اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر 01:
ایک خاتون کا سوال ہے کہ حضرت جی! مجھے بہت زیادہ غصہ آتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرتی ہوں۔ غصہ بس اپنے شوہر پر نکالتی ہوں۔ روزانہ یہی سوچتی ہوں کہ اب غصہ نہیں کرنا لیکن پھر بھی غصہ آ جاتا ہے اور بالکل control نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ سے میری ذاتی اور ازدواجی زندگی بہت متاثر ہو رہی ہے۔ ویسے مجھے شوہر سے بہت محبت ہے لیکن غصہ کی وجہ سے سب خراب ہو جاتا ہے۔ شادی کو سال ہو گیا ہے۔ہمارا کوئی بچہ بھی نہیں کیونکہ ہمارا ملنے کو دل نہیں کرتا۔ میرے شوہر کو غصہ نہیں آتا وہ میرے غصہ کو بھی ignore کر دیتے ہیں۔ میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں۔ حضرت جی اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے۔
جواب:
اللہ تعالیٰ آپ کے حالات کو بہتر فرمائے۔ آپ کے حالات جان کر مجھے اس بات کا خدشہ ہو رہا ہے کہ کہیں آپ کی یہ حالت آپ کی ازدواجی زندگی کو تباہ نہ کر دے۔ کہتے ہیں کہ تحمل والوں کے غصے سے ڈرو۔ کیونکہ جن کو غصہ نہیں آتا جب ان کو آ جاتا ہے تو پھر جلدی ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ آپ کے شوہر کی بھی ایسی حالت ہوئی تو پھر بہت نقصان ہو جائے گا۔ اس لئے غصہ شوہر پر نکالنے کی بجائے کسی اور طریقے سے کتھارسس کیا کریں۔ مثلاً کوئی پتھر دوسرے پتھر کے ساتھ مار لیں۔کوئی ایسا طریقہ اختیار کریں جو نقصان دہ نہ ہو۔ لیکن اگر شوہر کا قصور نہ ہو تو شوہر پہ غصہ نہ کیا کریں۔ قصور ہو بھی تو برداشت کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے آپ کو شدید نقصان ہو سکتا ہے۔ آپ روزانہ ”لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ اِلَّا باللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم“ 500 مرتبہ عصر کی نماز کے بعد پڑھا کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کریں کہ اے اللہ غصے پہ مجھے قابو دلا دے۔ جو ذکر میں نے بتایا ہے وہ باقاعدگی سے کریں تاکہ جلد سے جلد مجاہدات کا سلسلہ شروع ہو جائے جس سے آپ کا نفس control میں آ جائے۔ جب تک نفس control میں نہیں ہوتا تب تک غصہ نہیں جاتا۔ کیونکہ غصہ نفس ہی کی ایک شرارت ہے۔
سوال نمبر 02:
شیخ صاحب آپ نے جو لطیفہ روح کے بارے میں بتایا تھا وہ میں 15 منٹ کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ دس منٹ کا لطیفہ قلب نہیں کرتی۔
جواب:
آپ لطیفۂ قلب بھی شروع کر لیں کیونکہ یہ لطائف ایک دوسرے پہ منحصر ہوتے ہیں۔ آپ اس کو نہ چھوڑا کریں کیونکہ لطیفۂ قلب اصل ہے جب تک یہ activate نہیں ہوتا اس وقت تک لطیفۂ روح دیرپا نہیں ہوگا۔ اس لئے لطیفۂ قلب کو خوب activate رکھیں۔ 10 منٹ لطیفۂ قلب کا مراقبہ کیا کریں اس کے بعد لطیفۂ روح کا، تاکہ یہ سارے صحیح طور پہ جاری ہو جائیں۔
سوال نمبر 03:
السلام علیکم، حضرت جی! مجھے درج ذیل وظیفہ تیس دن کے لئے دیا گیا تھا:
”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“ 200 مرتبہ، ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ ھُو“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ، اور ”اللّٰہ“ 100 مرتبہ
الحمد للہ مکمل ہو گیا ہے ۔میرے لئے آئندہ کیا حکم ہے؟
جواب:
اب آپ 200 مرتبہ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“، 400 مرتبہ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ ھُو“،”حَقْ“ 600 مرتبہ اور ”اللّٰہ“ 200 مرتبہ کر لیا کریں۔ یہ تیس دن کے لئے ہے۔
سوال نمبر 04:
السلام علیکم، حضرت جی! اللہ آپ کے علم و عمل، صحت اور زندگی میں خیر و برکت عطا فرمائے ،آپ کا سایہ ہم پر قائم رکھے اور ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میں پچھلے ایک مہینہ سے مندرجہ ذیل ذکر کر رہا ہوں۔
”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“ 200 مرتبہ، ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ ھُو“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 400 مرتبہ اور ”اللّٰہ“ 100 مرتبہ۔
آپ نے ایک مہینہ بعد مطلع کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ آج یکم نومبر کو مہینہ مکمل ہو گیا ہے۔ آئندہ ذکر کا طریقہ کیا ہو۔ مزید آپ کی دعا اور رہنمائی کی طلب گار ہوں۔
جواب:
ہمارے اذکار دو قسم کے ہیں۔(1)۔ثوابی اذکار ۔(1)علاجی اذکار۔ 100 دفعہ تیسرا کلمہ، 100 دفعہ درود شریف اور 100 دفعہ استغفار۔ اس کے علاوہ نماز کے بعد والے مسنون اذکار، یہ تمام ثوابی اذکار ہیں۔ ان سے آپ کو ثواب ملتا ہے۔ جو اذکار ہم سالکین کو دیا کرتے ہیں۔ جیسے ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“ 200 مرتبہ، ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ ھُو“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 400 مرتبہ ”اللّٰہ“ 100 مرتبہ۔ یہ علاجی اذکار ہیں۔ اگر کوئی ثوابی اذکار کر لے اور علاجی اذکار نہ کرے تو اسے ثواب تو ملے گا لیکن علاج نہیں ہو گا۔ اور جو علاجی اذکار کرتے ہیں ثوابی اذکار نہیں کرتے، ان کا علاج تو ہو رہا ہے لیکن ثواب سے محروم ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی مریض کو ڈاکٹر دوائی دے اور غذا بھی تجویز کرے۔ اب اگر وہ مریض دوائی چھوڑ دے صرف غذا پہ انحصار کرے تو نقصان ہے اور اگر صرف دوائی کھاتا رہے غذا نہ کھائے تو بھی نقصان ہے۔ دونوں چیزوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ اسی طرح اگر شیخ نے علاجی ذکر دیا ہے تو وہ بھی ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ثوابی ذکر بھی جاری رہنا چاہیے تاکہ انسان کے ثواب کی ضرورت پوری ہوتی رہے۔
سوال نمبر 05:
جو لطیفہ کی جگہ آپ ہدایت فرماتے ہیں اگر ہم اس کو follow کرنے میں غلطی کریں تو اس کا کیا اثر ہو گا؟
جواب:
لطائف و مراقبات کی مثال دوائی کی سی ہے۔ ڈاکٹر جس طریقے سے دوائی استعمال کرنے کی ہدایت کرے اگر کوئی اس طریقہ میں غلطی کرے تو آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اس میں اس کا کیا نقصان ہو گا، ظاہر ہے اس کا علاج نہیں ہو پائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شیخ کے دیئے ہوئے اذکار اور لطائف و مراقبات شیخ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہ کرے تو اس کا روحانی علاج نہیں ہو پائے گا۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔ بعض اوقات بعض لوگ صحیح جگہ پر ذکر نہیں کرتے۔ نتیجتاً انہیں فائدہ کی بجائے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً مرد حضرات جب ذکر کرتے ہیں تو ضرب لگاتے ہیں۔یہ ضرب اگر دل پہ لگے تو ٹھیک ہے، لیکن اگر دل کے علاوہ کسی اور جگہ لگے تو پھر مسئلہ والی بات ہے۔بعض لوگ جن کو اس بات کی سمجھ نہیں ہوتی وہ ذکر کرتے ہوئے گردن پر ضرب لگاتے ہیں۔ گردن تمام اعصابی نظام کا مرکز ہے۔ اس پہ ضرب لگنے سے مزاج میں خشکی اور چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔اس سے بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔ پھر لوگ کہتے ہیں کہ ذکر سے نقصان ہوا ہے۔ حالانکہ ذکر سے نقصان نہیں ہوا بلکہ ذکر غلط طریقہ سے کرنے سے نقصان ہوا۔
لہٰذا ان تمام چیزوں کو صحیح طریقہ سے کرنا چاہیے۔ صحیح طریقہ سیکھنا چاہیے۔ تبھی اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی غلط جگہ پر ذکر کرتا رہے تو مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
سوال نمبر 06:
حضرت جی! مراقبہ حقیقتِ نماز اور قرآن جاری ہے ۔قرآن پاک کی روزانہ ایک سپارہ تلاوت کرتا ہوں۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میرے عیب مجھ پر کھل رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ توبہ بھی کرتا ہوں۔ حقیقتِ نماز میں بھی کوشش کرتا ہوں کہ یہ تصور مستحضر رہے کہ جسم کا ذرہ ذرہ سجدے میں گر گیا ہے۔ نماز میں تو یہ کیفیت مل جاتی ہے لیکن غیر نماز میں اگر توجہ کروں تب مل جاتی ہے، ورنہ ہر وقت محسوس نہیں ہوتی۔آئندہ کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
جو کیفیات نماز کے دوران محسوس ہوتی ہیں ان کا نماز کے علاوہ ہر وقت محسوس ہونا تو بڑا مشکل ہے۔ بلکہ اگر ہر وقت محسوس ہونا شروع ہو جائیں تو کچھ مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ جیسے کسی چیز کا محسوس ہونا نعمت ہے اسی طرح بعض دفعہ اس کا محسوس نہ ہونا بھی نعمت ہوتی ہے۔ جیسے انسان دن کے وقت کام کرتا ہے اور رات کے وقت آرام کرتا ہے۔ ہر وقت آرام کرنا بھی ٹھیک نہیں ہوگا اور ہر وقت کام کی حالت میں بھی نقصان ہوگا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ استتار میں بھی اللہ پاک کی حکمت ہوتی ہے کیونکہ انسان زیادہ تجلی برداشت نہیں کر سکتا۔
میں اکثر دیکھتا ہوں کہ بڑے لوگوں کے ساتھ جو پرسنل اسسٹنٹ ہوتے ہیں ان کی جان پہ بنی رہتی ہے کیونکہ وہ ہر وقت مسلسل ایک tension سے گزر رہے ہوتے ہیں کیونکہ انہیں ہر لمحہ ایکٹو رہنا پڑتا ہے اور ہر چیز کا خیال مسلسل رکھنا ہوتاہے۔ اس خطرے کی صورت میں انسان کے اعصاب کے اوپر اچھا خاصا بوجھ آ سکتا ہے۔ یہاں بھی یہی بات ہے۔ اگر انسان ہر وقت حضوری کی کیفیت میں رہے تو یہ اس کی برداشت سے باہر ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ آرام دینے کے لئے کسی وقت اس کیفیت کو چھپا دیتے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ قبض اور بسط دونوں کی اپنی اپنی حکمتیں ہیں۔ جس طرح بسط میں حکمت ہے اسی طرح قبض میں بھی حکمت ہے۔
خیر! آپ اسی حقیقت قرآن اور حقیقت نماز کا مراقبہ کرتے رہیں۔ البتہ ساتھ دل میں بیس منٹ دعائیں بھی کرتے رہیں۔ ان شاء اللہ اس سے بھی بہت ساری چیزیں کھل جائیں گی۔
ایک صاحب نے مجھے message کیا ہے۔ لکھا ہے ”حضرت صاحب السلام علیکم“۔اپنا نام نہیں لکھا۔ میں اکثر بتاتا رہتا ہوں کہ ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔ آپ جب بھی کسی کو سلام کریں تو ساتھ بتا دیں کہ میں کون ہوں۔ کیونکہ موبائل پر صرف سلام کرنے سے نہیں معلوم ہو سکتا کہ آپ کون ہیں۔ اس لئے تعارف ضروری ہوتا ہے۔ بغیر تعارف کے انسان کو پتا نہیں چلتا کہ میں کس سے مخاطب ہوں۔لہٰذا جب بھی کوئی کسی کو سلام بھیجے تو ساتھ اپنا نام بھی لکھا کرے۔ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ جتنی بار میسج کریں اتنی بار نام بتائیں۔ اگر کسی کا میسج دو ماہ پہلے آیا تھا اور آج پھر آیا ہو تو اس کا نام دیکھنے کے لئے کنورسیشن میں دو مہینے پیچھے جانا پڑے گا۔ جس کے لئے اچھا خاصا وقت درکار ہے۔ لہٰذا اس کا خیال رکھیں اور جب سلام کریں تو ساتھ نام بھی لکھا کریں۔ اسی میں فائدہ ہے ۔
سوال نمبر 07:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت! آپ کو آپ کے شیخ حضرت مولانا اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ عشاء کی نماز کے بعد فرمایا تھا:
”شبیر آرام کا وقت اب چلا گیا ہے اب کام کرنا ہے، کام کرنا ہے کام کرنا ہے۔ لوگ تمہیں کام نہیں کرنے دیں گے لیکن پھر بھی کام کرنا ہے“
جس وقت آپ کو آپ کے شیخ نے یہ بات فرمائی تھی اس وقت بھی فتنوں کا دور تھا لیکن آج کل کی نسبت وہ دور کم فتنوں والا تھا۔ آج کا دور کہیں زیادہ فتنوں والا ہے۔ ایسے میں ہم انفرادی و اجتماعی لحاظ سے دین کا کیا کام کر سکتے ہیں؟ اللہ پاک آپ سے اور آپ کے گھر والوں سے راضی ہو۔
جواب:
سبحان اللہ! بڑی اچھی بات ہے۔ کام تو کرنا ہی ہے۔ البتہ اس کا خیال رکھا جائے کہ انسان اتنا ہی کام کرے جتنا سنبھال سکتا ہو۔ کیونکہ کام صرف ایک دن کے لئے نہیں کرنا ہوتا مستقل طور پہ کرنا ہوتا ہے۔ مستقل کام کرنے کا مطلب یہی ہے کہ انسان جتنا بوجھ اٹھا سکتا ہے اتنا اٹھائے۔ بالخصوص جب کوئی کام اسے سونپا جائے تو اس میں بالکل کمی نہ کرے۔ اگر کوئی کام خود اپنے ذمہ لیتا ہے تو اتنا ہی لے جتنا سنبھال سکے۔ اگر ہر آدمی اس کا خیال رکھے گا اور اپنی ذمہ داری بطریق احسن پوری کرے گا تو پوری جماعت کو فائدہ ہو گا اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر پوری جماعت کو نقصان ہوگا۔ لہٰذا دور تو فتنوں کا ہے، لیکن اس میں تشکیل جس کام کے لئے جتنی ہو جائے اس کو بخوبی کرنا چاہیے۔
سوال نمبر 08:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت! ہم گاؤں جا رہے تھے تو موٹروے سے نکلتے وقت ٹول پلازہ پر مجھ سے پوچھا گیا کہ کہاں سے آئے ہو۔ میں نے کہا: اسلام آباد سے۔ انہوں نے مجھے ٹول ٹیکس کی جو رسید دی اس میں تیس روپے کاٹے گئے تھے۔ حالانکہ ہمارے گاؤں تک ٹول ٹیکس 210 روپے بنتا ہے۔ میں نے اتر کر اس بندے کو کہا کہ کم پیسے کاٹے ہیں۔ لیکن اس نے کہا: مفتی صاحب کوئی بات نہیں آپ جائیں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ اس شخص نے دو نمبری کی اور مجھ سے 180 کم وصول کئے۔ اب یہ پیسے کس طریقہ سے متعلقہ محکمہ تک پہنچاؤں؟ والسلام۔
جواب:
ایسے معاملات کو اسی وقت handle کرنا ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ انہوں نے کوئی اپنی رسید بک بنائی ہو اور جو تیس روپے آپ سے لئے وہ خود ہی اپنے پاس رکھ لیں، وہ آگے محکمہ کے پاس جائیں ہی نہیں۔ پہلے اس کی تحقیق کر لینی چاہیے کہ یہ ٹول ٹیکس کی ادائیگی کا عمل کس طریقہ سے process ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگر واضح ہو جائے کہ یہ دو نمبری ہے تو پھر اس کی رپورٹ کرنا چاہیے۔ یہ بھی ایک لازمی چیز ہے کہ اس بات کی رپورٹ کی جائے کہ اس اسٹیشن پر ایسے ہوا ہے تاکہ ان کو پتا چل جائے اور وہ لوگ دوسرے مسافروں کے ساتھ ایسا نہ کر سکیں۔ اگر آپ کو شک ہے کہ ٹول ٹیکس کی رقم متعلقہ محکمہ تک نہیں پہنچی اور آپ ادا کرنا چاہتے ہیں تو جو ادارہ اس کام کو سنبھال رہا ہے اس کا procedure معلوم کر لیں کہ کیسے ادا کئے جا سکتے ہیں اور ان کو ادا کر دیں۔
سوال نمبر 9:
میں مسجد میں بیٹھا ذکر کر رہا تھا۔ سامنے سے ایک آدمی گزر گیا۔ میرے دل میں ریا پیدا ہو گئی کہ وہ آدمی مجھے اچھا سمجھے گا کہ میں ذکر کررہا ہو۔ اس کا کیا حل ہے۔
جواب:
اس میں اصول یہ ہے:
”اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات“ (صحیح بخاری: حدیث نمبر 1)
ترجمہ: ’’بے شک تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘
آپ اس اصول کو سامنے رکھ کر غور کریں کہ جس وقت آپ ذکر کرنے کے لئے بیٹھے تھے تو کیا آپ کے خیال میں یہ تھا کہ جب میں ذکر کروں تو یہ آدمی مجھے دیکھے گا؟ اگر آپ کی نیت یہی تھی، پھر تو واقعی ریا ہے۔ اگر ذکر شروع کرتے وقت آپ کی نیت یہ نہیں تھی، صرف اس آدمی کے گزرنے سے آپ کو ایسا خیال آیا تو یہ وسوسۂ ریا ہے، ریا نہیں ہے، کیونکہ کسی کا گزرنا آپ کے بس میں نہیں ہے اور گزرنے پر ایسا خیال آنا بھی آپ کے بس میں نہیں ہے۔آپ کا بس صرف اس بات پر ہے کہ آپ جب ذکر شروع کرنے کے لئے بیٹھیں اس وقت اپنی نیت خالص رکھیں۔ اس وجہ سے حضرت تھانوی رحمۃ الله علیہ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ جس طرح یہ بات ریا ہے کہ دین کا کوئی کام کرتے وقت یہ سوچا جائے کہ اگر میں یہ کروں گا تو لوگ مجھے اچھا سمجھیں گے، اسی طرح یہ بھی ریا ہے کہ دین کا کوئی کام اس لئے چھوڑنا کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے۔ نیکی کرنے میں اگر نیت خالص نہ رہی تو ریا ہے اور اگر نیکی چھوڑنے میں بھی خالص نیت نہ رہی، بلکہ نیت یہ ہوئی کہ اس لئے چھوڑ رہا ہوں کہ کسی نے دیکھ لیا ہے، تو یہ بھی ریا ہوگی۔ لہٰذا نہ کسی کے لئے کرے اور نہ ہی کسی کے لئے چھوڑے۔ بس دل میں نیت صحیح رکھے اور وہ نیت یہی ہو کہ میں اللہ کے لئے کر رہا ہوں۔ اور جس وقت آپ ذکر کے لئے بیٹھے تھے اس وقت آپ کی نیت یہ نہیں تھی کہ اس آدمی کے لئے کر رہا ہوں، اس وجہ سے آپ کا ذکر کرنا ریا نہیں ہوا۔
سوال نمبر 10:
حضرت! میں چاہتا ہوں کہ میرا نفس نفسِ مطمئنہ بن جائے۔ آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔ والد صاحب پچھلے سال وفات پا گئے۔ ان کے لئے دعا کی درخواست ہے۔ پہلے میرا بیعت کا تعلق حضرت صوفی سرور صاحب سے تھا۔ اس کے بعد پھر ایک اور بزرگ سے تجدید بیعت ہوئی۔ اگرچہ وہ بڑے بزرگ ہیں لیکن مجھے تربیت کی ضرورت ہے میں تربیت کا شروع ہی سے محتاج ہوں ۔ اس کے لئے دل آپ کی طرف راغب ہوا ہے۔ آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے ۔
جواب:
الله جل شانہٗ آپ کے والد کی مغفرت فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر مبارک کو نور سے بھر دے اور آپ لوگوں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ محترم! میں آپ کو جانتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے۔ آپ نے یہ بات سو فیصد درست فرمائی صرف بیعت کافی نہیں ہے، تربیت ضروری ہے کیونکہ تربیت مقصود ہے بیعت مقصود نہیں ہے۔ ہاں اس کا انکار نہیں کہ بیعت مفید ضرور ہے کیونکہ سلسلہ کی برکت حاصل ہو جاتی ہے۔ جب کوئی آدمی کسی صحیح صاحب سلسلہ سے بیعت ہوتا ہے تو پھر دوسری جگہ بیعت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ہاں تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر تربیت کے لئے کسی دوسرے شیخ سے رابطہ کیا جائے تو ان کو شیخِ تربیت مان لیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے اگر آپ واقعی اس پر مطمئن ہیں اور آپ کو ہمارے ہاں تربیت کروانے پر شرح صدر ہےتو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں پہلے ذکر دیا جاتا ہے۔ ذکر کا سلسلہ جب ایک خاص حد تک جائے جس سے انسان کا قلب نفس کی اصلاح پر مائل ہو جائے تو اس کے بعد نفس کی اصلاح شروع ہوتی ہے۔ آج کل لوگ ابتداءً نفس کی اصلاح کے لئے آسانی سے تیار نہیں ہوتے۔ کیونکہ نفس کی اصلاح میں مجاہدات، ریاضات اور مشکلات ہوتی ہیں۔ اس لئے پہلے ذکر واذکار اور مراقبات و اشغال وغیرہ کرائے جاتے ہیں تاکہ انسان کی طبیعت میں نرمی آ جائے اور وہ ان چیزوں کے لئے تیار ہو جائے۔
آپ کو بھی سب سے پہلے ذکر دیا جائے گا۔ آپ ایسا کریں کہ 300 دفعہ ”سُبْحَانَ اللّٰہ وَالْحَمْدُ للّٰہ وَ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ وَ اللّٰہُ اَکْبر “اور 200 دفعہ ”لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم“ یہ ذکر چالیس دن تک بلا ناغہ کر لیں۔ اس کے علاوہ روزانہ ہر نماز کے بعد 33 دفعہ ”سُبْحَانَ اللّٰہ“ ،33 دفعہ ”اَلْحَمْدُ للّٰہ“،34 دفعہ ”اللّٰہُ اَکْبَر“ ،3 دفعہ کلمہ طیبہ ،3 دفعہ درود ابراہیمی ،3 دفعہ استغفار اور 1 مرتبہ آیۃ الکرسی پڑھا کریں۔ یہ معمول بھی چالیس دن تک بلا ناغہ کریں۔ چالیس دن مکمل کر لیں تو پھر رابطہ کر لیجئے گا ان شاء اللہ اگلا قدم آپ کو بتا دیں گے۔ اس میں استقامت بہت ضروری ہوتی ہے اس لئے ہم تھوڑا تھوڑا سبق دیتے ہیں، یکدم سارا نہیں دے سکتے، کیونکہ اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا تدریجی طریقہ سے آگے بڑھیں گے اور جس وقت ضرورت ہو گی تو نفس کی اصلاح کامرحلہ آ جائے گا۔ الله جل شانہ ہم سب کے نفسوں کو نفس مطمئنہ بنا دے۔
سوال نمبر 11:
شاہ صاحب! آپ نے فرمایا تھا کہ اشراق اور چاشت ضرورت کے وقت ایک ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ میں ساڑھے سات بجے سکول جاتی ہوں۔ اشراق تو پڑھ لیتی ہوں لیکن چاشت کی نماز رہ جاتی ہے کیا میں صبح سات بجے دونوں نمازیں ایک ساتھ ادا کر سکتی ہوں؟ یہ بھی بتا دیں کہ کم سے کم رکعت کتنی پڑھ سکتی ہوں۔
جواب:
جی ہاں! دونوں نمازیں اکٹھی ادا کر سکتے ہیں ۔اور کم سے کم دو رکعت پڑھ سکتے ہیں۔ آپ دو رکعت اشراق اور دو رکعت چاشت اکٹھی پڑھ لیا کریں۔
ایک خاتون نے مجھے ایک Text بھیجا تھا۔ اس کے ساتھ اس نے کسی فلسفی صوفی کے کچھ اقوال بھیجے تھےلیکن اس میسج کے آغاز میں وہ سلام لکھنا بھول گئیں۔ بعد میں معذرت کی کہ حضرت جی معذرت میں سلام لکھنا بھول گئی تھی۔
میں نے جواب دیا کہ آپ سلام اس لئے بھول گئیں کہ آپ نے ایک فلسفی صوفی کے اقوال کو اہمیت دی۔ ایسے لوگوں سے بچیں۔ ان کی باتیں اونچی اور عمل صفر ہوتا ہے۔ جس سے ان کے چاہنے والوں میں بھی یہ بیماری آ جاتی ہے ۔ فلسفیانہ تصوف میں باتیں بڑی اونچی اونچی کرتے ہیں۔ اتنی اونچی باتیں کرتے ہیں کہ ان کو نیچے لانا ہی بڑا مشکل ہوتا ہےلیکن عمل بالکل صفر ہوتا ہے۔ وہ صرف باتیں ہی باتیں ہوتی ہیں۔ اس کی مثال ایک بڑے بلبلے کی سی ہوتی ہے، جو دیکھنے تو بہت بڑا ہوتا ہے مگر جب اسے پکڑنے کی کوشش کریں تو سب ہوا نکل جاتی ہےاور اس کا وجود نہیں رہتا۔ یہ فلسفیانہ تصوف ایسے ہی ہے۔ بس شیشوں کا آسمان بنا لیتے ہیں۔
ہمارے ایک ساتھی کو تقریروں کا بڑا شوق تھا۔ بہت تقریریں سنتے تھے اور ہر قسم کی تقریریں سنتے تھے۔ ایک دن television ایک علامہ صاحب کی تقریر تھی۔ ہم dinner کے لئے جا رہے تھے۔ dining hall میں دیکھا کہ ٹی وی پہ بہت سارے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پتا چلا کہ فلاں علامہ صاحب کی تقریر ہے۔ ڈنر کے دوران تقریر ختم ہو گئی۔ وہاں سے واپسی پر وہ صاحب ملے۔ میں نے کہا بھئی علامہ صاحب نے کیا کہا؟ تھوڑی دیر سوچتے رہے پھر کہتے ہیں کہا تو کچھ بھی نہیں۔ میں نے کہا: اسی کو لفاظی کہتے ہیں کہ ہوتا کچھ بھی نہیں اور الفاظ ایسے بنا لیتے ہیں کہ آدمی سمجھتا ہے کہ کوئی بہت عظیم بات ہے، الفاظ میں گم ہو جاتا ہے لیکن جب اس سے کچھ مطلب نکالنا چاہیں تو کچھ بھی نہیں نکلتا ۔ یہ شاعری بھی اس طرح ہوتی ہے۔ الفاظ کا آسمان بنا لیتے ہیں جبکہ حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم! ایک شیخ کا سوال ہے کہ آپ کی رائے میں ذکر قلبی آہستہ رفتار سے اسم ذات کے تلفظ کا خیال رکھتے ہوئے کرنا مفید ہے یا تیزی سے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیے۔
جواب:
آہستہ آہستہ کرنے سے اکثر شروع نہیں ہوتا اس لئے جلدی جلدی کراتے ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ کرنے سے اگر شروع ہو جائے تو زیادہ اچھا ہے۔ البتہ ذکر قلبی میں دھیان چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مقصود ہے اسم اور تلفظ کا نہیں۔اور دھیان دونوں صورتوں میں حاصل ہو سکتا ہے خواہ آہستگی سے کریں یا تیزی سے۔ دونوں طرح ٹھیک ہے۔
سوال نمبر 13:
ایک صاحب نے پوچھا ہے السلام علیکم حضرت
Is دھرنا of JUI is good and must be joining by common people?
جواب:
اس کا جواب یہ ہے کہ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں۔ یہ سیاسی سوال ہے اور اس کا جواب بھی سیاسی ہو گا لہٰذا کسی سیاسی آدمی سے پوچھ لیا جائے۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم! آپ سے گزارش ہے میرے لئے دعا کریں میں بہت پریشان ہوں۔
جواب:
دعاؤں سے مفر نہیں ہے۔ دعا تو ہم سب مسلمانوں کے لئے کرتے ہیں چاہے کوئی کہے یا نہ کہے۔ البتہ ہر مسلمان کا ہمارے اوپر یہ حق ہے کہ ہم ان کو صحیح راستہ دکھائیں تاکہ ان کی دعائیں قبول ہو جائیں اور ان کا کام بن جائے۔ پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ گناہوں سے بچا جائے۔ کیونکہ گناہوں سے پریشانیاں آتی ہیں۔ اور اگر آدمی گناہ نہ کرتا ہو پھر بھی پریشانیاں آئیں تو ان پریشانیوں میں خیر ہوتی ہے۔ اس سے رفع درجات ہوتا ہے۔ کیونکہ مصیبت تین وجوہات سے آ سکتی ہے۔ انسان کے گناہوں کی سزا کے طور پر مصیبتیں آتی ہیں۔ اگر اس مصیبت پر واہی تباہی بکنے لگے تو یہ سزا ہے اور اگر اس پر صبر کر لے تو اس پر اجر ہے اور اس کے گناہ معاف ہونے کا ذریعہ ہے اور اگر کوئی اس پر شکر کرے کہ میں تو اس سے بھی زیادہ کا لائق تھا اللہ پاک نے مجھے زیادہ سے بچا دیا تو اس سے رفع درجات ہوتا ہے۔ لہٰذا جب مصیبتیں آئیں تو انسان اپنا قصور سمجھے کہ میری ہی کسی خطا کی وجہ سے یہ مصیبتیں آئی ہیں۔ انبیاء کرام سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے۔ یونس علیہ السلام پر جب مصیبت آئی تو انہوں نے یہی کیا تھا۔ فرمایا:
﴿لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (الانبیاء: 87)
آدم علیہ السلام پر جب پریشانی آئی تو ان کا رد عمل بھی یہی تھا۔
﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (الاعراف:23)
اس کے ساتھ ساتھ حضرت ایوب علیہ السلام والا وظیفہ
﴿اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ﴾ (الانبیاء: 83)
کریں تو ان شاء اللہ تکالیف بھی دور ہوں گی اور استغفار کی برکت سے گناہ بھی معاف ہوں گے۔
اس کے علاوہ اپنی زندگی کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔ بہت سارے لوگ جو ہمارے پاس آتے ہیں ان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ہمارے حالات بدل جائیں لیکن ہم نہ بدلیں۔ ان کی باقاعدہ پہلے سے یہی نیت ہوتی ہے۔ پھر جب ہم ان کو بدلنے کے لئے کچھ بتاتے ہیں تو وہ تنگ ہوتے ہیں کہ یہ کیا قصہ شروع ہوگیا ہمارا مطلب تو پورا نہیں ہو رہا۔ جبکہ ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ پہلے یہ لوگ اپنے آپ کو بدلیں جب ایسا کریں گے تو حالات خود بخود بدلیں گے۔ کیونکہ اللہ پاک نے باقاعدہ قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾ (الروم: 41)
اگر اعمال کی وجہ سے فساد برپا ہوتا ہے تو اعمال کی وجہ سے ختم بھی ہو سکتا ہے۔ استغفار ،نیک اعمال اور توبہ کے ذریعے انسان کے حالات بدل بھی سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر اس پر کوشش شروع کی جائے کہ میں خود بدل جاؤں تو میرے حالات از خود بدل جائیں گے۔ آپ کے لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد ل﴿لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (الانبیاء: 87) اور ﴿اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ﴾ (الانبیاء: 83) پڑھا کریں اور اگر کسی شیخ سے تعلق نہیں ہے تو کسی شیخ سے اصلاحی تعلق قائم کریں اور اپنی اصلاح شروع کروائیں۔
سوال نمبر 15:
حضرت شاہ صاحب!
I pray that you are fine can you please make دعا for me and for my daughter she is very sick and my wife finished her first ورد the initial one, waiting for your instructions.
جواب:
It’s very good that your wife has completed the first initial ذکر and now she can start 3rd کلمہ full 100 times, درود شریف‘ صلوۃ علی النبی hundred times and استغفار اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّی مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْهِ hundred times daily it will be forever ان شاء اللہ and beyond beside this for 10 minutes she should keep silent with closed eyes facing towards قبلہ and thinking as if her heart is saying اللہ اللہ اللہ it’s just thinking that its done. she should not do it because she cannot do it and its only to be alert if heart is saying اللہ اللہ so she should catch it and till that time she should be just like if a cat is catching the mouse so that that cat is very alert the at the moments that is watching for catching the mouse so this alertness is required also in this case it’s not actually doing but it is actually the watching and then getting.
سوال نمبر 16:
کسی نے مجھے ”قرآن کی 100 باتیں“ نامی ایک text بھیجا ہے۔ جو قرآن پاک میں دی گئی ہدایات میں 100 ہدایات پر مشتمل ہے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ 86 نمبر پر جو بات لکھی ہے کہ ہم جنس پرستی میں نہ پڑو۔ اس کا کیا مطلب ہے۔
جواب:
میں مفسر قرآن نہیں ہوں اور نہ ہی میں نے کبھی تفسیر قرآن پہ ریسرچ کی ہے۔ میں اس کے بارے میں کیسے بتا سکتا ہوں۔ اس لئے میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ اس کی باقاعدہ کسی عالم سے تحقیق کر لیں۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہر ایک کے کام کی نہیں ہوتیں انہیں اس فن کے ماہرین کے لئے چھوڑ دینا چاہیے، اسی طرح اگر کوئی تفسیر سے متعلق گہری بات ہے تو وہ مفسرین اور علماء کے لئے چھوڑ دیں۔اگر اس چیز کے جاننے نہ جاننے پر آپ کے کسی حلال حرام کا دارومدار نہیں ہے، صرف علمی بات ہے تو پھر یا تو پہلے اس کے بنیادی علوم حاصل کریں یا پھر علماء پہ چھوڑ دیں۔
ایک دن میں سوچ رہا تھا کہ اگر میں حافظ ہوتا تو راستہ بھر قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتا۔ یہ میرے لئے کتنی خوش نصیبی کی بات ہوتی۔ ایک دم دل سے آواز آئی کہ حافظ نہیں ہو لیکن ذکر تو کر سکتے ہو، درود شریف تو پڑھ سکتے ہو، استغفار تو کر سکتے ہو۔ ان چیزوں سے تو کسی نے نہیں روکا۔ بہت سارے کام ہوتے ہیں جو انسان کر سکتا ہے لیکن کہتا ہے اگر یہ ہوتا تو میں یہ کرتا۔عموماً انسان جو نہیں کر سکتا اس کے بارے میں سوچتا ہے اور جو کر سکتا ہے اس کی طرف دھیان نہیں دیتا۔ جب ہم اس قسم کی باتیں کرتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑے خشک ہیں، ہماری بات نہیں مانتے۔ بھئی اگر ہم سب لوگوں کی باتیں مانا کریں تو پھر ہم اپنا کام کیسے کریں۔ سارے کام چھوڑ کر لوگوں کی research پر لگ جائیں، تو پھر جس کام کے لئے ہم بیٹھے ہیں اس کا کیا ہو۔ ہم خود اپنے طور پہ بھی اپنے کاموں پہ ریسرچ کر رہے ہیں۔ اگر دوسروں کی ریسرچ پہ لگ جائیں تو ہمارا اپنا کام رہ جائے گا۔
ایک کرنل صاحب میرے پاس آیا کرتے تھے۔ انہوں نے چھوٹا سا مدرسہ شروع کیا تھا۔وہ مجھ پہ پورا زور لگاتے تھے کہ یہ کام سب سے اصل ہے، آپ اس میں ہمارے ساتھ کل وقتی طور پہ شامل ہو جائیں۔ میں نے کہا کہ میں جو کام کر رہا ہوں وہ میرے لئے ٹھیک ہے۔ بزرگوں نے میری جو ڈیوٹی لگائی ہے میں اسی پہ چل رہا ہوں میرے لئے یہ مناسب ہے۔ آپ وہ کام کرتے رہیں اور مجھے یہ کام کرنے دیں۔ لیکن جب بھی وہ مجھ سے ملتے تو چڑچڑے پن کی حد تک کہتے کہ آپ جو کام کر رہے ٹھیک تو وہ بھی ہے لیکن اصل کام یہ والا ہے، آپ اس طرف کیوں نہیں آتے۔
اس قسم کی بات مناسب نہیں ہوتی۔ جو کام جس کے لئے ہے اسی سے لو۔ اب کسی کریانے کی دکان پہ جا کر اس سے کہیں کہ جی مجھے فلاں medicine دے دو تو کیا وہ دوائی دے پائے گا، اور کیا آپ کا ایسا کرنا درست ہو گا؟ دکاندار تو وہ بھی ہے اور chemist بھی دکاندار ہے لیکن دونوں کی الگ الگ فیلڈ ہے۔ جس کے پاس جو چیز ہے اسی سے مانگو۔ ہر چیز کا اپنا اپنا حکم ہوتا ہے اور ہر چیز کی اپنی اپنی جگہ ہوتی ہے۔ کان سے دیکھ نہیں سکتے اور آنکھ سے سن نہیں سکتے۔ ہر چیز کی اپنی اپنی جگہ ہے۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! میں سعودیہ عرب سے بات کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ حضرت والا ان شاء اللہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔ حضرت میرا ذکر ایک ماہ کے لئے پورا ہو گیا۔ ذکر یہ تھا:
”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“ 200 مرتبہ، ”اِلَّا اللّٰہ“ 400 مرتبہ،” اَللّٰہُ اَللّٰہ“ 600 مرتبہ، ”اَللّٰہْ، اَللّٰہْ“ 500 مرتبہ، اور لسانی ذکر 2500 ہے۔ ایک ماہ کے لئے آپ نے smart phone کا استعمال بند کرنے کا کہا تھا۔ میں اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن پھر کسی بہانے استعمال کر لیتا ہوں، جیسے آپ کا بیان سننے کے لئے کئی بار استعمال ہوا۔ مزید رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
نفس کو کوئی رستہ نہیں دینا چاہیے ورنہ پھر وہ کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتا ہے۔ آپ ذکر یہی جاری رکھیں۔
smart phone کسی اور کے پاس رکھوا دیں۔ جس وقت مجھ سے بات کرنا چاہتے ہوں یا مجھے جواب دینا چاہتے ہوں یا میرا جواب دیکھنا چاہتے ہوں، اس وقت ان سے لے کر ان کے سامنے استعمال کیا کریں تاکہ غلط استعمال نہ ہو۔ یہ طریقہ اختیار کر لیں۔ کسی کو موبائل دے کران سے کہیں کہ آپ مجھے اس وقت دے دیا کریں جب میں آپ سے کہوں، میں آپ کے سامنے استعمال کر لیا کروں گا۔ اس طریقے سے ان شاء اللہ نفس کے اوپر اچھا خاصا بوجھ آئے گا اور امید ہے کہ نفس سیدھا ہو جائے گا۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
I have started listening to your سوال جواب and my friend said to me that I never think on my own and is dominated by someone and that I should do those things that I love but how should I explain to them that I am dominated by اللہ. I know that doing fashion is wrong because boys and bad people are attracted but they won’t understand they don’t even think that it is bad, they say let them see and feel happy when they are attracted. they say that I don’t think myself I don’t have any opinion of myself, I only do what my mother say. I only think what she think me likes and dislike or just like her but it’s not that even if I do what I love I feel bad because I think that اللہ تعالیٰ won’t be happy with this that's why I stop, my mother haven’t dominates اللہ and all this talk because I said I don’t like to sing songs which I really don’t but at that moment I didn’t say anything I don’t understand what to do or how to explain them to explain to them because they won’t understand and my life is getting busier day by day, because exams are coming, I have very less time. Sorry if there are any mistakes
جواب:
I am very happy after reading this text from you because I know you are all the times in tussle but this tussle is very helpful to you because its giving to you something as you are in مجاہدہ and that مجاہدہ makes you batter so therefore do not be confused and do not be afraid of these things and do not be disappointed of these things you are الحمد للہ very clear in your mind and as a Muslim we cannot say that we can do anything by our self because Muslim cannot do anything by themselves they should do all the things by the order of اللہ سبحانہ و تعالیٰ.
اوامر و نواہی this is one thing that the instructions given by اللہ سبحانہ و تعالیٰ and the things which are forbidden so then the things which forbidden should not be done and the things which are advice to be done. so therefore our whole life depending like this for that reason it is said in حدیث that this دنیا is jail for Muslims and its جنت for non-Muslims because Muslims are follow the instructions of اللہ سبحانہ they cannot do anything by themselves, they always have to follow the instructions of اللہ سبحانہ و تعالیٰ and should follow the path of رسول اللہ ﷺ so therefore they are like this that they are in jail and they have to follow the rules of others and the non-Muslims they are free but what should be the award and what should be the punish in both cases the award which is be given to Muslims that they will be allowed الحمد للہ to go to Jannah and in Jannah everything will be given to them granted to them,
﴿وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَؕ﴾ (فصلت: 31(
and it will be told to them that whatever you will want by heart it will be given to you and whatever you will ask by mouth it will be also granted to you. so this is the place, the جنت is that place which is for Muslims. and these the non-Muslims they are not obeying اللہ سبحانہ و تعالیٰ and they are free to do anything they want, but in the life hereafter they will be put in جہنم and they will not be allowed to do anything by their own, everything they will have that will be put on them and they will be punished all the time and this punishment will be increasing and increasing. so therefore you should not be afraid of this you should not be disappointed, you should not be thinking bad for this if they are saying so you should bear it and it will be مجاہدہ for you and ان شاء اللہ you will be granted for this.
سوال نمبر 19:
حضرت صاحب! طمع، حرص، لالچ اور اشرافِ نفس۔ یہ دل کی بیماریاں ہیں یا نفس کی؟ یا پھر ان کا تعلق عقل سے ہے۔ نیز ان روحانی بیماریوں سے بچنے اور ان کے مکمل علاج کا کیا طریقہ کار ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
طمع میں تینوں چیزیں یعنی دل نفس اور عقل involve ہو سکتی ہیں۔ مثلاً کسی چیز کی چاہت دل کا فعل ہے۔ جس چیز کے ساتھ محبت ہو گی اور وہ اپنے پاس نہیں ہو گی جب کسی اور کے پاس نظر آئے گی تو خیال پیدا ہو گا کہ یہ میرے پاس بھی آ جائے۔ اس لحاظ سے یہ دل کی بات ہو گئی۔ اس کے بعد اگر اس چیز کو حلال طریقے سے حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے صبر کی ضرورت ہو گی، اور نفس صبر سے روکتا ہے، اس لحاظ سے اس کا تعلق نفس سے بھی ہو گیا۔ عقل کا تعلق اس لحاظ سے ہے کہ ایسی حالت میں انسان سوچے کہ اگر مجھے یہ چیز چاہیے تو میں اس سے کیوں نہ مانگوں جو سب خزانوں کا مالک ہے،یعنی اللہ تعالیٰ سے کیوں نہ مانگوں۔ اس انسان سے کیوں مانگوں، یہ مجھے کیا دے سکتا ہے۔ یہ اگر دینا بھی چاہے اور اللہ نہ دینا چاہے تو یہ نہیں دے سکتا۔
یہی چیز حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی کہ اگر سارے لوگ اکٹھے ہو کر تمہیں کوئی چیز دینا چاہیں اور اللہ کی مرضی نہ ہو تو نہیں دے سکتے اور اگر سارے لوگ اکٹھے ہو کر تم سے کوئی چیز روکنا چاہیں اور اللہ کی مرضی نہ ہو تو نہیں روک سکتے۔ اب اگر انسان کسی انسان سے کچھ مانگے تو یہ عقل کا قصور ہو گا۔
میں آپ کو اس کی ایک زبردست مثال دیتا ہوں جو میرے ساتھ گزری ہے۔ ایک مرتبہ میں سرکاری کام سے کراچی گیا۔ وہاں ایک ہوٹل میں قیام تھا۔ ایک بار میں صبح کی نماز کے لئے جا رہا تھا۔ جب corridor سے گزرا تو وہاں کے ایک چوکیدار نے بھی مصلیٰ بچھایا ہوا تھا۔ نماز ادا کر چکا تھا اور اب دعا مانگ رہا تھا۔ وہ بہت اونچی آواز میں دعائیں مانگ رہا تھا اتنی اونچی اواز میں کہ مجھے اس کی ساری دعائیں سنائی دے رہی تھیں کہ اے اللہ میرا یہ مسئلہ ٹھیک نہیں ہے، میں بہت قرض دار ہوں، میری مدد کردے۔ وہ سنا مجھے رہا تھا لیکن دعا اللہ تعالیٰ سے کر رہا تھا۔ میں نے سوچا اگر یہ مجھ سے direct کہتا تو زیادہ اچھی بات تھی کیونکہ اس میں یہ show نہ ہوتا جو اس نے بنایا کہ گویا میں اللہ سے مانگ رہا ہوں۔ لیکن اصل میں انسانوں سے مانگ رہا ہے اللہ سے نہیں مانگ رہا۔یہ اس نے ایک ناٹک رچایا ہے۔ دعا کا غلط استعمال کیا ہے۔ دعا تو بہت اونچی چیز ہے۔ دعا عبادت ہے۔ بھلا عبادت میں کوئی ناٹک رچا سکتا ہے؟ لیکن دیکھو اس کی طمع نے اسے کتنا خراب کر دیا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بڑی عجیب مثال دی ہے۔ فرمایا طمع ایسی خبیث چیز ہے کہ انسان کی عقل کو ختم کر دیتی ہے۔ ایک واقعہ ذکر فرمایا ہے کہ ایک صاحب جا رہے تھے سامنے سے کتے کو آتے دیکھا تواسے سلام کیا۔ ساتھ والے آدمی نے کہا یہ کیا فضول حرکت ہے کہ کتے کو سلام کر رہے ہو۔ کہنے لگا: ممکن ہے یہ جن ہو اور مجھ سے خوش ہو کر کوئی چیز دے دے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرماتے ہیں کہ یہ اس کی جہالت اور بے وقوفی تھی۔ اگر یہ جن ہوتا بھی تو جو جن ایسے جانوروں کی شکل میں آتے ہیں وہ کمزور ہوتے ہیں۔ اعلی جن ایسی چیزوں کی صورت میں نہیں آتے۔
واقعتاً یہ طمع عجیب چیز ہے طمع انسان کسی سے بھی نہ کرے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار فرمایا کہ خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی سے طمع نہ کرو یہاں تک کہ مجھ سے بھی کوئی طمع نہ رکھو۔ انسان کو جس سے طمع ہوپھر اس سے کوئی تکلیف پہنچے یا کوئی چیز نہ ملے تو آدمی کو دکھ ہوتا ہے۔ اس طرح آدمی خواہ مخواہ اپنے آپ کو پریشانی میں ڈالتا ہے۔ آدمی بالکل کھلا دل رکھے کہ اللہ پاک نے مجھے جو دیا ہے وہی دیا ہے مزید اگر دے گا تو وہ بھی اللہ ہی دے گا۔ مجھے لوگوں سے کیا لینا دینا۔ البتہ یہ الگ بات ہے جیسے میں کوئی job کرتا ہوں اور اس سے پیسے لیتا ہوں، اور پیسوں کی امید رکھتا ہوں تو یہ طمع نہیں یہ تو ایک deal ہے، یہ ایک کام ہے ایک service ہے۔ جیسے دکاندار سے سودا لیتا ہوں تو پیسے دیتا ہوں۔ اس طرح کی طلب اور امید میں کوئی حرج نہیں ہے۔کیونکہ یہ اللہ پاک نے ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ایک نظام بنایا ہوا ہے۔ اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر دکاندار کے پاس جا کے کہیں کہ مجھے کچھ مفت میں دے دو تو یہ مانگنا اور طمع ہے۔ طمع کی ہر صورت ناجائز ہے۔
زبان سے کچھ مانگنے کو سوال کہتے ہیں۔ اگر کوئی زبان سے نہیں مانگتا لیکن دل میں طمع رکھتا ہے تو یہ اشرافِ نفس ہے۔ اشرافِ نفس بھی حرام ہے۔ ایک بہت بڑے بزرگ کا واقعہ ہے کہ وہ ایک بار فاقہ سے تھے۔ لیکن کسی کو بتایا نہیں تھا۔ ان کے ایک شاگرد کو چہرے سے پتا چل گیا کہ ان کا فاقہ ہے۔ وہ گھر گئے اور اچھی خاصی چیزیں پکوا کے لا ئے اور ان کے سامنے رکھیں اور عرض کی کہ حضرت تناول فرمائیں میں آپ کے لئے لایا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کو اجر دے۔ آپ نے بڑی مہربانی فرمائی لیکن میں یہ کھانے سے معذور ہوں، نہیں کھا سکتا۔انہوں نے پوچھا: حضرت ایسی کیا بات ہے کہ آپ یہ کھانا نہیں کھا سکتے؟ جواب دیا کہ جب آپ جا رہے تھے، اس وقت میرے دل میں آیا کہ میرے لئے کچھ لانے جا رہے ہیں۔ یہ چونکہ اشراف نفس تھا، لہذا اب میرے لئے یہ حلال نہیں ہے، آپ لے جائیں۔ وہ شاگرد بھی آخر انہی کا شاگرد تھا۔ اس نے کہا حضرت میں آپ کو حرام کھلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگر آپ کے لئے یہ جائز نہیں تو واپس لے جاتا ہوں ۔ وہ واپس لے گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ آ گیا اور کہنے لگا کہ حضرت آپ کے دل میں یہ خیال تو نہیں تھا کہ اب میں کھانا لے کے واپس بھی آؤں گا۔ انہوں نے کہا ،نہیں۔ عرض کی، پھر قبول فرمائیں۔ ان بزرگ نے کھانا قبول فرما لیا۔
میرا اپنا واقعہ ہے۔ ایک بار میں نے ایک عالم کو زکوۃ کے کچھ پیسے دے دئیے۔ وہ زکوۃ کے مستحق تھے۔ انہوں نے انہی پیسوں سے کچھ علماء کی دعوت کی۔ مجھے بھی بلایا۔ جب کھانا آیا تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ زکوۃ کے پیسے ہیں، میرے لیے جائز ہوں گے یا نہیں۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ انہوں نے کہا : آپ کے لئے جائز ہے، کیونکہ اب یہ میرا مال ہے آپ کا نہیں ہے، آپ نے اپنے مال سے نکال دیا ، آپ کی طرف سے زکوۃ تھی۔ لیکن پھر میری ملکیت میں آ گیا اور میں نے دعوت کی، اب میری طرف سے یہ ہدیہ ہے۔ یہ آپ کے لئے جائز ہے، کیونکہ یہ آپ کے مال سے نہیں میرے مال سے ہے۔
الغرض انسان کو طمع چھوڑنا چاہیے۔ بغیر طمع کے اللہ پاک زیادہ دیتے ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اس میں عزت نفس کا بھی بڑا مسئلہ ہے۔ انسان جب کسی سے طمع کرتا ہے تو بعض لوگ ہوشیار ہوتے ہیں، ان کو پتا چل جاتا ہے کہ اس کے دل میں طمع آ گئی ہے۔ ان کی نظروں سے اس طمع کرنے والے کی عزت چلی جاتی ہے۔ عزت نفس بڑی اونچی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت ہے۔ اس کو ضائع تو نہیں کرنا چاہیے۔ لہٰذا خلاصہ یہ ہوا کہ اس کا تعلق تینوں کے ساتھ ہے۔ عقل سے بھی ہے، دل سے بھی ہے اور نفس سےبھی ہے۔ اور اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ تینوں کی اصلاح ہو جائے۔ مکمل اور اصل علاج تو یہی ہے کہ قلب، نفس اور عقل تینوں کی اصلاح ہو جائے۔ لیکن جب تک تینوں کی اصلاح نہیں ہوتی تب تک عقل کو استعمال کرنا چاہیے۔
الحمد للہ چند دن پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ بات کھولی کہ دعوتِ عام اس چیز کی ہوتی ہے جو سب لوگ کر سکتے ہیں اور قرآن میں دعوتِ عام عقل سے غور کرنے کی دی گئی ہے۔ کیونکہ یہ سب لوگ کر سکتے ہیں ۔ نفس اور دل کی اصلاح میں کچھ وقت لگتا ہے۔ لیکن عقل سے کسی بھی حالت میں فوری طور پر کام لیا جا سکتا ہے۔ عقل انسان کو سمجھا دیتی ہے۔ کم از کم وقتی طور پر مسائل سے بچا جا سکتاہے۔ اگرچہ تقاضا موجود رہتا ہے۔ کیونکہ تقاضا تب ختم ہو گا جب نفس کی اصلاح ہو گی۔ عقل کے ذریعے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ تقاضا بے شک موجود ہو لیکن آدمی عمل نہیں کرتا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔