سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 403

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت اللہ تعالیٰ کے کرم سے آج میرے علاجی ذکر کا ایک مہینہ مکمل ہو گیا ہے۔ آئندہ کے لئے مزید ہدایت فرمائیے گا۔ بہت بہت شکریہ۔ جزاکم اللہ خیرا۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔

جواب:

آپ نے یہ نہیں بتایا کہ جو علاجی ذکر مکمل ہو گیا ہے وہ کون سا تھا۔ اس کی تفصیل بتائیں کہ میں نے کون سا ذکر دیا تھا اس کے حساب سے پھر جواب دیا جائے گا۔

سوال نمبر2:

السلام علیکم! حضرت میرا وظیفہ مکمل ہوا۔

جواب:

ایک واقعہ بتاتا ہوں جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سوالوں کے جوابات دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک بڑے میاں آئے اور حضرت سے کہا: حضرت تعویذ دے دیجئے۔

انہوں نے کہا: جاؤ پہلے سوال کرنا سیکھو پھر آ نا۔ وہ بڑے حیران ہوئے، کسی حد تک دل برداشتہ بھی ہوئے ہوں گے۔ خیر با دل نخواستہ چلے گئے خانقاہ کے دوسرے ساتھیوں کو یہ واقعہ بتایا۔ انہوں نے پوچھا یہ بتائیں کہ آپ نے سوال کونسا کیا تھا؟ ان صاحب نے بتایا کہ میں نے عرض کی تھی کہ تعویذ دے دیں۔

خانقاہ کے ساتھیوں نے کہا: آپ کو پوری بات بتانی چاہیے تھی، کہ کس چیز کا تعویذ چاہیے، کس مقصد کے لئے چاہیے، تعویذ تو بہت ساری چیزوں کے ہوتے ہیں، ہر چیز کا ایک تعویذ نہیں ہوتا جیسے ہر چیز کی ایک دوائی نہیں ہوتی۔ کیمسٹ کی دکان پہ جا کر یہ کہہ دیں کہ دوائی دے دیں تو کیمسٹ آپ کو کیا کہے گا۔ وہ آپ سے لامحالہ تفصیل پوچھے گا کہ کس چیز کی دوائی چاہیے۔

اب اس میسج میں یہ صاحب مجھے فرما رہے ہیں ”السلام علیکم حضرت میرا وظیفہ مکمل ہوا“۔ کون سا وظیفہ؟ مجھے تو اپنے بیٹوں کے ٹیلی فون نمبر تک یاد نہیں ہیں، میں لوگوں کے وظیفے کیسے یاد رکھوں گا کہ میں نے ان کو فلاں وظیفہ دیا تھا جو اب مکمل ہو گیا۔

ڈاکٹر ریحان مرحوم (اللہ ان کی مغفرت فرمائے) ہمارے دوست تھے۔ میں ان سے علاج کروا رہا تھا، ایک بار میں نے ان سے کہا کہ آپ نے جو دوائی دی تھی اس سے فائدہ نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا: میں نے کون سی دوائی دی تھی؟

میں نے کہا: حضرت آپ کو یاد نہیں؟

کہنے لگے: میرے ہزاروں مریض ہوتے ہیں، مجھے کس کس مریض کی دوائی یاد رکھنی پڑے گی۔

بات بالکل صحیح ہے۔ سوال کرنے اور بات پوچھنے کا طریقہ سیکھنا چاہیے۔ آئندہ جب بھی سوال کریں تو سب سے پہلے اپنا نام بتایا کریں، چاہے پہلی بار میسج کر رہے ہوں یا پچاسویں بار۔ اکثر لوگ اپنا نام نہیں بتاتے۔ مجھے کسی کا نام یاد نہیں ہوتا، نمبر دیکھ کر کسی کا نام یاد نہیں آتا۔ بہت سارے لوگ مجھے میسج کرتے ہیں مگر اپنا نام نہیں لکھتے۔ اس لئے ایک تو اپنا تعارف کرانا سیکھ لیں۔ تعارف کرایا کریں اور بتایا کریں کہ میں کون ہوں۔ آپ ﷺ نے خود یہ ادب سکھایا ہے۔

ایک دفعہ ایک صاحب تشریف لائے، دروازہ پر دستک دی، آپ ﷺ نے پوچھا کون؟ انہوں نے کہا: ”میں“۔ آپ ﷺ نے فرمایا ”میں، میں“ کیا ہوتا ہے؟

مطلب یہ تھا کہ اپنا نام بتانا چاہیے۔ لہٰذا جب بھی کوئی میسج کریں، سب پہلے اپنا تعارف کروانا چاہیے، پھر تفصیل بتانا چاہیے کہ میرا فلاں وظیفہ تھا، جس کی مقدار یہ تھی، وہ پورا ہو گیا ہے۔ تب مجھے درست طور پر معلوم ہو گا اور میں اگلا سبق بتا دوں گا۔

سوال نمبر3:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! کیا حدیث شریف پرنٹ کروا کے اپنی کار کے عقبی شیشے پر لگانا درست ہے؟ کہیں اس میں بے ادبی کا کوئی پہلو تو نہیں؟ اس بارے میں وضاحت فرما دیجئے۔

جواب:

یہ سوال فقہ سے متعلق ہے۔ چونکہ اس میں ادب کا پہلو بھی ہے لہٰذا اس کا کچھ تعلق تصوف سے بھی بنتا ہے۔ میں نے علماء کرام سے اس بارے میں استفسار کیا، انہوں نے فرمایا کہ شیشہ کے اندر کی طرف لگا دیں اور تبلیغ کی نیت سے کر لیں تو اس کی گنجائش ہے۔

سوال نمبر4:

السلام علیکم حضرت! میرا حال اب بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔ مجھے اپنے آپ میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی لیکن میں دل سے مسلسل ذکر کر رہا ہوں۔ آپ نے مجھے یہ مراقبہ کرنے کی ہدایت فرمائی تھی کہ ہر چیز ذکر کر رہی ہے اور میرا دل بھی ذکر کر رہا ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں لیکن مجھے اس کا احساس نہیں ہوتا۔

جواب:

؏ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔

یہ بھی ایک حال ہوتا ہے کہ میرا حال تبدیل نہیں ہوا۔ شاید آپ کو اس بات کے سمجھنے میں کچھ کنفیوژن ہوئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ساری چیزیں اپنے اپنے حال کے مطابق ذکر کرتی ہیں۔ یہ بات ہمیں علم سے معلوم ہوئی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے بتانے سے پتا چلی ہے، اب اگر اس علم سے ہم حال حاصل کر لیں تو پھر یہ علم ہمارے مشاہدہ میں بھی آ جائے گا اور ہمارا یقین بڑھ جائے گا۔

آپ اس کو اس طرح سننے کی کوشش کریں جیسے کسی چیز کے دور ہونے کی وجہ سے اس کی آواز نہیں آ رہی ہوتی اور آپ کان لگا کر سننے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہماری خواہشات نفس کی وجہ سے ہمیں روحانی چیزیں سمجھ نہیں آتیں، جیسے جیسے پردے ہٹتے ہیں ہمیں بہت ساری چیزیں سمجھ میں آ جاتی ہیں، آپ یہ تصور کر لیں کہ پردے ہٹ رہے ہیں اور یہ چیزیں آہستہ آہستہ مجھے سمجھ میں آنی شروع ہو گئی ہیں اور یہ تصور کریں کہ ساری چیزیں ذکر کر رہی ہیں میرا دل بھی ذکر کر رہا ہے وہ اللہ اللہ کہہ رہا ہے، میں اس کو سننے کی کوشش کرتی ہوں۔ بس آپ سننے کی کوشش کئے جائیں۔ آپ کا کام بس یہ ہے کہ آپ اس پہ لگی رہیں، آپ اپنا کام کرتی رہیں۔ باقی جو نہیں ہو رہا وہ آپ کے بس میں نہیں ہے۔ جو آپ کے بس میں ہے وہ کئے جائیں۔ ان شاء اللہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔

سوال نمبر5:

السلام علیکم!

ماہِ رمضان آنے والا ہے چونکہ آپ کی ہدایت کے مطابق میں نے مراقبہ کرنا چھوڑ دیا ہے اس لیے مجھے روزانہ معمولات کرنے کے لئے اضافی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ کیا میں کچھ اضافی ذکر کر سکتا ہوں تاکہ میرے لیے رمضان کی تیاری آسان ہو جائے؟

جواب:

آپ کو صبح سے لے کے دوپہر تک جو وقت ملے اس میں ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ“ پڑھ لیا کریں۔ دوپہر سے مغرب تک جو وقت ملے اس میں درود شریف پڑھ لیا کریں اور مغرب کے بعد جتنا وقت ملے اس میں استغفار کر لیا کریں۔ رمضان شریف کا مہینہ تو ہے ہی قرآن پاک کا مہینہ، لہٰذا اس ماہ میں قرآن پاک کی تلاوت کثرت سے کریں۔ شعبان کا مہینہ نفلی روزوں کا مہینہ ہے، اس ماہ میں آپ ﷺ جتنی کثرت سے روزے رکھتے تھے باقی مہینوں میں اس کثرت سے نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے اگر آپ شعبان میں کثرت سے روزے رکھ سکیں تو ضرور رکھیں۔ میں نے صرف علاجی ذکر اور مراقبات میں کسی کمی بیشی سے منع کیا ہے۔

اب چونکہ ہم لوگ نفس کی تربیت کے سلسلہ میں آ گئے ہیں۔ جن لوگوں کو اللہ جل شانہ نے اتنا جذب نصیب فرما دیا ہے کہ وہ اب نفس کی اصلاح کے لئے تیار ہیں، ان کو ہم نفس کی اصلاح کے لئے مختص کرنا چاہتے ہیں، باقی تمام چیزوں کو روک دینا چاہتے ہیں۔

دوسری اہم چیز یہ ہے کہ جن ذرائع کو لوگوں نے مقصد بنایا ہوا تھا ان کو یہ پیغام دینا ہے کہ علاجی ذکر اور مراقبات وغیرہ ذرائع ہیں، مقصود نہیں ہیں، جب وہ مقصد پورا ہو جائے جس کے لئے ان ذرائع کو استعمال کیا گیا تھا، پھر ان ذرائع کو ترک کر کے اصل مقصد پہ چلنا چاہیے۔ مثلاً آپ دہلی جانا چاہتی ہیں، آپ اپنی جگہ سے روانہ ہو کر دہلی پہنچ جاتی ہیں، پھر اس کے بعد یہ تو نہیں کریں گی کہ دوبارہ اپنی جگہ واپس آئیں دوبارہ دہلی جائیں۔ بلکہ دہلی پہنچنے کے بعد وہ مقصد پورا کرنا ہو گا جس کے لئے دہلی آئی تھیں۔ اسی طرح علاجی ذکر سے ہمارا مقصد جذب پیدا کرنا تھا، وہ پیدا ہو چکا ہے اب اس جذب کے ذریعہ وہ کام کرنا ہے جس کے لئے جذب حاصل کیا گیا ہے اور وہ کام نفس کی اصلاح ہے۔

سوال نمبر6:

ایک صاحب نے مجھے علامہ اقبال کی درج ذیل غزل بھیجی ہے:

خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ

خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ

یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ

کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا

فریب سود و زیاں لا الہ الا اللہ

یہ مال و دنیا یہ رشتہ و پیوند

بتان وہم و گماں لا الہ الا اللہ

خرد ہوئی ہے زمان و مکان کی زنّاری

نہ ہے زمان و مکاں لا الہ الا اللہ

یہ نغمہ فصل گل لالہ کا نہیں ہے پابند

بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ

اگرچہ بت ہیں جماعت کے آستینوں میں

مجھے ہے حکم اذان لا الہ الا اللہ

میرا طریقہ یہ نہیں ہے۔ میں یہاں ایسی چیزوں پر گفتگو نہیں کرتا نہ یہ پسند کرتا ہوں کہ لوگ مجھے ایسی چیزیں بھیجا کریں کیونکہ اس سے باقی چیزیں متاثر ہو جاتی ہیں، میرا کام متاثر ہوجاتا ہے۔ اگر آپ ڈاکٹروں کے پاس ایسی چیزیں لے جائیں جو انجینئرنگ سے متعلق ہوں تو کیا وہ خوش ہوں گے؟ آپ ان کے سامنے کوئی پروفیسری کی بات لے جائیں تو کیا ان کے پاس اتنا ٹائم ہو گا کہ وہ ان چیزوں کو ڈسکس کریں۔ ہر آدمی کا اپنا شعبہ ہوتا ہے۔ لوگ اپنے شوق میں مجھے بہت ساری چیزیں بھیج دیتے ہیں لیکن میں صحیح بات عرض کرتا ہوں کہ یہ مناسب نہیں ہے۔ مجھے ایسی چیزیں نہیں بھیجنی چاہئیں جو میرے شعبہ سے متعلق نہ ہوں۔

بہرحال چونکہ یہ صاحب مجھے یہ غزل بھیج چکے تھے، اور اس سے میں نے ایک فائدہ اٹھایا ہے اس لئے میں نے سوچا اس بہانے یہ بات بھی کر دی جائے کہ ایسی چیزیں مجھے نہیں بھیجنی چاہئیں۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایک طالب علم نے عربی زبان میں خط لکھا۔ حضرت نے ان کو جو جواب دیا وہ بڑا سبق آموز جواب ہے۔ حضرت نے فرمایا: ”تمھارا باپ عرب تھا؟ یا تم عرب ہو، یا تمھیں عربی کے سوا اور کوئی زبان نہیں آتی، یا پھر میں عرب ہوں کہ میں عربی کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھتا؟ بتاؤ کہ تم نے مجھے عربی میں خط کیوں لکھا ہے؟ میں اس کا مقصد اس کے سوا کیا سمجھوں کہ تم اپنی عربی کا رعب مجھ پربٹھانا چاہتے ہو کہ تمہیں بہت عربی آتی ہے“۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جب علاج کرتے تھے تو مکمل علاج کرتے تھے۔ اس طالب علم نے جو کیا وہ ناجائز کام نہیں تھا، عربی میں خط لکھنا کوئی غلط بات نہیں ہے بلکہ ایک خوبی ہے، ایک علم ہے، ایک فن ہے لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عربی میں خط کس کو لکھا جائے اور کس کو نہ لکھا جائے۔ آپ نے عربی میں خط لکھنا ہی ہے تو اپنے استاذ کو لکھیں، جن سے آپ سیکھ رہے ہیں، یا پھر کسی عرب کو بھیجو تاکہ آپ کی عربی ٹھیک ہو جائے۔ لیکن اپنے شیخ کو اور ایسے لوگوں کو عربی میں خط بھیجنے کا کیا مقصد؟ ایسے لوگوں کو تو کوئی ایسی چیز بھیجو جو ان کے مقصد میں حائل نہ ہو۔ مثلاً اگر آپ کا شیخ آپ کی مادری زبان جانتا ہو اور شیخ کی مادری زبان بھی وہی ہو تو اس کو اُسی زبان میں خط یا میسج بھیجو تاکہ کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ جیسے ہمارے لئے اردو تقریباً مادری زبان ہے کیونکہ اردو سب جانتے ہیں لہٰذا ہر ایک کو اس میں فائدہ ہو جاتا ہے۔ اب اگر کوئی اس کے علاوہ ہمیں کوئی شاعری وغیرہ بھیجنا چاہتا ہے تو اس میں بھلا اُس کا کیا مقصد، اور اِس کا ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟

یہ باتیں میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ باقی لوگوں کو فائدہ ہو، پتا نہیں ان صاحب کو ہو گا یا نہیں ہو گا لیکن دوسروں کا فائدہ ضرور ہو گا۔

ہمارے ساتھ تعلق صرف اصلاح کے لئے ہوتا ہے، لہٰذا ہم سے اسی بنیاد پہ تعلق رکھا کرو اور اسی مقصد سے تعلق رکھا کرو کہ تمہاری اصلاح ہو جائے۔ آپ ڈاکٹر کی مثال لے لیں، ڈاکٹر صاحب سے ملتے وقت ڈاکٹر اور مریض آپس میں کیا باتیں کرتے ہیں۔ اگر دونوں میں سے کوئی بھی مریض، مرض، بیماری اور علاج کے علاوہ کوئی اور باتیں کرنے لگے تو دوسرے پر بوجھ ہو جائے گا۔ مریض سوچے گا کاش کچھ اپنے بارے میں بتا سکوں کہ مجھے فلاں بیماری ہے اور ڈاکٹر اس پہ بات کر لے تو میرا علاج ہو جائے۔ اب ڈاکٹر آپ کو آپ کی بیماری کے بارے میں بتانا چاہتا ہے مگر آپ اس کو شاعری سنانا شروع کر دیں تو کیا ہو گا۔ یہی بنیادی بات ہے، اسے سمجھنا چاہیے۔

حضرت شیخ مولانا اشرف صاحب کے پاس ہری پور سے ایک شاعر قسم کا پاگل آدمی آیا کرتا تھا۔ حضرت حلیم مزاج شخصیت تھے۔ بعض لوگ ان کے حلم کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔ اس آدمی کی شاعری بڑی ٹوٹی پھوٹی ہوتی تھی، ردیف قافیہ کا تو پتا ہی نہیں ہوتا تھا کہ کہاں جا رہا ہے اور کیا ہو رہا ہے، لیکن اس کو اپنی شاعری پہ بڑا ناز تھا۔ آتے ہی حضرت کو اپنی شاعری سنانا شروع کرتا، گھنٹوں سنائے جاتا تھا اور حضرت سنتے تھے۔ لوگوں نے کہا حضرت آپ کیا کرتے ہیں، آپ کے ایسا کرنے سے اسے مزید شہ ملتی ہے۔ حضرت نے فرمایا: وہ اتنی دور سے آتا ہے اور کوئی اس کی نہیں سنتا، میرا دل انکار کرنے کو نہیں چاہتا۔

اس پاگل نے ہمیں خود اپنا واقعہ سنایا کہ ایک بار مجھے میرے گھر والے پاگل خانہ میں داخل کرانے کے لئے لے گئے۔ ڈاکٹر نے مجھ سے کچھ سوالات پوچھے، میں نے سب سوالات کے درست جوابات دے دیئے۔ ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا: آپ کو کیا تکلیف ہے۔

میں نے کہا: مجھے تکلیف نہیں ہے، تکلیف ان لوگوں کو ہے جو مجھے یہاں لائے ہیں۔

پھر میں نے ڈاکٹر سے کہا: ”بتائیں آپ کو ٹھمری سناؤ یاں غزل سناؤں؟“

ڈاکٹر نے یہ سنتے ہی لکھ دیا "admit"۔

کیونکہ ہسپتال کے اندر جو آدمی ڈاکٹر کو غزل اور ٹھمری سنائے گا، تو لازمی طور پر اس کے دماغ میں کچھ خلل ہے۔

لہٰذا شیخ کو یہ چیزیں نہیں بھیجنی چاہئیں، آپس میں ایک دوسرے کو بھیجنا اور اور بات ہے لیکن جن سے آپ کا اصلاحی تعلق ہے یا جن سے آپ اصلاحی تعلق رکھنا چاہتے ہیں، انہیں ایسی چیزیں بھیجنے کی کی کیا ضرورت ہے۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے، اپنا وقت بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے دوسروں کا وقت بھی بچا نا چاہیے۔ بے شک یہ بہت اچھا کلام ہے میں اس کلام سے بالکل اختلاف نہیں کرتا، لیکن یہ میرے کام سے متعلقہ نہیں ہے۔

حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ایک کتاب پڑھنے سے منع کیا تھا۔ حضرت نے منع کرتے ہوئے یہ وضاحت فرمائی کہ میں یہ نہیں کہتا کہ کتاب غلط ہے، کتاب بالکل صحیح اور اچھی ہے لیکن بعض دفعہ بیمار کے لئے ملائی بھی منع کر دی جاتی ہے۔

خیر! علامہ اقبال کے اس کلام سے میں نے فائدہ اٹھایا ہے اور اس پہ اپنا کچھ کلام فٹ کیا ہے کسی اور کی غزل کے قافیہ ردیف کو لے اپنی غزل کہیں تو اسے تضمین کہتے ہیں۔ تضمین بھی ایک طریقہ ہے بات کو بیان کرنے کا۔ بہرحال وہ غزل یہ ہے:

خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ

خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ

خودی کی سکولوں میں تشریح جو کی جاتی ہے

اس سے مانگوں میں اماں لا الہ الا اللہ

کاش اقبال اپنے کلام کی تشریح بھی سنیں

خلاف وہم و گماں لا الہ الا اللہ

جتنے مرعوب ہوئے آج ہیں سائنس سے سب

ہوش آخرت کی کہاں لا الہ الا اللہ

تشریح:

علامہ اقبال کی شاعری پڑھنے والے کچھ لوگ سائنس سے اتنے مرعوب ہیں کہ علامہ اقبال کے ہر شعر کو سائنس پہ چسپاں کرتے ہیں، خواہ اس شعر کا تعلق سائنس سے ہو یا نہ ہو۔

سائنس ایک راہ حقیقت پر ہے ترقی پذیر

ہمارا غیب پہ ایماں لا الہ الا اللہ

سائنس فطرت کا شاہد ہے تجربات پہ منحصر

اپنا مشہود رحماں لا الہ الا اللہ

اپنا مذہب گو کہ سائنس کا مخالف تو نہیں

پر یہ حاکم نہیں ہاں لا الہ الا اللہ

عقل ہے نفس کی تابع فریفتہ دل دنیا پہ

جانے کیا سود و زیاں لا الہ الا اللہ

دل سے دنیا کی محبت نکالنے واسطے شبیر

پڑھ عقلِ عشق کی نشاں لا الہ الا اللہ


”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ، لَا مَقْصُودَ اِلَّا اللہ، لَا مَعْبُودَ اِلَّا اللہ، لَا مَحْبُوبَ اِلَّا اللہ، لَا مَوْجُودَ اِلَّا اللہ“۔ یہ سب عقلِ عشق کے نشاں ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔ شعرا کے ساتھ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ان کے اشعار کا مطلب ہر طبقہ اپنے مقصد کے مطابق بیان کرتا ہے۔ اب ہمارے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کیا کیا خوب باتیں کی ہیں، حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے کیا کیا خوب باتیں کی ہیں اور لوگوں نے ان کا مفہوم کیا سے کیا بنا دیا ہے، کچھ کا کچھ بنا دیا ہے۔ یہاں تک کہ جب ہم اصل باتیں کرتے ہیں تو لوگوں کو اجنبی لگتی ہیں حالانکہ ہمارے پاس ان باتوں کے دلائل ہیں، حوالہ جات ہیں، ہم بزرگوں کے حوالہ سے بات کرتے ہیں، اپنی طرف سے کوئی بات تھوڑی ہی کرتے ہیں، لیکن آج یہ چیزیں اجنبی ہو گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خواہشات کے چکر میں ہیں، انہی میں سے ایک خواہش یہ بھی ہے کہ ہم بس تصورات میں رہیں کہ فلاں جگہ پہنچ گئے۔ یہ بھی خواہشات کی دنیا ہے لیکن ذرا مختلف ہے۔ اس پر بھی میں نے ایک کلام کہا ہے، وہ عرض کردیتا ہوں۔

نقشبندیت کیا ہے عزیمت کی ہے اک راہ

یہ تو بس ابتدا سے ہی سنت کی ہے اک راہ

تشریح:

آج کل ہر چیز میں کشف اور توجہ کو بڑا کمال سمجھا جاتا ہے۔

کشف و توجہات پہ منحصر نہ جان اسے

یہ تو بس اتباع شریعت کی ہے اک راہ

راہ سلوک پہ نفس ابتدا میں نہ آئے

تو ابتدا میں عشق و محبت کی ہے اک راہ

بس ابتدا میں جذب ہے مگر بعد میں سلوک

طے کرنا ہے تفصیلی اس حکمت کی ہے اک راہ

یہ انتہا و ابتدا کی بات ہے نظمی

اس سے عوام کو جو ہے سہولت کی ہے اک راہ

تشریح:

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں دوسرے سلسلوں کی جہاں انتہا ہے وہاں ہمارے سلسلہ کی ابتدا ہے۔ در اصل یہ صرف ایک انتظامی بات ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ باقی سلسلوں میں جذب بعد میں ہوتا ہے خواجہ نقشبند نے اس جذب کو پہلے کر دیا۔ باقی سلسلوں میں سلوک پہلے ہوتا تھا، اِنہوں نے بعد میں کر لیا۔ یہ تو صرف ایک انتظامی امر ہے۔ اس کی بنیاد پر میں یہ کیسے کہہ سکتا ہوں کہ جو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کی انتہا ہے وہ میرے نقشبندی سلسلہ کی ابتدا ہے۔ میں یہ کیسے کہہ سکتا ہوں کہ جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی انتہا ہے وہ میرے سلسلہ کی ابتدا ہے۔ کیا ایسا کہا جا سکتا ہے؟ کمال ہے اتنی بڑی جرأت! مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کہتے تو کہہ سکتے تھے کیونکہ حضرت کا مقام بہت اونچا تھا وہ مجدد الف ثانی تھے لیکن ہم تو ایسا نہیں کہہ سکتے۔ ہمارا کہنا تو بہت دور کی بات ہے، مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایسا نہیں کہا۔ ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا ہے کہ میرا قدم سارے اولیاء کی گردن پر ہے۔ کیا یہ قول حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے کے لئے ہے یا ان سے پہلے اور بعد والوں کے لئے بھی ہے۔ جواب سنو کہ انہوں نے کیا فرمایا: حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ویسے تو یہ قول ان کے اپنے زمانے کے اولیاء کے لئے ہے، یعنی ان کا قدم تمام اولیاء کی گردن پر ہے، یہ ان کے اپنے زمانے کے اولیاء کے بارے میں ہے، پہلے والوں کے بارے میں نہیں ہے، کیونکہ پہلوں میں صحابہ تھے، بعد والوں کے بارے میں بھی نہیں ہے کہ بعد والوں میں امام مہدی آ رہے ہیں، ان دونوں پر نہیں ہو سکتا۔ ہاں بعد والوں میں سے میں اپنے اوپر اس قول کو مانتا ہوں، کہ جن لوگوں کی گردن پر ان کا قدم ہے میں بھی ان میں شامل ہوں۔ میں اسے اپنے اوپر مانتا ہوں لیکن نہ پہلوں پر ہے نہ بعد والوں پر ہے، پہلوں میں صحابہ ہیں ان پر نہیں ہو سکتا بعد میں مہدی رضی اللہ عنہ آ رہے ہیں ان پر بھی نہیں ہو سکتا۔ قانوناً نہ پہلے والوں پہ ہے نہ بعد والوں پر ہے صرف اس وقت کے اولیاء پر ہے۔

بہرحال یہ کہنا کہ جہاں سے باقی سلسلوں کی انتہا ہے، وہاں سے ہماری ابتدا ہوتی ہے، اور اس بنا پر باقی سب کو کم درجہ کا سمجھنا یہ افراط و تفریط ہے۔

چھلکے پہ ہم لٹو نہ ہوں کہے یہ مجدد

گری کو لیں تو اس کی معرفت کی ہے اک راہ

کعبہ سمجھ کر دوسرے مکاں کا کرے طواف

توبہ ہے کہاں ایسی جہالت کی ہے اک راہ

جو یہ کرے کہلائیں وہ مجذوب متمکن

ان کی نہیں ہے حق میں فنائیت کی ہے اک راہ

کرے ہضم سلوک پھر وہ شیخ کہلائیں

ہوشیار باش نہ ایسی سفاہت کی ہے اک راہ

نقش دل پہ حق کا لے کے باطل توڑ بتا شبیر

سب کی طرح یہ نفس کی تربیت کی ہے اک راہ

بزرگوں نے ہمیں یہی بتایا ہے اور یہی سکھایا ہے، دعوے نہیں سکھائے کہ ہم دعوے کریں کہ ہم ایسے اور ایسے ہیں۔ جب ہمارے اندر دعوی آ گیا تو پھر کون سی چیز رہ گئی، یہ بات فنائیت کے خلاف ہے۔

سوال نمبر7:

کیا ایسا کہا جا سکتا ہے کہ نقشبندیت فی الحقیقت سختی سے شریعت اور سنت پر کار بند رہنے کا نام ہے؟

جواب:

مجھے آپ کے ساتھ اختلاف ہے، یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ نقشبندی سلسلہ سنت پر سختی سے کاربند رہنے کا نام ہے، بلکہ سارے سلسلوں کا طریقہ یہی ہے، سارے سلسلے شریعت اور سنت پر سختی کے ساتھ کار

بند رہنے پہ لگاتے ہیں۔ یہ صرف نقشبندی سلسلے کی ہی خصوصیت نہیں ہے، بلکہ سب سلسلوں کا یہی کام ہے۔

آپ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کی غنیۃ الطالبین پڑھ لیں پتا چل جائے گا کہ سنت کسے کہتے ہیں، سنت پر استقامت کسے کہتے ہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات پڑھ لیں معلوم ہو جائے گا کہ سنت کسے کہتے ہیں۔ خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کی عوارف المعارف پڑھ لیں پتا چل جائے گا کہ سنت کسے کہتے ہیں۔

لہٰذا یہ سارے سلسلے ہی سنت پہ لانے کا کام کرتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اول قدم پر ہی واصل کر دیتا ہوں۔

لوگوں نے پوچھا کہ حضرت ایسا کیسے ممکن ہے؟

فرمایا: میں سالک کو ابتدا ہی سے سنت پہ لے آتا ہوں اور سنت میں خود بخود قبولیت موجود ہے، جیسے ہی بندہ سنت پہ عمل شروع کرتا ہے، واصل باللہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

حضرت بھی سنت پر لاتے تھے، سارے بزرگ سنت کی دعوت دیتے ہیں، نقشبندی بھی سنت کی دعوت دیتے ہیں اور باقی سلسلے بھی سنت کی دعوت دیتے ہیں۔ ہمیں نقشبندی سلسلہ اور دوسرے سلسلوں میں کچھ فرق نظر نہیں آتا، ہر سلسلہ کا مقصد نفس کی اصلاح ہے، نقشبندی سلسلہ کا مقصد بھی یہی ہے، ہاں طریقہ کار ضرور مختلف ہو سکتا ہے، ترتیب کا فرق ہے، کوئی ایک ترتیب سے چلتا ہے کوئی دوسری ترتیب سے چلتا ہے۔ نتیجہ سب کا ایک ہی ہے، نتیجہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کا مقصد ایک ہی ہے: قلب کی اصلاح، نفس کی اصلاح اور عقل کی اصلاح۔ سب کا یہی مقصد ہے، ہم اسی کے قائل ہیں۔

سوال نمبر8:

السلام علیکم حضرت جب سے نفس کی اصلاح کی جانب توجہ ہوئی ہے، تب سے اس کی طاقت کا اظہار بھی زیادہ ہو گیا ہے، شاید پہلے اندازہ نہیں تھا۔ حضرت نفس مجھ سے کہیں زیادہ طاقتور ہے اپنی مرضی کی ہر بات منوا لیتا ہے، اگر اس کی نہ مانوں تو انتہائی سخت جواب دیتا ہے، جس طرح جیل میں منہ زور قیدی کرتا ہے۔ حضرت! معاشی بد حالی کے باعث گھر سے بھی شدید مخالفت ہے، گھر والے عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں۔ اپنی کمزوری میرے سامنے ہے مگر حالات ہر طرف سے نا مناسب ہیں۔ اپنی نفس کی اصلاح ہو جانا ایک معجزہ سا لگتا ہے۔ اب ڈر بھی بہت لگتا ہے کہ آگے کیا ہو گا، پتا نہیں۔ حضرت آپ سے بہت دعاؤں کی درخواست کرتا ہوں۔

جواب:

نفس منہ زور تو ہے اس سے انکار نہیں۔ قرآن پاک میں نفس امّارہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ تو برائی کی طرف ہی مائل کرتا ہے۔ لیکن نفس ہر وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ دو صورتیں ہو سکتی ہیں، یا آپ اس کی مانیں گے یا آپ اس سے منوائیں گے۔ اگر آپ ہر وقت اس کی مانیں گے تو اس کی طلب مزید بڑھے گی۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں۔ پہلے پہل ہمارے گاؤں میں کبھی سال میں ایک دفعہ پراٹھا پکتا تھا وہ بھی عید کے دن، پراٹھا جیسا بھی ہوتا اس کا بڑا انتظار اور اشتیاق ہوتا تھا کہ آج پراٹھا کھائیں گے۔ بعد میں جب روز پراٹھا پکنے لگا تو اس کے اندر لوگ نخرے نکالتے ہیں کہ اس میں یہ چیز نہیں اس میں یہ چیز نہیں۔ نفس کی مثال ایسی ہی ہے جتنا آپ اس کی مانو گے یہ مزید کی طلب کرے گا۔ آپ اس سے اندازہ کر لیں کہ انسان زیادہ سے زیادہ کتنے کمروں میں رہ سکتا ہے، کتنے کپڑے زیادہ سے زیادہ پہن لے گا، اور کھانا زیادہ سے زیادہ کتنا کھا لے گا۔ اگر میرا گھر پورے اسلام آباد جتنا ہو جائے تو میں کتنی جگہ میں رہوں گا، جہاں پر میں رہوں گا وہ تو چھوٹی سی جگہ ہی ہو گی۔ باقی صرف میرا نخرہ ہو گا کہ میرا اتنا بڑا گھر ہے۔

جتنا آپ اپنے نفس کو سہولت دیتے ہیں یہ مزید پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔ اور جتنا آپ اس کو دباتے ہیں، اتنا یہ آپ کی بات ماننا شروع کرتا ہے۔ لہٰذا آپ اپنے دل کو چھوٹا نہ کریں، نفس جو کہے اسے کہیں کہ ان شاء اللہ جنت میں ساری چیزیں ملیں گی، اور اس سے اچھی ملیں گی، دنیا میں اطمینان نا ممکن ہے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ حضرت کچھ ایسا بتا دیجئے تاکہ اطمینان ہو جائے۔

فرمایا: کیا کہتے ہو، کفر کی بات مجھ سے کراتے ہو؟ دنیا میں اطمینان تو ہو ہی نہیں سکتا۔

انسان کا نفس ہمیشہ زیادہ چاہتا ہے، اگر اس کو سیدھا کرنا چاہتے ہو تو طریقہ یہی ہے کہ اس کی نہ مانو۔ جب اس کی نہ ماننا شروع کرو گے تو آہستہ آہستہ ٹھیک ہونا شروع ہو جائے گا۔ پہلے ایک بات نہ مانو، تو ایک فیصد ٹھیک ہو گا، پھر مزید اس کی نہ مانو تو ایک فیصد اور ٹھیک ہو جائے گا، ایک ہی بار میں سو فیصدی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ایک بار میں سب ٹھیک ہو جائے، تو یہ آپ کی عقل کا قصور ہے۔ اس کا ٹھیک ہونا اس پر منحصر ہے کہ آپ اپنے نفس کی کتنی مانتے ہیں اور کتنی نہیں مانتے، جتنا جتنا آپ اس کی نہیں مانتے اتنا اتنا یہ ماننا شروع کر لیتا ہے اور یہ ساری ترتیب آہستہ آہستہ ہوتی ہے۔

سوال نمبر9:

السلام علیکم! حضرت جی اس ہفتہ کی سنت کے بارے میں عرض ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو یہ چھ کام کرے گا میں اس کی جنت کا ذمہ دار ہوں، بولو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو پورا کرو، امانت رکھی جائے تو خیانت نہ کرو، نظر نیچے رکھو، ظلم سے اپنا ہاتھ روکو اور اپنے جذبات نفسانی کی باگ ڈھیلی نہ چھوڑو۔ اس پر عمل جاری ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ! اصل میں یہی چیزیں کرنے کی ہیں۔ ہم صرف باتیں کرتے ہیں، باتیں کرنے سے کیا ہوتا ہے جو ہوتا ہے عمل کرنے سے ہوتا ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

لہٰذا عمل کرنا چاہیے عمل سے بات بنتی ہے۔

سوال نمبر10:

السلام علیکم! حضرت جی امی کا وظیفہ پورا ہو گیا ہے۔ ان کا آخری مراقبہ ایک قلبی دعا ہے۔ یہ مراقبہ بڑی خوشی سے کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس میں میرا دل آسانی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور توجہ بھی نہیں بٹتی۔

جواب:

ٹھیک ہے اس کو جاری رکھیں البتہ وقت دس منٹ اور بڑھا لیں۔ جو لوگ عمل کرتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ راستے کھولتے ہیں

﴿وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ”اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انھیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے“۔

یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔

سوال نمبر11:

حضرت شاہ صاحب، امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے! ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ میری چھوٹی بچی بیمار ہے اور معاشی مشکلات بھی کافی ہیں۔ میری گاڑی ٹوٹ گئی اور کل میرا کمپیوٹر بھی گر گیا۔ اب مجھے اپنے کام پر جانے کے لیے کافی مسافت پیدل چلنا پڑتا ہے مجھے لگتا ہے کہ یہ سب ایک امتحان ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ میرے لیے کامیابی کی دعا فرمائیں۔

جواب:

ایسے مسائل سب کے ساتھ ہوتے ہیں۔ کافر کے ساتھ بھی اور مسلمان کے ساتھ بھی۔ کسی بھی مسئلہ اور پریشانی کا غلط مطلب شیطان کی طرف وسوسہ کے طور پر انسان کے ذہن میں آ جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حجاب ہے۔ کوئی بھی شخص اس قسم کے مسائل کا شکار ہو سکتا ہے البتہ عمل کرنے والا مسلمان اس پر صبر کر لیتا ہے اور صبر کا اجر اللہ تعالیٰ سے لے لیتا ہے۔

اگر آپ اسلام اور تصوف کی لائن پر نہ ہوتے تو ان مسائل کا نتیجہ سوائے ڈپریشن کے کیا ہوتا۔ ہسپتال جانا پڑتا، مزید مسائل ہوتے۔ اب اللہ پاک نے آپ کو اسلام کی توفیق دی ہے اور ماشاء اللہ طریقت کے راستہ پہ بھی چل پڑے ہیں تو آپ کے لئے یہ سارے مصائب اجر کا ذریعہ بن جائیں گے۔ اگر مسلمان نہ ہوتے یہ سب کچھ صرف ایک بوجھ ہی ہوتا۔ ان چیزوں کو اس طرح دیکھنا چاہیے۔ یہ سمجھنے کا ایک طریقہ کار ہے۔

سوال نمبر12:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت والا آپ کی خدمت میں ایک سوال عرض ہے۔ گذشتہ بدھ مکتوبات شریف کی مجلس میں ایک مکتوب شریف کو پڑھتے ہوئے یہ بات آئی۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”ہم اپنے دوسرے طریقوں سماع و رقص اور وجد وغیرہ کو ترک کر کے اپنا طریقہ نقشبند اختیار کرتے ہیں“۔

آپ نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ”چشتیہ سلسلہ چشتیہ کو مبارک ہو، قادریہ سلسلہ قادریہ کو مبارک ہو“۔ پھر آپ نے مقناطیس کی مثال دی کہ ”مقناطیس کو ایک ہی طرف سے رگڑو تو لوہے میں مقناطیسیت آتی ہے نہ کہ الگ الگ طرف سے رگڑنے پر۔ اگر کبھی ایک طرف،کبھی دوسری طرف سے رگڑیں گے تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔“

اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ الحمد للہ نصاب ایک ہی ہے، بس ایک ہی کی کی پیروی کرنا ہے، شیخ ایک ہی ہے، معالج ایک ہی ہے۔ وحدتِ مطلب کی بات بھی سمجھ میں آئی۔

آپ نے فرمایا: ”اگر میری بات سمجھ میں نہیں آتی تو سماع میں مراقبہ کر کے دکھاؤ۔ جہری (شور) اور مراقبہ (یکسوئی) یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں، ان کو جمع کیسے کر سکتے ہیں“

اس سے دو سوال دل میں آئے جو ابھی تک میرے اوپر کافی بھاری ہو رہے ہیں۔ ایک سوال یہ کہ اگر جہر اور یکسوئی ایک دوسرے کی ضد ہیں تو حضرت والا جو ہمیں چاروں سلسلہ کے اذکار کراتے ہیں اور پھر مراقبہ بھی ساتھ کراتے ہیں، ہم اس کی کیسے تطبیق کریں، ہم تو اس پر مطمئن ہیں کہ شیخ جس طریقہ سے چلائے وہی ٹھیک ہے وہی بہتر ہے، سالک مرید کو کیا پتا، ہم تو تریبت میں ہیں۔ البتہ ان دو باتوں کو جمع کیسے کریں کہ تمام سلسلہ کا ذکر بھی کریں مراقبہ بھی کریں، اور یکسوئی بھی رہے۔ اس اشکال کا دل میں ایک جواب یہ آیا کہ حضرت والا ابتدا میں سب سلسلوں کا ذکر دیتے ہیں اس سے مقصد یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ سالک کی مناسبت اور نسبت کس طرف زیادہ مائل ہے۔ حضرت والا وضاحت فرما دیں، بڑا کرم ہو گا۔

دوسرا سوال خدمت اقدس میں عرض یہ ہے کہ حضرت والا نے اسی مکتوب شریف کے درس میں فرمایا کہ ”بھائی تم سماع کی محفل میں مراقبہ کر کے دکھاؤ۔“

حضرت والا نے بارہا یہ بھی فرمایا ہے کہ جب مراقبہ پکا ہو جاتا ہے تو انسان بس سے لٹک کے بھی مراقبہ کر سکتا ہے، اور تمام چیزوں سے غافل ہو کے اللہ کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے۔ اس کا ذکر ویسے ہی قائم رہے گا۔ پہلی بات اور اس میں کچھ تضاد نظر آتا ہے۔ آپ رہنمائی فرما دیں۔ امید ہے کہ سوال صحیح سے ڈھنگ سے حضرت کی خدمت میں عرض کر سکا ہوں گا۔ جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزا۔

جواب:

اگرچہ جواب تو میرے ذمہ پیر کے دن کا تھا لیکن چونکہ یہ سوال بہت اہم ہے اس لئے میں پہلے سے جواب دیتا ہوں کہ آپ کے ذہن سے انتشار دور ہو جائے۔

اصل میں بات یہ ہے کہ نقشبندی سلسلہ کا اپنا ایک مزاج ہے اور باقی سلاسل کا اپنا ایک مزاج ہے۔ مثال کے طور پر بعض لوگ فطرتاً خاموشی کے ساتھ کام کرتے ہیں بعض لوگ والہانہ طریقہ سے کام کرتے ہیں۔ مزاجوں کا فرق ہوتا ہے، جیسے میرے دونوں بیٹوں کے مزاجوں میں بہت فرق ہے۔ جن لوگوں کا مزاج اندر ہی اندر کام کرنے کا ہے، وہ اس طرح زیادہ آسانی محسوس کرتے ہیں ان کے لئے نقشبندی سلسلہ مفید ہے ان کے لئے یہ طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے کہ انہیں ایک وقت میں ایک معمول پر لگایا جاتا ہے، اس کے ساتھ اور چیزوں کو شامل نہیں کیا جاتا، شور و غل وغیرہ کو شامل نہیں کیا جاتا بلکہ وہ مراقبات کے ذریعے یکسوئی حاصل کرتے ہیں۔ جب یہ ایک معمول کر رہے ہوتے ہیں، ان کو دوسرے معمول نہیں دئیے جاتے تاکہ یکسوئی برقرار رہے، اور آخر تک ان کو ایسے ہی لے کے چلا جاتا ہے۔ نقشبندی سلسلہ سے مناسبت رکھنے والوں کو الگ الگ معمول دینے سے فرق پڑتا ہے، لیکن دوسرے سلسلوں کے لئے اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، اگر سماع صحیح ہو شرائط پہ پورا اترتا ہو اور ذکر جہری صحیح طریقہ سے کیا جائے تو اس سے بھی وہی مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں جو نقشبندی سلسلہ میں مراقبات اور لطائف کے ادوار کے ذریعے سے حاصل ہوتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض حضرات کی تحقیق یہ ہے کہ اصل لطیفہ صرف ایک ہے اور وہ لطیفۂ قلب ہے، باقی سب مستقل لطیفے نہیں بلکہ اس کے متعلقات ہیں۔ چشتیہ حضرات کا یہی موقف ہے، ان کے نزدیک اصل لطیفہ ایک ہی ہے، لطیفۂ قلب۔ لہٰذا وہ حضرات دل پر ہی توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور ان کے تمام کام اس سے ہو جاتے ہیں، ان کو باقی چیزوں کی طرف توجہ ہی نہیں دینی ہوتی، ان کے اندر سماع کی وجہ سے جو والہانہ پن اور جذب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو ان کو وہی مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں، جو نقشبندی حضرات دوسرے طریقوں سے حاصل کرتے ہیں۔

رہی یہ بات کہ میں سارے سلسلوں کا ذکر کیوں کراتا ہوں، اس کی وجہ آپ کو بالکل درست سمجھ آئی ہے کہ ہم چاروں ذکر اس لئے کراتے ہیں، کیونکہ مزاج مختلف ہیں، ان مزاجوں کا پتا چلانے کے لئے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سالک کو چاروں سلسلوں کا ذکر کراتے ہیں، اس کا ایک طریقہ اور بھی ہے ہمارے پاس، ہم نے غزلوں کا باقاعدہ نظام بنایا ہوا ہے، ہر نسبت کی اپنی غزل ہے، اس سے بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مزاج معلوم کرنے کے اور طریقے بھی ہیں۔ اگر مزاج معلوم ہو جائے تو معاملہ بہت آسان اور مختصر ہو جاتا ہے۔ ہمارے پاس الحمد للہ چاروں سلسلے ہیں اور چاروں سلسلوں کے بڑوں کی نسبت ہمیں حاصل ہے۔ اس وجہ چاروں سلسلوں کا ذکر کراتے ہیں اور پھر جس کے لئے جو مناسب معلوم ہوتا ہے اس پہ چلا دیتے ہیں۔

اس کو آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک نیا طریقہ ہے جس میں چاروں ذکر ایک خاص ترتیب سے سموئے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لئے یہ طریقہ بھی مناسب ثابت ہو گا، جن کے لئے مناسب نہیں ہوا، ان سے ہم عذر کر لیں گے۔

مراقبہ اور سماع کے بارے میں یہ عرض ہے کہ مراقبہ کے لئے بڑی یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہے آج کل مراقبات لوگوں کے لئے بڑے مشکل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مراقبہ کے دوران ان کا ذہن منتشر رہتا ہے۔ ان کے لئے ہم نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوا ہے کہ پہلے ہم ذکر جہری کراتے ہیں اس کے بعد مراقبہ پہ لگاتے ہیں۔ ذکر جہری سے ان کو یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے۔ یکسوئی سے مراد یہ ہے کہ ذکر جہری ان کو باقی ماحول سے کاٹ دیتا ہے، اس کے بعد جو یکسوئی ان کو حاصل ہو جاتی ہے اس سے مراقبہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہ ایک نئی ترتیب ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوئی، لیکن الحمد للہ ہم نے کامیابی کے ساتھ چلائی ہے اور لوگوں کو اس سے فائدہ ہوا ہے۔ یہ ساری چیزیں تجرباتی ہیں۔ اس نئے طریقے کو اختیار اور استعمال کرنے میں کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔

جو میں نے یہ کہا تھا کہ اگر کسی کا مراقبہ پکا ہو جائے تو وہ گاڑی سے لٹک کر بھی مراقبہ کر سکتا ہے۔ تو یہ منتہی کا مراقبہ ہے۔ ایک ہوتا ہے تربیتی مراقبہ، جو مبتدی اور متوسط نے کرنا ہوتا ہے اور ایک ہوتا ہے اللہ پاک کی طرف متوجہ ہونے کا مراقبہ۔ جب سیر الی اللہ مکمل ہوجاتی ہے تو تربیتی مراقبات ختم ہو جاتے ہیں لیکن سیر فی اللہ میں اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے مراقبات کئے جاتے ہیں، جن کی صورت دعائیہ ہوتی ہے۔ یہ مراقبہ جو منتہی کا ہوتا ہے یہ واقعی گاڑی سے لٹک کر بھی ہو سکتا ہے، بلکہ اس کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ جس وقت کوئی تکلیف ہو، پریشانی ہو، جس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی زیادہ ضرورت ہو، اس وقت توجہ قائم رکھی جا سکے۔ منتہی آدمی ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو گا چاہے آس پاس تلواریں ہی کیوں نہ چل رہی ہوں، بلکہ وہ مشکل حالات میں زیادہ متوجہ ہو گا۔ جن کا مراقبہ پکا ہو جائے جو منتہی ہو جائیں، وہ ابو الحال ہو جاتے ہیں، وہ اپنے لئے جیسا حال بنانا چاہیں، بنا لیتے ہیں ان کے اوپر کوئی مسائل نہیں ہوتے، لیکن مبتدی کو ذرا سنبھال سنبھال کے چلایا جاتا ہے کہ کہیں وہ اپنی یکسوئی کو ضائع نہ کر دے۔

سوال نمبر13:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی ایک تبلیغی جماعت کے ساتھی بتا رہے تھے کہ تبلیغی جماعت کے بزرگ سے کسی نے سوال پوچھا کہ تبلیغ کا کام فرض ہے یا واجب، سنت ہے یا مستحب۔ اس پر بزرگ نے فرمایا اگر امت مستحب چھوڑنے لگے تو اس صورت میں تبلیغ مستحب ہو گی، اگر سنتیں چھوڑنے لگے تو تبلیغ سنت ہو گی۔ اگر واجب چھوڑنے لگے تو تبلیغ واجب اور اگر فرائض چھوڑنے لگے تو اس صورت میں تبلیغ فرض ہو گی، آج کل امت فرض ہی ادا نہیں کر رہی، اس لئے تبلیغ کرنا بھی فرض ہے۔

جواب:

در اصل مطلق تبلیغ کے بارے میں تو یہ بات درست ہے کہ امت میں جس درجہ کے منکرات ہوں گے تبلیغ اسی درجہ میں ضروری ہو گی۔ لیکن اگر یوں کہا جائے کہ رائیونڈ والی تبلیغ کے بارے میں یہ بات ہے تو اس کو ہم نہیں مانتے۔ در اصل تبلیغ کے کئی طریقے ہیں، جن میں سے ایک طریقہ رائیونڈ والا بھی ہے۔ بے شک تبلیغ واجب ہے، لیکن اس کا ایک ہی طریقہ واجب نہیں ہے، ہر آدمی اپنے طریقہ کے مطابق تبلیغ کر سکتا ہے۔

ہمارے شیخ فرماتے تھے ہمارا اور تبلیغیوں کا اختلاف بس اتنا ہے کہ ہم کہتے ہیں تبلیغ بھی دین کا کام ہے اور وہ کہتے ہیں تبلیغ ہی دین کا کام ہے۔ بس”ہی“ اور ”بھی“ کا فرق ہے۔

اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ بے شک تبلیغ بھی دین کا ایک کام ہے، لیکن صرف یہی ایک کام نہیں ہے، اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ تبلیغ کے علاوہ دین کے باقی شعبوں اور طریقوں کی تنقیص کی جائے اور کہا جائے کہ باقی جو کر رہے ہیں کچھ بھی نہیں کر رہے۔

اگر ہم یہ بات مان لیں کہ صرف تبلیغ ہی دین کا کام ہے تو پھر بتائیے مولانا عبد الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کیا کر رہے تھے، مولانا یوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کیا کر رہے تھے، حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کیا کر رہے تھے۔ کیونکہ یہ حضرات اس رائیونڈ کے طریقہ والی تبلیغ تو نہیں کر رہے تھے، کیا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ دین کا کام نہیں کر رہے تھےاور فرائض پورے نہیں کر رہے تھے؟ مفتی حضرات کیا کر رہے ہیں، مشائخ کیا کر رہے ہیں، مجاہدین کیا کر رہے ہیں، جو سیاسی خدمت کر رہے ہیں وہ کیا کر رہے ہیں؟ وہ سب بھی اپنے اپنے شعبہ میں اپنے اپنے طریقہ سے دین کا کام ہی کر رہے ہیں۔

اس کی مزید وضاحت یوں سمجھیں کہ فرمایا گیا ہے:

”طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِم“ (ابن ماجہ: 224)

ترجمہ: ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے“۔

اب اگر کوئی اس حدیث کو پڑھ کر یہ کہے کہ دنیا کی ہر چیز کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے تو یہ بات غلط ہو گی۔ بلکہ اس حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جو چیز فرض ہے اس کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہو گا، جو چیز واجب ہے اس کا علم حاصل کرنا بھی واجب ہے۔

تبلیغ کی مثال بھی اسی طرح ہے۔ بے شک تبلیغ فرض ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تبلیغ کا ایک خاص رخ یا ایک خاص طریقہ ہی اس فرض کی ادائیگی کو پورا کر سکتا ہے۔ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب فضائل تبلیغ کی پہلی فصل کے پہلے صفحہ پر سب سے پہلے ایک آیت اور اس کی تشریح لکھی ہے، اگر کوئی صرف یہی پڑھ لے تو اس کی تشفی ہو جائے گی، اگر یہ بھی کسی نے نہ پڑھا ہو تو پھر میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ آیت کریمہ یہ ہے:

﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ (حم السجدۃ: 33)

ترجمہ: ”اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہو گی جو اللہ کی طرف دعوت دے، اور نیک عمل کرے، اور یہ کہے کہ میں فرمان برداروں میں شامل ہوں۔“

اس کا ترجمہ کرنے کے بعد فائدہ کے عنوان سے حضرت نے لکھا ہے:

مجاہدین تلوار کے ذریعہ سے، مؤذنین اذان کے ذریعہ سے اور علماء کرام دلائل کے ذریعے سے دعوت الی اللہ دیتے ہیں اور مشائخ جو اعمالِ قلب کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ بھی دعوت الی اللہ ہی ہے۔

ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں۔ اگر کوئی اس کی یہ تشریح کرتا ہے کہ صرف رائیونڈ والی تبلیغ ہی فرض ہے تو اس کو ہم نہیں مانتے، نہیں مانتے اور نہیں مانتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ رائیونڈ والا طریقہ غلط ہے، وہ بالکل صحیح ہے، رائیونڈ بہت بڑا کام کر رہا ہے، الحمد للہ ہمارے بزرگوں کا کام ہے ہم تو اس کے مخالف نہیں ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف وہی صحیح ہیں اور باقی غلط۔ اگر کوئی ایسا کہے تو اس کی مثال ایسی ہی ہو گی جیسے کوئی کہے کہ قرآن میں صرف سورہ بقرہ ٹھیک ہے، ظاہر ہے یہ بات غلط ہے، بلکہ قرآن کی ساری سورتیں حق اور سچ ہیں۔

رائیونڈ والے حضرات اپنے طریقہ پہ تبلیغ کر رہے ہیں، دوسرے حضرات اپنے اپنے طریقوں سے کر رہے ہیں۔ سب ٹھیک ہیں۔

سوال نمبر14:

شیخ کی محبت دل میں ہونی چاہیے اور ان کی باتوں پہ دل میں اعتراض نہیں آنا چاہیے۔ ایک آدمی کو شیخ سے محبت ہے اور اسے یقین ہے کہ مجھے محبت ہے، لیکن پھر بھی اس کے دل میں اپنی عقل و سمجھ کی کمی کی وجہ سے شیخ کی کسی بات پر اشکال ہو جاتا ہے تو اس کا کیا حل ہے، اس اشکال کو جھٹک دینا چاہیے یا شیخ کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ وہ مطمئن فرما دیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

علمی اشکال تو پیش کرنا چاہیے کیونکہ علمی اشکال کا علمی جواب ہوتا ہے ہاں تربیت میں اشکال نہیں ہونا چاہیے کیونکہ تربیت علاج ہے اور ڈاکٹر کے ساتھ علاج میں اختلاف نہیں کیا جا سکتا، وہاں آنکھیں بند کر کے ماننا پڑتا ہے۔

ایک بار میرا کوئٹہ جانا ہوا، وہاں میرے میزبان ایک ڈاکٹر صاحب تھے۔ وہاں میرے قیام کے دوران ہی انہیں ایک دوسرے ڈاکٹر کا میسج آیا، جو بیمار تھے اور اِن سے علاج کروانا چاہ رہے تھے۔ میرے میزبان ڈاکٹر صاحب نے ان سے بات چیت کی، پتا چلا کہ ان کو ملیریا کی بیماری ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں ایک شرط پر آپ کا علاج کروں گا، اور وہ یہ ہے کہ جو دوائی میں آپ کو دوں گا آپ نے اس کو دیکھنا بھی نہیں ہے کہ وہ کیا ہے، میں خود آپ کے منہ میں دوائی ڈالوں گا، اور آپ نے بلا چوں چرا کئے دوا کھا لینی ہے۔ اگر یہ شرط منظور ہے تو ٹھیک ورنہ میں علاج نہیں کرتا۔ وہ بیمار تھا، مرتا کیا نہ کرتا، اس نے یہ شرط مان لی۔ ڈاکٹر صاحب نے دوائی منگوائی اپنے ہاتھ سے اسے کھلائی۔ بعد میں مجھے کہا کہ اگر کوئی ڈاکٹر بیمار ہو جائے تو اس کا علاج ایسے ہوتا ہے۔

میرے ایک ساتھی نے مجھے اپنا واقعہ سنایا، یہ بھی ڈاکٹر ہیں۔ کہتے ہیں میں بیمار ہو گیا، ٹھیک نہیں ہو رہا تھا، میں نے اپنے ساتھی ڈاکٹر سے ٹیلی فون پہ بات کی کہ آپ میرا علاج کر لیں اور آپ اگر مجھے پانی سے بھی روکتے ہیں تو میں پانی بھی نہیں پیوں گا بس آپ میرا علاج کر یں۔ اس نے میرا علاج کیا اور میں ٹھیک ہو گیا۔

ان واقعات کے بتانے سے مقصد یہ ہے کہ علاج میں اختلاف نہیں ہوتا، تربیت میں اختلاف نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ جب تک آپ کسی شیخ کی تربیت میں ہیں تب تک کسی دوسرے عالم یا شیخ کے پاس تربیت کی نیت لے کے نہیں جا سکتے، ہاں صحبت صالحین کی نیت سے ضرور جا سکتے ہیں، بلکہ اگر صحبت نا جنس والا مسئلہ درپیش ہو، ان کا مسلک آپ کے شیخ کے مسلک سے مختلف ہو تو پھر صحبت صالحین کی نیت سے بھی نہیں جا سکتے، کیونکہ اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہے۔ توحیدِ مطلب والی بات متاثر ہو جاتی ہے۔ اگر صحبت ناجنس کا مسئلہ نہ ہو، اور تربیت کی نیت ہو، تو پھر بلاشبہ صحبت صالحین کی نیت سے جا سکتے ہیں۔ ہمیں خود ہمارے شیخ فرماتے تھے کہ صحبت صالحین کی نیت سے علماء کے پاس جایا کرو۔

لہٰذا علمی اشکالات کا کوئی مسئلہ نہیں ہے وہ کیے جا سکتے ہیں۔ ویسے علمی اشکالات کا جواب دینا شیخ کے ذمہ نہیں ہے، اس کے ذمہ صرف تربیت و اصلاح ہے۔

سوال نمبر15:

میرا تعلق دیر بالا سے ہے، وہاں پر تصوف کی ترتیب بالکل نہیں ہے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ اس کو وہاں پر لے جائیں۔ یہ بالکل ناپید ہے اگر یہ وہاں پر عام ہو جائے تو بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔

جواب:

نا قدری کی وجہ سے بعض چیزوں سے محرومی ہو جاتی ہیں ورنہ سوات اور دیر میں تصوف نہ ہو یہ بڑی حیرت کی بات ہے، یہاں تو بہت بڑے بڑے صوفی گزرے ہیں۔ حضرت سوات بابا جی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالغفور صاحب، ا ان کے خلفاء پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ بونیر، سنڈا کئی بابا جی، یہ سب اسی علاقہ کے ہیں۔ ان حضرات نے بڑا کام کیا ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ نا سمجھیوں اور غلط فہمیوں کی وجہ سے ان کے کئے ہوئے کام کو کم سمجھا گیا۔

شاید دیر کا ایک علاقہ ہے ریحان پور، جو دریا کے بالکل پاس ہے جہاں بیاری بابا جی کا مزار ہے، بیاری بابا کی خانقاہ ہے وہاں پر میرا ایک خلیفہ مولانا صالح کام کر رہا ہے۔ میں وہاں اس خانقاہ میں گیا ہوں۔ وہاں میں نے اصلی خلوت خانے دیکھے ہیں جو آج کل کہیں پر نہیں ہیں، یہ میں نے صرف وہیں بیاری بابا جی کی خانقاہ میں دیکھے ہیں۔ یہ خلوت خانے ایسے ہیں کہ وہاں صرف ایک آدمی کھڑا ہو کر نماز پڑھ سکتا ہے، لیٹ سکتا ہے، بیٹھ سکتا ہے، بس اس سے زیادہ کچھ نہیں، روشنی کا تھوڑا سا انتظام ہوتا ہے اور تھوڑا سا ہوا کا انتظام ہوتا ہے۔ جو سالک یہاں آتے تھے، وہ انہی خلوت خانوں میں رہتے تھے اور صرف حوائج ضروریہ کے لئے باہر جاتے تھے۔ ایسے خلوت خانے میں نے کسی اور جگہ نہیں دیکھے۔

تصوف کے لحاظ سے یہ بہت سرسبز علاقہ تھا لیکن اب نہیں رہا۔ اس لئے کام کرنا پڑے گا اس کا طریقہ یہ ہے کہ مولانا صالح صاحب سے عرض کروں کہ وہاں کوئی جوڑ کی ترتیب بنا لیں اور وہاں کے علماء و صلحاء کو جمع کریں، کچھ بیان وغیرہ کا سلسلہ ہو جائے تو پھر میرے خیال میں کچھ نہ کچھ بات بن سکتی ہے۔

ایک بات یاد آ گئی کہ ہمارا جہری ذکر ایک ذریعہ ہے، اس کو استعمال کر کے ہم اپنے دل میں جذب پیدا کر سکتے ہیں اور دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح مراقبہ بھی ایک طریقہ اور ذریعہ ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ شاید مراقبہ منصوص ہے اور ذکر بالجہر منصوص نہیں ہے۔ یہ بات نہیں ہے۔ نہ اس طرح کا مراقبہ منصوص ہے نہ ذکر بالجہر منصوص ہے۔ یہ دونوں غیر منصوص ہیں اور ایک تجرباتی ذریعہ ہیں۔ ذریعہ کے طور پر ان کا استعمال ٹھیک ہے، انہیں مقصد نہ سمجھا جائے۔ منتہی کا مراقبہ ایک سوچ اور دعا ہوتا ہے۔ وہ منصوص ہے کیونکہ دعا منصوص ہے۔ دعا ہر قسم کی ہو سکتی ہے، قلبی دعا بھی ہو سکتی ہے، زبانی دعا بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ ذرائع والا مراقبہ اور ذرائع والا ذکر منصوص نہیں ہے۔ مقصد سب چیزوں کا ایک ہے، اور وہ ہے سنت پر آ جانا۔ اللہ پاک ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ