اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
السلام علیکم حضرت جی! میں پشاور سے بات کر رہی ہوں۔ آج کل میں بہت پریشان ہوں کیونکہ تقریباً ایک ماہ سے ذکر کچھ خاص محسوس نہیں ہو رہا۔ اگر ہوتا بھی ہے تو بہت آہستہ اور تھوڑی دیر کے لئے، ورنہ اکثر خاموشی ہی رہتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دل سخت ہو گیا ہے دل میں وہ نرمی نہیں رہی جیسے پہلے تھی۔ پہلے میں اکثر اکیلے میں اللہ سے باتیں کرتی تھی، روتی رہتی تھی۔ اب کافی دنوں سے ایسا نہیں ہو رہا مراقبہ میں بھی دل نہیں لگ رہا اور کسی بھی عبادت میں مزا نہیں آ رہا۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض تو نہیں ہو گیا، مجھ سے کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی یا میرے شیخ نے مجھے چھوڑ تو نہیں دیا۔ پہلے میں بہت ہی شوق سے مراقبہ کرتی تھی، ایک دن بھی ناغہ نہیں ہوتا تھا لیکن اب ایک دن کرتی ہوں اور ایک دن ناغہ ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس بار آپ سے رابطہ کرنے میں بھی ایک ماہ سے زیادہ وقت لگ گیا۔
آپ نے مجھ سے میری برائیاں پوچھی تھیں جو میں نے آپ کو بتا دی تھیں اور آپ نے فرمایا تھا کہ یہ ذکر ابھی جاری رکھیں۔ مجھے یہ پوچھنا تھا کہ میں صرف شروع کے تین لطائف پہ 35 منٹ کا مراقبہ کر رہی ہوں۔ اور 500 دفعہ ذکر کر رہی ہوں۔کیا میں صرف انہی لطائف پر ذکر کرتی رہوں اور کتنے عرصے تک کروں؟ مہربانی فرما کر میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔کبھی بسط کے حالات ہوتے ہیں کبھی قبض کے حالات ہوتے ہیں۔اس تبدیلی میں الله جل شانہٗ نے بڑا فائدہ رکھا ہے۔ جیسے دن اور رات کے بدلنے میں فائدے ہیں اسی طرح بسط اور قبض کے بدلنے میں بھی فائدے ہیں۔ آپ اس کو نہ دیکھیں کہ مجھے مزہ نہیں آ رہا، کیونکہ عبادات میں مزہ آنا نہ آنا آپ کے اختیار میں نہیں ہے، یہ غیر اختیاری چیز ہے۔ آپ اختیاری چیز میں کمی نہ کریں اور غیر اختیاری کے درپے نہ ہوں۔ لہٰذا عبادات میں لطف آنے یا نہ آنے کی بات چھوڑ دیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے آپ کے اختیار میں نہیں ہے، لیکن ناغہ سے بچنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ آپ کے اختیار میں ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ہر چیز میں حکمت ہوتی ہے اس تک انسان نہیں پہنچ سکتا۔اب ایک مہینہ بغیر ناغہ کئے ذکر کریں اور گھبرائیں نہیں۔ اگر دل نہیں چاہے گا پھر بھی ذکر کریں تو مجاہدہ ہو جائے گا جس کا آپ کو اجر بھی ملے گا اور نفس کے رذائل کی اصلاح بھی ہو گی۔ اگر آپ کا دل چاہے گا پھر ذکر کریں گی تو اس سے آپ کے دل کی اصلاح ہو گی۔ دونوں صورتوں میں ہی آپ کا فائدہ ہے لہٰذا اپنے فائدہ کو نہ چھوڑیں۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم حضرت جی اللہ آپ کی زندگی میں برکت ڈالے۔ میں PEAS یونیورسٹی سے ہوں۔ مجھے جو تیس دن کا ذکر دیا گیا تھا وہ میں نے پورا کر کے آپ کو اطلاع کی تھی، آپ نے فرمایا تھا یہی جاری رکھیں۔ اسی دوران میری شادی ہوئی جس کی وجہ سے کچھ دن ذکر رہ گیا۔ اب دوبارہ تیس دن پورے ہوئے ہیں۔ ذکر کی تفصیل یہ ہے:
ذکر علاجی 200 مرتبہ، 400 مرتبہ، 600 مرتبہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ، اِلَّا اللّٰہ، اَللّٰہُ اَللّٰہ، قلب، روح، سر، خفی اور اخفی پر 5، 5 منٹ، روح اور قلب پر فیض کا ذکر 5، 5 منٹ۔
ذکر ثوابی روزانہ کی تمام تسبیحات،حفاظتی ذکر اور قرآن پاک کی تلاوت جاری ہے۔
کیفیات یہ ہیں کہ اللہ کے فضل سے تقریباً ہر لطیفہ کافی حد تک جاری ہو چکا ہے۔ جو کمزوری ہوتی ہے پوری کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اللہ کے سوا سب سے اس لئے مایوس ہوں کہ ہر کسی نے مجھے کوئی نہ کوئی نقصان ہی پہنچایا ہے۔ اس لئے ہر کام میں حضور ﷺ کا طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کئے بغیر میرے کام نہیں ہوتے جتنا مرضی زور لگاؤں۔ اس وجہ سے خیال آتا ہے کہ میری تلاوت اللہ کی رضا کے بجائے کام کے لئے ہے۔ یہ ٹھیک ہے یا نہیں ؟کوئی حل بتا دیجئے۔
جواب:
اللہ کا شکر ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کچھ باتیں سمجھائی ہیں۔ آپ کا ذکر علاجی وہی جاری رہے گا، قلب و روح و سر،خفی اور اخفی پر 5، 5 منٹ کا ذکر بھی ویسے ہی جاری رہے گا۔ البتہ یہ یاد رہے کہ قلب اور روح پر فیض کے ذکر کا اجرا بیک وقت نہیں ہے۔ اب یہ قلب و روح پر نہ کریں،صرف سر پر کریں۔ 5 منٹ کے لئے یہ تصور کریں کہ الله جل شانہٗ کی شان کے مطابق اس کی طرف سے فیض آپ ﷺ کے دل مبارک میں آ رہا ہے، وہاں سے میرے شیخ کے دل پہ آ رہا ہے اور وہاں سے میرے لطیفۂ سر پر آ رہا ہے۔
قرآن پاک کی تلاوت کے بارے میں آپ نے جو بات کی ہے اس بارے میں آپ تلاوت کرتے ہوئے اپنی نیت خالص رکھیں، الله جل شانہٗ کے حکم کو یاد رکھیں، اللہ پاک کی پسندیدگی کو یاد رکھیں کہ الله جل شانہٗ تلاوت کرنے والے کو ایسی محبت کے ساتھ دیکھتے ہیں جیسے کوئی غلام مالک کا پسندیدہ کلام پڑھ رہا ہو تو مالک اس کو محبت کے ساتھ دیکھتا ہے۔،اسی طرح اللہ پاک قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے کو دیکھتے ہیں۔ آپ بس اس بات کو ذہن میں رکھا کریں۔ باقی فوائد خود بخود حاصل ہوں گے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص نے روشندان بنایا۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ کس لئے ہے۔ اس نے کہا کہ اس سے روشنی اور ہوا اندرآئے گی۔ فرمایا یہ نیت بھی کر لو کہ اس سے اذان کی آواز آئے گی۔ روشنی اور ہوا تو خود ہی آ جائے گی ان کی نیت کرنے کی ضرورت بھی نہیں وہ خود بخود آجاتی ہیں۔ دنیا کی نیت کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ آخرت کی نیت ضروری ہے
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ (صحیح بخاری: 1)
ترجمہ: ”تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔“
آخرت کی نیت کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اگر آخرت کی نیت نہ ہو تو کام دنیا کا بن جاتا ہے۔ لہٰذا آپ تلاوت اللہ کے لئے کریں اس کے دنیا کے فائدے خود بخود حاصل ہو جائیں گے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ شاہ صاحب! میں مراقبہ میں خود ہی سجدے میں چلی جاتی ہوں۔ پتا نہیں اس کی کیا وجہ ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
مراقبہ ایک دھیان کا نام ہے جس میں انسان کسی چیز کا دھیان کرتا ہے اور اس میں مگن ہو جاتا ہے۔ اس مگن ہونے میں بعض دفعہ ایسی کیفیت ہو سکتی ہے جیسی آپ کی ہے۔ آپ اس کیفیت سے پریشان نہ ہوں بلکہ بیٹھ کر اس مراقبہ کو پکا کریں۔ مراقبہ میں آپ کو سجدہ میں جانے کی ضرورت نہیں ہے، اگر بلا اختیار سجدہ میں چلی جائیں تو واپس بیٹھ کر اپنا مراقبہ جاری رکھیں اور اس کا خیال رکھیں۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ پیارے حضرت جی! بندہ کے والد صاحب بینک میں ملازم ہیں۔ بندہ کی تعلیم اتنی نہیں ہے کہ نوکری مل سکے اور حلال آمدن ہو۔ آپ دعا فرمائیں حق تعالیٰ حلال و طیب رزق بلا سبب کے عمر بھر کے لئے بندوبست فرما دے۔
جواب:
میرے سامنے جتنے لوگ بیٹھے ہیں کس کو پسند نہیں کہ مفت میں ان کو سب کچھ مل جائے۔ لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہر کوئی سب کچھ ملنے کی دعا کرکے بیٹھ جائے! ہر چیز کا اپنا اپنا موقع ہوتا ہے اور اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ آپ اس طرح کر لیں کہ تہجد میں مانگنا شروع کر لیں۔ تہجد کی نماز کے بعد جو دعائیں ہیں ان کے ذریعہ انسان کے مسائل حل کئے جاتے ہیں۔ یہ کام شروع کر لیں یہ ایک بہترین وظیفہ ہے اور دعا کا موقع بھی ہے، میں بھی آپ کے لئے دعا گو ہوں۔ لیکن تہجد کے وقت جو دعا خود اپنے لئے کی جاتی ہے اس کی بات ہی اور ہے۔
اکثراوقات ایسا ہوتا ہے کہ مجھ سے لوگ اپنے کسی واقف کار کے مسئلے کے حل کے لئے وظیفہ پوچھتے ہیں کہ کچھ پڑھنے کو بتائیے۔ میں ان کو وظیفہ بتاتا ہوں کہ جن کا مسئلہ ہے انہیں کہیں کہ یہ وظیفہ کرنا شروع کریں۔اس پر وہ کہتے ہیں کہ وہ آدمی خود وظیفہ نہیں کرتا۔ میں کہتا ہوں کہ پھر اللہ پاک اس طرح نہیں کرتے کہ لوگ مستغنی ہوں اور اللہ پاک ان کے کام کرتے رہیں۔ اگر کوئی خود مانگ کر اپنا مسئلہ حل نہیں کروا سکتا تو دوسرے کے مانگنے سے کیا حل ہو گا۔ اگر کوئی اتنا ڈھیٹ ہے کہ مانگنا تک گوارا نہیں کر سکتا، اپنے مسئلہ کے حل کے لئے اتنی محنت نہیں کر سکتا تو پھر کسی اور کے کرنے سے کیا ہوگا۔ اللہ پاک تو سب کچھ دیکھتا، سنتا اور جانتا ہے۔ جس کو مسئلہ ہے اگر اس کو طلب ہے تو طلب کے ساتھ کوشش کرنی پڑتی ہے۔ کبھی کسی میٹرک کے student کو آپ نے دیکھا ہے کہ لوگوں کو کہہ دے کہ آپ میرے لئے دعا کریں اور خود گھر پر جا کر سو جائے۔ آپ نے کبھی کوئی میٹرک کا سٹوڈنٹ ایسا نہیں دیکھا ہوگا۔ دنیا کے کام کے لئے کوئی ایسے نہیں کرتا، مگر دین کے کام دوسروں سے کرواتے پھرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کچھ گڑبڑ ہے۔
لہٰذا آپ سب سے پہلے یہ کام شروع کریں کہ تہجد کے وقت اٹھ کر تہجد پڑھا کریں اس کے بعد خوب گڑگڑا کے اللہ پاک سے مانگا کریں۔ اللہ پاک اس وقت خصوصی طور پر دعائیں سنتے ہیں۔ روایت میں آتا ہے کہ تہجد کے وقت اللہ پاک کی طرف سے آواز آتی ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اس کو دوں! ہے کوئی پریشاں حال کہ اس کی پریشانی دور کروں! ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کروں! آپ تصور کریں کہ جس کسی کی طرف سے خصوصی طور پر ایسی آواز لگائی جائے اور اسی وقت کوئی لبیک کہے، اللہ کے سامنے حاضر ہو جائے تو اس کا کیا مقام ہوگا۔
اصل بات یہ ہے کہ شیطان ہمارا دشمن ہے۔ شیطان ہمیں حقیقی دین سے دور کرتا ہے۔ لوگوں کے ذہن ایسے ہیں کہ اگر کسی کو وظیفہ بتا دیا جائے کہ رات ایک بجے سے تین بجے تک پانی میں کھڑے ہو کر یہ وظیفہ کرو تواس کے لئے تیار ہو جائیں گے لیکن آٹھ رکعت تہجد کے لئے کوئی تیار نہیں ہو گا۔ جب ہم کسی کو تہجد پڑھنے کا بتاتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ کوئی ٹرخانے والی بات کر رہے ہیں حالانکہ یہ ٹرخانے والی بات نہیں ہے بلکہ یہ مسنون وظیفہ ہے۔ خود آپ ﷺ نے اس کا طریقہ ہمیں سکھایا ہے۔ وہ طریقہ سب سے اچھا ہو گا جو آپ ﷺ نے سکھایا ہے یا وہ طریقہ اچھا ہو گا جو میں سکھاؤں گا؟ آپ ﷺ کے سامنے ہماری حیثیت ہی کیا ہے۔ جو چیز آپ ﷺ کی طرف سے آئی ہے وہی بہترین ہے اور اس پر ہی عمل کرنا چاہیے۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم حضرت جی! بعض دفعہ سوالات ذہن میں ہوتے ہیں لیکن ٹھیک سے ترتیب میں نہیں آ رہے ہوتے کہ آپ سے پوچھا جائے، اس کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے خیالات اور وساوس بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ اصل سوال اور وساوس میں فرق یا تمیز کیسے کرنی چاہیے؟ کیونکہ ان کے اکٹھے ہو جانے پر بات بہت لمبی ہو جاتی ہے۔
جواب:
آپ یہ غور کر لیا کریں کہ کونسی چیز اختیاری ہے کون سی چیز غیر اختیاری ہے۔ جو غیر اختیاری ہے اس کے درپے ہونا چھوڑ دیں، اس کی بالکل فکر ہی نہ کریں کیونکہ وہ آپ کا کام نہیں ہے۔ جو اختیاری ہے اس میں حتی الامکان اپنےاختیار کو استعمال کریں جہاں تک آپ کوشش کر سکتے ہیں اتنا کریں اور اللہ تعالیٰ سے اس کے پورا ہونے کی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرتے رہیں۔ مثلاً ایک آدمی انٹرویو دینے جا رہا ہے تو وہ اس طرح نہیں کرتا کہ انٹرویو نہ دے بس اللہ تعالیٰ سے انٹرویو میں کامیابی کی دعا کرتا رہے۔ بلکہ وہ اللہ سے دعا کرے گا۔ انٹرویو کو attend کرے گا، انٹرویو دے کر واپس آکر پھر اللہ سے دعا کرتا رہے گا۔
آپ بھی ایسا ہی کریں کہ جو چیز آپ کے اختیار میں ہے اسے ضرور کریں اور اس کے پورا ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں۔ ایسا کرنے سے وساوس اور فضول خیالات خود بخود دور ہو جائیں گے۔
سوال نمبر 6:
200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ، 400 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، 400 مرتبہ حَق، 100 مرتبہ اللّٰہ، 100 مرتبہ تیسرا کلمہ، 100 مرتبہ درود شریف، 100 مرتبہ استغفار۔ یہ ذکر کرتے ہوئے ایک مہینہ مکمل ہو گیاہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! بہت اچھی بات ہے۔ اب آپ اگلے تیس دن کے لئے 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ، 400 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، 500 مرتبہ حَق اور 100 مرتبہ اللّٰہ کا ذکر کیا کریں۔ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار روزانہ سو سو دفعہ۔ یہ ذکر عمر بھر کے لئے ہے۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم۔ حضرت جی! ایک ماہ پہلے message کیا تھا۔ اس کے بعد پھر ایک ماہ اسی طرح گزار دیا۔ ماہ ربیع الاول میں درود شریف پڑھنے کے لالچ میں مراقبہ اور دوسرے معمولات نہیں کئے۔ حالانکہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ مبارک معلوم ہے کہ اصلاحی ذکر درود شریف سے افضل ہے لیکن نفس کی چال میں پھنسی رہی۔ حضرت جی! پچھلے تین ماہ کے مراقبہ کی یہ تفصیل ہے:
15 منٹ لطیفۂ قلب پر اللہ اللہ سننے کا تصور۔ یہ تو الحمد للہ پکا ہو چکا ہے۔
25 منٹ مراقبہ احدیت کا تیسرا سبق کہ اللہ پاک کی طرف سے فیض آپ ﷺ کے قلبِ اطہر پر آ رہا ہے، آپ ﷺ کے قلبِ اطہر سے میرے شیخ کے قلب پر اور میرے شیخ کے قلب سے میرے لطیفۂ خفی پر آ رہا ہے۔ دو ماہ یہ مراقبہ کیا لیکن لطیفۂ خفی پر کچھ محسوس نہیں ہوا۔ اب ایک ماہ سے یہ مراقبہ نہیں کیا۔ آپ کو message یہ سوچ کر نہیں کرتی کہ میرے میسج کے متن سے رشتہ داروں کو پتا چل جاتا ہے کہ میں نے بھیجے ہیں۔ اس وجہ سے ایک ماہ اپنا نقصان کر لیا ہے۔ اب رہنمائی چاہیے کہ دوبارہ کہاں سے شروع کروں۔
جواب:
آپ سے سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی ہے کہ آپ نے درود شریف پڑھنے کی لالچ میں مراقبہ اور دوسرے معمولات نہیں کئے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ درود شریف واقعتاً بہت بڑی نعمت ہے لیکن یہ بات الگ ہے کہ درود شریف پڑھنا مستحب ہے جبکہ علاجی ذکر فرض کے لئے ہوتا ہے۔ اپنی اصلاح فرض ہے، جو کام اس فرض کام کے لئے کیا جائے گا وہ بھی فرض کے درجے میں ہو جائے گا۔ فرض کا مقدمہ بھی فرض ہوتا ہے۔مثلاً اگر آپ پہ حج فرض ہے، آپ نے حج کرنے جانا ہے، اس کے لئے پاسپورٹ لازم ہے۔ کیا آپ پاسپورٹ نہیں بنائیں گی اور یہ کہیں گی کہ پاسپورٹ بنوانا فرض نہیں ہے۔ اگر آپ ایسا کہیں گی تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ آپ جانا نہیں چاہتیں۔ کیونکہ پاسپورٹ کے بغیر آپ حج پہ نہیں جا سکتیں۔ بذات خود پاسپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں، نہ فرض ہے نہ واجب ہے نہ مستحب ہے، لیکن حج کے لئے ضروری ہے، لہٰذا آپ کو پاسپورٹ بنوانا پڑے گا۔ اس وجہ سے علماء کہتے ہیں کہ فرض کا مقدمہ فرض ہوتا ہے اور واجب کا مقدمہ واجب ہوتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ موت سے پہلے اصلاحِ نفس فرض عین ہے، اس کا مقدمہ جو اصلاحی ذکر ہے وہ بھی فرض ہے۔ لہٰذا یہ ہر صورت میں کرنا ہوتا ہے۔ حضرت مولانا مصطفےٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تبلیغی جماعت کے بہت بڑے بزرگ تھے۔ انہوں نے ایک بار تبلیغی حضرات سے کہا کہ بھائیو دوستو ہم بھی آپ کو ذکر دیتے ہیں اور مشائخ بھی دیتے ہیں۔ مشائخ کا ذکر بھی کرو اور ہمارا ذکر بھی کر لو جو ہم آپ کو دیتے ہیں،لیکن اگر وقت کم ہو اور اس وقت میں دونوں میں سے ایک ہی ذکر کیا جا سکے تو پھر مشائخ کا دیا ہوا ذکر کر لیا کرو،ہمارے والا ذکر مؤخر کر لیا کرو۔ کیونکہ ہمارا دیا ہوا ذکر غذا کی طرح ہے اور ان کا ذکر علاج اور دوا کی طرح ہے۔ اگر دوا اور غذا میں کسی ایک کو اختیار کرنا پڑے تو دوا کو ترجیح ہوتی ہے۔ مثلاً ایک آدمی ٹی بی کا بیمار ہے اور اس کو دوائی کھانی ہے۔ ٹائم بس اتنا ہے یا دوائی کھا سکتا ہے یا کھانا کھا سکتا ہے۔ وہ کیا چیز کھائے گا؟ وہ دوائی ہی کھائے گا۔ یہی مثال علاجی ذکر کی ہے کہ علاجی ذکر دوا کی طرح ہے اسے کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ آپ نے یہ غلطی کی ہے، اس پر استغفار کریں۔ جو ذکر آپ کر رہی ہیں اُسے ویسے ہی جاری رکھیں۔ جہاں سے آپ نے ذکر کا سلسلہ منقطع کیا ہے وہیں سے شروع کر لیں اور ایک مہینہ مستقل کر کے مجھے اطلاع دیں۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم سیدی و مرشدی حضرت جی! رات کو میری وتر کی نماز پھر قضا ہو گئی جب کہ میں ابھی پچھلی نمازوں کے روزے رکھ رہی ہوں۔ روزانہ روزہ مشکل لگتا ہے اس لئے جمعرات اور پیر کو رکھتی ہوں۔ رات کو طبیعت بہت خراب رہتی ہے۔ فجر کی اذان سے پہلے بہت مشکل سے اٹھتی ہوں۔ آج اذان سے 5 منٹ پہلے آنکھ کھلی۔ صبح کی نماز سے پہلے وتر کی نماز پڑھ سکی نہ سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَبِّ رَّحِیْم کی تسبیح پڑھی اور نہ ہی مراقبہ کیا۔
جواب:
اگر تجربہ سے آپ کو یہ بات بخوبی معلوم ہو گئی ہے کہ آپ کے لئے اٹھنا مشکل ہے تو آپ عشا کی نماز کے ساتھ ہی وتر پڑھ لیا کریں۔ جب کسی کے لئے تہجد کے وقت اٹھنا مشکل ہو تو وہ وتر رات کو ہی پڑھ لیا کرے۔ اگر کسی کا تہجد کے لئے اٹھنے کا معمول پختہ ہو وہ تو تہجد کے ساتھ وتر پڑھ سکتا ہے، مسنون طریقہ یہی ہے۔ لیکن اگر کسی کا معمول اتنا پختہ نہیں ہے اور خطرہ ہے کہ تہجد کے وقت آنکھ نہیں کھل پائے گی تو وہ وتر کو عشاء کے ساتھ ہی پڑھ لیا کرے۔ کیونکہ وتر واجب نماز ہے اور تہجد مسنون نماز ہے تو مسنون کے لئے واجب کو خطرہ میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ لہٰذا علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر اٹھنا مشکل ہو تو ایسے میں عشا کی نماز کے بعد وتر پڑھ لیا کریں۔ یا پھر یہ صورت بھی اختیار کی جا سکتی ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد سونے تک وتر موخر کر دے اور جس وقت سونے لگے اس سے پہلے وتر پڑھ لے۔ یہ ایسا ہی ہو گا جیسے اس نے رات کے آخری حصہ میں پڑھ لیا۔ بہرحال وتر کو کسی صورت میں خطرے میں نہ ڈالے کیونکہ وتر واجب ہے اور اس کا خیال رکھنا بھی واجب ہے۔ ابھی آپ گذشتہ نمازوں کا جرمانہ پورا کر لیں اس کے بعد مطلع کریں۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم شاہ صاحب! آپ سے پوچھا تھا کہ سکول میں سٹال لگاؤں یا نہ لگاؤں۔ آپ کی ہدایت کے مطابق یہ شرط رکھی کہ بڑے لڑکے ہمارے سٹال کی طرف نہ آئیں اور میوزک بھی نہ چلایا جائے تو پھر سٹال لگاؤں گی۔ پرنسپل نے دونوں شرطیں مان لیں اور میں نے سکول میں سٹال لگا لیا۔ وہاں میوزک چل تو رہا تھا لیکن ہم تک اس کی آواز نہیں آ رہی تھی۔ ایک دو دفعہ بڑے لڑکے بھی سٹال کی طرف آئے جس پر میں نے انہیں منع کیا کہ اس طرف نہ آئیں۔ اس کے بعد وہ نہیں آئے۔ میرا سٹال بالکل کونے میں تھا۔ سب کہہ رہے تھے کہ ذرا باہر سٹال لگاؤ کیونکہ وہاں کوئی نہیں آئے گا مگر میں پردے کی وجہ سے باہر نہیں جا سکی۔ میرا سٹال سب سے کم قیمت،بیس روپے کا تھا۔ اللہ نے اتنی برکت دی کہ اس پر بے حد رش ہو گیا، یہاں تک چار دفعہ میں نے سٹال بند کیا کیونکہ میں بہت تھک گئی تھی۔ اخیر میں جب سب اپنا اپنا profit پرنسپل کو دے رہے تھے تو میرا منافع سب سے زیادہ تھا۔ پرنسپل صاحبہ بے حد حیران تھیں کہ بیس روپے کے سٹال پر ہزاروں کیسے کما لئے۔ شاہ صاحب یہ سب آپ ہی کی برکت ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اپنی ڈیوٹی احسن طریقے سے نبھائی، لیکن آخر میں میں نے ان کو یہ بھی کہا کہ آپ لوگوں نے کہا تھا کہ میوزک نہیں ہوگا، پھر بھی میوزک چل رہا تھا اس لئے مجھے یہ ایونٹ بالکل پسند نہیں آیا۔
جواب:
یہ ایک استانی ہے جس نے مجھے پہلے لکھا تھا کہ ان کو پرنسپل نے کہا کہ آپ سٹال لگائیں تو اس نے کہا کہ میں پردہ کرتی ہوں اس لئے بڑے لڑکے اس طرف نہ آئیں اور music نہ ہو۔ انہوں نے دونوں باتیں مان لیں کہ آپ کو ایسا سٹال دیں گے جس کی طرف بڑے لڑکے نہیں آئیں گے اور music بھی نہیں ہو گا۔۔ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ پاک نے اس کے کام میں اتنی برکت دی کہ نظر آ رہا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دین کے اوپر چلتا ہے اور عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ ہوتی ہے۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم۔ حضرت جی محترم! اگر کوئی خانقاہ نہ آئے اور براہ راست بیان سنے۔کیا اسے خانقاہ میں بیٹھے ہوئے حضرات سے کم فائدہ ہوتا ہے؟
جواب:
میرا ایک بیان اس موضوع پر ہوا تھا کہ جب انسان میں کوئی خرابی آ جاتی ہے تو پھر وہ دوبارہ کچھ وقت خانقاہ میں لگائے اور اپنا علاج کر لے تو وہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ پھر دوبارہ کبھی خرابی آ جائے تو پھر ایسا ہی کرے، اس طرح انسان کی روحانیت کا لیول ٹھیک رہتا ہے۔
اگر کسی کے لئے خانقاہ میں آنا ممکن ہو تو اسے خانقاہ میں آ کر ہی فائدہ ہوگا، ایسے آدمی کو بغیر کسی عذر کے آن لائن بیان سننے سے اتنا فائدہ نہیں ہوگا جتنا خانقاہ میں آ کر فائدہ ہوگا۔ کیونکہ خانقاہ کا ایک مخصوص ماحول ہے اس کا ایک اپنا فائدہ ہے وہ کسی اور جگہ پہ نہیں مل سکتا۔ لہٰذا اگر کوئی جان بوجھ کر نہیں آتا وہ تو واقعی محروم ہے اور اگر کسی کا صحیح عذر ہے، مثلاً فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ وہ خانقاہ پہنچ ہی نہیں سکتا، ایسا آدمی چونکہ معذور ہے اس لئے اگر وہ خانقاہی معمولات اپنے گھر پر بھی کرتا ہے تو اسے خانقاہ جتنا ہی فائدہ ہوگا۔ اس کے لئے اللہ پاک وہیں آسانی پیدا فرما دیں گے۔
ایک صاحبِ کشف نے مجھے ایک message کیا تھا جس میں وہ بتاتے ہیں کہ میں نے کشف کی آنکھ سے دیکھا کہ جب میں اسلام آباد میں ہوتا ہوں اور خانقاہ آ کر بیان نہیں سنتا آن لائن ہی سن لیتا ہوں تو مجھے زیادہ فائدہ نہیں ہوتا لیکن اگر میں کسی اور جگہ جیسے دبئی وغیرہ چلا جاؤں، وہاں پر آن لائن بیان تو پھر پورا فائدہ ہوتا ہے۔
الغرض یہ subject to availability کی بات ہے۔ اگر کسی کے لئے آنا ممکن ہو، پھر بھی نہ آئے تو یہ اعراض ہے، اس لئے اس کو فائدہ کم ہو گا۔ اور اگر کسی کے لئے آنا ممکن نہیں تو یہ مجبوری ہے اعراض نہیں ہے، اس لئے اس کو پورا فائدہ ہوگا کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286)
ترجمہ: ”اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا“
اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جو کام کوئی کر نہیں سکتا اس کی ذمہ داری اس پر نہیں ڈالی جاتی۔ اگر کوئی اس کو وہ اہمیت نہیں دیتا تو اس کا اصل فائدہ بھی اس کو حاصل نہیں ہوتا، عمومی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے لیکن خصوصی فائدہ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ وہ اس کو اہمیت نہیں دے رہا۔ اس لئے اگر کسی کے لئے ممکن ہو کہ وہ خانقاہ میں آ سکے تو وہ آجایا کرے، کسی کے لئے کبھی کبھی مثلاً مہینے میں ایک بار بھی ممکن ہو تو وہ آجایا کرےاسے فائدہ ہوگا، لیکن جو بالکل ہی کٹ جائے اسے فائدہ نہیں ہوگا۔
جب ہم پشاور یونیورسٹی میں تھے تو حضرت کے پاس زیادہ جایا کرتے تھے لیکن جب یہاں راولپنڈی میں آئے تو ایک مہینے میں ایک دفعہ جانا ہوتا تھا۔ الحمد للہ اس ایک بار جانے میں بھی بہت فائدہ ہوتا تھا۔ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جو چیزیں انسان کو available ہوں، جس form میں بھی available ہوں اس کے حساب سے condition لگ جاتی ہے۔ اگر آپ کے ساتھ بھی یہی بات ہے تو خیال رکھیں کیونکہ اپنا فائدہ تو ہر ایک ڈھونڈتا ہے۔
سوال نمبر 11:
حضرت یہ جو سلوک کے 10 مقامات آپ بتاتے ہیں اور یہ کہ انہیں طے کرنے کے بعد نفس مطمئنہ حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ بات قرآن وحدیث میں ہے یا یہ بزرگوں کے تجربات ہیں؟
جواب:
یہ ایک ٹیکنیکل سوال ہے۔ مقاماتِ سلوک یعنی مقامِ توبہ، مقامِ انابت، مقامِ قناعت، مقامِ ریاضت، مقامِ تقویٰ،مقامِ زہد، مقامِ صبر، مقامِ توکل، مقامِ تسلیم اور مقامِ رضا۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح کے مطابق یہ 10 مقاماتِ سلوک طے کرنا ضروری ہیں۔ ان مقامات کو طے کرنا دراصل نفس میں موجود رذائل کو دور کرنا ہے۔ مثلاً اگر آپ حرص کو دور کر لیں تو قناعت آ جائے گی اور مقام قناعت حاصل ہو جائے گا، جب تک حرص موجود ہے تو مقام قناعت نہیں ہے۔ الغرض مقاماتِ سلوک طے کرنا رذائل کو دور کرنا ہے اور رذائل کو دور کرنا قرآن سے بھی ثابت ہے،حدیث شریف سے بھی ثابت ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۔ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس:9-10)
ترجمہ: ” فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے“
اس کا معنی یہ ہے کہ یقیناً وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اپنے نفس کو رذائل سے پاک کر لیا۔ اسی طرح نفس کو رذائل سے پاک کرنا حدیث شریف سے بھی ثابت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ (جامع ترمذی۔ حدیث نمبر: 2459)
ترجمہ: ”عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو کرلے“
اس کے علاوہ قرآن کی کئی دوسری آیات مبارکہ اور کئی احادیث شریفہ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن و حدیث میں نفس کے رذائل کو دور کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ البتہ نفس کے رذائل کو دور کرنے کے طریقے اور ذرائع کے بارے میں تفصیلی ذکر نہیں آیا۔ یہ طریقے subject to condition ہیں، تجرباتی ہیں، یہ بزرگوں نے advise کئے ہوئے ہیں اور یہ ذرائع ہر دور میں تبدیل ہوتے رہتےہیں۔ یہ بالکل اس قسم کی بات ہے کہ جیسے لاہور پہلے سے موجود ہے، چاہے آپ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لیکن لاہور جانے کے لئے جتنے راستے ہیں وہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو سکتے ہیں۔ جیسے پہلے موٹروے نہیں تھا لیکن اب ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے کسی وقت میں کوئی راستہ موجود تھا اب وہ ختم ہو جائے۔ لہٰذا راستے تبدیل ہو سکتے ہیں، منزلیں وہی رہتی ہیں۔
اب سمجھیں کہ مقامات کا حصول اور رذائل سے چھٹکارا یہ پہلے سے چلا آ رہا ہے اور قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ البتہ ان رذائل کو کن طریقوں سے دور کرنا ہے، یہ طریقے وقت اور لوگوں کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی پیدائشی طور پر صابر ہے، لیکن صابر ہونے کے ساتھ ساتھ کنجوس بھی ہے۔ اب اس کے اندر اس کا علاج کنجوسی کو دور کرنے سے ہو گا۔ اس کو صبر پہلے سے حاصل ہے۔ ایک اور آدمی ہے، وہ کنجوس نہیں ہے لیکن اس میں صبر نہیں ہے۔ اس کی کنجوسی دور کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ اس کو صبر حاصل کرنے کی ٹریننگ دی جائے گی۔
اس تفصیل سے آپ کے سوال کا جواب بخوبی معلوم ہو گیا کہ مقامات قرآن سے ثابت ہیں، لیکن ان کے حصول کا طریقۂ کار بزرگوں کے تجربات کے مطابق ہوتا ہے۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم۔ حضرت جی آپ نے جو اذکار دئیے وہ باقاعدگی سے کر رہی ہوں۔ مراقبہ بھی کر رہی ہوں لیکن مراقبہ میں تسلسل نہیں ہے۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
یہ تسلسل کا نہ ہونا صرف آپ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اکثر لوگوں کا مسئلہ ہے کہ علاجی ذکر کے لئے شیطان راستہ نہیں چھوڑتا، ثوابی ذکر کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان کو پتا ہے کہ اس کا ثوابی ذکر بھی کام کا تب بنے گا جب اس کا علاجی ذکر صحیح ہو گا۔ مثلاً آپ نے جتنا ثوابی ذکر کیا، عین ممکن ہے آپ کو عجب ہو جائے کہ میں تو بڑا ذاکر ہوں۔ اس عجب اور روحانی بیماریوں کو علاجی ذکر نکالتا ہے۔ اسی علاجی ذکر کے لئے شیطان نہیں چھوڑتا کیونکہ شیطان کو پتا ہے کہ یہ تو مجھ سے پیچھا چھڑانے کی پوری planning ہے۔ وہ اس پر پورا زور دیتا ہے کہ کوئی علاجی ذکر نہ کر پائے۔ شیطان کا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی کو عمل سے روکتا نہیں بلکہ اسی میں اس کو گمراہ کرتا ہے۔ مثلاً کوئی نماز پڑھتا ہے تو شیطان اسے ڈائریکٹ نماز سے نہیں روکے گا بلکہ اس کی نماز کو خراب کر دے گا، کوئی ایسا طریقہ اختیار کرے گا جس سے اس کی نماز نماز نہیں رہے گی۔ اسی طرح کوئی حج و عمرے کر رہا ہے تو اس کو حج عمرے سے نہیں روکے گا لیکن کوئی ایسا طریقہ کرے گا کہ اس کے حج عمرے دنیا کے لئے ہو جائیں گے یا اس میں کوئی اور خرابی آ جائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی کسی روحانی بیماری میں مبتلا ہے، اور اس کے علاج کے لئے کچھ ذرائع اختیار کر رہا ہے تو شیطان ان ٹھیک کرنے والی چیزوں اور علاج کو روکنے کی کوشش کرے گا۔
لہٰذا اگر آپ کے مراقبہ میں تسلسل نہیں ہے تو اس کے تسلسل کے لئے آپ کو کوشش کرنی پڑے گی۔ اگر اس کے لئے آپ کو ثوابی اذکار میں کچھ کمی کرنی پڑے تو وہ بھی گوارا ہے لیکن مراقبہ اور اصلاحی ذکر چھوڑنا گوارا نہیں ہے۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم! میں برطانیہ سے بات کر رہا ہوں۔ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ میرا یہ ذکر چل رہا ہے: 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ، 600 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، 400 مرتبہ حق اور اس کے ساتھ 10 منٹ کا مراقبہ لطیفۂ قلب پر، 15 منٹ کا لطیفۂ روح پر، 10 منٹ کا لطیفۂ سر پر اور 10 منٹ کا مراقبہ لطیفۂ خفی پر تھا۔ آخری message میں آپ نے فرمایا تھا کہ مجھے اب سلوک کے لئے تیاری کرنی چاہیے۔ اور آپ نے فرمایا تھا کہ اپنے احوال اور برائیاں بتاؤں۔ برائیاں چونکہ زیادہ ہیں اس لئے message طویل ہو گیا۔ اس کے لئے معذرت۔ میسج کا پہلا حصہ آپ محفل میں پڑھ سکتے ہیں۔ دوسرے حصہ کے لئے گزارش ہے کہ صرف آپ ہی پڑھ لیں۔
جواب:
پہلے حصہ کا جواب یہ ہے کہ آپ یہ ذکر جاری رکھیں اور جو مراقبہ آپ کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ اب 10 منٹ لطیفۂ اخفیٰ پر بھی مراقبہ کر لیا کریں۔ آپ کے میسج کے دوسرے حصہ کا جواب الگ سے دے دوں گا۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم! حضرت میں خانقاہ سے روانہ ہوکر خیریت سے گھر پہنچ گیا تھا۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ آپ سے دریافت کروں کہ میرے اندر پہلے سے بہتری ہےیا نہیں؟
جواب:
میں تو آپ کو یہ حدیث شریف سناؤں گا:
اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوف وَالرَّجَاء (صحیح البخاری کتاب الرقاق، باب : الرجاء مع الخوف، الرقم : 6104)
ترجمہ: ”ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے۔“
اگر میں آپ کو امید دلاؤں اور اس سے آپ کو نقصان ہو جائے تو یہ بات ٹھیک نہیں ہے اور اگر میں آپ کو ڈرا دوں تو پھر بھی آپ کو نقصان ہو گا۔ خوف اور امید کے درمیان درمیان رہنا، یہ بات آپ ﷺ نے ہی فرمائی ہے، لہٰذا اسی پہ عمل کریں۔ ڈرتے رہیں کہ کہیں آپ پیچھے نہ رہ جائیں اور امید بھی رکھیں کہ ان شاء اللہ اللہ پاک آپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں گے۔دونوں چیزیں ساتھ ساتھ رکھیں گے ان شاء اللہ کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔اللّٰہ اللّٰہ کا ذکر 2500 مرتبہ روزانہ کر رہا ہوں۔ 37 دن ہو گئے ہیں ۔
جواب:
اب اس کو 3000 مرتبہ کر لیں۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! اپنے گناہوں کی کثرت اور اپنی اصلاح کی فکر نہ کرنے کی وجہ سے بندہ نے آپ کی ناراضگی اور شفقت میں کمی محسوس کی۔ یہ میرے اوپر بہت گراں تھا۔ حضرت کی طرف سے ہمہ وقت یہی فکر رہتی ہے۔ ہر نماز کے بعد یہی دعا مانگتا ہوں یا اللہ میرے متعلق میرے شیخ میرے مرشد پاک کا دل ہمیشہ سلیم رکھنا۔ کاش ایک دن اللہ رحمٰن کے ساتھ بھی یہی فکر دل میں پیدا ہو۔ یہ احساس بھی آپ کی برکت دعا اور ذکر کے نتیجے میں اللہ رحمٰن نے عطا فرمایا۔ کچھ عرصہ حضرت کے ارشاد گرامی کی تعمیل میں اپنے علاقہ میں مسجد کی کوشش میں مصروف تھا، اس لئے تسبیحات اور ذکر جہری میں کچھ کمی رہی۔ بندہ نے افسوس کے ساتھ اپنے آپ کو طفل تسلی دی کہ سب ٹھیک ہے۔ ندامت اور شرم کے مارے اوروں کو نصیحت کرنا چھوڑ دیا۔ دل میں یہ خیال آیا کہ دوسروں کو تو نصیحت کرتا رہا لیکن اپنی نفس کی اصلاح سے بہت غافل ہو گیا۔ اب آپ کی دعا اور توجہ کی برکت سے اپنے جو رذائل نظر آ رہے ہیں وہ عرضِ خدمت ہیں۔
جواب:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے تھے کہ جب میں اپنے اندر کوئی عیب دیکھتا ہوں تو میں اس کے بارے میں وعظ کہہ دیتا ہوں۔ دوسروں کو بتاتے ہوئے انسان کو خود ہی پتا چل جاتا ہے کہ مجھ میں بھی یہ عیب ہے تو اس کی اصلاح بھی ہو جاتی ہے۔
ایک صاحب ہر ایک شخص سے کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تجھے حج کرائے۔ کسی نے کہا آپ کوئی اور دعا کیوں نہیں کرتے، صرف یہی دعا آپ کو پسند ہے۔ انہوں نے کہا اصل میں میں خود حج کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں اور میں نے سنا ہے کہ جو دعا کوئی کسی مسلمان کے لئے کرتا ہے، فرشتے ان کے لئے وہی دعا کرتے ہیں۔ اس لیے میں سب کو حج کی دعا دیتا ہوں تاکہ فرشتے میرے لئے یہی دعا کریں، وہ قبول ہو جائے اور میں حج کر لوں۔ آپ دوسروں کے لئے اچھا سوچیں، اپنے آپ کو اچھا نہ کہیں۔ جو غلطی ہو اس کے بارے میں بتا دیا کریں، اور اسے اپنے اندر محسوس کیا کریں۔
ایک دفعہ ہمارے شیخ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت قرآن میں ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ (الصف: 2)
ترجمہ: ” اے ایمان والو ! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ؟ “
حضرت اس سے تو دعوت دینا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ کیونکہ ایسے لوگ بہت کم ہیں جن میں کوئی غلطی نہ پائی جاتی ہو۔حضرت نے جواب دیا کہ دعوت مشکل نہیں ہوئی دعویٰ مشکل ہو گیا ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ نہیں کہ جو کام خود نہیں کرتے اس کی دعوت نہ دو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کام خود نہیں کرتے اس کا دعویٰ نہ کرو۔ یہ دعویٰ سے ممانعت ہے کہ اس چیز کا دعویٰ کیوں کرتے ہو جو تمہارے اندر ہے ہی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دعویٰ نہ کرو البتہ دعوت ضرور دے سکتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی جوا کھیل رہا ہے۔ کیا وہ کسی اور کو نہیں کہہ سکتا کہ آپ جوا نہ کھیلیں۔ بلکہ آپ کو ایک پتے کی بات بتاؤں۔ جواری لوگ اپنی اولاد کو جوا نہیں کھیلنے دیتے کیونکہ ان کو اس کی بیماریوں اور نقصانات کا پتا ہوتا ہے لہٰذا اپنی اولاد کو اس سے بچاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اگر کوئی بیماری اپنے اندر ہو تب اس سے دوسرے کو روک سکتے ہیں۔ یہی طریقہ آپ اختیار کریں کہ اگر اپنے اندر کوئی غلطی دیکھیں تو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس سے بچائیں۔ بلکہ اپنے اندر غلطی کا ادراک ہونے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ دوسروں کو اس سے بچائیں۔ اس سے دوسروں کو بھی فائدہ ہو گا اور آپ کو بھی نقصان نہیں ہو گا۔ لہٰذ یہ عمل جاری رکھیں۔
سوال نمبر 17:
حضرت مراقبہ کے بارے میں کچھ رہنمائی فرما دیں کہ مراقبہ کا کیا مطلب ہے؟
جواب:
کبھی آپ نے بلی کو چوہے پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ وہ کیا کرتی ہے۔ وہ گھات لگا کے بیٹھتی ہے،اس کے پورے حواس چوہے کی طرف ہوتے ہیں۔ اس کے کان، اس کے بال، اس کی آنکھیں، اس کے پیروں کی position، اس کا منہ الغرض ساری چیزیں alert ہوتی ہیں کہ جیسے ہی چوہا آئے اسے دبوچ لے۔ بس مراقبہ کی یہی کیفیت ہے کہ جو روحانیت آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے alert ہوکر بیٹھ جائیں، جونہی وہ آپ کو محسوس ہو آپ اس کو catch کر لیں۔ یہی مراقبہ ہے۔ مثلاً انسان کا دل ہمیشہ ذکر کر رہا ہوتا ہے، لیکن انسان اس کو catch نہیں کر پا رہا ہوتا۔ وہ اس کے تصور میں بیٹھ جاتا ہے کہ میرا دل ذکر کر رہا ہے اور ہوتے ہوتے ایک دن اسے دل کا ذکر محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر 18:
حضرت یہ بتائیں کہ مراقبہ کے لئے کیا چیز ضروری ہے اور کیسے کیا جاتا ہے؟
جواب:
یہ تمام چیزیں تدریج کے ساتھ ہوتی ہے۔ تربیت ہمیشہ تدریج کے ساتھ ہوتی ہے جیسے gymnastic میں لوگ محیر العقول کام کرتے ہیں۔ دیکھنے والے لوگ حیران ہو جاتے ہیں کہ یہ کیسے کرلیتے ہیں۔ یہی کام اگر وہ پہلے دن کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ ان کی training ہوتی ہے اور ہوتے ہوتے ایک وقت میں وہ کام ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر انسان تدریج کے ساتھ لگا رہے تو پھر ذکر بھی محسوس ہو سکتا ہے۔
ہمارے ہاں اس کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ ہم پہلے لسانی ذکر دیتے ہیں۔ مثلاً ہم نے کسی کو چالیس دن کے لئے 300 دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ 200 دفعہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ کا ذکر روزانہ کرنے کے لئے دے دیا۔ انہوں نے اسے روزانہ کی بنیاد پر کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ چالیس دن مکمل کر لیے۔ اس طرح ان کی ایک عادت بن گئی کہ میں نے روز ایک وقت بیٹھنا ہے اور ایک عمل کرنا ہے۔ اس طرح پہلی assignment مکمل ہو گئی۔ اس کے بعد پھر ہم ان کو کچھ ذکر جہری بتاتے ہیں۔ ذکر جہری ایسی چیز ہے جس سے انسان کا دھیان پکا ہوتا ہے، توجہ پختہ ہوتی ہے۔ گرمیوں میں آپ نے دیکھا ہو گا کہ پنکھا چل رہا ہوتا ہے، اس پنکھے کے شور میں باہر کے سارے شور دب جاتے ہیں۔ جب کبھی بجلی جاتی ہے تو آپ کو پتا چلتا ہے کہ باہر تو بہت ساری چیزیں ہو رہی ہیں۔ آپ کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ پنکھے کی آواز نے ان چیزوں کو دبا دیا تھا۔ اسی طرح جب آپ ذکر جہری کرتے ہیں تو آپ اپنی توجہ باہر کی دنیا سے کاٹ دیتے ہیں اور اپنے اندر مگن ہو جاتے ہیں، گویا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ لگے رہتے۔ یہ یکسوئی پیدا کرنے کا ایک بہت اچھا ذریعہ ہے۔ جس وقت یہ ایک خاص حد تک پہنچ جائے تب ہم ان کو مراقبہ بتاتے ہیں کہ اب آپ اس طرح کریں کہ آنکھیں بند کر کے قبلہ رخ بیٹھ کر یہ تصور کریں کہ ہر چیز اللہ اللہ کر رہی ہے۔ میرا دل بھی ایک چیز ہے یہ بھی اللہ اللہ کر رہا ہے، دل کے اللہ اللہ کرنے کو سننے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ کوشش تب تک جاری رہتی ہے جب تک دل کا ذکر محسوس ہونا شروع نہ ہو جائے۔ یہاں جتنے لوگ بیٹھے ہیں ان میں سے جن کو دل کا اللہ اللہ کرنا محسوس ہوتا ہے اگر آپ ان کے سامنے لاکھ دفعہ کہہ دیں کہ نہیں ہوتا، وہ کہیں گے اچھا ٹھیک ہے آپ کو نہیں ہوتا ہمیں تو ہوتا ہے۔ وہ ہنس پڑیں گے کیونکہ ان کو محسوس ہو رہا ہوتا ہے۔ اور جن کو محسوس نہیں ہو رہا ہوتا ان کو ایک لاکھ دفعہ بھی کہہ دیں کہ محسوس ہوتا ہے تو وہ کہیں گے کیسے ہوتا ہے، ہمیں تو نہیں ہوتا۔ لہٰذا جس وقت محسوس ہونے لگتا ہے تو انسان کو خود ہی پتا چل جاتا ہے کہ کیسے ہوتا ہے۔ اس کی کیفیت کسی اور کو نہیں بتائی جا سکتی۔ لیکن یہ ہوتا ہے اور اس کا آدمی کو خود پتا چلتا ہے کہ ہو رہا ہے۔ ہم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جسم کا ذرہ ذرہ اللہ اللہ کر رہا ہوتا ہے۔ دل سے تو ہم صرف ابتدا کرتے ہیں۔دل کے بعد 5 Sensing points، قلب،روح،سر، خفی اور اخفیٰ پر مراقبہ کراتے ہیں، پھر پورے جسم پر یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کا ایک لمبا سلسلہ چلتا ہے۔ اس سارے پروسیس کے بعد آہستہ آہستہ انسان کے اندر یہ capability آ جاتی ہے کہ ملاء اعلی کی وہ چیزیں جو ہماری access میں نہیں ہیں ان کے ساتھ انسان کا رابطہ ہو جاتا ہے۔ وہاں کی چیزیں منکشف ہونے لگتی ہیں۔ پہلے جو چیز بالکل محسوس نہیں ہوتی تھی، صرف ایک کتابی چیز نظر آتی تھی وہ انسان کو محسوس ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ بہرحال یہ ناممکن بھی نہیں ہے اور آسان بھی نہیں ہے۔ جو کوشش کر لیتے ہیں وہ پا بھی لیتے ہیں۔
سوال نمبر 19:
کچھ لوگ زیادہ sensitive ہوتے ہیں۔ انہیں عبادت کے وقت زیادہ وسوسے آتے ہیں۔ اس کا کیا حل کیا جائے۔
جواب:
اس بارے میں اصول یہ ہے کہ جو چیز آپ کے اختیار میں نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اس پر آپ کی گرفت بھی نہیں کرتے۔ مثلاً ایک آدمی میری reach میں نہیں ہے، میں اس کو control نہیں کر سکتا اور وہ مجھے گالیاں بک رہا ہے تو مجھے اس کا کتنا گناہ ہو رہا ہے، مجھے تو کوئی گناہ نہیں ہو رہا بلکہ اس سے جو تکلیف ہو رہی ہے اس پر مجھے اجر ملے گا۔ وسوسہ بھی اسی طرح کی چیز ہے کہ شیطان بک رہا ہے، وسوسہ میں آپ کو جو بھی خیالات آ رہے ہیں، یہ شیطان کر رہا ہے آپ نہیں کر رہے، لہٰذا آپ کو اس کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ شیطان پلاننگ کرتا ہے اور وسوسے ڈال کر آپ کو تنگ کرتا ہے کیونکہ اسے پتا ہے کہ آپ اس سے تنگ ہوتے ہیں۔ جب شیطان کو پتا لگ جاتا ہے کہ یہ تنگ ہوتا ہے تو وہ مزید وسوسے ڈالتا ہے۔ اگر آپ یہ سوچ ذہن میں پختہ کر لیں کہ وساوس سے مجھے کچھ نقصان نہیں ہوتا مجھے ان کی پروا ہی نہیں کرنی چاہیے اور آپ ان کی پروا کرنا چھوڑ دیں تو پھر شیطان وساوس ڈالنا بھی چھوڑ دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے میں خواہ مخواہ اس پر اپنا وقت کیوں لگاؤں یہ تو پروا ہی نہیں کرتا۔
صحابہ کرام کو اتنے خطرناک وساوس آئے تھے کہ وہ آپ ﷺ کے پاس گئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ہمیں ایسے وسوسے آتے ہیں کہ ہم ان کا اظہار بھی نہیں کر سکتے، اس سے بہتر ہے کہ ہم کوئلہ ہو جائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا واقعی آپ کی حالت ایسی ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا جی ایسی ہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ذَاكَ صَرِیْحُ الْاِیْمَان یہی تو اصل ایمان ہے۔ یعنی ایسے وساوس کے باوجود آپ اپنے ایمان پر قائم ہیں اور شیطان کی بات نہیں مان رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا ایمان پختہ ہے۔
لہٰذا آپ بھی ان وساوس کی پروا نہ کریں چاہے کسی بھی طرح کے وسوسے آئیں۔ ہمارے حضرات فرماتے ہیں کہ وسوسوں کی مثال بجلی کے تاروں کی طرح ہے اس کو ہٹانے کے لئے بھی ہاتھ لگائیں گے تو یہ پکڑ لیں گے۔ اس میں آپ یہ بات اچھی طرح سمجھیں کہ یہ وساوس والا کام شیطان کر رہا ہے آپ تونہیں کر رہے، اسی لئے آپ کو تکلیف ہو رہی ہے۔ اگر آپ کر رہے ہوتے تو آپ کو تکلیف ہی نہ ہوتی۔ لہٰذا جب آپ یہ کام کر نہیں رہے تو آپ پر اس کا جرم بھی نہیں۔ اس لئے ان کو نظر انداز کرکے آگے بڑھیں۔
سوال نمبر 20:
حضرت جی میرے چار لطائف پر 10، 10 منٹ کے مراقبے ہیں۔ اگر لطیفۂ سر پر مراقبہ کر رہی ہوں اور اس پر کچھ محسوس نہ ہو اور لطیفۂ قلب پر جاری ہو تو توجہ کس طرف مرکوز رکھنی چاہیے۔
جواب:
ہم چار لطائف کا مراقبہ دیا کرتے ہیں۔ آپ نے صرف دو لطائف کی کیفیت کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ لطیفۂ قلب پر تو آپ کو ذکرمحسوس ہو رہا ہے۔ باقی تینوں پر ابھی محسوس نہیں ہو رہا۔ لطیفۂ قلب کے بعد لطیفۂ روح کا نمبر ہے اس کے بعد سر، خفی اور اخفیٰ کا۔ اس لئے پہلےلطیفۂ روح پر مراقبہ کریں، جب لطیفۂ روح چل پڑے پھر لطیفۂ سر اور باقی لطائف پر آئیں گے۔
سوال نمبر 21:
اگر مراقبہ کے دوران اذان ہو جائے تو مراقبہ روک کر جواب دینا چاہیے یا مراقبہ جاری رکھا جائے؟
جواب:
اگر مراقبہ جاری ہو اور اذان شروع ہو جائے تو مراقبہ کو روک کر اذان کا جواب دینا چاہئے۔ لیکن اس میں مینجمنٹ ایسے کرنی چاہیے کہ مراقبہ ایسے وقت شروع ہی نہیں کرنا چاہیے جس میں اذان متوقع ہو،کیونکہ ٹائم کا پتا ہوتا ہے کہ کتنا ٹائم لگے گا۔ مثلاً ابھی 7 بج کے 35 منٹ ہوئے ہیں اور پونے سات بجے اذان ہونے والی ہے۔ اگر میں 7 بج کر 40 منٹ پر 15 منٹ کا مراقبہ شروع کر لوں تو درمیان میں اذان تو لازماً آئے گی۔ اس لئے اگر مجھے شروع کرتے وقت علم ہو کہ مراقبہ ختم ہونے سے پہلے اذان ہونی ہے تو اس وقت شروع ہی نہیں کرنا چاہیے۔
سوال نمبر 22:
حضرت life insurance ایک نیا سلسلہ تکافل کے نام سے آیا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
اس کے متعلق کسی عالم سے پوچھیں۔
سوال نمبر 23:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت اذکار اور مراقبات میں عُجب کے element کو کیسے negate کیا جائے۔ کیسے پتا چلتا ہے کہ یہ عجب ہے یانہیں ہے۔ بعض اوقات بندے کواپنے بارے میں کچھ احساسات آتے ہیں، ان کے بارے میں کیسے متعین کیا جائے کہ وہ عجب ہی ہے یا کچھ اور؟
جواب:
عجب کو سمجھنا چاہیے کہ عجب ہوتا کیا ہے۔ عجب یہ ہے کہ انسان کی نظر اپنے اوپر پڑ جائے اللہ پر نہ ہو۔ یعنی انسان عمل کی نسبت اپنی ذات کی طرف کر لے کہ یہ میں نے کیا ہے اور الله جل شانہٗ کی مدد کو بھول جائے۔ عجب تکبر کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ تکبر کی طرح عجب بھی حرام ہے۔
آپ نے کہا کہ اگر کوئی عجب کو محسوس کرے تو کیسے متعین کرے۔ اگر کوئی بندہ اپنے اندر پائے جانے والے عجب کو محسوس کر لے اور سمجھ جائے کہ یہ عجب ہے اور اسے معلوم ہو کہ عجب ایک بیماری ہے، ایک حرام فعل ہے تو عجب ختم ہو گیا۔ لہٰذا عجب کا محسوس ہو جانا، ادراک ہوجانا ہی اس کا علاج ہے۔ کیونکہ عجب محسوس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو احساس ہو گیا ہے کہ میرے اندر یہ روحانی بیماری ہے، جب تک یہ مجھ میں ہے تب تک میں برا ہوں۔ جب اس نے اپنی برائی کی طرف نظر کر لی تو عجب ختم ہو گیا، عجب رہا ہی نہیں۔ لہٰذا جو عجب feel کرے تو اس کے دل میں ساتھ ہی یہ بات بھی آئے گی کہ میرے دل میں جو یہ بات پیدا ہو رہی ہے یہ عُجب ہے، ایک بیماری ہے۔ در اصل یہ تو میرا کام ہے ہی نہیں یہ اللہ پاک کی مدد سے ہوا تھا۔ لہذا عجب خود بخود ختم ہو جائے گا۔
سوال نمبر 24:
توکل کے بارے میں بتا دیں۔
جواب:
توکل کے دو پہلو ہیں۔ ایک علمی دوسرا عملی۔ عملی پہلو کو سمجھنے کے لئے آپ کو باقاعدہ تصوف میں آنا پڑے گا کیونکہ تصوف عملی چیز ہے۔ توکل سلوک کے دس مقامات میں سے آٹھواں مقام ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لئے آپ کو اس سے پہلے کے سات مقامات حاصل کرنے ہوں گے تب آٹھواں مقام حاصل ہو گا۔ لہٰذا عملی عملی طور پر تو تب ہی ہو گا جب آپ اس process میں in ہو جائیں گے۔ البتہ اس کا علمی پہلو میں ابھی بتا سکتا ہوں۔
علمی طور پر اس کی تشریح یہ ہے کہ توکل کا مطلب ہے اللہ پر بھروسہ۔ اللہ پر بھروسے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اسباب پورے اختیار کر لیں کیونکہ اسباب کا اختیار کرنا اللہ کا حکم ہے اور اس کا نتیجہ خدا پر چھوڑ دیں۔ اس بارے میں یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو ہو جائے گا منظور نہیں ہوا تو نہیں ہو گا۔
میں آپ کو اس کی مثال دیتا ہوں آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم اونٹ کے گھٹنے کو باندھ کر توکل کریں یا اونٹ کے گھٹنے کو کھلا چھوڑ کر توکل کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اونٹ کے گھٹنے کو باندھ کر توکل کرو۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسباب اختیار کرنے کا حکم ہے۔ لہٰذا اسباب تو ضرور اختیار کریں گے لیکن نتیجہ خدا پر چھوڑ دیں گےکیونکہ بعض دفعہ انسان بہت کوشش کرتا ہے،اس کے باوجود وہ کام نہیں ہوپاتا کیونکہ اللہ کو منظور نہیں ہوتا۔ الغرض توکل کا مطلب یہ ہے کہ اپنی طرف سے اسباب اختیار کرنے کے بعد نظر اللہ پر ہو۔ اللہ پر نظر تب ہوتی ہے جب یہ چیز عملی طور پر حاصل ہو جاتی ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ