اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَم النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
حضرت محترم! الله جل شانہٗ کے فضل و کرم اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے ذکر کی توفیق ہو رہی ہے۔ مندرجہ ذیل ذکر کا دورانیہ دو ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“ 200، ”لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو“ 400، ”حَقْ“ 600، ”حَقْ اَللّٰہ“ 500، ”ھُو“ 500 اور ”اَللّٰہ ھُو“ 200۔
”حَقْ اَللّٰہ“ کے ساتھ یہ تصور رہا کہ اللہ تعالیٰ مجھ پہ حق کو واضح کر رہا ہے جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ حق ہے اور میں اس سے راضی ہوں۔ مراقبہ یہ ہے کہ دل میں خیال رہا کہ طریقۂ نبی ﷺ اور شریعت پہ چلنے کی کوشش کروں گا اور اس پر چل کر دکھاؤں گا۔ آپ نے دریافت فرمایا تھا کہ میری مصروفیات کیا ہیں، میں صبح چھ بجے سے مغرب تک کام وغیرہ میں مصروف ہوتا ہوں۔ اس کے بعد وقت مل جاتا ہے۔ جبکہ تہجد اور فجر سے پہلے بھی فارغ ہوتا ہوں۔
جواب:
آپ یہی ذکر جاری رکھیں۔ اس کے علاوہ روزانہ ایک ڈائری میں لکھیں کہ آج آپ سے کون کون سی غلطیاں ہوئیں اور کن غلطیوں پر توبہ کی۔ اس کا پورے مہینہ کا ریکارڈ بنا لیں اور مہینے کے آخر میں مجھے بھیج دیں۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت! آفس کے گروپ میں درج ذیل میسج چلا ہے۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ اس معاملے میں کیا کرنا چاہیے۔
”السلام علیکم تمام عملہ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ Employees Action Committee کے صدر کل صبح ان شاء اللہ عید میلاد النبی کے سلسلے میں کیک کاٹنے کا اہتمام کریں گے اور ساڑھے بارہ بجے کیک کاٹا جائے گا سب دوستوں اور ملازمین کو دعوت ہے“۔
جواب:
جب انسان شریعت کی پٹڑی سے اتر جائے تو اس کے بعد کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اصل بنیاد شریعت ہے۔ ہمیں فرمایا گیا ہے :
”مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِی“ (جامع ترمذی: رقم الحدیث: 2641)
ترجمہ: ”جس (راستے پر) میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں“۔
نبی کریم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقوش قدم کی پیروی میں ہی ہماری حفاظت ہے۔ ہم لوگوں کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے کہ آپ ﷺ کا میلاد شریف یعنی ولادت کا دن تو آپ ﷺ کے دور میں بھی آیا ہے، صحابہ کے دور میں بھی آیا ہے، تابعین کے دور میں بھی آتا رہا ہے۔ انہوں نے تو اس قسم کے کوئی کام نہیں کئے تھے۔ لوگ ایسا کام کر کے کیسی جرأت اور جسارت کا ارتکاب کررہے ہیں۔ ایک تو یہ بات سمجھ لیں کہ اس اصول کے مطابق ان لوگوں کا یہ کام کرنا غلط ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کیک کاٹنے والے معاملے میں غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت ہے۔ کیونکہ وہ easter کا کیک کاٹتے ہیں۔ اور مشابہت کے بارے میں حدیث شریف میں واضح طور پر یہ ارشاد موجود ہے:
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُم‘‘ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 4031)
ترجمہ: ”جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے۔“
معلوم ہوا کہ جنہوں نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ہم میں سے نہیں ہے وہ ان میں سے ہی ہے۔ یہ کیک کاٹنے والی باتیں ہمارے اسلام میں نہیں ہیں۔ اس کو مذہبی رنگ دینا تو اور بھی زیادہ جرم ہے، اس محفل میں شریک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ سالگرہ کی نقل ہے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم! مودبانہ عرض ہے کہ میرا ذکر آپ کے ارشاد کے مطابق 200، 400، 600 اور 2500 مرتبہ لسانی ذکر کرنا تھا اور اور 5 منٹ کا مراقبہ تھا۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے سخت بخار ہوا۔آٹھ دن تقریباً بیماری کی حالت میں بھی ذکر کرتا رہا لیکن آخری دن ہمت جواب دے گئی اور ذکر نہیں کر سکا کیونکہ بخار کی وجہ سے دل بہت کمزور ہو گیا تھا۔ اتنا پسینہ آیا جتنا زندگی میں کبھی نہیں آیا۔ مجھے مایوسی کا دورہ بھی پڑتا تھا۔ پہلے اس بارے میں آپ سے عرض کیا تھا کہ مجھے اپنے اوپر جادو کا شک ہے۔ تقریباً ایک ماہ میں ذکر نہیں کر سکا۔ دل گھبراتا تھا کہ اتنا ذکر کیسے کروں۔ اب بھی دل بہت کمزور ہے ذرا سی کوئی تیز آواز آئے تو دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ آپ کو بتانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ بعد میں تھوڑا سا ذکر شروع کیا ہے تاکہ ناغہ نہ ہو لیکن زیادہ تعداد نہیں ہو پائی۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔ آپ کی اجازت سے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ الله عليہ کے چالیس سے زیادہ مواعظ پڑھ لئے ہیں لیکن بیماری کے بعد نہیں پڑھ سکا۔ اللہ تعالیٰ اپنی کریمی سے معاملہ درست فرمائے۔ آمین
جواب:
آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ الله جل شانہٗ آپ کو صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ عطا فرمائے۔ آپ نے جو ہمت دکھائی یہ بڑی اچھی بات ہے کیونکہ مسلمان کو بیماری کی حالت میں بیماری کی وجہ سے مجاہدہ کا جو اجر ملتا ہے یہ اُس اجر کی تلافی کر لیتا ہے جو حالتِ صحت میں اعمال سے ملنا تھا۔ آپ نے یہ اچھا کیا کہ ناغہ نہیں کیا۔ یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ اگر کسی عذر کے سبب پورا ذکر نہ ہو پائے تو خواہ تھوڑا کر لیں مگر ناغہ بالکل نہ کریں تاکہ عادت برقرار رہے۔الحمد للہ آپ نے چالیس سے زیادہ مواعظ پڑھ لئے ہیں۔ اس کا اثر آپ پر ضرور ہوا ہو گا۔ جب آپ صحت مند ہو جائیں تو خانقاہ تشریف لے آئیں پھر اس پر مزید بات کر لیں گے۔
سوال نمبر4:
حضرت صاحب ہمارے وظیفے کی مدت پوری ہو گئی ہے۔ آپ نے ہم دونوں کو حکم دیا تھا کہ اسم ذات 1000 مرتبہ زبان سے پڑھو۔ صبح کے وقت سورہ یٰس اور شام کے وقت سورہ ملک اور سورہ واقعہ پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ مزید رہنمائی فرمائیں کہ اب ہم کیا کریں، نیز یہ بھی فرمائیں کہ ہم نے کوئی مجاہدہ کرنا ہے یا نہیں۔
جواب:
آپ اگلے ایک ماہ کے لئے اسم ذات کا ذکر 1500 مرتبہ کریں۔ مجاہدہ کے بارے میں یہ بتائیں کہ آپ نے اس سے پہلے کچھ مجاہدے کئے ہیں یا نہیں ؟ اگر کئے ہیں تو اس کی تفصیل بتا دیں کہ کیا کیا مجاہدے کئے ہیں اور اگر آپ نے پہلے کوئی مجاہدہ نہیں کیا تو بھی بتا دیں۔ تاکہ اس تفصیل کو مد نظر رکھ میں آپ کو کوئی مجاہدہ دے سکوں۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم شاہ صاحب! آج کل مجھ میں برداشت کی بہت کمی ہو رہی ہے۔ غصہ بہت زیادہ آتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ ہوتی ہوں۔ اپنے آپ کو قابو نہیں کر پاتی۔ بعد میں بہت خفا ہوتی ہوں۔ آج بھی ایک بچی کو سکول میں خوب مارا اور اب بہت خفا ہوں کہ کیوں مارا۔ آپ سے مدد کی درخواست ہے۔
جواب:
غصہ آنا کوئی بیماری نہیں ہے۔ بعض دفعہ صحت مند شخص کو بھی غصہ آ سکتا ہے۔ لیکن بے موقع غصہ کرنا ضرور بیماری ہو سکتی ہے۔
ناحق غصہ کرنے کے دو علاج ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ جب مکمل تربیت ہو جائے۔ غلط غصہ آنے کی جو جڑیں ہوتی ہیں، وہ کٹ جائیں تو اس کے بعد صحیح غصہ تو آتا ہے غلط غصہ نہیں آتا۔ یہ کیفیت تو تبھی حاصل ہو سکتی ہے جب مکمل تربیت ہو جائے اور نفس مطمئنہ حاصل ہو جائے۔ لیکن چونکہ انسان معاشرے میں رہتا ہے لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا ہوتا ہے، بات چیت اور معاملات میں سردی گرمی اور اونچ نیچ ہو ہی جاتی ہے، کسی کو بھی غصہ آ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کا دوسرا علاج کام آتا ہے۔ وہ علاج یہ ہے کہ ایسی صورت میں اخیار کے طریقہ پہ عمل کر لے۔ اخیار کا طریقہ یہ ہے کہ اس وقت جو کرنا ہے وہ کرے تاکہ کم از کم اس غصہ کے شر سے بچ جائے۔ اور غصہ کے وقت کیا کرنا چاہیے اس بارے میں حدیث شریف میں آیا ہے:
’’إِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ قَائِمٌ فَلْيَجْلِسْ، فَإِنْ ذَهَبَ عَنْهُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْيَضْطَجِعْ‘‘ (سنن ابی داؤد: 4782)
ترجمہ: ”جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اس حال میں کہ وہ کھڑا ہو، تو بیٹھ جائے، اس طرح اگر اس کا غصہ فرو ہو جائے (تو بہتر) ورنہ لیٹ جائے۔“
اس لئے جب غصہ آئے، اس وقت اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، جگہ بدل لے، پانی پی لے، کسی اور اچھے کام میں اپنے آپ کو مصروف کر لے۔ جس پہ غصہ ہو اگر وہ بڑا ہے تو اس کے پاس سے ہٹ جائے اور اگر چھوٹا ہے تو اس کو اپنے پاس سے ہٹا دے۔
یہ غصہ کے وقتی علاج ہیں۔ جب غصہ آئے تو یہ وقتی علاج کر کے غصہ کی انتہائی حالت کو گزرنے دیں، جب وہ حالت ختم ہو جاتی ہے اس کے بعد چونکہ عقل آ جاتی ہے پھر انسان ایسا نہیں کرتا۔
کہتے ہیں کہ کسی نے غصہ سے پوچھا کہ تو کہاں رہتا ہے۔ اس نے کہا میں دماغ میں رہتا ہوں۔ کہا: دماغ میں تو عقل ہوتی ہے۔ اس نے کہا: جب میں آ جاتا ہوں تو عقل چلی جاتی ہے۔ اس وقت عقل نہیں رہتی۔ جب غصہ چلا جاتا ہے تو عقل واپس آتی ہے۔ لہٰذا کسی طرح غصہ کی حالت کو گزار لیں، پھر غصہ کو جانے دیں اور عقل کو آنے دیں۔ وقتی طور پر اس کا یہی علاج ہے اور مکمل علاج وہ ہے جو پہلے عرض کر دیا۔ جب تک مکمل علاج پورا نہ ہو تب تک وقتی علاج سے کام چلائیں۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ، حضرت جی! میرا ذکر ایک مہینہ کے لئے 200 مرتبہ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“، 400 مرتبہ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو“، 600 مرتبہ ”حَقْ“، 1500 مرتبہ ”اَللّٰہ“، اور 5 منٹ دل میں اللہ اللہ کو محسوس کرنے کا مراقبہ، اللہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوا۔ دل میں اللہ اللہ ابھی محسوس نہیں ہو رہا، میرے لئے آگے کیا حکم ہے؟
جواب:
اب آپ 200 مرتبہ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“ 400 مرتبہ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو“ 600 مرتبہ ”حَق“ اور 2000 مرتبہ ”اللّٰہ“ کا ذکر کریں اور ہر نماز کے بعد 11 مرتبہ ایک ہی سانس میں اللہ اللہ جلدی جلدی کہا کریں اور روزانہ اس کو بڑھاتے جائیں۔ آپ اس کو ایک سانس میں جتنا زیادہ سے زیادہ بڑھا سکیں وہاں تک لے جائیں اور 5 منٹ کا مراقبہ بھی جاری رکھیں۔ ایک مہینہ دوبارہ اطلاع کریں۔
سوال نمبر 7:
حضرت جی میرے بھتیجے کا ذکر 200 مرتبہ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“ 300 مرتبہ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو“ 300 مرتبہ ”حَق“ اور 100 مرتبہ ”اَللّٰہ“ ایک مہینہ کے لئے، اللہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوا۔
جواب:
ان کو بتا دیجئے کہ 200 مرتبہ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“ 300 مرتبہ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو“ 300 مرتبہ ”حَق“ اور 100 مرتبہ ”اَللّٰہ“، یہ ذکر اگلے ایک ماہ کریں۔
بھابھی اور بھتیجی کے لئے آپ نے بتایا ہے کہ ان کا یہ مراقبہ مکمل ہوا کہ ایک مہینہ تک روزانہ 15 منٹ کے لئے یہ تصور کریں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ اللہ کر رہی ہے، میرا دل بھی اللہ اللہ کر رہا ہے۔لیکن ان کی کیفیت یہ ہے کہ ابھی ذکر محسوس نہیں ہوتا۔ ان کو بتا دیں کہ اگلے ایک ماہ کے لئے یہ معمول اختیار کریں کہ روزانہ اللہ اللہ 500 مرتبہ زبان سے کرنے کے بعد دل میں اللہ اللہ 15، 15 منٹ کے لئے محسوس کیا کریں۔ ایک ماہ بعد اطلاع کریں۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم۔ حضرت یہ فرمائیں کہ نسبت کے عطا ہونے سے کیا مراد ہے۔ نسبت کیا چیز ہوتی ہے؟
جواب:
اس کے لئے آپ ہماری کتاب ”فہم التصوف“ کا مطالعہ کر لیں۔ یہ ہماری ویب سائٹ tazkia.org پر موجود ہے۔ اس سے آپ کو تفصیلی طور پر نسبت کے بارے میں کافی کچھ معلوم ہو جائے گا۔ابھی میں مختصراً عرض کر دیتا ہوں کہ نسبت اس کو کہتے ہیں کہ بندے کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا دھیان نصیب ہو جائے اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو کر نیک اعمال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو راضی رکھنے کی کوشش کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ بھی اس کے لئے روحانی ترقی کے اسباب غیب سے پیدا فرماتے رہتے ہیں۔ گویا کہ اللہ کی طرف انسان کی توجہ مستقل ہو جاتی ہے اور اللہ پاک کی رحمت بھی اس کی طرف مستقل متوجہ ہو جاتی ہے۔ اس کو ”نسبت“ کہتے ہیں۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم حضرت! میری ایک دوست کہہ رہی ہے کہ میں ان کے لئے آپ سے وظیفہ مانگوں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ مجھے وظیفہ دے دیں اور میں ان کو بتا دوں۔
جواب:
جی بالکل یہی چالیس دن والا وظیفہ جو میں نے آپ کو دیا ہے، آپ ان کو بھی دے سکتی ہیں۔ جب وہ مکمل کر لیں تو پھر اس کے بعد بارہ بجے اور ایک بجے کے درمیان ہم سے رابطہ کر لیں۔
سوال نمبر 10:
حضرت میرا ذکر ہے: ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 300 مرتبہ۔ اس کا ایک مہینہ پورا ہو گیا اگلا ذکر کیا ہو گا۔
جواب:
آپ باقی ذکر یہی جاری رکھیں البتہ ”اَللّٰہ“ کا ذکر 300 کی جگہ 400 مرتبہ کریں۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم حضرت! جو معمولات چالیس دن کے لئے شروع کئے تھے اگر کسی ایک نماز کے بعد رہ جائیں تو اس کا کیا حکم ہے۔ اگر نماز قضا ہو جائے تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟
جواب:
نماز رہ جائے تو اس کی قضا نماز ادا کرنا لازمی ہے۔ اگر کسی نماز کے بعد معمولات رہ جائیں تو جس وقت ممکن ہو انہیں جلد سے جلد پورا کر لیں۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم یا سیدی و مرشدی دامت برکاتہم! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ میرے بچے کی پیدائش کے بعد سے دروس شریف وغیرہ سننا میرے لئے بہت مشکل ہو رہا ہے۔ آپ کی برکت سے نمازیں پر پابندی نصیب ہو رہی ہے لیکن مجھے دروس سننے میں کافی مشکل پیش آ رہی ہے۔ نماز اور ذکر میں توجہ مرکوز نہیں ہو پاتی۔ کچھ دنوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ کسی بھی روحانی ترقی سے خالی ہوں۔ کچھ لوگوں سے حسد محسوس کرتا ہوں تو انہیں دعا دیتا ہوں لیکن اس کے با وجود حسد ختم نہیں ہو رہا ہے۔ بد نظری کا مسئلہ بھی در پیش ہے، اگرچہ غیر محرم کو دیکھتا نہیں ہوں لیکن دل میں دھیان محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
دروس سننے کی پریشانی کا حل یہ ہے کہ جس وقت آپ گاڑی چلا رہے ہوں اس وقت دروس کی ریکارڈنگ سن لیا کریں۔
جہاں تک حسد کی بیماری کا تعلق ہے تو وہ اس وقت ختم ہو گی جب نفس‘ نفس مطمئنہ ہو جائے گا۔ وہ علاج تو لمبا ہے چلتا رہے گاجب تک مکمل طور پر یہ بیماری ختم نہ ہو جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا وقتی اور فوری علاج بھی کرنا ہوتا ہے۔ آپ نے اس کے ساتھ علامتی علاج والا معاملہ کرنا ہے۔ علامتی علاج اس کو کہتے ہیں کہ جیسے آپ کو کبھی بخار ہوتا ہے تو ڈاکٹر دیکھتا ہے کہ یہ بخار کس مرض کی وجہ سے آیا ہے۔ اصل علاج تو یہ ہوتا ہے کہ اس مرض کو دور کیا جائے لیکن وقتی طور پر بخار کو دور کرنے کے لئے پیرا سیٹا مول دیتے ہیں۔ تو یہ علامتی علاج ہے۔ حسد کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ اصل علاج تو ان اسباب اور دواعی کو ختم کرنا ہے جن کی وجہ سے حسد پیدا ہوتا ہے۔ لیکن وقتی طور پر حسد کو دور کرنے کے لئے علامتی علاج بھی کرنا پڑتا ہے۔
لہٰذا اس کی اصل جڑ کو دور کرتے ر ہیں۔ چونکہ آپ اس راہ پر چل رہے ہیں تو ان شاء اللہ اس کی اصل تک آپ پہنچ جائیں گے اور اس کا علاج ہو جائے گا۔ لیکن اس کا وقتی علاج جو آپ کر رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے کہ جن کے ساتھ آپ کو حسد ہو آپ ان کے لئے دعا کر لیا کریں، ان کی برائی لوگوں کے سامنے بیان نہ کیا کریں اور اس چیز کو برا سمجھیں تو ان شاء اللہ العزیز اس کے شر سے بچے رہیں گے۔
باقی جو آپ نے یہ فرمایا کہ آپ غیر محرم کی طرف دیکھتے نہیں ہیں لیکن دھیان اس کی طرف جاتا ہے۔ اس بارے میں عرض ہے کہ اگر دھیان خود بخود جاتا ہے تو دھیان جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ضروری یہ بات ہے کہ آپ اس کے تقاضے پہ عمل نہ کریں۔ آپ کے اندر غیر محرم کو دیکھنے کا جتنا شدید تقاضا ہو گا، اس تقاضے کو پورا نہ کرنے پر اتنا ہی زیادہ تقویٰ حاصل ہو گا۔ بد نظری سے بچنے کے باوجود دل میں اس بات کا تقاضا آنے کو یوں سمجھیں کہ تقویٰ حاصل کرنے کی پوری ایک مشین آپ کے پاس ہے۔ آپ اس کے ذریعہ سے تقویٰ حاصل کر لیں۔
ماشاء اللہ آپ نے درود شریف پڑھا ہے۔ یہ بہت بڑی دولت ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے:
’’مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ عَشْرًا‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 408)
ترجمہ: ”جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت نازل فرمائے گا۔“
آپ ﷺ پہ ایک دفعہ درود پاک پڑھنے پر اللہ پاک کی دس رحمتیں متوجہ ہو جاتی ہیں تو یہ معمولی بات نہیں ہے۔ اللہ پاک کی ایک رحمت بھی بڑی چیز ہے۔ اگر آپ کو اللہ پاک نے اتنی مرتبہ درود شریف پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی ہےتو اس پہ شکر ادا کریں اور اس نعمت کو جاری رکھیں تاکہ آپ کو زیادہ سے زیادہ اللہ پاک کا قرب اور رحمت نصیب ہو جائے۔
آپ نے کہا کہ آپ کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ نبی ﷺ کے ساتھ آپ کا تعلق اتنا مضبوط نہیں ہے۔ یہ محسوس ہونا بھی ایک تعلق کی علامت ہے۔ جس کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا اس کے تعلق کی فکر بھی نہیں کی جاتی۔ آپ کو تعلق کی فکر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو تعلق حاصل ہے ورنہ آپ فکر کیوں کرتے۔
سوال نمبر 13:
میں نے آپ کی کتاب ”سلوک النساء“ میں پڑھا ہے کہ دل پر محنت اور نفس کا تزکیہ، ان دونوں کے درمیان توازن ہونا چاہیے۔ اس سے کیا مراد ہے؟ مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی۔اگر آپ سمجھا دیں تو بڑی مہربانی ہو گی۔
جواب:
اس کی تشریح یہ ہے کہ دل کا اپنا شعبہ ہے۔ جذبات، احساسات، ایمان اور کفر، یہ ساری دل کی باتیں ہیں، جبکہ خواہشات نفس میں ہوتی ہیں۔ ہم نے اس طرح کرنا ہے کہ خواہشات کو دبانا ہے اور دل میں ایمان رکھنا ہے، اللہ کی محبت دل میں لانی ہے۔ یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ اگر آپ سارا زور دل پر ڈالیں اور نفس کو بالکل نظر انداز کر دیں تو مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اگر سارا زور دل پر رکھیں تو دل والی باتیں صحیح ہو جائیں گی لیکن نفس والی باتیں ٹھیک نہیں ہوں گی کیونکہ آپ کی خواہشات جاری رہیں گی۔ خواہشات جاری رہنے کی وجہ سے آپ نفس کے تقاضوں پہ عمل کریں گے۔ ایسا کرنے سے آپ کا دل بھی خراب ہوتا چلا جائے گا۔ اس وجہ سے صرف دل کے اوپر محنت کرنا کافی نہیں ہے اور صرف نفس کے اوپر محنت بھی کافی نہیں ہے۔ اگر آپ صرف نفس کے اوپر محنت کر رہے ہیں تو دل والی چیزیں رہ جائیں گی۔ اگر آپ کی توجہ ایمان کے اوپر نہیں ہے، اگر اللہ کے ساتھ آپ کا تعلق نہیں ہے تو بے شک آپ گناہ نہ بھی کریں پھر بھی نفس کو قابو کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ آپ جوگی بن کر رہ جائیں گے۔ جوگی بھی نفس کے خلاف کرتا ہے۔ صرف نفس پر محنت کرکے کچھ ملے گا، دل پر بھی ساتھ کام کرنا ہو گا کیونکہ ایمان اور نیت کا معاملہ دل کے ساتھ ہے۔
’’ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ (صحیح بخاری۔ حدیث نمبر: 1)
ترجمہ: ”تمام اعمال کا دار و مدار نیت پرہے“۔
نیت کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔ ایمان کا تعلق بھی دل کےساتھ ہے۔ لہٰذا صرف نفس کے اوپر محنت کافی نہیں ہے، اسی طرح صرف دل کے اوپر محنت بھی کافی نہیں ہے بلکہ دونوں کے درمیان اعتدال ہونا چاہیے کہ دل پر اتنی محنت ہو کہ نفس نظر انداز نہ ہو اور نفس پہ اتنی محنت ہو کہ دل نظر انداز نہ ہو۔ دونوں پر یکساں درجے کی محنت چاہیے۔ یہ مطلب ہے سلوک النساء کی اس عبارت کا۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
اپنے آقا کی تعریف کیسے کروں اس کے کرنے کو میری زباں ہی نہیں
نعت کے ان اشعار کے بارے میں مجھے ایسے لگتا ہے کہ میرے الفاظ ہیں۔ جب میں صبح کے وقت روضۂ اقدس کے سامنے سے گزرتی ہوں تو بہت گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے کہ میں رسول کریم ﷺ کے سامنے گزر رہی ہوں۔ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ ادب کا تقاضا کیسے برقرار رکھوں۔ اپنا آپ بے حد پست اور نالائق لگتا ہے۔ جب سامنے سے گزروں تو ایسی ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے کہ ہڈیاں تک ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔ ٹھنڈک پاؤں سے ہوتے ہوئے سر سے نکلتی ہے اور ایک ایک مسام سے ہوا نکلتی محسوس ہوتی ہے۔
اللہ ہم سب کو اور ہمارے سلسلے کو قبول فرمائے۔ میں اس پر جتنا بھی اللہ کا شکر ادا کروں کم ہے کہ اللہ نے مجھے آپ اور فلاں باجی کے ساتھ جوڑا ہے۔ اس سفر میں انہوں نے قدم قدم پہ میری رہنمائی فرمائی ہے۔ میں یہ رہنمائی ساری زندگی نہیں بھول سکتی۔
جواب:
الحمد للہ اچھی بات ہے۔ یہ مناسبت کی علامت ہے۔ الله جل شانہٗ آپ کو مستقل طور پر سلسلے کی برکات سے نوازے۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم حضرت جی! میں کویت سے ہوں۔ اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ میں عبادت اور اذکار پابندی سے کر رہا ہوں مگر کبھی کبھی نفس کے حملے کا شکار ہو جاتا ہوں۔ جھوٹ، غیبت اور بد نظری سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں ایک دو دن تو معمول ٹھیک رہتا ہے مگر پھر کوئی نہ کوئی گناہ ہو جاتا ہے۔ میری مثال ایسی ہے جیسے میں پہاڑ پر چڑھتا ہوں اور کوئی مجھے آدھے راستے میں دھکا دے کر نیچے گراتا ہے، پھر چڑھتا ہوں، پھر گر جاتا ہوں۔ حضرت صاحب تفصیل سے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
بڑا اچھا نقشہ کھینچا ہے۔ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ بات تو یہی ہے۔ نفس کے ساتھ یہ کشا کشی تو لگی رہے گی۔ کہتے ہیں: ”لگے رہو، لگے رہو۔ لگ جائے گی“۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات اور تحریرات حضرت خواجہ صاحب نے نظم میں قلم بند کیا ہے۔ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
نہ چِت کر سکے نفس کے پہلواں کوتو یوں ہاتھ پاؤں بھی ڈھیلے نہ ڈالےارے اس سے کُشتی تو ہے عمر بھر کیکبھی وہ دَبا لے کبھی تُو دَبا لے
یہ کام تو عمر بھر چلتا رہے گا۔ اس میں مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مایوسی شیطان کی طرف سے ہے۔ آپ نے جو مثال دی ہے وہ مثال عام لوگوں کے لئے تو ٹھیک ہے۔ عام لوگ اس کو ایسے ہی سمجھیں گے لیکن میرے حساب سے ٹھیک نہیں ہے۔ آپ نے مثال دی ہے کسی ستون کے اوپر چڑھنے کی یا پہاڑ کے اوپر چڑھنے کی، پھر بعد میں پھسلنے کی، جبکہ میں اس کی تشریح کچھ اور طریقے سے کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کا حوصلہ بڑھے۔
ذرا غور کریں کہ جتنے کام آپ نے نفس کے خلاف کیے، وہ آپ کے لئے ذخیرہ بن گیا۔ وہ آپ کا تقویٰ بن کر آپ کے اعمال نامے میں جمع ہو گئے۔ آپ نے اتنا تقویٰ حاصل کر لیا اور اس کا اجر آپ کے لئے ذخیرہ ہو گیا۔ اور جتنی مرتبہ آپ نے نفس کی بات مان کر کوئی گناہ کیا پھر اس پہ توبہ کر لی تو اس گناہ کا وبال بھی ختم ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آپ منفی میں نہیں گئے بلکہ آپ کا رزلٹ مثبت رہا۔ ایسا نہیں ہوا کہ آپ جہاں سے چلے تھے، وہیں کے وہیں رہے بلکہ آپ کافی حد تک آگے بڑھے ہیں۔ ہاں! اگر آپ کوئی نیک کام نہ کرتےیا برا کام کر کے توبہ نہ کرتے تب ضرور آپ کا رزلٹ منفی میں ہوتا، لیکن اگر آپ نیک کام کرتے رہتے ہیں اور اگر کوئی گناہ ہو جائے تو توبہ بھی کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ لہٰذا ہمت نہ ہاریں۔
میں اکثر یہ بات عرض کرتا رہتا ہوں کہ جب مکمل اصلاح ہو جائے، نفس مطمئنہ حاصل ہو جائے، بالفاظ دیگر، نسبت حاصل ہو جائے تو انسان کو گناہ سے ایسی نفرت ہو جاتی ہے جیسے پاخانہ سے ہوتی ہے اور نیکی کے ساتھ ایسے محبت ہو جاتی ہے جیسے پھول کی خوشبو کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ چیز نفس مطمئنہ اور کیفیت احسان کے حصول کے بعد حاصل ہوتی ہے، لیکن جب تک یہ حاصل نہ ہو، تب تک اخیار والا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ ہمت کر کے قوتِ ارادی کے ساتھ نیکی کرو اور قوت ارادی کے ساتھ برائی سے بچو۔ خدا نخواستہ پھر بھی برائی ہو جائے تو توبہ کر لو۔ آپ اسی بات کو ابتدائی طور پر اپنے اوپر لاگو کر سکتے ہیں۔ سلسلے کے ساتھ وابستگی کے بعد اگر آپ کو یہ چیز بھی نصیب ہو گئی ہے تو یہ بھی اللہ پاک کی بہت بڑی دین ہے، ورنہ شیطان تو راستہ میں ہی مار لیتا ہے اور مایوس کر دیتا ہے کہ بس اب کچھ نہیں ہو سکتا۔
لہٰذا آپ ڈریں نہیں، اپنی ہمت بڑھائیں۔ خدا نخواستہ اگر کوئی گناہ ہو بھی جائے تو فوراً توبہ کریں، توبہ میں دیر نہ لگائیں۔ آپ ﷺ کا وضو جب ٹوٹ جاتا تو پہلے فوری طور پر تیمم کر لیتے، اس کے بعد وضو کرتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے پہلے موت آ جائے۔ ہمیں کیا پتا کہ ہماری موت کس وقت آنی ہے، لہذا توبہ کرنے کی امید پر گناہ نہیں کرنا چاہیے، اگر گناہ ہو جائے تو توبہ میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ یہ ہے وہ چیز جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتے ہیں۔ آپ ان باتوں پہ عمل کر لیں۔ ان شاء اللہ آپ محفوظ رہیں گے۔ باقی ہمت کریں آگے بڑھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید ترقیات نصیب فرما دے۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت! دل میں بہت سختی محسوس ہوتی ہے۔ پوری ہمت کر کے اپنی طاقت کے مطابق معمولات پورے کرنے کی کوشش کرتا ہوں پھر بھی کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے۔ دل اپنی پرانی زندگی کی طرف جانے کو کرتا ہے۔ پرانی زندگی سے مراد یہ ہے کہ باجماعت نماز سے لاپروائی، یوٹیوب پر وقت ضائع کرنا، کرکٹ میچ کا شوق اور نظر کی حفاظت نہ کرنا۔ ہمت کرکے کنٹرول کرتا ہوں لیکن نفس بہت زور لگاتا ہے کہ یہ کام دوبارہ کرو۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر کے جذبات غالب رہتے ہیں خاص طور پر آپ سے اصلاحی تعلق کے بعد جو فیوض و برکات حاصل ہوئے ان کا شکر ادا کرنے کا خیال غالب رہتا ہے۔ بزرگی کے خیالات بہت زیادہ آتے ہیں۔ ہر جمعہ کو ختم خواجگاں پڑھتا ہوں۔
جواب:
اگر دل میں سختی محسوس ہو رہی ہے تو یہ محسوس ہونا بھی صحت کی ایک علامت ہے۔ جب انسان بے حس ہوتا ہے تو اس کو دو کام کرنے پڑتے ہیں پہلے حس کو بیدار کرنا پڑتا ہے، اس کے بعد علاج ہوتا ہے۔ آپ نے آدھا راستہ تو طے کر لیا کہ آپ کی حساسیت فعال ہو گئی۔ آپ کو پتا تو چل گیا کہ یہ چیز صحیح ہے یا غلط ہے، اس کے بارے میں تو آپ کو معلوم ہو گیا۔ اس پر اللہ کا شکر ادا کریں کہ کم از کم آپ کو اتنی حساسیت حاصل ہے کہ آپ اپنے دل کی سختی اور غفلت کو محسوس کر سکتے ہیں۔ ورنہ آج کل تو ایسا دور ہے کہ لوگ اپنے آپ کو باتوں میں مشغول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو ایسے اور ایسے ہیں۔ عملی طور پر کرتے کچھ بھی نہیں اور نقل بزرگوں کی کرتے ہیں۔ یہ خطرناک بات ہے۔ الحمد للہ آپ اس خطرے سے تو نکل گئے ہیں۔ باقی معمولات پورا کرنے کی ہمت کیا کریں۔ کیونکہ یہ معمولات ایک علاج ہیں اور علاج میں سستی کرنا اپنے آپ کے ساتھ دشمنی ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ پرانی زندگی کی طرف جانے کو دل کرتا ہے۔ نفس ایسا ہی ہوتا ہے۔ نفس ہمیشہ ”نہیں نہیں” کرے گا۔ وہ نفس ہی کیسا جو آپ کی بات مان جائے۔ یہ تو تنگ کرے گا۔ آپ نے اسی کا علاج کرنا ہے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ جس کام پر یہ اصرار کرے آپ اسی سے انکار کریں۔ اگر نفس کسی کام کے بارے میں چاہتا ہے کہ آپ کریں، اور آپ نہیں کرتے تو آپ کا نفس کی بات کو نہ ماننا تقویٰ بن جائے گا۔ سبحان اللہ! آپ کے لئے مفت میں تقویٰ حاصل ہونے کے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ لہٰذا آپ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے نفس کی مخالفت کریں اور تقویٰ حاصل کریں اور جو نعمتیں آپ کو اللہ نے دی ہیں ان پہ شکر ادا کریں۔
آپ نے کہا کہ بزرگی کے خیالات بہت زیادہ آتے ہیں۔
ایک بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ جو آدمی اپنے آپ کو غلطی پر سمجھتا ہے اس کو بزرگی کے خیالات کیسے آ سکتے ہیں ؟یہ دونوں باتیں جمع نہیں ہو سکتیں۔ انسان اپنے آپ کو غلط نہیں سمجھے گا تو بزرگی کے خیالات آئیں گے اور اگر اپنے آپ کو غلط سمجھے گا تو بزرگی کے خیالات نہیں آئیں گے۔ میرے خیال میں آپ نے دماغ اور نفس کو آپس میں خلط ملط کر لیا ہے۔ بس یہ خلط ملط نہ کریں۔ ان کو ساتھ ساتھ رکھیں تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے۔ اگر آپ کو بزرگی کے خیالات آتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو سمجھا دیں کہ میں جو اپنے آپ کو بزرگ سمجھ رہا ہوں یہ بات بذات خود ایک گناہ ہے تو کیا گناہ گار ہوتے ہوئے میں بزرگ ہو سکتا ہوں؟ اسی سوچ کے ذریعے بزرگی کے خیالات ختم ہو جائیں گے۔ اس کا علاج اس کے اندر ہی موجود ہے۔
باقی آپ ختم خواجگان ہر جمعہ کو کرتے رہیں۔ یہ بڑی اچھی بات ہے۔
جن اعمال کو آپ کا نفس نہیں چاہتا ان کو کرتے ہوئے مجاہدہ کی نیت بھی شامل کر لیں کہ یہ معمولات کرتے ہوئے جو مجاہدہ ہو گا اس سے میرے نفس کا علاج ہو گا۔
سوال نمبر17:
السلام علیکم! میرا سوال ہے کہ جیسے سکول اور مدارس عام ہیں کہ سب ان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، اسی طرح اپنی اصلاح کرنا اتنا عام کیوں نہیں ہے کہ ہر کوئی اپنی اصلاح کرے۔ یہ اتنی چھپی ہوئی بات کیوں ہے؟
جواب:
در اصل آپ شیطان کو نظر انداز کر رہی ہیں کہ شیطان نہیں ہے اور ہم کہتے ہیں شیطان ہے۔ یہی تو کمالات ہیں شیطان کے۔ پشتو میں کہتے ہیں: ”اخ ببڑا وال“ یعنی اونٹ کو نیفے میں اڑسنا۔ ظاہر ہے یہ کام یعنی اونٹ کو نیفے اڑسنا ممکن نہیں ہے، کوئی نہیں کر سکتا۔ لیکن شیطان کروا دیتا ہے۔ یہ اتنی بڑی چیز کو چھپا دیتا ہے۔ یہی شیطان کا کمال ہے کہ بڑی چیز کو چھوٹا کر دیتا ہے، چھوٹی چیز کو بڑا کردیتا ہے۔ آخرت بڑی ہے یا چھوٹی؟بڑی ہے! لیکن لوگوں کی نظروں میں کیسی ہے، چھوٹی یا بڑی؟ جی ہاں! زیادہ تر لوگوں کی نظروں میں چھوٹی ہے۔ دنیا آخرت کے مقابلے میں چھوٹی ہے لیکن انسان دنیا کو اہمیت دیتا ہے اور آخرت کو پس پشت ڈالتا ہے۔
﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ۔ وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ﴾ (القیامۃ: 20-21)
ترجمہ: ” خبردار (اے کافرو) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئیے ہوئے ہو۔“
تو بڑی چیز کا چھوٹا نظر آنا، اہم چیز کا غیر اہم قرار پا جانا، یہ سارے کرشمے شیطان کے ہیں۔
﴿وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ﴾ (النمل:24)
ترجمہ: ”اور شیطان نے ان کو یہ سمجھا دیا ہے کہ ان کے اعمال بہت اچھے ہیں“۔
قرآن پاک کہتا ہے کہ ان کے لئے شیطان ان کے اعمال کو خوب صورت کر کے دکھا دیتا ہے۔ یہ بھی شیطان ہی کی کارستانی ہے کہ اتنی اہم چیز، اپنی نفس کی اصلاح کو لوگوں کی نظروں سے چھپا دیا ہے حالانکہ اللہ پاک نے اس کے لئے پوری سورت اتاری ہے۔
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۔ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا ﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ”فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔“
لیکن کسی کو اس کی اہمیت کا پتا ہی نہیں ہے،۔ہم دنیا کے بارے میں کہتے ہیں کہ کوئی کام بغیر سبب کے نہیں ہو سکتا۔ مثلاً کوئی کسی کو کہہ دے کہ تم ڈاکٹر بن جاؤ لیکن اس کے لئے تمہیں سکول پڑھنا پڑے گا۔، F.S.c کرنی پڑے گی، میڈیکل کالج جانا پڑے گا۔ وہ کہے کہ یہ سکول جانا اور پڑھائی کرنا تو مجھ سے نہیں ہو سکتا لیکن میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں تو لوگ اسے کہیں گے کہ پھر تمہیں تو پاگل خانے لے جانا پڑے گا، کمال کی بات ہے کہ ایک چیز حاصل کرنا چاہتے ہو مگر اس کے لئے اسباب کو اختیار نہیں کرنا چاہتے، وہ چیز اسباب کے بغیر کیسے حاصل ہو سکتی ہے جو اسباب کے اوپر منحصر ہو۔
یہاں بھی یہی معاملہ ہے۔ تقویٰ کو حاصل کرنے کے اسباب و ذرائع ہیں۔ اب کوئی انسان تقویٰ تو حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے ذرائع کی مخالفت کرتا ہے تو آپ ہی بتائیں کہ بغیر کسی سبب کے آپ کسی چیز کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ باتیں شیطان کا ثبوت ہیں۔ شیطان سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت! موت کا خوف اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ انسان درست اعمال پر آ جائے لیکن اگر موت کا خوف اس قدر بڑھ جائے کہ اعمال صالحہ بجائے بڑھنے کے کم ہو جائیں۔ ایسی حالت سے باہر کیسے آ سکتے ہیں اور کیا انسان کے اندر خوف بزدلی چڑچڑا پن وغیرہ، یہ بیماریاں دماغ میں کیمیائی گڑبڑ کی وجہ سے بھی پیدا ہو سکتی ہیں؟
جواب:
جی ہاں بالکل ایسا ہو سکتا ہے۔ اس کو فوبیا کہتے ہیں۔ فوبیا با قاعدہ ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ اگر کسی کو یہ بیماری لاحق ہو تو وہ ڈرتا ہے کہ میں مر جاؤں گا اور اس پر وحشت طاری ہوتی ہے۔ وہ عام کام بھی صحیح نہیں کر پاتا۔ ایسے لوگوں کی صلاحیتیں بہت محدود ہو جاتی ہیں۔ ان کا جسم بھی کانپتا ہے، بات بھی صحیح طریقے سے نہیں کر سکتے۔ واقعی یہ یمیائی گڑبڑ کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ اگر اس کا کوئی علاج کر لیا جائے تو اچھی بات ہے۔
سوال نمبر 19:
میں جو بھی اعمال کرتا ہوں مثلاً قرآن پاک کی تلاوت سورۂ کہف، سورۂ یٰس، اس کے علاوہ دوسرے اعمال۔ ان کا ثواب میں اپنے والد کو بخش دیتا ہوں۔ کیا مجھے ثواب حاصل کرنے کے لئے وہ سارے اعمال دوبارہ کرنے پڑیں گے؟
جواب:
نہیں! وہ اعمال جو آپ نے کئے ہیں ان کا اجر آپ کو بھی ملے گا۔ ایصال ثواب کا بھی تو اجر ہوتا ہے۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم حضرت جی! قلبی ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے۔ قلب پر 10 منٹ، روح پر 10 منٹ، سر پر 10 منٹ اور خفی پر 15 منٹ۔ حضرت جی! پچھلے ماہ کی نسبت اس ماہ ذکر کچھ دن کم محسوس ہوا، یکسوئی بھی کچھ دن کم رہی۔ میں نے یہ بات نوٹ کی تھی کہ جب یکسوئی ٹھیک رہے تب زیادہ تر ذکر ٹھیک ہوتا ہے۔ کچھ کمی تو غیر اختیاری تھی جیسے وساوس یا خیالات سے، لیکن کچھ کمی صحیح وقت کا انتخاب نہ کرنے سے ہوئی۔ ان دنوں کوئی ایسا مناسب وقت نہیں مل پا رہا جس میں دل و دماغ کو منتشر کرنے والی کوئی چیز نہ ہو اور میں بالکل تازہ دم ہو کر ذکر کر سکوں۔ اگر کوئی دوسری رکاوٹ نہ ہو تو میں تھکی ہوئی ہوتی ہوں یا نیند میں ہوتی ہوں اور جب ہشاش بشاش ہوں تو اس وقت کوئی نہ کوئی رکاوٹ ہوتی ہے کسی نہ کسی کی جلدی لگی ہوتی ہے اور کئی مسائل چل رہے ہوتے ہیں۔ کوشش کر رہی ہوں لیکن فی الحال نہیں سمجھ آ رہا کہ میں کیا کروں۔ دعا فرما دیں کہ اللہ پاک آسانی فرما دے۔ کام تو اہم بہت اہم ہے، معلوم ہے۔ اللہ کرے صحت اور نیند کچھ ٹھیک رہے تاکہ ذکر میں فرق نہ آئے اور پابندی سے جاری رہے۔ ابھی بھی جس طرح ممکن ہو کر لیتی ہوں تاکہ ناغہ نہ ہو۔ اس کے علاوہ یہ بتانا تھا کہ جب ٹھیک محسوس ہو تو کبھی کبھی لطیفے کی جگہ دائیں بائیں دائیں بائیں حرکت ہوتی ہے، جو کبھی بہت واضح معلوم ہو تو پورے سینہ میں چند لمحے محسوس ہوتی ہے۔
جواب:
اللہ کا شکر ہے کہ آپ کو اس کی فکر ہے اور فکر رستے بنا لیتی ہے۔ آپ کی یہ بات بالکل صحیح ہے۔ یکسوئی اس میں بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: ”یکسوئی ہو چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو“۔خواتین میں نسبتاً مردوں کے مقابلے میں یکسوئی زیادہ ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے کہ گوشت اگر جل بھی جائے تو دال سے اچھا ہوتا ہے۔ عورتوں کو یکسوئی نہ بھی ہو تو مردوں سے پھر بھی زیادہ یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ جب آپ کا یہ حال ہے تو سوچیں کہ ہمارا حال کیا ہو گا۔ آپ خوش نصیب ہیں۔ جتنی یکسوئی آپ کے پاس ہے اس سے آپ کام لیں اور اپنے کام کو آگے بڑھائیں۔ ایک بات نوٹ کرنے کی یہ بھی ہے کہ آپ واقعتاً صحیح بات تک پہنچ گئی ہیں کہ یکسوئی حاصل کرنے کے لئے صحیح وقت کا تعین بہت ضروری ہے۔ تہجد کا وقت بہت یکسوئی کا وقت ہوتا ہے۔ پتا نہیں آپ تہجد پڑھتی ییں یا نہیں۔ اگر آپ تہجد نہیں پڑھتیں تو کوشش کریں کہ تہجد پڑھا کریں۔ ان شاء اللہ اس میں آپ کو یکسوئی کا وقت مل جائے گا اور وہ وقت بہت اچھا وقت ہوتا ہے۔ کوشش کرکے اس کو سنبھال لیں۔ تہجد کے وقت اس کو کر لیا کریں تو امید ہے کہ ان شاء اللہ بہت فائدہ ہو گا۔ ذکر جتنا بھی محسوس ہو اس کا شکر کریں اور جتنا محسوس نہ ہو اس کی فکر کریں۔ یہ دونوں باتیں ٹھیک ہیں۔
سوال نمبر 21:
حضرت! میرے گھر والوں نے اچانک سوال کر دیا کہ مجھے سمجھائیں مراقبہ کیسے اچھا ہوتا ہے؟ میں نے جواب دیا: مشق سے۔ پھر پوچھا کہ مشق کس چیز کی کریں ؟میں نے کہا کہ جو شیخ نے بتائی ہو۔ پھر سوال آیا کہ ان باتوں کا اتنا مختصر جواب کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے تو بس اتنا ہی پتا ہے۔ حضرت اس کے بارے میں تفصیلی جواب عنایت فرما دیں۔
جواب:
در اصل مراقبہ ایک خاص بات کی طرف اپنے آپ کو متوجہ کرنا ہے۔ میں اکثر اس کی مثال اس طرح دیتا ہوں کہ جیسے بلی چوہے کا شکار کرتی ہے تو گھات لگا کر بیٹھ جاتی ہے۔ وہ اتنی ہوشیار ہوتی ہے کہ اس کے جسم کا ہر ہر حصہ اسی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ گویا اس کے کان، اس کی آنکھیں، اس کے دماغ کی سوچ، اس کے پیر کودنے کے لئے، یہ سب چیزیں انتہائی تیار قسم کی حالت میں ہوتی ہیں کہ جیسے ہی چوہا اس کی پہنچ میں آ جائے تو ذرہ بھر بھی اسے دبوچنے میں چوک نہ ہو۔
مراقبہ کی اصل وضاحت یہ ہے کہ مراقبہ کا مطلب اپنے آپ کو اس بات کے لئے تیار رکھنا ہے کہ ہر چیز ذکر کر رہی ہے تو دل بھی ہر وقت اللہ کا ذکر کر رہا ہے۔ جیسے ہی اس کا ذکر محسوس ہونے لگے یا محسوس ہونے کی حد میں آ جائے تو آپ کی سستیوں کی وجہ سے رہ نہ جائے نہ ہو بلکہ آپ اس کو فوراً محسوس کر لیں۔ بس یہ مراقبہ ہے۔ اس کے لئے یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ چیز مشق سے آہستہ آہستہ حاصل ہوتی ہے۔ اس کے لئے پہلے انتشار پیدا کرنے والی چیزیں اپنے سامنے سے ہٹانی ہوتی ہیں تاکہ کسی قسم کی رکاوٹ کا خطرہ نہ ہو، پھر اس کی مشق کرنی ہوتی ہے۔ مشق کرتے کرتے آہستہ آہستہ آپ کو یہ چیز حاصل ہو جاتی ہے۔ ان باتوں کا خیال کرکے آپ زیادہ بہتر طریقہ سے مراقبہ کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر 22:
السلام علیکم حضرت جی نظر کا مجاہدہ بتا دیں۔
جواب:
نظر کا مجاہدہ ہم اس طرح کرتے ہیں کہ تنہائی میں بیٹھ کر پانچ منٹ کے لئے نیچے دیکھیں۔ چاہے کچھ بھی ہو آپ نے اوپر نہیں دیکھنا۔ ابتداءً یہ مجاہدہ پانچ منٹ سے شروع کرتے ہیں پھر اس کے بعد اگلے دن چھ منٹ، اگلے دن سات منٹ، اگلے دن آٹھ منٹ۔ اس کو بیس دن میں پچیس منٹ تک پہنچانا ہے۔ اس کے بعد پھر آپ نے یہی کام لوگوں کے درمیان کرنا ہے کہ لوگوں کے درمیان آ کر بات چیت کرتے ہوئے، کام کرتے ہوئے اوپر نہیں دیکھنا۔ پانچ منٹ کے لئے پہلے دن، پھر اس کے بعد چھ دن چھ چھ منٹ، پھر اس کے بعد سات منٹ، اس کے بعد روزانہ ایک ایک منٹ بڑھاتے رہیں۔ یہ پچیس منٹ تک پہنچانا ہے۔ اس میں ایک چیز اپنے نفس کو مجبور کرنا ہے اور دوسری چیز تدریج کا عمل ہے۔ یہ دو باتیں انسان کو آخر کار عمل پہ لے ہی آتی ہیں۔ نفس کو مجبور کرنے کے لئے تو مجاہدہ ہے اور تدریج تربیت کا ایک طریقہ ہے۔ کیونکہ تربیت تدریجاً ہوتی ہے۔ جیسے جمناسٹک کرنے والے لوگ سب کرتب ایک دن میں نہیں سیکھ لیتے۔ تھوڑا تھوڑا شروع کرتے ہیں، آہستہ آہستہ بڑھاتے ہیں حتیٰ کہ وہ ایسی محیر العقول حرکتیں کرنے لگتے ہیں کہ لوگ حیران ہو جاتے ہیں کہ یہ کیسے کرتے ہیں۔ آپ بھی اسی طریقے سے نظر والے مجاہدہ پر عمل کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر 22:
تصوف کا مروجہ طریق جو کہ آپ ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عہد مبارک میں نہیں تھا وہ ہم کیوں اپنائیں۔ ہم اس طریقہ سے تربیت کیوں نہ کریں جیسے نبی ﷺ نے صحابہ کرام کی تربیت کی؟
جواب:
اصل میں بات یہ ہے کہ مقاصد تو وہی ہیں جو آپ ﷺ کے دور میں تھے۔ مقاصد میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن ذرائع میں فرق ہوتا ہے۔ نبی ﷺ کے دور میں ذرائع اور تھے آج کے دور میں ذرائع الگ ہیں۔ مختلف ادوار میں ایک قسم کے ذرائع نہیں ہو سکتے۔ ہر دور کی مناسبت سے الگ ذرائع ہوتے ہیں۔ مثلاً جس کی آنکھیں ٹھیک ہوں اس کو عینک لگوانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آپ ﷺ کی صحبت مبارک سے بالکل ٹھیک ہو گئے تھے۔ اُن کو اِن طریقوں کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کو نبی ﷺ کی موجودگی کی وجہ سے مقاصد حاصل تھے۔ جبکہ آج کے دور میں آپ ﷺ تو موجود نہیں ہیں، لہٰذا جس ذریعے سے صحابہ کرام کو سب کچھ ملا تھا وہ ذریعہ نہیں رہا اس لئے اب آپ کو دوسرے ذرائع استعمال کرنے پڑتے ہیں۔
اس کو یوں سمجھ لیں۔ مثلاً کسی جگہ پہ ٹرین چلتی تھی۔ وہاں ٹرین کا نظام ختم ہو گیا تو اب دوسرے شہر جانے کے لئے ایسا تو نہیں کریں گے کہ ٹرین کا انتظار کرنے لگ جائیں، کہ جب پٹری لگے گی، ٹرین چلنا شروع ہو گی تب جاؤں گا۔ بلکہ اس وقت اگر کوئی چھکڑا بھی جا رہا ہو گا تو اسی کے ذریعے جانے کی کوشش کریں گے یا اس سے بہتر کوئی چیز بن کے آ گئی جیسے جہاز وغیرہ ہے تو ا س کے ذریعے چلے جائیں گے۔ پہلے وقتوں میں لوگ گھوڑوں اور اونٹوں کے ذریعے حج سفر کیا کرتے تھے، لیکن اب گاڑیوں اور جہازوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ پہلے وقتوں میں جہاد تیروں، تلواروں اور نیزوں کے ساتھ ہوتا تھا آج کل جدید اسلحہ استعمال ہوتا ہے۔ یہ سارے ذرائع ہیں۔ ذرائع مقاصد کے لئے ہوتے ہیں۔ وہی مقاصد اگر دوسرے ذرائع سے حاصل ہوں تو ان ذرائع کا انکار کرنا اور پرانے ذرائع کو ہی صحیح قرار دینا غلط بات ہو گی۔ ہمیشہ موجودہ وقت کے لحاظ سے ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔
ایک بات تو ذرائع کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے ہر دور کے حساب سے مسائل الگ الگ ہوتے ہیں۔ بعض مسائل اور چیزیں نبی ﷺ کے دور مبارک میں تھیں ہی نہیں۔ مثلاً موبائل اس وقت نہیں تھا۔ اب موبائل کی وجہ سے جتنی بھی اخلاقی بیماریاں آئی ہیں اس کے بارے میں آپ کو کتابوں میں کچھ نہیں مل سکتا۔ آج سے پچاس سال پہلے کی کتابوں میں اس کے بارے میں کچھ ذکر نہیں ہو گا۔ اس کے بارے آپ کو اِسی دور کا کوئی شیخ بتائے گا۔
میں آپ کو اس کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ ایک آنکھوں کے ڈاکٹر نے اپنا موبائل سامنے والی جیب میں رکھا ہوا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کیا کر رہے ہیں، اپنے دل کو نقصان کیوں پہنچا رہے ہیں، یہ وائبریشن والی چیز ہے، اور ایسی چیز کو دل کے قریب رکھنا نقصان کا باعث ہے۔ وہ کہنے لگے کہ اس کے کوئی نقصان دریافت نہیں ہوئے۔ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب تحقیق تو جاری ہے، بیس سال کے بعد جب اس کی رپورٹ آئے گی، تب تک اس نے جتنا نقصان آپ کو پہنچایا ہو گا اس کا آپ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ اگر آپ کہیں کہ ابھی چونکہ رپورٹ نہیں آئی، اس لئے ابھی اس سے حفاظت نہیں کرتے۔ یہ تو نقصان دہ حرکت ہوئی۔ تھوڑا سا عقل و فہم سے بھی کام لینا چاہیے۔ اس نے میری بات مان لی۔
جو چیزیں بعد میں آئیں گی ان میں بعد کی تحقیق کام آئے گی۔ یہ تصوف بھی ایک تحقیق ہے۔ تصوف بھی سائنس کی طرح ہے۔ اس میں کوئی بات ہر زمانے کے لئے حتمی نہیں ہوتی۔ جبکہ مذہب کی بات حتمی ہے، اس کی ہر بات طے ہو چکی ہے۔ مذہب میں اب کوئی اضافہ یا کمی نہیں ہو سکتی۔ وہ مکمل ہو چکا ہے۔ لیکن سائنس مکمل نہیں ہوئی، اسی طرح تصوف بھی مکمل نہیں ہوا۔ جتنے جتنے مسائل بڑھیں گے اتنے اتنے وسائل بڑھیں گے۔ انہی کے مطابق آپ علاج کریں گے۔ امید ہے اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ آج کے دور میں سالکین کی تربیت ایسے کیوں نہیں کی جاتی جیسے نبی کریم ﷺ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کرتے تھے۔
سوال نمبر 23:
ارد گرد پھیلی ہوئی سلفی فضا کی وجہ سے مروجہ تصوف پر عمل کرنا ذرا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ اپنے لئے اس کے چناؤ میں ایک رکاوٹ سی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے لئے کیا حل نکالا جائے۔؟
جواب:
دیکھیں ہمیں دوسروں کے منفی رد عمل کی وجہ سے صحیح چیز کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ اگر دوسروں کے منفی رد عمل کی وجہ سے ہم وہ چیزیں چھوڑ دیں جن کا چھوڑنا ہمارے لئے نقصان دہ ہے تو اس طرح ہم اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچائیں گے۔ مثال کے طور پر اگر میں کسی ایسی قوم میں رہ رہا ہوں جو ٹی بی کی بیماری میں مبتلا ہے لیکن ان کو اس کا کوئی احساس نہیں ہے۔ خدا نخواستہ مجھے بھی ٹی بی ہو جائے تو کیا میں اپنی پروا نہیں کروں گا؟ کیا میں یہ دیکھوں گا کہ ان کو پروا نہیں ہے تو مجھے بھی نہیں ہونی چاہیے؟ اگر میں ایسا کروں گا تو ممکن ہے اپنی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھوں۔ بلکہ میں ایسا کروں گا کہ ان کی پروا نہیں کروں گا بلکہ یہ کہوں گا کہ یہ غلط کر رہے ہیں۔اگر یہ اپنی پروا نہیں کر رہے تو نہ کریں میں تو اپنے لئے کوئی نہ کوئی راستہ چنوں گا اور علاج کرواؤں گا۔ تصوف پر چلنے کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔
سوال نمبر 24:
میں اپنے بچوں کی تربیت دین کے مطابق کرنا چاہتا ہوں مگر ہمارے خاندان میں دینی ماحول نہیں ہے۔ جب ہم آپس میں ملتے جلتے ہیں تو بچے بہت اثر لیتے ہیں۔ اس بارےمیں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
بات یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں تربیت کا ماحول بنائیں گے تو بات بنے گی۔ جب تک بڑوں کی تربیت نہیں ہو گی تب تک بچوں کی تربیت بھی نہیں ہو گی۔ اس کے لئے بڑوں کو کچھ قربانی دینی پڑے گی بچوں کے لئے کچھ حالات بنانے پڑیں گے۔ اس کے لئے ہمیں کچھ خصوصی کام کرنا پڑے گا۔
سوال نمبر 25:
بچے کی تربیت کس عمر سے شروع کرنی چاہیے۔ غلط چیزوں سے نرمی سے روکنا چاہیے یا سختی سے۔ اخلاقیات معاملات وغیرہ میں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے ؟
جواب:
بچوں کی تربیت کے لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو قابو کرنا پڑے گا۔ بچوں کے سامنے کوئی ایسے کام نہ کریں جس سے بچہ برا اثر لے۔ بچوں کا ذہن سادہ پلیٹ کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے اوپر آپ جو بھی ڈالیں گے وہ نقش ہوتا جائے گا۔ بچے اس وقت بھی نتائج اخذ کر رہے ہوتے ہیں جب لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کچھ نہیں کر رہے۔
میں ایک دفعہ اپنی بہن کے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔ پاس ہی ایک چبوترہ سا بنا ہوا تھا۔ ایک صاحب کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ تھا، جسے اس نے کھیلنے کے لئے زمین پر چھوڑ دیا۔ بچہ گھسٹتا ہوا چبوترہ کے پاس چلا گیا۔ تھوڑی دیر اس کے پاس بیٹھا رہا پھر اس پہ ہاتھ رکھ کر اس کے سہارے کھڑا ہونے کی کوشش کرنے لگ گیا آخر کار کوشش کرتے کرتے اس کے سہارے کھڑا ہو گیا۔ پھر اس کے اوپر چڑھنے کی کوشش میں لگ گیا۔ کوشش کرتے کرتے اس نے ایک پاؤں اٹھا لیا، تھوڑی دیر بعد دوسرا پاؤں بھی اٹھا لیا اور کچھ محنت کے بعد چبوترہ کے اوپر چڑھ گیا۔ چبوترہ پہ چڑھ کے کچھ دیر بیٹھ رہا پھر دوسری طرف دیکھنے لگ گیا۔ تھوڑی دیر دیکھنے کے بعد چبوترہ پہ پیٹ کے بل لیٹ کر اپنے آپ کو اس سے چپکا کے ایک پیر نیچے کیا، کچھ دیر بعد دوسرا پیر بھی نیچے کر دیا اور چبوترہ سے اتر گیا۔ پھر تو اس کے لئے یہ کھیل بن گیا۔ اب وہ بار بار چبوترہ کے اوپر چڑھنے اترنے لگ گیا اور کافی دیر یوں ہی کھیلتا رہا۔ یہ دیکھ کر میں نے کہا کہ یہ بچوں کا سیکھنے کا طریقہ ہے۔ کمپیوٹر یہ کام کبھی نہیں کر سکتا۔ یہ انسان کا ایک سیکھنے کا طریقہ کار ہے جو خود بخود کام کر رہا ہے۔ بچے اس طرح سیکھتے ہیں کہ ہمیں وہم و گمان بھی گزرتا کہ یہ سیکھ رہے ہیں۔ نو مولود بچوں کے کان میں ہم اذان کیوں دیتے ہیں، اس وقت تو ان کو کوئی سمجھ نہیں ہوتی لیکن ان کے کان میں اذان دیتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچہ اس وقت بھی سیکھ رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے بچوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمیں بچوں کے لئے اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ یہ بڑی تفصیلی باتیں ہیں۔ ایک نشست میں پوری نہیں ہو سکتیں۔ آپ کسی رہنما کے ساتھ رابطہ رکھیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان سے مشورہ لیتی رہیں۔
سوال نمبر 26:
ہم اپنے بچے کو سکول جلدی نہیں بھیجنا چاہتے۔ ایک دینی سکول میں تربیت کی خاطر چار پانچ سال کا بچہ لیتے ہیں اس سے بڑا نہیں لیتے۔ کیا کرنا چاہیے؟ کس عمر میں حفظ قرآن کرنا بہتر ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
بڑا اچھا سوال ہے۔ یہ چیز بچے کی حالت پر منحصر ہے۔ جو بچے جلدی سمجھ دار ہو جاتے ہیں وہ پہلے بھی شروع کر سکتے ہیں۔
ہمارا طریقہ یہ ہے کہ میں نے اپنے بچوں کو پانچویں جماعت میں سکول سے اٹھا کے حفظ میں داخل کروایا تھا۔انہوں نے ڈھائی سال میں حفظ کیا پھر گردان کی۔ تین سال کے بعد میں نے ان کو ساتویں جماعت میں داخل کرایا۔ اس طرح ان کا سکول کا حرج بھی نہیں ہوا، حفظ بھی کر لیا اور پکا بھی ہو گیا۔ آپ بھی ایسے کر سکتی ہیں لیکن بہرحال میں اپنی بات پر زور نہیں دیتا۔ ہر بچے کی کیفیت اور حالات کے حساب سے الگ الگ ترتیب ہو سکتی ہے۔
سوال نمبر 27:
بچوں کو ابتدا سے ہی سنتوں پر عمل کرنا کیسے سکھائیں۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے کا اوڑھنا بچھونا سنت نبوی کے مطابق ہو۔ نیز اللہ اور اس کے رسول کریم ﷺ کی صحیح معنوں میں محبت کیسے ڈالیں؟
جواب:
ماشاء اللہ بہت اچھا سوال ہے۔ اس کے لئے آپ یوں کریں کہ ان کے سامنے سنتوں پہ عمل کیا کریں مثلاً کھانا سنت کے مطابق کھائیں اور ساتھ ساتھ ان کو بتائیں کہ دیکھو سنت کے مطابق کھانا اس طرح ہوتا ہے۔ سنت کے مطابق سونا شروع کریں اور بچوں کو دکھاتی اور سکھاتی جائیں۔ بچے کے ساتھ بچے کی زبان میں بات کرنی ہوتی ہے۔ بچوں کے ساتھ بڑوں کی زبان میں بات نہیں کرنی ہوتی۔ اس کو بچوں والے انداز میں بتانا چاہیے۔ اس طرح ان شاء اللہ العزیز معاملہ بہتر رہے گا۔
سوال نمبر 28:
ہر عمر کے لحاظ سے بچوں کے ساتھ ماں باپ کا مثالی رویہ کیا ہونا چاہیے؟ رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
مثالی رویہ تو یہی ہے کہ آپ اپنے آپ کو بدل لیں پھر ان کے لئے بدلنے والا ماحول تیار کریں اور پھر ان کی اچھے ماحول کے ساتھ مناسبت پیدا کریں، اللہ والوں کے ساتھ ملا دیں اور ان کو راہ پر لگا دیں۔ یہ مثالی رویہ ہے۔ ہمارے بڑے ایسا کرتے تھے۔
سوال نمبر 29:
بچے اگر بات بے بات ضدیں شروع کریں، بات نہ سنیں تو کیا چھوٹی عمر سے تربیت کریں یا نظر انداز کر دیں۔ نیز جھوٹ بولنے کی یا چوری کی عادت پڑ جائے تو کیا کیا جائے۔ بچوں کو اچھائی برائی کے بارے میں کیسے سکھایا جائے؟
جواب:
یہ ہر بچے کی کیفیت، مزاج اور حالات پر منحصر ہے۔ مثلاً میں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھ پر اگر کوئی زبردستی کرتا تھا تو پھر میں بات نہیں مانتا تھا لیکن اگر کوئی طریقے سے بتاتا تو میں بات جلدی مان لیتا تھا۔ بعض لوگ ذرا زبردستی سے جلدی مان لیتے ہیں بعض لوگ پیار سے مان لیتے ہیں۔ میرے سامنے اگر کسی اور بچہ کو مارا جاتا تو اس سے مجھے زیادہ عبرت حاصل ہوتی کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے مار پڑتی ہے لیکن جو استاد مجھے خود مارتا تو مجھے ضد پڑ جاتی۔ یہ ہر شخص کی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق ہوتا ہے۔ پہلے بچے کو سمجھنے کی کوشش کریں، جس طریقے سے وہ زیادہ بہتر نتیجہ دے اس کے ساتھ وہی رویہ اختیار کر لیں۔
سوال نمبر 30:
ہم دونوں والدین بچے کو باہر کی گندی غذا بالکل نہیں کھلانا چاہتے۔ بچے کو یہ بات کیسے سمجھائیں کہ بچہ احساس کمتری میں مبتلا نہ رہے۔ نیز ارد گرد رشتہ داروں کے بچے جو کھاتے ہیں تو چوری کی عادت نہ پڑ جائے؟
جواب:
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ بچوں کے ذہن میں احساس کمتری نہیں آنا چاہیے۔ احساس کمتری سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اچھی چیزوں کی تعریفیں کر لیا کریں، اچھے لوگوں کی مثالیں دیا کریں اور بری چیزوں کی برائی بیان کیا کریں۔ اور یہ صرف ایک دو دفعہ ہی نہ ہو بلکہ مستقل طور پر اس کے تذکرے ہوتے رہیں تو آہستہ آہستہ ان کی سمجھ میں یہ بات آتی جائے گی۔
سوال نمبر 31:
اگر کسی کے ذہن میں خلافت کا خیال آجائے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ کیا یہ خیال آنا نقصان دہ ہے؟
جواب:
اس مسئلہ کو یہ سوچ کر حل کر سکتے ہیں کہ اگر میں پہلے خلافت کا اہل تھا بھی تو اب نہیں رہا۔ کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ جو خلافت مانگتا ہے وہ خلافت کا اہل نہیں ہوتا۔ بزرگوں کو اگر کسی کے بارے میں پتا چل جائے کہ یہ خلافت کا شوقین ہے اس کو خلافت نہیں دیتے۔ ایسا بندہ نا اہل ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ سیاسی لوگوں میں بھی یہ بات ہے کہ جو صحیح جماعتیں ہیں وہ عہدہ مانگنے والے کو عہدہ نہیں دیتے بلکہ مخلص لوگوں کو ترقی دیتے ہیں ہیں۔ لہٰذا اگر کبھی اس قسم کا کوئی وسوسہ ہو تو آدمی کہہ دے کہ اگر میں پہلے خلافت کا اہل تھا بھی، تو اب نہیں رہا۔ جب دل میں خلافت یا اجازت کی طلب آ جائے تو پھر نیت خالص نہیں رہتی۔ جب حدیث شریف میں واضح طور پر آیا ہے:
’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ (صحیح بخاری: 1)
ترجمہ: ”تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے“۔
تربیت کروانے کا اصل مقصد اپنی اصلاح ہے، اگر تربیت کرواتے ہوئے دل میں خلافت کی طلب آ گئی کہ تربیت کروا کر مجھے خلافت ملے گی تو نیت ہی فاسد ہو گئی۔ پھر اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ سارا نظام ہی گڑبڑ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ سب کو سمجھ عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ