Majlis_442
Date: 20191125
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔
سوال نمبر 01:
السلام علیکم حضرت جی!
Since I do ذکر in the car so it is a bit difficult to concentrate on ذکر of heart. I sometimes feel heat or beating on لطیفۂ قلب area. In the beginning when I would do this ذکر, I used to feel it more when I was alone but now I feel it very less. The situation of my ذکر other than that I generally feel on easiness when people are around and I am generally happy when alone. My focus has improved a lot الحمد للہ. My five minutes of مراقبہ of لطیفۂ قلب is complete الحمد للہ. Waiting for your further instructions please حضرت جی جزاک اللہ.
جواب:
در اصل ذکر دو قسم کے ہیں، ذکر ثوابی اور ذکر علاجی۔ ثوابی ذکر وہ ہوتا ہے جو آپ ثواب کی نیت سے کرتے ہیں، اس قسم کے ذکر کے لیے کسی سے پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ قرآن و حدیث میں جن اذکار کی فضیلتیں آئی ہیں ان کو دیکھ کر انسان کر سکتا ہے provided کہ کسی اور ضروری کام میں حرج نہ ہو، اور اگر کوئی حرج ہو تو وہ علیحدہ بات ہے، جیسے اگر آپ کار میں بیٹھے چلتے چلتے بھی کر لیں تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ذکر علاجی کے لیے شرط یہ ہے کہ آپ یکسوئی کے ساتھ کریں، اور یکسوئی کے تمام اسباب اختیار کریں۔ مثلاً قبلہ رخ بیٹھ جائیں، بہتر ہے کہ تنہا بیٹھیں، با وضو بیٹھیں اور آنکھیں بند کر لیں، اس اندز سے جو ذکر آپ کریں گے اس میں زیادہ یکسوئی ہو گی، وہ آپ کے دل پر زیادہ اثر کرے گا، یہ شرائط مبتدی کے لیے ضروری ہیں، منتہی کے لیے یہ شرائط نہیں ہیں وہ اپنے آپ کے متعلق خود ہی جانتا ہوتا ہے کہ کس وقت مجھے ذکر کیسے کرنا چاہیے، لہٰذا مبتدی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ذکر یکسوئی کے ساتھ کرے۔ لہذا کار میں بیٹھ کر اگر آپ علاجی ذکر کر رہے ہیں تو یہ آپ صحیح نہیں کر رہے، علاجی ذکر ہمیشہ یکسوئی کے ساتھ کریں، یکسوئی کے تمام اسباب اختیار کریں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے، تب آپ کو فائدہ ہو گا ورنہ اس سے آپ کو زیادہ فائدہ نہیں ہو گا، لہذا آئندہ ذکرِ علاجی کے لیے اس چیز کا خیال رکھیں۔ البتہ مراقبہ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ زبان سے آپ نہ پڑھیں بلکہ آپ کا دل بول رہا ہو۔
اور لوگوں سے زیادہ نہ ملنے کی خواہش رکھنا، یہ اچھی بات ہے،کوئی بری بات نہیں ہے بشرطیکہ یہ بیماری نہ ہو یعنی depression کی وجہ سے نہ ہو۔
نماز کو صحیح طریقے سے پڑھنے کے لیے نماز کو سیکھنا چاہیے، اور اس کی practice بھی کرنی چاہیے، practice سے مراد یہ ہے کہ نماز سے 5 منٹ پہلے سوچیں کہ میں نے نماز پڑھنی ہے یوں اس کے لیے ذہن بنائیں۔ الله جل شانهٗ ہم سب کو صحیح طریقے سے دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر 02:
ہم دونوں نے چند مجاہدے کیے تھے غض بصر کا، کھانے کی پسند اور نا پسند چیزوں کا، وہ کام جو میں پہلے نہیں کر سکتی تھی اب کروں گی۔ اور آپ نے ایک مجاہدہ اور بھی بتایا تھا کم بولنے کا۔
جواب:
اب آپ کا مجاہدہ یہ ہے کہ جس قسم کے کپڑے آپ کو زیادہ پسند ہوں وہ کم از کم تین مہینے آپ نہ پہنیں۔ اور آپ کی سہیلی کے لیے وہی آخری مجاہدہ ہے جو میں نے بتایا۔
اور آپ کی سہیلی نے آخری مجاہدہ نہیں کیا تو اس کو کہہ دیں کہ وہ مجاہدہ کر لے۔
سوال نمبر 03:
السلام علیکم سیدی مرشدی حضرت جی دامت برکاتہم الحمد للہ! آپ کی برکت سے میں نے اپنے قضا روزے مکمل کر لیے ہیں، اعمال کرنے میں میرا نفس بہت زیادہ کاہل ہے۔
اور معمولات کے chart کے بہت سے photostate بنوا کر رکھ لیے ہیں، ہر مہینے سوچتی ہوں کہ اس بار ضرور نشان لگاؤں گی، لیکن ہر بار سستی کرتی ہوں۔
جواب:
قضا روزے مکمل کرنے پر مبارک ہو۔
آپ نے نفس کی کاہلی کی شکایت کی ہے تو یہ کس کے ساتھ نہیں ہے؟ نفس تو ہمیشہ سستی کرتا ہے لیکن سستی پہ قابو پانا انسان سالک کا کام ہے۔
سستی کا علاج چستی ہے اس میں سستی نہ کیا کریں اور باقاعدگی کے ساتھ معمولات کا چارٹ پر کر کے بھیج دیا کریں۔
سوال نمبر 04:
ایک خاتون نے سوال کیا ہے کہ سوال و جواب کی مجلس میں اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے ایک سوال کیا تھا کہ دن بھر کے بہت سارے شعبے ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے تو ہم کیسے کریں اور کہاں سے شروع کریں۔
جواب:
در اصل ہمارا طریقہ یہی ہے کہ پہلے رذائل کی اصلاح ہو، لہذا رذائل کی list اگر آپ بھیج دیتی ہیں تو آپ کو بتا دیا جائے گا کہ یہ یہ عمل کر لیں، باری باری سب کو کرنا ہوتا ہے تاکہ سب رذائل دور ہو جائیں جب رذائل دور ہو جائیں گے تو فضائل خود بخود حاصل ہو جائیں گے۔
سوال نمبر 05:
السلام علیکم! حضرت teaching کے دوران بعض اوقات میں topic سے ہٹ کر ہوائے نفس کے مطابق بولنے لگتا ہوں گویا زبان پر میرا control نہیں ہے اور میری آنکھ بے جا ادھر ادھر دیکھنے کی عادی ہے، کوئی علاج بتا کر مجھے ان دونوں کے شر سے بچا دیں۔
جواب:
اپنے topic سے تو بالکل نہیں نکلنا چاہیے، کیونکہ سکول میں وقت آپ کے پاس امانت ہوتا ہے اور امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیے۔، لہٰذا اپنے topic کے مطابق ہی بولیں، البتہ 5، 10 منٹ اگر آپ اصلاح کی نیت سے کوئی ایسی بات بتا دیں تو وہ ٹھیک ہے، ایسے موقعے پہ کہ جب اپنے subject میں خشکی آ گئی ہو تو یہ گفتگو اس کو ذرا normalize کرنے کا کام بھی دے گی اور ان کو کچھ فائدہ بھی ہو جائے گا لیکن بلا وجہ اپنے topic سے ہٹ کے بولنا نہیں چاہیے اور ادھر ادھر دیکھنے کا عمل تو بالکل ہی نہیں کرنا چاہیے، اس کے لیے اگر آپ نے مجاہدہ نہیں کیا ہے تو آنکھ کی حفاظت کا مجاہدہ کر لیں۔
سوال نمبر 06:
السلام علیکم! ان شاء اللہ ہماری مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کو روانگی ہے آپ سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاضری کو قبول فرمائیں اور یہاں کے فیوض و برکات سے نوازیں، ہم نے یہاں نفس کو پابند کیا ہے کہ زیادہ باتیں نہیں کرنی، بد نظری یا بازار جانے پر اپنے اوپر پابندی لگائی ہے۔ الحمد للہ جو معمولات دئیے گیے ہیں ان سب کو پورا کرتی ہوں چاہے سفر میں کیوں نہ ہوں۔ اللہ مجھے استقامت نصیب فرمائے۔ اس بات سے ڈر لگ رہا ہے کہ واپسی کے بعد حالات کے مطابق جب دوبارہ سب لوگوں سے واسطہ پڑے گا اور نفس کو بھی دبانا پڑے گا تو مجھے اپنے آپ میں تبدیلی نہیں لگ رہی۔
جواب:
اس بات کا خیال ہونا کہ میرے اندر تبدیلی نہیں آئی ہے یہ خوش آئند ہے، کیونکہ جب انسان کی اپنے اوپر تنقیدی نگاہ ہوتی ہے تو improvement ہوتی ہے لہذا اپنے اوپر تنقیدی نگاہ رکھنی چاہیے البتہ مایوس نہیں ہونا چاہیے، ہمت کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔ اور نیت کر لیں کہ میں وہاں پر بھی ایسے ہی رہوں گی، اور یہ سوچیں کہ میں نے یہاں صرف طریقہ سیکھا ہے اصل apply تو وہیں پر کرنا ہے۔
سوال نمبر 07:
عبادت کی انتہا کیا ہے اور حدیث جبرئیل کا مفہوم کیا ہے؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ایمان، اسلام اور احسان کے متعلق جو تین سوالات کیے تھے ان کی تشریح کریں۔
جواب:
میرے خیال میں آپ ہماری کتاب "فہم التصوف" net سے download کر کے اس کو پہلے پڑھ لیں، اس میں آپ کو کچھ سوالات کے جوابات مل جائیں گے اگر اس میں آپ کو کچھ سوالات کے جوابات نہ ملیں تو وہ آپ پوچھ لیجئے گا، ورنہ یہ سارے chapters ہیں جن کو detail سے بیان کرنے میں باقی لوگوں کا بھی کافی وقت صرف ہو جائے گا، لہٰذا آپ اس کو specify کر لیں اور پہلے آپ اس کتاب کو پڑھ لیں اور اس میں سے جو آپ کو سمجھ نہ آئے تو آپ مجھے بتا دیجئے گا۔ ان شاء اللہ اس میں آپ کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ ویسے (FAQs) یعنی frequently asked questions کا آپشن بھی ہماری website پر موجود ہے اس کو بھی آپ پڑھ لیں، ان شاء اللہ العزیز آپ چلنا شروع کر لیں گی، اس کے بعد آپ کے جو specific سوالات ہوں گے، general نہیں ہوں گے، ان شاء اللہ ضرور ان کے جوابات دیں گے۔
لہذا پہلے اپنا مطالعہ ذرا بہتر کر لیں اور میں نے آپ کو جو دو کتابیں بتائی ہیں "فہم التصوف" اور "تصوف کا خلاصہ" یہ دونوں net پر ہماری ویب سائٹ tazkia.org پہ آپ کو ان شاء اللہ اردو section میں مل جائیں گی۔
سوال نمبر 08:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت کیا اپنے شیخ کے ہم مشرب بزرگوں کے بیانات یا ان کی کتابوں کا مطالعہ اپنے شیخ کو اطلاع کیے بغیر کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے مناجات مقبول کی دعاؤں کی تشریح کی ہے تو ان میں سے ایک بیان میں نے سن لیا پھر مجھے خیال آیا کہ کہیں اس سے توحیدِ مطلب میں فرق نہ آ جائے۔ آپ سے اس بارے میں پوچھ لیا۔
جواب:
ماشاء اللہ! حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب ہمارے بڑے ہیں اور علماء میں ہیں، مشائخ میں سے بھی ہیں، اگرچہ ہم اپنے شیخ کے علاوہ کسی اور سے تربیت حاصل نہیں کرتے کیونکہ اس سے توحیدِ مطلب پر فرق پڑتا ہے لیکن جہاں تک علمی باتیں ہیں تو وہ کئی علماء سے انسان سیکھ سکتا ہے جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے استاتذہ چار ہزار کے برابر بتائے جاتے ہیں لیکن ان کے شیخ ایک تھے۔ لہذا تربیت میں آپ اپنے شیخ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں البتہ مطالعہ آپ کتابوں کا بھی کر سکتے ہیں، بشرطیکہ غلط نہ ہوں اور دوسری بات یہ ہے کہ غلط لوگوں کی کتابیں نہ پڑھیں لیکن جو صحیح علماء ہیں جیسے مولانا تقی عثمانی صاحب کا آپ نے ذکر کیا تو ایسے حضرات کی کتابیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال نمبر 09:
یا سیدی و مرشدی دامت برکاتہم!
With your دعا since I have changed my Jubbas to no collars and put slits in the bottom of the Jubbas, I am now beginning to feel more closeness to اللہ. It is a very عجیب feeling as now I want to practice even more sunnah of رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم since alteration in the Jubba. Even my عمامہ style has changed to a more flat and less pointed appearance with your توجہات and دعا
یا مرشدی.
جواب:
اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے سنت طریقے کو اپنانا شروع کر دیا ہے، یہ بہت بڑی بات ہے اور سنت طریقوں کی برکات بے شمار ہیں اور اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا قرب اور اللہ تعالیٰ کا تعلق تو نصیب ہوتا ہی ہے لیکن ویسے بھی ان کے انوارات کی برکت سے دل پر بھی اطمینان کی لہر آ جاتی ہے۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم! حضرت جی اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے، عرض کرنا تھا کہ آپ کی برکت سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف دھیان ہے جس کا رخ اوپر کی طرف محسوس ہوتا ہے آنکھیں بند کیے بغیر ادھر سے دھیان بھی محسوس ہوتا ہے اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی دھیان رہتا ہے، آنکھ بند کیے بغیر دھیان محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
الله جل شانهٗ مزید نصیب فرمائے، اللہ پاک اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توجہ بڑی دولت ہے اللہ تعالیٰ مزید ترقی نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم حضرت صاحب! میں کویت سے فلاں بول رہا ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ حضرت صاحب کیا لذیذ کھانا بھی نفس کی تابعداری ہے اور اگر دن میں تین دفعہ کھانے کے بجائے دو دفعہ کھائیں تو کنجوسی تو نہیں ہو گی اور اس سے نفس پر کیا اثر ہو گا؟ رہنمائی فرمائیے۔
جواب:
لذیذ کھانا کھانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اللہ کے شکر کا ذریعہ ہے، البتہ دو باتیں بہت اہم ہیں، ایک یہ کہ انسان کھانے میں کوئی بد پرہیزی نہ کرے یعنی صحت کے لیے نقصان دہ کوئی چیز نہ کھائے، مثلاً مٹھائی لوگوں کو پسند ہوتی ہے لیکن اس سے صحت کو نقصان ہوتا ہے، Pepsi-Cola اور Coca-Cola لوگوں کو پسند ہیں، لیکن یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ تو ایسی نقصان دہ چیزیں بالکل استعمال نہ کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ چیز حرام نہ ہو، یعنی اس چیز کو کسی حلال طریقے سے حاصل کیا گیا ہو، سوال کے ذریعے سے حاصل نہ کی ہو، اشراف نفس کے ذریعہ سے نہ ہو، تو یہ بالکل ٹھیک ہے، اور تیسری بات یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے نفس موٹا نہ ہو یعنی انسان نفس کی زیادہ تابعداری نہ کرنے لگے۔ کیونکہ جب انسان نفس کی بات زیادہ مانتے لگتا ہے تو اس سے اس کی demands بڑھتی جاتی ہیں، ایسے لوگوں کے لیے حضرات ارشاد فرماتے ہیں کہ نفس کو وہ چیز فوراً نہ دیں بلکہ تامل کر کے دیں کہ اچھا دے دوں گا، پھر بعد میں دے دیں، بہر حال فوراً اس کی خواہش کو پورا نہ کریں۔ اور تین دفعہ کھانے کے بجائے دو دفعہ کھانے میں اگر صحت کا مسئلہ پیش نظر ہو، یا مجاہدہ مقصود ہو تو وہ کنجوسی نہیں ہے۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم حضرت جی! اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں حضرت جی میرے ذکر کی ترتیب یہ ہے 200 بار "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ" 400 بار "اِلَّا اللہ" 600 بار "اَللہُ اللہ" 1000 بار زبان سے خفی طور پر "اَللہ" 10 منٹ لطیفۂ قلب پر "اَللہ" اور 10 منٹ لطیفۂ روح پر "اَللہ" اور 15 منٹ لطیفۂ سر پر۔ الحمد للہ کیفیات لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح دونوں میں محسوس ہوتی ہیں اور لطیفۂ سر پر کبھی محسوس ہوتی ہیں کبھی نہیں، اور کبھی محسوس ہوں بھی تو زیادہ دیر نہیں رہتیں۔ اس ذکر کو آج ایک مہینہ ہو گیا ہے۔ آپ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
فی الحال آپ اسی کو جاری رکھیں تاکہ لطیفۂ سر بھی زیادہ محسوس ہونے لگے۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم حضرت ! میں فلاں کی والدہ ہوں مراقبات اور معمولات جاری ہیں، میں نے تقریباً پچھلے ہفتے ڈیڑھ سے اشراق کی نماز شروع کی ہے اور الحمد للہ سہولت کے ساتھ پڑھ لیتی ہوں، کیا میں اشراق کی نماز کو اپنے معمولات میں شامل کر لوں؟ لاہور والی مربیہ صاحبہ نے فلانے کو message کیا تھا کہ دو دو لاکھ بار درود شریف پڑھ لیں الحمد للہ اس کی توفیق ہو رہی ہے اور مجھے تو اندازہ بھی نہیں تھا کہ میں اتنا زیادہ پڑھ لوں گی الحمد للہ، اللہ پاک نے ہمت دے دی، میں چاہتی ہوں کہ فارغ وقت میں کوئی اسلامی کتاب پڑھ لوں لیکن مشکل باتیں اور نام میرے ذہن میں نہیں بیٹھتے، البتہ واقعات یاد رہ جاتے ہیں، کیا میرے لیے کوئی کتاب پڑھنا مناسب ہے یا فرصت میں درود شریف ہی پڑھا کروں؟۔
جواب:
ماشاء اللہ! بہت اچھی بات ہے آپ اشراق کی نماز کو اپنے معمولات میں شامل کر سکتی ہیں اور جو دو دو لاکھ مرتبہ درود شریف کا بتایا ہے اللہ تعالیٰ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ تو ایک عادت بنانے والی بات ہے تو اس عادت سے آپ آئندہ کام لیں اور درود شریف پڑھتی رہیں اور اسلامی کتب کے مطالعے کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے تو "اسوۂ رسول اکرم" اور "نشر الطیب فی ذکر الحبیب" سیرت کی کتابیں ہیں، انہیں آپ پڑھنا شروع کر دیں، ان شاء اللہ ان سے آپ کو زیادہ فائدہ ہو گا۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم حضرت جی! آپ کی طرف سے مراقبہ تنزیہ و صفات سلبیہ تعلیم ہوئے چار مہینے سے کچھ کم و بیش وقت ہو گیا اللہ پاک جن چیزوں سے پاک ہے مثلاً کھانا پینا، سونا وغیرہ مراقبہ میں ان باتوں کو سوچتا رہتا ہوں، ابھی کچھ دنوں سے حالت ایسی ہے کہ دل کی دنیا سے ایک چیز بھی ضائع نہ ہو یا کمی نہ ہو کیونکہ اس سے پھر نقصان کا بھی خطرہ ہو جاتا ہے۔ گناہوں سے بچنے کا مجاہدہ ملا ہے الحمد للہ اس سے بہت فائدہ ہوا ہے، کسی گناہ کا خیال آنے کے ساتھ یہ خیال بھی آ جاتا ہے کہ گناہ سے بچنے کا مجاہدہ ملا ہوا ہے، میں کیسے گناہ کی طرف جا سکتا ہوں، اللہ پاک دیکھ رہا ہے، اگر گناہ کا لطف بھی آتا ہے تو مشکل بھی ہوتی ہے، الحمد للہ بچنا بھی نصیب ہو جاتا ہے۔
جواب:
اللہ تعالیٰ مزید توفیقات نصیب فرمائے۔ اب اس کے بعد شانِ جامع کا لطیفہ آپ شامل کر لیجئے گا۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم !
I have done previous ذکر for a month. حَق five hundred اللہ five hundred and حَق اللہ one thousand times. I live alone now and I am facing the problem of overeating. Earlier, I never had such epitie but I feel I am eating more than enough. I will try to control it.
جواب:
For the time being you can continue your ذکر as it is but control your eating. So take it half, for example; if you are taking three breads, so now take one and a half. So with this ان شاء اللہ, it will be controlled. Try to do it for one month and then tell me.
سوال نمبر 16:
السلام علیکم حضرت جی!
I hope you are doing good. May اللہ سبحانہ و تعالیٰ shower his unending blessings upon you آمین!
حضرت جی I have recited 2.5 lacks times درود پاک
الحمد للہ. Remember me in your prayers.
جواب:
May اللہ سبحانہ و تعالیٰ accept your effort in this regard and grant you as much as possible اجر for it.
سوال نمبر 17:
بچہ یا بچی کا ستر کب سے صحیح طور پر ڈھکا جائے مثلاً کسی کے سامنے pamper بدلوانا یا کپڑوں میں ٹانگیں بازو scarf دلانا وغیرہ۔
جواب:
جیسے ہی بچہ ان چیزوں کو جاننے لگے تو اس وقت یہ ضروری ہو جاتا ہے اور ایسے بچے جو سمجھ دار ہوں ان کے سامنے تو بالکل یہ ضروری ہو جاتا ہے، البتہ پہلے ہی سے تھوڑا سا اس کے بارے میں احتیاط شروع کر لینا بہتر ہے۔ کیونکہ سمجھ داری کا پتہ بہت کم چلتا ہے آہستہ آہستہ پتہ چلتا ہے، بعض دفعہ انسان سمجھتا ہے کہ یہ ابھی سمجھ دار نہیں ہیں، جب کہ آج کل بچے جلدی سمجھ دار ہو جاتے ہیں، اس لیے کوشش کریں کہ ابتدا ہی سے ان باتوں میں احتیاط کی جائے اور دوسرے بچوں کے سامنے ننگا پھرنا یا کپڑے اتروانا مناسب نہیں ہے، یہ کام toilet اور باتھ روم وغیرہ میں ہی کر لیا کریں۔
سوال نمبر 18:
ایک قدرتی عمل ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بیٹا بیٹی میں محبت کا فرق آ جاتا ہے تو کبھی اگر بیٹے سے ماں باپ یا کوئی اور زیادہ محبت کا اظہار کرے تو صحیح ہے یا غلط؟ صرف دل کی بات نہیں عملی رویہ بھی۔ عرف عام میں بیٹے کو زیادہ اہمیت ملتی ہے۔
جواب:
یہ واقعی ایک بہت اہم issue ہے، اس پر انسان کو غور کرنا چاہیے، کیونکہ یہ بات خدا نخواستہ بعض دفعہ بچوں میں نفرت پیدا ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے اس سے آپس میں منافرت پیدا ہو جاتی ہے، کئی گھر اس کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں، لہٰذا کم از کم ظاہری اعتبار سے اس معاملے میں برابری ہونی چاہیے جو کہ ایک اختیاری چیز ہے۔ اور غیر اختیاری میں چونکہ دل کا معاملہ ہے اور اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دل پر کسی کا control نہیں ہے، تاہم ظاہری برتاؤ سب کے ساتھ ایک جیسا کرنا چاہیے۔
سوال نمبر 19:
بچے جب بولنا شروع کریں تو سب سے پہلے اس کو کیا سکھایا جائے؟ اس کو بولنا سکھا دیا اس کے بعد کیا سکھائیں؟ اللہ بولنا سکھا دیا ہے اس کے بعد کیا سکھائیں؟۔
جواب:
ماشاء اللہ! اچھی بات ہے، جب وہ اللہ پاک کا نام سیکھ لے تو اس کے بعد اس کو کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سکھائیں، اور اس کے بعد کوئی اچھی چیز لیتے وقت اسے سبحان اللہ کہنا سکھا دیا جائے۔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے کلمات آہستہ آہستہ سکھانا شروع کر دیں۔
سوال نمبر 20:
بچے کو ارد گرد بڑے معاشرے سے مرعوب نہ ہونا کیسے سکھایا جائے؟ جیسے انگریزی بولنا، بے پردہ پھرنا، ٹی وی نہ رکھنا، وغیرہ۔
جواب:
سب سے پہلے تو ان چیزوں سے انسان خود مرعوب نہ ہو۔ بلا وجہ انگریزی نہ بولے، اور ٹی وی وغیرہ بچوں کے سامنے کم از کم نہ دیکھے، یہ ایک عملی ترتیب ہے۔ البتہ اس کی تعلیمی ترتیب یہ ہے کہ ان کے سامنے اس قسم کے تذکرے نہ ہوں جس سے ان کے نقصانات سامنے آئیں، اور اچھے لوگوں کے واقعات بیان کریں کہ وہ یہ کام نہیں کرتے تھے، اس سے آہستہ آہستہ ان میں اثر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر 21:
بچوں کو دیور، جیٹھ، بہن، بھائیوں کے بچوں سے کتنا گھلنا ملنا ہو؟ کتنی عمر سے محرم نا محرم رشتوں کا بتایا جائے؟ چچا، تایا کے کمروں میں کتنا جانے دیا جائے؟
جواب:
یہ چونکہ بہت ہی variable قسم کی بات ہے ہر گھر کے حالات مختلف ہوتے ہیں لہٰذا اس کے بارے میں کوئی straight line گزارنا بڑا مشکل ہے، البتہ جہاں پر آپ کو نظر آئے کہ اس سے نقصان ہونے لگا ہے تو اس وقت روک دیا جائے، یعنی کم از کم تنقیدی نظر برقرار رکھیں اور جس وقت نقصان نظر آئے تو غیر محسوس طریقے سے ان کو دور کر دیا جائے۔
سوال نمبر 22:
بچیوں کو اپنے محرم رشتہ داروں کے پاس کتنا جانے دینا چاہیے ان کے ساتھ سونا درست ہے یا نہیں یا گھر میں اکیلے محرم مرد کے ساتھ چھوڑنا مناسب ہے یا نہیں ہے؟
جواب:
کم از کم بڑی بچیوں کو تو اس طرح نہیں چھوڑنا چاہیے، اپنے ساتھ ہی رکھا جائے اور اپنی موجودگی میں اگر کسی کے پاس جانے دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، بصورت دیگر آج کل کے حالات کے پیش نظر اس سے حفاظت ضروری ہے۔
سوال نمبر 23:
اگر دیورانی جیٹھانی سے تعلقات اچھے نہ ہوں تو کیا اپنے بچوں کے لیے یہ وہم کرنا صحیح ہے کہ وہ بچوں کو کوئی نقصان دہ چیز نہ کھلا دے، کیونکہ ٹی وی پہ آج کل واقعات اتنے دکھائے جاتے ہیں، کہیں یہ بد گمانی میں تو نہیں آ جاتا۔
جواب:
یہ بد گمانی کی بات نہیں ہے، در اصل بد گمانی اور حفاظت دو الگ الگ چیزیں ہیں، مثال کے طور پر اگر کہیں کوئی چیز پڑی ہو تو میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ زہر ہے، اور نہ ہی میں اس کو زہر سمجھوں گا کیونکہ اس کے لیے تو مجھے یقین چاہیے۔ لیکن اگر زہر کا شک کر کے میں اس کو نہ کھاؤں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس طرح کرنا درست عمل ہے، اور بد گمانی نہیں ہے بلکہ یہ اپنے آپ کو بچانا ہوا۔
سوال نمبر 24:
آپ کو اندازہ ہو گا کہ انگریزی زبان ہمارے معاشرے میں بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ زبان کی حد تک تو ہم انگریزی سیکھنا چاہتے ہیں مگر سمجھ نہیں آتا کہ وہ کونسا انداز ہو گا اور کونسی margin line ہو گی جس سے بچے کو زبان تو آ جائے مگر انگریزی کی مرعوبیت نہ آئے۔
جواب:
بڑا اچھا سوال ہے، اصل میں اگر زبان کو زبان کی حد تک رکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً آپ اس کو زبان سکھائیں اور چاہے وہ زبان بولے بھی لیکن دوسری کسی زبان کو سیکھتے وقت یہ بات اچھی طرح سمجھا دی جائے کہ ہمارے لیے سب سے اہم اور سب سے پہلے عربی زبان ہے کیونکہ اس میں قرآن ہے اور اس میں حدیث ہے، لہذا اس کی بڑائی ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی جائے مختلف طریقوں سے۔ اور دوسری بات یہ سمجھائی جائے کہ عربی زبان میں اسلامی literature سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد باقی ساری زبانیں برابر ہیں، البتہ اپنی مادری زبان سے کسی کو محروم نہ رکھا جائے۔ ہمارے پنجابی بھائیوں میں یہ بڑی خرابی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو پنجابی نہیں سکھاتے، یہ ظلم ہے اور یہ طرز عمل ٹھیک نہیں ہے۔ انہیں اپنے بچوں کو پنجابی سکھانی چاہیے کیونکہ زبان کی حد تک یہ ضروری ہے۔ اور یہی مرعوبیت ہے کہ اپنی زبان کو کم تر سمجھا جائے۔ جب آپ خود اپنی زبان کو کم سمجھتی ہوں گی تو یقیناً دوسرے بھی اس کو کم سمجھیں گے۔ لہذا آپ اپنی مادری زبان ان کو سکھائیں، عربی اور اسلامی زبانوں کی اہمیت ان کے ذہن میں بٹھائیں اور باقی زبانیں بضرورت ہوں یعنی جس زبان کی بھی ضرورت ہو وہ ضرورت کے بقدر سیکھ لی جائے۔ جیسے ہمارے ہاں سائنس کے لیے انگریزی زبان کی ضرورت ہے لہذا سائنس کے لیے انگریزی زبان کو سیکھنا چاہیے، کیونکہ ہماری سائنس کی بہت ساری کتابیں انگریزی میں ہی ہیں، چنانچہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ ضرور بتا دیا جائے کہ چونکہ یہ کتابیں جن لوگوں نے لکھی ہیں ان کے دل کا اثر پڑھنے والے کے دل پر ہو جاتا ہے لہٰذا اگر کوئی سائنس کی کتابیں بھی پڑھے تو "لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ" کی کثرت کرکے اس effect کو دور کرنے کی کوشش کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
سوال نمبر 25:
چھوٹے بچے کے بارے میں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کی ساری ضرورتیں پوری کریں پھر اس کے بعد بھی بچہ روتا ہے تو اسے رونے دیں چاہے دو گھنٹے ہی کیوں نہ روئے ان لوگوں کی رائے ہے کہ بچے بلا وجہ ماں کی توجہ کے عادی ہو جاتے ہیں۔ جب کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ بچہ چوں بھی کرے تو اسے گود میں اٹھا لو یعنی بچے کو بالکل رونے نہ دو یعنی بچہ کو ماں کی مکمل توجہ ملے۔ اب بچے کی تربیت کے لیے کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ بچہ پہلا ہو اور ماں گھر میں اکیلی ہوتی ہے یا ماں کے اور بچے بھی ہیں اور وہ joint family میں رہتی ہو۔
جواب:
جیسا آپ نے بہت سی آراء ذکر کی ہیں، میری بھی ایک رائے ہے ضروری نہیں ہے کہ اس سے اتفاق کریں، تو میری رائے یہ ہے کہ واقعی بچوں کو یہ نہیں سکھانا چاہیے کہ میں روؤں گا تو میرا کام ہو گا، کیونکہ اس کے تصور میں جب یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ رونے سے ہی میرا کام بنے گا تو اس کو رونے کی عادت پڑ جاتی ہے اور وہ رونے سے ہی سارا کام چلائے گا لہذا اس کو خود اپنی مرضی سے دو اور رونے کی صورت میں نہ دو تاکہ وہ اس کو اپنے ذہن میں اصول نہ بنائے۔ بہرحال یہ میری ایک رائے ہے اس پر بعض لوگ عمل بھی کرتے ہیں اور ان کو فائدہ بھی نظر آتا ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ آپ اس رائے پہ عمل کریں۔
سوال نمبر 26:
ایسے ماں باپ جو اپنے بچوں کی دینی تربیت کرنا چاہتے ہوں لیکن عصری تعلیم سے بھی بالکل بیگانہ نہ رکھنا چاہتے ہوں وہ کیا طریقہ کار اختیار کریں جس سے کم از کم 10 سے پندرہ سال کے مروج تعلیمی نظام میں ڈال کر اس کے مضر اثرات سے بچ سکے اور کیا ایسا ہونا ممکن بھی ہے؟
جواب:
ممکن تو یقیناً ہے کوئی کام نا ممکن نہیں ہے کیونکہ اسلام میں نا ممکن کام کا مکلف نہیں بنایا جاتا۔ ﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286) لہذا ممکن تو یقیناً ہے۔ البتہ اس کو due importance دینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر اس پر negative load پڑ رہا ہے تو اس کے مطابق positive load بھی ان کو مل رہا ہو۔ اور یہ کمی صحبت صالحین کے ذریعے سے پوری کی جا سکتی ہے کہ اگر secular تعلیم کی وجہ سے اس کے secular نظریات بن رہے ہوں تو ایسی صحبت صالحین اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی دینی بنیاد مضبوط ہو تاکہ اس پر secular تعلیم کا منفی اثر نہ کرے۔
ہم پشاور یونیورسٹی میں اگرچہ اسلامیہ کالج میں داخل ہوئے تھے لیکن الحمد للہ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آنے جانے سے وہ چیزیں نہ ہوئیں جن کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے، مثلاً احساس کمتری حضرت کی برکت سے ہمارے اندر پیدا نہیں ہوئی جس کی وجہ سے انسان بہت مسخ ہو جاتا ہے۔ ہم جو کچھ بھی کرتے، اپنی سوچ و فکر سے کرتے تھے، کسی کے fashion کی وجہ سے کسی سے مرعوب ہو کر نہیں کرتے تھے بلکہ وہی کرتے تھے جس کو ہم مناسب سمجھتے تھے۔
سوال نمبر 27:
قرآن پاک میں ہے کہ تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور تمام درخت کی قلمیں بنا لیں تو اللہ تعالیٰ کی تعریف مکمل نہیں ہو سکتی، اس وصف کو کچھ محفلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر دیتے ہیں شریعت کی روشنی میں ایسا کرنا کیسا عمل ہے؟۔ ہر طرح دل ڈانٹتا ہے کہ کہیں بے ادبی اور گستاخی نہ ہو۔
جواب:
یہ بات تو یقینی ہے الله جل شانهٗ نے خود فرمایا ہے قرآن پاک میں کہ تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور تمام درخت قلمیں اور اسی طرح اور بھی ہو جائیں پھر بھی اللہ تعالیٰ کی تعریف مکمل نہیں ہو سکتی۔ اس میں بھی یہی نکتہ ہے کہ بہت ساری باتیں تو ہم جانتے ہی نہیں تو ہم کیسے لکھیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہمارے شیخ نے جو بات کی ہے میرے خیال میں کم از کم وہ سمجھ میں آ سکتی ہے تو اسی پر اس کو محمول کر لیا جائے۔ حضرت نے فرمایا "ولی را ولی مے شناسد"۔ یعنی ولی ولی کو جانتا ہے کیونکہ وہ برابر کے ہوتے ہیں۔ "نبی را نبی مے شناسد" نبی کو نبی جانتا ہے کیونکہ دونوں نبی ہوتے ہیں، لہذا وہ ایک دوسرے کو جان سکتے ہے۔ "خاتم النبیین را خدا مے شناسد"۔ چونکہ خاتم النبیین ایک ہی ذات ہے اور کوئی خاتم النبیین نہیں ہے لہٰذا ان کو اللہ کے علاوہ کوئی اور نہیں جان سکتا۔ چنانچہ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ بس اس کو کافی سمجھیں۔ ایک شعر ہے جس میں میرے خیال میں یہ بات آ جاتی ہے:
یَا صَاحِبَ الْجَمَالِ وَ یَا سَیِّدَ الْبَشَر
مِنْ وَّجْھِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَر
لَا یُمْکِنُ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقُّہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
ترجمہ:
اے صاحب الجمال اور انسانوں کے سردار
آپ کے رخِ انور سے چاند چمک اٹھا
آپ ﷺ کی ثنا کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں
قصہ مختصر یہ کہ خدا کے بعد آپ ہی بزرگ تر ہیں۔
میرے خیال میں اس میں ساری باتیں آ گئیں، لہذا اس معاملے میں confuse ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال نمبر 28:
نکاح کے وقت میٹھا تقسیم کرنے کا کونسی حدیث سے ثابت ہے حوالہ کے ساتھ بتائیں۔
جواب:
نکاح کے وقت چھوارے پھینکنا سنت ہے۔
فتاویٰ دیوبند میں درج ہے کہ کسی نے سوال پوچھا ہے۔
مسجد میں نکاح کے بعد کچھ لوگ چھوارے اچھالتے ہیں جس سے وہ لوگوں کے پیروں میں آتے ہیں اور کچھ لوگ اٹھا لیتے ہیں کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟ کیا چھوارے بانٹنے چاہئیں لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح سے چھوارے اچھال کر دینا سنت ہے۔ نکاح کے بعد اس طرح سے اچھال دینا کیا حقیقت میں یہ طریقہ سنت ہے۔ اس معاملے میں ہمارا رہنمائی فرمائیں۔
جواب: بعض ضعیف روایات کی بنا پر لٹا دینا یا اچھال کر بکھیر دینا مستحب ہے تاہم اگر شور و شغب یا پیروں کے نیچے روندے جانے کا اندیشہ ہو تو اطمینان سے بغیر کسی شور شرابے کے بانٹ دینا چاہیے، مسجد اور رزق یعنی چھوارہ وغیرہ کا ادب و احترام بہرحال ملحوظ رکھنا چاہیے۔
اور مٹھائی تقسیم کرنے کا ثبوت مجھے کہیں نہیں ملا۔
سوال نمبر 29:
ولیمے کا حکم کس حدیث میں ہے؟
جواب:
''ولیمہ'' اس کھانے کو کہا جاتا ہے جو میاں بیوی کے اکٹھا ہونے یعنی شبِ زفاف کے بعد کھلایا جاتا ہے، شبِ زفاف کے تیسرے دن تک حدیث شریف سے ولیمہ کا ثبوت ہے، اگر شبِ زفاف کے بعد پہلے دن انتظام ہوسکتا ہو تو سب سے بہتر پہلا دن ہے، تیسرے دن کے بعد ولیمہ کرنا فقط ضیافت شمار ہو گی۔
یہ بنوری ٹاؤن کی طرف سے فتویٰ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح میں اس طرح تین دنوں تک ولیمہ فرمایا ہے۔
سوال نمبر 30:
نیا سال شروع ہوتے ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا رد عمل ہوتا تھا قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرما دیں۔
جواب:
آج کل مبارک بادیوں کا بہت زیادہ رواج ہو گیا ہے، اس کی بنیادی وجہ social media ہے، کیونکہ یہ چیزیں بہت آسان ہو گئی ہیں پہلے تو خط لکھنا پڑتا تھا اور تردد کرنا ہوتا تھا اور اگر کوئی چیز ثابت بھی ہوتی تو پھر بھی تردد کی وجہ سے رہ جاتی تھی، اب کوئی مشکل نہیں رہی، بیٹھے بیٹھے اگر کسی نے کوئی خوبصورت چیز بنائی تو فوراً اس کو کاپی کر کے send کر دیتا ہے، ایک ہزار آدمیوں کو send کر لے تو اس کا کام پورا ہو جا تا ہے۔ تو یوں آج کل اس وجہ سے یہ چیزیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں، آج کل جمعہ مبارک کا بھی سلسلہ شروع ہو گیا ہے، جمعہ کی مبارک باد دیتے ہیں، عید میلاد النبی کی مبارک باد دیتے ہیں، معراج شریف کی مبارک باد دیتے ہیں، اسی طرح سال کی مبارک باد کا بھی رواج ہو گیا ہے، حالانکہ صحابہ کرام کی زندگی میں اس قسم کی چیزیں ہم نہیں دیکھتے، لہذا اس کو کم از کم دینی activity تو نہیں سمجھنا چاہیے، البتہ اس کو اگر کوئی معاشرتی well behave کے طور پر کرنا چاہے اور اس میں ثواب کی نیت نہ کرے تو اس کی گنجائش ہو گی۔ کیونکہ ثواب کی نیت تب ہو سکتی ہے جب وہ دینی کام ہو، چونکہ اس کا ہمیں یقینی طور پر کوئی ثبوت نہیں مل رہا، اس لیے اگر یہ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اور آپس میں الفت و محبت کی غرض سے کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کو سنت نہ سمجھا جائے۔
سوال نمبر 31:
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ان کی شادی کے وقت جو سامان دیا گیا تھا اس کے لیے حدیث اور حوالہ بتائیں۔
جواب:
"ازالۃ الخفا اور اصلاح الرسوم" صفحہ نمبر 93 پر اس کے بارے مذکور ہے کہ سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہ کا جہیز یہ تھا دو یمنی چادریں، دو نہاری جن میں السی کی چھال بھری تھی، چار گدے، چاندی کے دو بازو بند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ، ایک چکی، ایک مشکیزہ اور پانی رکھنے کا برتن۔ یعنی گھڑا اور بعض روایتوں میں ایک پلنگ کا ذکر بھی آیا ہے۔ تو یہ جہیز تھا۔
جہیز کے بارے میں اتنی بات ضرور ہے کہ اس کو لعنت نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، البتہ اس کو لعنتی طریقہ کے مطابق نہیں کرنا چاہیے، لعنتی طریقہ یہ ہے کہ اس میں نام و نمود کی خواہش ہو یا دولہے کا خاندان اس کو زبردستی مانگ لے، کیونکہ مرد کا عورت سے کچھ مانگنا لعنت نہیں ہے تو اور کیا ہے؟۔ لہذا لعنتی طریقہ سے لینا مناسب نہیں ہے، البتہ اگر کوئی اپنی بچیوں کو دینا چاہتا ہے سنت سمجھ کر، تو بالکل ٹھیک ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق دینا چاہیے، اپنی بچی کے ساتھ ہر ایک محبت کرتا ہے تو محبت کے طور پر دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن ایک تو اس کو میراث کا متبادل نہ سمجھا جائے کہ پھر اس کو میراث کے حق سے محروم کر دیا جائے کیونکہ یہ میراث کا متقابل نہیں ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ جہیز مانگا نہ جائے اور تیسری بات یہ ہے کہ اس میں نام و نمود نہ ہو، یعنی اس کو اپنی طرف سے کسی ایسے طریقے سے دیا جائے کہ لوگوں کو پتہ بھی نہ چلے، البتہ بچی کا اس میں بھلا ہو۔ لہذا اگر ان چیزوں کو ملحوظ رکھ کر دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو جو جہیز دیا تھا وہ اسی طریقے سے دیا تھا۔