اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
کوئی ایسا وظیفہ بتا دیجیے جس سے میرے دل کو سکون مل جائے، گھر میں سکون سے رہ سکوں اور نماز میں دل لگ جائے۔
جواب:
اللہ جل شانہ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد: 28)
ترجمہ: ”یا درکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے“۔
آپ بھی اللہ تعالیٰ کا نام لینا شروع کر لیں۔ پہلے آپ نے مجھ سے وظیفہ لیا ہے یا نہیں لیا اس کی تفصیل بتا دیں تاکہ میں اس کے مطابق آپ کی رہنمائی کر سکوں۔ چونکہ اللہ پاک نے یہی فرمایا ہے کہ دلوں کا اطمینان ذکر میں ہے اس لئے میں بھی آپ کو ذکر ہی دوں گا، لیکن اس کے لئے پہلے آپ مجھے مطلوبہ تفصیل بتا دیں۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم حضرت جی! میرے چاروں مراقبے اچھے نہیں چل رہے۔ رہنمائی فرما دیجئے کہ اس بارے میں کیا کروں۔ براہِ کرم اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے روحانی طاقت اور صحت مند و فرمانبردار بچہ عطا فرمائے اور میرے والد کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ چند سال پہلے وہ با قاعدہ اذکار و مراقبات کرتے تھے اور چوتھے لطیفہ پر پہنچ گئے تھے لیکن پھر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اور اب حالات یہ ہیں کہ وہ نماز تک نہیں پڑھتے۔ دعا فرمائیں کہ اللہ ان کے حالات ٹھیک کر دیں۔
جواب:
دعا تو میں کرتا ہی ہوں۔ آپ ایسا کریں کہ اپنے مراقبات کی تفصیل مجھے بتا دیں تاکہ میں آپ کو اس کے بارے میں رہنمائی کر سکوں۔ صرف اتنا کہنا کہ ”مراقبات اچھے نہیں جا رہے ہیں“ کافی نہیں ہے، اس سے مجھے کچھ پتا نہیں چل رہا۔ آپ اس کی تفصیل بتا دیں پھر ان شاء اللہ میں آپ کی درست رہنمائی کر سکوں گا۔
جہاں تک والد صاحب کی بات ہے، آپ تہجد کی نماز پڑھ کر ان کے لئے دعا کیا کریں کہ اللہ پاک انہیں راہ راست پر لے آئیں اور جس وجہ سے وه راستے سے ہٹ گئے ہیں اللہ تعالیٰ اسے دور فرمائیں اور ان کے لئے آسانی پیدا فرمائيں۔ میں بھی دعا کرتا ہوں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ! حضرت جی میں جہلم سے ہوں۔ میری خالہ آپ سے ذکر لینا چاہتی ہیں۔
جواب:
آپ انہیں میری طرف سے یہ ذکر دے دیجئے۔ ایک وقت اور ایک جگہ مقرر کر لیں اور اس وقت میں اسی جگہ پر روزانہ 300 دفعہ ”سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ ِللهِ وَلَاۤ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللهُ أَکْبَرُ“ اور 200 دفعہ ”لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“ کا ذکر کیا کریں۔ 40 دن تک بلا ناغہ کرنے کے بعد مجھے اطلاع کر دیجئے گا۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! امید ہے کہ حضرت اور تمام متعلقین خیریت سے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شب قدر دنیا بھر میں ایک ہی رات میں ہوتی ہے یا یہ مختلف لوگوں کے لئے مختلف راتوں میں آ سکتی ہے؟ سوال کا منشاء یہ ہے کہ بعض صحابہ جیسے عبد اللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شب قدر کے بارے میں تئیسویں رات کو قول منقول ہے۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بعض کہتے ہیں شب قدر ستائیس کو ہی ہوتی ہے۔ نیز دنیا بھر میں رمضان کا مہینہ ایک تاریخ کے ساتھ نہیں ہوتا، کہیں طاق رات ہوتی ہے، اسی رات کسی دوسرے میں ملک طاق رات نہیں ہوتی، ان دونوں میں تطبیق کس طرح دے سکتے ہیں۔ حضرت جواب مرحمت فرمائیں تو بڑی مہربانی ہو گی۔
جواب:
یہ ایک علمی اور کشفی بات ہے، علم اور کشف، یہ دونوں عنصر اس میں پائے جاتے ہیں۔ علمی طور پر اس کی وضاحت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔ اس حدیث کے مطابق شب قدر کا امکان طاق راتوں میں زیادہ ہے، لیکن یہ جفت سے نفی نہیں ہے، کسی جفت رات میں بھی شب قدر ہو سکتی oy. البتہ آخری عشرے میں شب قدر کا ہونا حتمی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ شب قدر کا محسوس ہونا ایک کشفی چیز ہے۔ بعض حضرات کو کشفی طور پر نظر آئے گی بعض کو نظر نہیں آئے گی اور ہر دفعہ نظر آنا بھی لازم نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی نے جب بھی شب قدر دیکھی ہو ستائیسویں کو دیکھى ہو، اور وہ اس پر جزم کر لے کہ شب قدر ہمیشہ ستائیسویں کو ہی ہوتی ہے، حالانکہ ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف حضرات نے مختلف راتوں میں شب قدر کی علامات دیکھی ہیں، اس لئے کسی ایک رات کو حتمی طور پر شب قدر کے لئے مقرر کر لینا ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ وہ علامات پر مبنی ہے اور کشف ایک ظنی چیز ہے، ظنی چیز پر اتنا یقین نہیں کرنا چاہیے کہ قطعی چیز کو فراموش کر دیا جائے، قطعی بات بس یہ ہے کہ آخری عشرے میں ہے، لہذا آخری عشرے میں اپنی کوشش جاری رکھے۔ البتہ ظنی طور پر چونکہ ستائیسویں کو شب قدر ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے لہٰذا ستائیسویں رات کو بالکل غفلت نہ کرے بہت زیادہ کوشش کرے۔ باقی یہ ہے کہ کسی رات میں بھی غفلت میں نہ رہیں کیونکہ امکان تو کسی بھی رات میں ہو سکتا ہے۔
ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ جل شانہ نے ایک رات ہماری نگاہوں سے مخفی کر کے ہمیں 5 راتیں دے دیں۔ اگر ہم رمضان کے آخری عشرے میں ہر رات عبادت کریں تو ہمیں یقیناً شب قدر مل سکتی ہے، کیونکہ ان دس میں سے ایک رات میں تو شب قدر یقینی ہے۔ اس لئے آپ ہر رات اس گمان کے ساتھ عبادت کریں کہ ہو سکتا ہے آج رات ہی شب قدر ہو، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ“ (صحیح مسلم: 6805)
ترجمہ: ”میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں“۔
آپ کے گمان کے مطابق آپ کو ضرور شب قدر مل جائے گی۔ چاہے وہ طاق راتوں میں ہو یا جفت راتوں میں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر5:
اطلاع حال: فکر و ذکر کے ذریعے قلب پر یہ احوال آئے، سینے میں ٹھنڈک، اللہ کے ساتھ اعلیٰ درجے کا حسن ظن اور اللہ کی شدید محبت و طمانیت۔ کچھ دیر یہ احوال رہے پھر جاتے رہے، پھر دوبارہ آئے، پھر کچھ كچھ کم ہوئے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
در اصل اس معاملے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون سی چیز دیرپا ہے اور کون سی عارضی ہے۔ احوال بدلتے رہتے ہیں جبکہ مقامات قائم رہتے ہیں۔ مقام کہتے ہی اس چیز کو ہیں جو قائم ہو چکی ہو اور مقام کے حصول پر ہی اجر کا وعدہ ہے۔
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾ (فصلت: 30)
ترجمہ: ”جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے“۔
مقام کا معنی ثابت قدم رہنے کی جگہ ہے، اسی مقام کے حصول پر اجر کا وعدہ ہے، جبکہ احوال بدلتے رہتے ہیں۔
میرے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے بہت پہلے خبردار کر دیا تھا کہ احوال کے پیچھے نہ پڑیں، یہ راستے کے کھیل تماشے ہيں۔ آج کل ایک دنیا احوال میں مست و سرگرداں ہے اور اصل چیز سے غافل ہے۔ جو سالک احوال سے بے نیاز ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کر لے وہ بہت ہی مبارک ہے۔ اگر کسی کو اللہ پاک کی بندگی نصیب ہو جائے تو وہ بہت خوش نصیب ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں بہت وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے، اللہ کرے کہ ہمیں سمجھ میں آ جائے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ احوال کا سلسلہ تبدیل ہونے والا سلسلہ ہے جبکہ مقامات کا حصول در حقیقت قرب کا موجب ہے، اس وجہ سے مقامات کو حاصل کرنا چاہیے اور اس کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے، احوال تو خود بخود ملتے رہتے ہیں ان کے لئے محنت ضروری نہیں ہے، لیکن مقام کے لئے باقاعدہ محنت کروائی جاتی ہے۔
”ثُمَّ اسْتَقَامُوا“ (پھر وہ اس پر قائم رہے)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں انسان کا اپنا عمل اور عزم و ارادہ شامل ہے جبکہ احوال خود بخود آتے رہتے ہیں، ان کی مثال ہوا کی طرح ہے جس کا چلنا کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا، کبھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آ گیا کبھی گرم لو چلنے لگ پڑی۔ ہم نہ لو کے ساتھ ہیں نہ ٹھنڈی ہوا کے ساتھ ہیں ہم تو اللہ کے ساتھ ہیں، ہمیں تو اللہ کی رضا چاہیے لہذا ہمیں احوال کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ احوال محمود ہو سکتے ہیں مگر مقصود نہیں ہیں جبکہ مقامات مقصود ہیں لہٰذا مقامات کو حاصل کرنا چاہیے، جیسے صبر مقصود ہے، شکر مقصود ہے، توکل مقصود ہے، زہد مقصود ہے۔ یہ تمام چیزیں مقامات ہیں، ان مقامات کو حاصل کرنا چاہیے، ان کے حصول کی فکر کرنی چاہیے ان کے ذریعے انسان ترقی کرتا ہے۔
سوال نمبر6:
”ہمارے سلسلے سے مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ چشتیہ اور نقشبندیہ مجددیہ سلسلے کا جوڑ حقیقتاً موجود ہے، یعنی حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت ایسی ہے جن پر دونوں سلسلوں کا جوڑ ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں دور حاضر کے تقاضوں سے ایک تقاضا یہ بھی تھا کہ یہ دونوں سلسلے مل جائیں۔ چشتیہ سلسلے میں اظہار ہے اور نقشبندیہ سلسلے میں اخفاء ہے، اور آج کے دور میں یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں“۔
جواب:
اخفاء بڑی اچھی چیز ہے لیکن وہ واضح اور شفاف نہیں ہوتی۔ اخفاء میں اگر کوئی اچھا ہو جائے تو بہت اچھا ہو جائے گا اور اگر خدا نخواستہ بگڑ جائے تو پھر اس کا پتا ہی نہیں چلتا کہ کدھر بگڑ گیا اور کہاں پر بگڑ گیا۔
چشتیہ سلسلے میں اظہار ہوتا ہے جبکہ نقشبندی سلسلہ اندر ہی اندر کام کرتا ہے۔ اگر اندر والا خالص معاملہ ہو، پھر تو بڑی اچھی بات ہے، سبحان اللہ اس سے زیادہ اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ لیکن اب وقت جتنا حضور ﷺ کے زمانے سے دور ہوتا جا رہا ہے، اتنی برائی اور گمراہی غالب آتی جا رہی ہے۔ اگر گمراہی اخفاء کی صورت میں ہو گی تو معاملہ خطرناک ہوتا جائے گا اس برائی کا پتا ہی نہیں چلے گا کیونکہ اس میں سب کچھ اخفاءً ہو رہا ہو گا، کسی کو غلطی کا پتا نہیں چلے گا تو اصلاح بھی نہیں ہو گی۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی مثال مجذوب متمکن سے دی ہے۔ یہ بات مجدد صاحب نے 400 سال پہلے فرمائی ہے، لیکن ایسی دور اندیشی سے تجزیہ فرمایا ہے کہ جن مسائل کی وجہ سے اس وقت مجذوب متمکن بننے کا خدشہ تھا وہی مسائل آج بھی موجود ہیں اور کسی کے ساتھ بھی پیش آ سکتے ہیں۔ اگر ایک سالک مجذوب متمکن بن جائے اور وہ ایک دنیا کو خراب کر دے پھر کیا ہو گا۔ لہٰذا جو مسائل اخفاء کی وجہ سے پیش آتے ہیں ان سے بچنے کے لئے ضروری تھا کہ کسی حد تک اظہار بھی ہو۔
نقشبندیہ سلسلہ حضرت باقی باللہ سے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منتقل ہوا، پھر مجدد صاحب کے علوم و معارف حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے طرف سے ہوتے ہوئے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچے اور ان سے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منتقل ہو کر ایک منظم و مربوط شکل میں ظاہر ہوئے۔ ان علوم کا مختلف صورتوں میں اظہار اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اس کا ظاہر ہونا ضروری تھا، اس سلسلے کے ذریعے سے اس کو ظاہر کر دیا گیا۔ یہ چیزیں پہلے سے موجود تھیں لیکن ظاہر اب کی گئی ہیں، ان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ پکے نقشبندی تھے، ان کے پاس با قاعدہ نقشبندی سلسلہ کی خلافت تھی، نقشبندیت سے چشتیت کی طرف خود نہیں گئے بلکہ آپ ﷺ نے ان کا ہاتھ ایک چشتی بزرگ میاں جی نور محمد جھنجھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ میں دیا تھا۔ حاجی صاحب اور میاں جی نور محمد جھنجھانوی رحمۃ اللہ علیہما، دونوں حضرات نے خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ نے حاجی صاحب کا ہاتھ میاں جی کے ہاتھ میں دے دیا۔ دونوں حضرات نے اپنے اپنے خواب میں ہی ایک دوسرے کو پہلی بار دیکھا تھا، جب حقیقت میں ملے تو ایک دوسرے کو پہچان لیا، اور حاجی صاحب میاں جی سے بیعت ہو گئے اور چشتی سلسلہ کے مطابق بھی ان کی تربیت ہو گئی۔
یہ انتظام، ایک نقشبندی کو چشتی سے ملانا، چشتی سلسلہ کے مطابق اس کی تربیت کرانا اور اس طرح دونوں سلسلوں کو یکجا کرنا، آپ ﷺ کی طرف سے وجود میں آیا اس کی وجہ یہی تھی کہ آج کل کے دور میں اس کی ضرورت تھی کہ دونوں سلسلے مل جائیں اور دونوں کے حساب سے کام ہو۔
حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ 1000 سال کے مجدد ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ 100 سال کے مجدد، پھر سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ ان سے اگلے 100 سال کے مجدد ہیں۔ ان کے بعد حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب آئے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ میں یہ مجددیت نقشبندیت اور چشتیت کے امتزاج کے ساتھ منتقل ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سارے انتظام کا مقصد یہ تھا کہ ان علوم و معارف کو ظاہر کیا جائے۔ اللہ جل شانہ ہمیں اس کی قدر کی توفیق عطا فرمائیں۔ ہماری کتاب فہم التصوف حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب شریعت و طریقت سے شروع ہوئی اور مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات پر ختم ہوئی۔ وحدت الوجود، وحدت الشہود، فنا، بقاء، کیفیت احسان اور حضوری، یہ سب اصطلاحات ہیں ان کی اصل حقیقت کا علم اور ادراک دونوں سلسلوں کے اکابر کو تھا، صرف الفاظ اور طریق بیان میں فرق تھا۔ مثلاً حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ جس کو جذب مبتدی اور جذب منتہی کہتے ہیں، اسی حقیقت کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صبح کاذب اور صبح صادق کے الفاظ میں سمجھاتے ہیں۔ فہم التصوف کی تالیف کے دوران ہمیں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی، انہوں نے اصطلاحات میں اضافہ کرنے کا حکم دیا، اس میں شاید یہ حکمت ہے کہ ہر دور کے الفاظ اور اصطلاحات الگ ہوتے ہیں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اس سے فائدہ پہنچائے۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم! حضرت اس رمضان میں لیلۃ القدر کون سی رات کو تھی؟
جواب:
اس سے آپ کو کیا فائدہ ہو گا، وہ جس رات کو بھی تھی، اب تو گزر گئی۔ اب آپ کو اس کے جاننے کا فائدہ نہیں ہو سکتا۔ آئندہ کی فکر کرو ممکن ہے اب جو انتیسویں رات آنے والی ہے، یہ شب قدر کی رات ہو، اگر شب قدر نہ ہوئی پھر یہ لیلۃ الجائزہ تو یقیناً ہے، اور اس کی اہمیت بھی کم نہیں ہے۔ ہم تجسس میں پڑ جاتے ہیں، تجسس کا کیا فائدہ۔ تجسس مت کرو، جب وقت آئے تب عمل کرو۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی ہماری طرف سے آپ اور اہل خانہ کو عید مبارک ہو۔ رمضان المبارک کی نعمت کا جیسے حق تھا ویسے ہم اس کی قدر نہ کر سکے۔ البتہ اس رمضان میں گزشتہ کی نسبت ایک بہتری یہ رہی کہ اس مرتبہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ بزبان حضرت شیخ برکت سے سنے، بہت فائدہ ہوا، الحمد للہ۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فر مائے آمین۔
جواب:
اللہ کا شکر ہے کسی کو فائدہ ہوا یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
سوال نمبر9:
ایک صاحب نے مجھے کسی کا کلام بھیجا۔ اچھا کلام تھا، اگرچہ اس میں شاعری کے لحاظ سے کچھ فرو گزاشتیں تھیں، لیکن ابتدا میں آدمی ایسے ہی لکھتا ہے اور غلطیاں کر کے سیکھ سیکھ کر بہتر ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے وہ ایک قابل قدر کاوش تھی۔ جن صاحب نے یہ کلام مجھے بھیجا، انہوں نے کہا : حضرت مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگوں کے اندر یہ صلاحیتیں کیسے آ جاتی ہیں، میرے اندر تو کوئی صلاحیت نہیں ہے۔
میں نے اسے جواب دیا: حسد نہ کیا کرو۔
انہوں نے کہا: حضرت میں رشک کر رہا ہوں، اور یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ آدمی اچھی شاعری کر رہا ہے جبکہ میرے اندر کوئی صلاحیت نہیں ہے۔
میں نے کہا: اگر یہ حسد نہیں ہے تو نا شکری ضرور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو مختلف صلاحیتیں دی ہوتی ہیں۔ مومن مومن کا آئینہ ہوتا ہے اس لئے اسے اپنی صلاحیت نظر نہیں آتی لیکن دوسرے کی صلاحیت نظر آ جاتی ہے۔
در اصل انسان کو اپنی خوبیاں نظر نہیں آتیں جن سے وہ کام لے سکتا ہے۔ انسان کے پاس بہت ساری صلاحيتیں ہوتی ہیں لیکن وہ ان صلاحیتوں کو یہ سوچ کر ضائع کرتا رہتا ہے کہ مجھ میں کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ در حقیقت یہ شکوہ ہے اور شکوہ نقصان دہ ہے۔ اگر اس میں صلاحیت ہے اور وہ اس صلاحیت کو صحیح استعمال نہیں کر رہا تو یہ ضياع ہے، اور کسی صلاحیت کو ضائع کرنا جرم ہے۔
مثلاً اس صاحب کو میں جانتا ہوں کہ یہ بڑی صلاحیتوں کے مالک ہیں لیکن کچھ چیزوں کی وجہ سے وہ صلاحیتیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اسی لئے اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان اپنے آپ کو اصلاح کے لئے اسی وجہ سے پیش کرتا ہے کہ اپنی اصلاح کروا کر اپنی صلاحیتوں کو صحیح طریقے سے استعمال کر سکے۔ نفس کے شر کی موجودگی میں وہ صلاحیتیں ضائع ہو رہی ہوتی ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو صحيح طور پر استعمال کرنے کے لئے اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ صلاحیتیں کہیں باہر سے نہیں آتیں، وہ انسان کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ بس انہیں درست طریقے سے استعمال کرنا ہوتا ہے۔
ضروری نہیں ہے کہ شاعری ہی ایک صلاحیت ہے، اور بھی کئی صلاحیتیں ہیں، بعض لوگوں میں بڑی بڑی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ اللہ پاک نے کسی کو شاعری کی صفت دی ہے، کسی کو تجزیہ و تنقید کی صلاحیت دی ہے کہ وہ بہترین تجزیہ کر سکتا ہے۔ اس وقت اگر میں مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ پر تحقیق کر لوں اور اس سے مجھے فائدہ ہو تو وہ میرے لئے زیادہ مفید ہے یا شاعری زیادہ مفید ہے۔ ظاہر ہے مجھے وہ تجزیہ زیادہ فائدہ پہنچائے گا۔
انسان اپنی صلاحیتیوں کو جانتا نہیں ہے اس کی نظر زیادہ تر دوسروں پہ ہوتی ہے، وہ انہی کو دیکھتا رہتا ہے، اپنی صلاحیتوں کے بارے میں نہیں سوچتا۔ یہ نا شکری ہوتی ہے۔ بجائے اس کے کہ دوسروں کو دیکھا جائے، اپنے اندر جھانکو، آپ کے اندر ایک جہاں بھرا ہوا ہے، اس جہاں کو دیکھو، اس سے کام لو دوسروں کے اوپر کیا نظر ڈالتے ہو کہ فلاں کے پاس کیا ہے۔ ہم لوگوں کو اپنی صلاحیتیں صحیح استعمال کرنے کے لئے غور کرنا چاہیے کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔ اس پر غور کرنا چاہیے دوسروں کے بارے میں نہیں دیکھنا چاہیے کہ اس کے پاس کیا ہے۔ رشک ضرور کیا جا سکتا ہے۔ رشک یہ ہے کہ دوسرے کے اچھے عمل کو دیکھا جائے کہ وہ اپنی صلاحیت سے فائدہ اٹھا رہا ہے اسے استعمال کر رہا ہے اس لئے وہ قابل رشک ہے۔ اچھے عمل پر رشک کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر ایک شخص صبح سویرے جاگتا ہے، قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے، تہجد پڑھتا ہے، اس پہ رشک کرنا چاہیے کیونکہ یہ نیک عمل ہے۔
اسی طرح ایک آدمی خود بخود جاگ جاتا ہے اس کی آنکھ کھل جاتی ہے، اس کے اندر یہ صلاحیت ہے جبکہ دوسرے کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے لیکن اس کے پاس الارم ہے وہ اس کے ذریعے جاگ جاتا ہے۔ اب اگر یہ آدمی واقعی الارم کے ذریعے جاگ کر تہجد پڑھتا ہے، تو اس نے اپنے اندر خود بخود جاگنے والی صلاحیت نہ ہوتے ہوئے بھی وہی فائدہ اٹھا لیا جو اس صلاحیت والا اٹھاتا ہے۔ اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
اب ایک آدمی رو رہا ہے کہ میری آنکھ خود سے نہیں کھلتی، وہ اس پر روتا رہے اور دوسروں کو کہتا رہے کہ فلاں کی آنکھ خود بخود کھل جاتی ہے اس کے اندر یہ صلاحیت ہے میرے اندر نہیں ہے، اور الارم وغیرہ کا استعمال بھی نہ کرے، تو یہ اپنے آپ کو ضائع کرنے والی بات ہے۔
کسی نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو خط لکھا کہ حضرت افسوس ہے ابھی تک میری یہ حالت نہیں ہوئی کہ میری آنکھ خود سے کھل جایا کرے، ابھی تک الارم کی ضرورت پڑتی ہے۔ حضرت نے فرمایا: آئندہ مجھے خط میں یہ لکھنا کہ ابھی تک مجھے کھانے پینے کی ضرورت پڑتی ہے، بغیر کھائے پئے میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ اتنا عرصہ گزر گیا مگر ابھی تک یہ کمال حاصل نہیں ہوا کہ بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکوں۔ خدا کے بندے! اللہ پاک نے تجھے جیسا بنایا ہے، اپنے آپ کو اسی کے مطابق استعمال کرو۔ جو کام تم کر سکتے ہو وہ کرو۔ عمل کے پیچھے پڑو سوچوں کے پیچھے نہ پڑو۔ دوسروں کو نہ دیکھو کہ اس کے پاس کیا ہے دیکھو کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں بلکہ عمل کو دیکھو جو لوگ اپنے عمل کے ذریعے کچھ کر رہے ہیں ان سے روشنی لو اور تم بھی کچھ اپنے آپ سے فائدہ اٹھاؤ، اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاؤ، وقت کی قدر کرو۔
حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میں نے وقت کی قدر ایک برف بیچنے والے سے سیکھی۔ میں برف بیچنے والے کے ساتھ میں بیٹھا ہوا تھا، میں دیکھ رہا تھا کہ وہ بڑا پریشان ہے، میں نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا: میری برف پگھل رہی ہے اور گاہک نہیں آ رہے، اگر گاہک آ جائے تو میری برف قیمتی بن جائے ورنہ پانی بن جائے گی پھر اس کو کون لے گا۔
یہی آپ کا وقت ہے۔ آپ نے اگر اپنے وقت سے کام نہیں لیا تو وقت تو گزر ہی جائے گا، وقت واپس نہیں آئے گا لیکن اگر آپ نے وقت سے کام لے لیا تو آپ کا کام بن جائے گا۔ اللہ پاک نے آپ کو جان دی ہے، مال دیا ہے، وقت دیا ہے صلاحیتیں دی ہیں ان سب کا مفید استعمال کر لو اور دوسروں پہ بالکل نظر نہ ڈالو ورنہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو ضائع کر لو گے۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! امید ہے کہ حضرت خیریت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کی کاوشوں کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ میرادرج ذیل ذکر چل رہا ہے: ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 200 مرتبہ، ”حَقْ“ 200 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 100 مرتبہ۔ جب بھی کوئی عمل کرتا ہوں تو اللہ اور محبت کا احساس بڑھتا ہی جاتا ہے۔ مثلاً نماز اور تلاوت قرآن کے دوران میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے دل میں مسلسل نور آتا ہے اور جسمانی توانائی اور طاقت بھی آتی ہے۔ یہ احساس ہوتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں اور یہ سب میری کوشش نہیں بلکہ اللہ کی رحمت ہے۔ حضرت جی آپ سے دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ بہت اچھی بات ہے۔ اللہ آپ کو مزید توفیق عطا فرمائے لیکن یہ بتائیے کہ آپ کو ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ ہو چکا ہے یا نہیں، اگر آپ کو علاجی ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ مکمل ہو چکا ہے تو اب اس ذکر کی ترتیب یوں کر لیں:
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 300 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 300 مرتبہ، ”حَقْ“ 300 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 100 مرتبہ۔
سوال نمبر11:
حضرت! اس بات کا ڈر لگتا ہے کہ کسی وقت بھی ہمت ٹوٹ سکتی ہے اور سستی کی وجہ سے معمولات چھوٹ جائیں گے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کہیں کہ میں کسی وقت بھی بیمار پڑ سکتا ہوں، اگر ایسا ہو گیا تو پھر میرا کیا ہو گا۔ ظاہر ہے اگر ایسا ہو بھی گیا تو آپ علاج کریں گے، اس کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں۔ مستقبل میں جو بھی ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے، اِس موجودہ وقت میں اول تو ہم اس پہ اتنی زیادہ توجہ نہ کریں کہ ڈر جائیں اور ڈر کے مارے کچھ کر ہی نہ سکیں۔ یہ بات عقلی طور پر انسان کے ذہن میں ہونی چاہیے کہ اگر کوئی ایسی مشکل ہو جس کا حل مستقبل میں ممکن ہے تو جب وہ موقعہ آئے گا اس وقت میں اسے حل کر لوں گا۔ دوسری بڑی بات یہ ہے کہ ہمت کرنے سے ہوتی ہے، ہمت ہونے سے نہیں ہوتی۔ ہمت کرنی پڑتی ہے، یہ باقاعدہ ایک محنت ہے۔ مثلاً آپ کوئی بھاری پتھر اٹھانا چاہتے ہیں تو کیا خیال ہے خود بخود اٹھ جائے گا؟ وہ خود بخود نہیں اٹھے گا بلکہ آپ کو ہمت کرنی پڑے گی، اور وہ ہمت آپ کو خود ہی کرنی ہو گی، کوئی اور آپ کے لئے نہیں کرے گا۔ ہمت خود سے نہیں ہوتی بلکہ کرنی پڑتی ہے۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم! میں شانگلہ سے ہوں، مجھے ذکر چاہیے۔
جواب:
300 دفعہ ”سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ ِللهِ وَلَاۤ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللهُ أَکْبَرُ“ اور 200 دفعہ ”لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“۔ یہ ذکر 40 دن تک بلا ناغہ کرنا ہے، کسی صورت میں اس کو چھوڑنا نہیں ہے، جب 40 دن پورے ہو جائیں تو مجھے آپ نے بتانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ساری نمازیں بھی پڑھنی ہیں۔
سوال نمبر13:
میں بھی شانگلہ سے ہوں، مجھے اپنی والدہ کے لئے ذکر چاہیے۔
جواب:
ان کو بتا دیں کہ 300 دفعہ ”سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ ِللهِ وَلَاۤ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللهُ أَکْبَرُ“، 200 دفعہ ”لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“ یہ 40 دن تک بلا ناغہ کریں، 40 دن پورے ہونے پر اطلاع دیں، ان شاء اللہ میں اگلا ذکر دے دوں گا۔ ان شاء اللہ۔
سوال نمبر14:
السلام علیکم حضرت، میں بد نظری کے گناہ میں مبتلا ہوں۔ ذکر کا یہ اثر تو ہے کہ عین گناہ سے پہلے اور گناہ کے دوران اللہ تعالیٰ کا خیال ہوتا ہے۔ گناہ کرنے سے پہلے خیال ہوتا ہے کہ اللہ کو ناراض نہ کروں اور گناہ کے دوران بھی اللہ کی طرف دھیان جا رہا ہوتا ہے۔ گناہ کی لذت نہیں رہتی گناہ کے فوراً بعد پشیمانی ہوتی ہے اور توبہ کے نفل بھی پڑھتا ہوں کئی دفعہ تو کام پر جانے سے بھی ڈرتا ہوں کہ گناہ ہو گا۔ تین چار مرتبہ نظر والا مجاہدہ بھی کیا ہے جس کا اثر دو سے تین ماہ تک رہتا ہے اس کے بعد پھر پہلی والی حالت ہو جاتی ہے۔ حضرت اس مرض کی اصلاح کے لئے دعا بھی فرمائیں۔
جواب:
آپ کے پاس علاج موجود ہے لیکن پتا نہیں آپ کیوں نہیں کرتے، واللہ اعلم بالصواب۔ آپ ذرا غور فرمائیں پھر اچھی طرح تجزیہ کریں، آپ کو بات سمجھ آ جائے گی۔ آپ نے جو کام اس بد نظری والے مجاہدہ میں کیا، اسی کو مزید جاری رکھنا ہے۔ مجاہدہ میں آپ نے یہ کیا کہ پہلے دن 5 منٹ سے شروع کر کے اس کو روزانہ تھوڑا تھوڑا بڑھایا، بڑھاتے بڑھاتے 25 منٹ تک پہنچایا۔ ان 25 منٹ میں آپ نے اوپر نہیں دیکھنا۔ بات چیت کرنی ہے لیکن اوپر نہیں دیکھنا اور لوگوں کے درمیان رہ کر لوگوں سے بات کرتے ہوئے بھی آپ نے اوپر نہیں دیکھنا۔ اب آپ ایسا کریں کہ اسی مجاہدہ کو مزید چلائیں۔ جب بھی آپ لوگوں کے درمیان ہوں یہ سمجھیں کہ میں وہی مجاہدہ کر رہا ہوں، لوگوں کے درمیان رہ کر یہ مجاہدہ جاری رکھیں۔ مجاہدہ کو ختم نہ کریں۔ یہ مجاہدہ ہی آپ کا علاج ہے اور یہ مجاہدہ ہی آپ کا عمل ہے۔
﴿وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ﴾ (العنکبوت 69)
ترجمہ: ”اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انھیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے“۔
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو مجھ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے میں ضرور اس کی مدد کرتا ہوں۔ آپ بھی ایسا ہی کر لیں۔ اپنی کوشش جاری رکھیں۔ اس مجاہدے کو ختم نہ کیا کریں۔ جب تک مجاہدہ جاری رہے گا، اصلاح بھی ہوتی رہے گی اور اجر و ثواب بھی ملتا رہے گا۔
سوال نمبر15:
آج رمضان المبارک کی انتیسویں شب ہے۔ میں جہاں بیٹھ کر ستائیسویں شب کو تلاوت کر رہا تھا اس وقت بھی وہیں بیٹھ کر قرآن پاک پڑھ رہا ہوں۔ مجھے بہت اچھی خوشبو آ رہی ہے جو آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے یہاں تک کہ میرے منہ اور سانس میں بھی محسوس ہوئی۔ میں نہا کر قرآن پڑھنے بیٹھا تھا، میں نے خوشبو نہیں لگائی تھی۔ میں نے کپڑے بھی سونگھ کر دیکھے کپڑوں میں بھی خوشبو نہیں تھی۔ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے مگر یہاں سے اٹھنے کو دل نہیں کر رہا۔ اللہ سے ایسی محبت محسوس ہو رہی ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔ میرے اور میری مسز کے لئے خصوصی دعا کر دیں۔
جواب:
ماشاء اللہ۔ یہ احوال اللہ پاک کی طرف سے عنایت ہے اور محمود ہیں۔ لیکن ایک بات غور سے سمجھیں۔ تصور کر لیں کہ آپ ہی کی طرح کوئی آدمی ستائیسویں یا انتیسویں شب کو بیٹھا ہوا تلاوت کر رہا تھا۔ اس کو نہ خوشبو آ رہی تھی نہ روشنی نظر آ رہی تھی لیکن وہ وہی اعمال کر رہا تھا جو آپ کر رہے تھے۔ آپ بتائیں ثواب کس کو زیادہ ملے گا؟ ثواب اس کو ملے گا جس کو ایمان بالغیب زیادہ حاصل ہے۔ بس اس تصور سے آپ کا علاج ہو جائے گا۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ بعض لوگوں کے اوپر بہت مصیبتیں اور پریشانیاں آ رہی ہوتی ہیں، جب وہ وفات پا جاتے ہیں اور اللہ جل شانہ حساب كتاب کرنا شروع کرتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں کہ ان کو بہت زیادہ اجر مل رہا ہے، وہ حيران ہوں گے کہ ہم نے تو اتنے اعمال نہیں کئے اتنا اجر کہاں سے آ گیا۔ اللہ پاک فرمائے گا کہ تم دنیا میں دعائیں کرتے تھے، کچھ تو میں نے وہیں قبول کر لیں اور تم کو تمہاری مانگی ہوئی چیزیں عطا کر دی تھیں اور کچھ دعائیں وہاں قبول نہیں ہوئی تھیں، میں نے تمہارے لئے ان کا اجر یہاں آخرت میں محفوظ کردیا تھا۔ یہ سارا اجر انہی دعاؤں کا ہے۔ وہ کہے گا کاش میری کوئی دعا قبول نہ ہوتی۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ کچھ لوگوں نے دنیا میں بے مصائب و تکالیف برداشت کئے ہوں گے۔ انہیں قیامت کے دن ان تکالیف و مصائب کی وجہ سے بہت زیادہ اجر ملے گا۔ اللہ پاک کہے گا یہ سارا اجر ان تکالیف و مصائب کی وجہ سے ہے جو تم نے دنیا میں برداشت کیں۔ یہ دیکھ کر کچھ لوگ کہیں گے کہ کاش ہماری چمڑے قینچیوں سے کاٹ دئیے جاتے لیکن آج ہمیں اجر مل جاتا۔
اصل بات یہ ہے کہ ظاہری چیزوں کے اوپر ہمارا زیادہ دھیان نہ ہو، بس ان پر شکر کر کے گزر جایا کریں۔ اگر آپ ان پر زیادہ غور کریں گے تو اپنی بزرگی کا مرض لگ جائے گا۔ یہ متعدی مرض ہے، بزرگی کا مرض بہت جلدی لگتا ہے۔ اگر ان احوال سے آپ کو بزرگی کا مرض لگ گیا تو ان سب روشنیوں اور خوشبوؤں کا کیا فائدہ! پھر تو آپ کا نقصان ہو جائے گا۔
اگر انسان ان احوال کا عادی عادی ہو جائے تو کئی بار شیطان ان احوال کو استعمال کرتا ہے۔ اسے پتا چل جاتا ہے کہ یہ آدمی ان چیزوں سے متاثر ہوتا ہے، وہ پھر ایسے آدمی کو انہی چیزوں میں لگا دیتا ہے۔ اگر ہم یہ route شیطان کے لئے کھلا چھوڑ دیں تو بہت خطرناک بات ہو گی۔ اس وجہ سے ہمیں ان چیزوں کی طرف بالکل غور نہیں کرنا چاہیے بس اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اعمال کی طرف توجہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قبول فرما لے۔
سوال نمبر16:
السلام علیکم! حضرت میرے ساتھ کچھ عرصے سے ایک عجیب بات پیش آ رہی ہے کہ میں جو بھی خواب دیکھتا ہوں میرے ساتھ حقیقت میں بھی پیش آ جاتا ہے۔ مثلاً میں نے خواب میں دیکھا فلاں شخص موجود ہے اور کچھ باتیں ہوئیں۔ کچھ وقت کے بعد حقیقت میں بھی ویسا ہی ہوا، وہی لوگ نظر آئے، وہی باتیں اور حرکات پیش آئیں۔ کئی دفعہ بیداری میں ایسا ہوتا ہے کہ کسی آدمی کے بارے میں خیال آتا ہے کہ یہ شخص یہ یہ باتیں کرے گا، اور حقیقت میں ویسا ہی ہوتا ہے۔ میں اس پر پریشان ہوں کہ یہ کیا ماجرا ہے۔
جواب:
اس کا جواب دھیان سے سمجھیں۔ دیکھیں آپ نے خواب دیکھا، بیداری میں وہی خواب آپ کو یاد آیا، خواب والی سب باتیں وقوع پذیر ہو گئیں اور آپ نے کہا کہ یہ تو بالکل وہی ہے جو میں نے خواب میں دیکھا ہے۔ خواب دیکھنا تو پھر بھی ایک صحیح واقعہ ہوتا ہے لیکن آپ جانتے ہوں گے کہ ملیریا کے مریضوں کو گرمی کے موسم میں بھی بہت سردی لگتی ہے۔ حقیقت میں سردی نہیں ہوتی لیکن ان کا دماغ ان کے جسم کو سگنل دیتا ہے کہ سردی ہے اس وجہ سے اس کا جسم کانپنے لگ جاتا ہے۔ اس کو "false signal" کہتے ہیں۔ ان خراب سگنلز کی وجہ سے ملیریا کے مریض کا جسم باقاعدہ کانپ رہا ہوتا ہے، حالانکہ وہ سردی نہیں ہوتی۔
اسی طرح دماغ اُن معاملات میں خراب سگنل بنا سکتا ہے جو واقعات آپ نے ذکر کیے۔ آپ نے خواب نہیں دیکھا اور آپ کو نظر آتا ہے کہ جیسے میں نے دیکھا ہے۔
روایات میں آتا ہے کہ آپ ﷺ پر جو جادو ہوا تھا آپ ﷺ ایسے سمجھتے جیسے یہ کام میں نے کیا ہے لیکن کیا نہیں ہوتا تھا۔
اس سے ثابت ہو گیا کہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو حقیقت میں کچھ اور ہوتی ہیں انسان ان کو کچھ اور محسوس کرتا ہے۔ اس لئے آپ ان چیزوں کی طرف دھیان نہ کریں، نہ خوابوں کی طرف دھیان کریں، نہ ایسی چیزوں کی طرف دھیان کریں، آپ صرف اعمال کی طرف دھیان دیں۔ آپ کو آخر کار فائدہ اعمال سے ہو گا ان خوابوں اور احوال سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ خواہ وہ خواب اور احوال سچے ہی کیوں نہ ہوں۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اکثر اس موقع پہ یہ فرمایا کرتے:
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم
من ہمہ ز آفتاب و ز آفتاب گویم
نہ میں رات ہوں، نہ رات کا پرستار ہوں، میں آفتاب کے ساتھ ہوں بس اس کے ساتھ چلتا ہوں اور دن کی باتیں کرتا ہوں۔
کتنی اچھی بات ہے، اس سے ان خوابوں خیالوں کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے، انسان ان سے متاثر ہی نہیں ہوتا، ورنہ آدمی اگر خوابوں کی دنیا میں رہے پھر تو اصل دنیا سے کٹ جائے گا، جو کچھ کر سکتا ہے وہ نہیں کرے گا، اور اس سب کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہو گا۔ اللہ ہمیں سب کو بچائے۔
سوال نمبر17:
السلام علیکم حضرت جی، نفس کے شر سے بچنے کے لئے کوئی دعا یا وظیفہ بتا دیں۔ میرے پاس اور کوئی راہ نہیں، کچھ رہنمائی کریں کہ نفس کی شرارت اور شیطان سے کیسے بچا جائے اور گناہ ہو جائے تو معافی کی امید کیسے رکھوں؟
جواب:
لگتا ہے آپ کو کوئی غلط فہمی ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ وظیفے سے نفس کا علاج ہو جائے گا۔ وظائف سے نفس کا علاج نہیں ہوتا۔ نفس کا علاج ہمت سے ہوتا ہے، مجاہدے سے ہوتا ہے، محنت سے ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو مجاہدے اور محنت پر تیار کرنے کے لئے وظیفہ ہو سکتا ہے لیکن نفس کے علاج کے لئے وظیفہ نہیں ہوتا۔ ہاں اگر انسان چاہے کہ وہ محنت کے لئے تیار ہو، اصلاح کی طرف مائل ہو، تو اس کے لئے ذکر کیا جاتا ہے، ذکر کی مثال ایسے ہے جیسے لوہے کو توڑ مروڑ کر کچھ بنانا ہو تو پہلے اسے گرم کرتے ہیں، جب وہ گرم ہوکر نرم ہو جائے تو پھر آپ اس کو موڑ کر جو بنانا ہو بنا لیتے ہیں۔ اگر صرف لوہے کو نرم کر لیا جائے مگر اس سے مطلوبہ چیز بنائی نہ جائے تو کوئی فائدہ نہیں ہے، وہ دوبارہ پھر ٹھنڈا ہو جائے گا، اور سخت ہو جائے گا۔ دل کو اصلاح پر مائل کرنے کے لئے نرم کرنے والے طریقۂ کار کو جذب کہتے ہیں۔ جذب کو ذکر اور مراقبے کے ذریعے سے لایا جا سکتا ہے، لیکن نفس کا علاج مجاہدے اور سلوک طے کرنے سے ہو گا۔ آپ سلوک با قاعدہ طے کرنے کے لئے تیار رہیں اور ہمت جاری رکھیں، ہمت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔
مثلاً کسی کو ٹی بی کی بیمار ہے۔ ٹی بی کا ایک مخصوص علاج ہوتا ہے۔ جرمنی میں ہمارے ایک دوست کو ٹی بی کی بیماری لگ گئی تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میں ہسپتال میں داخل تھا۔ صبح کے وقت وہ مجھے کئی گولیاں دیتے تھے جنہیں خالی معدہ کھانا ہو گا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ گولیاں کھانا بہت تکلیف دہ بات ہوتی تھی، مجھ سے کھائی نہیں جاتی تھیں۔ نرسیں اور ڈاکٹر مجھے کہتے کہ آپ چاہے رو کر کھائیں، چاہے ہنس کے کھائيں آپ کی اپنی مرضی ہے، لیکن کھانا تو ہر صورت ہے، اس کے بغیر آپ کا علاج نہیں ہو گا۔ آپ کی اپنی مرضی ہے نہیں کھانا تو نہ کھائیں لیکن اس سے یہ نقصان ہو گا کہ آپ کا مرض لا علاج ہو جائے گا اور ہم آپ کو ہسپتال سے نکال دیں گے۔
دنیا کی بیماریوں میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ دوا کھانے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے، روحانی بیماریوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی ایسا نسخہ ہو جس سے ساری چیزیں ٹھیک ہو جائیں، تو پھر آپ کی سوچ غلط ہے۔ کبھی ایسا ہوا ہے کہ ایک نسخہ کھانے سے کوئی ڈاکٹر بن جائے، ایک نسخہ کھانے سے کوئی انجینئر بن جائے، یا ایک نسخہ کھانے سے کوئی پروفیسر بن جائے۔ کوئی ایسا طریقہ ہو تو مجھے بھی بتا دیں میں بھی بننا چاہتا ہوں، لیکن بات یہ ہے کہ یہ کام نسخہ کھانے سے نہیں ہوتا، نسخہ جذب کا ہوتا ہے، جذب و شوق اور محبت حاصل کرنے کا نسخہ ذکر ہے۔ ہم آپ کو ذکر بتا سکتے ہیں، وہ بھی آپ کو خود ہی کرنا ہو گا۔ لیکن اگر آپ نے کچھ کرنا نہیں ہے تو پھر ہم آپ کو سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ آپ لا علاج ہیں۔ اگر اس زندگی میں آپ نے کچھ کرنا ہے، موت کے بعد نقصان سے بچنا ہے، تو پھر آپ کو ہمت کرنی پڑے گی۔
بہرحال ہم دعا ضرور کرتے ہیں اور دعا کرنا بھی چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ محنت بھی کرنی چاہیے۔ آپ ﷺ نے بعض لوگوں کو کہا جھوٹ نہ بولو، بعض لوگوں کو فرمایا کہ غصہ نہ کرو۔ یہ سب وظیفے نہیں بلکہ عمل تھے۔ ہر چیز کے لئے وظیفہ نہیں ہوتا، بلکہ محنت، کوشش اور ہمت سے سب کام ہوتے ہیں، ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا۔ وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا۔ انسان کو ہمت کرنی پڑتی ہے بغیر ہمت کے کچھ بھی نہیں ملتا۔
سوال نمبر18:
حضرت جی مجھے درج ذیل ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے:
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 300 مرتبہ۔
اس کے علاوہ پندرہ منٹ یہ تصور کرتا ہوں کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔
جواب:
ابھی آپ یہی معمول جاری رکھیں اور ایک ماہ بعد اطلاع فرمائیں۔
سوال نمبر19:
حضرت! آج کل میرے احوال یہ ہیں کہ انسانی معاملات میں کمزوری چل رہی ہے، وعدے ایفا نہیں کر سکتا، قرض داروں کے قرض وقت پر ادا نہیں کر سکتا، غیبت کی عادت نہیں چھوٹ رہی، گھر میں ہر وقت لڑائی جھگڑا ہوتا ہے۔
جواب:
بس میں ایک تجویز دوں گا کہ جب آپ کے سامنے کھانا رکھا جائے تو آپ ہاتھ پیر بالکل باندھ لیں اور کھانا خود بخود آپ کے منہ میں جانا چاہیے۔ یہ تجربہ کر لیں اس سے سب لوگوں کو بہت فائدہ ہو گا۔ ہر کام خود بخود ہونا چاہیے تو پھر آدمی کھانے کے لئے ہاتھ پیر کیوں ہلائے، خود بخود آپ کے منہ میں پانی بھی جانا چاہيے۔ یہ ساری باتیں جنت میں ہوں گی۔ جو باتیں جنت میں ہوں گی آپ اس کو دنیا میں کرنا چاہتے ہیں، دنیا میں یہ سب نہیں ہوتا، دنیا میں مشقت ہے فرمایا:
﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ كَبَدٍ﴾ (البلد: 4)
ترجمہ: ”کہ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔“
انسان کو چونکہ مشقت میں پیدا کیا گیا ہے اس لئے اسے ہر کام میں مشقت تو کرنی پڑے گی، کام تو کرنا پڑے گا، بس یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ میں جو کام کر رہا ہوں، اس کی وجہ سے مجھے بعد میں مصیبت تو نہیں ہو گی۔
مثال کے طور پر ایک شوگر کے مریض کو ڈاکٹر کہتا ہے کہ آپ نے میٹھا نہیں کھانا۔ اب وہ میٹھے سے اسی سوچ کے ذریعے بچے گا کہ اگر میں یہ میٹھا کھاتا ہوں تو اس کے بعد مجھ پہ جو بیماری آئے گی وہ زیادہ پریشان کن ہو گی، وہ یہی سوچ کر میٹھا کھانے سے بچ سکتا ہے۔
اگر آپ وعدہ پورا نہیں کر سکتے تو سمجھ لیں کہ آپ کو اس کا بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ حدیث میں ہے:
”لَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ“ (مشکوۃ المصابیح: 35)
ترجمہ: ”جس کو وعدے کا خیال نہ ہو اس کا کوئی دین نہیں ہوتا“۔
یہ ذہن میں رکھیں۔
اگر آپ وسائل ہونے کے باوجود وقت پہ قرض ادا کر نہیں سکتے، تو جب وہ قیامت میں مطالبہ کریں گے وہاں آپ کے پاس وسائل نہیں ہوں گے، وہاں کیسے ادا کریں گے۔
قرآن پاک کی تصریح کے مطابق غیبت مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے، آپ کیا مردہ بھائی کا گوشت کھا سکتے ہیں؟
اسی طرح گھر میں جو لڑائی جھگڑا ہوتا ہے خدا نخواستہ اگر آپ اس میں غلطی پر ہیں تو آپ آخرت میں اس کے جواب دہ ہوں گے۔ اگر آپ کسی کا حق مار رہے ہیں تو وہ تاقیامت آپ کے ذمہ رہے گا۔
یہ ساری چیزیں مد نظر رکھیں۔ البتہ اپنے ذہن اور دل کو بنانے کے لئے، اپنے نفس کو قابو کرنے کے لئے ہمت کرنی ہو گی، اپنی اصلاح کرانی پڑے گی۔ یہ سارا کچھ تصوف ہے، نفس کی اصلاح ہے اس کے لئے آپ کو اپنے شیخ سے معمولات لینے پڑیں گے، آپ ان معمولات کو باقاعدگی کے ساتھ پورا کریں گے، شیخ کو اس کی اطلاع دیں گے اس کے بعد وہ آپ کو مزید بتائے گا، اس طریقے سے آہستہ آہستہ ترقی ہو گی۔ آپ کو اس کے لئے صبر بھی کرنا پڑے گا اور ساتھ ہمت بھی کرنی پڑے گی۔
سوال نمبر20:
السلام علیکم! حضرت مجھے تیسرا ذکر آپ کے حکم اور رہنمائی کے مطابق کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا تھا لیکن پھر آپ سے رابطہ نہ ہو سکا، اس کے بعد بھی چند ماہ میں وہی تیسرا ذکر کرتا رہا ہوں۔ برائے مہربانی آئندہ کے لئے رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
پہلے مجھے یہ بتائیے کہ جب ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا تب آپ نے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ اگر آپ اس وقت رابطہ کرتے تو آپ کو اگلا ذکر مل جاتا۔ لیکن اب پہلے آپ وجہ بتائیں کہ رابطہ کیوں نہیں کر سکے اس کے بعد کچھ رہنمائی کر سکوں گا۔
سوال نمبر21:
السلام علیکم حضرت! اللہ تعالیٰ کے فضل اور آپ کی دعاؤں سے رمضان شریف کے معمولات بہت احسن طریقے سے ادا ہوئے۔ میں نے مندرجہ ذیل ذکر اور اعمال کی اطلاع آپ کو رمضان کے شروع میں دی تھی، آپ نے فرمایا تھا کہ رمضان کے معمولات پر توجہ دو اور مزید ذکر کے لئے رمضان کے بعد رابطہ کرو۔
”لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا ھو“ 400 مرتبہ، ”حق“ 600 مرتبہ، ”حق اللہ“ 500 مرتبہ، ”ھو“ 500 مرتبہ، ”اللہ ھو“ 200۔
”حق اللہ“ کے ساتھ یہ تصور کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق اللہ تعالیٰ سے راضی رہ کر ادا کرنا ہے، جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے میں اس پہ راضی ہوں۔ یہ مراقبہ کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے طریقے یعنی آپ ﷺ کی شریعت پر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں اور شریعت پر چل کر دکھاؤں گا۔ اس کی مقدار 10 منٹ تھی۔ آپ نے پورا مہینہ غیبت اور جھوٹ سے مکمل پرہیز کر کے اطلاع کی ہدایت کی تھی۔ دعویٰ تو نہیں کر سکتا لیکن محتاط اندازے کے مطابق ایک ماہ سے الحمد للہ جھوٹ اور غیبت سے‘ اللہ تعالیٰ کی مدد اور آپ کے فیض کی وجہ سے بچا رہا۔ ایک ماہ جھوٹ اور غیبت سے مکمل بچنے کی برکت سے اپنے آپ کو آزاد محسوس کیا اور دماغ سے بوجھ بھی اتر گیا، الحمد للہ۔ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ کے ذکر کے دوران کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جسم ہل رہا ہے، جیسے ریل گاڑی گزرنے سے زمین ہلتی ہے۔ کبھی کبھی حق کے ذکر کے دوران ایسا لگتا ہے کہ پورا جسم ہل رہا ہے گمان ہوتا تھا کہ زلزلہ ہے، یہ ایک ماہ میں تین سے چار مرتبہ ہوا۔
جواب:
ماشاء اللہ۔ بہت اچھے احوال ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید برکات عطا فرما دے۔ اب آپ نے یہ کام کرنا ہے کہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ 200 مرتبہ، ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“ 400 مرتبہ، ”حق“ 600 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 100 مرتبہ۔ یہ ذکر کریں۔ روزانہ 15 منٹ تک یہ مراقبہ کریں کہ اللہ جل شانہ کا فیض اللہ جل شانہ کی طرف سے آپ ﷺ کے دل مبارک پر، آپ ﷺ کے دل مبارک سے میرے شیخ کے دل پہ آ رہا ہے اور میرے شیخ کے دل سے میرے دل میں آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ باقی چیزیں غیبت نہ کرنا، جھوٹ نہ بولنا اور غصہ پہ قابو رکھنا، یہ سب آپ نے ویسے ہی جاری رکھنا ہے۔ غصہ پر قابو رکھنے میں یہ چیز بھی شامل کر لیں کہ جب بھی غصہ آئے تو آپ نے یہ سوچنا ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے، جس پر غصہ آیا ہے اگر اس کا قصور ہے تو اسے اس کی جائز سزا کیا دینی چاہیے۔ یہ پوری ترتیب سوچنے کے بعد چاہے آپ اسے سزا بھی دے دیں۔ ایک مہینے بعد ان سب چیزوں کی پوری اطلاع مجھے دیں۔
سوال نمبر22:
السلام علیکم! میرا نام صدیق اکبر ہے، میرا تعلق شانگلہ سے ہے۔ مجھے ذکر چاہیے۔
جواب:
آپ اس طرح کر لیں کہ 300 دفعہ ”سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ ِللهِ وَلَاۤ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللهُ أَکْبَرُ“، 200 دفعہ ”لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“۔ اس کو 40 دن تک بلا ناغہ کر لیں، روزانہ ایک وقت مقرر کر کے اسی وقت پہ کیا کریں۔ جب 40 دن پورے ہو جائیں تو مجھے اطلاع کر دیں ان شاء اللہ اگلا ذکر دے دوں گا۔
سوال نمبر23:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! بعد سلام عرض ہے کہ بعض طالبات کا ذکر رمضان شریف میں پورا ہو گیا ہے، لیکن آپ کے اعتکاف کی وجہ سے تبدیل نہ ہو سکا لہٰذا آپ کے سامنے اب بیان کرتی ہوں۔
گروپ نمبر 1:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، روح 10 منٹ، سر 10 منٹ۔ ہر ایک لطیفہ پر ذکر جاری ہے پورا وقت محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب آپ ان کو دس منٹ کے لئے خفی کا ذکر دے دیں۔
گروپ نمبر 2:
مندرجہ بالا ذکر ان کا بھی ہے لیکن ان کو لطیفۂ قلب والا ذکر مدھم اور کم محسوس ہونے لگا ہے، جبکہ روح اور سر والا عمومی رفتار سے محسوس ہو رہا ہے۔
جواب:
ان کو بھی 10 منٹ کے لئے لطیفۂ خفی کا ذکر دے دیں۔
گروپ نمبر 3:
10 منٹ کے لئے لطیفۂ قلب 10 کا ذکر جاری ہے۔ ذکر پورا وقت محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ان کو 10 منٹ کے لئے لطیفۂ روح کا بتا دیں۔
گروپ نمبر 4:
10 منٹ کے لئے لطیفۂ قلب کا ذکر جاری ہے۔ پہلے محسوس ہو رہا تھا، اب محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
ان کو 15 منٹ لطیفۂ قلب کا بتا دیں، اور یہی ذکر کریں جب تک ذکر محسوس نہ ہونے لگ جائے۔
سوال نمبر24:
السلام علیکم حضرت جی میرا ذکر خفی پانچوں لطائف پر پانچ پانچ منٹ ہے، آخر میں 20 منٹ لطیفۂ خفی پر یہ تصور کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیض حضرت محمد ﷺ کے قلب پہ آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب سے شیخ کے قلب پہ آ رہا ہے اور شیخ کے قلب سے میرے لطیفۂ خفی پر آ رہا ہے۔ یہ فیض آتا ہوا محسوس بھی ہوتا ہے۔ نیند کی وجہ سے چند ناغے ہو گئے تھے، دوران مراقبہ نیند غالب آ جاتی تھی۔ حضرت جى میرا ذکر جہری 200، 400، 4000 دفعہ حق ہے، بعد میں 5 منٹ کے لئے ذکرِ حق قلب پر محسوس کرنا ہے۔ اس کے علاوہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ عمر بھر کے لئے ہے۔
جواب:
اب آپ اس طرح کر لیں کہ جو تصور ابھی آپ لطیفۂ خفی پر 20 منٹ کے لئے کر رہے ہیں، یہ تصور اب لطیفۂ اخفىٰ پر کریں۔ باقی معمولات وہی رہیں گے۔
سوال نمبر25:
حضرت جی! رمضان کے قضا روزے شوال میں رکھنے ہوں، تو شوال کے چھ روزوں کے ساتھ ہی رکھ سکتے ہیں؟
جواب:
پہلے تو آپ قضا روزے رکھیں۔ جب یہ پورے ہو جائیں تو پھر شوال کے 6 روزے رکھیں۔ یہ دونوں الگ قسم کے روزے ہیں ایک نیت سے دونوں ادا نہیں ہو سکتے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ