سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 407

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْد بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر1:

السلام علیکم سیدی و مرشدی دامت برکاتہم۔ یا سیدی ایک سوال ہے کہ سالک لئے شکر گزاری کا سب سے بہترین طریقہ کیا ہے؟ جزاک اللہ خیرا۔ 

جواب:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ سب سے پہلے شکر کو سمجھنا چاہیے کہ شکر کیا چیز ہے۔ ہر حالت میں انسان کا اپنے نفس کے ساتھ مقابلہ ہوتا ہے کہ انسان کا دھیان اپنے نفس کی طرف، اپنی ذات کی طرف جائے گا یا اللہ جل شانہ کی طرف جائے گا۔ یہ مقابلہ مسلسل چلتا رہتا ہے۔ جب بھی کوئی انسان کام کرتا ہے یا اس کو کوئی نعمت ملتی ہے اس وقت اگر اس کا دھیان اپنی طرف جاتا ہے کہ یہ میں نے کیا ہے تو یہ شکر نہیں کر سکتا نا شکری ہی کرے گا اور اگر اس کا دھیان اللہ پاک کی طرف جائے گا کہ یہ کام اللہ پاک نے کیا ہے یہ نعمت اللہ پاک نے مجھے دی ہے تو اس کا دھیان شکر کی طرف جائے گا۔

اس کے بعد اگر وہ انسان فہیم ہے اس کی عقل کام کر رہی ہے تو پھر جو نعمت ملی ہے موقع محل کے مطابق اس کا صحیح استعمال کر سکے گا۔ جیسے کوئی آدمی مجھے استعمال کے لئے گاڑی دے تو مجھے اس گاڑی کو کیسے استعمال کرنا چاہیے، بالکل بے دھیانی کے ساتھ بغیر اس کا خیال رکھتے ہوئے استعمال کروں گا تو یہ نا شکری ہو گی اور صحیح طور پہ استعمال کرنا، اس کے تیل پانی کا خیال رکھنا، اس کی دیکھ بھال کرنا اور تمام چیزوں کا خیال رکھنا، یہ شکر گزاری ہو گی۔

جب کسی کو کوئی چیز دیتا ہے اور وہ اس پر شکر گزاری کا رویہ اختیار کرے تو اسے بعد میں بھی دیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ یہ اچھا آدمی ہے شاکر ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آدمی کے دل میں دوبارہ دینے کا خیال کم ہی آتا ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ (ابراہیم: 7)

ترجمہ: ”اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا“۔

یعنی تم میری نعمتوں کا شکر ادا کرو تو میں ان کو اور بڑھا دوں گا۔

انسان چونکہ محتاج ہے، اگر یہ شکر ادا کرے تو اپنی حد کے مطابق ہی کر سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر انسان کسی کا شکر ادا کرے وہ اسے اور زیادہ دے تو وہ بھی اپنی حد کے مطابق ہی دے سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں دے سکتا۔ لیکن اللہ پاک محتاج نہیں ہے اس وجہ سے اگر اللہ پاک کسی سے اس کے شکر پر راضی ہو جائے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کو اپنی شان کے مطابق نواز دیتا ہے۔ ایک تو اس کا دنیا میں اجر ہے کہ دنیا میں اس کی نعمت بڑھا دی جاتی ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اس کو اللہ جل شانہ اپنا محبوب بنا لیتے ہیں وہ پسندیدہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں۔ وہ اللہ کا محبوب بھی بن جاتا ہے۔

شکر ایک ایسی چیز ہے جس میں سب سے پہلے یہ ادراک ہوتا ہے کہ یہ نعمت مجھے ملی کیسے ہے۔ اس کے بعد آدمی اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ میں اس کو استعمال کیسے کروں۔ یہ دوسری چیز لازمی ہے۔ کسی بھی نعمت کے بارے میں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ شریعت اس کے بارے میں کیا ہدایات دیتی ہے۔ کیونکہ شریعت اللہ کی طرف سے آئی ہے اگر شریعت کی خلاف ورزی ہو گئی تو اس کا مطلب ہے وہ نعمت اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق استعمال نہیں ہوئی۔

لہٰذا دونوں باتیں ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ نعمت ملنے پر دھیان اللہ پاک کی طرف جائے اور اس کا شکر زبان سے ادا کیا جائے، دوسرا یہ کہ پھر اس نعمت کا استعمال اللہ کے حکم کے مطابق کرکے عمل سے بھی شکر ادا کیا جائے۔

مثلاً ایک شخص کو اللہ پاک نے خوشی دے دی، وہ اس خوشی میں کس کو خوش کر رہا ہے! اللہ کو خوش کر رہا ہے یا شیطان اور نفس کو خوش کر رہا ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کو خوش کر رہا ہے تو شریعت کے مطابق اس کو استعمال کرے گا کیونکہ شریعت ایک ایسی چیز ہے جو اللہ پاک کی طرف سے آئی ہے، لہٰذا اس نعمت کے بارے میں شریعت کے حکم پر عمل کرو اور اگر اس کے بارے میں کوئی حکم شریعت میں موجود نہ ہو تو کم از کم اس کو اللہ کی مرضی کے خلاف استعمال نہ کرو اور اس نعمت کو اللہ کی طرف سے سمجھو۔

کسی نعمت کے ملنے پر الحمد للہ کہنا شکر کا پہلا درجہ ہے اور یہ بھی بہت بڑی دعا ہے کیونکہ جب تک اس کے ساتھ دل شامل نہیں ہو گا تو اس کے اندر جان نہیں آئے گی۔ اگر میں صرف زبان سے الحمد للہ کہوں اور دل سے میں اس کو اپنے نفس کے لئے استعمال کروں اور اپنے نفس کو خوش کروں تو یہ الحمد للہ کہنا سطحی ہے اس سے وہ برکات و ثمرات حاصل نہیں ہوں گے جو ہونے چاہئیں۔ البتہ جو الحمد للہ بھی نہیں کہتا اس سے وہ الحمد للہ کہنے والا اچھا ہے۔

سب سے پہلے تو الحمد للہ زبان سے کہنا چاہیے پھر دل سے اس کی تصدیق کرنی چاہیے یعنی اس کو اللہ کی طرف سے سمجھنا چاہیے اور اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں اس قابل تھا یا مجھے یہ ملنا چاہیے تھا اس کو اللہ پاک کا محض فضل سمجھیں اور چوتھی بات یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق استعمال کر لے تاکہ یہی چیز آپ کے لئے بہترین توشہ بن جائے۔ 

سوال نمبر2:

السلام علیکم۔ حضرت جی آٹھ ماہ پہلے نظر کا مجاہدہ لیا تھا لیکن اب تک پورا نہیں ہوا۔ ہر بار عزم ہوتا ہے کہ اس بار بلا ناغہ تکمیل تک پہنچانا ہے لیکن ہر بار چند دن کی کوشش کے بعد ناغہ ہو جاتا ہے اور نئے سرے سے کرنا پڑتا ہے۔ اب پھر اس ارادہ سے آغاز کیا ہے کہ رمضان مبارک کے آخیر تک مکمل کروں۔ اللہ پاک اس غفلت، سستی اور بے قاعدگی کو دور کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ دعا کا کہتے ہوئے بھی شرمندگی ہوتی ہے کہ عمل سے اپنی دعاؤں کی لاج رکھنا ہے۔ ہمارے حق میں تو مرشد کی بد دعا ہی دعا ہے۔ 

جواب:

اگر نظر کی حفاظت کا عزم مصمم نہ ہو اور اس کو رخصت سمجھا جائے پھر تو واقعی غفلت ہو سکتی ہے لیکن اگر اس کو لازمی سمجھا جائے پھر اس میں غفلت اور دیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ہم لوگ اپنی زندگی میں مختلف قسم کے کورسز کرتے ہیں اگرچہ وہ کورسز ہماری کامیابی کا واحد راستہ نہیں ہوتے بلکہ ان کے علاوہ بھی بہت سارے راستے ہوتے ہیں لیکن ان کے لئے ہم اتنی تندہی سے کام کرتے ہیں کہ بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں یا چھوڑ دیتے ہیں بس جیسے ان کورسز کو پورا کرنے کی ایک آگ سی لگی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دل و دماغ میں ان کی قدر و قیمت اور اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے حالانکہ ان کورسز کی اہمیت اتنی نہیں ہے جتنی اہمیت نظر کی حفاطت کی ہے۔

نظر کی حفاطت کا اہتمام نہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ دل خراب ہے اور حدیث شریف کے مطابق اگر دل خراب ہے تو ہر چیز خراب ہے۔ لہٰذا اگر ہر چیز کو خرابی سے بچانا ہے تو دل کو خرابی سے بچانا ضروری ہے، دل کو خرابی سے بچانے کے لئے نظر کی حفاظت کرنی ہو گی اور نظر کی حفاظت کرنے کے لئے ہی یہ محنت اور مجاہدہ کروایا جاتا ہے۔ اگر کوئی یہ محنت نہیں کر سکتا تو اسے کسی دلیل سے قائل کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ اپنے پاؤں پہ خود کلہاڑی مار رہا ہے۔ اسے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا چاہیے۔

ایسے معاملات میں اپنے آپ کو طفل تسلیاں نہیں دینی چاہئیں کہ بس ہمارے حق میں مرشد دعا کرے گا تو ہمارا کام ہو جائے گا۔ یہ طفل تسلیاں ہیں۔ مرشد تو ویسے بھی دعا کرے گا لیکن وہ دعا لگے گی تب، جب آپ خود محنت کریں گے اور اپنی اصلاح میں مرشد کا ساتھ دیں گے۔ آپ ﷺ سے بہترین دعا کسی کی نہیں تھی لیکن جو نہیں چاہتے تھے ان کے لئے اس دعا نے بھی کوئی کام نہ کیا۔ جو نہیں چاہتے تھے چاہے وہ کتنے ہی قریبی رشتہ دار تھے مگر صرف دعا سے ان کو ہدایت نہ ملی۔ دعا اس وقت لگتی ہے جب دوسرا فریق بھی چاہتا ہو۔ جس کے لئے دعا کی جائے وہ بھی چاہتا ہو تو دعا لگتی ہے۔ محض دعا کی تسلی پہ نہیں رہنا چاہیے کام کرتے رہنا چاہیے اس کے بعد دعا خود بخود قبول ہوتی ہے۔ بھائی اگر آپ عمل کریں گے تو ہمارا دعا کرنا تو دور فرشتے بھی آپ کے لئے دعا کریں گے۔ اگر آپ نے یہ کام کرنا ہے تو آپ دعاؤں سے خالی کبھی نہیں رہیں گے بس محنت و مشقت شرط ہے۔

ہم لوگ اپنے نفس کو بہلاتے ہیں یا یوں کہیے کہ ہمارا نفس ہمیں بہلاتا ہے، اگر کوئی کام نہ ہو تو ہم یہ خیال کر لیتے ہیں کہ یہ کام اس لئے نہیں ہوا کہ دعا نہیں ہوئی۔ اس بہلاوے سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ نفس کے لئے چور دروازہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ 

سوال نمبر3:

السلام علیکم۔ حضرت میرے اذکار کو ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ 200 مرتبہ ذکر جہری ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“، ”حَقْ“ اور 100 مرتبہ ”اللہ“۔ مزید رہنمائی درکار ہے۔ کوشش کرتا ہوں کہ ایک وقت یا قریب قریب اوقات میں ذکر کر لوں۔ اس ماہ کا معمولات کا چارٹ ای میل کر دیا ہے۔ جزاک اللہ۔ 

جواب:

اب آپ ذکر اس ترتیب سے کریں:

200 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“ اور ”حَقْ“ 300، 300 مرتبہ اور 100 مرتبہ ”اللہ“۔

کوشش کریں کہ اپنے وقت پر ہی مکمل ذکر کیا کریں اس کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔ 

سوال نمبر4:

السلام علیکم۔ حضرت جی میں پہلے مراقبہ کرتی تھی پھر چھوڑ دیا تھا اب پھر شروع کیا ہے۔ جب میں پوری توجہ سے مراقبہ کرتی ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ کوئی میرے اندر سے کچھ نکال رہا ہو اور میں اندر سے بالکل خالی ہو رہی ہوں، اس وجہ سے مجھے ڈر بھی لگتا ہے جس کی وجہ سے توجہ زیادہ وقت برقرار نہیں رکھ پاتی۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ لوگ مجھ پر بہت اچھا گمان کرتے ہیں جس کی وجہ سے میں اس وقت بہت خوش ہو جاتی ہوں لیکن بعد میں خفا ہوتی ہوں کہ یہ خوشی میرے اندر تکبر پیدا کر رہی ہے۔ آپ مجھے کوئی ایسا مجاہدہ دیں جس کا نتیجہ یہ ہو کہ اگر لوگ میرے بارے میں اچھا گمان کریں تب بھی مجھے خوشی کا کوئی احساس نہ ہو۔ 

جواب:

یہ جو آپ نے کہا کہ مراقبہ کرتی تھی پھر چھوڑ دیا تھا۔ پہلے اس بارے میں کچھ عرض کروں گا۔

آپ کو دو طرح کے ذکر دئیے گئے ہیں، ایک ذکر تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار کا ذکر ہے یہ مستحب کے حکم میں ہے نہیں کیا تو آپ کو کوئی گناہ نہیں ہو گا البتہ آپ اس کا فائدہ حاصل نہیں کر سکیں گی۔ دوسری قسم کا ذکر مراقبہ ہے، یہ علاجی ذکر ہے، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نفس اور دل کا علاج ہو جائے۔ اگر آپ اس ذکر میں کوتاہی کریں گی تو آپ کے نفس و دل کا علاج نہیں ہو پائے گا۔ اگر آپ کا نفس اور دل ٹھیک نہ ہو پایا تو آپ کا سارا نظام خراب رہے گا۔ اس ذکر میں کوتاہی کرنے سے آپ اپنے نفس کے علاج تک نہیں پہنچ سکیں گی جب نفس کا علاج نہیں ہو گا تو پھر تباہی ہے جیسے اللہ پاک نے فرمایا:

﴿وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا﴾ (الشمس: 10)

ترجمہ: ”اور نامراد وہ ہو گا جو اس (نفس) کو (گناہ میں) دھنسا دے۔“

لہٰذا علاجی ذکر کسی حالت میں نہیں چھوڑنا چاہیے۔ لوگ ثوابی ذکر تو کرتے ہیں لیکن علاجی ذکر چھوڑ دیتے ہیں پھر کہتے ہیں بس کیا کریں جی غلطی ہو گئی۔ کیا کبھی ڈاکٹر صاحب کے پاس جا کر رونا رویا ہے کہ افسوس ہے مجھ سے دوائی نہیں پی گئی، میں نے دوائی نہیں پی؟ کبھی ایسا کریں اور ایسے میں جو ڈاکٹر کہے وہی جواب میری طرف سے بھی سمجھ لیں۔ جس چیز کی آپ کو ضرورت ہے وہ کرتے نہیں ہیں پھر کہانیاں بناتے ہیں۔ یہ کہانیوں کی چیزیں نہیں ہیں اس کو ضروری سمجھیں لازم سمجھیں، کیونکہ اس کے بغیر تباہی ہے۔ جس نے اپنے نفس کو اپنے حال پہ چھوڑ دیا وہ تباہ ہو گیا۔ اب اس کا فیصلہ آپ ہی کریں کہ تباہی و بربادی سے بچنا کتنا ضروری ہے۔

علاجی ذکر تو ہر صورت لازم ہے۔ اگر آپ نے ساتھ اضافی ذکر بھی کر لیا تو سبحان اللہ اس سے آپ کو قوت حاصل ہو گی جیسے غذا سے قوت حاصل ہوتی ہے اور اگر وہ نہ کیا تو بھی دوا کسی حالت میں نہیں چھوڑ سکتے وہ ضروری ہے۔

حضرت مولانا مصطفیٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تبلیغی جماعت کے بڑے بزرگ تھے رائیونڈ میں کار گزاری سنا کرتے تھے اور نکلنے والی جماعتوں کو ہدایات دیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے بیان میں ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ ”بھائیو یاد رکھو ہم بھی ذکر دیتے ہیں اور مشائخ بھی ذکر دیتے ہیں۔ ہونے تو دونوں چاہئیں لیکن اگر کسی وقت حالات ایسے ہوں کہ دونوں نہ کر سکو تو اس وقت ہمارا ذکر مؤخر کر لو مشائخ کا ذکر بالکل نہ چھوڑو، کیونکہ ہمارا دیا ہوا ذکر غذا ہے اور ان کا دیا ہوا ذکر دوا ہے دوا اور غذا میں جب مقابلہ ہو تو دوا کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔

اس لئے کوشش تو یہ کریں کہ دونوں ذکر کرتے رہیں لیکن اگر دونوں نہ کر سکیں تو علاجی بالکل نہ چھوڑیں۔

باقی جو آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ خالی ہو رہی ہوں۔ خالی تو ہونا ہی ہے پہلے گند سے خالی ہونا ہو گا پھر اچھی چیز آئے گی۔ کیا خیال ہے برتن گندا ہو تو اس کے اندر آپ دودھ ڈالیں گی یا پہلے اسے دھوئیں گی؟ یہ اللہ تعالیٰ آپ کو دکھا رہا ہے کہ آپ پہلے خالی ہو رہی ہیں، پہلے آپ کا نظام ٹھیک ہو رہا ہے صفائی ہو رہی ہے۔ صفائی کے بعد آپ کے اندر اصل چیز ڈالی جائے گی۔ اس کیفیت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ڈرنا تو اپنے آپ سے تب چاہیے جب انسان گناہ کر رہا ہو۔

اپنے اوپر اچھا گمان رکھنے کا بہت آسان علاج بتاتا ہوں۔ جب کبھی آپ کو اپنے اوپر اچھا گمان ہو جائے تو اپنے آپ سے کہیں کہ اگر میں پہلے ٹھیک تھی بھی تو اب نہیں رہی۔ کیونکہ اپنے اوپر اچھا گمان کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس طرح اس بیماری کا علاج ہو جائے گا۔

لوگوں کے اچھا گمان کرنے سے اگر خوشی ہو تو اس خوشی کو نعمت پر محمول کریں کہ یہ خوشی اللہ پاک کی نعمت ہے مجھے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اگر آپ کو خوشی دے تو اسے ضرور لینا چاہیے لیکن اس حالت اور نعمت کو اپنا کمال نہیں سمجھنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھنا چاہیے۔ اگر اللہ کا فضل ہے تو اس میں کوئی حرج اور ڈر کی بات نہیں ہے۔

سوال نمبر5:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت والا دامت برکاتھم ان شاء اللہ العزیز آپ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خیریت سے ہوں گے۔ حضرت والا میرا ماہانہ ذکر پورا ہو چکا ہے میرا ذکر یہ ہے 200، 400، 600 اور 500۔ مراقبہ دس منٹ کا ہے۔ مراقبہ ابھی پکا نہیں ہوا اور آپ کے بیانات مبارک سننے سے بہت فائدہ ہوا ہے، جو اشکالات میرے ذہن میں آتے ہیں آپ کے مبارک بیانات سننے سے حل ہو جاتے ہیں۔ غصہ کبھی کبھی بہت آتا ہے۔ فجر اور عصر کی نماز اکثر انفرادی ہو جاتی ہے، جزاک اللہ و السلام۔ 

جواب:

اب اس ذکر کو بڑھا لیں اور 200، 400، 600، 500 مرتبہ کیا کریں۔ اس کے ساتھ مراقبہ 15 منٹ کر لیں۔ مراقبہ پہ کافی محنت کرنا پڑے گی اس کو لائٹ نہ لیں۔ آپ کا مقصد یہ ہو کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے اور میں اس کو سننے کی کوشش کر رہا ہوں، دل سے اللہ کروانا نہیں ہے، وہ پہلے ہی اللہ اللہ کر رہا ہے اسے سننے کی کوشش کرنی ہے، جب سننے میں آ جائے تو اسے کیچ کرنا ہے۔ اس دوران خیالات وغیرہ بے شک آتے رہیں اس کی کوئی پروا نہیں کرنی چاہیے۔

فجر اور عصر کی نماز اکیلے پڑھنے کی وجہ مجھے بتا دیں تاکہ اس کے بارے میں بات کر سکوں۔

سوال نمبر6:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی آپ کی خدمت اقدس میں ایک سوال عرض ہے کہ میری بیٹی تقریباً پانچ سال کی ہو گئی ہے اور تقریباً ایک سال سے سوچ رہے ہیں کہ اس کو قرآن پاک کی تعلیم بھی شروع کروا دینی چاہیے قریب ہی ایک بنات کا مدرسہ ہے لیکن کچھ رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ بچوں سے کام کرواتے ہیں اور لاٹھیوں سے ایسے مارتے ہیں کہ نیل پڑ جاتے ہیں۔ کہیں بھجوانے پر دل نہیں مانتا کیونکہ لوگ ایسی جگہوں کے تقدس کا پاس نہیں رکھتے۔ سوشل میڈیا پر ایسے واقعات بہت آئے ہیں۔ اب بیگم کا کہنا ہے کہ کسی قاری صاحب سے بات کی جائے جو گھر آ کر اس کو پڑھا دیا کریں، کیونکہ میں گھر پر ہی ہوتا ہوں پاس بیٹھ کر اپنا کام بھی کر سکتا ہوں۔ آپ سے اس بارے میں رہنمائی مطلوب ہے۔

جواب:

فوری طور پر ان کے لئے قاری کا بندوبست کر لیں کیونکہ آپ گھر میں ہوتے ہیں، گھر پر ہی بچی کو پڑھانا شروع کر لیں۔ مدرسہ میں بچوں کو مارنے والی بات کے بارے میں تحقیق کر لیں کہ بات صحیح بھی ہے یا نہیں۔ اگر بات صحیح نہ ہو تو پھر خواہ مخواہ کسی پہ بدگمانی کیوں کی جائے۔ ممکن ہے ایسا نہ ہو اس لئے تحقیق کر لیں، اگر بات صحیح ہو تو ان کو بتا دیا جائے کہ آپ لوگوں کے بارے میں یہ بات مشہور ہے اس لئے مجھے مجبوراً قاری بلانا پڑتا ہے۔ اگر آپ یہ کام نہ کیا کریں تو ہم آپ کے پاس ہی تعلیم کے لئے بھیج دیا کریں۔ ہو سکتا ہے اس طرح وہ اس پر سوچیں اور ایسا کرنا چھوڑ دیں۔

سوال نمبر7:

السلام علیکم۔ حضرت جی 21 مارچ کے بیان میں آپ نے ایک حدیث مبارکہ کی روشنی میں چار کام کرنے کو فرمایا تھا اور ساتھ یہ تاکید بھی کی تھی کہ آپ کو ایک مہینے کے بعد اس کی اطلاع دی جائے۔

(1)۔ سلام کرنا۔

حضرت جی میری کوشش ہوتی ہے کہ اب ہر ایک کو سلام میں پہل کروں۔ الحمد للہ بہت حد تک اس میں کامیابی بھی ہو رہی ہے۔ اگر راستہ میں ذکر یا کوئی سورۃ بھی پڑھ رہا ہوں تو موقوف کر کے سلام کرتا ہوں لیکن پھر بھی کبھی کبھار سلام نہیں کر پاتا خاص کر نماز کے بعد۔

(2)۔ مسکین کو کھانا کھلانا۔

حضرت جی میں جس دفتر میں کام کرتا ہوں وہاں ہر ایک کے کھانے کا اپنا اپنا بندوبست ہوتا ہے میں اپنا کھانا گھر سے لا کر وقفہ میں کھاتا تھا۔ میرا ایک جونیئر وقفہ کے وقت دفتر میں بیٹھا رہتا تھا اور کھانا کھانے نہیں جاتا تھا میں نے اس کو اکیلے میں بلا کر پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کی جیب اجازت نہیں دیتی۔ میں نے اس کو دو ہزار روپے دے کے کہا کھانا کھا لیا کرو۔ اس نے بہت مشکل سے قبول کیا۔ یہ سلسلہ دو مہینے سے اب تک جاری ہے۔ اس کے علاوہ میں دو ہزار روپے ہر مہینے ایک اور صاحب کو دیتا ہوں، ایک ہزار صدقہ اس کے علاوہ جاری ہے۔

(3)۔ رشتہ داروں سے اچھا سلوک۔

حضرت جی میرا رشتہ داروں سے میل جول بہت کم ہے یہ کام زیادہ تر ابو اور بھائی کرتے ہیں لیکن ابھی کوشش کی ہے کہ ہفتہ میں ایک بار قریبی رشتہ داروں کے حالات معلوم کروں، دو بار ایسا بھی کیا ہے لیکن مجھ سے سستی ہو جاتی ہے اور شادی وغیرہ سے دور بھاگتا ہوں وہاں کی فضول رسموں کی وجہ سے اور معمولات میں حرج ہونے کی وجہ سے بھی۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائی جائے۔

(4)۔ تہجد کی نماز۔

الحمد للہ جب سے آپ نے بیان میں ذکر فرمایا اس کے بعد سے اب تک تہجد کی نماز ادا ہو رہی ہے۔ کبھی دو رکعت، کبھی چار رکعت کبھی چھ رکعت، زیادہ تر چار رکعت پڑھتا ہوں۔ 

جواب:

ماشاء اللہ بہت اچھی بات ہے اللہ جل شانہ مزید توفیقات سے نوازے اور سلام کرنے میں واقعی پہل کرنی چاہیے۔ نماز کے بعد سلام کی بات مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ نماز کے بعد کون سا سلام ہوتا ہے یہ مجھے سمجھ میں نہیں آیا۔ مسجد میں تو آپ کسی کو سلام نہیں کر سکتے، مسجد میں سلام کرنا ممنوع ہے۔ اور واپس جاتے ہوئے سلام کا تعلق نماز کے ساتھ نہیں ہے وہ تو ویسے بھی کرنا چاہیے۔ جب راستہ میں کوئی جاتا ہے تب سلام تو کرے گا اس کا نماز کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کوئی رسمی بات ہے رسمی باتوں کو نہیں کرنا چاہیے، شریعت کے اوپر عمل کرنا چاہیے۔

مسکین کو کھانے کھلانے کے بارے میں جو آپ نے کہا ہے اللہ جل شانہ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے، بہت اچھی بات ہے۔

رشتہ داروں سے میل جول کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے گناہ کے کاموں میں بھی شرکت کی جائے، بلکہ ان کا ہمارے اوپر یہ بھی حق ہے کہ ہم ان کو صحیح کاموں کی دعوت دیں اور صحیح کاموں کی طرف لائیں ان کے دنیاوی جائز کاموں میں ان کی مدد کریں۔ لیکن یہ نہیں ہے کہ ان کے ناجائز کاموں میں بھی ان کا ساتھ دیں۔ آج کل شادی بیاہ کی رسمیں بہت خطرناک ہیں اس سے تو انسان جتنا بچے اتنا اچھا ہے۔ حدیث شریف میں ہے:

”لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِق“ (صحیح بخاری: 4340)

ترجمہ: ”مخلوق کی ایسی اطاعت جس میں خالق کی معصیت ہو وہ جائز نہیں ہے“۔

رشتہ داروں کے لئے آپ اللہ کو ناراض نہیں کر سکتے لیکن اللہ کے لئے رشتہ داروں کو راضی کرنا چاہیے۔ رشتہ داروں کے لئے اللہ کو ناراض نہیں کرنا چاہیے البتہ یہ بات ہے کہ بعض دفعہ چشم پوشی کی گنجائش ہوتی ہے۔ جن چیزوں میں چشم پوشی کی گنجائش ہو ان میں چشم پوشی کرنا چاہیے۔ اس کے لئے آپ اپنے علاقہ کے مفتیوں سے رابطہ رکھیں وہ آپ کو بتا دیا کریں گے کہ کس چیز میں گنجائش ہے کس چیز میں گنجائش نہیں ہے۔”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ والی تسبیح کی تفصیلات مجھے بتا دیں پھر اس بارے میں کچھ عرض کروں گا۔

سوال نمبر7:

السلام علیکم۔ حضرت والا اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور ہمیں آپ کی قدر دانی نصیب فرما دے۔ حضرت میں نے خواب میں ایک کتابوں کی دکان دیکھی جس میں کافی کتابیں تھیں۔ ایک کتاب اٹھا کے دیکھی جس کی سیاہ رنگ کی جلد تھی وہ شاید عربی یا انگلش میں تھی جب کتاب کھولتا ہوں تو پہلے صفحہ پر درود ابراھیمی لکھا ہوا تھا وہ کتاب رکھ دی اور سوچا کہ اس کا اردو ترجمہ دیکھوں تو شاید مل جائے ذہن میں کتاب کا نام اور مصنف کا نام آ رہا ہوتا ہے جیسے وہ بہت پرانی کتاب ہے درود شریف پر مشتمل ہے۔ ابن کثیر، امام نووی رحمۃ اللہ علیہ، البدایہ والنھایہ کچھ اس طرح کے نام آتے ہیں۔ دکان کے مالک سے کہتا ہوں یہ اردو میں دے دو تو وہ کوئی جیبی سائز کی درود شریف کی کتاب اٹھا کے دیتا ہے۔ پھر کہتا ہے کوئی اور کتاب چاہیے، میں دوں؟ میں کہتا ہوں یہ یہ کتابیں بھی دے دیں اس وقت ان کے نام بھول گئے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے کوئی اور کتاب چاہیے؟ جیسے دکان بند کرنے کے لئے جلدی میں ہو، کچھ لائٹیں اور بلب آف کر دیتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں چابیوں کا گچھا دیکھا جیسے جلدی میں چابی میرے حوالہ کر کے چلے جائیں گے کہ خود کتابیں دیکھ کر لو تو میں نے کہا بس ایک اور کتاب دکھا دیں ”خطبات مدراس“۔ انہوں نے جلدی سے اس بکسے کے اوپر سے کچھ کتابیں اٹھا کے بکسہ کھولا تو اس میں بہت سی نئی خطبات مدراس پڑی ہوئی تھیں۔ سب بالکل ویسی ہی تھیں جو میں آج کل پڑھ رہا ہوں۔ میں پی ڈی ایف ورژن پڑھ رہا ہوں۔ خطبات مدراس کی مطبوعہ کتاب ڈھونڈی لیکن نہیں ملی۔

جواب:

ماشاء اللہ اچھا خواب ہے۔ ان شاء اللہ ان کتابوں سے آپ کو فائدہ ہو گا۔ خطبات مدراس کو آپ پورا پڑھ لیں بے شک آپ کو مطبوعہ نسخہ نہ ملے پی ڈی ایف والے نسخہ سے ہی پڑھ لیں۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس پی ڈی ایف کو پرنٹ کر لیں پرنٹ کرنے یہ مطبوعہ نسخہ کی طرح ہی بن جائے گی۔ ہم بھی ایسا کرتے ہیں۔

درود شریف کی کتابوں میں حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کا نام نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے جو فضائل درود شریف لکھی ہے اس میں امام نووی کا نام بار بار آتا ہے۔ انہوں نے درود شریف پہ کافی کام کیا ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شافعی ہیں اور عمومی طور پر شوافع نے درود شریف پہ کافی زیادہ کام کیا ہے۔ اس کی بظاہر وجہ یہ لگتی ہے کہ شوافع کے نزدیک نماز میں درود شریف پڑھنا فرض ہے۔ ہمارے نزدیک سنت ہے ان کے نزدیک فرض ہے۔ پھر فرض کا احترام تو لوگ زیادہ کرتے ہیں شاید یہ وجہ ہے، لیکن بہرحال شوافع اس میں کافی آگے ہیں۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور امام عبد الوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے درود شریف پہ کافی کام کیا ہے ان کی کتابیں آپ دیکھ لیں۔ اس کے علاوہ دلائل الخیرات بھی درود شریف کی کتاب ہے اس کا مطالعہ بھی کر لیں۔ اس سب کے علاوہ درود شریف کو اپنا دائمی معمول بنا لیں، کیونکہ آپ کو اشارہ تو ہو ہی گیا ہے۔ مقبول وظیفہ جو چالیس درود و سلام کا ہے، حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو رقم فرمایا ہے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو زاد السعید کے نام سے لکھا تھا بعد میں حضرت نے اس کو علیحدہ چھاپا اور اس کا نام مقبول وظیفہ رکھ دیا گیا۔ آپ بھی اس کا معمول بنا لیں اور درود شریف پہ کوئی بھی کتاب پڑھ لیں، ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔

سوال نمبر8:

السلام علیکم۔ جب بھی سونے کے لئے لیٹتی ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اللہ نے اچھا بستر دیا ہے، اچھا گھر، شریف شوہر اور نیک اولاد دی ہے بچوں کو شکر کا کہتی ہوں خاص کر کھانے کی بے قدری سے منع کرتی ہوں۔ کیا یہ سب شکر میں آتا ہے؟ میرے ذہن میں ہے کہ سخت حالات میں شکر ادا کرنا اصل شکر ہے۔

جواب:

اعمال تو آپ کے سارے ٹھیک ہیں لیکن تصور واضح نہیں ہے۔ شکر تو نعمت پر کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اگر آپ کو نعمتیں دی ہیں تو آپ ماشاء اللہ بہت خوش نصیب ہیں اور اس پہ شکر کی توفیق ہو جاتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے شیطان روکتا ہے، جس چیز کے لئے انسان اپنے آپ کو اہل سمجھتا ہے جب اس سے کم ہو تو ناشکری ہوتی ہے۔ جتنا انسان اپنے آپ کو اہل سمجھتا ہے جب اس سے کم ہوتا ہے تو آدمی نا شکری کرتا ہے اور جب اپنے آپ کو اہل نہیں سمجھتا تو جو بھی ملے اسے اپنے لئے زیادہ سمجھتا ہے پھر شکر ادا کرتا ہے۔

مشکل حالات میں شکر کرنا یقیناً شکر کا اعلیٰ درجہ ہے لیکن صبر کو خود سے مانگنا نہیں چاہیے، لیکن مشکل حالات آ جائیں تو صبر کرنا چاہیے۔ صبر کو خود سے مانگنا بلا کو مانگنا ہے اور اپنے آپ کو پہلوان دکھانے والی بات ہے، اس لئے صبر نہیں مانگنا چاہیے، عافیت مانگنی چاہیے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ صبر کے حالات دیں تو پھر صبر کرنا چاہیے، مانگنے کی کبھی جرأت نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بلا مانگ لے تاکہ صبر کر کے اجر حاصل کرے، یہ اپنے آپ کو خراب کرنے والی بات ہوتی ہے۔ البتہ جب مصیبت آ جائے تو پھر صبر ضرور کرنا چاہیے۔ صبر کی حالت میں شکر کرنا یہ شکر کا بہت اعلیٰ درجہ ہے، کیونکہ اس کا نفس اس حد تک نیچے گیا ہوتا ہے کہ وہ ان مشکل حالات کو بھی اپنے لئے نعمت سمجھتا ہے۔ وہ کہتا ہے میں تو اس سے زیادہ کا مستحق تھا یہ تو مجھ پہ کم سزا ڈالی گئی ہے اس پر وہ شکر ادا کرتا ہے۔ یہ تو واقعی اکابر کا کام ہے لیکن اکابر اکابر ہوتے ہیں اور ہم ہم ہیں۔ 

سوال نمبر9:

ایک صاحبہ نے موبائل پر قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے بارے میں پوچھا ہے اور اس میں انہوں نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ اگر کوئی بے وضو بھی اس کو ہاتھ لگا دے تو چونکہ وہ حروف سکرین پر موجود نہیں ہیں بلکہ سکرین کے اندر ہیں یعنی سکرین اور حروف کے درمیان پردہ ہے اور یہ غلاف منفصل کے حکم میں آتا ہے، اس لئے موبائل پر بے وضو قرآن پاک پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نے پوچھا ہے کہ میں چہل درود شریف اور مناجات مقبول موبائل سے پڑھنا چاہتی ہوں۔ جن دنوں میں نماز پڑھنا منع ہو ان دنوں میں موبائل سے پڑھ سکتی ہوں؟

جواب:

یہ علماء کرام کی باتیں ہیں اس میں ہم کچھ نہیں کہیں گے، البتہ میں آپ کا یہ میسج علماء کرام کے فولڈر میں رکھ دوں گا، وہ اس کے اوپر تحقیق کر دیں گے جو ان کی تحقیق ہو گی اس وقت ان شاء اللہ بتا دوں گا۔

مخصوص دنوں میں اگر موبائل سے چہل حدیث شریف مناجات وغیرہ پڑھنا ہے تو بھی احتیاط ضروری ہے، کیونکہ ان وظائف میں آیات قرآنیہ شامل ہیں اور احادیث رسول بھی ہیں، دونوں کا احترام کرنا لازم ہے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ موبائل کو کناروں سے پکڑا جائے اور جو سامنے سکرین پہ لکھا ہو پڑھ لیا جائے، پھر تو اس کی گنجائش ہے کیونکہ موبائل کے کنارے سکرین کے ساتھ متصل نہیں ہیں وہ علیحدہ ہیں۔ چونکہ آج کل پلاسٹک کور ساتھ ہی ہوتا ہے پلاسٹک کور تو غلاف منفصل کے حکم میں آ ہی جاتا ہے، اگر پلاسٹک کور سے اس کو پکڑا جائے تب تو کوئی حرج ہی نہیں۔ زیادہ تفصیلی جواب علماء سے پوچھ کر عرض کروں گا۔

سوال نمبر10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی آپ نے مقام انابت کا پہلا سبق عنایت فرمایا تھا جس میں آپ نے حکم فرمایا تھا کہ ہر مہینے آپ کو اطلاع دی جائے حضرت جی اس سبق کے بعد سلام میں پہل کرنے کی توفیق ہو رہی ہے۔ کچھ راہ جاتے لوگوں کے بارے میں شک ہوتا ہے کہ آیا وہ مسلمان ہیں یا نہیں، ان کو سلام نہیں کرتا۔ کھانے کھلانے کے لئے میں نے ایک ترتیب بنائی ہے کہ پاکستان میں دو ہفتہ بعد دو دیگیں پکوا کر لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں، یہاں موقع پا کر پڑوسیوں کے لئے ہفتہ میں تقریباً ایک بار کھانے کا بندوبست کیا جائے، الحمد للہ ابھی تک اس پر عمل ہو رہا ہے۔ صلہ رحمی سے متعلق عرض ہے کہ جب تک میں پاکستان میں تھا تو رشتہ داروں کو بچوں کے ذریعے سے کچھ پیسے دے دیتا تھا اور بہنوں کا اس میں خاص طور پر خیال رکھتا تھا۔

حضرت جی ان باتوں میں مجھے زیادہ مجاہدہ محسوس نہیں ہوا، لیکن تہجد میں زیادہ مجاہدہ محسوس ہوتا ہے اس لئے تہجد کے لئے اٹھ نہیں پا رہا۔ حضرت جی یہاں نظر کی حفاظت کے لئے ماحول بہتر ہے اس لئے اس پر عمل ہو جاتا ہے لیکن کبھی کبھی موبائل پر معلوماتی ویڈیو دیکھتے ہوئے سرسری نظر پڑ جاتی ہے تو ویڈیو بند کر دیتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ویڈیو بالکل نہ دیکھوں لیکن عمل نہیں ہو رہا۔ زبان سے متعلق غیبت میں الحمد للہ کافی کمی آئی ہے اور فضول مباحث میں نہیں پڑتا، لیکن بیوی کے ساتھ کبھی کبھی بحث ہو جاتی ہے آگے میرے لئے کیا حکم ہے؟ 

جواب:

سلام کے بارے میں عرض ہے کہ جن کے بارے میں شک ہو کہ وہ مسلمان ہیں یا نہیں، جن کے بارے ظن غالب ہو کہ مسلمان ہیں انہیں تو سلام کرنا چاہیے اور جن کے بارے میں ظن غالب یہ ہو کہ وہ مسلمان نہیں ہیں انہیں سلام کرتے ہوئے ﴿وَالسَّلَامُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی﴾ (طٰہ: 47) کہنا چاہیے۔ اس میں ”وَالسَّلَامُ“ ذرا زور سے کہا جائے اور ”مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی“ کو آہستہ سے کہہ دیا جائے۔ اور اگر وہ پہلے سلام کریں تو جواب میں صرف و علیکم کہہ دیا جائے۔

مسکینوں کو کھانا کھلانے کے بارے میں جو معمول آپ نے اختیار کیا ہے وہی ٹھیک ہے، اسے جاری رکھیں۔

آپ نے کہا کہ باقی چیزوں میں مجاہدہ محسوس نہیں ہوتا۔ آپ کو جس چیز میں مجاہدہ محسوس ہوتا ہے اسی پر محنت کر لیں۔ مثلاً تہجد کے لئے محنت کریں، ویسے بھی تہجد کی نماز میں مجاہدہ تو ہے ہی اور آج کل مزید مشکل ہو رہی ہے۔ لیکن ”ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا“۔ کوشش جاری رکھیں تہجد کو نہ چھوڑیں یہ بہت عمدہ نماز ہے البتہ یہ فرض، واجب نہیں ہے لیکن ہماری اصلاح میں اس کا بہت بڑا دخل ہے اس لئے اس نماز کو اصلاح کی نیت سے پڑھ لیا جائے کیونکہ نفس کا مجاہدہ جو اس میں ہوتا ہے وہ ہمارے کام آئے گا۔

سوال نمبر11:

السلام علیکم۔ حضرت شاہ صاحب دامت برکاتھم اللہ پاک سے آپ کی خیریت اور ہمیشہ کی قبولیت کے لئے دعا گو ہوں اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کے خاندان و اولاد سے ہمیشہ راضی ہو، ایسا راضی ہو کہ پھر ناراض نہ ہو۔ آمین۔ اللہ رب العزت اس سلسلہ کو کل عالم کی ہدایت کا موجب بنا دے۔ حضرت جی دبئی آئے ہوئے ایک سال ہونے کو ہے جب یہاں منتقل ہوئے تھے اس وقت آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ ایک جگہ رہائش ہونے کے لئے مناسب محسوس ہو رہی ہے کیونکہ وہاں کی مسجد کے امام بھارت کے ہونے کی وجہ سے درس قرآن اور جمعہ کا خطبہ اردو میں بیان فرماتے ہیں ان کا تعلق حضرت مولانا سعد اللہ صاحب خلیفۂ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ہے، لہٰذا صحبت صالحین کی نیت اور بچوں کی اردو سے شناسائی کی نیت سے یہ جگہ مناسب محسوس ہو رہی ہے۔ یہ جگہ آفس اور دفتر دونوں سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر ہے لیکن دونوں نیتوں کی وجہ سے سفر برداشت کرتا ہوں کہ دین سے اور اپنی زبان سے تعلق رہے۔ بچوں کو سکول میں اردو نہیں پڑھائی جاتی۔ سکول کا انتخاب بھی اس بنیاد پر کیا تھا کہ اس میں دینی اور عصری تعلیم دونوں کا انتظام ہے اور خواتین اساتذہ برقعہ میں ہیں، لباس میں اور اطوار میں دینی تقاضے ملحوظ خاطر رکھے جاتے ہیں۔ اب ایک سال بعد محسوس ہو رہا ہے کہ میں بچوں کی وہ تربیت نہیں کر پا رہا ہوں جو ہونی چاہیے۔

دفتر کے اوقات کافی طویل ہیں، پھر سفر کے بعد وقت بالکل نہیں بچتا، خاص طور پر ابراھیم اب اس عمر میں آ چکا ہے جہاں اس کو زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، تعلیم میں بھی کافی پیچھے ہوتا جا رہا ہے، کافی سوچ بچار کے بعد ذہن میں یہ بات آ رہی ہے کہ آفس کے قریب رہائش لے لی جائے تاکہ جو دو گھنٹے سفر میں لگتے ہیں وہ بچوں کے ساتھ لگائے جائیں۔ اس میں تردد یہ ہے کہ دفتر کے قریب کی جگہ مختلف قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں لہٰذا درس قرآن اور اردو کا خطبہ نہیں ملے گا، امام صاحب عرب ہیں لیکن شرعی داڑھی رکھتے ہیں، جہاں اس وقت رہائش ہے وہاں زیادہ تر لوگ ہندو ہیں جبکہ نئی جگہ میں مخلوط آبادی ہے جن میں عرب، پاکستان بھارت اور فلپائن کے لوگ آباد ہیں۔

جواب:

میرے خیال میں یہ ترتیب بہتر ہے کہ آپ نئی جگہ پہ منتقل ہو جائیں اگر امام متشرع ہیں تو عربی میں خطبہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں آپ اتنی عربی تو جانتے ہی ہیں۔ اس وجہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، بالخصوص وہاں آپ کے بچوں کو زیادہ ٹائم ملے گا آپ بھی کچھ آرام کر سکیں گے، اپنے اعمال بہتر طریقہ سے کر سکیں گے، مسجد بھی قریب ہے لہٰذا آپ کے لئے نئی جگہ مناسب ہے۔ میرے دل میں یہی آ رہا ہے کہ آپ نئی جگہ پر شفٹ ہو جائیں۔ 

سوال نمبر12:

السلام علیکم! حضرت میرا سوال یہ ہے کہ میں پورا ہفتہ ڈیوٹی کرتا ہوں، صرف جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے، جس میں روزہ رکھتا ہوں تاکہ میرے گناہوں کا کفارہ ہو جائے۔ لیکن میں نے سنا تھا کہ صرف جمعہ کو روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے۔ اس بارے میں آپ رہنمائی فرمائیں۔ 

جواب:

یہ تو صحیح ہے کہ جمعہ کے دن روزہ رکھے تو ساتھ اور دن بھی ملایا جائے لیکن چونکہ آپ کا عذر ہے کہ آپ جمعہ کے دن ہی روزہ رکھ سکتے ہیں کیونکہ چھٹی جمعہ کے دن ہی ہوتی ہے باقی دنوں میں نہیں رکھ پاتے، اس لئے آپ صرف جمعہ کو بھی رکھ سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال نمبر13:

السلام علیکم!

کبھی کبھی میں مراقبہ میں اور کسی بھی عمل میں توجہ مرکوز نہیں کر پاتی ہوں۔ میں چند سیکنڈ کے لیے مراقبہ میں توجہ قائم رکھنے کی کوشش کرتی ہوں پھر میرا ارتکاز ٹوٹ جاتا ہے، پھر دوبارہ کوشش کرتی ہوں، کچھ سیکنڈ کے بعد دوبارہ توجہ بکھر جاتی ہے اور میں کچھ محسوس نہیں کر پاتی۔ اس بار میری سات نمازیں بھی رہ گئی تھیں کیونکہ مجھے شام کو پڑھانے جانا ہوتا ہے۔ وہاں اعمال کرنے کی ترتیب ذرا مشکل ہوتی ہے اس لیے کبھی ہو جاتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے۔ میں اپنے دنیاوی معاملات میں ذہنی طور پر بہت تناؤ محسوس کرتی ہوں۔ سارا دن میرا دماغ اسی چیز کے بارے میں سوچتا ہے، اسی لیے میں کسی چیز پر توجہ نہیں دے پاتی۔ مجھے لگتا ہے کہ میں اللہ سے دور ہو رہی ہوں کیونکہ میں توجہ نہیں دے پا رہی، اور میری نمازیں بھی اسی وجہ رہ گئی تھیں۔

جواب:

بہت اچھی بات ہے کہ آپ کو فکر ہے۔ ہمت کرے تو انسان بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ آپ کے مشکل حالات مجھے پتا ہیں۔ ان حالات میں آپ جو کر رہی ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے لیکن بہرحال آپ ہمت کریں گی تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے دروازے اور کھولیں گے۔ آپ اپنی محنت جاری رکھیں اور جو نمازیں رہ گئی ہیں ان کی قضا پوری کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں توبہ بھی کر لیں۔ اللہ پاک آپ کو ان چیزوں سے بچا دے۔ ان باتوں کی فکر ہونی چاہیے لیکن اس فکر کا حل یہی ہے کہ اس کا تدارک کیا جائے۔ اگر آپ نے نماز پڑھ لی، توبہ کر لی اور آئندہ نہ کرنے کا عہد کر لیا تو پھر تناؤ ختم ہو جائے گی۔ جہاں تک توجہ کی بات ہے وہ تو آہستہ آہستہ بڑھے گی لیکن آپ اپنی کوشش جاری رکھیں۔ 

سوال نمبر14:

حضرت صاحب السلام علیکم! میں نے آپ کے بتایا ہوا ذکر شروع کیا ہے لیکن یہ بتاتے ہوئے بہت دکھ ہوتا ہے کہ میں اسے با قاعدگی سے نہیں کر پا رہا ہوں۔ میں نے 40 دن والا ذکر تو مکمل کر لیا لیکن اس کے بعد والے ذکر میں تسلسل قائم نہیں رکھ سکا۔ ازراہ کرم میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

میں اس میں صرف اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ دو قسم کے تزکیے ہیں، ایک تزکیہ اِس دنیا میں ہے ایک تزکیہ اُس دنیا میں ہے۔ اِس دنیا میں جو تزکیہ ہے وہ ذکر اذکار اور مراقبات و مجاہدات سے ہو جائے گا۔ اگر یہاں یہ تزکیہ نہ کروایا تو پھر اُس دنیا میں جہنم سے تزکیہ ہو گا۔ ان دو تزکیوں میں سے آپ کون سے تزکیہ کو پسند کرتے ہیں۔ میں کچھ نہیں کہتا آپ خود فیصلہ کر لیں کہ آپ کو کون سا تزکیہ چاہیے۔ میرا خیال یہ ہے کہ جہنم سے بچنے کے لئے آپ کو اِس دنیا میں تزکیہ کی چیزیں باقاعدگی سے کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔

ایک نو مسلم خاتون یہاں پاکستان آئی، یہاں اس کی ملاقات پاکستان کی ماڈرن خواتین سے ہوئی۔ گرمی کے دن تھے اس نو مسلم خاتون نے برقعہ اوڑھا تھا ان ماڈرن خواتین نے کہا کہ آپ کو برقعہ میں گرمی محسوس نہیں ہوتی؟ اس نے کہا: گرمی تو بہت لگتی ہے۔ انہوں نے کہا: پھر آپ برقعہ اتار دیں۔ اس جگہ پر آس پاس مرد بھی تھے۔ اس نو مسلم خاتون نے کہا: جہنم کی گرمی اِس گرمی سے زیادہ ہے۔

بس یہی سوچ کی بات ہے۔ میں یہی کہوں گا کہ تزکیہ تو ہونا ہی ہے چاہے یہاں ہو جائے کہ آدمی اپنی اصلاح کروا لے یا پھر وہاں ہو جائے۔ بس شرط یہ ہے کہ ایمان پہ خاتمہ ہو جائے، کیونکہ بعض دفعہ کبیرہ گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ کبائر پر اصرار بے ایمانی کی طرف لے جاتا ہے، ایسی صورت میں خدانخوستہ اگر ایمان کے ساتھ نہیں گئے تو پھر کچھ بھی نہیں ہے پھر تو وہاں بھی کوئی تزکیہ نہیں ہو گا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا عذاب ہو گا۔ لیکن اگر ایمان کے ساتھ چلے گئے تو تزکیہ ہو گا، تزکیہ کے بعد پاک و صاف ہونے کے بعد جنت بھی ملے گی۔ لیکن اللہ معاف فرمائے وہاں کا تزکیہ بڑا سخت ہے۔ لہٰذا یہاں دنیا میں تزکیۂ نفس کے لئے جو معمولات دئیے جائیں انہیں مشکل نہیں سمجھنا چاہیے اور با قاعدگی سے عمل میں لانا چاہیے۔

سوال نمبر15:

السلام علیکم۔ حضرت جی ایک خواب میں دیکھا تھا کہ آپ اور میں فرینڈز ہاسپٹل سے خانقاہ کی طرف آ رہے ہوتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں نظر کا مجاہدہ تو ہو گیا اب زبان کا مجاہدہ کیا کریں۔ گویا کہ آپ زبان کے مجاہدے کے بارے میں فکرمند تھے۔ 

جواب:

جی آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔ زبان بہت سے گناہوں کا مرکز ہے، غیبت، جھوٹ، چغلی اور بد گمانی اس قسم کی چیزیں ہیں، یہ سب زبان کے گناہ ہیں۔ زبان کے گناہ سے بچنے کے لئے خاموشی کا مجاہدہ سیکھنا چاہیے۔ کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو، تولنے کا موقعہ ملے گا تو تولیں گے۔ اگر آپ بے تکان بولیں گے تو کیسے تولیں گے، تولنے کا تو موقعہ ہی نہیں ملے گا۔ لہٰذا ہم پہلے خاموشی کا مجاہدہ کرتے ہیں تاکہ تولنے کے لئے وقت حاصل کر لیں پھر اس کے بعد سوچ سوچ کے بولیں گے ان شاء اللہ۔ 

سوال نمبر16:

حضرت قرآن شریف میں انبیاء کرام، صدیقین، شہداء اور صالحین کا ذکر ہے صالحین میں تو مشائخ کرام، صوفیاء و اولیاء آتے ہیں، شہداء کا بھی معلوم ہے اور انبیاء کرام کا بھی پتا ہے۔ یہ رہنمائی فرما دیجئے کہ صدیقین کون لوگ ہوتے ہیں؟

جواب:

صدیقیت ولایت کا بہت اونچا درجہ ہے۔ صدیقین انہیں کہتے ہیں جن کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ ہو، جو وہ کہہ رہے ہوتے ہیں وہی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اندر باہر سے ایک ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ صدیقین کہلاتے ہیں۔

دو باتیں ہیں ایک یہ ہے کہ ایک انسان کہہ دے میں کچھ بھی نہیں ہوں، دوسرا یہ کہ اپنی غلطیاں بتاتا ہو مگر ان کی اصلاح نہ کرتا ہو بس صرف بتاتا رہے۔ بتانا اصلاح کے لئے ہوتا ہے، اگر وہ بتانے کے ساتھ ساتھ اصلاح کی کوشش کرتا ہے اس بارے میں سوچتا ہے تو پھر یہ واقعی صدیقیت کی طرف جا رہا ہے، لیکن اگر وہ صرف اس لئے بتاتا ہے کہ اپنا بوجھ ہلکا کر لے تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں کو یہ مرض ہوتا ہے کہ وہ صرف بتاتے رہتے ہیں کہ میں نے یہ غلط کیا، یہ غلط کیا، یہ غلط کیا یہ عیسائیوں کا شعار ہے جسے "confession" کہتے ہیں۔ اس سے کچھ نہیں ہوتا، اگر کچھ اچھا ہوتا ہے تو وہ اصلاح سے ہوتا ہے۔

اکثر لوگ مجھے کہتے ہیں کہ رہنمائی فرما دیں حالانکہ اس کا حل ان کے پاس خود موجود ہوتا ہے صرف ہمت کی ضرورت ہوتی ہے جو انہیں خود کرنی ہو گی، میں کسی سے زبردستی ہمت تو نہیں کروا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہوں کہ ہمت کرو ہمت سے کام بنے گا۔ ہمت کرنا اختیاری چیز ہے اختیاری امور میں اختیار کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی اختیار استعمال نہیں کر سکتا اور مجھے کہتا ہے کہ میری رہنمائی کر دیں تو میں مزید کیسے رہنمائی کروں۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے مجدد تھے انہیں اگر کوئی خط میں لکھتا کہ مجھ سے فلاں کام نہیں ہوتا تو حضرت اس سے پوچھتے کہ یہ اختیاری ہے یا غیر اختیاری ہے۔ وہ جو جواب دیتا اس کے مطابق اسے حل بتاتے۔ جیسے اس نے کہا کہ اختیاری ہے تو فرماتے پھر اختیار کو استعمال کرو۔ اگر غلطی اختیاری ہے تو اس کی تلافی بھی اختیاری ہے۔ اگر وہ کہتا کہ غیر اختیاری ہے حضرت کہتے کہ پھر اس کے پیچھے ہی نہ پڑو، اس کے پیچھے پڑتے ہی کیوں ہو، خواہ مخواہ اس کی فکر کیوں ہے، پریشانی کیوں ہے، اس کے بارے میں تم سے پوچھا ہی نہیں جائے گا۔

مثلاً اگر کوئی کہتا ہے کہ پہلے مجھے اچھے اچھے خواب آتے تھے اب نہیں آتے۔ اس کو بتاتے بھائی یہ کام تمھارے اختیار میں پہلے بھی نہیں تھا اب بھی نہیں ہے تو اس کے درپے کیوں ہو۔ یہ کوئی عیب نہیں ہے یہ کوئی پوچھی جانے والی بات نہیں ہے کیوں اس کے بارے میں فکر مند ہو۔ اس طرح دو لفظوں اختیاری اور غیر اختیاری میں اصلاح فرما دیتے۔ یہ اصلاح اب بھی ہو سکتی ہے لیکن لوگ توجہ نہیں کرتے۔ آج بھی ایک صاحب مجھ سے بہت سارے سوال کر رہے تھے کہ یہ کیسے ہو گا، یہ کیسے ہو گا، ان سب کا حل یہ تھا کہ یہ سارے کام ہمت سے ہوں گے لیکن اب میں ہمت کیسے کراؤں، میرے پاس کوئی گیدڑ سنگی تو ہے نہیں جس کے ذریعے میں اس کو ہمت کراؤں۔

لوگ سارا بوجھ شیخ پر ڈالتے ہیں کہ سارا کام آپ ہی میرے لئے کر لیں میں خود کچھ نہیں کر سکتا۔ دنیا میں تو ایسا نہیں ہوتا دنیا میں تو ہم دنیاوی چیزیں میں صرف اشارہ کی تلاش میں ہوتے ہیں، اشارہ مل جاتا ہے تو کہتے ہیں باقی کام ہم خود کر لیں گے۔ لیکن دین میں کہتے ہیں کہ بالکل تیار نوالہ میرے منہ میں کوئی دے دے تو پھر میں کروں گا۔ ان باتوں کو سمجھنا چاہیے اور دین کے معاملے میں ہمت سے کام لینا چاہیے۔

سوال نمبر17:

شیطان کو جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دربار سے نکالا، شیطان نے اللہ تعالیٰ کی عزت کی قسم کھائی اور کہا:

﴿فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (ص: 82)

ترجمہ: ”بس تو میں تیری عزت کی قسم کھاتا ہوں کہ میں ان سب کو بہکاؤں گا۔“

تو کیا شیطان اللہ تعالیٰ سے خود مایوس ہو گیا تھا یا اپنے آپ سے مایوس تھا کہ اس نے پھر اللہ تعالیٰ کی ذات کی قسم کھائی۔ یہ تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ اللہ تعالیٰ سے اس فیصلہ کے بعد بھی راضی تھا کیونکہ اس نے عزت کی بات کی۔

جواب:

در اصل وہ اللہ سے راضی نہیں تھا، وہ آدم علیہ السلام سے حسد کرنے لگ گیا تھا، اگر اللہ پاک سے راضی ہوتا تو حسد کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور اس کے بگڑنے کی بنیاد ہی حسد تھا۔ شیطان کا بنیادی مسئلہ حسد تھا فرق صرف یہ ہے کہ وہ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا تھا اور وہ عارف تو تھا ہی، اللہ تعالیٰ کی عزت و جلال سے تو واقف تھا ہی۔ وہ جانتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عزت و جلال کیا ہے وہ صرف حسد کی وجہ سے اپنے خبثِ باطن سے مجبور تھا، حسد کی وجہ سے وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کر سکتا تھا۔

جیسے بعض لوگ ضد میں آ کر کہتے ہیں کہ اگر میں کافر بھی ہو جاؤں تو پھر بھی یہ کام کروں گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کافر ہونا جانتے تو ہیں کہ کفر اور کافر ہونا کیا ہوتا ہے۔ لیکن ان کی خباثت ایسے اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے کہ ان کے سامنے اسلام و کفر میں فرق نہیں رہ جاتا۔ شیطان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اللہ پاک کی عزت و جلال کی جو اس نے قسم کھائی وہ حقیقت کی بات تھی، کیونکہ وہ جانتا تھا اور اب بھی جانتا ہے، اللہ تعالیٰ کی توحید کا بھی قائل ہے وہ کسی اور کو سجدہ نہیں کرتا، اگر اس نے اللہ کو سجدہ کرنا چھوڑ دیا تو کسی اور کو بھی نہیں کرتا۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے حسد کی وجہ سے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کر سکا۔ اسی وجہ سے وہ راندۂ درگاہ ہو گیا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں ہے کہ کسی پیغمبر سے شیطان کی ملاقات ہوئی۔ شیطان نے ان کے سامنے بہت رو رو کے آہ و زاری کی کہ اللہ پاک مجھ پہ کرم کریں آخر میں بھی اللہ پاک کا بندہ ہوں اگر مجھے معاف کرنے کی کوئی سبیل ہو تو بتا دی جائے، میں نے اپنا سارا کچھ ضائع کر دیا ہے۔ پیغمبر تو ہوتے ہی اللہ تعالیٰ سے ملانے کے لئے ہیں انہوں نے اللہ پاک سے درخواست کی کہ یا اللہ اگر وہ ٹھیک ہونا چاہے تو اس کے لئے کوئی سبیل ہے؟ اللہ پاک نے فرمایا: کیوں نہیں وہ ابھی آدم علیہ السلام کی قبر کو سجدہ کر لے تو اس کو معافی دے دی جائے گی۔ آدم علیہ السلام کی قبر تو موجود تھی اور یہی اس کا ویک پوائنٹ تھا۔ اس نے کہا: یہ تو نہیں ہو سکتا۔ شیطان تمام چیزوں کو جانتا تھا، مسئلہ صرف حسد کا تھا اور کچھ نہیں تھا۔ 

سوال نمبر18:

ایک بات میرے ذہن میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی غضب والی صفت کہیں شیطان کی صورت میں ظاہر تو نہیں ہوئی کہ جس پر اللہ تعالیٰ اپنا غضب ڈالنا چاہتے ہیں اس پہ شیطان کو مسلط کرتے ہیں۔ جبکہ اللہ پاک کی رحمت کی صفت آپ ﷺ کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔

جواب:

ان باریکات میں نہیں جانا چاہیے، جو بات کہی گئی ہے انسان اتنا ہی کر لے تو کافی ہے۔ اللہ جل شانہ کے حکم کے مقابلہ میں جو اپنی منطق لائے گا وہ در اصل شیطان کے راستہ پہ جا رہا ہے، جو اپنی عقل کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں استعمال کرے تو یہ راستہ شیطان کا ہے۔ ایسا آدمی کسی وقت بھی پھسل کر گہرائی میں گر سکتا ہے۔ اس وجہ سے ہمیں اس چیز سے بچنا چاہیے کہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں اپنی عقل کے گھوڑے نہیں دوڑانے چاہئیں۔ شیطان کو مار ہی اس سے پڑی ہے کہ اس نے اپنی منطق استعمال کر کے کہا تھا:

﴿اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ (الاعراف: 12)

ترجمہ: ”میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اور اس کو مٹی سے پیدا کیا۔“

یہ منطق اس نے استعمال کی کہ میں آگ سے بنا ہوں اور وہ مٹی سے بنا ہے آگ مٹی سے افضل ہے۔ اسے کس نے یہ کہا تھا کہ آگ مٹی سے افضل ہے، اس کے پاس کوئی نقلی دلیل نہیں تھی، یہ تو اس نے اپنی طرف سے عقل لگائی تھی اور پھر اسی پہ اڑ گیا۔ اس نے ایک خود ساختہ منطق کو استعمال کر کے اپنے پیروں پہ کلہاڑی مار لی۔

اس میں ہمارے لئے یہ سبق اور عبرت ہے کہ ہم لوگ کبھی بھی اللہ پاک کے حکم کے مقابلہ میں اپنی عقل کو نہ لائیں۔

باقی اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں آپ ﷺ کے جتنے قریب جائیں گے اتنی رحمتیں حاصل ہوں گی چاہے وہ سنتوں کے اوپر عمل کے ذریعے سے ہو، چاہے درود شریف پڑھنے کے ذریعے سے ہو، چاہے آپ ﷺ کا تذکرہ کر کے ہو۔ چونکہ آپ ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں لہٰذا جتنا جتنا ہم آپ ﷺ کے قریب ہوتے جائیں گے اتنا اتنا اللہ پاک کی رحمت کے قریب ہوں گے۔

سوال نمبر19:

مستدل کسے کہتے ہیں؟

جواب:

مستدل، جس چیز سے انسان دلیل پکڑتا ہو۔

سوال نمبر20:

السلام علیکم۔ حضرت جی مقامات کی ایک ماہ کی رپورٹ درج ذیل ہے۔

تہجد:

پچھلے ماہ اس میں چھ ناغے ہوئے اس ماہ ان شاء اللہ ناغوں سے بچنے کی کوشش کروں گا۔

سلام کرنا:

اس میں پہلے کی نسبت کافی بہتری ہے لیکن ابھی کچھ کمی محسوس ہو رہی ہے اس پر کوشش جاری ہے۔

کھانا کھلانا:

اس پر الحمد للہ استطاعت کے مطابق عمل کی توفیق ہوئی رشتہ دار خاص کر اہلیہ کے رشتہ دار وغیرہ کو کھانا کھلانے کے مواقع ملتے رہے لیکن جو زیادہ غریب ہو اس کو کھانا کھلانے کا موقعہ نہیں ملا بس ایک بار ایک مزدوری کرنے والے صاحب کو کھلایا اس ماہ غریبوں کو کھلانے کی کوشش کروں گا۔

صلہ رحمی:

اہلیہ کے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنے کا زیادہ موقعہ ملا اپنے رشتہ داروں سے کم موقع ملا اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اہلیہ کو میرا اپنے رشتہ داروں سے ملنا زیادہ پسند نہیں۔ اس ماہ اس میں بہتری لانے کی کوشش کروں گا۔

زبان:

الحمد للہ غیبت اور باقی گناہوں سے بچنے کی توفیق ہوئی لیکن اس میں مزید استحضار کرنے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔ اہلیہ اگر کوئی لڑائی والی بات کرے تو اس پر چپ ہو جاتا ہوں جس پر پھر وہ مجھے گونگا بدمعاش کہتی ہے۔

شرم گاہ:

الحمد للہ اس کی بھی حفاظت ہوئی، مزید بچاؤ کی کوشش کروں گا۔

جواب:

یہ باتیں آپ نے جو فرمائی ہیں بڑی اچھی ہیں یقیناً یہ آپ کے نفس کے اصلاح کے لئے بہت کام کی چیزیں ہیں۔ البتہ ایک بات یاد رکھیں تواضع کا حکم ہے تذلل کا نہیں ہے۔ عزت نفس جو اللہ نے دی ہے اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ایک شخص آپ کو ذلیل کر رہا ہے تو اس وقت اپنے آپ کو ذلت سے بچانا لازم ہے بالخصوص اگر وہ آپ کا ما تحت ہو یا آپ کی بیوی ہو تو اس صورت میں اپنے آپ کو ذلیل نہیں کروانا چاہیے۔ مثلاً وہ آپ کو بد معاش کہہ رہی ہے تو اس کا اس کو حق نہیں ہے اس پر اس کی فہمائش کرنی چاہیے۔ آپ بھی اس کو بد معاش نہ کہیں ورنہ پھر اس کو بھی حق ہو گا۔ عزت نفس کو خراب نہیں کیا جا سکتا۔ تواضع یہ ہے کہ اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھیں لیکن یہ اللہ کے سامنے ہو اور اللہ کے لئے دوسروں کے سامنے ہو لیکن اگر کوئی اللہ کا قانون توڑ رہا ہے اور آپ کو ذلیل کر رہا ہے تو اس کی فہمائش کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا تواضع ہونی چاہیے تذلل نہیں ہونا چاہیے۔  

سوال نمبر21:

اگر کسی کے اندر موجود برائیاں ٹھیک ہو رہی ہوں تو اس انسان کو کیسے پتا چلے گا کہ یہ ٹھیک ہو رہی ہیں؟

جواب:

جہاں تک علاج کا تعلق ہے تو علاج میں ڈاکٹر اور مریض کا طریقہ کار یہ ہے کہ مریض ڈاکٹر کو اپنی کیفیت بتاتا ہے، اس کے ٹھیک اور غلط ہونے کا فیصلہ ڈاکٹر کرتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی سمجھتا ہے میں ٹھیک ہو گیا ہوں لیکن ڈاکٹر کہتا ہے ابھی آپ ٹھیک نہیں ہوئے۔ جیسے ٹی بی کا علاج تقریباً نو مہینے چلتا ہے، پہلے دو تین ماہ میں انسان سے ٹی بی کی ظاہری علامات ختم ہو جاتی ہیں آدمی سمجھتا ہے میں ٹھیک ہو گیا ہوں لیکن ڈاکٹر کہتا ہے ابھی ٹھیک نہیں ہوئے کیونکہ اس کو پتا ہے کہ ابھی جراثیم ختم نہیں ہوئے ہیں، ظاہری علامات ختم ہو گئی ہیں لیکن اس کی جڑیں ابھی باقی ہیں اگر اس وقت دوائی روک دیں تو علامات واپس آ جائیں گی۔ روحانیت کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے کہ جب تک شیخ خود نہ بتائے کہ ہاں اب یہ بیماری مکمل طور پر ٹھیک ہو چکی ہے تب تک یہ نہ سمجھے کہ میرے اندر موجود برائیاں ٹھیک ہو گئی ہیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ