سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 445

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی ، پاکستان










اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔

آج پیر کا دن ہے پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق جو سوالات لوگوں کے ذہنوں میں اٹھتے ہیں ان کے جوابات دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس دفعہ چونکہ جوڑ کی غرض سے ہمارا فیصل آباد کا سفر کا اور پھر گزشتہ ہفتے لاہور گیے تھے اور وہاں بھی کافی پڑھے لکھے لوگ بیان سننے کے لیے جمع ہوتے ہیں، چونکہ اس دن بھی پیر کا دن تھا اس لیے پہلے سوال جواب کا سلسلہ ہوا، پھر بیان ہوا، پھر سوال جواب کا session ہوا، وہ بھی اہم سوالات تھے، ان کے جوابات record تو ہو چکے تھے لیکن live نہیں تھے، صرف پہلا session ہیlive تھا لہذا انہیں بھی live کرنا چاہتے ہیں، تو تقریباً 23 منٹ کے سوال و جوابات ہیں، پہلے ان کو چلایا جائے گا پھر ان شاء اللہ اس وقت لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات دئیے جائیں گے۔ تو آپ شروع فرمائیں۔ اس کے بعد پھر میں ان شاء اللہ دوسرے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کروں گا۔


سوال نمبر 01:

(حضرت نے فرمایا) روح تو نظر نہیں آ سکتی۔ (سائل نے کہا) کہا جاتا ہے کہ روح صرف pumping device ہے، اس کو relate کس طرح کیا جاتا ہے؟

جواب:

یہ بہت زبردست question ہے۔ در اصل روح جسم میں ہر جگہ موجود ہے، اگرچہ ہمیں صرف گوشت نظر آ رہا ہے، ہڈیاں نظر آ رہی ہیں، رگیں نظر آ رہی ہیں، لیکن روح نظر نہیں آ سکتی۔ جس طرح جسم کا پورا حصہ ہے جس میں دل ہے اور دیگر بہت سے اعضاء ہیں۔ اسی طرح روح کے بھی تو یہ اعضاء ہوں گے۔ لہذا روح جو دل کی جگہ میں موجود ہے اس کی shape بھی جسم ہی کی shape کی طرح ہے کیونکہ وہ اس کے اندر enclosed ہے، لہذا یہ جگہ spiritual heart ہے۔ اور جو بات کی جاتی ہے وہ spiritual heart کی جاتی ہے۔ جیسے fridge کی machinery اس سے نکال کر کسی اور چیز میں رکھ دی جائے تو وہی fridge بن جائے گی۔ اسی طرح spirit جسم کے اندر ہے اور جسم کو چلانے والی یہی ہے۔ القاء اور الہام کا تعلق بھی اسی روح کے ساتھ ہے اور pumping کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔ میں اس کی بہت ہی آسان مثال دیتا ہوں کہ محبت اور نفرت دل میں ہوتی ہے اور یہ ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر کسی کے ساتھ محبت ہو جائے تو وہ دل میں محسوس ہوتی ہے، اور نفرت بھی دل میں ہی محسوس ہوتی ہے اور دل باقاعدہrepel کرتا ہے یعنی اگر کسی کے ساتھ آپ نہ ملنا چاہتے ہوں تو آپ اس کے ساتھ چاہے گلے مل لیں لیکن آپ کا دل repel کرے گا اور آپ نہیں مل سکیں گے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ چیزیں دل میں ہوتی ہیں، اسی طرح ایمان اور کفر بھی دل میں ہوتے ہیں اور اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے یہ بصیرت دی ہو تو وہ دل کی طرف دیکھ کر کافر اور مسلمان میں فرق کر سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ جو لاہور کے تھے، ایران سے کوئی آدمی ان سے مناظرہ کرنے کے لیے آیا تھا جب وہ آیا تو میاں میر رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے دھوپ تاپ رہے تھے تو جیسے جیسے وہ کچھ لوگوں کے ساتھ قریب آ رہا تھا تو حضرت نے فرمایا یہ جو آگے آگے آ رہا ہے اس کا دل کالا ہے۔ تو وہ جب قریب آیا تو واقعتاً وہ وہی تھا۔ اب حضرت نے دل کی بات بتائی تھی، دماغ کی بات نہیں بتائی۔ لہذا کفر اور ایمان بھی دل میں ہوتے ہیں اور محبت و نفرت بھی دل میں ہوتے ہیں۔


Atheist نےسوال کیا تھا کہ:

آپ کیا اللہ پر یقین رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا میں مسلمان ہوں کیوں نہیں رکھتا؟ اس نے کہا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ اللہ موجود ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے۔ تو اس نے کہا کیا ایک گواہی پر آپ اتنی بڑی حقیقت مان سکتے ہیں؟ پٹھانوں کا علاقہ تھا وہ تو کھڑے ہو کر مارنے لگے، تو حضرت نے اشاروں اشاروں میں بٹھا دیا کہ میں جواب دیتا ہوں آپ لوگ کیوں بحث کرتے ہو؟ چنانچہ لوگ بیٹھ گیے۔ حضرت پھر ان کو باتوں میں involve کر کے بہت دور لے گیے جیسے وہ بات بھول گیے اور پھر اس سے یہ بات کرنے لگے کہ ماشاء اللہ آپ کے والد صاحب کیسے تھے؟ اس نے کہا وہ تو فوت ہو گیے، پھر پوچھا آپ کی والدہ کیسی ہیں؟ تو کہتا ہے بوڑھی ہے۔ انہوں نے فرمایا: وہ تو بڑی سچی ہوں گی کیونکہ پرانی عمر کی ہیں۔ تو اس نے کہا کہ نہیں کبھی کبھی اپنے مقصد کے لیے جھوٹ بھی بول لیتی ہے۔ یہ لوگ چونکہ broad-minded تو بنتے ہیں، لہذا کہنے لگا کہ اپنے مقصد کے لیے جھوٹ بھی بول لیتی ہے۔ تو انہوں نے کہا اچھا! تو کیا خیال ہے آپ واقعی اس کے بیٹے ہیں جس کا آپ نام لے رہے ہیں؟ تو غصہ ہو گیا اور کہتا ہے کہ مولانا گالی تو نہ دو، انہوں نے کہا تونے اتنی بڑی بات کی میں نے کچھ نہیں کہا۔ اب میں بات کر رہا ہوں تو آپ غصہ کیوں ہو رہے ہیں؟ غصے ہونے کا حق آپ کو بھی نہیں ہے، logic پہ بات کریں، اور logic یہ کہتی ہے کہ بقول آپ کے وہ کبھی کبھی اپنے مقصد کے لیے جھوٹ بول لیتی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ عینی گواہی صرف ایک ہے کوئی اور نہیں ہے۔ تو اپنی عزت کو بچانے سے بڑا مقصد اور کیا ہو گا تو ہو سکتا ہے وہ اپنی عزت بچانے کے لیے جھوٹ بول رہی ہو؟ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس کا شوہر آپ کا باپ ہے؟ میں logic کی بنیاد پہ کہہ رہا ہوں تو آپ logic کی بنیاد پر مجھے جواب دیں۔ تو وہ بالکل fail ہو گیا، اس کے پاس answer نہیں تھا۔ تو انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو یہ شان تھی کہ ان کے دشمن بھی ان کو صادق و امین کہتے تھے اس کے باوجود ان کی بات تو میں نہ مانوں اور ایک ایسی عورت کی بات مان لوں جو بقول آپ کے کبھی کبھار جھوٹ بھی بولتی ہے۔ آپ اس کے اوپر اتنا یقین کرتے ہیں؟ اس کا کیا جواب ہے؟ تو وہ لاجواب ہو گیا۔ لہذا بنیادی بات تو یہی ہے۔

اس لیے میں اکثر بیانوں میں کہا کرتا ہوں کہ اصل ایمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے اسی لیے خدا تعالیٰ پر ایمان ہے۔ جیسے اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، یعنی اللہ پاک کی صفات بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائیں، کتابوں پر ایمان اسی وجہ سے ہے، قرآن پر ایمان اسی وجہ سے ہے، رسولوں پر ایمان اسی کی وجہ سے ہے، غیرضیکہ تمام ضروریاتِ دین پر ایمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہے۔ لہذا بنیادی حیثیت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ مقام اللہ پاک نے دیا ہے کہ ساری چیزوں کا فیض آپ کے واسطے سے ہے۔ تکوینی فیض بھی اور تشریعی فیض بھی سب آپ ﷺ کی طرف سے ہے۔ یہاں تک فرمایا کہ ﴿قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (آل عمران:31 ) یہ معمولی بات نہیں ہے ذرا اس کا weight کریں پھر اندازہ ہو گا کہ ﴿فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾(آل عمران: 31) کوئی معمولی بات نہیں ہے؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مرکزیت ہے۔

سوال نمبر 03:

حضرت اس حوالے سے ایک اور suggestion ہے کہ ہمارے سوال و جواب کے اس سلسلہ کے لیے کم از کم facebook پہ ایک page بنا دیا جائے اور اس پر relay کیا جائے۔ تا کہ جو thought process ہیں اور یہ سوال و جواب ہیں، جتنے بھی ہم community میں بیٹھے ہیں ہم ان کو زیادہ سے زیادہ like کر رہے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچیں۔ جس میں نہ کوئی تصویر ہو نہ کوئی اور فالٹ ہوں۔

جواب:

در اصل میں خود تو نہیں آتا لیکن جو پہلے سے facebook پر ہیں آپ اس کو چلائیں۔


(سائل) نہیں حضرت جیسے تزکیہ کی ہماری website ہے ناں ایسے ہی اس کا page بنا لیا جائے۔

(حضرت کا جواب) ایک Page بنا ہوا ہے (page بنا ہوا ہے؟) خواتین چلا رہی ہیں کوئی میرے خیال میں page بنا ہوا ہے حضرت کے بیانات اس پہ آتے ہیں اور clips چھوٹے چھوٹے حضرت کے آتے ہیںpage پہ۔

اب وہ یہ ہے ناں کہ جیسے ہم لوگ یہاں بیٹھے ہیں سو سے سو ہزار دس ہزار تو وہ message across اور خصوصا ان countries میں بھائی ہے میرا ایک کزن ہے دو اور چار پانچ جاننے والے ہیں تو وہ یہ جو سوال و جواب کا سلسلہ ہے ناں یہ اس سے بہت زیادہ clarity آتی ہے۔ ہاں بالکل ہاں اس سے بہت زیادہ۔ بہت زیادہ clarity آتی ہے۔)


الحمد للہ ہم نے جو کام شروع کیا ہے ناں اپنی web وہ جو سوال و جواب ابھی تک ہمارے جتنے تقریباً 400 سے زیادہ session ہوئے ہیں ناں یہ ان شاء اللہ ایک بہت بڑا ذخیرہ بننے والا ہے اس کا میں میں نے ان کو بتایا میں نے کہا اس طرح کر لو کہ اس کے جوابات تو بے شک audio کیونکہ اس کو text میں convert کرنے میں بڑا ٹائم لگے گا لیکن اس کے جو questions ہیں وہ text form میں کرو۔ questions اگر text میں ہوں گے تو searchable ہو جائیں گے جب وہ searchable ہو جائیں گے تو جس کو جو ضرورت ہو گی تو وہ ادھر سے catch کرکے مطلب اس کو سن لے گا download کر لے گا۔


(subject base بھی اس میں دئیے جا سکتے ہیں کہ جی)

مزید بھیcategorize۔

(کہ اتنے سوال ہیں)۔

اس کا design بنایا ہے (design بنایا جاتا ہے) اور اس کی app کے اوپر بھی کام شروع کر رہے ہیں ان شاء اللہ)

بالکل ہاں کیونکہ واقعی یہ ایک بہت ہمارے پاس ایک انمول خزانہ ہے یہ میں نے آپ کو بتایا تصوف کا خلاصہ چھوٹی سی کتاب ہے لیکن اس کا جتنا فائدہ ہوا ہے ناں کسی اور کتاب کا اتنا نہیں ہوا۔

(عمر بھائی you take the lead آپ ایک پیج design کریں)۔ design ہو گیا ہوا ہے اس کے اوپر بھی کام ہو رہا ہے۔

اس کا جتنا فائدہ ہوا ہے کسی اور کتاب کا نہیں ہوا چھوٹی سی کتاب ہے لیکن وہ یہ نہیں تصوف کے بالکل مخالفین ہیں ان کو ہم نے دیا ان کا منہ بالکل بند ہو گیا۔


سوال نمبر 04:

خالق کہے کہ میں نے تمہیں یہ کہا ہے اور تم یہ کام کر رہے ہو؟۔

جواب:

در اصل خالق تو ہمارے تصور سے بھی beyond ہے اور وہ وراء الوراء ذات ہے البتہ وہ پیغمبروں کے ذریعہ سے communicate کرتا ہے۔

وال) جن کو communicate کر رہا ہے ان کو بھی پیدا کرنے والی وہی ذات ہے؟

(جواب) جی بے شک۔

(سوال) اس میں شیطان شامل ہے اس کو بھی پیدا کرنے والی وہی ذات ہے؟۔

(جواب) بے شک اس کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے۔ اللہ پاک خود قرآن میں نفس کے بارے میں فرماتے ہیں: ﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا (الشمس: 9-10) اس میں اللہ پاک فرماتے ہیں اس نفس کو میں نے دو چیزیں الہام کی ہیں۔ ایک فجور یعنی برائیوں کے تقاضے۔ اور دوسرا تقوٰی۔ پھر میں نے اجازت دی کہ جو جس کو follow کرنا چاہے اور جو کچھ کرنا چاہے کرے لیکن نتیجہ بھی سن لے ﴿قَد أَفلَحَ مَنْ زَكّٰىَها (الشمس: 9) "یقیناً کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا" یعنی برائیوں سے بچ گیا۔ اور ﴿وَقَد خَابَ مَنْ دَسّٰىَها (الشمس:10) "اور بے شک وہ غارت ہوا جس نےاپنے نفس کو آلودہ کر لیا".


(سوال) شیطان بھی اسی کا پیدا کردہ ہے، ہم نے کوئی امریکہ اسرائیل یا کسی اور سے نہیں لیا تو یہ آپس میں competition کیوں ہے؟

(جواب) نہیں کوئی competition نہیں ہے صرف بات یہ ہے کہ شیطان کو اپنے نفس نے خراب کر دیا، جب اس کو اللہ تعالیٰ نے سجدہ کرنے کا کہا تو اس نے انکار کیا۔ حالانکہ پہلے وہ بڑی اچھی پوزیشن پہ تھا۔


وال) تھوڑی سی اگر back story پہ جائیں تو حضرت آدم علیه السلام کے دنیا میں آنے کی وجہ بھی شیطان ہی ہے اور اگر وہ situation نہ بنتی تو یہ ساری chain آگے نہ بنتی۔


(جواب) دیکھیے! شیطان بڑی اچھی پوزیشن پہ تھا، مُعَلِّمُ المَلَکُوْتِ اس کے ساتھ بیٹھتے تھے جیسے جب آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے سجدہ کیا اور شیطان نے نہیں کیا تو اللہ پاک نے اس سے پوچھا ﴿قَالَ يَآ اِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَىَّ ۖ اَسْتَكْـبَـرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِيْنَ﴾ (ص:75) کہ تونے کیوں سجدہ نہیں کیا؟ جب کہ میں نے اس کو ایک خاص طریقہ سے پیدا کیا ہے؟ تو اس نے کہا ﴿خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ (ص:76) کہ تونے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے پیدا کیا، چنانچہ اس وجہ سے وہ گمراہ ہو گیا۔ تو اللہ پاک نے اس کو نکال دیا کہ تو میری بات نہیں مانتا بلکہ اپنی طبیعت کی بات مانتا ہے۔


(سوال) آپ کی بات بالکل صحیح ہے۔ لیکن پیدا کرنے والی ذات تو وہی ہے۔

(جواب) پیدا تو کسی کو بھی کر سکتا ہے۔


(سوال) اب اللہ نہ کرے ہم جہنم میں جائیں یا کہیں بھی جائیں، وہاں کے بھی خالق تو وہی ہیں۔

(جواب) در اصل ہر شخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہے، اللہ پاک نے ہدایت کو بھی پیدا کر دیا ہے اور گمراہی کو بھی پیدا کر دیا ہے۔ لیکن ساتھ فرما دیا ہے کہ ہدایت کو لو، گمراہی کو نہ لو۔ یہی تو امتحان ہے۔


(سوال) مثلاً ایک چھوٹی سی بات ہے میں نے ایک میزائل بنایا اس میں میں نے کچھ Artificial Intelligence بھی ڈال دیں اس کو میں نے فائر کیا لیکن وہ اپنے ٹارگٹ پہ hit نہیں کیا تو وہ میزائل کا قصور ہے یا creator کا fault ہے؟

(جواب) اصل میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی آپ اللہ تعالی کے ساتھ مثال نہیں دے سکتے۔ مثلاً کھانے پینے کی مثال ہم اللہ تعالیٰ کے متعلق نہیں دے سکتے کیونکہ وہ ان چیزوں سے پاک ہے اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جس کی مثال ہم دے سکتے ہیں جس طرح اللہ بھی رحیم ہے، انسان بھی رحیم ہے، اللہ بھی کریم ہے، انسان بھی کریم ہے۔ لہذا میزائل کی مثال نہیں دی جا سکتی۔

(سوال) اس کو سمجھنے کا کوئی آسان طریقہ؟

(جواب) آسان طریقے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک دفعہ میں نے اپنے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ حضرت مجھے اپنی اصلاح کا آسان طریقہ بتا دیں، چونکہ میں atomic energy commission میں تھا تو انہوں نے فرمایا مجھے ایٹم بنانے کا آسان طریقہ بتا دو تو میں آپ کو یہ بتا دوں گا۔ ظاہر ہے بم بنانے کا آسان طریقہ تو نہیں ہوتا۔


(سوال) کیوں نہیں ہے؟ وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں change ہوتی جا رہی ہیں۔

(جواب) نہیں ہے، ایٹم بم بنانے کا آسان طریقہ آپ مجھے بتا دیں؟


وال) دیکھیے حضرت! یہ وقت کے ساتھ change ہوتی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہم ایٹم بم بنا ہی نہیں پا رہے تھے۔ اب آہستہ آہستہ stages کم ہوتی جا رہی ہیں۔

(جواب) نہیں ایسا نہیں ہے۔there are 25 steps۔ پچیس steps ہیں اور اس کے اوپر کتنا وقت لگتا ہے اور کتنی processing ہوتی ہیں؟۔


. First time (سوال)

(جواب) first time نہیں۔ وہ بات صحیح ہے۔ لیکن ایٹم بم بنانے کا جو طریقہ ہے اور اس میں جو enrichment ہے وہ تمام چیزیں اور اس procedure تک جانا اور practically gain کرنا آسان نہیں ہوتا۔

جیسے حضرت نے جو مثال دی تھی اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کے لیے effort کرنی پڑتی ہے۔ جیسے میرے پاس "عبقات" کتاب موجود جس کا ہم نے دو دفعہ درس دیا ہے اس میں ان questions کے جوابات موجود ہیں لیکن اس کے لیے باقاعدہ ایک base بنانا پڑتی ہے۔ یعنی پہلے ایک step سمجھنا پڑتا ہے، پھر دوسرا، پھر تیسرا، پھر چوتھا، اس کے بعد انسان کے اندر understanding develop ہوتی ہے۔


(سوال) میرا صرف اتنا point ہے کہ کیا یہ چیزیں آنکھیں بند ہونے سے پہلے سمجھ آ سکتی ہیں یا آنکھیں بند ہونے کے بعد ہی ساری picture clear ہوتی ہے؟


(جواب) آنکھیں بند ہونے کے اور کچھ نہیں ہو سکے گا اس کے بعد تو صرف نتیجہ سامنے آئے گا کہ آیا میں حق پر تھا یا نہیں تھا۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی اور بہترین شخصیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بتایا ہے بس ہم اس کو مان لیں، سب سے آسان طریقہ یہی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی آسان طریقہ نہیں ہے، باقی سب مشکلات ہیں۔

تقدیر ایک ایسا topic ہے جس میں انسان out ہوتا ہے جیسے آپ کمپیوٹر پر اگر ایسی problem solve کرنا چاہیں جو اس کی حیثیت سے باہر ہو تو کمپیوٹر hang ہو جائے گا۔ تو اس پر منت کرنے میں انسان اپنا وقت ہی ضائع کرتا ہے۔

ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو صحابہ کرام تقدیر کے بارے میں کوئی discussion کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو یہ discussion کرتے دیکھ کر فرمایا میں آپ کو ایک چیز بتانے والا تھا لیکن آپ کی اس discussion کی وجہ سے اللہ پاک نے مجھ سے وہ چیز اٹھا لی۔ یعنی لیلۃ القدر کے بارے میں بتانا چاہتا تھا لیکن اب وہ مجھے یاد نہیں رہی۔ البتہ اب اس کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ تقدیر پر اجمالی ایمان تو ضروری ہے، اجمالی ایمان سے مراد یہ ہے کہ ہم کہیں کہ سب کچھ اللہ پاک کرتے ہیں۔ لیکن اس کی details میں جانے سے اور اس کی گتھیاں سلجھانے میں واقعتاً اتنی complication ہو جاتی ہے کہ نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ ایک چیز کو رکھیں تو دوسری آپ کے ہاتھ سے جاتی ہو، دوسری رکھیں گے تو تیسری جانے کا اندیشہ ہو۔ چنانچہ تقدیر کے معاملے میں گہرائی میں جانے سےیہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔


(سوال) میں یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ اس کا کوئی solution ہے؟

(جواب) بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پہ چلیں کہ اس بارے میں گہرائی میں نہ جائیں۔ سب سے آسان طریقہ یہی ہے۔

اللہ کا شکر ہے میں کہتا ہوں اللہ پاک کا اس شخص کے اوپر بہت فضل ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت نصیب فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلنے کا ارادہ کر لے، چاہے وہ نہ چل سکے لیکن ارادہ کر لے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پہ چلنا ہے۔ یہ اس کی بہت بڑی خوش قسمتی ہے۔ کیونکہ اس سے کم از کم وہ راستے پہ آ جاتا ہے، اب کتنے قدم اٹھاتا ہے وہ اس کی اپنی effort ہے۔ لیکن کم از کم راستہ پر تو آ گیا۔


سوال نمبر 05:

آج کے دور میں کہیں practical اسلام نظر آتا ہے یا صرف؟

جواب:

واقعتاً یہ بڑا اچھا question ہے، ہمارے ایک صاحب نے بڑے اچھے طریقے سے اسے explain کیا تھا، ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں مولانا احمد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہ جب جنوبی افریقہ گیے تو وہاں کے حضرات نے ان سے کہا کہ حضرت آپ تشریف لائے، آپ تھکے ہوئے بھی ہیں، آپ کو آرام کرنے کی بھی ضرورت ہے، آپ کو کھانے کی بھی ضرورت ہے آپ کو نماز پڑھنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں سب چیزوں کا احساس ہے، لیکن ایک ایسا شخص ہے جو انگلینڈ میں مسلمان ہوا پھر اس نے سوچا کہ میں مسلمانوں کے پاس جاتا ہوں یوں وہ صومالیہ آ گیا، صومالیہ میں اس نے کرپشن اور لوگوں کے اس طرح کے برے اعمال دیکھے تو وہ بہت dishearted ہو گیا اور واپس جانا چاہ رہا ہے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ مرتد نہ ہو جائے، تو ایسی صورت میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا آپ ان سے ملنا چاہیں گے؟ یا اپنی ضروریات سے فارغ ہو کر اس سے ملنا پسند کریں گے؟ حضرت نے فرمایا کھانا بھی بعد میں کھایا جا سکتا ہے، نماز راستے میں پڑھی جا سکتی ہے اور تھکاوٹ کی کوئی پروا نہیں ہے۔ چلیے! پہلے اس سے ملتے ہیں۔ چنانچہ اس کے پاس تشریف لے گیے۔ جب اس کے پاس پہنچے تو وہ سامان باندھ رہا تھا، وہاں کے حضرات نے اسے بتایا کہ حضرت فلاں صاحب انڈیا سے تشریف لائے ہیں۔ تو انہوں نے اپنی رام کہانی سنانی شروع کر دی تو حضرت نے کہا کہ آپ کی کہانی کا مجھے علم ہے، میں آپ کو ایک بات سنانے کے لیے آیا ہوں باقی آپ کی مرضی۔ وہ کہنے لگے جی بالکل بتائیے۔ انہوں نے کہا کم از کم اسلام کے بارے میں آپ کو پتہ ہے کہ صحیح مذہب ہے؟ کہتا ہے بالکل اسی وجہ سے میں مسلمان ہوا تھا۔ پھر فرمایا کہ آپ کو گلہ ہے کہ مسلمان اس کو follow نہیں کر رہے ہیں۔ کہتا ہے جی ہاں۔ انہوں نے کہا آپ وہ first person ہو جائیں کہ آپ follow کرنا شروع کر دیں تاکہ اور لوگ آپ کو follow کریں۔

Why do you wait for the other? Let's start with yourself.

بس اس کو ہوش آ گیا، اور کہتا ہے بس میں نہیں جا رہا، چنانچہ وہ رک گیا۔


(سوال) دوسری سائیڈ پہ اگر دیکھیں تو ہم بہت زیادہ بدنام ہیں being a Pakistani being a Muslim)

(جواب) اس کا جواب موجود ہے، لیکن اگر کوئی confuse ہونا چاہتا ہے تو confuse ہونے کے لیے بھی دلائل بہت زیاد ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمان چونکہ اللہ و رسوال پر ایمان رکھتا ہے اور ایمان کا فائدہ یہ ہے کہ مومن چاہے گناہ گار کیوں نہ ہو بالآخر جنت جائے گا۔ اس لیے شیطان کو چونکہ اس کا علم ہے تو کبھی بھی آرام سے نہیں بیٹھتا اور انسان کو نیک کاموں سے روکتا ہے، کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ اگر یہ کسی کو مسکرا کر بھی دیکھے گا تو اس پر بھی ثواب ملے گا، لہٰذا وہ ہر چیز میں اس کو خراب کرتا ہے، جب کہ کافر کے بارے میں وہ مطمئن ہوتا ہے کہ جب تک یہ کلمہ نہ پڑھ لے اس وقت تک یہ میرا ہے چاہے کتنے اچھے کام کر لے، اسے جو ملنا ہے ادھر دنیا میں ہی ملے گا، آخرت میں اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا، لہٰذا کافر پہ وہ صرف اتنی محنت کرتا ہے کہ یہ کافر رہے، اس پہ مزید محنت نہیں کرتا۔ جب کہ مسلمان کی ہر چیز پہ محنت کرتا ہے۔ اس لیے علماء نے اس کی نشانی بتائی ہے کہ اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ شیطان کون سے غلط کام کرتا ہے اور نفس کون سے غلط کام کرتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جو برائیاں کافر اور مسلمان میں مشترک ہیں وہ نفس کی وجہ سے ہیں کیوں کہ کافر کے ساتھ بھی نفس ہے اور مسلمان کے ساتھ بھی نفس ہے۔ اور جو برائیاں کافر میں نہ ہوں لیکن مسلمان میں ہوں تو وہ شیطان کی وجہ سے ہیں۔ کیونکہ شیطان مسلمانوں سے برائی کروائے گا اور کافروں سے نہیں کروائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر پاکستان یا انڈیا میں اگر کوئی قادیانی ہو جاتا ہے تو پہلے وہ 2.5٪ زکوۃ نہیں دیتا ہو گا، لیکن بعد میں قادیانی جماعت کو 10٪ دیتا ہے۔ پھر وہ اس کے لیے اپنے گھر والوں کو بھی استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے، اس میں تحمل بھی آ جاتا ہے، برداشت بھی آ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ شیطان نے اس سے وہ چیز نکال لی ہے، اب وہ صرف اس کو اپنا وکیل بنانا چاہتا ہے۔ جب کہ مسلمان کو صحیح نہیں ہونے دینا چاہتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم باہر کے ملکوں میں مثلاً یورپ یا امریکہ میں دیکھیں تو لوگ کہتے ہیں کہ ان کا کلچر بہت اچھا ہے، لہذا یہ اچھے لوگ ہیں۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ یہاں کے ہمارے حکمران غلط لوگ ہوتے ہیں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں۔ جب کہ وہاں کے حکمران ان کے اچھے لوگ ہوتے ہیں، یعنی وہ اپنے آپ کے لیے تو غلطی برداشت کر لیتے ہیں، حکمرانوں میں غلطی نہیں برداشت کرتے۔ ان سے ذرا بھر بھی غلطی ہو جائے تو وہ ان کے اوپر چڑھ دوڑتے ہیں۔ گویا ان کے حکمران ان کے اچھے لوگ ہیں، اس کے باوجود ان کے حکمران مسلمانوں کے ساتھ کبھی اچھا سلوک نہیں کرتے، جتنے دھوکے وہ مسلمانوں کو دے سکتے ہیں چاہے کسی بھی صورت میں ہوں وہ دیں گے۔ اپنے لوگوں کے ساتھ ٹھیک ہوں گے جب مسلمانوں کے ساتھ deal کی بات آئے گی تو سب کچھ بدل جائے گا۔ اس کی وجہ ہے یہ سامنے آئی کہ جب مسلمانوں کے ساتھ ان کا کوئی معاملہ ہو تو شیطان ان کو استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے، اور جب ان کی آپس کی بات ہو تو ان کو دوسری طرح استعمال ہونے دیتا ہے۔ اس context میں دیکھیں تو یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے۔ البتہ میں کہتا ہوں کہ یہ تو آج کل کے دور کی بات ہے، صحابہ کرام بھی تو انسان تھے اور مسلمان بھی تھے ان کو شیطان کیوں نہیں ورغلا سکتا تھا؟ انہوں نے کیسے اتنے اچھے اچھے کام کیے؟ شیطان ان سے یہ کام کیوں نہیں چھڑا سکا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ نے اپنے ایمان پر اس level کی محنت کی تھی کہ شیطان کی رسائی وہاں تک نہیں ہو سکتی تھی۔ لہذا ہمارے سامنے target یہ ہے کہ ہم صحابہ کے طریقہ پہ چلیں۔


(سوال) لیکن ان کا جب ہم end دیکھتے ہیں تو ان کی شہادت نظر آ رہی ہے کہ ہمارے چاروں خلفاء راشدین کو شہید کر دیا گیا تھا۔

(جواب) شہادت کی صورت میں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا اعلی رتبہ دیا تھا۔


(سوال) لیکن اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگوں میں یا کم از کم بیچ میں اس قسم کے میر جعفر موجود تھے۔

(جواب) در اصل ہر اچھائی کے ساتھ قریب کسی طرح برائی بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے مثلاً جب میں سائے کو دیکھتا ہوں تو مجھے سورج بھی نظر آنا چاہیے۔ میں اس وقت سورج کی بات کر رہا ہوں۔ اسی طرح کے واقعات سے ان حضرات کے character کی بلندی لوگوں کو سمجھ آتی ہے۔ اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ ہمیں صحابہ کے طریقہ پہ چلنا چاہیے اور اس وقت جو چیزیں صحابہ کے مقابلہ میں ہوئی تھیں وہ ہمارے لیے علم کی بنیادیں ہیں کہ جہاں جہاں اس قسم کا مسئلہ ہو تو ہم صحابہ کے دور سے رہنمائی حاصل کر کے ان چیزوں سے بچ جائیں، تو یوں ہمارے سامنے پورا chapter کھل جائے گا۔


سوال نمبر 06:

ہمارے وظیفے کی مدت پوری ہوئی ہے، آپ نے ہم دونوں کو اسم ذات 1500 مرتبہ دیا تھا میرا مجاہدہ تو تین مہینے تک ہے اور میری سہیلی کو آپ نے جو دیا تھا کہ جو کام میں پہلے نہیں کر سکتی اب کروں گی۔

جواب:

ٹھیک ہے، آپ کا مجاہدہ تو تین مہینے تک جاری رہے گا اور آپ کی سہیلی اپنے مجاہدے کے بارے میں بتا دے کہ وہ کیا feel کر رہی اور کیا ہو رہا ہے؟


سوال نمبر 07:

حضرت آپ نے رذائل کی list بھیجنے کی ہدایت فرمائی تھی ذیل میں انہیں لکھنے کی کوشش کی ہے۔ 1 سستی۔ 2 دیر سے اٹھتی ہوں۔ 3 زیادہ کھانا کھاتی ہوں۔ 4۔ کچھ نہ کچھ چکھتی رہتی ہوں۔ 5 میٹھا بہت اچھا لگتا ہے۔ 6 چائے بہت اچھی لگتی ہے۔ بچوں کی طرف سے لاپروائی ہے۔ ان کو میں خود نہیں پڑھاتی۔ نندوں سے بغض ہے۔ ساس گھر میں نہ ہو تو بہت خوشی ہوتی ہے، دماغ میں دیور وغیرہ سے پردہ ہے لیکن عمل میں نہیں ہے، جو عمل شروع کرتی ہوں مستقل نہیں ہوتا، ورزش نہیں کرتی، مہمانوں سے چڑچڑاہٹ ہوتی ہے، اکیلا پن اچھا لگتا ہے، اعتراضات بہت کرتی ہوں، خاص کر چھوٹی نند کی ہر بات پر، اپنی بات کے مقابلے میں دوسروں کی بات کو یا خیال کو کچھ نہ سمجھنا چاہے وہ ٹھیک بھی ہو، فارغ رہنا اچھا لگتا ہے، اونچا بولتی ہوں، چیختی رہتی ہوں، شوہر سے گلے کرتی ہوں، گھر کے کام بوجھ سمجھ کر مجبوراً کرتی ہوں، کام پہلے کرنا اور نماز بعد میں پڑھنا، undisciplined routine، فارغ رہنا اچھا لگتا ہے، احساس کمتری پاتی ہوں۔ جسم میں سستی اور چڑچڑاہٹ ہے۔ ماحول و حالات کا اثر لینا اور متاثر ہونا، ذکر کی جگہ فضول لا یعنی باتوں کو سوچنا، video وغیرہ دیکھنا، معمولات کا وقت پر نہ کرنا، معمولات رات کو سونے سے پہلے کرتی ہوں، اس وقت بھی تھکاوٹ اور نیند کا غلبہ ہوتا ہے، کبھی پورا کر پاتی ہوں کبھی نہیں، یہ چیزیں میں نہ خود چاہتی ہوں نہ اپنے بچوں میں، یقیناً اور بھی بہت کمیاں ہیں مجھ میں۔ اللہ پاک انہیں درست کرنے کے قابل بنائے اور ایک بات لکھنا بھول گئی ہوں کہ اپنے شیخ سے رابطے میں انتہائی سستی کرتی ہوں۔ تین چار مہینوں میں جب حالت انتہائی خراب ہو جائے تو صرف اس غرض سے غرض کے لیے رابطہ کرتی ہوں۔

جواب:

یہی اصل میں بنیادی اصلاح ہے کہ انسان جب کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو اپنی بیماریاں بیان کرتا ہے، یہ نہیں کہا جاتا کہ میں فلاں چیز میں بھی ٹھیک ہوں، فلاں بھی ٹھیک ہے، وغیرہ وغیرہ، وہ تو علاج نہیں ہوتا بلکہ صرف information ہوتی ہے۔ یہ الحمد للہ ذکر و اذکار کی برکات ہیں کہ اتنی information اس نے دی ہے It's only because of ذکر and فکر۔ یہی چیز ہم چاہتے ہیں، اب الحمد للہ علاج بھی شروع ہو جائے گا اور علاج کرنے والی تو اصل اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، لیکن بہرحال انسان اپنی طرف سے شروع کرتا ہے اور اللہ پاک پھر مدد فرماتے ہیں، تو میں ان سے عرض کر رہا ہوں کہ فی الحال یہ چار کام کر لیں کہ شیخ سے رابطہ باقاعدہ رکھیں، یہ top priority پہ ہے کیونکہ یہ اس کا key point ہے، دوسرا key point یہ ہے کہ شوہر سے گلے شکوے بند کر دیں، اور جو واقعتاً گلے ہوں وہ اللہ سے مانگیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ڈال دے۔ کیونکہ شوہر سے گلے شکووں پر حدیث شریف میں وعید آئی ہے کہ بہت ساری عورتیں دوزخ میں جائیں گی، پوچھا گیا کہ کیوں؟ تو فرمایا کہ شوہر کی ناشکری اور اور لعنت ملامت۔ یہ دو باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھیں لہذا خواتین کے لیے یہ target points ہیں اور video دیکھنا بند کر دیں کیونکہ یہ آج کل کے دور میں بہت سے امراض کی وجہ ہے۔ اور نماز کا وقت جیسے داخل ہو سب کام چھوڑ کر پہلے نماز پڑھیں۔ یہ وہ چار کام ہیں جو آپ آسانی کے ساتھ کر سکتی ہیں۔ ان شاء اللہ اس سے مزید بہت ساری خوبیاں پیدا ہوں گی اور بہت سارے امراض دب جائیں گے۔

سوال نمبر 08:

حضرت جی!

As this is in your information that I suffered anxiety too month before but الحمد للہ I was recovered well with your prayers. But nowadays, I am suffering again حضرت جی I did ذکر

لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ two hundred times

اِلَّا اللہ four hundred times

اَللہُ اَللہ four hundred times

And اللہ hundred times for the last 1.5 months. حضرت جی my family is looking for رشتہ for me but I resist to go for it. Although I stopped but still I feel a lack of confidence and because of my sickness maybe, it will be difficult for me حضرت جی. I want to know, should I continue this ذکر with the same number or delay my marriage due to health issues?

جواب:

جہاں تک ذکر کا تعلق ہے وہ تو آپ یہ کر لیں کہ

200 times لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ

400 times اِلَّا اللہ

and 600 times اَللہُ اَللہ

اور 100 دفعہ اللہ۔ یہ ابھی آپ نیا ذکر شروع کر لیں اور دوسرا یہ ہے کہ اپنی شادی کو لیٹ نہ کریں یہ سنت ہے سنت کی برکت سے آپ کے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔


سوال نمبر 09:

السلام علیکم حضرت والا!

How should I get rid of this رذیلہ? I asked which one?

He told me not to have اخلاص and telling friends to not call me حضرت.

And No. 2 My نفس seeking honor in the eyes of people. It seems like the route disease is حب جاہ but you are the doctor and I am a patient.

جواب:

میرے خیال میں کچھ چیزیں mix ہو رہی ہیں اس لیے تھوڑا سا خیال رکھنا پڑے گا، بعض دفعہ انسان over conscious ہو جاتا ہے تو کچھ چیزیں وسوسہ کی صورت میں وجود میں آتی ہیں جو کہ انسان کو اصلی لگتی ہیں، یہی بات میں نے حضرت سے عرض کی تھی تو حضرت نے فرمایا تھا کہ ریا انسان میں خود بخود پیدا نہیں ہوتی بلکہ انسان باقاعدہ اس کی نیت کرتا ہے اور یہ ایک اختیاری فعل ہے "اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ" "تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے" لہذا اگر آپ کی نیت ریا کی نہ ہو تو پھر اس کی پروا نہ کریں وہ صرف ایک وسوسہ ہو گا۔ two way solution no problem یعنی کہ اگر اختیار میں ہے تو نہ کریں اور اختیار میں نہیں ہے تو وسوسہ ہے اور وسوسہ کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ لہٰذا میرے خیال میں اتنا زیادہ disturb نہیں ہونا چاہیے۔

The solution is very simple


سوال نمبر 10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! غصہ کی حالت پہلے سے بہتر ہے اور الحمد للہ اب دل کے اندر اتنی چڑ بھی نہیں ہوتی اور غصہ بھی کافی حد تک control خاموشی کے ذریعہ کر لیتا ہوں، ایک بات جو میں نے اب محسوس کی ہے کہ میرے اندر حسد کا مادہ آ جاتا ہے اور ادارے میں کوئی ایسا کام جو میں کر سکتا ہوں کسی دوسرے کو دیا جائے اور اگر وہ اس کو اچھے طریقے سے کر لے تو مجھے خواہ مخواہ تکلیف ہوتی ہے میں اس کو آخرت کا تصور کر کے، دنیا کی بے ثباتی کا خیال کر کے اور اس کے حق میں دعا کر کے دبا لیتا ہوں، مگر آپ سے گزارش ہے کہ دعا کریں کہ مجھے اس سے نجات مل جائے، کوشش کرتا ہوں کہ کِبر طبیعت میں نہ آئے مگر اس کے باوجود عہدہ کی وجہ سے کہیں نہ کہیں میرے دل میں اس کی موجودگی ضرور ہو گی، meetings میں میری رائے تسلیم نہ ہونے کی صورت میں طبیعت میں الجھن ضرور پیدا ہوتی ہے، لیکن اس کا احساس کر کے اس کو بھی دبا لیتا ہوں۔ لیکن بہرحال لغزش ہو ہی جاتی ہے اس بارے میں بھی اگر ہدایت مل جائے تو مہربانی ہو گی۔ پچھلے دو ڈھائی سالوں سے شہوانی خیالات کا جو زیادہ غلبہ رہا ہے اور کئی دفعہ مشکل بھی ہوئی لیکن دو تین ہفتے سے اس میں کافی واضح کمی ہو گئی ہے، لیکن ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ کمی عارضی نہ ہو۔ اس سلسلے میں بھی آپ سے بہت دعا کی درخواست ہے۔ نمازوں کا chart اور پابندی گزشتہ دو تین سال سے ایک ہی صورت میں ہے جس میں بہتری نہیں ہو رہی۔ آپ سے اس بارے میں بھی ہدایت اور رہنمائی کی درخواست ہے۔ ازدواجی زندگی میں بھی گزشتہ دو تین سال سے کچھ مسائل آ رہے ہیں، اس بارے میں آپ سے رہنمائی اور ہدایت لینا چاہتا ہوں، لیکن بات تھوڑی تفصیل کی ہے، اس لیے اگر آپ وقت دیں تو میں حاضر ہو کے اس کے بارے میں discuss کر لوں گا۔

جواب:

ماشاء اللہ! حالات رو بہ ترقی ہیں۔ الحمد للہ! اللہ تعالیٰ مزید بہتر فرما دے، حسد کا علاج یہ ہے کہ اپنے آپ کو satisfy کرنا چاہیے کہ نعمتیں اور صلاحیتیں چونکہ اللہ تعالیٰ ہی تقسیم فرماتے ہیں، اور الله جل شانهٗ چونکہ تمام چیزوں کو جانتے ہیں، لہٰذا اس کی تقسیم بہترین ہوتی ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی چیز اگر کسی کو مل جائے اور وہ انسان اس کا اہل نہ ہو تو وہی اس کے لیے گلے کا پھندا بن سکتی ہے، اس لیے جو چیز نہیں دی گئی اس پر satisfy ہونا چاہیے کہ شکر ہے کہ میں اس کے پھندے سے بچ گیا ہوں، کیونکہ دنیا میں کسی چیز میں کم ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے آخرت کا کوئی نقصان ہو جائے تو وہ بہت بڑی بات ہے۔ لہٰذا اس بنا پر اپنے آپ کو disturb نہیں کرنا چاہیے۔ آپ یوں کریں کہ کوئی بھی کوئی اچھا کام کرے تو اس کو دل کھول کے داد دے دیا کریں، اس سے نفس کا علاج ہو گا۔ ایک بات یاد رکھیں کہ نفس مجاہدہ سے ٹھیک ہوتا ہے اور مجاہدہ نفس کی مخالفت کا نام ہے لہذا نفس جو چاہتا ہو اس کے مقابلہ پہ جو چیز ہو بس وہی کرو۔ چنانچہ حسد چاہتا ہے کہ فلاں کی برائی بیان کرو تو آپ اس کی خوب اچھائی بیان کریں۔ اس کو دل کھول کے داد دیں اس سے نفس کے اوپر آرے چلیں گے اور اس کی اصلاح بھی ہو گی ان شاء اللہ۔ اور رائے کی جہاں تک بات ہے تو ہمیں تو یہ بتایا جاتا تھا کہ اگر کسی کی رائے مانی جا رہی ہو تو اس کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں میں نے غلط رائے دے کر کام خراب تو نہیں کیا، اور جس کی رائے نہ مانی جائے اسے تو شکر کرنا چاہیے کہ اچھا ہوا میں امتحان سے بچ گیا۔

ضیاء الحق کے دور میں جب قانون شہادت پاس ہو رہا تھا تو ایک بی بی نے مجھ سے پوچھا کہ عورتوں کی شہادت آدھی کیوں ہے؟ میں نے کہا بی بی جن کی پوری ہے وہ شہادت دینے کے لیے تیار ہیں؟ آپ کو بڑی فکر ہے کہ آپ شہادت نہیں دے رہیں، میں نے کہا: جہاں آپ کی شہادت کی ضرورت ہے وہاں پوری ہے۔ اور جہاں آپ کی ضرورت نہیں ہے تو شکر کرو کہ تمہیں درمیان میں involve نہیں کیا جا رہا۔ اللہ پاک نے آپ کو بچایا ہے، اپنے گھر آرام سے بیٹھی رہو۔ لہذا اگر کسی کی رائے نہ مانی جائے تو well and good۔ یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے، کیونکہ فیصلہ کرنے والا دوسرا ہے۔ باقی یہ ہے کہ اختیاری میں سستی نہ کریں اور غیر اختیاری کے درپے نہ ہوں۔ یہ بنیادی اصول ہے۔ chart لکھنا اختیاری ہے اس میں غیر اختیاری بات کوئی نہیں ہے لہذا اس میں آپ کمی نہ کریں۔ اس کو ہر صورت میں آپ ready رکھیں۔ باقی آپ نے وقت دینے کے متعلق جو فرمایا ہے، ان شاء اللہ اس طرح بھی discussion ہو جائے گی۔


سوال نمبر 11:

السلام علیکم حضرت جی! میں فلاں ہوں اللہ آپ کو صحت و عافیت میں رکھے۔ حضرت جی میں نے غضِّ بصر کا مجاہدہ کیا تھا، اس کے بعد خاموشی کا مجاہدہ آپ نے دیا تھا 10 منٹ کا، لیکن پانچ ماہ باقاعدگی سے کیا۔ الحمد للہ آپ کو ساتھ ساتھ بتاتی بھی رہی لیکن تسلی نہیں ہوتی تھی کہ ٹھیک کیا ہے یا نہیں۔ یا پھر دوسری پریشانی میں چھوٹ گیا۔ مجھ سے اکثر favorite discussion سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کون سی ہے، alarm لگا کر جب دل کرتا تھا مجاہدہ کر لیتی تھی کبھی فائدہ ہو جاتا اور کبھی بس ایک duty پوری کرنے والی بات ہوتی۔

جواب:

سب سے پہلے تو اس پہ بات کرتا ہوں کہ favorite discussion کس کو کہتے ہیں؟ favorite discussion وہ ہوتی ہے جس میں discuss کرنے کو آپ کا جی چاہے تو اسی وقت ہی اس کا فیصلہ ہو جاتا ہے یعنی اگر کوئی discussion ہو رہی ہو اور اگر آپ کا جی نہیں چاہ رہا تو بہت اچھی بات ہے، آپ آرام سے بیٹھی رہیں پھر، کیونکہ وہ تو آپ کا favorite ہے ہی نہیں اور اگر اسے سننے کو آپ کا جی چاہتا ہو تو وہ آپ کا favorite ہے تو پھر 10 منٹ کے لیے آپ خاموش رہیں، اس سے فیصلہ ہو جائے گا۔

اور آپ نے کہا کہ گناہوں سے بچ پاتی ہوں اکثر، لیکن فضول بولنے پر سمجھ نہیں آتی کہ کیسے قابو پاؤں۔ تو خاموشی کا مجاہدہ میں نے کیوں دیا تھا؟ خاموشی کا مجاہدہ اسی لیے تھا کہ جب آپ کا کوئی بات کرنے کو جی چاہے تو دیکھو کہ یہ بات مجھے کرنی چاہیے یا نہیں، لہذا خاموشی کا مجاہدہ جب کریں تو اس میں اتنی دیر خاموش رہ کر سوچا کریں کہ مجھے یہ بات کرنی چاہیے یا نہیں؟ اگر آپ کو پتا چل جائے کہ کر لینی چاہیے تو کر لیا کریں اور اگر آپ کو پتہ چلے کہ نہیں کرنی چاہیے تو رک جایا کریں۔ اس میں کون سا مشکل کام ہے۔

ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ کبھی کسی کو بغیر مانگے مشورہ نہ دیا کریں، میرے خیال میں اس سے آپ کی بہت ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ قانون ہمیں بتایا ہے کہ بغیر مانگےکسی کو مشورہ نہ دیا کریں، مشورہ کوئی اتنا سستا ہے کہ مفت میں دے دیا جائے؟ لوگ تو اس کے بڑے پیسے لیتے ہیں۔ اور آپ مفت میں جو اپنے مشورہ ٹھونک دیتے ہیں یہ غلط روش ہے۔ لہذا آپ اطمینان سے بیٹھیں اگر کوئی آپ سے مشورہ مانگے تو پھر تسلی کے ساتھ اس کو مشورہ دیں پھر وہ خدمت ہو گی، غلط عمل نہیں ہو گا اور اگر آپ سے مشورہ نہ مانگا جائے تو آپ بری الذمہ ہیں۔ لہذا اس طریقے سے ان شاء اللہ آپ کا معاملہ آسان ہو جائے گا۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم حضرت جی! ذکر آخری دفعہ اگست کے شروع میں لیا تھا اس کے بعد بلا ناغہ 30 دن مکمل نہیں کر سکا، کئی دفعہ ارادہ کیا کہ اب ناغہ نہیں ہو گا لیکن غفلت کا شکار ہوتا رہا، کچھ دفعہ تو بیس دن سے زیادہ بلا ناغہ ذکر ہوا لیکن پھر کئی دفعہ ناغہ ہو گیا، ڈاکٹر کی دی ہوئی medicines لے رہا ہوں روز مرہ کی routine میں اب کچھ بہتری محسوس ہوتی ہے اور پہلے کی طرح کئی کئی دن زندگی سے کٹ جانے کی علت میں افاقہ ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق علاج slowly ہو گا اگر آپ کی اجازت ہو تو آج سوموار کے دن سے توبہ کر کے دوبارہ سے ذکر و نماز کی پابندی کروں، اصلاح کے عمل میں اپنی غفلت سے جو نقصان ہو چکا ہے اس پر افسوس ہے اور آپ سے مکمل commitment کا ارادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ استقامت دے دعا کی درخواست ہے۔

جواب:

نیکی اور پوچھ پوچھ؟ اب آپ توبہ کرنا چاہتے ہیں تو کیا میں آپ کو روکوں گا؟ آپ فوراً توبہ کریں اور بس کام شروع کریں۔


سوال نمبر 13:

(ایک صاحب نے مجھے سوال بھیجا کہ یہ "ھُو" کیا ہے؟ کیا یہ اللہ کا نام ہے؟ )

(حضرت کا جواب)

یہ اسم ضمیر ہے جس میں اللہ کی طرف اشارہ ہے، یہ اللہ کا نام نہیں ہے۔ تو اس نے کہا کہ اللہ کے 99 ناموں میں تو یہ نہیں ہے، میں نے کہا یہ نام ہے ہی نہیں اسم ضمیر ہے۔ پھر میں نے اس سے اس سوال کی وجہ پوچھی کہ کیا کسی نے آپ کے ذہن میں زہر بھرا ہے کہ آپ اس پہ اعتراض کر رہے ہیں؟ اور میں نے کہا قرآن پاک میں آتا ہے ﴿ھُوَ اللہُ الَّذِیْ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو (الحشر: 22) اس میں آخری "ھُو" کیا؟ اس نے کسی بڑے عالم کا نام لیا کہ یہ زہر انہوں نے بھرا ہے۔ شاید انہوں نے کوئی تحقیق پیش کی ہو گی۔ تو میں نے کہا کہ مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ ان سے بڑے عالم تھے، وہ بھی "ھُو" کا ذکر کراتے تھے جو کہ قادری سلسلے کا ذکر ہے۔ لہذا احساس کمتری میں آپ کیوں مبتلا ہیں؟ اگر ایک طرف ایک عالم کہہ رہے ہیں تو دوسرے عالم دوسری بات کر رہے ہیں، آپ کیوں پریشان ہیں؟ اور پھر میں نے قرآن سے دلیل دی ہے۔ باقی مسئلہ تصوف کا ہے جس میں کیفیات پر بحث ہوتی ہے کہ کسی لفظ سے قاری کیا مطلب لیتا ہے؟ اس کے اوپر زور ہوتا ہے، یہ اہم نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زبان سے لفظ کیا ادا کر رہا ہے۔ بلکہ یہ اہم ہوتا ہے کہ اس کا concept کیا ہے اور اس کی کیفیت کیا ہے۔ تو اس نے کہا کہ سوال کرنا اور کسی بات کو سمجھنے کی کوشش کرنا کیا یہ احساس کمتری ہے؟ میں نے کہا جی ہاں! بعض سوال احساس کمتری کی وجہ سے ہوتے ہیں، لہذا مجھ سے اگر کوئی ایسا کہے تو میں بالکل اس کا اثر نہ لوں کیونکہ الحمد للہ مجھے احساس کمتری نہیں ہے۔ تو اس نے کہا شیعہ، بریلوی اور اہل حدیث بھی ایسے ہی باتیں کرتے ہیں، آپ point سے ہٹ رہے ہیں، بات کو گول مول کر رہے ہیں۔ میں نے کہا مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آ رہی۔ میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا ہے، آپ نے نہیں ماننا تو نہ مانیں۔ آپ جانتے ہیں کہ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا، اپنے شیخ سے پوچھ لیں۔ تو وہ کہنے لگا کہ یہ دلیل نہیں ہے، یہاں sentence میں "ھُو" آیا ہے اور ہم لوگ اس کو علیحدہ سے "ھُو ھُو" کا ذکر کرتے ہیں تو فلاں عالم نے اس کی تردید کی ہے، میں نے کہا یہ بات اپنے شیخ سے پوچھ لیں۔ تو کہتا ہے شیخ نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا جب خانقاہ آئیں گے تو پھر بات ہو گی، اِس وقت تو میں مصروف ہوں کیونکہ میں وہاں بیان کے لیے گیا تھا اور وہ بیان کا وقت تھا، پھر میں نے اسی پر ہی بیان کیا، اور پھر میں نے وہ اسے send کر دیا۔ اس کے بعد پھر میں نے اسے کہا کہ یہ میں بھیج رہا ہوں اس کو سن لیں ان شاء اللہ سمجھ آ جائے گا، باقی اپنے شیخ کے ساتھ اور اپنے سلسلے کے ساتھ تعلق خراب نہ کریں یہ تعلقات بہت مشکل سے بنتے ہیں اور شیطان اس کے پیچھے پڑا ہوتا ہے۔ تو کہتا ہے میں تعلق سب کے ساتھ رکھتا ہوں لیکن جہاں کمی نظر آئے تو سوال کر لیتا ہوں سمجھنے اور سمجھانے کی نیت سے۔ اگر میں غلط سمجھ رہا ہوتا ہوں تو اپنی رائے تبدیل کر لیتا ہوں اور اگر مناسب جواب نہ ملے تو کسی اور عالم یا صوفی سے پوچھتا ہوں، اس طرح بہت ساری باتیں clear ہو جاتی ہیں، آپ کا بیان میں ان شاء اللہ سونے سے پہلے سن لوں گا۔

پھر ایک اور عالم کی انہوں نے مجھے cutting بھیجی جس میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ جو مسجدوں میں لوگ ذکر کرتے ہیں، زور زور سے کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں اور گا گا کے درود و سلام پڑھتے ہیں یہ بدعت ہے اور اس سے مساجد کو پاک کرنا لازم ہے۔ یا مثلاً شریعت نے نماز جنازہ کا ایک خاص طریقہ تجویز فرمایا ہے نمازِ جنازہ کے بعد اجتماعی طور پر دعا کرنے کی تعلیم نہیں دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین اس موقع پر مجموعی اجتماعی دعا نہیں کیا کرتے تھے اس لیے جنازہ کے بعد اجتماعی دعا کرنا اور اس کو ایک سنت سمجھنا بدعت ہو گا۔ جنازہ کے بعد دعا کرنی ہے تو نماز جنازہ کے بعد فوراً بلا تاخیر جنازہ اٹھا لیں اور لے جاتے ہوئے ہر شخص اپنے طور پر دعا کرے۔ دعا مانگنا ہو تو قبر پر خوب مانگی جائے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنازہ کی جو کیفیت منقول ہے اس میں رد و بدل کی اجازت نہیں ہے مجھے توقع ہے کہ موٹی موٹی بدعات انہی اصول کے ذیل میں آ جاتی ہیں اور ان سب کا اصل اصول وہی ہے جو پہلے عرض کر چکا ہوں یعنی جو فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین سے منقول نہ ہو دین کی حیثیت سے کرنا بدعت ہے اس لیے اس پر اکتفا کرتے ہوئے یہاں چند ضروری فوائد لکھتا ہوں۔

تو میں نے ان سے کہا کہ:

حضرت انہوں نے صحیح فرمایا ہے، اور حضرت نے جو فرمایا کہ بدعت وہ یہ ہے کہ دین کی حیثیت سے کوئی نئی بات ہو۔ تو یہاں جو ہم "ھُو" کا ذکر کرتے ہیں یہ دین کی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ دین پر آنے کے لیے کر رہے ہیں، یہ بطور ذریعہ ہے بطور مقصد نہیں ہے، تو یہ دین نہیں ہے بلکہ دین پر آنے کا ذریعہ ہے۔ اور علماء نے اس کو باقاعدہ "اِحْدَاث لِلدِّین" اور "اِحْدَاث فِی الدِّیْن" کا نام دیا ہے۔ احداث کہتے ہیں نئی چیز کو۔ تو اِحْدَاث فِی الدِّیْن منع ہے یعنی دین کے اندر کوئی نئی بات آپ نہیں لا سکتے۔ لیکن اِحْدَاث لِلدِّین مفید ہے۔ کیونکہ آپ دین کے لیے ایک نیا وسیلہ پیدا کر رہے ہیں۔ مثلاً علم حاصل کرنا فرض ہے۔ لیکن علم مختلف طریقوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے پہلے لوگ صرف کتاب سے پڑھتے تھے یا براہ راست کسی استاذ سے پڑھتے تھے، اب CDsسے بھی سیکھ لیتے ہیں، ریڈیو سے بھی سیکھ لیتے ہیں، اور بھی بے شمار ذرائع ہیں جس سے لوگ علم سیکھ سکتے ہیں، جیسے اب ہم جو گفتگو کر رہے ہیں تو یہ کہاں کہاں جا رہی ہے؟ تو یہ سب علم سیکھنے کے sources ہیں۔ تو کیا میں اس کو بدعت کہوں؟ کیا اس کو بدعت کہنے کی اجازت ہے؟ کیونکہ یہ اصل میں دین نہیں ہے بلکہ دین کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، ورنہ تو جہاد بھی اُس دور میں تلواروں، تیروں اور نیزوں کے ذریعہ سے ہوتا تھا، آج کوئی کر کے دکھائے، آج اگر کوئی کرے گا تو امیر ہی اس کو سب سے پہلے منع کرے گا کہ آپ جائیں واپس، آپ ہمیں بھی خراب کرنا چاہتے ہیں۔ تو جیسے جہاد فرض ہے لیکن ان کے ذرائع پر جمود فرض نہیں ہے بلکہ وہ تبدیل ہوتے رہیں گے اور یہ تبدیلی مستحسن ہے، اسی طرح تصوف اصل میں بذات خود دین پر آنے کا ذریعہ ہے اور تصوف کے طریقے سارے ذرائع ہیں، تو اگر کوئی ایسا نیا طریقہ آتا ہے جس سے آسانی کے ساتھ انسان دین پر آ سکتا ہے تو وہ مستحسن ہے، باقی "ھُو ھُو" کے ذکر کو اگر آپ ثواب سمجھ کر کریں گے تو میں بھی منع کروں گا، کیونکہ "ھُو" اسمِ ضمیر ہے آپ "اَللہ اَللہ" کریں تو میں منع نہیں کروں گا، آپ رَحیم رَحیم کریں میں منع نہیں کروں گا، البتہ اگر آپ "ھُو" سے اللہ کو تصور میں لاتے ہیں تو یہ براہ راست بات اللہ پہ جاتی ہے، اَللہ اَللہ کرتے ہیں تو براہ راست نہیں جاتی پہلے نام پہ جاتی ہے پھر اس کے بعد ذات پہ جائے گی، یعنی یہ two step theory ہے، جب کہ یہاں single step theory ہے کیونکہ اسمِ ضمیر کی مثال عینک کی طرح ہے۔ چنانچہ جب میں عینک سے دیکھتا ہوں تو کبھی عینک مجھے محسوس ہوتی ہے؟ مجھے وہ چیز نظر آتی ہے جو عینک سے میں دیکھ رہا ہوتا ہوں، عینک تو درمیان میں ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بذات خود اسم ضمیر کا کوئی role نہیں ہوتا وہ صرف اس ذات کی طرف اشارہ ہوتا ہے، لہذا "ھُو" کا ذکر direct ہے، اسی لیے قادری سلسلے میں سب سے اہم ذکر یہی ہے ھُو پاس انفاس کے ساتھ کرنا۔ لہذا ہم تو مانتے ہیں اگرچہ میں خود نہیں کرتا کیونکہ میں دوسرا طریقہ استعمال کرتا ہوں لیکن اگر کسی کو دینے کی ضرورت پڑ گئی تو دوں گا کیونکہ منع تو نہیں ہے، اور اچھا ہے، مستحسن ہے، بعض لوگوں کے لیے بہت مفید ہے۔ البتہ ہمارے ذکر میں جو "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" ہے وہ پورے کا پورا قرآن میں موجود ہے لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، اور کئی جگہ پر ہے، ہمارا ذکر تو ہے ہی قرآنی ذکر، لہٰذا اس پر تو کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، لیکن اگر مجھے "ھُو ھُو" کا ذکر بھی کرنا پڑا تو مجھے اس میں کوئی حرج نہیں ہے, کیونکہ میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ علم نہیں رکھتا اور نہ ہی میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی زیادہ جانتا ہوں۔ ان حضرات کے experience کو میں salute کرتا ہوں، الله جل شانهٗ ان کے فیوض و برکات مجھے نصیب فرمائے۔ اور جو لوگ کسی کی بات نہ سمجھتے ہوئے وسوسوں میں پڑ جائیں تو وہ ان کا اپنا قصور ہے۔

کیونکہ بعض دفعہ لوگ علماء کی بات نہیں سمجھ پاتے، جیسے میں نے کہا کہ ان صاحب نے مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات نہیں سمجھی، حضرت نے تو یہ نہیں فرمایا۔ حضرت اس ذکر کی بات کر رہے ہیں جو ثواب کی نیت سے کیا جائے۔ باقی جو لوگ مسجدوں میں زور زور سے "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ" کا ذکر کرتے ہیں یا درود پاک پڑھتے ہیں تو وہ ثواب کی نیت سے کرتے ہیں، وہ کوئی اصلاح کی نیت سے نہیں کرتے ہیں، ذرا ان سے پوچھو تو سہی کہ آپ یہ ذکر اصلاح کی نیت سے کرتے ہیں یا ثواب کی نیت سے؟ سب کہیں گے ثواب کی نیت سے کرتے ہیں۔ ثواب کی نیت سے ذکر کے لیے دین میں منصوص ہونا ضروری ہے، بغیر نص کے آپ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ آپ دین میں نئی بات نکالیں گے اور دین میں کوئی نئی بات نہیں آ سکتی کیونکہ آیت مبارکہ: ﴿اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدۃ:3) نے بات ختم کر دی ہے، لہٰذا اسلام میں بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن یہ بدعت نہیں ہے یہ "اِحْدَاث لِلدِّیْن" ہے اِحْدَاث فِی الدِّیْن" نہیں ہے۔ بہرحال میں تو یہی سمجھتا ہوں، باقی اللہ پاک نہ کرے کہ کسی کو اپنے سلسلے سے کدورت ہو جائے، اپنے مشائخ سے کدورت ہو جائے اور بیڑا غرق ہو جائے۔ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ بچائے۔ یہ بہت ہی خطرناک طرز عمل ہے، کسی کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے، بے شمار لوگ تصوف کے خلاف ہیں تو کیا ہم ان کی وجہ سے اپنے آپ کو خراب کریں گے؟ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ مجھے معلوم ہے کہ فاتحہ خلف الامام کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرض کہتے ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حرام ہے تو مجھے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولایت میں کوئی شک نہیں ہے، میں ان کو بھی ایسا ہی ولی اللہ سمجھتا ہوں جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو سمجھتا ہوں، لیکن بات میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مانوں گا، کیونکہ اجتہادی بات ہے اور اجتہادی باتوں میں اگر دو مختلف آراء ہوں تو کوئی ایک ہی مانی جا سکتی ہے، تو جب ایک مانی جا سکتی ہے تو پھر اپنے امام کی مانو۔ لیکن دوسرے امام کے بارے میں کوئی غلط بات نہ کرو، ہمارے لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اتنے ہی بڑے امام ہیں جتنے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں، اور الحمد للہ ایک فلسطینی کو میں نے یہی مشورہ دیا تھا کہ آپ شافعی کا مسلک اختیار کر لیں اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں کونسا مسلک اختیار کروں؟ میں ابھی تک کسی امام کا مقلد نہیں ہوں لیکن آپ کی تقریر سے متاثر ہوا ہوں تو آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں کون سے امام کی تقلید کروں؟ تو میں نے کہا آپ کے لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک زیادہ بہتر ہے کیونکہ آپ کے ہاں شوافع علماء بھی ہیں اور شوافع کی کتابیں بھی ہیں لہٰذا آپ کی سہولت اسی میں ہے، اس سے پتہ چلا کہ میں متعصب نہیں ہوں، میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو اتنا ہی بڑا امام سمجھتا ہوں جیسے امام ابوحنیفہؒ۔ لیکن میں اختلافی مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مقلد ہوں، اسی کو تقلید کہتے ہیں اور عوام کے لیے تقلید واجب ہے۔


سوال نمبر 14:

السلام علیکم! میں برطانیہ سے فلاں بات کر رہا ہوں، کافی سوالات ذہن میں آتے رہتے ہیں میں لکھ لیتا ہوں جب کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں تو آپ کو بھیج دیتا ہوں، کچھ سوالات جمع ہو گیے تھے سوچا بھیج دوں، ہو سکتا ہے میری کم علمی کی وجہ سے آپ کو سوالات کچھ بے تکے سے لگیں۔ براہ کرم درگزر فرما دیں۔

میں نے کچھ عرصہ پہلے مثنوی مبارک میں آپ کا بیان سنا جس میں نفس اور روح کے بارے میں آپ نے کچھ ارشاد فرمایا تھا جس سے کچھ سوال ذہن میں آئے۔

1۔ جب روح پیدا کی گئی تو کیا نفس بھی ساتھ پیدا ہوا تھا؟

جواب:

نہیں! اس وقت روح ہی تھی۔ یہ عالم ارواح کی بات تھی، کیونکہ "اَلَسْتُ بِرَبِّکُمُ" کا سوال عالمِ ارواح میں ہوا تھا۔


2۔ تو کیا نفس کو اس وقت روح میں شامل کیا گیا۔

جواب:

نہیں! بلکہ بعد میں جس وقت انسان دنیا میں آتا ہے تو یہاں نفس کے ذریعہ سے چلتا ہے، انسان کا system جیسے آنکھیں، کان وغیرہ سارے اعضاء نفس کے ذریعہ سے ہی چلتے ہیں، لہٰذا یہاں پر نفس میں روح شامل ہو گئی، اور نفس اور روح کی combination سے انسان بن گیا۔ اور نفس کے desires کی وجہ سے روح غلام بن گئی، کیونکہ چلانا تو روح نے ہے اس لیے وہ ان کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اسی لیے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ روح اصل میں عاشق تھی لیکن یہاں نفس کے اندر trap ہو کر اپنا عشق بھول گئی، لہذا اس کو دوبارہ یاد دلانا ہے اس لیے جب ذکر اللہ کرتے ہیں، مراقبہ کرتے ہیں، شغل کرتے ہیں، اس سے دوبارہ اس کو اللہ یاد آ جاتا ہے اور یہ اللہ کی عاشق بن جاتی ہے۔ اس لیے پھریہ نفس سے اپنا چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے، لیکن نفس کے پنجے بڑے مضبوط ہوتے ہیں کہ اتنی آسانی سے نہیں چھوڑتا۔ چونکہ نفس اور روح دونوں مقامِ قلب میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے جب آپ مقام قلب میں آ جائیں یعنی جذبِ کسبی حاصل کر لیں تو اس کے بعد نفس کے اوپر مجاہدہ کے ذریعہ سے محنت کرنی پڑتی ہے، جسے ہاتھ پیر باندھنا کہتے ہیں۔ جیسے آنکھوں کے لیے انسان غض بصر کر لے، کان پر control کر لے، غلط باتیں نہ سنے، زبان سے غلط باتیں نہ بولے، یہ سب اس کے مجاہدات ہیں۔ ان مجاہدات کے ذریعہ سے اس کے ہاتھ پیر باندھ دو۔ اس کے ہاتھ پیر باندھنے سے بہت آسانی کے ساتھ روح کو اپنا راستہ مل جائے گا۔ تو یہی اب بنیادی مسئلہ ہے، پھر روح کا ملاء اعلی کے ساتھ رابطہ ہو جاتا ہے اور چونکہ دل کا روح کے ساتھ رابطہ ہے اور روح کا ملاء اعلی کے ساتھ رابطہ ہے لہٰذا دل کا ملاء اعلی کے ساتھ رابطہ ہو جاتا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ لطیفۂ روح بیدار ہو گیا۔ اس کی وجہ سے عقل بھی الہامات سے متاثر ہو جاتی ہے اور عقل کی promotion ہو جاتی ہے اور وہ سر بن جاتی ہے۔ گویا procedure یہی ہے کہ یہاں پر اس کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔


3۔ نفس کی مختلف اقسام ہیں جیسے کہ نفس امارہ، نفس لوامہ، نفس ملہمہ، نفس مطمئنہ، نفس راضیہ، نفس مرضیہ وغیرہ۔ سالک کو کیسے پتہ چلے کہ اس کا نفس کس قسم کا ہے یا صرف اللہ ہی کو معلوم ہے؟


جواب:

یہ بہت آسان بات ہے کیونکہ mechanic گاڑی کی آواز سے سمجھ لیتا ہے کہاں problem ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر stethoscope رکھتے ہیں تو کیا کرتے ہیں؟ کیا دل کو چیر کر دیکھتے ہیں؟ بلکہ ان کو sound سے پتہ چل جاتا ہے کہ مسئلہ کہاں ہے، اسی طرح echo کیا چیز ہے؟ ECG کیا چیز ہے؟ یہ ساریsensing ہیں، sensors کے ذریعے سے آپ وہی چیزیں دیکھ لیتے ہیں، اسی طرح آپ output سے معلوم کر سکتے ہیں کہ آپ کا نفس نفس امارہ ہے یا نفس مطمئنہ ہے، اگر آپ کا نفس آرام کے ساتھ شریعت پہ چل رہا ہے، کوئی resist نہیں کرتا تو یہ نفس مطمئنہ ہے اور اگر کہیں پر بھی ضد کر رہا ہے تو یہ نفس امارہ ہے، اگر اپنی ضد پر پشیمان ہے تو یہ نفس لوامہ ہے، قرآن میں ان تینوں کا ذکر ہے، تو نفس مطمئنہ اس حالت میں ہوتا ہے جب نفس راضی ہو، تو یہ نفس راضیہ بن جائے گا۔ جیسے فرمایا گیا ہے: ﴿يـآأَيَّتُهَا النَّفسُ الْمُطمَئِنَّةُ اِرْجِعِى إِلٰى رَبِّكِ راضِيَةً مَّرضِيَّةً فَادخُلِى فِى عِبٰـدِى وَادخُلِى جَنَّتِى (الفجر:26-30) لہذا میں سمجھتا ہوں کہ بلا وجہ مزید اپنے آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔


4۔ غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے نفس کے تزکیہ کے دو طریقے ہیں ایک خواہشات کو control کرنا جو کہ سمجھ میں آتا ہے لیکن دوسرے طریقے میں جسم کو تکلیف دی جاتی ہے جیسے کہ کم سونا کم کھانا وغیرہ۔

جواب:

ایک ڈاکٹر ہو کر یہ سوال کرنا مجھے سمجھ نہیں آتا۔ کیونکہ آپ جو sugar کو control کرتے ہیں اور blood pressure کو control کرنے کے لیے آپ جو dieting کرواتے ہو تو جسم کو کیوں تکلیف دیتے ہو؟ ہر مریض کا ایسے علاج کرو کہ جس سے اس کو کوئی تکلیف نہ ہو، اگر آپ کے لیے اجازت ہے تو مشائخ کے لیے کیوں نہیں ہے؟ تھوڑا سا سمجھنے کی کوشش بھی کر لیا کریں، یہ تکلیف دینا نہیں ہے، اس کو مجاہدہ کہتے ہیں اور مجاہدہ کیا چیز ہوتی ہے؟ وہ نفس کو اپنے مطلوبہ مقام پہ لانے کے لیے ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی جانور ضد کرتا ہے تو اس کو مطلوبہ مقام پر سدھاتے ہیں یا نہیں؟ کبھی مارتے ہیں، کبھی بھوکا رکھتے ہیں، کبھی باندھتے ہیں، یہ کیا ہوتا ہے؟ یہ سب حربے اس کو ٹھیک کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ لہذا اگر آپ کے پاس کوئی ایسا طریقہ ہے کہ بغیر ان چیزوں کے آپ اصلاح کر سکیں تو میں آپ کے ہاتھ پہ بیعت کر لوں گا۔ کیونکہ مقصد تو آپ سے سیکھنا ہو گا تو اگر آپ اس کے بغیر کر سکتے ہو تو کر کے دکھاؤ۔


5۔ میرا دوسرا سوال یقین اور وسوسہ کے بارے میں ہے آپ نے درس مثنوی میں فرمایا تھا کہ زندگی خواب کی طرح ہے جب ہم اس سے بیدار ہوں گے تو ہمیں حقیقت کی دنیا کا پتہ چلے گا۔ میں نے ایک واقعہ پڑھا تھا جس میں ایک نبی نے اللہ تعالیٰ سے فرمایا کہ آپ قیامت کے دن مردوں کو کیسے زندہ کریں گے؟ جب اللہ تعالیٰ نے ایک پرندہ ذبح کرنے کا بولا اور پھر اسے دوبارہ زندہ فرمایا۔

جواب:

میرے خیال میں آپ فضولیات میں پڑ گیے ہیں، اس بارے میں تو قرآن پاک میں بھی موجود ہے: ﴿لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِی (البقرۃ: 260) "تاکہ میرے دل کو اطمینان ہو جائے" اطمینان اور ایمان دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مثلاً میں ایک چیز مانتا ہوں لیکن مجھے اس process کا پتہ نہیں ہے تو میں تقلیدی ایمان رکھتا ہوں، لیکن جس وقت مجھے پتہ چل جائے گا تو میں تحقیقی ایمان رکھوں گا، تو انہیں تحقیقی ایمان کے بارے میں بتایا تھا۔ کیونکہ نبی کا کام دوسروں کو سمجھانا ہوتا ہے، تو یہ ایک superlative degree ہوتی ہے، تو اس تک پہنچنے کے لیے اس کو کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اور اللہ پاک نے تبھی تو ان کو بتایا تھا۔ تو اگر اللہ پاک نے اس پر ان سے کوئی باز پرس نہیں فرمائی ہے تو میرے خیال میں ہمیں بھی اس حوالے سے گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔


6۔ کہا جاتا ہے کہ جو اللہ کو تلاش کرتا ہے اللہ اس کو راستہ دکھاتا ہے تو ملحد جو کہ اللہ کی ذات میں، خدا کی تلاش میں بہت غور و فکر کر رہا ہے تو وہ بھٹک کیوں جاتا ہے؟

جواب:

ملحد بھی اگر اللہ کو واقعی تلاش کرے تو اس کو بھی ہدایت مل سکتی ہے۔ بشرطیکہ زیغ نہ ہو، کیونکہ قرآن پاک میں باقاعدہ زیغ سے پناہ مانگی گئی: ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ (آل عمران:8) زیغ سے انسان میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، ٹیڑھا پن آتا ہے جس میں وہ ہر چیز کو ٹیڑھی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے اندر نقص نکالتا ہے جیسے شیطان نے کیا تھا، شیطان نے کہا تھا: ﴿خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ (ص:76) چنانچہ ایسے شخص کو ہدایت نہیں ملتی۔ اور شیطان نے بھی ٹیڑھے پن کا مظاہرہ کیا تھا اسی کا اس کو نقصان ہوا۔ جب کہ: ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا (الاعراف: 23) والا معاملہ تو بہت آسان ہے، اس سے تو ہدایت ملا کرتی ہے۔


7۔ ایسے خیال کا آنا کہ ہر چیز کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟

جواب:

اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی ایسا سوال ذہن میں آ جائے تو تم کہو کہ جو مجھے بتایا گیا میں اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ کیونکہ ایمان بالغیب ہے، ایمان بالمشاہدہ نہیں ہے۔


8۔ فطرتاً انسان یہ سوچتا ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا اور خاص طور پر مسلمانوں کو تو فکر لگی رہتی ہے کہ مرنے کے بعد میری روح و جسم کے ساتھ کیا ہو گا لیکن اسلام اس کے بارے میں کوئی خاص رہنمائی نہیں کرتا، یہ subject بہت مبہم رکھا گیا ہے۔

جواب:

8۔ مبہم نہیں رکھا گیا، آپ نے کتابیں پڑھی نہیں ہیں ورنہ تمام چیزیں details کے ساتھ بتائی گئی ہیں کہ مرنے کے بعد قبر کی زندگی ہے، قبر کے احوال کے بارے میں حدیث شریف میں بہت تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے، پھر قبروں سے اٹھنے کے بعد کیا ہو گا۔ کیا یہ ساری تفصیلات احادیث شریف میں نہیں ہیں کہ سارے اکٹھے کھڑے ہوں گے؟ اور پریشان ہوں گے اور پھر پہلی شفاعت یہی ہو گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے۔ کیا یہ ساری باتیں موجود نہیں ہیں؟ آپ تھوڑا سا مشکوۃ شریف پڑھ لیں تو بہت ساری باتیں آپ کو معلوم ہو جائیں گی ان شاء اللہ۔


9۔ کشفِ قبور کیسے کرتے ہیں؟

جواب:

مجھے خود کشف قبور نہیں ہوتا تو میں آپ کو کیسے بتاؤں؟ اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ مجھے حدیث شریف پر اطمینان ہے الحمد للہ۔ جو حدیث شریف میں قبروں کے بارے میں بتایا گیا ہے بس میرے لیے وہ کافی ہے۔ میں اس کے اندر جھانکنا نہیں چاہتا۔ ہاں! اگر اللہ پاک خود ہی دکھا دے تو وہ اس کا کام ہے میرا کام نہیں ہے۔ لیکن اگر مجھے نہ دکھانا چاہے تو میں اس کی خواہش بھی نہیں رکھوں گا۔ میرے لیے وہی کافی ہے جو آپ ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا ہے۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ جانوروں کو بھی کشف قبور ہوتا ہے؟ تو کیا جانور بننا چاہیے؟ لہذا اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کشفِ قبور کی طرف نہ جاؤ، کشفِ حقائق کی طرف جاؤ، یہ اچھی بات ہے کہ آپ کو حقائق کا پتہ چل جائے۔ اس کے لیے اللہ پاک سے مانگو: ﴿رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي (طہ: 25-28) یہ اللہ پاک سے مانگا کرو، کشف قبور کبھی نہ مانگو۔


10۔ پل صراط کے بارے میں ہمارا ایمان کیا ہونا چاہیے؟

جواب:

10۔ جیسے بتایا گیا ہے وہی ایمان ہونا چاہیے۔


11۔ جزا اور سزا کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہو تو پھر پل صراط سے گزارنے کا کیا مقصد ہے؟

جواب:

جس نے کہا ہے وہی اس کا مقصد جانتا ہے، ایسے ہو گا جیسے بتایا گیا ہے۔ یہ جواب آپ کے لیے ہے ورنہ تحقیقی جواب بھی ہے لیکن آپ کے لیے اتنا کافی ہے کہ جیسا بتایا گیا ہے ویسے ہی ہو گا اور وہی اس کا مقصد جانتا ہے۔ چونکہ بتایا گیا ہے اس لیے ہمیں ماننا ہے، لہٰذا ایسا ہو گا اور حساب کتاب کئی طریقوں سے ہو گا، کیا آپ کی چیزیں مختلف طریقوں سے recording نہیں ہو رہیں؟ ہم یہاں بیٹھ کر تین تین recorders استعمال کرتے ہیں اِدھر بھی recording اور اُدھر بھی، recording تو ایک کیوں نہیں کرتے؟ اس میں کچھ حکمتیں ہیں۔ لہذا یہاں تو یہ حکمت ہے کہ اگر کوئی ایک کام نہ کرے تو دوسرا موجود ہو گا۔ وہاں یہ حکمت ہو گی کہ ہر ایک پر حجت تمام کی جائے گی۔ یعنی فرشتے بھی نوٹ کر رہے ہیں، اللہ پاک خود براہ راست دیکھ رہے ہیں، جسم کے تمام حصے نوٹ کر رہے ہیں، پوری دنیا نوٹ کر رہی ہے، آسمان نوٹ کر رہا ہے، زمین نوٹ کر رہی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کئی طریقوں سےاس کی recording ہو رہی ہے۔ کیونکہ یہ اللہ پاک کا نظام ہے کہ اس نے مختلف طریقوں سے recording کا بندوبست کیا ہے، اسی طرح حساب کتاب بھی مختلف طریقوں سے لیا جائے گا۔ لہذا ایسی چیزوں میں بالکل نہیں پڑنا چاہیے۔ اصل بنیادی چیزیں جب clear ہو جائیں تو پھر یہ باتیں بالکل پوچھنے کی نہیں ہیں۔ صرف یہ تحقیق کر لو کہ قرآن و حدیث میں یہ بات موجود ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو اس کو مانیں۔ البتہ اللہ تعالیٰ پر یقین، فرشتوں پر یقین، رسولوں پر یقین ضروری ہے، اس کے بارے میں اگر کسی کا ایمان نہیں ہے تو اس کو اس کے بارے میں غور کرنا پڑے گا، پھر جب ایمان آ جائے گا تو پھر اس پہ بھی نہیں غور کرے گا، لہذا جب اللہ پہ یقین آ گیا اور رسول پر یقین آ گیا تو رسول کا role کیا ہے؟ وہ اللہ سے لیتا ہے اور آپ کو دیتا ہے تو جب آپ نے رسول کو سچا مان لیا ہے تو جو کچھ اس نے بتایا ہے وہ بالکل ٹھیک ہوا تو اس میں دوسری بات کدھر رہ گئی؟ لہذا جیسے اس نے فرمایا وہ بالکل ٹھیک ہے، وہی حق ہے، اس میں کوئی دوسری بات ہے ہی نہیں۔

12۔ کیا تہجد کے لیے سونا ضروری ہے؟

جواب:

یہ فقہ کا سوال ہے، بہر حال تہجد کے لیے سونا ضروری نہیں ہے۔ البتہ اس کا بہتر وقت رات کا آخری حصہ ہے، لیکن اگر کسی کے پاس اٹھنے کا ٹائم نہ یا اور مسائل ہوں تو پہلے حصہ میں بھی پڑھ سکتے ہیں، اگرچہ ثواب میں کچھ کمی ہو جائے گی لیکن نہ ہونے سے پھر بھی بہتر ہو گا۔ لہذا فجر سے آدھا گھنٹہ پہلے اٹھ کے تہجد پڑھنا بالکل ٹھیک ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ یہ رات کا آخری حصہ ہے۔


سوال نمبر 15:

السلام علیکم! حضرت ایک دوست کا message آیا ہے جو England میں رہتا ہے، وہ کسی international wise group میں شامل ہے جس میں تقریباً 90 فیصد غیر عقیدے کے لوگ ہیں اور ان کی اصلاح کے لیے ان کو message share کرتا رہتا ہے مجھے اس نے کہا کہ میں تمہیں بھی اس group میں شامل کر لیتا ہوں تاکہ تم بھی ان کی اصلاح کے لیے چیزیں share کیا کرو ابھی تک میں نے اس کو کوئی جواب نہیں دیا۔

جواب:

ایسے group میں شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مبتدی کے لیے بہت خطرناک ہے، کیونکہ بعض دفعہ ان کی باتوں سے انسان خود متاثر ہو جاتا ہے، جب انسان کے پاس علم ناکافی ہو تو اپنے آپ کو بچانا دوسروں کو نفع پہنچانے سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ جلبِ منفعت سے دفعِ مضرت اہم ہے۔ لہذا اگر کسی کو perfection کا پتہ نہ ہو کہ اس سے اپنے آپ کو بچانا ہے تو وہ نقصان اٹھاتا ہے۔ مثلاً کوئی آدمی ڈاکٹر نہیں ہے اور متعدی بیماریوں کا علاج کرتا ہے تو اس کو اگر متعدی بیماری لگ گئی تو پھر کیا ہو گا؟ اور جو جانتا ہو گا وہ اپنے آپ کو بچا بھی لے گا۔ تو ہر چیز ہر ایک شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی۔


(چونکہ سوالوں کے جوابات میں بار بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوا ہے۔ تو ہمارے ایک دوست نے ایک نعتیہ کلام پڑھا ہے۔ اسی کے ساتھ میں ختم کرتا ہوں کیونکہ اذان ہو گئی ہے)۔

کلام:

الٰہی پہنچے رسول اللہ کو درود اپنا سلام اپنا

محبت آپ کی ہو دل میں تب ہو تکمیلِ ایماں کا کام اپنا

الحمد للہ یہ جو discussion ہوئی ہے یہ شعر اسی کا جواب ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے دل میں ہو تو یہ ہمارے ایمان کی تکمیل کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ یہ ساری باتیں dead clear ہو جائیں گی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل میں ہو۔ پھر بہت سارے سوالات کے جوابات خود ہی مل جائیں گے۔


حبیب اللہ ہیں رسول اللہ ہیں خدا کے محبوب نبی ہمارے

طریقہ ان کا ہے کامیابی نظام ان کا نظام اپنا


ہم اپنے آپ سے بھی چاہیں زیادہ انہیں ہے ایماں کا یہ تقاضا

درود ان پر سلام ان پر وظیفہ صبح و شام اپنا


جو پیاری نسبت ہے ان کی ہر اک قدر کریں ہم ان نسبتوں کی

صحابہ، مائیں اور اہل بیت بھی، ہے سب کا اعلی مقام اپنا


کہاں ہو تعریف کسی سے ان کی یہ ایک کوشش شبیرؔ کی ہے

ہے چاہتا لکھنا مدح خوانوں میں اسی طریقے سے نام اپنا

آمین۔


سوال نمبر 16:

ابھی ابھی ملائشیا سے ایک message آیا ہے۔ شاید وہ سن رہے ہوں گے۔

I did مراقبہ احدیت on fourth point. It was completed and ladies did مراقبہ احدیت on the third point. The man did اللہ four thousand times. I have the same feeling as last month الحمد للہ . The ladies are having almost the same good feelings. The man is always the same. Please شیخ guide us, what should we do for next month جزاک اللہ?

جواب:

Now you should do مراقبہ احدیت at fifth point and the lady should do it at fourthpoint and the man should say اللہ اللہ

4500 times ان شاء اللہ.