اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْد بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
السلام علیکم شاہ صاحب۔ اللہ آپ کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پہ قائم رکھیں آمین۔ جب سے آپ سے بیعت ہوئی ہوں تب سے نماز کی پابند ہوں وقت پر نماز پڑھنا پکی عادت بن چکی ہے۔ عملیات بھی جاری ہیں لیکن تہجد نہیں پڑھ سکتی۔ ازراہِ کرم میرے لئے دعا فرمائیں۔
جواب:
سب سے پہلے تو میں آپ سے یہ درخواست کروں گا کہ آپ آئندہ مجھے رومن خط میں اردو نہ لکھیں یہ پڑھنا میرے لئے بہت مشکل ہوتا ہے، رومن لکھنے میں لوگوں کے اپنے اپنے انداز ہوتے ہیں، کچھ لوگ درمیان سے حروف کو حذف کرکے الفاظ کے مخفف بنا لیتے ہیں، کسی کو اس کی سمجھ آتی ہے کسی کو نہیں آتی۔ اس لئے جس کو انگریزی آتی ہو تو وہ انگریزی میں لکھ لیا کرے، تاکہ میں کم از کم اس کو پڑھ تو سکوں یا پھر اردو رسم الخط میں لکھا کریں۔ اگر انگریزی رسم الخط میں لکھنا ہے تو پھر صحیح انگریزی لکھیں، رومن اردو نہ لکھیں اس میں میرے لئے بھی آسانی ہے آپ کے لئے بھی آسانی ہے۔
بہرحال میں دعا کرتا ہوں اللہ جل شانہ آپ کے مسائل کو حل فرما دیں۔
یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کو اللہ پاک نے نماز پڑھنے پہ استقامت عطا فرمائی۔ اللہ پاک تہجد پڑھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ اس کا آسان نسخہ بتا دیتا ہوں۔ رمضان شریف آ رہا ہے اس ماہ مبارک میں تہجد پڑھنا بہت آسان ہو جاتا ہے کیونکہ سحری کے لئے تو انسان اٹھتا ہی ہے، صرف اتنا کریں کہ مقررہ وقت سے دس پندرہ منٹ پہلے اٹھ جائیں، مثلاً کسی کو دو بجے اٹھنا ہے تو پونے دو بجے اٹھ جائے، اور اس وقت جلدی جلدی وضو کر کے چھ، آٹھ رکعات پڑھ کے دعا کریں اور اس کے بعد سحری میں مشغول ہو جائیں۔ اس سے آپ کو ایک مہینے کی مشق تو ہو ہی جائے گی، اس کے بعد کوشش کریں کہ اس مشق کو باقی رکھیں۔ امید ہے اللہ پاک نصیب فرما دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم۔ مراقبہ حقیقت قرآن کے بارے میں سوال ہے کہ یہ مراقبہ قرآن پاک کی تلاوت کے دوران کرنا ہے یا تلاوت کے بغیر کرنا ہے؟ فون پر ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا تھا جبکہ ”طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی جدید ترتیب“ میں تلاوت کے دوران کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس بارے میں رہنمائی کر دیں۔
جواب:
ماشاء اللہ بہت اچھا سوال ہے۔ اس بارے میں عرض ہے کہ یہ مراقبہ تلاوت کے دوران نہیں کرنا، ایسے وقت میں کرنا ہے جب تلاوت نہ کر رہے ہوں۔ لیکن یہ تب تک ہے جب تک یہ مراقبہ پکا نہ ہو جائے، جب سالک یہ مراقبہ سیکھ لے اور پکا ہو جائے پھر تلاوت کے دوران استعمال ہو گا۔
در اصل مراقبہ ہیئت وحدانی پہ کیا جاتا ہے۔ ہیئت وحدانی سے مراد یہ ہے کہ پورے جسم پہ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا تصور یہ کرنا ہے کہ اللہ جل شانہ جیسے کہ اس کی شان ہے، اس کی طرف سے فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر فیض آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے دل پر فیض آ رہا ہے اور وہاں سے میری ہیئت وحدانی پر (یعنی پورے جسم پر) فیض آ رہا ہے۔ اس تفصیل کے مطابق جب مراقبۂ حقیقت قرآن کرتے ہوئے یہ تصور کیا جائے گا کہ تلاوت قرآن پاک سے جو فیض متعلق ہے وہ میری طرف آ رہا ہے۔ چونکہ اللہ پاک کی کئی شانیں ہیں، ہر وقت اس کی ایک نئی شان ہوتی ہے تو تلاوت قرآن سے متعلق اپنی شان ہے۔ قرآن پاک اللہ کا کلام ہے، اس کے ساتھ متعلق فیض بھی اللہ پاک ہی دیتا ہے تو یہ فیض اللہ پاک کی طرف سے آئے گا۔ اس کے پہنچانے والے آپ ﷺ ہیں تو سب سے پہلے فیض آپ ﷺ کی طرف آئے گا، پھر آپ ﷺ کے واسطے سے شیخ کی طرف آئے گا کیونکہ شیخ فوری ذریعہ اور دروازہ ہے اور شیخ سے آپ کی طرف آئے گا۔
خلاصہ یہ کہ مراقبۂ حقیقت قرآن میں فیض والے حصہ کا تصور باقی مراقبات کی طرح ہی ہو گا۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن اس کا ادراک حاصل کرنا ہے، کم از کم قلبی طور پر اس کا ادراک ہو کہ کیا ہو رہا ہے۔
فی الحال تو آپ یہ مراقبہ بغیر تلاوت کے ہی کریں گے، لیکن بعد میں جس وقت یہ پکا ہو جائے گا پھر تلاوت قرآن میں استعمال ہو گا۔ جب آپ تلاوت قرآن کریں گے تو آپ کو یہی فیض آتا ہوا محسوس ہو گا۔
ہدایت:
ایک صاحب نے اپنی آئی ڈی پہ اپنی تصویر لگائی ہوئی تھی۔ آج کل یہ بہت بڑا مرض ہے، کیا کیا جائے ہر جگہ یہ مصیبت ہے۔ حالانکہ یہ ایک بے لذت گناہ ہے، ایک فضول اور خواہ مخواہ کا کام ہے، اس سے کیا ملتا ہے۔ آپ اپنی آئی ڈی پہ اپنی تصویر لگا دیں، اپنے آپ کو گناہ گار کریں، جس کے پاس آپ کا وٹس ایپ جا رہا ہے وہ بھی گناہگار ہو تو خواہ مخواہ ایک گناہ بے لذت خود بھی کیا اور دوسروں کو بھی مبتلا کیا۔ بہرحال میں نے ان صاحب سے کہا کہ آپ اپنی آئی ڈی سے تصویر ہٹا دیں، بلاوجہ گناہگار ہو رہے ہیں۔ شبہ سے بچنا سالکین کے لئے ضروری ہے اور ڈیجیٹل تصویر کے جواز میں اختلاف ہے، جب اختلاف آ گیا تو شبہ پڑ گیا، لہٰذا شبہ سے بچنا سالکین کے لئے ضروری ہے۔ سالک وہ ہوتا ہے جو راستہ پہ آنا چاہتا ہے، جو راستہ پہ آنا چاہتا ہے وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بھی خیال رکھتا ہے، اس کا معاملہ عام لوگوں کی طرح نہیں ہوتا، عام لوگوں کے لئے جو گنجائش ہے وہ سالک کے لئے نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سالک آنا چاہتا ہے، کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کو تو دیا جا رہا ہے، اس لئے اس کا معاملہ خصوصی ہوتا ہے۔
حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تصوف میں آنے والے کا پہلا قدم مستحبات کی رعایت ہوتی ہے، وہ مستحبات کی رعایت رکھنے لگتا ہے۔ آج کل مستحبات کا خیال بہت کم رکھا جاتا ہے۔ کم از کم علماء میں یہ بات بہت زیادہ پھیل گئی ہے۔ واللہ اعلم مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے کن علماء سے یہ بات سیکھی ہے، علماء میں یہ بات زیادہ پائی جاتی ہے کہ وہ مستحبات کی رعایت نہیں کرتے، کہتے ہیں بس فرائض پورے ہو جائیں واجبات پورے ہو جائیں، یہی کافی ہے۔ حالانکہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سو رکعت نفلیں ہر رات میں پڑھا کرتے تھے، حضرت امام ابو حنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ پوری رات نفلوں میں کھڑے رہتے تھے۔ کیا یہ نوافل پڑھنا ان پہ فرض تھا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ انہیں تیس ہزار دینار ملے، انہوں وہ ساری رقم چلتے چلتے راستے میں ہی خیرات کر دی تھی۔ کیا ان کے اوپر فرض تھا؟ یہ نوافل کیا غیر علماء کے لئے ہی ہوتے ہیں؟ آج کل یہ مرض بہت عام ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس مرض سے نجات عطا فرمائے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جو علماء کے سرخیل ہیں، انہوں نے فرمایا کہ جو شخص تصوف میں آجاتا ہے اس کا پہلا قدم مستحبات کی رعایت ہوتی ہے کہ وہ مستحبات کی رعایت کرنے لگتا ہے۔ میرے خیال میں علماء کی مستحبات سے لا پرواہی کی وجہ یہی ہے کہ آج کل علماء تصوف کی طرف نہیں آ رہے۔ اسی وجہ سے ان میں یہ نقصان آیا ہے اور دیکھا دیکھی یہ بات چل پڑی ہے۔ کیونکہ مستحبات کی رعایت تصوف کے ساتھ شروع ہوتی ہے لہٰذا جو تصوف کی طرف نہیں آئیں گے ان کو یہ چیز نہیں ملے گی، ان کو اس کا خیال نہیں ہو گا۔ دیکھا دیکھی سب نے یہ کام شروع کر لیا اور سب اس طریقہ پہ چلنا شروع ہو گئے۔ حالانکہ مستحب کا مطلب ہی ”اللہ کا پسندیدہ کام“ ہے۔ جس کو اللہ کے ساتھ محبت ہو گی کیا وہ اللہ کا پسندیدہ کام چھوڑ سکتا ہے؟ مستحب امر بھی اللہ ہی کا حکم ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ فرض و واجب نہیں ہوتا، لیکن ہے تو اللہ ہی کا حکم۔
ایک رات آپ ﷺ بیدار ہوئے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ میں اپنے اللہ کے سامنے کیوں نہ کھڑا ہو جاؤں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلق مع اللہ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان کو اللہ کی طرف زیادہ طلب ہوتی ہے اور انسان کے اندر عاجزی آتی ہے۔ جتنا جتنا انسان کا علم بڑھتا جاتا ہے اتنا اتنا اپنے جہل کا یقین ہوتا جاتا ہے۔ ہم نے تو بزرگوں اور علماء سے یہی سنا ہے حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ برسوں پڑھتے پڑھاتے جو چیز سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم جہل مرکب سے جہل بسیط میں آ گئے ہیں، پہلے اپنے آپ کو جاہل نہیں مانتے تھے اب اپنے آپ کو جاہل مانتے ہیں۔ یہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ان چیزوں کا خیال رکھنا ہے۔
بہرحال میں ان صاحب کی بات عرض کر رہا تھا جنہوں اپنی وٹس ایپ کی آئی ڈی پہ اپنی تصویر لگائی ہوئی تھی۔ جب میں نے ان سے یہ ساری بات کہی تو انہوں نے فوراً اپنی تصویر ہٹا دی اور مجھے میسج میں لکھا، جزاك اللہ۔ میں نے کہا مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شریعت پر اس کی روح کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
اسی طرح ایک صاحب نے مجھے ویڈیو بھیجی تھی، میں ان سے کہا کہ مجھے ویڈیو نہ بھیجا کریں کیونکہ ویڈیو کے بارے میں اس قسم کی باتیں ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ انہوں نے بھی اس بات کو مان لیا۔ پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ویڈیو آگے بھیج سکتا ہوں؟ میں نے کہا کہ جو چیز مشتبہ ہو کم از کم اس میں دوسروں کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ کا شکر ہے انہوں نے بات مان لی۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم۔ حضرت جی ایک بات بہت تنگ کرتی رہتی ہے۔ مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ جب کسی وجہ سے ذہنی تناؤ پیدا ہو جائے اس وقت نفس کو کیسے قابو کرنا ہوتا ہے۔ میں ایسی صورت حال میں اکثر اوقات کسی کا غصہ کسی پہ نکال دیتی ہوں، ہر کسی سے تلخ لہجے میں بات کرتی ہوں، کسی سے بات کرنے کو دل نہیں کرتا نہ کسی کی بات سننے کو دل کرتا ہے۔ نفس کو کیسے دباؤں، میں اتنا کر سکتی ہوں کہ بلا ضرورت کسی سے بات ہی نہ کروں تاکہ کچھ غلط بولنے کی نوبت نہ آئے، مگر پھر گھر والے خود کوئی نہ کوئی بات کر دیتے ہیں اور مجھ سے پوچھنے لگ جاتے ہیں، جس کے جواب میں چڑچڑے پن سے بات کرتی ہوں یا بحث میں لگ جاتی ہوں، اس کے نتیجے میں دوسروں کی دل آزاری کی مرتکب ہو جاتی ہوں۔ اس سے بچنے کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ عقل بھی نفس کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے۔ ایسے موقع پر ہر حال میں صبر کرنے والی بات یاد نہیں رہتی۔ پریشانی پہ قابو نہیں رہ پاتا۔ بعد میں تکلیف ہوتی ہے کہ جب اللہ پاک اپنی قربت کے مواقع مجھے عطا فرما رہے ہیں تو میں ان سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا پا رہی۔ یہی وسوسہ آتا ہے کہ دیکھو تم اب بھی ویسی کی ویسی ہو جیسے پہلے تھی، وہی کرتی ہو جو دل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کو عین وقت پہ بھول جاتی ہو۔ آپ رہنمائی فرمائیں، مجھے یہی لگ رہا ہے یہ تو میرا اپنا مسئلہ ہے اس لئے اس نمبر پر ہی بھیجا ہے۔
جواب:
جی بالکل یہ آپ کا مسئلہ ہے، لیکن یہ مسئلہ صرف آپ کا نہیں ہے بلکہ یہ اور بہت سارے لوگوں کا ہو سکتا ہے۔ اس لئے میں اس کو عمومی مسئلہ سمجھ کر جواب دے رہا ہوں۔
شیطان ہر طرح وار کرتا ہے، کسی کو خوش کر کے وار کرتا ہے کہ تو بڑا اچھا ہے اور کسی کو مایوس کر کے وار کرتا ہے کہ تو تو کچھ بھی نہیں، تیرا تو کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ شیخِ کامل کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ سالک کو افراط و تفریط سے بچا کر اعتدال کی حالت میں رکھے۔ اس وقت آپ کی صورت حال یہ ہے کہ آپ پر شیطانی مایوسی کا وار کر رہا ہے اور آپ کے ذہن میں وسوسہ ڈال رہا ہے کہ تیری ترقی نہیں ہو رہی۔
میں آپ کو سمجھاتا ہوں کہ آپ کی ترقی ہوئی ہے یا نہیں اور ہوئی ہے تو کتنی ہوئی ہے۔ میرے خیال میں تو یقیناً آپ کی ترقی ہوئی ہے، اگر آپ کی ترقی نہ ہوئی ہوتی تو آپ کے اپنے بارے میں یہ خیالات نہ ہوتے کہ مجھے لوگوں کا خیال کرنا چاہیے، مجھے لوگوں کی پروا کرنی چاہیے، مجھے لوگوں کو تنگ نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کو یہ خیالات اسی وجہ سے آ رہے ہیں کہ آپ کی ترقی ہو رہی ہے، آپ نے کچھ سیکھا ہے تبھی آپ کو یہ خیال آیا ورنہ خود سے لوگوں کو کہاں اس طرح کے خیالات آتے ہیں۔ لوگ تو ظلم کرتے ہیں اور کہتے ہیں میں مظلوم ہوں۔ اگر کوئی جواب دیتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے زیادتی نہیں کی حالانکہ انہوں نے زیادتی کی ہوتی ہے۔ آپ کو اللہ پاک نے توفیق عطا فرما دی آپ کے دل میں یہ خیال آیا کہ مجھ سے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اب صرف اپنے آپ پر قابو کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں آپ یہ کریں کہ اول تو اپنی طرف سے کوئی بات نہ کریں، اگر کوئی بات کرے تو موقع اور ضرورت کے مطابق اسے جواب دیں اس سے زیادہ کوئی بات نہ کریں۔ اپنے آپ کو مفید کاموں میں مصروف رکھیں۔ اس کے علاوہ آپ کو جو ذہنی و اعصابی تناؤ ہوتا ہے اس کا علاج ایک تو یہ ہے کہ درود شریف پڑھ لیا کریں اس کی برکت سے رحمت آئے گی اور دل مطمئن ہو گا، دوسرا کام یہ کریں کہ اپنے دل کو یہ بات سمجھائیں کہ اس تکلیف سے مجھے فائدہ ہو رہا ہے۔ مثلاً اگر میں بوجھ اٹھا رہا ہوں، بوجھ تو محسوس ہو گا لیکن مجھے پتا ہے کہ مجھے اس پر اجرت ملے گی۔ جب یہ معلوم ہو کہ اس مشقت سے مجھے فائدہ ہو گا تو پھر بوجھ اٹھانا آسان ہو جاتا ہے۔ آپ کے مصائب و تکالیف پہ آپ کو چونکہ اجر ملے گا لہٰذا آپ کا یہ بوجھ کم ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ مزید توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم حضرت جی! الحمد للہ میرے مراقبہ کا ایک اور مہینہ اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ ذکر کچھ زیادہ محسوس نہیں ہوتا، توجہ میں بھی کمی رہی۔ نماز کے دوران مجھے لگتا ہے کہ فرشتے میرے ساتھ دعا کر رہے ہیں۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نماز میں توجہ نہ ہونے کی وجہ سے مجھ سے ناراض ہیں۔ میں آپ کے بیانات سنتی رہی ہوں جن سے مجھے بے حد حوصلہ ملتا ہے۔ سب سے زیادہ مجھے ذکر پسند ہے کیونکہ اس سے اللہ کے ساتھ تعلق کا احساس قائم رہتا ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ، اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ آپ آگے بڑھ رہی ہیں۔ پہلے ہی دن اس توجہ کا حاصل ہونا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے جو آپ کو آخری دن حاصل ہونے والی ہو۔ جب کوئی میڈیکل کالج میں داخلہ لیتا ہے تو کیا پہلے ہی لیکچر میں اس کو سب کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے؟ اگر ایسا ہو تو مجھے بھی ایسے ڈاکٹروں کے بارے میں بتا دیں جنہیں ایک ہی دن میں سارا میڈیکل کا علم مل گیا ہو ایسے ڈاکٹروں سے ملاقات کرنا تو بہت ضروری ہے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ ماشاء اللہ ترقی ہو رہی ہوتی ہے۔ جتنی توجہ حاصل ہے اس پر اللہ پاک کا شکر ادا کریں اور مزید حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرما دے۔ باقی جو آپ کو کیفیات محسوس ہو رہی ہیں کہ فرشتے آپ کے ساتھ دعا کر رہے ہیں، یہ صرف کیفیت نہیں، یہ تو ایک حقیقت ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، البتہ ہمیں اس احساس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمیں محسوس ہو یا نہ ہو فرشتے ہمارے ساتھ ہوتے ہی ہیں۔
آپ نے کہا کہ میں مایوس ہو رہی ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ مجھ سے ناراض ہے۔ یہ بہت غلط سوچ ہے، اللہ تعالیٰ بہت زیادہ کریم ہیں، اللہ پاک سے اچھی امیدیں رکھنی چاہئیں۔ اپنے آپ کو گندا سمجھ کر اللہ پاک سے اچھی امید رکھنی چاہیے۔ اچھی امید کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنے آپ کو اچھا سمجھنے لگیں۔ یہ بھی ایک غلطی ہے اور اپنے آپ کو غلط سمجھ کر اللہ پاک کو ناراض سمجھنا یہ بھی غلطی ہے۔ دونوں باتوں میں اعتدال ہونا چاہیے اور یہ سوچ رکھنی چاہیے کہ اللہ پاک تو ہیں ہی کریم، تبھی تو ہمیں معاف کرتے ہیں، تبھی تو ہم پھر رہے ہیں، تبھی تو ہم زندہ ہیں ورنہ اگر اللہ پاک ہمارے ساتھ حساب کرتے تو ہم ایک سیکنڈ بھی آرام سے نہ رہ سکتے۔ اللہ پاک تو بہت ہی رحیم و کریم ذات ہے۔ خود فرمایا:
﴿وَ یَعْفُوْ عَنْ کَثِیْر﴾ (الشوریٰ: 30)
ترجمہ: ”اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے“۔
لہٰذا اللہ جل شانہ تو بہت کریم ہیں ہاں ہم بہت گندے ہیں۔ ہمیں اس پر توبہ استغفار کرتے رہنا چاہیے۔ توبہ استغفار سے ماشاء اللہ ترقی ہوتی ہے۔
آپ نے بتایا کہ آپ ہمارے ساتھ ذکر کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ خواتین کو ہمارے ساتھ ذکر نہیں کرنا ہوتا، ہم ذکر بالجہر کرتے ہیں۔ البتہ اس ذکر کو آپ سن لیا کریں، اس کے سننے سے بھی آپ کو وہی فائدہ ہو گا جو مردوں کو کرنے سے ہوتا ہے۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی پیام سحر پر جو میسج گیا وہ غلطی سے بھیجا گیا، بالکل لاعلمی میں یہ کام ہوا۔ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے بتا دیا کریں کہ فلاں رقم صدقہ کی ہے تاکہ میں اس رقم کو مطلوبہ مد میں ڈال لیا کروں۔ میں نے بیٹے کے لئے آن لائن صدقہ کر کے مفتی صاحب کو بھیجنے کے لئے رسید کی تصویر لی، وہ تصویر غلطی سے گروپ میں چلی گئی۔ مجھے معلوم بھی تب ہوا جب آپ کی تنبیہ گروپ میں آئی۔ میرے شوہر کو یہ بات بالکل معلوم نہیں تھی۔
جواب:
میں نے وہ تنبیہ اسی لئے کی تھی کہ آپ سے غفلت ہوئی تھی۔ میں نے اسی غفلت پہ تنبیہ کی تھی۔ ایسی غفلت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ گاڑی چلا رہے ہوں، ہاتھ سٹیرنگ پر ہو تو اس میں غفلت کی گنجائش بالکل نہیں ہوتی، آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بس مجھ سے غلطی ہوئی۔ وہاں تھوڑی سی غفلت آپ کو دوسرے جہان کی سیر کرا سکتی ہے۔ لہٰذا ذمہ داری کا احساس کریں کہ جب کبھی آپ کے ہاتھ میں نازک چیز ہو تو اس وقت سوچ سمجھ کر کام کر لیا کریں۔
اس میں یہ بات بھی دھیان کرنے کی ہے کہ ایک گروپ کی چیز دوسرے گروپ میں کیسے گئی۔ آپ کا کوئی ذاتی مسئلہ بھی ہو سکتا تھا جس کا بعد میں عمر بھر آپ افسوس کرتیں۔ آپ کی کوئی ایسی بات گروپ میں چلی جاتی جو آپ کی بالکل ذاتی قسم کی بات ہوتی اور لوگوں کو پتا چل جاتا، تو کتنا مسئلہ ہوتا۔ لہٰذا جب بھی کسی گروپ میں کوئی چیز بھیجا کرو تو آنکھیں بند کر کے نہ بھیجا کرو آنکھیں کھلی رکھ کر بھیجا کرو تاکہ کوئی ایسی بات کسی اور جگہ نہ چلی جائے۔ اسی لئے میں نے تنبیہ کی تھی۔
سوال نمبر6:
حضرت کیا میں فلاں صاحب سے تعویذ لے کر پہن سکتا ہوں؟ تعویذ لینے سے ارادہ یہ ہے کہ پاکستان آتے ہوئے جادو و نظر سے حفاظت رہے۔
جواب:
ہاں، تعویذ لے سکتے ہیں، صرف اتنا خیال رکھیں کہ عامل صحیح ہو۔
سوال نمبر7:
میں سنگاپور میں رہتا ہوں لیکن میرے والدین کا تعلق جنوبی ہندوستان سے ہے۔ وہ پہلے طریقت سے تعلق رکھتے تھے لیکن بعد میں یہ تعلق منقطع ہو گیا۔ آپ کی ابتدائی نصیحت کے بعد سے میرا دل سکون میں ہے اور اب مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایسے صوفی بھی ہیں جو شریعت پر صحیح طریقے سے عمل کرتے ہیں۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
آپ والدین کے لئے ہدایت اور صحیح معنوں میں شریعت پر عمل کی دعا کرتے رہیں۔ تصوف کا اصل مقصد صحیح معنوں میں شریعت کی طرف آنا ہے اور شریعت کے خلاف نفس کی مزاحمت پر قابو پانا ہے۔
ابتداءً ان صاحب کا بیعت کا تعلق کچھ غلط لوگوں کے ساتھ قائم ہو گیا۔ انہوں نے مجھے ان کے بارے میں تفصیلات بتائیں تو میں نے انہیں بتایا کہ ان لوگوں کا تو عقیدہ بھی غلط ہے، کام بھی غلط ہے۔ ان کو میری بات سمجھ آ گئی اور انہوں نے مجھے لکھ دیا کہ میں ان کو چھوڑ چکا ہوں۔ میں نے کہا: بس پھر ان کو بھول جاؤ کیونکہ ہماری طریقت کا مقصد یہ ہے کہ ہم صحیح معنوں میں شریعت پہ آ جائیں۔ صحیح معنوں میں شریعت پہ آنے میں نفس مخالفت کرتا ہے اور اس راہ میں روڑے اٹکاتا ہے، نفس کی اس مزاحمت کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ یہی طریقت کا اصل مقصود ہے اس کے علاوہ اور کوئی مقصود نہیں ہے۔
اس نے جواب دیا: کہ مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ کچھ صوفی شریعت پہ بھی چلتے ہیں۔
میں نے کہا: یہ بات یاد رکھو کہ ہمیں صرف ظاہر اور باطن کی شریعت پہ عمل کرنا ہے اس کے علاوہ ہمارا مطمح نظر اور کچھ نہیں ہے۔ ہاں اگر نفس ہمیں اس طرف نہ آنے دے تو اس کو ٹھیک کرنے کے لئے طریقت ہے۔
اپنے مقصد پر عملی طور پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔ یہ صرف خیالی باتیں نہیں ہیں۔ لوگوں نے تصوف کو ایک خیالی چیستان بنایا ہوا ہے۔ ہواؤں میں پھرتے ہیں اور پتا نہیں کیا کیا سوچتے ہیں کیا کیا کرتے ہیں۔ خوب سمجھ لو کہ طریقت کا مقصد شریعت پر دل سے چلنا ہے، طریقت کا مطلب نفس کی مخالفت کو دور کرنا ہے اور عقل کو صحیح راستہ سمجھانا ہے۔ بس یہی تین کام ہیں طریقت میں۔ یہ بات اگر آپ کو دو دن میں حاصل ہو جائے تب بھی اس کا مقصد شریعت پہ عمل کرنا ہے، اگر دس دن میں حاصل ہو جائے یا پچاس سال میں حاصل ہو جائے تب بھی مقصد صرف شریعت پہ عمل ہے، اصل کام یہی ہے اس سے زیادہ نہیں ہے۔ چیستانوں میں نہیں رہنا چاہیے۔ یہ سارے ذرائع ہیں، انہیں ذرائع تک ہی محدود رکھیں۔ آپ لاہور جانے کے لئے بس میں بیٹھ رہے ہیں تو بس کے ساتھ اتنا ہی تعلق ہے جتنا لاہور جانے تک ضروری ہے، لاہور پہنچنے کے بعد بس میں بیٹھنا بے وقوفی ہے۔ کیا خیال ہے پھر بھی بیٹھے رہیں گے؟ بس سے اتر جاؤ پھر اپنا کام کرو۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم! حضرت جی امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ مجھے صبح 6:30 بجے گھر سے نکلنا پڑتا ہے اور کبھی کبھی میں رات 08:00 بجے تک کام سے واپس آ جاتا ہوں۔ کل شام واپس پہنچا بہت تھکا ہوا تھا۔ ذکر کرنے بیٹھا تو ذکر کے دوران ہی نیند آ گئی۔ کیا میں دفتر جاتے اور آتے ہوئے راستے میں ذکر کر سکتا ہوں؟
جواب:
اگر آپ خود گاڑی چلا کر کام پہ نہیں جاتے تو پھر راستے میں یہ ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ در اصل اس معاملے میں یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے اوراد کو جتنی توجہ اور دھیان سے پڑھیں گے اس کا فائدہ اتنا زیادہ ہو گا۔ آپ اس کو جتنی عزت اور توجہ دے سکتے ہیں، اتنی ہی یہ آپ کے اندر تبدیلی لائے گا۔ اب معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے، اپنی ترقی آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ آپ جس حد تک اس کو توجہ دیں گے اتنا ہی آپ کو فائدہ ہو گا۔ جتنا دو گے اتنا لو گے۔ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ مجھ سے نہیں ہوتا اور وہ دنیاوی معاملات میں بھی ایسا ہی ہے تو ہم کہیں گے کہ ٹھیک ہے اس پہ کوئی عذر نہیں لیکن اگر وہ دنیاوی معاملات میں تو بڑا چست ہو لیکن دین میں کہے کہ میں نہیں کر سکتا تو اس کا مطلب ہو گا کہ کوئی مسئلہ ہے، اس مسئلہ کو ٹھیک کرنا ہو گا۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم حضرت شاہ صاحب دامت برکاتھم۔ میں نے آپ کو کچھ ہفتوں پہلے بتایا تھا کہ میرے اندر کبھی کبھی حسد اور لوگوں کے بارے میں غلط اور برے خیالات آتے ہیں اگرچہ آپ سے بیعت ہونے کے بعد کم ہو گئے ہیں لیکن کبھی کبھی میں ان کا شکار بن جاتا ہوں۔ اس کیفیت سے مجھے بہت ہی نفرت ہے۔ چند سال پہلے میں ٹی وی، میوزک، انٹرنیٹ وغیرہ بہت زیادہ دیکھا کرتا تھا لیکن اب نہیں دیکھتا، الحمد للہ میں نے ان گناہوں سے سچی پکی توبہ کر لی ہے لیکن ان کا اثر اب بھی مجھ پر ہے جس کی وجہ سے میں عبادت میں پوری طرح توجہ مرکوز نہیں کر پاتا۔ میرے اندر اور بھی برائیاں ہوں گی، لیکن یہ چیزیں بار بار سامنے آ رہی ہیں۔ مجھے اپنے گناہ کا اظہار کرنا دشوار معلوم ہوتا ہے لیکن اگر مرشد کو نہ بتاؤں تو مجھ سے بڑا بے وقوف کہاں ہو گا۔
جواب:
آپ نے بالکل صحیح فیصلہ کیا ہے۔ اپنی برائیوں کا اظہار شیخ کے سامنے کرنا چاہیے دوسروں کے سامنے نہیں۔ دوسروں کے سامنے اپنی برائیوں کا ذکر کرنا مزید ایک برائی ہے۔ کہتے ہیں اپنے گناہ کا اظہار شیخ کے علاوہ کسی کے سامنے کرنا ایک مستقل گناہ ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے کسی کو کسی پردہ کی جگہ پہ پھوڑا نکل آیا ہو تو وہ صرف ڈاکٹر کو دکھائے گا اور اتنا ہی دکھائے گا جتنا مسئلہ ہے لیکن کسی اور کو دکھائے گا تو گناہگار ہو گا۔ اعلانیہ گناہ کی توبہ بھی اعلانیہ ہوتی ہے اور مخفی گناہ کی توبہ بھی مخفی طور پر ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسی باتیں صرف شیخ کو بتانی ہوتی ہیں، کسی اور کو نہیں بتاتے۔
آپ نے بتایا کہ آپ کو کبھی کبھی حسد ہوتا ہے اور لوگوں کے بارے میں غلط اور برے برے خیالات آتے ہیں۔ در اصل یہ سب پہلے بھی ہوتا تھا لیکن آپ کو پتا اب چلنے لگا ہے۔ یہ چیزیں پہلے سے ہیں بلکہ پہلے زیادہ ہوتی ہوں گی، ہاں! پہلے احساس نہیں تھا اب احساس پیدا ہو گیا ہے۔ اس احساس پہ اللہ کا شکر ادا کریں۔ کہتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ ضروری اور اچھا کشف اپنے گناہوں اور عیوب کا کشف ہے۔ بہترین اور ضروری کشف یہ ہے کہ اپنے عیوب نظر آنے لگیں۔ جس کو اپنے عیب نظر آنے لگیں وہ بہت خوش قسمت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر شیخ کامل کے ساتھ اس کا واسطہ ہو پھر تو بہت زیادہ خوش قسمتی کی بات ہے کیونکہ ٹھیک ہونے کا ذریعہ بھی موجود ہے۔
ایک دن میں انسان کی ساری چیزیں ٹھیک نہیں ہوتیں لیکن اگر آپ کو ان معائب سے نفرت حاصل ہو گئی ہے تو یہ بھی خیر کی طرف ایک قدم ہے۔ اللہ نے آپ کو کچھ گناہوں سے توبہ کی توفیق نصیب کر دی ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کریں، اس پہ قائم رہیں البتہ اس کے آثار تو کچھ عرصہ باقی رہیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیماری ختم ہونے کے بعد بھی کچھ عرصہ تک بیماری کے آثار اور کمزوری باقی رہتی ہے۔ جیسے زلزلہ کے بعد والے اثرات ہوتے ہیں۔ اس طرح کی چیزیں تو رہیں گی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کم ہو جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ خیر کی مزید توفیقات نصیب فرما دے اور شر سے محفوظ فرمائے۔
سوال نمبر10:
حضرت مجھے کچھ میسجز موصول ہوئے جن میں یہ کہا گیا تھا کہ شب برات کے اعمال اور اگلے دن روزہ رکھنا بدعت ہیں۔ آپ بدعت کے بارے میں وضاحت فرما دیں کیونکہ ہم ہمیشہ سے اس رات کو جاگ کے عبادت کرتے اور روزہ رکھتے آئے ہیں۔ لیکن ایسے مسیجز سے پریشان ہو گئے ہیں۔ آپ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے۔
جواب:
دین کے اندر کوئی نئی بات نکالنا، اس کو بدعت کہتے ہیں۔ یعنی ایسا کام جو دین نہیں ہے اسے دین سمجھ کر کرنا یا چھوڑنا۔ اگر آپ دنیا کے معاملات میں کوئی نئی چیز نکالتے ہیں تو وہ بدعت نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے ذرائع کے اندر جو نئی نئی چیزیں آتی ہیں وہ بھی بدعت نہیں ہوتیں۔ بدعت کی تعریف تو یہی ہے۔
بہت سارے لوگ متشدد ہوتے ہیں ایسے لوگ معتدل لوگوں کے بارے میں ایسی باتیں بولتے ہیں۔ اعتدال درمیان میں ہوتا ہے۔ کچھ لوگ غافل ہوتے ہیں کچھ لوگ متشدد ہوتے ہیں جبکہ کچھ درمیان میں اعتدال پہ ہوتے ہیں اعتدال کے راستہ کے بارے میں کہا گیا ہے: ”بہتر راستہ درمیان کا ہے“۔ لہٰذا ہمیں درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
غافل لوگ ان چیزوں کی پروا ہی نہیں کرتے کہ کوئی رات آئی ہے کوئی رات گئی ہے، وہ نہ رمضان کی پروا کرتے ہیں نہ کسی اور ماہ کی پروا کرتے ہیں۔ یہ غافل لوگ ہیں۔ ان کی علیحدہ بات ہے۔
متشدد قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے۔ ان کا جواب یہ ہے کہ ہم حنفی ہیں اور مقلد ہیں۔ غیر مقلد ہم کو شرک فی الرسالت کا مرتکب سمجھتے ہیں۔ اب ہم غیر مقلدوں کے لئے تقلید تو نہیں چھوڑیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ حضور ﷺ کے علاوہ کسی اور کی بات ماننا تقلید ہے اور یہ شرک فی الرسالت ہے، جبکہ ہمارا موقف اور ہے ہم دلائل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ جسے اِن لوگوں نے تقلید سمجھا ہے ہم وہ تقلید نہیں کرتے۔ لہٰذا ہم نے اِن کو تو نہیں منانا ہم نے تو اللہ پاک کو منانا ہے۔ اللہ جل شانہ کا دین ہم تک اپنے بزرگوں کے ذریعے سے پہنچا ہے۔ مثلاً ہم تک دین حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے سے پہنچا ہے۔ یہ حضرات دین میں ہمارے استاد ہیں۔ لہٰذا دین کا کوئی معاملہ ہو گا تو ہم ان کی بات مانیں گے۔ اگر یہ لوگ فرماتے ہیں کہ یہ ایک اہم رات ہے اس میں نوافل کے ذریعے اللہ جل شانہ کے ساتھ تعلق کو جوڑنا چاہیے۔ عبادات کے ذریعے سے اس رات کو اچھی طرح گزارنا چاہیے، تو ہم ان کی اس بات کو مانیں گے۔
ایک بات یاد رکھیں کہ اس رات میں عبادت کرنی چاہیے، یہ بات تو مسلم ہے، لیکن اس عبادت کا کوئی مخصوص طریقہ، اس رات کے لئے کوئی خاص عبادت یا عمل مقرر نہیں کیا گیا۔ جو آدمی عبادات کرنا چاہے گا وہ عام عبادات ہی کرے گا جو دوسری راتوں اور دوسرے دنوں میں کی جاتی ہیں۔
اگر ہم یہ تسلیم کر بھی لیں کہ یہ رات عبادات وغیرہ کے لئے خاص نہیں ہے، تو یہ بتائیں کیا اگر کسی نے اس رات میں عبادت کر لی تو وہ گنہگار ہو گیا؟ گنہگار تو نہیں ہوا، جیسے پورا سال کسی بھی رات میں عبادت کی جا سکتی ہے اس رات میں بھی کی جا سکتی ہے۔ اگر یہ رات خاص ہوئی تو خاص عبادت کا ثواب مل جائے گا، خاص نہ ہوئی تو عام عبادت والا اجر مل جائے گا۔ ہم نے اس رات میں عبادت کرکے دین میں کوئی اضافہ تو نہیں کیا۔ دین تو وہی ہے کہ کسی بھی رات عبادت کی جا سکتی ہے۔ ہم نے اس رات میں بھی اسی طریقہ سے نفل پڑھے جس طرح عام دنوں میں پڑھتے ہیں، اسی طریقے سے تلاوت کی جس طرح عام دنوں میں کرتے ہیں کوئی نئی بات تو نہیں نکالی۔ دین وہی ہے ہاں البتہ اس رات عبادت کا اجر کم ملے گا یا زیادہ، یہ اللہ پر ہے لہٰذا ہم اس کے بارے میں بات بھی نہیں کرتے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بات بھی مانتے ہیں کہ شب برات کی فضیلت کے بارے میں جو احادیث شریفہ منقول ہیں وہ ضعیف ہیں لیکن علماء محدثین ہی کا یہ قاعدہ ہے کہ جب ضعیف حدیث مختلف طریقوں سے آ جائے تو وہ قوی ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ آپ راستہ پہ جا رہے ہیں کوئی آپ کو بتاتا ہے کہ سامنے رکاوٹ ہے گاڑی نہیں جا سکتی، آپ اس آدمی کو نہیں جانتے، اس کے با وجود آپ کو شبہ ہو جاتا ہے کہ واقعی رکاوٹ ہو گی، اس کے بعد دوسرا آدمی یہی بات کہتا ہے، تب آپ کا شبہ اور قوی ہو جاتا ہے، پھر ایک تیسرا آدمی یہی بات کہتا ہے، اب تو آپ کو یقین ہو جاتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ اس طرف سے بالکل نہیں جانا حالانکہ آپ ان میں سے کسی کو نہیں جانتے۔ حدیث کے راویوں میں بھی ایسا معاملہ ہو سکتا ہے۔ اگر کسی حدیث شریف کا راوی مجہول ہو جس کے بارے میں کچھ علم نہ ہو، وہ حدیث ضعیف ہو جاتی ہے، ضروری نہیں کہ وہ حدیث جھوٹی ہو یا موضوع ہو۔ صرف اتنی بات ہے کہ اس کو صحیح نہیں کہہ سکتے۔ دین کے احکامات صحیح احادیث پر مبنی ہوتے ہیں۔ فضائل میں ضعیف احادیث کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب محدثین اور فقہاء کرام کا فتویٰ ہے اور ہم ان احادیث کو فضائل ہی میں استعمال کر رہے ہیں مسائل میں استعمال نہیں کر رہے۔ اس رات کی فضیلت کے بارے میں بات ہو رہی ہے، ہم احکامات میں کوئی تبدیلی نہیں لا رہے، نماز تو وہی ہے، روزہ وہی ہے، زکوٰۃ وہی ہے، حج وہی ہے ساری چیزیں اپنی اپنی جگہ پر ہیں۔ شب برات کے بارے میں بس ہم اتنی بات کرتے ہیں۔ جو لوگ اس کو صحیح طریقہ سے لیتے ہیں وہ خوش نصیب ہیں۔
شب برات سے اگلے دن کے روزہ کے بارے میں حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب نے بڑی اچھی بات فرمائی ہے۔ لکھتے ہیں:
”شب برات سے اگلے دن شعبان کی پندرہ تاریخ ہوتی ہے۔ ماہ شعبان میں ویسے بھی روزے رکھنا سنت ہے، اس کے علاوہ ہر ماہ کی 13، 14، 15 کو روزہ رکھنا بھی سنت ہے، یہ ایام بیض ہوتے ہیں۔ لہٰذا آپ پندرہ شعبان کو روزہ رکھتے ہوئے شب برات وغیرہ کی نیت نہ کریں بلکہ ایام بیض اور ماہ شعبان کی نیت کر لیں۔ اگر شب برات کے روزے کا ثواب ہوا تو از خود مل جائے گا، اور اگر شب برات کے روزے کا ثواب نہ ہوا تو آپ پر کوئی عذر نہیں ہو گا کیونکہ آپ تو ایام بیض اور شعبان کے روزے رکھ رہے ہیں“۔ اس سلسے میں آخری بات یہ کہ جن لوگوں نے یہ بات نہیں ماننی ہمیں ان سے منوانی بھی نہیں ہے۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم۔ حضرت میں بہت عجیب حالات میں ہوں۔ جن لوگوں کے درمیان میں رہتی ہوں ان کے ساتھ میری ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے، میں سب سے الجھ پڑتی ہوں۔ ایسے حالات میں کیا کروں؟
جواب:
آپ ایسے لوگوں کے ساتھ نہ الجھیں۔ اپنی بات اپنے تک محدود رکھیں۔ اپنے آپ کو سمجھائیں کسی اور کو نہ سمجھائیں۔ کیونکہ ہمیشہ دوسرے کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے، دوسروں کو سمجھانے کے لئے کچھ خاص ماحول اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ فی الحال اگر وہ ماحول میسر نہیں ہے تو آپ ایسے لوگوں کے ساتھ نہ الجھیں۔ صرف اپنے کام سے کام رکھیں۔
سوال نمبر12:
حضرت مجھے تصوف اور صوفی ازم کو جاننے کا شوق ہے مگر سب مجھے اس سے روکتے ہیں، میں کیا کروں؟
جواب:
آپ روکنے والوں کی بالکل پروا نہ کریں اور ضرور تحقیق کریں۔ ہماری ویب سائٹ اس کے لئے کافی ہے، اس ویب سائٹ کے اوپر جتنا کچھ ہے آپ پہلے اس کو پڑھ لیں اس کے بعد خواتین کے بیانات سننا شروع کریں۔ ان شاء اللہ آپ کا ذہن مطمئن ہوتا جائے گا۔
سوال نمبر13:
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ تصوف کا راستہ ٹھیک نہیں ہے۔ ان کو کیا جواب دیا جائے اور ان کی باتوں سے پیدا ہونے والے شبہات کے بارے میں اپنے ذہن کو کیسے مطمئن کیا جائے۔
جواب:
دنیا میں 84 فیصد لوگ کافر ہیں تو کیا خیال ہے ان کی وجہ سے آپ کافر ہو جائیں گی؟ زیادہ لوگوں کی کیا بات ہے، حق بات کو دیکھو زیادہ کو نہ دیکھو۔ اگر زیادہ لوگوں کو دیکھتی ہو تو 84 فیصد لوگ کافر ہیں تو کیا ان کی وجہ سے ہم بھی نعوذ باللہ من ذالک کافر ہو جائیں؟ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ بے شک ساری دنیا کافر ہو جائے (اللہ بچائے) ہمیں پھر بھی مسلمان رہنا چاہیے، ہمیں ان کی وجہ سے کافر نہیں ہونا چاہیے۔
سوال نمبر14:
حضرت! کیا تصوف شریعت کا حصہ ہے؟ تصوف کے بارے میں میرا دماغ بہت متذبذب ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔
جواب:
تصوف شریعت کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ شریعت پر آنے کا ایک نظام ہے۔ اللہ پاک نے جو احکامات دیئے ہیں، جو اوامر و نواہی قرآن و سنت میں بتائے گئے ہیں، ان کو شریعت کہتے ہیں ان پر ہمیں عمل کرنا چاہیے لیکن ان پر عمل کرنے میں تین رکاوٹیں ہیں۔ نفس رکاوٹ ڈالتا ہے، دل کی ناپاکی رکاوٹ ڈال دیتی ہے اور عقل کی نا سمجھی رکاوٹ ڈالتی ہے۔ ان تینوں کو ٹھیک کرنا ہے، ان تینوں کو ٹھیک کرنے کا نام تصوف ہے۔
سوال نمبر15:
السلام علیکم حضرت جی۔ گذشتہ مجلس میں آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ ہم چاروں سلاسل کے جہری اذکار مردوں کو کرواتے ہیں، اس کا مقصد یہ بھی ہے ان کا مزاج جانا جائے کہ کس طریقہ سے زیادہ مناسبت ہے۔ حضرت جی خواتین کو تو جہری ذکر نہیں کروایا جاتے، پھر ان کی مناسبت کو کیسے دیکھا جائے گا، کیا اس کے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی؟
جواب:
خواتین کے لئے ہم نے بہت پہلے سے ایک فیصلہ کیا تھا جو الحمد للہ صحیح ثابت ہوا، وہ فیصلہ یہ تھا کہ تمام خواتین کو ہم نقشبندی سلسلہ میں چلاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ نقشبندی سلسلہ ان کے لئے زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس میں خاموشی سے سارا کچھ ہوتا ہے۔ عورتوں کی آواز بھی ستر ہے اس لئے ان کو سارا کچھ خاموشی سے کرایا جائے تو بہتر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورتیں جہری ذکر برداشت نہیں کر سکتیں۔ یہ بات با قاعدہ روایات سے ثابت ہے۔ آپ ﷺ ایک دفعہ ازواج مطہرات کے ساتھ سفر میں تھے آپ ﷺ نے حدی خوانوں کو روک دیا تھا، فرمایا: حدی نہ پڑھیں کیونکہ یہ عورتیں شیشے ہیں، قواریر ہیں یہ ٹوٹ جائیں گی۔
اس سے پتا چل گیا کہ خواتین کے لئے سماع اور جہری ذکر وغیرہ ٹھیک نہیں ہیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ جو سماع کے بڑے ماہر ہیں۔ انہوں نے سماع کے لئے جو چار شرطیں لگائیں ہیں ان میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ سننے والے عارفین ہوں، ان میں کوئی عورت اور بچہ نہ ہو۔ لیکن آج کل تو بے حیا دور آ گیا ہے اب تو عورتیں بھی دما دم مست قلندر پہ دھمالیں ڈالتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ بہت غلط بات ہے۔ عورتیں بڑی نازک ہوتی ہیں ان کے لئے مخصوص اور مستور طریقے ہیں۔ اس لئے میں ان کے لئے نقشبندی سلسلہ کو مناسب سمجھتا ہوں، یہی ان کے لئے زیادہ مناسب ہے۔
سوال نمبر16:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت والا سیدی مولائی کی خدمت اقدس میں سوال عرض ہے کہ ہم نے جو یہ اصول جانا کہ گناہ کا جتنا سخت تقاضا نفس میں پیدا ہوتا ہے اسے دبا کر اللہ کا حکم بجا لانے پر اتنا ہی تقویٰ قلب میں آتا ہے۔ جتنا شدید تقاضا گناہ کا ہوتا ہے اتنا ہی تقویٰ انسان حاصل کر سکتا ہے۔ الحمد للہ حضرت کی برکت سے یہ بات اصولاً تو سمجھ میں آئی البتہ جب مشائخ کرام، اولیاء کرام کی سوانح حیات میں پڑھتے ہیں ان کے کمالات میں سے ذکر کیا جاتا ہے کہ فلاں بزرگ کو دس سال، بعض کو چالیس سال سے گناہ کا وسوسہ تک نہ ہوا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کب سے ان کا نفس مطمئنہ ہو گیا اور گناہ کا تقاضا نہیں رہا وسوسہ نہیں رہا تو پھر ان کے مزید مقامات کیسے بلند ہوتے ہیں اور وہ مزید تقویٰ کیسے حاصل کرتے رہتے ہیں۔ کیا اللہ کی حضوری اور اللہ کے قرب کی طرف ان کی رفتار کم ہو جاتی ہے؟
جیسے حیات صحابہ میں آتا ہے کہ صحابہ کرام سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کے عرض کرتے تھے کہ ہمارے اندر ایسے ایسے گناہوں کے وساوس آتے ہیں کہ ہمیں سرکار دو عالم ﷺ کے سامنے ذکر کرنے سے حیا آتی ہے اور ہم بیان نہیں کر سکتے تو سرکار دو عالم ﷺ نے تبسم فرمایا اور تسلی عنایت فرمائی۔ صحابہ نفسِ مطمئنہ حاصل کر چکے تھے سیر الی اللہ مکمل کر چکے تھے، ان کو تو وسوسے ہو رہے تھے وہ مزید تقویٰ بھی حاصل کر رہے تھے لیکن بعض اولیاء کرام کی سوانح حیات میں آتا ہے کہ انہیں کئی کئی سال گناہ کا وسوسہ تک نہ ہوا، اس کا کیا معنی بنتا ہے؟ حضرت اگر یہ سوال جواب کے لائق ہو تو جواب مرحمت فرمائیں۔
جواب:
بڑا اچھا سوال ہے ان شاء اللہ اس سے کافی چیزیں کھلیں گی اللہ تعالیٰ مجھے صحیح طریقہ سے سمجھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
میرے خیال میں ایک چیز آپ بھول گئے ہیں۔ ”مختصرات سلوک“ میں اس پہ بات ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ہوتی ہے جبلت اور ایک ہوتا ہے نفس۔ جن چیزوں سے نفس بنا ہے انہی چیزوں سے جبلت بھی بنی ہے فرق صرف یہ ہے کہ نفس متغیر ہے اور قابل اصلاح ہے جبکہ جبلت قابل اصلاح نہیں ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا تو مان سکتے ہو لیکن کوئی کہے کہ کسی کی جبلت تبدیل ہو گئی تو نہیں مان سکتے۔ میں اس کی مثال یوں دیا کرتا ہوں کہ پٹھان پٹھان ہی رہے گا، پنجابی پنجابی ہی رہے گا، عرب عرب رہے گا، عجم عجم رہے گا، بے شک اس کی کتنی ہی اصلاح ہو جائے اس کی جبلت تبدیل نہیں ہو گی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غصہ اپنی جگہ بحال تھا ان کی طبیعت پہلے والی ہی تھی لیکن غصہ کا استعمال بدل گیا تھا۔ پہلے دوسروں پہ غصہ ہوتا تھا بعد میں وہی غصہ نفس کے اوپر ہو گیا۔
معلوم ہوا کہ جبلت تبدیل نہیں ہوتی جبلت اپنی جگہ پہ رہتی ہے۔ جب نفس کی اصلاح ہو جاتی ہے نفس مطمئنہ ہو جاتا ہے اس کے بعد جبلت کی طرف سے تقاضا ہوتا ہے اس تقاضے کو دباتے ہوئے درست کام کرنے کی وجہ سے اجر بڑھ رہا ہوتا ہے اور تقویٰ حاصل ہو رہا ہوتا ہے۔ اللہ پاک نے نظام اس طرح رکھا ہے کہ ہر جبلت کے لئے کچھ نہ کچھ مجاہدہ ضروری ہوتا ہے، کوئی اعتدال سے ہٹا ہوتا ہے اسے اپنے آپ کو اعتدال میں رکھنے کے لئے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ اب پٹھان کو غصہ زیادہ آتا ہے تو اسے غصہ قابو کرنے کی ضرورت ہو گی اس کا مجاہدہ اسی میں ہو گا۔ پنجابی کی اپنی کوئی مصلحت آمیز زندگی ہوتی ہے اس کے لئے وہاں مجاہدہ ہو گا جہاں غصہ ضروری ہوتا ہے۔ ہر شخص کے لئے اپنی اپنی جبلت کے حساب سے مجاہدہ ہوتا ہے۔ جو اس مجاہدہ کو کرتا رہتا ہے، جبلت کے غلط تقاضوں کو دباتا رہتا ہے اسے تقویٰ حاصل ہوتا رہتا ہے۔
ایک بہت اہم سوال جو انہوں نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ بعض مشائخ، بعض بزرگوں کے بارے میں جو یہ آتا ہے کہ ان کو گناہ کا وسوسہ اتنے عرصہ میں نہیں آیا اور صحابہ کرام کہتے ہیں کہ ہمیں تو ایسے وسوسے آ رہے ہیں کہ آپ ﷺ کے سامنے بیان نہیں کر سکتے اور ہم جل کے کوئلہ ہونے کے لئے تیار ہیں لیکن یہ بیان کرنے کے لئے تیار نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ایک وسوسۂ شیطانی ہوتا ہے اور ایک حدیث نفس ہوتی ہے۔ حدیثِ شیطان وسوسۂ شیطانی ہے جبکہ حدیثِ نفس وسوسۂ نفسانی ہے۔ بزرگوں کو جو کئی کئی سال گناہ کا وسوسہ نہیں آیا اس سے مراد وسوسۂ نفسانی ہے، وہ بزرگوں کو نہیں آیا وہ صحابہ کو بھی نہیں آیا کیونکہ صحابہ کا سیر الی اللہ مکمل ہو چکا تھا، لہٰذا نفسانی وسوسہ صحابہ کو بھی نہیں آتا تھا، جبکہ وہ وسوسہ جس کے بارے میں صحابہ کرام فرما رہے ہیں کہ ہمیں وساوس آتے ہیں، اس سے مراد وسوسۂ شیطانی ہے، وسوسۂ شیطانی بزرگوں کو بھی آتا ہے اور صحابہ کو بھی آتا تھا۔ صحابہ کو یہ وسوسہ بہت زیادہ آیا اس وجہ سے آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا واقعی اس حد تک یہ وساوس آپ کو آتے ہیں کہ آپ لوگوں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ آپ جل کے کوئلہ ہونا پسند کریں گے لیکن انہیں بیان نہیں کرسکتے۔ صحابہ کرام نے کہا: جی بالکل۔ آپ ﷺ نے فرمایا ”ذَاکَ اَصْلُ الْاِیْمَان“ یہی تو اصل ایمان ہے کیونکہ شیطان کو فکر ہو گئی ہے اور وہ آپ حضرات کو بے حد تنگ کرنا شروع ہو گیا ہے۔
ایک مسلمان مرتد ہو کر قادیانی ہو گیا۔ کچھ دن بعد اس نے اپنے قریبی امام مسجد سے کہا کہ جب سے میں قادیانی ہوا ہوں تب سے مجھے نماز میں کوئی وسوسہ نہیں آتا، جب تک میں آپ لوگوں کی طرح تھا تب تک مجھے بہت وسوسے آتے تھے۔ امام صاحب نے کہا: یہی تو ہماری حقانیت کی دلیل ہے۔ وہ اس طرح کہ چور ڈاکو وہیں جاتا ہے جہاں مال ہوتا ہے۔ تمھاری سب سے قیمتی متاع تو ایمان تھا، اسے شیطان نے لوٹ لیا۔ اس کے بعد تمھارے پاس رکھا ہی کیا ہے، گند ہی گند ہے، کیا وہ گند لینے کے لئے آئے گا؟ اصل چیز تو وہ لے گیا۔
اس وجہ سے اہل ایمان کو وسوسے آتے ہیں بے ایمانوں کو وسوسے نہیں آتے۔ ہاں حدیثِ نفس کافر کو بھی آتی ہے گناہگار کو بھی آتی ہے لیکن وسوسۂ شیطانی بے ایمانوں کو نہیں آتا۔ صحابہ کرام کو تو یہ وساوس اس لئے آ رہے تھے کہ ان کا مقام بہت اونچا تھا۔
امید ہے کہ یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ گئی ہو گی کہ بزرگوں کو بھی وساوس آتے ہیں لیکن وہ وساوسِ شیطانی ہوتے ہیں، نفس کا تقاضا نہیں ہوتے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ وہ باغ میں بیٹھے مراقبہ کر رہے تھے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک نور سا آ رہا ہے اور اس سے آواز آ رہی ہے اے عبدالقادر! اب تک جتنی عبادت تو نے کی وہ قبول ہو چکی ہے، اب بے شک تو عبادت کر یا نہ کر تیری مرضی ہے، ہماری طرف سے اب تمھارے اوپر کوئی پابندی نہیں ہے۔ حضرت نے یہ بات سن کر مراقبہ کیا، پھر سر اٹھا کر فرمایا اے ملعون! میں تجھے پہچان گیا تو شیطان ہے مجھے دھوکہ دینا چاہتا ہے۔ اتنا کہنے کی دیر تھی کہ وہ نور اندھیرے میں بدل گیا اور ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی چیز بھاگ رہی ہو بھاگتے بھاگتے اس میں سے آواز آئی اے عبدالقادر تو مجھ سے اپنے علم کی وجہ سے بچ گیا میں نے اس موقعہ پہ اتنے سارے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔
حضرت نے فرمایا: ملعون! جاتے جاتے بھی وار کر رہے ہو، میں اللہ کے فضل سے بچ گیا ہوں اپنے علم کی وجہ سے نہیں۔
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا مقام تو بہت اونچا تھا لیکن دیکھیں انہیں شیطان کی طرف سے وسوسے آئے۔
اس ساری تفصیل سے یہ بات بخوبی معلوم ہوئی کہ وسوسۂ شیطانی سب کو آتا ہے اور زیادہ آتا ہے لیکن اس کو کنٹرول کرنے کا طریقہ بھی ان حضرات کو آتا ہے لہٰذا للہ تعالیٰ ان کو بچا لیتے ہیں جبکہ وسوسۂ نفسانی ختم ہو جاتا ہے اگر واقعی اصلاح ہو چکی ہو۔ بزرگوں کے بارے میں جو یہ بات آتی ہے کہ انہیں کبھی گناہ کا وسوسہ نہیں آیا اس سے مراد یہ ہے کہ نفسانی گناہ کا وسوسہ نہیں آیا۔ لوگ ان باتوں کو آپس میں خلط ملط کر لیتے ہیں اس لئے وہ متذبذب ہو جاتے ہیں۔
سائل کی طرف سے جواب:
جزاک اللہ حضرت والا۔ آپ نے بہت ہی جامع اور واضح جواب عنایت فرمایا جس سے بات بالکل واضح ہو گئی اور یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ ایک ہوتا ہے چیزوں کا معلوم ہونا اور ایک ہوتا ہے اس کا حقیقی مفہوم سمجھ آ جانا۔ چیزوں کو مختلف کتابوں سے پڑھنے اور بزرگوں سے سننے سے نیز خود حضرت والا سے سننے سے ایک چیز اور اس کا صحیح وقت پر صحیح سوال کا تسلی والا جواب یقیناً شیخ کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ یہ کام حضرت والا کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے لئے تہہ دل سے مشکور ہوں۔ جزاک اللہ۔ جبلت والی بات بے شک حضرت والا نے پہلے بھی فرمائی تھی، ”مختصرات سلوک“ میں بھی واضح فرمائی لیکن یہاں پہ اور بات سمجھ میں آئی اور یہ جو حدیثِ نفس، وسوسہ اور وسوسۂ شیطانی میں حضرت نے امتیاز فرمایا یہ بہت ہی اہم مجددانہ امتیاز فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت والا کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ)
سوال نمبر17:
حضرت جی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ اپنے بچوں کو کس عمر میں مشائخ کی طرف بیعت کرنے کے لئے لے جانا چاہیے۔ بعض بزرگوں کے ملفوظات میں ہے کہ متوسل کو بچپن سے ہی فائدہ شروع ہو جاتا ہے۔ کیا اس رواج کو جاری رکھنا چاہیے؟ جزاکم اللہ خیرا۔ السلام علیکم۔
جواب:
اس بارے میں مشائخ کا اختلاف ہے اور یہ اختلاف ذوقی ہے علمی نہیں ہے۔ میں پہلے بچوں کو بیعت نہیں کیا کرتا تھا، مجھے خود بھی بچپن میں حضرت قاضی صدر الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے میرے والد صاحب کے کہنے کے با وجود بیعت نہیں فرمایا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں ذکر دے دیتا ہوں لیکن بیعت نہیں کرتا کیونکہ ابھی یہ بچہ ہے۔
مشائخ کے اپنے اپنے طریقے ہوتے ہیں۔ میں نے جو بچوں کو بیعت کرنا شروع کیا اس کی وجہ دو بڑے عجیب واقعے ہیں۔ ایک واقعہ ایک بچی کا ہے۔ ہمارے ایک ساتھی کی بچی نے اپنی والدہ سے کہا کہ جب خواتین بیعت ہو رہی تھیں تو میں اپنی طرف سے خود ہی ان کے ساتھ ساتھ بیعت ہو گئی۔ اس بچی کی والدہ نے مجھے اطلاع کر دی کہ ایسا ہوا ہے، میں نے کہا چلو ٹھیک ہے جب بیعت ہو گئی تو اب اذکار وغیرہ کرتی رہے۔ پھر اس بچی نے چند دنوں کے بعد اپنے والدین کو رات بارہ بجے اٹھ کے کہا کہ شاہ صاحب کو فون کرو میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔
اسی طرح ایک اور واقعہ ہے۔ میں مدینہ منورہ میں تھا، مجھے ایک ساتھی نے کہا آپ تھوڑی دیر کے لئے دوبارہ اندر چلے جائیں میرا بیٹا آپ سے بیعت ہونا چاہتا ہے۔ وہ جگہ ایسی تھی کہ میں انکار نہیں کر سکا اور مسجد نبوی میں واپس چلا گیا۔ وہ لڑکا ٹیلی فون پر بیعت ہوا، اس پر بھی بہت زبردست اثرات مرتب ہوئے۔
یہ دو واقعے دیکھ کر میں نے اپنی رائے تبدیل کر لی اور میں نے سوچا کہ ہمارا مقصد تو فائدہ پہنچانا ہے، اگر بچوں کو بیعت کرنے سے فائدہ ہوتا ہے تو ہم کریں گے۔ پھر میں نے بیعت کرنا شروع کر دیا۔ اب تو بہت سارے بچے بیعت ہیں۔
لہٰذا اس مسئلہ میں صرف ذوقی اختلاف ہے بہرحال میری رائے یہ ہے کہ بچے بھی بیعت ہو سکتے ہیں اگر ان میں اتنا شعور ہو کہ بیعت کو سنبھال سکتے ہوں۔ بیعت کا مفہوم سمجھتے ہوں اور اس کو جانتے ہوں تو ہو سکتا ہے، اس سے ان کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ان کی تربیت اس طرح کی جائے جس طرح بچوں کی تربیت کی جاتی ہے، بڑوں کی طرز پر نہیں بلکہ چھوٹوں کی طرز پر ان کی تربیت کرنی چاہیے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال نمبر18:
حضرت شاہ صاحب! قلب سلیم، عقل فہیم اور نفس مطمئنہ کی کیا کیا نشانیاں ہیں۔ کیا ان نشانیوں کے بارے میں جاننا مقصود ہے یا نہیں۔ یا صرف شیخ جو رہنمائی کرتا جائے اس پہ توجہ رکھیں؟
جواب:
موٹی موٹی نشانیاں تو یہ ہیں کہ عقل فہیم وہ ہے جو شریعت کا خیال رکھتی ہو۔ یعنی دنیا کے مقابلے میں آخرت کی بات کو ترجیح دیتی ہو وہ عقل فہیم ہے۔ قلب سلیم وہ ہے جس میں دنیا کی محبت نہ ہو اللہ کی محبت ہو اور نفس مطمئنہ وہ ہے جو شریعت پر عمل میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ ان کو سرسری طور پر جاننا تو سب کے لئے ضروری ہے، لیکن جزئیات کی حد تک جاننا مشائخ کا کام ہے، جزئیات و باریکات تو پھر مشائخ ہی جانیں گے۔ جیسے موٹی موٹی صحت کے بارے میں سب لوگ جانتے ہیں لیکن اس کی باریکات اور اور تفصیلات کو ڈاکٹر حضرات جانتے ہیں۔ بعض دفعہ مریض اپنے آپ کو صحت مند سمجھتا ہے لیکن ڈاکٹر کہتا ہے کہ نہیں تم بیمار ہو اور بعض دفعہ مریض اپنے آپ کو بیمار سمجھتا ہے لیکن ڈاکٹر اس کو کہتا ہے تم صحت مند ہو۔ بعض لوگ شکی ہو جاتے ہیں، کہتے ہیں جی بس میں نے دوائی کھائی تو میرے ہونٹ خشک ہو گئے، معدے میں گرمی ہو گئی وغیرہ وغیرہ۔ ڈاکٹر صاحب انہیں کہتے ہیں کہ یہ دوائی کا منفی اثر ہے اور کچھ نہیں ہے یہ وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ہر چیز کی اپنی اپنی تفصیلات ہوتی ہیں جنہیں جاننے والا صاحبِ فن ہوتا ہے ”لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالٌ“۔ جبکہ موٹی موٹی عقل کی باتیں سب لوگ کو جانتے ہیں۔
سوال نمبر19:
السلام علیکم حضرت جی۔ فی الحال نفس کی جس شرارت میں مبتلا ہوں وہ یہ ہے کہ اپنے ڈھائی سالہ بیٹے کے جسم پر مختلف واقعات میں اس طرح تھپڑ لگایا ہے کہ اس کے جسم پر میری انگلیوں کے نشان بھی بنے ہیں حالانکہ علماً مجھے معلوم ہے کہ اس طرح مارنا جائز نہیں لیکن عملاً گڑ بڑ ہو رہی ہے۔ بار بار اپنے آپ کو کوستی ہوں ندامت بھی ہوتی ہے لیکن پھر بھی کم از کم چھ بار تو اس طرح ہو چکا ہے۔ پہلے تین تھپڑوں کے بعد بچے کی طرف سے مسجد میں پنکھا لگوا دیا کہ ظاہر ہے بچے کی معافی تو معتبر نہیں لیکن کچھ ازالہ ہو جائے، لیکن اس کے باوجود تزکیہ میں اپنا مسئلہ درپیش ہے، اس کے علاج کے لئے کچھ مجاہدہ ہی تجویز کر لیں یا جو بھی حضرت والا نصیحت فرمائیں۔
جواب:
آپ نے درست کہا، اس عمل کے پیچھے نفس ہی کی شرارت ہے نفس نے عقل پہ پردہ ڈالا ہوا ہے۔ آپ تھوڑا سا اپنی عقل کو آواز دیں کہ بچے کو مارنا مطلوب ہے یا بچے کو فائدہ پہنچانا اور نقصان سے بچانا مطلوب ہے؟ اگر بچانا مطلوب ہے تو وہ تب ہو گا جب بچہ یہ بات سمجھے گا کہ اسے پتا ہو گا کہ مجھے کیوں مارا جا رہا ہے۔ مارنا پڑ بھی جائے تو صرف اتنا ماریں جس سے اس کو تنبیہ ہو جائے۔ میں مارنے سے منع نہیں کرتا، نہ شریعت منع کرتی ہے لیکن بے تحاشا مارنے سے منع کرتی ہے بے تُکا مارنے سے منع کرتی ہے۔ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی مناسب طریقہ ہوتا ہے اس کے لئے آپ کو صرف عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے، نفس جو بھی کہے اسے اپنی عقل سے قابو کرو۔ جب کوئی ایسی بات آئے تو سوچو، جیسے کہتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو۔ آپ بھی پہلے سوچو پھر کرو۔ پہلے سوچو کہ میں کر رہی ہوں تو کس لئے کر رہی ہوں، میرا مقصد کیا ہے۔ اگر مقصد یہ ہو کہ بچے کو بچانا اور سمجھانا ہے تو اتنا ہی کر لو جتنے سے اس کو سمجھ آجائے جتنے سے اس کو پتا چل جائے جتنے سے وہ بچ جائے بس اتنا کر لو اس سے ان شاء اللہ العزیز فائدہ ہو جائے گا نیز اس میں مجاہدہ بھی ہے۔ جب آپ رکیں گی تو نفس کی مخالفت ہو جائے گی، نفس کی مخالفت ہی مجاہدہ ہے۔ اس مجاہدہ پہ عمل کریں ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ