اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی میرا ذکر 200 مرتبہ ”لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ“، 400 مرتبہ ”لَا اِلٰـہَ اِلَّا ھُو“، 600 مرتبہ ”حَق“ اور 100 مرتبہ ”اللہ“ ہے۔ اس کو ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔ اطلاع کرنے میں تاخیر ہو گئى اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مزید کیا کروں رہنمائی فرمائيں۔
جواب:
اب ذکر اس طرح کریں کہ 200 مرتبہ، 400 مرتبہ، 600 مرتبہ اور 300 مرتبہ کیا کریں۔ یعنی باقی ذکر وہی ہے صرف ”اللہ“ 300 مرتبہ کریں گے۔
اس کے علاوہ ایک بات کی اصلاح کریں وہ یہ کہ آپ نے فرمایا: میں معذرت خواہ ہوں۔ معذرت خواہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ آپ سمجھ رہے ہیں کہ آپ نے میرا کوئی نقصان کیا ہے، در اصل آپ نے میرا کوئی نقصان نہیں کیا اپنا ہی نقصان کیا ہے۔ مثلاً ڈاکٹر ایک آدمی کو کہتا ہے کہ 6 ہفتے بعد آنا، وہ 6 ہفتوں کے بجائے 10 ہفتوں بعد جائے اور ڈاکٹر سے معذرت کر لے کہ ڈاکٹر صاحب میں معذرت کرتا ہوں کہ لیٹ ہو گیا ہوں تو ڈاکٹر صاحب اس کو کیا کہیں گے؟ ڈاکٹر صاحب اسے کہیں گے کہ میں اگر آپ کو 1000 دفعہ بھی معافی دے دوں تو بھی آپ کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، جو نقصان آپ اپنا کر چکے ہیں معافی مانگنے سے اس کی تلافی نہیں ہو گی۔ اسے ڈاکٹر صاحب سے معذرت کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے آپ سے معذرت کرنے کی ضرورت ہے کہ میں نے اپنا نقصان کر لیا۔ اس لئے آپ بھی یہ بات دھیان میں رکھیں۔ آئندہ مجھ سے معذرت کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے، اس کے بجائے اپنا معمول درست کریں۔ اگر آپ باقاعدگی کے ساتھ ذكر کرتے ہیں اور اطلاع کرتے ہیں تو اس میں آپ کا اپنا فائدہ ہے۔
سوال نمبر2:
اس رمضان المبارک میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات کی تعلیم سے یہ بات واضح ہو گئی کہ سلوک اور جذبہ سے مقصود طریقِ صحابہ کا حصول ہے اور طریقِ صحابہ نام ہے آپ ﷺ کی پیروی میں اللہ پاک کی اطاعت اور بندگی کرتے رہنے کا۔ اس سے زائد جو کچھ ہے وہ مقاصد میں سے نہیں بلکہ ذرائع میں سے ہے۔
ابھی ذہن میں ایک سوال آیا جو شايد تاريخى نوعیت کا ہے کہ مقامات یعنی ولایت صغری، ولایت کبری اور کمالات نبوت جو نقشبندی سلسلے میں معروف ہیں اور جن کا ذکر مکتوبات شریفہ میں ہے اور جو حضرت خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ، شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اکابر کے ہاں بھی ہیں، سلسلہ کے اثبات کے ساتھ ان کو منسلک سمجھا گیا ہے، ان اکابر نے ان کی افادیت سمجھ کر انہیں سلسلے میں رائج رکھا۔ ان حضرات نے ان اصطلاحات کو تبدیل کیوں نہیں کیا، جبکہ نقشبندیہ سلسلے کی دوسری شاخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ میں ان کا استعمال بالکل متروک ہو گیا؟
جواب:
یہ تاریخی نوعیت کا سوال ہے، لیکن اس سے پہلے میں کچھ عرض کروں گا تاکہ بات سمجھ میں آ جائے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ تصوف علاج کی طرح ہے یہ بذات خود مقصود نہیں بلکہ ذریعہ ہے، البتہ جس بیماری کے لئے علاج ہو رہا ہوتا ہے اس بیماری کے حساب سے اس علاج میں کچھ چیزیں شامل کی جاتی ہیں اور کچھ چیزیں نکال دی جاتی ہیں۔
کسی بھی بیماری کا علاج ہمیشہ اس لئے ہوتا ہے کہ طبیعت اعتدال میں آ جائے، علاج کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ کوئی دوسری بیماری لاحق ہو جائے، لیکن بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک بیماری کا علاج کرتے ہوئے علاج اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے مزید بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر افراط و تفریط دونوں روحانی بیماریاں ہیں، آدمی کو اعتدال پہ رہنا چاہیے۔ اگر کسی کو افراط کی بیماری ہے وہ اس کی ضد میں آ کر تفریط کا شکار ہو گیا تو اس کا علاج بھی ویسے ہی کریں گے جیسا افراط کے مرض کا علاج کرتے ہیں، افراط کے مریض کو اعتدال کی طرف موڑتے ہیں، تفریط کے مریض کو بھی اعتدال کی طرف موڑیں گے تاکہ تفریط ختم ہو اور یہ اعتدال پہ آ جائے۔ مثال کے طور پر کسی کی طبیعت گرم ہے اس کو ٹھنڈی چیزیں اتنی زیادہ کھلائی جائیں کہ اس کا مزاج سردی کی طرف مائل ہو جائے اتنا سرد ہو جائے کہ اب اس کو ٹھنڈک کی بیماریاں لاحق ہونی شروع ہو جائیں۔ اب پھر اس کا علاج کرنے کے لئے اسے گرم چیزیں کھلائیں جائیں گی۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ علاج میں اعتدال نہیں رہتا اور کسی دوسری قسم کی بیماری کا سبب بن جاتا ہے۔ جو چیزیں علاج ہوتی ہیں وہ بعض دفعہ بیماری بن جاتی ہیں تو پھر اس نئی بیماری کا علاج نئے طریقے سے کرنا پڑتا ہے۔
جس وقت حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا دور تھا اس وقت حالات اور تھے، اس وقت مفاہیم کی بات تھی، اصطلاحات کی پریشانی تھی اور مقابلہ فتنوں کے ساتھ تھا۔ اس وجہ سے اصطلاحات پر بہت زیادہ زور دیا گیا، کیونکہ ان چیزوں کی اصلاح زیادہ ضروری تھی۔ اس کے علاوہ کچھ چیزوں کا استعمال شوق دلانے کے لئے بھی کیا گیا، ان میں کچھ طریقے اور چیزیں ایسی بھی تھیں جو بعد میں مسئلہ بن سکتی تھیں۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خود اقرار فرمایا ہے کہ اگر میں یہ نہیں کرتا تو پھر لوگوں کا شوق ختم ہوتا ہے اور اگر کرتا ہوں تو حق باطل کے ساتھ ملا رہتا ہے۔ اس سے پتا چل گیا کہ حضرت کو بھی اس کا احساس تھا۔
ایک بات تو اس سے یہ معلوم ہوئی کہ یہ چیزیں اور اصطلاحات خود مقصود نہیں ہوتیں بلکہ کسی خاص مقصد کے لئے بطور ذریعہ استعمال کی جاتی ہیں۔ لہذا جب تک یہ فائدہ دے رہی ہوں تب تک ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے اور جب فائدہ کی بجائے نقصان دینا شروع ہو جائیں تو پھر انہیں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔
جن تبدیلیوں کا ذکر آپ کر رہے ہیں کہ کچھ چیزیں پہلے تھیں مگر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد وہ چیزیں نظر نہیں آتیں، وہ چیزیں اسی نوعیت کی تھیں۔ نقشبندی سلسلہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچا، اس دوران سلسلہ میں کئی مجددین آئے، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی سلسلے میں ہیں، آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ، شاہ عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ، پھر آگے جا کر اسی شاخ میں شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے خلیفہ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ، پھر حضرت مولانا نصیر الدین رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بعد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ صاحب تک سلسلہ پہنچا۔ یہ تمام حضرات مجددین تھے۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے یہ سلسلہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی مجدد تھے۔
اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ اس شاخ کے اندر مجددین آئے ہیں، جس سلسلے میں مجددین آتے ہیں ان میں تبدیلیاں زیادہ آتی ہیں، کیونکہ مجدد حضرات کی نظر اصلاح پر ہوتی ہے وہ اصطلاحات کو مقصود نہیں سمجھتے، ان میں پھنستے بھی نہیں بلکہ ان کے ذریعہ مقصد حاصل کرتے ہیں۔ جب تک ان ذرائع سے مقصد حاصل ہوتا ہے تب تک اس کو رکھتے ہیں جب مقصد اس سے حاصل نہیں ہوتا پھر چھوڑ دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ چیزیں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ترک کیں، کچھ چیزیں سید احمد شہید رحمۃ اللہ عليہ نے چھوڑ دیں، جیسے تصور شیخ کا معاملہ سید صاحب نے جاری نہیں کیا۔ کچھ چیزیں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے سے ختم ہوئیں، پھر کچھ چیزیں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ترک کیں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ گذشتہ مجددین حضرات کے زمانے میں یہ ذرائع مقصد تک پہنچنے کا کام دے رہے تھے، مگر بعد والوں کے وقت میں ان سے مقصد حاصل نہیں ہو رہا تھا اس لئے انہوں نے ان ذرائع کو ترک کردیا۔
مثلاً ولایت صغریٰ اور ولایت کبریٰ کا مفہوم بہت آسان ہے، تصفیۂ قلب ولایت صغری ہے اور تزکیۂ نفس ولایت کبری ہے۔ نام چاہے کچھ بھی رکھ دو، لیکن مقصد حاصل ہونا چاہیے۔ مقصد یہ ہے کہ قلب کی اصلاح ہو جائے اور نفس کی اصلاح ہو جائے۔ یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں انہی دونوں چیزوں کے لئے ساری محنت ہے۔ اگر کسی کے نفس کی اصلاح ہو جائے اور دل کی اصلاح ہو جائے آپ اس کو ولایت کبریٰ اور ولایت صغریٰ کہیں یا کوئی اور نام دے دیں، اس کی اصلاح تو ہو گئی۔
در اصل ولایت صغری اور ولایت کبری کے نام سے کچھ مسائل پیدا ہو گئے تھے۔ آج کل لوگوں میں کمزوری ہے، خود رائی کی طرف لوگ زیادہ جاتے ہیں اپنے اوپر نظر زیادہ ہوتی ہے۔ اگر شیخ مرید کو ذرا سا بھی یہ کہہ دے کہ تمہیں فلاں چیز مل گئی تو وہ زمین سے آسمان تک پہنچ جاتا ہے۔ آج کل اس چیز کو سنبھالنا بڑا مشکل ہو گیا ہے۔ اس لئے اب ولایت صغری اور ولایت کبری کی جگہ اصلاح قلب و اصلاح نفس کا نام رکھ دیا۔ ایسی اصطلاحات جن سے لوگوں کو اپنے زعم میں کچھ بزرگی محسوس ہونے لگے ان سے بچانا ضروری ہوتا ہے۔ بظاہر ولایت صغریٰ بزرگی کا ایک مقام لگتا ہے۔ اگر کسی کو ولایت صغری کا کہہ دیا تو وہ تو کہے گا بس میں ولی اللہ ہو گیا اور اگر اسے یہ کہہ دیں کہ تمہیں ولایت کبریٰ مل گئی پھر تو سبحان اللہ اپنے آپ کو بہت بڑا ولی اللہ سمجھے گا، ایسی صورت میں ترقی بند ہو جاتی ہے اور تنزل شروع ہو جاتا ہے اسے ترقی معکوس کہتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی اس پہ بڑی نظر تھی۔ ایسی صورت میں بجائے فائدے کے نقصان ہو جاتا ہے۔
اس وجہ سے بعد والے بزرگوں نے ان اصطلاحات کو ترک کر لیا اور قرآنی اصطلاحات باقی رکھیں۔ قرآنی اصطلاحات کیا ہیں؟ ایک تصفیۂ قلب ہے۔
﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ۔ اِلَّا مَنْ اَتَى اللهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ﴾(الشعراء: 88-89)
ترجمہ: ”جس دن نہ کوئی مال کام آئے گا، نہ اولاد۔ ہاں جو شخص اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آئے گا (اس کو نجات ملے گی)۔“
قلب سلیم کو حاصل کرنا تصفیۂ قلب ہے۔
دوسری قرآنی اصطلاح تزکیۂ نفس ہے۔
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۔ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس 9، 10)
ترجمہ: ”فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔“
قرآنی اصطلاحات تو انہوں نے برقرار رکھیں لیکن وہ اصطلاحات جو بضرورت شروع ہوئی تھیں انہیں ترک کر دیا۔ اصل چیز تبدیل نہیں ہوئی اس کا نام تبدیل ہو گیا۔ بلکہ ایک اور بات بھی تبدیل ہو چکی ہے اور میرے خیال میں اس کا احساس لوگوں کو نہیں ہوا۔ وہ تبدیلی لفظ ”مقام“ میں ہوئی ہے۔ مقام کا لفظ بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو جب کوئی خط وغیرہ میں اپنے احوال لکھتا تو حضرت فرماتے ماشاء اللہ اچھا حال ہے، لیکن محمود ہے مقصود نہیں ہے اللہ تعالیٰ اس کو مقام بنا دے۔ حضرت کی دعا ہوتی تھی کہ یہ حال مقام بن جائے۔
ذرا سمجھیں کہ حال کیا چیز ہے۔ مثلاً ایک شخص بڑے مزے میں ہے، وہ تمام چیزوں پہ شکر ادا کر رہا ہے یہ اس کا حال ہے۔ اگر اس کے حالات تبدیل ہو جائیں، مالی طور پر، جسمانی طور پر مصیبتوں میں مبتلا ہو جائے تو اس کا یہ حال تبدیل ہو جائے گا وہ شکر نہیں کرے گا، لیکن اگر اس کا وہی شکر والا حال مقام بن جائے تو پھر ایسا نہیں ہو گا، پھر حالات جیسے بھی ہوں وہ ہر دم شاکر ہی رہے گا۔ حال میں جو کیفیت حاصل ہوتی ہے وہ اصل نہیں ہوتی بلکہ اصل کیفیت کی صرف ایک جھلک حاصل ہوئی ہے۔ اگر اس کو واقعی مقام حاصل ہو جائے تو بے شک سارے احوال آگے پیچھے ہو جائیں وہ تب بھی شکر کرے گا کیونکہ اسے مقام شکر حاصل ہو چکا ہے۔
اب سمجھیں مقام کیا ہوتا ہے۔ جب انسان کے اندر سے کوئی رذیلہ مکمل طور پر ختم ہو جائے تو اس کے ختم ہونے سے ایک صفت حاصل ہوتی ہے، اسے مقام کہتے ہیں۔ مثلاً حرص کا رذیلہ دفع ہو گیا تو قناعت کا مقام حاصل ہو گیا، سستی کا رذیلہ دفع ہو گیا تو ریاضت کا مقام حاصل ہو گیا، بے صبری کا رذیلہ دفع ہو گیا تو صبر کا مقام حاصل ہو گیا۔
جب کوئی صفت مقام کے درجے میں حاصل ہو جاتی ہے پھر اس میں عجب نہیں آتا بلکہ اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے کوئی آدمی بیماری سے صحت پا لے۔ مثلاً کسی کا زکام ٹھیک ہو جائے تو کیا خیال ہے وہ اپنے آپ کو بزرگ سمجھتا ہے؟ نہیں، بلکہ شکر کرتا ہے کہ یا اللہ تیرا شکر ہے میرا زکام ٹھیک ہو گیا، میرا بخار ٹھیک ہو گیا۔
اسی طرح اگر کسی کا رذیلہ دفع ہو جاتا ہے تو اس میں کوئی بزرگی کی بات نہیں ہوتی بلکہ صحت کی علامت ہوتی ہے اور اس پر شکر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا مقامات سے مراد رذائل کا دفع ہونا ہے۔ قرآن میں بھی اسی طرف اشارہ ملتا ہے۔
﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا﴾ (الشمس: 9)
ترجمہ: ”فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔“
نفس کو پاکیزہ بنانے سے مراد رذائل کو دبانا ہے یہی بنیادی چیز ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی کو رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان حضرات کے ذوق کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم! طبیعت کے سلسلے میں بھائی سے مسلسل رابطہ رہا ہے۔ الحمد للہ‘ اللہ تعالیٰ نے بہت رحم فرمایا ہے۔ تسبیحات پڑھی جا رہی ہیں۔ 10 منٹ کا مراقبہ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں، اس میں ابھی تک دل و دماغ منتقل نہیں ہو پایا، عید کے دنوں میں نہیں کر سکی۔ ان شاء اللہ آج سے دوبارہ کوشش کروں گی۔
جواب:
ماشاء اللہ آپ طبیعت کے سلسلے میں اپنے بھائی سے رابطے میں رہیں اور اللہ تعالیٰ سے رحم کی امید کرتی رہیں۔ تسبیحات جاری رہنی چاہئیں اور مراقبہ کی کوشش کرتی رہیں۔ بے شک آپ کو یکسوئی حاصل نہ بھی ہو تب بھی جتنا آپ سے ہو سکے اتنا کریں اللہ تعالیٰ مدد فرمانے والے ہیں۔
سوال نمبر4:
حضرت شاہ صاحب۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور آپ کی دعاؤں کے طفیل مندرجہ ذیل ذکر جو ایک مہینے کے لئے دیا گیا تھا مکمل کر چکا ہوں مزید رہنمائی فرما کر ممنون فرمائیں۔ ”لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ ”لَا اِلٰـہَ اِلَّا ھو“ 400 مرتبہ ”حَق“ 600 مرتبہ ”اللہ“ 1000 مرتبہ۔ مراقبہ کی صورت حال یہ ہے کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ مراقبہ کا وقت 10 منٹ ہے۔
جواب:
آپ نے مجھے اپنا پرانا ذکر تو بتا دیا لیکن اپنے مراقبے کی تفصیل نہیں بتائی کہ اس وقت آپ کا دل اللہ اللہ محسوس کر رہا ہے یا نہیں کر رہا۔ پہلے آپ مجھے اس کے بارے میں بتا دیجیے پھر اگلا ذکر بتاؤں گا۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم۔ مجھے درج ذیل ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے: 200 مرتبہ ”لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ“ 400 مرتبہ ”لَا اِلٰـہَ اِلَّا ھُو“ 600 مرتبہ ”حَق“ اور 300 مرتبہ ”اللہ“۔
جواب:
اب آپ 200، 400، 600 اور 500 دفعہ ذکر کریں۔ یعنی ”اللہ“ 500 دفعہ کیا کریں۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم حضرت جی۔ معمولات کا چارٹ حاضر ہے۔ علاجی ذکر میں جہری ذکر کی 12 تسبیحات شامل ہیں۔ رمضان میں چارٹ نہیں بنا سکا اس لئے نہیں بھیج سکا۔ آپ کی رہنمائی کا طلبگار ہوں۔
جواب:
آپ اس طرح کر لیں کہ 12 تسبیحات تو جاری رکھیں، چارٹ پر جو معمولات لکھے ہیں یہ بھی جاری رکھیں اس کے ساتھ مزید یہ کریں کہ ہر 12 تسبیح کے بعد 10 منٹ کے لئے یہ تصور کیا کریں کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ جیسے اخیر میں آپ 100 مرتبہ اللہ اللہ کرتے ہیں تو آپ یہ تصور کیا کریں کہ وہی اللہ اللہ اب میرا دل کر رہا ہے میری زبان نہیں کر رہی کیونکہ زبان تو آپ کی بند ہو گی اس لئے آپ یہ تصور کریں کہ وہی ذکر اب میرا دل کر رہا ہے اور وہ خود کر رہا ہے میں نہیں کروا رہا بلکہ خود کر رہا ہے۔ بس آپ نے اسے محسوس کرنا ہے۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جب توجہ ہو اور ذکر کے وقت کوئی اور سوچ نہ آئے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دل خود اللہ اللہ کرنا شروع ہو گیا ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! بالکل یہی تو کرنا ہے۔ باقی یہ ہے کہ میں نے پوچھا تھا کہ دل میں اللہ محسوس ہوتا ہے اور کیا لطیفۂ روح پر بھی محسوس ہوتا ہے؟ آپ نے باقی باتیں تو بتائیں لیکن لطيفۂ روح کے بارے میں نہیں بتایا کہ کیا لطيفۂ روح میں بھی اللہ اللہ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے یا نہیں؟ جواب دیتے وقت سوال کو اچھی طرح دیکھ لیا کریں کہ میں نے پوچھا کیا ہے تاکہ دوبارہ آپ کا وقت ضائع نہ ہو۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم! حضرت جی آپ سے درخواست ہے کہ میرے لیے دعا کر دیجئے کہ میرے نفس میں مجاہدہ برداشت کرنے کی طاقت پیدا ہو جائے۔
جواب:
دعا میں تو کوئی حرج نہیں دعا ضرور کریں گے ان شاء اللہ، لیکن یہ چیزیں ہمت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ نفس کی اصلاح کے ساتھ جو چیزیں متعلق ہیں وہ ہمت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ مثلاً آپ کی گاڑی کھڈے میں پھنس جائے تو آپ کیا کریں گے، وہاں بیٹھ کے سب لوگوں سے کہیں گے کہ میرے لئے دعا کریں کہ میری گاڑی نکل جائے؟ ظاہر ہے آپ دعا کے لئے نہیں کہیں گے بلکہ لوگوں سے درخواست کریں گے کہ میرے ساتھ مل کر زور لگوائیں اور دھکا لگوائیں تاکہ گاڑی کھڈے سے باہر نکل جائے۔
یہاں بھی یہی معاملہ ہے کہ نفس کی اصلاح کے ساتھ متعلقہ چیزوں کے لئے دعا کافی نہیں، دونوں چیزیں ہونی چاہئیں، پہلے ہمت کریں ساتھ ساتھ دعا بھی ضرور کریں اور کروائیں کہ میری کوشش اور ہمت کامیاب ہو جائے۔ لیکن یہ نہیں کہ آپ محض دعا کے اوپر سب کچھ موقوف کر دیں۔ دعا یقیناً ہو لیکن اس کے ساتھ ہمت کی ضرورت ہے۔ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم۔ حضرت جی رمضان المبارک میں تہجد کی نماز، تلاوت قرآن روزانہ چھ پارے تلاوت کی ترتیب رہی، لیکن رمضان المبارک کے بعد تہجد کی نماز ایک دفعہ بھی نہیں پڑھی جاسکی جبکہ تلاوت قرآن پہلے کی طرح آدھا پارہ پڑھ رہا ہوں۔ چاہتے ہوئے بھی تہجد اور تلاوت سمیت رمضان والے باقی معمولات نہیں کر پا رہا۔ اللہ پاک آپ کی برکت سے اپنی رضا والے اعمال اخلاص کے ساتھ نصیب فرمائے۔
جواب:
ایک بات یاد رکھیے۔ چیزوں میں تبدیلی ہوتی ہے۔ مثلاً جس وقت اعتکاف ختم ہوتا ہے یا رمضان شریف ختم ہوتا ہے تو معمولات بالکل تبدیل ہو جاتے ہیں۔ رمضان شریف میں لوگ زیادہ تر رات کو جاگتے ہیں اور دن کو سوتے ہیں (عموماً یہی ہوتا ہے) اور باقی دنوں میں زیادہ تر رات کو سوتے ہیں دن کو جاگتے ہیں۔ یہ طریقہ کار ہے۔ ایسی صورت میں عید کا دن اچھا خاصا ایک تبدیلی کا دن ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ یہ تبدیلی ایک ہفتہ تک بھی چلی جاتی ہے۔ ایک ہفتہ میں بھی طبیعت نئے معمول میں نہیں ڈھل پاتی، وہی پرانا معمول انسان کے اوپر سوار ہوتا ہے۔ اس وجہ سے آپ گھبرائیں نہیں بلکہ ہمت کریں، ان شاء اللہ آپ پرانے معمول پہ واپس آ سکتے ہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جتنا معمول رمضان شریف میں تھا ضروری نہیں کہ بعد میں بھی اتنا ہی معمول ہو۔ رمضان کے لئے ترتیب الگ تھی، لیکن جو معمولات رمضان شریف سے پہلے تھے وہ بحال ہو جانے چاہئیں، اس کے لئے محنت کریں۔
(بعض خواتین و حضرات جو مجھ سے بیعت ہیں۔ یقیناً ماحول کا اثر ہوتا ہے۔ آج کل پیروں کے پاس لوگ عملیات کے لئے جاتے ہیں یا ان کے ساتھ خوابوں کی باتیں کرتے ہیں یا پھر ان کے جو دنیاوی کام پھنسے ہوتے ہیں ان کے بارے میں مشورے لیتے رہتے ہیں۔ عموماً یہی چیز ہوتی ہے۔ اپنی اصلاح کی فکر بہت کم ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے اس وجہ سے ہم ان لوگوں سے بہت جلد تنگ ہو جاتے ہیں جو ہم سے اصلاح کے علاوہ کوئی اور بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم لوگ دوسروں کو اس چیز پر لانا چاہتے ہیں جس پر ہمیں اپنے بزرگوں نے ڈالا ہوا ہے۔ ہمارے نزدیک اصلاح کے علاوہ باقی چیزیں شیخ اور مرید کے تعلق کے اندر نہیں آتیں وہ بالکل علیحدہ شعبہ سے متعلق ہیں جیسے انجینئرنگ اور ڈاکٹری بالکل علیحدہ علیحدہ شعبے ہیں۔ یہ ضرور ممکن ہے کہ کوئی آدمی انجینئر بھی ہو اور ڈاکٹر بھی ہو لیکن ایسا بہت کم ہو گا، زیادہ تر ایسا ہی ہے کہ ایک آدمی ایک ہی شعبہ کا متخصص ہوتا ہے، اسی طرح ایسے شیوخ ہو سکتے ہیں جو عملیات وغیرہ میں بھی ماہر ہوں اور اصلاح میں ید طولیٰ رکھتے ہوں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے، لہٰذا زیادہ بہتر یہ ہے کہ پیروں کے پاس صرف اصلاح کے لئے جائیں، اور عملیات کے لئے عاملوں کے پاس جائیں وہ بھی اچھے عاملوں کے پاس، کیونکہ آج کل برے عامل بہت زیادہ ہیں۔ بہرحال عملیات کے لئے عاملوں کے پاس جائیں، تعلیم کے لئے علماء کے پاس، استفتاء کے لئے مفتیان کرام کے پاس جائیں، کوئی نفسیاتی مسائل ہوں تو ماہرین نفسیات کے پاس جائیں۔ ہر چیز کا ماہر الگ ہوتا ہے۔ اس طرح تقسیم کار ہو جاتی ہے اور کام بھی بہتر ہو جاتا ہے اور پریشانی بھی نہیں ہوتی۔
چونکہ ہمارے ہاں یہ چیزیں بہت پھیلی ہوئی ہیں، لہذا ہم پہلے بھی گزارا کرتے تھے اب بھی گزارا کرتے ہیں اگر کوئی آدمی وظیفہ وغیرہ مانگے تو کچھ نہ کچھ ان کی خواہش کے مطابق وظیفہ بھی بتا دیتے ہیں، کچھ خوابوں کی تعبیر بھی بتا دیتے ہیں، لیکن مزاج ایسا نہیں ہے۔ مزاج ایسا ہے کہ ہم کہتے ہیں
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم
من ہمہ ز آفتاب و ز آفتاب گویم
میں تو نہ رات ہوں نہ رات کا پرستار ہوں کہ میں رات کی باتیں کروں میں تو سورج کے ساتھ ہوں سورج کے ساتھ چلتا ہوں دن کی باتیں کرتا ہوں یعنی اعمال کی باتیں کرتا ہوں۔ یہی ہمارے بزرگوں کا طریقہ تھا۔ ہم خوابوں پہ نہیں جاتے۔ خواب میں اگر کوئی جنت میں ہو تو کیا وہ واقعی جنت میں چلا گیا؟ یا کوئی دوزخ میں چلا جائے خواب میں تو کیا وہ واقعی دوزخ میں چلا گیا؟ کیا خوابوں کا کوئی تعلق اعمال کے ساتھ ہو سکتا ہے؟ اعمال کا تعلق تو نتیجہ کے ساتھ ہو سکتا ہے، اچھے اعمال ہوں تو آپ کو شاید اچھا نتیجہ مل جائے اور برے اعمال ہوں تو برا نتیجہ، لیکن اچھا خواب دیکھنے سے نتیجہ کے اعتبار سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اچھا نتیجہ اچھے اعمال سے ہی ملے گا۔ اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ خوابوں کے پیچھے نہ جاؤ، عملیات کی باتیں بھی ہمارے پاس نہ لاؤ اور نفسیاتی مسائل بھی ہمارے پاس نہ لاؤ۔ ہمارے پاس ایک ہی چیز کے لئے آؤ اور وہ یہ ہے کہ اپنی اصلاح کر لو۔ یہ چیز آج کل تقریباً عنقاء ہو چکی ہے۔ لوگ اصلاح کی تلاش میں نہیں ہوتے اور اصلاح کرنے والے لوگ بھی آج کل کم ہی ملتے ہیں۔ جتنی بھی خانقاہیں ہیں، اکثر میں جاؤ تو آپ کو عملیات کی چیزیں مل جائیں گی آپ لوگ بھی خوش اور وہ بھی خوش۔ نہیں بھئی یہ معاملہ ایسا نہیں ہے، چاہے دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے حق حق ہوتا ہے، باطل باطل ہوتا ہے، سچ سچ ہوتا ہے، جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے، ہم کیوں اپنے آپ کو خراب کریں۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ اصلاح کی راہ کو ہم خراب نہ کریں، اصلاح ہی کی لائن کو اختیار کریں اس میں ہی فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے (آمین)
سوال نمبر10:
السلام علیکم! مراقبہ کرتے ہوئے ایک ماہ اور پانچ دن ہو چکے ہیں۔ مراقبہ کی تفصیل درج ذیل ہے: لطیفۂ قلب پر 15 منٹ، لطیفۂ روح پر 15 منٹ۔ دونوں لطائف پر ذکر تھوڑی تھوڑی دیر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ ذکر بھی جاری ہے لیکن عید کے دوران پانچ دن کا ناغہ ہو گیا ہے، کیا میں اسی ذکر کو جاری رکھوں؟
جواب:
محترمہ آپ اس طرح کر لیں کہ اپنا سابقہ ذکر اور مراقبہ ہی جاری رکھیں۔ تقریباً 2 ہفتے بعد پھر مجھے اطلاع کر دیں کہ اس کی کیا صورت ہے، اگر یہ بڑھ گیا ہو اور بہتر ہو گیا ہو تو پھر آگے چلیں گے ورنہ پھر فی الحال یہی معمول ایک مہینہ اور چلے گا۔
آپ نے کہا کہ 5 دن عید میں اس معمول کا ناغہ ہو گیا ہے۔ آپ یقین مانیں اس ناغہ نے آپ کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ آئندہ کسی وجہ سے بھی ناغہ مت کریں۔ کیا بیمار آدمی عید کے دن دوائی کا ناغہ کرتا ہے؟ کوئی نہیں کرتا۔ یہ معمولات بھی آپ کے لئے روحانی علاج ہیں، دوا ہیں، کسی بھی صورت ان کا ناغہ مت کیا کریں۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی اللہ پاک سے دعا ہے آپ سلامت رہیں اور اللہ پاک ہمیں آپ کے فیض سے مستفید فرمائے۔ پچھلے ایک ہفتے سے خانقاہ آنے کا ارادہ ہے لیکن نزلہ اور گلا خراب ہونے کی وجہ سے احتیاط کر رہا ہوں۔ لیکن دفتر اس حالت میں بھی جا رہا ہوں۔ کیا یہ دہرا معیار نہیں ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔ آپ کی دعاؤں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
جواب:
آپ کی محبت کا شکریہ کہ آپ نے اپنے آپ پر خانقاہ کو ترجیح دى ہے۔ اچھی بات ہے آپ نے سوچا کہ میری وجہ سے خانقاہ میں کوئی مسئلہ نہ ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر اجر عطا فرما دے۔ جب آپ ٹھیک ہو جائیں تو پھر تشریف لے آئیں۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم۔ حضرت جی آج کل میرے ساتھ ایک مسئلہ شروع ہو گیا ہے وہ یہ کہ جب میں آپ کا کوئی بیان سنتا ہوں یا اسے تحریری شکل میں پڑھتا ہوں تو اللہ پاک کا نام میری زبان سے زور سے نکل جاتا ہے۔ الحمد للہ آپ کی برکت سے یہ بات اچھی طرح ذہن میں ہے کہ یہ کوئی مطلوب چیز نہیں ہے صرف ذکر کا ایک منفی اثر ہو سکتا ہے لیکن ڈرتا ہوں کہ کسی کے سامنے ایسا ہو گیا تو مفت میں مجھے بزرگ سمجھے گا۔
جواب:
اصل بات یہ ہے کہ لوگ آپ کو بزرگ سمجھ بھی لیں لیکن اگر آپ حقیقت میں بزرگ نہ ہوں تو آپ کو اس سے کیا فائدہ ہو گا اور اگر لوگ آپ کو زندیق سمجھیں اور آپ زندیق نہ ہوں تو آپ کو کیا نقصان ہو گا۔ لہذا لوگوں کے بارے میں تو سوچیں ہی نہیں۔ میں نے ایک دفعہ اپنے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ اس قسم کی بات کی تو حضرت نے مجھ سے فرمایا: کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ چٹائیاں مجھے دیکھ رہی ہیں؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: بس لوگوں کو چٹائیاں سمجھو۔
لوگ کیا کریں گے، لوگ آپ کو کیا دیں گے، لوگ آپ سے کیا لیں گے، اس سب سے کچھ نہیں ہوتا۔ لہٰذا خود بخود اگر نعرہ زبان سے نکلتا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارے شیخ سے بھی کئی بار ایسا ہوتا تھا، کبھی کبھی میری زبان سے بھی نکلتا تھا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ہمارے شیخ نے بتایا کہ ایک مرتبہ ان کی زبان سے ان کے شیخ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے نعرہ نکلا۔ انہوں نے فرمایا: آپ کے اس ڈکارنے سے اللہ میاں کا کیا ہوتا ہے۔
یعنی یہ غیر اختیاری چیز ہے، غیر اختیار چیزوں پہ اجر نہیں ہے اجر تو اختیاری چیزوں پر ہے۔
سوال نمبر13:
حضرت! سیر الی اللہ کے سفر میں رمضان میں کچھ احوال گزرے اور کچھ ثمراتِ علم ملے۔ یہ سفر جاری ہے۔ مقامات سلوک صبر، شکر، رضا، خوف، زہد، توکل، تفویض، محبت شوق کے اصول کی طرف کچھ سعی کا شوق ہے۔ کیا ان مقامات کے پیچ و تاب پر کوئی کتاب ہے یا کوئی کورس ہے؟
جواب:
کتابیں ایک نہیں بلکہ بہت زیادہ ہیں، لیکن یہ چیز کتابوں سے حاصل کرنے کی نہیں بلکہ عملی طور پر حاصل کرنے کی ہے۔ مثلاً آپ صبر کے اوپر 50 کتابیں پڑھ لیں اور آپ میں صبر نہ آئے تو کیا فائدہ۔ مقامات تو عملی طور پر حاصل ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کو عملی طور پر حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ لہٰذا اس پر کتابیں پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے اتنا جاننا کافی ہے کہ یہ مقامات اصل میں رذائل کی دوری کا نام ہے، رذائل کو دبانے کا نام ہے، اس لئے ان کے حصول کے لئے رذائل کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہو گی، اس میں ہمت اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔
سوال نمبر14:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! سوال یہ ہے کہ کشف و الہام اور علم لدنی وغیرہ کا قرآن، صحیح احادیث اور صحابہ کرام کی زندگی میں کوئی ذکر ملتا ہے؟
جواب:
جو سوال آپ نے کیا ہے اور اس سوال سے جو اندازہ ہوتا ہے اور جس قسم کے لوگ اس سوال کو اٹھاتے ہیں، میں یہ نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں اور ان کی کیا نیت ہے۔ لیکن تجربہ سے کچھ باتیں عرض کرتا ہوں کہ اگر وہ لوگ انکار حدیث کے مرتکب ہیں تو پھر وہ میرے جواب پہ مطمئن نہیں ہوں گے، اگر وہ ہر چیز کا جواب قرآن سے چاہتے ہیں تو ظاہر ہے قرآن ہی میں ہے:
﴿اَطِیۡعُوا اللہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ﴾ (النساء: 59)
ترجمہ: ”اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو“۔
﴿مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ﴾ (النساء: 80)
ترجمہ: ”جو رسول کی اطاعت کرے، اس نے اللہ کی اطاعت کی،“۔
ان آیات کے مطابق رسول کی اطاعت کس طرح کریں گے؟ ظاہر ہے اس کے لئے احادیث شریف ہیں ان پر عمل کر کے ہی رسول کی اطاعت ہو سکے گی۔ اگر کوئی احادیث کو نہیں مانتا تو پھر وہ اطاعت رسول کیسے کرے گا۔ لہٰذا منکرین حدیث سے تو ہم معذرت کریں گے کیونکہ ہم تو احادیث شریفہ کو مانتے ہیں وہ اگر نہیں مانتے یا اس میں ان کے تحفظات ہیں تو اس سلسلے میں ہم ان کی خدمت سے معذور ہیں، لیکن اگر وہ احادیث شریف کو ایسے ہی مانتے ہیں یعنی صحیح حدیث کو صحیح مانتے ہیں حسن کو حسن مانتے ہیں حسن لغيره کو حسن لغیره مانتے ہیں۔ ان درجات کے مطابق اگر وه حديث شریفہ مانتے ہیں اور قرآن بھی مانتے ہیں تو پھر ان سوالوں کے جواب عرض کر سکتا ہوں۔
علم لدنی تو قرآن سے ثابت ہے۔ سورہ کہف کے اندر موسی و خضر علیہ السلام کے واقعہ میں اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا﴾ (الکہف: 65)
ترجمہ: ”اور خاص اپنی طرف سے ایک علم سکھایا تھا۔“
علم لدنی کی اصطلاح ہی قرآن سے ثابت ہے۔ اسی اصحاب کہف کے واقعہ سے یہ علم لدنی کى اصطلاح نکلی ہے۔ اس واقعہ اور اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک پیغمبر وقت ہیں، ان کے علاوہ ایک دوسرے صاحب ہیں جن کو اللہ پاک نے اپنا خاص علم عطا فرمایا ہے اور اسی کا نظارہ دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ پیغمبر کو ان کے پاس بھیجتے ہیں اور انہیں عجیب عجیب واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثلاً وہ مچھلی جس کے بارے میں نشانی بتائی گئی کہ جس جگہ وہ مچھلی زندہ ہو گی وہیں خضر ملیں گے۔ یوشع علیہ السلام نے مچھلی کو زندہ ہوتے دیکھا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتانا بھول گئے۔ جب یاد آیا تب بتایا اور پھر اسی جگہ سے دوبارہ سفر شروع کیا، حضرت خضر علیہ السلام ملے اور پھر جو واقعات پیش آئے وہ سب قرآن پاک میں موجود ہیں۔ علم لدنی کا ثبوت تو یہاں سے ہو گیا۔
جہاں تک کشف کی بات ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک واقعہ ہے کہ وہ منبر پر بیٹھے خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں اور خطبے کے دوران اچانک آواز لگاتے ہیں ”يَا سَارِيَةُ! الْجَبَلَ، يَا سَارِيَةُ! الْجَبَلَ، يَا سَارِيَةُ! الْجَبَلَ“ صحابہ حیران ہو گئے کہ کیا کہہ رہے ہیں یہ تو خطبے کا حصہ نہیں ہے۔ بعد میں ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا، انہوں نے فرمایا کہ مجھ پر یہ بات کھول دی گئی میں نے دیکھا کہ ساریہ پہاڑ کی طرف سے دشمن کے نرغے میں آ رہا ہے۔ پہاڑ کی طرف سے ان پہ حملہ ہو رہا ہے اس وجہ سے میں نے کہا ”يَا سَارِيَةُ! الْجَبَلَ“ اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو۔ دوسری طرف ساریہ رضی اللہ عنہ نے یہ آواز سنی، اس پر عمل کیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ جب وہ جہاد سے واپس آئے تو لوگوں نے ان سے پوچھا انہوں نے اس بات کی تصدیق کی اور بتایا کہ واقعی مجھے آواز آئی تھی۔
اس واقعے میں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پیش آیا اسے کشف ہی کہتے ہیں۔
اسی طرح ایک چیز الہام بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ ان کو الہام ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے انہیں مُحْدَثْ کہا گیا۔ اور فرمایا: ”عمر کی زبان پر حق بولتا ہے“۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور حضرات کے ساتھ بھی اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں۔ بعض کو فرشتے نظر آئے۔ یہ کشف ہے کیونکہ فرشتے عام طور پر نظر نہیں آتے۔ بعض کو شیطان نظر آیا، یہ بھی کشف ہے کیونکہ شیطان ویسے تو نظر نہیں آتا۔ بعض کو جنات نظر آئے یہ بھی کشف ہے، کیونکہ جنات ویسے نظر نہیں آتے۔ یہ میں صحابہ کرام کے واقعات کی بات کر رہا ہوں۔
اس سب سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے دور میں بھی کشف و الہام ہوتا تھا اور علم لدنی کے بارے میں عرض کیا کہ وہ تو قرآن سے بھی ثابت ہے اور صحابہ کرام کے واقعات سے بھی ثابت ہے۔
لہٰذا ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ یہ چیزیں قرونِ اولیٰ سے ثابت نہیں ہیں لیکن جو نہ مانے اس کو ہم زبردستی نہیں منوا سکتے۔
ہمارے اکابر نے کشف و الہام سے ثابت شدہ چیزوں کو ظنی کہا ہے۔ قطعی چیز صرف وہ ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہو۔ ہم کشف اور خواب وغیرہ سے ثابت شدہ چیزوں کو ظنی سمجھتے ہیں۔ اگر کسی کو کوئی اشارہ مل جائے مثلاً ایک شخص لاہور جانا چاہتا ہے راستے میں گم ہو گیا اور اس کو پتا نہیں چل رہا، اسی اثنا میں اسے کشف ہوا اور صحیح راستہ معلوم ہو گیا اور بعد میں وہ راستہ واقعی صحیح ثابت بھی ہو گیا، تو دیکھیں اس آدمی کو کشف سے فائدہ تو ہو گیا۔ ویسے کشف ظنى ہے لیکن اگر وہ دوسرے علم کے ساتھ اور مشاہدہ کے ذریعے یقینی ثابت ہو جائے تو اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مثلاً میں قرآن پاک سے ایک مسئلہ جاننا چاہتا ہوں، بڑا مشکل مسئلہ ہے، وہ مسئلہ قرآن پاک میں موجود تو ہے مگر مجھے نہیں معلوم کہ کہاں ہے۔ پھر وہ مسئلہ مجھے کشف سے معلوم ہو جاتا ہے۔ اب دیکھیں مسئلہ تو قرآن سے ثابت ہے البتہ مجھے کشف سے معلوم ہو گیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ایسا بالکل ممکن ہے۔ بہت سارے واقعات کا پتا کشف سے چل سکتا ہے خوابوں سے بھی پتا چل سکتا ہے لیکن بذات خود کشف اور خواب ظنى ہیں قطعی چیز نہیں ہیں۔ اس وجہ سے اگر یہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں آ جائيں تو اس وقت ہم ان کو نہیں مانیں گے قرآن و حدیث کی ہی مانیں گے کیونکہ وہ قطعی ہیں اور یہ ظنی ہیں۔ بہرحال ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا یہ چیزیں واقعی وجود رکھتی ہیں اور اس سے فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔
سوال نمبر15:
حضرت! کیا نفل نمازوں میں ایک نماز میں دوسرے نوافل کی نیت کر سکتے ہیں؟ صلوۃ توبہ پڑھنا ہو تو اس میں صلوۃ شکر اور صلوۃ حاجت کی نیت کی جا سکتی ہے؟
جواب:
جی ہاں بالکل ایسا کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر16:
(ایک خاتون جو مدرسہ کی طالبہ ہیں انہوں نے یہ سوال کیا)
قوالی سننا کیسا ہے؟ میرے ابو ایک قوالی کی تشریح کر رہے تھے جس سے مجھے بھی سننے کی شوق پیدا ہو گیا اور میں نے ایک قوالی سن بھی لی پھر سوچا کہ آپ سے پوچھوں آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ یہ جائز ہے یا ناجائز ہے۔ وہ کوئی نصرت فتح علی خان کی قوالی تھی۔ اس میں میوزک بھی تھا۔
(میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے یہ مدرسے میں پڑھا ہے کہ آلاتِ موسیقی وغیرہ کے ساتھ قوالی سننا جائز ہے؟ انہوں نے کہا: ایسا تو نہیں پڑھا۔ ٹھیک ہے اب نہیں سنوں گی)
جواب:
غور فرمائیں نفس کتنا چالاک و عیار ہے۔ ایک طالبہ ہے جن کو یہ ساری چیزیں پڑھائی گئی ہیں لیکن بس اب نفس کو پتا چلا گیا کہ اسے شوق ہے، اس نے اسی شوق کو بہکانے کے لئے استعمال کر لیا، طالبہ کو پتا بھی ہے کہ یہ ناجائز ہے لیکن پھر بھی پوچھ رہی ہے کہ شاید کہیں سے جواز مل جائے۔ نفس اسی کو کہتے ہیں، نفس بہت ہی مسئلہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں نفس کے شر سے بچائے۔
سوال نمبر17:
السلام علیکم۔ آج کل عورتوں کے لئے کون کون سی دینی کتابیں موزوں ہیں جن کا پہلے دینی کتابیں پڑھنے کا تجربہ بھی نہ ہو یا پہلے دینی کتابیں نہ پڑھی ہوں؟
جواب:
سب سے پہلے تو بہشتی زیور اور تعلیم الاسلام پڑھائیں۔ بہشتی زیور تو خاص طور پر خواتین کے لئے لکھی گئی ہے جبکہ تعلیم الاسلام عورتوں اور مردوں میں مشترک ہے، یہ دونوں کے لئے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ مولانا عاشق الٰہی صاحب نے تحفہ خواتین لکھی ہے، کچھ اور حضرات نے بھی کتابیں لکھی ہیں وہ پڑھائی جائیں۔ اگر آپ کسی بھی اسلامی کتب فروش کے پاس چلے جائیں اور ان سے اسلامی کتب کی فہرست لے کر مجھے بھیجیں میں آپ کو دیکھ کر بتا دوں گا کہ کون سی کتابیں اس کے لئے بہتر ہو سکتی ہیں۔
سوال نمبر18:
”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم“ لکھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ کیا ہم تحریر کے شروع میں کاغذ پر لکھ سکتے ہیں؟ کیونکہ کاغذ وغیرہ بعد میں پھٹ جاتے ہیں اور زمین پر بھی رکھے جاتے ہیں، اس میں بے ادبی کا خطرہ ہے۔
جواب:
آپ کی بات بالکل درست ہے کہ ایسے کاغذ پھٹتے بھی ہیں اور زمین پر گرتے ہیں لیکن اس وجہ سے ہمیں ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم“ لکھنا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ بہت سارے ظالم ایسے ہیں جو قرآن کا بھی احترام نہیں کرتے کیا اس وجہ سے ہم قرآن لکھنا چھوڑ دیں گے! اسی طرح اور بہت ساری دینی کتابوں کی تذلیل و توہین کرتے ہیں اس کی وجہ سے اسلامی کتب روکی تو نہیں جا سکتیں ہاں ان لوگوں کو حتی الوسع سمجھایا جا سکتا ہے کہ ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم“ کی توہین نہ کریں کلمہ کی توہین نہ کریں۔ اگر کوئی ادب کرے گا تو ان کو بہت کچھ ملے گا جیسے بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کو ملا تھا۔ یہ چیزیں ان کو سمجھانی چاہئیں۔ بہرحال ”بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم“ اپنے خطوط اور تحریروں میں لکھ سکتے ہیں، Power point presentation میں بھی لکھ سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال نمبر19:
حضرت جب ہم سڑک پر گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں تو کبھی کسی کی غلطی پر ہمیں بہت زیادہ غصہ آتا ہے، اس کو لائٹیں یا سائیڈ مارتے ہیں جن سے کبھی کبھار حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے میں دوسروں کی غلطیوں کو نظرانداز کرنا چاہیے یا صرف ہارن دینا چاہیے، کیا کرنا چاہیے اس بارے میں رہنمائی فرما دیں؟
جواب:
دیکھیں غصہ ایک طاقت ہے اور طاقت کے ساتھ کنٹرول بہت ضروری ہوتا ہے۔ انجن جتنا طاقتور ہو اس کا کنٹرول اتنا زیادہ مضبوط ہونا چاہیے۔ کیا خیال ہے 70 سی سی کا موٹر سائیکل کسی کے پاس ہو اس کے لئے زیادہ ہوشیار ہونا ضروری ہے یا 600 سی سی کا موٹر سائیکل ہو اس کے لئے زیادہ ہوشیار ہونا ضروری ہے۔ زیادہ پاور والے موٹر سائیکل پر تو ہر کوئی بیٹھے گا بھی نہیں اور جو بیٹھے گا وہ سمجھے گا کہ میں بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہوں۔ کسی وقت اگر خدانخواستہ کوئی پتھر بھی نیچے آ جائے تو آدمی کی جان تک جا سکتی ہے معاملہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ غصہ کو قابو کرنا ضروری ہے اور اس وقت تو قابو کرنا بہت ضروری ہے جب اس کا کوئی فائدہ ہی نہ ہو۔ مثلاً ایک نا سمجھ بچہ پہ غصہ کر کے اس کو ماریں، اس کو کوئی نقصان ہو جائے، اس کا کان بند ہو جائے اس کی شنوائی ختم ہو جائے تو پھر آپ ہی افسوس کریں گے۔ اس وجہ سے غصے کو قابو کرنا چاہیے بے موقع غصہ نہیں کرنا چاہیے جہاں غصے کا فائدہ ہو وہاں بھی معتدل انداز میں کرنا چاہیے۔ ایسی جگہوں پہ جہاں عام لوگ ہوں وہاں تو انسان بالکل بچ بچا کے گزر آئے تو یہ بڑی بات ہے۔
کہتے ہیں ایک دفعہ کسی سے پوچھا گیا کہ آپ نے اتنا عرصہ ڈرائیونگ کی ہے آپ کا کبھی حادثہ نہیں ہوا اس کا کیا راز ہے۔ اس نے جواب دیا جب میں سڑک پر گاڑی لے کر آتا ہوں تو اپنے آپ کو یہ کہتا ہوں کہ باقی سارے پاگل ہیں اور میں ٹھیک ہوں مجھے اپنے آپ کو بچانا ہے۔
جب میں جرمنی میں تھا، وہاں پر مجھے کسی نے یہ قصہ سنایا کہ جرمنی میں بہت سارے ہائی ویز اور موٹر ویز ہیں، ہر ایک کا اپنا ریڈیو اسٹیشن ہے جس کے ذریعے ان شاہراہوں پر گاڑی چلانے والے لوگوں کو اطلاع وغیرہ دی جاتی ہے کہ فلاں جگہ رکاوٹ ہے یا راستہ کھلا ہے۔ ایک دفعہ ایک موٹروے پر کوئی جا رہا تھا تو اس کے ریڈیو پر مسلسل یہ اعلان دہرایا جا رہا تھا کہ ایک بے وقوف مخالف سمت میں گاڑی چلا رہا ہے اس سے اپنے آپ کو بچائیں۔ وہ شخص جو مخالف سمت میں گاڑی چلا رہا تھا اپنے ساتھ والے کو کہتا ہے کہ ریڈیو کے اعلان کے مطابق سڑک پر کوئی ایک گاڑی ہی مخالف سمت میں آ رہی ہے لیکن یہاں تو بہت سارے لوگ غلط راستے پہ چل رہے ہیں۔
اصل میں یہ بے وقوف خود ہی غلط سمت میں جا رہا تھا مگر وہ سمجھا کہ مجھے کہا جا رہا ہے کہ کوئی اور غلط سمت میں آ رہا ہے تم اپنے آپ کو بچاؤ۔
بہرحال بات یہ ہے کہ اپنے آپ کو بچانا بہت ضروری ہے۔ آج کل کے دور میں اپنے آپ کو بچانا اپنے ایمان کو بچانا، اپنی عزت کو بچانا، اپنی جان کو بچانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اپنے آپ کو بچانا چاہیے خواہ مخواہ آ بیل مجھے مار والی صورتحال میں اپنے آپ کو نہیں ڈالنا چاہیے۔
سوال نمبر20:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت طالبات کا تربیت کا وظیفہ پورا ہو گیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے: لطيفۂ قلب 10 منٹ اور لطيفۂ روح 15 منٹ۔ الحمد للہ سب لطائف پر پورا وقت محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ ان کو اگلے لطيفہ کا بتا دیں۔ 10 منٹ لطيفۂ قلب، 10 منٹ لطيفۂ روح اور اب 15 منٹ لطیفۂ سر بتا دیں
دوسری طالبہ کا سبق لطيفۂ قلب 10 منٹ ہے۔ پورا وقت ذکر محسوس ہوتا ہے۔
اس کو لطيفۂ قلب 10 منٹ کا اور لطيفۂ روح 15 منٹ کا بتا دیں۔
تیسری کا سبق 5 منٹ لطيفۂ قلب پر رحمت کے نزول کا خیال ہے۔ یہ بچی نابالغ ہے۔
آپ نے اس پانچ منٹ والے مراقبہ کی کیفیت نہیں بتائی۔ ان کی کیفیت بتا دیں تو پھر جواب دیا جا سکتا ہے۔
سوال نمبر21:
حضرت اگر معمولات میں لطیفہ پر ذکر کا ناغہ ہو گیا ہے تو کیا حکم ہے؟
جواب:
ناغہ کی صورت میں اثر ختم ہو جاتا ہے یا کم ہو جاتا ہے۔ اس لئے ناغہ سے ہر صورت بچنا چاہیے۔
سوال نمبر22:
السلام علیکم۔ حضرت کسی کو بھی اجازت نہیں ہے کہ مجھے کوئی ویڈیو یا تصویر بھیجے، سب کو سختی سے منع کیا ہوا ہے لیکن اگر میں خود اپنے کام سے متعلق کوئی معلومات لینے کے لئے کسی مرد کی ویڈیو دیکھتا ہوں تو کیا یہ منافقت ہے کہ میں دوسروں کو تو منع کروں مگر میں خود دیکھ لوں؟
جواب:
یہ بہت مشکل بات آپ نے پوچھی ہے کیونکہ اس میں اپنے آپ کو بچانا بھی ضروری ہے اور علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس میں آسان بات یہ ہے کہ اس ویڈیو کو آڈیو میں تبدیل کر کے سن لیا کریں۔
سوال نمبر23:
السلام علیکم۔ پچھلے اتوار کو آپ نے عقائد کے بارے میں بیان فرمایا تھا۔ ہمارا ایمان ہے کہ انسانی آنکھ اللہ تعالیٰ کا دیدار نہیں کر سکتی۔ اگر خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو تو اس کے بارے میں کیا حكم ہے؟
جواب:
اللہ جل شانہ کا دیدار نہ خواب میں ہو سکتا ہے نہ کشف میں ہو سکتا ہے، دنیا میں کسی صورت ہو ہی نہیں سکتا۔ البتہ اگر بندہ غلطی سے کسی خواب میں یا کشف میں اللہ سمجھ لے تو یہ اس کی غلطی ہے، لیکن یہ غلطی معاف ہے کیونکہ وہ اللہ نہیں ہو گا وہ صرف ایک تجلی ہو گی، جسے تجلی صوری کہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ سمجھ رہا ہو گا کہ میں اللہ تعالیٰ سے بات کر رہا ہوں یا اللہ تعالیٰ مجھ سے بات کر رہے ہیں اور وہ بات بھی اللہ ہی کی ہو گی یہ نہیں کہ بات اللہ کی نہیں ہو گی لیکن وہ جو صورت اس کو نظر آ رہی ہے وہ اللہ نہیں ہو گا، کیونکہ اللہ پاک مختلف تجلیات کے ذریعے اور مختلف طریقوں سے ظہور فرماتے ہیں۔ یہ تجلی ہوتی ہے تجلی کو اللہ نہیں کہتے، تجلی تو مرتبۂ تنزل میں ہے، لہذا وہ چاہے خواب میں ہو چاہے کشف میں ہو وہ ایک شبہ اور مثال ہو سکتی ہے، لیکن وہ اللہ ہرگز نہیں ہوں گے۔
سوال نمبر24:
انسان اپنے گھر اور اپنے ملک میں بہت مضبوط ہوتا ہے اور دین کے بحث مباحثے اور مقابلے میں کافی حوصلہ رکھتا ہے مگر جب وہی انسان مسافر بن جائے اور مسافر بھی ایسی جگہ پہ ہو جہاں غیر مقلدین کا بہت اثر ہو اور ہم جیسوں کو بدعتی کہا جائے تو ان کی بات کی نفی میں ہم کس حد تک جا سکتے ہیں، اگر معلومات ہوں تو بات چیت کے ذریعے ان سے بحث مباحثے کیا جا سکتا ہے لیکن اگر وہ کسی صورت بات نہ مانیں تو پھر کیا کرنا چاہیے، ان سے الگ ہو جائیں یا بار بار ان سے بحث کریں؟
جواب:
بلا وجہ اور خواہ مخواہ اپنے آپ کو بحث مباحثے میں نہ ڈالیں کیونکہ بحث و مباحثہ افہام و تفہیم کے لئے ہوتا ہے، اگر افہام و تفہیم کی کوئی گنجائش نہ ہو تو پھر آدمی کنارہ کشی اختیار کر لے۔ قرآن پاک میں ہے:
﴿وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا﴾ (الفرقان: 63)
ترجمہ: ”اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں۔“
جب جاہلوں کے ساتھ بات ہو تو اس وقت سلام کرنا ہی بہتر ہے۔ جہاں پر لوگ ان چیزوں کا مذاق اڑاتے ہوں وہاں بحث مباحثہ نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے لئے اپنے مسلک کو چھوڑنا بھی نہیں چاہیے اور خواہ مخواہ ان کے ساتھ بحث و مباحثے میں پڑنا بھی نہیں چاہیے۔ کیونکہ ایسے برے لوگ اپنی تبلیغ سے نہیں ہٹتے اور ہمارے لوگوں کو خراب کر رہے ہوتے ہیں اور ہماری کم علمی کی وجہ سے وہ ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔
آپ یہ تو کر سکتی ہیں کہ جن کو انہوں نے سمجھایا ہے آپ ان کو سمجھا دیں تاکہ ان کو صحیح بات کا پتا چل جائے۔ ان کے ساتھ بحث نہ کریں، لیکن جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہو، آپ ان کے اوپر محنت کر سکتے ہیں۔ آپ کے ایسا کرنے سے ان کو دو رائے معلوم ہو جائیں گی ایک ان کی، ایک آپ کی، اس سے ان کو فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن ان لوگوں سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلا وجہ خواہ مخواہ ضیاعِ اوقات ہے۔ پھر مسجد نبوی اور مکہ مکرمہ میں تو انسان کو بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے اور اپنا وقت بھی بچانا چاہیے۔
سوال نمبر25:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ! حضرت جی آپ نے مندرجہ ذیل ذکر تعلیم فرمایا تھا: ”لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”اِلَّا اللہ“ 400 مرتبہ، ”اللہُ اللہ“ 400 مرتبہ، ”اللہ“ 100 مرتبہ۔ یہ ذکر میں 2017 سے کر رہا ہوں۔ پہلے اس میں باقاعدگی نہیں تھی تاہم پچھلے 2 ماہ سے کافی باقاعدگی سے کر رہا ہوں۔ ”پیامِ سَحر“ وٹس ایپ گروپ پر آپ کے بیانات اور ”فہم التصوف“ کتاب کے مطالعہ سے میری اس غلط فہمی کی اصلاح ہوئی ہے کہ کامل اصلاح کے لئے صرف ذکر کافی نہیں بلکہ نفس کی اصلاح کے لئے سلوک کے 10 مقامات طے کرنا ضروری ہے۔
جواب:
آپ نے صحیح فرمایا کہ سلوک طے کرنا لازمی ہے کیونکہ اصل اصلاح وہی ہے، لیکن اس کے لئے تیاری ذکر کے ذریعے سے کروائی جاتی ہے، جب تک وہ تیاری مکمل نہیں ہوتی تب تک سلوک طے نہیں کروایا جاتا۔ جیسے لوہا جب تک اچھی طرح گرم نہیں ہوتا اس وقت تک اسے چوٹ نہیں ماری جاتی اس وقت تک اس کو صرف گرم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی آدمی کہتا ہے کہ دیر ہو رہی ہے آپ ذرا جلدی جلدی اس کو چوٹ ماریں اور ٹھیک کریں تو وہ کہے گا: خدا کے بندے گرم تو ہونے دے چوٹ مارنے کے قابل ہو جائے تو پھر چوٹ لگا کر ٹھیک کروں گا۔ اس طریقے سے آپ بھی اپنا یہ ذکر پہلے مکمل کر لیں اس کے بعد ان شاء اللہ جب وقت آئے گا تو آپ کو بتا دیا جائے گا۔ اس ذکر میں آپ نے کافی ناغے کیے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے آپ کافی لیٹ ہو گئے ہیں، حالانکہ آپ کافی عرصے سے ہمارے ساتھ ہیں۔ اب آپ یہ کریں کہ 200 مرتبہ ”لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ“، 400 مرتبہ ”اِلَّا اللہ“، 600 مرتبہ ”اللہُ اللہ“، اور 100 مرتبہ ”اللہ“، کا ذکر ایک مہینہ تک کریں اور پھر مجھے اطلاع کر دیں تاکہ آپ کا ذکر جلدی جلدی پورا ہو۔ اس کے بعد یہ چیز شروع ہو جائے گی۔
سوال نمبر26:
السلام علیکم۔ حضرت جی قلبی ذکر کو ایک ماہ ہو گیا ہے۔ پہلے چاروں لطائف پر دس منٹ اور اخفیٰ پر پندرہ منٹ کا ذکر تھا۔ حضرت جی اکثر اوقات ذکر ٹھیک ہی محسوس ہوتا ہے لیکن توجہ نہ رکھ پاؤں تب بالکل رک جاتا ہے۔ آگے کے لئے کیا رہنمائی درکار ہے۔
جواب:
آپ فی الحال یہی قلبی ذکر جاری رکھیں۔ اس کے ساتھ یہ اضافہ کر لیں کہ ان لطائف پر فیض کے اجرا کا تصور کر لیں۔ فیض کے اجرا کا طریقہ یہ ہے کہ آپ یہ تصور کر لیں کہ اللہ جل شانہ کی طرف سے اس کی شان کے مطابق فیض آ رہا ہے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب پر اور میرے شیخ کے قلب سے میرے دل میں آرہا ہے۔ 15 منٹ کے لئے یہ تصور کرنا شروع فرما دیں۔
سوال نمبر27:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ مراقبہ کرتے وقت کوشش بہت کر رہا ہوں، لیکن دل کا اللہ اللہ کرنا ابھی تک محسوس نہیں ہوا، رات کو جب لیٹتا ہوں تو دل کا اللہ اللہ کرنا کہیں حلق اور دل کے درمیان میں سے واضح محسوس کر رہا ہوں۔
جواب:
ٹھیک ہے آپ اس کو جاری رکھیں۔ دل پر بھی محسوس ہو جائے گا۔ اگر پھر بھی مشکل ہو تو آپ دل کے اوپر انگوٹھا رکھ کر یہ تصور کریں کہ اس کے نیچے اللہ اللہ ہو رہا ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن