اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔
سوال نمبر 1:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی میں اپنے اوپر بہت غور و فکر کر کے اپنی برائیاں آپ کے سامنے بیان کر رہی ہوں۔ میں آپ سے غلط بیانی کا تصور بھی نہیں کر سکتی میرے اندر واقعی یہ بیماریاں موجود ہیں۔ مجھے غصہ بہت آتا ہے۔ کئی مرتبہ جب میرے بچے مجھے بہت زیادہ تنگ کرتے ہیں تو مجھے بے حد غصہ آتا ہے اور میں انہیں بد دعائیں دیتی ہوں بہت برا بھلا کہتی ہوں، جس پر بعد میں بہت افسوس ہوتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آ جاتا ہے اور بہت دیر سے جاتا ہے۔ اگر مجھ میں غصے کی بیماری ختم ہو جائے تو میرے بہت سے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ میں اپنی اس برائی سے بہت پریشان ہوتی ہوں لیکن اس پر قابو نہیں پا سکتی۔ مجھے نماز پڑھنے میں مزہ نہیں آتا، بلکہ بعض اوقات نماز پڑھنے کو دل بھی نہیں چاہتا۔ کئی بار اس سلسلے میں سستی بھی کرتی ہوں لیکن کبھی کوئی نماز قضا نہیں کرتی۔ تہجد کی نماز بالکل نہیں پڑھ پا رہی۔
حضرت جی میری ایک بھابھی ہے جس سے میں بہت تنگ اور پریشان ہوں، اس نے میری امی کو بھی گھر سے نکال دیا ہے اور میرے بھائی کو مجھ سے ملنے نہیں دیتی، حالانکہ میں اپنے تینوں بھائیوں کی ایک ہی بڑی بہن ہوں۔ اس وجہ سے میرے دل میں اس کے لئے بہت کینہ، نفرت اور بغض ہے۔ میں چاہتے ہوئے بھی اسے معاف نہیں کر سکتی۔ ایک برائی مجھ میں یہ ہے کہ میں اپنے شوہر کی ناشکری اور نافرمانی کرتی ہوں۔ بعض اوقات بد تمیزی سے پیش آتی ہوں۔ میرا دل بہت کمزور ہے، بہت جلدی ہمت اور حوصلہ ہار دیتا ہے۔ اگر ذرا سی بھی کوئی تکلیف آئے تو سمجھتی ہوں کہ اب ہر طرف اندھیرا ہے، سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ ان سب برائیوں سے پیچھا چھڑانے کے لئے مجھے کیا کرنا چاہیے، رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
یہ سب برائیاں روحانی بیماریاں ہیں، لیکن ہمیں بیماریوں کو نہیں دیکھنا بلکہ علاج کو دیکھنا ہے۔ علاج کسی ایک سرے سے شروع ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ساری بیماریاں ایک ہی وقت میں ختم ہو جائیں۔ ساری بیماریوں کا علاج اکٹھا بھی نہیں شروع کیا جاتا، بلکہ ایک ایک کر کے علاج کیا جاتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ یہی تھا کہ پہلے سارے عیوب لکھوا لیتے تھے لیکن ابتداءً صرف ایک بیماری کا علاج کرتے۔ آپ ﷺ سے بھی اسی قسم کی بات منقول ہے کہ ایک صحابی کو فرمایا کہ جھوٹ نہ بولو۔ کسی اور صحابی سے فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو۔ ایک اور موقع پر فرمایا: میں اگر اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کی اجازت دے سکتا تو خواتین سے کہتا کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت میں ایک بیماری کا علاج کیا جاتا ہے۔
آپ نے لکھا ہے کہ آپ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ اس بارے میں سن لیں کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جہنمیوں میں خواتین زیادہ ہوں گی۔ پوچھا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ یہ خاوند کی ناشکری بہت کرتی ہیں اور لعن طعن بہت کرتی ہیں۔ لہٰذا آپ سب سے پہلے اپنی ان دو برائیوں پہ کام کریں، ان کو ٹھیک کریں۔ خواہ آپ کو دل پہ جبر کرنا پڑے، طبیعت چاہے یا نہ چاہے لیکن خاوند سے جب بھی کوئی بات کریں تو شکر کے کلمات کہیں۔ جب وہ گھر آئے تو خندہ پیشانی سے، مسکراتے ہوئے استقبال کریں، تاکہ اس کو راحت ہو ورنہ اس کی تمام تکلیف ہڈیوں میں رہ جائے گی۔ یہ بات اپنے اوپر لازم کر لیں۔
غصہ کے بارے میں عرض ہے کہ غصہ کی بیماری سے مکمل علاج کے لئے تو ایک طویل وقت درکار ہے۔ کیونکہ اس کی جڑیں بہت مضبوط ہوتی ہیں اور ہر جڑ از خود مستقل طور پر ایک خطرناک بیماری ہے۔ غصہ کی جڑوں میں سے ایک تکبر ہے، ایک جڑ جلد بازی ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی مسائل غصہ کے پس منظر میں موجود ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کا مستقل علاج تو بہت صبر آزما اور وقت طلب ہے، مگر وقتی طور پر اس کے نقصانات سے بچنے کے لئے کچھ علاج ہیں، فی الحال آپ اس علاج سے کام لے لیا کریں۔ اس کا فوری علاج یہ ہوتا ہے کہ غصہ کے وقت اگر آدمی کھڑا ہے تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو لیٹ جائے، پانی پئے، اس جگہ سے ہٹ کر کسی اور جگہ چلا جائے۔ اپنے آپ کو کسی کام میں مشغول کر لے۔ اس فوری علاج پر عمل کرنے سے کافی حد تک غصہ کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔
بچوں کو بد دعا بالکل نہ دیں۔ ایسے وقت میں آپ یہ سوچ ذہن میں لائیں کہ اگر یہ بد دعا بچوں کو لگ گئی تو ان کا کیا ہو گا۔ کیونکہ بعض دفعہ مقبول گھڑیاں ہوتی ہیں، ایسے وقت میں جو زبان سے نکل جائے وہ قبول ہو جاتا ہے، چاہے وہ کچھ بھی ہو۔ ایسی صورت میں انسان کے ہاتھ پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں لگتا۔ ہمارے علاقہ زیارت کاکا صاحب میں ایک صاحب نے ایک بار اپنے دونوں بیٹوں کو بد دعا دی تھی۔ خدا کی قدرت کہ اس وقت قبولیت کی گھڑی ہو گی۔ وہ دونوں بیٹے اس کے جیتے جی مر گئے۔ بعد میں یہ آدمی اپنے منہ پہ مکے مارا کرتا تھا کہ میرے اس منہ اور زبان کی آفت سے یہ دن دیکھنا پڑا۔
لہٰذا اپنے بچوں کو بد دعا بالکل نہ دیں، خاوند کی نا شکری مت کریں، غصہ کو control کریں اور اپنے آپ کو کسی کام میں مشغول رکھیں۔ فی الحال انہی ہدایات پہ عمل کریں۔ باقی بیماریوں کا علاج ان شاء اللہ اس کے بعد تدریجاً ہو گا۔
سوال نمبر 02:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی کہیں بھی دل نہیں لگتا۔ بہت خوف طاری رہتا ہے۔ depression اور confusion ہے۔ باطل عقیدہ والوں سے سامنا ہو تو حق پر ہونے کے باوجود پریشان ہو جاتا ہوں۔
جواب:
دل نہ لگنا یہ تو کوئی بات نہیں۔ دنیا میں کوئی چیز دل لگانے والی نہیں ہے۔ بزرگوں نے تو پہلے سے کہہ رکھا ہے:
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
اس لئے جی لگانے کی بات تو نہ کریں، بس یہ جانیں کہ آپ کو حکم کیا ہے۔ حکم ہر صورت پورا کرنا ہوتا ہے۔ اگر دل نہ بھی چاہتا ہو تب بھی پورا کرنا پڑتا ہے۔ اور برائی کو کتنا ہی جی چاہے، پھر بھی نہیں کرنا ہوتی۔ یہی گر کی بات ہے اور اس کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم دل پہ کتنا ہی بھاری ہو، اسے کرنا ہی ہوتا ہے۔ اسی پہ اجر ہے۔ جب جی نہ کرے تو پھر یہ عبادت کے ساتھ ساتھ مجاہدہ بن جاتا ہے۔ اور اس کا اجر دوہرا ہو جاتا ہے۔ اس اجر کو ضائع نہ کریں۔
ڈپریشن تو ایک بیماری ہے، اس کے بارے میں آپ خود فیصلہ نہیں کر سکتے کہ آپ کو یہ بیماری ہے یا نہیں، جب تک آپ کسی ڈاکٹر کو چیک نہ کرا لیں۔ اگر ڈاکٹر تصدیق کر دے کہ واقعی آپ کو ڈپریشن کا مسئلہ ہے تو پھر اس کا باقاعدہ علاج کروائیں۔
جہاں تک کنفیوژن کی بات ہے، تو کنفیوژن دور ہونی چاہیے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ صحیح عقائد سیکھ لیں۔ تاکہ ابہام نہ رہے اور ساری بات واضح ہو جائے۔ باقی جو آپ نے کہا کہ جب باطل سے سامنا ہوتا ہے تو حق پر ہونے کے باوجود پریشان ہو جاتا ہوں۔ اس پریشانی سے اپنے آپ کو حتی الامکان بچائیں۔ اگر انسان حق پر ہو اور دوسرے کو سمجھا نہ سکتا ہو تو وہ اس کا مکلف ہی نہیں ہے۔ اس سے اس کی پوچھ نہیں ہو گی کہ تم نے کسی کو سمجھایا کیوں نہیں۔ دنیا میں بہت سارے لوگ ہیں جو حق پر ہوتے ہیں لیکن دوسرے کو نہیں سمجھا سکتے۔ انسان کسی کام کا مکلف تب ہوتا ہے جب وہ کام کر سکتا ہو۔
﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ﴾ (البقرۃ: 286)
ترجمہ: ”اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا“۔
اس لئے آپ کو اس بارے میں کفنیوز اور پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سوال نمبر 03:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ! حضرت جی آپ نے بیان میں فرمایا تھا کہ شیخ کے کپڑوں کے ذریعہ بھی فیض پہنچتا ہے۔ اس سے صاحب فیضِ کا اپنی مرضی سے کپڑے دینا مراد ہے یا ان کے لا علم ہوتے ہوئے بھی ان کی کسی چیز کو استعمال کرنے سے فیض حاصل ہو جائے گا۔
جواب:
ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ باتوں باتوں میں فرمایا: ”بھئی ایسا نہ ہو کہ آپ یہاں سے میری چیزیں اٹھا لیں اور سمجھیں کہ اس میں آپ کو فیض مل جائے گا، برکت ہو جائے گی۔ اس کے لئے اجازت شرط ہے۔ بعض اوقات لوگ اٹھا کے لے بھی جاتے ہیں۔“ بغیر اجازت کسی کی چیز اٹھانا ایذائے مسلم کے زمرہ میں آتا ہے۔ اور جب ایذائے مسلم حرام ہے تو شیخ یا کسی بزرگ کو ایذا دینا تو اور بھی بڑا گناہ ہو گا۔
اگر کسی بزرگ سے تبرک کے طور پر کوئی چیز حاصل کرنا ہی چاہتا ہے تو اس کا طریقہ ہمارے بزرگوں نے یہ بتایا ہے کہ بزرگوں کی جو چیز چاہیے ہو تو ویسی کوئی چیز اس کے برابر ان کی خدمت میں پیش کر کے درخواست کی جائے کہ حضرت یہ آپ لے لیں اور اپنی چادر مجھے مرحمت فرما دیں۔ اگر وہ بخوشی اجازت دے دیں تو ٹھیک، وگرنہ اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ کسی کو تبرک کے طور پہ اپنی چیز دینا یا نہ دینا یہ ان کے اپنی حکمت اور صوابدید پہ منحصر ہے۔ لینے والے کو اصرار کا کوئی حق نہیں۔
میں نے بھی ایسا ہی کیا تھا کہ مفتی مختار الدین شاہ صاحب کی خدمت میں پگڑی پیش کی تھی۔ انہوں نے اس کے بدلے مجھے اپنی وہ پگڑی عنایت فرمائی جو انہوں نے حرم شریف میں پہنی تھی۔
تو یہ ایک طریقہ ہے جو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بغیر اجازت کے شیخ کی چیز استعمال کرنا تو درکنار کسی عام انسان کی چیز استعمال کرنا بھی درست نہیں ہے۔
سوال نمبر 04:
السلام علیکم۔
One month of meditation has been done. I do feel ذکر of ”اللّٰہ اللّٰہ“ in heart for 3 or 4 months, ذکر is continued as well meditation was of 20 minutes to feel ذکر of ”اللّٰہ اللّٰہ“ in heart. Meditation was skipped for 2 days as well as ذکر. Should I carry on with this?
جواب:
جو ذکر آپ کو دیا گیا ہے اس کا وقت تیس منٹ ہے، جبکہ فی الحال آپ اس کو صرف تین سے چار منٹ محسوس کر پا رہی ہیں۔ لہٰذا ابھی آپ اسی کو جاری رکھیں، یہاں تک کہ پورے تیس منٹ محسوس ہونا شروع ہو جائے۔
سوال نمبر 04:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! شاہ صاحب آپ نے ایک بیان میں فرمایا کہ کسی ضرورت کے لئے دعا کے ساتھ دنیاوی اسباب بھی اختیار کرنے چاہئیں۔ لیکن اگر ہم کسی مسئلہ میں دنیاوی اسباب اختیار کرنے سے معذور ہوں تو کیا وہ مسئلہ صرف دعا کرنے سے حل ہو جائے گا؟
جواب:
بہت ساری باتیں قرآن و حدیث میں بالکل واضح بتائی گئی ہیں، لیکن پھر بھی لوگ شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جب اللہ پاک نے دعا کے بارے میں قرآن میں خود فرما دیا ہے کہ
﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ﴾ (غافر: 60)
ترجمہ: ”مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا“۔
تو کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ بس مانگنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح تہجد کے وقت میں اللہ پاک کی طرف سے باقاعدہ اعلان ہوتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا میں اس کو دوں، ہے کوئی پریشان میں اس کی پریشانی دور کر دوں۔ اس وقت سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ دوسرے لوگوں سے بھی دعا کے لئے کہا جا سکتا ہے۔ یہ سارے ذرائع ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسباب اختیار کرنے چاہئیں، لیکن اگر اسباب سے معذوری ہو اور وہ معذوری واقعتًا معذوری ہو اپنی سستی اور غفلت نہ ہو تو پھر یہ امر غیر اختیاری بن جاتا ہے، اور غیر اختیاری امور میں تو دعا ہی ذریعہ رہ جاتی ہے۔ مثلاً بارش کی وجہ سے آپ کو تکلیف ہو رہی ہو تو آپ بارش کو تو نہیں روک سکتے، یہ کام آپ کے اختیار میں ہے ہی نہیں، تو اس کے لئے آپ دنیاوی اسباب کیا اختیار کریں گے، بس اللہ پاک سے دعا ہی کریں گے۔ لہٰذا ایسا کوئی بھی کام جو بندے کے اختیار میں ہی نہ ہو اس کے لئے دعا ہی مانگی جاتی ہے۔ ایسے مواقع کے لئے بہت سارے اوراد منقول ہیں، مخصوص دعائیں ہیں وہ پڑھی جا سکتی ہیں۔ اپنی زبان میں بھی دعا کی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔
سوال نمبر 06:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ! شاہ صاحب اوقات نماز کے نقشے میں لکھا ہے کہ عصر کا جتنا وقت ہوتا ہے اشراق کا بھی اتنا وقت ہوتا ہے۔ آج کل عصرِ شافعی کا وقت دو گھنٹوں سے زیادہ بنتا ہے اور عصر حنفی کا وقت دو گھنٹوں سے کم بنتا ہے۔ نقشے کے مطابق کون سا وقت مراد ہے۔ عصرِ شافعی یا عصرِ حنفی؟
جواب:
سوال میں پوچھا گیا مسئلہ ایک فقہی مسئلہ ہے۔ اس سے پہلے ایک آسان فقہی مسئلہ سمجھیں تاکہ یہ مسئلہ آسانی سے سمجھ آ سکے۔ شوافع کے نزدیک اگر دورانِ وضو سر کے چند بالوں کو بھی گیلے ہاتھ سے چھو لیں تو مسح ہو جاتا ہے۔ احناف کے نزدیک چوتھائی سر کا مسح فرض ہے۔ مالکیہ کے نزدیک پورے سر کا مسح فرض ہے۔ اسی بنیاد پر حج میں حلق کا مسئلہ ہے۔ شوافع کے نزدیک اگر چند بال بھی کاٹ دے تو قصر ہو جاتا ہے۔ احناف کے نزدیک چوتھائی سر کا قصر واجب ہے اور مالکیہ کے نزدیک پورے سر کا قصر کرنا ضروری ہے۔
اب سوال والا مسئلہ سمجھیں۔ شوافع کے لئے اشراق کا وقت طویل ہو گا اور احناف کے لئے کم ہو گا، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول میں اشراق کا وقت بتانے کے لئے عصر کے وقت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اشراق کی نماز تب پڑھا کرتے تھے جس وقت سورج اتنا بلند ہوتا جتنا عصر کے وقت ہوتا ہے۔ اب چونکہ شوافع اور احناف کے نزدیک عصر کے وقت کی مدت میں طوالت اور اختصار کے لحاظ سے فرق ہے، شوافع کے نزدیک عصر کا وقت زیادہ ہے جبکہ احناف کے نزدیک کم ہے۔ لہذا شوافع کے لئے اشراق کا وقت زیاد ہوگا اور احناف کے لئے کم ہوگا۔ البتہ احناف کے لئے چاشت کا وقت جلدی شروع ہو گا جبکہ شوافع کے لئے تاخیر سے شروع ہو گا۔ خیر اشراق اور چاشت کی نماز میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، دونوں نمازیں بوقت ضرورت ایک وقت میں بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ یہ نفل نمازیں ہیں اور نفل نمازوں میں کافی گنجائشیں ہوتی ہیں۔
سوال نمبر 07:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ شاہ صاحب! آج کل ایک بات میرے ذہن میں آتی ہے کہ جب میں دین کی طرف نہیں تھی تو مجھ میں زیادہ خوبیاں تھیں اور اب جب میں دین کی طرف ہو گئی ہوں تو مجھ میں اتنی زیادہ بری باتیں آ گئی ہیں کہ کوئی اندازہ ہی نہیں۔ مجھے اپنے آپ میں برائیاں ہی برائیاں نظر آتی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ رات کو سوچتی ہوں تو دن بھر کے کافی زیادہ برے کام سامنے آتے ہیں۔ کبھی زبان سے کوئی غلط بات کی ہوتی ہے تو کبھی نظر کا گناہ ہوتا ہے۔ کبھی غرور کیا ہوتا ہے، کبھی حرص کی ہوتی ہے، کبھی غلط بات سنی ہوتی ہے، غرض بہت سے برے کام کر چکی ہوتی ہوں۔ حالانکہ اب تو زیادہ احتیاط کرتی ہوں۔
آپ نے ایک دفعہ مجھ سے فرمایا تھا کہ اپنی محبوب چیزوں کو اللہ کی راہ میں دے دو۔ میں تقریباً دو سال سے اس پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اپنی ضروریات کو کم سے کم کر رہی ہوں۔ اپنی خواہشات کو control کر رہی ہوں۔ پہلے میری خواہش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ اچھے اچھے کپڑے، جوتے اور جیولری ہو۔ اب میں نے اپنا ایک تولہ کا set بیچ دیا اور وہ پیسے مسجد اور مدرسے کی تعمیر میں دیئے، اپنے کپڑے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیئے اور اپنے پاس ہر موسم کے چار جوڑے رہنے دیئے۔ عید سے پہلے اپنی ساری آرٹیفیشل جیولری کے گفٹ پیکس بنا کر ساتھ والے مدرسہ کے منتظمین کو دے دیئے کہ بچوں میں تقسیم کر دیں۔ یہ سب کرنے میں دو سال لگے۔ لیکن اس کے بعد بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ مجھ میں بہت ہی کم تبدیلی آئی ہے۔ ایک تبدیلی جو میں نے نوٹ کی وہ یہ کہ میں بازار جانے سے کتراتی ہوں، اگر کوئی میرے لئے کچھ لے آئے تو شکر کرتی ہوں کہ بازار نہیں جانا پڑا۔ چاہتی ہوں کہ بس کوئی اور لے آئے۔ اپنی مرضی کو اہمیت دینا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن نفس پہ کوئی خاص control نہیں۔ اس کے لئے کون سا مجاہدہ کرنا چاہیے۔ آج کل میں وزن کی وجہ سے خوراک control کر رہی ہوں۔ اس کی نیت کیا کروں؟ وزن کم کرنے کی یا نفس کو قابو کرنے کی نیت کروں۔ اور ہفتہ میں ایک روزہ رکھنا چاہوں تو کس دن رکھوں؟
جواب:
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مزید توفیقات عطا فرمائے۔ کام کی بات یہ ہے کہ فکر پیدا ہو گئی ہے اور فکر کی وجہ سے اب گناہوں کا استحضار آ گیا ہے۔ پہلے بے فکری تھی۔ پہلے جس چیز کو ہم گناہ نہیں سمجھتے تھے، گناہ ہوتے ہوئے بھی اس کی فکر نہیں تھی۔ جب فکر آ گئی تو پتہ چل گیا کہ یہ تو گناہ ہے۔ جیسے کسی کا vision clear ہو جائے تو اس کو چھوٹے چھوٹے حشرات الارض بھی نظر آ جاتے ہیں اور اگر vision clear نہ ہو تو شاید سانپ اور بچھو بھی نظر نہ آئیں۔ یہ نظر کی clarity کی بات ہے کہ فکر پیدا ہو گئی ہے اور اس کی وجہ سے آپ کو اب چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی نظر آنے لگی ہیں۔ اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اس کے مطابق اپنے آپ کو control کرنے کی کوشش کریں۔ الحمد للہ آپ نے کافی حد تک control کر بھی لیا ہے، لیکن یہ process جاری رہنا چاہیے۔ کیونکہ ہمیں اللہ کا بننا ہے۔ جب اللہ کا بننا ہے تو پھر جو نعمت اللہ دے اسے شکر کے ساتھ لینا چاہیے۔ کیونکہ جب نعمت اللہ کی طرف سے ہو تو اس پہ شکر ادا کرنا چاہیے۔
﴿وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾ (الضحٰی: 11)
ترجمہ: ”اور جو تمہارے پروردگار کی نعمت ہے اس کا تذکرہ کرتے رہنا“۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو نعمت سمجھ کے قبول کرنا چاہیے اور اس پر خوش ہو کر شکر بھی ادا کرنا چاہیے۔
باقی وزن کم کرنے کے لئے خوراک control کرنے میں آپ دو نیتیں کر سکتی ہیں۔ ایک اپنی صحت کو بہتر کرنے کی نیت اور دوسرا اعمال کو اچھے طریقہ سے کرنے کی نیت۔ یہ دو نیتیں کر لیں۔
ہفتہ میں روزہ رکھنا پیر اور جمعرات کے دن مسنون ہے۔
سوال نمبر 08:
السلام علیکم، حضرت! ایک سالک کو اپنے شیخ سے خلافت نہیں ملی، لیکن اسے کسی اور بزرگ نے خلافت دی ہے۔ کیا اسے یہ خلافت قبول کر لینی چاہیے، اس اجازت کی بنیاد پر اصلاح کا کام جاری کرنا چاہیے؟ اگر وہ اصلاح کا کام شروع کرتا ہے تو کیا وہ سلسلے کے معمولات اپنے شیخ والے چلائے گا یا ان کے معمولات چلائے گا جن سے اجازت ملی ہے؟ بالخصوص اس صورت میں جب دونوں طریقے مختلف ہوں۔
جواب:
اگر اس شخص کا شیخ خود موجود ہے اور حیات ہے تو وہ اس اجازت کو اپنے شیخ کے سامنے پیش کرے اور بتائے کہ فلاں صاحب نے مجھے اجازت دی ہے، آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ اگر شیخ اس کو منظور فرما لے تو بالکل ٹھیک ہے، وہ اصلاح کا کام شروع کر سکتا ہے۔ اور اگر اپنا شیخ اس اجازت کو منظور نہ فرمائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ابھی یہ مرید کامل نہیں ہوا، مگر دوسرے بزرگ نے اس کے ساتھ حسن ظن کا معاملہ کرتے ہوئے کامل سمجھ کر خلات اور اجازت دے دی۔ لیکن بات یہ ہے کہ اصل بیماریاں اپنے شیخ کو معلوم ہوتی ہیں اس لئے جب تک اپنا شیخ اپنی طرف سے اجازت و خلافت نہیں دیتا، یا کسی اور بزرگ کی دی ہوئی خلافت پر مہر تصدیق ثبت نہیں کرتا، تب تک یہ آدمی آگے اصلاح کا کام جاری نہیں کر سکتا۔
اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی نے اپنا پرسنل فیملی ڈاکٹر رکھا ہوا ہو، جس کو اس کی ساری میڈیکل ہسٹری معلوم ہو۔ اس ڈاکٹر کو اس کو اصل بیماری کا پتا ہو گا۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے ڈاکٹر کی رائے اتنی معتبر نہیں سمجھی جائے گی۔ اگر کوئی اور ڈکٹر جو آپ کو نہیں جانتا وہ کہہ دے کہ آپ مکمل طور پر صحت مند ہیں، جبکہ آپ کا پرسنل ڈاکٹر اس بات کی تصدیق نہ کرتا ہو، تو کیا آپ اس دوسرے ڈاکٹر کی بات مان لیں گے۔ ہرگز نہیں مان سکتے۔ اسی طرح سوال میں ذکر کردہ صورت کی مثال ہے۔ ایسی صورت میں خلافت کے شوقین حضرات کے لئے تو بہت بڑا چانس ہے، وہ تو اسے غنیمت سمجھ کر ہر محنت سے جان چھڑا کر خلیفہ بن جائیں گے۔ لیکن درحقیقت ایسی اجازت اور ایسی خلافت کا فائدہ نہیں ہے۔ بلکہ بھٹک جانے کا خدشہ ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید کو کسی نے خلافت دی تھی۔ اس نے حضرت کو اطلاع کی تو حضرت نے فرمایا کہ اگر آپ کا مطلوب خلافت تھا تو وہ آپ کو مل گئی، لیکن اگر آپ کا مقصد مجھ سے اصلاح کروانا تھا تو میرا شرح صدر ابھی نہیں ہوا۔
خلاصہ یہ کہ بعض اوقات کچھ بزرگ حسن ظن کرتے ہوئے خلافت دے دیتے ہیں۔ اگر کسی کے ساتھ ایسا ہو تو وہ کسی اور بزرگ کے خلافت دینے پر اپنے آپ کو خلافت کا اہل نہ سمجھے، جب تک اس کا اپنا شیخ اس کی تصدیق نہ کرے کہ واقعی یہ خلافت کا اہل ہے۔
میرا اپنا ذوق اور خیال یہ ہے کہ آج کل کے دور میں اس چیز کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، کیونکہ آج کل خلافتیں بہت جلدی جلدی مل جاتی ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جو لوگ مریدوں کو اتنی جلدی خلافت دے دیتے ہیں ان کے نزدیک خلافت کا معیار کیا ہے؟ ہمارے نزدیک تو خلافت کا معیار یہ ہے کہ آدمی کی مکمل طور پر اصلاح ہو جائے۔
اکابرین اس بارے میں بے حد محتاط ہوا کرتے تھے۔ ان کی تو ایسی حالت تھی کہ جب انہیں ان کے مشائخ نے خلافتیں دیں تو وہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے، خلیفہ بننے سے شرماتے تھے اور چھپاتے تھے کہ کہیں کسی کو پتا نہ چل جائے کہ مجھے خلیفہ بنا دیا گیا ہے۔ اور بنیادی اصلاح یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس قابل نہ سمجھا جائے۔ اس کے برعکس ان چیزوں پہ خوش ہونا اور پھولے نہ سمانا، یہ ذرا خطرے کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
سوال نمبر 09:
My question is regarding the golden chain of سلاسل اربعہ. I don’t find the names of great scholars like
”امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم، ابن ماجہ، امام ترمذی، ابن کثیر رحمہ اللہ علیہم اجمعین“
I have listened from Sufis that the purification of heart is not possible without شیخ or ولی. So can we deduce from this that the اصلاح of the above scholars was not done or they ignored such a great part of شریعہ which is تزکیہ.
جواب:
إِنَّا لِلّٰهِ وَ إِنّا إِلَيهِ رٰجِعُونَ! کہتے ہیں نیم ملا خطرۂ ایمان اور نیم حکیم خطرۂ جان۔ ایسے سوالات تصوف اور بزرگوں کی تاریخ سے لاعلمی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
پہلے تو آپ یہ سمجھیں کہ قرون اولیٰ، یعنی دورِ نبوت، دور صحابہ اور تابعین و تبع تابعین کے وقتوں میں تعلیم و تعلم اور اصلاح و ارشاد کی ترتیب کیا ہوتی تھی۔ اس زمانے میں دینی تعلیم کے لئے مدارس نہیں ہوتے تھے، بلکہ لوگ مختلف علماء کی خدمت میں جا کر ان سے علوم سیکھتے تھے۔ اسی طرح تصوف میں بھی یہ سلسلے نہیں ہوتے تھے بلکہ لوگ اولیاء اللہ کے پاس جا کر ان سے اصلاح کرواتے تھے۔ ان دنوں مرید کو مرید نہیں بلکہ صاحب کہا جاتا تھا۔ جیسا کہ تذکروں میں ”صاحبین“ اور ”صاحب“ کا ذکر آتا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے دو شاگردوں امام محمد اور امام ابو یوسف کو ”صاحبین“ کہتے ہیں۔ اسی طرح حضرت شبلی جو جنید بغدادی کے مرید تھے، انہیں ”صاحبِ شبلی“ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ دراصل اُس وقت اصطلاحات الگ تھیں۔ ہمیں اُس دور میں تصوف اور تصوف کے متعلقات کا ذکر آج کل کی اصطلاح میں نہیں ملتا، تصوف، شیوخ اور مریدین تب بھی موجود تھے، صرف اتنا فرق ہے کہ اصطلاحات الگ تھیں۔
اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں۔ سوال میں کہا گیا ہے کہ ائمہ اربعہ اور ائمہ محدثین کا ذکر تصوف کے حوالے سے کہیں نہیں ملتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ تواریخ و سوانح کی کتب کا مطالعہ کریں تو آپ کو باقاعدہ ایک سلسلہ ”سلسلۂ نعمانیہ“ کا تذکرہ ملے گا۔ یہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو ایک خلافت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملی ہے اور ایک حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ سے ملی ہے، جن کے بارے میں امام صاحب نے فرمایا تھا:
”لَولَا سَنَتَانِ لَھَلَكَ النُّعْمَانُ“
”اگر میں نے دو سال حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے ساتھ نہ گزارے ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا“
اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام موسی کاظم رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں، امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ابو سلیمان داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں۔ یہ ساری تفصیل ہمارے سلسلہ کے شجرہ میں موجود ہے۔
ہمارے تمام اکابر تصوف سے متعلق ہیں، کسی کے شیخ ہیں اور کسی کے خلیفہ ہیں۔ لیکن بہت سارے لوگ زیادہ تر بزرگوں سے تصوف کے حوالے سے واقفیت نہیں رکھتے۔ مثلاً ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لوگ یہ نہیں جانتے کہ یہ قادری سلسلہ میں تھے۔
البتہ ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ جن حضرات کے نام آپ نے سوال میں ذکر کیے، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام مالک وغیرہ حضرات رحمہ اللہ علیہم اجمعین۔ یہ سب شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے گزرے ہیں اور ہمارے یہاں ہند و پاک میں یہ چار سلسلے قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ مشہور ہیں۔ ان میں قادری سلسلہ سب سے پہلے ترتیب پایا تھا۔ جبکہ یہ حضرات شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی پہلے گزرے ہیں، اس لئے ان کا نام قادری، چشتی، سہروردی یا نقشبندی سلسلہ کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ حضرات صوفی نہیں تھے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب حضرات صوفی تھے، مگر اپنے زمانہ کی اصطلاحات کے مطابق تھے۔ جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بعد ان کا سلسلہ نعمانیہ کے نام سے چلا۔
اگر آپ ہمارے شجرہ کا مطالعہ کریں تو آپ کو اس سلسلہ نعمانیہ کی ترتیب یوں نظر آئے گی۔
امام ابو حنیفہ، امام حماد کوفی، ابراہیم کوفی، طاہر کوفی، نجم الدین کوفی، سعدی، نصیر اللہ مکی، فضل اللہ مکی، عمر بدری، اسحاق مدنی، عثمان مکی، عبد الغنی مدنی، عبد القادر مدنی۔
اور یہ شجرہ تسلسل کے ساتھ چلتے چلتے حضرت عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچا ہے۔
نصیر الدین بلخی، صفی اللہ رودولوی، اسماعیل رودولوی، شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ۔ اس لئے حضرت عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو نعمانی بھی کہتے ہیں۔
جس طرح مکمل تفصیل سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ اور شجرہ موجود ہے، اسی طرح باقی تمام ائمہ کا بھی موجود ہے۔ اُن حضرات کے صوفی ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کا نام ان سلسلوں میں بھی آتا ہو جن کا آپ کو علم ہے، یا ان حضرات کا نام آپ کے سلسلہ یا شجرہ میں بھی آتا ہو، یا کسی مشہور سلسلہ میں آتا ہو، ایسا ضروری نہیں ہے۔ جیسے حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ کا نام ہمارے شجرہ میں موجود نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صوفی نہیں ہیں یا ان کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی چیز کے ہمارے علم میں موجود نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا حقیقت میں بھی کوئی وجود نہیں ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ایک تو لوگوں کو علم نہیں ہوتا، مزید یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں سارا علم ہے اور اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں۔
یہاں ایک نکتہ کی بات سمجھ لیں۔ وہ یہ کہ بنیادی طور پر دو چیزیں ضروری ہیں۔ (1) تعلیم۔ (2) تربیت۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایک کے بغیر دوسری نامکمل ہے۔ اگر صرف تعلیم ہو اور تربیت نہ ہو تو ایسے ہے جیسے انجن ہو اور پہیے نہ ہوں۔ اسی طرح اگر تربیت ہو اور تعلیم نہ ہو تو ایسا ہی ہے جیسے پہیے ہیں مگر انجن نہیں ہے۔ ہر دور میں دین اسلام میں یہ دونوں چیزیں چلتی رہی ہیں۔ کسی دور میں اس کا نام تصوف ہو سکتا ہے، کسی اور دور میں کوئی اور نام بھی ہو سکتا ہے۔ اگر کہیں یہ دو بنیادی چیزیں کسی بھی نام سے پائی جاتی ہیں اور کوئی ان دونوں چیزوں کو مکمل طور پہ حاصل کر لیتا ہے، تو وہ صوفی ہی ہے، چاہے اسے صوفی کا نام دیں یا نہ دیں۔ ہمیں اس پہ کوئی ضد نہیں کہ اسے تصوف ہی کہا جائے۔ چونکہ تربیت کا معروف طریقہ تصوف ہے اس لئے ہم تصوف کا نام لیتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے ہم بیعت کو لازم بھی نہیں قرار دیتے۔ ہمارے نزدیک لازم چیز تربیت ہے، اور بیعت اس کے لئے صرف ایک مستحب طریقہ ہے۔ اگر کوئی اس طریقہ سے کر سکتا ہے تو بہتر ہے، ورنہ بغیر بیعت کے بھی کسی ایک شیخ کے ساتھ رابطہ رکھ لے تو ان کی تربیت ہو جائے گی۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم! حضرت جی اللہ پاک آپ کو صحت و عافیت سے رکھے۔ مرید کا تعلق شیخ سے معالج اور مریض کا سا ہوتا ہے اس لئے مرید کو اپنے رذائل اور بیماریاں ٹھیک طرح سے بتانی چاہئیں۔ لیکن مریض اپنی بیماری مکمل طور پر خود diagnose نہیں کر سکتا اسے صرف کچھ symptoms کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم لوگ یعنی مریدین کو بھی مکمل طور پر اپنی روحانی بیماریوں کا اندازہ نہیں ہوتا۔ کبھی انسان اپنے آپ کو روحانی طور پر بیمار سمجھ کر اپنے آپ کو گناہ گار مان لیتا ہے، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس سے کوئی اچھا عمل ہوتا ہے، اور اس کی نظر اپنے اوپر آ جاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو نیک گمان کر لیتا ہے۔ تو یہ نیک عمل کی وجہ سے اپنے آپ کو نیک گمان کر لینا اور اچھا سمجھ لینا، کیا اس کی وجہ کِبر ہے؟ یا یہ فطری طور پر ہوتا ہے کیونکہ نیک عمل کی وجہ سے انسان کا اپنی ذات کی طرف خیال تو جاتا ہی ہے چاہے ایک لمحہ کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ اس کشمکش کی وجہ سے مجھے کنفیوژن رہتی ہے کہ اپنے بارے میں کیا سمجھا جائے، اچھا گمان کیا جائے یا برا۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے۔
جواب:
اس کنفیوژن کا حل یہ ہے کہ جیسے بیمار کو اپنے symptoms کا پتا ہوتا ہے تو وہ ڈاکٹر کو اپنے symptoms ہی بتائے اپنے اوپر حکم نہ لگائے کہ مجھ میں یہ بیماری ہے۔ اسی طرح مرید بھی اپنے اندر موجود علامات بتائے گا، حتمی طور پر نہیں بتائے گا کہ مجھے فلاں روحانی بیماری ہے، حتمی طور پر شیخ ہی بتائے گا۔
باقی یہ بات کہ کوئی نیک عمل ہو تو اپنے اوپر نظر جانا، صرف نظر جانے سے کوئی گناہ نہیں ہوتا، ہاں اگر اپنے اوپر نظر جائے، اس وجہ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھے اور دوسروں کو حقیر سمجھے پھر گناہ ہوتا ہے۔ اور اس کا علاج یہ ہے کہ جب کسی نیک عمل کی وجہ اپنے آپ کو اچھا سمجھنے لگے، تو اسی اچھا سمجھنے کو بھی علاج بنایا جا سکتا ہے، اس طرح کہ اپنے دل میں سوچے کہ اگر میں پہلے اپنے کسی نیک عمل کی وجہ سے اچھا تھا بھی، لیکن اب چونکہ میرے دل میں خیال آ گیا ہے کہ میں اچھا ہوں، اور اپنے آپ کو اچھا سمجھنا خود ایک روحانی بیماری ہے، لہٰذا اب میں اچھا نہیں رہا کیونکہ یہ روحانی بیماری مجھ میں آ گئی ہے۔ ایسا سوچنے سے اس کنفیوژن کا خود بخود علاج ہو جائے گا۔
اکثر سالکین کو یہ مسئلہ پیش آتا ہے وہ اس کشمکش میں پھنس جاتے ہیں کہ ہم میں عجب ہے، میں انہیں یہی علاج بتاتا ہوں کہ عجب کہ مطلب ہے کہ تم اپنے آپ کو اپنے نیک اعمال کی وجہ سے اچھا سمجھ رہے تھے، لیکن اب تم میں ایک برائی آ گئی ہے کہ تم اپنے آپ کو اچھا سمجھ رہے ہو، اس برائی کے آ جانے کے بعد تم اچھے تو نہ رہے۔
یہ در اصل ایک نفسیاتی علاج ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اتنا ذکر کرو اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں مجنون و ریا کار کہنے لگیں۔ عموماً ذکر کرنے میں رکاوٹ یہی دو چیزیں ہوتی ہیں کہ کوئی ہمیں ریاکار وغیرہ نہ سمجھے۔ نبی پاک ﷺ نے انہی دو چیزوں کو بطور علاج بتا دیا۔ اب اگر کوئی ذکر کے لئے ریاکار اور مجنون کہلائے جانے پر بھی تیار ہو گیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ وہ ریاکار و مجنون نہیں بلکہ ذکر سے محبت رکھتا ہے۔ وہ پاگل نہیں بلکہ ہوشیار ہے۔ کہتے ہیں: ”اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شد“ وہی دیوانہ ہے جو دیوانہ نہیں ہوا۔
قرآن میں ارشاد باری ہے:
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ۔ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (آل عمران: 190-191)
ترجمہ: ”بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انھیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے“۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایسے لوگ جو اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے ہر حال میں ذکر کرتے ہیں اللہ پاک انہیں عقلمند کہتے ہیں، دنیا چاہے انہیں پاگل کہے یا دیوانہ۔ دنیا کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
خلاصہ یہ کہ مرید یا مریض کا کام symptoms بتانا ہے، کسی خاص بیماری کی تشخیص کرنا شیخ یا ڈاکٹر کا کام ہے۔ ہم علامات سے اندازہ لگاتے ہیں کہ اصل بیماری کیا ہے پھر اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں، شفا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، انسان کوشش ہی کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح طریقے پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم حضرت جی! آپ کی برکت سے اپنی برائیاں واضح ہو کر سامنے آ گئی ہیں۔ اب جیسے ہی کوئی برائی ہونے لگتی ہے تو ایک الارم سا بجتا ہے جس سے کافی فائدہ ہوتا ہے۔ حضرت جی! جو برائیاں سامنے آئی ہیں کیا وہ ایک ہی مرتبہ آپ کو لکھ بھیجوں یا اس کی کوئی خاص ترتیب ہے۔ اللہ پاک سے دعا بھی ہے کہ آپ کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمام عیوب مجھ پر کھول دے اور ان سے نجات عطا فرمائے۔ آمین۔
جواب:
جو برائیاں و مسائل آپ کی سمجھ میں آئے ہیں ان سب کو لکھ لیں۔ ان شاء اللہ ترتیب بن جائے گی۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ!
I have been doing ذکر of ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“ two hundred”اِلَّا اللّٰہ“ two hundred”لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو“ two hundred”حَق“ six hundred and اسم ذات two thousand۔
This I have continued with for 2 months now. regarding کیفیت, I do not have any, just that sometimes I feel as though I am in front of اللہ and sometime as though I am alone. it's also a strange feeling, difficult to describe in words۔ when I feel that اللہ’s connection has been lost. it makes me cry a lot and when I feel that I am with اللہ I feel content and nothing in the word matters, I cannot sense or feel any of my لطائف however in your physical company my لطائف
لطیفۂ قلب and روح become loud and clearly active. with regards toward worries and difficulties they seems to be having less of an effect on my heart than before as I feel that اللہ knows everything and I continue to make دعا with strong یقین.
if درود, feeling are so pure and clean, it makes me cry, thinking how sinful I am and how عظیم نبی پاک ﷺ is۔
if there is any good in there in it and the above its only through your blessing and دعا and if it is bad then I seek forgiveness from اللہ regarding this. الحمد للہ this has become 2nd nature now and very easy. الحمد للہ. I seek your guidance and دعا always I do شکر to learn from blessing me with such humble شیخ.
جواب:
Okay you can continue this ذکر till something new comes ان شاء اللہ but you tell me each month this is very good, anyhow your کیفیت is not bad because some time قبض is comes coming and sometimes بسط is coming so when you see that you are disconnected from اللہ it is قبض and when you see you are with اللہ it is بسط, so قبض and بسط these are like days and night and it becomes evident different time so therefore you should not worry, both have very good effects on ایمان and heart. so therefore you may continue as it is and yes of course when he has to do شکر when he clearly understand something because فہم is the best thing.
رسول اللہ ﷺ said: if اللہ سبحانہ و تعالیٰ wants to give some good thing to someone so he gives him فقاہت, so فقاہت means the understanding of things clearly which are related to دین and کیفیات, so therefore of course one has to do شکر on these and nothing has to change now, but ان شاء اللہ you will tell me each month with in probably I may be communicating you something which is important.
سوال نمبر 31:
السلام علیکم شیخ
As instructed by you I have completed one month of ذکر
”اللّٰہ اللّٰہ“ for 1000 times daily kindly advise besides۔ I shall be ان شاء اللہ leaving back to China after one year research on تبلیغ in Pakistan in early November۔ دعا is requested
جواب:
Of course I am asking اللہ سبحانہ و تعالیٰ for you and for your betterment of course you are doing very good job and it is good that you have continued your ذکر and now please do 1500 times اللہ اللہ daily, of course it may be you can say consider more but i want you give you more benefits before, because with this ان شاء اللہ العزیز your لطائف will become activated by itself ان شاء اللہ and then you will be able to understand many things which are regarding this. so ان شاء اللہ العزیز if anything of interest you have you can ask me and before leaving to China you can consult me for those things which are necessary and this regard, because it becomes very difficult from China to contact, so therefore you can ask me at that time.
سوال نمبر 14:
ایک ذاتی مسئلہ کے سلسلے میں آپ کی رہنمائی درکار ہے۔ میرا دل خدا کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتا۔ اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں اور محرومیوں کا ذمہ دار خدا کو ٹھہراتا ہوں۔ روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں اور مشکلوں پر گلے شکوے کرتا رہتا ہوں اور خاکم بدہن کبھی کبھار غلط باتیں بھی منہ سے نکل جاتی ہیں، براہ مہربانی اس معاملے میں مدد فرمائیں۔
جواب:
انسان اتنا تو جانتا اور سجھتا ہے کہ جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہ میرے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس کی عظمت دل میں ہونی چاہیے کیونکہ اس کا ایک چھوٹا سا فیصلہ میرا سب کچھ تباہ کر سکتا ہے۔ وہ ذات صمد ہے، بے نیاز ہے، ہم لوگ محتاج ہیں۔ ہم لوگ اس ذات کے ساتھ برابر کی position پر تو ہیں ہی نہیں، لہٰذا راضی ہونے اور نہ ہونے کا کیا سوال!
جب دل و دماغ کی ایسی حالت ہو، اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہو تو ویسا ہی کرنا چاہیے جو دنیا کے عقلمند ترین حضرات نے کیا۔ اور وہ طریقہ ہے نیاز مندی کا، معافی مانگنے کا۔ بڑے بڑے لوگ معافی مانگتے رہے ہیں۔ آپ قرآن مجید میں دیکھیں۔
﴿لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (الانبیاء: 87)
ترجمہ: ”(یا اللہ!) تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو ہر عیب سے پاک ہے، بیشک میں قصور وار ہوں“۔
﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (الاعراف: 23)
ترجمہ: ”اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم نامراد لوگوں میں شامل ہو جائیں گے“۔
یہ پیغمبروں کی دعائیں ہیں۔ پیغمبر اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے مقبول اور قریب انسان ہوتے ہیں۔ جب وہ اتنی عاجزی سے دعا مانگ رہے ہیں تو ہم لوگوں کی کیا حیثیت ہے۔
آپ یہ دونوں دعائیں کثرت کے ساتھ پڑھا کریں۔ زیادہ وقت با وضو رہیں اور نماز کی پابندی کیا کریں۔ ہر نماز کے بعد اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا اس طرح مانگا کریں:
﴿اَللّٰھُمَّ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ﴾ (الفاتحۃ: 5-7)
یہ دعا مانگا کریں، ان شاء اللہ اللہ پاک بہتری فرمائے گا۔
سوال نمبر 15:
حضرت! کیا دین کا کام کرنے کے لئے خلافت کا ملنا ضروری ہے؟ ایک بہت بڑے عالم نے فرمایا کہ اب تو خلافتیں تقسیم ہو رہی ہیں، ہر ایرے غیرے کو مل رہی ہیں۔ یہ خلافت کیا چیز ہے کہ اس میں اتنی attraction ہے۔
جواب:
جن میں حب جاہ کا مرض ہوتا ہے ان کو خلافت چاہیے ہوتی ہے۔ وہ بڑا بننا چاہتے ہیں لوگوں کے سامنے نمایاں ہونا چاہتے ہیں۔ یہ ایک روحانی مرض ہے، اس مرض کو دور کرنا ہے۔ دین کے کام کے لئے خلافت کا ملنا ضروری نہیں ہے۔ بہت سارے حضرات ایسے ہیں جو خلفا نہیں ہیں مگر خلفا سے بڑھ کر اللہ کے قریب ہیں، ان سے زیادہ اللہ کے پیارے ہیں۔
”اَوْلِیَائِیْ تَحْتَ قُبَائِی لَایَعْرِفُہُمْ اِلَّا سِوَائِیْ“
ترجمہ: ”اولیاء میری قبا کے نیچے ہیں ان کو میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا“۔
بلاشبہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کے بہت قریب ہیں لیکن ان کو کوئی نہیں جانتا اور شاید وہ بھی اپنے آپ کو نہیں جانتے۔ لہٰذا خلیفہ ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اللہ پاک کا ہونا ضروری ہے۔ نیت یہی ہونی چاہیے کہ میں اللہ کا بن جاؤں۔ جب یہ نیت ہو گی تو اللہ پاک اس کے بن جائیں گے۔ اللہ کا فرمان ہے:
﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾ (الفجر: 28-30)
ترجمہ: ”(البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پا چکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آ جا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں“۔
یہاں بندگی کا مطالبہ ہے خلافت کا نہیں۔ بس اللہ کا بندہ بننا چاہیے۔ کسی بھی کام کے لئے خلافت کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ تو ایک assignment ہے جس کو دے دی جائے اس کی ذمہ داری ہے۔ جس پہ یہ ذمہ داری نہیں وہ تو بادشاہ ہے۔ وہ دین کا کام ویسے ہی کرتا رہے۔ دین کا کام کرنے کے لئے خلافت لازم نہیں ہے۔ البتہ نسبت کا حصول ایک الگ بات ہے اور خلافت الگ بات ہے۔ خلافت ایک ذمہ داری ہے نسبت ایک مقام ہے۔ جب انسان اللہ کا بن جاتا ہے اور اللہ کے لئے ہو جاتا ہے، پھر اللہ بھی اس کا ہو جاتا ہے یہی نسبت ہے۔ اس نسبت کو حاصل کرنا ضروری ہے۔ یوں کہہ لیں کہ صاحب نسبت ہونا ضروری ہے خلیفہ ہونا ضروری نہیں ہے۔
سوال نمبر 16:
اللہ تعالیٰ پہ یقین کس طرح مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ اور اس بارے میں بھی رہنمائی فرما دیں کہ بزدل شخص اپنے آپ کو کس طرح بہادر بنا سکتا ہے۔
جواب:
اللہ کی ذات پر یقین تب حاصل ہوگا جب اللہ کے سوا باقی سب ذرائع کمزور نظر آئیں گے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ جب آپ کا vision اچھی طرح clear ہو جائے گا۔ تب اللہ کی ذات پر یقین آ جائے گا۔
عموماً انسان دنیا کے ساتھ محبت کرتا ہے اور دنیا کو چاہتا ہے اس لئے دنیا کی چیزیں اس کے لئے مقدم ہوتی ہیں۔ ادھر انسان دکان میں بیٹھا ہوا ہے، اذان ہو گئی، ساتھی ہی گاہک بھی آ گیا ہے تو کیا گاہک کو سودا دینا ضروری ہے یا نماز پڑھنے کے لئے جانا ضروری ہے؟ اب جس کا یقین اللہ پر ہوتا ہے اس کے سامنے یہ دکان اور یہ گاہک کی کچھ ذاتی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ اس کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ یہ دکان اور گاہک وغیرہ محض ذرائع ہیں، اصل رزق دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
مجھے ایک بہت بڑے عالم نے یہ قصہ سنایا۔ ممبئی کا واقعہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ممبئی میں ہماری ایک سیٹھ صاحب کے ساتھ دوستی تھی۔ ایک دن ہم ان سے ملنے گئے۔ ان کی دکان پہ ساتھ کے دیہاتوں کے کچھ لوگ کپڑوں کی گٹھڑیاں لے کر آئے ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے گھروں میں کھڈیاں لگی ہوئی تھیں، وہ ان پہ کپڑے بنتے اور جب شہر کا چکر لگتا تو سیٹھ صاحب کو وہ کپڑے بیچ کر اس کی قیمت سے سودا سلف وغیرہ لے کر گاؤں چلے جاتے۔ ان کا مال بک بھی جاتا اور کچھ ضروریات زندگی کی خریداری بھی کر لیتے تھے۔ یہی ان کا روزگار تھا اور یہی ان کا وسیلہ تھا۔ اِس بار جب وہ لوگ آئے تو سارے گودام پہلے ہی بھرے ہوئے تھے۔ ان دیہاتیوں سے ملازموں نے کہا کہ ہمارے پاس کپڑے رکھنے کے لئے مزید جگہ ہی نہیں ہے اس لئے ہم اس بار کپڑے نہیں خرید سکتے۔ آپ واپس جائیں۔ وہ پریشان ہو گئے کیونکہ ان کے روزگار کا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اتنے میں سیٹھ صاحب آ گئے۔ انہیں ساری بات بتائی گئی تو انہوں نے کہا کہ ان بیچاروں پہ رحم کرو، ان سے کپڑے خرید لو، جگہ نہیں ہے تب بھی خرید کر کہیں نہ کہیں رکھ لو۔ آنے جانے کے لئے راستے کے طور پہ جو جگہ چھوڑی ہوتی ہے وہیں رکھ لینا۔ اگر یہ خالی ہاتھ واپس گئے تو ان کی پورے مہینے کی محنت ضائع جائے گی، سودا وغیرہ بھی نہیں لے جا سکیں گے۔ سیٹھ صاحب نے حکم دے دیا تو ملازموں نے ان سے گٹھڑیاں لے کر رکھ لیں۔ وہ عالم صاحب کہتے ہیں کہ ہم سیٹھ صاحب سے مل کر چلے گئے۔ ایک آدھ دن بعد دوبارہ ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ سارے گودام خالی پڑے ہیں ایک کپڑا بھی موجود نہیں۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ان دیہاتیوں کے جانے کے بعد ایک پارٹی آئی، اور سارے مال کا سودا کر کے لے گئی۔
اب دیکھیں، اسے کہتے ہیں اللہ پر یقین مضبوط ہونا۔ کہ اذان ہو رہی ہے اور دکان پہ گاہک آ گیا ہے۔ آپ کو گاہک کی importance کا پتا ہے لیکن اذان کی importance کا پتا نہیں ہے، لہٰذا آپ نماز کو تاخیر سے پڑھ لیتے ہیں اور گاہک کو پہلے سودا دے دیتے ہیں۔ یہ ایک approach ہے۔ دوسری approach یہ ہے کہ گاہک خواہ چلا ہی جائے، میں نے تو وقت پہ نماز پڑھنی ہے کیونکہ وقت پہ نماز پڑھنا اللہ کا حکم ہے، اور رزق حلال کمانا بھی اللہ کا حکم ہے۔ میں تو رزق کمانے کا کام بھی اللہ کا حکم سمجھ کے کر رہا ہوں، ورنہ دینے والی ذات تو وہی ہے۔ اسی کا حکم ہے کہ نماز کے وقت نماز ہی پڑھی جائے، اور اب چونکہ نماز کا حکم آ گیا ہے اس لئے باقی تمام حکم کالعدم ہو گئے۔ اب میرے لئے صرف نماز ہی کا حکم اہم ہے لہٰذا آپ نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں۔
جب آپ ہر چیز میں یہ approach رکھیں گے اور موجودہ ایمان و یقین کے تقاضوں کے مطابق عمل کریں گے تو یہ مزید بڑھ جائے گا اور مضبوط ہو جائے گا۔
بزدل اس آدمی کو کہتے ہیں جو چیزوں سے ڈرتا ہو۔ جو آدمی اللہ سے ڈرتا ہو وہ پھر کسی چیز سے نہیں ڈرتا۔ بہادر بننے کا طریقہ یہی ہے کہ اللہ کا ڈر ہر چیز میں ملحوظ رکھا جائے گا۔
یاد رہے کہ اسباب کے رخ سے چیزوں کی خاصیات سے ڈرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً آگ سے ڈر کر بچنے والا بزدل نہیں کہلائے گا۔ سمندر سے ڈر کر اس میں چھلانگ نہ لگانے والا بزدل نہیں کہلائے گا۔ اسباب کے درجے میں چیزوں سے ڈرنا کوئی عیب نہیں ہے، لیکن جس وقت اللہ کا حکم آ جائے گا پھر نہیں ڈرنا، پھر اس حکم پہ عمل کریں گے۔
سوال نمبر 17:
حضرت کیا نسبتِ اویسیہ کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا درست ہے کہ یہ نسبت اور اس کا فیض قبر سے حاصل ہو سکتا ہے؟
جواب:
نسبت اویسیہ تو موجود ہے مگر سلسلہ اویسیہ کا وجود نہیں ہے۔ سلسلہ کی تعریف ہی اویسیت کے خلاف ہے۔ اویسیت ڈائریکٹ چیز ہے جبکہ سلسلہ قدم بہ قدم تدریجاً ہوتا ہے۔
اویسیت کے بارے میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جو اپنے دوست کا راز نہیں رکھ سکتا وہ دوستی کے قابل نہیں ہے۔ اویسیت ایک راز ہے۔ یہ اللہ پاک کے ساتھ ہر ایک کا مخفی معاملہ ہے۔ ہمارے جتنے بڑے ہیں سب اویسی تھے، ان کو پہلے ہی اویسی نسبت حاصل ہو چکی تھی، بعد میں ان کو سلسلہ میں لایا گیا، گویا کہ اس نسبت کو ظاہر کرنے کے لئے سلسلہ میں لایا گیا۔ کیونکہ اویسی نسبت از خود نہیں ہو سکتی۔ جیسے شیخ عبد القادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، مجدد الف ثانی رحمہ اللہ علیہم اجمعین وغیرہم۔ ان سب حضرات کے ساتھ ایسا ہی معاملہ رہا۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی نہیں بتایا کہ ہم اویسی ہیں۔ کیونکہ یہ اللہ کے ساتھ راز ہے۔ اگر مل جائے تو اس کی تشہیر نہیں کی جاتی۔
یہ بھی یاد رہے کہ جیسے خواب میں نبی پاک ﷺ کی زیارت سے کوئی صحابی نہیں بنتا۔ اسی طرح اویسی نسبت سے کوئی شیخ نہیں بنتا۔ شیخ سلسلہ کے ذریعہ سے ہی بن سکتا ہے۔
سوال نمبر 18:
گھر میں، دفتر میں یا کسی بھی جگہ پر دین کی بات کرتے ہوئے مشکل ہو رہی ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
اللہ پاک سے مانگنا چاہیے، ان کے لئے دعا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو راہ راست نصیب فرما دے تاکہ دین میں مشکلات پیش نہ آئیں۔
سوال نمبر 19:
حضرت! صحابہ کرام کے دور میں hotels نہیں تھے اور وہ کہیں جایا کرتے تھے تو میزبان کے گھر میں ہی رہتے تھے۔ پرانے دور میں مسافرین مسجد میں بھی رہا کرتے تھے۔ لیکن آج کل علماء حضرات بھی ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے یا پہلا طریقہ زیادہ بہتر ہے؟
جواب:
دیکھیں جو چیز جس درجہ کی ہو اسے اسی درجے میں اختیار کرنا چاہیے۔ مستحب درجے کی ہو تو مستحب سمجھ کر اختیار کرنا چاہیے، فرض درجے کی ہو تو فرض کے طور پہ لینا چاہیے۔
مسافر کے لئے مسجد میں رہنا فرض ہے نہ واجب ہے اور نہ ہی سنت موکدہ ہے۔ صرف مستحب ہے۔ اور مستحب عمل کا اصول یہ ہے کہ اس کی صرف ترغیب دی جا سکتی ہے، اس کے تارک کو ملامت نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اگر کوئی آدمی مستحب عمل کو چھوڑنے والے کو ملامت کرے تو اُسے ملامت کیا جائے گا کہ تو نے اس پہ ملامت کیوں کی۔
مجھے یاد ہے کہ ہمیں بزرگ بتاتے تھے کہ تبلیغی جماعت والے حضرات مسجد میں ٹھہرتے ہیں، انہیں اس پہ استغفار کرنا چاہیے، اعتکاف کی نیت سے ٹھہرنا چاہیے، اور مجبوری سمجھ کر ٹھہرنا چاہیے کہ یہ ہماری مجبوری ہے کہ مسجد میں قیام کر رہے ہیں، ورنہ مسجدیں خدا کے گھر ہیں، وہ خدا کی عبادت کے علاوہ کسی اور کام کے لیے بلا عذر شرعی استعمال نہیں ہونی چاہئیں۔ اسی طرح ہم مسجد کو بطور راستہ کے استعمال نہیں کرسکتے۔ مسجدوں کو قیام گاہ کے طور پہ استعمال کر کے اس میں ٹھہر نہیں سکتے۔
سوال نمبر 20:
حضرت! ”کسی کو معاف کرنا“ اس سے کیا مراد ہے؟ اگر ایک آدمی نے دھوکہ دیا اسے معاف تو کر دیا گیا لیکن chances تو یہی ہیں کہ یہ پھر بھی دھوکہ دے سکتا ہے۔
جواب:
معاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ کی معافی دے دی جائے لیکن آئندہ کے لئے محتاط رہا جائے۔ جیسا کہ مومن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ”لَا یَخْدَع وَ لَا یُخْدَع“ مومن نہ دھوکہ دیتا ہے نہ دھوکہ کھاتا ہے۔ اور فرمایا گیا کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ لہٰذا اگر آپ کو کسی نے دھوکہ دیا ہے تو اس کو بے شک معاف کر دیں لیکن اس سے آئندہ دھوکہ نہ کھائیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن