ہیں جس کی بنا پر ان کے لئے ڈاکہ ڈالنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی معلومات بالکل کسی کو بھی نہ دیا کریں چاہے وہ کوئی بھی ہو ان کو کہہ دیں کہ قانوناً یہ درست ہی نہیں ہے، آپ مجھ سے ٹیلی فون پر یہ معلومات حاصل ہی نہیں کر سکتے۔
جواب:
یہ بات صحیح ہے۔ اس طرح فون پر اپنی معلومات کسی کو نہیں دینی چاہئیں، اگر کوئی مانگے تو کہہ دیں کہ میرے پاس آؤ، اپنی شناخت کراؤ تو ہم آپ کو معلومات دے دیں گے، بغیر شناخت کے کسی کو اپنی معلومات دینے سے نقصان کا خطرہ ہے۔
سوال نمبر33:
حضرت جی گھر کے اندر مسائل کی تعلیم اور فضائل کی تعلیم دونوں ساتھ ساتھ چلتی رہنی چاہئیں؟
جواب:
فضائل کی تعلیم تو خیر جاری رہنی چاہیے، مسائل کی تعلیم دو طریقے سے ہو سکتی ہے۔ یا تو ہفتہ میں کوئی ایک دن مختص کر لیں۔ اس دن ذرا تفصیل سے تعلیم ہو۔ کیونکہ مسائل میں پورا سمجھانا ہوتا ہے۔ مسائل میں ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہوتا کہ آج ایک بات سمجھائی، کل دوسری، پرسوں تیسری، اس سے نقصان کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے ہفتہ میں ایک دن مختص کریں، اور اس وقت میں پورا مسئلہ سمجھا دیں۔ اس طریقہ پر عمل کریں تو امید ہے فائدہ ہو گا
سوال نمبر34:
حضرت جی! کسی کو کوئی عہد و منصب سپرد کرنے کے لئے کیا چیز دیکھنی چاہیے، اہلیت یا دین داری؟ مثلاً کسی فوج کا سپہ سالار بے دین بھی ہے لیکن اہل ہے تو وہ اس دوسرے دین دار سے تو بہتر ہو گا جس میں اہلیت نہیں ہے، کیونکہ کم از کم اِس میں اُس کام کی اہلیت تو ہے۔
جواب:
اس کا انحصار کام کی نوعیت پہ ہے، کام کو دیکھ کر اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ اس کام کے لئے اہلیت کو ترجیح دی جائے یا دینداری کو۔ اگر کوئی ڈاکٹر ہے یا انجینئر ہے یا ڈرائیور ہے، اس کو رکھتے ہوئے تو آپ اہلیت کو ترجیح دیں گے۔ لیکن اگر وہ ملک کا فیصلہ کرنے والا ہے تو اتنی بڑی چیز آپ ایک بے دین آدمی کے سپرد نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا کریں گے تو خطرہ ہے کہ وہ آپ کے سارے ملک کو بے دینوں کے حوالے کر دے گا۔ یہاں وہ اصول نہیں چلے گا۔ اس لئے ایسے معاملہ میں دینداروں کو چننا چاہیے۔ اگر سارے بے دین ہوں تو ان میں جو سب سے کم بے دین ہے اس کو چن لیں۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہودی ایجنٹ کو تو بالکل اس فہرست نکال دیں، اسے تو بالکل ووٹ نہیں دینا چاہیے۔ باقیوں میں دیکھ لیں کہ کون ایسا ہے جس میں سب سے کم خرابی ہے، اس کو ووٹ دے دیں۔
سوال نمبر35:
حضرت جو لوگ نفیساتی طور پر بیمار ہوتے ہیں کیا انہیں مشائخ کی طرف بھیجا جا سکتا ہے؟
جواب:
جی ہاں! ایسے لوگوں کو مشائخ کے پاس لے جا سکتے ہیں لیکن صرف ان مشائخ کی طرف جو ان چیزوں کو جانتے ہوں اور ان کے بارے میں کافی حد تک معلومات رکھتے ہوں اور فرق کر سکتے ہوں کہ ان کا مسئلہ نفسیاتی ہے یا کوئی اور ہے۔
سوال نمبر36:
حضرت کسی کو چلانے کے لئے آپ کا بنیادی ذکر یہ بتائے بغیر دیا جا سکتا ہے کہ یہ ذکر حضرت سید شبیر احمد صاحب کا بتایا ہوا ہے؟
جواب:
میں نے یہ اجازت سب کو دی ہوئی ہے کہ ہمارا ابتدائی چالیس دن والا معمول آپ جس کو بھی دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔ کوئی ہماری ویب سائٹ پڑھ کر خود شروع کرنا چاہے تو ایسا بھی کر سکتا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس میں کوئی نقصان والی بات نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے بنیاد بنتی ہے اور بن کر مضبوط ہوتی ہے۔ اگر کسی نے اس ذکر کے ذریعے اپنی بنیاد بنا لی اور کسی شیخ سے اپنی اصلاح کروا لی تو ہمیں اس پہ کیا اعتراض ہے! ہمیں اس پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مقصد تو اس کی بنیاد بنانا ہے، بنیاد بن گئی اور ہمارے پاس ہی آ گیا تو ٹھیک ہے ہم بھی خدمت کر لیں گے، اگر کسی اور کے پاس چلا گیا تو بھی ٹھیک ہے، وہاں سے اس کی اصلاح ہو جائے گی۔ لہٰذا یہ ذکر کوئی بھی کر سکتا ہے اور آگے کسی کو بھی دے سکتا ہے اور یہ ذکر مردوں اور اور خواتین دونوں میں برابر ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ