اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
أَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم حضرت جی! کچھ عرصہ پہلے آپ سے ذکر لیا تھا، مگر چند ماہ کرنے کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوا اس وقت درج ذیل ذکر پہ تھا: ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”اِلَّا اللّٰہ“ 400 مرتبہ، ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“ 600 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 100 مرتبہ۔
جواب:
آپ مزید ایک مہینہ یہی ذکر جاری رکھیں،اس کے بعد رابطہ کر لیں تو آپ کو ان شاء اللہ اگلا سبق دے دیا جائے گا۔
سوال نمبر 2:
حضرت جی! آپ سے بات ہو سکتی ہے؟ آپ نے ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ 2500 دفعہ پڑھنے کے لئے دیا تھا، اس کوایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔
جواب:
آپ اب اس کو 3000 مرتبہ کر لیا کریں اور یہ ایک مہینہ کر کے پھر مجھے اطلاع کر دیں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم حضرت جی! قلب، عقل اور نفس کی اصلاح میں نفس کا زور سب سے زیادہ ہوتا ہے، اس لئے اس کی اصلاح سب سے مشکل ہے جب کہ سالکین ذکر و بیانات میں زیادہ شامل ہوتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ مجاہدہ معمولات رذائل کا پیش کرنا اور اس سلسلہ میں شیخ سے مجاہدہ لینا وغیرہ میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ اور اس کا آسان حل کیا ہے؟
جواب:
در اصل یہ تینوں بہت اہم ہیں اور تینوں آپس میں متعلق ہیں اور ایک دوسرے سے اثر لیتے ہیں ہیں،کسی ایک چیز کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، اگر ہم لوگ کسی ایک کو علیحدہ کر لیں تو کام نہیں ہو سکتا۔ مثلًا اگر صرف نفس کی اصلاح کرنے کی کوشش کر لیں اور مجاہدہ وغیرہ کر لیں تو دل کی اصلاح ساتھ نہیں ہو گی تو وہ جوگ بن جائے گا جیسے جوگی کرتے ہیں۔ چونکہ اس کے لئے ایمان کی بھی ضرورت نہیں ہے مجاہدات سے کچھ ایسی چیزیں حاصل ہو جاتی ہیں جس سے انسان کو کچھ محیر العقول قوتیں حاصل ہو جاتی ہیں لیکن اس کا دنیا میں فائدہ ہو گا دین کے لئے نہیں ہو گا لہٰذا صرف نفس کا علاج بھی فائدہ مند نہیں ہو سکتا اور صرف دل کا علاج بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر صرف دل کا علاج کر لیں اور نفس کا علاج نہ کریں تو دوبارہ عود ہو جاتا ہے۔ صرف دل کا علاج کرنا ایسا ہے جیسے کوئی حوض کی صفائی کر لے لیکن اس میں جو نہریں پڑتی ہوں ان کی صفائی نہ کرے تو تھوڑی دیر کے بعد وہ حوض دوبارہ گندہ ہو جائے گا۔ اسی طرح صرف عقل کا علاج بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ صرف عقل کا علاج اگر کوئی کرتا ہے تو اول تو اس کو سمجھ ہی نہیں آئے گی کیونکہ نفس اپنی شرارت کرے گا اور دل میں موجود دنیا کی محبت اپنا مسئلہ کرے گی اور عقل اسی کا ساتھ دے گی لیکن اگر وقتی طور پر آپ سوچ بھی لیں تو وہ بہت جلد انسان کی جھوٹی محبت کاشکار ہو جائے گا اور نفس کی سستی حائل آ جائے گی وہ مقصد حاصل نہیں ہو گا۔ اس لئے ان تینوں کو ساتھ لے کے چلنا ہوتا ہے اور ترتیب یہی ہے کہ شیخ پر اعتماد ہو۔اگر شیخ پہ اعتماد ہو تو پھر وہ جو بھی چیز دے تو وہ اس پر عمل کرے گا۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان اس بات کے لئے تیار ہو جائے کہ جب میں نے اپنا علاج کرنا ہے تو اتنی عقل اس کے پاس ہونی چاہیے کہ اگر میں خود اس کا علاج جانتا ہوتا تو میں یہاں کیوں آتا؟ لیکن اگر خود نہیں جانتا تو پھر ظاہر ہے، جاننے والوں سے پوچھنا پڑتا ہے اور ان پہ اعتماد بھی کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے اگر وہ اس بات کو ہی ٹھان لے کہ میرےشیخ میرے لئے خیر خواہ ہیں، بد خواہ نہیں ہیں،وہ جو کچھ مجھے کہتے ہیں میرے لئے اس میں فائدہ ہے تو اس کا علاج ہو جاتا ہے، اس حالت کوفنا فی الشیخ کہا جاتا ہے، یہ علاج کا پہلا مرحلہ ہے۔
در اصل دنیا عاجلہ ہے اور آخرت آجلہ ہے، ایمان بالغیب والی چیزیں آجلہ ہوتی ہیں اور مشاہدہ والی چیزیں عاجلہ ہوتی ہیں اور جو چیزیں مشاہدہ کے زیادہ قریب ہیں تو فطری طور پر وہ آجلہ کی نسبت زیادہ اثر کرتی ہیں اس لئے آپ اسی راستے سے ہی آجلہ کی طرف جائیں گے۔ یہ پہلا مرحلہ دنیا کے قریب ہوتا ہے، اسی میں سے گزرنا ہوتا ہے اور جو دنیا کے قریب ہوتا ہے اس کی طرف کشش زیادہ ہوتی ہے۔ ان تینوں یعنی اللہ جل شانہ، آپ ﷺ اور شیخ میں دنیا کے سب سے زیادہ شیخ ہے کیونکہ وہ مشاہدے میں نظر آتا ہے تو اس کے ساتھ جب تعلق بنتا ہے تو یہ زیادہ آسان ہے اور فطری ہے۔ یہ تعلق چونکہ اللہ کے لئے بنے گا لہٰذا اس تعلق میں خطرہ نہیں ہو گا بلکہ فائدہ ہو گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسی سے سیکھ کر وہ فنا فی الرسول ہو گا اور سنتوں پہ چلے گا۔ پھر آپ ﷺ کو جس طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والا، اللہ کی اطاعت کرنے والا، اللہ پاک کے سامنے اپنی بات کو چھوڑنے والا دیکھے گا تو اس سے وہ خود بخود وہ فنا فی اللہ کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ گویا کہ یہ بالکل فطری ترتیب ہے کہ پہلے فی شیخ ہوتا ہے، پھر فنا فی الرسول ہوتا ہے اورپھر فنا فی اللہ ہوتا ہے۔
لوگ علمی اور نظریاتی بات کرتے ہیں اور علمی و نظریاتی باتوں میں فنا فی اللہ پہلے ہے لیکن عملی طور پر فنا الشیخ پہلے آتا ہے۔ اس لئے سارے مشائخ اور سارے جاننے والوں نے کہا ہے کہ شیخ کے ساتھ جس کو جتنا زیادہ تعلق ہو گا اتنا وہ آگے بڑھے گا۔ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے ہم زیادہ نہیں جانتے، ان کی غزل کا شعر ہے جس میں ایک فقرہ یہ ہے:
گویا کہ بظاہر میں خدا بھول گیا ہوں
یعنی میں اپنے شیخ میں اتنا مستغرق ہوں کہ جیسے اللہ مجھے یاد نہیں ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا، اللہ پاک یاد ہوتا ہے صرف ظاہری نگاہوں سے ایسا لگتا ہے۔ بہرحال وہی شیخ سالک کو فنا فی الرسول کے دروازے پہ کھڑا کر دیتا ہے اور آپ ﷺ سے اس کو اللہ جل شانہ تک پہنچا دیتا ہے۔ گویا کہ یہ ترتیب ہے اور اسی ترتیب سے سب کچھ کرنا ہوتا ہے۔
حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی بات بڑے غور سے سننے اور اچھی طرح سمجھنے کے لائق ہے، فرماتے ہیں کہ اگر حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ دونوں موجود ہوں تو ہم جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایک نگاہ بھی نہیں دیکھیں گے، ہم تو صرف حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف دیکھیں گے۔ حالانکہ بزرگی کے لحاظ سے جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ بہت زیادہ آگے ہیں لیکن گویا کہ انہوں نے کہا کہ مجھے تو فائدہ ان سے ملے گا کیونکہ میں تو ان کے ساتھ رابطہ میں ہوں۔ بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قبر سے استفادہ بھی تب ہو سکتا ہے جب جیتے جی کسی شیخ سے نسبت حاصل ہو چکی ہو۔جب نسبت حاصل ہو تو پھر قبر سے بھی استفادہ ہو سکتا ہے لیکن نسبت حاصل نہ ہو تو زندہ سے بھی نہیں ہو سکتا۔
حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا مردے سنتے ہیں؟ چونکہ وہ تقریر کے بادشاہ تھے، فرمایا میں تو سنا سنا کے تھک گیا ہوں، میری تو زندہ نہیں سنتے، ان مردوں کے بارے میں کیا جواب دوں؟ اگر ایک انسان اپنے شیخ کے ساتھ تعلق مضبوط کر لے اور کوشش کر لے کہ اس کے ساتھ محبت ہو جائے کیونکہ محبت اس سلسلے میں عقیدت کے مقابلہ میں زیادہ مضبوط چیز ہے۔عقیدت مفادات کی وجہ سے پیچھے رہ جاتی ہے جیسے ابھی حالیہ انتخابات میں ہوا کہ جن کے ساتھ عقیدت تھی ان کو چھوڑ دیا۔اس لئے عقیدت اتنی مضبوط چیز نہیں ہے۔
دار العلوم کراچی میں بنگلہ دیش کے ایک عالم آئے ہوئے تھے، انہوں نے بیان کیا جو ہم نے بھی سنا، اس میں انہوں نے فرمایا کہ وہاں پر ایک پیر صاحب تھے، انتخابات میں انہوں نے یہ سوچ کر اپنا آدمی کھڑا کیا کہ میں سب کا پیر ہوں، اس علاقے میں میرے لاکھوں مرید ہیں اس لئے میرے بندے کی جیت یقینی ہے، لیکن جب نتیجہ آیا تو ان کے بندے کوصرف چند ہزار ووٹ ملے، فریق محالف کے ووٹ بہت زیادہ تھے۔ ان کو بڑا اچنبھا ہو ا اور حیران رہ گئے کہ یہ کیسے ہوا۔ جب انہوں نے لوگوں سے رابطہ کیا انہوں نے کہا کہ پیر صاحب ہمارے پیر ہیں لیکن ہماری گلی کا کام کون کرے گا؟ ہمارے فلاں کام کون کرے گا؟ ان کاموں کے لئے ہمیں ان لوگوں کے پاس جانا پڑتا ہے جن کو ہم نے ووٹ دیا۔ وہاں مسئلہ یہی تھا کہ عقیدت تھی لیکن محبت نہیں تھی، اگر محبت ہوتی تو ایسی بات نہ ہوتی۔ شیطان کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے کہ اس کو محبت نہیں تھی جس کی وجہ سے پیچھے رہ گیا۔ اس لئے محبت حاصل کرنے کی کوشش کر لو یہ بہت مستحکم چیز ہے۔ اگر یہ ہو جائے تو پھر شیخ جو بھی کہے گا اس پر عمل کرنا آسان ہو جائے گا۔ شیخ اپنے تجربے کی بنیاد پر کبھی کچی بات نہیں کرتا، وہ وہی بات کرے گا جو کہ آپ کے لئے اس وقت مناسب ہو گی لیکن بہرحال! یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ مجھے شیخ جو کہے گا میں وہی کروں گا، اس کے علاوہ آپ کے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم حضرت جی! کبھی کبھار گھر میں کچھ ایسا ہوتا ہے ہمارے پاس اسے برداشت کرنے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ اس پر اگر ہم کہیں کہ اللہ جی کے لئے خوشی خوشی برداشت کر لیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہوتی نہیں تو ایسا کہنا یا ایسا سمجھنا صحیح ہے یا نہیں؟ یعنی اصل میں ایسا کرنے سے ثواب ملتا ہے ایسی حالت میں تو نہیں ملے گا تو ایسا کہنے سے فائدہ کیا ہو گا؟
جواب:
صبر کی تعریف یہ ہے کہ آپ کے لئے جو نا خوشگوار حالات ہیں ان میں آپ ایسی کوئی بات نہ کریں جو آپ کی آخرت کو نقصان پہنچائے۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ اچھی باتیں کریں کیونکہ وہ تو بہت اونچا مقام ہے جس کو شکر کہتے ہیں۔ اس حالت میں شکر کرنا بڑے لوگوں کی بات ہے۔ لیکن صبر کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے آپ کو دینی نقصان ہو۔ اس صور ت حال میں یہ چیز آپ کو حاصل ہے، اگر آپ برداشت کرتی ہیں اور کوئی ایسی بات نہیں کرتیں جس سے آپ کی آخرت کو نقصان ہو تو یہ صبر ہے۔ بیشک آپ اس کو صرف عقلاً ہی کر لیں طبعاً نہ کریں، یعنی آپ یہ سوچ لیں کہ اگر میں صبر نہ کروں تو مجھے کیا فائدہ ہے؟ اور اسی پر آپ مطمئن ہو جائیں تو یہ بھی صبر ہے۔
﴿ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ﴾ (البقرہ: 153)
ترجمہ: ”بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔
اس لئے اس میں کوئی ایسی بات نہیں، ثواب تو بہت کم چیز ہے، اس کی وجہ سے تو خود اللہ آپ کے ساتھ ہوں گے۔
سوال نمبر5:
اگر گھر میں کوئی نا چاقی کی صورت بن جائے اور ہم اتنے کمزور ہوں کہ ہم اپنے لئے کوئی قدم اٹھانے کے قابل ہی نہ ہوں، مجبوراً ہمیں برداشت کرنا پڑے تو اس صورت میں اگر ہم نیت کر لیں کہ ہم خوشی خوشی اللہ پاک کے لئے برداشت کر لیں لیکن یہ حقیقت نہ ہو بلکہ صرف خوش فہمی ہو تو کیا اس نیت سے کوئی ثواب ہو گا؟ جیسے اختیار ہوتے ہوئے برداشت کرنے کا ثواب ملتا ہے۔
جواب:
در اصل بے اختیاری بھی ایک مصیبت ہے اور اس مصیبت پر صبر کرنا بھی باعث اجر ہے۔ مثال کے طور پر کوئی آپ کو پکڑ لے اور مارنا شروع کر دے، آپ نہ بھاگ سکتے ہوں نہ بچ سکتے ہوں آپ نے بغیر جرم کے مار کھائی کیونکہ ممکن ہے کہ اس نے آپ کو غلط فہمی میں پکڑا ہو لیکن بہرحال مار کھا لی، اب اس صورت میں آپ نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے اللہ ناراض ہو، بس آپ نے برداشت کر لیا۔ بھلے آپ روئے بھی، آنکھوں سے آنسو بھی آئے لیکن کوئی ایسی بات نہیں کی تو یہ کافی ہے، یہی صبر ہے۔ اگر آپ نے اس میں شکر کیا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ مصیبت کے قابل تھا لیکن مجھے اللہ پاک نے آسانی کے ساتھ چھوڑ دیا تو اس پر ان شاء اللہ آپ کے درجات بلند ہوں گے۔ صبر سے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے اور رفع درجات ہوتا ہے اور جزع فزع سے ساری چیزیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ جزع فزع نہیں کرنی چاہیے، برداشت اچھی بات ہے، اسی کو ہم صبر کہتے ہیں۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت! میں نے اپنی فجر کی نماز کے بارے میں عرض کرنا ہے۔ حضرت! پچھلے ایک مہینے میں صرف ایک بار مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے گیا ہوں باقی سب دنوں میں گھر ہی میں پڑھ لیتا ہوں۔ الارم بھی لگاتا ہوں لیکن اس وقت اٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ جب نماز قضا ہونے میں آدھا، پونا گھنٹہ رہ جاتا ہے تب اٹھتا ہوں۔ آج کل دفتر میں کام زیادہ ہے اور ذہنی پریشانی کی وجہ سے نیند گہری آتی ہے اور رات سوتے سوتے ساڑھے گیارہ بج جاتے ہیں۔ حضرت !اس سلسلے میں آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے کہ میں کس طرح تہجد گزار بن جاؤں اور فجر کی جماعت کی نماز ہرگز نہ چھوڑوں۔
جواب:
میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے جس کو ہلانے سے آپ کے سارے مسائل حل ہو جائیں۔ سب سے پہلے آپ تجزیہ کر لیں کہ کس وجہ سے ایسا ہوتا ہے اور اس میں آپ کیا تبدیلی کر سکتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ایسا نہ ہو۔ اس کو ایسے سمجھیں کہ مثال کے طور پر آپ کی ڈیوٹی ہی نماز کے لئے اٹھنے کے وقت ہو تو آپ کیا کرتے؟ ایسی صورت میں آپ جو معمول بناتے وہ معمول اب بنا لیں تو امید ہے ان شاء اللہ آپ کو بات سمجھ آ جائے گی اور آپ کچھ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
مشائخ سے پوچھنا اچھی بات ہے لیکن اس معنی میں کہ وہ انہونی کو ہونی کر دے گا اور اسباب اختیار نہیں کرنے پڑیں گے اور سارا کچھ دم اور چُف سے ہو جائے گا یہ آج کل کے دور کا المیہ ہے۔ آج کل کے دور میں یہی توقع کی جاتی ہے اور مشائخ سے اس وقت پوچھا جاتا ہے جیسے سیاسی لوگوں کے پاس اس وقت جاتے ہیں جب کوئی ناجائز کام کرنا ہو۔ کہتے ہیں کہ اگر جائز کام ہوتا تو ہم آپ کے پاس کیوں آتے؟ وہاں یہ بات کرتے ہیں اور مشائخ کے پاس اس وقت جاتے ہیں جب کوئی چھڑی ہلانے والی بات ہو اور خود کچھ نہ کرنا پڑے۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں، عملی مسلمان بن جاؤ، جو صحیح عمل کی صورت ہے وہی ٹھیک ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
سوال نمبر7:
حضرت جی! میں اس وقت اپنے ملازمت میں ترقی سے متعلق ایک کورس کر رہا ہوں جس کا مکمل کرنا میری ترقی میں مؤثر ہو گا۔ باقی آفیسرز بھی یہی کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں ذہن میں کچھ سوال آئے ہیں:
مقابلہ کی وجہ سے اپنے کورس کے ساتھی سے کوئی گر کی بات چھپانا کیسا ہے؟
کیا یہ دنیا کی ناجائز محبت میں آتا ہے؟ مجھ سے ایسا ہوا ہے، اس کا علاج کیا ہے؟
جواب:
در اصل مقابلے اور امتحانات میں عموماً تو یہی کیا جاتا ہے لیکن مجھے چونکہ سوال کرنے والے کے احوال معلوم ہے اس لئے ان کی شان کے مطابق جواب دے رہا ہوں۔ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”بذل المجہود فی شرح ابو داؤد“ جب چھپنے کے قریب ہو گئی تو بعض ساتھیوں نے کہا کہ حضرت! اس کے حقوق محفوظ کروا لیں کیونکہ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو لوگ آپ کی کتاب کو تصاویر لے کر چھاپ دیا کریں گے۔ کیونکہ آپ نے اس کی کتات و طباعت پہ بڑا خرچ کیا ہو گا تو وہ خرچ ان کو نہیں پڑا ہو گا اور وہ آپ سے زیادہ خوبصورت چھپوا کر سستے داموں بیچ سکیں گے نتیجتاً آپ کی کتاب رہ جائے گی۔ حضرت نے جو جواب دیا وہ ان کی شان کے مطابق ہے جنہوں نے یہ سوال کیا ہے۔ حضرت نے فرمایا: ”اگر کوئی ایسا کرنا چاہے تو میں خود اس کو اپنی طرف سے پیسے دے کر ان سے اپنی کتاب چھپوا دوں گا کیونکہ میرا مقصد تو علم پھیلانا ہے، اگر وہ پھیلا رہے ہیں تو اچھی بات ہے اور میری کتاب بھی ان شاء اللہ بک جائے گی“۔ چنانچہ حضرت کی کتاب جس وقت آئی تو اتنی جلدی ایڈیشن ختم ہو گیا کہ پتا ہی نہیں چلا کہ کیسے چلی گئی، بس لوگ لے گئے۔ اس لئے اگر آپ کو کچھ گر کی بات معلوم ہو گئی یا آپ کی تیاری کچھ اچھی ہے اور وہ آپ نے لوگوں کو سمجھا دیا تو اس نیک نیتی کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ آپ کے لئے امتحان میں ایسے سوالات آ جائیں جن کی وجہ سے آپ کا معاملہ آسان ہو جائے۔ ایسا واقعتًا ہوتا بھی ہے۔ میں آپ کو اپنا F.sc کے امتحانات کا واقعہ سناتا ہوں۔ F.sc کا امتحان بڑا مشکل ہوتا ہے۔ میں نے امتحان کی تیارi کرتے ہوئے ایک باب چھوڑ دیا تھا، باقی سب تیاری مکمل کر لی تھی۔ تقریبًا آدھ پون گھنٹہ پہلے تیاری مکمل کر کے جانے کے لئے تیار ہو گیا اور کیلکولیٹر وغیرہ سنبھال کر اپنے ساتھی کے پاس چلا گیا تاکہ ہال میں دونوں اکٹھے چلے جائیں۔ وہ ابھی کرسی کے اوپر بیٹھا ہوا تھا تو میں نے اس کی کرسی کی پشت سے دیکھا کہ وہ کیا کر رہا ہے، وہ "optics" کے ایک فارمولے کی مثالیں دیکھ رہا تھا۔ یہ وہی باب تھا جس کی میں تیاری نہیں کی تھی۔ خیر اس کے ساتھ میں نے بھی ویسے ہی انہی سوالات کو دیکھ لیا جن کی تیاری وہ کر رہا تھا، پڑھ بھی لیا اور ٹھیک سے سمجھ بھی لیا۔ اس میں 10, 12 منٹ کے لگ بھگ لگے ہوں گے۔ جب امتحان کا پرچہ سامنے آیا تو اس میں وہی سوال تھا۔ پتا نہیں اس ساتھی نے وہ سوال کیا یا نہیں کیا لیکن میں نے کر لیا۔ اگر نیت خراب نہ ہو تو اللہ پاک کی طرف سے ایسے طریقوں سے مدد کر دی جاتی ہے۔ اور جب اللہ پاک کی طرف سے مدد نہ ہو تو انسان کئی مواقع پر پھنس بھی جاتا ہے۔ ایک ایسا واقعہ بھی میرے ساتھ ہوا ہے کہ میں ایک امتحان کی تیاری کر کے جا رہا تھا، راستہ میں میرے دل میں ایک سوال کے بارے میں خیال آیا کہ کتاب میں دیکھ لوں۔ چونکہ طلبہ کتاب اور نوٹس ساتھ لے جاتے ہیں اور کمرہ امتحان کے باہر رکھ لیتے ہیں، میں نے وہاں جا کر وہ سوال دیکھ لیا۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ پہلے مجھے وہ سوال بالکل درست آتا تھا، مگر جب جلدی میں دوبارہ دیکھا تو ذہن میں اس کا جواب خلط ملط ہو گیا اور غلط جواب یاد ہو گیا۔ اتفاق کی بات کہ امتحان میں وہی سوال آ گیا، میں نے اس کا وہ جواب لکھ دیا جو اب مجھے سمجھ آیا تھا اور وہ جواب غلط تھا۔
دونوں باتیں ممکن ہیں۔ کہ آپ ٹھیک کرتے ہوں اور وہ غلط ہو جائے یا جو آپ غلط کرتے ہوں وہ ٹھیک ہو جائے۔ جب اس قسم کی باتیں ممکن ہیں تو مجھے بتائیں کہ آپ کو کیا پتا کہ آپ کے ساتھ کیا ہو گا؟ نہ آپ کے دماغ آپ کے قبضہ میں ہے نہ نمبر دینے والے کا دماغ آپ کے قبضہ ہے اور نہ ہی آپ کی اپنی یاد داشت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ تمام چیزیں کہیں اور سے چلائی جا رہی ہیں۔ لہٰذا اچھی نیت کے ساتھ خیر ہی ہو گی ان شاء اللہ۔میں نے بزرگی کی باتیں نہیں کی ہیں، سیدھی سیدھی باتیں کی ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ کہیں کہ یہ بزرگی کی باتیں ہیں۔
سوال نمبر8:
میرا معمول 2000 دفعہ ”لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ“ ہے، کورس میں نصاب زیادہ ہونے کی وجہ سے وقت کم ملتا ہے، کیا اس کو جاری رکھوں اور پڑھائی کی اوقات میں تبدیلی کر لوں؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
اس مسئلہ میں گنجائش ہے۔ آپ کورس دوران 500 دفعہ ”لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ پڑھیں کیونکہ عذر اور سفر میں کمی کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگر یہ سفر نہیں ہے تو عذر تو بہر حال ہے۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ حضرت جی! کچھ بزرگوں کے واقعات پڑھے جائیں تو بعض جگہوں پر چلوں کا بیان ہوا ہے جیسے حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ایک جگہ پڑھا تھا کہ انہوں نے ایک مقام پر کنوئیں میں الٹا لٹک کر 40 دن کا چلہ کیا۔ یہ چلے کس چیز کے ہوتے ہیں؟ کیونکہ کچھ حضرات ان کی طرف دیکھتے تک نہیں، حضرت جی! معافی چاہتا ہوں اگر سوال صحیح طریقے سے پیش نہیں کر سکا۔
جواب:
معافی تو واقعی اللہ سے مانگیں کیونکہ بزرگوں سے بد گمانی نہیں کرنی چاہیے۔ چلہ کا لفظ اگر عملیات کے لئے مخصوص ہے تو تبلیغی جماعت والے تو سارے عامل ہیں کیونکہ چلوں کی سب سے زیادہ باتیں تو وہی کرتے ہیں کہ 3 چلے اور ایک چلہ وغیرہ۔ ایسا نہیں ہے، چلہ ایک خاص قسم کی کیفیت کو حاصل کرنے کے لئے ایک اکائی ہے۔ حدیث شریف میں با قاعدہ اس کا ذکر آیا ہے، قرآن پاک میں بھی آیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں چلے کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔البتہ یہ ممکن ہے کہ عاملوں نے یہ لفظ یہاں سے لیا ہو، لیکن عاملوں سے انہوں نے نہیں لیا کیونکہ قرآن عاملوں سے نہیں لیتا۔جب قرآن و حدیث میں آ گیا تو عاملوں نے اگر ادھر سے لیا ہو تو ممکن ہے، ہم ان کے ساتھ اچھا گمان کر لیتے ہیں لیکن بزرگوں سے بد گمانی نہیں کر سکتے۔ ایک تو یہ بات طے ہونی چاہیے دوسری بات یہ ہے کہ اس کو معکوس چلہ کہتے ہیں۔ معکوس چلہ در اصل ایک قسم کا مجاہدہ تھا اور متقدمین بزرگوں میں مجاہدہ بہت ہوتا تھا۔ البتہ جوگیوں کے مجاہدے میں اور ان کے مجاہدے میں یہ فرق ہوتا تھا کہ جوگی دنیا کے حصول کی نیت سے مجاہدے کرتے ہیں اور ان کی نیت نفس کے علاج کی ہوتی تھی جو ایک دینی بات ہے، اور ساتھ ساتھ یہ حضرات ذکر بھی کرتے تھے لہذا یہ جوگ نہیں ہے۔میرے اپنے خیال میں شاید آپ نے غلط سنا ہے، حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں یہ نہیں سنا، اگرچہ ان کے بارے میں ممکن بھی ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ مجھے ہر بات کا پتہ ہو، لیکن میں نے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پڑھا ہے کہ انہوں نے الٹا یعنی معکوس چلہ کیا تھا۔ اور وہ جگہ بھی میں نے دیکھی ہے جس کے بارے میں یہ مشہور ہے۔ جب میں وہاں گیا ہوں تو ہمیں لوگوں نے دکھایا تھا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر حضرت نے معکوس چلہ کیا تھا۔یہ پہلے پہلے ہوا کرتا تھا، اب لوگوں میں اتنی برداشت ہی نہیں لہٰذا اب ایسی چیزیں نہیں ہیں لیکن بہرحال! اس دور کے مطابق جو مجاہدات ہیں وہ کئے جا سکتے ہیں اور ان کے بارے میں ہم بتایا کرتے ہیں۔ آپ اسے مجاہدات کا ایک نکتہ سمجھ سکتے ہیں، یہ عملیات والا کوئی چلہ نہیں تھا۔
سوال نمبر10:
میں نے ایک وظیفہ کسی کو بتایا تھا تو انہوں نے کہا کہ کیا یہ وظیفہ روزانہ ایک ہی وقت پڑھا جائے یا مختلف اوقات میں بھی پڑھا جا سکتا ہے؟
جواب:
در اصل وظائف کا مکمل اثر تب ہوتا ہے جب یہ ایک ہی وقت میں ہوں۔ مختلف اوقات میں کرنے سے اثر کم ہو جائے گا لیکن ختم نہیں ہو گا لہٰذا کوشش کریں کہ اسی وقت ہی کر لیا کریں جو آپ نے اس کے لئے اچھا سمجھا ہوا ہے۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم محترم شاہ صاحب! اللہ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ میں آپ کا بتایا ہوا مجاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، اللہ کے فضل سے اور آپ کی دعا سے حالت بہتر ہے لیکن اب بھی سوچ کو اس کے خیال سے بالکل الگ کرنا مشکل ہوتا ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں مجاہدہ ٹھیک سے نہیں کر رہا۔برائے مہربانی اس کے بارے میں ہدایت فرما دیں، آپ کا شکریہ۔
جواب:
مجاہدہ اسی کو کہتے ہیں کہ آپ سمجھتے ہوں کہ وہ کام نہیں ہو رہا لیکن پھر بھی آپ کر رہے ہوں۔کیونکہ جب وہ اس طرح ہونے لگے گا تو پھر اس میں مجاہدہ والی کیفیت نہیں رہے گی لہٰذا آپ کی مجاہدہ والی کیفیت میں وقت کے ساتھ ساتھ کمی آتی جائے گی لیکن بالکل ختم تب ہو گا جب آپ اس سے نکل آئیں گے لہٰذا اپنا مجاہدہ جاری رکھیں۔
ایک صاحب نے مجھے اپنے کچھ احوال بتائے جو عملیات سے تعلق رکھتے تھے تو میں نے ان کو احسن جاوید صاحب کا بتایا کہ آپ ان کے ساتھ بات کر لیں کیونکہ میں نے ان کو اپنے سلسلے کے لوگوں کے لئے مقرر کیا ہے۔اس پر اس نے کہا جی ایک دفعہ ان کے ساتھ ہماری بات ہوئی تھی لیکن اس نے ہماری بات کو راز نہیں رکھا لہٰذا اس میں مجھے پریشانی ہوئی، اب میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں تو میں نے کہا کہ میں تو عملیات کے قریب بھی نہیں آتا لہٰذا اس سلسلہ میں معذرت ہے۔ پھر میں نے اسے احسن کا نمبر دینے کا کہا لیکن بھیجنا مجھے بھول گیا، مجھے نہیں پتا تھا کہ اس کا وہاں پہلے رابطہ ہے، تھوڑی دیر کے بعد جب میں کہیں مصروف تھا تو اس نے فون کیا کہ آپ نے مجھے نمبر نہیں بھیجا۔ میں نے کہا کہ خدا کے بندے! یہ میرا ٹیلی فون پہ بات کرنے کا وقت ہے، میں بات کروں گا یا تمھیں نمبر بھیجوں گا؟ وہ تو میں بعد میں بھی بھیج سکتا ہوں۔ میں نے ان کے ساتھ ذرا سخت لہجہ اخیتار کیا کیونکہ بعض دفعہ بعض لوگ نرم الفاظ نہیں سمجھ سکتے تو پھر اس کا فون آ گیا کہ السلام علیکم حضرت جی! آپ میری گستاخی معاف کر دیجئے گا میں نے کہا کوئی بات نہیں، پھر میں نے اس کو احسن جاوید صاحب کا نمبر دے دیا اور اس سے کہا کہ آپ نے جو حرکت میرے ساتھ کی ان کے ساتھ اس طرح نہ کرنا،جو وقت وہ بتائیں اسی پہ ملنا، اپنے عذروں کو ان کے سامنے پیش نہ کرنا، جس طرح ڈاکٹر جو وقت دے اسی پر لوگ جاتے ہیں، اسی طرح کرنا۔ جو آدمی اپنا وقت نکالے اس کے کندھے پہ سوار نہیں ہونا چاہیے ورنہ وہ ایک دو دن کے بعد بالکل ہی بیٹھ جائے گا۔ کہتے ہیں معاف فرما دیجئے! پریشانی میں ایسا ہوا ہے آئندہ نہیں ہو گا۔
میں تو سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا ہوں کہ ہمارا عملیات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، عملیات کے بارے میں ہم سے کوئی خدمت نہ لی جائے۔ یہ شعبہ نہیں ہے۔ لیکن پشتو میں کہتے ہیں: ”مطلبی په خټه اور لګیُئ“ یعنی جن کو مطلب ہوتا ہے وہ کیچڑ کو بھی آگ لگا دیتے ہیں۔ اس کے مصداق ان لوگوں کو ہماری بات سمجھ نہیں آتی حالانکہ یہ ہماری مجبوری ہے۔ کیا عملیات ہم کر نہیں سکتے؟ اچھی طرح کر سکتے ہیں، الحمد للہ کوئی مشکل نہیں ہے لیکن اس کے لئے مجھے دو مسئلے پیش آئیں گے ایک یہ کہ میرا یہ کام نہیں چلے گا،جو میں کر رہا ہوں یہ کام رہ جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ مجھے اپنی حفاظت کا پورا بندوبست کرنا پڑے گا کیونکہ پھر جنات کے ساتھ لڑائیاں ہوتی ہیں۔ میرا سارا وقت اسی پہ لگے گا۔ میں نے اس بارے میں استخارہ کیا تواستخارہ میں جواب آیا کہ تو نے نہیں کرنا۔ پھر میں نے سوچا کہ خود نہیں کروں گا، کسی کو کہہ دوں گا۔ وہ کرے گا تو لوگوں کو فائدہ ہو گا۔ پھر استخارہ کیا، استخارہ میں آیا کہ خانقاہ میں نہیں کرنا۔ اس سے پتا چلا کہ اللہ جل شانہ کا ارادہ یہ لگتا ہے کہ اس خانقاہ میں یہ کام نہ ہو، اللہ تعالیٰ اس خانقاہ کو اس سے پاک رکھناچاہتا ہے۔ پھر میں نے احسن جاوید صاحب کو مقرر کیا اور یہ شرط رکھی کہ خانقاہ میں یہ کام نہیں کریں گے۔ وہ جب بھی یہ کام کرتے ہیں تو باہر ایک جگہ پہ کرتے ہیں۔ ایک دن ہمارے بہت پرانے ساتھی نے ان سے کہا کہ میں کپڑے لایا ہوں ان کو دیکھیں کریں۔ کہنے لگے فلاں وقت آ جائیں جب میں وہاں پر جاؤں گا تب دیکھوں گا، یہاں ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کافی اصرار کیا لیکن انہوں نے معذرت کر لی۔ جو میں کر سکتا ہوں وہ کروں گا، اس سے زیادہ میں نہیں کر سکتا۔
بعض جگہوں پہ انسان کو معذرت کرنی پڑتی ہے اور وہ کام چھوڑنا پڑتا ہے۔ جیسے ہم سیاست میں شامل نہیں ہیں حالانکہ سیاست کو ہم جائز اور اہم سمجھتے ہیں اور اہل حق کی طرف داری کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن ان ساری چیزوں کے باوجود ہم سیاست نہیں کرتے۔ مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ آپ سیاست کی بات کیوں نہیں کرتے؟ فرمایا کہ ہمارا سیاست کی بات نہ کرنا ہی ہماری سیاست ہے۔ بس یہی ہماری بھی سیاست ہے کیونکہ سیاست میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں، کوئی پیپلز پارٹی کا ہو گا، کوئی ن لیگ کا ہو گا اور کوئی پی ٹی آئی کا ہو گا تو مفادات کے چکر میں ان کو مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم لوگوں کو اپنے اہم کاموں پہ توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ اس وقت آپ اندازہ کر لیں کہ اس خانقاہ میں الحمد للہ کتنے بزرگوں کے فیوض جمع ہیں۔ یہ بہت منفرد خانقاہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے کئی اکابر کے فیوض و برکات کو جمع کر دیا ہے الحمد للہ اور اللہ جل شانہ نے ہم جیسے لوگوں کو (اللہ ہمیں معاف فرما دے، ہماری کیا حیثیت ہے) منتخب فرمایا اور ان حضرات کے فیوض و برکات ماشاء اللہ ہمیں بھی مل رہی ہیں اور لوگوں کو بھی مل رہی ہیں۔ یہ کام کسی اور جگہ ہو ہی نہیں رہا، اگر ہو رہا ہو تو بتا دیجئے۔ بلکہ وہ ترکی والا جو وفد آیا تھا، انہوں نے بھی یہ بات کی کہ ہم بہت حیران ہیں کہ خانقاہ میں ایسا کام کیسے ہو رہا ہے، ہمیں بہت خوشی ہے کہ خانقاہ میں بھی اس قسم کے کام ہو رہے ہیں اور علمی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ عام بات نہیں ہے، اس لئے ہم لوگوں کو اس پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ دنیا میں سب کام سب لوگ نہیں کر سکتے، یہ انتخاب ہوتا ہے، بعض اوقات یہ انتخاب اللہ پاک کرتے ہیں بعض اوقات انسان کو خود کرنا پڑتا ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت عجیب بات فرمائی ہے، یہ میں آج ایسے ہی بات کر رہا ہوں، پہلے میں نے کبھی یہ بات نہیں کی، حضرت نے فرمایا تھا کہ جو وارداتِ قلب ہوتی ہیں ان کو ماننا ہوتا ہے اور اگر نہ مانیں تو آخرت کا نقصان گو نہیں ہو گا لیکن دنیا کا نقصان ہو جائے گا۔ پھر اس کی مثال دی کہ ایک صاحب کہیں جانا چاہتے تھے،ان کو الہام ہو گیا کہ وہ اس جگہ نہ جائیں، انہوں نے اس کو اپنا وسوسہ سمجھا کیونکہ بظاہر کوئی دینی کام ہو گا، وہ اٹھے تو پھر الہام ہوا کہ نہ جائیں۔ تھوڑی دیر رکے اس کے بعد اٹھے کہ ممکن ہے کہ یہ وسوسہ ہو۔ تیسری دفعہ اٹھے تو گر پڑے اور پیر ٹوٹ گیا۔ فرمایا:یہ دیکھو کہ آخرت کا نقصان تو نہیں ہوا لیکن دنیا کا نقصان ہو سکتا ہے تو انسان کو اپنی واردات کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ اگر اللہ پاک نے ہمارے دل میں یہ بات ڈال دی کہ یہ کام نہیں کرنا تو کوئی بات تو ہے، اس کو ہم نا جائز تو نہیں کہتے، جائز کہتے ہیں لیکن پھر بھی نہیں کرنا۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ خواجہ پارسا رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ فرماتے تھے کہ اگر یہ مشیخت کرتے تو کسی اور کو مرید نہ ملتے، لیکن وہ مشیخت نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کی واردات یہی تھیں کہ نہیں کرنا۔ لہذا وہ کسی کو مرید نہیں بناتے تھے۔ ہمارے مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی کسی کو مرید نہیں بناتے تھے، کسی نے پوچھا تو فرمایا کہ ضروری تو نہیں کہ ہر ایک کے اولاد ہو، کوئی بانجھ بھی تو ہوتا ہے۔ مزاجوں کا فرق ہوتا ہے اور اللہ پاک کی طرف سے تشکیلیں ہوتی ہیں اور ہر چیز کی اپنی اپنی بات ہوتی ہے۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم۔ حضرت جی میرا ذکر جاری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہو گا تب کہیں اصلاح ہو پائے گی۔ آپ سے درخواست ہے کہ صراطِ مستقیم پر استقامت کے لئے دعا فرما دیں۔
جواب:
یہ ہمارے سلسلے کی کافی پرانی خاتون ہیں لیکن میں ان کو بہت کم جواب دیتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فی الحال ان میں وہ حوصلہ پیدا نہیں ہوا کہ سن لیا کریں، یہ بولتی ہیں، خود اپنے لئے کچھ راستے تلاش کرتی ہیں، ان کی خود ہی تشریح کرتی ہیں اور ان کے بارے میں ایسے لکھتی ہیں جیسے کوئی مضمون لکھا جاتا ہے۔ ہمارے راستے میں یہ طریقہ کامیابی تک نہیں پہنچاتا۔ اس راہ میں سر تسلیم خم کرنا ضروری ہے۔ صاف طور پر بات عرض کرتا ہوں، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لکھا ہے کہ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ”پیر کو زبان ہونا چاہیے مرید کو کان ہونا چاہیے“۔ زبان سے آپ نہیں سن سکتے اور کان سے آپ نہیں بول سکتے، ہر چیز کا اپنا اپنا میدان ہوتا ہے۔ مرید بس اپنے احوال پیش کر ے اور پھر جو پیر کہے اس پہ من و عن عمل کر لے۔ مفروضے نہ بنائے، نہ کرے، اس راہ میں مفروضے کام نہیں آتے، عمل کام آتا ہے اور عمل یہ ہے کہ جو بتایا جائے وہ مانو اور پھر اپنے آپ کو پیش کرو۔ اسی طریقے سے فائدہ ہوتا ہے۔ امید ہے میری آواز ان تک پہنچ جائے تو شاید ان کو بات سمجھ آ جائے کہ طریقہ کار یہ ہے کہ مرید کی طرف سے حال اور پیر کی طرف سے تحقیق ہو۔ مرید کو یہ فیصلہ بھی نہیں کرنا کہ چیز اچھی ہو جائے تو بتاؤں گا کیونکہ اگر آپ نے خود ہی فیصلہ کرنا ہے تو پھر پیر کے پاس جانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ یہ ٹھیک حالت ہے اور یہ ٹھیک حالت نہیں ہے؟ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے جس کو آپ اچھی حالت سمجھ رہے ہیں وہ خراب حالت ہوتی ہے اور جس کو آپ خراب حالت سمجھ رہے ہیں وہ اچھی حالت ہوتی ہے۔ جیسے قرآن پاک میں بھی ہے:
﴿عَسٰی أَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰی أَنْ تُحِبُّوْا شَیئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَ اللّٰہ یَعْلَمُ وَ أَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرہ: 216)
ترجمہ: ” تم پر (دشمنوں سے) جنگ کرنا فرض کیا گیا ہے، اور وہ تم پر گراں ہے، اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو، اور (اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے“۔
شیخ اگرچہ خدا نہیں ہے لیکن شیخ کے دل میں خدا بات ڈالتا ہے تو وہ مرید کے لئے بہترین بات ہوتی ہے۔ اس کو یہ سوچنا چاہیے کہ بعض دفعہ آپ ﷺ ایسے سوال کر لیتے تو جواب میں صحابۂ کرام کہتے کہ اللہ اور اللہ کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ ہم جیسے لوگوں کے سامنے سوال کیا جائے تو ہم کہتے ہیں یہ تو سب کو آتا ہے۔ ان کو اس بات کی حرص ہوتی تھی کہ ہم اپنی طرف سے کچھ نہ بولیں، ادھر سے اگر کوئی بات مل جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اپنے ذہنوں پر تالے لگا لیں، ذہنوں کو ضرور استعمال کرنا چاہیے لیکن کسی کی رہنمائی شامل ہو، اس سےآپ کا راستہ اور مشکلات کم ہو جائیں گی اور جلدی پہنچ جائیں گے ورنہ وہ کہتے ہیں کہ:
ہر کہ دانا کند کند ناداں
لیک بعد از خرابی بسیار
کہ جو دانا کرتا ہے، نادان بھی بالآخر وہی کرتا ہے لیکن بہت ساری خرابی اٹھانے کے بعد۔ جب اس کو عقل آ جاتی ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ میں نے کتنی ٹھوکریں کھائیں تو پھر وہی کام کرنا پڑتا ہے۔کیا ہی بہتر ہو کہ ابتدا ہی سے پوچھ لیا جائے۔ ہم گاڑیوں پہ جاتے ہیں تو بعض دفعہ راستہ بھول جاتے ہیں تو میں کہتا ہوں سر مارنے سے بہتر ہے کہ یہاں کے لوگوں میں سے کسی سے پوچھ لو اس سے آسانی ہو جائے گی، اسی میں فائدہ ہوتا ہے۔ اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ مرشد بھی راستہ ہی بتاتا ہے۔ اگر آپ راستہ خود تلاش کر لیں تو پھر آپ خود اپنے مرشد ہیں اور اس میں مسائل ہوتے ہیں۔
سوال نمبر12:
حضرت جی مجھے ایک میسج آیا ہے، آپ کو ارسال کر رہا ہوں، کیا یہ بات درست ہے جو اس میں لکھی ہوئی ہے؟
”کسی بھی عیب و گناہ، سگریٹ، نشہ، گندگی، جھوٹ اور بد نظری وغیرہ سے چھٹکارے کے لئے روزانہ 100 بار ”سُبْحَانَ اللّٰہ“ پڑھیں۔
جواب:
یہ ذکر کا کلمہ، بلا شبہ اس کو پڑھنا چاہیے، اس سے ثواب ملے گا لیکن یہ حتمی بات ہے کہ ذکر سے دل کا علاج ہوتا ہے اور مجاہدے سے نفس کا علاج ہوتا ہے۔ اس سے دل کا علاج ہو جائے مگر نفس کے لئے مجاہدہ ہی کرنا پڑے گا۔ بعض حضرات اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ذکر سے نفس کا بھی علاج ہو جائے گا۔ وقتی طور پر تو ہو سکتا ہے لیکن جب تک وہ چیزیں مکمل طور پر ٹھیک نہ ہوں تب تک دوبارہ واپس آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے صحیح علاج کے لئے انسان کو ایک تو رہنما ملنا چاہیے اور دوسری بات یہ ہے کہ جذب حاصل کریں۔وہ ذکر کے ذریعے سے ہوتا ہے اور جب جذب حاصل ہو جائے تو سلوک طے کرنا چاہیے۔ سلوک طے کرنے کے ساتھ یہ چیزیں ٹھیک ہو جاتی ہیں۔
سوال نمبر13:
کہتے ہیں کہ وضو کے لئے پانی کے ہوتے ہوئے تیمم کی ضرورت نہیں رہتی۔ اسی طرح جو شرعی مجاہدے ہیں مثلاً پوری رات نوافل پڑھنا ان کے ہوتے ہوئے ان دوسرے مجاہدوں کی جیسے کنوئیں میں الٹا لٹک کر مجاہدہ کرنے کی کیا ضرورت رہے گی؟
جواب:
اگر شرعی مجاہدوں کے ساتھ علاج ہو سکے تو واقعی دوسرے مجاہدوں کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر ان کے ساتھ علاج نہ ہو سکے تو پھر یہ کرنے پڑتے ہیں۔ جیسے یہ ہاتھ یہاں تک آسانی سے مڑ گیا کیونکہ اس میں لچک ہے لیکن میں اس کو یہاں تک لاتا ہوں تو یہ ادھر واپس آ جاتا ہے، اب ہدف تو یہاں تک لانا ہے لیکن یہ ادھر نہیں ٹھہرتا۔ میں مجبوراً اس کو جب یہاں تک لانا چاہوں گا تو یہ ادھر واپس آ جائے گا۔ یہاں تک شرعی مجاہدہ تھا اور یہاں تک اضافی مجاہدہ ہو گیا، یہ اسی شرعی مجاہدے پر لانے کے لئے ہے۔ میں آپ کو بہت اچھی مثال دیتا ہوں، میرے پاس بہت سارے نوجوان آتے ہیں جن میں مرد بھی ہوتے ہیں اور خواتین بھی فون کرتی ہیں کہ ہماری نظر کی حفاظت نہیں ہو پا رہی۔ آج کل کے حالات میں مسائل ہیں تو کیا ان کو قرآن کی آیتیں یا احادیث مبارکہ معلوم نہیں ہیں؟ کیا ان کے پاس قوت ارادی نہیں ہے؟ سب کچھ ہے مگر وہ خود کہہ رہے ہیں کہ عمل نہیں ہو رہا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ باتیں کافی نہیں ہیں تو ان کو ہم 40 دن کا مجاہدہ دیتے ہیں اور وہ بڑا سادہ مجاہدہ ہے ایک مخصوص اور تدریجی طریقہ کار سے وہ مجاہدہ کروایا جاتا ہے اور اس سے ما شاء اللہ وہ کام ہو جاتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ یہ مجاہدات حسبِ ضرورت ہوتے ہیں، بلا ضرورت نہیں ہوتے۔ ہمارے نقشبندی سلسلے کا طریقہ کار یہی تھا اور یہ ہونا بھی چاہیے کہ مسنون عمل سے بڑا مجاہدہ اور کوئی نہیں ہے۔ یعنی اگر کوئی وہ کر لے تو وہ مسنون عمل سے زیادہ نہیں ہے لیکن جب تک یہ مجاہدات نہیں کئے ہوں تو نفس اس کے لئے بہانے بناتا ہے وہ نہیں ہونے دیتا۔ اب فرض نماز ان سے فوت ہو رہی ہے اور آپ نفلوں کی بات کر رہے ہیں۔ جس سے فرض نہیں پڑھے جا رہے وہ پوری رات نفلیں کیسے پڑھے گا؟ ایسے آدمی کو فرض پر لانے کے لئے کوئی چیز تو ہو گی، اسی کو اضافہ مجاہدہ کہتے ہیں۔
سوال نمبر14:
حضرت جی ایک طرف تو یہ سنتے ہیں کہ نبی کی ولایت ان کی نبوت سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ دوسری طرف بیانات میں یہ سنا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو چھوڑ کر اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے جلدی پہنچ گئے تو اس کی وجہ سے پیچھے موجود قوم کے اوپر ایک آزمائش آ گئی۔ اس بارے میں کچھ وضاحت فرما دیجئے۔
جواب:
اس پر علماء کے درمیان کافی گفتگو ہوئی ہے۔ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا کی رائے یہ ہے کہ نبی کی نبوت اس کی ولایت سے اہم ہوتی ہے۔ نبی کو چونکہ براہ راست حکم ہوتا ہے اس لئے اسی حکم پر عمل کرنا ہی اللہ کی طرف توجہ ہے جب کہ عام لوگوں کے لئے براہ راست حکم نہیں آتا، ان کے لئے دوسری طرف سے حکم آتا ہے تو اس حکم پر رہنے کے لئے ان کو توجہ الی اللہ کی بڑی ضرورت ہے جب تک وہ توجہ الی اللہ نہیں ہو گی تب تک مخلوق کی طرف جانا نفس کے لئے ہو جائے گا کیونکہ ایک طرف نفس ہوتا ہے اور ایک طرف اللہ ہے۔ اگر آپ اللہ کی طرف نہیں ہیں تو نفس کی طرف ہو جائیں گے۔ لہٰذا عام لوگوں کے لئے کچھ وقت اس طرف متوجہ ہونا ضروری ہے، اس کے بعد وہ لوگوں میں کام کریں۔
سوال نمبر15:
حضرت! کیا اگر کوئی انسان کسی اچھی عادت کو اپنانا چاہے تو اس کو 40 دن کرنے سے وہ عادت انسان کے اندرآ جاتی ہے؟
جواب:
جی ہاں بزرگوں میں یہ بات مشہور ہے۔ اسی وجہ سے ہم پہلے 40 دن کا ذکر دیتے ہیں اور اس میں ذکر کو ذریعہ بنا کر باقی محنت ہم صرف ایک چیز یعنی تسلسل کراتے ہیں کہ اب ذکر مسلسل بلا ناغہ کرنا ہے، اگر ناغہ ہو گیا تو دوبارہ کراتےہیں تاکہ بیٹھنا آ جائے، اس چیز کی اہمیت آ جائے اور وقت کی پابندی آ جائے۔ اگر کسی نے یہ صحیح نہیں کیا تو باقی عمارت ٹیڑھی کھڑی ہو گی اس لئے ہم اس میں زیادہ چھوٹ نہیں دیتے۔ بعض لوگوں کا انتالیسویں دن کا ناغہ ہو جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ دوبارہ شروع کرو۔جن جن کو میں جانتا ہوں ان میں سے بعض لوگوں کو ایک مہینہ بلا ناغہ کرنے میں پورا کرنے میں پورا ایک ایک سال لگا ہے لیکن میں نے ان کو دوسرا نہیں دیا جب تک کہ یہ پورا نہیں ہوا۔
سوال نمبر16:
حضرت! ایک انسان کسی شیخ کی تربیت میں نہیں ہے، وہ کسی اور طریقے سے کوئی مجاہدہ کرتا ہے، چلہ لگاتا ہے، کسی طرح اس کو روحانیت ملتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ بھی کہے کہ مجھے وہ روحانیت ملی ہے جو جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو نہیں ملی تو اہل حق کو اس کی روحانیت کیسے نظر آ رہی ہو گی۔
جواب:
اگر ایک انسان اللہ کی صفات پر کام کرتا ہے تو جس خاص صفت پر وہ کام کر رہا ہے اگر صرف اسی میں فنا ہو جائے تو اس کو فنا فی اللہ نہیں کہتے جب تک وہ ذات تک نہ پہنچے کیونکہ اگر ذات تک نہیں پہنچا اور صفات میں فانی ہو گیا تو جس وقت اس صفت کی وجہ سے اس کی اپنی صلاحیت پہ نظر پڑے گی تو اپنا عاشق ہو جائے گا۔ یعنی اپنے اوپر نظر پڑ جائے گی کہ میں نے یہ کیا ہے تو کام خراب ہو جائے گا۔جب ذات تک پہنچ جائے گا تو پھر اپنے اوپر نظر نہیں پڑے گی۔ اس لئے اگر کوئی خود اپنی مرضی سے کچھ کرے گا تو اس میں اس بات کا بہت خطرہ ہے کہ اس کی نظر اپنے اوپر پڑے گی۔ میں تصوف کا سب سے بڑا فائدہ یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں اپنے سے نظر ہٹ جاتی ہے، چونکہ شیخ پر نظر پڑنا آسان ہوتا ہے اس لئے شیخ پر جب نظر پڑتی ہے تو انسان اپنی اچھائی کو اپنا کمال نہیں سمجھتا بلکہ شیخ کی برکت سمجھتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جتنے بھی اللہ والے ہیں وہ اپنے کمالات اور صلاحیتوں کا ذریعہ اپنے شیخ کو بتاتے ہیں کہ یہ میرے شیخ کی برکت ہے۔اگر شیخ کے ذریعے آپ اتنے بڑے نقصان سے بچ جائیں تو یہ کوئی کم بات نہیں ہے۔ اپنے طور پرہ مجاہدات اورذکر کے اثرات ضرور ہوں گے لیکن اس کو بالآخر نفس و شیطان پھر آڑے آ جائیں گے۔
سوال نمبر17:
حضرت شیخ سے محبت اور عقیدت میں فرق کس جگہ پر آتا ہے؟
جواب:
در اصل عقیدت عقل کے ذریعے ہوتی ہے اور محبت دل کے ذریعے سے ہوتی ہے،ان دونوں میں یہ فرق ہے۔ عقل میں کوئی اور بات بھی آ سکتی ہے لیکن دل میں ایک ہی ہوتا ہے۔
سوال نمبر18:
تکبیرِ اولیٰ کا چلہ مکمل کرنے پر نفاق سے بری ہونے اور جہنم سے خلاصی کا پروانہ ملنے ملتا ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے۔
جواب:
اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جب اللہ پاک کے ساتھ مخلص ہو جاتا ہے تو نفاق سے بری ہو جاتا ہے۔ اور جب قبولیت ہو جائے تو جہنم سے بھی بری ہو جائے گا۔ اس کے معیار کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی طرف چالیس دن تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھنا مقرر کیا گیا ہے۔ جو اس معیار پہ پورا اترے اسے یہ پروانہ دے دیا جاتا ہے۔
سوال نمبر19:
حضرت جی۔ 3 تسبیحات کے بارے میں مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کےحوالے سےسنا ہے کہ جو ان کو 3 سال بغیر ناغے کے کر لیتا ہے تو وہ ولی ہو کے مرتا ہے۔ اس بارے میں وضاحت فرما دیں۔
جواب:
جی ایسا ہی ہوتا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اگر مجھے ضعیف حدیث بھی مل جائے تو میں اپنے قیاس کو چھوڑ دیتا ہوں۔ تکبیر اولیٰ کے چلہ والی بات حدیث شریف میں ہے۔ اگر ہم اپنے قیاس کو چھوڑ دیں اور اسی کے اوپر عمل کر لیں تو کیا یہ بہت اچھا نہیں ہے؟ میں اکثر 4 چیزوں کا چلہ بتایا کرتا ہوں جو واضح طور پر صحیح حدیث شریف میں آیا ہے:
”أَفْشُوْ السَّلَامَ وَ أَطْعِمُوْا الطَّعَامَ وَ صِلُوْا الْأَرْحَامَ وَصَلُّوْا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ“ (سنن ابن ماجہ:1334)
ترجمہ: ”سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور جب لوگ سو رہے ہوں تو تم نماز پڑھو (یعنی تہجد کی نماز) تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے“۔
اسی طرح آپ ﷺنے جو یہ فرمایا کہ تم مجھے دو جبڑوں کے درمیان اور دو رانوں کے درمیان کی دو چیزوں کی ضمانت دو تو میں تمھیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جن پہ عمل کیا جائے تو واقعتاً یہ سب فضائل حاصل ہو جاتے ہیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ