اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی آپ کے بیان میں ایک جملہ پڑھنے کو ملا تھا اس کی تشریح فرما دیں۔ جملہ یہ تھا: ”جو اللہ والے ہوتے ہیں وہ عزیمت پر عمل کرتے ہیں، وہ بعض دفعہ رخصتوں کو چھوڑ دیتے ہیں“۔ جزاکم اللہ خیراً کثیراً کثیرا۔
جواب:
بہت اچھا سوال ہے۔ عزیمت پر عمل کرنا بھی دین ہے رخصت پر عمل کرنا بھی دین ہے لیکن جس وقت رخصت پر عمل کرنا نفس کا شعار بن جائے اس وقت اس رخصت کو چھوڑنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ عزیمت پر عمل کرنے کے لئے ایک راستہ ہے۔ نقشبندی حضرات کا طریقہ یہ ہے کہ وہ عزیمت پر عمل کرتے ہیں وہ اپنے آپ کو رخصت کی طرف نہیں لے جاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دوسرے مجاہدات جو اضطراری مجاہدات ہیں ان کی طرف اتنا زیادہ نہیں جاتے، وہ ایسے مجاہدات زیادہ کرواتے ہیں جن میں سنت پر عمل کرنے کا مجاہدہ ہوتا ہو۔ اس سلسلہ میں وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ عزیمت پر عمل ہو، یہی ان کا مجاہدہ بن جاتا ہے۔ البتہ اگر کسی کا کام اس طرح نہ ہوتا ہو، اس سے پھر سنت کے علاوہ دوسرے اضافی مجاہدات بھی کرواتے ہیں۔ مجاہدہ ہر وقت لازم نہیں ہوتا جیسے مراقبہ ہر وقت لازم نہیں ہوتا، جب اس کی ضرورت پڑے تب ہی کرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شرعی مجاہدات یا سنت پر چلنے والے مجاہدات کی طرف مائل نہیں ہوتا، ان پر عمل نہیں کر پاتا تو اس پر تیار کرنے کے لئے دوسرے غیر منصوص مجاہدات سے کام لیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو سب سلسلے آخر میں سنتوں پر ہی آتے ہیں، ہاں ابتداءً سنتوں پر لانے کے لئے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔
بعض اوقات انسان رخصتوں پر عمل کر سکتا ہے کیونکہ اس میں شکر کا پہلو آتا ہے اور عزیمت پر عمل کرنے میں صبر کا پہلو آتا ہے۔ عملی طور پر شکر کرنا زیادہ مشکل ہے۔ اگر رخصت کے ذریعے سے شکر کی صفت کو حاصل کیا جائے تو یہ رخصت کا ایک اچھا استعمال ہے۔ ہمارے بعض مشائخ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بعض موقعوں پر رخصت کو اس لئے ترجیح دیتے ہیں تاکہ اس سے شکر کے پہلو پیدا ہو جائیں اور شکر کے ذریعے لوگ دین پر آ جائیں۔
سوال نمبر2:
حضرت شاہ صاحب۔ صحبت ناجنس کے متعلق سوال ہے۔ جس بندے کے والدین یا بہن بھائی صحبت ناجنس ہوں، جن بندوں کے ساتھ اس نے روز مرہ کی بنیاد پر ساتھ رہنا ہو اور وہ دین سے دور ہوں ان سے کیسے بچا جائے، بالخصوص جب وہ آپ کے پاس آنے سے بھی منع کرنا شروع کر دیں تب کیا کیا جائے۔
جواب:
آج کل کا دور ایسا ہے کہ انسان پر نفس کا اثر بہت زیادہ ہے اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے وسائل بھی بے انتہا ہیں۔ ان حالات میں جو لوگ دین کی طرف جاتے ہیں، باقی لوگ ان کے مخالف ہو جاتے ہیں، ان کو تنگ کرتے ہیں۔ مخالفین میں زیادہ تر قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں، جیسے بعض دفعہ والدین ہوتے ہیں بعض دفعہ بہن بھائی ہوتے ہیں بعض دفعہ بیوی ہوتی ہے بعض دفعہ شوہر ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں یہ حدیث شریف سامنے رکھی جائے اور اسی پر عمل کیا جائے۔
”لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ“(مشکوۃ المصابیح: 3624)
ترجمہ: ”مخلوق کی ایسی اطاعت جس سے خالق کی نافرمانی ہو جائز نہیں ہے“۔
پس اگر مجھے والد بھی اللہ کی نا فرمانی کے لئے کہے گا تو میں نہیں کروں گا، اگر والدہ بھی کہے گی تو میں نہیں کروں گا، اگر بہن بھائی میاں بیوی جو بھی ایسی بات کہیں گے جس میں اللہ کی نافرمانی ہوگی، اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ البتہ ان کے حقوق سلب نہیں کئے جا سکتے، چاہے دین کے معاملے میں رشتہ دار مخالف ہوں تب بھی وہ رشتہ دار رہتے ہیں اور ان کے رشتہ داروں والے حقوق پورے کرنا انسان پر لازم رہتا ہے۔ والد والد رہتا ہے، والدہ والدہ رہتی ہے، بہن بھائی بہن بھائی رہتے ہیں، پڑوسی پڑوسی رہتے ہیں۔
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک پڑوسی شرابی تھا، شراب کے نشے میں اکثر اس مضمون کے اشعار کہا کرتا تھا کہ میری لوگوں نے قدر نہیں کی، مجھے لوگوں نے پہچانا نہیں ہے۔ ایک دفعہ پولیس والے اسے پکڑ کے لے گئے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اس کی سفارش کے لئے چلے گئے اور ان سے کہا کہ یہ میرا پڑوسی ہے آپ اسے چھوڑ دیں میں اسے نصیحت کر دیتا ہوں۔ پولیس والوں نے اسے چھوڑ دیا۔ امام صاحب نے اس سے کہا: اب بتائیں ہم نے آپ کو ضائع تو نہیں کیا۔ یہ ایک گناہ گار شخص تھا لیکن چونکہ پڑوسی تھا اس لئے امام صاحب نے پڑوسی کا حق ادا کر دیا۔
لہٰذا مخالفت کی وجہ سے حقوق سلب نہیں ہوتے۔ قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے کہ اگر والدین کسی گناہ کا یا شرک کا حکم دیں تو ان کی بات نہ مانو البتہ دنیا میں ان کے ساتھ اچھی گزر اوقات کرو۔ دنیا میں اچھی گزر اوقات کرنے کا حکم ہے، جو ان کے حقوق ہیں ان کو پورا کرنا پڑے گا چاہے وہ گناہ گار ہی کیوں نہ ہوں۔ گناہ گار ہیں تو ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے لیکن آپ کے اوپر جو ان کا حق ہے وہ آپ نے ضرور پورا کرنا ہے۔
مثلاً ایک دکاندار سے میں نے سودا لے لیا۔ اب اس کے پیسے ادا کرنا میرے اوپر لازم ہے، چاہے وہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، بلکہ کافر ہی کیوں نہ ہو، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ دکاندار شرابی ہے اس لئے میں پیسے نہیں دوں گا، وہ جیسا بھی ہو اس کے پیسے دینے لازم ہوں گے کیونکہ یہ اس کا حق ہے، اور حقوق ہر صورت میں ذمہ رہتے ہیں۔
اس قسم کی باتوں میں ذرا توازن رکھنا پڑتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بچانا بھی ضروری ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بہت عجیب واقعہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ باہر ٹہل رہے تھے۔ کسی صحابی نے پوچھا: حضرت آپ کیوں باہر ٹہل رہے ہیں گھر کے اندر کیوں نہیں جاتے۔ فرمایا: حفصہ آئی ہوئی ہے، اور وہ کمرے میں اکیلی ہے اس لئے میں ان کی موجودگی میں اندر نہیں جانا چاہ رہا۔
وہ ان کی بیٹی تھی اور امہات المؤمنین میں سے ہیں۔ اس سے اندازہ کر لیں کہ وہ اس حد تک اپنے آپ کو بچاتے تھے۔ آج کل کے دور میں یہ مسائل بہت زیادہ ہیں۔ بہرحال اپنے آپ کو رشتہ داروں کے برے اثر اور شر سے بھی بچانا پڑے گا اور ساتھ ساتھ حقوق بھی پورے کرنے ہوں گے۔
سوال نمبر3:
Dear حضرت شاہ صاحب جزاك اللہ for all the awards and the pieces of advice you gave to me that day. I felt I needed it سبحان اللہ! I am sorry if I may appear distant. It is just that I don’t want to disturb you with useless questions. Anyways, please know me. My deep respect and love for you فلاں
جواب:
اس کے بعد میں نے ان کو جو جواب دیا تو اس نے کہا:
For one month right?
Yes it is for one month.
سوال نمبر4:
حضرت ایک ضروری چیز پوچھنی تھی اگر آپ مناسب سمجھیں تو جواب دے دیجئے۔ کیا کسی سید کا اپنے آپ کو سید ظاہر کرکے اپنی مجبوری بتانا اور کسی کام کے لئے کہنا جائز ہے؟ اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں جیسے جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس سید آیا تھا اور جیسے ایک سیدہ عورت جو مجبور تھی ایک راہب کے پاس آئی تھی اور اس نے اس کی مدد کی تھی۔
دوسری بات یہ کہ اگر کسی نے آپ کے ساتھ دھوکہ کیا ہو، وعدہ خلافی کی ہو تو اسے یہ کہنا کہ تم نے آپ ﷺ کی نسبت کا بھی خیال نہیں رکھا! کیا ایسا کہنا صحیح ہے؟
جواب:
واقعی بڑا Technical question ہے۔ سید ہونا بہت سارے لوگوں کے لئے خیر کا ذریعہ بن جاتا ہے، اور بہت سارے لوگوں کے لئے آزمائش بن جاتی ہے۔ سید ہونا ایک آزمائش بھی بن سکتی ہے اور بہت زیادہ خیر کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ اپنے آپ کو بچا کے دوسروں کو فائدہ پہنچایا جائے۔ اپنے آپ کو بچا کر دوسروں کو فائدہ پہنچانا بہت ہی بہترین صورت ہے۔ اور بغیر کسی کو نقصان پہنچائے اپنا فائدہ حاصل کرنا جائز ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، البتہ کسی کو نقصان پہنچا کر اپنا فائدہ کرنا خود غرضی ہے۔
اس تمام context کا تجزیہ کرکے سوچ کر فیصلہ کیا جائے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ جیسے آپ نے کہا کہ بعض دفعہ ایسی مجبوری ہوتی ہے کہ بتائے بغیر چارہ نہیں ہوتا، ایسی حالت میں بتایا بھی جا سکتا ہے۔ جیسے کچھ حالات میں مردار کھانا بھی جائز ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے حالات میں کسی کو اپنا سید ہونا بتا دینا کوئی عیب کی بات نہیں ہے، کیونکہ ایک تو یہ جائز کام ہے اس میں کوئی ناجائز بات نہیں ہے، دوسری بات یہ ہے کہ آپ کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ آپ اپنے نسب سے دنیاوی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور یہ بات مستحسن نہیں ہے، لیکن مجبوری کی صورت میں جائز ضرور ہے۔
جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے واقعہ میں سید نے اپنا سید ہونا بتا دیا، اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ بہت ہی زیادہ مجبور تھا دوسرے واقعہ میں سیدہ عورت کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا، وہ بے حد مجبور تھی۔ اس قسم کی باتوں میں اپنا سید ہونا ظاہر کر دینا جائز ہے۔
جو آخری بات آپ نے پوچھی کہ اگر کوئی کسی سید کو نقصان پہنچائے تو کیا سید اسے یہ کہہ سکتا ہے کہ تم نبی ﷺ کی نسبت کا خیال نہیں رکھ رہے؟ اس بارے میں یہ عرض ہے کہ اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچا رہا ہے تو اسے ضرور اطلاع کر دیں کہ آپ نبی ﷺ کی نسبت کا خیال نہیں رکھ رہے، اس سے آپ کو نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ آپ ﷺ کی نسبت کا خیال نہ رکھنا بہت خطرناک بات ہے۔ لہٰذا اگر کوئی اس قسم کی بات کر رہا ہو تو اسے خیر خواہی کے طور پر بتا دیا جائے کہ اس سے آپ کو نقصان ہو سکتا ہے۔
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جن لوگوں نے ظلم کیا، اللہ پاک نے ان سے بہت سخت انتقام لیا ہے، ایسا انتقام کہ تاریخ میں ایسا انتقام کسی سے نہ لیا گیا ہوگا۔ اُن لوگوں میں بڑے بڑے لوگ شامل تھے لیکن چونکہ بہت بڑی بات ہوئی تھی اس کے لحاظ سے ان کا معاملہ بھی بہت خطرناک ہوا۔ اُن میں سے کوئی بھی طبعی موت نہیں مرا سب غیر طبعی موت مرے، کسی کو کسی نے قتل کر دیا کوئی موذی بیماری سے مر گیا، سب کے ساتھ کوئی نہ کوئی حادثہ ہی پیش آیا۔ ایک بوڑھا آدمی جو مخالفینِ حسین میں شامل تھا، ایک مجلس میں بیٹھا تھا، وہاں یہی بات چیت ہو رہی تھی کہ جو لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت میں شامل تھے ان میں سے کوئی طبعی موت نہیں مرا۔ اس بوڑھے نے کہا، دیکھو میں ابھی تک زندہ ہوں، مجھے کچھ بھی نہیں ہوا، میں اس سب میں شامل تھا۔ اس کا حشر یہ ہوا کہ وہ گھر گیا، دیکھا گھر میں چراغ ٹھیک سے بجھا نہیں تھا، ہلکا ہلکا جل رہا تھا۔ اس نے چراغ کو درست کرنے کے لئے پھونک ماری، چراغ سے چنگاریاں اڑ کر اس کی داڑھی میں آ گئیں، داڑھی نے آگ پکڑ لی، داڑھی سے کپڑوں نے آگ پکڑ لی، تھوڑی ہی دیر میں جل کر کوئلہ ہو گیا۔ دیکھیں اللہ پاک نے سب کے سامنے ظاہر کر دیا کہ دیکھو اس نے جرات کی تو اس کے ساتھ کیا ہوا۔
اس لئے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بے شک سید کیسے ہی کیوں نہ ہوں لیکن چونکہ ان کی نسبت آپ ﷺ کے ساتھ ہے اس لئے اس نسبت کا احترام کرتے ہوئے اگر ان کو خیر نہ پہنچائی جا سکے تو کم از کم نقصان بھی نہ پہنچایا جائے، بالخصوص جب معلوم بھی ہو کہ یہ سید ہے۔
اگر کوئی سید کو نقصان پہنچانے لگے تو سید اس کی خیرخواہی کی نیت سے بتا دے کہ اس نسبت کی بے حرمتی مت کرو اس کا نقصان تمہیں ہی ہوگا۔
یہ بات تو غیر سیدوں کے بارے میں تھی۔ کچھ چیزیں خود سادات کو یاد رکھنی چاہئیں۔ مثلاً یہ بات ہمیشہ مستحضر رکھنی چاہیے کہ آپ ﷺ نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فرمایا کہ بیٹی تو اس وجہ سے نہیں بخشی جائے گی کہ میری بیٹی ہے، بلکہ اس وجہ سے بخشی جائے گی کہ تو اپنا عمل کرے گی۔ اس لئے سادات کو اس بات پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے کہ ہم یوں ہی بخشے جائیں گے بلکہ سادات کو بھی عمل کرنا پڑے گا۔
ایک دفعہ میں بہاولپور کسی کام کے سلسلے میں گیا، وہاں ٹیچرز کے درمیان بیان کا موقعہ ملا۔ بیان کے دوران ایک استانی نے سوال پوچھا کہ شاہ صاحب! کیا سیدہ یا سید کسی سے بیعت ہو سکتے ہیں؟
میں نے ان سے کہا: آپ کے آباؤ اجداد جو سید تھے کیا وہ کسی سے بیعت ہوئے تھے؟
اس نے کہا: جی ہاں! وہ تو بیعت تھے۔
میں نے کہا: پھر آپ بھی بیعت ہو سکتی ہیں۔
سادات کو بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہماری بخشش صرف سادات ہونے کی بنا پر ہو جائے گی۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے، انہوں نے فرمایا : دنیا میں سید کا مقام اس کی نسبت کی وجہ سے ہے جو نبی ﷺ کے ساتھ نسبی تعلق ہے جبکہ آخرت میں سید کا مقام عمل کے لحاظ سے ہوگا۔ دنیا میں لوگ سادات کی قدر کرتے ہیں، اس کی وجہ سے اللہ پاک ان کو نواز بھی دیتے ہیں، لیکن آخرت میں سید کا مقام و مرتبہ عمل کی بنا پر ہوگا۔ سید نیک عمل کرے گا تو اچھی جگہ پہ جائے گا اگر غیر سید نیک عمل کرے گا تو وہ اچھی جگہ پہ جائے گا۔ ان تمام چیزوں کو سمجھنا چاہیے، پھر کوئی تردد نہ ہوگا۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم حضرت جی! ایک بات سمجھ نہیں آ رہی آپ رہنمائی فرما دیجئے۔ اللہ جل شانہ سے نبی پاک ﷺ کے وسیلے سے دعا تو کر سکتے ہیں لیکن کیا آپ ﷺ سے کسی بات کی دعا یا درخواست کی جا سکتی ہے؟ اگر کی جا سکتی ہے تو اس کے کیا آداب ہیں؟ عام حالات میں محبت محسوس نہیں ہوتی، محبت کا پتا اس وقت چلتا ہے جب دنیا کی کسی چیز کے ساتھ مقابلہ آ جائے۔
کیا صرف روضۂ اقدس پر حاضر ہو کر دعا یا درخواست کر سکتے ہیں؟
آپ ﷺ کے معاملہ میں تو آداب کا خاص خیال ہونا چاہیے، یہ معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔ ہم شجرہ مبارک بھی تو پڑھتے ہیں اس کے ذریعے بھی درخواست کی جا تی ہے، جیسے اس میں بزرگوں اور آخر میں نبی کریم ﷺ کے وسیلے سے مانگا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں رہنمائی فرما دیجیے۔
جواب:
آپ بات درست کر رہے ہیں، لیکن کچھ چیزوں کو آپ نے خلط ملط کردیا ہے، میں انہیں کلئیر کر دیتا ہوں، امید ہے بات واضح ہو جائے گی۔
پہلی بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کے وسیلے سے دعا کی جا سکتی ہے۔ ہمارے سلسلے کا شجرہ سارے اکابر پڑھتے رہے ہیں۔ اس میں آپ ﷺ کے وسیلے سے بھی دعا ہے اور بزرگوں کے وسیلہ سے بھی دعا ہے۔ لہٰذا یہ بات تو مسلَّم ہے کہ نبی ﷺ اور دوسرے بزرگان دین کے وسیلے سے دعا کی جا سکتی ہے۔
دوسری بات۔ آپ نے یہ پوچھا ہے کہ کیا نبی ﷺ سے دعا کی درخواست کر سکتے ہیں؟
اس سلسلہ میں احتیاط کرنا زیادہ بہتر ہے۔ آپ ﷺ روضہ اقدس پر سنتے ہیں، روضہ اقدس پر آکر اگر دعا کی درخواست کی جائے تب تو ٹھیک ہے، لیکن اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر ایسا کرنا درست نہیں ہے۔
میں آپ کو خود اپنا واقعہ عرض کرتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوا تھا۔ جب میں پہلی دفعہ روضۂ اقدس پہ حاضر ہوا تو گنگ ہو گیا، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کروں۔ ایک طرف میرے سامنے ”اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ“ کی آیت تھی کہ مانگنا اللہ پاک ہی سے ہے، مدد کی درخواست اللہ پاک ہی سے کرنی ہے اور عبادت اللہ پاک ہی کی کرنی ہے۔ دوسرا یہ بات بھی دل میں تھی کہ آپ ﷺ کے دربار میں حاضری ہے یہ chance بار بار نہیں ملتا۔ میں حیران تھا اس موقع پر کیا کروں۔ میرے ساتھ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی تشریف فرما تھے۔ میں نے بعد میں حضرت سے ساری بات عرض کی تو حضرت مسکرائے اور فرمایا: میرے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا لیکن میرے دل پر اللہ پاک نے یہ حدیث شریف وارد فرما دی:
”اِنّمَا اَنَا الْقَاسِمُ وَ اللہُ مُعْطِی“ (صحیح بخاری: 7312)
ترجمہ: ”بے شک میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ عطا فرماتے ہیں“۔
یہاں دونوں سن رہے ہیں، اللہ پاک بھی سن رہے ہیں اور آپ ﷺ بھی سن رہے ہیں لہٰذا تم اپنی بات پیش کر لو، یہ نہ کہو کہ میں کس سے کہہ رہا ہوں، یہ بات وہ آپس میں کر لیں گے، تم صرف اپنی بات پیش کر لو۔
اس کے بعد سے جب بھی میں روضۂ اقدس پہ حاضر ہوتا ہوں تو میں اس طرح دعا کرتا ہوں کہ اللہ پاک میری یہ حاجات ومرادات پوری فرما دیں۔ یہ احتیاط کے پہلو ہیں، میں اس میں کوئی حکم تو نہیں لگا سکتا ہوں میں مفتی نہیں ہوں، لیکن احتیاط تو کر سکتا ہوں۔ انسان عقیدے کے لحاظ سے محتاط رہے تو اچھی بات ہے۔ جو آپ نے پوچھا اس بارے میں بھی یہی عرض کروں گا کہ احتیاط کا پہلو مد نظر رکھنا چاہیے، اسی پہ عمل کرنا چاہیے۔
واقعتاً محبت کا پتا اسی وقت چلتا ہے، جب دنیا کی کوئی چیز مقابلہ میں آ جائے۔ اس کسوٹی سے ہر انسان کو خود پتا چل سکتا ہے کہ میں کس condition میں ہوں۔
شجرہ مبارکہ میں جو دعا کی درخواست ہے وہ اللہ تعالیٰ سے ہی ہے لیکن بزرگوں کے وسیلے سے ہے۔ اس میں در اصل یہ کہا جاتا ہے کہ یا اللہ فلاں کی برکت سے مجھے یہ چیز عطا فرما دے۔ مانگنا تو اللہ ہی سے ہوا۔ اس میں ”اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ“ کے خلاف کوئی بات نہیں ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی حرج نہیں۔
سوال نمبر6:
حضرت جی! ملفوظات حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ میں سبق نمبر 84 میں ایک ملفوظ مذکور ہے، جو درج ذیل ہے:
”جھوٹ بولنے کا علاج: ایک خط آیا تھا اس میں لکھا تھا کہ مجھ کو جھوٹ بولنے کی عادت ہے۔ میں نے لکھا تھا کہ اگر سچ کو سوچ کر بولو گے تو کیا اس سے بچنا اختیار میں نہیں، کیا تب بھی جھوٹ ہی بولو گے؟ آج پھر خط آیا ہے لکھا ہے کہ واقعی سچ سوچ کر بولنا جھوٹ کا علاج ہے۔ اب ان شاء اللہ تعالیٰ سوچ کر بولا کروں گا۔ فرمایا کہ اختیاری اور غیر اختیاری کا مسئلہ نصف سلوک سے زیادہ ہے اور توسع کر کے کہتا ہوں کہ کل سلوک ہے دعویٰ سے تو کہتا نہیں مگر اکثر یہی ہے کہ جس کے ساتھ جو معاملہ کیا جائے اکثر صحیح نکلتا ہے اور اس میں دعویٰ کی چیز ہی کون سی ہے اللہ تعالیٰ جس سے کام لیتا ہے اس کی مدد فرماتا ہے۔“
حضرت جی اس ملفوظ میں درج ذیل حصہ کی سمجھ نہیں آئی۔
”اختیاری اور غیر اختیاری کا مسئلہ نصف سلوک سے زیادہ ہے“۔
ازراہ کرم اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب:
اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا ہے:
﴿لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا﴾ (البقرہ:286)
ترجمہ: ”اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا“
اگر کسی کے اندر کسی کام کی طاقت نہیں ہے، تو اللہ پاک نے اس کے ذمہ وہ کام لگایا بھی نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ جس کے اندر کسی کام کی طاقت ہے، جب تک وہ اس طاقت کو استعمال نہیں کرتا، مطلوبہ نتیجہ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ فرمایا:
﴿لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی﴾ (النجم:39)
ترجمہ: ”انسان کو خود اپنی کوشش کے سوا کسی اور چیز کا (بدلہ لینے کا) حق نہیں پہنچتا۔“
اگر ان دونوں آیتوں کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اختیاری اور غیر اختیار کی ساری بحث واضح ہوجاتی ہے۔ جو انسان کے بس میں نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اس بارے میں اس سے پوچھے گا بھی نہیں۔ مثلاً کسی کو اچھے خواب نہیں آتے، کیا اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تمھیں اچھے خواب کیوں نہیں آتے؟ غیر اختیاری کاموں پہ گرفت نہیں ہے اور غیر اختیاری امور پہ کوئی انعام بھی نہیں ہے، البتہ اختیاری امور پر گرفت بھی ہے اور ان کا انعام بھی ہے۔ جو وسوسہ آپ control کر سکتے ہیں وہ آپ کی گرفت میں ہے اس کو روکنا آپ کے اختیار میں ہے، لہٰذا اس کے بارے میں آپ سے پوچھا جائے گا اور جو آپ کی گرفت میں نہیں ہے، آپ control نہیں کر سکتے اس کے بارے میں آپ سے نہیں پوچھا جائے گا، اسے چھوڑ دو، وہ تمھارا نہیں ہے، وہ شیطان کا ہے، اس کی پوچھ گچھ شیطان سے ہی ہو گی اور اس پر گرفت شیطان کی ہی جائے گی۔ اس لئے جو انسان کے اختیار میں ہے اس میں سستی نہ کرے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: ”جو اختیار میں ہے اس میں سستی نہ کرو اور جو اختیار میں نہیں ہے اس کے پیچھے نہ پڑو“۔ حضرت نے فرمایا کہ پورا سلوک اس کلیہ میں مضمر ہے کہ جو اختیار میں نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو اور جو اختیار میں ہے اس میں سستی نہ کرو۔
ہم لوگ سستی کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں جی مجھ سے نہیں ہوتا۔ آج ہی ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ حضرت ایک مہینے سے میرے معمولات نہیں چل رہے میں کوشش بھی کرتا ہوں پھر بھی نہیں ہو پا رہے۔ میں نے کہا: آپ روحانی یرقان میں مبتلا ہیں آپ اس طرح کر لیں کہ جتنا وقت آپ کا معمولات پر لگتا تھا اس وقت آپ خاموش بیٹھے رہا کریں کچھ بھی نہ کریں، لیکن اس وقت بیٹھیں ضرور۔ بس یہ آپ کا علاج ہے اور مجھے ہر دن اپنی کیفیت بتاتے رہیں۔ ظاہر ہے اگر وہ وقت دے گا تو معمولات بھی کر لے گا، جو وقت نہیں دے رہا وہ معمولات کیا کرے گا۔ وقت دینا تو انسان کے اختیار میں ہے، جو وقت نہیں دے رہا اس کا مطلب ہے وہ کرنا نہیں چاہتا اور اگر وقت دے رہا ہے تو پھر کر بھی لے گا۔ اگر خاموش بیٹھ سکتا ہے تو معمولات بھی کر سکتا ہے۔
واقعتاً بعض دفعہ لوگ سستی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید ہم سے ہو نہیں رہا، چونکہ ہم سے ہو نہیں رہا اس لئے اس پر کوئی گرفت بھی نہیں ہوگی۔ اگر کر سکتے ہو، پھر نہیں ہو رہا، تب تو پوچھا جائے گا۔ یہ کمزوری ہوتی ہے کہ جو کام کر سکتے ہیں، وہ ہو نہیں پارہا اور اس کے علاج کے لئے مجاہدہ ہوتا ہے۔
اکثر لوگوں کو ہم خاموشی کا مجاہدہ بتاتے ہیں۔ اگر کوئی یہ مجاہدہ کرلے تو وہ اپنی زبان پہ کافی حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جب بات چیت ہو رہی ہو اور موضوع گفتگو بھی آپ کا پسندیدہ ہو، تو آپ 10 منٹ تک بات نہ کریں بالکل خاموش بیٹھے رہیں، اگر آپ نے یہ کر لیا تو اس کا مطلب ہے کہ 10 منٹ تک آپ کو اپنے نفس کے اوپر control حاصل ہو گیا۔ اب آپ دس منٹ خاموش رہ سکتے ہیں، جب خاموش رہ سکتے ہیں تو خاموشی کے وقت میں سوچ بھی سکتے ہیں کہ کون سی بات کرنی چاہیے کون سی بات نہیں کرنا چاہیے۔ اگر سوچنے کے لئے وقت ہی نہ ہو تو کیسے سوچے گا، اور بغیر سوچے بولے گا، تو بولنے پہ کنٹرول کیسے ہوگا، ہاں اگر سوچنے کے لئے وقت آ گیا تو سوچ بھی لے گا اور سوچ سوچ کر بولے گا تو جھوٹ سے بچے گا۔ یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں، سوچنا اور جب بولنا تو سیدھی بات بولنا۔ جب یہ دو چیزیں مل جائیں، علم اور کام کرنے کی استطاعت، تب کام بن جاتا ہے۔ اسی طریقے سے انسان کا علاج ہو سکتا ہے۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم! الحمد للہ درود شریف پڑھنے کی عادت ہو گئی ہے، پورا دن گھر کے کام کے ساتھ پڑھتی ہوں۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ اس بار تعداد زیادہ ہو گی۔ کچھ مہینوں سے دل کی خواہش ہے کہ آپ مجھے اصلاح کے لئے بہت ڈانٹیں۔
جواب:
درود شریف پڑھنا بڑی سعادت کی بات ہے اور اللہ پاک کی طرف سے رحمتوں کے نزول کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ آپ ﷺ چونکہ رحمۃ للعالمین ہیں، جو آپ ﷺ پر درود شریف بھیجتا ہے، اللہ پاک اس کے اوپر رحمت بھیجتے ہیں۔ ایک دفعہ کوئی درود شریف پڑھتا ہے اللہ تعالی اس کے اوپر دس رحمتیں بھیجتے ہیں اور یہ بہت بڑی سعادت ہے، اللہ تعالیٰ اس نعمت کو اور بھی بڑھا دے۔ بس شریعت پر چلنا اور ان ذرائع کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا یہی بڑی بات ہے۔
جہاں تک ڈانٹنے کی بات ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ ڈانٹتے تو ہم ضرور ہیں لیکن بلا ضرورت نہیں ڈانٹتے۔ جب ضرورت ہوگی تب آپ نہ بھی چاہیں تو ہم ڈانٹیں گے اور جب ضرورت نہیں ہوگی تب آپ چاہیں گی بھی تو ہم نہیں ڈانٹیں گے۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم شاہ صاحب!
I am فلاں from Islamabad. Please check my معمولات chart for this month. I had so many issues like mother’s illness and bhabhi’s miscarriage. That’s why I missed performing a few معمولات as regularly as before. Please pray for me and my family our فلاح in دین and دنیا.
جزاك اللہ خیر!
جواب:
اللہ تعالیٰ آپ کو ان مشکلات پہ صبر کی توفیق عطا فرما دے۔ مشکلات پر صبر بہت بڑا وظیفہ ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ نصیب فرماتا ہے۔
﴿إِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ﴾ (البقره: 153)
ترجمہ: ”بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“
اس کے علاوہ والدین کی خدمت بہت بڑا وظیفہ ہے۔ اس وقت آپ والدین کی خدمت کر رہی ہیں اس سے آپ پر اللہ کی بہت رحمتیں ہوں گی۔
ہمیں شریعت پر عمل کرنے اور قائم رہنے کا حکم ہے۔ شریعت پر قائم رہنے کے لئے اخلاص اور ترقی چاہیے ہوتی ہے، اس کے لئے ہمیں معمولات کرنے ہوتے ہیں۔ ان معمولات کے اندر سستی کو control کریں، یہی ہمارے لئے روحانی قوت کا ذریعہ ہیں، جتنی ہماری روحانی قوت ہو گی ہمارے اعمال اتنے ہی اچھے ہوں گے۔ بالکل بے اختیاری ہو تو علیحدہ بات ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوتا ہے اس پہ اللہ پاک کوئی گرفت نہیں کرتے۔ لیکن اگر ہم عمل کرنے کی position میں ہوں تو عمل کو نہ چھوڑیں۔ یہی ہمارے لئے روحانیت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے جس کی وجہ سے ہمیں شریعت پہ عمل میں مزید ترقی ملے گی۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم! جو لوگ internet کے ذریعے دعا میں شمولیت کرتے ہیں کیا اللہ کی نظر میں ان کا status بھی محفل میں موجود لوگوں جیسا ہوتا ہے؟
کیا ریکارڈ کی ہوئی دعا میں شامل ہونا براہ راست دعا میں شمولیت جیسا ہوگا یا نہیں؟
جواب:
اس میں مدار اختیاری اور غیر اختیاری پر ہے۔ اگر کوئی اپنے شہر میں ہے اور سستی کی وجہ سے محفل میں نہیں پہنچتا، آن لائن ہی دعا میں شامل ہو جاتا ہے، تو اس کا اور محفل میں موجود لوگوں کا سٹیٹس ایک جیسا نہیں ہوگا۔ اللہ کو تعالیٰ کو تو پتا ہے کہ ایک نے کوشش کی دوسرے نے کوشش نہیں کی۔ جو محفل میں پہنچ گئے ان کی بات ذرا اعلیٰ ہے اور نہ آنے والوں کی بات اس کے مقابلہ میں کم ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے بارے میں ہے جو اسی شہر کے رہنے والے ہیں۔ البتہ جو لوگ بہت دور رہتے ہیں جیسے کوئی جدہ میں بیٹھا ہوا ہے کوئی انگلینڈ میں بیٹھا ہوا ہے کوئی کراچی اور کوئی امریکہ میں بیٹھا ہے۔ ان کا معاملہ اور ہے، اللہ تعالیٰ کو پتا ہے کہ یہ چاہیں بھی تو نہیں پہنچ سکتے، ان کا معاملہ غیر اختیاری ہے، ایسے لوگ اگر باقاعدگی سے مجلس میں شامل ہوتے ہوں اور اس میں ہی ان کو جتنا مجاہدہ کرنا پڑے وہ کرتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو اسی کے ذریعے سے پورا فیض پہنچا دیتے ہیں کیونکہ ظاہر ہے فیض پہنچانا تو اللہ کا کام ہے وہ تو اللہ ہی پہنچاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو فیض پورا پہنچا دیتے ہیں۔ وہ براہ راست محفل میں آن لائن شامل ہو جائیں یا ریکارڈنگ سن لیں، اگر ان کی طرف سے کوئی سستی نہیں تھی تو ان کا سٹیٹس محفل میں شامل لوگوں جیسا ہی ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہاں مجلس میں شامل ہو مگر میری آواز اس تک کسی وجہ سے نہ پہنچ رہی ہو، تو اس کو بھی فیض پورا پورا ملے گا۔
recording کے مسئلہ کو آپ یوں سمجھیں کہ جیسے آپ کو کوئی دعا سکھا رہا ہے کہ یہ مانگو یہ مانگو اور یہ مانگو اور آپ اس پر آمین آمین کہتے رہیں تو وہ دعا دعا بن جائے گی۔ ریکارڈنگ والی دعا بھی اسی طرح براہ راست دعا کی طرح بن جائے گی جیسے آپ کو کوئی سکھا رہا ہے اور آپ اس پہ آمین کہہ کر دعا میں شامل ہو رہے ہیں۔ اگر کوئی کہہ دے کہ اللہ خیر کرے اور اس کی یہ بات ریکارڈ ہو جائے، بعد میں آپ کے سامنے یہ ریکارڈنگ چلے اور آپ اس دعا پر کہیں آمین، تو یہ تازہ دعا کی طرح بن جائے گی۔ آپ کے آمین کہنے سے وہ ایک مستقل دعا بن جائے گی کیونکہ آپ نے آمین کہہ کر در اصل یہ کہا ہے کہ یا اللہ جو مانگا جا رہا ہے میں بھی یہ مانگتا ہوں۔
لیکن یہ ساری تفصیل دور والے لوگوں کے لئے ہے، قریب والوں کا معاملہ یہی ہے کہ جو ہمت کرکے پہنچ جائے اس کا درجہ زیادہ ہوتا ہے۔ جو نہیں پہنچ پاتے ان کا درجہ کم ہوتاہے۔ ان میں کتنا فرق ہے وہ اللہ کو معلوم ہے، اس میں ہم کچھ بات نہیں کرتے۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم!
I also listen to music and songs. I listen to music every day actually whenever I am bored. I am half addicted. Now, while trying to concentrate in meditation, those lyrics and sounds sometimes distract me. I wanted to tell you this long ago but I really love to listen to music and don’t want to stop listening to it. There are few songs I can completely rely, but I want to get rid of that love of music too ان شاء اللہ. From now on I will try to control my urge to listen to songs though it will be really difficult for me. Is there something else I should do for it? Few months ago, I deleted all my songs. I deleted all songs from my phone but internet due to are main source there are difficult to ignore. وعلیکم السلام
جواب:
میں نے اس کا جواب دیا:
Oh! Very strange leaving it may be difficult but not impossible. It will not be impossible if someone knows when he or she will leave he or she may get rid of جہنم which may be faced because of it.
گانے سننے کی وجہ سے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالاجائے گا، اس کے لئے جہنم میں داخل کیا جائے گا، اگر کوئی گانے سننے سے بچتا ہے، اس کے لئے اس عذاب سے بچت ہے۔ اس لئے جتنا ہو سکے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
I will ان شاء اللہ try to make note of it every time I listen to music. I will avoid listening to it but in case I do, I will make a note. I have white board in the room in which I note the college timetable and all. I will just write there. Thank you.
یہ آپ نے بہت اچھی بات کی ہے کہ اللہ آپ کو اس پر ہمت سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہی بنیادی بات ہے۔ نفس کی خواہشات ہر ایک کے ساتھ ہیں۔ نفس امارہ وہ برائی کی طرف مائل کرتا ہے، دل میں برائی کرنے کے تقاضے پیدا کرتا ہے، اس کے تقاضوں پہ عمل کرنے سے گناہ ہوتا ہے اور اس کے تقاضوں پر عمل نہ کرنے سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا:
﴿فَأَلْھَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوىٰها﴾ (الشمس: 8)
ترجمہ: ”پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈل دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔“
یعنی اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ میں نے الہام کیں اس نفس کو دو چیزیں، ایک اس کے فجور اور دوسرا اس کا تقویٰ۔ فجور اس کے اندر by default موجود ہے، اگر کوئی اس کے فجور کے تقاضے پہ عمل کرے گا تو گناہ ہو جائے گا اور اگر اس سے بچنے کی کوشش کرے گا تو یہ تقویٰ بن جائے گا۔ اب اگر فجور کا تقاضا سو فیصد ہو تو اس تقاضے پر عمل نہ کرنے سے سو فیصد تقویٰ حاصل ہوگا۔ اس لئے اگر نفس کی طرف سے زور زیادہ ہے تو یہ اس لحاظ سے مبارک بھی ہے کہ اس سے بچنا آپ کو بہت بڑا متقی بنا سکتا ہے۔ اس وجہ سے کوشش کرنا چاہیے کہ اگر انسان کے اندر نفس کے تقاضے موجود ہوں تو ہمت کرکے ان سے بچے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم، حضرت! میں نے 3 دن سے مراقبہ شروع کیا ہے، الحمد للہ دل میں محسوس ہوتا ہے، concentration بھی پہلے کی نسبت اچھی ہے، ذہنی tension تھی تو پنڈی سے آنے کے بعد بہت حد تک ختم ہو گئی تھی۔ ایک مصیبت ہے کہ نیند بہت آتی ہے۔ ایک نماز قضا ہوئی تھی جس کا کل میرا تیسرا روزہ ہے۔ بہت سی برائیاں کرتے ہوئے دل کہتا ہے کہ نہ کروں، اپنے حد تک ان سب سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے ہماری بجلی ڈائریکٹ ہے اس پر ہیٹر لگا ہوا ہے، اس کو استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے۔ شوہر کے کزن وغیرہ سے ملنا چھوڑ دیا ہے، لیکن گھر کے اندر جو دیور وغیرہ ہیں ان سے ابھی پردہ شروع نہیں ہوا، البتہ ان کی محفل میں نہیں بیٹھتی۔ اس بارے میں مشورہ کرنا ہے کہ کیا کیا جائے۔ یہ اقدامات فی الوقت لینا مناسب ہے یا صرف مراقبہ پر توجہ دی جائے۔
جواب:
فی الحال مراقبہ پر concentration دینا آپ کی ذمہ داری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مراقبہ آپ کی اللہ پاک کے ساتھ تعلق پیدا کرنے والی کیفیت کو بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ اس کو آپ جاری رکھیں اور اسی پر concentrate کریں۔ البتہ گناہوں سے بچنا ہر حالت میں لازم ہے وہ تو ہمیں اپنے آپ کو بچانا ہی ہے۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ جن سے آپ آسانی سے پردہ کر سکتی ہیں جب ایسے لوگ گھر پر آئیں تو آپ تھوڑا side پر ہو جائیں، گھر میں جو دیور وغیرہ ہیں ان کے ساتھ ایسا معاملہ کر لیں کہ آپ اپنے آپ کو covered رکھیں، عام طور پر کام کرتے ہوئے covered رہیں، فی الحال اس کو ضرورت کی حد تک رکھیں۔ ان شاء اللہ العزیز آپ کے لئے آسانی ہو جائے گی۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ! حضرت جی امید ہے آپ کی صحت اچھی ہو گی۔ اصلاحی ذکر کے 40 دن پورے ہو گئے ہیں۔ ذکر کی ترتیب یہ ہے ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ“ 200، ”اِلَّا اللہ“ 400، ”اَللہُ اَللہ“ 600، ”اللہ“ 500 مرتبہ۔ معمولات کی sheet کو منسلک کیا ہے، اس کے علاوہ علاجی ذکر ”لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو“ 200 بار جاری ہے۔ آپ سے درخواست ہے میرے لئے دعا کریں کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو۔
جواب:
اللہ تعالیٰ ہم سب کا ایمان پر خاتمہ فرمائیں۔ ذکر جو چل رہا ہے اسی کو مزید جاری رکھیے، ہاں اس میں یہ اضافہ کر لیں کہ جب اَللہ اَللہ کا ذکر کریں اس کے ساتھ یہ تصور کریں کہ مجھے اللہ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ ایک مہینے کے بعد آپ مجھے اس کے بارے میں بتا دیں۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت اللہ پاک کے فضل اور آپ کی دعاؤں سے میرے مندرجہ ذیل ذکر کو ایک ماہ اور کچھ دن ہو چکے ہیں مزید رہنمائی اور نصیحت کی درخواست ہے۔ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو“ 400 مرتبہ، ”حَق“ 600 مرتبہ ”حَق اللہ“ 500 اور ”ھُو حَق“ 500 مرتبہ۔ حق اللہ کے ذکر کے دوران یہ تصور کیا کہ اللہ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ آپ نے مجھے 5 منٹ سے 20 منٹ تک والا خاموشی کا مجاہدہ دیا تھا، اللہ کے فضل سے وہ پورا ہو گیا ہے۔ اس مجاہدے کے دوران جب میں خاموش ہوتا تھا، اس دوران اگر کوئی مجھ سے بات کرتا یا سوال پوچھتا تھا تو میں مجبوراً ایک لفظ یا ایک جملے میں جواب دے کر پھر خاموش ہو جاتا۔ رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ بہت اچھی بات ہے۔ آپ اس کو ایک مہینہ اور جاری رکھیں اس سے ان شاء اللہ مزید ترقی ہو گی۔ ایک ماہ بعد اطلاع کریں۔
سوال نمبر14:
السلام علیکم! پچھلے ہفتے وعدہ خلافی ہوئی، اس کا جو جرمانہ آپ نے حکم فرمایا تھا وہ ادا کر لیا ہے، جن حضرات کے ساتھ وعدہ خلافی کی تھی ان سے معافی بھی مانگ لی۔ پھر اس پر سوچتا رہا کہ کہاں کہاں وعدہ خلافی ہو رہی ہے۔ مجھے پتا چلا کہ کچھ اور معاملات میں بھی وعدہ خلافی کا مرتکب ہو رہا ہوں، خصوصاً دفتر کے کاموں میں جیسے کوئی assignment ملتی ہے تو طے شدہ وقت تک وہ پوری نہیں ہو پاتی۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ میں Unrealistic deadlines دیتا ہوں یا مجھے Unrealistic deadlines دے دیئے جاتے ہیں جو بعد میں meet نہیں ہوتے، دوسری وجہ جو میری سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ میں اُن کاموں پر deadlines دیتا ہوں جو صرف میرے ساتھ ہی تعلق نہیں رکھتے بلکہ ان میں دوسرے لوگ بھی میرے ساتھ شامل ہوتے ہیں، یا یہ کام کسی اور نے کرنے ہوتے ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے ایک Unrealistic deadline دے دی، وہ کام میں نے باہر market سے کسی machinist سے کام کروانا تھا، جس کے پیسے اس کو Finance Department نے دینے تھے۔ کافی وقت ہوگیا مگر اس کو ابھی تک پیسے نہیں ملے تھے، اس نے مجھے کہا، میں نے فنانس ڈیپارٹمنٹ والوں سے پوچھا تو پتا چلا کہ فنانس والوں کو اس کے مطلوبہ documents نہیں ملے تھے، میں نے وہ ڈاکومنٹس بھجوا دیئے اور ان صاحب کو کہا کہ آپ کو ایک ہفتہ میں پیسے مل جائیں گے۔ اب یہ پیسے finance والوں نے دینے ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ دینے میں ہفتے سے زیادہ وقت لگائیں لیکن میں نے اپنی طرف سے ایک ہفتے کا کہہ دیا۔ اس واقعہ سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ایک تو جس کام کا تعلق دوسرے سے ہو اس کا کسی سے وعدہ نہ کروں اور دوسرا جب بھی مستقبل کے بارے میں کوئی بات کروں تو اس میں کافی احتیاط کر لیا کروں اس طرح وعدہ خلافی سے بچتا رہوں گا۔ بنیادی بات مجھے اس سے جو معلوم ہوئی وہ زبان کی حفاظت ہے، زبان کی حفاظت کرنے سے نہ صرف وعدہ خلافی سے بچوں گا بلکہ اور خرابیوں سے بھی حفاظت ہو گی۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ زبان کی حفاظت کا اور کیا طریقہ ہو، اگر وعدہ خلافی سے بچنے کا میرا طریقہ ٹھیک نہیں ہے تو صحیح طریقہ کیا ہے، آیا میں دو رذائل کو اکٹھا تو نہیں کر رہا؟
جواب:
میں اس بارے میں یہ عرض کروں گا کہ سوچ کر بولنا تو ہر کام میں ضروری ہے۔ سوچ کر بولنے کے لئے میں اکثر خاموشی کا مجاہدہ دیتا ہوں کہ انسان کو خاموش رہنا آ جائے۔ اگر ایک انسان خاموش رہنا سیکھ لے تو سوچ کر بول سکتا ہے، کیونکہ اس کو یہ سوچنے کا ٹائم مل جائے گا کہ میں جو بول رہا ہوں یہ ٹھیک ہے یا غلط ہے۔
فوری طور پر وعدہ نہیں کرنا چاہیے، وعدہ کرنے سے پہلے انسان کو time gain کرنا چاہیے اور اس میں سوچنا چاہیے کہ آیا میں اس وعدہ کو پورا کر سکتا ہوں یا نہیں کر سکتا۔ realistic وعدہ پورا کیا جا سکتا ہے اور اس کو پورا کرنا ضروری بھی ہوتا ہے، non-realistic وعدے عموماً بڑبولے لوگ کرتے ہیں۔ اس سب کی بنیادی وجہ سوچے بغیر بولنا ہے۔
البتہ دفتر میں deadlines دینی پڑتی ہے، یہ کام کی ریکوائرمنٹ ہوتی ہے، کام اور لوگوں نے بھی کرنا ہوتا ہے، ایسی صورت میں پہلے مشورہ کرنا چاہیے، جتنے ساتھی آپ کے ساتھ کام میں شامل ہوں ان کے ساتھ بیٹھ کر کے پروگرام طے کر کے پھر deadlines دے دیا کریں تو ان شاء اللہ معاملہ زیادہ بہتر ہو گا۔
سوال نمبر15:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ! حضرت جی حب باہ کو ختم یا control کرنے کا کوئی آسان طریقہ ارشاد فرمائیے؟
جواب:
حب باہ ایک ایسی چیز ہے جو instantly trigger کرتی ہے جبکہ حب مال planning کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، حب جاہ بھی کافی لمبی سوچ چاہتی ہے اگرچہ بعض دفعہ فوری تقاضا بھی ہوتا ہے لیکن اس کے لئے انسان بڑے لمبے منصوبے بناتا ہے لیکن حب باہ جلدی پیدا ہوتی ہے اور جلدی ختم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر شوگر کے مریض کے سامنے میٹھا آگیا تو بس دو تین سیکنڈ کی بات ہوتی ہے اسی میں اس کا فیصلہ غلط بھی ہو سکتا ہے درست بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی ایسی پسندیدہ چیز جو ناجائز ہو وہ سامنے آ جائے تو ممکن ہے آدمی رک نہ سکے۔
حب باہ سے توبہ کی توفیق بھی جلدی مل جاتی ہے کیونکہ انسان کو فوراً احساس ہو جاتا ہے کہ میں نے غلط کیا اس سے توبہ کی توفیق بھی جلدی ہوتی ہے لیکن اس میں پڑنے کا امکان بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا اس میں یہ کرنا چاہیے کہ سب سے پہلے جس چیز میں آپ پڑ رہے ہیں اس کا آپ کو علم ہو، دوسری بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ جو مسائل وابستہ ہیں ان کے بارے میں آپ کو پتا ہو، تیسرا آپ کے پاس اتنی Will power ہو کہ آپ خود کو بچا سکتے ہوں۔ اگر آپ میں اتنی Will power نہیں ہے تو پھر اس چیز کے سامنے ہی نہ جائیں جس چیز سے آپ کو خطرہ ہو۔ اس سے avoid کریں کیونکہ avoid کرنا زیادہ آسان ہے۔ کہتے ہیں جس نے دل کو بچانا ہو وہ اپنی نظر کی حفاظت کرے، کیونکہ ایک دفعہ نظر سے ہوتے ہوئے چیز دل میں چلی جائے گی تو پھر دل سے نکالنا آسان نہیں ہوتا، اس میں کافی وقت لگتا ہے لیکن نظر کو بچانا نسبتاً آسان ہے۔ چوہا جب تک گھر سے باہر ہے تو آپ کا گھر اس سے محفوظ ہے، ایک دفعہ آپ کی غفلت سے گھر کے اندر آ گیا پھر اس کو نکالنا آسان نہیں ہے۔ پھر آپ اس کے پیچھے صوفے اٹھاتے رہیں، پردے اٹھاتے رہیں، صندوق اٹھاتے رہیں چوہا بھاگتا جائے گا کبھی ادھر جائے گا کبھی ادھر جائے گا لیکن اگر آپ نے دروازے بند کر دیئے اور اس کو راستہ ہی نہ دیا تو یہ آپ کے لئے بہت ہی آسان بات ہے۔
اس وجہ سے حب باہ والی چیزیں avoid کرنا زیادہ بہتر ہے۔ جن چیزوں سے انسان خطرے میں پڑ سکتا ہے اس طرف جائے ہی نہ، اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچائے۔ یہ حب باہ کو کنٹرول کرنے کا سب سے زیادہ مؤثر طریقہ ہے۔
حب باہ سے بچنے کا دوسرا طریقہ صحبت صالحین ہے۔ صحبت صالحین اور ذکر اللہ سے ایک خاص قوت اور کیفیت حاصل ہوتی ہے جس سے دل کے اندر ظلمت اور نور کی کیفیت کا احساس نصیب ہو جاتا ہے۔ جس وقت ظلمت اور نور کی کیفیت کا احساس نصیب ہو جائے تو پھر انسان کا دل اس کے لئے الارم بن جاتا ہے، جب انسان غلط کام کرتا ہے، فوراً دل بولتا ہے کہ یہ کام ٹھیک نہیں ہے، اگر آپ نے اس کی بات نہ مانی تو اس کی آواز کمزور ہوتی جائے گی اور اگر آپ اس کی بات مانتے رہے تو اس کی آواز مضبوط ہوتی جائے گی۔ صحبت صالحین اور ذکر اللہ کی کثرت کے ذریعے سے انسان کو strength حاصل ہوتی ہے، دل کے اندر نور کی کیفیت بڑھتی ہے، جس کو نور کی اس کیفیت کے ساتھ مناسبت ہو جاتی ہے وہ اس کے لئے دوسری چیزوں کو sacrifice کرنے یہ تیار ہو جاتا ہے، حب باہ والی چیزوں کو چھوڑ کے لئے تیار ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے اس کے دل کا نور سلب ہوتا ہے۔ آپ اس چیز کو زیادہ سے زیادہ حاصل کریں تاکہ تمام گناہوں سے بچ سکیں۔
سوال نمبر16:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی ایک آدمی کو بات کرنے اور سوال کرنے کا مؤدبانہ طریقہ نہ آتا ہو تو کیا اسے خاموش رہنا چاہیے حالانکہ سوال کو نصف علم فرمایا گیا ہے۔
جواب:
خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ مؤدبانہ طریقے سے سوال کرنا چاہیے۔ ایسے لوگوں کے لئے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ زبانی سوال نہ کریں بلکہ لکھ کے لایا کریں، اس میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان پورا سوچ لیتا ہے کہ میں نے کیا پوچھنا ہے، بول کر پوچھنے میں بعض دفعہ انسان تمام چیزوں کا خیال نہیں رکھ سکتا۔ اس لئے ایسے لوگ سوال لکھ کر پوچھ لیاکریں۔
سوال نمبر17:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت کی خدمت اقدس میں سوال عرض ہے کہ ایک مکتوب میں محاسبے کے بارے میں فرمایا گیا تھا۔ جس میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتوحات مکیہ کے مصنف کا حوالہ دیا کہ وہ کہتے ہیں میں محاسبہ میں اوروں سے آگے نکل گیا۔ بظاہر اس میں ایک دعویٰ نظر آتا ہے لیکن بزرگ اللہ والے تو دعوے سے بہت دور ہوتے ہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
میں محاسبہ اپنے برے کاموں سے بچنے کے لئے ہوتا ہے، جب برے کاموں کا concept کسی کے ذہن میں ہے اور وہ اپنا محاسبہ کر رہا ہے، تو وہ اپنے آپ کو بڑا کیوں کہہ سکتا ہے، بلکہ وہ تو اپنے آپ کو زیادہ عاجز کہتا ہے، یہ اقرار کر رہا ہے کہ میں زیادہ کمزور ہوں اس وجہ سے مجھے زیادہ محاسبہ کی ضرورت ہے۔ ایسی صورت میں محاسبہ زیادہ realistic ہو گا، لہذا اللہ والے زیادہ بہتر طریقے سے اپنا محاسبہ کر سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ شیخ کو کچھ باتیں اس لئے بھی ظاہر کرنی ہوتی ہیں تاکہ مریدوں کی اصلاح اور تعلیم ہو۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ شیخ کی ریا مرید کے اخلاص سے افضل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ کی ریا سے مسئلے معلوم ہوتے ہیں۔ اگر وہ یہ بات نہ بتاتے تو ہمیں کیسے پتا چلتا کہ اپنے نفس کا محاسبہ کن کن چیزوں میں ضروری ہے۔ انہوں نے اپنا محاسبہ خود کیا بلکہ اس کا model بھی پیش کر دیا کہ میں اپنے محاسبہ میں بہت آ گے نکل گیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں حالانکہ آپ ﷺ تو بالکل پاک تھے۔ لیکن ایسا اس لئے فرمایا تاکہ امت کو تعلیم ہو جائے، یہ امت کی تعلیم کے لئے فرمایا حالانکہ آپ ﷺ کو تو استغفار کی ضرورت بھی نہیں تھی لیکن آپ ﷺ نے اپنے استغفار کا بتا دیا۔
کسی نے کہا کہ یا رسول اللہ آپ تو بخشے بخشائے ہیں، آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں شکر کرنے والا نہ بنوں!
اس سب سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے جو باتیں فرمائی ہیں، صحابۂ کرام نے جو باتیں فرمائی ہیں یا بزرگان دین نے جو باتیں فرمائی ہیں وہ ساری کی ساری امت کی اصلاح کے لئے ہیں۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو باتیں فرمائیں، خواجہ نظام الدین اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہما نے جو باتیں فرمائیں یہ ساری اصلاح کے لئے ہیں۔ آخر وہ بھی شیخ تھے انہوں نے بھی اپنا model پیش کردیا۔ اس میں دعویٰ نہیں ہے بلکہ عاجزی ہے اور خیر خواہی ہے۔
سوال نمبر18:
السلام علیکم میرے عزیز محترم مرشدی دامت برکاتہم امید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں۔ کیا جادو، نظر اور اثر کسی عورت کے اولاد کے سلسلہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں؟ کیا عالم ارواح سے آنے والی نسلوں کو چیزیں روک سکتی ہیں؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔
جواب:
تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے۔ تقدیر مبرم۔ تقدیر غیر مبرم۔
تقدیر غیر مبرم اس طرح ہوتی ہے کہ اگر یہ کام کوئی کر لے تو ایسا ہوگا ورنہ نہیں ہوگا۔ اس کی مثال جسمانی بیماریاں ہیں۔ بیماریوں کا معاملہ تقدیر میں یوں لکھا ہے۔ مثلاً اس بندے نے اگر یہ چیز کھا لی تو بیمار ہو گا ورنہ نہیں ہوگا، بیمار ہونے کے بعد اگر فلاں علاج کر لیا تو بچ جائے گا۔ سبب بھی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے اور آخری رزلٹ بھی لکھا ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جادو نظر وغیرہ کا وجود ہی نہیں ہے۔ یہ سب ہوتا ہے البتہ اس کے لئے حفاظتی انتظامات بھی ہیں، وہ حفاظتی انتظامات کرنے چاہئیں۔
جادو ایک حقیقت ہے، قرآن پاک اور احادیث شریفہ میں اس کا ذکر ہے۔ کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو یہودیت سے مسلمان ہوئے تھے وہ فرماتے تھے کہ اگر میں یہ نہ پڑھتا تو یہودی مجھے اپنے جادو کے زور سے گدھا بنا دیتے۔ یہودیوں کا جادو مشہور ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جادوگروں کا مقابلہ بھی ہوا، جن پر موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ غالب آیا۔ جادو کا علاج بھی ہوتا ہے۔
یاد رکھیں 3 چیزیں ہوتی ہیں، جادو بھی ہوتا ہے، جنات بھی ہوتے ہیں اور بیماری بھی ہوتی ہے۔ جب آپ عامل کے پاس جائیں گے تو وہ بیماری کو بھی جادو یا جنات کہیں گے کیونکہ ان کا ذاتی مفاد اس میں ہے، ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو وہ جادو اور جنات کو بھی بیماری کہیں گے کیونکہ ان کا مفاد اس میں ہے۔ جبکہ Realistic opinion وہی شخص دے گا جو دونوں چیزوں کو جانتا ہو یا کم از کم اپنی field کا ماہر اور مخلص ہو وہ آپ کو بتا دے گا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ ہم اس چیز کو generalize نہیں کر سکتے specialist آپ کو بتا سکتے ہیں کہ کون سی چیز کیا ہے۔ اگر آپ کو ان چیزوں کا کوئی صحیح ماہر ملتا ہے اس سے تحقیق کروا لیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ آپ کا problem medical ہے، جادو وغیرہ نہیں ہے لیکن چونکہ میں دور ہوں اس کے بارے میں Final authority تو نہیں ہوں اس لئے آپ اپنا چیک اپ دونوں طرح سے کروا لیں۔ ان شاء اللہ‘ اللہ پاک خیر کا معاملہ فرمائیں گے۔
سوال نمبر19:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میرے ذکر کو ایک مہینے سے کچھ اوپر ہو گیا ہے، میں نے اس کو جاری رکھا ہوا ہے۔ 12 تسبیح کے بعد 5 منٹ پانچوں لطائف پر اس کے بعد 10 منٹ لطیفۂ سر مراقبہ احدیت پر ہے۔
جواب:
باقی چیزیں ویسے ہی جاری رکھیں البتہ اب مراقبہ احدیت لطیفۂ خفی پر کریں۔
سوال نمبر20:
حضرت سالک کتنا اور کس کس طرح کے ذکر اذکار خود حسب ضرورت اور حسب حال و طبیعت کر سکتا، ہے مبتدی اور تھوڑا غیر مبتدی رواں سالک دونوں کے بارے میں بتا دیجئے۔
جواب:
منتہی کو علاجی ذکر کی ضرورت نہیں ہوتی، جبکہ مبتدی اور متوسط اپنے لئے کوئی علاجی ذکر تجویز نہیں کر سکتے۔ وہ اتنا ہی علاجی ذکر کریں گے اور وہی علاجی ذکر کریں جو شیخ تجویز کرے گا۔ جیسے دوائی اور دوائی کی مقدار کا تعین ڈاکٹر کا کام ہے، مریض اس میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا، ایسے ہی علاجی ذکر اور اس کی مقدار وغیرہ کا تعین شیخ کا کام ہے سالک خود سے اس میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔ ہاں ثوابی ذکر کی پابندی نہیں، جب چاہے کر لو، جتنا چاہے کرلو، قرآن پاک کی تلاوت کی پابندی نہیں ہے جتنی چاہے کریں۔ اس میں صرف یہ پابندی ہے کہ اس سے زیادہ اہم چیز میں رکاوٹ نہ پڑے، مثلاً نماز کھڑی ہو جائے اور آپ ذکر کرتے رہیں تو یہ جائز نہیں ہو گا۔ اس وقت آپ اپنا ذکر موقوف کریں۔ آپ کے ذمہ دفتر کا کوئی کام ہے، یا گھر کا کوئی ضروری کام ہے، اس میں رکاوٹ ہو رہی ہے تو پھر آپ کو پہلے وہ کام کرنا پڑے گا پھر ثوابی ذکر کر لیں۔ اس کے علاوہ اس میں کوئی پابندی نہیں۔
سوال نمبر21:
کبھی کبھی ذکر جہری میں ضربیں محسوس ہوتی ہیں، کبھی ذکر قلبی جاری محسوس ہوتا ہے۔ کبھی سانس کے پاس اور کبھی چلتے چلتے ہر قدم پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں رہنمائی فرما دیجیے۔
جواب:
میرے بھائی آپ ایک بات یاد رکھیں، یہ ساری چیزیں سب لوگوں کے ساتھ ہوتی ہیں، لیکن سب کے لئے ایک ہی قاعدہ ہے کہ جو ذکر دیا جائے اسی کو قائم رکھا جائے اپنی مرضی سے اس میں کوئی رد وبدل نہ کیا جائے۔ اپنی مرضی کرنے سے haphazardness ہوتی ہے۔ اس کی مثال مقناطیس کی سی ہے، اگر آپ اسے ایک ہی طرف سے لوہے پر رگڑیں گے تو لوہا بھی مقناطیس بن جائے گا۔ لیکن اگر آپ دونوں طرف سے رگڑیں کبھی ایک طرف سے کبھی دوسری طرف سے تو کچھ نہیں بنے گا۔
آپ اپنے ذکر اذکار کو mix نہ کریں، جو طریقہ کار بتایا گیا ہے اس کے مطابق کیا کریں۔ آپ حضرات جانتے ہوں گے کہ Homeopathy ایک علاج ہے، Allopathy بھی ایک علاج ہے، Acupuncture بھی ہے اور حکمت کا علاج بھی ہے۔ ان سب کا ایک قاعدہ ہوتا ہے کہ ایک وقت میں ایک علاج کرو مختلف علاجوں کو جمع نہ کرو کیونکہ اس سے کنفیوژن پیدا ہوتا ہے، مرض اور بیماری کی تشخیص درست طریقے سے نہیں ہوپاتی، نتیجتاً علاج بھی نہیں ہوپاتا۔ علاجی اذکار، جہری ذکر، قلبی ذکر وغیرہ کی مثال بھی انہی علاج کے طریقوں جیسی ہے، انہیں خلط ملط نہیں کرنا چاہیے، شیخ کی ہدایت کے مطابق کرنا چاہی۔
سوال نمبر22:
My ذکر of one month has been completed. My ذکر was
200 times “لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ”,
200 times “اِلَّا اللہ”,
200 times “اللہ اللہ”
500 times حق and 5 minutes “اللہ”
پانچوں لطائف پر مراقبہ شان جامع کے بعد آپ نے فرمایا تھا کہ قرآن مجید پڑھتے ہوئے فیض کا تصور کرنا ہے۔ آگے رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
فی الحال یہی جاری رکھیں ایک مہینہ کے بعد مزید بتایا جائے گا۔
سوال نمبر23:
حضرت! university چھوڑنے کے بعد، آج پہلی بار university گئی کچھ کلئیرنس وغیرہ کرنا تھی۔ آج میں نے اس ماحول کو بالکل الگ رخ سے دیکھا تو دل آپ کے بہت قریب محسوس ہوا، دل سے شکر نکلتا رہا۔ اپنا آپ اس ماحول سے کٹا ہوا محسوس ہوتا تھا اور آپ کی خانقاہ اور تربیت کے ماحول کے قریب محسوس ہوتا تھا۔ یونیورسٹی زیادہ وقت انتظار کرنا پڑ رہا تھا اس لئے ایک دفعہ آپ کا بیان بھی لگایا، کچھ منٹ سنا جیسے خود کو یاد دلایا کہ میرا اصل یہ ہے، یونیورسٹی نہیں، لیکن اس سب کے باوجود دل میں تنگی سی محسوس ہو رہی تھی کہ جیسے کچھ اثر ہوا ہو۔ حضرت اس کے لئے مجھے کیا کرنا چاہیے کیونکہ کل دوبارہ بھی جانا ہے، کام کچھ رہتا ہے مزید خود کو کیسے بچاؤں۔
جواب:
ماشاء اللہ یہ زندہ دل کی حلاوت ہے۔ آپ نے جس وجہ سے university چھوڑی تھی وہ آپ کی family کے کچھ مسائل تھے جس کی وجہ سے آپ کو یونیورسٹی چھوڑنے کا مشورہ دیا گیا تھا، وہ مسائل اب بھی ہیں لہٰذا اس فیصلے سے تو رجوع نہیں کر سکتے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو سمجھا سکتی ہیں کہ اصل کامیابی جو اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے میں ہے کہ اللہ جل شانہ کس چیز سے راضی ہوتا ہے، چاہے university میں راضی ہو چاہے بغیر university کے راضی، مجھے وہی کرنا ہے جس سے اللہ راضی ہو۔
کسی مقام کے منفی اثر کو آپ اس طریقے سے غیر مؤثر کر سکتی ہیں کہ آپ کہیں میں انسان ہوں، انسان کے اوپر ان چیزوں کا اثر ہوتا ہے لیکن حق حق ہوتا ہے اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا، اگر مجھے کچھ منفی اثر محسوس ہوتا ہے اس کے باوجود میں اگر حق کا ساتھ دیتی ہوں تو اس پر مجھے اجر ملے گا۔
ایسا سوچنے سے ان شاء اللہ کسی بھی قسم کے منفی اثر سے حفاظت ہوگی۔
سوال نمبر24:
لڑکیوں کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
میں بغیر تمہید کے بات کا جواب اس لئے نہیں دیا کرتا کہ کچھ باتیں بغیر تمہید کے بتانے سے مزید confusions پیدا ہوتی ہیں۔ ایسی باتیں سمجھانے کے لئے کچھ base بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فی الحال چونکہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے اس لئے اس قسم کے detailed سوال کا جواب دینا مناسب نہیں ہے، اس کو کسی اور وقت پر موقوف کر لیتے ہیں۔
سوال نمبر25:
حضرت جی مجھ سے ذکر نہیں ہوتا، بہت مشکل ہوتی ہے۔
جواب:
مشکل کے باوجود آپ ذکر کرتے رہیں، اس سے آپ کو دو فائدے ہوں گے، ایک مجاہدہ کا فائدہ ہو گا دوسرا ذکر کا فائدہ ہو گا۔ اس کو یوں سمجھیں جیسے بیماری میں آدمی اپنے علاج کے لئے کڑوی دوائی بھی پیتا ہے چاہے کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو۔ یہ ذکر بھی آپ کا روحانی بیماریوں کا علاج ہے، مشکل لگے یا آسان، ہر صورت میں اسے کرتے رہیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن