اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
أَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
السلام علیکم حضرت جی اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں حضرت جی میرے ذکر کی ترتیب مندرجہ ذیل ہے 200 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ الَّا اللّٰہ“ 400 مرتبہ، ”إِلَّا اللّٰہ“ 600 مرتبہ، ”اللّٰہُ اللّٰہ“ 1500 مرتبہ، زبان سے خفی طور پر 5 منٹ پانچوں لطائف پر اللہ اللہ محسوس کرنا اور 15 منٹ لطیفۂ خفی پر محسوس کرنا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شان کے مطابق آپ ﷺ کے قلب مبارک پر فیض آ رہا ہے اور آپﷺ کے قلب اطہر سے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے میرے دل پر فیض آ رہا ہے۔ حضرت جی !سینے کے دائیں جانب تھوڑا تھوڑا محسوس ہوتا ہے اور بائیں جانب کبھی کبھی بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اب کسی کام میں بھی دل نہیں لگ رہا، دل چاہتا ہے کہ اکیلے رہوں، شور شرابا اور ہجوم برا لگتا ہے۔ نماز میں بہت دل لگتا ہے، گناہ سے خود کو مکمل تو نہیں بچا رہا لیکن جب گناہ ہو تو محسوس ہو جاتا ہے کہ گناہ ہو گیا ہے۔ کبھی کبھار دل میں بہت اطمینان محسوس کرتا ہوں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اللہ پاک کا میرے اوپربہت کرم ہے۔ یہ سب آپ کی برکت کی وجہ سے ہے۔ کبھی وسوسوں سے ڈر بھی لگتا ہے کہ سب کچھ تباہ نہ ہو جائے،اپنا ماضی یاد آ جائے تو بہت تکلیف ہوتی ہے کہ ایک وقت میں گناہوں میں مبتلا تھا۔ پھر آپ کا تعلق یاد آئے تو بہت خوشی ہوتی ہے کہ الحمد للہ! اب محفوظ ہاتھوں میں ہوں۔ نماز کے بعد میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایمان کی دولت عطا فرمائی اور ایمان کی سلامتی کی دعا بھی مانگتا ہوں۔
جواب:
اب آپ ایک ماہ کے لئے 200، 400، 600 اور زبان پر اللہ اللہ 1500 کی جگہ 500 بار کر لیں، اور چونکہ باقی لطائف چل پڑے ہیں اس لئے مراقبہ احدیت مکمل ہو گیا ہے۔ اب اس کی جگہ مشارب والا مراقبہ شروع کر لیں۔ مراقبہ احدیت میں عمومی فیض کی بات ہوتی ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے فیض آ رہا ہے۔ اس مراقبے میں خاص فیض ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ پاک سب کچھ کرتا ہے۔ اب آپ نے تصور کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شان کے مطابق یہ فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پہ اور شیخ کے قلب سے آپ کے قلب پہ آ رہا ہے۔ 15 منٹ کے لئے آپ یہ کر لیں۔ باقی سب کچھ وہی ہے، بس اللہ اللہ 1500 مرتبہ کی جگہ 500 مرتبہ کرنا ہے۔
جو بھی خیر ہو اس پر اللہ پاک کا شکر ادا کریں اور جو مشکل ہو اس پہ اللہ پاک سے دعا کر لیا کریں۔ اگر خود بخود کچھ سمجھ میں آ جائے تو اس وقت اس پر استغفار کر لیا کریں کیونکہ اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا، یہ سب اللہ پاک کی توفیق سے ہوتا ہے اور شیطان یہی چاہتا ہے کہ اپنے اوپر نظر آ جائے اللہ جل شانہ ہم سب کو اس سے بچائے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم شاہ صاحب! اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے۔ میرے سب طرف 5 منٹ اذکار ہو رہے ہیں۔ اور 15 منٹ تک یہ مراقبہ کہ اللہ کی طرف سے نبی ﷺ کے قلب پر فیض آ رہا ہے اور وہاں سے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے میرے قلب پر۔ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
ماشاء اللہ! یہ مراقبہ احدیت تھا، اس کے بعدآپ نے وہی 5، 5 منٹ لطائف پہ کرنا ہے اور اس کی جگہ 15 منٹ آپ نے مشارب والا مراقبہ کرنا ہے کہ اللہ جل شانہ کا ایک خاص فیض یعنی اللہ پاک سب کچھ کرتے ہیں۔ وہ فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے قلب پہ آ رہا ہے۔ اسی کو ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ کا مراقبہ کہتے ہیں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم شاہ صاحب!
نمبر 1:
جب میں بہت توجہ سے مراقبہ کرتی ہوں تو باقی دن مجھے عجیب سا اطمینان رہتا ہے اور میں بغیر کسی وجہ کے خوش رہتی ہوں، اور جب مراقبے میں مختلف خیالات آتے ہیں اور میں انہیں توجہ دیتی ہوں تو پھر میرا پورا دن بہت بے آرام گزرتا ہے اور میں نے محسوس کیا ہے کہ اس دن نفس زیادہ غالب رہتا ہے۔ شاہ صاحب! کیا مراقبے سے بھی نفس کنٹرول میں ہوتا ہے؟
نمبر 2:
شاہ صاحب! کیا میں کتاب ”نَشْرُ الطِّیْبِ فِیْ ذِکْرِ النَّبِیِّ الْحَبِیْب ﷺ“ پڑھ کر اپنی والدہ کو سنا سکتی ہوں؟ وہ پشتو میں ہے اس لئے انہیں سمجھ آ جائے گی۔ انہیں طلب بھی ہے، انھوں نے سکول نہیں پڑھا اس لئےانہیں آپ ﷺ کی زندگی کے بارے میں زیادہ علم نہیں۔ انہیں اردو کی تھوڑی بہت سمجھ آتی ہے، میں انہیں دو منٹ مدرسے والے بیانات بھی سناتی ہوں جو وہ بہت شوق سے سنتی ہیں۔ آپ کے پشتو کے بیانات بھی سنتی ہیں۔
نمبر 3:
شاہ صاحب! کتاب ”نَشْرُ الطِّیبِ فِی ذِکْرِ النَّبِیِّ الْحَبَِیب“ میں مہر کے بارے میں جو روایت ہے، براہ مہربانی اس کو وضاحت سے سمجھا دیا جائے۔
جواب:
نمبر 1:
ماشاء اللہ! یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ در اصل مراقبات اس لئے ہوتے ہیں کہ ہمارے ایمان کے مفاہیم پکے ہو جائیں۔ مثلاً اللہ بڑے ہیں، ہم بھلے سمجھیں یا نہ سمجھیں، اللہ تعالیٰ بڑے ہی رہیں گے۔ لیکن ہمارے دلوں پہ اس کا اثر بٹھانے کے لئے ہم مراقبہ کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم سب مسلمانوں کا ایمان ہے کہ آخرت کے لئے تیاری کرنی چاہیے۔ لیکن واقعتاً ہم اس سے متاثر ہو جائیں اور ہم واقعی آخرت کے لئے تیاری کر لیں تو اس کے لئے اس آیت کا مراقبہ ہے۔
﴿وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہؕ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الحشر:18)
ترجمہ: ” اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔ اور اللہ سے ڈرو۔ یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے“
مراقبات در اصل اسی مقصد کے لئے ہوتے ہیں کہ جو اعمال کرنے چاہئیں ان کے بارے میں انسان کا ذہن بن جائے اور عقل فہیم ہو جائے۔ اگر عقل فہیم ہو جائے تو پھر وہ اچھے کاموں کی طرف انسان رہنمائی کرتی ہے۔ جیسے آپ نے کہا کہ میرا دن بہت آرام سے گزرتا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال لیتی ہیں اور قدرتی نظام کے مطابق ہو جاتی ہیں تو آپ بہت آرام محسوس کرتی ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو یعنی اس میں بے توجہی کی جائے تو پھر انسان کا ذہن صحیح جگہ پہ نہیں ہوتا۔
نفس کو قابو کرنے کے لئے مسلسل محنت در کار ہوتی ہے اور وہ محنت عقل کے ذریعے ہی ہو گی۔ جب تک نفس کی مکمل اصلاح نہ ہو اس وقت تک اس کو ٹھیک کرنے کی فوری ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ ایک طریقہ مستقل طور پر صحیح ہونے کا ہے کہ اگر انسان پورا سلوک طے کر لے تو مستقل طور پر ٹھیک ہو جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ فوری طور پر ٹھیک ہونے کا ہے۔ مثلًا کسی کو غصہ آ گیا۔ غصہ اکثر تکبر کی وجہ سے آتا ہے۔ اب تکبر کو دور کرنا آسان بات نہیں ہے کہ ایک دن میں انسان ٹھیک ہو جائے۔ اس کے لئے پورا سلوک طے کرنا ہوتا ہے۔ اگر انسان سلوک کی منازل طے کر لے تو غصے کے بارے میں اس کا ذہن اور دل بدل جاتا ہے اور اس کا نفس بھی قابو میں آ جاتا ہے لہذا وہ اُس حد تک جاتا ہی نہیں ہے۔ اور اگر جانے کی کوشش بھی کرے تو اس کو فورًا دبانے میں آسانی رہتی ہے اور کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب تک نفس کی اصلاح نہ ہوئی ہو اور نفسِ مطمئنہ حاصل نہ ہوا ہو، اس وقت غصہ آئے گا تو فوری طور پر اس کا کیا علاج ہو گا؟ اس بارے میں با قاعدہ حدیث شریف میں بھی آیا ہے اور بزرگوں کے مختلف طریقے بھی ہیں جن پر عمل کر کے غصے کو قابو کیا جا سکتا ہے۔ مثلًا پانی پی لیں یا اگر آپ کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں یا جگہ بدل لیں یا اپنے آپ کو مصروف کر لیں وغیرہ۔ یہ وہ فوری طریقے ہیں جو مجبوری میں اختیار کرنے پڑیں گی کیونکہ غصے کے شر سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے اس لئے آپ کو فورًا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ آپ جو کہہ رہی ہیں کہ مراقبے سے ذہن بن جائے تو اس کو قابو کرنا آسان ہو جاتا ہے یہ بات درست ہے لیکن اس سے یہ مسئلہ مستقل طور پر ٹھیک نہیں ہوتا۔ مستقل طور پر ٹھیک کرنے کے لئے سلوک پورا طے کرنا پڑتا ہے۔ میں نے یہ بات اتنی تفصیل سے آپ کو اس لئے بتائی ہے کہ جو لوگ ان چیزوں میں مبتلا ہوتے ہیں وہ اس کو مشکل سے سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مراقبات سے مکمل اصلاح ہو جاتی ہے حالانکہ مراقبات سے مکمل اصلاح نہیں ہوتی، البتہ اصلاح شروع ہو جاتی ہے۔ اگر ان میں پختگی آ جائے اور ان کے ذریعے سے سارا سلوک طے کر دیا جائے تو پھر بات بن جاتی ہے لیکن جب تک ایسا نہ ہو تو عارضی طور پر یہ چیزیں چلی جاتی ہیں اور بعد میں واپس آ جاتی ہیں جیسے آپ نے ابھی کہا۔ گویا کہ آپ کے سوال میں ہی جواب موجود ہے۔ آپ نے کہا کہ جب میرا مراقبہ اچھا ہوتا ہے تو میرا دن آرام سے گزرتا ہے اور میں نفس پر کنٹرول کر لیتی ہوں لیکن جب خیالات آتے ہیں اور مراقبہ صحیح نہیں ہوتا تو پورا دن بے آرام گزرتا ہے۔ اگر مراقبے سے مستقل اصلاح ہوتی تو آپ کی جو حالت پہلے دن ہوئی تھی، دوسرے دن بھی وہی ہونی چاہیے تھی۔ لیکن آپ کو پھر بھی مراقبہ کی ضرورت پیش آئی کیونکہ پوری اصلاح نہیں ہوئی۔ جب پوری اصلاح ہو جائے تو اس کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ عارضی اصلاح عقل اور جذبات دونوں کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر تبلیغی جماعت میں بیان کے ذریعے لوگ قائل ہو جاتے ہیں اور فضائل سن سن کے کام کی طرف چل پڑتے ہیں۔ اس سے ان کی ظاہری برائیاں فوری طور پر ختم ہو جاتی ہیں مثلًا نماز، روزہ، عبادات وغیرہ ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن اندرونی برائیاں ٹھیک نہیں ہوتیں، ان کو ختم کرنے کے لئے ان کو مکمل اپنی اصلاح کرنی ہوتی ہے۔ جیسے غصہ، تکبر، عجب، معاملات کا صحیح ہونا یا معاشرت کی درستگی وغیرہ مشکل چیزیں جن میں انسان کے ایمان کا صحیح معنوں میں پتا چلتا ہے، وہ درست نہیں ہوتیں، یعنی ان کے لئے کچھ اور کرنا پڑتا ہے، بزرگوں سے اپنی مکمل اصلاح کروانی ہوتی ہے۔ مکمل اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ پورا سلوک طے کروا لیا جائے۔ یعنی ہم یوں کہہ سکتے ہیں راستے والی چیزیں فورًا ٹھیک ہو جاتی ہیں لیکن صحیح معنوں میں انسان کا پتا معاملات میں چلتا ہے کہ اسے کس حد تک اللہ تعالیٰ کا تعلق حاصل ہے یا پھر معاشرت اور اخلاق کے اندر پتا چلتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جوآپ کے لئے با قاعدہ ایک میدان ہے جس سے آپ کو خود کے بارے میں اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ نے اس میں سے کتنا حصہ حاصل کر لیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درجات اللہ تعالیٰ بلند فرمائیں، آپ بہت باریک بین اور دور اندیش شخص تھے، آپ کا مشہول قول ہے جب آپ نے کسی سے پوچھا کہ آپ کا فلاں صاحب کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ حضرت! وہ اچھا آدمی ہے۔ فرمایا: کیا آپ نے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کیا ہے؟ عرض کیا: نہیں۔ پوچھا: اس کے ساتھ کوئی سفر کیا ہے؟ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ٹھیک بندہ ہے؟ شاید آپ نے اس کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ یہ بہت بڑے گُر کی بات ہے جو چودہ سو سال تک کام آنے والی ہے کہ آپ نے اس کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ نماز کوئی معمولی چیز نہیں ہے، نہ ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز کو معمولی چیز سمجھتے تھے لیکن وہ ایک وقتی چیز ہے۔ وقتی چیز عموماً ٹھیک ہو جائے گی لیکن اندرونی چیزیں ٹھیک کرنے لئے آپ کو اپنی مکمل اصلاح کرانی پڑے گی۔
نمبر 2:
آپ ”نَشْرُ الطِّیْب فِیْ ذِکْرِ النَّبِیِّ الْحَبِیْبﷺ“ کی روایات اپنی والدہ کو بلا جھجھک سنا سکتی ہیں، اسی مقصد کے لئے ہی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کتاب لکھی ہے۔ آپ ان کو پشتو کے بیانات اور دوسری چیزیں جو ان کی سمجھ میں آتی ہیں وہ بھی سناتی رہیں۔
نمبر 3:
جہاں تک مہر والی روایت کا تعلق ہے کہ حضرت حوا بی بی کے مہر کے بارے میں فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو کہا کہ مہر کے طور پر درود شریف اتنی مرتبہ پڑھ لیں، انھوں نے پڑھ لیا۔ تو کیا ہمارے ہاں بھی اس طرح ہو سکتا ہے؟ در اصل بات یہ ہے کہ وہ جنت تھی، اس کی بات اور ہے، وہاں کسی کے پاس پیسے نہیں تھے۔ کیونکہ حوا بی بی کو وہ چیزیں پہلے سے حاصل تھیں۔ یہاں معاملہ مختلف ہے۔ یہ خواتین کی عزتِ نفس کا معاملہ ہے، ان کے اکرام کی وجہ سے ان کے لئے مہر مقرر کیا گیا ہے۔ مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم ہے، جو تقریبًا دس ہزار روپے کے لگ بھگ بن جاتے ہیں۔ ہمارے پٹھانوں کے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ آج کل کم سے کم مقدار 32 روپے ہے۔ حالانکہ آج کے دور میں 32 روپیہ کی کچھ بھی حیثیت نہیں ہے۔
در اصل بات یہ ہے کہ بعض دفعہ لڑکی والے مجبور ہوتے ہیں تو ان کی مجبوری سے نا جائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ یہ غلط بات ہے۔ کم سے کم دس درہم چاندی ہونا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ جتنا بھی ہو جائز ہے، البتہ اتنا زیادہ نہ ہو کہ ادا نہ کیا جا سکے اور ادا کرنے کی کم از کم نیت بھی ہو۔ کیونکہ بعض خاندانوں میں بہت زیادہ مہر رکھا جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ ہم نے کون سا دینا ہے۔ یہ بد معاملگی ہے اور جس چیز کی ابتدا بد معاملگی سے ہو جائے تو اس کی انتہا نجانے کس قدر خطر ناک ہو گی۔ لہذا مہر کے معاملے میں ہم لوگ اسی نقطۂ نظر پر صاد کریں گے جو فقہ نے بتایا ہے، اور ہمیں اسی پہ عمل کرنا پڑے گا۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم حضرت جی! کبھی کبھی میرے دل کی کیفیت عجیب سی ہو جاتی ہے، رونا بھی آتا ہے، اداس بھی ہوتی ہوں جیسے کوئی چیز کھو گئی ہو۔ یہ حالت میں کسی طرح بیان بھی نہیں کر سکتی۔ لوگوں کے درمیان بیٹھ جاتی ہوں لیکن خود کو تنہا محسوس کرتی ہوں اور دل میں یہی ایک دعا آتی ہے کہ یا اللہ! مجھے جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے وہ مقصد مجھ پہ ظاہر کر دے اور اس وظیفے کے بعد تو اور بھی بے قرار ہوتی ہوں۔ مجھے میرا اندر بالکل خالی خالی لگتا ہے۔ یہ حالت اچانک خود بخود ہو جاتی ہے اور پھر ذکر شروع کرتی ہوں اپنی گناہوں کی معافی مانگتی ہوں، بہت تذبذب کا شکار ہوتی ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس حالت میں کیا کروں۔ میری رہنمائی کیجئے۔
جواب:
شریعت نے اس بارے میں رہنمائی فرمائی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہر حالت میں ہم اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلیں۔ جیسے آپ نے کہا کہ مجھے اللہ نے کس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے؟ آپ تو ما شاء اللہ عالمہ ہیں، آپ جانتی ہیں کہ
﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات:56)
ترجمہ: ”اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں“۔
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ”اَیْ لِیَعْرِفُوْن“ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس کو اگر بڑی سطح پہ دیکھا جائے کہ بندگی کس کو کہتے ہیں تو معلوم ہو گا کہ بندگی عبدیت کو کہتے ہیں، اس عبدیت سے جو معرفت حاصل ہوتی ہے، اس معرفت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ اس لئے ہماری زندگی کا مقصد یہی ہے۔ البتہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کچھ ضروریات ہوتی ہیں جس کے بغیر وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا مثلًا زندگی ضروری ہے تو زندگی کے لئے کچھ کھانا پینا بھی ہوتا ہے، کچھ آرام بھی کرنا ہوتا ہے اور کچھ دوسرے ضروری کام بھی کرنے ہوتے ہیں جو سارے کے سارے اسی اصل کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ یعنی ہمارا اصل مقصد وہ ہے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے ذرائع کی بھی ضرورت پڑ جاتی ہے کیونکہ یہ اس کا مقدمہ ہیں۔ اس وجہ سے ہم جو طریقت کی بات کرتے ہیں وہ صرف اور صرف اپنے عقائد کی درستگی، ان پہ پختگی اور شریعت پر چلنے میں آسانی کے لئے ہم کر رہے ہیں۔ آپ کے ما شاء اللہ اچھے خیالات ہیں، خلوت در انجمن ہمارے بزرگوں کا طریقہ رہا ہے۔ خلوت در انجمن کا مطلب ہے کہ لوگوں کے درمیان بیٹھ کر بھی اللہ کی طرف دھیان کامل رہے۔ یقیناً یہ بہت بڑی بات ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔ اندر سے ہم خالی ہی ہیں، اس کا ادراک ہونا ضروری ہے۔ جتنا انسان خالی ہو گا اتنا ہی اللہ کی طرف سے فیض آئے گا کیونکہ انسان کے لئے فیض کے لئے رکاوٹ یہی بات ہے کہ ہم اپنے اندر کچھ ایسی چیز رکھیں جس کی وجہ سے وہ فیض نہ آئے۔ دنیا کی محبت سے خالی ہونا ضروری ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیض آتا ہے۔ ذکر شروع کرنا بھی اچھی بات ہے، اور گناہوں کی معافی مانگنا تو بہت اچھی بات ہے۔ تذبذب کی کوئی بات نہیں ہے، ہمارا دین بالکل واضح ہے اور جب دین واضح ہے تو یہ بات ٹھیک نہیں کہ مجھے سمجھ نہیں آتی میں کیا کروں۔ آپ شریعت پر چلیں، درمیان میں کوئی اور بات ہے ہی نہیں۔
رہنمائی اتنی ہی ہو سکتی ہے کہ جیسے آپ اپنے معمولات مجھے بتاتی جائیں تو میں اس کے بارے میں عرض کرتا جاؤں گا کہ اب یہ کریں، اب یہ کریں۔ بنیادی طور پر شریعت پہ ہی چلنا ہے۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم! چالیس دن کا بنیادی ذکر مکمل ہو گیا ہے، آگے کا ذکر بتا دیجئے۔ جزاک اللہ!
جواب:
اب ان شاء اللہ آپ پورا تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار 100، 100 مرتبہ عمر بھر کریں گے۔ اس کے علاوہ نماز کے بعد والا ذکر یعنی 33 دفعہ ”سُبْحَانَ اللہ“ 33 دفعہ ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہ“، 34 دفعہ ”اَللہُ اَکْبَرُ“، تین دفعہ کلمہ طیبہ، تین دفعہ درود ابراہیمی، تین دفعہ استغفار اور ایک مرتبہ آیت الکرسی، یہ اذکار بھی عمر بھر ہر نماز کے بعد ہو گا۔ اس کے علاوہ ذکر جہری ہے، وہ آپ اسی طرح کریں گے جیسے میں کر رہا ہوں۔ 100 دفعہ ابتدا میں ”لَآ اِلٰہَ ا اِلَّا اللّٰہ“، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ 100 دفعہ، 100 دفعہ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو“ 100 دفعہ ”حَقْ حَقْ حَق“ 100 دفعہ ”اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ“۔ یہ آپ نے ایک مہینے تک کرنا ہے۔ ایک مہینے کے بعد مجھے اطلاع کریں گے تو ان شاء اللہ میں اگلا ذکر بتا دوں گا۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم حضرت جی! میرے بھتیجے کا ذکر 200 مرتبہ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، 400 مرتبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو، 600 مرتبہ ”حَق“ اور ہزار مرتبہ ”اَللّٰہ“ ایک مہینے کے لئے اللہ کے فضل اور آپ کے دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوا۔ حضرت! بھتیجے کے سر پر جو بوجھ رہتا تھا وہ 313 مرتبہ ﴿سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ﴾ (یس: 58) 313 پڑھنے سے الحمد للہ ٹھیک ہو گیا ہے۔
جواب:
ابھی آپ ان کو بتا دیجئے کہ 1500 مرتبہ ”اللّٰہ“ کریں، باقی چیزیں وہی ہوں گی ان شاء اللہ۔
سوال نمبر7:
بھابھی اور بھتیجیوں کا ذکر دو ہزار مرتبہ ”اَللّٰہ اَللّٰہ“، 10 منٹ کا مراقبہ دل پر اور 10 منٹ کا لطیفۂ روح پر ایک مہینے کے لئے مکمل ہوا۔ دل میں تو اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے لیکن لطیفۂ روح پر ابھی محسوس نہیں ہوتا۔ ایک بھتیجی کو 2500 مرتبہ ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ کا ذکر اور 15 منٹ کا مراقبہ ملا تھا، اس کو فی الحال دل میں ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ محسوس نہیں ہو رہا۔
جواب:
جس بھتیجی کو محسوس نہیں ہو رہا ان کو تین ہزار مرتبہ ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ کا بتا دیں اور 15 منٹ کا مراقبہ ان کا دل والا جاری رہے۔ باقی جن بھابھی اور بھتیجیوں کا ذکر 2000 مرتبہ تھا، یہ اگلے ایک مہینے کے لئے 2000 مرتبہ ہی رکھیں 10 منٹ کا مراقبہ دل کا کر لیں اور 15 منٹ کا مراقبہ لطیفۂ روح کا کر لیں۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم محترم و مکرم! بعض علماء سے سنا ہے کہ اگر کسی نے دنیا میں نوری نسبت حاصل نہ کی ہو تو آخرت میں وہ نور سے محروم رہے گا، حالانکہ دنیا میں بعض لوگ بہت نیک ہوتے ہیں لیکن صاحبِ نسبت نہیں ہوتے تو کیا آخرت میں ان حضرات کو کبھی بھی نور حاصل نہیں ہو گا؟
جواب:
اگر یہ بات ہم اللہ پر ہی چھوڑ دیں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں بہت ساری باتیں ہم پر واضح نہیں ہوتیں۔ مثلًا کوئی نیک ہے تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس کو نسبت حاصل نہیں ہوئی؟ کیا معلوم اللہ پاک نے اس کو کسی کی دعا یا صحبت سے نسبت نصیب فرمائی ہو۔ چونکہ یہ معاملہ چھپا ہوا ہے اور حدیث شریف کے مطابق مومن کے لئے نیک گمان کرنا چاہیے۔ لہذا ہم اس پر کوئی بات نہیں کریں گے۔ البتہ یہ بات ہے کہ اگر ان کی مراد صرف یہ ہو کہ جنہیں نوری نسبت کسی طریقے سے بھی حاصل ہو جائے تو ان کو نور ملے گا تو یہ ٹھیک ہے۔ جیسے پل صراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ در اصل شریعت پر چلنا ہے، جو شخص یہاں شریعت پر چلا ہو گا وہ پل صراط پر بھی چل سکے گا۔ یعنی شریعت پل صراط کے لئے صورتِ مثالی ہے۔ اسی طریقے سے نسبت شریعت پر چلنے کے لئے ہوتی ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے صحیح عقیدے کے ساتھ شریعت پر چلنا نصیب ہو جاتا ہے اور ایسے بندے کو اللہ پاک قبول فرما لیتے ہیں۔ قبولیت کے بعد اس کے لئے تربیت کے مواقع پیدا فرماتے رہتے ہیں۔ لہذا طریقت اسی مقصد کے لئے ہی ہے۔ نور کے بارے میں یہ آتا ہے کہ جن کے پاس اعمال ہوں گے ان کا پل صراط پر نور ہو گا، دوسرے لوگ ان سے کہیں گے کہ آپ ذرا آہستہ جائیں تاکہ ہمیں بھی آپ کے نور سے فائدہ ہو۔ اگر کسی نے نوری نسبت سے یہی مراد لی ہے تو یہ بالکل ٹھیک ہے کیونکہ یہ تو یقینی بات ہے۔ میرے خیال میں اس پر زیادہ بات شاید ممکن نہیں کیونکہ اس میں مخفی باتیں بہت زیادہ ہیں۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی! میرے مندرجہ ذیل اذکار کو تقریبًا تیس دن ہو گئے ہیں: ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ 200 مرتبہ، ”اِلَّا اللّٰہ“ 400 مرتبہ، ”اللّٰہُ اللّٰہ“ 600 مرتبہ اور ”اللّٰہ اللّٰہ“ 4000 مرتبہ، ذکر کے بعد دل کی طرف 5 منٹ توجہ کرنا ہے کہ وہ اللہ اللہ کر رہا ہے یا نہیں۔ حضرت جی! عرض یہ ہے کہ ابھی مجھے اپنے دل کی ایسی کیفیت محسوس نہیں ہو رہی۔ آگے ذکر کی کیا ترتیب رکھنی ہے، رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
یاد رکھیں! اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے ایک طریقہ نہیں ہے۔ اللہ پاک نے جو فرمایا:
﴿وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنكبوت:69)
ترجمہ: ”اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انھیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے“۔
اس میں ”سُبُلَنَا“ کا لفظ ہے، ”سبیل“ کا لفظ نہیں ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے راستے بہت زیادہ ہیں صرف لطائف والا طریقہ نہیں ہے۔ بعض حضرات کو تو یہ بات بڑی گراں گزرے گی لیکن بات تو بہر حال یہی ہے۔ اس لئے میں کوئی دوسری بات تو نہیں کر سکتا۔ اصل لطیفہ تو قلب کا ہے جو نص سے ثابت ہے، باقی لطائف ظنی ہیں۔ مختلف راستے ہیں، کسی کو ایک طریقے سے پہنچنا نصیب ہوتا ہے، کسی کو دوسرے طریقے سے۔ اس لئے آپ بالکل فکر نہ کریں۔ آپ ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ 4500 مرتبہ کر لیں اور اس کو زیادہ نہ سمجھیں۔ آج مجھے ایک خاتون کا فون آیا تھا، میں نے اس کو غالبًا 50 منٹ کا ذکر بتایا تو اس نے کہا کہ میں تھک جاتی ہوں، میں نے کہا: جی بالکل! اس میں کوئی شک نہیں کہ تھکاوٹ ہوتی ہے لیکن آپ جتنے بڑے مقصد کے لئے کام کر رہی ہیں اس مقصد کو سامنے رکھیں۔ ہمارے مزدور بھائی پورا دن آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں اور جھڑکیاں بھی سنتے ہیں۔ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں، کوئی پسینے میں شرابور گاڑیوں کے نیچے پڑا ہوا ہے، اس کے اوپر تیل بھی گر رہا ہے، کپڑے سارے خراب ہو رہے ہیں اور پھٹ بھی رہے ہیں، گرمی، سردی ہر طرح کے موسم میں یہ کام کرتے ہیں۔ ہمارے کنڈیکٹر بھائی گاڑیوں میں کُبڑے بنے ہوتے ہیں، سامان بھی اٹھاتے ہیں اور سواریاں بھی اٹھاتے ہیں۔ یہ کام آسان تو نہیں ہے بہت مشکل کام ہے۔ لیکن وہ یہ سب اس لئے کرتے ہیں کہ اخیر میں ان کو کچھ پیسے مل جاتے ہیں جن سے صرف ایک وقتی گزارا ہو جاتا ہے اور وقتی طور پر زندگی گزر جاتی ہے۔ اگر کوئی اس کو آخرت کا توشہ بنانا چاہے تو علیحدہ بات ہے۔ لیکن بہر حال! اتنی زیادہ محنت عمومًا وقتی طور پر گزارے کے لئے ہی ہوتی ہے۔ کیا کبھی انہوں نے یہ کہا کہ یہ بہت زیادہ مشکل ہے، ہم کم کام کر لیں۔ بیچارے یہ سب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہم بھی مجبور ہیں، محنت کرنی پڑے گی۔ ہمارے بعض ساتھی الحمد للہ اب بھی ہیں جو 48000 مرتبہ اللہ اللہ کر رہے ہیں یعنی 24000 صبح 24000 شام۔ بعض نقشبندی حضرات تین تین گھنٹے مراقبات کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک محنت ہے جو کرنی پڑتی ہے۔ آپ بھی محنت کریں، ان شاء اللہ اللہ پاک آپ کے لئے راستہ دے گا لیکن ضروری نہیں کہ وہی راستہ آپ کو دے جو آپ چاہتے ہیں ممکن ہے آپ کے لئے کوئی اور راستہ مقرر ہو، تو جیسے ہو گا اسی کے مطابق آپ اس کو حاصل کریں گے۔ اللہ پاک آپ کو بھی نصیب فرمائے اور ہم کو بھی نصیب فرمائے۔
سوال نمبر10:
حضرت! یہ جو اصلاحاتِ تصوف ہیں مثلًا فنا بقا، عروج نزول وغیرہ، کیا یہ حاصل ہوتی ہیں یا خالی الفاظ ہیں؟
جواب:
سبحان اللہ! بہت اچھا سوال ہے۔ یہ در اصل علماً اور کیفیتاً حاصل ہوتے ہیں۔ یعنی یہ علمی کیفیات ہیں۔ ”فہم التصوف“ میں اصطلاحات کا باقاعدہ پورا ایک باب ہے، ہم اسی میں سے پڑھ کر سنا دیتے ہیں۔
یہ فنا کے بارے میں لکھا ہے، اب اس کے ساتھ ساتھ ہی تشریح کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات:56)
ترجمہ: ”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو بنایا تو صرف اپنی بندگی کے لئے“۔
”اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ“ کی تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے:”اَیْ لِیَعْرِفُوْنِ“ مانی گئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی عبادت و معرفت کے لئے جو رکاوٹیں ہیں ان کو دور کئے بغیر یہ حاصل نہیں ہو سکتی۔ پہلے ہمارے ذہن یہ ہدف ہو کہ ہمیں معرفت حاصل کرنا ہے۔ اس کے لئے ہمت حاصل کرنا اور ان تمام رکاوٹوں کا ختم ہونا ضروری ہے، یہ تب ممکن ہے جب انسان اپنا سب کچھ محسوس، غیر محسوس اللہ تعالیٰ پر قربان کرے یعنی اس کا نفس، عقل اور قلب، کوئی ایسا کام، جذبہ اور سوچ تحریک نہ کر سکے جو اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے مقابلے میں آ سکے اور یہ تب ممکن ہے کہ انسان کو صرف وہی یاد ہو اور کچھ یاد نہ رہے۔ اس حالت کو فنا کہتے ہیں۔ اس کا مکمل تعین محال ہے، کیوں کہ اس کا ادراک فنا کے خلاف ہے اور بغیر ادراک کے کچھ معلوم نہیں ہو سکتا اس لئے مقامِ حیرت و محویتِ محض ہے۔ جو ابتدائی جذب ہے اس میں دل کی قدرے اصلاح ہو چکی ہوتی ہے، اس میں انسان اپنے دل کے جذب کے زور پر سلوک کے بغیر بھی اپنی کچھ خواہشات کو دبانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ (یہ بات حضرت نے بھی مکتوب نمبر 287 میں فرمائی ہے) لیکن اس کا نفس اپنے مقام پر نہیں آیا ہوتا اس لئے ابتدائی جوش و جذبہ ماند پڑتے ہی اس کے عود کا خطرہ ہوتا ہے۔ چونکہ ابھی نفس و روح آپس میں ملے ہوئے ہیں اس لئے وہ ارادہ جو اس کو حاصل ہوا ہے اپنے نفس کے ارادے کے مقابلے میں ختم ہو جاتا ہے۔ سلوک کے ذریعے جو فنا حاصل ہوا تو چونکہ اس کا نفس، روح سے علیحدہ ہو جاتا ہے تو ایک ایسے ارادے کی فنا حاصل ہوئی جس میں نفس واپس اس جگہ پہ نہیں آ سکتا تو یہ فنائے کامل ہوتی ہے۔ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے فنا کے بارے میں بہت خوبصورت کلام کیا ہے۔ یہاں تک فرمایا کہ مقامِ قلب، نفس اور روح کے درمیان ہے یعنی اس کے نیچے نفس ہے اور اوپر روح ہے۔ گویا اس کی چھت روح ہے، جب تک وہ روح تک نہیں پہنچتا اس وقت تک وہ روح سے نیچے نیچے دیکھ سکتا ہے، اوپر نہیں دیکھ سکتا کیونکہ اس کا شہود روح تک ہی ہے، وہ فنا فی اللہ نہیں ہو سکتا۔ ایک فنا وہ ہوتی ہے جو ابتدائی جذب میں حاصل ہوتی ہے، جس میں نفس کی اصلاح ابھی نہیں ہو چکی ہوتی۔ وہ ناقص اور عارضی ہوتی ہے، اس پر بقا کا اطلاق نہیں ہوتا۔ لیکن نفس کی اصلاح کے بعد نفس جب اپنی جگہ پر آتا ہے تو اس کی وجہ سے پھر انسان اس کو دبانے کے لئے اپنے دل کے ارادے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اس وقت کامل فنا حاصل ہو جاتی ہے، اس لئے عود کا خطرہ نہیں ہوتا۔
بقا:
اُس حالت سے گزرنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ اس کو احساس لوٹا دے اور فنا کا اثر اتنا باقی رہے کہ اس کا ہر عمل فنا سے مستفاد ہو۔ عام طور پر جو بزرگوں کے ساتھ منسوب ہوتے ہیں اور راہ میں ہوتے ہیں ان پہ اس قسم کی محویت کے عالم آتے ہیں۔ حضرت مولانا حامد میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے اور حضرت نے ان کو 21، 22 سال کی عمر میں یعنی بالکل نو جوانی میں اجازت دی تھی، اس وقت یہ بالکل مدہوش تھے، دنیا کے کاموں کا بالکل ہوش نہیں تھا۔ ان کے والد حضرت محمد میاں صاحب بہت گھبرا گئے اور حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت! یہ کچھ کام بھی کر سکے گا یا ویسے ہی رہے گا؟ تو انھوں نے کہا کہ ان شاء اللہ ٹھیک ہو جائے گا لیکن اس وقت آپ کا اس پر خرچ کرنا اعلیٰ درجے کا صدقہ ہے۔ آپ اس کے لئے جلدی نہ کریں۔ ایسی محویت کا عالم بعض حضرات پر آ سکتا ہے لیکن اس کے بعد بڑے مقامات بھی نصیب ہو جاتے ہیں۔ اس وقت سالک سب احکامات پر عمل کرتا ہے لیکن اس کی نسبت اپنی طرف نہیں کرتا یعنی عبدیتِ محض اس کا خاصہ بن جاتا ہے۔ انسان کو اللہ پاک کے احکام پر دوام، اطمینان اور تمکین حاصل ہو جائے تو یہ بھی ایک بقا ہے اور یہ بھی اللہ پاک کا انعام ہی ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ پاک کی طرف سے قبولیت تامہ نصیب ہو جائے تو یہ بھی بقا کی ایک شکل ہے۔
عروج کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا رخ اللہ کی طرف ہو۔ یہ ذکر اذکار، مراقبے کے ذریعے عالم امر کی پوری سیر ہے۔ یعنی انسان اللہ تعالیٰ کی طرف ہی بڑھ رہا ہو اور اس وقت دنیا کی چیزیں اور ان کا علم اس سے ساقط ہو رہے ہوں تو یہ عروج ہے۔ وہ آگے چلتا رہتا ہے، وہاں سے اگر اسے واپس نہیں لوٹایا جاتا تو استہلاک ہو جاتا ہے، پھر وہ ادھر اللہ کے ساتھ ہی محویت کے عالم میں رہتا ہے اور دنیا کے کاموں کا نہیں رہتا۔ لیکن جس وقت اللہ پاک اس کو دوسروں کی اصلاح کے لئے واپس بھیجتا ہے تو پھر اس کو علوم دوبارہ حاصل ہونا شروع ہو جاتے ہیں جیسا کہ آپ نے بھی ایک دن کہا تھا کہ اسے اشیاء کا علم اور وہ تمام چیزیں دوبارہ حاصل ہونی چاہئیں۔ مخلوق کی طرف اس کا رخ کرنے کو نزول کہتے ہیں۔ یہ بات بالکل مشاہدے میں ہے کہ جب انسان سلوک پر چلتا ہے تو یہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں اور انسان کے اوپر یہ حالات گزرتے ہیں، لیکن مختلف لوگوں کے لئے ان کے الوان مختلف ہو سکتے ہیں کیوں کہ ہر شخص کا اپنا مزاج ہوتا ہے جس کے حساب سے ان پر اپنا اپنا رنگ آتا ہے۔ لیکن بہر حال یہ چیزیں سب کے لئے ہوتی ہیں۔
سوال نمبر11:
حضرت! مراقبے میں دل لگانے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:
جیسے میں نے آپ سے عرض کیا کہ اگر ہدف واضح ہو تو دل خود بخود لگتا ہے۔ نفس کی مزاحمت ضرور ہوتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں لیکن اپنے نفس کو مجبور کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے ہمت کرنی پڑتی ہے کیوں کہ نفس کے خلاف ہمت ہی کار گر ہے، اس کو زیر کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ لیکن ہدف واضح ہو، اس کی عظمت کا پتا ہو، اس کے فائدے کا احساس ہو تو پھر وہ چیز آسان ہو جاتی ہے۔ اگر ہم لوگ یہ بات اپنے آپ کو سمجھا دیں تو کام بن سکتا ہے۔ جیسے ایک شعر ہے:
دور باش افکار باطل دور باش اغیار دل
سج رہا ہے شاہِ خوباں کے لئے دربار دل
اگر یہ بات دل میں آ جائے اور انسان سمجھ جائے کہ میں اللہ کے لئے اپنے دل کو خالی کر لوں تو یہ محنت کے لئے زبردست میدان ہے، پھر انسان اس کے لئے جتنی محنت کرنا چاہے گا، کر سکے گا۔ گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ مراقبے کے لئے عقل استعمال کی جاتی ہے اور جب دل بنتا ہے تو اس کو نفس کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی ابتدا عقل کے قائل ہونے سے ہوتی ہے۔ جیسے تبلیغی جماعت میں علماء کرام بیانات کرتے ہیں جو در اصل ذہن سازی کے لئے ہوتے ہیں۔ جب ذہن بنتا ہے تو اس کے بعد دل بنتا ہے۔ یعنی اگر دل بنانے کی محنت کے لئے ذہن بن جائے تو جب دل بن جاتا ہے تو نفس محنت کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ گویا کہ یہ ترتیب ہے کہ پہلے ذہن بنتا ہے، پھر دل بنتا ہے اور پھر نفس قابو میں آتا ہے۔
سوال نمبر12:
حضرت! پرسوں سلوک سلیمانی کے درس میں آپ نے فرمایا تھا کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر بھی انسان کو وہ عطا کر دیتے ہیں جو وہ مانگتا ہے۔ اس کی تھوڑی سی تشریح فرمائیں کیونکہ حدیث شریف میں تو آتا ہے کہ جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ سے مانگیں۔
جواب:
یہ وہ والا مانگنا نہیں ہے، یہ مانگنا الگ بات ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بار بار کہتے ہیں کہ خدا کے بندو! کوڑیوں پہ نہ ریجھو۔ یعنی یہ بہت تھوڑی چیزیں ہیں، ان کے لئے اپنے اعلیٰ مقصد کو نہ چھوڑیں؟ مثلًا آپ کو ایک بڑے بادشاہ کے ہاں مدعو کیا جاتا ہے، آپ چلے جاتے ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ وہاں بہت خوبصورت چیزیں لگی ہوئی ہیں مثلًا قالین، صوفے، قمقمے وغیرہ دل لبھانے والی تمام چیزیں وہاں موجود ہیں۔ اس وقت بادشاہ کے سامنے بیٹھے ہوئے کبھی آپ ایک چیز کو دیکھ رہے ہوں، کبھی دوسری کو، کبھی تیسری کو تو بادشاہ ناراض ہو کر کہے گا یہ ساری چیزیں لے جاؤ اور اپنا کام کرو کیونکہ بادشاہ کے لئے تو کسی چیز کی کمی نہیں ہے، وہ یہ ساری چیزیں دوبارہ لے آئے گا لیکن آپ سے ناراض ہو جائے گا۔ ایک اور مثال سے آپ کو بات سمجھاتا ہوں، مثلًا آپ بادشاہ کے لئے اپنی حیثیت کے مطابق دو بوتل شہد لے جائیں اور بادشاہ کو بار بار جتانے لگیں کہ میں دو بوتل شہد لایا ہوں تو بادشاہ کہے گا کہ ان کو بیس بوتل شہد دے دو اور اکرام کے ساتھ واپس بھیج دو۔ لیکن وہ دوست نہیں بنے گا، بس بیس بوتل شہد دے کے بھیج دے گا۔ بادشاہ کا بیس بوتل شہد سے کچھ بھی نقصان نہیں ہونا۔ البتہ اس آدمی کے لئے یہ ایک تھپڑ ہے۔ اسی کے بارے میں میں کل بتا رہا تھا۔ اللہ سے مانگنا تو نیاز مندی اور عجز ہے، اس پہ تو اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ سے مانگو۔ لیکن وہ مانگنا کہ آپ دکھائیں تو بڑی چیز اور راضی اس پہ ہو جائیں جو درجے میں اس سے بہت ہی کم ہو تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ خسیس پن ہے۔
سوال نمبر13:
کوئی آدمی غیبت شروع کر دے تو اس کو روکنے کا یا اس کی توجہ ادھر ادھر کرنے کا آسان طریقہ کیا ہے؟
جواب:
میں نے کئی حضرات کو دیکھا بھی ہے اور کئی حضرات نے اس پر لکھا بھی ہے۔ ہمارے ایک ساتھی تھے، اب فوت ہو چکے ہیں۔ وہ بڑے ہی گناہوں میں مبتلا تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو توبہ کی توفیق عطا فرمائی اور وہ مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے۔ ایسے لوگ جو ٹوٹ کر آتے ہیں تو ان کی شان عجیب ہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بہت نوازتے ہیں۔ ان کی یہ حالت تھی کہ ان کے سامنے کوئی غیبت نہیں کر سکتا تھا، وہ یہ کرتے کہ جیسے ہی آپ نے غیبت شروع کی، وہ ایک دم کسی اور کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ مولانا قاضی زاہد الحسینی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب کبھی کوئی غیبت کرتا تو ساری بات سن کر فرماتے کہ وہ ایسا نہیں ہے۔ یعنی اس میں ان کی شمولیت ختم ہو گئی۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اس صورت حال میں موضوع تبدیل کر لیتے تھے۔ یہ مختلف طریقے ہیں لیکن بنیادی مقصد یہ ہو کہ اپنے آپ کو بچانا ہے اور دوسرے کو بچانے کے لئے جتنی کوشش ہو سکتی ہے وہ ”وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغ“ تک ہے۔ یعنی انسان ان کو کہہ دے کہ بھئی! کوئی اور بات چیت کر لیتے ہیں، مجھ میں بھی بہت خامیاں ہیں، آپ میں بھی بہت خامیاں ہیں، اگر ہم خامیوں کو رگیدتے رہیں گے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ ان کے لئے بھی اچھا گمان رکھیں اور میرے لئے بھی اچھا گمان رکھیں، میں آپ کے لئے اچھا گمان رکھتا ہوں۔ بہتر یہ ہے کہ ہم کچھ اور بات کریں۔
سوال نمبر14:
حضرت غیبت کو متعین کیسے کرنا ہوتا ہے؟ یعنی کون سی بات غیبت ہے اور کون سی بات غیبت نہیں ہے؟
جواب:
کسی کی پیٹھ پیچھے ایسی بات کرنا جو اس کے سامنے کی جائے تو اس سے اس کو ناراضگی یا تکلیف ہو تو یہ غیبت میں آتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات ہم ان کے سامنے بھی کر سکتے ہیں۔ سامنے کر سکنا علیحدہ بات ہے کیونکہ آپ تو لڑائی بھی سب کے سامنے کر سکتے ہیں تو کیا وہ ٹھیک بات ہو گی؟ اصل بات ناراضگی کی ہے کہ وہ اس سے ناراض ہوتا ہے یا نہیں۔ ایسی بات جس سے وہ ناراض ہو، اس کے سامنے کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔
سوال نمبر15:
حضرت! کیا یہ اذکار مثلًا ”لَا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، ”لَا إِلٰہَ اِلَّا ھُو“ یا ”حَق“ ہم انفرادی طور پر کر سکتے ہیں؟
جواب:
در اصل ہمارے پاس بہت سارے حضرات آتے ہیں جن کے مزاجوں کی شناخت بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ مشائخ کا پہلا کام یہی مزاج شناسی ہے کہ وہ مرید کو پہچان لیں کہ اس کا مزاج کیا ہے۔ اگر شیخ یہ نہیں کر سکتا تو اس کے لئے کافی مشکل ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ موقع و محل شناسی بھی بہت ضروری ہے۔ مثلًا ایک شخص اپنے کاموں میں بہت مصروف ہے، اس کو آپ ایک چیز بتائیں گے، اور دوسرا شخص جو فارغ ہے، اس کو آپ دوسری چیز بتائیں گے۔ تیسرے شخص کا علوم سے تعلق ہے، چوتھا شخص مزدوری کرتا ہے تو ان میں سے ہر ایک کے لئے الگ نظام ہو گا۔
ہماری تحقیق کے مطابق آج کل کے دور میں اذکار کے ذریعے راستہ ہموار ہوتا ہے اور بنیاد بن جاتی ہے۔ مثلًا جب پنکھا چلتا ہے تو اس کے شور سے لوگ عادی ہو جاتے ہیں، پھر باہر کا نا مانوس شور سنائی نہیں دیتا جس سے انسان کو تکلیف ہوتی ہے۔ جس وقت بجلی چلی جاتی ہے اور پنکھا بند ہو جاتا ہے پھر پتا چلتا ہے کہ باہر تو بڑا شور تھا لیکن پنکھے کے شور نے ہمیں اس باہر کے شور سے بچایا ہوا تھا۔ یہی چیز ذکر جہری میں ہے کہ یہ ماحول بناتا ہے۔ مراقبے میں آپ کو خود کوشش کرنی پڑتی ہے جب کہ ذکر جہری خود بخود ماحول بناتا ہے اس وجہ سے یہ آسان راستہ ہے۔ جس وقت ماحول بن جائے تو اس کو مراقبے کے لئے استعمال کر لیں یا کسی اور اچھے کام کے لئے استعمال کر لیں لیکن بہر حال ماحول بن جائے گا۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہم سالکین کو پہلے 200، 400 پر اکٹھے لے جاتے ہیں، جب وہ اس پر آ جاتے ہیں تو اس کے بعد رستے جدا ہو جاتے ہیں، کچھ لوگ مراقبات اور لطائف کے ذریعے ان تمام چیزوں کی طرف جاتے ہیں اور کچھ لوگ اذکار کے ذریعے جاتے ہیں۔ پھر ان اذکار میں بھی مختلف قسمیں ہیں، جو ہم مزاجوں کا خیال رکھ کر سالکین کو بتاتے ہیں۔ اس طریقے سے سب کے کام ہو جاتے ہیں، ورنہ اگر میں سب کو صرف ایک طریقہ بتانے لگوں تو جس کی اس طریقے سے مناسبت ہو گی تو وہ چل جائے گا اور جس کی مناسبت نہیں ہو گی وہ پھنس جائے گا۔ اس لئے ہم مجبورًا یہ کر رہے ہیں کیونکہ اس دور میں بہت زیادہ انتشارِ ذہنی ہے، لوگوں کے کاموں کی نوعیت ایسی ہے کہ ان کی کسی چیز پہ توجہ مرکوز نہیں ہوتی اور مراقبہ میں تو یکسوئی لازمی ہوتی ہے، اگر آپ کو یکسوئی حاصل نہیں ہے تو آپ مراقبہ نہیں کر سکیں گے۔ اس میں آپ کو بہت مسائل ہوں گے۔ بعض لوگوں کے مزاج ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں یکسوئی جلدی حاصل ہو جاتی ہے اور انہیں مراقبہ جلدی آ جاتا ہے۔ جیسے خواتین بہت جلداس پر چل پڑتی ہیں۔ کچھ حضرات بھی ہوتے ہیں جن کو اس سے مناسبت ہوتی ہے تو وہ جلدی چل پڑتے ہیں، لیکن جن کو مناسبت نہ ہو ان کی مناسبت پیدا کرنے کے لئے محنت کا یہ زیادہ عمدہ طریقہ ہے۔
سوال نمبر16:
حضرت! آپ کے بیان کے علاوہ وقت میں اگر ہمارا کچھ وقت فارغ ہو تو خانقاہ میں آ کر آپ سے کچھ معمولات لے کے یہاں پہ ٹھہرنا چاہیے یا ویسے ہی وقت گزارنا چاہیے؟
جواب:
ایک معمولات ہوتے ہیں اور ایک ہوتا ہے اپنے آپ کو کسی اچھے کام میں مصروف رکھنا اور بری چیز سے خود کو بچانا، یہ بھی ایک کام ہے۔ یہ جگہ اسی مقصد کے لئے بنی ہوئی ہے۔ یہاں پر ہونے والے ذکر اذکار کو دیوار یں بھی جذب کر لیتی ہیں اور ان کا لوگوں پہ دوبارہ اثر بھی ہوتا ہے۔ یعنی اگر لوگ یہاں صرف بیٹھ جائیں تب بھی ان کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس لئے اگر کسی کے پاس فارغ وقت ہو اور وہ یہاں آ کر مسنون اذکار کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ ہمارے ہاں طریقہ یہ ہے ہم اکثر جرنیلی سڑک کی طرح جرنیلی ذکر بتاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ صبح سے لے کے دوپہر تک ”لَا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہ، دوپہر اور مغرب کے درمیان درود شریف اور مغرب کے بعد استغفار کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تینوں کی ہمیں بہت ضرورت ہے۔ کلمہ طیبہ ہر چیز کی جان ہے، درود شریف اللہ پاک کی رحمت ہی رحمت ہے اور استغفار ہماری بہت بڑی ضرورت ہے، اگر اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہمیں نجات نصیب فرمائے تو بہت بڑی بات ہے۔ اس لئے جس وقت بھی آ جائیں یہ کام ہم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن پاک کی تلاوت بھی کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی کوئی مشکل نہیں ہے، آپ بالکل آ سکتے ہیں۔ یہاں ہمارے ساتھی اپنے اپنے اوقات میں کام میں لگے رہتے ہیں کیونکہ میں تو اپنے کمرے میں بیٹھا اپنا کام کرتا ہوں۔ دوسرا کمرہ خانقاہ کے کاموں کے لئےہے اور نیچے تہ خانہ آرام کے لئے ہے۔ یہاں ماشاء اللہ ساتھی آ کر اپنا اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔
سوال نمبر17:
اگر خواب میں شیخ کی زیارت ہو جائے اور اس میں شیخ کسی بات کا حکم کرے تو اس کام کا کرنا ضروری ہو جاتا ہے یا نہیں؟
جواب:
سالک کو چاہیے کہ وہ خواب شیخ کو بتا دے۔ اگر تعبیر کا محتاج ہو گا توشیخ تعبیر کر دے گا ورنہ کہہ دے گا کہ ٹھیک ہے۔
سوال نمبر18:
پہلے ہم بارہ تسبیح میں ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ کا مراقبہ کرتے تھے اور جہری ذکر میں ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“ کا مراقبہ کرتے تھے، اب ہم ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“ اور ”حَقْ“ کے ساتھ کیا مراقبہ کریں؟
جواب:
”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ کا تو آپ کو پتا ہے، ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“ میں یہ مراقبہ ہوتا ہے کہ مخلوق سے نظر ہٹا کر صرف اسی کی طرف متوجہ ہونا۔ یعنی یہ سوچنا کہ میں سب سے کٹ رہا ہوں اور اس کی طرف متوجہ ہو رہا ہوں۔ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“ ”نہیں ہے کوئی مگر وہ، نہیں کوئی مگر وہ، نہیں کوئی مگر وہ“ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“۔ اور ”حَقْ حَقْ“ سے پہلے یہ آیت کریمہ پڑھ لیں:
﴿قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَھُوْقًا﴾ (الاسراء:81)
ترجمہ: ”اور کہو کہ: حق آن پہنچا، اور باطل مٹ گیا، اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے“۔
اور پھر یہ تصور کر لیں کہ ”حَق حَق“ کہنے سے میرے دل کے اندر جو بت بنے ہوئے ہیں وہ گر رہے ہیں، جیسے آپ ﷺ﴿قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَھُوْقًا﴾ (الاسراء:81) پڑھتے جاتے تھے اور بتوں کو گراتے جاتے تھے۔
سوال نمبر19:
حضرت! معمولات شروع کرنے سے پہلے استغفار پڑھنا چاہیے؟
جواب:
جی ہاں بالکل! روز مرہ کے معمولات شروع کرنے سے پہلے توبہ کی نیت سے تین بار استغفار پڑھ لیں۔ اگر کوئی رکاوٹ ہوئی تو کم از کم اس کی وجہ سے صفائی ہو جائے گی۔
سوال نمبر20:
دعائے انس پڑھنے سے پہلے اول و آخر درود شریف پڑھتے تھے، اب سو مرتبہ درود شریف پڑھتے ہیں تو کیا دعائے اَنس کے لیے الگ سے درود شریف پڑھنا ہوتا ہے؟
جواب:
نہیں، بس وہی کافی ہو گیا، لیکن درود شریف آپ جتنا چاہیں پڑھ لیں، وہ دعائے اَنس میں شامل نہیں ہے۔
سوال نمبر21:
السلام علیکم! میں برطانیہ سے فلاں بات کر رہا ہوں کچھ سوال ذہن میں تھے، سوچا، پوچھ لوں۔ زیادہ ترسوالات کرامتوں کے بارے میں ہیں،کم علمی کی وجہ سے آپ کو سوال بچگانہ سے لگیں گے، اس لئے بھی معذرت خواہ ہوں۔
نمبر1:
کیا کسی ولی کے لئے ممکن ہے کہ وہ خواب میں یا کشف میں یا جاگتے ہوئے اللہ کا دیدار کر سکے؟ تذکرۃ الاولیاء میں اکثر ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں ولی اللہ نے اللہ پاک کا دیدار کیا اور یہاں تک کہ کلام بھی کیا۔ با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں ہمیں ایسے حالات ملتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کے دیدار کی خواہش ظاہر کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ سے برداشت نہیں ہو گا، جب نبی سے ایسا ہونا نا ممکن ہے تو پھر ایک ولی سے کیسے ممکن ہوا؟ صحابہ کرام کے ساتھ بھی ایسے حالات پیش نہیں آئے۔ تذکرۃ الاولیاء میں بہت سارے ایسے واقعات ہیں جن پہ یقین کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ ضمنًا یہ بھی بتا دیں کہ کیا تذکرۃ الاولیاء ایک مستند کتاب ہے؟
جواب:
ما شاء اللہ! آپ نے بالکل صحیح سوال کیا ہے، اللہ پاک کا اس دنیا میں دیدار ممکن نہیں ہے، نہ خواب میں، نہ جاگتے میں، نہ کشف میں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وَرَاء الْوَرَاء ہے، آخرت میں اللہ جل شانہ اس کی طاقت عطا فرما دیں گے تو اس وقت دیدار ہو گا۔ دنیا میں صرف آپ ﷺ ہی کے لئے ایسا ہوا ہے لیکن وہ بھی اس طرح کہ آپ ﷺ لا مکان تشریف لے گئے تھے تو وہاں پر ہوا ہے، یہاں پر نہیں ہوا۔ لہذا قرآن پاک میں جو آیا ہے کہ کوئی اس کو یہاں برداشت کر نہیں سکتا وہی ٹھیک ہے۔ البتہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ وہ دیدار اللہ پاک کا نہیں ہوتا بلکہ کوئی تمثیل ہوتی ہے یعنی انسان کے ذہن میں جو آ سکتا ہے اسی کے حساب سے یہ بات ہوتی ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی بات پہنچ جاتی ہے لیکن وہ انسان جس کو دیکھ رہا ہوتا ہے وہ اللہ پاک نہیں ہوتے بلکہ کوئی صورت ہوتی ہے جو اس نے اپنے ذہن میں بنائی ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوب شریف میں وضاحت کے ساتھ بیان کر چکے ہیں۔ تذکرۃ الاولیاء میں اس قسم کی بات ہے تو وہ تشبیہ والی باتیں ہوں گی۔ اس کو ہم اللہ پاک کا دیدار نہیں کہہ سکتے۔
نمبر 2:
اکثر علماء کرام اپنے اکابرین کی شان میں ایسے واقعات بیان کرتے ہیں جن میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی نظر آتی ہے۔ یہ لوگ ایسی ایسی کرامتیں بیان کرتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی الف لیلیٰ کی کہانیاں ہیں۔ ایسے واقعات خاص طور پر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے بارے میں زیادہ مشہور ہیں۔ کچھ ایسے واقعات بھی ہیں جیسے عشاء کے وضو سے تیس سال تک فجر کی نماز پڑھنا یا تیس یا چالیس سال تک جنگل میں صرف جڑی بوٹیوں پر زندہ رہنا یا پوری رات میں تین چار دفعہ قرآن پاک پڑھنا وغیرہ۔ کیا یہ سب مبالغہ آرائی نہیں ہے؟ کیا ایسے واقعات پر اختلاف کرنا یا یقین نہ کرنا گستاخی ہو گی؟
جواب:
چونکہ انسان اسباب کے رخ سے بات کرتا ہے اور اسباب کے تحت انسان ایسے کام نہیں کر سکتا اس لئے نا ممکن لگتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اگر وہ کسی سے کوئی کام کر وائے تو ممکن ہے، جیسے آپ ﷺ سے شَقّ القَمَر کا معجزہ کروایا گیا تو کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا ہم اس کو مبالغہ کہہ سکتے ہیں؟ جس طرح پیغمبروں سے معجزات صادر ہوتے ہیں، اسی طرح اولیاء کرام سے کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام سے ایسی کرامات منقول نہیں ہیں جس طرح آج کل متاخرین کی کرامات منقول ہیں تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ان کا ایمان کامل تھا اس وجہ سے ان کو اس چیز کی ضرورت نہیں تھی لیکن ہم لوگ کمزور ہیں تو ہمیں اس چیز کی ضرورت پڑ سکتی ہے لہذا اس وقت ایسی چیزیں ہو رہی ہیں، یہ کوئی کمال کی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہماری کمزوری ہے۔ کام کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، انسان ایسا نہیں کر سکتا البتہ اللہ پاک جب کرتے ہیں تو ولی کے ہاتھ پر کر لیتے ہیں تو ان کی کرامت ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت ہوتی ہے۔
نمبر 3:
غالباً مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ یا شاید کوئی اور شخصیت تھے جن کے بارے میں سنا ہے کہ انہوں نے جسمانی حالت میں قبر سے نکل کر دو سالکین کے درمیان صلح کروائی۔ کیا یہ واقعہ صحیح ہے، کیا ایسا ممکن ہے؟
جواب:
در اصل اس کی کئی تشریحات ہو سکتی ہیں، عین ممکن ہے کہ کوئی فرشتہ ان کی صورت میں آیا ہو۔ بعض مرتبہ جاگتے میں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی سے کسی کی صورت میں ملتا ہے اور جس کی صورت میں ملتا ہے اس کو پتا بھی نہیں ہوتا۔ اس قسم کی باتیں میرے ساتھ بھی ہوئی ہیں، مجھے پتا ہے کہ وہ میں نہیں تھا لیکن جن کے ساتھ ہوا ہے ان کو ہم نہیں جھٹلا سکتے۔ لہذا اس قسم کی باتیں ممکن ہیں، البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کو انہی کا کام سمجھیں، بس یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مہربانی سمجھیں۔
نمبر 4:
میں نے کچھ ذاکرین سے سنا ہے کہ غوث، قطب اور ابدال وغیرہ دنیا کا نظام چلاتے ہیں۔ مثلًا کہیں بارش برسانا، کہیں زلزلے کنٹرول کرنا اور کہیں کچھ اور کرنا۔ کیا یہ صحیح ہے؟ بالکل یہی عقیدہ شیعہ حضرات کا ہے جو کہتے ہیں کہ امام دنیا کا نظام چلا رہے ہیں۔ وضاحت سے بتا دیں۔
جواب:
در اصل نظام تو اللہ تعالیٰ ہی چلا رہے ہیں البتہ اللہ پاک ذریعہ کسی کو بھی بنا سکتے ہیں۔ اگر فرشتوں کو ذریعہ بنا سکتے ہیں تو انسانوں کو کیوں نہیں بنا سکتے؟ فرشتوں کو بھی تو اللہ ہی ذریعہ بنا رہے ہیں، جبرائیل علیہ السلام وحی لاتے تھے۔ اللہ پاک براہِ راست بھی آپ ﷺ کے دل پر اتار سکتے تھے لیکن جبرائیل علیہ السلام کو ذریعہ بنایا، میکائیل علیہ السلام کو بارشوں کے نظام پہ لگایا ہوا ہے، اسرافیل علیہ السلام کو صور پھونکنے پر لگایا ہوا ہے، عزرائیل علیہ السلام کو روح قبض کرنے پر۔ ان کے پاس ملائکۃ الموت کی ایک پوری فوج ہے۔ لہذا جس طرح فرشتوں سے تکوینی کام لیتے ہیں اس طرح کچھ انسانوں سے بھی لیتے ہیں تو ان میں ہی غوث، قطب اور ابدال وغیرہ ہوتے ہیں۔
باقی شیعہ لوگ جو بات کرتے ہیں وہ بالکل مختلف ہے۔ شیعہ لوگ تو اماموں کو انبیاء سے بھی افضل سمجھتے ہیں لہذا وہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے۔ وہ امامت کا عقیدہ ہے۔ ہم صرف اولیاء اللہ کو سمجھتے ہیں کہ اللہ کے بندے ہوتے ہیں اور اللہ پاک جن سے جو کام لینا چاہتے ہیں تو لے لیتے ہیں۔ لیکن بہرحال! وہ خود اس طرح نہیں کر سکتے۔
نمبر 5:
کیا ولی اللہ معصوم ہوتے ہیں،کیا ولی سے غلطی ہو سکتی ہے؟ خاص طور سے دنیاوی معاملات میں کچھ شیوخ سیاست میں آتے ہیں اور ان کے مریدوں کو ان کی پیروی کرنی پڑتی ہے جب کہ سیاست میں تو اختلاف ہونا بہت ضروری ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
اولیاء اللہ معصوم نہیں ہوتے محفوظ ہو سکتے ہیں، یعنی اللہ پاک ان کو توبہ کی توفیق عطا فرما دیتے ہیں یا کسی اور طریقے سے بچا دیتے ہیں۔ ان سے غلطی ہو سکتی ہے لیکن وہ اس غلطی پہ قائم نہیں رہتے، توبہ کر لیتے ہیں۔ دنیاوی معاملات میں بھی وہ غلطی کر سکتے ہیں کیونکہ دنیاوی معاملات کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسباب بنائے ہوئے ہیں، سبب کی غلطی سے کام غلط ہو سکتا ہے لہذا یہ بات نہیں ہے کہ اختلاف نہ ہو۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا پاکستان بننے پر آپس میں اختلاف تھا۔ سیاست میں اختلاف بالکل ممکن ہے۔
نمبر 6:
آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ کشف پر یقین کر لینا یا صحیح مان لینا غلطی ہو گی، کیا یہ صرف سالک کے بارے میں ہے ؟کیونکہ کتابوں میں تو بزرگوں کے کشف اور روحانی تجربات کے واقعات جا بجا ملتے ہیں اور لکھنے والے تو ان کو حقیقت کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
جواب:
در اصل بات یہ ہے کہ کشف ظنی ہوتا ہے، یقینی نہیں ہوتا لہذا جو بات یقینی نہیں ہوتی اس پر دو رائے ہو سکتی ہیں، عین ممکن ہے کہ صحیح ہو اور عین ممکن ہے کہ صحیح نہ ہو۔ ہم اس کو خواہ مخواہ غلط بھی نہیں کہہ سکتے اور خواہ مخواہ صحیح بھی نہیں کہہ سکتے بلکہ تحقیقی بات معتبر ہو گی اور تحقیق یہ ہے کہ اگر کشف شریعت کے مطابق ہے تو ٹھیک ہے اور شریعت کے مطابق نہیں ہے تو ٹھیک نہیں ہے چاہے کسی کا بھی کشف یا خواب ہو۔
سوال نمبر22:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی مجھے درج ذیل ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے:
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 400 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 300 مرتبہ۔
آئندہ کے لئے رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
اب آپ اس ترتیب سے ذکر کیا کریں:
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 100 مرتبہ۔
سوال نمبر23:
السلام علیکم حضرت جی! ذکر کے سلسلے میں ہدایت فرما دیں، میرا ذکر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ 200 مرتبہ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حق 600 مرتبہ اور اللّٰہ 300 مرتبہ ہے۔ اس کو ایک مہینہ مکمل ہو گیا ہے۔
جواب:
اب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ 200 مرتبہ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حق 600 مرتبہ اور اللّٰہ 500 مرتبہ کر لیں۔
سوال نمبر24:
السلام علیکم! درج ذیل لطائف پر مراقبہ کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے: لطیفۂ قلب پر 20 منٹ، لطیفۂ روح پر 15 منٹ۔ تقریباً 5 منٹ کے لئے دونوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب اگلے ایک ماہ تک آپ دونوں لطائف پر 20 منٹ مراقبہ کیا کریں۔
سوال نمبر25:
السلام علیکم شاہ صاحب! میرے مراقبہ تنزیہ صفات سلبیہ کو ساٹھ دن ہو چکے ہیں۔ اور تو کچھ پتا نہیں چلا البتہ یہ پتا ضرور چلا کہ میں نے ابھی سلوک کا سفر شروع نہیں کیا تھا اور بزرگی کے خیالات نے گھیرا ہوا تھا، سلسلے کی برکت کو اپنا قرب سمجھ کے ناز کی کیفیت میں مبتلا تھا اور اپنے خیالات کو کیفیات سمجھ رہا تھا، وہ ختم ہو گیا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک اور مسئلہ مسلسل خطرناک لگ رہا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے میں اپنا ذکر فجر کی نماز سے بھی پہلے کر لیتا تھا جب کہ آج کل صبح کی جماعت سے بھی رہ جاتا ہوں۔ نفس کے اوپر قابو نہ ہونے کے برابر ہے، اعمال پورے تو کر لیتا ہوں لیکن تھکے تھکے سے انداز میں کر پاتا ہوں۔ پھر بھی نیکی کا تکبر نیکیوں کو خراب کر رہا ہے۔ مجھ میں بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے کافی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس تحریر میں بھی اگر کوئی بات صحیح نہ ہو تو معافی چاہتا ہوں۔
جواب:
چونکہ آپ نے مراقبہ تنزیہ ساٹھ دن کر لیا ہے اس لئے اب مراقبہ شانِ جامع کرنا شروع کر دیں۔ شانِ جامع سے مراد یہ ہے کہ چاروں مراقبات کا نچوڑ یعنی اس بات کا یقین کہ اللہ پاک سب کچھ کر رہے ہیں اور اللہ پاک کی تمام صفات آپ کو مستحضر ہوں اور اللہ کی ذات پر آپ کو یقین ہو۔ نیز یہ بھی کہ اللہ پاک جیسا کوئی بھی نہیں ہے۔ ان سب کے بارے میں آپ سوچیں کہ یہ فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے اور وہاں سے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے اور شیخ کے قلب سے آپ کے لطیفۂ اخفیٰ پہ آ رہا ہے۔ باقی عجب والی بات کے پیدا ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا کیونکہ جب آپ کہہ رہے ہیں کہ میری ایسی حالت ہے تو پھر عجب کا خیال صرف اپنے آپ کو دھوکا دینے والی بات ہے۔ اس لئے یا تو آپ کی یہ باتیں صحیح نہیں ہیں یا پھرآپ کی وہ بات صحیح نہیں ہے۔ لہذا آپ ایسے خیالات کی بالکل پرواہ نہ کریں، یہ سب وسوسے ہیں۔
فجر کی نماز کے لئے پہلے آپ کو باقاعدہ کوشش شروع کرنی چاہیے، آپ فجر کی نماز باجماعت اور تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کر لیں۔ آپ کے لئے مجاہدے کی بات یہی ہے کہ آپ ہر نماز کا تکبیر اولیٰ کے ساتھ ایک چلہ مکمل کر لیں، ان شاء اللہ العزیز اس سے بہت ساری چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو صحیح طور پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سوال نمبر26:
السلام علیکم حضرت! میں فلاں ہوں اللہ پاک آپ کو ہر طرح کی عافیت اور صحت سے رکھے۔ حضرت جی! مراقبہ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ (البروج: 16) کے بارے میں نا سمجھی کی وجہ سے ذہن میں کچھ سوال آ رہے ہیں، آپ رہنمائی فرما دیں، حضرت جی ہر چیز کا فائدہ یا نقصان اللہ کی مرضی سے پہنچتا ہے کیونکہ وہ جیسا چاہے ویسا ہی ارادہ فرماتا ہے اور سب کچھ کر سکتا ہے کیونکہ یہ اس کی شان ہے لیکن حضرت جی بعض جگہوں پر انسان کو بالکل نہیں سمجھ آتی کہ وہ کیا کرے۔ مثلًا دنیاوی امور میں بعض دفعہ انسان اسباب نہیں اختیار کر رہا ہوتا یا بعض اوقات اچھے اسباب اختیار کرتا ہے مگر اس کے فائدے سے محرومی ہو جاتی ہے یا کوئی نقصان ہو جاتا ہے۔ اس میں انسان کے ارادے اور اللہ پاک کے ارادے کا کیسے پتا چلتا ہے؟ آپ نے پچھلی مجلس میں فرمایا تھا کہ اس مراقبے میں اللہ پر توکل حاصل ہوتا ہے۔ کبھی کبھار انسان کوشش بھی کرتا ہے، دعا بھی کرتا ہے، استخارہ بھی کرتا ہے اور لوگوں سے مشورہ بھی کرتا ہے لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے۔ کوشش کے بعد بھی بے چین اور متردد ہی رہتی ہوں۔ یہ میری اپنی سستی ہے یا اللہ پاک کی مرضی اور اس کا ارادہ ہے؟ جیسے کوئی ملازمت کرنے میں بہتری ہو یا نقصان کا اندیشہ ہو تو بعض دفعہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی دل و دماغ مطمئن نہیں ہو رہے ہوتے، میں ہمیشہ تذبذب کی کیفیت میں رہتی ہوں۔
اگرچہ ابھی مجھے کسی اور شخص کی جگہ کام ملا ہے جو کچھ ماہ کے لئے کام چھوڑ کر چلا گیا ہے اور کچھ اندیشہ ہےکہ جب وہ واپس آئے گا تو تین مہینے کے بعد مجھے اپنا کام چھوڑنا پڑ سکتا ہے تو ایک توکل یہ ہے کہ اللہ پر بھروسہ کر کے اطمینان کر لوں کہ ابھی بھی اس کے فضل سے کام مل رہا ہے اور اس کے بعد چھوڑنا پڑا تو بھی اللہ پاک دینے پر قادر ہیں، اس کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا اور دوسرے توکل کے اسباب اختیار کرتے رہیں اور دوسری جگہ بھی کام کی تلاش میں لگیں رہیں۔ ساتھ ساتھ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ اپنے حالات کے اعتبار سے کون سی جگہ اور کون سے اوقات جاب لینے کے لئے بہتر ہوں گے۔ اس معاملے میں گھر والوں سے مشورہ بھی کرتی ہوں اور بعض اوقات دعا بھی کرتی رہتی ہوں لیکن دل کسی ایک بات پر مطمئن نہیں ہوتا، اس کی وجہ نہیں سمجھ آتی۔ مجھے واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ وہ شخص واپس آئے گا تو آپ کو جانا پڑے گا۔ کمی میرے اندر ہی ہے لیکن میں اس کو ٹھیک نہیں کر پا رہی، حضرت جی! توکل کیسے کروں اس کا طریقہ سمجھ نہیں آیا۔
جواب:
در اصل بات یہ ہے کہ اس وقت آپ رستے میں ہیں مگر نتائج پہلے چاہ رہی ہیں۔ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ شروع کرتے ہی آپ کو سب کچھ مکمل مل جائے گا۔ مقام توکل تو سلوک طے کرنے سے ملتا ہے۔ سلوک میں ساتواں مقام، مقامِ توکل ہے۔ اِس وقت تو آپ کو صرف اس کی ایک جھلک ہی مل سکتی ہے جو آپ کو مل رہی ہو گی۔ آپ مراقبہ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ (البروج: 16) پر اپنی سوچ مرکوز رکھیں اور اس کو پابندی سے کرتی رہیں۔ اس کے علاوہ جو آپ کے ساتھ تذبذب کی کیفیت کا مسئلہ ہے اس کا تعلق توکل سے نہین ہے وہ ایک علمی مسئلہ ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ آپ استخارے یا مشورے سے سوچ سمجھ کر جو بہترین اسباب ہو سکتے ہیں وہ اختیار کریں لیکن اس کا نتیجہ خدا پر چھوڑ دیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان اسباب کو ناکام کر دے تو اسی میں آپ کی بہتری ہو گی اور اگر وہ اس سے کام چلائے تو وہ فیصلہ بھی اسی کا ہو گا۔ اس وقت اتنا ہی توکل آپ کے لئے کافی ہے۔
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر
سوال نمبر27:
السلام علیکم حضرت! میرے ذکر کو دو مہینے ہو گئے ہیں۔ میرا ذکر یہ ہے: ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ 200 مرتبہ، ”اِلَّا اللّٰہ“ 200 مرتبہ، ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“ 200 مرتبہ، ”حَق“ 500 مرتبہ اور ہر لطیفہ پر اللہ 5 منٹ کے لئے محسوس کرنا ہے۔ ذکر اور مراقبے میں 4 سے 5 ناغے ہیں۔ ایک نماز والا مراقبہ تھا کہ ہر نماز سے پہلے 5 منٹ یہ سوچنا ہے کہ میں اللہ کا ہوں اور اللہ کے سامنے جیسے کھڑا ہونا چاہیے ویسے کھڑا ہونا ہے اور نماز کے الفاظ پر غور کرنا ہے۔ اس مراقبے میں 5 منٹ نہیں ہو پاتے کیونکہ اکثر نماز کے وقت دفتر میں ہوتا ہوں اس لئے یہ ابھی تک ٹھیک نہیں ہو رہا۔ ذکر، مراقبہ، اوابین، تہجد کے علاوہ معمولات میں بھی سستی ہے۔ شروع میں 6 سال سے صلٰوۃ تسبیح کا روزانہ معمول تھا، آپ سے پوچھا تھا، جس پر آپ نے فرمایا تھا کہ اگر اس کو آسانی سے کر سکتے ہیں تو کر لیں۔ اس کے بعد سے مسلسل ناغے ہو رہے ہیں۔
جواب:
باقی ساری باتیں چھوڑیں۔ بس یہی ذکر کرتے رہیں اور جن معمولات کے بارے میں آپ نے کہا ہے کہ سستی ہے، ان سستیوں کو دور کر کے ایک ماہ بعد مجھے اطلاع کریں۔
سوال نمبر29:
السلام علیکم و رحمۃ و برکاتہ شاہ صاحب! اللہ آپ کی زندگی میں برکت ڈالیں، الحمد للہ نوافل مراقبہ اور معمولات لکھنا شروع کر دیے ہیں۔
جواب:
ٹھیک ہے۔ اللہ پاک مزید کی توفیق دیں۔
سوال نمبر30:
السلام علیکم و رحمۃ و برکاتہ حضرت اقدس! امید ہے مزاج بخیر و عافیت ہوں گے۔ الحمد لہ بندہ کو حضرت کی تعلیمات سے بہت نفع ہو رہا ہے۔ حال میں جب کوئی مشترک کام میں مسلسل خلاف ورزی کرتا ہے یا کوئی بندےکو بار بار دھوکا دیتا ہے تو ضرور کچھ کہنا پڑتا ہے اور بار بار ناراضگی ہوتی ہے اور ملنے کو بھی جی نہیں چاہتا یا ملنے کے بعد گفتگو میں انشراح نہیں ہوتا اور ساتھ یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ تم پر اس کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
غلط کو غلط کہنا بالکل صحیح ہے لیکن نتیجہ اللہ تعالیٰ پہ چھوڑنا چاہیے کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس وقت یہ اچھا نہ ہو لیکن بعد میں اچھا ہو جائے۔ غلط کام کو تو بہر حال غلط ہی کہنا ہوتا ہے۔ لہذا اگر کسی وجہ سے طبعی طور پر کسی کے ساتھ ملنے کو جی نہیں چاہتا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ انسان کا اپنے دل کے اوپر کوئی قابو نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شرعی عذر نہ ہو تو عملی طور پر ان کے ساتھ ملنے جلنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال نمبر31:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
نمبر1:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ، لطیفۂ خفی 10 منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ 15 منٹ۔ ان تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب ان کو مراقبہ احدیت دے دیں۔
نمبر 2:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ اور لطیفۂ خفی 15 منٹ۔ ان تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے الحمد للہ۔
جواب:
اب ان کو لطیفۂ اخفیٰ کا 15 منٹ بتا دیں اور یہ باقی 10، 10 منٹ ہوں گے۔
نمبر 3:
لطیفۂ قلب 10 منٹ۔ ذکر کبھی محسوس ہوتا ہے اور کبھی محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
ان کو اب 15 منٹ لطیفۂ قلب کا بتا دیں۔
نمبر 4:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ اورلطیفۂ سر 10 منٹ۔ قلب اور روح پر ذکر محسوس ہوتا ہے اور سر کا ذکر صحیح مقام پر محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
10، 10 منٹ لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح کر لیں اور لطیفۂ سر پر 15 منٹ کر لیں لیکن انگوٹھا لطیفۂ سر کے مقام یہ رکھ کر کر لیا کریں کہ اس کے نیچے ہو رہا ہے۔
نمبر 5:
ابتدائی ذکر بلا ناغہ پورا کر لیا ہے۔
جواب:
اب ان کو 15منٹ کے لئے لطیفۂ قلب کا بتا دیں اور تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار بھی بتا دیں۔
نمبر6:
تمام لطائف میں 10 منٹ ذکر اور 15 منٹ مراقبہ احدیت۔ کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
ان کو مراقبہ احدیت کے بارے میں بتا دیں کہ یہ اصل میں کیا ہے۔ فیض کو محسوس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اعمال کی توفیقات ہو رہی ہیں۔ اور یہ بھی بتا دیں کہ تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر محسوس کرنا ہے اور 15 منٹ یہ فیض محسوس کرنا ہے۔
سوال نمبر32:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت میرا موجودہ ذکر مندرجہ ذیل ہے:
قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ پر 5 منٹ کا مراقبہ ہے، الحمد للہ تصور کے ساتھ سب پر اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے۔ نیز اس کا 15 منٹ کے لئے تصور کرنا ہے کہ اللہ کی شان کے مطابق وہاں سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر فیض آ رہا ہے اور وہاں سے میرے شیخ کے قلب مبارک پر اور وہاں سے میرے قلب پر آ رہا ہے۔ اس کے ساتھ کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میرے جسم میں کوئی چیز اوپر سے داخل ہو رہی ہے اور پورے جسم میں پھیل رہی ہے۔ لیکن اکثر اوقات کچھ بھی محسوس نہیں کرتا اور فیض ایک روشنی کا تصور کرتے ہوئے وصول کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
جواب:
روشنی کا تصور چھوڑ دیں، محض فیض کے تصور کو ایک مہینہ مزید کر لیں۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ