سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 397 ذکر اور دعا

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

حضرت! مفتی صاحب نے پانی پینے کی چھ سنتیں بتائی ہیں، جن میں ایک سنت ہے؛ تین سانسوں میں پانی پینا۔ حضرت! عملاً پانی پینے کے طریقہ کے بارے میں ایک صاحب کی تحقیق ہے کہ ایک سانس میں پانی لے لیں اور اس سانس کو روک کے رکھیں، پھر اس سانس کے اندر آپ چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتے جائیں، جب تک کہ پانی آپ کے منہ میں ختم نہ ہو۔ حضرت! یہ ان صاحب نے تحقیق کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ پانی پینے کا اصل طریقہ یہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے کبھی دمہ کی بیماری اور سانس کی تکلیف نہیں ہوگی۔ اس طریقے میں ایک سانس کے اندر چھوٹے چھوٹے گھونٹ تقریباً بیس پچیس ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے پانی پینے کے بعد کافی سانس بھی چڑھ جاتا ہے۔ جن صاحب کی یہ تحقیق ہے، وہ ایک ڈاکٹر ہیں، وہ عالم نہیں ہیں۔ ان کی ویڈیو گردش کررہی ہے۔ مفتی صاحب نے اس طرز پہ عملاً پانی پی کے ان ساتھیوں کو دکھایا ہے جو وہاں پہ بیٹھے تھے۔

حضرت! یہ بات سمجھ نہیں آئی، اس کے بارے میں confusion ہے، کیونکہ یہ ان صاحب کی اپنی تحقیق ہے، جیسے اہل حدیثوں کی اپنی تحقیق ہوتی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ چودہ سو سال میں کسی کو دین کی سمجھ نہیں آئی۔ حضرت! عملاً اس طریقہ سے پانی پینا بہت مشکل کام ہے، کیونکہ اس میں کافی دیر لگ جاتی ہے۔ بیٹھ کے اطمینان سے تو پانی پینا چاہئے، لیکن اس کو اتنا لمبا کر دینا سمجھ میں نہیں آیا، اس کے بارے میں confusion ہے۔ جن ساتھیوں نے ان صاحب کی ویڈیو دیکھی ہیں، ان کو بھی اس بارے میں confusion ہوگی۔

جواب:

دیکھیں! آپ دو چیزوں کو mix کر رہے ہیں، ایک میڈیکل ریسرچ ہے اور ایک سنت طریقہ ہے۔ اس وقت ہمارا موضوع صرف سنت طریقہ ہے، میڈیکل ریسرچ ڈاکٹروں کا کام ہے، وہ ہمارا کام نہیں ہے۔ ڈاکٹر اپنے طور پہ جو بھی ریسرچ کریں گے، ہم نہ تو ان کو neglect کرسکتے ہیں اور نہ ان کا اقرار کرسکتے، کیونکہ اگر ان کا آپس میں اختلاف ہے، تو یہ اختلاف بھی تو انہوں نے ختم کرنا ہے، اس لئے ہم تو اس بارے میں نہیں بولیں گے۔ البتہ سنت کے مطابق کیا طریقہ ہے؟ تو اس بارے میں اتنی بات تو فائنل ہے کہ تین سانسوں میں پینا چاہئے۔ باقی! اس کی تفصیلات کے بارے میں ہم اس کو ان شاء اللہ علماء کرام کے گروپ میں سینڈ کردیتے ہیں، تاکہ وہ حضرات اس پر discuss کرلیں، پھر جو نتیجہ ہوگا، وہ ان شاء اللہ آپ کو بتا دیا جائے گا۔

سوال نمبر 2:

حضرت! میں نے یہ بات عرض کرنی تھی کہ اللہ پاک کے بارے میں مفتی صاحب نے فرمایا ہے کہ اللہ پاک جس کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں، تو اس کے اوپر مصیبتیں آتی ہیں۔ حضرت! کیا یہ بات عام لوگوں کو اللہ کے راستے سے دور نہیں کرے گی؟ کیوں کہ وہ سوچیں گے کہ ہم اگر اللہ پاک کی طرف بڑھیں گے، تو ہمارے اوپر تکلیفیں آنا شروع ہوجائیں گی اور ہمارے اوپر مصیبتیں آنا شروع ہوجائیں گی۔ حالانکہ اللہ کی طرف اگر کوئی بڑھتا ہے، سنت زندگی اختیار کرتا ہے، اسلام کی سادہ زندگی اختیار کرتا ہے، تو زندگی تو مزید آسان ہوجاتی ہے۔ اور حضرت! ہمیں عافیت طلب کرنے کا بھی حکم ہے اور قرآن پاک میں بھی آیا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ نیز اگر دیکھا جائے تو مشکلات تو دنیا دار لوگوں پر بھی آ رہی ہیں۔ لہٰذا ایسی بات کرنا کیا صحیح ہے کہ اللہ پاک جس کو محبوب بنا لیتے ہیں تو پھر اس کو تکلیفیں دیتے ہیں۔ اللہ معاف کرے۔ حضرت! یہ بات نئے ساتھیوں کے لئے رکاوٹ تو نہیں ہوجائے گی کہ وہ اس کی وجہ سے دور ہوجائیں گے اور اس کی وجہ سے ڈر جائیں گے۔ کیپٹن سیال صاحب تھے، حضرت مولانا شاہ محمد ذوقی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ کیپٹن سیال صاحب نے ایک صاحب کو ذکر دیا تھا، انہوں نے وہ ذکر کیا، تو مارکیٹ میں کہیں گر گئے، جس سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد انہوں نے ذکر ہی چھوڑ دیا اس ڈر سے کہ اب ہمارے اوپر مصیبتیں آنے والی ہیں۔ اور حضرت! ایک صاحب نے فون بھی کیا تھا کہ میں نے ذکر شروع کیا ہے، تو اب میں ہاسپٹل میں پہنچ گیا ہوں، میری طبیعت خراب ہوگئی ہے اور یہ ہوگیا ہے اور وہ ہوگیا ہے۔ تو کیا حضرت! اس قسم کی باتیں کسی کو اللہ پاک کے راستے اور اس کے قریب ہونے سے دور تو نہیں کریں گی؟

جواب:

اصل میں بے وقت ایک چیز کو analyze کرنے سے مسائل تو ہوتے ہیں۔ مجھے ایک صاحب نے فون کیا اور مجھے کہا کہ جب سے میں نے آپ کا ذکر شروع کیا ہے، میں بیمار ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ کہاں ہوتے ہیں؟ اس نے کہا کہ میں سیٹلائیٹ ٹاؤن میں ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ تو آپ نے بہت اچھی انفارمیشن مجھے دے دی ہے، میں بہت جلدی آپ کی طرف پہنچنے کی کوشش کروں گا، کیونکہ سنٹرل ہسپتال تو آپ کے پاس ہی ہے۔ لہٰذا اس کا ذرا visit بھی کر لیں گے اور اپنے ساتھ کاغذ قلم بھی لے لیں گے اور ہر بیڈ والے سے پوچھیں گے کہ آپ نے کس کا وظیفہ پڑھا تھا؟ جو جو وظیفے وہ بتائیں گے، تو ظاہر ہے کہ ان کے ساتھ بیماری diagnose ہوجائے گی کہ یہ بیماری اس وظیفہ پڑھنے سے آتی ہے۔ لہٰذا اس پر تو اچھا خاصا کام ہوسکتا ہے، تو کیا خیال ہے کہ میں کب آجاؤں؟ اس پر وہ بہت سٹ پٹائے اور مجھے کہنے لگے کہ مجھ سے غلطی ہوئی۔ میں نے کہا کہ اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں، کیونکہ کسی وظیفے سے کسی کے اوپر کوئی تکلیف نہیں آتی۔ تکلیف تو وظیفہ نہ پڑھنے والے پر بھی آتی ہے۔ مثلاً: ہسپتالوں میں جو لوگ پڑے ہیں، انہوں نے وظیفے تو نہیں پڑھے ہیں۔ وظیفے تو اس لئے دیئے جاتے ہیں کہ آسانی ہو، بیماریاں دور ہوجائیں، تکلیفیں دور ہوجائیں۔

ہاں! البتہ آپ نے ابھی جو بات کی ہے، تو اس کے بارے میں میں بتاؤں کہ اگر محبت کے عنصر سے دور کر کے یہ بات کی جائے، تو پھر تو وہی نتیجہ ہوگا جو ابھی آپ نے بتایا ہے، لیکن محبت کے ہوتے ہوئے جب یہ بات کریں گے، تو پھر یہ نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ جب ہم محبت سے خالی ہو کر یہ بات کرتے ہیں، تو پھر نقصان ہوجاتا ہے۔ میں آپ کو بتاؤں کہ یہ حدیث شریف ہے، مفتی صاحب کی بات نہیں ہے۔ آپ ﷺ سے ایک صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میں آپ کے ساتھ محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا؟ انہوں نے پھر کہا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کے ساتھ محبت کرتا ہوں۔ جب اچھی طرح بات پکی کر لی، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر مصیبتوں کے لئے تیار ہوجاؤ۔ (سنن ترمذی، 2350) کیونکہ سب سے زیادہ مصائب انبیاء کرام پر آئی ہیں اور پھر میرے بعد جو شخص ان کے زیادہ قریب ہوگا، اس کے ساتھ یہ معاملہ ہوگا۔ (سنن ترمذی، 2398) پس اس کو محبت کے ساتھ attach کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس دنیا میں ہم کس لئے آئے ہیں؟ کیا مزے کرنے کے لئے آئے ہیں؟ جو مزے کرنے کے لئے آیا ہے، اس کو تو یہ بات نہ بتائی جائے، اور جو اللہ کا بننے کے لئے آئے ہیں اور آخرت میں اچھی زندگی بسر کے لئے آئے ہیں، وہ اس حدیث سے غلط نہیں نکالیں گے، کیونکہ دوسری حدیث شریف بھی ہے "إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللّٰهِ مَنْزِلَةٌ لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَمَلِهِ ابْتَلَاهُ اللهُ فِي جَسَدِهٖ أَوْ فِي مَالِهٖ أَوْ فِي وَلَدِهٖ ثُمَّ صَبَّرَهُ عَلَى ذَلِكَ يُبَلِّغُهُ الْمَنْزِلَةَ الَّتِي سَبَقَتْ لَهُ مِنَ الله» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد"

ترجمہ: رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”بے شک بندے کے لیے اللہ کے ہاں کوئی مقام و مرتبہ مقدر ہوتا ہے جہاں وہ اپنے عمل کے ذریعے نہیں پہنچ سکتا تو اللہ اسے اس کے جسم یا اس کے مال یا اس کی اولاد کے بارے میں آزماتا ہے، پھر اس کو اس پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے حتیٰ کہ وہ اسے اس مقام و مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے جو اللہ کی طرف سے اس کے لیے مقدر کیا ہوتا ہے۔ “ حسن، رواہ احمد و ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجنائز/حدیث: 1568]

پس محبت کے ساتھ اگر اس کو سمجھایا جائے، تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اگر محبت کے بغیر اس کو سمجھایا جائے، تو پھر عوام تو واقعی ڈریں گے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لہٰذا عوام کو بتانے کی ضرورت نہیں اور خواص سے چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خواص کو اللہ تعالیٰ نے یہ معرفت دی ہوتی ہے کہ وہ اس پر خوش ہوتے ہیں۔

باقی! جہاں تک دنیا داری کی باتیں ہیں، تو دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو Apologizing Islam پر believe کرتے ہیں، وہ اسلام کی باتوں پہ شرماتے ہیں، ان کے لئے کوئی دنیاوی reasoning تلاش کرتے ہیں اور اس طرح بتاتے ہیں کہ لوگ ناراض نہ ہوجائیں، لیکن ہم تو Apologizing Islam والے نہیں ہیں۔ اسلام میں آپ ﷺ کی محبت بھی ہے، اللہ کی محبت بھی ہے۔ لہٰذا یہ بات ان لوگوں کو بتانی چاہتے جو آپ ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور آپ ﷺ کی شریعت پر نہیں چلتے اور اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔ ان کو تو بتانا چاہئے کہ یہ کوئی گپ شپ کی باتیں نہیں ہیں۔ ہمارے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھائی! اپنے آپ کو بزرگ نہ سمجھو، سادہ آدمی سمجھو، کیوں کہ اگر تم نے اپنے آپ کو بزرگ سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ بزرگوں والا معاملہ کیا، تو پھر کیا کرو گے؟ پس یہ بات صحیح ہے کہ اپنے آپ کو بزرگ نہیں سمجھنا چاہئے، بلکہ عام آدمی سمجھنا چاہئے، اسی میں فائدہ ہے۔

سوال نمبر 3:

حضرت! اللہ پاک معاف فرمائے، میں نے اپنی اوقات سے بڑھ کر بات کی ہے۔ مفتی صاحب سے ہم بہت محبت رکھتے ہیں، وہ ہمارے انتہائی قابلِ احترام ہیں، اللہ پاک کے بہت پیارے انسان ہیں۔ اللہ پاک پوری دنیا میں ان کا فیض پھیلا دے، اللہ پاک بہت زیادہ قبولیت عطا فرمائے۔ ہم سب ان سے بہت محبت کرتے ہیں۔

جواب:

آمین۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

حضرت جی! علاجی ذکر کا مہینہ مکمل ہوا، جس میں ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ، اور ’’اَللہ اَللہ‘‘ کا ذکر دل سے دس منٹ کے لئے تھا۔ مزید رہنمائی کا طلب گار ہوں۔

جواب:

میں حیران ہوں کہ پتا نہیں لوگوں کو کیا ہوگیا، بار بار سوالات کے جوابات سنتے ہیں، لیکن پتا نہیں ان کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ اگر میں نے دس منٹ کے لئے دل سے ’’اَللہ اَللہ‘‘ کا ذکر بتایا ہے، تو اس کی کیفیت بھی تو ساتھ میں بتانی چاہئے کہ محسوس ہو رہا ہے یا نہیں، یا پھر کس طرح محسوس ہو رہا ہے، اس میں مسئلہ کیا ہے۔ احوال بتانے ہوتے ہیں، یہ احوال بتانے کا سیشن ہے۔ لہٰذا آپ مجھے بتائیں کہ ’’اَللہ اَللہ‘‘ کا ذکر دس منٹ کا جو آپ کر رہے ہیں، تو کیا وہ آپ کو محسوس بھی ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا؟ تھوڑا ہو رہا ہے یا زیادہ ہو رہا ہے؟ نیز کس طرف ہو رہا ہے؟ یہ ساری چیزیں مجھے بتائیں گے، تو پھر میں آپ کو بتاؤں گا۔ یا تو اسی ذکر کو جاری رکھوں گا یا پھر اگلا ذکر بتا دوں گا، یہ آپ کے حالات پر منحصر ہے۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم۔

حضرت جی! ذکر کے دوران مجھ سے ’’حَقْ‘‘ کا ذکر تین دفعہ غیر ارادی طور پر تعداد میں تھوڑا زیادہ پڑھا گیا اور اسلام آباد سے آتے ہوئے وہ ذکر جو عمر بھر کرنا ہے، وہ ایک دفعہ بھول سے چھوڑ دیا تھا۔ حضرت جی! اس پر معافی کا طلب گار ہوں، آئندہ ان غلطیوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔

جواب:

اصل میں بات یہ ہے کہ اس میں بے احتیاطی صورتحال کو بدل سکتی ہے اور غفلت سے انسان بہت پیچھے ہوسکتا ہے۔ ایک دن کے ناغہ سے انسان نے کئی دنوں میں جو ترقی کی ہوتی ہے، اس سے پیچھے ہوجاتا ہے، لہٰذا ناغہ نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اپنا ذکر اپنے صحیح وقت پر پورا کرنا چاہئے۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

حضرت والا مرشدی و مولائی! خدمتِ اقدس میں یہ سوال عرض ہے کہ الحمد للہ مکتوباتِ ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تشریحات میں حضرت والا نے اس بات کو واضح فرما دیا ہے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام چونکہ مبعوث ہوتے ہیں، اس وجہ سے ان کا مخلوق میں ہونا سو فیصد ہوتا ہے، قلباً بھی اور ظاہراً بھی، کیونکہ ان کو مخلوق میں ہی کام کرنا ہوتا ہے، ان کی ہدایت کے لئے ہی وہ آتے ہیں۔ اور اولیاء اللہ جو منتہی مرجوع ہوتے ہیں، ان کی جب مخلوق میں کام کرنے کے لئے تشکیل ہوجاتی ہے، تو ان کو پھر بھی گاہے گاہے اللہ کی طرف لگنا پڑتا ہے، تاکہ پھر سے بیٹری چارج ہوجائے۔ اور انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کا مقام ہر آن بڑھتا رہتا ہے، ہر سانس ان کی عبادت ہوتی ہے۔ تو اس سے انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام اور اولیاء کرام کا فرق تو واضح ہوگیا ہے۔ البتہ حضرت کی خدمتِ اقدس میں سوال یہ ہے کہ جب سو فیصد انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام اور سرکار دو عالم ﷺ مخلوق کی طرف متوجہ تھے، تو ایک روایت میں یہ آتا ہے کہ اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ ﷺ کی خدمت میں پہنچیں، تو سلام عرض کیا۔ سرکار دو عالم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کون؟ کہا کہ عائشہ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کون عائشہ؟ کہا: ابوبکر کی بیٹی، فرمایا: کون ابوبکر؟ کہا: ابوقحافہ کے بیٹے، فرمایا: کون ابوقحافہ؟ پھر گھبرا کر اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا باہر تشریف لے گئیں۔ بعد میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا اللہ کے ساتھ خاص وقت ہوتا ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ یہ بات تو ہمیں سمجھ میں آگئی کہ انبیاء سو فیصد مخلوق میں ہوتے ہیں، مگر اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو کہ مخلوق ہیں، آپ ﷺ اس وقت بظاہر صرف اللہ کی طرف متوجہ تھے، تو اس کو ہم کیسے reconcile کریں۔ نیز امام الاولیاء قطب الاقطاب حضرت مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ یاد آتا ہے، جو ہم نے حضرت مولانا یوسف صاحب سے سنا کہ وہ ان کے حجرہ مبارک میں رمضان مبارک کے دنوں میں داخل ہوئے اور کہا: السلام علیکم، حضرت نے عرض کیا: کون؟ کہا: یوسف، فرمایا: کون یوسف؟ کہا: عبد الرحیم کا بھائی، حضرت نے فرمایا: کون عبد الرحیم؟ حالانکہ یہ دونوں حضرت کے خاص خدام میں سے ہیں۔ مولانا عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ ان کے کاتبِ خطوط تھے۔ پھر فرمایا: کون عبد الرحیم؟ کہا کہ گجرات والے۔ پھر کوئی سوال کیا، تو حضرت مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ پھر میں سمجھ گیا کہ حضرت کی روح اس وقت یہاں نہیں ہے۔ پھر میں نے ادھر ادھر کی بات کر لی، تاکہ حضرت کی landing ہوجائے۔ جب حضرت کی روح کی landing ہوگئی، تو پھر حضرت نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ پھر میں نے پوری بات کی۔

حضرت! اس پر روشنی ڈال دیں، تو کرم ہوگا۔ جزاکم اللہ خیرا احسن الجزا۔

جواب:

ما شاء اللہ! بہت اچھا سوال ہے۔ اس میں ایک بات تو یہ ہے کہ یہ بات بالکل پکی ہے کہ انبیاء کرام صحو والے ہوتے ہیں، یعنی اصحابِ صحو ہوتے ہیں، ہوش میں ہوتے ہیں، سکر میں نہیں جاتے۔ اور کبھی تجلی پڑتی ہے، تو اس کے بارے میں میرے خیال کے مطابق اگر میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول پیش کروں، تو بات سمجھ آ جائے گی۔ فرمایا کہ تجلی کی کیفیت کی بات ہوتی ہے، تنکا چُلو بھر پانی میں بھی بہہ جاتا ہے اور آبشار کے سامنے ہاتھی بھی نہیں ٹھہرسکتا۔ اگر بہت ہی زیادہ وارد ہو، تو اس میں کاملین بھی ہل سکتے ہیں۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ پاک نے فرمایا: ﴿لَنْ تَرٰىنِیْ﴾ (الأعراف: 143)

ترجمہ1: ’’تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکو گے‘‘۔

پھر جب پہاڑ کے اوپر تجلی فرما دی، تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام بیہوش ہوگئے۔ اس سے پتا چلا کہ تجلی کے بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ایسا کبھی کبھی احیاناً ممکن ہے، جس میں بڑی حکمت ہوتی ہے۔ بہرحال انبیاء کرام تو مبعوث ہوتے ہیں، ان کو مکمل توجہ اللہ کی طرف کرنی پڑتی ہے۔ لیکن جب اللہ کسی وقت کوئی خاص چیز دینا چاہتے ہوں تو وہ تو کسی وقت بھی ان کو اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہیں۔ معراج شریف کا واقعہ ہمارے سامنے ہے کہ معراج شریف میں آپ ﷺ کو اوپر لے گئے، یہاں سے اٹھا کے لے گئے، کیوں کہ آپ ﷺ کو کچھ خاص چیزیں بتانی تھیں۔ اب اگر کوئی کہہ دے کہ معراج شریف کی رات میں تو مخلوق سے دور تھے، تو یہی جواب ہے کہ ٹھیک ہے، دور تھے، لیکن وہ چیزیں اس نبوت کا حصہ تھا، یعنی اس میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو خاص چیزیں دیں، جو بعد میں مخلوق کے لئے استعمال ہوئیں۔ اس وجہ سے وہ بھی اس چیز کا حصہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اگر کبھی کبھار ایسی بات ہو، تو وہ منجانبِ اللہ ایک ایسی حالت ہوتی ہے جو طاری کر دی جاتی ہے اور اس میں کوئی خاص چیز عطا ہوتی ہے۔ پس اس کے لئے general قانون تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، لہٰذا ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے۔ میرے خیال میں حقیقتِ جذب و سلوک کے صفحہ نمبر 101 پر جو 31 نمبر ہے، اس میں مشائخ قدس سرھم کی اس حدیث ’’لِیْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ لَّا یَسَعُنِیْ فِیْہِ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ وَّلَا نَبِیٌّ مُّرْسَلٌ‘‘ کے بارے میں تحقیق لکھی ہوئی ہے، اسے ذرا دیکھ لیجئے گا۔ اس میں اس موضوع پر بات کی گئی ہے۔

بہرحال! آپ نے جو بات پوچھی ہے، اس کا جواب یہی ہے۔

باقی! حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ، تو وہ تو اولیاء میں سے تھے اور اولیاء کے لئے تو سوال ہی نہیں ہے، ان کے لئے تو یہ ہوسکتا ہے، وہ کسی وقت بھی سکر میں جاسکتے ہیں۔ یا پھر یہ ہوتا ہے کہ ان کو مراقبات کے ذریعے کچھ وقت تو اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہی پڑتا ہے۔ بہرحال! اس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ یہ سوال نہیں ہے، لیکن انبیاء کے بارے میں جو سوال تھا، تو اس کا جواب میں نے عرض کر دیا ہے۔

اگر اس میں خیر ہے تو اللہ تعالی ہم سب کو پہنچائے اور اگر یہ غلط ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں محفوظ فرمائے۔

سائل کی طرف سے جواب:

حضرت والا! آپ نے مکمل طور سے مطمئن فرما دیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، الحمد للہ۔ ان صفحات کو میں پھر سے حقیقتِ جذب و سلوک سے پڑھ لوں گا، ان شاء اللہ۔ معراج کی مثال سے بات بالکل واضح ہوگئی۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، کسی وقت بھی اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے خاص انعامات کے لئے بلا سکتا ہے۔ جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

سوال نمبر 7:

السلام علیکم۔ حضرت! میری کچھ عادتیں ہیں، جن سے میں بہت تنگ ہوں۔ ایک یہ کہ بلا وجہ arguments کرنا، چاہے میں صحیح ہوں یا غلط، اس کے بعد ٹینشن ہوتی ہے اور پھر افسوس بھی ہوتا ہے کہ میں نے ایسا کیوں کیا، اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی بڑے گناہ کی وجہ سے اب دل تاریکی میں چلا گیا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میرا ذہن ایک سائیڈ کو متوجہ ہوجاتا ہے یعنی اگر کوئی مجھے بات کہے، تو میرا ذہن اس طرف چلا جائے گا اور اگر دوسری کوئی اہم بات بھی ہوگی، تو وہ مجھے بھول جائے گی۔ اس وجہ سے اگر میں کسی کے ساتھ کسی معاملے میں بات کر رہی ہوں، تو میرے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہوگا، جس میں میں دوسرے بندے کو convince کروں، بلکہ دوسرے کی بات کے آگے لا جواب ہوجاؤں گی۔

جواب:

آپ نے جو بات کہی ہے، اس میں آپ نے ایک کمزوری تو بتائی ہے اور وہ یہ کہ آپ بات چیت کرنے میں بے احتیاط واقع ہوئی ہیں۔ دراصل یہ بات ہے۔ اور اس کا علاج بھی ہے۔ وہ علاج یہ ہے کہ آپ خاموشی والا مجاہدہ کریں۔ خاموشی والا مجاہدہ اس طرح ہے کہ جہاں پر بات کرنے کو آپ کا بہت جی چاہتا ہو، وہاں دس منٹ کے لئے خاموش رہنا ہے۔ یعنی جہاں پر آپ کے دل میں بلیاں اچھل رہی ہوں کہ یہاں تو مجھے ضرور بات کرنی چاہئے، وہاں پر آپ نے دس منٹ کے لئے خاموش رہنا ہے۔ اس طریقے سے آپ کو خاموش رہنا آجائے گا اور جب خاموش رہنا آ جائے، تو پھر ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘ پر عمل کرنا بھی نصیب ہوجائے گا۔ پس پہلے آپ سوچ لیا کریں کہ میں اس بات کو کروں یا نہ کروں۔ اگر کرنے میں فائدہ ہو، تو پھر ٹھیک ہے اور اگر فائدہ نہ ہو، تو پھر بات نہ کرو۔ اور جہاں تک دوسری بات ہے کہ ذہن ایک سائیڈ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، تو اس میں بھی جلدی جواب دینے کی بجائے وہی خاموشی والی بات بہتر ہوتی ہے، جس میں آپ کو سوچنے کا موقع مل جاتا ہے کہ آپ analyze کر لیں کہ یہ بات کس طرف جا رہی ہے یا کس کس طرف جاسکتی ہے۔

سوال نمبر 8:

حضرت جی! آپ نے ذکر ’’اَللہ‘‘ 4500 مرتبہ دیا ہے، تو وہ میں 5000 دفعہ پڑھ لیا کروں؟ اور اس کو ایک وقت میں ہی پڑھنا ہے یا half, half کر کے بھی پڑھ سکتی ہوں؟

جواب:

ٹھیک ہے۔ آپ half half کر کے بھی پڑھ سکتی ہیں، لیکن زیادہ فائدہ ایک وقت میں پڑھنے کا ہوگا، لہٰذا کوشش کیجئے کہ ایک ہی وقت میں ہوجائے۔ باقی لوگوں کے لئے میں یہ نہیں کہہ رہا، یہ خاص آپ کے لئے کہہ رہا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ سارے اس پر عمل کرنا شروع کر دیں۔ پس آپ half half کرسکتی ہیں، لیکن کوشش یہ کریں کہ ایک وقت میں ہو۔ ایک وقت میں ہونے سے اس کا فائدہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ اور اگر آپ کی مجبوری ہو کیونکہ گھر کے کام کاج بھی ہوتے ہیں، تو ایسی صورت میں کہ جب ذکر رہ رہا ہے، آپ اس کو half half کرسکتی ہیں۔

سوال نمبر 9:

حضرت جی!

جب بھی میں یہ دعا پڑھتا ہوں: ’’اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ‘‘ تو تکلیف کم ہوجاتی ہے۔

جواب:

اللہ کا شکر کر کے اس وظیفے کو پڑھ لیا کریں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

حضرت جی! طوطوں کو گھروں میں رکھنا تصوف کے لحاظ سے کیسا ہے؟

جواب:

کامل اگر رکھ لے، تو وہ اس کا خیال رکھ سکے گا، لیکن مبتدی کو نہیں رکھنے چاہئیں، کیونکہ ان میں دل بہلے گا اور خواہ مخواہ ان کا خیال بھی نہیں رکھ سکے گا، اس وجہ سے مبتدی کو ان چیزوں میں نہیں پڑنا چاہئے۔

سوال نمبر 11:

حضرت! آج کل دفاتر میں ایسی سیٹیں ہیں، جن پر پبلک رابطے کی وجہ سے فالتو آمدن آتی ہے، لیکن آڈٹ والے اور دوسرے افسران نے monthly لینی ہوتی ہے اور کچھ دوسرے دفتری اخراجات بھی چلانے ہوتے ہیں، ایسی سیٹ سے کیسے بچا جائے یا ان پر کیسے کام کیا جائے؟

جواب:

مسئلہ کے لئے تو مفتیان کرام سے رجوع کریں، وہ آپ کو بتائیں گے، میں آپ کو کیا بتاؤں۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کلکٹر تھے، جس کی تنخواہ انگریزوں کے دور میں کافی زیادہ ہوتی تھی اور بڑے اختیارات بھی ہوتے تھے، لیکن اس میں ڈگری کبھی کبھی سود پر بھی دینی ہوتی تھی، کیوں کہ ظاہر ہے کہ قانون تو سودی تھا اور انگریزوں کا تھا اور اب بھی وہی چل رہا ہے، تو اس کے حق میں ڈگری دینی ہوتی تھی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے انہوں نے استفسار کیا کہ میں کیا کروں؟ حضرت نے فرمایا کہ کسی دوسری سیٹ پر چلے جاؤ، چاہے اس سے تنخواہ کم بھی ہو۔ تو وہ CSS کی جو پوسٹ تھی، انگریزوں کے دور میں اسی قسم کی پوسٹیں تھیں، کلکٹر اور اس قسم کی بڑے High rank کی پوسٹیں ہوتی تھی۔ Low rank پہ تو جانا آسان ہوتا ہے، پس پھر وہ ایجوکیشن میں چلے گئے، جو اس کی تیسری کیٹگری تھی۔ اور پوری عمر اسی میں سروس کی۔ ایجوکیشن میں تنخواہ بھی کم تھی اور اختیارات بھی کم تھے، لیکن اپنے آپ کو اس شر سے بچانے کے لئے انہوں نے یہ کر لیا۔ آج کل مسئلہ صرف اتنا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ میں سیٹ تو تبدیل کرنا چاہتا ہوں، لیکن مجھے اس پر اتنی تنخواہ یا اس سے زیادہ پر مل جائے، تو پھر جاؤں گا۔ ظاہر ہے کہ ہر چیز تو اپنی مرضی کے مطابق نہیں ہوتی، اس میں کچھ sacrifice تو کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر lower سیٹ پر خطرہ نہیں ہے، تو اس پر جایا جاسکتا ہے۔

سوال نمبر 12:

اگر مناسب سمجھیں، تو سلوک کے دس مقامات میں سے انابت اور ورع کی تشریح فرما دیں، آپ سے زیادہ سوالات پوچھنے پر معافی چاہتا ہوں۔

جواب:

مقامِ انابت مقامِ توبہ کے بعد ہے اور مقامِ توبہ میں توبہ کے ذریعے سے انسان ماضی کے گناہوں سے اپنا رابطہ کاٹتا ہے اور شعوری توبہ کرتا ہے، یعنی وہ توبہ جس میں یہ نیت ہو کہ میں فلاں چیز سے توبہ کر رہا ہوں، تاکہ بعد میں وہ نہ کرے۔ اور مقامِ انابت میں نیکیوں اور اچھے کام جن کے کرنے کا حکم ہے، ان کے کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کیا جاتا ہے۔ اس میں اگر رکاوٹ ہوتی ہے، تو اس رکاوٹ پہ قابو پایا جاتا ہے، اس کو اس مقام کا طے کرنا کہتے ہیں۔ مقامِ انابت یہی ہے۔ مقامِ ورع اصل میں مقامِ تقویٰ ہی ہے، میں دوسری کتابوں میں اس کا نام مقامِ تقویٰ رکھا ہے، لیکن یہاں پر چونکہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو نام رکھے تھے، میں نے ہو بہو انہیں کو نقل کیا تھا، تو چوںکہ حضرت نے اس کو ورع فرمایا، تو اس لئے میں نے بھی مقامِ ورع لکھ دیا۔ اور ورع اور تقویٰ ایک ہی چیز ہوتی ہے۔ ورع عربی زبان کا لفظ ہے۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

حضرت محترم! اللہ پاک کے فضل اور آپ کی دعاؤں سے الحمد للہ مندرجہ ذیل ذکر کا ایک ماہ پورا ہوگیا ہے:

’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ، ’’حَقْ اَللہ‘‘ 500 مرتبہ، ’’ھُوْ حَقْ‘‘ 500 مرتبہ، ’’اَللہ ھُوْ‘‘ 200 مرتبہ۔ ’’حَقْ اَللہ‘‘ کے ساتھ یہ تصور کیا کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر حق کو واضح کر رہا ہے۔ اس ماہ دن اور رات Professional commitment کی وجہ سے ذکر میں یکسوئی بہت کم رہی اور کبھی کبھی ذکر کے دوران نیند بھی آ جاتی تھی اور پھر دوبارہ شروع کر لیتا تھا۔

جواب:

ما شاء اللہ! چونکہ اس وقت آپ کی مصروفیات زیادہ ہیں، اس وجہ سے میرے خیال میں ذکر کو بڑھانا مناسب نہیں ہے۔ جیسے آپ فرما رہے ہیں کہ Professional commitment ہے، لہٰذا فی الحال تو یہی مناسب ہے، لیکن اگر آپ زیادہ کروانا چاہتے ہیں، تو پھر مجھے دوبارہ لکھ دیں، اس کے بعد پھر میں بڑھا دوں گا، ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

حضرت جی! آپ سے ہی یہ سیکھا ہے کہ خوابوں پر توجہ نہیں دینی چاہئے، لیکن کئی بار آپ کو بھی خواب میں دیکھتا ہوں، لیکن ذکر نہیں کرتا کہ فضول میں آپ کا وقت ضائع نہ کروں، خود سے ہی مطلب نکال لیتا ہوں، لیکن بار بار خیال آتا ہے کہ جیسا آپ فرماتے ہیں کہ شیخ تو سلسلہ ہوتا ہے، تو کیا ایسے خواب شیئر کرنے کی اجازت ہے؟

جواب:

خواب کا مختصر حصہ جس میں میں آپ کو کوئی بات میں کرتا ہوں، صرف وہ مختصر حصہ بتا دیا کریں، اگر ضرورت ہوئی، تو پھر میں بتا دوں گا کہ آپ تفصیل بتائیں۔

سوال نمبر 15:

میرا بھائی کچہری میں ہوتا ہے اور رشوت بھی لیتا ہے، اس لئے میں نے گھر سے کھانا چھوڑ دیا تھا، جس پر سب گھر والے اور خاص طور پر والد صاحب ناراض رہے۔ کہتے ہیں کہ ہم اس کی کمائی نہیں لیتے۔ لیکن کئی بار دیکھا گیا کہ وہ اس کی لائی ہوئی چیزیں استعمال کرتے ہیں۔ جب میں والدہ سے ملنے جاتا ہوں، تو بعض دفعہ کچھ سامنے رکھ دیتی ہیں اور میں والدہ کی خوشنودی کے لئے لے لیتا ہوں اور اس کی تنخواہ کی نیت کر لیتا ہوں۔ تو ایسی حالت میں کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

اصل میں تو avoid کرنا ہے یعنی بچنا ہے، لیکن اگر انسان مجبوراً پھنس ہی جائے، تو پھر ایک طریقہ تو یہ ہے، جو آپ استعمال کرتے ہیں کہ اس کی حلال آمدنی کی نیت کر لیں یا پھر یہ ہے کہ آپ خود کچھ چیزیں گفٹ کے طور پہ لے جائیں، تاکہ اس کا بدلہ ہوجائے۔ ایک دفعہ میں اپنے گاؤں گیا تھا، تو وہاں ایک وکیل صاحب نے ہماری دعوت کی، میں بڑا برا پھنس گیا، کیونکہ وہ میرا کلاس فیلو بھی تھا۔ خیر! وہ جب چیزیں لانے لگا، تو میں نے اس کو کہا کہ آپ نے حج کیا ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں کیا۔ میں نے کہا کہ او ہو! آپ حج ضرور کریں۔ اور پھر میں نے کچھ پیسے نکالے اور میں نے کہا کہ چلیں! انہیں پیسوں سے ابتدا کریں۔ اس وقت میں نے سوچا کہ کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑے گا، اب میں اس کو میں بتا بھی نہیں سکتا کہ کیوں دے رہا ہوں۔ لیکن بہرحال! اس طرح ہے کہ اس سے دعوت بھی ہوگئی اور ہمارے لئے کھانا بھی جائز ہوگیا۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

حضرت جی! پوچھنا یہ ہے کہ علماء کرام کا علمی اختلاف جو آپس میں ہونا چاہئے تھا، بد قسمتی سے وہ عام عوام میں بھی آپس کے اختلاف کو بیان کر دیتے ہیں، اس صورت حال میں عام لوگ کیا کریں؟ رہنمائی فرما دیں۔ جزاک اللہ خیراً۔

جواب:

اختلاف اصولی بھی ہوتا ہے اور فروعی بھی ہوتا ہے، فروعی اختلاف میں سکوت بہتر ہے، جب وہ بتا دیں۔ اور اصولی اختلاف میں حق والوں کے ساتھ ہونا چاہئے۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم۔

We find many وظیفہ for life problems online and in books. Some are from اسماء الحسنیٰ and some are Quranic Ayat. Can we do them without asking your permission if it matches our problems?

جواب:

دراصل جس کو ہم شہرت حاصل کرنا کہتے ہیں، اس کے لئے لوگ بہت کچھ کرتے ہیں، ان میں یہ وظیفے بھی ہوتے ہیں، جن کی اس کے ساتھ کوئی base ہی نہیں ہوتی، لیکن وہ اپنی طرف سے وظیفے ڈیزائن کر لیتے ہیں۔ لہٰذا ایسی چیزوں کو بغیر تحقیق کے نہیں لینا چاہئے، بے شک وہ اچھے ہی کیوں نہ ہوں۔ میں آپ کو بتاؤں کہ آپ فلاں مسئلہ کے لئے دس قرآن روزانہ پڑھ لیا کرو، تو پھر؟ قرآن تو صحیح ہے، لیکن کیا آپ پڑھ سکتے ہیں؟ لیکن لوگ گیارہ ہزار دس ہزار مرتبہ وظیفے پڑھ لیتے ہیں، لوگ ان میں involve ہوجاتے ہیں اور پھر صحیح تربیت کے لئے جو چیز ہوتی ہے، وہ نہیں کرسکتے، اس سے محروم ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ اصلاح فرضِ عین ہے اور وہ problem جس کے لئے وہ وظیفہ کر رہا ہے، وہ اتنا بڑا مسئلہ بھی ہوگا، لیکن لوگ خواہ مخواہ اپنے آپ کو involve کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی مستند بات ہو، تو پھر کوئی بات ہے۔ لیکن اگر مستند بات بھی نہ ہو یعنی ایسے لوگوں کی طرف سے ہو، جن کی کوئی base ہی نہیں ہے، تو پھر وہ وظیفہ نہیں کرنا چاہئے، بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی کتابیں پڑھنی بھی نہیں چاہئیں، کیونکہ خواہ مخواہ وقت ضائع ہوگا۔ مثلاً کیا میڈیکل کی کتابیں آپ کسی غیر ڈاکٹر کی لکھی ہوئیں پڑھ سکتے ہیں؟ وکالت کے موضوع پر کسی غیر وکیل کی کتاب آپ پڑھ سکتے ہیں؟ جو شخص mathematician نہ ہو اور وہ ریاضی کے اوپر کتاب لکھے، تو کیا آپ اس کو پڑھیں گے؟ جب فیلڈ کا سپیشلسٹ ہی اس فیلڈ کا کام کرسکتا ہے، تو پھر یہاں پر specialization کو کیوں نہیں accept کرتے؟

This is the time of specialization.

پس یہاں پر specialization ہے۔ لہٰذا جو سپیشلسٹ ہے، اس کی ان چیزوں کو لو۔ اور لینے میں بھی ایسا کرو کہ کم از کم اپنے شیخ کو اطلاع دو، کیونکہ اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ یہ لے رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سے کوئی اہم چیز اس کی وجہ سے چھوٹ رہی ہو۔ لوگ مجموعۃ الوظائف بن جاتے ہیں۔ ہماری ایک کزن تھی، وہ بہت وظیفے کرتی تھی۔ کہاں کہاں سے لے لیتی تھی۔ ایک دن اس نے مجھے کہا کہ آپ مجھے وظیفہ دیں۔ میں نے کہا کہ میں نہیں دیتا۔ اس نے کہا کہ کیوں؟ میں نے کہا کہ میری مرضی۔ ظاہر ہے کہ یہ ضروری تو نہیں ہے کہ میں ہر ایک کی خواہش پوری کروں، لہٰذا بس میں نہیں دیتا۔ اس نے بڑی منت سماجت کی۔ میں نے کہا کہ میں نہیں دیتا۔ اس نے جب بہت اصرار کیا، تو میں نے کہا کہ پھر دوسرے سارے وظیفے آپ کو چھوڑنے پڑیں گے، اگر ایسا کرسکو، تو پھر میں وظیفہ دوں گا، ورنہ نہیں دیتا۔ اس نے کہا کہ یہ تو نہیں ہوسکتا۔ میں نے کہا کہ پھر میں وظیفہ نہیں دے سکتا۔ خیر! ایک دن کسی بیان کے بعد خواتین بیعت ہو رہی تھیں، تو اس نے اندر سے آواز بھیج دی کہ میں بھی بیعت ہوگئی ہوں۔ میں نے کہا کہ پھر تو میری بات ماننی پڑے گی، کیوں کہ آپ بیعت ہوچکی ہیں۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ پھر میں نے کہا کہ لکھ کے بھیجو کہ آپ کیا کیا وظیفے کرتی ہو؟ اس نے مجھے لکھ کر بھیج دیا۔ ان میں سے کچھ وظیفے میں نے رہنے دیئے اور کچھ کو میں نے تبدیل کر دیا اور کچھ کو چھڑوا دیا۔ اس کے بعد اخیر تک وہ وظیفے کرتی رہی۔ میرا مطلب یہ ہے کہ مجموعۃ الوظائف نہیں بننا چاہئے، کیونکہ کثرت سے وظیفے مقصود نہیں ہیں، بلکہ اپنی اصلاح مقصود ہے۔ لہٰذا اصلاح کے لئے ایسے لوگوں سے contact کرنا چاہئے، جو اصلاح کرسکتے ہوں۔ اور اصلاح کے معاملے میں اپنے شیخ کی بات ہی فائنل ہوسکتی ہے۔

باقی! جہاں تک problem کی بات ہے، تو سب سے بڑا وظیفہ جو میں دیتا ہوں، اس کو لوگ سنتے نہیں، پتا نہیں کہ میں کس طریقے سے سمجھاؤں کہ تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ سے مانگو۔ تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ خود ہی اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا؟ کوئی کہتا ہے کہ ہم نے تہجد کی نماز پڑھی ہے، لیکن ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوا، تو میں آپ کو کتنے لوگوں کے نام بتا دوں جو وظیفے بہت پڑھتے ہیں، لیکن ان کا مسئلہ حل نہیں ہوتا؟ فیصلہ تو اللہ ہی کرتا ہے، کبھی اللہ تعالی وظیفے سے مسئلہ حل کرتے ہیں اور کبھی وظیفے سے بھی حل نہیں کرتے۔ اللہ پاک نے اگر اس کو مقرر نہیں فرمایا، اس میں کوئی حکمت ہے، تو اللہ تعالی تہجد کے بعد کی دعا سے بھی حل نہیں کریں گے اور آپ کے بہت سارے وظیفوں کے بعد بھی حل نہیں کریں گے، لیکن وہ تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے، آپ اپنا اصول تو صحیح کرو۔ صحیح اصول یہی ہے کہ سپیشلسٹوں سے یہ کام کرو، ادھر ادھر سے وظیفے نہ لیا کرو۔

سوال نمبر 18:

Many problems in our time are due to ظلمت and نحوست of sins. Therefore, if someone does توبہ and leaves sins, does Allah also clears the ظلمت of sins immediately or it remains and clears off with the passage of time?

جواب:

It depends upon your کیفیت of توبہ

مطلب یہ ہے کہ آپ نے جس کیفیت میں توبہ کی ہے، اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہوتا ہے، اللہ پاک جانتے ہیں کہ اس کے ساتھ پھر کیا کرنا چاہئے، پس توبہ میں اخلاص ہونا چاہئے اور اللہ پاک کے ساتھ حسنِ ظن ہونا چاہئے۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم۔

حضرت! تقریباً سال ہونے کو ہے کہ آپ نے دس منٹ کا مراقبہ دیا تھا، جو ابھی تک نہیں ہوسکا۔

جواب:

چلیں! پھر ہم دونوں رو لیتے ہیں، آپ بھی روئیں اور میں بھی روتا ہوں۔ اس کا حل تو یہی ہے، اس کے علاوہ پھر میں کیا کرسکتا ہوں۔ ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ‘‘۔

سوال:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ

Wishing you good health and long life Hazrat G. I am فلاں. From the last few days, I feel something is disturbing but I don’t know. I have two questions. First, I know watching pictures and human faces is sin but I don’t know why and how much it should be avoided? What about newspapers and books? Secondly, how should I keep myself connected with Allah سبحانہ و تعالیٰ during the time I don’t have to pray during that period? I lose connection with Him except during Zikr and meditation given by you. My duas are also lessened. Please don’t get angry with me. I fear your anger. I am waiting for guidance. Sorry for mistakes and thanks for everything. I am not able to concentrate on my prayers and meditation.

جواب:

Your second query may help answer the first. Please think over it.

سوال:

السلام علیکم۔

حضرت جی! میں خود اپنے آپ کو کبھی نعوذ باللہ مرتد محسوس کرتا ہوں، کبھی لگتا ہے کہ میری کبھی بخشش نہیں ہوگی۔

دوسری کیفیت یہ ہے کہ میرے اندر کینہ اور بغض آگیا ہے۔ مثلاً: جو لوگ پسِ پشت میرا مذاق اڑاتے تھے، مجھے بے اولاد سمجھ کر منحوس گردانتے ہیں، ان کی آواز بھی نہیں سنی جاتی، البتہ اگر سامنے آجائیں، تو پھر یہ کیفیت نہیں ہوتی، بلکہ دل کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ احسان ہوجائے۔

تیسری کیفت ہے کہ اگر میرے ساتھ کوئی زیادتی کرے، تو فوراً انتقام لینے کو دل کرتا ہے اور دل کرتا ہے کہ اس کا accident ہوجائے یا کچھ بھی ہوجائے۔ میرے اذکار بھی چھوٹ جاتے ہیں، اگر ان کی timing کم کر دیں، تو شاید جاری ہوجائیں۔ ان سب کے ساتھ ساتھ اتنا ہوگیا ہے کہ کتا بھی اعمال کی نسبت سے خود سے زیادہ محترم لگتا ہے کہ اس سے حساب تو نہیں ہوگا۔

جواب:

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ نے سوال اس نمبر پر بھیجا ہے، حالانکہ کہ یہ نمبر اس کے لئے نہیں ہے، لہٰذا آئندہ کے لئے اس کی احتیاط کریں اور اس طرح کا سوال 0315 والے zong کے نمبر پر بھیج دیا کریں۔

دوسری بات یہ ہے کہ بیلنس رکھنا چاہئے۔ بیلنس رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی کی بات سے رنجش ہو اور طبعی انقباض آجائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ کوئی عملی صورت نہیں ہونی چاہئے کہ آپ اس کو تکلیف پہنچانے کے لئے کوئی پلاننگ کریں۔ کینہ اسی کو کہتے ہیں، جس میں عملی طور پر انسان کچھ پلان کرے، طبعی انقباض کو کینہ نہیں کہتے۔ مثلاً: مجھے کسی نے دکھ پہنچایا ہے، میں اس کے ساتھ بات بھی نہیں کرنا چاہتا، لیکن اگر وہ سلام کر لے، تو میں اس کا جواب دے دوں، تو یہ کینہ نہیں ہے، کیونکہ یہ طبعی انقباض ہوتا ہے، البتہ اس کے اوپر عمل نہیں کرنا چاہئے۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی زیادتی کرے، تو انسان انتقام کے لئے فکر نہ کرے، بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس کے لئے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کو برائی سے بچائے۔ اور اس میں خود اپنا فائدہ ہے، کیونکہ جب آپ ایسے شخص کے لئے دعا کرتے ہیں، تو فرشتے آپ کے لئے دعا کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ بھی آپ سے راضی ہوجائیں گے۔

آپ کے اذکار چھوٹ جاتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ کیوں چھوٹ جاتے ہیں، آپ نے ساری چیزیں نہیں بتائیں، لہٰذا آئندہ آپ اس کے بارے میں تفصیل لکھیں، تاکہ میں آپ کو اس کے بارے میں کچھ عرض کرسکوں۔

سوال نمبر 20:

السلام علیکم۔

حضرت جی! ایک کلپ مجھے آج موصول ہوا تھا، جس میں ہمارے دیوبند کے ہی ایک امام صاحب ہیں اور وہ یہ بتا رہے تھے کہ علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بیان ہے، جو انہوں نے اس وقت فرمایا تھا، لیکن میرا خیال ہے کہ شاید آج کے حالات سے اس کی بہت ہی زیادہ مطابقت ہے، خصوصاً ہندوستان کے حالات سے اور شاید پاکستان کے حالات کے بھی بہت مطابق ہے۔

حضرت جی! مجھے صرف یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا یہ علی میاں، حضرت ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جن کا تذکرہ ہمارے سلسلے کے اندر ہے یا یہ ان کے علاوہ ہیں؟ مجھے تھوڑا سا اس پہ شبہ تھا، اس لئے میں نے سوچا کہ میں آپ سے اس کے متعلق معلوم کرلوں۔ جزاک اللہ خیرا۔ اللہ آپ کے علم و عمل میں اور زندگی میں برکت عطا فرمائیں۔

جواب:

آپ کے اس مسیج کے آنے کے بعد میں نے اس کی تحقیق کی، چونکہ اس میں بابری مسجد کے منہدم ہونے کا ذکر ہے، اس لئے میں نے دیکھا کہ بابری مسجد کب منہدم ہوئی ہے اور حضرت کب فوت ہوئے، تاکہ کم از کم یہ confirm ہوجائے کہ اگر بابری مسجد اس کے بعد منہدم ہوئی تھی، تو یہ confirm ہوجاتا کہ یہ حضرت کی آواز نہیں ہے، لیکن پتا چلا کہ اس کے منہدم ہونے کے بعد بھی غالباً کچھ سال حضرت زندہ رہے تھے، لہٰذا پھر یہ ممکن ہے، یہ ہوسکتا ہے، البتہ اس کو confirm کے لئے آپ ایسا کریں کہ بٹکل جو کہ انڈیا میں ایک جگہ ہے، وہاں پر حضرت مولانا ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی تقریریں موجود ہیں، ان کی آواز میں کچھ تقریریں سن لیں، پھر ان کے ساتھ compare کر لیں، تو ممکن ہے کہ آپ کو زیادہ بہتر idea ہوجائے۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ صبیح صاحب نے جو ڈرافٹ لکھا ہے، وہ کافی عرصہ سے شیئر کیا جا رہا ہے۔ حضرت کو اس کی تجویز عرض کی تھی، جس کو حضرت نے قبول کر کے فرمایا تھا کہ سوال و جواب کے لئے مستقل نمبر ہو، کیوں کہ پھر مجھے سوالوں کو ڈھونڈنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ اپنے معمولات کی شیٹ نہ بھیجیں اور اپنے ذاتی احوال بھی نہ بھیجیں، بس جو general تصوف کی باتیں ہیں، وہ بھیجی جائیں۔ مگر پہلے پچھلے ہفتے حضرت نے غالباً فرمایا تھا کہ سب احوال اور سب چیز اس نمبر پر بھیج دی جائیں، تو اب کیا اس کی تصحیح کرنی ہے؟

جواب:

آپ نے اچھا کیا کہ سوال کر لیا، کیونکہ میرے خیال میں کافی سارے ساتھیوں کو confusion ہوچکی ہوگی۔ اگر میں اس کی بنیادی وجہ سمجھا دوں تو شاید میری بات سمجھ میں آجائے۔ ہم نے اس کے لئے واٹس ایپ پر ایک خاص نئے نمبر کا اجرا کیا ہے، وہ اس لئے کیا ہے کہ ہمارا جو دوسرا واٹس ایپ نمبر ہے، اس پر کئی سارے گروپ ہیں، اب ہم ان گروپوں سے چھٹکارا بھی نہیں حاصل کرسکتے، کیونکہ ان میں بہت informative چیزیں ہوتی ہیں، لیکن ان میں unnecessary چیزیں بھی بہت ساری آتی ہیں اور مسلسل آتی رہتی ہیں، اس لئے اس نمبر پر اگر کوئی اہم چیز آئی ہو، تو وہ گم ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگ چاہتے ہیں کہ جو چیزیں سوال و جواب کے سیشن سے متعلق ہوں، وہ صرف اس گروپ پر آئیں، تاکہ سامنے موجود ہوں اور ہمیں ڈھونڈنا نہ پڑیں، کیونکہ ڈھونڈنا کافی مشکل کام ہوتا ہے، اس وجہ سے میں نے یہ بات کی تھی۔ البتہ تربیت السالک کے طریقے پر جو انسان کے اپنے ذاتی احوال ہیں، سوالات کی صورت میں ذاتی احوال ہیں، ان میں حضرت کے ہاں بھی یہ ہوتا تھا کہ حال پیش کیا جاتا تھا اور اس پہ تحقیق بتائی جاتی تھی، تو ہم بھی ان کا جواب دے دیتے ہیں، یعنی آن لائن جواب دے دیتے ہیں۔ اگر ان کے personal سوالات ہوں، تو پھر ہم ان کو personal جواب دے دیتے ہیں، لیکن اگر وہ جواب دوسروں کے لئے بھی useful ہوں، تو پھر ہم سائل کا نام لئے بغیر دوسروں کے سامنے اس کا جواب دیتے ہیں، یہ ہمارا طریقہ ہے۔ لہٰذا ذاتی احوال سے متعلق وہ سوالات جن سے آپ کی تربیت وابستہ ہے، ان کے جوابات چوں کہ سوال و جواب کے اسی سیشن میں دیئے جاتے ہیں، لہٰذا وہ اسی گروپ میں آنے چاہئیں، البتہ معمولات کی شیٹ کا ادھر آنا ضروری نہیں، کیونکہ اس کو میں ادھر نہیں پڑھتا اور نہ جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا شیٹ اسی پرانے نمبر پر بھیج دیا کریں، کیوں کہ وہ زیادہ بہتر ہے، تاکہ ہم اس گروپ کو زیادہ مصروف نہ کریں۔ البتہ ذاتی سوالات جن کا تربیت کے ساتھ تعلق ہو، ایسا نہ ہو کہ آپ کاروبار کے بارے میں مجھ سے پوچھنے لگیں، کیوں وہ میرا کام ہی نہیں ہے۔ تربیت کے ساتھ جن سوالات کا تعلق ہو، وہ سوالات مجھے اسی گروپ میں بھیج دیا کریں، تاکہ میں اگر جواب دینا چاہوں، تو میرے لئے جواب دینا آسان ہو۔ میرے خیال میں اب بات واضح ہوگئی ہے۔ اب ان شاء اللہ اس میں کوئی confusion نہیں ہوگی۔

سوال نمبر 22:

حضرت! فرضِ عین اور فرضِ کفایہ میں کیا فرق ہے؟

جواب:

فرضِ عین وہ فرض ہوتا ہے، جو سب کے اوپر فرض ہوتا ہے، اسے کوئی بھی چھوڑ نہیں سکتا۔ اور فرض کفایہ وہ فرض ہوتا ہے، جو چند لوگوں کے ادا کرنے سے سب کے ذمہ سے اتر جاتا ہے، یعنی پھر باقی لوگوں سے نہیں پوچھا جاتا، لیکن اگر سارے ادا نہ کریں، تو سارے گناہ گار ہوجائیں گے۔ جیسے جنازے کی نماز فرضِ کفایہ ہے۔

سوال نمبر 23:

اللہ کو سب سے زیادہ محبوب عمل کون سا ہے؟

جواب:

آپ ﷺ کی سنت پر عمل کرنا اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب عمل ہے۔

سوال نمبر 24:

حضرت! سورۂ واقعہ کی فضیلت بیان فرما دیں۔

جواب:

سورت واقعہ کی فضیلت فضائلِ اعمال کی کتاب میں مل جائے گی، ان شاء اللہ۔ یہ میں نے تادیباً کہا ہے، کیوں کہ ایسی چیزیں وہاں سے خود ہی دیکھ لینی چاہئیں۔ باقی فضیلت یہ ہے کہ اس کو رزق کی فراخی کے لئے پڑھتے ہیں۔

سوال نمبر 25:

حضرت! یہ جو subjects ہیں، مثلاً: فزکس ہے، میتھ ہے، کیمسٹری ہے، بیالوجی ہے، میڈیکل ہے، ان کا تعلق دنیا کے ساتھ ہے یا دین کے ساتھ ہے؟ یہ کس category میں ہیں؟

جواب:

میں پوچھتا ہوں کہ چھری مسلمان ہے یا کافر؟ بس یہ سوال بھی ایسا ہی ہے۔ جیسے چھری ہے، اسی طرح فزکس، میتھ اور کیمسٹری ہے۔ دیکھیں! اس پہ غور کریں کہ اس میں ساری چیزیں ہیں۔ چھری اگر کافر کے ہاتھ میں ہیں، تو کافر کے فائدہ لئے استعمال ہوتی ہے اور اگر مسلمان کے ہاتھ میں ہے، تو مسلمان کے فائدہ لئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ کلاشنکوف بھی ایسی ہی چیز ہے، گن بھی اسی طرح کی چیز ہے، ایٹم بم بھی ایسی ہی چیز ہے۔ ان کے دین و دنیا کے لئے ہونے کا تعلق ان کے use کے اوپر ہے کہ وہ کس لئے استعمال ہوتی ہیں۔ پس اسی طرح فزکس کیمسٹری وغیرہ کو Einstein نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے، ہم اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ پس مسلمان کے ہاتھ میں آئے، تو فائدہ ہے اور کافر کے ہاتھ میں آئے، تو مسائل ہیں۔

سوال نمبر 26:

حضرت! اگر کوئی بندہ پہلے سے بیعت ہے، تو وہ دوسری بیعت کرسکتا ہے؟

جواب:

بہت مشکل سوال آپ نے کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں بڑی details ہیں، اور وہ details دیکھنی پڑتی ہیں کہ آپ دوسرے بیعت کس لئے کر رہے ہیں؟ آپ کا کوئی Genuine reason ہے یا Genuine reason نہیں ہے، بلکہ صرف شوق ہے۔ بعض لوگ شوقاً کئی کئی بیعت کر لیتے ہیں، تو وہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن اگر مجبوری ہو، جیسے بعض مشائخ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ contact بالکل نہیں ہوسکتا۔ کئی لوگ میرے پاس آئے ہیں کہ ہمارے مشائخ سے بالکل ہی contact نہیں ہوسکتا، ہم ٹیلی فون کرتے ہیں، تو ٹیلی فون کا جواب نہیں، خط لکھتے ہیں، تو خط کا جواب نہیں، Email کرتے ہیں، تو Email کا جواب نہیں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ انگلینڈ سے میرے پاس ہمارے ایک دوست کا ای میل آیا، انہوں نے مجھے Email کیا کہ میں حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب جو کہ انڈیا کے ہیں، ان سے بیعت ہوں، ان کے ساتھ میں ٹیلی فون پہ بات کرنا چاہتا ہوں، تو ٹیلی فون نہیں ملتا۔ خط بھی نہیں پہنچتا، Email کے ساتھ بھی تعلق نہیں ہے اور میرے لئے ان کے ساتھ رابطہ بہت ضروری ہوچکا ہے، کیوں کہ میرے کچھ احوال ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ چوں کہ میرے بے تکلف دوست تھے، اس لئے میں نے کہا کہ آپ نے ان سے بیعت کرتے وقت مجھ سے پوچھا تھا؟ کہنے لگے کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ پھر میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ اگر آپ مجھ سے پوچھتے، تو میں آپ کو کہتا کہ بھائی! جو صاحب انڈیا میں ہیں، ان سے اگر رابطہ نہیں ہوسکتا، تو آپ ان سے بیعت نہ ہوں، لیکن اب تو آپ ہوچکے ہیں اور مجھ سے آپ نے اس بارے میں پوچھا بھی نہیں تھا، تو اب میں کیا کروں؟ لیکن وہ بار بار Email پہ Email کر رہے تھے کہ میرے لئے کچھ کرو، میرے لئے کچھ کرو۔ میرے بے تکلف دوست تھے۔ پھر ایک مرتبہ مفتی مختار الدین شاہ صاحب تشریف لائے، تو میں نے ان کی خدمت میں یہ بات عرض کی۔ وہ چوں کہ ان کو جانتے تھے، اس لئے میں نے کہا کہ فلاں صاحب اس طرح بات کر رہے ہیں، تو میں ان کو کیا جواب دوں؟ انہوں نے کہا کہ دو مہینے میں ان کے ساتھ رابطہ ہوسکتا ہے؟ میں نے کہا کہ حضرت وہ تو چھ مہینوں کا کہہ رہے ہیں کہ چھ مہینوں سے میرا رابطہ نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ پھر آپ ان کی بات سن سکتے ہیں۔ اگر حل کرسکتے ہو، تو حل کر دو۔ مفتی صاحب نے جب یہ کہہ دیا، تو پھر میں نے ان کو کہا کہ بھائی! مفتی صاحب نے اجازت دی ہے، اب آپ مجھے اپنی بات بتا سکتے ہیں۔ پھر انہوں نے مجھے بات بتا دی۔ میں نے ان کو چھوٹا سا وظیفہ دے دیا اور الحمد للہ ایک ہفتہ کے اندر اندر ان کا مسئلہ حل ہوگیا، اللہ نے حل کر دیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ بس، اب میں آپ کے ساتھ ہی رابطہ رکھوں گا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، رابطہ رکھیں، مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔ اب اجازت مل گئی ہے، تو اب ٹھیک ہے۔ پھر بعد میں ان کو میں نے اجازت بھی دی ہے، یعنی الحمد للہ ان کی ترقی ہوگئی۔ میرا مقصد یہ ہے کہ یہ چیز Subject to condition ہے، یعنی آپ کا پہلی بیعت میں جو مسئلہ ہے، اگر وہ پرابلم آپ مجھے تفصیل سے لکھیں گے، تو پھر میں آپ کو بتاؤں گا۔

سوال نمبر 27:

(سائل نے ای میل کے ذریعہ سوال بھیجا ہے)

السلام علیکم! سوال یہ ہے کہ بعض و اوقات غیر ارادی طور پر بھی نظر غیر محرم کی طرف اٹھ جاتی ہے، کوشش تو ہوتی ہے کہ نہ دیکھا جائے لیکن بس اچانک اٹھ جاتی ہے۔ کیا اس سے بھی نقصان ہو جاتا ہے؟

جواب:

ای میل کے ذریعے جو خط بھیجا گیا ہے وہ مجھے مل گیا ہے اور میں نے دیکھ لیا ہے۔ اس بارے میں ابھی میں اتنی بات عرض کرسکوں گا کہ ہم اختیاری اعمال کے مکلف ہیں، جو غیر اختیاری چیزیں ہیں، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہم سے نہیں پوچھے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص غیر اختیاری طور پر بھی ایسا کام کر لے، جس کا کوئی جسمانی نقصان ہو، تو وہ تو ہوجاتا ہے۔ مثلاً: کوئی شخص غیر اختیاری طور پر زہر کھا لے، تو اس کو اس کا نقصان تو ہو ہی جائے گا، اگرچہ وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔ اگر اختیار سے زہر کھائے گا، تو گناہ گار بھی ہوگا اور مر بھی جائے گا یا پھر بیمار ہوجائے گا۔ اختیاراً زہر کھانے سے گناہ گار اس وجہ سے ہوگا کہ اپنے آپ کو خود تکلیف دینا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر غیر ارادی طور پر کسی نے کھا لیا، تو پھر وہ گناہ گار تو نہیں ہوگا، لیکن تکلیف تو ہوجائے گی۔ پس اسی طریقے سے غیر اختیاری طور پر پہلی نظر معاف ہے، لیکن اس کا اثر ہوسکتا ہے، لہٰذا اس اثر سے بچنے کے لئے لوگ extra احتیاط کرتے ہیں۔ مثلاً: حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں ٹرین گزرتی تھی، تو وہ اس وقت باہر نہیں جاتے تھے، کیونکہ عین ممکن ہے کہ ٹرین ادھر کھڑی ہوجائے اور ڈبہ ایسا ہو کہ جس میں خواتین ہوں اور میری نظر ان پہ پڑجائے۔ یہ extra احتیاط ہے، اس extra احتیاط سے پھر اللہ پاک کا فضل آتا ہے، اس کا کرم ہوتا ہے اور مزید ترقی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے انسان کو avoid کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے۔ کہتے ہیں: ’’جن کو ہو جان و دل عزیز وہ ان کی گلی میں جائے کیوں‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اپنے آپ کو بچانا ہے، تو وہاں کے environment سے بھی اپنے آپ کو بچانا ہوگا، کچھ اس طریقے سے deal کرنا ہوگا کہ وہ چیز سامنے ہی نہ آئے اور چانس ہی نہ رہے۔ بہرحال! اصل بات یہی ہے کہ اگر کسی کی نظر پڑ گئی اور اس کی وجہ سے اثر ہوگیا، تو اس اثر کو دھونے کے لئے ہمارے پاس چیز بھی تو ہے اور وہ یہ دعا ہے: ’’یَا ھَادِیْ یَا نُوْرُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ‘‘۔ ’’یَا ھَادِیْ‘‘ میں اگر ہدایت سے کوئی deteraction ہوئی ہے، تو اس کا تصور کرے کہ اللہ پاک ہدایت دے رہے ہیں اور ’’یَا نُوْرُ‘‘ میں یہ سوچے کہ دل پر جو ظلمت آئی ہے، وہ دور ہو رہی ہے۔ اور ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ‘‘ میں انسان اپنی عاجزی ظاہر کرے کہ یا اللہ! میں تو عاجز ہوں، تیری مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی شخص اس کیفیت کے ساتھ اس کو پڑھے گا، تو ان شاء اللہ اس کا اثر دھل جائے گا۔

سوال نمبر 28:

ہفتہ وار معمولات میں جو معمولات جمعہ کو کرنے ہوتے ہیں، جیسے: سورۂ کہف اور صلوۃ التسبیح۔ سورۂ کہف تو جمعے کو ہی پڑھنی ہوتی ہے۔ لیکن صلوٰۃ التسبیح اگر کسی وجہ سے جمعہ کے دن رہ جائے، تو پھر ہفتے کو یا اتوار کو پڑھ کر معمولات کے چارٹ میں tick لگا سکتے ہیں یا صرف جمعہ کو ہی پڑھ کر لگا سکتے ہیں؟

جواب:

اس کے ساتھ plus کا نشان لگا دیں، تاکہ واضح ہوجائے کہ یہ معمول آگے پیچھے ہوا ہے۔

سوال نمبر 29:

اگر کوئی آلِ رسول کسی سے ناراض ہوجائے، تو کیا کرنا چاہئے؟ مثلاً: باتوں میں کوئی بے ادبی ہوجائے، تو کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

ہر محترم نیک شخص چاہے وہ آل رسول ہو یا نہ ہو، اگر اس کے ساتھ ایسا ہوجائے، تو ظاہر ہے کہ اس سے معافی مانگنی چاہئے اور اپنے آپ کو محتاط رکھنا چاہئے کہ پھر ایسا نہ ہو۔

سوال نمبر 30:

حضرت! عبقات کے آخری درس میں اور اس سے پچھلے والے درس میں ہم نے جوہر اور عرض کے تعلق پر discussion کی تھی اور فاطر و مفطور کے بیچ میں جو تعلق ہے، اس پر بات کی تھی۔ اس میں یہ concept ہے کہ ایک جوہر ہے اور عرض اس جوہر کے بغیر نہیں ہوسکتا اور دوسری طرف یہ کہ آپ ﷺ کے ذریعے تمام فیوض ہمیں مل رہے ہیں، ہم نے ایک example ذہن میں بنائی تھی کہ ہم نے پورا کا پورا ایک عالم ذہن میں بنایا تھا اور اس میں تمام چیزوں کو بنایا اور پھر اپنے آپ کو اس کے اندر تصور کیا اور ان دونوں مثالوں کو اکٹھا کر کے یہ سمجھا کہ آپ ﷺ کے ذریعے سے ساری چیزیں ہمیں مل رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کو ہم کیسے analyze کرسکتے ہیں اور کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ confusion مجھے اس وجہ سے بھی ہو رہی ہے کہ آپ ﷺ کے ذریعے سے جب سب کچھ مل رہا ہے، تو کیا آپ ﷺ کے علاوہ باقی سب چیزوں کو sub-set کی شکل میں تصور کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

اگر کوئی شخص بادشاہ کا منظورِ نظر ہے اور اس کی وجہ سے بادشاہ پورے گھر کو دے رہا ہے، تو کیا اس آدمی کا گھر سے باہر ہونا ضروری ہے؟ اسی طرح پوری کائنات میں آپ ﷺ بھی ہیں اور آپ ﷺ مخلوقات میں بھی ہیں، لیکن اس پوری کائنات کو جس میں آپ ﷺ بھی ہیں، آپ ﷺ کے ذریعے سے دیا جا رہا ہے، یہی تکوینی فیض ہے۔ اور ہدایت کا نظام بھی آپ ﷺ کے ذریعے سے چل رہا ہے، یعنی ہدایت والا فیض پہلے آپ ﷺ کی طرف آتا ہے، کیونکہ فیض صرف ہوا ہی نہیں ہے، بلکہ ہر خیر فیض ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا ہدایت بھی ایک فیض ہی ہے اور یہ فیض آپ ﷺ کی طرف آ رہا ہے۔ اور پھر چوں کہ اللہ ھادی ہیں، تو صفتِ ھادی کا مظہرِ اول آپ ﷺ ہیں۔ لہٰذا یہ فیض پہلے آپ ﷺ کی طرف آتا ہے، پھر آپ ﷺ سے سلسلے کے ذریعے شیخ کی طرف آتا ہے اور شیخ سے پھر مرید کی طرف آتا ہے۔ یہ تو ایک تصوف کے سلسلہ کی بات ہوگئی۔ اور باقی جو دینی سلسلے ہیں، وہ بھی سب آپ ﷺ ہی کے ذریعے چلے ہیں۔ قرآن میں ہے: ﴿یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَیُزَكِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ﴾ (آل عمران: 164)

ترجمہ: ’’ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے‘‘۔

پس یہ چاروں کام بھی آپ ﷺ کے ذریعے سے چل رہے ہیں۔

سوال نمبر 31:

حضرت! تکوینی فیض کسے کہتے ہیں؟

جواب:

کھانا کھانا؛ یہ تکوینی فیض ہے۔ کھانا کھانا، پانی پینا، مکان میں رہنا بیماری سے بچاؤ اور اس طرح کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے بچاؤ؛ یہ سب تکوینی فیض ہے۔

سوال نمبر 32:

کسی بندے کے ساتھ اگر جان، مال اور عزت کی زیادتی ہوئی ہو اور اسے معاشرے میں بڑی تکلیفیں دہ باتیں سننی پڑی ہوں، وہ کافی تکلیف دہ باتوں میں سے گزرا ہو، بہت سے لوگوں نے اسے تنگ کیا ہو، جس کے نتیجے میں اس کے دل میں ان کی محبت کی جگہ ان کی نفرت آجائے، تو اس نفرت کو کس طرح ختم کیا جائے؟

جواب:

وہ شخص جس کے ساتھ ایسا ہوا ہے، وہ آپ ﷺ کا امتی ہے؟ آپ ﷺ کے ساتھ محبت کرتا ہے؟ آپ ﷺ کے طریقہ کو بھی پسند کرتا ہے؟ آپ ﷺ کے ساتھ یہ سارا کچھ ہوا تھا یا نہیں ہوا تھا؟ پھر آپ ﷺ نے کیا کیا تھا؟ آپ ﷺ نے معاف کیا تھا۔ بس ہمارے پاس بھی یہی راستہ ہے۔ معاف کر دے، بلکہ اسی نیت سے معاف کر دے کہ وہ آپ ﷺ کا امتی ہے، آپ ﷺ اس کے لئے پریشان ہوں گے، تو میں کیوں آپ ﷺ کو پریشان کرتا ہوں۔ اگر اس کے اوپر مصیبت آئے گی، تو آپ ﷺ پریشان ہوں گے، کیوں کہ آپ ﷺ کا تو امتی ہے، لہٰذا میں آپ ﷺ کو آپ ﷺ کے ایک امتی کے لئے کیوں پریشان کروں۔

سوال نمبر 33:

السلام علیکم۔

حضرت جی! کچھ رشتہ دار لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو نہ صرف دین سے دور ہوتے ہیں، بلکہ کسی حد تک بغض بھی رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ملنے کی وجہ سے گھر والوں کے دین کا سخت نقصان بھی ہوتا ہے۔ حضرت! دعا بھی بہت کی کہ اللہ ان کو ہدایت دے، ورنہ ان سے دوری عطا فرمائے۔ لیکن حضرت! لوگ صلح رحمی کی بات کرتے ہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے۔

جواب:

دو باتیں ہیں: ویسے ملنا اور داعی بن کر ملنا۔ جب انسان داعی بن کر کسی سے ملتا ہے، تو تھوڑی توجہ کے ساتھ مدعو کی جانب سے دینی شر سے محفوظ ہوجاتا ہے، کیونکہ وہ پھر اس سے اثر نہیں لیتا۔ البتہ اس کے لئے پھر اپنے اذکار وغیرہ کی طرف زیادہ توجہ کرنی پڑے گی، تاکہ اگر اس کا اثر آچکا ہو، تو وہ دور ہوجائے۔ اور داعی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خصوصی بھی مدد ہوتی ہے کہ وہ پھر مدعو نہیں ہوتا، لیکن اس پر جو قلبی اثر ہوجاتا ہے، اس کو دور کرنے کے لئے جو ذکر اذکار کرنے ہوتے ہیں، وہ تو کرنے پڑیں گے، تاکہ وہ اثر بھی دور ہوجائے۔ باقی! وہ کم از کم مدعو نہیں ہوگا۔

سوال نمبر 34:

میں پندرہ منٹ قلب پر ذکر، پندرہ منٹ روح پر ذکر اور پندرہ منٹ وحدت والا ذکر۔

وضاحتِ مطلوبہ:

وحدت والے ذکر سے آپ کی کیا مراد ہے؟ میں اس سے مراقبہ احدیت مراد لے رہا ہوں، اگر یہی مراد ہے، تو ٹھیک ہے، ورنہ پھر بتا دیا جائے۔

جواب:

یہ تو تینوں ذکر خفی ہیں، لہٰذا اس ذکر پر تو کسی کی بیٹری discharge نہیں ہوتی۔ زبان سے ذکر کرنے کی وجہ سے اگر کوئی تھوڑا سا بیمار ہو، تو سمجھ آتا ہے کہ اس میں انسان کو تکلیف ہوتی ہے، یہ تو کوئی ایسا ذکر نہیں ہے جس سے انسان کو تکلیف ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذکر کے بارے میں آپ کی priority کم ہے، لہٰذا اس کا علاج تو میں نہیں کرسکتا، اس کا علاج تو آپ نے خود کرنا ہے کہ آپ نے ذکر کی priority کو بڑھانا ہے کہ اس ذکر کو آپ نے اہم سمجھنا ہے، تاکہ آپ کو فائدہ ہو۔ میں تو آپ سے سارا ذکر واپس لے سکتا ہوں، لیکن پھر نقصان کی ذمہ دار آپ ہوں گے۔ اور اگر آپ مجھ پر بات چھوڑنی ہے، تو پھر میں تو یہ کہوں گا کہ میں مزید ذکر دینا چاہتا ہوں۔ اس وجہ سے آپ اس بات کو ذہن سے نکال دیں کہ کوئی مشکل چیز ہے۔ اگر یہ مشکل ہے، تو پھر آسان کیا ہے؟ باتیں کرنا آسان ہے؟ سونا آسان ہے؟ ہمارے ایجوکیشن ڈائریکٹر جو ڈسٹرکٹ سکول آفسر تھے، ہم امتحان دے رہے تھے، تو جو بچے پیپر میں فیل ہوجاتے تھے، وہ ان کو نکال دیتے تھے، کیوں کہ وہ Competitive exams تھے۔ وہ ان کو کہتے کہ جاؤ، اپنی والدہ کے ساتھ گرم گرم کھانا کھاؤ، آپ کو یہاں آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لہٰذا پھر میں بھی کہوں گا کہ آپ اپنے گھر میں گرم گرم کھانا کھاؤ، کیوں کہ سردیاں بھی ہیں۔ آپ کو ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ روحانی ترقی کریں، تو پھر تو یہ کرنا پڑے گا۔ باتوں سے باتیں بنتی ہیں، کام سے کام ہوتا ہے، اور یہ بھی ایک کام ہے۔ ایک دفعہ میں ایک بڑے عالم کے ساتھ سفر میں تھا۔ اکثر جب میں کسی عالم کے ساتھ ہوتا ہوں، تو ان سے بہت سوالات پوچھتا ہوں، کیونکہ وہ میرے لئے مفید ہوتا ہے، میں ان سے سیکھتا ہوں۔ پس میں ان سے پوچھتا جاتا تھا اور حضرت بات فرماتے تھے اور بتاتے جاتے تھے۔ اچانک حضرت نے تسبیح نکالی اور فرمایا کہ باتیں بہت ہوگئیں، اب تھوڑا سا کام کر لیں۔ اور پھر انہوں نے ذکر شروع کر دیا۔ مجھے ابھی تک وہ بات یاد ہے کہ دیکھیں! انہوں نے مجھے عملی طور پہ بتایا کہ کام کیا چیز ہے۔ ہم لوگ اس کو کام ہی نہیں سمجھتے، اس وجہ سے مسائل ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کو کام سمجھو، پھر ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔

سوال نمبر 35:

کیا آپ ﷺ کی اولاد سے محبت سے بھی آپ ﷺ سے محبت بڑھتی ہے؟

جواب:

جی بالکل، یہ ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے دو سلسلے تو ہم تک پہنچتے ہیں، ایک سلسلہ تصوف کا ہے اور ایک نسبی ہے، الحمد للہ۔ آپ ﷺ کی محبت جب بڑھے گی، تو آپ ﷺ کی اولاد کے ساتھ بھی محبت بڑھے گی اور اپنے شیخ کے ساتھ بھی محبت بڑھے گی۔ پس درود شریف سے جب آپ ﷺ کی محبت بڑھتی ہے، تو پھر یہ چیز بھی ہوسکتی ہے۔

سوال نمبر 36:

ذکر ہم آہستہ آواز میں بھی کرسکتے ہیں یا اونچی آواز سے ضروری ہے؟

جواب:

کس ذکر کے بارے میں آپ پوچھ رہے ہیں؟ اگر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا ذکر ہے، تو یہ تو جہری ہے، لہٰذا یہ تو اسی طرح کرنا چاہئے، جس طرح ہم جہراً کرتے ہیں۔

سوال نمبر 37:

حضرت! ذکر کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کا محاسبہ دل میں آجائے۔ بعض اوقات یہ خیال آتا ہے کہ محاسبہ میں نبی پاک ﷺ کا خیال بھی کرنا چاہئے یا صرف اللہ کی ذات باقی رہ جائے؟

جواب:

مقصودیت اور رضا کے لحاظ سے تو صرف اللہ پاک کا ہی خیال ہونا چاہئے، لیکن اللہ پاک کی رضا کے لئے ذریعہ تو آپ ﷺ ہیں، اس لئے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کے ذکر میں بعد میں ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ ہے۔ پس جب ہم کہتے ہیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ تو اس میں تو یہ تصور کرو کہ اللہ کی محبت آ رہی ہے اور دل سے دنیا کی محبت نکل رہی ہے۔ لیکن 100 دفعہ کے بعد ایک دفعہ ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ کہنا چاہئے اور اس میں یہ تصور کرلو کہ آپ ﷺ کے ذریعے سے فیض آرہا ہے، تو بس مکمل ہوجائے گا۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


  1. (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عمثانی صاحب)

    تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔