سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 443

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال نمبر1:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! جب کوئی شخص میری خوشامد کرتا ہے تو اس شخص کی خوشامد سے کیسے بچنا چاہیے ؟

جواب:

سب سے پہلے اس بات کو سوچنا چاہیے کہ اس کے بولنے سے یہ چیز بدلے گی نہیں۔ اگر میں اچھا ہوں تو اچھا ہی رہوں گا،اس کے کہنے سے اچھا نہیں ہوں گا، بلکہ پہلے سے اچھا ہوں گا اور اگر برا ہوں تو اس کے کہنے سے اچھا نہیں بنوں گا۔ میرے بارے میں جو یہ کہتے ہیں اس کی کوئی value نہیں ہے۔ اگر اس کی بات خلاف واقعہ ہو تو مجھے اس کے بولنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ نقصان ہو گا اور اگر واقعے کے مطابق ہے تو اُس کا اِس کے کہنے سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کے ہاں پہلے سے طے ہیں۔ لہٰذا کسی طریقے سے بھی اس کے خوشامد کرنے سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس لئے مجھے اس کی طرف توجہ نہیں کرنا چاہیے ۔

سوال نمبر2:

السلام علیکم!

I hope you will be fine. I have completed 40 days of initial ذکر for 3 days. I was late 1 to 2 hours from designated time. Rest was all fine.

Regards.

جواب:

الحمد للہ آپ نے بالکل صحیح کیا ہے۔ اگر تھوڑی بہت کمی ہو جائے، معمول آگے پیچھے ہو جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بس ہمیں اس کی عادت نہیں بنانی ہوتی، اپنا معمول پورا کرنے کی عادت برقرار رکھنی چاہیے۔ اگر کسی عارض کی وجہ سے کبھی معمول آگے پیچھے ہو جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ابھی چونکہ آپ نے 40 دن والا ذکر مکمل کر لیاہے اب آپ اس طرح کریں کہ تیسرا کلمہ 100 دفعہ، درود شریف 100 دفعہ، استغفار 100 دفعہ، (درود شریف اگر بڑا، درود ابراہیمی نہیں پڑھ سکتے تو صَلَّی اللّٰہ عَلی النَّبِی الْاُمِّی پڑھ لیں) استغفار اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّی مِن کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیک سو (100) دفعہ۔ یہ اذکار آپ نے روزانہ کرنے ہیں اور عمر بھر کے لئے کرنے ہیں۔ اس کے علاوہ اگلے ایک ماہ تک کے لئے یہ ذکر بھی کریں: لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ 100 دفعہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 100 دفعہ، حَق 100 دفعہ اور اَللّٰہ 100 دفعہ۔ ایک مہینے کے بعد مجھے اطلاع دیں۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ بعد از سلام عرض ہے کہ میں بیس دن کی چھٹی پر گھر آیا ہوا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور آپ کی دعاؤں کے طفیل لگ بھگ ایک مہینہ بیس دن مندرجہ ذیل ذکر کر چکا ہوں۔ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حَقْ 600 مرتبہ، اور اللّٰہ اللّٰہ 1000 مرتبہ۔ آپ کے فرمان کے مطابق اطلاع دے رہا ہوں۔ مزید رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ذکر اسی طرح جاری رکھیں، البتہ اب اس میں یہ اضافہ کر لیں کہ روزانہ 1000 مرتبہ اللّٰہ کے ذکر بعد 5 منٹ کے لئے یہ تصور کریں کہ یہی اللہ اللہ جو آپ 1000 مرتبہ زبانی طور پہ کر رہے تھے اب 5 منٹ کے لئے آپ کے دل میں خود بخود ہو رہا ہے، آپ صرف اس کو سننے کی کوشش کر لیاکریں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ حضرت جی! آج میں سوچ رہا تھاکہ آپ کو لکھ بھیجوں کہ نفس کی پہچان کرنے کا کیا مطلب ہے۔ کیا اس کا مطلب نفس کی ماہیت پہچان لینا ہے یا اس سے مراد اپنی برائیوں کی آگاہی ہے، یا کچھ اور مراد ہے؟ لیکن آج آپ کی مبارک مجلس میں اس سوال کا جواب مل گیا۔

جواب:

الله جل شانہٗ آپ کو سلسلے کی برکات سے مزید نوازے۔ الله جل شانہٗ مخلصین کی مرادوں کو پورا فرماتے ہیں۔جیسے جیسے ان کے ذہن میں سوالات آتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے جوابات جاری فرما دیتے ہیں۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! سیدی و مرشدی حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ! میری والدہ صاحبہ نے چالیس دن والا وظیفہ شروع کیا تھا لیکن انہوں نے غلطی سے وہ وظیفہ جو 300 مرتبہ پڑھنا تھا اسے 200 مرتبہ پڑھا اور 200 والا 300 مرتبہ پڑھا۔ کیا وہ شروع سے دوبارہ پڑھیں ؟

جواب:

جی ہاں وہ شروع سے دوبارہ پڑھ لیں اور 300 مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اور 200 دفعہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ پڑھیں۔ ان شاء اللہ العزیز چالیس دن بعد مجھے بتا دیں۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم! شاہ صاحب ہمارے سکول میں مینا بازار ہے۔ میں نے اس میں کوئی سٹال نہیں لیا کیونکہ میرا جانے کا ارادہ نہیں ہے۔ اب پرنسپل صاحبہ کہہ رہی ہیں کہ اس میں موسیقی نہیں ہو گی تم ضرور آؤ۔ وہ مجھے سٹال دے رہی ہیں کہ چھوٹے بچوں کے لئے کھلونوں والا سٹال تمہارا ہے، بڑے لڑکے وہاں نہیں آئیں گے۔ میرا سٹال باقی سٹالز سے تھوڑا فاصلے پر ہے۔ باقی سٹالز پر تو بڑے لڑکے آئیں گے۔ اب میں کیا کروں۔ میں نے انہیں کہا تھا کہ چونکہ وہاں موسیقی اور لڑکے ہوں گے اس لئے میں نہیں آؤں گی۔ اس کا انہوں نے یہ حل نکال لیا اور کہا ہے کہ میں نے ضرور آنا ہے۔ آ پ رہنمائی فرمائیں کہ اب میں کیا کروں۔

جواب:

آپ اپنے ساتھ حجاب لے جائیں اور خدا نخواستہ اگر کوئی بڑا لڑکا اس طرف آئے تو فوراً حجاب پہن لیں۔ اگر وہاں music وغیرہ ہو تو پھر اس کی شکایت کر کے گھر آ جائیں تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ آپ نے ان کی بات پہ عمل نہیں کیا ہے۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت جی! میرے درج ذیل ذکر کو ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے: لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ 200 مرتبہ، اِلَّا اللّٰہ 400 مرتبہ، اَللّٰہُ اَللّٰہ 600 مرتبہ اور اللّٰہ 300 مرتبہ۔ آئندہ کے لئے حکم فرمائیں۔

جواب:

اب آپ ذکر اس ترتیب سے کریں:

لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ 200 مرتبہ، اِلَّا اللّٰہ 400 مرتبہ، اَللّٰہُ اَللّٰہ 600 مرتبہ اور اللّٰہ 500 مرتبہ۔ ایک مہینے تک یہ ذکر کر کے اطلاع کریں۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم، حضرت جی محترم! آپ نے جو وظیفہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حَقْ 600 مرتبہ، اور اَللّٰہ 200 مرتبہ تیس دن کے لئے دیا تھا، الحمد للہ وہ مکمل ہو گیا ہے۔ اللہ کے فضل سے نماز پابندی سے ادا کر رہا ہوں ساتھ ساتھ پچھلی قضا نمازیں بھی ادا کر رہا ہوں۔ عصر کی قضا نماز عموماً نہیں پڑھ پاتا۔ قرآن مجید کی ایک پاؤ تلاوت اور سورہ یس کی تلاوت باقاعدگی سے کر رہا ہوں۔ البتہ تہجد کی نماز میں پابندی نہیں ہو پا رہی۔ الحمد للہ اشراق کی نماز بھی پڑھ رہا ہوں۔ کبھی کبھار رہ بھی جاتی ہے لیکن زیادہ تر ادا ہوتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں نظرِ بد کے بارے میں پڑھا، آپ کے بیانات سے بھی کافی معلومات حاصل کیں۔ الحمد للہ اللہ پاک کی توفیق سے اس پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔ حضرت جی میرے لئے آئندہ کیا حکم ہے؟

جواب:

اب آپ مزید تیس دن کے لئے اس طرح کر یں کہ 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ، 400 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، 600 مرتبہ حق اور 300 مرتبہ اللّٰہ اللّٰہ کیا کریں۔ عصر کی نماز میں چار فرض سے پہلے 4 سنتیں ہوتی ہیں، آپ مسجد میں کچھ دیر پہلے پہنچ کے ان سنتوں کی جگہ قضا نماز پڑھ لیا کریں۔ اس کا بھی معمول بن جائے گا۔

سوال نمبر 9:

حضرت جی! سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْم 313 مرتبہ روزانہ پڑھنے سے بڑا فائدہ ہوا۔ کچھ دنوں سے میں بہت پریشان تھی کچھ مسئلہ در پیش تھا اللہ پاک سے دعا مانگی تو اللہ پاک کا کرم ہوا۔ پھر مجھے ایک دن خیال آیا کہ میں اللہ پاک کا شکر کیسے ادا کروں۔ میرے دل میں خیال آیا کہ میں ایک تسبیح روزانہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْن کی پڑھ لیا کروں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے۔

جواب:

آپ ایک ہفتے تک روزانہ دو رکعت صلوۃ شکرانہ پڑھ لیں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم حضرت جی

I am the wife of Mr. فلاں from U.K. I am doing دعا that you are in the best of health ان شاء اللہ. I am writing to inform you that الحمد للہ with your دعا my baby is doing well and he is gradually increasing in weight. I am exclusively missed for fasting and I am not using formula as yet. My daily routine with the baby keeps me very occupied day and night and just about pray my five times صلوٰۃ. I want to restart my معمولات again, but I don’t feel I will be able to complete. The تسبیحات I was given initially were the following.

100 times استغفار

100 times درود شریف

100 times 3rd کلمہ and 10 minutes مراقبہ

جواب:

You can easily do all these things; it is not difficult keeping your mind that for 100 times, استغفا100 times درود شریف and for 100 times 3rd کلمہ, وضو is not required for a person like you. So, you can recite this without وضو as well. So, if you have counter in your hand, you can complete this anyway. It's not a problem and the remaining thing is only 10 minutes مراقبہ. So, for 10 minutes مراقبہ you can use 10 minutes any time. When your baby is sleeping, you can do 10 minutes مراقبہ at that time ان شاء اللہ. But don’t miss it because اللہ سبحانہ و تعالیٰ grants many blessings with the help of these اوراد and اذکار.

سوال نمبر 11:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! اللہ آپ کے علم و عمل، صحت اور زندگی میں خیر و برکت عطا فرمائے، آپ کا سایہ ہم پر قائم رکھے اور ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت جی پچھلے ایک مہینے سے آپ کے بتائے ہوئے درج ذیل ذکر کر رہا ہوں۔ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حَقْ 400 مرتبہ اور اَللّٰہ 300 مرتبہ۔ آپ نے ایک ماہ بعد اطلاع کرنے کا فرمایا تھا۔ آج ایک مہینہ مکمل ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر نماز کے بعد سارے اذکار شروع کر دئیے ہیں۔ روزانہ 100 مرتبہ تیسرا کلمہ، 100 مرتبہ درود شریف، 100 مرتبہ استغفار، فجر کے بعد سورہ یس، ظہر کے بعد سورہ فتح، عصر کے بعد سورہ نبا، مغرب کے بعد سورہ واقعہ اور عشا کے بعد سورہ ملک باقاعدگی سے پڑھ رہا ہوں۔ مزید آپ کی رہنمائی چاہیے۔ الله جل شانہٗ توفیق عطا فرمائے۔

جواب:

اب آپ یوں کریں کہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حَقْ 600 مرتبہ اور اَللّٰہ 200 مرتبہ، اگلے ایک ماہ کے لئے یہ ذکر کریں۔ آپ نے جو باقی اوراد شروع کر لئے ہیں الحمد للہ یہ بہت اچھی بات ہے، نمازوں کے بعد سورتیں پڑھنے کا معمول بھی جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ توفیقات سے نوازے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم! حضرت میں کویت سے بات کر رہا ہوں۔ اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے۔ الحمد للہ میرا درج ذیل وظیفہ پورا ہو گیا ہے:

200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ، 400 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، 600 مرتبہ حَقْ اور 10 منٹ ذکر قلبی ۔

حضرت! ذکر قلبی میں دل ساتھ نہیں دیتا۔ رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

دل ساتھ نہیں دے گا لیکن آپ نے پھر بھی کرنا ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو اور حق کا ذکر مکمل کرنے کے بعد 500 مرتبہ اللّٰہ اللّٰہ تیز تیز پڑھیں۔ اس کے بعد 5 منٹ کے لئے آپ یہ تصور کریں کہ یہی اللہ اللہ میرے دل میں بھی ہو رہا ہے۔ اس طرح امید ہے کہ ان شاء اللہ ذکر قلبی میں دل ساتھ دے گا۔

سوال نمبر 13:

(ا) السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! اگر کوئی شخص بیعت ایک شخص سے ہو جبکہ تربیت و اصلاح کسی دوسرے شیخ سے کرائے تو کیا یہ درست ہے ؟

(ب) اگر کوئی شخص اپنے شیخِ بیعت کے علاوہ کسی دوسرے سے تربیت و اصلاح کرائے تو اس کا طریقہ کار کیا ہو گا؟

(ج) کیا سالک شیخِ طریقت کے ساتھ کی ہوئی تمام خط و کتابت کی ہدایات سے اپنے شیخِ بیعت کو بھی مطلع رکھے گا؟

جواب:

سب سے پہلے یہ بتائیں کہ آپ کوایسا کرنے کی کیا ضرورت پیش آ رہی ہے؟ کیا اپنے گذشتہ شیخ کے ساتھ آپ کا رابطہ نہیں ہو رہا؟ اگر رابطہ نہیں ہو رہا تو اس کی تفصیل بھی بتا دیں، پھر میں جواب دوں گا۔ کیونکہ یہ معاملہ بڑا نازک ہے اس میں انسان آزادی کے ساتھ نہیں بول سکتا۔ پہلے آپ مجھے تفصیلات بتائیں پھر اس کے بارے میں کچھ عرض کروں گا ۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم حضرت شاہ صاحب!

My wife felt something when she recited اللہ in silence, like if her heart was beating hard without being too hard, a very sensitive feeling.

جواب:

و علیکم السلام

Brother, ask her whether she was understanding as if it’s like اللہ اللہ saying by heart or either it was something else.

سوال نمبر 15:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت! نفس مطمئنہ کیا ہوتا ہے؟ کیا جس شخص کو نفس مطمئنہ حاصل ہو جائے وہ کامل ہو جائے تو کیا اس سے گناہ مکمل چھوٹ جاتے ہیں، وہ شریعت کی خلاف ورزی بالکل نہیں کرتا؟ اگر یہی صورت ہے تو پھر کیا وہ معصوم نہیں کہلائے گا؟ اور اگر اس سے کچھ گناہ ہوتے رہتے ہیں تو نفس لوامہ نفس مطمئنہ میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟

جواب:

نفس مطمئنہ اس نفس کو کہتے ہیں جو شریعت میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ جس کا نفس مطمئن ہو اس کے لئے شریعت پر چلنا معمول کی بات ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں گناہ کا امکان بہت کم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ انسان کے نفس میں دو چیزیں ہیں۔ ایک فجور کا تقاضا ہے، دوسری چیز نفس کا تقویٰ ہے۔ اگر فجور کا تقاضا نہ رہے ،فجور نہ ہونے پائے، گناہ نہ ہونے پائے تو ایسا شخص متقی کہلاتا ہے۔ متقین کے بارے میں قرآن پاک میں آیا ہے کہ وہ ایمان بالغیب رکھتے ہیں، اعمال کرتے ہیں،آپ ﷺ پر اور آپ سے پہلے انبیاء پر جو وحی اتری ہے اس پر ایمان رکھتے ہیں اور آخرت پہ یقین رکھتے ہیں۔ یہ لوگ متقین کہلاتے ہیں یقیناً قرآن میں ان کے لئے ہدایت ہے۔ وہ قرآن سے ہدایت حاصل کرتے رہتے ہیں، انہیں صحبت صالحین کے فوائد ملتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو معصوم نہیں کہتے بلکہ محفوظ کہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے نقصان کی تلافی کرنا جانتے ہیں۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے بیت المال میں مزدوری کرنی شروع کر دی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں اس طرح کر رہے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ میں دوسرے وفود کے ساتھ بحیثیت امیر المومنین ملا تو میرے نفس میں کچھ تعلی سی آ گئی ہے۔ اس کو دور کرنے کے لئے میں یہ مزدوری کر رہا ہوں تاکہ نفس اپنی جگہ پہ آ جائے اور عبدیت اختیار کرے۔ اب دیکھیں ایک تو ان کو فکر تھی، دوسرے ان کو پتا چل گیا کہ میرا نفس صحیح جگہ پہ نہیں رہا تیسرے انہوں نے فوراً اس کے مطابق علاج کر لیا۔ نتیجتاً وہ نفس کے شر سے محفوظ ہوگئے۔

نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ میں فرق ہے۔ نفس لوامہ میں اپنے اوپر کنٹرول نہیں ہوتا، غلطی ہوتی ہے، لیکن وہ اس پہ شرمندہ ہوتا ہے، اپنے گناہ پر کڑھتا ہے اور توبہ کرتا ہے۔ کم از کم اس کو یہ پتا ہوتا ہے کہ میں نے گناہ کیا ہے۔ جبکہ نفس مطمئنہ میں اپنے اوپر control ہوتا ہے اور وقتی طور پر اگر نفس کچھ بہک جائے تو اس کو فوراً control کرنا آسان ہوتا ہے۔ جیسے کوئی جانور سدھا لیا جائے تو اگر وہ کچھ اڑی کر بھی لے تو اسے control کرنا آسان ہوتا ہے، اگر اس کی تربیت ہو چکی ہو۔ اگر تربیت نہ ہوئی ہو، سدھایا نہ گیا ہو تو پھر اسے سنبھالنا کافی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

سوال نمبر 16:

صالحین کی definition کیا ہے۔ آج بے شمار groups دین کا پیغام لے کے چل رہے ہیں ان میں سے کون کون صالح ہے، بچوں کو کس طرف لگایا جائے؟

جواب:

ماشاء اللہ بڑا اچھا سوال ہے۔ ہم اس کا جواب حدیث شریف سے لے لیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :گذشتہ امتوں میں یہود میں 71 فرقے تھے نصاریٰ میں 72 ہو گئے اور میری امت میں عنقریب 73 ہو جائیں گے، لیکن صرف ایک ہی نجات پائے گا۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا: وہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’مَا اَنَا عَليْهِ وَ اَصْحَابِي‘‘(ترمذی، حدیث نمبر: 2641)

ترجمہ:’’ جس پر میں چل رہا ہوں اور جس پر میرے اصحاب رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین چل رہے ہیں۔ ‘‘

اب اسی definition کو سامنے رکھیں تو ساری بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہی لوگ قابل اتباع ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ماننے کے لئے حضور ﷺ کے طریقوں کو follow کرتے ہوں اور آپ ﷺ کے طریقے کو سمجھنے کے لئے صحابہ کرام کے طریقوں کو سمجھتے او رسیکھتے ہوں کہ صحابہ کرام نے کیسے زندگی گزاری ہے۔ آپ انہی کے نقش قدم پر خود بھی چلیں اور بچوں کو بھی چلائیں۔

صحابہ کرام کے طریقے آپ ﷺ کے طریقہ کو سمجھنے کے لئے ایک کڑی ہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ فرد واحد تھے، عورت نہیں تھے مرد تھے، شہری تھے دیہاتی نہیں تھے، بڑے خاندان والے تھے چھوٹے خاندان کے نہیں تھے۔ یہ ساری صفات سب میں نہیں ہوتیں۔ صحابہ کرام میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے حضرات رکھے تھے۔ شہری بھی تھے دیہاتی بھی تھے، سادہ بھی تھے ذہین بھی تھے، بڑے خاندان کے بھی تھے غلام بھی تھے۔ ہر قسم کے حضرات کے لئے اللہ پاک نے صحابہ کرام کو نمونہ بنا یا تھا ۔ صحابہ کرام کی زندگی کا سمجھنا اس لئے ضروری ہے تاکہ ہمیں آپ ﷺ کی سنت سمجھ میں آ سکے اور آپ ﷺ کی سنت کو اس لئے جاننا ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل ہو جائے۔

اگر یہ ساری بات آپ کو اچھی طرح سمجھ میں آ چکی تو اس کے بعد ایک بات رہ جاتی ہے کہ ہم دیکھیں کہ جتنے بھی گروپس صالحین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان میں یہ چیزیں یعنی طریق صحابہ سب سے زیادہ کس میں پایا جاتا ہے۔

اگر ہم کچھ بڑے بڑے گروہوں کا تجزیہ کریں تو کم از کم دو طرح کے گروہ تو صالحین کے دائرے سے بالکل نکل جاتے ہیں۔ ایک وہ جو کسی قسم کی بدعت میں مبتلا ہیں۔ دوسرے وہ جو کسی بھی درجہ میں صحابہ کے خلاف ہیں۔ یہ دونوں قسم کے گروہ صالحین میں قطعاً نہیں ہو سکتے۔ ممکن ہے ان میں ذاتی خوبیاں ہوں، خوبیاں تو کافروں میں بھی ہو سکتی ہیں لیکن وہ صالحین کی اس definition پر پورے نہیں اترتے۔ لہٰذا سب سے پہلے آپ یہ دو چیزیں پرکھیں، اگر کوئی گروہ ان دو کسوٹیوں پہ پورا نہیں اترتا تو ان سے جتنا دور رہیں بہتر ہوگا۔

آپ ﷺ نے فرمایا ہے:

’’عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْن‘‘ (سنن ابن ماجہ۔ حدیث نمبر: 42)

ترجمہ: ”میری سنت کو اور خلفائے راشدین کے طریقے کو اختیار کرنا۔“

جو لوگ خلفائے راشدین کی سنت کا اتباع نہیں کرتے وہ بھی صالحین سے نکل گئے۔ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کے طریقہ کو حاصل کرنے والے اور سنت طریقہ کو فروغ دینے والے ہی صالحین ہیں، جن کی طرح بننے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔

سوال نمبر 17:

انٹرنیٹ پر بچوں کو تفریح کے طور پر کیا دیں۔ video games یا Islamic ، میوزک کے بغیر کارٹون وغیرہ دکھائے جا سکتے ہیں؟

جواب:

اس کے جواب میں میں اپنا ذاتی واقعہ عرض کرتا ہوں۔ میں اپنے گھر والوں اور بچی کے ساتھ جرمنی میں تھا۔ میری بچی کی عمر تقریباً ساڑھے تین سال تھی۔ وہاں بڑے گھر کا ملنا مشکل ہوتا ہے۔ ایک کمرہ، ایک ڈرائنگ روم اور ایک کچن پر مشتمل ہمارا چھوٹا سا گھر تھا۔ میں یونیورسٹی جاتا تھا بچی والدہ کے ساتھ ہوتی تھی۔ ایک دن مجھ سے ہمارے office کی secretary نے پوچھا کہ آپ نے بچی کے لئے کونسے کھلونے لئے ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ وہ natural کھیل کھیلتی ہے۔ وہ بڑی حیران ہو گئی کہ natural کھیل کھیلنا کیسا ہوتا ہے۔ پھر میں نے اس کے سامنے explain کیا کہ اصل میں وہ اپنی والدہ کو دیکھتی ہے کہ والدہ کپڑے دھوتی ہے تو کس طرح دھوتی ہے۔ وہ بھی اسی طرح کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ کپڑوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لے کر پانی میں ڈبوتی ہے، پھر انہیں نچوڑتی اور سوکھنے کے لئے لٹکاتی ہے، ان کے نیچے چھوٹے چھوٹے برتن رکھ دیتی ہے تاکہ پانی قالین وغیرہ پہ نہ گرے۔ جیسے اس کی والدہ نماز پڑھتی ہے اسی طرح یہ بھی ایک چھوٹی سی جائے نماز لے کے فوراً کہہ دیتی ہے کہ وقت ہو گیا ہے میں نماز پڑھنے لگی ہوں۔ اس طرح وہ والدہ کو دیکھ دیکھ کر اپنے لئے کھیل بنا لیتی تھی۔ میری باتیں سن کر وہ سیکرٹری بہت حیران ہوئی۔ کہتی ہے میں اس بچی کے ساتھ ملنا چاہتی ہوں یہ تو بڑی ذہین بچی ہے۔

اگر انسان ذرا ہمت کرے تو ہمارے اندر بہت کچھ ہے۔ ہم ان بچوں کے لئے ان کے ذہن کے مطابق کھیل بنا سکتے ہیں، جس میں constructive چیزیں بھی ہوں، اپنے culture اور دین کو محفوظ کرنے والی باتیں بھی ہوں۔

یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ بچوں کا لرننگ پراسیس بڑوں کے مقابلے میں بہت تیز ہوتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ نہیں سمجھتے ابھی بچے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے بچوں کا جاننا بڑوں کے مقابلے میں بہت تیز ہوتا ہے، کیونکہ بڑوں کا دماغ occupied ہوتا ہے جب کہ بچوں کا دماغ بالکل خالی سلیٹ کی طرح ہوتا ہے، یہ بہت جلدی جلدی سیکھتے ہیں۔ اس وجہ سے اپنے بچوں کے سامنے ایسی حرکتیں نہیں کرنا چاہیے جس سے بچوں کے اخلاق خراب ہو جائیں۔ ان کو ایسے games بھی نہ دئیے جائیں جس سے ان کے اخلاق خراب ہوں یا ان کی تربیت میں مشکلات پیش آئیں۔ اور یہ کام ابتدا ہی سے کیا جائے ورنہ بعد میں یہ کام بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔

پہلے سال میں جتنی تربیت ہو سکتی ہے وہ آئندہ تین سالوں میں نہیں ہو سکتی۔ جو تربیت تین سالوں میں ہو سکتی ہے وہ آئندہ دس سالوں میں نہیں ہو سکتی اور جو دس سالوں میں ہو سکتی ہے وہ آئندہ پچیس سالوں میں نہیں ہو سکتی۔ میں نے اصول کی بات بتا دی ہے۔ باقی اللہ پاک نے عقل سب کو دی ہوئی ہے اس عقل کو استعمال کر کے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے ۔

سوال نمبر 18:

بچپن ہی میں بچوں کے لباس کی کیا حدود ہونی چاہئیں۔ انگریزی لباس زنانہ ہو یا مردانہ شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب:

لباس کے بارے میں جاننا چاہیے کہ لباس ہے کیا! قرآن پاک میں لباس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ بہترین لباس تقویٰ کا ہے۔ اس کا معنی ایک تو یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرنا بہترین لباس ہے ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ لباس بہترین ہے جس میں تقویٰ برقرار رہے۔

لباس کے معاملے میں دو چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ 1: ضرورت۔ 2: زینت۔

لباس سے یہ دو ضرورتیں پوری ہونی چاہئیں۔ 1: ستر پوش ہو۔ 2: گرمی سردی کی شدت سے بچائے رکھے۔

جہاں تک زینت کا تعلق ہے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ لباس جائز حد تک خوبصورت ہو اور زینت کا باعث ہو۔ زینت سے مراد یہ ہے کہ کپڑاصاف ستھرا ہو، اچھا سلا ہوا ہو، اس میں کوئی عیب نہ ہو۔

یاد رہے کہ fashion کے مطابق کوئی ٹرینڈ اختیار کرنے کو زینت نہیں کہتےبلکہ یہ جہالت ہے۔ fashion کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میری اپنی کوئی سوچ نہیں ، جو کچھ زیادہ لوگ کر رہے ہیں میں بھی وہی کروں گا یا کروں گی اور ایسا کرنا جہالت ہے۔

زینت سے مراد یہ ہے کہ برا نہ لگے۔ اس میں ستر پورا چھپ جائے۔ بچوں کے معاملے میں بھی انہی باتوں کا خیال رکھا جائے گا۔ لوگ بچوں کے ستر کا خیال نہیں رکھتے۔ اس عمر میں بچے مکلف نہیں ہوتے ان کے والدین ان کی تربیت کے اور ہر چیز کے مکلف ہوتے ہیں۔جیسے بچوں کو نماز پڑھانے کے مکلف بھی والدین ہیں۔ سات سال کی عمر میں نماز پڑھانا شروع کرنا چاہیے۔اگر دس سال کے بعد بھی نہ پڑھیں تو مار کے بھی پڑھائی جا سکتی ہے۔ حالانکہ ضروری نہیں ہے کہ دس سال میں بلوغت ہو، لیکن یہ ایک پیش بندی کے طور پر ہوتا ہے۔ اسی طریقے سے ستر کے معاملے میں بھی پیش بندی کرنا چاہیے اور پہلے سے اس کی عادت ڈلوانی چاہیے۔

جو لوگ مادر زاد ولی ہوتے ہیں ان کو بچپن سے اس کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ننگے نہیں پھرتے۔ اس لئے بچوں کو بھی عریاں رہنے کی عادت سے بچانا چاہیے۔ ان کو حیا اور ستر کا پیغام اپنے عمل سے دینا چاہیے۔

آج کل بازار میں جو کپڑے ملتے ہیں وہ زیادہ تر انگریزی لباس ہوتا ہے۔ اس پہ اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ بازار میں صحیح کپڑے ملتے ہی نہیں، ہم کیا کریں۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ خدا کی بندیو یہ کپڑے سینا پرونا سیکھنا کس لئے ہوتا ہے؟ اسی لئے ہوتا ہے کہ ہم دوسروں پہ dependent نہ ہوں۔ کم از کم اتنا سینا پرونا عورتوں کو جاننا چاہیے کہ اپنے بچوں کے لئے تو کپڑے بنا سکیں، شریعت کے مطابق کپڑے سی سکیں اور دوسروں کے اوپر depend نہ رہیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن