سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 401

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔


سوال نمبر1:

السلام علیکم! I’m sending you few questions, Kindly reply. Please forgive me if you dislike any question. In معراج شریف why اللہ needed a براق to bring our Prophet (PBUH) from earth to heaven, couldn’t he have been there without it? Why حضرت جبرائیل علیہ السلام didn’t need it while brining وحی?

جواب:

کچھ سوالوں کے جوابات تحقیقی ہوتے ہیں اور کچھ سوالوں کے جوابات سمجھانے کے لئے انسان کے ضمیر کو جگانا پڑتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ مغرب کی رکعتیں طاق اور باقی نمازوں کی جفت ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ حضرت نے فرمایا: تیری ناک آگے کو لگی ہے پیچھے کو کیوں نہیں لگی؟ اس نے کہا: اللہ ایسے ہی چاہتے ہیں۔ فرمایا: تمہارے سوال کا بھی یہی جواب ہے کہ اللہ پاک ایسے ہی چاہتے ہیں۔ اب بظاہر ان کی اس بات میں کوئی جواب نہیں ہے بلکہ سائل کے ضمیر کو ذرا سا جھنجوڑا گیا ہے اور اس کے سوال کے جواب میں اسی سے سوال کر کے اسے احساس دلایا گیا ہے کہ ایسے سوال کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ اللہ کا تخلیق کردہ نظام ہے۔ اللہ قادر و مختار ہے جو نظام چاہے بنائے۔ اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کو براق کے بغیر لے جاتے۔ مثلاً اس دنیاوی زندگی میں زندہ رہنے کا ایک نظام اور سبب بنایا گیا ہے، کہ ہم انسان کھائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس کے برعکس فرشتوں کے لئے دوسرا نظام بنایا گیا کہ وہ کھائے پیئے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں۔ کھائے پیئے بغیر ہمارے زندہ نہ رہ سکنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کھائے پیئے بغیر زندہ رکھنے پر قادر ہی نہیں۔ یہاں بات اس کے بنائے ہوئے نظام کی ہے، کہ جس کے لئے اس نے جیسا نظام بنا دیا وہ اسی نظام کے تحت چلتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ پابندی ہمارے لئے ہے، اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں ہے۔ اس لئے ان باتوں میں نہیں پڑنا چاہیے کہ شریعت کا فلاں حکم ایسا اور فلاں حکم ویسا کیوں ہے۔ یہ فضول باتیں ہیں۔ اس قسم کے سوالات کی بجائے اگر کام کے سوالات کیے جائیں تو اس مجلس کا صحیح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ایسے سوالات سے گریز کرنا چاہیے۔

سوال نمبر 2:

Why it is said to follow only one مسلک. if I see something more suitable or easy for me in some other فقہ why I can’t follow it as other imams are also give their fatwas supported by قرآن and حدیث who give us to strict orders to us to only follow one فقہ. Did امام ابو حنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ or any other امام ever said not to follow any other امام except me?

جواب:

اس سوال کا جواب سمجھنے کے لئے ہمیں ذرا پس منظر میں جھانکنا پڑے گا۔ اللہ پاک ایک ہے، آپ ﷺ بھی ایک ہیں اور قرآن بھی ایک ہے۔ جو بات نازل ہوئی، وہ ویسے ہےجیسے اللہ نے چاہا۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ پاک کی حکمت کا منشا یہ ہوا کہ کچھ لوگوں کی سمجھ کچھ لوگوں سے مختلف بنائی۔ مثلاً قرآن ایک ہے لیکن یہ قراتوں کے لحاظ سے مختلف لہجوں میں نازل ہوا ہے، اور سارے لہجے صحیح ہیں۔ اللہ پاک نے سب لوگوں کی آسانی کے لیے ایسا انتظام کر دیا۔ اگر مسلک صرف ایک ہوتا تو عین ممکن ہے بعض کے لئے مشکل ہوتا بعض کے لئے آسان ہوتا۔

مثال کے طور پر امریکہ کے شمالی کرہ کا موسم جنوبی کرہ کے بالکل برعکس ہے۔ جب شمال میں گرمی ہوتی ہے جنوب میں سردی ہوتی ہے اور جب شمال میں سردی ہوتی ہے تو جنوب میں گرمی ہوتی ہے۔ اب اگر پورے علاقے پر شمالی کرہ کی ترتیب لازم کر دی جاتی تو ایک طرف ہمیشہ گرمیوں میں روزے ہوتے دوسری طرف ہمیشہ سردیوں میں ہوتے۔ جس کے نتیجے میں کچھ لوگوں کو مشکل ہوتی اور کچھ لوگ over relaxed ہوتے۔ اللہ پاک نے چاہا کہ ہر ایک کو ہر طرح کے حالات دیئے جائیں اس لئے روزوں کے معاملہ میں قمری نظام لازم کر دیا۔ جس کا فائدہ یہ ہے کہ کوئی آدمی پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی رہتا ہو، اس کے ہاں ہر طرح کے موسم میں ماہ رمضان کا آنا ممکن ہے۔ ہر ایک کو وقتاً فوقتاً ہر قسم کا موسم ملے گا۔

اسی طریقے سے بعض مسائل میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اختلاف آ گیا۔ بعض مسئلوں میں آپ ﷺ کے دور میں ہی اختلاف پیش آیا، لیکن ایسے مواقع پر آپﷺ سے رہنمائی لی جاتی تھی اور جو فیصلہ آپ ﷺ تجویز کرتے تھے اس پر عمل ہوتا تھا۔ آپ ﷺ کے بعد جن مسائل میں اختلاف رہا ان کے بارے میں مختلف احادیث شریفہ موجود ہیں۔ کیوں کہ احادیث شریفہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہی کی روایات کا نام ہے جو انہوں نے آپ ﷺ سے روایت کی ہیں۔ اس طرح صحابہ کرام کے تمام مسائل و آراء احادیث کی صورت میں مدون ہو گئے۔ محدثین نے تمام آراء کو جمع تو کر لیا، مگر ان سے کوئی مسئلہ مستنبط نہیں کیا، جب کہ فقہاء نے ان جمع شدہ احادیث شریفہ کو analyze کیا اور ان سے مسائل مستنبط کئے۔ اور جن مسائل میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین میں بھی اختلاف چلا آ رہا تھا، ان اختلافی آراء میں سے فیصلہ کن رائے نکالنے کے لئے اپنے اپنے اصول و ضوابط بنائے اور ان اصول کے مطابق کسی ایک رائے کو اختیار کیا۔ انہی منتخب فقہی آراء کو فقہ کہتے ہیں۔

اس کی مزید وضاحت کے لئے سمجھیے کہ احادیث کی اقسام میں سے ایک حدیث مرسل ہے۔ حدیث مرسل اس روایت کو کہتے ہیں جس میں صحابی براہ راست آپ ﷺ کا قول نقل کررہا ہو، درمیان میں صحابی کا واسطہ متروک ہو۔

اب حدیث کی اس قسم کے پیش آنے کی کیا وجہ ہے، اس کی دو وضاحتیں کی جا سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ حدیث مرفوع نہیں ہے یعنی آپ ﷺ تک نہیں پہنچی۔ لہٰذا اس کا وہ مقام نہیں ہے جو حدیثِ مرفوع کا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مرسل حدیث کے بارے میں یہی رائے ہے۔

حدیث مرسل کی دوسری وضاحت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ حدیث اتنی مشہور تھی کہ اسے سب نے روایت کیا اور شہرت کی وجہ سے یہ تصریح ضروری نہیں سمجھی کہ صحابی کا واسطہ ذکر کیا جائے، کیونکہ سب ہی کو یہ بات معلوم تھی۔ حدیث مرسل کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی یہی رائے ہے۔

اب دیکھئے حدیث مرسل کے بارے میں دونوں کی رائے میں فرق کی وجہ سے ایسی احادیث سے مستنبط مسائل میں بھی فرق آنا لازمی ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی احادیث سے استدلال کیا ہے، جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے نہیں کیا۔ لہٰذا بہت سارے مسئلوں میں یہ فرق آ گیا۔

ایک اصول سمجھیے کہ اختلاف کے موقع پر کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ randomly کسی بھی پہلو کو چن لیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ باقاعدہ تحقیق اور تدبر کریں، غور و فکر سے کام لے کر analysis کریں اور پھر کسی ایک پہلو کو اختیار کریں۔ یہی طریقہ صحیح ہے اور ہمیں اسی کو اپنانے کا حکم ہے۔

فقہاء کرام ائمہ اربعہ نے قرآن و سنت میں غور و فکر اور تدبر کیا، مسائل مستنبط کیے، مکمل تحقیق کی، راجح مرجوح، ناسخ منسوخ الغرض ہر پہلو کو ملحوظ رکھا پھر کسی ایک رائے کو اختیار کیا۔ اس طرح ہر امام کی رائے ایک الگ فقہ بن گئی۔

اگر کوئی شخص اپنی مرضی کے مطابق کبھی ایک امام سے لیتا ہے، کبھی دوسرے اور کبھی تیسرے سے لیتا ہے۔ دراصل وہ اپنے نفس کی مانتا ہے اپنی آسانی کو دیکھتا ہے، وہ تحقیق کو نہیں دیکھتا کہ اس مسئلہ میں اس امام کی تحقیق کیا ہے، تحقیقی پہلو کو تو وہ follow ہی نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنے نفس کی پیروی کرکے اپنی مرضی کا مسئلہ اختیار کرتا ہے۔

مثال کے طور پر چار ڈاکٹر کسی کو دوائی لکھ دیں۔ وہ شخص ایسا کرے کہ ہر ڈاکٹر کے نسخہ میں سے میٹھی میٹھی دوائیاں چن لے اور کڑوی کڑوی دوائیاں سب کی چھوڑ دے تو مریض کبھی ٹھیک نہیں ہو گا بلکہ اس کی صحت تباہ ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر دینی مسائل کے معاملہ میں کسی نے اپنی مرضی کا مسئلہ چن لیا تو چونکہ اس نے تحقیق نہیں کی اس لئے وہ درست دین پر نہیں چل سکے گا۔

یہی آپ کے سوال کا جواب ہے کہ اس طرح randomly نہیں کرنا چاہیے کہ سب فقہوں سے اپنی مرضی کا مسئلہ لے لیا جائے بلکہ ایک امام کی پیروی کرنی چاہیے۔

ایک ہی فقہ پہ عمل کرنے میں یہ آسانی ہو گی کہ آپ جس مسلک پہ ہیں اس مسلک کے plus minus سب پہلو آپ کو مل جائیں گے، جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کچھ مسائل میں بہت سخت ہیں جبکہ کچھ میں آسان ہیں۔ مثال کے طور پر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلے میں تو سخت ہیں کہ خون آ گیا تو وضو ٹوٹ جائے گا، لیکن عورت کے touch سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ کے نزدیک عورت کو ٹچ کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے چاہے وہ اپنی بیوی ہی کیوں نہ ہو۔

حج کے موقع پہ ہم نے دیکھا ہے یہ شوافع بڑی مشکل میں ہوتے ہیں کہ کیا کریں، وضو کو کیسے سنبھالیں، اتنے رش میں موقع بموقع ہاتھ چھو ہی جاتا ہے۔ جبکہ احناف کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا بیوی کو ہاتھ سے پکڑ کر لے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا اس پہلو کو بھی سمجھنا چاہیے کہ کچھ چیزیں فقہ حنفی میں مشکل ہیں، کچھ فقہ شافعی میں، کچھ فقہ حنبلی میں اور کچھ فقہ مالکی میں مشکل ہیں۔ اگر آپ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فقہ پہ نہیں چل سکتے تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ پہ عمل کر لیں کوئی حرج نہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ پھر اسی فقہ پہ پورا پورا عمل کریں۔ البتہ اگر آپ پاکستان میں رہتے ہوئے فقہ شافعی پہ چلتے ہیں تو یہاں آپ کے لئے مشکل ہو گی کہ یہاں شوافع کے علماء نہیں ہیں، شوافع کی کتابیں متداول نہیں ہیں، لہٰذا ایسا کر کے آپ اپنے آپ کو مشکل میں ڈال لیں گے۔ اس لئے فقہ حنفی پر ہی رہیں، خواہ مخواہ ایک حق مسلک کو مت چھوڑیں۔ ہاں اگر آپ اتنے بڑے عالم ہو جائیں اور آپ کی تحقیق اس پائے کی ہو جائے کہ آپ کو بخوبی معلوم ہو کہ آپ کے لئے فقہ حنفی کی نسبت فقہ شافعی زیادہ بہتر ہے، تو پھر ایک علیحدہ بات ہے، بلاشبہ اس صورت میں آپ فقہ شافعی پہ بھی عمل کر سکتے ہیں۔ علماء میں بعض حضرات ایسے گزرے ہیں جنہوں نے یہ صورت اختیار کی ہے۔ لیکن اس کے لئے بہت اونچا مقام چاہیے، جہاں پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس مقام پہ پہنچے بغیر ایسا کرنا خواہ مخواہ ایک ذہنی عیاشی ہے۔

سوال نمبر 3:

Are our four Imam’s fatawas are final verdict? Can a scholar or group of scholars disagree with any of them with support of قرآن and حدیث?

جواب:

جی ہاں بالکل ایسا ہو سکتا ہے۔ صرف ایک فقہ کی بجائے چار فقہ کے وجود میں آنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ جہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں علماء کے ایک معتبر گروہ کو ایک مخصوص رائے بہتر لگی، وہاں انہوں نے وہی رائے اختیار کی۔ چونکہ چاروں گروہوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں الگ الگ آراء اختیار کیں۔ لہٰذا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو غلط نہیں کہتا۔

ایک مرتبہ ہارون الرشید نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی کتاب موطا امام مالک کو تمام مملکت کے اوپر نافذ کر دوں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ایسا نہ کرو کیوں کہ ہر جگہ پر صحابہ پہنچے ہیں اور وہاں کے لوگوں نے ان صحابہ سے مسائل لئے ہیں لہٰذا ان کے ساتھ اختلاف کرنا مناسب نہیں ہے، جو جس مسلک پر ہے، ٹھیک ہے۔

اس سے یہ بات بھی سمجھ آتی ہیں کہ یہ چاروں فقہی مسالک کی تقسیم میں جغرافیائی حدود کا بھی کچھ عمل دخل ہے۔ جن علاقوں میں جو صحابہ پہنچے تھے ان علاقے والوں نے انہی صحابہ کے مسلک و مسائل کو اختیار کیا۔ جیسے کوفہ میں دو صحابہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہما تھے، اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ بھی کوفہ سے تھے۔ لہٰذا فقہ حنفی زیادہ تر حضرت علی اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مستنبط ہے۔ مدینہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بھی مدینہ سے تھے۔ لہٰذا ان کی فقہ کے مسائل زیادہ تر حضرت عبداللہ بن عمر سے مستنبط ہیں۔ معلوم ہوا کہ جو صحابی جس مقام پہ پہنچے اور قیام پذیر ہوئے وہاں ان کی فقہ رائج ہو گئی۔

میرا اپنا واقعہ ہے کہ جرمنی میں ایک بار میں نے تقلید کے موضوع پر بیان کیا۔ بیس منٹ کا بیان تھا، وہ بھی ٹوٹی پھوٹی عربی میں۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہو گیا کہ دو تین دن بعد صبح سویرے صدرِ جلسہ میرے پاس آیا اور کہا کہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتا ہوں، میں آپ کی تقریر سے بہت متاثر ہوا ہوں، اب میں بھی مقلد بننا چاہتا ہوں، تو کس امام کا پیروکار بنوں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کے لئے مناسب یہ ہے کہ آپ شافعی مسلک اختیار کریں کیوں کہ یہاں شوافع کی کتابیں بھی ہیں شوافع کے علماء بھی ہیں، آپ کے لئے اسی میں آسانی ہو گی۔ ہمارے نزدیک امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی ایسے ہی ولی اللہ ہیں جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ لہٰذا ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان صاحب نے پھر شافعی مذہب اختیار کر لیا۔

عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ایک مسلک پہ پورا پورا عمل کیا جائے، اپنی پسند اور من مرضی کے مطابق کچھ اِدھر سے اور کچھ اُدھر سے لے لینا نفس پرستی کے سوا کچھ نہیں۔

سوال نمبر 4:

Why series of Imam stopped at number four, why don’t we have more Imams after fourth Imam?

جواب:

ائمہ اربعہ کے بعد مجتہدین ائمہ کا سلسلہ رک جانے کی وجہ بالکل وہی ہے جو صحاح ستہ کے مصنفین کے بعد ان جیسے محدثین کا سلسلہ رک جانے کی ہے۔

اللہ پاک نے جن سے کام لینا چاہا، ان سے لے لیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جیسے حافظے والا انسان ان کے بعد نہیں آیا۔ اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جیسی ذہانت و فطانت اور تدبر والا کوئی ان کے بعد نہیں ملتا۔ وہ ایک دور تھا جس میں اللہ پاک نے ایسے لوگوں کو پیدا کیا۔ اللہ پاک کا طریقہ کار یہی ہے کہ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لئے لوگوں کو پیدا فرما دیتے ہیں۔ جب محدثین کی ضرورت تھی تو اللہ پاک نے امام بخاری اور امام مسلم جیسے حافظے والے لوگ پیدا فرما دیئے۔ جب فقہاء کی ضرورت تھی تو اللہ پاک نے ایسی عجیب و غریب حیران کن ذہانت و فطانت والے لوگ پیدا فرمائے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے، کہ انہوں نے کیسے محیر العقول طریقہ سے analysis کیے اور اس سے فقہ کا استنباط کیا۔

ایک نکتہ کی بات عرض کرتا ہوں۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔ یہ چاروں ائمہ قرون اولیٰ میں گزرے ہیں، جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُم (صحیح بخاری: رقم الحدیث: 3651) سب سے بہتر میرا زمانہ پھر اس کے بعد اور پھر اس کے بعد والا زمانہ ہے۔ امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہما تابعی ہیں جبکہ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہما تبع تابعی ہیں۔ اس لحاظ یہ سب خیر القرون میں ہیں۔ حدیث کے مطابق اس کے بعد والا دور دورِ فتن ہے۔ اگر ہم خیر القرون کے لوگوں کو چھوڑ کر فتنے کے دور والے لوگوں کی طرف رجوع کریں تو اس میں خیر نہیں ہو گی۔ اس وقت فتنوں کا دور ہے، نفسا نفسی کا زمانہ ہے، خلوص اور للہیت نہ ہونے کے برابر ہے، اگر اس وقت اجتہاد کا دروازہ کھول دیا جائے اور آج کے لوگوں کو اختلافی مسائل کو اپنے اجتہاد سے حل کرنے کی اجازت دی جائے تو اتنے اختلافات ہوں گے کہ آپ سوچ نہیں سکتے۔ کوئی بھی stable نہیں رہے گا اور ایک انارکی والی صورت حال بن جائے گی۔ ایسے لوگ عجیب و غریب فتوے دینا شروع کر دیں گے۔ جن لوگوں نے اماموں کو چھوڑا ہے اگر آپ ان کے فتاویٰ کا مطالعہ کریں تو حیران ہو جائیں گے۔ لہٰذا یہ دروازہ بند ہی رہے تو خیر ہے۔

ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ میں امریکہ میں تھا، نماز کا وقت ہوا تو ایک عرب ساتھی نماز پڑھانے لگے۔ صفیں درست کرتے ہوئے انہوں نے مجھے کہا کہ پیر کھولو۔ میں نے کہا: please lead the prayer۔ انہوں نے پھر کہا کہ آپ پاؤں کھولیں۔ میں نے دوبارہ کہا: please lead the prayer۔ سب لوگ کہنے لگے کہ اب نماز پڑھیں یہ مسئلہ بعد میں حل کر لیجئے گا۔ میں نے اس عرب سے کہا: اگر آپ نے discussion کرنی ہے تو آپ نماز کے بعد میرے کمرے میں تشریف لے آئیں۔ خیر ان کے پیچھے نماز پڑھ لی گئی۔ نماز کے بعد ہم سب اس کمرے میں اکٹھے ہو گئے اور اسی مسئلہ پہ بات چیت شروع ہو گئی، وہ عرب صاحب مجھے سمجھانے لگے اور میں انہیں جواب دینے لگا۔ جس صاحب کا کمرہ تھا وہ بھی بڑے ہوشیار آدمی تھے۔ انہوں نے بہت خوبصورت بات کی، کہتے ہیں کہ

“Four Imam's are sufficient you should not become the fifth.”

چار امام کافی ہیں آپ پانچواں نہ ہی بنیں تو بہتر ہے۔ ہم حنفی ہیں امام ابوحنیفہ کے ساتھ خوش ہیں۔ تم اگر حنبلی ہو تو ان کے ساتھ خوش ہو جاؤ۔ اگر کوئی شافعی ہے تو ان کے ساتھ خوش ہو جائے۔ اگر کوئی مالکی ہے تو ان کے ساتھ خوش ہو جائے۔ خواہ مخواہ اپنا مسلک کسی کے اوپر تھوپنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

تاریخ میں کچھ مخصوص سوچ کے حامل لوگ گزرے ہیں جنہیں خوارج کہا جاتا ہے۔ یہ صرف اپنے مسلک کو صحیح سمجھتے تھے، اپنے علاوہ سب کو کافر سمجھتے تھے۔ انہوں نے بہت فساد مچایا تھا۔ آپ ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان کی علامات سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ وہ لوگ اعمال کے لحاظ سے اتنے آگے ہوں گے کہ تم اپنے آپ کو ان کے سامنے کم مرتبہ سمجھو گے، لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔

ایسے لوگ گزرے ہیں۔ آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: اے علی وہ شخص اس امت کا بڑا بدبخت آدمی ہو گا جو تجھے شہید کرے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والا بد نصیب ابن ملجم ایک خارجی ہی تھا۔

ہمیں ان تشددات میں نہیں جانا چاہیے۔ آپ کسی بھی امام کو follow کریں لیکن پورا پورا follow کریں۔ اگر آپ mixing کرتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جس سے آپ کا نفس آپ کے اوپر غالب آ جائے گا۔

سوال نمبر 5:

Why we Sunnis mostly don’t give any reference in our talk about life and fiqh of Imam like “حضرت جعفر،باقر،رضا،زین العابدین” etc. اہل تشیُّع says they are also reliable sources of شریعہ as they belong to family of Prophet (PBUH) so they should be true source of شریعہ. 

جواب:

آج تک کسی سنی نے ان حضرات کے امام اور اللہ برگزیدہ ولی ہونے کا انکار نہیں کیا۔ میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں جس سے بات واضح ہو جائے گی۔ ایک شیعہ کے ساتھ میری بات چیت ہوئی جو میرے ساتھ دفتر میں کام کرتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے مجھے کبھی یہ نہیں کہا کہ ”آپ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہیں تو آپ جعفری کیوں نہیں ہیں؟“ ایسا کیوں؟

انہوں نے جواب دیا کہ یہ سوال کافی عرصہ سے میرے دماغ میں کھٹک رہا تھا لیکن میں پوچھ نہیں پایا، آج آپ نے خود ہی کہہ دیا ہے، تو آپ خود ہی بتا دیں کہ آپ جعفری کیوں نہیں ہیں؟

میں نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا: در اصل ہم ہی جعفری ہیں، تم شیعہ ہوتے ہوئے بھی جعفری نہیں ہو۔

اس نے کہا: یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟

میں نے کہا: دیکھو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے لَوْلَا سَنَتَانِ لَھَلكَ النُّعْمَان اگر دو سال امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ نہ گزارے ہوتے تو نعمان ہلاک ہو جاتا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ حرم شریف میں تشریف فرما تھے اور سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔ اتنے میں کسی نے بتایا کہ حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ فلاں ستون کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ امام صاحب کا چہرہ زرد ہو گیا۔ اٹھے اور ان کی خدمت میں جا کر ان کے ہاتھ کو بوسہ دیا، عرض کی کہ اے فرزند رسول جب آپ موجود ہیں تو ہم آپ سے سوال کریں گے آپ جواب دیں گے۔ مجھ سے بڑی گستاخی ہوئی کہ میں آپ کی موجودگی میں جواب دے رہا تھا، مجھے علم نہیں تھا کہ آپ تشریف فرما ہیں۔ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میں نے آپ کے دیئے ہوئے جوابات سن لئے ہیں اور میں نے اپنے آباؤ اجداد سے اس کے خلاف نہیں سنا۔ (یہ وہ مشہور سند ہے جو حرم میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ سے ملی ہے۔) لہٰذا فقہ حنفی ایک طرف سے فقہ جعفری بھی ہے کیوں کہ امام جعفر صادق نے امام ابوحنیفہ کے مسائل سن کر ان کو اجازت دے دی، تو ہم حنفی جعفری بھی ہو گئے۔ ہاں البتہ آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ پھر آپ اپنے آپ کو جعفری اور اپنی فقہ کو فقہ جعفری کیوں نہیں کہتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پھر آپ لوگ فقہ جعفری کو فقہ باقری، فقہ زین العابدینی، فقہ حسینی، فقہ علوی اور فقہ محمدی کیوں نہیں کہتے؟ جو آپ کا جواب ہے وہی ہمارا جواب ہے۔ اور اصل جواب یہ ہے کہ نام اس کا چلتا ہے جس کے ذریعے سے تدوین ہوئی ہو۔ اور اس فقہ کی تدوین امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے ہاتھوں انجام پائی اس لئے یہ ان کے نام سے موسوم ہو گئی۔ ورنہ ظاہر ہے کہ یہ فقہ تو وہی ہے جو نبی ﷺ اور صحابہ کرام سے چلی آ رہی ہے۔ اس کی مثال بعینہ یوں ہے جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے قادری سلسلہ اور قادری اذکار کا اجراء کر دیا، تو یہ طریقہ انہی کے نام سے موسوم ہو کر قادری سلسلہ کہلایا۔ حالانکہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ اور ان کے شیخ بھی گزرے ہیں، لیکن سلسلہ ان کے نام سے موسوم نہیں ہوا بلکہ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے موسوم ہوا۔ اسی طرح سلسہ نقشبندیہ مجددیہ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے موسوم ہوا حالانکہ وہ خود حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں۔ معلوم ہوا کہ نام مدون کا چلتا ہے۔

بہرحال میری اس بات کو وہ شیعہ صاحب سمجھ گئے۔ ایک بات میں نے ان سے یہ بھی عرض کی کہ آپ اس لئے بھی جعفری نہیں ہیں کہ آپ کے ہاں یہ اصول ہے کہ تین آیت اللہ مل جائیں تو کوئی حکم بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ اب خدا جانے کتنی دفعہ تین، تین آیت اللہ نے مل کر کتنی چیزیں تبدیل کی ہوں گی۔ اس اصول کے تحت تو آپ کی فقہ کا وجود ہی شاید نہ رہا ہو۔ یہ تو اب فقہ جعفری رہی ہی نہیں۔

دفتر میں ہی ایک اور شیعہ صاحب کام کرتے تھے جن کا تعلق عراق سے اور نام جواد تھا، ان کی مثال دیتے ہوئے میں نے اس سے کہا کہ جواد بھی اثنا عشری ہے اور تم بھی اثنا عشری ہو۔ لیکن نماز ختم کرتے ہوئے تم سلام اور طرح پھیرتے ہو جبکہ جواد ہماری طرح سلام پھیرتا ہے، حالانکہ دونوں ہی اثنا عشری ہیں۔ یہ اختلاف کیوں ہے۔ فقہ حنفی کا ہر شخص برما سے لے کر، Central Asia سے گزر کر، ترکی سے ہو کر، یورپ کے وسط میں بوسنیا تک ایک ہی قسم کی نماز پڑھتا ہے۔ آپ کو کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔ مدون فقہ کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ وہ established ہوتی ہے، اس کے اندر کوئی change نہیں لا سکتا۔ چونکہ آپ کی فقہ میں کوئی بھی تین آیت اللہ مل کر تبدیلی لا سکتے ہیں، لہٰذا اس فقہ کو نہ مدون فقہ کا درجہ حاصل رہا، نہ ہی وہ فقہ جعفری باقی رہی۔

سوال نمبر 6:

حضرت اللہ تعالیٰ سے دعا میں دنیا مانگتے ہوئے شرم آتی ہے، مگر دل میں دنیا کی تمنا بھی ہے۔ اس کشمکش میں کیا کروں؟

جواب:

دعا صرف آخرت مانگنے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ دعا میں دنیا اور آخرت دونوں مانگی جا سکتی ہیں۔ آخرت ہو یا دنیا سبھی کچھ اللہ ہی سے مانگنا ہے۔ قرآن پاک میں بڑی وضاحت سے فرمایا گیا ہے:

فَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنْيَا وَمَا لَهُۥ فِى ٱلْـَٔاخِرَةِ مِنْ خَلَٰقٍ  وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِى ٱلْـَٔاخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ أُولَٰٓئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا۟ وَٱللَّهُ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ ‎(البقرۃ: 200-202)

ترجمہ: اب بعض لوگ تو وہ ہیں جو (دعا میں بس) یہ کہتے ہیں کہ: ”اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما“ اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اور انہی میں سے وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ: ”اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے اعمال کی کمائی کا حصہ (ثواب کی صورت میں) ملے گا، اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔“

اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ صرف دنیا مانگتے ہیں ان کو تو وہی ملے گا جو ان کی قسمت میں ہو گا اور جو لوگ دنیا و آخرت دونوں مانگتے ہیں ان کی تعریف فرمائی گئی ہے۔

لہٰذا دنیا کو بھی اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ آپ ﷺ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ ﷺ جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جاتا تو پہلے اللہ تعالیٰ سے مانگتے، اس کے بعد اسباب کے درجے میں انتظام کرتے۔

مسنون دعاؤں میں جس طرح آخرت مانگنے کی دعائیں منقول ہیں اسی طرح دنیا کی چیزیں مانگنے کی دعائیں بھی منقول ہیں۔ مثلاً اَللّٰھُمَّ اشْفِ مَرْضِی ترجمہ: ”یا اللہ مجھے بیماری سے شفاء عطا فرما“۔

یہ دنیا کی چیزیں ممنوع نہیں ہیں۔ البتہ دنیا میں منہمک ہو کر آخرت کو بھول جانا ممنوع ہے۔ ایک دفعہ میں نے اس پر باقاعدہ بیان کیا تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آیا کہ شاہ صاحب جب ہمارے پاس آتے ہیں تو دنیا کی بات ہی نہیں کرتے ہمیشہ آخرت ہی کی بات کرتے ہیں، کیا دنیا کے کام سارے غیر شرعی ہیں۔ میں نے پھر اس پر باقاعدہ بیان کیا اور عرض کیا کہ دنیا مانگنا بھی بالکل جائز ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو تو مستحسن ہے۔ ہم خود بھی اللہ تعالیٰ سے دنیا مانگتے ہیں یہ کوئی ایسی ممنوع بات نہیں۔ لیکن ہم دنیا مانگنے کے بارے میں باقاعدہ بات اس لئے نہیں کرتے کہ اس کے لئے کسی stimulant یا motivation کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اس کی چاہ خود بخود ہمارے اندر موجود ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں

كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَۙ وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَؕ (القیامۃ: 20، 21)

ترجمہ: خبردار (اے کافرو) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئے ہوئے ہو۔

یہ دنیا کی دعوت تو از خود چوبیس گھنٹے مل رہی ہے اس کے لیے کسی کے کہنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن آخرت کی دعوت ہر جگہ نہیں مل رہی، چند گنی چنی جگہیں ہوں گی، جہاں اس قسم کی وعظ و نصیحت ہو گی۔ آخرت کی باتیں وہیں پر ہو رہی ہوں گی کسی اور جگہ نہیں ہوں گی۔ اس لئے ہم دنیا کی بات نہیں کرتے، جب بھی کرتے ہیں آخرت کی بات کرتے ہیں۔ اور آپ اس تمام وقت کو جمع کر لیں جن اوقات میں ہماری بات ہوتی ہے، تو وہ اوقات آپ کے چوبیس گھنٹے کا کوئی چار پانچ فیصد بھی بمشکل بنیں گے۔ ان چند گھنٹوں کے علاوہ سارا وقت آپ کو دنیا ہی کی دعوت تو مل رہی ہے، اسی کی باتیں تو ہو رہی ہیں۔ اس لئے کچھ لوگوں کی مجبوری ہے کہ انہوں نے آخرت کی بات مسلسل کرنی ہوتی ہے کیونکہ اگر وہ relax کر دیں تو جتنی بات ہو رہی ہے اس میں مزید کمی آ جائے گی۔ کیونکہ دنیا کی دعوت تو نہیں رکے گی، وہ تو از خود موجود ہے، اس کو ہم ختم نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہمیں آخرت کی بات کو نہیں روکتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں لینا چاہیے کہ ہم دنیا کے خلاف ہیں یا دنیا کو برتنا نہیں چاہتے یا دنیا کی ہر چیز کو برا سمجھتے ہیں۔ نہیں! ہم لوگ ضرورت کے قائل ہیں اور اپنی ضرورتوں کو اللہ پاک ہی سے مانگتے ہیں۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ دنیا پر آخرت کو غالب رکھتے ہیں۔ کیونکہ اللہ پاک نے خود ہی فرمایا ہے:

بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى (الاعلی: 16، 17)

ترجمہ: ”لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو۔ حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے“۔


سوال نمبر 7:

حضرت، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! اللہ کے فضل سے اور آپ کی دعاؤں سے الحمد للہ مندرجہ ذیل اذکار کے دو مہینے پورے ہوگئے ہیں۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ 200 مرتبہ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حق 600 مرتبہ، حق اللّٰہ 500 مرتبہ، ھو حق 500 مرتبہ، اللّٰہ ھو 200 مرتبہ۔ حق اللّٰہ کے ساتھ یہ تصور کیا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر حق کو واضح کر رہا ہے۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ اب اسی کو جاری رکھیں، مزید یہ کریں کہ اس ذکر کے ساتھ پانچ منٹ کے لئے یہ سوچ لیا کریں کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور میں بندگی کا حق کیسے ادا کر رہا ہوں۔ باقی ذکر آپ کا یہی ہو گا۔

سوال نمبر 8:

حضرت، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! میں محمد اسد انصاری U.K Birmingham سے بول رہا ہوں۔ الحمد للہ آپ سے بیعت کیے ہوئے ایک مہینہ ہو چکا ہے۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ اس طریقہ پہ استقامت دیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب میں نماز پڑھ رہا ہوتا ہوں تو میرا ذہن منتشر رہتا ہے، مختلف کاموں کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ اور بعض اوقات تھوڑا سا focus اور concentration اگر ملتی بھی ہے تو اس کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ کسی آیت یا دعا پر ذہن لگ جاتا ہے، پھر اسی کے بارے میں سوچتا رہتا ہے، باقی نماز کی طرف دھیان نہیں رہتا۔ جیسے سورۃ فاتحہ میں اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِیْن (الفاتحۃ: 4) پڑھ رہا ہوں تو ایسا ہوتا ہے کہ اس ایک آیت پہ میرا دماغ ٹک گیا ہے مگر نماز چلتی جا رہی ہے سورتیں پڑھے جا رہا ہوں رکوع میں چلا جاتا ہوں مگر دماغ وہیں ہوتا ہے۔ کیا نماز میں ایسا کرنا ٹھیک ہے؟ یا پھر ایسا ہونا چاہیے کہ جیسے آپ بڑھتے جا رہے ہیں، آپ کو ہر ہر رکن پر اپنے دماغ کو لگانا ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیجئے۔ اگر حضرت صاحب اس بارے میں بتا سکیں کہ آپ نماز کیسے پڑھتے ہیں، نماز پڑھتے ہوئے آپ کیا سوچتے ہیں، تو شاید اس بارے میں مجھے مزید رہنمائی مل سکے۔

جواب:

ماشاء اللہ اچھا اور عملی سوال ہے۔ یہ صورت حال بہت سارے لوگوں کو پیش آتی ہے، لیکن اس کی اصل کو نہ جاننے کی وجہ سے لوگ پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نماز اللہ کی عبادت ہے اور اللہ پاک نے اس کا جو طریقہ مقرر کیا ہے اسی کو ترجیح دینا سب سے بڑی عقلمندی ہے۔ اگر نماز میں ترتیب تھوڑی سی بھی تبدیل کر لوں تو وہ نماز نماز نہیں رہے گی۔ مثلاً میں سجدہ پہلے کر لوں اور رکوع بعد میں کر لوں تو وہ نماز نہیں ہو گی۔ یہ تو خیر بہت بڑی تبدیلی ہے لیکن میں نے magnify کرنے کے لئے مثال کو بڑا کر کے پیش کیا تاکہ بات واضح ہو جائے۔

نماز میں کیا سوچنا ہے، کس چیز پہ دھیان رکھنا ہے، اس میں اصول یہ ہے کہ جو رکن آپ ادا کر رہے ہیں اس وقت آپ کو اسی رکن کا استحضار ہونا چاہیے۔ سجدے میں ہوں تو آپ کو سجدے کے احکام معلوم ہوں اور سجدے کے مطابق امور کرنے چاہئیں۔ رکوع میں ہوں تو رکوع کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ قومہ میں ہوں تو قومہ کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ جلسہ میں ہوں تو جلسہ کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ قیام میں ہوں تو قیام کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ الغرض آپ کو ہر ہر رکن کے اندر وہی رکن مستحضر ہونا چاہیے، جس میں آپ اس وقت ہیں۔

اختیاری طور پر تو ہمیں یہی کرنا چاہیے۔ جہاں تک غیر اختیاری امور کی بات ہے، ان کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا ہے:

لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرۃ: 286)

ترجمہ: اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا۔

لہٰذا اپنی مرضی سے تو کوئی ایسا نہ کرے کہ ایک ہی آیت یا دعا پر دھیان ٹکا دے، لیکن اگر کسی سے غیر اختیاری طور پر ایسا ہو جائے، تو جس وقت اسے یاد آ جائے تو فوراً اپنی توجہ اس رکن پہ مرکوز کر دے جس رکن میں وہ ہے۔ کیونکہ دل، ذہن اور خیالات اختیار میں نہیں ہوتے، اس لئے جب بھی دھیان اس رکن سے ہٹا ہو، جس میں آپ ہیں، اور ہوش آ جائے، ذہن میں حاضر ہو جائے تو اپنے خیال کو اسی رکن پہ مستحضر کر لیں۔

اگر کسی کو غیر اختیاری طور پر ایسا مسئلہ پیش آئے جیسا آپ کے ساتھ ہے، کہ رکوع میں چلے گئے ہیں، سجدے میں بھی پہنچ گئے ہیں مگر دھیان اسی ایک آیت میں لگا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں جب تک نماز کی ظاہری صورت تبدیل نہ ہو، تب تک اس کی نماز ہو جائے گی اور اس حالت کا کوئی گناہ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ یہ سب اپنی مرضی سے نہیں کر رہا، غیر اختیار طور پر ہو رہا ہے۔

باقی آپ نے میری نماز کے بارے میں پوچھا ہے کہ میں کیسے پڑھتا ہوں اور کیا سوچتا ہوں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نماز کے لحاظ سے میں مقتدا نہیں ہوں بلکہ حضور ﷺ مقتدا و پیشوا ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّی (صحیح بخاری: رقم الحدیث 631)۔ اس لئے آپ مجھ سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ کیسے نماز پڑھتے تھے۔ آپ ”اسوۂ رسول اکرم ﷺ“ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں کہ آپ ﷺ کی نماز کا طریقہ کیا تھا۔ وہ طریقہ سیکھیں اور اسی پہ عمل کریں۔ نماز میں آپ میرے پیچھے نہ چلیں بلکہ آپ ﷺ کے پیچھے چلیں۔ اس مسئلے میں ہمارے امام آپ ﷺ ہیں۔ لہٰذا آپ ﷺ کا طریقہ سیکھیں۔ وہ میں بھی کر رہا ہوں آپ بھی کریں گے۔ اس مسئلے میں ہم سب ایک ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔

سوال نمبر 9:

حضرت، میں ایک ہفتے بعد فیملی سمیت امریکہ جا رہا ہوں۔ میری بیوی کے چچا کی طبیعت بہت خراب ہے۔ ڈاکٹرز نے ان کو چند ہفتے کی مہلت دی ہے۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ انہیں صحت دے دیں اور اگر ان کا وقت ہے تو پھر مغفرت دے دیں۔ گزشتہ ایک مہینے سے میرے ذکر اذکار کا ٹائم ٹیبل بن گیا ہے۔ مگر اب خدشہ ہے کہ اگر کچھ دن کے لئے باہر جاؤں گا تو پوری روٹین آگے پیچھے ہو جائے گی، نمازیں، عبادات یا اذکار وغیرہ میں کچھ چھوٹ نہ جائے، اس بات ڈر لگ رہا ہے۔ اگر اس سلسلے میں حضرت دعا فرما دیں اور رہنمائی بھی فرما دیں کہ ہم دوران سفر کس طریقے سے اپنے معمولات مکمل کرتے رہیں، تو نوازش ہو گی۔ جزاک اللہ خیرًا۔

جواب:

اللہ جل شانہ آپ کی اہلیہ کے چچا کو صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ عطا فرمائے، اور اگر ان کا وقت آ چکا ہے تو اللہ آسانی فرما دے۔

سفر کے اندر اپنے اعمال کی حفاظت ضروری ہے، لیکن سفر کے دوران معمولات کی ترتیب کچھ تبدیل ہو جاتی ہے۔ حالت قیام میں ہم اس پہ زور دیتے ہیں کہ آپ مقررہ وقت پہ ذکر کر لیں، لیکن سفر کے دوران یہ پابندی نہیں رکھتے۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اگر آپ نے کوئی معمول دن میں شروع کیا تو اسے رات سے پہلے پورا کر لیں، اور اگر رات میں شروع کیا تو صبح ہونے سے پہلے پہلے اسی رات میں پورا کر لیں۔ اس کا خیال رکھتے ہوئے اگر تھوڑی سی اونچ نیچ ہو جائے تو پروا نہ کریں۔ دوران سفر تو اللہ پاک نے نماز میں بھی گنجائش دی ہے۔ ایک تو نماز کو مختصر کر دیا، چار رکعت کی جگہ دو رکعت کر دیں، دوسرے جماعت کی پابندی بھی ہٹا دی ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ جماعت ہی کے ساتھ نماز پڑھی جائے، لیکن اگر نہ ہو سکے تو اس پر اتنا عتاب نہیں ہے جتنا قیام کی حالت میں جماعت چھوڑنے پہ ہوتا ہے۔ تو جب نمازوں میں گنجائش ہے تو باقی اعمال میں زیادہ گنجائش ہو گی۔ اس لئے اپنی نمازوں کی حفاظت کریں اور معمولات کرنے کا جو طریقہ عرض کیا اس کے مطابق کرتے رہیں۔

اس میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ traveling کے دوران اگر آپ انگلینڈ سے امریکہ جا رہے ہیں پھر آپ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہو گی، وقت کی تنگی نہیں ہو گی، آپ کو ٹائم وافر ملے گا۔ جب میں جرمنی سے امریکہ جا رہا تھا تو Frankfurt سے ساڑھے گیارہ بجے فلائٹ روانہ ہوئی اور سوا ایک بجے ہم امریکہ میں اترے۔ سات گھنٹے کی flight تھی اور دو گھنٹے کا difference آیا۔ کیونکہ ہم west کی طرف جا رہے تھے اس وجہ سے ٹائم gain کر رہے تھے۔ آپ کو بھی جاتے ہوئے ٹائم کی سہولت ہو گی، البتہ واپسی میں مسئلہ ہو گا کیوں کہ ٹائم بہت جلدی جلدی تبدیل ہو گا۔ اگر کراچی سے امریکہ جائیں تو دو نمازیں آتی ہیں اور امریکہ سے کراچی آئیں تو سات نمازیں آتی ہیں۔ اسی طرح کا معاملہ آپ کے ساتھ واپسی کے سفر میں ہو گا، تب آپ کا کام یہ ہوگا کہ اپنا وضو برقرار رکھیں اور اپنے ساتھ کپڑا بھی رکھیں۔ ویسے بھی جو شخص جتنا وقت نماز کے انتظار میں ہوتا ہے اتنا وقت وہ نماز کی حالت میں ہی شمار کیا جاتا ہے۔ اگر میں اگلی نماز کا دو گھنٹے تک انتظار کر رہا ہوں تو میرے یہ دو گھنٹے بھی نماز شمار ہوتے ہیں۔ دوران سفر جہاز میں بھی جتنی دیر آپ وضو باقی رکھ کر اگلی نماز کے انتظار میں وقت گزاریں گے، وہ سارا وقت نماز میں شمار ہو گا۔

ایسے موقع پر وضو کا ایک انتہائی آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ Supray bottle کو بھر کر اپنے پاس رکھیں۔ اور اپنے اعضائے وضو پر پانی کا سپرے کر کے وضو کر لیں، اس طرح آپ بہت تھوڑے پانی کے ساتھ وضو کر سکتے ہیں۔ اور اگر موزے پہنے ہوئے ہوں تو اور کم پانی لگے گا کیونکہ پھر پاؤں دھونے کی بجائے ان پہ مسح کرنا کافی ہو گا، پیر دھونے نہیں پڑیں گے۔ اس طرح وضو باقی رہے یا نہ رہے، دونوں صورتوں میں آپ کے لئے تازہ وضو کرنا کوئی مشکل نہیں رہے گا اور آپ نمازیں آسانی سے پڑھ سکیں گے۔

جہاز میں وضو قائم رکھنا اور پاکی ناپاکی کا خیال رکھنا واقعی ایک ہمت کا کام ہوتا ہے کیونکہ وہاں toilets بھی چھوٹے اور تنگ ہوتے ہیں۔ لہٰذا آپ کے لئے ہدایت یہی ہے کہ اگر آپ اس سفر میں نمازوں کی حفاظت کریں تو ان شاء اللہ یہ ایک سفر نماز پر استقامت کی مشق کے طور پر آپ کے بہت کام آئے گا۔ کسی نرم چیز پر لکیر کھینچیں تو وہ جلدی مٹ جاتی ہے۔ سخت چیز پر لکیر کھینچیں، اول تو مشکل سے کھنچتی ہے لیکن پھر وہ آسانی سے مٹتی نہیں ہے۔ اگر آپ نے اس سفر کے دوران یہ لکیر کھینچ دی تو ان شاء اللہ العزیز اس کا اثر عمر بھر رہے گا۔ باقی ذکر کا مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہے، وہ آپ جہاز میں بھی کر سکتے ہیں۔ اس پہ تقریباً بیس منٹ ہی لگتے ہیں، بیس منٹ آپ کو کسی بھی حالت میں مل ہی جایا کریں گے۔ ہاں اتنا خیال ضرور رکھیں کہ ذکر کے لئے وقت ضرور نکالیں تاکہ آپ کا چالیس دن والا تسلسل نہ ٹوٹے۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت! میں تھک گیا ہوں۔ اب نفس کا بندہ بن کے نہیں رہا جاتا۔ اب تو یہ خواہش ہے کہ ہر کام اللہ پاک کے لئے ہو۔ بھلا یہ کیا بات ہے کہ اللہ پاک کیفیت سے نواز دیں تو سب ٹھیک ہو جائے مگر جب کیفیت ختم ہو جائے تو پھر سے نا فرمانی کی حالت آ جائے۔ میں اس کشمکش سے تنگ آ گیا ہوں۔ اب مجھے اللہ پاک کا ہونا ہے۔ میری قبولیت کیسے ہو گی؟ مجھے کیا اور کیسے کرنا ہو گا۔ میں تیار ہوں۔

جواب:

ماشاء اللہ! بڑی اچھی بات ہے، بہت اچھا ارادہ ہے اور بہت اچھی سوچ ہے۔ آپ پہلے یہ متعین کریں کہ آپ کے یہ سب احساسات اختیاری ہیں یا غیر اختیار طور پر پیش آ رہے ہیں۔ اگر سب غیر اختیاری ہیں، تو پھر اس کے درپے نہ ہوں۔ اور اگر اختیاری ہیں تو پھر انتظار کس بات کا، بسم اللہ کریں، اور سلوک کے راستہ پہ چل پڑیں۔

سوال نمبر 11:

حضرت جی! میں ایک گروپ بنانا چاہتا ہوں جس میں میرے جاننے والے سب لوگ، میرے client، دوست اور رشتہ دار ہوں۔ اور اس گروپ میں وہ پیغام بھیجا کروں جو ”پیام سحر“ گروپ پر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے کاروبار کی تشہیر کے لئے بھی کچھ میسج کر دیا کروں۔ کیا ایسا کرنا درست ہو گا یا نہیں؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:

اصولی طور پر مجھے اس کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہے کیوں کہ آپ پہلے سے اپنی معاشی ضروریات کے لئے ایک جائز کام کر رہے ہیں اور اب اس کے ساتھ ایک اچھے کام کو شامل کرنا چاہ رہے ہیں۔ لیکن اس میں کچھ تحفظات ہیں۔

ہمارا ایک اصول ہے کہ دین کے کام کو دنیا کے لئے استعمال نہیں کرنا۔ یہ اصول ہمارے سب ساتھیوں نے تسلیم کیا ہوا ہے۔ اگر ہمارے ساتھیوں میں سے کوئی ایسے کرے جیسے آپ کہہ رہے ہیں، تو ہمارا اصول ٹوٹ جائے گا۔ اور بات سلسلہ کے اوپر آئے گی۔ البتہ آپ یوں کر سکتے ہیں کہ اپنے نام سے اپنا گروپ بنا لیں جس میں ہمارا یا سلسلے کا کوئی contribution نہ ہو۔ اس گروپ میں آپ منتخب اچھی اچھی چیزیں، قرآن کی آیات احادیث اور بزرگوں کے اقوال وغیرہ دیتے رہیں، اور اسی گروپ میں آپ تشہیر وغیرہ بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن جو اس گروپ میں کریں اس کا ہم سے یا ہمارے سلسلے سے کوئی تعلق نہ جوڑیں۔ اس طرح آپ کے کاروبار کی تشہیر بھی ہو جائے گی اور جو اچھی باتیں آپ شئیر کریں گے وہ آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہو جائے گا، اور اس کا اثر ہمارے اوپر بھی نہیں آئے گا۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم حضرت!

One thing I wanted to tell you about my حال, a few days ago I had to disagreement with my wife and I became angry I didn’t yell or shout but I became so angry that I threw my ٹوپی on the floor, usually if I feel I am getting angry I go for a walk and I don’t stay angry long, I remind myself that one day I’ll die and stain in front of Allah (s.w.t) but sometimes I feel the anger inside becomes too much, this is very rare for me but I wanted to tell you. 

جواب:

Brother you did correct when you are angry so It is better to leave that place and change your condition and make yourself busy in something else. This is the procedure to get rid of this anger. Anyhow there is a peek of anger and in that anything can happen. Once anger was asked where do you live so that told I am in mind, so it will that in mind عقل is there so it was told when I come عقل leaves the place for me it means these two thing cannot be at the same time present. so one should make himself busy that he can he can spend that time not at that place because he can do anything at that time so that will make problem for him, for example there might be some situation in which one can kill another one so that is the big step or he can give some slap on the face by which some major problem can occur. So it means he should get rid of this and leave the place and then they peek, when it is over so then he comes in senses and then there is no problem so it’s you. I think doing the right that you leave the place and once you feel that the insight pressure is tremendous so than you should go out with tremendous speed. Because that will make more problems so therefore your speed of going out should become compare able with the pressure insight your bodyay اللہ سبحانہ و تعالیٰ help us.

سوال نمبر 13:

میرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کہیں کسی پوسٹ میں یا کسی کے ساتھ بات چیت میں کسی خاص معاملہ کا تذکرہ آ جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ مجھے اس بات کی تاکید کی جا رہی ہے، اس کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ کچھ نوافل اعمال جو میں پہلے بہت پابندی سے کرتی تھی اب نہیں کرتی، ان کے بارے میں مجھے کہا جا رہا ہے کہ انہیں کرو۔ مجھے فرائض و سنن کے ساتھ ان کے نوافل بھی ادا کرنے چاہئیں، جیسے پہلے کیا کرتی تھی، لیکن میں خود کو پہلے کی طرح آمادہ نہیں پاتی۔ پہلے تو ایسا لگتا تھا جیسے مجھے نماز کی پیاس لگی ہو۔ ہر نماز کے وقت سے پہلے ہی وضو کر کے بیٹھ جاتی تھی۔ اس وقت اللہ پاک نے میرے لئے وقت میں ایسی برکت ڈال دی تھی کہ گھر کے کام کاج کے بعد بھی مجھ میں سارے نوافل ادا کرنے کی قوت ہوتی تھی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ میں جلدی تھک جاتی ہوں، وقت بھی نہیں بچتا۔ کیا مجھے نوافل پھر سے شروع کرنے چاہئیں یا نہیں؟ ابھی میں صرف فجر اور عشاء کے نفل ادا کرتی ہوں۔

جواب:

چونکہ اللہ پاک ہم سے محبت کرتے ہیں، اس لئے بار بار وہ چیزیں ہمارے سامنے لاتے ہیں جن سے ہمیں فائدہ ہو اور یہ معاملہ صرف آپ کے ساتھ خاص نہیں ہے سب کے ساتھ ہے، لیکن کوئی sense کر لیتا ہے اور کسی کو احساس نہیں ہوتا۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ آپ کو اس کا احساس ہو رہا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ایک یہ ہوتا ہے کہ آپ ایک کام اپنی internal desire سے کریں اور ایک یہ ہوتا ہے کہ اپنی کوئی خواہش ہو یا نہ ہو آپ سوچ سمجھ کر عقل کے تقاضے کی وجہ سے وہ کام کریں۔ زیادہ اجر دوسری صورت میں ملتا ہے۔ اگر آپ کی طبیعت ایک کام کی طرف مائل نہیں ہے، لیکن آپ اپنی طبیعت پر جبر کر کے محض اللہ کا حکم سمجھ کر، اللہ تعالی کی رضا کے لئے اس کام کو سر انجام دیتی ہیں تو اس صورت میں اجر بہت زیادہ ہے۔ اکثر لوگ پہلی صورت کا اجر زیادہ سمجھتے ہیں۔ یہ ان کی غلطی ہے۔ پہلی صورت میں اجر کم ہے دوسری صورت میں زیادہ ہے۔ چونکہ اللہ پاک ہم پر کرم کر کے ہمیں زیادہ اجر دینا چاہتے ہیں تو پہلے والی کیفیت واپس لے لیتے ہیں، اس لئے ہماری طبیعت کا تقاضا نہیں رہتا۔ پہلے والی کیفیت بطور مٹھائی کے دی گئی ہوتی ہے تاکہ بندہ اس عمل کی طرف آ جائے۔ جب بندہ آ جاتا ہے پھر پٹائی ہوتی ہے، تاکہ اس عمل پر اس طرح آ جائے کہ طبیعت کا تقاضا ہو یا نہ ہو اس عمل کو کرتا رہے۔ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ پر ضروری ہیں۔

اس کی تشریح دوسرے الفاظ میں یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ پہلے آپ کی اندرونی کیفیت سے آپ کو اعمال پر ترغیب ملتی تھی، اور اب اندرونی کیفیت نہیں رہی، مگر دوسرے طریقوں سے بیرونی پیغامات کے ذریعہ آپ کو احساس دلایا جا رہا ہے اور اعمال پر ترغیب دی جا رہی ہے۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ جذبات و کیفیات اندرونی ہوتے ہیں، جبکہ شریعت باہر سے آتی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے آتی ہے۔ یہ عجیب بات ہو گی کہ جس چیز کی طلب آپ کے اندر پیدا ہو وہ تو آپ کریں اور جو چیز اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے ہو اس کو صرف اس لئے چھوڑ دیں کہ اندرونی کیفیت قائم نہیں ہے۔ اگر ہم باہر والا نظام اندر کے نظام پر نافذ کر دیں تو یہ ہمارے لئے بہتری کی بات ہے۔

اب آپ اس طرح کریں کہ اگر آپ اس بات پر convinced ہیں کہ نوافل پڑھنے میں مجھے فائدہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ باہر کی بات یعنی شریعت پر آپ کا یقین ہے اور آپ اس میں فائدہ سمجھتی ہیں۔ لہٰذا آپ نوافل پڑھنا شروع کر لیں۔

نوافل ان نمازوں کو کہتے ہیں جن کے چھوڑنے پہ کوئی مسئلہ نہ ہو اور کرنے پہ اجر ہو۔ مثلاً تہجد، اشراق، چاشت، اوابین اور عصر و عشاء کی چار سنتیں جو فرضوں سے پہلے پڑھی جاتی ہیں۔ یہ مسنون نوافل ہیں۔ آپ ﷺ بھی انہیں پڑھا کرتے تھے۔ ان کو سنن زوائد بھی کہتے ہیں۔ اور ہمیں لازماً پڑھنے چاہئیں کیوں کہ تصوف میں پہلا قدم مستحبات کی رعایت ہے۔ تصوف کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی محبت کا حصول ہے۔ پہلے اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے پھر اس کے ذریعے نفس کی تربیت ہوتی ہے۔ اللہ کی محبت کا پہلا قدم یہ ہو گا کہ ان امور کو اختیار کریں جنہیں اللہ پسند کرتا ہے۔ مستحب انہی اعمال کو کہتے ہیں جنہیں اللہ پسند کرتا ہے۔ جس کے ساتھ آپ محبت کرتے ہیں اس کی پسندیدہ چیزوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔

لہٰذا اگر آپ تصوف کا پہلا قدم لینا چاہتی ہیں تو آپ مستحبات کی رعایت شروع کر لیں، نوافل کی ادائیگی شروع کر لیں۔ اس میں ان شاء اللہ آپ کا فائدہ ہو گا۔

سوال نمبر 14:

 السلام علیکم حضرت! ذکر کرتے وقت اب دل میں ایک حرکت بھی محسوس ہوتی ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ یہ بالکل ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ اس کو مزید بڑھا دے اور زیادہ بہتر کر دے۔ آمین

سوال نمبر 15:

جب آپ کا بیان سنتی ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا پاؤں بھی تیز تیز ذکر کر رہا ہے۔

جواب:

یہ کیفیات ہیں اللہ تعالیٰ اس کو خیر کی طرف لے جائیں۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت اقدس کی خدمت میں عرض ہے کہ میرا چالیس دن کا مرقبہ احدیت اب صرف لطیفۂ اخفیٰ پر رہ گیا ہے باقی چاروں لطائف پر مکمل ہو گیا ہے۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ 200، اِلَّا اللّٰہ 400، اللّٰہُ اللّٰہ 600 اور اللّٰہ 100 دفعہ، یہ ذکر کا معمول ہے۔

جواب:

تو ذکر تو یہی رکھیں اور لطیفہ اخفیٰ والا مراقبہ جو دیا تھا اس کو شروع کر لیں۔

سوال نمبر 17:

 حضرت جی اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں۔ مجھے آج کل نماز میں پاکی ناپاکی کا وسوسہ کثرت سے آ رہا ہے۔ خصوصاً وضو ٹوٹنے کا وسوسہ زیادہ آتا ہے۔ نماز کے بعد یہی پریشانی رہتی ہے کہ نماز ہوئی یا نہیں۔ اپنے آپ کو سمجھاتا ہوں کہ جب تک قسم اٹھا کر نہیں کہہ سکتا کہ میرا وضو ٹوٹ گیا تھا، تب تک یہی بات صحیح ہے کہ میری نماز ہو گئی ہے، لیکن بہت زور لگانا پڑتی ہے۔

جواب:

یہ شک کی بیماری ہے اور شک کی بیماری میں ایسا ہوتا ہے۔ آپ کو اس میں وہی قَسَم والا اصول اپنانا پڑے گا۔ اگر آپ کو اتنا یقین ہو کہ آپ قسم اٹھا کر کہہ سکیں کہ اللہ کی قسم مجھے یقین ہے کہ میرا وضو ٹوٹ گیا ہے۔ تب تو واقعی آپ کا وضو ٹوٹ چکا ہے لیکن اگر آپ اس پہ قسم نہ کھا سکیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو وضو ٹوٹنے کا صرف شک ہے یقین نہیں ہے۔ اور مشہور قاعدہ ہے کہ شک سے یقین ختم نہیں ہوتا۔ چونکہ آپ کا وضو پہلے سے چل رہا تھا، اس بات پہ یقین ہے۔ جب تک اس بات کا یقین نہیں ہو گا کہ وضو ٹوٹ گیا ہے، اس وقت تک وضو باقی رہے گا۔ آپ اسی قاعدہ پہ عمل کریں، خواہ آپ کی طبیعت پہ بوجھ ہی کیوں نہ ہو۔ شرعی مسئلہ یہی ہے اسی پہ عمل کر لیں ورنہ آپ کے لئے مشکل بڑھے گی۔

سوال نمبر 18:

حضرت کیا صلوۃ التسبیح کی ایک سے زیادہ اقسام ہیں؟ ایک کتاب میں پڑھا کہ ایک مختصر صلوۃ التسبیح بھی ہوتی ہے، اس صلوۃ التسبیح کا طریقہ اور اس میں پڑھے جانے والے اذکار عام صلوۃ التسبیح سے مختلف تعداد و انداز میں ہوتے ہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے۔

جواب:

ویسے تو نوافل میں بڑی گنجائشیں ہیں، اور اصول یہ ہے کہ جس نفل نماز میں جتنی زیادہ تلاوت، جتنی زیادہ تسبیحات، جتنے زیادہ رکوع و سجود اور خشوع و خضوع ہو گا اس میں اتنا ہی زیادہ اجر ہو گا۔ البتہ جو صلوٰۃ التسبیح معروف ہے وہ تو وہی ہے جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کا طریقہ متواتر چلا آ رہا ہے۔ لہٰذا وہی صلٰوۃ التسبیح پڑھنی چاہیے۔ البتہ اگر کوئی دوسرے طریقہ والی بھی پڑھ لے تو حرج کوئی نہیں، کیونکہ ان نفلی نمازوں میں گنجائش ہوتی ہے۔

سوال نمبر 19:

اگر کوئی آدمی بینک کے ذریعہ مکان لیتا ہے۔ ہر بینک کی مختلف سکیمیں ہوتی ہیں۔ جیسے آج کل کچھ banks کی schemes ہیں کہ آپ 60, 70 percent invest کریں 30% ہم سے لے لیں۔ لیکن اس میں bank سود بھی شامل کرتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ لے سکتے ہیں کچھ کہتے ہیں نہیں لے سکتے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

ایک ہوتا ہے اسلامی طریقے پہ لینا، ایک ہوتا ہے غیر اسلامی طریقے پہ لینا، دونوں میں فرق ہے۔ اسلامی طریقے میں یہ ہوتا ہے کہ بینک آپ کو پیسے دے کر آپ کے ساتھ مشارکت والا معاملہ کر لیتا ہے۔ جیسے میزان بینک والے کر رہے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس بینک کی جو ترتیب ہو وہ ساری ترتیب لکھ کر ان معاملات کے ماہر مفتی سے استفتا لے لیں، یہ سب سے اچھا solution ہے۔

سوال نمبر 20:

حضرت جی! بینک سے لین دین کے کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ اگر مقررہ وقت کے اندر آپ وہ payment جمع نہ کروائیں تو رقم بڑھ جاتی ہے، جیسے اقساط پر لی گئی چیز کا معاملہ ہے۔ اور کچھ فتووں کے لحاظ سے یہ معاملہ ٹھیک بھی ہے۔ لیکن اگر آپ کسی وجہ سے وقت پر ادائیگی نہ کر سکیں تو رقم بڑ جاتی ہے۔ تو کیا ایسا معاملہ کرنا درست ہے؟

جواب:

میں نے اس کا ایک اصولی جواب دے دیا ہے کہ یہ چیزیں special subject ہیں، general subject نہیں ہیں کہ ہر مفتی کو بھی ان کا پتا ہو۔ اس لئے اس مسئلہ میں کوئی بات نہیں کر سکتا کیونکہ میں مفتی نہیں ہوں، اس کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ آپ کسی مفتی سے فتویٰ لے لیں جو اس شعبہ کا ماہر ہو۔ وہی اس بارے میں صحیح رہنمائی کر سکتا ہے۔

ہمارے یہاں کا اصول بھی یہی ہے کہ مشائخ سے فقہ اور فتاویٰ کے سوال نہ پوچھے جائیں اور مفتیان کرام سے تصوف اور تربیت کے سوال نہ پوچھے جائیں۔ ہر ایک کا اپنا شعبہ ہے، کسی خاص موضوع کا سوال اس کے ماہر سے ہی کرنا چاہیے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن