سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 400

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

کیا صرف شیخ محترم کو مرید کے سلوک کا پتا ہوتا ہے یا مرید کو بھی کچھ اندازہ ہوتا ہے؟

جواب:

یہ سوال مجھ سے بہت عرصہ پہلے بھی ایک صاحب نے کیا تھا، اس کے جواب میں میں نے عرض کیا تھا کہ مرید اپنی نظروں میں گر رہا ہوتا ہے، جتنی کہ اس کی اصلاح ہو رہی ہوتی ہے اور شیخ کی نظروں میں اس کا مقام بلند ہو رہا ہوتا ہے، جب اس کی اصلاح ہو رہی ہوتی ہے، لہٰذا اگر مرید پر چھوڑ دیا جائے، تو پھر تو وہ سمجھے گا کہ مجھے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ پس شیخ ہی اس کے بارے میں بہتر اندازہ لگا سکتا ہے اور اگر مرید اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے، تو پھر تو خود ہی اس کو سمجھنا چاہئے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں، کیونکہ یہ عجب ہے۔ پھر اس وجہ سے کہ عجب کا خطرہ ہوتا ہے، اپنے اوپر نیک گمان نہیں کرنا چاہئے اور شیخ کو اپنے احوال بتانے چاہئیں، کیونکہ شیخ کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کس پوزیشن پر ہے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم۔

حضرت! کامل مغفرت، ہدایت، استقامت اور عافیتِ دارین کے لئے دعا کی درخواست ہے۔

جواب:

اللہ جل شانہٗ ہم سب کی مغفرت فرمائے، ہدایت پر رکھے، استقامت کے ساتھ دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، عافیتِ دارین نصیب فرمائے۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

حضرت! میں فلاں ہوں، آج میں عارفانہ کلام "میں دیوانہ ہوں، میں دیوانہ" سن رہا تھا، تو دل بہت ہلکا ہوا۔ کئی دن سے رویا نہیں تھا، دعا نہیں مانگی تھی، آج اس بہانے اللہ پاک نے دعا نصیب فرمائی، اللہ پاک قبول فرمائے اور اللہ پاک ایسے فوراً دعا قبول فرماتے ہیں۔ یہ میں نے کل ایک موقع پر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، جیسے وہ اس انتظار میں ہو کہ یہ کب منہ سے بات نکالے اور میں قبول کروں۔ ان شاء اللہ چارٹ سوموار کو ای میل کروں گا۔

جواب:

ما شاء اللہ! اچھی بات ہے۔ الحمد للہ عارفانہ کلام میں اثر تو ہوتا ہے، اللہ جل شانہٗ ہم سب کے لئے اس کو مفید بنا دے۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

حضرت جی! اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور آپ سے راضی ہو۔ آج کی بات نے تو بہت فکر مند کر دیا، دل میں دنیا کی محبت کا گند بہت محسوس ہوا، میں اکثر سوچتا تھا کہ آپ سے مجھے جو علم کی باتیں ملتی ہیں، وہ کہیں نہیں ملتیں اور اس پر حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی بات بھی جوڑ میں آگئی، پتہ نہیں میر ے لئے کہنا ٹھیک ہے یا نہیں، اس لئے کہ میری کوئی اوقات نہیں ہے، لیکن دل میں یہی آتا ہے کہ میں بھی آپ کے علم سے زیادہ متاثر ہوں۔ ڈرتا بھی ہوں کہ یہ سوچ رکاوٹ نہ بن جائے۔ اگر غلط ہو تو معافی اور اصلاح کا درخواست گزار ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا


جواب:

اصل میں ہماری تو کوئی بات نہیں، یہ بزرگوں کی باتیں ہوتی ہیں، جو بزرگوں کی باتیں ہم تک پہنچتی ہیں، وہ ہم دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں اور یقیناً اس میں بہت بڑا علم ہوتا ہے۔ ان بزرگوں کا علم ہوتا ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا، حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کا، حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کا، یہ بڑے علماء ہیں، بڑے بڑے لوگ ہیں۔ ان کی باتیں اگر میں آپ تک پہنچاؤں، تو ظاہر ہے کہ مجھے اللہ پاک نے اس کے لئے ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ یہ اللہ پاک کا شکر ہے، لیکن باتیں تو ان کی ہیں۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم۔

Hazrat, My question is how should I spend my time when I am free? What should I do? What should my focus be on in tasawuf ? جزاک اللہ خیرا فلاں Rawalpindi

جواب:

اصل میں فراغت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی دولت ہے، البتہ اگر انسان اس کو مفید طور پر استعمال نہ کرے، تو شیطان تو اس کے لئے تیار ہوتا ہے، اچک لیتا ہے اور اپنی شیطانیت کے لئے استعمال کر لیتا ہے۔ لہذا ضرور فوراً کسی اچھے کام میں مصروف ہونا چاہئے۔ اچھی مصروفیت اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ آپ نے چونکہ خود ہی فرمایا ہے، تو ہم نے اپنے ساتھیوں کو بتایا ہے کہ صبح فجر سے لے کر دوپہر تک ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ بغیر تعداد کے اور دوپہر کے بعد درود شریف اور پھر اس کے بعد استغفار، یہ اوراد آپ جاری رکھیں، درمیان میں قرآن پاک کی تلاوت کا اگر موقع مل جائے، تو قرآن پاک کی تلاوت کر لیں۔ اور ویسے یہ بات ضرور ہے کہ گھر کے جو کام کاج ہیں، ان میں تندہی دکھانا، بڑوں کا خیال رکھنا اور بڑوں کی خدمت کرنا، چھوٹوں پہ شفقت کرنا؛ یہ سارے دینی کام ہیں، لہذا اس میں اپنے وقت کو لگانا چاہئے۔ اور جو کام تصوف کا دیا گیا ہے جیسے ذکر دیا گیا ہے یا کچھ اور کام جیسے مجاہدہ وغیرہ، وہ اس کی اولین priority (ترجیح) ہے، کیونکہ وہ اصلاح کے لئے ہے اور اصلاح کے لئے آپ بات پوچھ رہے ہیں۔

سوال نمبر 6:

حضرت جی! ’’اَللہ اَللہ‘‘ 4500 دفعہ پڑھ رہی ہوں، ایک ماہ ہوگیا ہے۔ حضرت جی! لطائف کی طرف دھیان کرنے سے کچھ محسوس ہوتا ہے، ہر وقت نہیں ہوتا۔

جواب:

یہی خاتون تھی، جو شکایت کرتی تھی کہ مجھے محسوس نہیں ہوتا ہے اور کافی پریشان تھی۔ پھر اس کو میں نے یہی لسانی ذکر دیا تھا، جب وہ 4500 تک پہنچ گئی تو اللہ پاک نے اس پہ کرم فرما دیا اور اسے وہ چیز حاصل ہوگئی۔ تو ایسا ہی ہوتا ہے، جلدی نہیں مچانی ہوتی ہے۔ اللہ پاک اپنے وقت پہ سب کچھ دے دیتا ہے۔ میں نے پھر ان سے کہا کہ ٹھیک ہے، موجودہ وظیفہ کے ساتھ دس منٹ دل کا ذکر کریں، کیونکہ یہ base (بنیاد) ہے، اسی کی وجہ سے تو ملا ہے، اس کو تو فی الحال نہیں چھوڑنا۔ تو دس منٹ جو دل کا ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ محسوس کرنا کہ چونکہ ہر چیز اللہ اللہ کر رہی ہے، تو میرا دل بھی ایک چیز ہے، وہ بھی اللہ اللہ کر رہا ہے۔ میں اس کے ذکر کو سننا چاہتی ہو۔ بس یہ تصور کر لیں کہ اس کے ذکر کو سننا چاہتی ہوں، بس آپ سننے کے لئے دھیان کریں، تو وہ ہو جاتا ہے۔ وظیفہ کے بعد روزانہ دس منٹ کے لئے کر لیں۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

"فہم التصوف" میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے سلوک کے دس مقامات بتائے ہیں، اگر کوئی صدق دل سے توبہ کرے اور پھر نیک کاموں کا پکا ارادہ کرے، تو کیا سلوک کے دو درجات طے ہو جائیں گے؟ اس طرح پھر زہد کا مقام آیا۔ کیا مرید کو اپنے سلوک کے درجے کا اندازہ ہوتا ہے یا پھر محترم شیخ کو ہی معلوم ہوتا ہے؟

جواب:

یہ تو میں نے ابھی ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک صاحبہ کو جواب دیا ہے کہ سلوک کا پتا تو شیخ کو ہی چلتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرید تو اپنے اوپر ہمیشہ بدگمان ہی ہوگا، اگر عجب سے بچنا چاہے گا۔ تو اس کو تو اس وجہ سے پتا نہیں چلے گا، تو شیخ اس کے بارے میں زیادہ بہتر جانتا ہوتا ہے۔ اور یہ جو میں نے توبہ کرنے کا کہا ہے، تو توبہ تو ہر وقت کرنی چاہئے، لیکن اس سے مراد general توبہ ہے، البتہ ہم جو توبہ کراتے ہیں یعنی سلوک کے لئے، تو وہ شعوری توبہ ہوتی ہے، یعنی ہر اس چیز سے جس کا مسئلہ ہو، ایک ایک کر کے اس سے توبہ کروانی ہوتی ہے۔ پھر اس کے بعد جو مقامِ انابت ہے، اس میں اچھے اچھے کاموں کی نیت کروانی ہوتی ہے۔ تو توبہ ویسے بھی کرنی چاہئے، لیکن جب سلوک کے لحاظ سے کی جائے گی، تو پھر تفصیلی طور پر کی جائے گی۔ اور ابھی آپ چونکہ مراقبات میں ہیں، تو آپ کو چلتے رہنا چاہئے۔ ان شاء اللہ اپنے وقت پر یہ چیز بھی حاصل ہو جائے گی۔

سوال نمبر 8:

میں روزانہ تہجد کے وقت اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ پورا دن نیک اعمال کروں اور وہ بھی صرف اللہ کی رضا کے لئے۔ اور اپنے گناہوں سے توبہ مانگتی ہوں، تو کیا یہ سلوک والی توبہ کے زمرے میں آتا ہے؟ اور صبح کے وقت یہ نیت کرتی ہوں کہ کھانا پینا یعنی پورا دن سنت کے مطابق گزاروں گی، ان شاء اللہ۔ اپنی تربیت کے لئے آپ کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔

جواب:

بالکل ٹھیک ہے، آپ صحیح کر رہی ہیں۔ تہجد کے دوران دعا کرنی چاہئے اور اللہ پاک سے نیک کاموں کی توفیق مانگنی چاہئے اور جو گناہ ہوتے ہوں، ان سے توبہ کرنی ہوتی ہے۔ یہ تو میں بتاتا ہوں کہ صبح اٹھتے وقت نیک کاموں کی نیت کیا کرو کہ جتنے جتنے نیک کاموں ہوسکتے ہیں، ان کی نیت کیا کرو اور رات کو سونے سے پہلے صلوۃ التوبہ کی دو رکعت نفل پڑھ لیا کرو اور توبہ کر لیا کرو، تو ان شاء اللہ العزیز یہ مفید ہوگا۔ البتہ جہاں تک سلوک کی بات ہے، وہ ان شاء اللہ جب شروع ہو جائے گا، تو اس کے بارے میں تفصیل بتا دی جائے گی۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم۔

حضرت! میرے علاجی ذکر کا ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے، 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 400 ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 200 مرتبہ ’’اَللہ‘‘۔ مزید رہنمائی درکار ہے۔ جب بھی ذکر کرتا ہوں، تو خیالات کی بھرمار شروع ہوجاتی ہے، توجہ مرکوز نہیں ہوپاتی، مسلسل کوشش کرتا ہوں کہ باقاعدگی سے کروں، صبح شام رات کی ڈیوٹی شیڈول کی وجہ سے ایک وقت تو نہیں ہو پاتا، مگر کوشش ہوتی ہے کہ اوقات میں زیادہ فرق نہ ہو۔ جزاک اللہ خیرا۔

جواب:

یہ جو آپ ذکر کی بات کر رہے ہیں، تو ذکر اب آپ اس طرح کر لیں کہ 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 400 ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 300 مرتبہ ’’اَللہ‘‘ کر لیں۔ البتہ جو خیالات ہیں، خیالات کے ساتھ اگر آپ الجھیں گے، تو یہ مزید بڑھیں گے۔ خیالات کے ساتھ الجھنا نہیں چاہئے، بلکہ خیالات کو چھوڑنا چاہئے۔ جیسے مثال کے طور پر کوئی راستہ پر جاتا ہے، تو راستے میں مختلف چیزوں کا بہت شور بھی ہوتا ہے، لیکن اس شور کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا ہے، بلکہ اپنے کام کی طرف جا رہا ہے۔ اسی طریقے سے آپ بھی اپنے کام میں لگے رہیں اور خیالات کی طرف بالکل دھیان نہ دیں۔ البتہ آپ کی ڈیوٹی جس طریقے سے تبدیل ہوتی ہے، جیسے شفٹیں ہوں، مثلًا اگر تین شفٹیں ہوتی ہیں، تو ہر شفٹ کے لئے اپنا وقت مقرر کر لیں، یہ آپ کو اختیار ہے، کیونکہ شفٹیں جب بدل رہی ہوں، تو وقت بھی آپ کا بدل رہا ہے۔ لہٰذا آپ ہر شفٹ کے لحاظ سے ایک ایک وقت مقرر کر لیں کہ اگر میں اس شفٹ میں ہوں گا تو یہ وقت ہے اور اگر اس شفٹ میں ہوں گا تو یہ وقت ہے۔ اس طرح ان شاء اللہ آپ کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم۔

حضرت! گھر والوں کے ساتھ بہت غصے کا معاملہ رہتا ہے، تمام گھر والے اس پر بہت پریشان رہتے ہیں، بالکل برداشت نہیں ہے۔ بات بات پر بچوں کو مار بھی دیتا ہوں، حالانکہ بچے بہت چھوٹے ہیں۔ اہلیہ کے ساتھ تو خاص طور پہ بد اخلاقی بہت زیادہ ہے، والدین بھی صرف اسی بات کا گلہ کرتے ہیں۔ اس سارے رویے سے سلسلہ پر پھر حرف آتا ہے۔ حضرت جی! اس کا کوئی علاج بتا دیں۔ بہت پریشانی و بے سکونی ہے۔

جواب:

اصل میں یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے، اس وجہ سے اس کے اوپر خصوصی توجہ دینی چاہئے، کیونکہ ازواجی زندگی معاشرے کا ایک اہم یونٹ ہے، اگر یہ disturb (یعنی خراب) ہو جائے، تو پورا معاشرہ disturb ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی طرف دھیان دینا چاہئے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب آپ کو غصہ ہو تو آپ اگر باہر نکل سکتے ہوں، تو باہر چلے جائیں یا کسی اور شغل میں اپنے آپ کو مصروف کر لیں، کسی کتاب وغیرہ کا مطالعہ شروع کر لیں، لیکن اس غصے کا جو peak ہوتا ہے اس peak کو گزرنے دیں۔ کیونکہ جب peak گزر جائے، تو پھر انسان کو عقل آجاتی ہے۔ اصل میں غصہ کی حالت میں غصے والا جو Prompt action (فوری عمل) ہوتا ہے، وہ خطرناک ہوتا ہے، بعد میں جب عقل آجائے، تو پھر انسان سوچتا ہے کہ مجھے یہ کرنا چاہئے، یہ نہیں کرنا چاہئے۔ اس لئے اگر چھوٹوں پہ غصہ ہو تو ان کو اپنے سے ہٹانا چاہئے، اور اگر بڑوں پہ غصہ ہو تو خود ان سے ہٹنا چاہئے۔ اور گھر والوں کے ساتھ جو معاملہ ہے، اس کا حل یہ ہے کہ اگر کسی بات پہ غصہ آئے، تو اس وقت غصہ میں کسی کو کوئی بات نہ بتائیں، اس وقت تو بس آپ اپنے آپ کو کسی اور چیز میں busy (مصروف) کر لیں، اگر باہر جا سکتے ہوں، تو باہر چلے جائیں، بعد میں جب آپ کا غصہ نہ ہو، تو اس کو تسلی کے ساتھ سمجھا دیں کہ یہ کام ٹھیک نہیں ہے، اس کو اس طرح کرنا چاہئے۔ اس طرح ادھر سے بھی معاملہ ایسا نہیں ہوتا، مفاہمانہ ہو جاتا ہے۔ اس طریقے سے ان شاء اللہ پریشانی ختم ہو جائے گی۔

سوال نمبر 11:

حضرت! ہم دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ! تو ہم سے راضی ہوجا۔ حضرت! ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ اللہ پاک ہم سے راضی ہوگیا ہوگا؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہمیں دنیا میں پتہ چل جائے کہ اللہ پاک ہم سے راضی ہوگیا یا اس نے ہمیں بخش دیا؟

جواب:

مجھے آپ کے سوالوں پر حیرت ہوتی ہے کہ پتا نہیں آپ کیوں نہیں سمجھنا چاہتے۔ جس چیز کو اللہ نے چھپا رکھا ہے، تم اس کو کیسے ظاہر کرو گے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہے: ’’أَبْهِمُوْا مَآ أَبْهَمَ اللهُ‘‘ کہ اس چیز کو مبہم رکھو جس چیز کو اللہ نے مبہم رکھا ہے۔ یہ والی بات تو امتحان کے طور پر ہے، یہاں تو کوئی بات بھی ظاہر نہیں ہوگی، تو اگر آپ نے ان چیزوں پہ شرائط لگانی شروع کر لیں، تو یہ تو بہت خطرناک بات ہے، ہمیشہ پریشان رہیں گے، ہمیشہ confuse رہیں گے۔ تم رضا والے کام شروع کر لو اور اللہ پاک سے دعا کرو کہ اللہ قبول فرما دے اور اللہ سے اچھی امید رکھو، یہ تین باتیں ہیں۔ بس اس سے زیادہ آپ کی ڈیوٹی نہیں ہے۔ آپ پہلے یہ کریں کہ رضا والے کام کرو، جس کام سے اللہ پاک راضی ہوتا ہے، وہ کام کرو، پھر اللہ پاک سے دعا بھی کرو کہ اللہ پاک! تو اس کو قبول فرما لے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اللہ پاک سے اچھی امید رکھو۔ یہ تینوں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں، اب اس سے زیادہ نہ ہمارے پاس علم ہے، نہ ہم جان سکتے ہیں اور نہ ہم اپنے آپ کو اس میں مشغول کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ جل شانہٗ توفیق نصیب فرما دے کہ آپ ان چیزوں کو سمجھ جائیں۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم۔

حضرت جی! میری بیٹی عالمہ بن رہی ہے اور دوسرے درجے میں ہے، میری شدید خواہش ہے کہ میری بیٹی عالمہ بنے، کیونکہ میں بہت زیادہ مسائل و تکلیف میں ہوں، اس لئے یہ خواہش ہے کہ میری بیٹی کو علم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی مشکل نہ ہو۔ اور میں ہر کسی کے بارے میں زیادہ بدگمان ہوں کہ مجھے کوئی بھی مخلص نظر نہیں آتا اور روحانی بیماریاں جیسے: حسد اور کبھی تکبر کا احساس بھی ہوتا ہے۔ جاب کا بھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہو رہا، کوئی نہ کوئی مسئلہ بن جاتا ہے۔ جسمانی تکلیف ہے، جو بیان نہیں کر سکتی۔ نماز میں یکسوئی نہیں ہے اور کبھی کبھار مجھ سے ایک نماز قضاء ہو جاتی ہے، جو میں بعد میں پڑھ لیتی ہوں۔ روتی بہت ہوں کہ پتہ نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے یا پکڑ۔ حضرت جی! آپ کی دعاؤں اور رہنمائی کی محتاج ہوں۔

جواب:

شکر ہے، الحمد للہ! آپ کی اچھی سوچ ہے کہ آپ اپنی بیٹی کو عالمہ بنانا چاہتی ہیں۔ البتہ بچوں کے معاملہ میں اس قسم کا step اٹھانے سے پہلے مشورہ ضرور کرنا ہوتا ہے، آپ نے چونکہ بغیر مشورہ کے کام کیا ہوا ہے، تو اس میں میں کچھ کہوں گا تو نہیں، آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی بچی کو عالمہ بنا دے، کیونکہ آپ کا شوق بھی بہت زیادہ ہے اور اس وقت شاید آپ سننا بھی نہیں چاہتی ہوں گی۔ دنیا میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں، مخلص بھی ہوتے ہیں اور غیر مخلص بھی ہوتے ہیں، سب کے اوپر بدگمان بھی نہیں ہونا چاہئے۔ سب کے ساتھ برا گمان بھی نہیں رکھا جا سکتا، ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ہر ایک کا اپنا اپنا تجربہ ہے، لیکن دنیا میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں، برے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ برے لوگوں سے بچنا چاہئے اور اچھے لوگوں کے اوپر بدگمانی نہیں کرنی چاہئے۔ جہاں تک جاب کی بات ہے، تو میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ آسانی کا معاملہ فرمائے۔ نماز میں یکسوئی نہ ہونے کی وجہ زیادہ تر یہ ہوتی ہے کہ انسان بعض دفعہ اپنے حالات میں تفویض نہیں کرتا۔ تفویض سے مراد یہ ہے کہ اللہ پر ان باتوں کو نہیں چھوڑا جاتا اور تشویش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے نماز پہ بھی اس کا اثر پڑ جاتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ تفویض شروع کر لیں تو ان شاء اللہ آپ کی نماز میں یکسوئی آجائے گی۔ نماز قضا نہیں کرنی چاہئے، البتہ اگر خدا نخواستہ قضا ہو جائے تو فوراً پڑھنی چاہئے۔ اللہ جل شانہٗ صحت عطا فرمائے۔ اللہ پاک نمازوں پہ استقامت عطا فرمائے۔ رونا اچھی بات ہے، لیکن اللہ پاک کے ساتھ ہمیشہ نیک گمان رکھنا چاہئے، اللہ پاک ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے، یہ یقین کرنا چاہئے اور جو یہاں کی تکالیف ہیں، وہ تکالیف وہاں کی تکالیف کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ تو اگر یہاں کی تکالیف وہاں کی تکالیف کا مداوا کرلیں، تو یہ خوش قسمتی ہوتی ہے۔ اس لئے آپ یہ گمان نہ کریں کہ مجھے پکڑ لیا گیا ہے، بلکہ آپ سمجھیں کہ دنیا تو ساری آزمائش ہے۔ ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ كَبَدٍ (البلد: 4)

ترجمہ: "ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے" (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

یعنی انسان کو اللہ تعالیٰ نے مشقت میں پیدا کیا ہے، لہذا یہ تو ہوگا، آزمائش تو ہے، البتہ پکڑ کا آپ کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ اگر اس کا اندیشہ ہو تو استغفار کرنا چاہئے، توبہ کرنی چاہئے، لیکن یہ ہے کہ اللہ پاک سے اچھی امید رکھنی چاہئے، اللہ پاک بہت کریم ہے۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم۔

شیخ صاحب! میں نے خواب دیکھا اور پتہ نہیں کہ اس خواب کی کوئی sense بھی بنتی ہے یا نہیں، لیکن میں نے سوچا کہ آپ کے ساتھ شیئر کر لوں۔ شیخ صاحب! میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ نے بتایا کہ شیطان کا بہت بڑا ہتھیار یہ ہے کہ وہ دل میں بزرگی کا خیال پیدا کرتا ہے۔ تو جب اس قسم کا کچھ خیال وغیرہ آئے یا اس قسم کی situation آئے، تو اس سے کس طرح بچا جا سکتا ہے؟

جواب:

پہلی بات یہ ہے کہ خوابوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ بہت زیادہ خواب مجھ سے بیان نہ کئے جائیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ابھی ابھی جو مکتوب شریف گزرا ہے، اس میں انہوں نے فرمایا کہ ہمارے سلسلے میں خوابوں کا بہت زیادہ اعتبار نہیں کیا جاتا، جاگتے ہوئے کی باتوں کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ اس لئے خوابی نہ بنیں، بس جو خواب آپ نے دیکھا ہے، اللہ کرے کہ مبارک ہو۔ آپ جاگتے کی چیزوں کے اوپر زیادہ توجہ دیں اور خوابوں کی وجہ سے اکثر بزرگی کا مرض بھی لگ جاتا ہے، یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ آپ نے ابھی دوسرا سوال اسی کا کیا ہے یعنی بزرگی کی جو بیماری ہے، وہ لگ جاتی ہے، تو خواب خواب ہی ہوتا ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں تفصیلات بتائی ہیں۔ لہٰذا ان چیزوں میں اتنا زیادہ نہ پڑیں، البتہ جو بزرگی والی بات ہے، تو آپ کو معلوم ہے کہ بزرگی کا زعم کسی میں ہونا بری بات ہے، یہ اللہ تعالیٰ سے دوری کی بات ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہے کہ آپ ﷺ نے کہا کہ جس وجہ سے انسان اپنی نظروں میں اچھا ہو رہا ہوتا ہے، وہ اللہ کی نظروں میں اسی وجہ سے گر رہا ہوتا ہے۔ جب آپ کو یہ پتا ہے، تو جس وقت بھی آپ کو اس کا احساس ہو جائے، تو آپ کہیں کہ اگر میں پہلے اچھا بھی تھا، تو اب تو اچھا نہیں رہا، کیونکہ میں اپنے آپ کو اچھا سمجھ رہا ہوں۔ جب اپنے آپ کو اچھا سمجھ رہا ہوں، تو اب اچھا نہیں رہا۔ بس یہی بات ہی اس کا علاج ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 14:

Sheikh Sahib: The following Zikr is completed,

200 times لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘

400 times لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ

600 times حَقْ

100 times ’’اَللہ‘‘. And Muraqiba on the heart is 10 minutes.

جواب:

ٹھیک ہے، آپ ان دس منٹ کو پندرہ منٹ کر لیں۔

سوال نمبر 15:

Current condition of the first two weeks.

There was complete silence in my heart but now it feels like there is something happening in my heart. Sometimes it's very loud and strong and sometimes it is not very loud but I can feel it. I am not sure if it is saying Allah Allah because it feels like the sound of a heartbeat when it is loud. I can feel it in my heart and in my hands. I don’t know how I feel it in my hands? Also for a few hours in a day it was thrice a week I lose interest in everything and the world seems worthless and I want to be alone. Most of the time I remain normal.

جواب:

جو ذکر آپ کو محسوس ہو رہا ہے، یہ مراقبہ آپ پندرہ منٹ کر لیں، تاکہ مستقل ہو جائے۔ اس کی شروعات تو ہیں، لیکن یہ مستقل ہو جائے۔ جہاں تک آپ کی یہ بات ہے کہ چند دنوں میں آپ کا دل تمام چیزوں سے اچاٹ ہو جاتا ہے۔ اصل میں دل اچاٹ ہو جانے کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ انسان اعمال بھی چھوڑ دے، اگر مزہ نہ آئے تو اعمال بھی چھوڑ دے۔ اعمال اپنے جاری رکھیں اور دنیا سے دل اچاٹ ہونے میں یہ کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جایا کریں، اسے اس کے لئے استعمال کر لیا کریں۔

سوال نمبر 16:

Sheikh Sahib, after much struggle I still don’t understand what is جذب and سلوک and what is the difference? Also what are جذب قلب and جذب روحی?

جواب:

جذب و سلوک کی کتاب کے بارے میں ہمارے جو سولہ دروس ہیں، ان کو اچھی طرح سن لیں۔ کیوں کہ سولہ درسوں کی بات دو باتوں میں تو نہیں آ سکتی۔

سوال نمبر: 17

السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ حضرت! مجھے خاص طور پر اپنے اندر جو برائی دکھائی دی، وہ غصہ ہے۔ اس کی حالت یہ ہے کہ خود بخود کبھی جلالی کیفیت بن جاتی ہے اور کبھی اگر مجھ سے کوئی دو تین دفعہ پوچھے، تو اس وقت بھی غصہ آتا ہے اور کبھی کبھار دل میں ریاء کی آمیزش محسوس ہوتی ہے، لیکن الحمد للہ! فوراً ختم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اور میرے اندر ایک بری بات یہ ہے کہ کبھی کوئی عمل مسلسل نہیں کر پاتا اور اعمال کرنے میں کبھی طبیعت میں سستی آجاتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ہر عمل اور ہر چیز سنت کے مطابق ہو، مگر کوشش کرنے پر بھی کبھی رہ جاتی ہے اور میری تہجد اکثر قضا ہو جاتی ہے، آپ ان باتوں سے مجھے نکال لیں۔

جواب:

جتنی باتیں آپ نے کی ہیں، ساری اختیاری ہیں اور اختیار کا انسان خود مکلف ہے۔ جیسے اللہ تعالٰی نے فرمایا:

﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ: 286)

ترجمہ: "اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

یہ ساری باتیں اختیاری ہیں، غصہ پر قابو کرنا بھی اختیاری ہے۔ طریقہ کار یہ ہے کہ جب غصہ آجائے، تو اس وقت اگر چھوٹا ہو تو اس کو اپنے سے جدا کیا جائے۔ اور اگر بڑا ہو تو اس سے جدا ہو جائے۔ اپنے حالت کو تبدیل کیا جائے، اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو لیٹ جائے۔ یا پانی پی لے یا اپنے آپ کو مصروف کر لے، تاکہ وہ peak گزر جائے۔ یہ تو ہے اس کا دستورِ عمل۔ لیکن پھر جب غصہ گزر جائے، تو پھر ذرا سوچے، مراقبہ کرے کہ غصہ حق کے لئے تھا یا نفس کے لئے تھا۔ اگر حق کے لئے تھا تو پھر تو ختم نہیں کرنا، بلکہ اس حق کا جو تقاضا ہے، اس کے لئے آپ اس کو کنٹرول انداز میں استعمال کر سکتے ہیں۔ کنٹرول انداز میں استعمال کا مطلب یہ ہے کہ جتنا استعمال ہوسکتا ہے، یعنی جتنے غصے کی شریعت اجازت دیتی ہو۔ اور اگر ناحق کے لئے ہے، تو پھر اس کے لئے اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے، وہ یہ ہے کہ جس وجہ سے غصہ آیا ہے، مثال کے طور پر اپنی شان کی وجہ سے آیا ہے، تو ایسے کام کرے، جس سے اپنے نفس کی ذلت محسوس ہو۔ مثلاً: لوگوں کے جوتے سیدھے کرے، لوگوں کے لئے سامان وغیرہ بازار سے لے آئے۔ یہی کام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا۔ الغرض کوئی ایسا کام کر لے۔ اگر پیسوں کی وجہ سے ہے تو پیسے خیرات کر دے، تاکہ اس کا مداوا ہو جائے۔ اور اگر لذتوں کے لئے ہے تو اپنے اوپر کم از کم ایک دن کا مجاہدہ اختیار کر لے کہ جو چیز بہت پسند ہو اس کو ایک دن نہ کھائے۔ اس طریقے سے ان شاء اللہ العزیز نفس کو کچھ نہ کچھ حیا آجائے گی۔ جہاں تک ریا کی بات ہے، تو ریا ایک اختیاری عمل ہے۔ حضرت نے مجھے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ بھائی! ریا اختیاری عمل ہے، لگ نہیں جاتا، بلکہ جس کو ریا ہو، وہ اسے کرتا ہے۔ لہٰذا اپنی نیت کو درست کر لیں، یہ اختیاری چیز ہے۔ وسوسۂ ریا ریا نہیں ہے۔ اور ریا کرنا نہیں چاہئے، ریا ہونے کی بات نہیں ہے، ریا کرنا نہیں چاہئے۔ حضرت نے مجھ سے کہا کہ کبھی آپ نے چٹائیوں سے کسی عمل کو چھپایا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں، ضرورت ہی کیا ہے۔ فرمایا: بس لوگوں کو چٹائیاں سمجھو۔ چنانچہ لوگوں کی بالکل پروا نہیں کرنی چاہئے۔ جو کام حق ہے، وہ کرنا چاہئے۔ جو کام ناحق ہے، وہ نہیں کرنا چاہئے۔

اعمال میں جو سستی ہے، تو سستی کا علاج چستی ہے۔ جیسے آپ کو سستی کا احساس ہو، تو بس اپنے اندر چستی پیدا کر لو اور اس کے لئے آگے بڑھو، تاکہ نفس کو موقع نہ ملے۔

باقی رہا سنتوں میں کوشش کرنا، یہ تو بڑی مبارک بات ہے۔ جو سنت رہ جائے، اگر وہ سنت مؤکدہ ہے، تو پھر تو ملامت ہے اور اگر سنت مؤکدہ نہیں ہے، تو اس کی تلافی یوں کر لو کہ جو سنت عمل میں نہیں ہے، اس کو عمل میں لاؤ، تاکہ اس کی تلافی ہو جائے، اور پھر اس پہ قائم بھی رہو۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم۔

حضرت!

May Allah bless you! Please make دعا for me and my family. May اللہ سبحانہ و تعالیٰ accept you and us and bless you and your family and us and our family and al the Muslims!

(ایک خاتون نے کئی سوالات بھیجے ہیں۔ ان کے جوابات کی کوشش کرتے ہیں، جتنے بھی سوالات کے جوابات ہو جائیں)۔

بہت شکریہ! آپ نے میرے سوالات پر توجہ فرمائی، تفصیلاً جوابات دیئے۔ میرا خیال ہے کہ سوال نمبر ایک کے بارے میں کچھ واضح طور پر وضاحت نہیں کی گئی۔

جہاں تک میرے جنات کا تعلق ہے، وہ تو فلاں صاحب نے اس دن جب ہم نے ان کو ساری بات بتائی تھی، ہمارے گھر سے نکال کر باہر کر دیئے تھے۔ میں نے ان سے قبض اور بسط کے بارے میں پوچھا تھا، انہوں نے بتایا کہ میرے ساتھ کچھ transparent مخلوق ہے، جن کو فرشتہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ بعض اوقات انہیں انسانوں سے ان کی عبادات کی وجہ سے یا وقت پر نماز ادا کرنے کی وجہ سے یا کسی بھی وجہ سے لگاؤ ہو جاتا ہے۔ بہر حال! اس مخلوق سے جب پوچھا گیا، تو جواب آیا کہ گھر میں جنات کی موجودگی ان کو disturb (پریشان) کرتی ہے، مگر اب ان کو نکالا جا چکا ہے، اب وہ میرے ساتھ نہیں ہیں۔ دوبارہ انہوں نے اگلی دفعہ اپنی نشانی کے طور پر مجھے فجر کے وقت جگا دیا۔ اکثر فجر کے وقت مجھے کوئی نہ کوئی آواز آجاتی تھی، یا کوئی میرا نام لے کر بلاتا تھا، جس سے میری آنکھ کھل جاتی تھی۔ روز میرا الارم لگا ہوتا ہے، مگر زیادہ تھکاوٹ کی وجہ سے الارم بند کرنے کے بعد بھی میری آنکھ لگ جاتی ہے، پھر کسی غیبی آواز سے آنکھ کھل جاتی ہے، جب کہ کمرے میں کوئی نہیں ہوتا جس نے مجھے جگایا ہو۔

جواب:

اصل میں ایک بات جو میں سب سے کرتا ہوں، اپنے آپ سے بھی کرتا ہوں کہ بزرگی کے خیالات کے قریب بھی نہیں جانا چاہئے۔ یہ بہت ہی خطرناک چیز ہے۔ شیطان ہمارے اندر اس طرح دوڑتا ہے، جس طرح خون رگوں کے اندر دوڑتا ہے۔ اس کو سارے طریقے آتے ہیں اور وہ جن کو متاثر کر چکا ہوتا ہے، ان کو بھی وہ طریقے آتے ہیں۔

ایسے عجیب عجیب واقعات ہم نے دیکھے ہیں کہ اب ہم بہت سوچ سوچ کر قدم اٹھاتے ہیں۔ ایک صاحب تھے، وہ ہمارے دفتر آئے اور انہوں نے کہا کہ میری بیٹی پہ جنات آتے ہیں اور وہ بولتے بھی ہیں، تو آپ کچھ کریں۔ میں نے کہا کہ میں عامل نہیں ہوں۔ اور یقیناً میں عامل نہیں ہوں، مجھے عملیات وغیرہ بالکل نہیں آتیں اور یہ کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے۔ خیر! وہ میرے سر ہوگیا۔ میں نے اپنی جان چھڑانے کے لئے کہا کہ بھائی! خانقاہ آجاؤ، دفتر میں یہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ دفتر کا وقت اس کام کے لئے تو نہیں ہے۔ خیر! وہ شخص خانقاہ آگیا اور اپنی بیٹی کو بھی ساتھ لایا۔ بیٹی کے بارے میں تو میں نے کہا کہ اسے فوراً میرے گھر میں اوپر لے جاؤ اور وہ خود میرے پاس آگیا۔ میں تعویذ بھی نہیں دیتا، لیکن چونکہ اس کے ساتھ وعدہ کر چکا تھا، اس لئے میں نے اپنی طرف سے جو کچھ بھی لکھنا تھا، لکھ کے ان کو دے دیا۔ بعد میں وہ شخص مجھ سے ملا اور میری بیٹی نے بھی کہا کہ وہ بچی جس پہ جنات تھے، وہ بہت محبت کے ساتھ آئی، میرے ہاتھ کو چوما اور آرام کے ساتھ میرے سامنے (یعنی میری بیٹی کے سامنے) بیٹھ گئی۔ انہوں نے خود بتایا کہ جن جب آتا تھا، تو وہ کہتا تھا کہ میں ہندو ہوں اور مجھے فلاں آدمی نے بھیجا ہے، جن کے پاس تم علاج کے لئے گئے تھے۔ پس آج کل ایسا دور آگیا ہے کہ ظالم خود ہی جنات بٹھا دیتے ہیں، پھر خود ہی اٹھا دیتے ہیں اور اپنے پیسے کھرے کر لیتے ہیں۔ پھر جب وقت گزر جائے تو پھر دوبارہ چڑھا دیتے ہیں۔ یہ انہوں نے مشغلہ بنایا ہوتا ہے۔ لہذا وہ اس قسم کی بہت ساری باتیں کر جاتے ہیں، جن سے اس طرح کے سارے معاملے ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنات آپ کو اٹھا بھی سکتے ہیں اور آپ کو آواز بھی دے سکتے ہیں۔ یہ میں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ ایسا تھا، لیکن ایسا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے، کہیں خوش فہمی میں مار نہ پڑ جائے۔ ہمیشہ کے لئے اپنے اوپر بدگمانی رکھنی چاہئے۔ یہ سوچنا چاہئے کہ مجھے کوئی دھوکہ نہ دے دے۔ انسان اپنے آپ کو گناہگار سمجھتا رہے اور اللہ جل شانہٗ سے اچھی امید رکھے، یہ اچھا ہے، بجائے اس کے کہ اپنے آپ کو بزرگ سمجھے اور اللہ پاک کی عنایتوں کو کم سمجھے۔ یہ بہت خطرناک سوچ ہے۔ لہٰذا آپ ما شاء اللہ! نمازی ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو مزید بھی ترقیات عطا فرمائے۔ میں آپ کی حوصلہ شکنی نہیں کر رہا، صرف آپ کو تصویر کا دوسرا رخ دکھا رہا ہوں کہ اس قسم کی چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ لہٰذا آپ ان چیزوں کے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔

There are many things which can be there.

باقی جو آپ نے حالات بتائے ہیں کہ ان دنوں میں میں بہت نمازیں پڑھا کرتی تھی، واجب اور تہجد ملا کر تمام نوافل بھی ادا کرتی تھی، تب مجھے قرآن سے بھی بہت محبت ہوگئی تھی۔ پڑھنے کیلئے کھولتی تو الفاظ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بہت روتی جاتی، بہت پاکیزہ اور مقدس کتاب کا احساس ہوتا تھا اور مسلمانوں پر رشک آتا تھا کہ ان کو خالق نے اس کتاب میں خطاب کرنے کیلئے منتخب کیا۔ اس وقت میری کیفیت کچھ اور ہوتی تھی کہ جیسے میں بھی transparent ہوں۔ آہستہ آہستہ یہ سب کم ہوتا گیا۔ جب اللہ پاک نے مجھے بیٹے کی امید دی، اس وقت مجھے bed rest کرنے کا کہا گیا، تو پھر میں قرآن اور نماز نہیں پڑھتی تھی۔ اس کے علاوہ خود کو بزرگ سمجھنے والا پوانٹ مجھے بہت اچھے طریقے سے سمجھ آگیا ہے، آپ کا بہت شکریہ"۔ ما شاء اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو استقامت عطا فرمائے اور مجھے بھی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر 19:

بولنے کو پہلے بھی میرا دل کم چاہتا تھا، اب تو بالکل دل نہیں چاہتا۔ گھر میں خاموشی سے کام کرتے ہوئے دل میں درود پڑھتی رہتی ہوں۔ الحمد للہ! پہلے بھی میری یہی routine (معمول) تھی، اب پھر سے اس پر توجہ ہوگئی۔ مگر چھوٹا درود پڑھتے ہوئے خیال میں درودِ ابراہیمی ادا ہو رہا ہوتا ہے۔ آج کا ذکر مشکل نہیں لگا، بہت جلد ختم ہوگیا۔ ساتھ میں توجہ بھی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف تھی اور اس سے راز و نیاز بھی۔

جواب:

ما شاء اللہ! اللہ تعالی مزید برکات عطا فرمائے۔

سوال نمبر 20:

آج میں جب سے جاگی ہوں، میرے ذہن میں "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" کا ورد چل رہا ہے، جیسے مولوی حضرات اذان سے پہلے مائیک پر پڑھتے ہیں۔ اس میں میرا دل بہت لگتا ہے۔

جواب:

یہ ساری باتیں کیفیات ہیں، آنے جانے والی ہیں، کبھی آتی ہیں اور کبھی جاتی ہیں۔ پس جب آئیں تو شکر کر لیں اور جب چلی جائیں تو پروا نہ کریں۔ اصل چیز اعمال ہیں، اعمال میں جان لگانی چاہئے اور اس میں ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔

سوال نمبر 21:

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک دن ہمارا دل صرف درود پڑھنے کو چاہتا ہے، دوسرے دن صرف استغفار کو اور پھر کسی دوسرے ذکر کو؟

جواب:

میں آپ سے کیا کہوں! ہمارا کسی وقت حلوہ کھانے کے لئے جی چاہتا ہے، کسی وقت پلاؤ کھانے کو جی چاہتا ہے اور کسی وقت آئس کریم کھانے کو جی چاہتا ہے، تو پھر اس کی کیا وجہ ہوگی؟ وجہ ظاہر ہے کہ طبیعت میں یہ چیزیں آتی رہتی ہیں۔ لہٰذا اگر چاہت میں ادل بدل ہو، تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، البتہ آپ اپنی طبیعت کی وجہ سے اعمال میں ادل بدل نہ کریں، بلکہ جو routine (معمول) بنائیں، اس routine پر باقاعدگی کے ساتھ عمل کریں۔ جتنا درود شریف پڑھنا ہے، اتنا درود شریف استقامت کے ساتھ پڑھیں۔ جتنی مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ پڑھنا ہے، اتنی مرتبہ استقامت کے ساتھ پڑھیں۔ جتنی مرتبہ استغفار کرنا ہے، اتنی مرتبہ استغفار کریں۔ مقصد یہ ہے کہ ادل بدل ہونی نہیں چاہئے، باقی ادل بدل کا خیال آنا بری بات نہیں ہے۔

سوال نمبر 22:

آپ کی آڈیو میں بہت اچھا میسج تھا کہ توجہ صرف اللہ پاک کی طرف ہو۔ لیکن ایک چیز مجھے سمجھ نہیں آئی، وہ آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ انسان جب عبادات یا نیک اعمال کرتا ہے یا سنت کی پیروی کرتا ہے، تو اس کو بشارت یا زیارت ہوتی ہے۔ لیکن جب میں teenager (نو عمر) تھی، تو اس وقت میں نماز بھی والدہ کے کہنے پر کبھی کبھار پڑھتی تھی، کبھی کبھار "یَا حَیُّ یَا قَیُّوۡمُ" کا ورد کرتی رہتی تھی۔ یہ ورد میں نے بہت زیادہ پڑھا تھا۔ لیکن اس وقت بچپنا تھا، خیر و شر کا زیادہ علم نہیں تھا، نہ ہی نماز اور وظیفہ کا اثر محسوس کرنے کی عمر تھی۔ اس وقت بھی میں نے ایک برگزیدہ ہستی کو خواب میں دیکھا تھا، جنہوں نے مجھے درود پڑھنے کی تلقین کی۔ یوں کہہ لیں کہ جیسے رسول ﷺ کی صورت اختیار کر کے شیطان خواب میں نہیں آ سکتا، اسی طرح آلِ رسول میں سے بھی کسی کی شکل میں نہیں آ سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اسی ہستی کو ہی دیکھا اور اس خواب کے بعد درود یاد سے پڑھنا شروع کر دیا۔

میرا سوال یہ ہے کہ اُس وقت تو میں اللہ پاک کے راستے پر نہیں چل رہی تھی اور نہ سلوک کے بارے میں کوئی خبر تھی۔ اس وقت راستے کے شغل مجھے کیوں نظر آئے؟ میرا تو راستہ ہی شروع نہیں ہوا تھا۔

جواب:

در اصل میں یہ نہیں کہتا کہ یہ چیزیں ہیں ہی نہیں، میں کہتا ہوں کہ ان چیزوں میں جی نہیں لگانا چاہئے۔ آپ کو بہت ہی اچھا خواب آجائے، لیکن ہے تو وہ خواب ہی۔ جیسے آپ کو آپ ﷺ کی زیارت ہو جائے، تو یقیناً یہ بہت بڑی سعادت ہے، لیکن اس سے آپ صحابیہ نہیں بنیں گی اور نہ ہی اس خواب میں آپ ﷺ سے سنی ہوئی بات حدیث بنے گی۔

باقی جو آپ نے کہا کہ شیطان آلِ رسول کی شکل نہیں بنا سکتا، تو اس کی وضاحت یہ ہے کہ شیطان آلِ رسول میں سے اس کی شکل نہیں بنا سکتا جو آپ کا شیخ ہو۔ کیونکہ اللہ پاک نے ہدایت کے دروازوں پہ شیطان کی پابندی لگائی ہے۔ تمام آلِ رسول کے بارے میں یہ وعدہ نہیں ہے۔ یہ صرف آپ ﷺ کے بارے میں ہے اور شیخ کے بارے میں ہے۔ شیخ کے بارے میں بھی آپ ﷺ کی تبعیت کی وجہ سے ہے۔ چونکہ ایک ہوتا ہے؛ فنا فی الشیخ اور ایک ہوتا ہے؛ فنا فی الرسول اور ایک ہوتا ہے؛ فنا فی اللہ۔ تصوف میں یہ تین stages (درجات) ہیں۔ سب کچھ اللہ جل شانہٗ کے لئے کرنا ہے، آپ ﷺ پہلے نمبر پر ذریعۂ ہدایت ہیں اور دوسرے نمبر پر شیخ ذریعۂ ہدایت ہے۔ یہ چونکہ ہدایت کے ذریعے ہیں، اس وجہ سے شیطان ان کی شکل میں نہیں آ سکتا۔ باقی لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

بہرحال! اس وقت جو کچھ ہوا، اس میں آپ کے عمل کا دخل نہیں تھا، وہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا۔ اور اب بھی جب آپ کو ملے گا، اللہ کے فضل ہی سے ملے گا، عمل کی وجہ سے نہیں ملے گا۔ البتہ عمل آپ کو کرنا چاہئے۔ کیونکہ جب بھی کسی کی نظر عمل پہ پڑ گئی، تو وہ عمل تو نفس کے لئے ہوگیا۔ اگر عمل پہ نظر پڑ گئی کہ میرے عمل کی وجہ سے ایسا ہوا ہے، تو یہ غلط ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے، ہمارا کوئی بھی عمل اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ اس کا ذریعہ بن سکے۔ البتہ اللہ پاک سے فضل مانگنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ فضل فرماتے بھی ہیں۔ اس وقت آپ کے اوپر فضل ہوا تھا، تو اس فضل کے طفیل اب بھی آپ اللہ پاک سے مانگا کریں، تاکہ اللہ پاک اب بھی فضل فرماتے رہیں۔ اور اعمال جو کرنے ہیں، وہ اس لئے نہیں کرنے چاہئیں کہ مجھے خواب میں ایسی چیزیں آجائیں۔ وہ اللہ کا حکم اور حضور ﷺ کا طریقہ سمجھ کر کرنے چاہئیں۔ وہ ہمارے لئے بہرحال ضروری ہیں۔

سوال نمبر 23:

کافی سالوں کے بعد میں نے عاشورا کے دن عملاً امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت پر عمل کرنے کی نیت کی اور کبھی نماز نہ چھوڑنے کی نیت بھی کی۔ لیکن اس بات کا تعلق اس خواب سے نہیں ہے۔ یہ تو بس ایک توفیق ہے، جو اللہ نے عطا فرمائی۔

جواب:

ٹھیک ہے، وہ بھی توفیق تھی اور یہ بھی توفیق ہی ہے۔

آخر میں انہوں نے لکھا کہ یہ میرا سوال صرف میرے بارے میں ہے، اگر آپ اس کا جواب آڈیو میں فرداً دے دیں، تو زیادہ اچھا ہو۔

(اس بات کے جواب میں حضرت نے فرمایا:) پہلے بھی میں نے کسی کا نام تو نہیں لیا، لیکن دوسروں نے بھی سنا، تو ان کو بھی فائدہ ہو چکا ہوگا، ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 24:

میں نے لکھا تھا کہ ہم یہاں پر مٹنے کے لئے آئے ہیں۔ اس کے متعلق حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ بالکل درست ہے کہ اللہ پاک ٹوٹے دلوں کا مکین بنتا ہے۔ جب کوئی نظر نہیں آتا، تو اس وقت اس کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہ جس کو چاہے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ پھر ہم اس کی توجہ خود پر سے ہٹتے ہوئے برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے بچہ ماں کی توجہ چاہتا ہے اور ہمیشہ اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ ماں کے بغیر وہ گمراہ ہو جاتا ہے، اس لئے وہ ماں کا پلو تھام کر رکھنا چاہتا ہے، ماں کی ناراضگی اس کے لئے سوہانِ روح ہوتی ہے، ماں سے دوری کا رنج ہمیشہ اس کے دل میں کاٹتا بن کر چبتا ہے۔ اور دن میں پانچ مرتبہ اس ماں (یعنی اللہ تعالٰی) سے ملاقات کے لئے وضو کرتا ہے قیام کرتا ہے۔ دوری کے رنج میں اگر ماں کی ناراضگی کا غم بھی شامل ہو، تو اس وقت اس بچہ کی حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

جواب:

میرے خیال میں یہ آپ نے قبض اور بسط کی وضاحت کی ہے۔ آپ نے خود ہی اس کے بارے میں سوال کیا تھا۔ قبض یہ ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے اوپر اللہ تعالی کے الطاف دیکھتا ہے، تو نیک اعمال کی طرف توجہ ہوتی ہے، نیک اعمال کرنے کو دل چاہتا ہے اور اس میں انسان خوشی محسوس کرتا ہے۔ اس وقت انسان نیک اعمال میں گم ہو جاتا ہے۔ اور جب یہ ساری چیزیں fuse (بند) ہو جائیں، تو یہ قبض کی حالت ہے۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ قبض کی حالت میں جتنی ترقی ہوتی ہے، بسط کی حالت میں اتنی ترقی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بسط کی حالت میں انسان کے نفس کو جو خوشی ہوتی ہے اس کے نمبر کٹ جاتے ہیں اور قبض کی حالت میں چونکہ نفس کو خوشی نہیں ہوتی، اس وقت عمل صرف اللہ کے لئے ہوتا ہے، لہذا اس کے پورے نمبر مل جاتے ہیں۔ لہذا قبض مانگنا تو نہیں چاہئے، کیونکہ یہ تو مصیبت مانگنا ہوگا۔ جس طرح مصیبت پر صبر کرنے پہ بہت اجر ہے، لیکن مصیبت مانگنی نہیں چاہئے، اسی طرح قبض بھی مانگنا نہیں چاہئے، لیکن اگر ہو جائے تو اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ پاک نے نفس کا دروازہ مجھ پر بند کرنے کا فیصلہ فرمایا۔

بہرحال! قبض میں ترقی زیادہ ہوتی ہے اور بسط میں انسان خوش زیادہ ہوتا ہے، دونوں چیزیں اللہ پاک کی نعمت ہیں۔

سوال نمبر 25:

ذکر لطائف کو زندہ کرنا اور اصول کے ساتھ رابطہ حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، اس پر آپ کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں؟

جواب:

اصل میں ہماری کتاب "فہم التصوف" انہوں نے پڑھنا شروع کی ہے، اس لئے یہ سوال کیا ہے۔ جی ہاں! ذکر کے ذریعہ سے لطائف کو زندہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح زندہ کیا جاتا ہے کہ تصور کیا جاتا ہے کہ اس لطیفہ پہ ذکر ہو رہا ہے۔ اصل میں ذکر ہو رہا ہوتا ہے، لیکن وہ ذکر ہم سن نہیں رہے ہوتے۔ پس اس کو سننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس وقت ہم لوگ سن لیتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر جان پڑ گئی ہے، اب اس کا کنکشن اس کے اصول کے ساتھ جو عرش سے اوپر ہیں، ہو چکا ہے۔ لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سِر، لطیفۂ خفی اور لطیفۂ اخفیٰ؛ ان تمام لطائف پہ جب ذکر جاری ہو جائے، تو پھر مراقبۂ احدیت کراتے ہیں۔ مراقبۂ احدیت فیض کا اجرا ہوتا ہے، یعنی فیض کو sense (محسوس) کرنا۔ وہ ذکر کو sense کرنا ہے اور یہ فیض کو sense کرنا ہے۔ فیض کو sense کرنا اس طرح ہوتا ہے کہ فیض اللہ پاک کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آتا ہے، آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب میں آتا ہے اور شیخ کے قلب سے میرے دل میں آتا ہے۔ اسی طریقے سے اس کے بعد پھر لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی اور لطیفۂ اخفیٰ کے ساتھ بھی یہ کرنا ہوتا ہے۔ پھر مشارب کو زندہ کیا جاتا ہے۔ مشارب کی اپنی تفصیل ہے، جو کتاب میں موجود ہے۔ بہرحال! یہ پورا ایک علم ہے، اس سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے۔

سوال نمبر 26:

ابن منصور سے مراد کیا ابن منصور حلاج ہیں؟

جواب:

جی، ابن منصور سے واقعی ابن منصور حلاج مراد ہے۔

سوال نمبر 27:

"فہم التصوف" میں لطائف والا chapter (باب) زیادہ confusing (پریشان کن یعنی سمجھ نہ آنے والا) ہے اور مراقبہ والا بھی تھوڑا سا پیچدہ ہے، باقی سب سمجھ میں آرہا ہے۔

جواب:

کیونکہ تصوف practical (عملی چیز) ہے، یہ theory (علمی چیز) نہیں ہے کہ تحریر پڑھنے سے سمجھ میں آجائے۔ جب آپ اس پہ عمل کریں گی تو اس وقت آپ کو یہ سمجھ میں آئے گا۔ اس وقت تک آپ کو صرف اس کا سطحی علم ہوگا اور سطحی علم سے انسان کی تسلی نہیں ہوتی۔ جتنا سمجھ میں آگیا، اسی کو اپنے لئے کافی سمجھیں۔ بعد میں جب ان شاء اللہ آپ کو یہ کرایا جائے گا تو پھر کرنے کے وقت آپ کو یہ پورا سمجھ میں آجائے گا۔ جیسے بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ ان کے سامنے اگر کوئی کہہ دے کہ دل ذکر کرتا ہے، تو وہ مانتے ہی نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کون کہتا ہے؟ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن جن لوگوں کا پورا جسم ذکر کر رہا ہوتا ہے، ان کے سامنے قسم بھی کھاؤ کہ نہیں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے، تمہارے لئے نہیں ہوتا، ہمارے لئے ہوتا ہے۔ وہ ہنس پڑتے ہیں، کیونکہ ان کو محسوس ہو رہا ہوتا ہے، ان کے روز و شب کا معمول ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ان کے ساتھ اگر کوئی بات بھی کرے، تو وہ کیا بات کرے گا۔ اس کو تو پتا ہوتا ہے۔ پس جن لوگوں کو حاصل ہے، وہ مخالفت کی پروا نہیں کرتے اور جن کو حاصل نہیں ہے، ان کی باتوں کی پروا نہیں کرنی چاہئے، بلکہ ان سے کہہ دو کہ بس ٹھیک ہے۔ اگر وہ کہیں کہ نہیں ہے، تو آپ بھی کہہ دیں کہ ٹھیک ہے، نہیں ہے۔ اس میں ان کے ساتھ لڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ confusing اس وجہ سے ہے کہ یہ practical (عملی) چیز ہے، آپ اس کو theory میں سمجھنا چاہتی ہیں۔ جتنا theory میں سمجھایا جا سکا تھا، اتنا میں نے سمجھا دیا، اس سے زیادہ practical ہے، جو ان شاء اللہ اس کے بعد practical سے سمجھ میں آئے گا، ان شاء اللہ۔

تنبیہ:

آگے علمی مسائل کے متعلق سوالات ہیں، یہ علماء سے پوچھ لیا کریں۔ یہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔

سوال نمبر 28:

آپ نے کہا تھا کہ سب چیزیں سلوک پر اثر انداز ہوتی ہیں، (بے احتیاطی بھی سلوک پر اثر انداز ہوتی ہے) تو کیا سالک روز مرہ کے کاموں میں بھی آزمایا جاتا ہے؟

جواب:

جی، بالکل۔ روزمرہ کاموں میں بھی آزمایا جاتا ہے۔ کیونکہ روزمرہ کا کام معاشرت کا حصہ ہے۔ عبادات معاملات پر اثر ڈالتی ہیں، معاملات معاشرت پر اثر ڈالتے ہیں اور معاشرت اخلاق پر اثر ڈالتی ہے۔

سوال نمبر 29:

Hazrat, My uncle is critically ill. I wish for him to give bia’t so that at least his ایمان is protected as our سلسلہ مبارکہ has بشارت of this. He had given bai’t to قادری شیخ from Iraq many many years ago. Due to time difference in America and Pakistan is it ok to arrange telephone call for bai’t ان شاء اللہ because my uncle is sometimes awake and sometimes asleep. Please make dua that Allah عزوجل gives my uncle his life because He is able to do so. I am in my 3rd year عالم فاضل program الحمد للہ. But now there are two many differences with مہتمم مفتی صاحب for example he asked me to join شوریٰ I declined. He asked me to teach first and second year but after your advice شیخ I declined مفتی صاحب politely. مہتمم صاحب asked that video on youtube for dawah. I disagreed and humbly submitted my reasons but he gave his evidence. Out of respect for him I didn’t wish to or give and simply said I follow the فتویٰ of your شیخ مولانا یوسف دامت برکاتھم who said this is haram. This upset him but in my heart I have no bad feelings towards him but his behavior has changed now and they are still promoting on youtube. Can I leave مدرسہ and study with different علماء

جواب:

ما شاء اللہ! اللہ تعالی آپ کے چچا کو صحت عطا فرما دے۔ آپ نے جو سوچا ہے، اس کی بہتری کے لئے سوچا ہے۔ اگر آپ اس میں اس کا فائدہ سمجھتے ہیں، تو ہماری طرف سے بھی جتنا تعاون ہوسکتا ہے، وہ کیا جائے گا، ان شاء اللہ۔ آپ ہماری routine کو بھی دیکھ کر اور ان کی بھی availibility کو دیکھ کر Time management (وقت کی ترتیب) مجھے بتا دیں کہ کس وقت مناسب ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر فیصلہ کروا دے۔

باقی جو مہتمم صاحب والی بات ہے، وہ اس حدیث کے زمرے میں آتی ہے: "لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ" (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 3696) یعنی مخلوق کی ایسی اطاعت جس میں خالق کی نافرمانی ہو، جائز نہیں ہے۔

یہ حدیث شریف ہے، یہ نہ میری بات ہے، نہ آپ کی بات ہے اور نہ کسی دوسرے کی بات ہے، یہ حدیث شریف ہے۔ لہذا ہم ویڈیو کو جائز نہیں سمجھتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جو لوگ جائز سمجھتے ہیں، ہم ان کے خلاف ہیں، لیکن ہمارے اپنے دلائل ہیں، ہم اپنے دلائل سے کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں ہے اور ہمارے ساتھ بہت سارے علماء بھی ہیں، جو کہتے ہیں کہ جائز نہیں ہے، جن میں سے ایک کا نام آپ نے بھی لیا ہے، لہذا ہمارے بزرگوں کا جو فتویٰ ہے، ہم اس میں تبدیلی نہیں کر سکتے۔ اس وجہ سے ہم اپنے مسلک پہ قائم ہیں۔ وہ اگر چاہتے ہیں، تو کسی ایسے شخص کو ملا لیں، جو اس مسئلے میں ان کے مسلک کا ہو اور ان کے ساتھ بات کر لیں۔ ہمیں کیوں مجبور کرتے ہیں۔ آپ نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔ اگر ان کی یہ بات بڑھتی ہے اور اس میں حق کے لئے جو گنجائش ہے، وہ گنجائش اگر وہ نہیں دے سکتے، تو پھر آپ دوسری جگہ بندوبست کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اصل میں علم تو عمل سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی ایک علم کی صورت ہے اور ایک علم کی حقیقت ہے، علم کی حقیقت تو یہی ہے کہ جس کے پیچھے عمل ہو۔ جس کے پیچھے عمل نہ ہو، وہ علم کی صورت ہے، علم کی حقیقت نہیں ہے۔ لہٰذا بے شک وہ حق پر بھی ہوں، پھر بھی وہ دوسرے کو مجبور نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور اگر شافعی حق پر ہو، تو وہ حنفی کو اپنے مسئلہ پہ نہیں لا سکتا، اس کو اس کی اجازت نہیں ہے۔ جیسے شوافع کے نزدیک خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، لیکن احناف کے ہاں ٹوٹ جاتا ہے۔ اب شافعی حنفی کو مجبور نہیں کر سکتا کہ میرا خون نکلا ہے، لیکن میرا وضو باقی ہے، لہذا تم میرے پیچھے نماز پڑھو۔ حنفی اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھے گا۔

الغرض ان چیزوں میں جو گنجائش ہے، اگر وہ اس گنجائش کو نہیں مانتے، تو وہ خواہ مخواہ ایک ناحق بات پہ ڈٹے ہوئے ہیں، لہذا ایسے حضرات کے ساتھ پھر زیادہ دیر نہیں ٹھہرا جا سکتا۔

سوال نمبر 30:

السلام علیکم۔

حضرت! جس طرح درودِ ابراہیمی ایک درود ہے اور اس کی فضیلت ہے کہ اس کے پڑھنے سے رحمت ہوگی، دس درجے بلند ہوں گے۔ یہ فضیلت تو حدیث میں موجود ہے۔ لیکن اس کے بعد جو درود پاک لکھے گئے ہیں، جن میں درود تنجینا ہے، درودِ غوثیہ ہے، درودِ تاج ہے، ان کی فضیلت میں نے اپنے گھر میں موجود "پنج سورۃ" میں پڑھی ہے کہ ان سے یہ یہ فضیلت ملے گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ درود تو بہت بعد میں لکھے گئے ہیں، ان کے بارے میں یہ کیسے confirm (یقین) ہو سکتا ہے کہ exact یہی معاملہ ہوگا؟ کیونکہ یہ تمام چیزیں تو غیب سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب نبی پاک ﷺ دنیا میں موجود تھے، تو آپ ﷺ تو بتا سکتے تھے کہ یہ یہ درجات ملیں گے۔ لیکن آپ ﷺ کے بعد یہ فضیلتیں کیسے بتائی جا سکتی ہیں۔

جواب:

در اصل میں ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ میں خود ایک عالم کے ساتھ سفر میں تھا، ان سے میں نے سوال کیا کہ حضرت! کبھی کبھی میں یہ اشعار گنگناتا ہوں:

بَلَغَ الۡعُلٰی بِکَمَالِہٖ

کَشَفَ الدُّجٰی بِجَمَالِہٖ

حَسُنَتۡ جَمِیۡعُ خِصَالِہٖ صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَاٰلِہٖ

حضرت نے فرمایا کہ ما شاء اللہ! بہت اچھی عادت ہے، لیکن میں اس سے بھی اچھی بات بتاؤں؟ میں نے کہا کہ حضرت! بتائیں۔ فرمایا کہ اگر کسی افسر سے آپ کو کوئی کام ہو اور وہ آپ کو کہہ دے کہ ان الفاظ میں آپ درخواست لکھ لیں، میں منظور کر لوں گا۔ اب اگر آپ انہیں الفاظ میں درخواست لکھیں گے تو پکا وعدہ ہے کہ آپ کا کام ہو جائے گا، لیکن اگر آپ ایسا نہیں کرتے، تو چاہے آپ اپنی طرف سے بہترین درخواست بھی لکھ لیں، لیکن ممکن ہے کہ وہ کہہ دے کہ آپ نے میرے الفاظ میں کیوں نہیں لکھی؟ ان الفاظ میں کیا کمی تھی؟ تو پھر آپ کیا کرو گے؟ اس وجہ سے بہتر یہی ہے کہ جو درود پاک حدیث شریف سے ثابت ہے، وہ آپ پڑھ لیا کریں۔ الحمد للہ! میرا تو اپنا ذاتی عمل اسی پر ہے۔ یہ فضیلت صرف درودِ ابراہیمی کے لئے نہیں ہے، بلکہ جتنے بھی درود پاک حدیث شریف سے ثابت ہیں، جیسے: وَصَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الۡاُمِّیِّ۔ یا جَزَی اللہُ عَنَّا مُحَمَّدًا مَّا ھُوَ اَھۡلُہٗ۔ یا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّبَارِکۡ وَسَلِّمۡ۔ یعنی جو بھی درود حدیث شریف کی کتابوں میں آپ ﷺ سے ثابت ہیں، ان کے لئے دس نیکیاں ہیں۔ البتہ درود ابراہیمی کی فضیلت اپنے طور پہ بھی ہے۔ سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ یہ صحاح ستہ سے ثابت ہے، یعنی حدیث کی چھ کی چھ کتابوں سے ثابت ہے۔ ایک دوسری بات یہ ہے کہ اس کو نماز کے لئے چنا گیا ہے۔ نماز کے لئے تو بہترین درود کو ہی چنا جاتا ہے۔ اس وجہ سے ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ ہوسکے تو یہی درود پڑھا جائے، لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس میں ہمارا زیادہ ٹائم لگتا ہے، تو چھوٹا درود شریف بھی پڑھ سکتے ہیں، لیکن وہ مستند ہو۔ اس لئے ہم تو مستند درود پاک پڑھتے ہیں۔ البتہ جیسے میں نے ابھی عرض کیا کہ میرا مسلک تو یہ ہے، لیکن جو دوسرے مسلک والے ہیں میں ان کا بھی احترام کرتا ہوں۔ مثلاً امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک درود شریف کے خود الفاظ بنائے تھے اور وہ ماشاء اللہ کئی لوگوں کو خوابوں نظر آئے کہ ان کو اس وجہ سے بہت مقام مل گیا تھا۔ تو میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بھی حسنِ ظن رکھتا ہوں کہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ ایسا ہی ہوا۔ لہذا اگر کوئی صحیح الفاظ ہوں، الفاظ میں کوئی غلطی نہ ہو، جیسے درود تاج میں الفاظ میں غلطی ہے یا درود غوثیہ ہے، میں اس کی ذمہ داری نہیں لیتا۔ لیکن جن کے الفاظ میں غلطی نہ ہو الفاظ وہی ہوں جو احادیث شریف میں آئے ہوئے ہیں، البتہ ان کو جوڑا اپنے طور پہ گیا ہو۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ البتہ خود میرا ذوق وہی ہے جو میں نے عرض کر دیا کہ میں مستند درود پڑھتا ہوں، احادیث شریفہ سے ثابت ہو۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ درود ابراہیمی کی فضیلت میں بنیاد اس کا صحاح ستہ سے ثابت ہونا ہے کہ چھ کی چھ صحیح کتابوں سے یہ ثابت ہے، یہ بہت بڑی بات ہے، اللہ پاک نے تکوینی طور پہ ایسا کر دیا کہ چھ کی چھ کتابوں میں آگیا۔ لہذا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید ہی ہے۔ اس لئے میرا خود اپنا مسلک تو یہ ہے، لیکن جو دوسرے صحیح مسالک والے ہیں میں ان کا بھی احترام کرتا ہوں۔

سوال نمبر 31:

چھوٹا درود شریف پڑھنا چاہئے یا بڑا درود شریف؟

جواب:

چھوٹا درود شریف تعداد میں ایک معین مقدار میں زیادہ پڑھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک گھنٹہ درود شریف کو دیں، تو چھوٹا درود زیادہ تعداد میں پڑھا جا سکے گا اور بڑا درود کم تعداد میں پڑھا جا سکے گا، لیکن بڑے درود کے ساتھ جو کیفیت ملتی ہے، جو قرب ملتا ہے، وہ زیادہ ہوتا ہے، لہذا علماء و مشائخ نے فرمایا ہے کہ جس وقت جو کیفیت آپ پر غالب ہو اس کے مطابق پڑھ لیں، یعنی اگر بڑے کے لئے غالب ہے، تو بڑا پڑھ لو۔ اگر چھوٹے کے لئے غالب ہے، تو چھوٹا پڑھ لو، کیونکہ دونوں جائز ہیں۔

سوال نمبر 32:

السلام علیکم۔

حضرت! میرا سوال یہ ہے کہ جو ہمارے routine کے معاملات ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ہمیں کتنا focus کرنا چاہئے؟ کتنا ٹائم دینا چاہئے؟ مثلاً: جو درس وغیرہ ہوتے ہیں، تو ان میں کتنا ٹائم دینا چاہئے؟

جواب:

ما شاء اللہ! اصل میں اگر ہم لوگ ذرا گزشتہ لوگوں کی طرف نگاہ دوڑائیں، جن لوگوں نے دین سیکھا اور دین پر عمل کیا، انہوں نے تو پوری پوری زندگیاں دی تھیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اس کو کام سمجھا تھا اور اسی کے لئے چلے جاتے تھے۔ بیس بیس سال سفر میں رہتے تھے اور حدیث شریف جمع کر رہے ہوتے تھے یا علم حاصل کر رہے ہوتے تھے یا تربیت کروا رہے ہوتے ہیں۔ وہ حضرات ایسا کرتے تھے۔ آج کل چونکہ مصروفیت کا دور ہے، اس لئے اس وقت وہ کام تو ہم کسی سے expect نہیں کر سکتے، لیکن اللہ پاک نے آسانیاں بھی پیدا کی ہیں۔ مثلاً: مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے جو مکتوبات شریفہ ہیں، ان میں حضرت کا کتنا ٹائم گزرا تھا۔ جب کہ ہمارے سامنے بالکل ایک Consolidated form میں آگیا، بنی بنائی چیزیں آگئیں۔ اسی طرح ہمارے جو اور بڑے حضرات ہیں، جنہوں نے ما شاء اللہ تحقیقات کیں۔ ایک بات یاد رکھئے کہ قرآن اور سنت بنیاد ہیں، وہ ہر چیز کی بنیاد ہیں، دین کی جو بھی چیز ہے، وہ اس کی بنیاد ہیں، لیکن ایک شخص ہے، وہ علم والا ہے، وہ ایک آیت پر کئی دن مسلسل بات کر رہا ہوتا ہے اور دوسرا آدمی تین لفظ بھی نہیں بول سکتا۔ کیونکہ علم کا معیار ہر ایک کا اپنا اپنا ہے۔ مثلًا: ایک آدمی تین دن تک مسلسل اس پہ بات کر رہا ہے اور دوسرا آدمی ایسا نہیں ہے۔ تو جو آدمی تین دن تک اس پہ بات کر رہا ہے، وہ بھی تو قرآن ہی کی تشریح کر رہا ہے، لیکن اس میں بہت سارے علوم اور آرہے ہیں قرآن پاک کو سمجھنے کے لئے یا عمل کے لئے تمام چیزیں آرہی ہیں، اس لئے علماء کی جو کتابیں ہوتی ہیں، بے شک ان کا موضوع قرآن کی تفسیر نہ بھی ہو، لیکن وہ قرآن ہی کی تفسیر ہوتی ہیں، حدیث شریف کی تفسیر ہوتی ہیں۔ ہر علم کے اندر یہی چیزیں استعمال ہوتی ہیں۔ مثلًا کسی بھی عالم کی کتاب دیکھو، کیا اس میں قرآن پاک کی آیتیں نہیں ہوتیں؟ کیا اس میں احادیث شریفہ نہیں ہوتیں؟ وہ سب دلائل ادھر سے ہی تو لاتے ہیں۔ یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ ہماری جو مجالس ہیں، ان مجالس میں بھی یہ چیزیں ہوتی ہیں، کبھی قرآن کی بات ہوتی ہے، کبھی حدیث کی بات ہوتی ہے، سنت کی بات ہوتی ہے، اسلاف کے عمل کی بات ہوتی ہے۔ جیسے صحابہ کے واقعات ہوتے ہیں، دوسرے حضرات کے واقعات ہوتے ہیں۔ جس سے ہمیں تھوڑی دیر میں بہت کچھ مل جاتا ہے۔ اس وجہ سے آپ اپنے ظرف کے مطابق جتنا برداشت کر سکتے ہیں اور جتنا اس سے maximum (زیادہ سے زیادہ) فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس کے لئے ترتیب بنا لیں۔

سوال نمبر 33:

میں ایک کتاب پڑھ رہا ہوں "مہرِ منیر"، اس میں بھی اور دیگر کتابوں میں بھی مجھے یہ چیز ملی ہے کہ صوفیاء وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے متعلق اپنے عقائد کو چھپاتے تھے۔ تو صوفیاء ان چیزوں کو عوام سے کیوں چھپاتے تھے؟ کیونکہ "مہرِ منیر" میں تو بہت واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ صوفیاء نے اس چیز کو چھپایا ہے۔

جواب:

اصل میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے: "کَلِّمُوْا النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ" کہ لوگوں کے ساتھ ان کی عقل کے مطابق بات کرو۔ بعض لوگوں کے اندر اتنی عقل نہیں ہوتی یا ان کی اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ وہ گہری بات کو سمجھ سکیں۔ اور یہ باتیں چونکہ فرض و واجب نہیں ہیں، صرف معرفت کی باتیں ہیں، یعنی معرفت سے کسی چیز کی intensity (طاقت) تو بڑھ جاتی ہے، لیکن اصل چیز اس کے بغیر بھی ادا ہو جاتی ہے۔ مثلًا آپ نماز معرفت کے ساتھ پڑھیں گے، تو اس کا اجر آپ کو بہت مل جائے گا، لیکن معرفت کے ساتھ نہیں پڑھیں گے، تو پھر بھی آپ کی نماز ہو جائے گی۔ اس کو آپ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ آپ کی نماز نہیں ہوئی۔ اب جو معرفت کی باتیں ہیں، ان کے لئے اپنی محنت بھی ہے، جنہوں نے وہ محنت کی ہوتی ہے، مبادیات پڑھے ہوتے ہیں یا انہوں نے ان چیزوں کو سیکھا ہوتا ہے، ان کو دو تین باتوں سے یہ باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں۔ لیکن جنہوں نے یہ نہیں کیا ہوتا، وہ confuse (پریشان) ہو کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔ تو ان کو گمراہ تو نہیں کرنا، مقصد گمراہ کرنا تو نہیں ہے، مقصد تو ان کو سکھانا ہے۔ جن بزرگوں کے اوپر یہ حال غالب تھا کہ کہیں ہم یہ بات کریں، تو اس سے کوئی گمراہ نہ ہو جائے، انہوں نے اس کو چھپا لیا، لیکن جنہوں نے اتنا Time gain کیا، جیسے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے Time gain کیا یا دوسرے بزرگوں نے Time gain کیا، تو انہوں نے ما شاء اللہ ان باتوں کو سمجھایا ہے اور ہمیں بھی ان حضرات نے سمجھایا۔ الحمد للہ۔ ان کا ہمارے اوپر احسان ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجر دے گا۔ الغرض یہ صرف اور صرف Subject to person to person ہے۔

سوال نمبر 34:

اس میں ایک چیز matter یہ کرتی ہے کہ اولیاء کرام کے بارے میں کچھ تھوڑا بہت جو میں نے مطالعہ کیا ہے تذکرۃ الاولیاء یا جو باقی کتب پڑھی ہیں، ان میں تو یہ آتا ہے کہ ان کے بارے میں یا ان کے فضائل میں جو چیزیں مجھے ملی ہیں، جب بعد میں میں نے احادیث کو مطالعہ کرنا شروع کیا، تو صحابہ کے حوالے سے مجھے وہ فضائل یا وہ چیزیں نہیں ملتیں، جس طرح کہ خرق العادات قسم کے واقعات اولیاء کے ساتھ ہیں۔

جواب:

میں آپ کو ایک بات بتاؤں کہ خرق عادت کے بارے میں ہمارے سارے بزرگوں کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ اس سے سبحان اللہ جتنا بھی اجر نہیں ملتا۔ صرف ایک دفعہ سبحان اللہ کہنے کا جو اجر ہے، اس کے برابر بھی خرق عادت کی وجہ سے اجر نہیں ملتا۔ ایک امتیازی بات ضرور ہے، لیکن اس سے اجر تو نہیں ملتا۔ اجر تو اس کو اعمال سے ملتا ہے۔ لہٰذا ہم اولیاء اللہ کے اعمال کو دیکھیں گے، ہم ان کے خرقِ عادات کو نہیں دیکھیں گے۔ وہ تو اللہ کی طرف سے ہے، کیونکہ ہمارے نزدیک خرق عادت ایک کرامت ہے یا معجزہ ہے، اور وہ ولی کا یا نبی کا فعل نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ کا فعل ہے، صرف نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو جاتا ہے یا ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو جاتا ہے۔ لہذا جو کچھ اللہ کر سکتا ہے، وہ سب کچھ معجزہ میں آ سکتا ہے۔ جو کچھ اللہ کر رہا ہے، وہ سب کرامت میں آ سکتا ہے، اس کے لئے کوئی عادت کے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام کا جو معجزہ تھا کہ دریا میں بارہ راستے بن گئے تھے، ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ مد و جزر تھا۔ میں نے کہا کہ کمال ہے کہ انہوں نے کہا کہ یہ مد و جزر تھا، جب کہ مد و جزر اس طرح نہیں ہوتا۔ اگر مد و جزر تھا بھی تو مد و جزر کا اس طرح ہونا ہی بذاتِ خود معجزہ ہے۔ لہٰذا خواہ مخواہ اس کو مد و جزر کہنے کی ضرورت ہی کیا ہے، بس معجزہ معجزہ ہوتا ہے۔ معجزے کا مطلب ہے Against the scientific rules, یعنی معجزہ Scientific laws (سائنسی قوانین) کے مطابق نہیں ہوتا، وہ اللہ تعالیٰ کے اپنے امر سے ہوتا ہے۔ پس جو بھی خرق عادت چیزیں ہیں، ہم ان کو مانتے ضرور ہیں، لیکن اجر ان میں نہیں ہوتا، اجر اعمال میں ہوتا ہے، تو جو ان کے اعمال ہیں، ہم ان کو follow (اختیار) کریں گے۔

لہٰذا کسی ولی کا رتبہ اس کی کرامت کی base (بنیاد) پر نہیں ہوتا۔ بلکہ کرامات کے بارے میں تو ہم نے مشائخ سے یہاں تک سنا ہے کہ جن کے ہاتھ پہ کرامات زیادہ ہوئی ہیں اور جن کے ہاتھ پہ زیادہ نہیں ہوئیں، عین ممکن ہے کہ جن کے ہاتھ پہ کرامات نہیں ہوئیں، ان کا مرتبہ ان سے زیادہ بڑا ہو، کیونکہ ان کا مقام بھی ان کو مل جاتا ہے۔ صحابہ کرام میں بہت کم صحابہ ایسے ہیں کہ جن کے پاس کرامات ہوئی ہیں۔ صحابہ کی کرامات بہت زیادہ ہوئی ہیں، لیکن اتنی نہیں ہیں۔ تواتر کے ساتھ بھی نہیں ہیں اور اتنی زیادہ بھی نہیں ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا تھا کہ حضرت! ہمارے ہاں لوگوں میں کرامات زیادہ ہیں، صحابہ کی اتنی نہیں ہیں، ایسا کیوں ہے؟ انہوں نے کہا کہ صحابہ کا ایمان پکا تھا، ان کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں تھی، ہمارا ایمان کمزور ہے، ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ اگر ہم میں یہ چیزیں نہ ہوں تو تعلق ہی ختم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر مہربان ہے، لہذا ہمارے لئے اس کا انتظام کیا ہوا ہے، لیکن ان کو ان کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

سوال نمبر 35:

حضرت! حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کی مجھے تشریح چاہئے تھی کہ انہوں نے فرمایا کہ جب امام مہدی آئیں گے تو انہیں مجھ سے نسبت حاصل ہوگی۔ وہ کیسے یہ کہہ سکتے ہیں؟

جواب:

حضرت سے نسبت کا مطلب کیا ہے، اس کو سمجھنا چاہئے۔ حضرت سے نسبت کا مطلب ہے نقشبندی سلسلہ، تو کیا امام مہدی علیہ السلام کے لئے نقشبندی سلسلہ ممنوع ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔ کسی ترتیب سے تو یہ سلسلہ آ سکتا ہے۔ اگر حضرت کو کشف ہو چکا ہو، تو ہم تو اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ حضرت کی بات ہے، اگر حضرت کو اس کا کشف ہو چکا ہو کہ ایسا ہوگا، تو بس ٹھیک ہے ان کی بات ہے، ہمارا اس پہ ایمان لانا بھی ضروری نہیں ہے، کیونکہ کشف ظنی ہوتا ہے۔ آپ کو بھی پتا ہے کہ کشف ظنی ہوتا ہے اور جو وحی ہوتی ہے، وہ قطعی ہوتی ہے۔ تو یہ وحی کی کوئی بات ہے نہیں کہ قطعی ہو، ظنی بات ہے، ایسا ہو بھی سکتا ہے۔

سوال نمبر 36:

جس طرح آپ نے فرمایا کہ کشف ظنی ہوتا ہے، تو پھر تو وہ کسی پہ حجت کے طور پہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔

جواب:

معرفت میں استعمال ہوتا ہے، حجت نہیں ہوتا۔ میں اس کی وجہ بتاتا ہوں، میں سائنس دان ہوں، سائنس دان ہونے کے طور پہ میں کہتا ہوں، یہ کوئی بزرگی کی لائن کی بات نہیں بتا رہا، سائنس کی بات بتا رہا ہوں۔ جتنے بھی سائنس دان ہیں، جن کے ہاتھ سے ایجادات ہوئی ہیں، میرا intuition (وجدان) یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ایک الہام ہوتا ہے۔ جب تک اللہ کی طرف سے الہام نہیں ہوتا، انسان چونٹی کی طرح اندھا ہوتا ہے، بہت قریب آ کر بھی واپس چلا جاتا ہے۔ لیکن جب اللہ پاک نے وہ کام کرنا ہوتا ہے، تو اس کے دل میں بات ڈال دیتا ہے۔ میرے ساتھ خود ایسا ہو چکا ہے، اس وجہ سے میں یہ باتیں کر رہا ہوں۔ پس جب یہ اللہ جل شانہ کی طرف سے الہام ہوتا ہے، تو کسی بھی شخص کے لئے اس قسم کی بات ہوسکتی ہے کہ کسی مسئلہ میں پھنس گیا، تو اس کو اللہ تعالیٰ نے اس بات کا الہام فرما دیا، اور وہ اس سے نکل گیا، بے شک کتاب دیکھ کر نکل گیا، الہام کے ذریعے سے نکل گیا، ویسے خالی سوچ آگئی، اس سے نکل گیا۔ مقصد یہ ہے کہ اس کا فائدہ تو ہوگیا۔

سوال نمبر 37:

الہام کا درجہ کس جگہ پہ آ کے رکے گا؟ کیونکہ میرا خود بریلوی مکتبۂ فکر سے تعلق رہا ہے، بہار شریعت میں تو اس درجہ تک لکھا ہوا ہے کہ جہاں سے انبیاء کی ارواح فیض پاتی ہیں، ولی کو بھی وہیں سے الہام مل رہا ہوتا ہے۔ تو پھر تو وہ بالکل برابر ہوگئے۔

جواب:

نہیں، برابر نہیں ہوئے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک ہی ٹینک سے سب کو پانی جاتا ہے، کسی کا آدھا انچ نالی میں جاتا ہے، کسی کو آٹھ انچ نالی میں اور کسی کو دو فٹ نالی میں، تو کیا سارے برابر ہیں؟ ظاہر ہے کہ الہام بھی تو اللہ ہی کی طرف سے آتا ہے اور وحی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے، البتہ وحی قطعی ہے اور وہ نبی پر آتی ہے۔ جب کہ الہام نبی کے لئے قطعی ہے، لیکن باقی لوگوں کے لئے قطعی نہیں ہے۔

سوال نمبر 38:

اگر الہام باقی لوگوں کے لئے قطعی نہیں ہے، تو پھر ’’احیاء العلوم‘‘ میں امام غزالیؒ نے یہ چیز لکھی ہے کہ سورۂ اخلاص کی توحید کو انہوں نے کہا ہے کہ یہ عوام کی توحید ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ خواص کی توحید الگ ہے۔ تو یہ انہوں نے الہام کی بنیاد کیسے کہہ دیا؟

جواب:

نہیں، الہام کی بنیاد پر نہیں کہا، الہام کی بنیاد پر ان کو اس کا پتا چلا، باقی اس کے دلائل اور بھی ہیں۔

یہاں ایک بہترین مثال دل میں آگئی۔ مثلًا ابھی جو ہم ذکر کریں گے، یہ ذکر جہری ہے اور یہ ایک خاص قسم کا ذکر جہری ہے، جس کا تعلق دل کی اصلاح کے ساتھ ہے۔ یہ اللہ پاک نے میرے دل پہ بھیجا ہے، تو یہ کسی دوسرے پر حجت نہیں ہے۔ میں اس کو کسی دوسرے پر حجت نہیں مانتا۔ اگر کوئی میرے ساتھ نہیں کرنا چاہتا تو میں کہوں گا کہ بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن جن کو اس میں فائدہ محسوس ہوتا ہے، وہ میرے ساتھ کرنا چاہتے ہیں، تو میں ان کو روکتا بھی نہیں ہوں، وہ میرے ساتھ کر سکتے ہیں۔ پس اگر ذکر جہری کے دلائل کی بات ہوگی، تو وہ ہم قرآن و سنت سے دیں گے، ان کا الہام سے تعلق نہیں ہے، لیکن موجودہ دور کے مطابق اس کا جو خاص form (انداز) ہے، اسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ الہام کے طور پر آیا ہے۔ اسی طریقے سے بہت ساری چیزیں الہام کے طور پر آتی ہیں، جن کے دلائل کتابوں میں موجود ہوتے ہیں، لیکن ان کی طرف رجحان ہونا کسی الہام کی طرف سے ہی آتا ہے۔ جیسے خواب آجاتا ہے، تو اس سے ہمیں پتا چل جاتا ہے، پھر ہم اس direction (سمت) میں سوچ لیتے ہیں، تو اسی direction میں ہمیں جواب بھی مل جاتا ہے۔

سوال نمبر 39:

یعنی اگر کوئی آپ کے ساتھ ذکرِ جہری نہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے؟

جواب:

جی بالکل! بے شک آپ میرے ساتھ نہ کریں، میں تو اس پہ کچھ نہیں کہہ رہا۔ یہ شریعت ہے ہی نہیں، یہ طریقت ہے۔ طریقت procedures (طریقہ کار) کو کہتے ہیں، procedures یعنی اصلاح کے راستے، اصلاح کے طریقے۔ اور اصلاح کا طریقہ کوئی بھی تجرباتی طریقہ پر ہوسکتا ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ