سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 399

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال نمبر 1:

السلام علیکم۔ حضرت جی! مراقبے میں لطیفۂ روح اور لطیفۂ قلب میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آہستہ آہستہ ’’اَللہ اَللہ‘‘ ہو رہا ہے۔ جبکہ کبھی کبھی کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا، پھر میں خاموشی سے بیٹھی رہتی ہوں۔ اب میں آپ سے اپنی آخرت اور اپنے والد کے ایصالِ ثواب کے لئے روزانہ ستر ہزار times پہلا کلمہ پڑھنے کی اجازت لینا چاہتی ہوں۔

جواب:

آپ نے یہ جو فرمایا کہ لطیفۂ روح اور لطیفۂ قلب پر آہستہ آہستہ ’’اَللہ اَللہ‘‘ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ماشاء اللہ یہ شروعات ہے، آپ اس کو فی الحال جاری رکھیں۔ البتہ آپ نے ٹائم کا نہیں بتایا کہ کتنا ٹائم آپ کرتی ہیں؟ آپ دونوں پر پندرہ پندرہ منٹ کرلیا کریں، جب یہ ذرا مستقل ہوجائے تو پھر مجھے بتا دیجئے گا۔ اور ستر ہزار مرتبہ کلمہ پڑھ سکتی ہیں، اپنے لئے بھی پڑھ سکتی ہیں اور اپنے دوسرے رشتہ داروں کے ایصالِ ثواب کے لئے بھی پڑھ سکتی ہیں۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! لاہور سے اکرام عرض کر رہا ہوں۔ عرض یہ کرنا ہے کہ دل کی کیفیات تو الحمد للہ بہت بہتر ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے وسیلے سے برکتیں عطا فرما رہا ہے۔ حضرت! دل میں مخلوق کے لئے محبت بہت زیادہ آگئی ہے اور میں کسی بھی انسان کو (چاہے وہ جس بھی مذہب سے ہو) جب دیکھتا ہوں تو انتہائی پیار میرے دل میں آجاتا ہے سب کے لئے، پہلے یہ کیفیات میرے دل کے اندر نہیں تھیں، لیکن اب یہ ہے کہ مجھے انسانوں کی بہت زیادہ caring ہوگئی ہے اور محبت بہت زیادہ میرے دل میں پیدا ہوگئی ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ پہلے یہ ہوتا تھا کہ میں موت کا سوچتا تھا یا قبر کا سوچتا یا آخرت کے کسی بھی معاملے کا سوچتا تھا، لیکن اب اس میں ایک عنصر شامل ہوگیا ہے کہ پتا نہیں میرا کیا بنے گا؟ اس وجہ سے میں تھوڑا سا سوچ میں پڑ جاتا ہوں اور پھر پریشانی میں آجاتا ہوں، لیکن پھر میں بس اللہ تعالیٰ کا ذکر شروع کر دیتا ہوں، پھر درود شریف وغیرہ پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ اور یہ ہے کہ مخلوق کے لئے بہت زیادہ محبت آ گئی ہے، الحمدللہ۔

جواب:

مخلوق کے لئے اگر جائز محبت ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ اچھی بات ہے، کیونکہ اس سے مخلوق کے حقوق کی ادائیگی صحیح طریقے سے ہوسکے گی۔ مثلاً والد کی محبت، والدہ کی محبت، بیوی کی محبت، بہن، بھائیوں کی محبت، بچوں کی محبت، پڑوسیوں کی محبت، یہ سب جائز محبتیں ہیں اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ ناجائز ہر صورت میں ناجائز ہی ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو جو خوف محسوس ہوتا ہے یہ اچھی بات ہے، جیسے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے لکھا تھا کہ مجھے خطرہ ہے۔ فرمایا: یہ خطرہ تو معرفت کا قطرہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس خوف سے انسان بچ جاتا ہے۔ البتہ خوف اتنا طاری نہیں ہونا چاہئے کہ امید ہی ختم ہوجائے اور امید اتنی زیادہ نہیں ہونی چاہئے کہ خوف ہی ختم ہوجائے۔ بلکہ اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ۔ یعنی ایمان ان دونوں کے درمیان میں ہے۔ لہٰذا آپ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ بلکہ کہتے ہیں کہ جوانوں کے لئے خوف زیادہ بہتر ہوتا ہے اور بوڑھوں کے لئے امید زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ آپ چونکہ جوان ہیں اس لئے اس خوف سے فائدہ اٹھائیں اور اعمال میں لگ جائیں، جب بھی آپ کے اوپر خوف طاری ہوجائے تو گناہوں سے توبہ کرلیا کریں اور آئندہ اچھے کام کرنے کا عزم کرلیا کریں۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! کل ’’مکتوبات شریف‘‘ کے درس میں آپ نے فرمایا تھا کہ ذکر دو طرح کے ہیں۔ ایک علاجی ذکر اور دوسرا لسانی ذکر، علاجی ذکر ایسے ذکر سے افضل ہے۔ تو کیا علاجی ذکر میں اصلاحی بیانات بھی آتے ہیں؟ یا ان بیانات کو سننے میں جو وقت لگاتے ہیں تو وہ کیا درود شریف سے بہتر ہے؟ جب کہ درود شریف سارے لسانی ذکر سے افضل ہے۔

جواب:

بار بار اس بیان کو سنیں، جو آپ نے سنا ہے۔ کیونکہ ریکارڈ ہوچکا ہے، اس لئے کہ یہ میرا بیان نہیں ہے بلکہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے اور بہت قیمتی بیان ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ویسے درود شریف ذکر سے افضل ہے کیونکہ درود شریف دعا بھی ہے، ذکر بھی ہے اور درود بھی ہے یعنی تینوں چیزیں بیک وقت جمع ہیں۔ اس لحاظ سے یہ افضل ہے۔ البتہ جہاں تک ذکر علاجی ہے تو علاجی ذکر اصل میں اپنی اصلاح کے لئے ہوتا ہے اور موت سے پہلے پہلے اصلاح فرض عین ہے، تو یہ چونکہ فرض عین کو کرنے کے لئے ہے، اور فرض عین کا مقدمہ بھی لازم ہوتا ہے۔ لہٰذا اگرچہ یہ ہے تو ذریعہ لیکن یہ بہت بڑے مقصد کا ذریعہ ہے، جس پر ہماری پوری کی پوری کامیابی کا دارومدار ہے۔ اس لحاظ سے یہ اس سے افضل ہے۔ یعنی درود شریف مستحب عمل ہے، اگرچہ بہت اونچا عمل ہے لیکن مستحبات میں بہت اونچا عمل ہے۔ جب کہ یہ فرض عین کا عمل ہے یعنی اس کے ذریعے سے آپ کا فرض عین پورا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی اہمیت بتائی گئی ہے یعنی مشائخ جو علاجی ذکر دیتے ہیں یہ بہت اہم ہے، لیکن آج کل میں دیکھتا ہوں کہ یہ نہیں ہوتا، مثلاً خواتین جب مجھے بتاتی ہیں تو اکثر کہتی ہیں کہ میں قرآن پاک اتنا پڑھتی ہوں، یہ ذکر کرتی ہوں، یہ ذکر کرتی ہوں۔ لیکن جو مراقبہ میں نے دیا ہوتا ہے وہ نہیں بتاتیں، کیونکہ وہ رہ جاتا ہے، اس لئے کہتی ہیں کہ بس جی وہ مجھ سے نہیں ہوتا۔ حالانکہ جو فرض عین کی چیز ہے یعنی جس سے فرض عین پورا ہوتا ہے، اس میں سستی ہوتی ہے۔ کیونکہ شیطان دیکھتا ہے کہ یہ میرے ہاتھ سے جا رہا ہے، لہٰذا وہ اسی میں رکاوٹیں ڈالتا ہے۔ اسی طرح مردوں کا بھی ذکر والا معاملہ ایسے ہی ہوتا ہے، بلکہ آج ہی کی بات ہے کہ ایک صاحب نے مجھے تمام تفصیلات بتا دیں کہ میں اتنا قرآن پڑھتا ہوں، اتنا درود شریف پڑھتا ہوں، اتنا استغفار کرتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ جو میں نے ذکر دیا تھا اس کا کیا کرتے ہو؟ کہنے لگا ڈانٹ کی وجہ سے میں نے آپ کو بتایا نہیں کیونکہ وہ مجھ سے چھوٹ گیا ہے۔ میں نے کہا ڈانٹ کی وجہ سے کبھی جاب چھوڑی ہے؟ کبھی کاروبار چھوڑا ہے ڈانٹ کی وجہ سے؟ وہاں پر کیوں ڈانٹ سہتے ہو؟ یہاں ہی ڈانٹ کی وجہ سے آپ نقصان برداشت کر رہے ہو۔ دراصل یہ ساری شیطان کی کارستانیاں ہیں کہ شیطان ان چیزوں سے چھڑواتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کی حفاظت فرما دے۔ باقی جو بیانات وغیرہ ہیں، تو بیانات بھی چونکہ اس کا ذریعہ ہیں لہٰذا جو بیانات اس چیز کا ذریعہ ہیں وہ بھی اتنے ہی اہم ہوتے ہیں، اس لئے اصلاحی بیانات ہوتے بھی اہم ہوتے ہیں۔ مثلاً اصلاحی بیان ہو رہا ہو اور آپ اس وقت نوافل شروع کرلیں، اگرچہ نوافل مستحب عمل ہے اور پسندیدہ عمل ہے، اللہ پاک کے سامنے جھکنا ہے، لیکن چونکہ یہاں اصلاح کے لئے بیان ہو رہا ہے، اس وجہ سے اس میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ بہرحال یہ جو اصلاحی بیانات ہیں ان کا بھی ایسے ہی معاملہ ہے۔

سوال نمبر 4:

آپ سے پہلے کسی رشتہ دار عورت کی برائی بیان کی تھی اور وہ الفاظ اب دل میں چبھ رہے ہیں، اپنے الفاظ پر نادم ہوں اور اللہ سے توبہ بھی کی ہے، مگر دل پھر بھی اس رشتہ دار کے لئے صاف نہیں ہوتا۔ اب اپنے دل کی صفائی کے لئے آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔

جواب:

دل صاف نہ ہونا اور بات ہے اور کینہ ہونا اور بات ہے۔ کینہ ہونے کی صورت میں انسان بدلہ لیتا ہے اور بدلہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے کہ جب بھی مجھے موقع ملے گا تو میں اس سے بدلہ لوں گا۔ لیکن دل کا برا ہونا یعنی انقباضِ طبعی ہونا، یہ چونکہ غیر اختیاری ہے لہٰذا اس پر کوئی گرفت نہیں ہے، کیونکہ یہ غیر اختیاری ہے اور غیر اختیاری چیز پر کوئی پکڑ نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر آپ کو کوئی تھپڑ مارے تو آپ کو تھپڑ تو برا لگے گا، اگرچہ آپ نے اس کو دل سے معاف بھی کیا ہوگا لیکن تب بھی آپ کی طبیعت پر بوجھ تو ہوگا۔ یہ جو طبیعت کے اوپر بوجھ ہے یہ انقباضِ طبعی ہے، لیکن کینہ نہیں ہے۔ کینہ اس وقت ہوگا جب آپ اس سے بدلہ لیں گے اور اس کو اپنے دل میں رکھیں گے۔ بہرحال جب بدلہ لینے کا جذبہ دل میں ہوتا ہے، تو وہ کینہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم۔ حضرت! میں فلاں ہوں۔ حضرت! آپ سے ایک مشورہ چاہتی ہوں، مجھ سے روزانہ کے معمولات میں یا چارٹ بھرنے میں کوتاہی ہوجاتی ہے اور اس سے سارا رابطہ خراب ہوجاتا ہے، اس معاملہ میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟ کیا ہر ہفتے کے بعد میں آپ کو پورے ہفتے کی رپورٹ یعنی چارٹ بھیج دیا کروں؟ یا پھر روزانہ رات کو پورے دن کا محاسبہ کر کے، روز کی رپورٹ روزانہ بھیج دیا کروں؟ تاکہ بندہ bound رہے، حضرت کے ساتھ رابطہ بھی قائم رہے کیونکہ اول و آخرت اپنی اصلاح کرنا فرض ہے، چاہے سستی ہو یا کوئی اور مجبوری لیکن سب کرنا ہی ہے، اس لئے کچھ سختی کرنے کے بعد ان شاء اللہ اللہ پاک اپنا فضل فرمائیں گے۔

جواب:

ٹھیک ہے، آپ ہر ہفتے بھیج دیا کریں، کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن چارٹ کی صورت میں بھیج دیا کریں، بیانی انداز میں نہ بھیجا کریں۔ کیونکہ چارٹ کی صورت میں پڑھنا آسان ہوتا ہے، بیانیہ مشکل ہوتا ہے، چونکہ میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہوتا، بہت زیادہ چیزیں ہوتی ہیں، جس میں پھر مجھے ٹائم لگ جاتا ہے۔ لہٰذا چارٹ کی صورت میں بھیج دیا کریں، یہ زیادہ بہتر ہے۔

سوال نمبر 6:

ایک اور صاحب نے بھی السلام علیکم لکھا ہے۔ پھر میں نے پوچھا ہے کون؟ لیکن اس کے باوجود اس نے جواب نہیں دیا۔

جواب:

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو سلیقہ سیکھائے، یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ بغیر تعارف کے سلام بھیجیں۔ اس سے تجسس پیدا ہوتا ہے کہ کون ہے؟ اپنا نام لکھنے میں کیا آپ کو حرج ہے؟ اور اگر آپ اپنے آپ کو چھپانا چاہتے ہیں تو مجھے سلام ہی نہ بھیجا کریں، بس دل میں سلام، دعا میرے لئے کرلیا کریں، یہ کافی ہے۔ کیوںکہ سلام بھی دعا ہے۔ لہٰذا دل میں دعا کرلیا کریں اور بس میرے لئے یہ کافی ہے۔ مجھے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟

سوال نمبر 7:

یہ ایک خاتون نے اپنے آڈیو فارم میں مجھے میسج بھیجا ہے۔

جواب:

میں پہلے بھی یہ عرض کر چکا ہوں اور بالخصوص خواتین مجھے آڈیو میسج نہ بھیجا کریں بلکہ text میسج بھیجا کریں، کیونکہ text میسج کا جواب میں یہاں مجلس میں directly دے سکتا ہوں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، کیونکہ اس کی آواز کوئی نہیں سنتا اور اگر میں خاتون کی آواز سنا دیا کروں تو شرعی طور پر نقصان ہے۔ لہٰذا میں نے پہلے بھی کہا تھا، لیکن پتا نہیں ان کو سمجھ نہیں آرہی، آئندہ کے لئے مجھے text میسج بھیجا کریں تاکہ میں اس وقت آپ کو جواب دینے کے قابل ہو جایا کروں۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں مراقبۂ توحیدِ افعالیہ کر رہا ہوں، جو قلب پر 15 منٹ تک ہے اور اس سے پہلے میں 5، 5 منٹ تمام لطائف پر ذکر بالجہر، اور 12 تسبیحات کا 100، 100، 100 اور 100 ہے۔ حضرت جی! میرا مراقبہ پختہ نہیں ہو رہا تھا، مگر اب کچھ دنوں سے یہ حال ہے کہ دل میں ’’فَعَّالُ لِّمَا یُرِیْدُ‘‘ کا یقین پکا ہو رہا ہے، گویا کہ دل جیسے گواہی دے رہا ہے کہ سب کچھ اللہ ہی سے ہوتا ہے اور ساتھ ہی یہ کہ اپنے شیخ اور آپ ﷺ کے فیض سے میرے دل کا یقین اور پختہ ہو رہا ہے۔ حضرت جی! مراقبہ ملے تین ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے۔

جواب:

مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے مجھے بتایا ہے یا نہیں بتایا۔ تین ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے، تو کم از کم ہر مہینے بتانا تو ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ آپ نے مجھے بتایا ہے یا نہیں بتایا، اگر نہیں بتایا تو نقصان آپ کا ہے کیونکہ ہم نے تو ایک مہینے کے لئے دیا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی progress نہیں کرنا چاہتا تو اس کی اپنی مرضی ہے، ہر ایک کا اپنا اپنا فائدہ ہوتا ہے۔ لہٰذا آئندہ کے لئے اس طرح نہ کیا کریں بلکہ اطلاع بروقت دے دیا کریں، تاکہ بروقت اگر ترقی کی ضرورت ہو تو ترقی دی جائے، ورنہ اصلاح کی جائے اور دونوں صورتوں میں فائدہ ہی ہے۔ اب آپ اگلا جو مراقبہ لطیفۂ روح پر ہے، وہ مراقبہ شروع کرلیں یعنی صفاتِ ثبوتیہ والا۔


سوال نمبر9:

حضرت! کچھ دن پہلے مراقبۂ سِر کا مراقبہ کر رہا تھا کہ جیسے آپ آگئے اور آپ نے فرمایا کہ قلب پر رہو باقی سب چھوڑ دو اور آپ نے پھر میرے لطیفۂ سِر پر ہاتھ پھیرا تو وہ رک گیا، اس وقت لطیفۂ سِر بالکل نہیں چلا اور باقی لطائف بھی، لیکن اس دن کے بعد سے چل رہے ہیں، جب کہ مراقبہ ہوتا ہے۔ حضرت جی! اپنے عیوب کھل کے سامنے آگئے ہیں۔ جس میں سرِ فہرست خود پسندی، عجب اور دنیا کی محبت اور لمبی لمبی خواہشات ہیں۔

جواب:

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی فکر عطا فرما دے۔ جب بھی کوئی اس قسم کی بات ہو تو فوراً بتا دیا کریں، کیونکہ انسان اپنی طرف سے اگر اس کا کوئی مطلب لے لے تو بعض دفعہ نقصان ہوسکتا ہے۔


سوال نمبر 10:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! میرے تین سوال ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میری نعمتوں کو بیان کرو۔ حضرت! اب سر سے لے کر پاؤں تک اللہ پاک کی نعمتیں ہیں، گھر ہے، پیسہ ہے، نوکری ہے، مزید صلاحتیں ہیں، الغرض ان گنت نعمتیں ہیں۔ اگر ان کو دوسروں کے سامنے بیان کریں تو دو باتیں ہوں گی، نمبر 1: اپنی نعمتوں کا دوسروں سے ذکر کرنے سے اپنے اندر بڑائی آئے گی، غرور آئے گا اور نمائش آئے گی۔

نمبر 2: جن لوگوں کے سامنے بیان کریں گے، ان کی دل آزاری ہوگی کیونکہ ہمارے پاس یہ نعمتیں ہیں لیکن ان کے پاس نہیں ہیں، پھر ان کے اندر حسد پیدا ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ ان کی نظر بھی لگ جائے۔ اس صورت میں حضرت! اللہ کی نعمتیں کیسے بیان کریں؟ اور کس کے سامنے بیان کریں؟

جواب:

پہلے سوال کا جواب تو بہت آسان ہے۔ مثلاً آپ اپنے دفتر میں بیٹھے ہیں، دفتر کا سارا فرنیچر دفتر والوں کا ہے۔ اس پر کتنا فخر کرتے ہیں آپ؟ یا آپ کسی بس میں بیٹھے ہیں اور وہ بس بڑی خوبصورت ہے اور آپ کرایہ دے کر جا رہے ہیں۔ اس بس کی خوبصورتی پر آپ کتنا فخر کرتے ہیں؟ ایسے ہی آپ کسی وی آئی پی لانچ میں بیٹھے ہوئے ہیں، جہاز کا ٹکٹ آپ نے لیا ہے، وہ بہت خوبصورت ہے، ایئر کنڈیشن ہے اور سارا کچھ ہے لیکن اس پر آپ کتنا فخر کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ وہ دوسرے کی چیزیں ہیں۔ اور جب دوسرے کی چیزیں ہیں تو اس پر کوئی فخر کرتا ہے؟ اس پر تو کوئی فخر نہیں کرتا۔ لہٰذا نعمتیں تو اللہ کی ہیں۔ یہی چیز اگر آپ کے ذہن میں ہو کہ یہ اللہ کی ہیں، تو پھر آپ کیسے غرور کریں گے؟ اور کیسے تکبر کریں گے؟ یہی تو دل میں لانا ہے کہ یہ اللہ کی ہیں، تمہاری نہیں ہیں۔ لہٰذا جتنا آپ کا اس چیز میں خیال آئے گا کہ یہ ساری چیزیں اللہ کی ہیں تو پھر آپ میں شکر ہوگا، فخر نہیں ہوگا۔ لہٰذا اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ میری نعمتوں کو بیان کرو۔ لہٰذا یہ نعمتیں تیری تو نہیں ہیں، بلکہ یہ تو اللہ کی نعمتیں ہیں، تو اللہ کی نعمتیں بیان کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بیان کرنے میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اگر آپ دل سے اللہ کی نعمتیں سمجھ کے بیان کریں تو پھر نظر بھی نہیں لگے گی۔ دراصل نظر میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمت ہے۔ میں نے اس پر بڑا غور کیا ہے کہ یہ جو نظر لگتی ہے اس میں کیا حکمت ہے۔ تو اس میں یہ حکمت ہے کہ اگر نظر نہ لگتی تو لوگ غریبوں کی زندگی بھی اجیرن کر دیتے یعنی ان کو اپنی نعمتیں دکھاتے اور ان کو ترساتے۔ ظاہر ہے اس سے ان کو تکلیف ہوتی۔ اب کم از کم اس وجہ سے تو وہ چھپا لیتے ہیں کہ نظر نہ لگے۔ اس لئے یہ اچھی بات ہے کیونکہ ان کو کم از کم سکون تو ملتا ہے۔ اب اگر کسی ایسی جگہ جہاں کسی کی دل آزاری کا خطرہ ہو تو بیان نہ کرے، کیونکہ بیان کرنا فرض تو نہیں ہے بلکہ نفل ہے۔ البتہ موقع دیکھ کر انسان کم از کم اپنی نعمتوں سے انکار نہ کرے اور کہہ دے کہ اللہ پاک کا دیا ہوا ہے۔ اور اللہ پاک ہی کا سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرلیا کریں۔

سوال نمبر 11:

حضرت! پچھلے ہفتے سنا کہ ’’مکتوب نمبر 58‘‘ میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بات فرمائی تھی کہ طواف کے دوران ایک جماعت ملی جو ابدال محسوس ہوئی تھی، ان میں سے ایک شخص مخاطب ہوکر بولا کہ میں تمہارا جدِ امجد ہوں، اور بتایا کہ مجھے فوت ہوئے چالیس ہزار سال ہوگئے ہیں۔ پھر کہا گیا کہ آدم علیہ السلام کو آئے ہوئے تو ابھی سات ہزار سال ہوئے ہیں۔ حضرت! یہ ساری بات کیا ہے؟ اور کیا آدم علیہ السلام کے علاوہ اور بھی آدم ہیں؟

جواب:

میرے خیال میں آپ نے غالباً اس کے ابتدائی دو تین منٹ سنے، اس کے بعد کا باقی بیان نہیں سنا۔ یہ پورا بیان recorded ہے، اس کو پہلے سن لیں کیونکہ اسی میں اس کا جواب موجود ہے۔ اب آپ آدھی بات چھوڑ کر آدھی بات پر مجھ سے سوال قائم کردیں کہ پھر دوبارہ میں ’’مکتوب‘‘ سناؤں۔ جیسے اکثر ہمارے سٹوڈنٹس بھی کبھی سوال کرتے ہیں کہ جی! سمجھ نہیں آئی۔ میں نے پوچھا کہ کہاں سمجھ نہیں آئی؟ بتاؤ کہ یہ نہیں سمجھ آئی یا بالکل سمجھ نہیں آئی؟ یہ تو کوئی طریقہ نہیں ہے۔ کیونکہ میں دوبارہ تو کلاس نہیں لے سکتا۔ اس لئے آپ بتا دیں، pinpoint کرلیں کہ کون سی جگہ سمجھ نہیں آئی۔ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’بہشتی زیور‘‘ پر کچھ لوگ مولانا خلیل احمد سہارنپوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو تنگ کر رہے تھے کہ مصنف نے یہ کیوں لکھا ہے؟ یہ کیوں لکھا ہے؟ اتنے میں حضرت خود تشریف لائے، تو حضرت نے فرمایا کہ بھائی! اب مصنف خود آگئے وہ جانے اور تمہارا کام جانے۔ یعنی وہ تم سے نمٹ لیں گے۔ چنانچہ جب حضرت تشریف لائے اور انہوں نے کہا کہ کیا مسئلہ ہے، کیا اعتراض ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس پر تین اعتراض ہیں۔ حضرت نے فرمایا باقی سمجھ میں آگئی ہیں؟ اگر آئی ہیں تو ٹھیک ہے میں پھر امتحان لوں؟ انہوں نے کہا کہ باقی بھی کچھ سمجھ نہیں آئیں۔ حضرت نے کہا کہ پھر ان کو کیوں چھوڑا ہے؟ صرف یہ کیوں لیا ہے؟ اگر وہ بھی سمجھ میں نہیں آئیں تو پھر اس کی کیا وجۂ تخصیص ہے؟ یہ سن کر وہ بھاگ گئے اور کہنے لگے کہ یہ جواب نہیں دینا چاہتا۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ اس لئے ہر چیز کو پوری طرح آپ سنیں کیونکہ سارا کچھ اس میں بیان ہو چکا ہے کیونکہ مجھے یاد ہے۔ آپ کو ان شاء اللہ! سمجھ میں آجائے گا اور اگر اس میں کوئی نکتہ سمجھ میں نہیں آیا تو پھر پوچھ لیجئے گا۔ لہٰذا جو میں نے بیان کیا اگر وہ سمجھ میں نہ آئے تو آپ کہہ دیں کہ یہ چیز مجھے سمجھ میں نہیں آئی، یہاں تک سمجھ آئی اور آگے سمجھ نہیں آئی۔ اور اگر بالکل سمجھ نہ آئے تو آپ کے اوپر اس کا جاننا فرض ہی نہیں ہے یعنی یہ کوئی فرض، واجب علم نہیں ہے بلکہ معرفت کا علم ہے، جس کو جتنا ہوگیا، اس کو اتنا کافی ہوگیا۔ جیسے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ لطائف خفیہ اگر کسی کو سمجھ نہ آئیں تو وہ چھوڑ دے کیونکہ یہ کوئی لازم اور فرضِ عین علم نہیں ہے بلکہ معرفت کی باتیں ہیں۔ تاہم طالبانہ سوال کوئی بھی قائم کرسکتا ہے، ان کے لئے وہ مفید ہوگا، لیکن عوام کے لئے یہ نہیں ہے۔

سوال نمبر 12:

حضرت! پچھلے ہفتے ’’مکتوب نمبر 57‘‘ آپ نے جو پڑھا تھا، اس کی آڈیو ہے۔ لیکن اس میں حضرت یہ رہنمائی فرما دیں کہ کن حالات اور کس وقت میں ذکر اللہ، درود شریف سے افضل ہے؟

جواب:

یہ آڈیو مجھے سنانے کے لئے بھیجی ہے۔ کمال ہے! میں خود یہ آڈیو بول چکا ہوں، اب مجھے سننے سے کیا فائدہ؟ مجھ سے جو سوال آپ نے کیا ہے، میں نے اس میں جواب بھی دیا ہے، اس کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اور پھر اس کا گروپ ’’مکتوبات شریف‘‘ والا موجود ہے، تو ’’مکتوبات شریف‘‘ والے گروپ کے جو ساتھی ہیں ان سے پہلے پوچھو، آپس میں بات چیت کرو، فاروق صاحب سے پوچھو، مفتی صدیق صاحب سے پوچھو کیونکہ یہ حضرات اس پر کام کر رہے ہیں۔ اب یہ ساری چیزیں اگر میں دوبارہ دوبارہ کروں تو پھر آگے میں کیسے چلوں گا؟ اور یہ میں نے ابھی سن بھی لی ہے، اس میں بالکل صاف اور واضح طور پر بتایا گیا ہے اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے۔ لہٰذا آپ اس کو دوبارہ سن لیں اور ذرا ہوش کے ساتھ سن لیں تو ان شاء اللہ سمجھ میں آجائے گا۔

سوال نمبر 13:

حضرت جی! ٹی وی دیکھنے سے کافی دفعہ توبہ کی ہے، عادت ختم بھی ہوجاتی ہے، مگر گھر میں ہونے کی وجہ سے پھر عادت پڑ جاتی ہے۔ حضرت جی! کیا اس کے لئے کوئی مجاہدہ ہے جو نفس کو سزا کے طور پر کیا جائے تاکہ پھر دوبارہ عادت نہ پڑے۔

جواب:

مجاہدہ یہ ہے کہ ٹی وی کے سامنے روزانہ بیٹھا کریں اور اس کو نہ دیکھیں، تقریباً آدھا گھنٹہ روزانہ بیٹھیں اور پھر اٹھ جایا کریں۔ ان شاء اللہ عادت ٹھیک ہوجائے گی۔

سوال نمبر 14:

حضرت جی! کوئی تلاوت یا نعت سن یا دیکھ سکتی ہوں یا وہ بھی نہیں دیکھنی؟

جواب:

سننے میں تو مسئلہ کوئی نہیں ہے، لیکن ٹیلی ویژن پر سننا تو لازم نہیں ہے، بلکہ آپ آڈیو سن لیا کریں۔ آڈیو میں ہمارے پاس کتنی نعتیں ہیں، ان میں سے جو نعت آپ کو پسند ہو وہ سن لیا کریں۔ باقی ٹیلی ویژن کے بارے میں صاف بتاتا ہوں کہ ٹیلی ویژن پر اگر کوئی مولوی صاحب بھی آئے ہوں اور وہ قرآن پڑھا رہے ہوں، پھر بھی ان کو دیکھنا جائز نہیں ہے، البتہ آپ ان کی آواز سن سکتے ہیں۔ کیونکہ مردوں کے لئے عورتوں کو دیکھنا جائز نہیں ہے۔ بالکل ایک ولیہ اگر ٹی وی پر آجائے تو بھی کسی مرد کو اس کا دیکھنا جائز نہیں ہوگا۔ لہٰذا اپنے آپ کو اس سے بچائیں۔ البتہ آڈیوز سے آپ سن سکتی ہیں بلکہ ہماری ویب سائٹ کے اوپر بہت ساری نعتیں موجود ہیں، اور اچھی اچھی نعتیں موجود ہیں، جو نعت آپ کو پسند ہو اس کو بے شک سن لیا کریں اور بار بار سن لیا کریں، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال نمبر 15:

حضرت جی! میں بہت پریشان ہوں، دل بہت رو رہا ہے۔

جواب:

میں نے اپنے بیانات میں صاف طور پر بار بار یہ باتیں کی ہیں، اب دوبارہ بار بار بات کرتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے کہ یہ معاملہ ہمارا اللہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر میں پریشان ہوں تو اپنی پریشانی کا علاج میں اللہ پاک سے مانگوں گا اور اللہ تعالیٰ جتنا میرے قریب ہے اتنا آپ کے بھی قریب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾ (ق: 16)

ترجمہ:1 ’’ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘۔

لہٰذا جب بھی پریشان ہوں تو اللہ پاک کو پکارو اسی پریشانی میں، اور اُس وقت ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل ہوتا ہے۔ تہجد کے وقت اللہ پاک کے سامنے گڑگڑا کر اور رو کر اپنی پریشانی پیش کردیا کریں، اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اللہ پاک اسے سنے گا اور آپ کے مسائل کو حل کرے گا۔ اگرچہ وہ حل بھی کر رہے ہوتے ہیں، لیکن اس کی طرف ہماری نظر نہیں جاتی۔

ایک بات generally میں کرنا چاہتا ہوں اور میرے خیال میں شاید وہ خاتون آجائے تو زیادہ بہتر ہوگا، کیونکہ آج وہ بار بار مسلسل messages کر رہی تھی۔ بات چونکہ ایک ہی تھی اور میں نے جواب بھی دیا تھا، لیکن مسلسل تو اتنا زیادہ میں فارغ نہیں ہوتا کہ میں ہر ایک کو اتنے زیادہ جوابات دیا کروں۔ کیا کبھی کسی میڈیکل سپیشلسٹ کو اتنا تنگ کیا ہے؟ جب وہ دوائی لکھ لیتے ہیں تو کیا بار بار آپ جاتے ہیں ان کے پاس؟ بلکہ جو بتایا ہوتا، اس پر عمل کرنا ہوتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ بس ایک ہفتہ کے بعد آجاؤ، پھر بات کرو۔ اور پھر وہ فیس بھی لیتے ہیں، لیکن ان کو اتنا کوئی تنگ نہیں کرسکتا۔ لیکن یہاں پر چونکہ ہم جواب دیتے ہیں اس لئے ہر ایک مسلسل سوالات بھیجتے ہیں۔ ہمارے پاس اتنا ٹائم تو نہیں ہوتا اور بہت سارے کام کرنے ہوتے ہیں، صرف یہی کام نہیں ہوتا کہ ہم اس کے لئے بیٹھے رہیں کہ لوگوں کے messages کے جوابات دے دیا کریں۔ ہر چیز کا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے، ٹائم ہوتا ہے، اس کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ کل ہمارے جاننے والے کی شادی میں مہندی کی تقریب تھی۔ مجھے بھی تین دفعہ دعوت دی، لیکن میں نہیں گئی۔ کیونکہ آپ کی بات میرے ذہن میں تھی کہ اس طرح کی مجالس میں شرکت سے انسان بہت پیچھے چلا جاتا ہے اور میری ویسے بھی کیا اوقات؟ پھر میں پیچھے بھی چلی جاؤں۔ اللہ مجھ پر رحم فرمائے۔ ایسی مجلس میں نہ جانا صرف آپ کی برکت سے ہوا، ورنہ پہلے میں بہت شوق سے جاتی تھی۔

جواب:

اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی توفیق دی۔ اور یہ قانون سمجھنا چاہئے کہ جلبِ منفعت سے دفعِ مضرت زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اور یہ بھی آپ سب نے سمجھا ہوگا کہ حکیم حضرات جو بتاتے ہیں کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے Prevention is better than cure۔ لہٰذا جن چیزوں سے نقصان ہوتا ہو، اس نقصان سے اپنے آپ کو بچانا لازم ہوتا ہے، کیونکہ پھر بعد میں جو مسائل ہوتے ہیں ان کو بہت مشکل سے دور کیا جاسکتا ہے۔ اور خواتین کا معاملہ تو اس طرح ہے کہ خواتین انفعالی طبیعت کی ہوتی ہیں یعنی اثر جلدی لیتی ہیں۔ لہٰذا اگر اچھی محفل ہو تو بہت جلدی اچھی ہوجاتی ہیں اور اگر بری محفل ہو تو بہت جلدی بری ہوجاتی ہیں۔ اسی لئے ان کو ہم لوگ یہی بتاتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اچھی محفلوں میں جایا کرو اور بری محفلوں سے زیادہ سے زیادہ اپنے آپ کو بچایا کرو۔ اس طریقے سے اچھے ہونے کی آپ کی سپیڈ پھر مردوں سے بھی زیادہ ہوگی، کیونکہ مرد آہستہ آہستہ خراب ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ اگر اچھی محفلوں میں جائیں تو بھی ان کا اثر جلدی جلدی نہیں ہوگا بلکہ دیر دیر سے ہوگا۔ اور اگر خراب محفل میں بھی جائیں تو بھی آہستہ آہستہ خراب ہوں گے۔ لیکن عورتوں کی دونوں چیزیں بالکل ایسی ہوتی ہیں جیسے لوہا جلدی گرم ہوتا ہے اور جلدی ٹھنڈا ہوجاتا ہے، لیکن پانی دیر سے گرم ہوتا ہے اور دیر سے ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے کوشش کرنی چاہئے کہ ایسی مجلسوں میں نہ جائیں، اس میں ہمارا بہت نقصان ہے۔

سوال نمبر 17:

ایک خاتون ہیں جس نے آج مجھے بہت مسجز کیے ہیں، میرے پاس today کی پوری ایک لسٹ موجود ہے۔ وہ لکھتی ہیں:

السلام علیکم حضرت جی! میں تنگ آگئی ہوں اس ماحول سے، حضرت جی! کیا کروں؟ میری برداشت ختم ہوگئی ہے۔

السلام علیکم حضرت جی! فلاں اور فلاں کی وجہ سے کافی ڈسٹرب ہوں، کال میسجز دیکھتی ہوں اور بھی بہت کچھ۔ حضرت میں کیا کروں کہ میرے دل سے ان کے خلاف سب کچھ نکل جائے۔

جواب:

مجھے زیادہ میسج نہ کیا کریں، میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور جو کہوں آپ اس پر عمل کریں۔ اور کل کے جو بیانات ہیں وہ سنیں۔

اس پر انہوں نے کہا کہ یہ بہت لمبا مسئلہ ہے۔ تو میں نے کہا کہ کثرت سے استغفار کریں، اللہ تعالیٰ حالات کو بدل سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خود کو کیسے سنبھالوں؟ میری ہمت جواب دے گئی ہے۔

میں نے کہا استغفار کی بھی ہمت نہیں آپ میں؟ استغفار کی ہمت تو ہے، لہٰذا وہ کریں۔ اس پر کہنے لگیں کہ استغفار بھی کر رہی ہوں، مگر آج نہیں ہوا، میں سمجھتی ہوں کہ ابھی اللہ مجھ سے بہت ناراض ہے۔ کیونکہ میرے دل کو سکون نہیں ہے، مجھے کہیں سے پیار نہیں ملا۔

میں نے کہا کہ ایسا نہیں سوچنا چاہئے۔ آپ میرا ایک شعر یاد رکھیں۔

اس نے کس پیار سے کئے دروازے بند سارے

اک دروازہ کھلا بس اس کا تو کیا دیکھا

یعنی اللہ تعالیٰ کا دروازہ جب کھلا تو بس سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ بہرحال یہ ایک لمبی چوڑی بات ہے، اخیر پر میں نے کہا کہ خدا کی بندی اللہ تعالیٰ کے سامنے رو کر استغفار کریں۔ اور مجھے زیادہ میسج نہ کیا کریں۔

اس پر وہ کہنے لگیں کہ پھر میں اپنے یہ مسائل کس سے ذکر کروں؟

میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے سامنے رو کر بیان کریں کیونکہ ہم نفسیاتی ڈاکٹر نہیں ہیں، بلکہ جو اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں بس ان کی خدمت کرتے ہیں۔ کس نے آپ سے کہا ہے کہ ان چیزوں کی ذمہ داری ہم نے لی ہے؟ یہ چیز ہمارے ذمے ہیں ہی نہیں، جو آپ مجھے بتا رہی ہیں۔ ہمارا کام تو اس سے متعلق نہیں ہے۔ پھر میں نے کہا کہ تہجد کے بعد اللہ تعالیٰ سے مانگیں، ہم خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی بتاتے ہیں۔ باقی یہ دنیا جنت نہیں ہے، آپ سے زیادہ تکلیف میں اور لوگ ہیں، وہ کیا کرتے ہیں؟ دراصل میں اس وجہ سے سب کے سامنے یہ بات کر رہا ہوں کہ سب کو یہ بات سمجھ آجائے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے باقاعدہ اپنی خانقاہ میں یہ لکھا ہوا تھا اور موٹا موٹا کرکے لکھا تھا کہ ہمارے ہاں صرف اصلاح کے لئے آئیں، یہاں پر سکون ملنے کی گارنٹی نہیں ہے، یہاں پر دنیا کے مسائل حل کرنے کی گارنٹی نہیں ہے، کسی کو نیند نہیں آتی تو یہاں نیند آنے کی گارنٹی نہیں ہے، یہاں پر بیماریاں ٹھیک ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے، اس طرح ساری لسٹ لکھی تھی کہ ہماری ذمہ داری یہ نہیں ہے۔ مثلاً اگر آپ ENT Specialist کے پاس اپنے پیٹ کی بیماری کے لئے چلے جائیں تو وہ کیا کہے گا؟ حالانکہ بیماری تو وہ بھی ہے، لیکن وہ یہی کہے گا کہ یہ میری فیلڈ نہیں ہے۔ اسی طرح یہ ہماری بھی فیلڈ نہیں ہے، اور جو ہماری فیلڈ نہیں ہے تو پھر ہمارے پاس اس مقصد کے لئے نہ آیا کرو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ غلط چیز ہے، بلکہ اس کے لئے اور لوگ ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ ہے، اللہ تعالیٰ سے مانگو، طریقہ بھی بتا دیا ہے، لیکن اس کے باوجود لوگ خواہ مخواہ تنگ کرتے ہیں۔ ایک دفعہ میں مسجد امیر معاویہ گیا جو کہ سی ڈی اے کے پاس ہے، ادھر میں نے آدھا گھنٹہ بیان کیا اور آدھا گھنٹہ بیان اسی موضوع پر کیا کہ اپنی اصلاح کیسے کی جائے؟ بیان کے بعد پہلا آدمی آیا کہ جی! میرے سر میں درد ہے آپ دم کردیں، دوسرا آیا جی! میرا فلاں کام نہیں ہو رہا ہے آپ یہ کردیں، تیسرا آگیا، اس نے بھی کوئی دنیا کا بتایا، مجھے غصہ آگیا، میں نے کہا کہ میں نے جو آدھا گھنٹہ باتیں کی ہیں، مجھے بتائیں ان میں سے کوئی ایک بات بھی غلطی سے اگر میں نے کی ہو کہ میرے پاس اس مقصد کے لئے آجاؤ، میری ریکارڈنگ موجود ہے، اس میں سے نکالو وہ بات کہ اگر میں نے یہ بات کی ہو کہ میرے پاس اس مقصد کے لئے آجاؤ۔ اگر کوئی بات غلطی سے بھی میں نے ایسی بات کی ہے تو میں اس پر توبہ کرتا ہوں۔ میں نے تو یہ بات کی ہی نہیں بلکہ میں نے تو سب اصلاح کی بات کی ہے لیکن اصلاح کے لئے میرے پاس کوئی بھی نہیں آیا جس کے لئے میں نے بات کی ہے۔ اور جس چیز کے لئے میں نے بات نہیں کی اس کے لئے سب آرہے ہیں۔ یہ کون سی بات ہے؟ پھر لوگوں کے دماغ ٹھیک ہوگئے، اس کے بعد پھر کچھ لوگ آئے اور ماشاء اللہ وظیفہ لے لیا اور اصلاح کے تعلق کے لئے بات کی۔ تو میں نے کہا کہ ایسی بات ہوتی ہے۔ اسی طرح ’’خیابان سرسید‘‘ میں چھپر والی مسجد میں دم کروانے والے لوگ بہت سارے آرہے تھے، بوتلیں لی ہوئی ہیں اور دم کروانے کے لئے آرہے ہیں۔ مجھے بہت غصہ آگیا، میں نے کہا کہ ہمارا تو یہ کام ہی نہیں ہے، اور میں نے کہا کہ میں اس کے لئے یہاں نہیں آیا ہوں، لہٰذا کوئی بھی میرے سامنے یہ چیزیں نہ لائیں بلکہ جس مقصد کے لئے میں آیا ہوں اس کے لئے بسرچشم۔ لیکن وہ بھی اسی طریقے سے آئیں جس طریقے سے ہم بتائیں گے، اپنی مرضی سے نہیں آنا۔ لہٰذا میں نے کہا کہ اصلاح کے لئے آجاؤ، اگرچہ اس کے لئے ہم کچھ بھی نہیں ہیں لیکن اللہ پاک ایک بہانہ بنا لیتے ہیں، ایک طریقہ موجود ہے، اس کے ذریعے سے اللہ پاک لوگوں کی اصلاح فرما دیتے ہیں، اصلاح تو اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں نہ کہ ہم، لیکن بہرحال اللہ پاک نے ایک ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ لیکن میں نے کہا کہ یہ باقی چیزوں کے لئے ہم نہیں ہیں۔ اس کے بعد الحمد للہ جو لوگ اس انتظار میں پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ ذرا اصلاح کی بات کریں گے، وہ آگے آگئے اور یہ لوگ پیچھے ہوگئے اور پھر کچھ فائدہ ہوگیا اور کچھ عرصہ پھر امن رہا۔ دراصل بار بار مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ میں اس مقصد کے لئے نہیں ہوں، یہ چیزیں ہمارا کام نہیں ہیں۔ اس کے لئے اور بہت کچھ موجود ہے، سب سے بڑی بات تہجد کا وقت ہے کہ آپ ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا: (حدیث قدسی ہے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں) تہجد کے وقت اعلان ہوتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا؟ کہ میں اس کو دوں، ہے کوئی پریشان حال؟ کہ اس کی پریشانی دور کروں، ہے کوئی مصیبت زدہ؟ کہ اس کی مصیبت دور کروں۔ (بخاری: 6321) تو Top priority چیز کون سی ہوگئی؟ اس کے بعد پھر بڑے مقامات ہیں جہاں پر دعا مانگنی چاہئے۔ پھر اس کے بعد عام نماز کے بعد دعا ہے، پھر اس کے بعد دم ہے، پھر اس کے بعد تعویذ ہے۔ لیکن اب تعویذ کا نمبر پہلا ہے، پھر اس کے بعد دم ہے، پھر اس کے بعد اور چیزیں ہیں اور اخیر میں تہجد ہے۔ اگر ہم تہجد کے بارے میں کہتے ہیں تو ہمیں خالی خالی دیکھتے ہیں کہ پتا نہیں کہ اس نے ہمارے اوپر گولی چلائی ہے یا کیا کیا ہے؟ یہ کیوں ہم سے کہا ہے؟ لہٰذا اگر دماغ اتنا خراب ہوجائے تو ہم ان کے ساتھ پھر دماغ کیوں خراب کریں؟ کیونکہ اگر کوئی نہیں سمجھنا چاہتا تو ان کو ہم کیسے سمجھائیں؟ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرما دے اور آئندہ کے لئے ایسی چیزوں سے مجھے تنگ نہ کیا کریں۔

سوال نمبر 18:

حضرت! مجھے کچھ اور پوچھنا تھا آپ برا نہ منائیے گا۔ گیارہ دن کے وظیفے کا میں نے تذکرہ کیا تھا، اس کو ختم کرنے کے بعد مجھ میں واضح تبدیلی آئی تھی، غصہ بہت کم ہوگیا تھا اور میں ہر وقت خوش رہنے لگی تھی، عبادت میں بھی بہت دل لگتا تھا، خیر یہ سب ہوئے۔ کچھ چند سال بعد ’’بارہ کہو‘‘ والے صاحب نے جب جنات کا بتایا تھا، اس دن میں نے ان سے قبض اور بسط کے بارے میں پوچھا تھا، گو کہ یہ اصطلاحات مجھے تب نہیں آتی تھیں، انہوں نے کہا کہ آپ کو وظیفہ صحیح دیا گیا تھا اور آپ کے ساتھ کچھ مؤکل جیسی مخلوق انس رکھتی ہے اور آپ کی عبادت میں ساتھ ہوتی ہے یعنی فرشتے جیسی مخلوق کا انہوں نے کہا۔ پھر ان سے بات کر کے بتایا کہ وہ اب میرے ساتھ رہیں گے اور جب ان سے کہا کہ کوئی نشانی بتا دیں اپنے ساتھ ہونے کی۔ تو اگلے دن صبح فجر کے وقت الارم کے بغیر آنکھ کھل گئی اور سورۂ فاتحہ پڑھتے ہوئے جاگی۔ مجھے یہ پوچھنا تھا کہ راہِ سلوک میں یہ سب ہوتا ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے؟

جواب:

ان چیزوں کا سلوک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ ساری چیزیں سلوک سے تو متعلق نہیں ہوتیں بلکہ بہت ساری چیزیں سلوک کے علاوہ بھی ہوتی ہیں۔ سلوک کسے کہتے ہیں؟ یہ جو کتاب آپ نے پڑھی ہے، اس میں آپ کو بتا دیا گیا ہوگا کہ سلوک کیا چیز ہے۔ سلوک اصل میں دس مقامات کو طے کرنے کا نام ہے۔ جس میں پہلا مقامِ توبہ ہے، پھر مقامِ انابت ہے، پھر مقامِ ریاضت ہے، پھر مقامِ قناعت ہے، پھر مقامِ تقویٰ ہے، پھر مقامِ زہد ہے، پھر مقامِ صبر ہے، پھر مقامِ توکل ہے، پھر مقامِ تسلیم ہے اور پھر مقامِ رضا ہے، پھر اس کے بعد اللہ پاک کی طرف سے رضا کا معاملہ ہوجاتا ہے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ورضو عنہ کی کیفیت ہوجاتی ہے، جس کو ہم کہتے ہیں نفسِ مطمئنہ۔ جب نفسِ مطمئنہ نصیب ہوجاتا ہے تو اس کے بعد کیفیتِ احسان بھی نصیب ہوجاتی ہے۔ یہ ساری باتیں ایک practice ہیں۔ لیکن زندگی میں بہت سارے واقعات لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں، مثلاً یہاں جیسے جنات کی بات آگئی، تو کیا سب لوگوں کو جب جنات پکڑ لیں تو پھر سلوک طے ہوگا؟ ظاہر ہے کہ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگرچہ جنات کا ہونا حقیقت ہے، یہ نہیں کہ ہم اس کو نہیں مانتے، بلکہ جنات بھی ایک حقیقت ہے، سورۃ الجن قرآن پاک میں ہے، لہٰذا جنات تو اپنے طور پر ایک حقیقت ہے۔ لیکن ہر ایک آدمی کے لئے جنات کا آجانا یہ سلوک کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اسی طرح خواب بھی آسکتے ہیں اور کسی کو بھی آسکتے ہیں۔ لیکن اس کا سلوک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ جن کو زندگی میں ایک خواب بھی نہیں آتا، لیکن ان کا سلوک طے ہوجاتا ہے جبکہ بہت سارے لوگ ہیں جن کو سو سو خواب روزانہ آتے ہیں، لیکن ان کا سلوک طے نہیں ہو چکا ہوتا۔ لہٰذا خوابوں کے ساتھ بھی سلوک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح یہ جو قبض و بسط ہے، یہ چیزیں آسکتی ہیں۔ قبض کا مطلب یہ ہوتا کہ کیفیات کا رک جانا، جیسے اندھیرا ہوجاتا ہے۔ اور بسط کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کیفیات کا حاصل ہوجانا۔ جیسے دن ہوجاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہوتا ہے، کبھی قبض کے ذریعے سے امتحان لیتے ہیں اور کبھی بسط کے ذریعے سے۔ جیسے کبھی صبر کے ذریعے سے امتحان لیتے ہیں تو کبھی شکر کے ذریعے سے امتحان لیتے ہیں۔ لہٰذا یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ لیکن جو سلوک ہے وہ بالکل different چیز ہے۔ وہ (یہی ہے جیسا کہ بتایا تھا کہ) کسی شیخ کامل کے ذریعے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے، جس میں آٹھ علامات موجود ہوں۔ اور یہ علامات کتاب میں تفصیل سے موجود ہیں جو آپ پڑھ رہی ہیں۔ یہ خاتون فرما رہی ہیں کہ یہ سب منزل نہیں ہیں، جس پر توجہ دی جائے، مگر صرف پوچھنا یہ ہے کہ کیا ایسا بھی سالک کے ساتھ ہوتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اگرچہ وہ سالک نہ بھی ہو۔ اس وجہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال 2: حضرت! یومِ عرفہ کی فجر کی نماز میں مجھ پر ایک کیفیت طاری تھی، اور نماز کے بعد میں دعا کرتے ہوئے بہت گریا کر رہی تھی، تب میں نے ایسے مقام کا مشاہدہ کیا جس سے میں عرش پر ہوں اور ایسی understanding ہے جیسے رب الجلال کی رحمت جوش میں ہے۔ جو بھی مانگو عطا ہوجائے گا، اس وقت میرے دل میں آیا کہ میں اپنے دشمنوں کے لئے اس غفور سے مغفرت اور ہدایت مانگ لوں، تو بس میں نے یہی دعا مانگی۔ اسی دن ظہر کی نماز میں نے ڈرائنگ روم میں تخلیہ میں پڑھی، روضۂ رسول ﷺ کی تصویر فریم میں لگی ہوئی ہے، جو میرے شوہر نے ایک پینٹر سے بہت شوق سے بنوائی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب میں نے نماز ختم کی تو اس تصویر پر نظر جم گئی اور اس میں درودِ ابراہیمی پڑھتی رہی عادۃً، اس وقت ایسا لگا جیسے وہ پینٹنگ ایک دم زندہ ہوگئی ہو، اس میں محبت، شفقت اور لطف و کرم جھلکنے لگا، جو مجھ پر فوکس تھا، میں ان سب کے زیرِ اثر بہت obliged ہوگئی اور بہت روئی کہ کہاں میں اور کہاں وہ پاک ہستی جو مجھ پر بہت مہربان ہوگئی۔ اس دن مجھے سمجھ آیا کہ صحابہ کرام کو کیسا محسوس ہوتا ہوگا جب وہ آپ ﷺ کی صحبت میں ہوتے ہوں گے۔ اور بالکل یہی دوبارہ ہوا جب میں نے اس دن اسی جگہ باقی نمازیں ادا کیں۔ اور یہ میرا وہم نہیں تھا بلکہ مجھے خیال آیا کہ دشمن کے حق میں دعا کرنا حضور ﷺ کی سنت ہے، شاید اسی کو ادا کرنے سے میری طرف نظر کرم ہوگئی، کیا واقعی ایسے ہوا ہوگا؟

جواب:

ماشاء اللہ! آپ نے سوال بڑا اچھا کیا ہے۔ کیونکہ جو جواب میں دے رہا ہوں اس سے اور بھی بہت سے لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ دراصل حجابات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک ہوتے ہیں حجابات ظلماتی اور ایک ہوتے ہیں حجابات نورانی۔ نورانی حجابات زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ نورانی حجابات کا معاملہ اس طرح ہوتا ہے کہ وہ اچھے حالات کی صورت میں ہوتے ہیں اور اگر حجابات شیطان کی طرف سے ہوں تو اس سے misguide کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ہمارے ایک بزرگ تھے جو سادات میں سے تھے، بڑے آدمی تھے اور بڑے بزرگ تھے، انہوں نے مجھے خود یہ واقعہ سنایا کہ میں جس قبرستان میں جاتا تو قبرستان سے مردے اٹھ جاتے اور میرا استقبال کرتے اور مجھ پر بڑی شفقت فرماتے۔ میں نے کسی سے اس کا ذکر کیا کہ اس طرح میرے ساتھ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، اب آپ یوں کریں کہ جس وقت بھی آپ کے سامنے کوئی بظاہر ولی اللہ کسی بھی قبر سے کھڑا ہوجائے اور آپ کو سلام کرے یا پیغام دے تو اس سے یہ درخواست کرلینا کہ مہربانی کر کے قرآن پاک مجھے سنا دیں۔ شیطان چونکہ قرآن پاک نہیں سنا سکتا، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ ﷺ کی شکل مبارک میں شیطان کا آنا ممنوع ہے، اسی طرح قرآن شریف بھی وہ نہیں سنا سکتا، کیونکہ یہ دروازہ اس کے اوپر بند ہے۔ لہٰذا اگر وہ شیطان ہوگا تو بھاگ جائے گا اور غائب ہوجائے گا۔ یہ بزرگ کہنے لگے کہ ایسے ہی ہوا یعنی جب بھی میرے سامنے کوئی آتا تو میں ان سے درخواست کرتا کہ مہربانی کر کے کچھ قرآن سنا دیں، تو وہ فوراً غائب ہوجاتا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد کوئی کوئی ملا ورنہ اکثر غائب ہوجاتے۔ میں نے پھر ان سے سوال کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ شیطان آپ کو کیوں یہ کرنا چاہتا ہے؟ وہ کہنے لگے کہ مجھ میں تکبر پیدا کرنا چاہتا تھا، عجب پیدا کرنا چاہتا تھا کہ تو بڑا بزرگ ہے۔ لہٰذا یہ بزرگی سب چیزوں کا پیش خیمہ ہے، جس کو بزرگی کا شک ہوجائے تو یہ بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ اس میں گھاٹیاں ہوتی ہیں، اسی لئے شیخ کامل ہوتا ہے جو ان چیزوں سے نکالتا ہے۔ میں نے اپنے کچھ احوال اپنے شیخ کو بتائے، تو حضرت نے فوراً فرمایا: دور کرو، یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔ حالانکہ لوگ اس پر بڑے خوش ہوتے ہیں کہ اوہ ہو! ہمیں تو یہ چیزیں نظر آئی ہیں، یہ چیزیں نظر آئی ہیں۔ حالانکہ وہ کھیل ہوتے ہیں، ہمارے ساتھ وہ چیزیں کھیل رہی ہوتی ہیں۔ دراصل خواب میں آپ ﷺ کی صورت مبارک میں شیطان نہیں آسکتا، لیکن آپ ﷺ کی آواز کو بدل کر اپنی آواز اس میں شامل کرسکتا ہے اور یہ صحابہ کرام کے ساتھ زندگی میں بھی ہوا ہے۔ وہ یہ کہ آپ ﷺ نماز پڑھا رہے تھے اور پیچھے سے لوگوں کو جو آواز پہنچی اس میں بت کی طرف سے بھی سفارش کا تذکرہ تھا یعنی لات اور عزیٰ کا، تو صحابہ کرام حیران ہوگئے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ لہٰذا شیطان اگر زندگی میں ایسا کرسکتا ہے تو خواب میں کیوں نہیں کرسکتا؟ اس لئے ایسی چیزوں سے بچنا ہوتا ہے۔ جیسے ہماری پشتو میں کہتے ہیں ’’ہمارے دوست به دې وژړوی اؤ دښمن به دې وخندوی‘‘ یعنی دوست تجھے رلا دے گا اور دشمن تجھے ہنسا دے گا۔ اب شیطان ہمارا دشمن ہے، اس لئے وہ ہمیں اس قسم کے خیالات لا کر خراب کرے گا، یعنی بظاہر تو ہمیں خوش کر لے گا لیکن اصل میں ہمیں خراب کر دے گا۔ اگرچہ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ شیطانی ہوا ہے، لیکن ان چیزوں کا خطرہ ضرور ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سے بزرگی کا کوئی میسج نہیں لینا چاہئے، بلکہ بزرگی کا میسج موت کے وقت مل جائے تو پھر شکر کر لو۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ﴾ (حم سجدہ: 30)

ترجمہ: ’’جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو اس پر بیشک فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اتریں گے کہ: نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کا غم کرو، اور اس جنت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے‘‘۔

یعنی موت کے وقت اگر کسی کو مل گیا تو پھر شکر کرے، لیکن اس سے پہلے بزرگی کے نام سے بھی بھاگنا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا آخری وقت آگیا، بیٹے پاس بیٹھے تھے، وہ بھی چونکہ علماء تھے، تو انہوں نے تلقین شروع کرلی ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ یعنی کلمہ پڑھنا شروع کرلیا، کیونکہ تلقین کا طریقہ یہی ہوتا ہے۔ لیکن حضرت بار بار کہتے: ابھی نہیں، ابھی نہیں، ابھی نہیں۔ حضرت کے بیٹے حیران ہوگئے کہ یا اللہ! یہ کیا ہوگیا؟ حضرت تو عمر بھر ذاکر و شاغل رہے، اب اس وقت کلمہ نہیں پڑھ رہے ہیں، کیا وجہ ہے؟ لیکن وہ چونکہ موت کا وقت نہیں تھا بلکہ وہ غشی ہوگئی تھی، تو جب افاقہ ہوگیا تو بیٹوں نے پوچھا حضرت! یہ کیا بات تھی؟ آپ کہہ رہے تھے کہ ابھی نہیں، ابھی نہیں، فرمایا: مجھے تو آپ کی آواز سنائی نہیں دی، لیکن شیطان میرے سامنے مجسم کھڑا تھا اور مجھے بار بار کہتا تھا: اے احمد! تو مجھ سے بچ کے چلا گیا، اے احمد! تو مجھ سے بچ کے چلا گیا۔ اور میں کہہ رہا تھا کہ نہیں، ابھی نہیں، ابھی میں زندہ ہوں، ابھی نہیں، ابھی تیرا شر باقی ہے۔ تو ہمیں اپنے بزرگوں نے اس مسئلہ میں الرٹ کیا ہوا ہے کہ کسی بھی طرح اگر تمہارے دماغ میں بزرگی کا کوئی وسوسہ آئے تو اس وسوسے سے دور بھاگو، یہ ہمارے لئے بہت خطرناک بات ہے۔ لوگ برے خوابوں سے ڈرتے ہیں، لیکن میں ایسی چیزوں سے ڈرتا ہوں۔ لوگ برا خواب دیکھتے ہیں تو وہ سناتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ پتا نہیں کیا ہوگیا؟ لیکن ہمارے لئے جو سب سے زیادہ خطرناک چیزیں ہیں وہ یہی نورانی حجابات ہیں، نورانی حجابات کو برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، لہٰذا ہم لوگوں کو اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔

سوال نمبر 19:

حضرت! اللہ پاک کی ناراضگی ویسے محسوس نہیں ہو رہی جیسے پہلے تھی، شاید اس نے مجھے بخش دیا ہو، لیکن وہ خاموش ہے، پہلے میں اس کو ایڈریس کر کے کوئی concerned بتاتی تھی، تو اس کا جواب میرے اندر سے آتا تھا، جیسے کوئی کہ رہا ہے کہ جس نے خلق کیا، کیا وہ بے خبر ہے؟ اس کے علاوہ کئی بار میری حوصلہ افزائی کی، میرے اندر سے Warnings and signals بھی ملتے آرہے تھے، اچھے برے کام کرنے سے پہلے میں فوراً رک جاتی، اگر مجھے اندر سے کوئی warning ملتی تھی کہ یہ کام نہیں کرنا۔ مگر فی الحال خاموشی ہے۔

جواب:

جب آپ کا کسی شیخ کے ساتھ رابطہ ہوا ہو یا ہوجائے یا ہو چکا ہوگا تو اس وقت یہ میسج ان کو ملا کریں گے، آپ کو نہیں۔ اور وہ محفوظ میسج ہوں گے، کیونکہ آپ کو جو میسج مل رہا ہے، اس کے اندر کسی اور طرف سے کچھ اور چیزیں incorporate ہوسکتی ہیں۔ لیکن جو ان کے دل میں آپ کے لئے آئے گی اس میں وہ چیز نہیں ہوگی۔ اس وجہ سے میرے خیال میں اب آپ اُن پر چھوڑیں، اگر آپ کو اس سلسلے میں اطمینان ہے، تو ان شاء اللہ جب بھی ایسی بات ہوگی تو آپ کو اُس کے لئے ان شاء اللہ! بتا دیا جائے گا، مبارکباد بھی ہوگی، سارا کچھ ہوگا، لیکن اب وہاں کی طرف سے آئے گی، کیونکہ جب یہ سلسلہ ہوجاتا ہے تو پھر وہیں سے ہی چیزیں آتی ہیں اور یہی محفوظ طریقہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر 20:

میں دو دفعہ اسی راستہ پر چل کے پلٹ گئی تھی یا رک گئی تھی، اب یہ تیسری بار ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی چیز ہمارے راستے میں رکاوٹ ہے، جو اکثر ہم stuck ہوجاتے ہیں۔

جواب:

میں تو کہتا ہوں کہ آپ خوش قسمت ہیں جو غلط پیروں سے بچی ہوئی ہیں، الحمد للہ۔ اس لئے میں تو آپ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ کو اللہ پاک نے بچا دیا ہے اور آپ کو اللہ پاک نے detract ہونے سے بچایا ہے۔ یہ تو اللہ پاک کا فضل ہوتا ہے۔ مثلاً اگر بہت خوبصورت راستہ ہے، لیکن وہ راستہ کسی اور طرف جا رہا ہے، جہاں آپ نے جانا ہے وہاں نہیں جا رہا، تو آپ جتنا بھی جائیں گی اتنا ہی اپنی منزل سے آپ دور ہو رہی ہوں گی۔ اس کے مقابلے میں اگر کانٹوں سے بھرا راستہ ہے، پتھریلا راستہ ہے، لیکن وہ آپ ہی کی منزل کی طرف جا رہا ہے، لیکن آپ کو کوئی سمجھانے والا ہو کہ یہ راستہ ٹھیک نہیں ہے، لیکن آپ کہتی ہیں کہ نہیں راستہ یہی ہے۔ ظاہر ہے آپ جلدی پہنچ جائیں گی اور آپ کو فائدہ ہوجائے گا۔ لہٰذا اب جو باقی باتیں ہیں جو اپنی طرف سے internal یعنی جو آپ کی signaling ہے، میرے خیال میں اب وہ divert ہو چکا ہوگا اور اب آپ صرف اسی پر dependent رہیں کہ آپ کو اپنے سلسلے کی طرف سے کیا چیز آرہی ہے، بس اسی پر عمل کرلیں اور اپنی طرف سے اس قسم کی جو خیالی چیزیں ہوتی ہیں ان سے اپنے آپ کو محفوظ فرما لیا کریں۔ یہ بہت ہی اہم بات ہے۔ کیونکہ ان چیزوں میں سب سے بڑا خطرہ یہی ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے بارے میں کوئی نیک گمان ہونے لگے۔ جیسے حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ بہت مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ انہوں نے شعر میں کہا ہے کہ مجھے اپنے شیخ شہاب سے دو نصیحتیں ملی ہیں۔ ایک نصیحت یہ ہے کہ ’’بر خود بین مباش‘‘ یعنی اپنے اوپر نیک گمان نہ کرو۔ اور ’’بر غیر بدبین مباش‘‘ یعنی دوسرے کے اوپر بدگمانی نہ کرو۔ اس میں بہت بڑا سبق ہے جو ان حضرات نے ہمیں دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس راستے کی بہت زیادہ خیر نصیب فرما دے۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا ساتواں ذکر چل رہا ہے۔ عموماً دن میں کرتا ہوں، ایک دن بہت مصروف تھا تو تجہد کے وقت کیا۔ کیا یہ ٹھیک ہے یا دوبارہ شروع کر لوں؟

جواب:

دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کا ذکر ٹھیک چل رہا ہے، البتہ یہ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اس صورت میں ناغہ ہونے کا امکان ہوتا ہے اور ناغے سے بچنا ہوتا ہے۔


وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ نوٹ: تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔