خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی ، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔
آج پیر کا دن ہے پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالوں کے جوابات دئیے جاتے ہیں۔
سوال نمبر 01:
ایک صاحب نے ایک cutting بھیجی ہے جس میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا دنیا اور آخرت کے عنوان سے ایک وعظ ہے۔ فرماتے ہیں ایک نقشبندی بزرگ تھے جن پر سکون غالب ہوتا ہے چشتی بھی نہیں تھے کہ مغلوب ہوں انہوں نے مرتے ہوئے یہ وصیت کی کہ میرے جنازے کے ساتھ ایک خوش آواز آدمی یہ قطعہ پڑھتا ہوا چلے۔
مفلسانیم آمدہ در کوئے تو
شیءًا للہ از جمال روئے تو
دست بکشا جانب زنبیل ما
آفریں بردست و بر بازوئے تو
آپ کے دربار میں ہم مفلس ہو کر آئے ہیں اپنے جمال کے صدقے میں کچھ عنایت فرمائیں ہماری زنبیل کی طرف ہاتھ بڑھائیے، آپ کے دست و بازو پر آفرین ہو۔
اگر کوئی چشتی ایسی وصیت کرتا تو غلبہ کی تاویل بھی ہو سکتی تھی کیونکہ سوختن افروختن ان کا حصہ ہے۔ تو اس صاحب نے لکھا ہے کہ یہ نقشبندی، چشتی والی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ اس کی وضاحت کیجئے۔
جواب
اصل میں مختلف مزاج ہوتے ہیں، مزاج سے مراد یہ ہے کہ چونکہ نقشبندی حضرات باوقار ہوتے ہیں اور سماع کی طرف زیادہ مائل نہیں ہوتے، جب کہ چشتی حضرات ذرا ولولہ انگیز ہوتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چشتی حضرات کا ذوق اس شعر کے ساتھ tally کرتا ہے۔
سوختن افروختن و جامہ دریدن
پروانہ ز من شمع ز من گل ز من آموخت
سوختن بمعنیٰ جلنا، افروختن بمعنیٰ پگھلنا اور جامہ دریدن بمعنیٰ کپڑے پھاڑنا۔ شعر کا ترجمہ یہ ہوا کہ یہ پروانے نے ہم سے سیکھا ہے، شمع نے ہم سیکھا ہے اور پھول نے ہم سے سیکھا ہے۔ یعنی پروانہ جل جاتا ہے محبت کی وجہ سے اور شمع پگھل جاتی ہے اور پھول کپڑے پھاڑ لیتا ہے یعنی اس کے پتے گر جاتے ہیں۔ گویا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ چونکہ چشتی حضرات کا مزاج ایسا ہوتا ہے لہٰذا اگر یہ اس طرح کرتے تو کوئی بات سمجھ میں آتی۔ لیکن چشتی نہیں تھے ان پر تو سکون غالب ہوتا ہے اس کے باوجود انہوں نے ایسا کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ کام عشق کی وجہ سے ہو سکتے ہیں۔
ایک خاتون نے مجھے audio میں بھیجی ہے، جب کہ میں نے کئی بار منع کیا ہے کہ audio نہ بھیجا کریں کیونکہ میں یہ کیسے سناؤں گا؟ اور پھر جواب کیسے دیا جائے گا لہذا آئندہ کے لیے آپ audio نہیں بھیجا کریں بلکہ text کی صورت میں بھیجا کریں کیونکہ جب وہ پہلے سے میرے پاس text فارم میں موجود ہو گا، تو جب میں یہاں جواب دوں گا تو مجھے پتہ چل جائے گا کہ اسے میں نے یہاں شامل کرنا ہے یا نہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ کی آواز بھی چونکہ ستر ہے اس لیے میں عام مجلس میں اس کو سنا نہیں سکوں گا۔ لہذا آئندہ کے لیے جب بھی اس قسم کے forum میں سوال بھیجیں یا اپنا حال بھیجیں تو text کی صورت میں بھیجا کریں۔
سوال نمبر 02:
السلام علیکم حضرت جی عرض کرنا ہے کہ باہر ہوتا ہوں تو آپ کی برکت سے روضۂ اطہر مبارک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دھیان نصیب ہوتا ہے، لیکن خانقاہ میں آپ کی موجودگی میں ایسا نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ ایک اور بات آپ سے معلوم کرنی تھی کہ جب آنکھیں بند کریں تو خلا سا محسوس ہوتا ہے اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ اگر سوال میں کچھ غلطی ہوئی تو معافی چاہتا ہوں۔
جواب:
یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ کا دھیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کی طرف جاتا ہے تو طریقۂ کار یہ ہے کہ فَنَا فِی الشَّیْخِ، فَنَا فِی الرَّسُوْلِ اور فَنَا فِی اللہِ یہ تین stages ہوتے ہیں لہذا پہلے شیخ پہ مر مٹنا ہوتا ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر اور پھر الله جل شانهٗ کے لیے فنائیت حاصل کرنی ہوتی ہے۔ اس طریقے سے انسان safe side پہ چلا جاتا ہے۔ کیونکہ شیخ ذریعہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں تک پہنچنے کے لیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں ذریعہ ہیں اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے۔ شیخ کی مجلس کے متعلق بزرگ یہاں تک فرماتے ہیں کہ اس وقت لسانی ذکر بھی موقوف کر دینا چاہیے اور بعد میں کرنا چاہیے۔کیونکہ اصلاحِ نفس فرضِ عین ہے اور شیخ کی مجلس اس کا موقع ہوتا ہے لہذا شیخ کی مجلس میں تو شیخ کی طرف ہمہ تن متوجہ ہونا چاہیے۔ اور اس میں یہ استحضار ہو کہ اللہ تعالیٰ شیخ کے دل پر جو کچھ وارد فرما رہا ہے اس میں جو میرا حصہ ہے وہ مجھے مل رہا ہے۔ یعنی شیخ کی مجلس میں اس تصور کے ساتھ بیٹھنا چاہیے۔
سوال نمبر 03:
شیخ صاحب! ایک اور مسئلہ ہے کہ میرے papers ہونے والے ہیں تو کیا میں لطائف میں وقفہ کر سکتی ہوں؟ کیونکہ مجھے پھر بالکل وقت نہیں ملتا ہے اور نیند بھی پوری نہیں ہوتی، رات کو دیر تک جاگنا پڑتا ہے اور صبح جلدی اٹھنا پڑتا ہے، تو جب میں لطائف کے لیے بیٹھتی ہوں تو مجھے نیند آتی ہے جس کی وجہ سے میں صحیح سے نہیں کر پاتی۔
جواب:
کافی تفصیل سے اس کا جواب دینے کی ضرورت ہو گی کیوں کہ دو systems جو parallel چل رہے ہیں ان کو ملانے کی بات ہے۔ ایک system انسان کی دنیاوی تعلیم ہے جس کے اپنے تقاضے ہیں اور دوسرا روحانی تربیت کا جس کے اپنے تقاضے ہیں۔ میں ایک تیسرے system کو بھی اگر اس کے ساتھ شامل کر لوں تو شاید بات جلدی سمجھ میں آ جائے اور وہ ہے انسان کے جسم کی ضرورت یعنی کھانا، پینا اور آرام کرنا وغیرہ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کے جسم کی requirement کے مطابق اگر کوئی کام کرتا ہے تو وہ ٹھیک ہوتا ہے۔ مثلاً اس کی نیند اگر پوری ہو تو اس کی efficiency زیادہ ہوتی ہے، تھوڑی دیر میں وہ زیادہ سیکھ جاتا ہے یا اگر ذہنی کام ہو تو زیادہ کام کر سکتا ہے اور اگر تھکا ہوا ہو، آرام پورا نہ کیا ہو تو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، efficiency کم ہو جاتی ہے، جس بنا پر صحیح انداز میں کام نہیں ہوتا۔ ہمارے ایک class fellow تھے جو بہت محنت کرتے تھے لیکن 3rd division لیتے تھے۔ ایک دن میں نے ان سے کہا: صرف پڑھنا مطلوب نہیں ہے بلکہ پڑھے ہوئے کو ہضم کرنا مطلوب ہے۔ یعنی آپ کو اس کی سمجھ بھی آنی چاہیے۔ چونکہ آپ صرف پڑھتے ہیں سمجھنے پہ آپ زیادہ توجہ نہیں کر رہے لہٰذا بجائے فائدے کے آپ کو نقصان ہوتا ہے۔ حالانکہ آپ پڑھتے زیادہ ہیں لیکن فائدہ آپ کو نہیں ہو رہا۔ تو اسی طرح اگر آپ کی جسمانی ضرورت ہے آپ کہتی ہیں نیند پوری نہیں ہوتی تو یقیناً آپ کی پڑھائی بھی ٹھیک طریقے سے نہیں ہو گی، اس کی وجہ سے بھی آپ کو نقصان اٹھانا ہو گا، تو پڑھنے کا style اس طرح اپنائیں کہ پورا سال صرف امتحانوں میں نہیں پڑھنا ہوتا۔ بلکہ جیسے کہتے ہیں کہ آج کا کام کل پہ نہ چھوڑو اسی طرح ہر کام اپنے اپنے وقت پر کریں۔اس انداز میں اگر پڑھیں گی تو آپ کو زیادہ موقع ملے گا۔ جہاں تک spiritual attachment کی بات ہے تو ان کو اگر sacrifice کر لیں تو بظاہر آپ کا ٹائم بچےگا، لیکن اس کے concequences آپ کو نقصان بھی پہنچائیں گے کیونکہ اس کی وجہ سے جو ذہنی سکون ہوتا ہے وہ آپ کو نہیں ہو گا۔ اس وجہ سے بھی آپ کو مسائل پیش آئیں گے۔ لہذا آپ تینوں کو اپنی اپنی جگہ پہ صحیح کریں۔ پڑھائی کو بھی ٹائم دیں لیکن اتنا جتنی آپ کی position ہے جتنی آپ کی physique ہے۔ اپنے جسم کے ساتھ لڑیں نہیں۔ اپنے جسم کو استعمال کریں کیونکہ لڑنا بعض دفعہ مہنگا پڑتا ہے۔ لہذا اپنی پڑھائی بھی صحیح وقت کریں۔ اور لطائف بھی اپنے وقت پہ کریں، کیونکہ اگر آپ اس کو چھوڑ دیں گی تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے؟ میں تو کہوں گا نہ کریں۔ لیکن اس سے جو آپ کی ترقی رکے گی وہ آپ کا آگے آگے بہت راستہ روکے گی۔ اس لیے آپ لطائف بھی نہ روکیں۔ اپنا کھانا پینا بھی ٹھیک رکھیں اور آرام بھی اور ساتھ ساتھ اپنا کام بھی۔ جتنے کام چوبیس گھنٹے میں ہو سکتے ہیں اتنے ہی کریں اس سے زیادہ نہ کریں ورنہ پھر آپ کو بجائے فائدے کے نقصان ہو گا۔
سوال نمبر 04:
السلام علیکم
My dear and beloved مرشد I hope you are well ان شاء اللہ
حضرت جی!
I was looking for a new phone on the internet and I accidently looked at a partially dressed woman in a phone advertisement. I also accidently looked at a lady while dropping in the city center yesterday. The way I sometimes speak to customers at work is not polite. I sometimes feel I will never be able to better my اخلاق and control my tongue.
جواب:
اصل میں دو extremes کے اندر رہتے ہوئے آپ نے balance پہ رہنا ہے۔ ایک extreme یہ ہے کہ آدمی پرواہ نہ کرے اور خراب ہوتا رہے، دوسری extreme یہ ہے کہ اتنی پرواہ کرے کہ وہم ہو جائے اور کام ہی نہ کر سکے اور مایوس ہو جائے۔ دونوں باتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ لہذا آپ اپنے اختیار کو استعمال کریں اور غیر اختیاری چیزوں کے پیچھے نہ پڑیں۔ مثلاً آپ advetisement دیکھ رہے ہیں اور کوئی صورت آ جاتی ہے تو اس سے فوراً اپنی نظر ہٹا لیا کریں کیونکہ پہلی نظر چونکہ غیر ارادی تھی وہ حدیث شریف کی رو سے معاف ہوتی ہے۔ لیکن اس پہ اصرار و استمرار یعنی اس کو باقی رکھنا جرم ہے۔ تو اس سے فوراً جب آپ نظر ہٹائیں گے تو آپ کو اجر ملے گا۔ یہ اس صورت میں ہے کہ آپ کو پہلے سے پتہ نہ ہو کہ ابھی کوئی تصویر آنے والی ہے اور اگر پہلے سے پتہ ہو تو پھر نہ کریں۔ لہذا ایک تو خود اپنی مرضی سے دیکھیں نہ اور اگر accidently آ جائے تو نظر ہٹا لیا کریں۔ اسی طریقے سے آپ life میں بھی کر لیا کریں اور مایوس بھی نہ ہوا کریں، کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے مایوسی کے لیے پیدا نہیں کیا، عمل کے لیے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا اگر آپ صحیح وقت پہ صحیح فیصلہ کریں گے اور اختیاری کو اختیار کریں گے اور غیر اختیاری چیزوں سے بچیں گے یعنی ان کے پیچھے نہیں پڑیں گے تو ان شاء اللہ کامیابی ہو گی۔
سوال نمبر 05:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ حضرت جی! مجھے ذکر دیتے ہوئے کبھی بھی اس کے ساتھ کچھ تصور کرنے کا آپ نے نہیں کہا لیکن خانقاہ میں اجتماعی ذکر کے دوران آپ سے سنا تھا اور website پر بھی پڑھا تھا کہ "لَا اِلٰهَ" کے ساتھ یہ تصور کرنا کہ دنیا میرے دل سے نکل رہی ہے اور "اِلَّا اللہ" کے ساتھ اللہ کی محبت میرے دل میں آ رہی ہے۔ "حَق" کے ساتھ یہ کہ چھوٹے چھوٹے بت گرا رہا ہوں اور "اَللہ" کے ساتھ یہ کہ میرا دل بھی اللہ اللہ کر رہا ہے اور اللہ میرے دل کو محبت کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔البتہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" کے ساتھ کچھ نہیں تصور کر رہا۔ حضرت جی مجھے ڈر ہے کہ میں اپنی مرضی کا شکار نہ ہو گیا ہوں۔ کیا یہ تصورات میں ذکر کے ساتھ کر سکتا ہوں؟
جواب:
اگر آپ capable ہیں تو بالکل کر سکتے ہیں۔ البتہ "لَا اِلٰهَ" کے ساتھ یہ تصور کریں کہ دنیا کی محبت دل سے نکل رہی ہے اور "اِلَّا اللہ" کے ساتھ اللہ کی محبت دل میں آ رہی ہے اور "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" کے ساتھ یہ تصور کریں کہ میرا مقصود کچھ بھی نہیں مگر وہ "اِلَّا ھُو" یعنی میرا مقصود وہی ہے "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" اور "حَق" کے ساتھ یہ تصور کریں کہ دل میں دنیا کی محبت کے جتنے بھی جھوٹے بت ہیں وہ سب اس کے ساتھ گر رہے ہیں۔ اُس کا تعلق آپ اس چیز کے ساتھ جوڑیں کہ اللہ پاک نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کا فرمایا تو آنحضرتﷺ نے انہیں لکڑی سے گرانا شروع کر دیا اور ساتھ ہی یہ پڑھتے جاتے تھے:﴿جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا﴾ (الاسراء: 81) ”یعنی حق آ گیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے کے لیے تھا“۔ آپ بھی اس ذکر کو شروع کرتے ہوئے یہ آیت پڑھیں اور پھر ساتھ یہی مراقبہ کریں۔ اور اللہ کا مراقبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
سوال نمبر 06:
حضرت جی! ایک دو مہینوں سے یہ کیفیت ہے کہ دل کے اوپر گردن کے پاس عموماً یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی کیڑا سا رینگ رہا ہو اور اکثر کھچاؤ سا محسوس کرتا ہوں۔ باقی ذکر کے دوران دل کی جگہ پر ہلکا سا بوجھ اور درد محسوس ہوتا ہے مزید یہ کہ اس مہینے میں دورانِ ذکر اکثر یوں محسوس ہوتا جیسے میرا جسم دائیں بائیں ہل رہا ہو کئی بار آنکھیں کھول کر جائزہ لیا تو ساکت ہوتا ہوں مگر جیسے ہی آنکھیں بند کرتا ہوں تو وہی جھولنے کا پھر سے احساس ہوتا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ کبھی کبھار یوں لگتا ہے کہ میرا سینہ اندر سے آگے پیچھے حرکت کر رہا ہے یا پیٹھ کی طرف سے آگے کی طرف ایک حرکت کی لہر سی آتی ہے باقی مراقبے میں اسم ذات سننے کی کوشش کرتا ہوں مگر دھڑکن کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا وہ بھی کبھی قطعاً واضح کبھی ہلکا ہلکا اور کبھی قطعاً سنائی نہیں دیتا۔
جواب:
یہ transit ہے یعنی آہستہ آہستہ آپ اس کی طرف بڑھ رہے ہیں، فی الحال صرف تسلی کے لیے کہ کم از کم آپ کو tension نہ ہو، کسی cardiologist کو check کرا لیں کہ آپ کو دل کا کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ذکر کرنے سے کسی کے دل کو تکلیف نہیں ہوتی، نقصان نہیں ہوتا۔ لیکن دل کی تکلیف ہو تو پھر یہ ذکر نہیں دیتے۔ لہذا ہمیں پہلے یہ check کرنا ہو گا کہ کہیں آپ کو دل کی تکلیف تو نہیں، اگر نہیں ہے تو پھر پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ ساری کیفیات ذکر کے اثرات ہیں اور یہ ہوتے رہتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان شاء اللہ یہ ایک واضح رخ اختیار کریں گے۔
سوال نمبر 07:
حضرت محترم! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے الحمد للہ ذکر کی توفیق ہو رہی ہے آپ نے جو اذکار، مراقبہ کار گزاری نصیحت کی تھی وہ نیچے تحریر کر رہا ہوں مندرجہ ذیل اذکار کا ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ الحمد للہ
"لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ" 200، "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" 400، "حَقْ" 600، "حَقْ اَللہ" 500، "ھُو" 500، "اَللہ ھُو" 200۔
"حَق اللہ" کے ساتھ یہ تصور رہا کہ اللہ تعالیٰ مجھ پہ حق کو واضح کر رہے ہیں اور جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ حق ہے اور میں اسی پر راضی ہوں۔
مراقبہ: دل میں خیال رہا ہے کہ طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت پر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں اور اس پر چل کر دکھاؤں گا۔ ان شاء اللہ
مقدار 10 منٹ ہے۔
آپ نے مجھے پورے مہینے کی غلطیوں کو record کرنے کا اور زمرہ بھیجنے کا فرمایا تھا
کار گزاری: اس ماہ میں جو غلطیاں ہیں ان کا زمرہ، تمام غلطیوں کے بعد توبہ کی اور دو مرتبہ صلاۃ التوبہ بھی پڑھی۔ مگر انتہائی عاجزی کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ کمزوری و غفلت کی وجہ سے غلطیاں ہوتی ہیں۔
غلطیاں کیا ہیں: کسی شخص کی غیر موجودگی میں ایسی بات کرنا جو اس کے سامنے نہیں کی جا سکتی، شاید غیبت 6 مرتبہ۔ اور خلافِ واقعہ بات یعنی جھوٹ 11 مرتبہ۔ نامحرم پر نظر آمنے سامنے 2 مرتبہ اور موبائل میں سے 2 سے 3 مرتبہ۔ گھر والی پر غصہ ایک مرتبہ۔ غیر ضروری باتیں، زیادہ باتیں آٹھ مرتبہ بار بار توبہ کی، اب پھر توبہ کر رہا ہوں کہ آئندہ بہرحال ان غلطیوں سے بچنے کی کوشش کروں گا۔ کم بولنے کا مجاہدہ کر چکا ہوں۔ باقی کافی حد تک کم ہیں مگر مندرجہ بالا رذائل کی وجہ سے پریشانی ہے۔
جواب:
کوئی پریشانی کی بات نہیں آپ صرف اگلے text میں مجھے بھیج دیجئے کہ اس میں کون سی چیز اختیاری ہے کون سی غیر اختیاری ہے پھر میں بتاؤں گا۔
سوال نمبر 08:
السلام علیکم! آپ نے مراقبہ دیا ہے دس منٹ قلب پر فیض آنا بذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخ۔ کیا یہ آنکھیں کھلی رکھ کر ممکنات میں سے ہے یا آنکھیں بند کرنا لازمی ہے؟
جواب:
آنکھیں یکسوئی کے لیے بند کی جاتی ہیں اور یکسوئی کے بارے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ یکسوئی ہو چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو۔ لہٰذا اگر آپ کو آنکھیں کھلی ہونے پر بھی یکسوئی اس کے ذریعے سے حاصل ہو جاتی ہے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ کو یکسوئی حاصل نہیں ہو رہی تو آنکھیں بند کرنی چاہئیں تاکہ آپ کو یکسوئی حاصل ہو۔
سوال نمبر 09:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
I hope حضرت is well (الحمد للہ) ! We are regular without صلوۃ التسبیح. We wanted to inform حضرت that we have this بیماری of not protecting our gaze and looking at non-mahram. Please guide us. These are other Bimariz: backbiting and talking a lot. We don’t have اخلاق.
جواب:
So please tell me among those which are اختیاری and which are غیر اختیاری. It means which are in your control and which are not in your control. Then I shall tell you what to do ان شاء اللہ.
As far as اخلاق is concerned, so اخلاق, it's actually the last thing to achieve because اخلاق is a combination of many things. So one cannot say this is whole. He has to conclude you can say step by step each and every thing not collectively but one by one. So please do this first: which bimariz are these you are asking me about? Please tell me weather these are in your control or not in your control and then ان شاء اللہ I shall tell you.
میں نے ان سے پوچھا اس میں اختیاری کونسا ہے غیر اختیاری کونسا ہے؟ انہوں نے کہا
I hope حضرت is well and family! The bimariz which are not in our control are all of them. Sometimes, we have اختیار sometimes, it's not اختیاری.
میں نے کہا ﴿لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286)
Means that all those things which are forbidden are in control and everyone can do it. But without تربیت, it is difficult and with تربیت it becomes easy. That's why سلوک has to be completed.
"وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ"۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم حضرت 400 دفعہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ"، "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو"، "حَق" اور 100 دفعہ تیسرا کلمہ، استغفار، درود شریف آج مہینہ پورا ہو گیا ہے، آگے حکم کیا ہے؟
جواب:
سب سے پہلے میں عرض کروں گا کہ آپ یہ message میرے normal نمبر پہ بھیج رہے ہیں حالانکہ سوال و جواب کے لیے اور اپنا حال بتانے کے لیے نمبر دوسرا ہے۔ اسے آپ نوٹ کر لیں۔
0315-5195788
اس پر آپ messages بھیجا کریں تو پھر آپ کو جواب جلدی مل جایا کریں گے، یہ تو accidently اس پر مجھے نظر آیا ورنہ اس میں گم ہو جاتے ہیں، اس پہ بہت سارے مجھے اور بھی messages آتے ہیں۔آئندہ آپ بتائے گئے نمبر پہ بھیجا کریں ان شاء اللہ جواب آپ کو اسی وقت مل جایا کرے گا۔ تو ابھی آپ نے جو بتایا ہے کہ 400 دفعہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ" ہے یہ 400 دفعہ نہیں ہے 200 دفعہ ہے اور 400 دفعہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" اور 400 دفعہ "حَق" اور 100 دفعہ "اللہ" ہے۔ تو آپ اس طرح کر لیں کہ اب 200 دفعہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ"، 400 دفعہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" اور 600 دفعہ "حَق" اور 100 دفعہ "اَللہ" یہ ایک مہینہ کے لیے کر لیں۔ اور پھر مجھے بتا دیں۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم حضرت جی! مندرجہ بالا chart میں فجر کی نماز قضا ہونے کی بنیادی وجہ رات کو دیر سے سونا تھی جس کی وجہ سے صبح اٹھنا مشکل ہو گیا تھا البتہ رات کو اب جلدی سونے کی کوشش کرتا ہوں۔
جواب:
آپ جلدی سونے کی کوشش کیا کریں، اگر آپ جلدی سوئیں گے تو ان شاء اللہ صبح کی نماز ضائع نہیں ہو گی، اور ایسی ویسی مصروفیات جو control ہو سکتی ہیں ان سے آپ اپنے آپ کو بچایا کریں پھر ان شاء اللہ العزیز فجر کی نماز جو فرض ہے اس میں کوتاہی نہیں ہو گی۔
سوال نمبر 12:
شروع سے بچوں کے لباس کی کیا حدود ہونی چاہئیں؟ انگریزی لباس زنانہ ہو یا مردانہ شرعی حدود کیا ہیں اور کس عمر سے apply ہوتی ہیں؟
جواب:
اس پر میں ذرا کھل کے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اصل میں بچپن ہی سے عادتیں پڑتی ہیں، جن infants کو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کچھ بھی نہیں سمجھتے اس وقت بھی وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں، ان کے دماغ کے اوپر وہ چیز لکھی جا رہی ہوتی ہے، ورنہ بچے کے کان میں اذان کیوں دی جاتی ہے؟ آخر شریعت کا کوئی حکم بے فائدہ تو نہیں ہوتا، حالانکہ جس دن وہ پیدا ہوتا ہے اسی دن اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں یہ sense ہوتی ہے، لہذا بچے learn کرتے ہیں اور پھر عمر جتنی کم ہوتی ہے وہ اتنی ہی speed کے ساتھ learn کرتا ہے۔ جیسے جب آپ gas cylinder بھرتے ہںں تو اس سے ابتدا میں باقاعدہ شرشر کی آواز آتی ہے کیونکہ وہ بہت تیزی کے ساتھ بھر رہا ہوتا ہے بعد میں بہت آہستہ ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا میں بہت زیادہ data feed ہو رہا ہوتا ہے چنانچہ بچے learn کرتے ہیں تو اگر آپ اس کو بچپن سے ہی انگریزی لباس کا عادی بنا دیں گے تو یہ ان کی فطرت ثانیہ بن جائے گی پھر یہ عادت ان سے چھڑانا آپ کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ لہٰذا شروع سے ہی آپ ان کو صحیح اسلامی لباس زیب تن کرائیں کیونکہ اگرچہ ان کے لیے یہ جرم تو نہیں ہو گا لیکن وہ آپ کے لیے تو جرم ہے۔ لہذا شروع سے ہی آپ ان کو ایسا لباس پہنائیں جو ساتر بھی ہو اور ساتھ ساتھ شرعی اصولوں کے بھی مطابق ہو۔ تاکہ ان کی عادت پڑ جائے۔ جیسا کہ بالغ ہونے کے بعد بچوں پر نماز فرض ہوتی ہے لیکن علماء فرماتے ہیں سات سال کی عمر میں اسے نماز سکھاؤ اور دس سال کی عمر میں مار کے پڑھایا کرو، یہ بھی اسی لیے ہے کہ اس کو عادت پڑ جائے تو اس سے معلوم ہوا کہ عادت ڈالنے کے لیے بھی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اور آپ نے جو پوچھا کہ کتنی گنجائش ہے؟ تو گنجائش اتنی ہے کہ اگر یونیفارم ہے تو وہ مجبوری ہے۔ اول تو ایسے اسکولوں میں بچوں کو داخل نہیں کرانا چاہیے جن میں یونیفارم غیر شرعی ہو۔ لیکن اگر صرف پینٹ کوٹ کی حد تک ہے اور اس میں بے پردگی نہیں ہے تو اس کی گنجائش ہو گی۔ لیکن گھر میں آتے ہی ان کو صحیح لباس پہنا دیا کریں۔
سوال نمبر 13:
اولاد کی نافرمانی و بد زبانی کا کیا حل ہے؟ والدین کا رویہ، بیوی اور شوہر کی بد زبانی کا کیا حل ہے؟ اس پر دوسرا شخص کیا رویہ رکھے؟
جواب:
حرام کھانے سے بچنا اور بچوں کی ابتدا ہی سے ان کی موجودگی کا احساس کرنا۔ موجودگی کا احساس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے سامنے آپس میں بد اخلاقی نہ کیا کریں۔ اگر آپ ان کے سامنے بد اخلاق نہیں ہیں تو وہ بد اخلاقی نہیں سیکھیں گے۔ اور جو باہر اس طرح کی چیزیں دیکھیں گے تو گھر میں ان کی counselling سے اس کو wash کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر گھر میں بھی وہی صورت حال ہو تو پھر کیسے wash ہو گا؟ پھر تو نہیں ہو سکے گا۔ لہٰذا والدین کا آپس میں جو رویہ ہو گا وہ اس پہ کافی matter کرتا ہے اور جہاں تک صحبت کی بات ہے تو ایسے بچوں کے ساتھ ان کی صحبت کروانی چاہیے جو با اخلاق ہوں اور جن کے بارے میں اطمینان ہو۔ اور شوہر کی بد زبانی کا یا بیوی کی بد زبانی کا کیا حل ہے؟ ایک تو سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر ان کو روکنا ممکن نہ ہو تو دعا سے شروع کر لیں اور دوسری بات یہ ہے کہ جن کی بات وہ مانتے ہوں ان سے کہلوا دیا جائے اور تیسری بات یہ کہ گھر کے اندر دھیرے دھیرے اسلامی ماحول کے لیے کوشش کرنی چاہیے، جیسے ذکر اذکار کا ماحول قائم کر کے، اچھی کتابوں کے ذریعے سے، اچھے لوگوں سے ملاقات کے ذریعے سے آہستہ آہستہ کوشش اس طرف لا سکتی ہے۔ ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 14:
بالغ اولاد کو دین پر عمل کے لیے صرف نرمی سے کہیں یا force کر کے کہیں؟ جس پر بد تمیزی کا بھی ڈر ہے اور نافرمانی کا بھی۔
جواب:
چونکہ بچپن میں غفلت برتی ہوتی ہے اور ان کی counselling نہیں کی ہوتی ہے لہٰذا اس سے نقصان ہو سکتا ہے اس کے باوجود جیسے کہ میں نے ابھی اوپر میاں بیوی کے حوالے سے تجویز دی ہے، کم از کم اس تجویز پر بدرجہ اولی اولاد کے لیے عمل کیا جا سکتا ہے کہ گھر کے اندر آہستہ آہستہ اسلامی ماحول کو لانا، کتابیں اچھی لانا، اور نیک لوگوں کے ساتھ ان کا میل جول بڑھانا، اس طرح سے آہستہ آہستہ ان سے دین پر عمل کرانا ممکن بنایا جایا سکتا ہے۔
سوال نمبر 15:
شوہر یا سسرال سے نظریاتی اختلاف ہو تو عورت اپنے اور اپنے بچوں کی درست تربیت کیسے کرے؟ سسرال سے کتنا میل جول رکھے؟
جواب:
یہ بات ذرا detail کی discussion چاہتی ہے، کیونکہ یہ اتنی simple نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ نظریاتی اختلاف سے آپ کی کیا مراد ہے اور آپ نظریاتی اختلاف کسے سمجھتی ہیں؟ کیونکہ اس حوالے سے ہر ایک کی اپنی اپنی boundries ہیں۔ لہذا میں اس پہ زیادہ بات نہیں کر سکوں گا، پہلے آپ ذرا مجھے بتا دیں کہ اس سے آپ کیا مراد ہے؟ پھر اس کے بارے میں کچھ عرض کر سکوں گا۔
سوال نمبر 16:
بچوں کی تربیت کی بنیادی ذمہ داری کس پر ہے؟ جواب دہ کون ہے؟ بعض دفعہ والدین میں سے ایک بچے کو دین پر اور دوسرا اس کے مخالف چلانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
بنیادی ذمہ داری تو دونوں پر ہے البتہ بچوں کا زیادہ وقت چونکہ والدہ کے ساتھ گزرتا ہے لہٰذا والدہ کا حصہ اس میں زیادہ ہوتا ہے جیسے زبان کے بارے میں کہتے ہیں مادری زبان، پدری زبان نہیں کہتے۔ کیونکہ بچہ پہلے والدہ سے سیکھتا ہے، لہٰذا والدہ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے جب کہ والد کی ذمہ داری ان کو باہر لے جانے کی ہوتی ہے، لہذا ان کو اچھے لوگوں کے ساتھ ملانا اور اچھے لوگوں کے ساتھ رابطہ کروانا، حلال خوراک ان کے لیے arrange کرنا، یہ والد کی ذمہ داریاں ہیں، اسی طرح صحیح وقت پہ صحیح طریقے سے ڈانٹ ڈپٹ کرنا یہ بھی زیادہ تر والد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تو جو ذمہ داری جس کے اوپر عائد ہوتی ہے اگر وہ اس سے عہدہ بر آ ہوں تو میرا خیال ہے ہمیں زیادہ بہتر نتیجے مل سکتے ہیں۔
سوال نمبر 17:
آج کی جدید تعلیم کے تقاضوں کے ساتھ دنیا کے اعلی مقام اور دین کی خدمت کے لیے بچوں کو کیسے لے کر چلیں کہ وہ دنیا میں بھی اعلی مقام پر ہوں اور دین کے با عمل داعی بھی ہوں۔ کمپیوٹر، موبائل اور انٹرنیٹ وغیرہ کے فتنوں سے بچوں کو کیسے بچائیں؟ جب کہ اب تو یہ تعلیم کا حصہ ہے، اکثر home work۔ upload کر دیا جاتا ہے اور download کرنا پڑتا ہے یا انٹرنیٹ پر searchکر کے assignments بنانی ہوتی ہیں۔
جواب:
آپ نے بالکل صحیح بات پوچھی ہے۔ در اصل ایک ہوتی ہے مجبوری اور ایک ہوتی ہے اپنی خواہش، ان دونوں میں فیصلہ کرنا ہو گا۔ مجبوری سے مراد یہ ہے کہ جب یہ چیزیں آپ کے level کے کاموں میں بھی آ جائیں تو مجبوری کے زمرے میں آ جاتی ہیں، اور جب آپ ایسی چیزوں کی طلب رکھیں جن میں یہ چیزیں ہوں تو یہ خواہش کا روپ دھار لیتی ہیں۔ مثلاً ایک عام سکول ہے اور ایک Beacon House یا اس قسم کا دوسرا سکول۔ اب انسان سمجھتا ہے کہ میں Beacon House میں پڑھاؤں اور پھر بھی بچہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہو، با اخلاق ہو، تو یہ خواہش ہے۔ کیونکہ وہ تو پھر اپنی ذمہ داری پر آپ نے بد اخلاقی کے ماحول میں ڈالا۔ تو پھر اس سے آپ کیا توقع کر سکتی ہیں؟ یعنی اس کے ساتھ تو یہ مسائل ہوں گے۔ کیونکہ ترقی ان سکولوں میں جانے میں نہیں ہے یہ لوگوں کی غلط فہمی ہے۔ اس حوالے سے میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، میرا اپنا بچہ جب تیسری یا چوتھی جماعت میں تھا تو میرے سامنے ایک experiment رٹ رہا تھا، میں نے کہا بیٹا میں سب کو رٹنے سے منع کرتا ہوں تم میرے سامنے رٹ رہے ہو؟ تمہیں شرم نہیں آتی؟ وہ تو بچہ تھا اس نے روتے ہوئے کے کہا کہ ابو مجھے سارے experiment یاد ہیں، لیکن میری teacher جس level کی انگریزی مجھ سے چاہتی ہے وہ مجھے نہیں آتی۔ تو اس نے بچہ ہونے کے با وجود بالکل صحیح analysis کیا کہ ٹیچروں کا بھی اس میں قصور ہوتا ہے کہ وہ اس level کی چیزیں بچوں کو نہیں دیتے جو ان کی ذہنی سطح سے میل کھاتی ہوں۔ جس سے وہ رٹنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ یعنی اگر وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اپنا ما فی الضمیر بیان کریں اس پہ آپ ان کو پورے نمبر دیں تو ان کی encouragement ہو گی۔
مجھے اسلامیہ کالج کی وہ بات یاد ہے کہ ہمارے ایک ٹیچر H.M Phlose انگریز تھے، ہمارا ان کے پاس انگریزی کا subject تھا وہ انگریزی کے دل کھول کے نمبر دیا کرتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہم پاکستانی ہیں اور انگریزی ہماری مادری زبان نہیں ہے لہٰذا وہ نمبر کھل کے دیتے تھے اور یہ بھی کہتے تھے کہ آپ بہت اچھی انگریزی بول رہے ہو اس طرح وہ encourage کرتے تھے۔ اور ہمارے پاکستانی ٹیچرز کبھی full stop پہ نمبر کاٹتے تھے، کبھی coma پہ نمبر کاٹتے تھے اور کبھی capital letter پر، یوں ہمارے سارے نمبر اسی کی نذر ہو جاتے تھے، پاکستانی ٹیچروں سے پاس ہونا بڑا مشکل ہوتا تھا اور ان سے پاس ہونا آسان ہوتا تھا۔ چونکہ ان کو اس چیز کا احساس تھا کہ انگلش ہماری مادری زبان نہیں ہے تو وہ اس کو مد نظر رکھ کر marking کرتے تھے جب کہ پاکستانیوں کو اس کا احساس نہیں تھا۔ اور یہ ذہنی غلامی کی علامت ہے، لہٰذا وہ باتیں بھی اسی قسم کی کرتے تھے۔
اسی طرح ٹیچر بھی بعض دفعہ بہت چھوٹے دل کی ہوتی ہیں لہٰذا وہ بھی اپنے level کے مطابق رویہ اختیار کرتی ہیں۔ کیا خیال ہے ٹیچر اگر M.A ہو تو کیا بچہ M.A سطح کی انگریزی لکھ سکتا ہے؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اس کو پہلے آہستہ آہستہ قلم پکڑنا سکھایا جاتا ہے، اسی سے وہ آگے بڑھتا ہے۔ بہر حال مجھے حقیقتِ حال کا پتہ چل گیا تو میں نے کہا بیٹا آپ کی غلطی نہیں ہے۔ پھر میں نے ان کے پرنسپل صاحب سے کہا کہ یہ بچہ ہے اس کو آپ اردو section میں بٹھا دیں۔ کہتے ہیں ہمارے پاس اردو section نہیں ہے، تو میں نے کہا اس کے لیے بنا لو۔ وہ میرے دوست تھے، کہنے لگے کوئی اور اس میں نہیں آئے گا۔ میں نے کہا آپ try تو کریں، چنانچہ اس نے اس کے لیے section بنا دیا لیکن چھ مہینے میں کوئی اور بچہ اس میں نہیں آیا، حالانکہ اس نے announce کیا تھا۔ یہ ہمارے لوگوں میں احساس کمتری ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ انگریزی سے ترقی ہوتی ہے، حالانکہ انگریزی سے نہیں concept سے ترقی ہوتی ہے۔ بہرحال اس نے ماشاء اللہ پاس کیا، پانچویں جماعت میں ہم نے اس کو حفظ میں بٹھایا پھر اس کے بعد ہم نے اسے اردو میڈیم سکول میں ساتویں جماعت میں داخل کرایا جس میں اس نے الحمد للہ بہت اچھے نمبر لیے پھر وہ سر سید کالج میں چلا گیا اور ماشاء اللہ اس میں بھی بہت اچھے نمبر لیے اور اب وہ engineer ہے۔ لہذا اس کو اتنا فائدہ ہوا کہ اس کے concepts بہت اچھے ہیں، کیونکہ اس نے بنیادی چیزیں اردو میں پڑھی ہیں۔ اور جو انگریزی میڈیم اسکولز میں پڑھے ہوتے ہیں وہ رٹو طوطے ہیں، ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ چنانچہ یہ ہمارے گھر کا تجربہ ہے۔ در اصل ہمیں اس احساس کمتری سے بھی نکلنا ہو گا۔ البتہ جہاں جہاں مجبوری ہے وہاں اللہ مدد بھی فرماتے ہیں اور مدد یہ ہے کہ آپ اس کو ایسا ماحول فراہم کریں جس میں ان چیزوں کو استعمال کرنے کے باوجود وہ با اخلاق بنیں۔ لہذا دو جملوں میں یہ بات نہیں بیان کی جا سکتی، یہ پورا ایک subject ہے۔ لیکن میرے خیال میں جتنے hints میں نے دئیے ہیں اس میں غور کر کے آپ راستہ نکال سکتی ہیں۔
سوال نمبر 18:
بچوں کے اندر فرمانبرداری کیسے پیدا کریں اور قناعت پسندی کیسے پیدا کریں؟
جواب:
واہ جی واہ ماشاء اللہ! میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ بچوں کو وزیر اعظم کیسے بنایا جائے؟ بچوں کو deputy commissioner کیسے بنایا جائے؟ یہ میرے سوالات ہیں ہے ان کے جواب آپ مجھے دے دیں پھر میں آپ کو آپ کے سوالات کے جواب دے دوں گا۔ یہ کوئی طریقہ ہے سوال کرنے کا؟ کیونکہ اخلاقیات کا نمبر تمام چیزوں کے بعد آتا ہے، پہلے عبادات ہیں، پھر معاملات آتے ہیں، اس کے بعد معاشرت کا نمبر ہے، پھر سب سے آخر میں اخلاق آتے ہیں؟ آپ پہلے سے ہی اس فکر میں ہیں کہ ان میں فرمانبرداری کیسے پیدا کریں۔ فرمانبرداری کا کیا مطلب ہے؟ نفس کو قابو کرنے کا نام فرمانبرداری ہے۔ کیا نفس کو قابو کرنا یعنی نفس مطمئنہ پیدا کرنا پہلا step ہے؟ یہ تو آخری step ہے۔ جیسے: ﴿يـآأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِىْ إِلٰى رَبِّكِ راضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِى فِى عِبٰـدِى وَادْخُلِى جَنَّتِى﴾ (الفجر:26-30)
لہذا practical رہیں، اس کے لیے انسان کو بہت لمبی planning کرنی پڑتی ہے یہ سارے پاپڑ اسی کے لیے بیلنے پڑتے ہیں، خانقاہیں اسی لیے بنی ہیں۔ آپ ساری عمر ان کو خانقاہیں بھی نہ دکھائیں اور چاہیں کہ فرمانبردار بھی ہو جائیں اور قناعت پسند بھی بن جائیں اور سب خوبیاں پیدا ہو جائیں۔ اس کے لیے کوئی جادو کا طریقہ تو ہے نہیں، اس کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، کچھ کرنا پڑتا ہے۔
سوال نمبر 19:
بچوں پر سختی کس حد تک ہو؟
جواب:
جس حد تک مفید ہو، اگر نقصان ہو رہا ہو تو سختی نہیں کرنی چاہیے۔ دو لفظوں میں تو یہی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ سختی مقصد کے طور پہ ہونی چاہیے بے مقصد نہیں ہونی چاہیے اور مقصد یہ ہے کہ اس کو فائدہ ہو۔ مار پیٹ کی حدود یہ ہیں کہ اس کو عارضی تکلیف تو ہو لیکن دائمی جسمانی نقصان نہیں ہونا چاہیے۔ اور سزا دینے پہ control رکھیں، control سے مراد یہ ہے کہ آپ ایک حد سے آگے نہ بڑھیں۔ جتنی سختی ناگزیر ہو اتنی ہی کریں۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ calculate کر کے سزا دیں۔ مثلاً چہرے کے تصور آپ ایسے بنا لیں کہ جیسے آپ کو بہت غصہ ہے لیکن اندر سے آپ control میں ہوں۔ یہ چیز سیکھنی پڑتی ہے، یہی حدود ہیں اس کے مطابق آپ سختی کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر 20:
ضدی بچوں کے ساتھ کیا رویہ رکھیں؟۔
جواب:
میرا خیال ہے کہ بعض دفعہ بچے ماں باپ کے بے جا محبت کے اظہار سے بھی ضدی ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی نے کہا تھا کہ بچے کے رونے پر کوئی چیز اس کو نہ دیا کریں بلکہ جب اس کو ضرورت ہو تب دیا کریں۔ لہذا ابتدا ہی سے اس کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ اس کو کم از کم رونا بطور input نظر نہ آئے کہ اس سے میرا مسئلہ حل ہو گا۔ جب کہ کوئی بھی ابتداء میں اس کا خیال نہیں کرتا۔ حالانکہ جب معاملہ بگڑ جائے تو پھر ٹھیک کرنا آسان نہیں ہوتا، کیونکہ جب اس نے طریقہ سیکھ لیا اور ضد سے اپنا مسئلہ حل کرنا سیکھ لیا تو وہ یقیناً ضد کرے گا۔ لہذا اس کے لیے آپ کو بالکل ابتدا ہی سے management کرنی پڑے گی، لیکن اگر وہ ضدی ہو گیا ہے تو پھر اس کے ساتھ logical انداز میں بات کرنی پڑے گی تاکہ وہ آہستہ آہستہ logic پر آ جائے، ضد پر نہ آئے۔ لیکن یہ بھی لمبا طریقہ ہے اس کو میرے خیال میں دو تین باتوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
سوال نمبر 21:
ثوابی ذکر میں یکسوئی حاصل کرنے کے لیے اگر آنکھیں بند کر لیں تو کیسا ہے؟
جواب:
ٹھیک ہے جتنی یکسوئی کے ساتھ آپ ذکر کر سکتے ہیں کریں کیونکہ کیفیت بڑھنے کی وجہ سے اس کا ثواب بھی بڑھ جائے گا۔ لہذا آپ اس طرح کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر 22:
حضرت جی دو ہفتے پہلے "فہم التصوف" کی تعلیم میں آپ نے فرمایا تھا ذکرِ اصلاحی دعائیہ انداز میں اگر کیا جائے تو اس کا فائدہ ہو گا، تو کیا ہر ایک اس طرح کر سکتا ہے؟
جواب:
اصلاحی ذکر کا مقصد اپنے آپ کو ایک set up پر لانا ہوتا ہے کیونکہ یہ بامقصد ذکر ہوتا ہے، یہ اجر کے لیے نہیں بلکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے تو ہر ایک کے لیے یہ طریقہ ضروری نہیں کیونکہ جیسے میں نے ابھی ایک صاحب کو بتایا کہ "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ" کے ساتھ یہ تصور کریں "لَا اِلٰهَ" کے ساتھ دنیا کی محبت نکل رہی ہے اور "اِلَّا اللہ" کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت آ رہی ہے۔ گویا یہ آپ اس حدیث قدسی کے مطابق کر رہے ہیں کہ بندہ اللہ کے ساتھ جو گمان رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ ہوتا ہے تو دعائیہ میں بھی تقریباً یہی چیز آ جاتی ہے۔ اور "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ" کے دعائیہ ذکر کا مطلب یہ ہے کہ یا اللہ دنیا کی محبت میرے دل سے نکا دے۔ اور "اِلَّا اللہ" کے ساتھ اپنی محبت میرے دل میں ڈال دے۔ یعنی اس میں جو یا کے ساتھ ذکر ہے وہ سلوک کی طرف زیادہ جاتا ہے اورخود جو نکل رہا ہے یہ کیفیتِ جذب جلدی پیدا کرتا ہے۔
سوال نمبر 23:
حضرت! مثلاً میں قرآن شریف پڑھ رہا ہوں تو کوئی آکر کہے کہ حضرت جی کب آئیں گے؟ یا یہ کام کرنا ہے۔ اور کس ٹائم آپ فارغ ہوں گے؟ تو کیا اس کو جواب دینا چاہیے یا نہیں؟
جواب:
جواب دینا چاہیے کیونکہ اس کو آپ انتظار میں نہیں رکھ سکتے، لہذا آپ اس کو جواب دیں پھر اگر آپ اس کے اثر کو زائل کرنا چاہتے ہیں تو "اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم" پڑھ کر دوبارہ تلاوت شروع کر لیں۔
سوال نمبر 24:
اسی طرح "اللہ اللہ" کا ذکر کرتے ہوئے اگر کوئی ساتھی کچھ پوچھ لے تو اس کو بھی جواب دینا چاہیے؟
جواب:
در اصل اصلاحی ذکر کی پابندیاں ذرا زیادہ ہوتی ہیں۔ لہذا آپ اس کے لیے planning کریں اور ایسے وقت کا انتخاب کریں جس میں لوگ نہ ہوں یعنی undisturb ٹائم ہو۔ کیونکہ میں جب یہ ذکر دیتا ہوں تو ساتھ کہا کرتا ہوں کہ ایسا وقت چن لیں جس میں کم سے کم disturbance کا امکان ہو۔جیسے تہجد کا وقت ہے کہ اس وقت آپ کو کوئی بھی کچھ نہیں کہے گا، کیونکہ ہر کوئی اپنی اپنی نیند میں ہو گا، لہذا ایسے وقت میں جب آپ ذکر کریں گے تو اس میں یہ مسئلہ نہیں ہو گا لیکن اگر مشغولی کے وقت کریں گے اور آپ کو کوئی دیکھے گا تو ممکن ہے وہ کچھ کہہ دے تو جواب مجبوراً دینا پڑتا ہے۔ جس سے آپ disturb ہوں گے۔ لہذا اس کے لیے کسی ایسے ٹائم کی management کریں جو undisturb ہو پھر بات بنے گی۔ پھر اس کا اثر بھی زیادہ ہو گا۔ اگرچہ اثر تو ویسے بھی ہوتا ہے لیکن کم ہو جاتا ہے۔