سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 411

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال نمبر1:

السلام علیکم، حضرت جی آپ نے فرمایا تھا کہ استخارہ کی مسنون دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے اور دعائیں کرتے وقت نفسیاتی طور پر کسی ایک طرف جھکاؤ نہیں ہونا چاہیے۔

اگر کوئی فیصلہ کرنا ہو، وقت کم ہو لیکن اگر دل میں کسی بات کے بارے میں کچھ آ رہا ہو تو اکثر دعائیں پڑھنے کے بعد بھی اس طرف ذہن جاتا رہتا ہے، ذہن ایک بات پر فوکس نہیں ہوتا، ایسے میں کیا کیا جائے۔ مجھے یہ پتا ہے کہ میں بالکل سمجھدار نہیں ہوں، لیکن ہر چھوٹی چھوٹی بات پر آپ سے مشورہ کرنے لگوں تو یہ بھی مناسب نہیں کہ بار بار آپ کو تکلیف دوں۔ فوراً کوئی فیصلہ کرنا ہو تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی۔ نفسیات سے الگ ہو کر کیسے استخارہ ہو سکتا ہے؟

جواب:

نفسیات سے الگ ہو کر فیصلہ کرنے کا تو میں نے نہیں کہا تھا۔

استخارہ سے مراد یہ ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ آپ کے دل پر بھیجے اسے آپ کا نفس متاثر نہ کرے یا آپ کا کوئی خیال متاثر نہ کر ے، وہ صرف اور صرف وہی چیز ہو جو استخارہ سے آپ کے دل میں آئی ہو۔

استخارہ میں اللہ پاک سے مانگنا ہوتا ہے اور اس میں یہی بات اصل ہوتی ہے کہ چونکہ ہمیں اللہ سے مانگنا ہے اس لئے مانگنے میں جتنا اخلاص ہو گا اللہ تعالیٰ کی طرف جتنی توجہ ہو گی، اللہ کی طرف سے اتنی مدد آئے گی۔ اس لئے آپ دل سے مانگیں اور اس چیز کو بھی ذہن میں رکھیں کہ یا اللہ! میں کچھ بھی نہیں جانتی، جو بھی تیری طرف سے ہو اس کی طرف میری رہنمائی فرما دے اور مجھے اس میں کسی شک یا کسی غلطی کے حوالے نہ کرنا۔ استخارہ کے ساتھ یہ دعا بھی پڑھ لیں تو ان شاء اللہ امید ہے کامیابی ہو جائے گی۔ ”یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِی شَانِیْ کُلَّہ وَ لَا تَکِلْنِی اِلیٰ نَفْسِیْ طَرْفَةَ عَیْن“ جو دعا آپ نے پڑھی ہے یہ بھی ٹھیک ہے۔ ”اللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَهٗ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَه“۔

سوال نمبر2:

جب تک ہم نفس اور شیطان کے اثر میں ہیں، قلب، نفس اور عقل کی اصلاح نہیں ہوئی تو صحیح طور سے رجوع الی اللہ کیسے ممکن ہے؟

جواب:

عاجزی کے ساتھ ممکن ہے۔ آدمی کہہ دے یا اللہ! مجھے تو کچھ بھی نہیں آتا، رونا شروع کر دے اور اللہ تعالیٰ سے مانگے تو اللہ تعالیٰ ضرور سیدھا راستہ دکھاتے ہیں۔

سوال نمبر3:

حضرت جی السلام علیکم۔ میرے سوالات خیال کے متعلق ہیں۔ کیا خیال دل میں آتا ہے یا دماغ میں، کیا خیالات اندر سے پیدا ہوتے ہیں یا باہر سے کوئی الہام کرتا ہے، برے خیالات کہاں سے آتے ہیں اور اچھے خیالات کہاں سے آتے ہیں، برے خیالات سے کیسے بچیں رہنمائی فرمائیں؟ جزاک اللہ۔

جواب:

ان سب چیزوں پر ہم اپنی کتاب فہم التصوف میں بحث کر چکے ہیں۔ اس کتاب میں پورا ایک باب اس موضوع پر ہے، جس کا نام ”باب الخواطر“ ہے۔ خواطر خیالات کو کہتے ہیں۔ میں کچھ دیر پہلے اسی باب کو دیکھ رہا تھا۔ اس کا کچھ حصہ سنا دیتا ہوں۔ فہم التصوف کے صفحہ نمبر 342 پر خواطر کے عنوان کے تحت لکھا ہے:

”کسی بندے کے دل میں جو خیال آتا ہے اسے خاطر کہتے ہیں وہ کبھی خیر ہوتا ہے کبھی شر ہوتا ہے، خیر کا خیال کبھی من جانب اللہ ہوتا ہے کبھی فرشتے کی جانب سے ہوتا ہے، جس کا نام مُلْہِمْ ہے اور کبھی شیطان کی جانب سے بھی ہوتا ہے۔ شر کا خیال شیطان کی طرف سے یا نفس کی طرف سے اور کبھی کبھی حکمتاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو خیر ہوتی ہے وہ اکراماً ہوتی ہے یا اتمام حجت کے لئے ہوتی ہے اور جو شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے وہ امتحاناً ہوتا ہے اور محنت میں ڈالنے کے لئے ہوتا ہے۔ ملہم کی طرف سے ہمیشہ خیر ہی دل پر وارد ہوتی ہے، کیونکہ اس کا کام ہی یہی ہے، یہ مرشد ناصح کی طرف سے ہوتا ہے اور جیسے شیطان انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے اس طرح مُلْہِمْ بھی انسان کے ساتھ ہوتا ہے، یعنی ایک شیطانی چینل ہوتا ہے اور ایک رحمانی چینل ہوتا ہے“۔

میں اکثر کہتا ہوں شیطان کی طرف سے جو خیر ہوتی ہے وہ مکر و استدراج ہوتا ہے یہ صورتاً تو خیر نظر آتا ہے لیکن اس کے اندر شر چھپا ہوتا ہے، مثلاً کسی اعلیٰ خیر کو روکنے کے لئے کسی چھوٹی خیر میں مبتلا کرنا۔ اور جو شر ہوتا ہے وہ اغوا کرنے کے لئے یا ذلیل کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ نفس کی طرف سے جو شر ہوتا ہے وہ بے راہ روی کے لئے یا راہ حق کے مجاہدات سے بچنے کے لئے ہوتا ہے اس میں بہت کم خیر ہوتی ہے۔ نفس کی بات جس کو ہم حدیث نفس کہتے ہیں وہ بھی تو خیال ہی ہوتا ہے، حدیث نفس میں یہی ہوتا ہے کہ نفس کی خواہشات سامنے آتی ہیں، اسی طرف انسان کا ذہن جاتا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ دل میں خیال آتا ہے اور دماغ سے ہم اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ خیالات کی دنیا بھی ایک دنیا ہے اور اس کے ذریعے سے اچھے کام بھی ہو سکتے ہیں اور غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں۔

سوال نمبر4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت اقدس کی خدمت میں دو سوال عرض ہیں۔

1: بعض دفعہ نا سمجھی میں اگر اپنے شیخ کے مزاج یا تصوف کے اصول کے خلاف کوئی کام ہو جائے اور خواب میں اس کی تنبیہ ہو جائے تو کیا پھر بھی اس غلطی کا بیان کرنا ضروری ہے؟

جواب:

شیخ کو وہ ساری باتیں بتانی ضروری ہوتی ہیں جو اصلاح سے متعلق ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے خواب سے جو مطلب لیا ہے وہ صحیح ہے یا غلط، اس کا پتا آپ نہیں لگا سکتے، اس کی نشاندہی شیخ ہی کر سکتا ہے۔ کہتے ہیں: ”رَاْیُ الْعَلِیْلِ عَلِیْلٌ“ بیمار کی رائے بھی بیمار ہوتی ہے۔ لہذا عین ممکن ہے کہ نفس کے چنگل میں پھنسا ہوا آدمی خواب کی تعبیر بھی نفس کے مطابق ہی لے لے۔ اس وجہ سے شیخ کو بتانا ضروری ہے۔ عین ممکن ہے کہ شیخ وہی بات کر لے جو آپ سمجھ رہے ہوں اس سے تائید ہو جائے گی اور اگر تائید نہ ہوئی تو کوئی تبدیلی تبدیلی ہو جائے گی، دونوں صورتوں میں آپ کا فائدہ ہے، بہرحال بتانا چاہیے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب میں ٹھیک ہو جاؤں گا پھر شیخ کو بتاؤں گا۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے اور بہت عام غلطی ہے۔ میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ یہی کام آپ جسمانی بیماری میں بھی کیا کریں، ڈاکٹر کے پاس تب جایا کریں جب آپ کی بیماری ٹھیک ہو جائے، پھر ان کو سمجھ آتی ہے کہ وہ کیا غلطی کر رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ گناہ ہو گیا، توبہ بھی ہو گئی اور اس گناہ سے حفاظت بھی ہو گئی۔ کیا اب شیخ کو بتانا چاہیے یا نہیں بتانا چاہیے۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ بتانا چاہیے۔ اس کی وجہ ہے کہ توبہ سے وہ گناہ تو معاف ہو گیا لیکن اس کے اثرات آپ کے اوپر ہو سکتے ہیں۔ آپ یہ بات نہیں معلوم کر سکتے کہ آپ پر اثرات ہیں یا نہیں، لیکن شیخ کو پتا چل سکتا ہے، وہ آپ کو بتائے گا کہ آپ کے اوپر اس گناہ کے اثرات ہیں یا نہیں اور اس کے مطابق آپ کو آگے چلائے گا۔

بری فوج اور فضائیہ میں بھرتی ہونے والے لوگوں کا میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے ڈاکٹر ان کی میڈیکل ہسٹری دیکھتے ہیں اور ریکارڈ رکھ لیتے ہیں، بعد میں ان کی فوج میں بھرتی اسی حساب کی جاتی ہے۔ ان لوگوں کو اپنا پچھلا ریکارڈ بتانا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح روحانی علاج کی بات ہے کہ اس میں ہر وہ چیز شیخ کو بتانا ہوتی ہے جس کا تعلق اصلاح کے ساتھ ہو۔

سوال نمبر5:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت والا مرشدی و مولائی کی خدمت اقدس میں رہنمائی و ہدایت کے لئے سوال عرض ہے۔ ایک صاحب اور ان کی اہلیہ کی طرف سے ایک سوال آیا۔ کہتے ہیں ہماری اور ہماری اہلیہ کی بیعت ایک عرب شیخ سے ہے جن کا تعلق شاذلی سلسلہ سے ہے۔ وہ بیرون ملک میں ہوتے ہیں کبھی کبھار ادھر آتے ہیں تو ان کی عمومی مجلس میں ہم شریک ہو جاتے ہیں۔ اہلیہ مستورات کی مجلس میں شریک ہوتی ہیں اور میں مسجد میں آ جاتا ہوں۔ سال میں ایک دو دفعہ ان کی زیارت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا، وٹس ایپ، ٹیکسٹ میسج، کال یا ای میل وغیرہ کسی طریقے سے ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوتا۔ ان کا نمبر ہی نہیں دیا جاتا۔ البتہ کچھ حضرات ایک ویب سائٹ چلاتے ہیں وہ جوابات دیتے رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر ہم کسی اور سے رہنمائی لے لیں تو کیا یہ ہمارے شیخِ بیعت کی بے ادبی تو نہیں ہو گی۔

جواب:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ انتہائی نازک سوال ہے۔ جواب دینے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ میں تصوف کے چند طے شدہ امور کو سامنے رکھ کر اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

پہلے یہ سمجھ لیں کہ تصوف کس لئے ہے؟

میرے نزدیک تصوف اصلاح کے لئے ہے۔ اصلاح نفس، اصلاح قلب اور اصلاح عقل کے لئے تصوف سے کام لیا جاتا ہے۔ اصلاح ایک فن ہے، یہ محض برکت نہیں ہے۔ اگر محض برکت کی بات ہوتی تو دعا سے بڑی برکت والی اور کوئی چیز نہیں ہے، پھر تو آدمی دعا کر کے فارغ ہو جائے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ صرف دعا سے اصلاح نہیں ہوتی، بلکہ اس میں کچھ اور چیزوں کی ضرورت ہے۔ اور وہ چیزیں ہیں شیخ کی رہنمائی میں علاج اور شیخ سے مسلسل رابطہ۔

عموماً ایسا ہوتا ہے کہ بعض مشائخ کا حلقہ کافی وسیع ہو جاتا ہے، اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ سال میں ایک دو دفعہ ہی ان سے ملاقات ہو سکتی ہے وہ بھی اجتماعی طور پر نہ کہ انفرادی ملاقات۔ اور اصلاح کے لئے اتنی ملاقات کافی نہیں ہے، اگر کافی ہے تو چلو پھر ڈاکٹری کے شعبہ میں ایسا کریں کہ کسی ڈاکٹر کے لیکچر میں سال میں ایک دو بار بیٹھ جایا کریں اس سے علاج ہو جائے گا۔ تو ایسا ممکن نہیں ہے۔

اب اس بات پہ کچھ غور کر لیتے ہیں کہ شیخِ بیعت کے ہوتے ہوئے کسی اور سے اصلاح کروانے میں پہلے شیخ کی بے ادبی تو نہیں؟ جہاں تک ادب کا تعلق ہے اس بارے میں یہ عرض ہے کہ شیخ کا ادب بھی ضروری ہے اور طریق کا ادب بھی ضروری ہے۔ کیونکہ طریق بنیادی اصلاح کے لئے ہے۔ اگر آپ طریق کا ادب کرتے ہیں تو اس میں یہ ہو گا کہ آپ کو اپنے شیخ کی غیر موجودگی میں کم از کم شیخِ تعلیم تو ہر صورت میں چاہیے۔ جس کا آپ کے ساتھ رابطہ ہو سکتا ہو۔ اس میں اپنے شیخِ بیعت کا ادب اس طرح کر لیں کہ اگر شیخ تعلیم سے فائدہ ہو رہا ہے تو اس کو اپنے شیخ کا فیض سمجھیں اور سمجھیں کہ اللہ پاک نے اس شیخ کی برکت سے مجھے یہ موقع عطا فرما دیا ہے کہ مجھے شیخِ تعلیم مل گیا اور میری اس کے ذریعے اصلاح ہو رہی ہے۔ اگر یہ نیت ہو تو کسی اور سے اصلاح کروانے میں اپنے شیخ تعلیم کی بے ادبی نہیں ہو گی آپ اپنے پرانے شیخ سے لاتعلق بھی نہیں ہوں گے اور آپ کا علاج بھی ہو جائے گا۔

بیعت ضروریاتِ اصلاح میں سے نہیں ہے بلکہ برکاتِ اصلاح میں سے ہے۔ مذکورہ بالا صورت میں بیعت نہ کرے لیکن شیخ تعلیم کے ساتھ ایسے ہی تعلق رکھے جیسے بیعت والے شیخ کے ساتھ کیا جاتا ہے، کیونکہ اس وقت وہ آپ کے لئے شیخ تعلیم ہے۔ شیخ تعلیم ایک ہی ہوتا ہے اس لئے کئی لوگوں کے ساتھ تربیت کا تعلق نہ رکھے۔ اس میں یہ بات دیکھے کہ جن سے رابطہ ہو سکتا ہو جن سے فائدہ ہو سکتا ہو ان سے ایسے ہی رابطہ رکھے جیسے اپنے شیخ کے ساتھ رکھتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اپنے پرانے شیخ کے ساتھ عقیدت کا تعلق برقرار رکھے، محبت کا تعلق برقرار رکھے ان کے لئے دعائیں کرتا رہے اور دعائیں لیتا رہے، تربیت شیخِ تعلیم سے کرواتا رہے۔ اگر یہ طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس میں نہ کوئی بے ادبی ہے نہ کوئی خیانت ہے۔ خیانت اس لئے نہیں ہوئی کہ آپ نے اپنی ضرورت کے مطابق کام کیا ہے، کیونکہ آپ کی ضرورت ہے مجبوری ہے، اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو جس مقصد کے لئے آپ نے بیعت کی تھی وہ مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ یہ دو باتیں ذہن میں رکھے تو بات سمجھ میں آ جائے گی ان شاء اللہ۔

سوال نمبر6:

اگر کسی اور اللہ والے شیخ سے رہنمائی لے تو کیا اپنے پہلے شیخ کو اطلاع دینی پڑے گی کہ ہم نے ایسا کیا یا نئی بیعت کئے بغیر بھی کسی سے رہنمائی لے سکتے ہیں؟

جواب:

بتانا اس وقت مفید ہو گا جب پہلا شیخ اس دوسرے شیخِ تعلیم کو جانتا ہو گا، اگر نہ جانتا ہو تو پھر بتانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس سے خواہ مخواہ کا تردد ہو گا۔ آپ شیخِ تعلیم سے اپنی اصلاح کرواتے رہیں اور اپنے شیخ کے ساتھ عقیدت بھی برقرار رکھیں۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا نہ خیانت ہے نہ بے ادبی ہے اور نہ ضرورت سے غفلت ہے۔ تینوں باتیں ایک ہی جگہ اکٹھی ہو جائیں گی۔

سوال نمبر7:

السلام علیکم۔ میرا سوال سلوک سے متعلق ہے۔ سلوک میں اپنے مختلف احوال مختلف موقعوں پر مربی کو بتانے کے بعد سالک نے دیکھا کہ وہ جن احوال کو اچھا سمجھتا تھا ان پر ڈانٹ پڑی ہے اور جن کو برا سمجھتا ہو ان پہ تسلی ملی ہے۔ اس سے سالک اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرا اچھے اور برے کا تعین کرنے کا پیمانہ خراب ہے۔ اس سے سالک کا اپنی عقل اور سمجھ پر سے اعتماد اٹھ گیا اب اس کو شیطان اور اپنے نفس سے خطرہ محسوس ہونے لگا کہ یہ دونوں خراب ہیں میں ان کے پاس رہ کر کہیں محروم نہ رہ جاؤں اس حالت میں دل فوراً مربی کی طرف بھاگتا ہے کہ وہی ذریعہ ہیں اللہ کی طرف رہنمائی اور تحفظ کا، تو اللہ کے فضل و کرم سے مربی کی رہنمائی کے سایہ میں خود کو محفوظ پاتا ہے کہ میری حالت کتنی ہی بگڑی ہو مگر مربی مجھے اکیلا نہیں چھوڑے گا بلکہ ان شاء اللہ ایک نہ ایک دن مجھے اس حالت تک پہنچا ہی آئے گا جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔

جیسے ایک بزرگ نے اپنے مرید کے امتحان کے لئے اس کے اوپر کوڑا پھینکوایا تھا پہلی بار اس کا رد عمل ویسا نہیں تھا جیسا ہونا چاہیے تھا، لیکن اس کے شیخ نے اسے اس حالت پر چھوڑا نہیں بلکہ اس مقام پر پہنچایا جس پر اسے پہنچنا تھا۔ اس طرح سالک کو بالکل تسلی ہو جاتی ہے اور وہ اپنا سب کچھ اپنے مربی کے حوالہ کرتا ہے۔ اس حالت پر میرے ذہن میں یہ سوال ہے کہ سب کچھ مربی کے حوالے کر دینا کیا درست ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مربی پہ سب کچھ اس لئے چھوڑ رہا ہے کہ اپنی ذمہ داری سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! بڑا اہم سوال ہے۔ اصل میں یہاں دو چیزیں ہیں دونوں کو درست طریقے سے سمجھنا اور عمل کرنا ہو گا۔ جو کام سالک نے خود کرنا ہے وہ شیخ پہ نہ چھوڑے اور جو شیخ کا ہے وہ خود نہ کرے۔ اس پہ غور کرنے سے ساری بات سمجھ میں آ جائے گی۔ یہ بالکل ایسی بات ہے کہ آپ سبب اختیار کر لیں اور مسبب الاسباب سے مانگیں، کیونکہ سبب میں جان ڈالنے والا اللہ ہے اور اس کا حکم ہے کہ اسباب اختیار کرو۔ اس لئے سبب خود اختیار کریں، اور دعا اللہ سے مانگیں۔ نہ تو اللہ کا حکم ٹوٹے اور نہ ہی اللہ پاک سے غفلت ہو۔ یہ دونوں کام ہونے چاہئیں۔

اگر کسی کو مربی پر اتنا اعتماد ہو گیا ہے کہ وہ سوچتا ہے میں سب کچھ اب مربی کے حوالے کرتا ہوں تو الحمد للہ یہ بڑی دولت ہے۔ تجربہ یہ کہتا ہے کہ جس سالک کو جتنا زیادہ اعتماد مربی پہ ہو گا اس کی اصلاح اتنی جلدی ہو گی۔ علاج بتانا مربی کا کام ہے اسے مکمل طور پر مربی کے حوالہ کر دے اور اس علاج پر عمل کرنا خود سالک کی ذمہ داری ہے، اس لئے اپنی ذمہ داری سے ذرا بھی غافل نہ ہو۔ اس طریقے پر عمل کرے تو ان شاء اللہ خیر ہی خیر ہے۔

سوال نمبر8:

السلام علیکم حضرت! چھوٹے بیٹے کے پاس زیادہ دیر بیٹھوں یا رات کو اسے سلانے لگوں تو مجھے اچانک غصہ آ جاتا ہے۔ رات بھی ایسا ہوا تھا۔ جب اسے سلا رہا تھا تو اچانک غصہ آیا، میں نے اس کو غصہ میں آ کے مارا جس پہ بعد میں مجھے ندامت و افسوس اور دکھ ہوا، میں نے تہجد میں صلوۃ التوبہ پڑھ لی تھی اور کافی دیر تک استغفار بھی کیا لیکن دل ابھی تک بوجھل اور نادم ہے۔ میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اللہ پاک آپ کو عقل نصیب فرما دے یہ عقل کی کمی کی بات ہے۔ آپ کے مارنے سے اس کو کیا فائدہ ہوا؟ اگر کوئی فائدہ ہوا ہے پھر تو آپ کا مارنا ٹھیک ہو سکتا ہے، لیکن اگر کوئی فائدہ نہیں ہوا تو آپ نے غلط بات کی ہے۔ بہرحال جس غلطی سے تجربہ حاصل ہو اور آئندہ کے لئے وہ نہ دہرائی جائے تو وہ غلطی غلطی نہیں رہتی۔ اب آپ اس سے تجربہ حاصل کر لیں اور آئندہ کے لئے دھیان رکھیں کہ جس کام کا فائدہ نہ ہو اسے نہ کریں۔

سوال نمبر9:

السلام علیکم میرے عزیز و محترم مرشدی دامت برکاتھم! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں ان شاء اللہ۔ حضرت ایک دو دن سے مجھے نور کے چھوٹے چھوٹے ذرے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں کبھی لال رنگ کے، کبھی سفید رنگ کے اور کبھی نیلے رنگ کے بھی نظر آتے ہیں۔

جواب:

ان چیزوں کی طرف توجہ نہ دیا کریں یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔

سوال نمبر10:

حضرت جی آپ کا ایک ملفوظ پڑھا جس میں آپ نے لکھا ہے کہ انسان کے اندر ایک حِس ہوتی ہے جب آدمی سے غلط بات ہو جائے تو اس کے لطائف پھڑکنے لگتے ہیں۔ حضرت جی میرے ساتھ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جب غصہ آئے یا کوئی اور بات ہو جائے تو لگتا ہے کوئی چیز ہے جو میرے اندر کافی زور زور سے ہلنے لگ گئی ہے جیسے دل کی دھڑکن ایک دم سے تیز ہو جاتی ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

یہ ایک طبعی چیز ہے یہ روحانی چیز نہیں ہے۔ جب انسان غصہ میں ہوتا ہے تو اس کا دل تیزی سے دھڑکتا ہے اور خون بھی جوش مارنے لگتا ہے چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ اس حالت کا روحانیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ غصہ میں یہ آثار ایک کافر کو بھی پیش آتے ہیں اور مسلمان کو بھی اسی طرح پیش آتے ہیں۔ سب کے ساتھ یہ معاملہ ایک طرح ہی ہے۔

جو بات میں نے کی ہے وہ یہ تھی کہ بعض لوگوں کے لطائف بالکل باریک ہوتے ہیں محسوس نہیں ہوتے لیکن جس وقت کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو غلطی کی وجہ سے وہ تھوڑی دیر کے لئے کثیف ہو جاتے ہیں اور محسوس ہونے لگتے ہیں۔

سوال نمبر11:

کسی نے سوال کیا: حضرت معمولات کرنے کو دل نہیں چاہتا، ذکر بھی جلدی میں کرتا ہوں، نماز بھی بس ایسے ہی پڑھتا ہوں۔ بالکل دل نہیں لگ رہا حالانکہ میں دو مہینے فری بھی ہوں۔

اس پر میں نے جواب دیا کہ میرا آپ کو جواب دینے کو دل نہیں کرتا۔ دل نہیں چاہتا کہ آپ کو جواب دوں۔ آپ بتائیں کیا کروں؟

اس پر ان کا جواب آیا: حضرت معاف کر دیجئے اب سے ان شاء اللہ پوری کوشش کروں گا۔

جواب:

اللہ کا شکر ہے کہ انہیں عقل تو آ گئی، اب رابطہ تسلسل کے ساتھ رکھنا ہے ایسا نہ ہو کہ پھر کبھی آپ کی عقل یہی بات سوچنے لگ جائے، اور آپ کے سب اعمال کو صفر سے ضرب ہو جائے۔ یہ بات انسان کو سمجھنی چاہیے کہ جو چیزیں انسان کو دوائی کے طور پہ دی جاتی ہیں انہیں کھانا خود ہوتا ہے۔ ڈاکٹر آپ کے لئے دوائی نہیں کھا سکتا اور کوئی دوائی نہیں کھا سکتا وہ آپ نے خود کھانی ہے۔ انسان کو اس سلسلے میں عقل سے کام لینا ہوتا ہے۔ عقل کی بات یہ ہے کہ فائدہ و نقصان اپنا ہے۔ ایک آدمی اپنی خیر نہیں چاہتا تو اس کے ساتھ کیا کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے ڈاکٹر عمر صاحب ذرا جذباتی ہیں۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ اگر آپ کے پاس ایسا مریض آئے جس نے دوائی نہ کھائی ہو تو انہوں نے کہا کہ میں اسے ایک کلو مٹھائی دوں گا کہ جاؤ شوق سے یہ کھاؤ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کی بات بالکل صحیح ہے۔ اب ایسے آدمی کے ساتھ کیا کیا جا سکتا ہے جو خود اپنا علاج نہیں کرنا چاہتا۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ جو خود کشی کرنا چاہتا ہے اس کو نہیں بچایا جا سکتا۔ اس کے ساتھ آپ کیا کریں گے کب تک پکڑیں گے جب بھی اسے موقعہ ملے گا وہ اپنے آپ کو مار دے گا۔ انسان کو ان چیزوں میں عقل سے کام لینا چاہیے۔

سوال نمبر12:

ایک صاحب نے مجھے کچھ آڈیوز بھیجی ہیں جن میں سے ایک آڈیو میں یہ بات کی ہے کہ آج کل کچھ لوگ ایسے ہیں جو خواین کو یا گھر کے کسی فرد کو ٹیلی فون کر کے کہتے ہیں کہ ہم پاک فوج کی طرف سے بات کر رہے ہیں، آپ سے کچھ معلومات لینی ہیں۔ معلومات کے نام پہ آپ سے پوری معلومات لے لیتے ہیں پھر وہ معلومات ڈاکوؤں کے پاس چلی جاتی ہیں جس کی بنا پر ان کے لئے ڈاکہ ڈالنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی معلومات بالکل کسی کو بھی نہ دیا کریں چاہے وہ کوئی بھی ہو ان کو کہہ دیں کہ قانوناً یہ درست ہی نہیں ہے، آپ مجھ سے ٹیلی فون پر یہ معلومات حاصل ہی نہیں کر سکتے۔

جواب:

یہ بات صحیح ہے۔ اس طرح فون پر اپنی معلومات کسی کو نہیں دینی چاہئیں، اگر کوئی مانگے تو کہہ دیں کہ میرے پاس آؤ، اپنی شناخت کراؤ تو ہم آپ کو معلومات دے دیں گے، بغیر شناخت کے کسی کو اپنی معلومات دینے سے نقصان کا خطرہ ہے۔

سوال نمبر13:

حضرت جی گھر کے اندر مسائل کی تعلیم اور فضائل کی تعلیم دونوں ساتھ ساتھ چلتی رہنی چاہئیں یا اس میں کیا ترتیب اختیار کرنی چاہیے؟

جواب:

فضائل کی تعلیم تو خیر جاری رہنی چاہیے، مسائل کی تعلیم دو طریقے سے ہو سکتی ہے۔ یا تو ہفتہ میں کوئی ایک دن مختص کر لیں۔ اس دن ذرا تفصیل سے تعلیم ہو۔ کیونکہ مسائل میں پورا سمجھانا ہوتا ہے۔ مسائل میں ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہوتا کہ آج ایک بات سمجھائی، کل دوسری، پرسوں تیسری، اس سے نقصان کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے ہفتہ میں ایک دن مختص کریں، اور اس وقت میں پورا مسئلہ سمجھا دیں۔ اس طریقہ پر عمل کریں تو امید ہے فائدہ ہو گا۔

سوال نمبر14:

حضرت جی! کسی کو کوئی عہدہ و منصب سپرد کرنے کے لئے کیا چیز دیکھنی چاہیے، اہلیت یا دین داری؟ مثلاً کسی فوج کا سپہ سالار بے دین بھی ہے لیکن اہل ہے تو وہ اس دوسرے دین دار سے تو بہتر ہو گا جس میں اہلیت نہیں ہے، کیونکہ کم از کم اس میں اُس کام کی اہلیت تو ہے۔

جواب:

اس کا انحصار کام کی نوعیت پہ ہے، کام کو دیکھ کر اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ اس کام کے لئے اہلیت کو ترجیح دی جائے یا دینداری کو۔ اگر کوئی ڈاکٹر ہے یا انجینئر ہے یا ڈرائیور ہے اس کو رکھتے ہوئے تو آپ اہلیت کو ترجیح دیں گے۔ لیکن اگر وہ ملک کا فیصلہ کرنے والا ہے تو اتنی بڑی چیز آپ ایک بے دین آدمی کے سپرد نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا کریں گے تو خطرہ ہے کہ وہ آپ کے سارے ملک کو بے دینوں کے حوالے کر دے گا۔ یہاں وہ اصول نہیں چلے گا۔ اس لئے ایسے معاملہ میں دینداروں کو چننا چاہیے۔ اگر سارے بے دین ہوں تو ان میں جو سب سے کم بے دین ہے اس کو چن لیں۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہودی ایجنٹ کو تو سب سے پہلے اس فہرست سے نکال دیں، اسے تو بالکل ووٹ نہیں دینا چاہیے۔ باقیوں میں دیکھ لیں کہ کون ایسا ہے جس میں سب سے کم خرابی ہے، اس کو ووٹ دے دیں۔

سوال نمبر15:

حضرت جو لوگ نفسیاتی طور پر بیمار ہوتے ہیں کیا انہیں مشائخ کی طرف بھیجا جا سکتا ہے؟

جواب:

جی ہاں! ایسے لوگوں کو مشائخ کے پاس لے جا سکتے ہیں لیکن صرف ان مشائخ کی طرف جو ان چیزوں کو جانتے ہوں اور ان کے بارے میں کافی حد تک معلومات رکھتے ہوں اور فرق کر سکتے ہوں کہ ان کا مسئلہ نفسیاتی ہے یا کوئی اور ہے۔

سوال نمبر16:

حضرت کسی کو چلانے کے لئے آپ کا بنیادی ذکر یہ بتائے بغیر دیا جا سکتا ہے کہ یہ ذکر حضرت سید شبیر احمد صاحب کا بتایا ہوا ہے؟

جواب:

دیکھیں میں نے یہ اجازت سب کو دی ہے صرف آپ کو نہیں۔ سب کو بتا رہا ہوں کہ ہمارا ابتدائی معمول چالیس دن والا جس کو دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔ کوئی ہماری ویب سائٹ پڑھ کر خود شروع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس میں کوئی نقصان والی بات نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے بنیاد بنتی ہے اور بن کر مضبوط ہوتی ہے۔ اگر کسی نے اس ذکر کے ذریعے اپنی بنیاد بنا لی اور کسی شیخ سے اپنی اصلاح کروا لی تو ہمیں اس پہ کیا اعتراض ہے! ہمیں اس پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مقصد تو اس کی بنیاد بنانا ہے، بنیاد بن گئی اور ہمارے پاس ہی آ گیا تو ٹھیک ہے ہم بھی خدمت کر لیں گے، اگر کسی اور کے پاس چلا گیا تو بھی ٹھیک ہے، وہاں سے اس کی اصلاح ہو جائے گی۔ لہٰذا یہ ذکر کوئی بھی کر سکتا ہے اور آگے کسی کو بھی دے سکتا ہے اور یہ ذکر مردوں اور اور خواتین دونوں میں برابر ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔

سوال نمبر17:

حضرت جی روزانہ 300 مرتبہ ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ کا ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے۔

جواب:

اب یہ ذکر کرتے ہوئے آپ ساتھ ساتھ یہ تصور کریں کہ مجھے اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ ایک ماہ بعد اطلاع کریں۔

سوال نمبر18:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی، میرا ذکر قلبی پہلے 3 لطائف قلب، روح سر کے مقامات پر 10، 10 منٹ کا چل رہا ہے۔ ذکر جہری سات تسبیحات ہیں۔ بیماری کی وجہ سے ہونے والے ناغے کے بعد بھی لطیفۂ قلب پر اللہ اللہ کا ذکر محسوس ہوتا ہے جبکہ باقی دو لطائف پر کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ اس بارے میں مزید رہنمائی فرمادیں۔

جواب:

آپ کا لطائف کا ذکر کچھ کمزور ہو گیا ہے اس وجہ سے اب آپ کو دوبارہ کچھ محنت کرنی پڑے گی۔ آپ ایسا کریں کہ 10 منٹ کے لئے لطیفۂ قلب پر یہ تصور کر لیا کریں کہ اللہ اللہ ہو رہا ہے اور 15 منٹ کے لئے لطیفۂ روح پر یہی تصور کریں۔

سوال نمبر19:

حضرت! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کا سایہ ہم پر سلامت رکھے۔معمولات کا چارٹ ای میل کر دیا ہے۔ الحمد للہ، آپ کی زیارت کے بعد ذکر میں پابندی ہو رہی ہے اور اس سے بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ آپ کا سایہ ہم پہ سلامت رکھے۔

جواب:

اللہ کا شکر ہے کہ آپ کو فائدہ ہوا ہے۔ اللہ پاک کی طرف سے کچھ ایسا انتظام ہے کہ اپنے شیخ سے رابطہ ہونے پر فائدہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا شیخ سے رابطہ مسلسل قائم رکھیں، چاہے وہ خط کے ذریعے سے ہو، چاہے ای میل کے ذریعے سے ہو، چاہے ٹیلی فون کے ذریعے سے ہو۔ جتنا آپ کا رابطہ مضبوط ہو گا اتنا آپ کو فائدہ زیادہ ہو گا۔

سوال نمبر20:

السلام علیکم! حضرت جی قلبی ذکر 15 منٹ قلب لطیفۂ قلب پر اور 10 منٹ لطیفۂ روح پر ملا ہوا ہے۔ پہلے ذکر کے بعد کبھی سر درد کبھی سینہ میں بوجھ محسوس ہوتا تھا، ذکر کے دوران توجہ میں کمی رہتی تھی۔ جب آپ نے اصلاح فرمائی اس کے بعد توجہ میں اضافہ ہوا اور طبیعت پر بوجھ میں بھی کمی ہو گئی تھی۔ ذکر کے بعد تھوڑا سکون اور نیند بھی آتی تھی۔ طبیعت پر پہلے جیسا بوجھ نہیں پڑ تا تھا اور ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ محسوس ہونے لگ گیا تھا۔ لیکن جب سے کلینک جانا شروع کیا ہے، ہر وقت کلینک سے متعلق چیزیں اور مریضوں کے نام ذہن میں رہتے ہیں۔ میری توجہ بالکل کم ہو گئی ہے اور وہی پرانی کیفیت لوٹ آئی ہے، طبیعت پر بوجھ محسوس ہوتا ہے، سر درد ہوتا ہے اور ”اَللہ اَللہ“ کا ذکر محسوس بھی کم ہو رہا ہے۔ کافی کوشش کر رہی ہوں لیکن زیادہ فائدہ نہیں ہو رہا۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

ذکر قلبی پر ایسی چیزوں سے برا اثر پڑتا ہے جو انتشار والی ہوتی ہیں اس لئے جنہیں ذکر قلبی دیا جاتا ہے، انہیں ساتھ ساتھ یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ ذہن کو انتشار میں ڈالنے والی تمام چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کریں، اسی لئے ذکر کرتے وقت آنکھیں بھی بند کی جاتی ہیں، بعض اوقات روشنیاں بجھا دی دی جاتی ہیں۔ یہ ساری انتظامی باتیں ہوتی ہیں۔ چونکہ آپ کے انتشار میں اضافہ ہوا ہے جس کا اثر ذکر پر پڑا ہے، اس لئے آپ یہ ذکر باقاعدگی سے کریں چاہے محسوس ہو یا نہ ہو۔ اپنی کوشش جاری رکھیں دوبارہ محسوس ہونا شروع ہو جائے گا، اگر کچھ عرصہ تک محسوس نہ ہوا تو کوئی اور حل تجویز کریں گے۔

سوال نمبر21:

حضرت السلام علیکم! میں نے ایک ماہ گناہوں پر توبہ کرنے کا عمل مکمل کر لیا ہے اگلا سبق بتا دیجئے۔ معمول کے ذکر و مراقبہ کے علاوہ مزید لسانی ذکر نہیں ہوتا۔ کیا مستقل قلب پر توجہ رکھ سکتا ہوں اور جہری طور پر ”اَللہ اَللہ“ کر سکتا ہوں؟

جواب:

اگلا سبق یہ ہے کہ آپ ڈاکٹر عبد الحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب اسوۂ رسول اکرم ﷺ لے لیں اور اس میں ذکر کردہ سنتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد دیکھیں کہ کون سی سنتوں پر آپ فوراً عمل شروع کر سکتے ہیں۔ ان پر نشان لگا لیں اور عمل کرنا شروع کریں۔ ایک ہفتہ کے بعد مجھے اطلاع کریں۔

سوال نمبر22:

حضرت، الحمد للہ 8 دن سے میرا مراقبہ جاری ہے۔ معمولات کا چارٹ بلا ناغہ بھر رہی ہوں۔ میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ چارٹ میں تو اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں جیسے تلاوتِ قرآن مجید، تہجد وغیرہ۔ یہ سب کب سے شروع کرنی چاہئیں؟

جواب:

تلاوتِ قرآن کم از کم ایک پاؤ روزانہ کر لیا کریں۔ باقی چیزوں کے بارے میں آپ مجھے بتا دیں کہ چارٹ میں موجود تمام چیزوں میں سے کون سی چیزیں آپ ابھی شروع کر سکتی ہیں، میں آپ کی اس بارے میں رہنمائی کر دوں گا۔

دین بہت صاف اور واضح ہے۔ جو اختیار میں ہے اس میں سستی نہیں کرنی چاہیے اور جو اختیار میں نہیں ہے اس کے درپے نہیں ہونا چاہیے۔ اس اصول پر اگر آپ عمل کریں گے تو ان شاء اللہ العزیز کبھی ناکامی نہیں ہو گی۔ اس پر عمل کر لیں خواہ مخواہ وسوسوں کی طرف نہ جائیں۔ فرض عین درجے کا علم حاصل ہونا چاہیے اس میں کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے بعد اختیاری کاموں میں اختیار استعمال کرنا چاہیے اور غیر اختیاری (جیسے کیفیات وغیرہ تو اس) کے درپے نہ ہوں، ہاں اگر یہ خود بخود نصیب ہوں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور نہ نصیب ہوں تو بس اللہ تعالیٰ کی تشکیل سمجھ لیں کہ اللہ پاک نے میرے لئے ایسے ہی تشکیل کی ہے۔

سوال نمبر23:

جب انسان کا ایمان بہت کمزور ہو رہا ہو، وہ اللہ سے بہت دور ہو رہا ہو تو اس حالت میں کیا کرنا چاہیے۔

جواب:

ایسی صورت حال میں صحبتِ صالحین اختیار کرنی چاہیے۔ جن لوگوں بارے میں اس کا گمان ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہیں، شریعت پر عمل کرتے ہیں، ایسے لوگوں کی صحبت میں رہنا شروع کر دے۔ ایسے لوگوں کے قریب نہ رہے جو وسوسے ڈالنے والے لوگ ہوں۔ سوشل میڈیا پر ایسی چیزیں نہ پڑھی جائیں جن سے ایمان کمزور ہوتا ہو۔ اس کے علاوہ ایسے آدمی کو قرآن پاک کی تلاوت کثرت سے کرنی چاہیے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کے اوپر فضل فرما دے۔

سوال نمبر24:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت اقدس کی خدمت میں سوال عرض ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ تو غفور و رحیم ہے، ہم پر ہماری جان سے زیادہ مہربان ہے۔ سکرات سے پہلے جو انسان شعوری توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اسے محض اپنے فضل و کرم سے معاف فرما سکتے ہیں، اور معاف فرما بھی دیتے ہیں، اسی کی امید رکھنی چاہیے۔ البتہ وہ حضرات جن کو اپنی موت کا وقت 2، 3 ماہ پہلے ہی معلوم ہو جاتا ہے، مثلاً کینسر کی بیماری لگ جائے اور ڈاکٹر بتا دیں کہ بس 2، 3 ماہ تک مزید زندگی رہے گی۔ اب انہیں موت لاحق ہونے والی ہے، موت ان کے سامنے کھڑی ہے، لیکن یہ سکرات میں نہیں ہیں۔ فقہاء لکھتے ہیں کہ اگر یہ لوگ شعوری توبہ کر لیں تو ان کی توبہ بھی قبول ہے۔ اسی بارے میں سوال ہے کہ ایسے لوگوں کی توبہ کیونکر قبول ہے، کیونکہ بظاہر ان کی توبہ میں اخلاص نظر نہیں آتا بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ موت کے ڈر سے توبہ کر رہے ہیں۔ ایک انسان جسے اپنی موت کا پتا چل جائے تو وہ بھی موت کے سامنے کھڑا ہے، اس کی توبہ تو قبول ہے لیکن جو سکرات کے عالم میں ہو اور توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول نہیں ہے۔ بظاہر یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ایسا کیوں ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے۔ کیا یہی بات ہے کہ اللہ کی قدرت ہر چیز سے بے نیاز ہے، ہو سکتا ہے اس کا کینسر ٹھیک ہو جائے۔ اس لئے اس کی توبہ بھی قبول ہو جاتی ہے۔ حضرت اس بارے میں وضاحت اور رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

ماشاء اللہ بہت اچھا سوال ہے۔ ہر مسلمان ایمان بالغیب کا مکلف ہے۔ جب کوئی چیز غیب سے مشاہدہ میں آ جائے اس وقت کا ایمان یا توبہ معتبر نہیں ہے۔ مشاہدہ دو طرح کا ہے، ایک مشاہدہ معرفت اور علم سے ہوتا ہے، اور ایک مشاہدہ کھلی آنکھوں دیکھنے سے ہوتا ہے۔ یہاں دوسری قسم کا مشاہدہ مراد ہے۔ موت کے وقت یہ دوسری قسم کا مشاہدہ ہوتا ہے، اسی کو سکرات کہتے ہیں، انسان کھلی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے یہ دنیا اور وہ دنیا شروع ہو گئی ہے، اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی۔ جب یہ حالتِ سکرات شروع نہیں ہوتی تب تک ایمان بالغیب ہی ہوتا ہے کیونکہ موت کے وقت سے پہلے تک دوسری دنیا کی چیزیں کھلی آنکھوں نہیں دیکھ سکتا۔ چاہے معلوم بھی ہو جائے کہ موت آنے والی ہے لیکن جب تک وہ خاص حالت طاری نہیں ہوتی جس میں انسان دوسری دنیا دیکھتا ہے، تب ایمان بالغیب، ایمان بالغیب ہی رہتا ہے اور توبہ قبول ہو سکتی ہے کیونکہ ایمان بالغیب کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا لیکن جیسے ہی ایمان بالغیب کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اس کے بعد کافر کو پتا چل جائے گا کہ واقعی اس دنیا کے بعد ایک آخرت بھی ہے تب سب کہیں گے کہ ہم ایمان لائے، لیکن ان کا قبول نہیں ہوتا۔ ایمان ان کا قبول ہے جو یہاں اِ س دور میں ہیں اِس جہان میں ہیں وہاں کے حالات ابھی ان پر نہیں کُھلے۔ ایسی صورت میں ان کا ایمان قبول ہو جاتا ہے۔ کینسر کا قریب الموت آدمی ڈاکٹروں کے علم کی حد تک تو جانتا ہے کہ موت آنے والی ہے لیکن اس نے اپنی آنکھوں سے ابھی کچھ نہیں دیکھا اس لئے اس پہ سکرات کا عالم نہیں آیا، لہٰذا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے۔

سوال نمبر25:

السلام علیکم! ایک الجھن کا شکار ہوں۔ میری خالہ جگر کے کینسر کی وجہ سے وفات پا گئیں۔ تشخیص ہونے تک کینسر پھیل چکا تھا اور ہر ڈاکٹر نے لاعلاج قرار دے دیا تھا۔ اس کے بعد وہ 2 ماہ کا عرصہ زندہ رہ پائیں۔ جب کوئی آدمی ایسی حالت میں ہو تو اس کے لئے کیا دعا کرنا چاہیے؟ کیونکہ بظاہر شفا کے لئے حیلہ علاج تو باقی نہیں رہا، ہاں اسباب کے بغیر اللہ پاک شفا عطا فرما بھی سکتے ہیں، تو اس کے لئے شفا کی دعا مانگی جا سکتی ہے؟ یا یہ دعا مانگی جائے کہ بس اللہ آسان معاملہ فرمائیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں؟

جواب:

بیماری کسی بھی قسم کی ہو، مریض کے لئے ہر صورت میں شفا کی دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اسے اپنی طرف سے شفا عطا فرما دیں۔ پشتو میں بوڑھیاں دعا کرتی ہیں ان میں ایک دعا یہ بھی ہے

”الله تعالیٰ دې دَمنګی اوبه دارو کړه“

”اللہ تعالیٰ تیرے لئے گھڑے کا پانی دوا بنا دے“

میں نے خود دیکھا ہے کہ وہ پانی دوا بن بھی جاتا ہے۔ دعا ضرور کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی کام مشکل نہیں۔ تو آپ ضرور دعا کیا کریں دعا کے بعد اللہ تعالیٰ کا جو فیصلہ ہو اس پر دل سے راضی ہونا چاہیے۔ اگر اللہ تعالٰی چاہے تو مُردوں کو بھی زندہ کر سکتا ہے۔ یہ سب قوانین وغیرہ مخلوق کے لئے ہیں، اللہ پاک کے اوپر تکوینی قانون لازم نہیں ہے لہٰذا اللہ پاک اس کے خلاف کر سکتے ہیں۔ جب اللہ پاک عام قانون کے خلاف کوئی بات ظاہر کریں تو اسے خرق عادت کہتے ہیں۔ جیسے معجزہ یا کرامت ہے۔ اللہ پاک کسی کو بغیر کسی دوائی کے بھی درست کر سکتے ہیں۔ اسباب کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں اور بغیر اسباب کے بھی اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں۔ بیماری کے علاج کا ایک ذریعہ تو دوائی ہوتی ہے، اگر دوائی سے علاج نہ ہو تو پھر ایک سبب دم درود بھی ہوتا ہے۔ اسے بھی اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ پاک اس کے ذریعے بھی شفا دیتے ہیں۔ بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ مریض کے لئے آسانی کی دعا بھی کرنی چاہیے اور شفا کی دعا بھی کرنی چاہیے پھر اللہ تعالیٰ جو صورت مقرر کر دیں اس پر دل سے راضی ہونا چاہیے۔

سوال نمبر26:

السلام علیکم! امید ہے آپ اللہ کے کرم سے خوش اور صحت مند ہوں گے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں سنت کے مطابق کھانا نہیں کھا پاتا ہوں، اس کو کیسے قابو کروں۔ کیا اس کا بھی کوئی مجاہدہ ہوتا ہے؟

جواب:

سنت پہ چلنا ہر حالت میں ممکن ہے، بات صرف اتنی ہے کہ آپ اپنے آپ کو اس کے لئے ذرا قائل کریں۔ سنت طریقے کے مطابق بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ ابتدا میں دعا پڑھنا اخیر میں الحمد للہ کہنا، اور نوالہ درمیانہ بنانا، ان چیزوں کا خیال رکھیں۔ اس کے علاوہ اگر اگر آپ کھانے کے درمیان ایک مرتبہ کھڑے ہو جائیں تو آپ کو یہ پتا چل جائے گا کہ میں نے کتنا کھایا ہے۔ بیٹھ کر کھانے سے کئی مرتبہ پتا نہیں چلتا اور زیادہ کھانے کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر آپ تھوڑی دیر کے لئے کھڑے ہو جائیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ ان چیزوں کو عمل میں لائیں، ان شاء اللہ یہ چیز قابو میں آ جائے گی۔

سوال نمبر27:

حضرت! محبت اور عقیدت میں کیا فرق ہے؟ یہ کیسے پتا چلے گا کہ مجھے اپنے شیخ کے ساتھ محبت ہے یا عقیدت۔

جواب:

عقیدت کا تعلق عقل سے ہوتا ہے اور محبت دل کی چیز ہے۔ محبت میں دل غالب ہوتا ہے، محبت میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ اگر سارے لوگ محبوب کے بارے میں برا کہیں، تب بھی پروا نہیں ہوتی اور محبت قائم رہتی ہے، جبکہ عقیدت ایسی نہیں ہوتی، اگر معتقد کو کوئی بتا دے یا اس کے دل میں کوئی بات آ جائے تو عقیدت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

محبت بھی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک ذاتی محبت، دوسری صفاتی محبت۔ ذاتی محبت سے مراد یہ ہے کہ اس کی ذات کے ساتھ محبت ہو۔ اگر کسی کو کسی سے ذاتی محبت ہو جائے تو اس محبت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ صفات کی محبت یہ ہوتی ہے کہ کسی کی ذات سے محبت نہ ہو بلکہ اس کی کسی خوبی کی وجہ سے محبت ہو، یہ محبت ذرا خطرے میں ہوتی ہے، اگر کبھی وہ صفت نہ رہی، یا مخفی ہو گئی، یا کسی اور صفت سے بدل گئی تو اس محبت میں کمی ہو سکتی ہے، یہ محبت ختم ہو سکتی ہے۔

مثلاً ایک شخص کسی سے اس وجہ سے محبت کرتا ہے کہ وہ بہت سخی ہے۔ اب کسی وقت اس نے سخاوت چھوڑ دی، چاہے اس کی وجہ صحیح ہی کیوں نہ ہو، لیکن سخاوت نہیں رہے گی تو محبت میں فرق پڑ جائے گا، کیونکہ اس محبت کی بنیاد ایک صفت سخاوت تھی۔

سوال نمبر28:

سورۃ النساء میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے رک جاؤ جن سے ہم نے تمہیں روکا ہے تو ہم تمھارے چھوٹے چھوٹے گناہ معاف کر دیں گے۔ حضرت بڑے گناہ کون سے ہیں اور چھوٹے گناہ کون سے ہیں۔

جواب:

میرے خیال میں آپ نے بہشتی زیور نہیں پڑھی ہے۔ وہ پڑھ لیں تو بڑے گناہ بھی معلوم ہو جائیں گے اور چھوٹے گناہ بھی معلوم ہو جائیں گے۔

سوال نمبر29:

عموماً ہم ذکر کرتے ہوئے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور یہ تصور کرتے ہیں کہ ہمارے دل میں اللہ کی محبت آ رہی ہے اور دنیا کی محبت دل سے جا رہی ہے۔ اگر ہم کعبہ کے سامنے بیٹھے ہوں تو یہی تصور کر کے آنکھیں کھول کے ذکر کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

جی بالکل! خانہ کعبہ کا مقام چونکہ خاص مقام ہے۔ وہاں اگر آنکھیں کھول کر بھی تصور کر لیں کہ خانہ کعبہ سے فیض آ رہا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ وہاں پر ایسا کیا جا سکتا ہے۔

سوال نمبر30:

کچھ سلسلوں میں سنت پر عمل پہ بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ ایک کتاب ”نمازیں سنت کے مطابق پڑھیں“ میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ہمارے سلسلہ میں ابتدا ہی سے مرید کو سنتوں پر ڈالا جاتا ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ کچھ سلسلوں میں سنت پر کیوں اتنی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے؟

جواب:

میرا خیال تو یہ ہے کہ سارے سلسلے سنت پر ہی لاتے ہیں۔ مثلاً چشتی سلسلہ کو دیکھ لیں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ کامیابی آپ ﷺ کے سنتوں پر قدم بقدم چلنے میں ہے۔

نقشبندی سلسلہ بھی یہی کہتا ہے۔ قادری سلسلہ بھی اسی پہ لاتا ہے، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں اس چیز کا واضح ذکر ہے۔ سہرودی سلسلہ بھی اسی پیغام کو عام کرتا ہے۔ ”عوارف المعارف“ میں صاف صاف ملفوظ ہے کہ ”دل صاف ہو، عقل فہیم سنت اور نفس قابو ہو تو پھر بات بنتی ہے۔“

معلوم ہوا کہ سارے سلسلے جلد یا بدیر سنتوں پر ہی لاتے ہیں۔ ہاں ترتیب میں کچھ فرق ضرور ممکن ہے۔ مثلاً ایک شخص کو بالکل ابتدا میں کام لگا دیا جائے اور دوسرے کو اس کے لئے کچھ تیاری کروا کے پھر کام پہ لگا دیا جائے۔ کام پہ تو ہر صورت میں لگنا ہی ہے۔ جیسے ابھی ایک شخص نے بات کی کہ وہ کھانا سنت کے مطابق کھانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا۔ اس کو معلوم تو ہے کہ سنت پر چلنا چاہیے تبھی تو کوشش کر رہا ہے لیکن اس میں ناکام ہو رہا ہے۔ اس کو اس سنت پر کامیابی سے عمل کے لئے کوئی طریقہ بتانا ہو گا، وہ طریقہ تو سنت نہیں ہو گا لیکن وہ سنت پر لانے کے لئے ایک اضافی ذریعہ کہلائے گا۔ انہی مختلف ترتیبوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ سلسلے فورًا سنتوں پر عمل پہ لگاتے ہیں، اور کچھ سلسلے پہلے ذرا تیاری کرواتے ہیں۔ ہم تو سب کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہیں کہ سارے سلسلوں میں ایسا ہی ہے۔ البتہ تقدیم و تاخیر ضرور ہوسکتی ہے، تو یہ انتطام کی بات ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال نمبر31:

حضرت موسیقی کے بارے میں آپ ﷺ کا قول ہے کہ مجھے موسیقی کے آلات کو توڑنے کے لئے بھیجا گیا ہے لیکن ہم کچھ تصوف سے متعلق لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ موسیقی سے شغف رکھتے ہیں، اور پوچھنے پر وہ قوالی کا حوالہ دیتے ہیں اور سماع کی باتیں کرتے ہیں، بڑے بڑے مزاروں کا حوالہ دیتے ہیں، اس سب سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ جائز ہے۔ اس بارے میں کچھ رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

آپ ﷺ کی حدیث شریف اور سنت رسول کا تو کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا، ہمیں اپنے آپ کو اس کے مطابق لانا پڑے گا۔ مزامیر کی گنجائش تو بالکل نہیں ہے کہ مزامیر استعمال کئے جائیں۔ کچھ لوگ دف کے بارے میں بتاتے ہیں کہ آپ ﷺ کے سامنے دف استعمال ہوا۔ در اصل وہ ابتدائی دور کی بات تھی، بعد میں دف بھی استعمال نہیں ہوا۔ سیرت نبوی میں آخری باتیں زیادہ معتبر ہیں۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ جو چشتیہ سلسلے کے بڑے بزرگ ہیں۔ عموماً لوگ چشتیہ سلسلہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں سماع قوالی وغیرہ ہوتی ہے۔ بالخصوص خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کو تو اس کا تقریباً بانی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ”فوائد الفواد“ میں سماع کی کچھ شرئط بتائی ہیں کہ اگر یہ شرائط پائی جائیں تو پھر سماع جائز ہے، ورنہ نہیں۔ وہ شرائط درج ذیل ہیں:

1۔ کلام عارفانہ ہو۔

2۔ پڑھنے والا بھی عارف ہو اور سننے والے بھی عارفین ہوں۔

3۔ سماع کی محفل میں کوئی عورت اور بچہ نہ ہو۔

4۔ آلات چنگ و رباب نباشد۔ موسیقی کے آلات نہ ہوں۔

معلوم ہوا کہ تصوف کا کوئی سلسلہ موسیقی کو فروغ نہیں کرتا۔ جو لوگ تصوف کے نام پر ایسا کر رہے ہیں وہ اپنی طر ف سے کر رہے ہیں۔

حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ سے کہا گیا کہ حضرت آپ کا فلاں خلیفہ ایسی جگہ موجود تھا جہاں مزامیر کے ساتھ سماع ہو رہا تھا۔ حضرت نے اس خلیفہ سے پوچھا کہ کیا یہ بات درست ہے؟ تم نے ایسا کیوں کیا۔ اس نے کہا: حضرت میں اس وقت اکیلا تھا وہاں کوئی میرا ساتھ دینے والا نہیں تھا۔ میں نے اس لئے نہ روکا کہیں فتنہ برپا نہ ہو جائے۔ اس پر حضرت نے فرمایا اگر تم ان کو کچھ کہہ نہیں سکتے تھے تو کم از کم خود تو اس جگہ کو چھوڑ سکتے تھے۔

اب دیکھ لیں۔ چشتیہ سلسلے ہی کے ایک بہت بڑے بزرگ کا عمل بھی آ گیا، قول بھی آ گیا۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ لوگوں نے اپنی طرف سے یہ باتیں بنائی ہوئی ہیں۔ ان چار شرائط کے بغیر سماع جائز نہیں ہے، بلکہ اگر یہ شرائط پائی جائیں تب بھی غیر ضروری طور پر سماع نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے کچھ آداب ہیں، کچھ طریقۂ کار ہے، کچھ ضرورتیں ہیں، اگر آداب کو ملحوظ رکھ کر مخصوص طریقے سے ضرورت کے مطابق کرنا پڑے تو کیا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات انسان سخت قبض کی حالت میں ہوتا ہے اس وقت جائز سماع سے اس کو کچھ بہتری محسوس ہو سکتی ہے۔ اس قسم کی ضرورت ہو، شیخ کی طرف سے اجازت و وضاحت ہو اور سب شرائط پائی جائیں تب سماع کی گنجائش ہے ورنہ نہیں ہے۔

سوال نمبر32:

اگر استخارہ ایک سے زیادہ امور کے بارے میں کرنا ہو تو کیا ان سب امور کے لئے ایک ہی استخار کر سکتے ہیں؟ یا ہر کام کے لئے الگ استخارہ کیا جانا چاہیے؟

جواب:

آپ ماشاء اللہ سائنسدان ہیں اور سائنس میں جب بھی تحقیق کی جاتی ہے تو ایک وقت میں ایک خاص چیز پہ تحقیق کی جاتی ہے۔ بیک وقت مخلوط چیزوں پہ تحقیق نہیں ہو سکتی کیونکہ اس سے الجھاؤ پیدا ہو گا، اس لئے ایک ایک کر کے ہر موضوع پہ الگ تحقیق ہوتی ہے۔ اسی طرح استخارہ بھی ہر مسئلہ کے لئے الگ کرنا چاہیے تاکہ آپ کو صحیح جواب ملے۔

سوال نمبر33:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی آپ کے بیان میں ایک جملہ پڑھنے کو ملا تھا اس کی تشریح فرما دیں۔ جملہ یہ تھا: ”جو اللہ والے ہوتے ہیں وہ عزیمت پر عمل کرتے ہیں، وہ بعض دفعہ رخصتوں کو چھوڑ دیتے ہیں“۔ جزاکم اللہ خیراً کثیراً کثیرا۔

جواب:

بہت اچھا سوال ہے۔ عزیمت پر عمل کرنا بھی دین ہے رخصت پر عمل کرنا بھی دین ہے لیکن جس وقت رخصت پر عمل کرنا نفس کا شعار بن جائے اس وقت اس رخصت کو چھوڑنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ عزیمت پر عمل کرنے کے لئے ایک راستہ ہے۔ نقشبندی حضرات کا طریقہ یہ ہے کہ وہ عزیمت پر عمل کرتے ہیں وہ اپنے آپ کو رخصت کی طرف نہیں لے جاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دوسرے مجاہدات جو اضطراری مجاہدات ہیں ان کی طرف اتنا زیادہ نہیں جاتے، وہ ایسے مجاہدات زیادہ کرواتے ہیں جن میں سنت پر عمل کرنے کا مجاہدہ ہوتا ہو۔ اس سلسلہ میں وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ عزیمت پر عمل ہو، یہی ان کا مجاہدہ بن جاتا ہے۔ البتہ اگر کسی کا کام اس طرح نہ ہوتا ہو، اس سے پھر سنت کے علاوہ دوسرے اضافی مجاہدات بھی کرواتے ہیں۔ مجاہدہ ہر وقت لازم نہیں ہوتا جیسے مراقبہ ہر وقت لازم نہیں ہوتا، جب اس کی ضرورت پڑے تب ہی کرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شرعی مجاہدات یا سنت پر چلنے والے مجاہدات کی طرف مائل نہیں ہوتا، ان پر عمل نہیں کر پاتا تو اس پر تیار کرنے کے لئے دوسرے غیر منصوص مجاہدات سے کام لیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو سب سلسلے آخر میں سنتوں پر ہی آتے ہیں، ہاں ابتداءً سنتوں پر لانے کے لئے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔

بعض اوقات انسان رخصتوں پر عمل کر سکتا ہے کیونکہ اس میں شکر کا پہلو آتا ہے اور عزیمت پر عمل کرنے میں صبر کا پہلو آتا ہے۔ عملی طور پر شکر کرنا زیادہ مشکل ہے۔ اگر رخصت کے ذریعے سے شکر کی صفت کو حاصل کیا جائے تو یہ رخصت کا ایک اچھا استعمال ہے۔ ہمارے بعض مشائخ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بعض موقعوں پر رخصت کو اس لئے ترجیح دیتے ہیں تاکہ اس سے شکر کے پہلو پیدا ہو جائیں اور شکر کے ذریعے لوگ دین پر آ جائیں۔

سوال نمبر34:

حضرت شاہ صاحب۔ صحبت نا جنس کے متعلق سوال ہے۔ جس بندے کے والدین یا بہن بھائی صحبت نا جنس ہوں، جن بندوں کے ساتھ اس نے روز مرہ کی بنیاد پر ساتھ رہنا ہو اور وہ دین سے دور ہوں ان سے کیسے بچا جائے، بالخصوص جب وہ آپ کے پاس آنے سے بھی منع کرنا شروع کر دیں تب کیا کیا جائے۔

جواب:

آج کل کا دور ایسا ہے کہ انسان پر نفس کا اثر بہت زیادہ ہے اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے وسائل بھی بے انتہا ہیں۔ ان حالات میں جو لوگ دین کی طرف جاتے ہیں، باقی لوگ ان کے مخالف ہو جاتے ہیں، ان کو تنگ کرتے ہیں۔ مخالفین میں زیادہ تر قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں، جیسے بعض دفعہ والدین ہوتے ہیں بعض دفعہ بہن بھائی ہوتے ہیں بعض دفعہ بیوی ہوتی ہے بعض دفعہ شوہر ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں یہ حدیث شریف سامنے رکھی جائے اور اسی پر عمل کیا جائے۔

”لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ“ (مشکوۃ المصابیح: 3624)

ترجمہ: ”مخلوق کی ایسی اطاعت جس سے خالق کی نافرمانی ہو جائز نہیں ہے“۔

پس اگر مجھے والد بھی اللہ کی نا فرمانی کے لئے کہے گا تو میں نہیں کروں گا، اگر والدہ بھی کہے گی تو میں نہیں کروں گا، اگر بہن بھائی میاں بیوی جو بھی ایسی بات کہیں گے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو گی، اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ البتہ ان کے حقوق سلب نہیں کئے جا سکتے، چاہے دین کے معاملے میں رشتہ دار مخالف ہوں تب بھی وہ رشتہ دار رہتے ہیں اور ان کے رشتہ داروں والے حقوق پورے کرنا انسان پر لازم رہتا ہے۔ والد والد رہتا ہے، والدہ والدہ رہتی ہے، بہن بھائی بہن بھائی رہتے ہیں، پڑوسی پڑوسی رہتے ہیں۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک پڑوسی شرابی تھا، شراب کے نشے میں اکثر اس مضمون کے اشعار کہا کرتا تھا کہ میری لوگوں نے قدر نہیں کی، مجھے لوگوں نے پہچانا نہیں ہے۔ ایک دفعہ پولیس والے اسے پکڑ کے لے گئے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اس کی سفارش کے لئے چلے گئے اور ان سے کہا کہ یہ میرا پڑوسی ہے آپ اسے چھوڑ دیں میں اسے نصیحت کر دیتا ہوں۔ پولیس والوں نے اسے چھوڑ دیا۔ امام صاحب نے اس سے کہا: اب بتائیں ہم نے آپ کو ضائع تو نہیں کیا۔ یہ ایک گناہ گار شخص تھا لیکن چونکہ پڑوسی تھا اس لئے امام صاحب نے پڑوسی کا حق ادا کر دیا۔

لہٰذا مخالفت کی وجہ سے حقوق سلب نہیں ہوتے۔ قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے کہ اگر والدین کسی گناہ کا یا شرک کا حکم دیں تو ان کی بات نہ مانو البتہ دنیا میں ان کے ساتھ اچھی گزر اوقات کرو۔ دنیا میں اچھی گزر اوقات کرنے کا حکم ہے، جو ان کے حقوق ہیں ان کو پورا کرنا پڑے گا چاہے وہ گناہ گار ہی کیوں نہ ہوں۔ گناہ گار ہیں تو ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے لیکن آپ کے اوپر جو ان کا حق ہے وہ آپ نے ضرور پورا کرنا ہے۔

مثلاً ایک دکاندار سے میں نے سودا لے لیا۔ اب اس کے پیسے ادا کرنا میرے اوپر لازم ہے، چاہے وہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، بلکہ کافر ہی کیوں نہ ہو، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ دکاندار شرابی ہے اس لئے میں پیسے نہیں دوں گا، وہ جیسا بھی ہو اس کے پیسے دینے لازم ہوں گے کیونکہ یہ اس کا حق ہے، اور حقوق ہر صورت میں ذمہ رہتے ہیں۔

اس قسم کی باتوں میں ذرا توازن رکھنا پڑتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بچانا بھی ضروری ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بہت عجیب واقعہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ باہر ٹہل رہے تھے۔ کسی صحابی نے پوچھا: حضرت آپ کیوں باہر ٹہل رہے ہیں گھر کے اندر کیوں نہیں جاتے۔ فرمایا: حفصہ آئی ہوئی ہے، اور وہ کمرے میں اکیلی ہے اس لئے میں ان کی موجودگی میں اندر نہیں جانا چاہ رہا۔

وہ ان کی بیٹی تھی اور امہات المؤمنین میں سے ہیں۔ اس سے اندازہ کر لیں کہ وہ اس حد تک اپنے آپ کو بچاتے تھے۔ آج کل کے دور میں یہ مسائل بہت زیادہ ہیں۔ بہرحال اپنے آپ کو رشتہ داروں کے برے اثر اور شر سے بھی بچانا پڑے گا اور ساتھ ساتھ حقوق بھی پورے کرنے ہوں گے۔

سوال نمبر34:

حضرت جی کیا کسی سید کا اپنے آپ کو سید ظاہر کرکے اپنی مجبوری بتانا اور کسی کام کے لئے کہنا جائز ہے؟ اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں جیسے جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس سید آیا تھا اور جیسے ایک سیدہ عورت جو مجبور تھی ایک راہب کے پاس آئی تھی اور اس نے اس کی مدد کی تھی۔

جواب:

سید ہونا بہت سارے لوگوں کے لئے خیر کا ذریعہ بن جاتا ہے، اور بہت سارے لوگوں کے لئے آزمائش بن جاتی ہے۔ سید ہونا ایک آزمائش بھی بن سکتی ہے اور بہت زیادہ خیر کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ اپنے آپ کو بچا کے دوسروں کو فائدہ پہنچایا جائے۔ اپنے آپ کو بچا کر دوسروں کو فائدہ پہنچانا بہت ہی بہترین صورت ہے۔ اور بغیر کسی کو نقصان پہنچائے اپنا فائدہ حاصل کرنا جائز ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، البتہ کسی کو نقصان پہنچا کر اپنا فائدہ کرنا خود غرضی ہے۔

اس ساری بات کا تجزیہ کرکے سوچ کر فیصلہ کیا جائے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ جیسے آپ نے کہا کہ بعض دفعہ ایسی مجبوری ہوتی ہے کہ بتائے بغیر چارہ نہیں ہوتا، ایسی حالت میں بتایا بھی جا سکتا ہے۔ جیسے کچھ حالات میں مردار کھانا بھی جائز ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے حالات میں کسی کو اپنا سید ہونا بتا دینا کوئی عیب کی بات نہیں ہے، کیونکہ ایک تو یہ جائز کام ہے اس میں کوئی ناجائز بات نہیں ہے، دوسری بات یہ ہے کہ آپ کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ آپ اپنے نسب سے دنیاوی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور یہ بات مستحسن نہیں ہے، لیکن مجبوری کی صورت میں جائز ضرور ہے۔

جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے واقعہ میں سید نے اپنا سید ہونا بتا دیا، اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ بہت ہی زیادہ مجبور تھا دوسرے واقعہ میں سیدہ عورت کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا، وہ بے حد مجبور تھی۔ اس قسم کی باتوں میں اپنا سید ہونا ظاہر کر دینا جائز ہے۔

جو آخری بات آپ نے پوچھی کہ اگر کوئی کسی سید کو نقصان پہنچائے تو کیا سید اسے یہ کہہ سکتا ہے کہ تم نبی ﷺ کی نسبت کا خیال نہیں رکھ رہے؟ اس بارے میں یہ عرض ہے کہ اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچا رہا ہے تو اسے ضرور اطلاع کر دیں کہ آپ نبی ﷺ کی نسبت کا خیال نہیں رکھ رہے، اس سے آپ کو نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ آپ ﷺ کی نسبت کا خیال نہ رکھنا بہت خطرناک بات ہے۔ لہٰذا اگر کوئی اس قسم کی بات کر رہا ہو تو اسے خیر خواہی کے طور پر بتا دیا جائے کہ اس سے آپ کو نقصان ہو سکتا ہے۔

اس لئے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بے شک سید کیسے ہی کیوں نہ ہوں لیکن چونکہ ان کی نسبت آپ ﷺ کے ساتھ ہے اس لئے اس نسبت کا احترام کرتے ہوئے اگر ان کو خیر نہ پہنچائی جا سکے تو کم از کم نقصان بھی نہ پہنچایا جائے، بالخصوص جب معلوم بھی ہو کہ یہ سید ہے۔

اگر کوئی سید کو نقصان پہنچانے لگے تو سید اس کی خیرخواہی کی نیت سے بتا دے کہ اس نسبت کی بے حرمتی مت کرو اس کا نقصان تمہیں ہی ہو گا۔

یہ بات تو غیر سیدوں کے بارے میں تھی۔ کچھ چیزیں خود سادات کو یاد رکھنی چاہئیں۔ مثلاً یہ بات ہمیشہ مستحضر رکھنی چاہیے کہ آپ ﷺ نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فرمایا کہ بیٹی تو اس وجہ سے نہیں بخشی جائے گی کہ میری بیٹی ہے، بلکہ اس وجہ سے بخشی جائے گی کہ تو اپنا عمل کرے گی۔ اس لئے سادات کو اس بات پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے کہ ہم یوں ہی بخشے جائیں گے بلکہ سادات کو بھی عمل کرنا پڑے گا۔

دنیا میں جو لوگ سادات کی قدر کرتے ہیں، اس کی وجہ سے اللہ پاک ان کو نواز بھی دیتے ہیں، لیکن آخرت میں سید کا مقام و مرتبہ عمل کی بنا پر ہو گا۔ سید نیک عمل کرے گا تو اچھی جگہ پہ جائے گا اگر غیر سید نیک عمل کرے گا تو وہ اچھی جگہ پہ جائے گا۔ ان تمام چیزوں کو سمجھنا چاہیے، پھر کوئی تردد نہ ہو گا۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن