سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 412

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر1:

حضرت کسی کے خلاف باتیں کرنے کی اجازت کس وقت ہے، کیا تحقیق کے لئے یا کسی ایسی برائی کو، جس کا نقصان پوری امت کو ہو رہا ہو، سامنے لانے کے لئے کسی کے خلاف جستجو اور بات کی جا سکتی ہے؟

جواب:

بڑا اچھا سوال ہے لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ اگر آپ یہ کام مزے کے لئے کر رہے ہیں پھر تو جرم ہے، مثلاً آپ کسی کے مخالف ہیں، اس کے خلاف باتیں کر رہے ہیں، اس سے آپ کو مزہ آ رہا ہے تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اگر تحقیق کے لئے کر رہے ہیں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ آپ نے ایک بڑا فیصلہ کرنا ہے اور بڑے فیصلہ تک جانا ہے اور معاشرے کے لئے اس بات کا جاننا ضروری ہے، لہٰذا آپ اگر کوئی ایسی بات کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن دوبارہ یاد رہے کہ اس کا مقصد خالصتاً معاشرے کی بھلائی ہو، اپنی ذہنی لذت اور مزے کی بات نہ ہو۔

سوال نمبر2:

السلام علیکم حضرت! اگر کوئی انسان اللہ سے دور ہو جائے تو واپسی کا کیا راستہ ہے؟

جواب:

اللہ سے دور نہیں ہونا چاہیے، اعمال کرنے چاہییں، اللہ سے دور نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن و سنت اور حدیث و فقہ میں اوامر و نواہی کا بیان اسی لئے ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ کون سا کام کرے اور کون سا کام نہ کرے۔ اگر اس کا خیال رکھائے تو اللہ تعالیٰ سے دور نہیں ہوں گے۔ اگر خدانخواستہ کوئی دور ہو گیا ہے اور اس کو احساس ہو گیا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ سچی توبہ کر لے اللہ تعالیٰ معاف کرنے میں کوئی دیر نہیں لگاتے اللہ جل شانہ بہت جلدی معاف کر دیتے ہیں وہ غفور و رحیم ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں جو کچھ کیا ہے اس کا صدق دل سے اقرار کر لیں کہ میں نے غلط کیا ہے آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ چلو میرے ساتھ سب کہو۔ میں بھی کہوں آپ بھی کہیں: اے اللہ میں توبہ کرتا ہوں تمام گناہوں سے چھوٹے ہیں یا بڑے، مجھے معلوم ہیں یا نہیں، مجھ سے قصداً ہوئے یا خطاء سے، ظاہر کے ہیں یا باطن کے، اے اللہ میری توبہ قبول فرما آئندہ کے لئے ان شاء اللہ میں گناہ نہیں کروں گا، اگر غلطی سے ہو گیا تو فوراً توبہ کروں گا، اے اللہ مجھے معاف کر دے۔

سوال نمبر3:

السلام علیکم حضرت جی پچھلے ماہ کے مقامات کی رپورٹ مندرجہ ذیل ہے:

تہجد: پچھلے ماہ پانچ ناغے ہوئے ان شاء اللہ اگلے ماہ بہتر کرنے کی کوشش کروں گا۔

سلام کرنا: الحمد للہ اس پر عمل میں بہتری ہے اور اس کا استحضار پہلے سے زیادہ رہتا ہے۔

کھانا کھلانا: الحمد للہ اس میں بہتری ہے کچھ روز غریبوں کو کھانا کھلانے کی توفیق بھی ہوئی۔

صلہ رحمی: اس میں بھی پہلے سے بہتری آئی ہے اور مزید بہتری کی کوشش کروں گا ان شاء اللہ۔

زبان: پچھلے ماہ غالباً دو دفعہ کوئی ایسی بات منہ سے نکل گئی جو غیبت کے زمرے میں آ سکتی ہے۔ بات کے فوراً بعد مجھے احساس ہوا کہ احتیاط کرنی چاہیے تھی فوراً استغفار کر لیا اور تلافی کرنے کی کوشش بھی کی۔ شرمگاہ کی حفاظت رہتی ہے۔

جواب:

اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔ اصل میں ہم نے اپنے ساتھیوں کو دو حدیثوں پر عمل کا ہدف دیا ہوا ہے۔ ایک حدیث شریف یہ ہے:

”اَفْشُو السَّلَامَ وَ اَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَ صِلُوْا الْاَرْحَام، وَ صَلُّوْا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ تَدْخُلُوْا الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ“ (مستدرک حاکم: 7277)

ترجمہ: ”سلام کو پھیلاؤ اور کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں (تہجد کی نماز) اور جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ“۔

دوسری حدیث شریف یہ ہے کہ تم مجھے دو چیزوں کی ضمانت دو، ایک جو دو جبڑوں کے درمیان ہے اور دوسری جو رانوں کے درمیان ہے۔ (زبان کی اور شرم گاہ کی حفاظت کی ضمانت) تو میں تمھیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔

ایک بات یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ اور آپ ﷺ کی طرف سے جو وعدے ہوتے ہیں وہ وہ بڑے پکے ہوتے ہیں لہٰذا ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ اس میں سارے اعمال تو نہیں آ رہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اگر اللہ پاک اسی کے ذریعے سے آپ کو توفیق دے دے اور ساری چیزیں ٹھیک کر دے تو بس ٹھیک ہے جنت کی ضمانت تو ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے میں ان چیزوں پہ کوشش کرنے کی ترغیب دیتا رہتا ہوں۔ جو ساتھی یہ کوشش کر رہے ہیں اللہ جل شانہ ان کو کامیاب کر دے۔

جن کی غیبت ہوئی ہے ان سے اس طریقے سے معافی لے لیں کہ ان سے کہہ دیں کہ میرا کہا سنا معاف کر دیں تاکہ غیبت کی نحوست دور ہو جائے۔

سوال نمبر4:

السلام علیکم حضرت جی! جس وقت قرآن پاک کی تلاوت کر رہی ہوں، اس وقت دھیان بار بار ہٹ رہا ہو یا ذہن میں مسلسل خیالات آ رہے ہوں تو اس وقت توجہ رکھنے کے لئے آپ کا کوئی کلام سن سکتی ہوں؟ کہیں یہ بے ادبی کے زمرے میں تو نہیں آئے گا؟

جواب:

ہرگز نہیں! یہ دو کام ایک ساتھ نہ کریں۔ قرآن قرآن ہے۔ قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور قرآن کو صحیح طریقے سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا جب آپ قرآن پڑھ رہی ہوں تو کسی اور چیز کی طرف دھیان نہ کریں۔ اس کے بجائے آپ اپنی ترتیب ٹھیک کریں۔ تلاوت کرنے کے لئے ایسا وقت منتخب کریں جس میں آپ تازہ دم اور ہشاش بشاش ہوں اور جگہ ایسی منتخب کریں جہاں یکسوئی ہو، ایسی جگہ نہ بیٹھیں جہاں دل بٹ رہا ہو۔ اس کے با وجود اگر خود بخود خیالات آئیں تو پھر پرواہ نہ کریں، کیونکہ یہ انسان کے بس میں نہیں ہے۔ ان باتوں پہ عمل کریں ان شاء اللہ العزیز آپ کو اس کی برکات ملیں گی۔

سوال نمبر5:

جو حضرات مراقبات وغیرہ کر کے اپنا خیال اتنا مضبوط کر لیتے ہیں کہ انہیں ہر وقت یہ خیال رہتا ہے کہ گویا وہ اللہ پاک کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر ان کے نفس کی اصلاح نہیں ہوئی اور وہ عمل میں کمزور ہیں لیکن ذہن بہت مضبوط ہے، خیال کی طاقت پختہ ہے، ہر وقت ایسا خیال رہتا ہے کہ گویا اللہ کو دیکھ رہے ہیں کیا ان کی اس کیفیت کو کیفیتِ احسان کہا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس کو کیا کہیں گے؟

جواب:

اس کو کیفیت احسان نہیں کہیں گے کیونکہ کیفیت احسان بغیر نفس کی اصلاح کے حاصل نہیں ہوا کرتی۔ اس کا کم سے کم مطلوب درجہ نفس کی اصلاح ہے۔ نفس کی اصلاح ہونے کے بعد بھی فوری طور پر کیفیت احسان حاصل نہیں ہوتی صرف وقتی طور پر اس کا جزوی پہلو حاصل ہو جاتا ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید دھیان کرنے سے بڑھتا رہتا ہے اور جبلت کا مقابلہ کرتے کرتے نفس کی مزید صفائی ہوتی رہتی ہے، اس سے کیفیت احسان بڑھتی ہے۔

سوال نمبر6:

جب یہ کہا جاتا ہے کہ کسی کو کیفیت احسان حاصل ہے تو کیا اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اس کو دائماً ہر وقت یہ کیفیت حاصل ہے یا پھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اسے کسی وقت کیفیت احسان ہو کسی وقت نہ ہو، تب بھی ہم کہیں گے کہ اس کو کیفیت احسان حاصل ہے؟

جواب:

انسان کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس کے نفس کی اصلاح تو ہو گئی لیکن جبلت کی وجہ سے کسی خاص چیز کی طرف اس کا دھیان چلا گیا اور نفس نے رکاوٹ ڈال دی۔ عین ممکن ہے کہ اس کو بعد میں قابو کر لے لیکن نفس کی طرف سے مزاحمت تو ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ اس میں فرق آ سکتا ہے اور کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ نفس کے قابو میں آنے کے بعد بعض چیزوں میں اپنی جبلت کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے، جس میں انسان مجاہدہ اور مشاہدہ سے مدد لیتا ہے۔ جیسے جیسے جبلت کا مقابلہ کرتا ہے اور اس کے لئے مجاہدہ کرتا ہے تو اس کا مشاہدہ بڑھتا جاتا ہے۔ اس سے کیفیت احسان میں اضافہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر7:

حضرت آپ نے مختصرات سلوک کی تعلیم میں فرمایا کہ سیر الی اللہ مکمل ہونے کے بعد کیفیت احسان کا ابتدائی درجہ حاصل ہو جاتا ہے جو بعد میں بڑھتا رہتا ہے۔ کیفیت احسان کے ابتدائی درجے سے کیا مراد ہے، نیز یہ بھی بتا دیں کہ جب اس میں کمی ہوتی ہے تو کیا اس کی قوت کم ہوتی ہے یا اس وقت یہ کیفیت بالکل ہی اٹھ جاتی ہے۔

جواب:

کیفیت احسان کے ابتدائی درجے سے مراد یہ ہے کہ اگر وہ توجہ کرنا چاہے گا تو اس کی توجہ ٹھہرے گی نہیں۔ اس لئے کہ جب تک نفس کی اصلاح مکمل نہیں ہوئی ہوتی تو نفس کی شرارتیں زور پر ہوتی ہیں وہ آپ کو اصلاح پر ٹکنے نہیں دیتا، وہ ضرور آپ کو کسی اور چیز میں مشغول کر دیتا ہے لہٰذا کیفیت احسان مکمل طور پر حاصل نہیں ہو پاتی۔ اگر آپ کو نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جائے تو اس کے بعد چونکہ نفس کی طرف سے شرارت کم ہو چکی ہے، اس لئے اب آپ کی ہمت کی بات ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی توجہ کتنی بڑھاتے ہیں اور جبلت کا کتنا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان چیزوں میں آپ جتنی ترقی کرتے جاتے ہیں اتنی کیفیت احسان بڑھتی جاتی ہے۔ قوتاً اور دائماً دونوں باتیں اس میں شامل ہیں۔

سوال نمبر8:

جب سیر الی اللہ مکمل ہو جاتا ہے اور سالک فنا فی اللہ ہو جاتا ہے تو کیا سیر الی اللہ مکمل ہونے پر سالک فنا فی الذات ہوتا ہے یا فنا فی الصفات، یا پھر یہ ہر کسی کے لئے فنا مختلف انداز کا ہو سکتا ہے، نیز یہ بھی فرما دیجئے کہ کیا سیر الی اللہ مکمل ہونے کے بعد عود ہو سکتا ہے؟

جواب:

اگر سیر الی اللہ کے بعد فنا فی الصفات پر انحصار ہو تو عود ہو سکتا ہے۔

فنا فی الذات اور فنا فی الصفات دونوں کی نوعیت الگ الگ ہے، یہ ہر ایک کا ایک جیسا نہیں ہوتا۔

سوال نمبر9:

جس طرح فنا میں دو درجے ہیں ایک فنا فی الصفات اور ایک فنا فی الذات۔ کیا کیفیت احسان میں بھی اس طرح کی کوئی بات ہے؟ نیز کیا کیفیت احسان حاصل ہونے کے بعد عود ہو سکتا ہے اور کیفیتِ احسان ختم ہو سکتی ہے؟

جواب:

اگر فنا فی الذات حاصل ہو چکا ہو اور اس کے ذریعے سے کیفیت احسان حاصل ہو چکی ہو تو پھر عود نہیں ہوتا کیونکہ فنا فی الذات کا تعلق ذاتِ باری تعالیٰ سے ہے۔

آسانی کے لئے تفصیل عرض کرتا ہوں کہ فنا فی الصفات یہ ہے کہ مثلاً آپ کسی شخص کی سخاوت سے متاثر ہیں اور اس کے ساتھ محبت کرتے ہیں تو جب تک وہ سخاوت باقی رہے تب تک آپ اس کے گن گائیں گے اور جب اس کی سخاوت کسی وجہ سے ختم ہونے کو آئے مثلاً اس کے پاس پیسے ختم ہو جائیں یا کوئی بھی اور وجہ پیش آجائے اور وہ سخاوت چھوڑ دے، تب آپ کا اس کے ساتھ پہلے والا تعلق نہیں رہے گا۔ یہ فنا صفاتی ہے۔ اسی طرح کوئی کسی کی بہادری سے متاثر ہو گیا تو جب تک بہادری ہے تب تک اس کا تعلق اس کے ساتھ قائم ہے جب کسی بھی وجہ سے بہادری ختم ہوئی تو تعلق میں فرق آ جائے گا۔

فنا فی الذات یہ ہے کہ کسی کے ساتھ اس کی کسی صفت اور خوبی کی وجہ سے محبت نہ ہو بلکہ اس کی ذات سے محبت ہو، اگر اس میں سے وہ صفت کم ہو جائے یا ختم بھی ہو جائے تب محبت اور تعلق باقی رہے کیونکہ ذات تو باقی رہے گی۔ یہ فنا فی الذات کہلاتا ہے، اس سے عود نہیں ہوتا۔

اللہ جل شانہ کی صفات بہت زیادہ ہیں اور ان صفات کے لوگوں پر مختلف اثرات ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اللہ پاک کی صفتِ کریم سے متاثر ہو گیا اور اللہ کا عاشق ہو گیا، لیکن اللہ پاک نے اپنی حکمت کی بنا پر اس کے ساتھ کسی اور صفت سے کام لے لیا تو یہ واپس بھی ہو سکتا ہے۔ اللہ پاک تو اس کے ساتھ کریم ہی رہیں گے ہاں اس کا اظہار کسی اور رنگ میں ہو گا، لیکن اِسے سمجھ نہیں آ رہی ہو گی کیونکہ یہ اللہ پاک کی ظاہری صفتِ کریم کا عاشق ہوا تھا۔ اسی طرح ایک شخص کو اللہ تعالیٰ بہت رزق دے رہا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے گن گا رہا ہے لیکن تھوڑی سی تنگی کی حالت آ گئی تو سارا کچھ بھول گیا، تو اس کی محبت صفات کی بنا پر تھی، جو صفات کے تبدیل ہونے پر ختم ہو گئی ہے۔ ذات کے ساتھ جب کسی کو محبت ہو جائے پھر وہ واپس نہیں ہوتا کیونکہ ذات کے ساتھ محبت حتمی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی دوسری بات نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ کی ذات ہمیشہ کے لئے ہے، ذات کے اوپر کوئی فرق نہیں آ سکتا جب ذات میں کوئی فرق نہیں آئے گا تو محبت میں بھی کوئی فرق نہیں آئے گا۔ اگر یہ ذات کی محبت کی وجہ سے فنا ہو چکا ہے تو پھر دوبارہ اس کو نقصان نہیں ہو گا۔

سوال نمبر10:

السلام علیکم حضرت جی! خلوت کا مجاہدہ پانچ منٹ سے بیس منٹ اور جلوت کا مجاہدہ پانچ منٹ سے سترہ منٹ تک ملا تھا، بلا ناغہ مکمل کیا، لیکن جو اٹھارہ منٹ کا مجاہدہ کل کرنا تھا وہ ذہن سے نکل گیا اب کیا کروں مجاہدہ از سرِ نو شروع کر لوں؟

جواب:

نہیں صرف سترہ منٹ سے شروع کر لیں۔

سوال نمبر11:

اگر جلوت والی جگہ پر کوئی ہو ہی نہ تو خلوت کے مجاہدے کے دوران کیا کیا جائے؟ میں نے موقوف کر دیا پھر ناغہ ہو گیا۔

جواب:

جس دن جلوت کا موقعہ ہی نہ ملے اس دن کا مجاہدہ معاف ہے۔ جب بھی جلوت کا موقعہ آ جائے گا وہ اس کا اگلا دن شمار ہو گا۔ کیونکہ اس کے پاس کوئی ہے ہی نہیں، اس لئے وہ مجاہدہ کر ہی نہیں سکتا۔ ایسی صورت زیادہ تر خواتین کے ساتھ پیش آ سکتی ہے کیونکہ وہ اپنے گھروں میں ہوتی ہیں، عین ممکن ہے کہ کسی روز وہ سارا دن اکیلی ہوں کوئی ان کے ہاں نہ آئے وہ بھی کسی کے ہاں نہ جائے اور جلوت کے مجاہدے کا موقعہ ہی نہ ملے۔ بہرحال ایسی صورت چاہے مرد کو پیش آئے یا عورت کو، نتیجہ ایک ہی ہے کہ اس دن کا مجاہدہ معاف ہو گا اور جس دن جلوت میسر آئے وہ اگلا دن شمار ہو گا۔

سوال نمبر12:

السلام علیکم حضرت! میں معاشرت کے متعلق کچھ سمجھنا چاہتی ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے عبادات دو جمع دو چار کی طرح ہیں، بالکل ایک واضح خاکے کے ساتھ، یوں کہہ لیں کہ مکمل اصولوں کے ساتھ ہیں لیکن معاشرت ایسے ہے جیسے کوئی عالمی مسئلہ ہو، جس میں ایک با قاعدہ صورتِ حال ہوتی ہے، اس میں "variable constant" اور "independent" ہوتے ہیں لیکن وہ اس صورتِ حال میں کہیں چھپے ہوتے ہیں، الجھاؤ پیدا کرنے کے لئے کچھ اضافی معلومات ہوتی ہیں۔ کبھی ہم اصلی چیز کو اضافی سمجھ کر نظر انداز کر لیتے ہیں اور کبھی زیادہ اہمیت دے کر اصل سے رہ جاتے ہیں۔ اس بات کو وضاحت سے سمجھنا میرے لئے ہمیشہ سے مشکل رہا۔ معاشرے میں بھی مختلف قسم کی مشکلات ہیں کس کو کتنا درجہ دیا جائے، کس کی طرف پہلے توجہ کی جائے اور کس کی طرف بعد میں دھیان دیا جائے۔ چونکہ میرا شعبہ سائنس ہے اور مجھے سائنسدانوں کے ساتھ بات چیت کرنا پڑتی ہے جو مختلف مزاج، رویے اور عادات و مسائل رکھتے ہیں اس لئے میں کئی مرتبہ سمجھ نہیں پاتی کہ ان کے ساتھ کیسے گفتگو کروں۔ کس طرح ان حالات سے ضروری معلومات جمع کر کے ان سے ایک ضابطہ بنا دوں۔ ”میں“، ”مخاطب“، ”بندہ“ اور ”شریعت“ ان میں سے "constant" کون ہے، کون "independent" اور کون "variable" ہے، مجھے کوئی واضح بات سمجھ نہیں آ رہی جو میں اپنی صورت حال کے لئے استعمال کروں۔ کیا ہر صورت حال کو الگ سے سے دیکھتے ہوئے اس کا حل ڈھونڈا جاتا ہے یا کوئی لگا بندھا فارمولا اور طریقہ ہوتا ہے جو ہر صورت حال پر لاگو ہو سکتا ہو۔ میں نے اپنے خیالات کو بڑی مشکل سے الفاظ میں بدلا ہے۔ میرا سوال شاید نا مکمل اور الجھا ہوا ہے۔ تکلیف کے لئے معافی چاہتی ہوں۔

جواب:

سائنسدان مرید ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ان کو سنبھالنے کے لئے بھی سائنس چاہیے۔ اچھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک سائنسدان پیر دے دیا ہے۔ انہوں نے تو خیر اپنی سائنس کی زبان میں تشریح کی ہے، میں آپ کو اپنے بڑوں کی زبان میں بتا دیتا ہوں۔ ہمارے بزرگ یوں فرماتے ہیں کہ عبادات بہت آسان ہیں، ان کی طرف انسان تھوڑی سی توجہ کر لے تو کام ہو جاتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو نمازی نہیں ہے اس کے بارے میں مجھے اتنی فکر نہیں ہوتی کیونکہ اگر وہ ابھی نماز پڑھنے کی نیت کر لے تو پانچ منٹ میں نمازی ہو جائے گا اس کے لئے بس نیت کرنے کی دیر ہے، وہ اٹھے گا، غسل کرکے کپڑے بدلے گا اور نماز شروع کر لے گا۔ بہت سارے لوگ ایسے ہوئے ہیں کہ نماز نہیں پڑھتے لیکن اچانک ایک دن پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور ایسی نماز شروع کرتے ہیں کہ تہجد بھی نہیں چھوڑتے۔

لیکن معاملات، عبادات سے کہیں زیادہ مشکل ہیں کیونکہ معاملات میں مال کا معاملہ ہوتا ہے، چیزوں کا معاملہ ہوتا ہے، حقوق کا معاملہ ہوتا ہے، ایسی صورت میں وہ شخص معاملات پہ سمجھوتہ نہیں کرتا۔ بہت سارے لوگ آپ کو ایسے ملیں گے جو نمازی ہوں گے تسبیح ہاتھ میں ہو گی اور پگڑی بھی پہنی ہو گی، داڑھی بھی ہو گی اور درود شریف بھی پڑھ رہے ہوں گے، لیکن جس وقت معاملات کر رہے ہوں گے تو اس میں جھوٹ اور دھوکہ فریب کریں گے۔ ایسے لوگ بڑے خطرناک ہو جاتے ہیں کیونکہ ان سے دین پر حرف آتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں بھائی دیکھو دیندار ایسے ہوتے ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ بعض لوگ یہاں تک کہتے تھے کہ راجہ بازار جاؤ تو کسی داڑھی والے سے سودا نہ کرو بغیر داڑھی والے سے سودا کرنا۔ یہ ان لوگوں کا کتنا بڑا جرم ہے کہ انہوں نے داڑھی کو بد نام کر دیا ہے۔ اس طرح لوگوں نے دین کو نقصان پہنچایا ہے۔ بات سمجھ میں آ رہی ہے یا نہیں آ رہی! داڑھی والوں نے نقصان پہنچا دیا! داڑھی والوں کے لئے مسائل بنا دیئے۔

معاملات کو ٹھیک کرنا عبادات سے زیادہ مشکل ہے، معاملات میں دو کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے، آپس میں لین دین ہوتا ہے۔ یہ ایک بہت مشکل کام ہے۔ حضرات فرماتے ہیں کہ معاشرت معاملات سے زیادہ مشکل ہوتی ہے کیونکہ اس میں دو سے نہیں بلکہ کئی لوگوں سے معاملہ ہوتا ہے۔ رہن سہن معاشرت ہے۔ اب آپ گھر میں رہ رہے ہیں تو سب کے ساتھ آپ کا تعلق ہے، والد کے ساتھ تعلق ہے، والدہ کے ساتھ ہے، بہن بھائیوں کے ساتھ ہے، بیٹیوں بیٹوں کے ساتھ ہے، پڑوسیوں کے ساتھ ہے، جو لوگ مسجد میں آتے ہیں ان کا تعلق نمازیوں کے ساتھ ہے۔ مثلاً ایک شخص اگلی صف میں بیٹھا ہوا ہے اور اس کے بیٹھنے کا انداز ایسا ہے کہ خوب چوڑا ہو کر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھا ہے کہ اگر کوئی دوسرا آ کر ادھر بیٹھنا چاہتا ہے تو اس کو تکلیف ہوتی ہے کہ یہ کیوں آ گیا۔ حالانکہ جتنا حق آپ کا پہلی صف پر ہے، اتنا ہی اس کا بھی ہے، اگر وہ آ گیا تو اس کو خوشی سے جگہ دے دو کہ اس کو اللہ تعالیٰ یہ چیز نصیب فرما دے، لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ دل تنگ ہوتا ہے۔

جیسے آپ نے کہا ہے کہ کثیر الجہت چیزیں ہوتی ہیں، "variable constant" کا مسئلہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہ چیزیں مشکل ہیں۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ معاشرت اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔

چوتھی چیز اخلاق ہے جو اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ اخلاق کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ اللہ کی خاطر معاملہ اچھا رکھا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ آپ کا معاملہ دوسروں کے ساتھ جیسا بھی ہے وہ اللہ کے ہاں محفوظ ہو رہا ہے۔ اگر آپ میں حسد، کینہ بغض، تکبر وغیرہ یہ بیماریاں ہیں تو یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہیں۔ لہٰذا اخلاق پہلی تینوں چیزوں عبادات، معاملات اور معاشرت سے زیادہ مشکل ہے۔

اخیر میں فیصلہ یہ ہے کہ جس کے اخلاق اچھے ہوں وہ اللہ کے زیادہ نزدیک ہے۔ اب دیکھو جس کے اخلاق اچھے ہوں اس کے لئے معاشرت درست کرنا نسبتاً چھوٹا مسئلہ ہے اور معاملات اس سے بھی ایک درجہ چھوٹا مسئلہ ہے اور عبادات اس سے بھی کم درجہ کا مسئلہ ہے، لہٰذا جس کے اخلاق ٹھیک ہوں اس کی ان سب چیزوں کو ٹھیک ہونا چاہیے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو کوشش تو کرنی پڑے گی، جس کا طریقہ یہ ہے کہ مختلف لوگوں کا مزاج جاننا اور موقع محل کا خیال رکھنا آنا چاہیے۔ موقع شناسی، محل شناسی، مردم شناسی، یہ تین چیزیں معاشرت کے لئے بہت ضروری ہیں۔ آپ ہر ایک کو ایک ہی چیز سے خوش نہیں کر سکتے، عین ممکن ہے کہ جس چیز سے ایک آدمی خوش ہو رہا ہو اسی سے دوسرا تنگ ہو رہا ہو۔ مثلاً میں قرآن پاک زور سے پڑھ رہا ہوں ایک آدمی اس سے بہت خوش ہو رہا ہے اس وقت اس کا دل قرآن سننا چاہ رہا ہے لیکن ممکن ہے کہ بعینہ اسی وقت وہیں پر ایک اور آدمی تلاوت سے تنگ ہو رہا ہو، وہ کہتا ہے کہ مجھے نیند آ رہی ہے اور یہ قرآن پاک پڑھ رہا ہے۔ عمل ایک ہی ہے لیکن ایک کے لئے خوشی کا باعث ہے دوسرے کے لئے تنگی کا باعث ہے، عمل بھی اچھا ہے۔ ایسی صورت میں یہ فیصلہ کرنا کہ اس وقت کیا کرنا چاہیے، اس کے لئے ذہن کو وسیع رکھنا پڑتا ہے۔

وسیع ذہن اور صحیح سوچ رکھنے والا شخص یہ سوچے گا کہ میرے قرآن پڑھنے سے ایک مسلمان خوش ہو رہا ہے جبکہ دوسرے کو تکلیف ہو رہی ہے۔ ایسے موقع پر بمقابلہ خوش کرنے کے تکلیف سے بچانا لازم ہے۔ لہٰذا وہ خوش ہونے والے آدمی کو کہے گا کہ میں آپ کو کسی اور وقت قرآن پاک سنا دوں گا اس وقت اس کو آرام کرنے دیتے ہیں، اس کا حق زیادہ ہے۔ گہری سوچ رکھنے والا شخص ایسا ہی کرے گا، لیکن ظاہری اور سطحی سوچ کے مالک عوام کہیں گے کہ جو قرآن پاک سننا چاہتا ہے اس کا حق زیادہ ہے، جس کو تکلیف ہو رہی ہے اس کا حق اتنا زیادہ نہیں ہے۔ حالانکہ قانون خداوندی یہ ہے کہ جو آرام کرنا چاہے اس کے آرام میں مخل نہ ہوں اور خصوصی طور پر حکم ہے کہ جب آپ کی بلند آواز سے کسی کو تکلیف ہو تو اپنی آواز پست رکھیں۔

آج کل لاؤڈ سپیکر پر نعتیں پڑھی جاتی ہیں، قرآن پاک کی تلاوت ہوتی ہے، پاس ہی بیچارہ بیمار تڑپ رہا ہوتا ہے، ہم لوگ اپنے اس کام کو ثواب سمجھ رہے ہوتے ہیں جبکہ در حقیقت ہمیں اس وقت اس نیک کام کو غلط انداز سے انجام دینے کی وجہ سے گناہ ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ سب معاشرت کا حصہ ہے، معاشرت میں ان تمام چیزوں کو دیکھنا ہوتا ہے۔

معاشرت کا کوئی بھی کام ہو اس میں اول نمبر پر اخلاص ہے کہ معاشرت کا جو کام بھی کریں اس کا مقصد اللہ کی رضا ہو۔ دوسرے نمبر پر معاشرت میں یہ بات ضروری ہے کہ انسان بیدار مغز ہو، وہ ہر چیز کے فوائد و نقصانات کو بھانپ سکتا ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ مسائل کا پتا ہو۔ چوتھی بات یہ ہے کہ ہر جگہ جس قسم کا قانون ہے اس قانون کے مطابق کام کرے۔

سوال نمبر13:

حضرت! تقریباً تین مہینے ہو گئے ہیں آپ کے دیئے ہوئے معمولات الحمد للہ باقاعدگی سے کر رہی ہوں۔ معمولات کی تفصیل یہ ہے کہ صبح و شام 100 مرتبہ تیسرا کلمہ، 100 مرتبہ درود شریف، 100 مرتبہ استغفار، دن کو کلمہ طیبہ، شام کو درود شریف اور شام کے بعد 313 دفعہ ”سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیم“، عشاء کی نماز کے بعد سورۃ الملک اور اس کے بعد استغفار۔ مراقبہ 15 منٹ غیر معینہ مدت تک، مراقبہ فجر کی نماز کے بعد کرنے کا معمول ہے۔ تین مہینے کے دوران دوسرے مہینے میں ایک مرتبہ مراقبہ کا ناغہ ہوا، اس کے علاوہ نہیں ہوا۔ ایک پارہ تلاوت روزانہ اور رمضان میں دو ختم قرآن کئے اور تیسرا شروع کر لیا۔ اپنے آپ میں کچھ تبدیلی نظر نہیں آ رہی میرا دل سخت ہو گیا ہے میں یوں نہیں تھی جیسے اب ہو گئی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ یہ حالت ٹھیک ہو جائے۔ میرے دماغ پر بوجھ سوار ہو گیا ہے اس سے بے حد پریشان رہتی ہوں۔ یاد داشت بہت کمزور ہے۔ خود لکھنے کے بجائے اپنے احوال مجبوراً اپنی بیٹی سے لکھوانے پڑ رہے ہیں۔ کیا بیٹی سے ہی لکھوا لیا کروں یا آپ کو کال کر لیا کروں؟

جواب:

ما شاء اللہ معمولات تو آپ کے صحیح ہیں لیکن ایک چیز آپ سے رہ گئی ہے کہ آپ نے اپنے مراقبہ کی کیفیت نہیں بتائی۔ آپ نے مراقبہ کی مقدار بتا دی ہے لیکن مراقبہ کی کیفیت نہیں بتائی، اپنے مراقبہ کی کیفیت بھی بتا دیجئے کہ کیا آپ کا مراقبہ صحیح ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا، مثلاً آپ کو ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ مسلسل محسوس ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا۔ اس کے بارے میں تھوڑا سا مجھے بتا دیجئے گا تاکہ میں اس کے بارے میں آپ کو جواب دے سکوں۔

ماشاء اللہ رمضان شریف میں تو عمل ہی کرنا ہے یہ عمل کا مہینہ ہے، عمل کرنے میں آپ پوری کوشش کریں۔

آپ یہ جو کہتی ہیں کہ میرا دل سخت ہو گیا ہے در اصل آپ کا دل سخت نہیں ہوا بلکہ دو چیزیں آ گئی ہیں ایک تو آپ کی عمر بڑھ گئی ہے عمر بڑھنے کے ساتھ چڑچڑا پن آ جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان چیزوں کو زیادہ محسوس کر لیتا ہے، محسوس کرنے سے طبیعت پہ بوجھ آتا ہے اور اس بوجھ کی وجہ سے آدمی سمجھتا ہے کہ میرا دل سخت ہو گیا ہے، یہ ایک فطری بات ہے اس کو آپ محسوس نہ کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے دل میں اپنی سختی کا احساس بڑھ گیا ہے۔ پہلے یہ احساس نہیں ہوتا تھا اب چونکہ ذکر و فکر شروع ہو چکا ہے تو یہ احساس بڑھ گیا ہے، احساس کے بڑھنے کی وجہ سے آپ کو محسوس زیادہ ہو رہا ہے۔ یہ دونوں باتیں اگر آپ ذہن میں رکھیں تو ان شاء اللہ صورت حال سمجھ میں آ جائے گی۔

سوال نمبر14:

حضرت جی! میری اہلیہ کے بقول گھر کے کاموں میں میرا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ میرا جو وقت دفتر سے بچتا ہے وہ زیادہ تر بیان سننے، مطالعہ کرنے اور خلاصہ لکھنے میں گزرتا ہے، کبھی بچوں کو باہر سیر کے لئے لے جاتا ہوں۔ ہاں گھر میں جو کام کرنے والا خاکروب یا مالی میری وجہ سے آتا ہے وہ گویا گھر کے کاموں میں میری واحد شمولیت ہے لیکن عام طور پر جو مردوں کے کام ہوتے ہیں وہ بھی اہلیہ کو کرنے پڑتے ہیں جیسے بجلی، گیس کے بل خرچے کا حساب، گندم آٹے کا بندوبست، بچوں کی ذات پر خرچ اس سے بوجھ پڑتا جا رہا ہے اور چڑچڑاپن آ جاتا ہے۔ میری اہلیہ اس کی وجہ خانقاہ سے تعلق بتاتی ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ اس مخالفت سے بچوں پر برا اثر نہ ہو۔ مجھے اس صورت میں کیا کرنا چاہیے۔ اگر اہلیہ کو جواب دوں یا غلطی سے تلخ بات سنا دوں تو اس کی تلافی کے لئے کیا کروں؟

جواب:

اس بات کو ذرا مزید وضاحت کے ساتھ سمجھنا چاہوں گا۔ مجھے وقت کا حساب بتا دیں کہ جو جو کام آپ 24 گھنٹے میں کرتے ہیں ہر ایک کام میں کتنا وقت لگتا ہے۔ یہ تفصیل بتا دیں تو میں آپ کو بہتر مشورہ دے سکوں گا۔ ٹائم ٹیبل میں تھوڑی بہت تبدیلی کر کے آپ گھر کے کاموں کے لئے وقت نکال سکیں گے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ جو کام آپ نے کرنے ہیں اس کے بارے میں طے ہونا ہے کہ وہ آپ نے کرنے ہیں یا کسی اور نے کرنے ہیں۔ ان کی بھی ایک ترتیب بنا لیں کہ گھر کے کون سے کاموں میں آپ کا حصہ لینا ممکن ہے اور کون سے کاموں میں نہیں۔

سوال نمبر15:

مراقبہ کبھی ٹھیک ہوتا ہے اور کبھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ کبھی آپ کی طرف سے دو رنگی لہریں قلب پر آتی محسوس ہوتی ہیں کبھی سانس اور بدن کی طرف دھیان ہو جاتا ہے، کبھی دل میں آپ کی طرف سے ذکر آنے لگتا ہے اور کبھی کچھ نہیں۔ مراقبہ یہ ہے ”شیخ کے قلب سے میرے قلب پر فیض آنا“۔

جواب:

جو مراقبہ میں نے بتایا تھا اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی شان کے مطابق اس کی طرف سے فیض آ رہا ہے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب پر اور میرے شیخ کے قلب سے میرے دل میں آ رہا ہے۔ آپ نے سوال میں اس مراقبہ کا آخری حصہ ذکر کیا ہے پہلا حصہ نہیں لکھا، شاید آپ بھول گئے یا جان بوجھ کر نہیں لکھا۔ جو بھی ہے اس کو ٹھیک کر لیں اور صحیح طریقے سے مکمل کر کے اطلاع کریں۔

باقی جو آپ کو دو رنگی لہریں آتی محسوس ہوتی ہیں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ آہستہ آہستہ ترقی ہوتی ہے، اگر کچھ دیر کے لئے ذکر آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ذکر کے ذریعے سے آپ کو فائدہ ہو گا۔ جو ذکر آ رہا ہے اس کے بارے میں بتا دیں کہ کون سا ذکر آ رہا ہے۔

آپ نے بتایا کہ کبھی آپ کو کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا، یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ ان اوقات میں غافل ہوتے ہیں۔ آپ کی توجہ ذکر و مراقبہ پر نہیں رہتا، نفس دوسری چیزوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ جو آپ نے بتایا کہ سانس اور بدن کی طرف آپ کا دھیان جاتا ہے، یہ نفس کی طرف سے ہے۔

جو سرخ اور سبز رنگ محسوس ہوتا ہے، یہ ٹھیک ہے ایک رنگ لطیفۂ روح کا ہے اور ایک لطیفۂ قلب کا ہے۔

سوال نمبر16:

حضرت! قبض اور بسط کی حالت میں سالک کو کیا کرنا چاہیے۔ قبض اور بسط کی حالت ساری عمر رہتی ہے یا سلوک طے کرنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے؟

جواب:

قبض اور بسط کی حالتیں چلتی رہیں گی یہ دن رات کی طرح ہیں۔ دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن۔ اگر مسلسل بسط رہے تو یہ ایسے ہے جیسے آکسیجن بہت زیادہ ہو جائے، اس سے بھی انسان کے ساتھ مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں، مسلسل بسط انسان سے برداشت نہیں ہو سکتا، اس کے علاوہ مسلسل بسط سے آدمی عجب میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ میں ایسے اعمال میں مشغول ہوں کہ ہر دم بسط طاری ہے، تو اس لئے قبض طاری ہو جاتا ہے، جس میں کچھ کرنے کو جی نہیں چاہتا، پھر جی نہ چاہنے کے باوجود انسان کوشش کرکے عمل کرتا رہتا ہے تو اسے جی نہ چاہنے کے باوجود عمل کرنے کی وجہ سے بہت زیادہ اجر ملتا ہے کیونکہ اس وقت مجاہدہ بھی ہو رہا ہوتا ہے اور عمل بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ مجاہدے کی وجہ سے نفس کا علاج ہوتا ہے اور ذکر کی وجہ سے اس کو ذکر کی برکت ملتی ہے، گویا ایک تیر میں دو شکار ہو جاتے ہیں۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ حضرت میرا جی نماز پڑھنے کو بالکل نہیں چاہتا تو حضرت نے فرمایا کہ بھائی جس وقت سو فیصد نمبر لینے کا وقت آ گیا تو اب بھاگ رہے ہو۔

کیونکہ جس وقت انسان کا جی نیک کام کرنا چاہتا ہے، تو اس کا کچھ حصہ نفس کو مل جاتا ہے اور کچھ نمبر آپ کو مل جاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کا جی نہیں چاہتا، پھر بھی آپ وہ نیک کام کرتے ہیں تو سو فیصد نمبر آپ کے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے قبض میں فائدہ ہی فائدہ ہے لیکن قبض کے لئے دعا نہ کیا کریں کہ مجھے قبض ہو کیونکہ یہ برداشت نہیں ہوتا۔ لہٰذا قبض کے لئے دعا تو نہیں کرنی، لیکن جب آ جائے تو اس پہ خوش ہوا کرو کہ بس اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ مہربانی کا معاملہ کیا ہے اور اس کا حق ادا کیا کرو، حق ادا کرنا یہ ہے کہ دل چاہے یا نہ چاہے عمل کر لیا کرو۔ ہم دل کی خوشی کے لئے تھوڑا ہی عمل کر رہے ہیں ہم تو اللہ کے لئے کر رہے ہیں اور اللہ تو ہر وقت ہوتا ہے چاہے قبض کی حالت ہو چاہے بسط کی حالت ہو۔

سوال نمبر17:

السلام علیکم حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات میں یہ بات آئی کہ جنت میں ان لوگوں کو اللہ پاک کا دیدار ہو گا جو دنیا میں اللہ کے عاشق ہوں گے۔ اللہ کے عاشقوں کو اس دیدار کا کچھ حصہ ادھر ہی مل جاتا ہے۔ کیا حضوری کی کیفیت وہی چیز ہے؟

جواب:

عاشقوں کے کام کی پیمائش کے کوئی پیمانے نہیں ہوتے۔ عاشقوں کی اپنی کیفیات ہوتی ہیں وہ کیفیات ہی ان کے لئے سب سے بڑی چیز ہوتی ہیں۔ جو اللہ کا عاشق ہے وہ تو ہر وقت اپنے معشوق کی یاد میں ہی گم ہو گا اسے تو کسی اور چیز سے سروکار ہی نہیں۔ ان کے لئے طریقہ کار بس یہی ہے کہ وہ اللہ کی یاد میں لگے رہیں، اللہ کے لئے باقی لوگوں کے حقوق ادا کریں۔ ایسا کرنے سے اس میں بہت زیادہ پاکیزگی آئے گی۔ وحدت الوجود ایک کیفیت ہے جو فنا کے ساتھ آتی ہے۔ اس کے بارے میں تفصیل گزر چکی ہے۔

سوال نمبر18:

السلام علیکم۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے درمیان کتنا فرق ہے؟ کیا وحدت الوجود سے وحدت الشہود میں آنے کی کوئی ضمانت ہے؟ اگر کوئی وحدت الوجود میں پھنس جائے تو وہ شریعت کی تعمیل کیسے کرے گا؟

جواب:

اس بارے میں صاف بات یہ ہے کہ ”جب اللہ اس حالت سے نکال لے۔“ جب کام اللہ کا ہے تو پھر مخلوق سے کیا بات ہو سکتی ہے۔ ہمارا کام تو فنا فی اللہ حاصل کرنا ہے اور فنا فی اللہ میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں، مستہلکین بھی ہوں گے اور مسترشدین بھی ہوں گے۔ جب اللہ تعالیٰ نکالتا ہے تو یہ ساری چیزیں سالک کو محسوس ہونے لگتی ہیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کتنی دیر میں نکالنا ہے، ہم لوگ نہیں جانتے کہ وہ کس کے ساتھ کیا معاملہ فرماتے ہیں کیونکہ وہی حالات کو بہتر جانتے ہیں۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ جو وحدت الوجود میں ہوں اور وحدت الشہود میں ابھی نہیں آئے وہ معذور ہوتے ہیں، مقتدا نہیں ہوتے۔

سوال نمبر19:

السلام علیکم! مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جب تک سالک اپنے آپ کو کافر فرنگی سے بھی کم یا برا نہ سمجھے تب تک کامل نہیں ہو سکتا۔ اس میں اپنے آپ کو برا سمجھنے سے کیا مراد ہے۔ کافر کو اچھا سمجھنا کفر میں بھی تو آ سکتا ہے جیسا کہ عقائد کی تعلیم میں بتایا گیا ہے؟

جواب:

یہ اچھا سوال ہے۔ کافر کو اچھا سمجھنے سے مراد اس کے کفر کو اچھا سمجھنا نہیں ہے، بلکہ اپنے آپ کو کمتر سمجھنا مراد ہے۔ اپنے آپ کو کمتر سمجھنے کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ کفر کو اچھا کہا۔ اپنے آپ کو کم سمجھنے سے عقیدے میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ اور جو کافر کو اچھا سمجھنا ہے وہ بھی مطلق اچھا سمجھنا مراد نہیں بلکہ فی المآل اچھا سمجھنا مراد ہے۔ یعنی مستقبل کے لحاظ سے اچھا سمجھنا کیونکہ ممکن ہے کہ مستقبل میں وہ ایمان لائے اور مقبول ہو جائے اور کیا پتا میں گمراہ ہو جاؤں یا زندیق ہو جاؤں پتا نہیں کیا ہو جاؤں اور میرا سارا کچھ چلا جائے۔

تو میں آپ کو ایک بات بتاؤں اللہ کی توفیق کو ذہن سے نکالنا بہت بڑی جسارت ہے۔ جن میں تکبر ہوتا ہے وہ اللہ کی توفیق کو ذہن میں نہیں رکھتے۔ عبد اللہ اندلسی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے کافروں کو دیکھا تھا کہ بتوں کو سجدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا کہ دیکھو اتنے بے وقوف ہیں کہ بے جان بتوں کو سجدہ کر رہے ہیں۔ اس پر انہیں الہام ہوا کہ کیا تو سمجھتا ہے کہ تو جو خدا کو سجدہ کرتا ہے وہ تیرا اپنا کمال ہے؟ وہ میری توفیق تھی، اب میں اپنی توفیق واپس لیتا ہوں، اپنے آپ کو سنبھال سکتے ہو تو سنبھال کے دکھاؤ۔ بس اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ان کے سینے سے ایک پرندہ سا اڑ گیا، اور دل کی عجیب حالت ہو گئی۔ آگے جا کر دیکھا تو ایک کنوئیں پر نصرانی عورتیں پانی بھر رہی تھیں، ان میں سے ایک عورت پر عاشق ہو گیا اب وہ جہاں جائے یہ اس کے پیچھے پیچھے جائے، اخیر میں اس نے پیغام بھیجا کہ اگر عیسائی ہو جاؤ تو پھر بات ہو سکتی ہے تو یہ ان کے لئے عیسائی ہو گیا۔ بڑا لمبا واقعہ ہے۔ پھر اللہ نے ان کو ایمان دے دیا اور یہ پہلی حالت میں واپس آ گیا۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو یہ فرمایا ہے کہ جب تک سالک اپنے آپ کو کافر فرنگی سے بھی کمتر نہ سمجھے تب تک کامل نہیں ہو سکتا۔ وہ اس معنی میں ہے جس کی تفصیل میں نے عرض کر دی۔ آدمی اللہ کی توفیق کو ذہن سے نہ نکالے۔ ہمہ وقت یہی سمجھے کہ میں جو کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو رہا ہے ورنہ میری کیا مجال ہے، میں کیسے کر سکتا ہوں یہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے ہو رہا ہے۔ جب آدمی کی اپنے آپ پر نظر پڑ جاتی ہے تو اللہ کو بھول جاتا ہے اور جو اللہ کو بھول جاتا ہے اس میں ساری برائیاں آ جاتی ہیں۔ اس وجہ سے یہاں پر حضرت نے فرمایا ہے کہ اپنے اوپر نظر نہ ڈالو اللہ تعالیٰ کی توفیق پر نظر ڈالو۔ اگر اللہ تعالیٰ کافر کو ہدایت دے دے اور کہاں سے کہاں پہنچا دے اعلیٰ مقامات عطا فرما دے تو اللہ پاک کے لئے کیا مشکل ہے۔ ہمارے آنکھوں دیکھے واقعات ہیں کہ کئی لوگ پوری زندگی کافر رہتے ہیں اخیر میں مسلمان ہو جاتے ہیں، ماشاء اللہ ان کی قبولیت ہو جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی ہی بات ہے کہ امریکہ کے کوئی وزیر دفاع تھے وہ مسلمان ہوئے، پوری عمر انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کام کیا ہو گا، اخیر میں مسلمان ہو گئے، دیکھو اللہ نے کرم کر دیا۔ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے، ساری عمر مسلمانوں کی مخالفت کی، اخیر میں مسلمان ہو گئے اور آپ ﷺ نے ان کا اتنا زیادہ اکرام کیا کہ فرمایا آج جو ان کے گھر میں پناہ لے اسے بھی امان ہے۔

بہرحال یہ چڑچڑا پن اپنے ذہن سے نکالنا چاہیے کہ ساری خوبیاں اپنے لئے سمجھی جائیں اور سارا نقصان دوسروں کے لئے سمجھا جائے۔ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات ٹھیک ہے کہ اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھو۔

سوال نمبر20:

السلام علیکم حضرت جی۔ کیا میں شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کتاب ”غیر مقلدین سے لا جواب سوالات کا جواب“ اور ”تریاق القلوب“ کتاب کا مطالعہ کر سکتا ہوں؟

جواب:

جی کر سکتے ہیں لیکن مناظرے کی نیت سے نہیں صرف خود سمجھنے کے لئے ان کا مطالعہ کریں۔

سوال نمبر21:

حضرت! گاڑی چلاتے وقت نظروں کا مجاہدہ کیسے کیا جائے؟

جواب:

نظر کا مجاہدہ تو تھوڑی دیر کے لئے ہوتا ہے، گاڑی چلاتے وقت اسے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ گاڑی کو چلاتے وقت بالکل نہ کریں۔ اس مجاہدہ کا وقت بہت تھوڑا ہوتا ہے، زیادہ سے زیادہ 25 منٹ ہی ہوتا ہے۔ اتنا وقت آپ گاڑی کے بغیر اس مجاہدہ کے لئے مختص کر لیں۔ گاڑی میں یہ مجاہدہ کرنا کافی خطرناک ہو سکتا ہے، آپ کی تو اصلاح ہو جائے گی دوسروں کی موت ہو جائے گی، باقی اصلاح جیل میں ہو گی۔

سوال نمبر22:

حضرت! فخر اور عجب میں کیا فرق ہے؟

جواب:

یہ اصطلاحی الفاظ ہیں۔ عجب اس کو کہتے ہیں جس میں انسان کی اپنی کسی خوبی پر نظر ہو لیکن کسی دوسرے کی حقارت ذہن میں نہ ہو، اگر کسی دوسرے کی حقارت ذہن میں ہو تو یہ تکبر ہے۔ جبکہ فخر کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے بارے میں کوئی بات کہے کہ میں ایسا ہوں، یہ فخر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

”أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ“ (سنن ترمذی: 3615)

ترجمہ: ”میں اولاد آدم کا سردار ہوں، لیکن میں فخر نہیں کرتا“۔

یعنی یہ میرا کمال نہیں ہے اللہ پاک کا فضل ہے۔

سوال نمبر23:

حضرت جی! آج کل غامدی کا ایک پیغام بہت زیادہ پھیلایا جا رہا ہے کہ جو مولوی حضرات کہتے ہیں حج کر لو یا رمضان میں عبادت کر لو تو اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف کر دیتے ہیں اس کی کوئی حقیقت نہیں، اس سے صرف حقوق اللہ معاف ہو سکتے ہیں حقوق العباد معاف نہیں ہو سکتے۔ بقول ان کے یہ بہت بڑی غلط بات ہے جو مولویوں نے عوام کے ذہن میں ڈال دی ہے کہ یہ کر لو تو سب معاف ہو جاتا ہے، اس بات کو عوام کے ذہن سے نکالنا ہو گا۔ اس کی تفصیلی وضاحت فرما دیجئے تاکہ لوگوں کو بتائی جا سکے۔

جواب:

میں اس بات کا جواب غامدی سے قطع نظر کر کے دیتا ہوں، کیونکہ میرے خیال میں اس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ با قاعدہ مقرر کیا ہوا آدمی ہے اور اغیار کے مفادات کے مطابق کام کرتا ہے لہٰذا ان کی ذات پر تو تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ جہاں تک ان کی یہ بات ہے کہ حقوق العباد عبادات سے معاف نہیں ہوتے، تو یہ بات صحیح ہے کہ توبہ سے سب گناہ معاف تو ہوتے ہیں، لیکن ہر گناہ کی توبہ مختلف ہوتی ہے، حقوق العباد کی توبہ کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ حق دار سے وہ حق معاف کروا لے یا اس کا حق ادا کر دے کیونکہ اگر میں ہزار اعتکاف بھی کر لوں لیکن اگر میں نے کسی کا حق مارا ہے تو وہ ان اعتکافوں سے معاف نہیں ہو گا۔ حتیٰ کہ شہید کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں لیکن قرض اس کا بھی معاف نہیں ہوتا۔

لہٰذا ان کی یہ بات ٹھیک ہے کہ رمضان شریف کے اعمال یا حج وغیرہ کے اعمال کرنے سے حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے۔ لیکن ان عبادات کا یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ للّٰہیت حاصل ہوتی ہے، جب للّٰہیت حاصل ہو جائے گی تو حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق ہو جائے گی۔ لہٰذا عبادات سے لوگوں کو دور نہیں کرنا چاہیے۔ اس بات کو اس طرح نہیں بیان کرنا چاہیے کہ عبادات کی اہمیت ختم ہو جائے، بلکہ اس طرح بیان ہونا چاہیے کہ عبادات کی اہمیت اپنی جگہ پر رہے اور حقوق العباد کی اہمیت بھی دل میں پیدا ہو جائے۔

ہم لوگ بھی اپنے آپ کو مستغنی نہ سمجھیں بلکہ اگر ہم رمضان شریف میں اعتکاف کرتے ہیں یا حج کرتے ہیں یا کوئی بھی نیک کام کرتے ہیں، تبلیغ والے گشت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے وہ گناہ بھی معاف ہو جائیں گے جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔

باقی اس بات کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنا غلط ہے کہ لوگ عبادت کی طرف نہ آئیں یا عبادات کی اہمیت ان کے دل میں کم ہو جائے، کیونکہ حقوق العباد ادا کرنے اور توبہ کرنے کی توفیق بھی ان چیزوں کی طرف آنے سے ہی ہو گی۔ جن کا کسی کے ساتھ اصلاحی تعلق ہوتا ہے، شیخ ان کو یہ چیزیں سمجھاتا ہے اور جو صرف کتابیں پڑھتا ہے تو وہ پھر ایسے نتیجے نکالتا ہے، جیسے غامدی وغیرہ نکالتے ہیں۔

سوال نمبر24:

جو چیز بزرگوں کے پاس ہوتی ہے وہ عام بندے کے پاس نہیں ہوتی تو پھر عام بندہ ان کی نقل کیوں کرے؟

جواب:

جو واقعی بزرگ ہیں، ان کے پیچھے چلنے میں ہی خیر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ان کا اپنا عمل باقی لوگوں کے مقابلہ میں بہتر ہوتا ہے، دوسرا ان کے ساتھ اللہ کی تائید اور مہربانی ہوتی ہے اللہ کا فضل ہوتا ہے۔ اس لئے جب آپ ان جیسا کرنے لگیں گے تو ماشاء اللہ آپ کو فائدہ ہو گا۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ ہر چیز کو شریعت پر پرکھا جاتا ہے، اگر کسی بزرگ کو کسی چیز کے بارے میں غلط فہمی ہے اور وہ اسے صحیح سمجھ رہا ہے تو اسے غلط نہ کہو، لیکن خود وہ کرو جو شریعت کے مطابق ہو کیونکہ ہم پہلے شریعت پر چلنے کے مکلف ہیں۔ اول بات تو یہ ہے، اس کے اوپر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں، ہمیں ہر حال میں شریعت پر چلنا ہے لہٰذا شریعت کا علم حاصل کرو اس پر چلنا شروع کر دو لیکن اس پر چلنا بزرگوں سے سیکھو، جب آپ ان کو دیکھیں گے کہ عمل کر رہے ہیں تو ہم میں جذبہ پیدا ہو گا کہ وہ بھی ہمارے جیسے حالات میں رہ کر عمل کر رہے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں۔ اس سے انسان کو فائدہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر25:

حضرت! آپ اپنے مریدین کو جن دو حدیثوں پر عمل کرنے کا ہدف دیتے ہیں۔ وہ خاص لوگوں کے لئے ہے یا ہر کوئی اس میں حصہ لے سکتا ہے؟

جواب:

ہر مسلمان کے لئے اس کا حکم ہے۔ کوئی بھی اس کو شروع کر سکتا ہے، اس پہ کوئی پابندی نہیں ہے۔

سوال نمبر26:

السلام علیکم حضرت جی! آج رات جب مراقبہ شروع کیا تو ابھی درود و سلام پڑھ رہا تھا کہ یہ تصور ہوا جیسے حضور پاک ﷺ کے قدموں میں ہوں۔

جواب:

میرے پاس مختلف قسم کے میسج آتے رہے ہیں۔ لیلۃ القدر کے بارے میں ایک میسج آیا تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ آج جمعرات ہے اور مغرب کے بعد جمعہ کی رات شروع ہو جائے گی، تئیسویں رات ہو گی، جو طاق بھی ہو گی اور شب جمعہ بھی ہو گی۔ ابن رجب نے لطائف المعارف میں لکھا ہے کہ جب طاق رات جمعہ کی رات کے ساتھ شامل ہو تو بہت امید ہے کہ شب قدر ہو۔ پھر ایسا ایک میسج پچیسویں کو بھی آ گیا، وہ بھی آپ کو بتایا تھا، ممکن ہے کہ ابھی تھوڑی دیر میں ستائیسویں کا میسج بھی آ جائے وہ بھی آپ کو بتا دوں گا۔ ان تینوں میسجز سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر طاق رات کو شب قدر ہونے کا امکان ہے۔ کسی بھی کشف کے بارے میں یہ خیال رکھنا کہ یہ یقینی ہے، یہ ہماری کمزوری کی علامت ہوتی ہے اللہ جل شانہ نے جس حکمت کی بنا پر یہ رات چھپائی ہے وہ حکمت بدستور قائم ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ ہم ہر رات کو لیلۃ القدر سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اللہ جل شانہٗ کی طرف رجوع ہی کامیابی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ سب سے افضل رات کون سی ہے۔ انہوں نے فرمایا لیلۃ القدر۔ جواب درست ہے۔ لیکن جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ سب سے بہتر رات کون سی ہے تو فرمایا: جس رات میں کسی کی توبہ قبول ہو جائے وہ سب سے بہتر ہے۔ کتنی زبردست بات ہے۔ اب اگر کوئی لیلۃ القدر میں غافل رہے اس کے بجائے کسی اور رات میں جاگ جائے اور توبہ کرلے، اس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، اس کے لئے تو وہی رات بہتر ہو گی۔ لہٰذا جو ان تمام راتوں کی قدر کرے گا تو اس کو ان شاء اللہ یقیناً شب قدر انہی راتوں میں مل جائے گی۔ کافی لوگ ستائیسویں کو بھی بتاتے ہیں، وہ بھی ٹھیک ہے ہم اس کا انکار نہیں کرتے، ہم کہتے ہیں کہ پچیسویں کو بھی شب قدر ہو سکتی ہے تئیسویں کو بھی ہو سکتی ہے اکیسویں کو بھی ہو سکتی ہے اور انتیسویں کو بھی ہو سکتی ہے، بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ جفت راتوں میں بھی شب قدر ہو سکتی ہے۔ اگر ہم لوگ ان تمام راتوں کی قدر کریں گے تو ہمیں یقیناً شب قدر ملے گی۔ کہتے ہیں:

؏ ہر شب شب قدر است گر قدر است۔

اگر قدر ہو تو ہر رات ہی شب قدر ہے۔

بہرحال اس قسم کے میسجز کو (جو میں نے شروع میں پڑھا) ہمارے بعض ساتھی پھیلا دیتے ہیں یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ یہ چیزیں سمجھنا ہر ایک کا کام نہیں ہوتا، ہر ایک ان چیزوں کو نہیں جانتا لہٰذا ان چیزوں کو پھیلانا نہیں چاہیے۔ ہر چیز جو آپ کو میسجز میں ملے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کو فوراً پھیلا دو۔ فلاں کا کشف ہو گیا تو اسے پھیلا دیا، فلاں کا کشف ہو گیا تو اسے بھی پھیلا دیا۔ بھائی کشفی بننا چاہتے ہو یا کام کرنا چاہتے ہو۔ کشفوں میں گم ہو جاؤ گے، یہ کشف آپ کو کام نہیں دیں گے آپ کا عمل آپ کے کام آئے گا۔

غور کریں کہ کشف سے زیادہ اونچی چیز نسب ہے اور نسب کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس کو عمل نے پیچھے کیا اس کو نسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔ اس لئے باقی سب چیزوں کو چھوڑ کر عمل کرو۔ عمل کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہو جائے گا۔ فیصلہ تو اللہ کے فضل پر ہے۔

ان چیزوں کو بہت زیادہ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو کام کرنے کا ہے وہی کرو۔ آج کل میرے پاس زیادہ تر میسجز یہ آتے ہیں کہ میرے لئے دعا کریں۔ لوگوں کو اپنے معمولات کا خیال نہیں ہے، اصلاح کے لئے کوئی چیز نہیں پوچھتے۔ انہیں یہ آسان راستہ لگتا ہے کہ بس میرے لئے دعا کریں، دعا سے میرا بیڑا پار ہو جائے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے دعا سے سارا بیڑا پار کرنا ہوتا تو بس آپ ﷺ صرف دعا ہی کرتے۔ دعا تو وہ کرتے تھے لیکن عمل پہ کیوں زور دے رہے تھے۔ اس لئے کہ عمل ضروری ہے۔ عمل کرنا چاہیے دعائیں بھی کرنی چاہئیں۔ دعا کو عمل کے لئے معاوِن کے طور پہ استعمال کرو۔ پہلے عمل کرو پھر اللہ تعالیٰ سے مانگو کہ اے اللہ میرے عمل کو قبول فرما دے، اے اللہ مجھے معاف کر دے۔

کوئی بھی چیز یا منفی ہو گی یا مثبت۔ منفی کا دور کرنا بھی ممکن ہے کہ آپ معافی مانگ لیں یہ بھی ایک عمل ہے۔ اور دوسری بات ہے کہ مثبت چیز پر عمل کر لو اس کو قبول کرنےکی دعا کر لو کہ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرما لے۔ اب کوئی نماز نہ پڑھتا ہو اور کہہ دے کہ یا اللہ مجھے معاف فرما لے۔ یہ درست نہیں ہے، درست یہ ہے کہ نماز پڑھ کر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لے اور جو نماز نہیں پڑھی اس کے لئے معافی کی درخواست کر لو کہ اے اللہ مجھے معاف کر دے میں اس کی قضاء پڑھ لیتا ہوں۔ اگر صرف زبان سے معافی مانگتا رہے گا اور قضاء نہیں پڑھےگا تو مجرم ہو گا۔ قضاء تو معافی مانگنے کے بعد بھی پڑھنی پڑے گی۔ عمل تو پھر بھی کرنا پڑے گا کیونکہ یہ سارا میدان عمل کا ہے۔ پتا نہیں کس طریقے سے ہمارے دماغوں میں یہ چیزیں بھر گئیں ہیں۔

ایک مرتبہ ترکی کے صدر کے ایک مشیر پشاور میں مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے تھے۔ ان کے ساتھ دورانِ گفتگو لوگوں نے کچھ تجاویز پیش کیں جو اسی طرح کے شارٹ کٹ طریقوں پہ مبنی تھیں تو حضرت نے فرمایا: شارٹ کٹ نہیں چلیں گے، عملی بات کریںَ

ہماری قوم کے اندر شارٹ کٹ کی حرص بہت زیادہ ہے۔ بس کسی طریقے سے، ادھر ادھر کی باتوں سے، خوشامد سے بیڑا پار ہو جائے۔ خوشامد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ خوشامد سے بیڑا پار ہو جائے، دھوکہ دہی سے بیڑا پار ہو جائے۔ بس ان باتوں سے کام ہو جائے کہ میں حقیر پر تقصیر ہوں۔ یہ باتیں کچھ بھی نہیں، اللہ تعالیٰ دل کی حالت کو دیکھتے ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے:

”إنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلٰى أَجْسَامِكُمْ، وَلَا إِلٰى صُوَرِكمْ، وَلٰكِنْ يَنْظُرُ إلٰى قُلُوبِكمْ وَأَعْمَالِكُمْ“ (صحیح مسلم: 6543)

ترجمہ: ”اللہ تمھارے جسموں اور تمھاری شکلوں کی طرف نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تو تمھارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے“۔

یہ باتیں میں اس لئے کرتا ہوں کہ مجھے مل رہی ہیں اسی وجہ سے آگے بتا رہا ہوں۔

سوال نمبر27:

حضرت! اگر کسی کی غیبت کی ہو یا کسی کا مال کھایا ہو اور یاد نہ ہو، با وجود کوشش کے یاد نہ آئے تو اس صورت میں کیا کرے۔

جواب:

اول تو پوری کوشش کرنی چاہیے، اس کے لئے تمام وسائل استعمال کرنے چاہئیں پھر بھی یاد نہ آئے تو ان کے لئے ایصال ثواب کرنا چاہیے۔

سوال نمبر28:

حضرت! حلال رزق میں سے زیادہ خرچ کرنا، کیا یہ فضول خرچی میں آئے گا یا اسراف میں آئے گا۔ مثلا ایک آدمی پانچ سے چھ گھر حلال رزق سے خرید سکتا ہے تو کیا یہ فضول خرچی ہو گی؟

جواب:

یہ ہر ایک کے حالات پر منحصر ہے کہ کس کی کیا صورتحال ہے، اس کی اپنی حالت کیسی ہے۔ ایک تو وہ لوگ تھے جن کے لئے پکا گھر بنانا بھی جرم تھا یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ اگر آج یہ کام کرنے کے بارے میں کہا جائے تو سارے فیل ہو جائیں گے کیونکہ سارے گھر پکے بنے ہوئے ہیں، وہ ان کے معیار کے مطابق بات تھی۔ ہم لوگ فتوٰی پہ چلنے والے لوگ ہیں، تقوٰی والی بات ہر ایک کی اپنی اپنی ہوتی ہے۔ فتوٰی میں اس کی گنجائش ہے کہ اگر آپ حلال مال سے بنا رہے ہیں اور حلال میں ہی استعمال کر رہے ہیں تو شریعت اس کی مخالفت نہیں کرتی۔

سوال نمبر29:

حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح اور سیرت پہ کوئی کتاب تجویز فرما دیں۔

جواب:

حضرت مولانا ابو الحسن ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک معركۃ الآراء کتاب لکھی ہے ”کاروانِ دعوت و عزیمت“ اس کی چوتھی جلد مکمل حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہے۔ حضرت مولانا ابو الحسن ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا انداز بہت تحقیقی ہوتا ہے، ہر بات سند کے ساتھ لکھتے ہیں، اس سلسلے میں یہ بہت اچھی کتاب ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ