سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 381

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال 1:

کشف، القا، الہام، وجدان ان سب میں کیا فرق ہے اور ان کے حصول کے لئے دعا کرنا جائز ہے یا نہیں۔ رہنمائی فرمائیں؟

جواب:

ان تمام موضوعات پر ہماری کتاب ”تصوف کا خلاصہ“ میں بات کی گئی ہے۔ آپ پہلے اس کا مطالعہ کریں۔ اس کے بعد اگر کوئی سوال رہ جائے تو پوچھ لیں۔

سوال 2:

حضرت! کیا یہ بات صحیح ہے کہ حج کرنے والے کو ایک قربانی حج کرنے کے بعد اپنے وطن واپس جا کر دوبارہ کرنی پڑتی ہے، اگر ہاں، تو کیسے اور کس وقت ادا کریں گے؟

جواب:

پتا نہیں، کوئی اپنی نئی شریعت بنا رہا ہو تو علیحدہ بات ہے، ہاں موجودہ شریعت میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ حاجی حج سے فراغت کے بعد وطن واپس پہنچ کر مزید ایک قربانی کرے۔ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ قربانی دو طرح کی ہے:

(1)۔ ایک قربانی تو عید الاضحیٰ کی قربانی ہے جو ہر صاحب نصاب مقیم مسلمان پر فرض ہے چاہے وہ حاجی ہو یا غیر حاجی۔ اس قربانی کا وقت عید الاضحیٰ کے تین دن ہیں، یہ قربانی ہر صاحب نصاب مقیم پر واجب ہے، خواہ وہ حاجی ہو یا غیر حاجی۔ اس قربانی میں حاجی کے لئے ایک رخصت ہے کہ اگر وہ چاہے تو حج کی قربانی کے ساتھ اس قربانی کو بھی وہیں مکہ مکرمہ میں کر لے اور اگر چاہے تو اپنے وطن میں کسی کو وکیل بنا کر اس سے بھی کروا سکتا ہے۔

(2)۔ حج کی قربانی جسے دمِ شکر کہتے ہیں۔ اس قربانی کا وقت عید الاضحیٰ کے تین دن ہیں، یہ قربانی حج تمتع یا حج قران کرنے والوں پر واجب ہے حج افراد والوں پر یہ قربانی واجب نہیں یہ قربانی صرف منیٰ یا حدود حرم میں کسی بھی جگہ پر کی جا سکتی ہے، حدود حرم سے باہر نہیں کی جا سکتی۔ نیز یہ قربانی خود حاجی ہی کرے گا۔ اب درج ذیل صورتیں بن سکتی ہیں:

اگر کوئی شخص حج کرنے گیا ہو، صاحب نصاب ہو، مکہ مکرمہ میں مقیم ہو (یعنی منیٰ جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن اس کا قیام ہو یا مستقل وہیں رہتا ہو) اور حج تمتع یا حج قران کر رہا ہو تو اس پر دونوں قربانیاں فرض ہیں۔

اگر ایسا شخص مقیم نہ ہو تو اس پر صرف دوسری قسم کی قربانی واجب ہوگی اور اگر مقیم ہو مگر صاحب نصاب نہ ہو تو پھر صرف پہلی قسم کی قربانی واجب ہو گی۔

اگر کوئی شخص حج کرنے گیا ہو، صاحب نصاب ہو، مکہ مکرمہ میں مقیم ہو (یعنی منیٰ جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن اس کا قیام ہو یا مستقل وہیں رہتا ہو) اور حج افراد کر رہا ہو تو اس پر صرف پہلی قسم کی قربانی فرض ہو گی۔ اور اگر حج افراد کرنے والا مقیم یا صاحب نصاب نہ ہو پھر اس پر کوئی قربانی واجب نہیں ہو گی۔

ان سب صورتوں میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ان دونوں قربانیوں کا وقت وہی تین دن ہی ہوں گے چاہے مکہ مکرمہ میں کرے یا دوسری قسم کی قربانی اپنے ملک میں کروائے۔ البتہ یہ لحاظ رکھا جائے گا کہ اگر اپنے ملک میں کروانی ہو اور چاند کی تاریخ کا فرق ہو تو پھر اپنے ملک کی تاریخ کے مطابق قربانی کریں گے اور اگر وہیں مکہ مکرمہ میں کریں تو وہاں کی تاریخ کے مطابق کریں گے۔

اور جو سوال میں ذکر کیا گیا ہے کہ ایک قربانی وطن واپس پہنچ کر بھی لازم ہے، یہ ایک مغالطہ ہے۔ اس طرح کے اکثر مغالطے مسائل میں بے احتیاطی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔

سوال 3:

السلام علیکم شاہ صاحب! میرا سوال ”صحبت ناجنس“ سے متعلق ہے۔ اگر کسی شخص کے والدین، بہن بھائی یا وہ لوگ جن کے ساتھ اس نے روز مرہ کی بنیاد پر ساتھ رہنا ہو، وہ دین سے دور ہوں، تو ان کی صحبت کے مضر اثرات سے کیسے بچا جائے؟

جواب:

سوال کافی مشکل ہے۔ بہرحال اصولاً بات ایک ہی ہے، اور وہ یہ کہ صحبت ناجنس سے پرہیز بھی کرنا چاہیے اور ساتھ والوں کے حقوق بھی ادا کرنے چاہئیں۔ اس میں پیمانہ اور معیار اس حدیث کو بنانا چاہیے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ”لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ“ (مشکاۃ المصابیح: رقم الحدیث: 3624)۔ مخلوق کی ایسی اطاعت جس میں خالق کی نافرمانی ہو جائز نہیں ہے۔ اب مخلوق میں والدین، بہن بھائی، بیوی اور شوہر بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ان مخلوقات کی بھی وہ باتیں نہیں مانی جائیں گی جو شریعت کے خلاف ہوں۔ یہ بات تو طے شدہ ہے۔ جب یہ بات معلوم ہو گئی تو اب یہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے کچھ حقوق بھی مقرر کیے ہیں۔ ان حقوق میں آپ کوئی کمی نہیں کر سکتے، خواہ وہ حقوق کافر کے ہی کیوں نہ ہوں۔

پہلے یہ بات سامنے رکھی جائے گی کہ آپ کی طرف سے ایسا نہ ہو کہ آپ کسی کا حق پورا نہ کر رہے ہوں۔ اور اس حق پورا کرنے میں یہ حد سامنے رکھنی ہو گی کہ جب تک مخلوق کے حقوق ادا کرنے میں خالق کی کوئی نافرمانی نہیں ہو رہی اس حد تک ادا کرتے رہیں، لیکن اگر ایسا کرنا خالق کے کسی حکم کی نافرمانی کا سبب بنتا ہو تو پھر خالق کے حکم کو سامنے رکھا جائے گا۔ دوسرے لوگوں سے تعلقات رکھنے اور ان کے حقوق پورا کرنے میں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ آپ کے دین پر اثر نہ پڑے، اور جب تک دین پر اثر نہ پڑے تب تک ان کے حقوق بھی پورے ہوتے رہیں۔

سوال 4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت اقدس کی خدمت میں ایک سوال عرض ہے کہ جب شیخ اپنے مرید کو جذب کسبی کے راستے سے سیر حاصل کروا دے۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل و کرم سے سالک کو نہ صرف عبادت میں خشوع و خضوع اور جذب و شوق حاصل ہو جائے بلکہ گناہوں سے بچنا بھی آسان ہو جائے، لیکن کچھ عرصہ بعد یہ جذب و شوق مفقود ہو جائے اور عام عبادات میں مشقت محسوس ہونے لگے، اور گناہوں سے بچنا بھی مشکل معلوم ہونے لگے۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے، کیا ایسا جذب کسبی کی کمی کی وجہ سے ہے؟

جواب:

ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ اگر شیخ کی تربیت میں جذب کسبی حاصل ہو جائے اور سالک کے لئے اعمال میں آسانی محسوس ہونے لگے اور پہلے اعمال کو کرنے میں جو مشقت اور بوجھ لگتا ہو وہ تکلیف اور مشکل نہ رہے، آسانی سے سارے کام ہونے لگیں، لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہی پہلے جیسی سستی، مشقت اور بوجھ لوٹ آئے تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے، کیا یہ جذب کسبی کی کمی کی علامت ہے؟

میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں اور حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ جب جذب کسبی حاصل ہو جائے تو پھر فوراً سلوک طے کرانا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جذب کسبی ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد کم ہو جاتا ہے، بعض صورتوں میں بالکل نہیں رہتا، ختم ہو جاتا ہے۔ چونکہ جذب کسبی ایک جذبہ اور کیفیت ہے اور کیفیات و جذبات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ جیسے دل کی حالت ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی۔ چونکہ جذب بھی دل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس لئے وہ بھی ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ اس سے پہلے کہ یہ ختم ہو اس سے سلوک پہ چلنے کا کام لینا پڑتا ہے تاکہ سلوک اسی دوران جلد سے جلد طے کروا دیا جائے۔ سلوک طے کرانے سے مراد یہ ہے کہ جذب کے دوران جو چیزیں حاصل ہوں وہ establish ہو جائیں اور نفس ان کے اوپر مطمئن ہو جائے۔ اس کے بعد اگر جذب کسبی ختم بھی ہو جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سلوک طے کر لینے کی وجہ سے سالک کو اتنی استقامت حاصل ہو چکی ہوتی ہے کہ وہ تکلیف کے ساتھ بھی اعمال آسانی سے نہ صرف کر لیتا ہے، بلکہ اس کو اس تکلیف میں ایک قسم کا اطمینان حاصل ہوتا ہے، یہ سوچ کر کہ میں یہ کام اللہ کے لئے کر رہا ہوں۔ لہٰذا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں رہتی۔ اب اگر ایک سالک جذب کسبی کی وجہ سے اعمال آسانی سے کر رہا تھا اور بعد میں اس نے اعمال بالکل چھوڑ دیئے تو اس کا مطلب ہے اس کا سلوک طے نہیں ہوا۔ اور دوسری صورت میں ایک سالک جو جذب کسبی کی وجہ سے اعمال آسانی سے کر رہا تھا بعد میں اس کی جذب والی کیفیت تو ختم ہو گئی اور اعمال میں آسانی نہ رہی مگر پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری اور اس کے سارے اعمال چلتے رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا جذب کسبی صحیح استعمال ہوا ہے اور اسے اتنا سلوک حاصل ہو گیا ہے جس کی برکت سے وہ اب بھی چل ہے۔ ایسی صورت اس کے لئے دوگنا فائدہ ہے۔ ایک تو اسے اعمال کا اجر ملتا ہے اور دوسرا ان اعمال پہ مشقت برداشت کرنے پر مجاہدہ کا اجر بھی ملتا ہے۔ مزید یہ کہ اس مجاہدہ سے سلوک بھی طے ہو رہا ہوتا ہے۔ اجر بھی بڑھ جاتا ہے، سلوک کی اگلی منزلیں بھی طے ہو رہی ہوتی ہیں۔ گویا کہ مجاہدہ اور مشاہدہ ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر سالک نے جذب کسبی حاصل ہونے کے بعد سلوک طے نہ کیا ہو تو پھر اس کے بعد جب جذب کسبی ختم ہو جاتا ہے تو سارا کچھ چلا جاتا ہے۔ اس کو عود اور مراجعت کہتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو اس انداز میں بیان فرمایا ہے کہ ایک ہوتی ہے صبح کاذب اور ایک ہوتی ہے صبح صادق۔ جذب کسبی میں شوق کی وجہ سے جو اعمال صحیح ہو رہے ہیں، یہ صبح کاذب ہے۔ اس کی حقیقت کا پتا تب چلے گا جب یہ شوق و جذب کی حالت ختم ہو گی۔ اگر اب بھی سالک اعمال کر رہا ہے تب سمجھا جائے گا کہ اب صبح صادق تک پہنچ گیا ہے۔ ماشاء اللہ اب اس کو واقعی روحانی ترقی حاصل ہو گئی ہے۔ اب مبارک باد کا موقع ہے۔ کیونکہ اب وہ جذب کسبی کا فائدہ اس حد تک حاصل کر چکا ہے کہ باوجود مشکل اور مشقت کے اس کے اعمال ٹھیک ٹھاک ہو رہے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں حالتوں کو صبح کاذب اور صبح صادق کے طور پہ بیان فرمایا ہے۔ جبکہ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جذب کسبی اور سلوک کے عنوان سے بیان فرمایا ہے۔ بہرحال مقصد کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس جذب کسبی سے کام لے لے اور اس دوران سلوک طے کر لے تو پھر ماشاء اللہ یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔

سوال 5: 

السلام علیکم! حضرت جی! یہ پوچھنا تھا کہ ہم جو علاجی ذکر کرتے ہیں "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، حَقْ اور اللّٰہ"۔ تو اس کو کرتے وقت ذہن میں یا دل میں کس قسم کا تصور ہونا چاہیے، رہنمائی فرمائیں؟

جواب:

یہ ذکر جس کے بارے میں سوال کیا گیا۔ ہم سالکین کو ابتداءً بغیر توجہ کے سکھاتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد جب ان کی زبان پر یہ ذکر چل پڑے اور وہ اس کے عادی ہو جائیں، پھر توجہ کے ساتھ ذکر کرنا سکھاتے ہیں۔ وہ توجہ کس قسم کی ہوتی ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ: ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تصور ہونا چاہیے کہ ”لَا اِلٰهَ“ کے ساتھ دنیا کی محبت نکل رہی ہے اور اِلَّا اللہ کے ساتھ اللہ کی محبت آ رہی ہے۔ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو“ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تصور رہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی مطلوب نہیں ہے۔ ”حَقْ“ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تصور رہے کہ میرے دل کے اندر جو بھی دنیاوی محبت کے بت ہیں وہ سارے کے سارے مسمار ہو رہے ہیں۔ حَقْ حَق حَقْ۔ اور ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ کے ذکر کے ساتھ ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ الله جل شانہ محبت کے ساتھ ہمارے دل کو دیکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ سب تفصیل ابتداءً نہیں بتاتے، کچھ عرصہ بعد بتاتے ہیں جب سالک کو ذکر کے ساتھ کچھ انسیت حاصل ہو چکی ہو۔

سوال6:

حضرت! آج کل کہا جا رہا ہے کہ دینی مدارس میں عصری تعلیم کو بھی شامل کیا جائے۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اس کے بارے میں میرا سیدھا سادا تبصرہ یہ ہے کہ میڈیکل بھی بہت زبردست چیز ہے معاشرے کی ضرورت ہے اور انجینئرنگ بھی بہت زبردست چیز ہے معاشرے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح قانون یہ بھی معاشرے کی بڑی زبردست ضرورت ہے۔ معاشیات بھی معاشرے کی ضرورت ہے۔ کیا کبھی کسی نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ میڈیکل کالج میں انجینئرنگ بھی پڑھائی جائے بڑا فائدہ ہو گا؟ آج تک یہ مطالبہ تو کسی نے نہیں کیا، اور کرنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ تعلیم دو طرح کی ہوتی ہے، ایک ابتدائی اور بنیادی تعلیم، دوسری سپیشل فیلڈ کے طور پر تعلیم۔ ابتدائی طور پر تو ہر شعبہ کی تعلیم میں دوسرے شعبوں سے متعلق کچھ نہ کچھ باتیں ہوتی ہیں مگر جب سپیشل فیلڈ کے طور پر ہم کسی چیز کی تعلیم حاصل کرتے ہیں تو اس میں صرف اور صرف اسی فیلڈ کے متعلق پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔ medical ایک special field ہے۔ engineering ایک special field ہے۔ commerce ایک special field ہے۔ medical میں بھی، engineering میں بھی اور commerce میں بھی کچھ ضروری مضامین معاشرت کے متعلق پڑھائے جاتے ہیں۔ اسی طرح engineering میں بھی کچھ economics پڑھائی جاتی ہے، کچھ اسلامیات پڑھایا جاتا ہے اور کچھ معاشرتی علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ اسی طرح medical میں بھی کسی حد تک یہ چیزیں پڑھائی جاتی ہیں۔ اسی طرح اگر ہم مدارس کے تعلیمی سلیبس کو دیکھیں تو ابتدائی درجات میں کسی حد تک تمام فیلڈز سے متعلق چیزیں پڑھائی جاتی ہیں۔ میٹرک وغیرہ کرایا جاتا ہے، اور ضرورت کے درجے میں کچھ نہ کچھ تمام چیزوں سے واقفیت کرائی جاتی ہے۔ باقی اگر آپ ان سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ سائنسدان بنائیں، تو میں با وجود اس کے کہ خود ایک سائنسدان ہوں پھر بھی اس کی مخالفت کروں گا کیونکہ اس طرح وہ نہ سائنسدان بنیں گے نہ عالم۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ ہو جائے گا۔ یہ تو تمام چیزوں کو ختم کرنے والی بات ہے کم از کم یہ بات تو نہیں ہو سکتی کہ ان کو دونوں طرف specialist بنایا جائے۔ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ اس نے دو دفعہ PhD کی ہو۔ کسی کو دو یا تین PhD کرتے ہوئے سنا ہے؟ مدارس سے اس طرح کے مطالبات رکھنا بد نیتی کی بات ہے۔ جب ہم P.E.I.A.S میں تھے، اس دوران ایک سیاسی government جو مدارس کے خلاف تھی انہوں نے ہم سے مشورہ مانگا تھا کہ دینی مدارس میں science کو کیسے داخل کیا جائے۔ میں بھی مشورہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے کہا کہ دو تجویزیں تیار کرنی چاہئیں ایک یہ کہ دینی مدارس میں science کیسے شامل کی جائے اور دوسری یہ کہ سائنسی اداروں میں دینی علوم کو کیسے شامل کیا جائے تاکہ دونوں میں بات برابر رہے۔ کیونکہ اگر دینی اداروں میں سائنس کی تعلیم کی ضرورت ہے تو پھر سائنسدانوں کو بھی دین کی ضرورت ہے۔ دونوں میں برابر کا معاملہ رکھنا چاہیے۔ یہ کیا طریقہ ہے کہ آپ صرف دینی مدارس میں سائنس کو شامل کریں۔ اور اُن میں دین کو شامل نہ کریں۔ کیا اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بطور مسلمان تو اس کی بڑی اہمیت ہے۔ تو یہ ساری بدنیتی کی باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بد نیتوں کے شر سے ہمیں محفوظ فرما دے۔ یہ ایک شر ہے اور باقاعدہ اس کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ دجالیت کا دور آ رہا ہے تو اس میں تو یہ چیزیں ہوں گی۔ ایک خوش نما نعرے کے طور پر بے دینی کو پھیلایا جائے گا اور نام نہاد روشن خیالی سے اسلام کو enlightened کیا جائے گا۔ کیا اسلام تاریک ہے کہ اس کو enlightened کیا جائے گا؟ اسلام خود بخود روشن ہے کون سی چیز ہے جو اسلام میں جو روشن نہیں ہے۔ تو یہ اصل میں بد نیتی کی باتیں ہیں اور یہ باہر سے برآمد ہوتی ہیں۔ یہود و نصاریٰ کے پروپیگنڈے کا اثر ہے۔ ہمیں ایسی باتوں میں نہیں آنا ہے ان شاء اللہ۔ الله جل شانہ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔ 

سوال7:

حضرت نماز میں تشہد کے وقت اگر میں یہ سوچوں کہ یا اللہ جو میں کہہ رہا ہوں آپ سن رہے ہیں تو ”اَلسَّلَامُ عَلیکَ اَیُّھَا النَّبیؐ“ میں یہ سوچ آتی ہے کہ ہم تو اللہ کو مخاطب کر رہے ہیں، اور یہاں اے اللہ کے نبی کہہ رہے ہیں، تو اللہ کو اے اللہ کے نبی کیسے کہا۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اصل میں آپ اس چیز سے واقف نہیں ہیں کہ یہ تشہد ہے کیا چیز۔ یہ دراصل معراج شریف کے واقعہ کی حکایت ہے۔ معراج شریف کے موقع پر آپ ﷺ سے الله جل شانہ نے پوچھا کہ میرے لئے کیا لائے ہو دنیا سے؟ تو آپ ﷺ نے عرض کیا ”اَلتَّحِیّاتُ للّٰہِ وَالصَّلوٰت وَ الطَّیِّبَاتُ“ لسانی، بدنی اور مالی عبادتیں یہ سب لایا ہوں۔ تو اللہ پاک نے فرمایا "اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَیُّھَا النَّبِی وَ رَحْمَةُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُه" اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پہ سلام بھیجا۔ اب اللہ پاک پر تو سلام نہیں بھیجا جا سکتا کیونکہ وہ خود سلام ہے لیکن آپ ﷺ پر بھیجا جاتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے خود اپنے اوپر بھی دوبارہ سلام بھیجا، ”اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْن“ ”اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا“میں ساری گناہ گار امت شامل کر دی اپنے ساتھ۔ اور ”وَ عَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْن“نیک لوگوں کو الگ بیان کر دیا۔ اس پر فرشتوں نے کہا ”اشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُهٗ“ تو یہ تشہد معراج شریف کے واقعہ کی حکایت اور ریہرسل ہے۔ یہ اصل میں اللہ کے ساتھ تخاطب نہیں۔

یہ ان لوگوں کو بھی جواب ہے جو ”اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْكَ“ کو ہر جگہ جائز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھو نماز میں بھی ہم ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ“ کہتے ہیں۔ بھئی نماز میں تو ہم اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اللہ نے ایسا فرمایا کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِی۔ اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ کہہ سکتے ہیں اور ان کی طرف سے ہر وقت تخاطب ہو سکتا ہے۔ لیکن انسان کی طرف سے ایسا نہیں ہو سکتا۔ تو ”اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَیُّھَا النَّبِی وَ رَحْمَۃ اللّٰہ“۔ نماز میں ہمارا ایسا کہنا یاد گیری کے طور پر ہے کہ یہ چیزیں ہمیں معلوم ہوں کہ معراج شریف پہ کیا ہوا تھا۔

لہٰذا اگر یہ تفصیل معلوم ہو تو پھر تشہد پڑھتے وقت نماز میں ایسا وسوسہ اور ترددات پیش نہیں آئیں گے۔ اگر یہ تفصیل معلوم نہ ہو تو ممکن ہے کہ کئی طرح کی confusion آ جائیں۔

سوال 8:

ایک خاتون نے مجھے message کیا اور کہا کہ آپ نے مجھے جو اذکار بتائے ہیں میں انہیں مکمل کرنے کوشش تو کرتی ہوں لیکن وہ مجھ سے مکمل نہیں ہو پا رہے۔ میرے لئے دعا کریں۔ میں نے جواب دیا کہ ایسے شیخ کو ڈھونڈیں جو صرف دعا سے سارے کام کرا لے۔ تو اس پر انہوں نے کہا کہ نہیں میں آپ ہی سے مدد لوں گی، آپ میری رہنمائی بھی کریں اور دعا بھی کریں۔

جواب:

اصل بات یہ ہے کہ دعا سے کوئی انکار نہیں ہے۔ الحمد للہ ہم دعا کرتے ہیں۔ لیکن محض دعا پر انحصار کرنا، اس طرح کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو بالکل استعمال ہی نہ کرے اور محض دعا پر رہ جائے تو یہ چیز ہمارے ہاں نہیں ہے۔ کیونکہ الله جل شانهٗ کا نظام اس طرح ہے کہ دعا بھی ضروری ہوتی ہے اس کے ساتھ اسباب اختیار کرنا بھی اتنے ہی ضروری ہوتے ہیں۔ دعا ہو یا اسباب اختیار کرنا ہو، دونوں صورتوں میں دیتے اللہ پاک ہی ہیں۔ اللہ پاک نے ایسا نظام بنایا ہوا ہے دیتا تو وہی اللہ ہے۔ ہر کام میں دعا کا حکم ضرور ہے، مثلاً جہاد کو دیکھ لیں۔ مجھے بتائیں کوئی گھر بیٹھ کر دعائیں کرنا شروع کرے کہ یا اللہ کافروں کو شکست دلوا دے یا اللہ کافروں کو شکست ہو جائے یا اللہ کافروں کو شکست ہو جائے تو کیا خیال ہے محض دعا سے کفار کو شکست ہو جائے گی؟ دعائیں آپ بیشک کریں لیکن درست طریقہ یہ ہے کہ پہلے اسباب اختیار کر لیں پھر دعا کریں۔ جو چیزیں ہمت سے ہوتی ہیں انہیں ہمت سے کرنا ہوتا ہے ہاں اس میں سہولت کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں۔

ہم نے اس اصلاحی سلسلے میں کسی کو کوئی اتنا مشکل کام ابھی تک نہیں دیا جو ان سے ہو نہ سکے۔ پہلے وقتوں میں لوگوں نے اپنی اصلاح کے لئے کتنے کتنے جتن اٹھائے ہیں اور کتنی مشکلوں سے گزر کر سلوک طے کیا ہے اور اللہ پاک نے پھر ان کو استقامت بھی عطا فرمائی ہے جس کی برکت سے وہ نفس امارہ کو زیر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان میں مرد بھی ہیں عورتیں بھی ہیں۔ اس لئے یہ ذکر اذکار کو مکمل کرنا اور پابندی اختیار کرنا کوئی ایسی مشکل بات نہیں ہے۔ الحمد للہ اس دور میں بھی ایسی خواتین ہیں جو اپنے گھر کے سارے کام کاج کر کے باقاعدہ اس کے لئے وقت نکالتی ہیں۔ ہمارے گاؤں کے ایک صاحب چین گئے تھے وہاں انہوں نے ایک نو مسلم چینی عورت سے شادی کی تھی۔ شادی کے بعد وہ اسے اپنے گاؤں لے آئے۔ یہاں بالکل گاؤں کی life تھی، بھینسیں پالی ہوئی تھیں ان کو سنبھالنا ان کو دودھ دوہنا اور گھر کے کام کاج وغیرہ سب گاؤں کے حساب سے تھے۔ یہاں تک کہ بسا اوقات کپڑوں کا پاک رہنا بھی مشکل ہوتا، لیکن وہ ایسی زبردست با ہمت خاتون تھی کہ ان حالات میں اپنے تمام اعمال کرتی تھی اور پاکی ناپاکی کا بڑا خیال رکھتی تھی۔ اس نے نماز کے لئے کپڑے علیحدہ رکھے ہوئے تھے اور کام کے لئے علیحدہ کپڑے ہوتے تھے۔ وہ گھر کے کام کاج میں بھی چستی کا مظاہرہ کرتی اور ساتھ ساتھ یہ دینی کام بھی کرتی تھی۔ اس سب کے باوجود عاجزی اتنی تھی کہ ہمارے گھر کی خواتین ان سے ملتیں اور کہتیں کہ چونکہ آپ تو دین اسلام میں اپنی choice سے آئی ہوئی ہیں، ایسے لوگوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں تو آپ ہمارے لئے دعا کریں۔ اس پر وہ کہتی کہ دعا تو میں کر لوں گی لیکن میں تو کچھ بھی نہیں ہوں، آپ لوگوں سے بہت پیچھے ہوں کیونکہ آپ لوگ تو بہت پہلے سے مسلمان ہیں۔

مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہمت چھوڑ دے تو پھر کام نہیں ہو سکتا لیکن آج کل ہمارا ہندوستان اور پاکستان کا culture ایسا بنا ہوا ہے کہ سارے کام دعاؤں سے نکلوانا چاہتے ہیں۔ کمال کی بات ہے کہ دنیا کے کاموں کو صرف دعاؤں سے نہیں چاہتے۔ دنیا کے کاموں میں پوری محنت کرکے پھر دعا کرواتے ہیں۔مثلاً آپ کسی کو کہہ کے دیکھیں کہ آپ کا میڈیکل کا فائنل ایگزام ہو رہا ہے، آپ گھر بیٹھ کے دعائیں کریں۔ کیا کوئی ایسا کرے گا؟ ہر گز نہیں۔ پہلے پوری کوشش کرتا ہے، ساری محنتیں بروئے کار لاتا ہے، سب اسباب اختیار کرتا ہے، پھر دعائیں بھی کرتا ہے۔ دعائیں ضرور کرتے ہیں لیکن محنت پوری کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ خطرہ ہوتا ہے کہ پتا نہیں کیا نتیجہ آئے۔ اگر دنیا کے کاموں میں ہم ایسا کرتے ہیں تو دین کے کام کا کیا کوئی اور criteria ہے وہاں پر ہم نے کچھ اور سوچنا ہے کہ ہمارے وہ کام خود بخود ہوتے جائیں گے۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے

﴿بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا۔ وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى ﴾‏ (الاعلی: 16-17)

ترجمہ: ”لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو۔ حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے۔“

اصولاً تو ہونا یہ چاہیے کہ انسان زیادہ کام آخرت کے لئے کرے اور تھوڑا دنیا کے لئے کر لے لیکن چلو اگر یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم برابر برابر تو کرو۔ یہ تو نہ کرو کہ زیادہ وقت دنیا کو دو اور تھوڑا سا وقت میرے وظائف کے لئے رکھ لو۔ آپ ذرا حساب لگا کر مجھے بتائیں کہ آپ کا دوسرے کاموں پہ کتنا وقت لگتا ہے اور ان وظائف پہ کتنا وقت لگتا ہے۔ اب تک جو وظائف میں نے آپ کو دیئے ہیں میرا خیال ہے کہ ان پہ ایک گھنٹہ بھی نہیں لگتا ہو گا اور آپ مجھ سے کہتی ہیں کہ آپ دعاؤں سے سب کچھ حاصل کر لیں۔ پہلے آپ اپنے ذکر اذکار میں 12 گھنٹے پہ پہنچ جائیں تو پھر میں آپ کے لئے شب و روز دعائیں کروں گا۔ ابھی تو بہت کچھ باقی ہے۔ آپ فی الحال اپنے ذہن کو اس پہ قائل کریں کہ اس میں ہمت کرنی پڑے گی بغیر ہمت کے یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔

ایسی سوچ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جھوٹے پیروں نے لوگوں کو ورغلایا ہے۔ ایسے پیر بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ بس ہمارا پیٹ بھریں ہم آپ کو جنت میں پہنچا دیں گے۔ ایسے پیروں نے لوگوں کے مزاج خراب کر دیئے ہیں۔ اب لوگ کہتے ہیں جی بس ہمارے اوپر نظر کر لیں، ہم نے خود کچھ نہیں کرنا بس آپ توجہ فرما دیں۔ یہ ساری باتیں ان لوگوں نے مشہور کی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کے مزاج خراب ہو گئے ہیں۔ اس مزاج کو ٹھیک کرنے کے لئے ہمارے بزرگوں نے بڑی محنتیں کی ہیں الحمد للہ۔ یہ میں کوئی گپ نہیں لگا رہا بلکہ دل سے یہ بات کر رہا ہوں کہ آپ اس بات کو اچھی طرح سمجھیں یہ ایک محنت والی لائن ہے اور اس کو محنت سے ہی کرنا پڑے گا ہاں اللہ تعالیٰ کی مدد ضرور چاہیے اور اس کے لئے ہم دعا کریں گے ان شاء اللہ۔ 

سوال9:

کیا کوئی مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ دعا کر سکتا ہے: ”یا الٰہی کرم فرما تو کریم ہے تو رحیم ہے“۔﴿لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾(الأنبياء :87)، ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ. اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾ (الفاتحہ:4۔5)

جواب:

جی بالکل ان الفاظ میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ بالکل صحیح ہے۔ کریم اور رحیم یہ اللہ پاک کی صفات ہیں۔ ﴿لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾(الأنبياء :87) یہ قرآن پاک کی دعا ہے اور ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ ﴾ (الفاتحہ: 4) ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾ (الفاتحہ:5) سورہ فاتحہ میں ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس میں اشکال کہاں سے آ گیا۔ بہرحال یہ بالکل صحیح ہے اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے آپ اسی طرح بیشک دعا کر لیا کریں۔ 

سوال 10:

سر! کیا اللہ ہمارے دلوں میں نہیں رہتے ہیں؟ لوگ کہتے ہیں کہ وہ صرف عرش پر رہتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ یہ بھی آیا ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اللہ کو پہچانا۔ رومی اور جتنے اولیاء (رحمۃ اللہ علیہم اجمعین) ہیں، سب کے سب کہتے ہیں کہ اللہ ہمارے دلوں میں ہے۔ ہماری university میں جو lecturers ہوتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ صرف عرش پر ہے۔ please تھوڑا detail میں بتا دیں۔

جواب:

اس مسئلہ کا تعلق عقیدہ سے ہے. ایک فرقہ مجسمہ گزرا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے محفوظ فرمائے۔ وہ اللہ پاک کے لئے ایسے جسم مانتے ہیں جیسے انسان کا جسم ہوتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کی لمبائی چوڑائی کا پتا نہیں ہے۔ ایسے مسائل میں اہل سنت والجماعت کا مسلک امام مالک والا ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (طه: 5) کا مطلب کیا ہے۔ امام صاحب نے فرمایا ”اَلْاِسْتِوَاءُ مَعْلُومٌ“ ہمیں پتا ہے کہ استواء کیا چیز ہوتی ہے۔ ”وَالْکَیْفُ مَجْہُول“ اور ہمیں نہیں پتا کہ وہ اللہ پاک کے لئے کیسے ہے۔ کیونکہ اللہ پاک وراء الوراء ہے اللہ پاک کی ذات وراء الوراء ہے اور اللہ پاک کے لئے کوئی مثال نہیں ہے تو جو چیز ہم سوچیں گے وہ ہماری مثال ہو گی ہمارے ذہن کی بات ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے اوپر ہمارے ذہن کی بات تو fit نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا ”وَالْکَیْفُ مَجْہُول“ اس کے عرش پر استوا کی کیفیت مجہول ہے معلوم نہیں ہے۔ ” وَالسُّؤَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ“ اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام نے یہ سوال نہیں کیا۔ لہٰذا ہم بھی یہی کہتے ہیں ”کہ اَلْاِسْتِوَاءُ مَعْلُومٌ“ ہمیں اتنا معلوم ہے عرش پر اللہ پاک کی تجلی ہے۔ اب وہ کیسی ہے یہ ہمیں نہیں معلوم اور اس کے بارے میں بات کرنا بدعت۔ ہے جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں وہ بدعتی ہیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ یہی ہے۔ 

سوال 11:

ایک صاحب اپنے والد کی خدمت میں ہے ان کے والد بیمار ہیں تو انہوں نے کہا ہے: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت میں آپ کو receive کرنے آنا چاہتا تھا لیکن ابو کی ابھی طبیعت صحیح نہیں ان کا سب کچھ bed پر ہوتا ہے۔ اس وجہ سے نہیں آ پا رہا۔

جواب:

میں نے کہا آپ کی یہی خدمت ان شاء اللہ کام آئے گی فکر نہ کریں دل سے آپ ہمارے ساتھ ہیں۔

Question:

Today in afternoon I opened my computer and started playing music. I realized I am doing wrong and I wanted to stop it, but I wasn’t able to stop it down. I got so afraid. I listened to music and cannot shut down. Then I heard a voice of my friend saying wake up we have to discuss about our machine design project. After that I realize I was actually dreaming that I was listening to songs but when I woke up I was in half slept state. I felt so sad and disappointed because I couldn’t keep my word but when I was full wake up and finally realized that I was just in dream I found it funny and I was so was laughing to myself.

وعلیکم السلام.

جواب:

ٹھیک ہے۔ آپ پہلے چونکہ music سنتے تھے اور پھر میں نے آپ کو اس سے بچنے کا طریقہ بتا دیا اور الحمد للہ آپ نے اس پر عمل کر لیا، تو آپ کی وہ چیز نیند میں shift ہو گئی۔ نیند میں ہونے والے معاملات پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی پکڑ نہیں ہے ﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ﴾ (البقرہ: 286) کیونکہ 3 حالتیں ایسی ہیں جن میں کئے گئے کاموں پر اللہ پاک کی طرف سے کوئی گرفت نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص نابالغ ہو، بے ہوش ہو یا نیند کی حالت میں ہو تو اس سے قلم اٹھا دیا گیا ہے۔ لہٰذا نیند کی حالت میں جو کچھ ہوا یہ معاف ہے۔ البتہ یہ ہے کہ آپ کی اس چیز کو اللہ پاک نے نیند میں منتقل کر دیا۔ اللہ کا شکر ادا کریں کہ جاگتے میں آپ music نہیں سنتے اور نیند کی حالت میں تو آپ کے اوپر گرفت ہی نہیں ہے، تو اس پہ اللہ کا شکر ادا کریں۔ 

سوال12:

السلام علیکم میرے ایک بہت قریبی دوست نیاز الرحمٰن کو کاروبار میں شدید نقصان ہوا ہے۔ وہ انتہائی تکلیف میں ہے۔ میں نے اپنی طرف سے انہیں کچھ اوراد اور وظائف بھی دیئے ہیں لیکن ابھی تک کچھ بہتری نظر نہیں آئی۔ آپ سے التماس ہے کہ اسے اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں

جواب:

الله جل شانہ ان کو ہر قسم کے نقصان سے بچائے دینی نقصان سے بھی دنیاوی نقصان سے بھی۔ ان کو بتا دیں کہ ﴿سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ﴾ (یس: 58) یہ 313 مرتبہ روز پڑھ لیا کریں اور دوسری بات یہ ہے کہ ﴿وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ ﴾(غافر: 44) ہر نماز کے بعد 3 دفعہ۔ اس دوسرے وظیفہ سے دل کو اطمینان ہو گا اور پہلے والے سے ان شاء اللہ امید ہے کہ حالات اچھے ہو جائیں گے۔ 

سوال 13:

السلام علیکم حضرت جی آپ کو حج کی بہت بہت مبارک ہو حج پر آپ کی روانگی سے پہلے میں نے 3، 4 بار calls کیں، لیکن بات نہ ہو سکی۔ میرے اور بچوں کی دنیا و آخرت سنورنے کی اور حج پر جانے کی دعا کیجئے۔ خصوصی طور پر قرض اتارنے کی دعا بھی کیجئے۔ اللہ پاک ہمیں سرخرو کرے اور ہم سے راضی ہو جائے۔

جواب:

ماشاء اللہ! ایک بات یاد رکھیے دعا تو میں کر لیتا ہوں لیکن یہ بات یاد رکھیے کہ جو شخص بھی قرض لے اور اس کی واپس کرنے کی نیت ہو اور واپس کرنے کے لئے جو کوششیں ہو سکتی ہیں وہ بھی کر رہا ہو تو اللہ پاک اس کے قرض کو اتروا دیتے ہیں اور اس کے لئے راستہ بنا لیتے ہیں۔ لہٰذا آپ یہ کوشش جاری رکھیں اور دعا ہے کہ اللہ کرے آپ کا قرض اتر جائے، آپ کو حج نصیب ہو اور اللہ پاک دین پر استقامت عطا فرما دے۔ 

سوال14: 

السلام علیکم شاہ صاحب حج کی بہت بہت مبارک ہو اللہ آپ کی تمام عبادات اور دعاؤں کو قبول فرمائیں۔

جواب:

 آمین

سوال15:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی! الحمد للہ اللہ کا شکر ہے کہ حضرت والا کی واپسی خیر و عافیت سے ہو گئی۔ حضرت کی واپسی کے بارے میں عبید الرحمٰن صاحب مد ظلہ سے معلوم ہوا تھا اور پھر برابر حضرت ہی کی دعا کی برکت سے بیانات میں حاضری ہوتی رہی۔

جواب:

ماشاء اللہ

سوال16:

السلام علیکم! حضرت حج مبارک ہو۔ ladies سوالات کے لئے میرا نمبر group میں دے دیں۔ جزاک اللہ I am from Karachi ان شاء اللہ

جواب:

ان شاء اللہ ان شاء اللہ I will do it ان شاء اللہ۔

سوال17:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت میرا سوال یہ ہے کہ کیا سالک کے لئے اس طرح دعا کرنا ٹھیک ہے کہ یا اللہ مجھے اپنے شیخ سے اصلاحی ذکر سیکھنے اور ان کی زیر نگرانی سلوک طے کرنے کی توفیق عطا فرما۔

جواب:

جی ہاں اس طرح سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے ہم نماز پڑھتے ہیں اور ساتھ دعا بھی کرتے ہیں کہ یا اللہ مجھے اچھی طرح نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرما۔ ظاہر ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہاں میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ جو لوگ صرف دعا کے اوپر معاملہ چھوڑ دیتے ہیں تو وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اپنے طور پہ کوشش بھی کرنی ہے اور ساتھ دعا بھی کرنی ہے۔ 

سوال18:

السلام علیکم! حضرت جی احوال یہ ہیں کہ کچھ مدت سے اپنی خودی کے الٹ جا رہی ہوں۔ جو لوگ ناراض تھے ان سے بات کرنے میں خود پہل کی۔ رشتہ داروں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھا مگر الٹا ناراضگی ہی ملی۔ ان دو ہفتوں کے اندر میری چچی ناراض ہوئیں، پھر بہن نے بھی کافی باتیں سنائیں، کل والد صاحب نے معمولی بات پر شوہر کے سامنے کافی ڈانٹا۔ میں ان کے سامنے رونے لگی، دل کو بہت تکلیف پہنچی۔ حالانکہ میں بغیر کسی لالچ کے صرف صلہ رحمی کی وجہ سے ہر ایک کی مدد کر رہی تھی۔

جواب:

چونکہ مجھے آپ کی اس بات سے تفصیل کا پتا نہیں چلا لہٰذا میں کچھ مشورہ تو نہیں دے سکتا general بات کر لیتا ہوں کہ اگر آپ اخلاص کے ساتھ لوگوں سے بھلائی کا ارادہ کرتی ہیں اور اس پر آپ کو الٹا جواب ملتا ہے یعنی نقصان پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اگر اس کے باوجود بھی آپ اپنے عمل پر قائم رہتی ہیں تو آپ کو اس پر بہت بڑا اجر ملے گا۔ دل کو چھوٹا نہ کریں اور جتنا آپ کے بس میں ہو اتنا کر لیں البتہ یہ جو آپ نے خود اپنی طرف سے کیا ہے اس کے بارے میں مجھے نہیں معلوم۔ اس کے بارے میں اگر تفصیل بتا دیں تو پھر کچھ عرض کر سکوں گا کہ اس میں آپ کو کیا کرنا چاہیے تھا کس طریقہ سے کرنا چاہیے تھا عین ممکن ہے کہ طریقہ کار غلط ہو۔ 

سوال19: 

حضرت صاحب!

I have joined Islamic international university Islamabad as a visiting lecturer for Arabic in engineering girls department from 3rd September 2018 only two sessions in week 

جواب:

ماشاء اللہ بہت اچھا ہے الله جل شانہ آپ کو وہاں دین کی خدمت کرنے کے لئے قبول فرمائے۔

سوال20:

السلام علیکم اعمال کے chart پر جوڑ کے متعلق کالم ہے، اس سے کیا مراد ہے؟

جواب:

ماشاء اللہ! بہت اچھا سوال ہے، واقعی پوچھے جانے کے قابل ہے۔ جب ہم نے chart بھرنے کی ترتیب شروع کی تھی، تو اس میں جوڑ کا کالم بھی شامل کیا تھا۔ ہفتہ کے دن ہمارا جوڑ ہوتا ہے۔ عصر کے سے اگلے دن اشراق تک جاری رہتا ہے۔ یہاں ساتھی آتے ہیں اور اعمال وغیرہ کرتے ہیں۔ اگر آپ مثنوی شریف کے درس میں آن لائن شمولیت کر لیں، اس کو سن لیں تو آپ اس میں tick کر سکتے ہیں کہ ہاں میں نے بھی جوڑ میں شرکت کی ہے، کیونکہ آپ دور ہیں، آ تو نہیں سکتے۔ اس لئے آپ کی شرکت اس طریقے سے ہو جایا کرے گی۔ 

سوال 21:

Dear حضرت شاہ صاحب I pray that you are fine; sometimes there is a problem in couples. If the husband practices the ورد but the wife doesn’t practice it, if the husband is walking alone on the path? Is it danger in the couples? for example the man can experience the احوال and the wife can feel envy with all my respect۔ 

جواب:

تو میں نے انہیں کہا تھا کہ 

I shall answer you today. This is very important question. Briefly you can use the same example if husband and wife both are sick and then husband gets treatment from the doctor, but wife doesn’t, should her husband also stop the treatment? 

یعنی چونکہ اس نے کہا تھا کہ اگر میاں بیوی دونوں کسی سے بیعت ہوں اور ایک تو اعمال و اوراد کر رہا ہو دوسری نہ کر رہی ہو تو ایسی صورت میں کیا خطرہ ہو گا؟ میں نے اس کا جواب یہ دے دیا کہ اگر میاں بیوی دونوں بیمار ہوں اور میاں ڈاکٹر سے علاج کروا رہا ہو، بیوی نہ کروا رہی ہو تو کیا خیال ہے اس کے خاوند کو بھی علاج روکنا چاہیے؟ ظاہر ہے ایسا کرنا بے وقوفی ہو گی۔ اس کا اپنا عمل ہے اِس کا اپنا۔ اس لئے میاں کو عمل کرتے رہنا چاہیے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ترغیب و تحریص کے ذریعے اپنی بیوی کو بھی سمجھانا چاہیے کہ وہ بھی کوشش کر لے یہ نہیں کہ اس کی وجہ سے خود بھی پیچھے ہو جائے۔

اس پر انہوں نے کہا 

Yes this is right dear حضرت شاہ صاحب we both must take the treatment

الحمد للہ بات ان کو سمجھ میں آ گئی۔

سوال 22:

السلام علیکم! حضرت! آپ ﷺ یاد آ رہے ہیں اور آپ بھی یاد آ رہے ہیں عجیب حالت ہے، کبھی روتا ہوں کبھی ہنستا ہوں، مگر خوش ہوں۔ مجھے پتا ہے یہ میرا کمال نہیں۔ کمال تو ان کا ہے جن کے ہاتھ میں میں نے ہاتھ دیا ہے۔ بیشک میں یہ کہتے ہوئے ریاکار لگوں کہ آپ نے آپ ﷺ سے ملا دیا۔ میں پوری زندگی بھی اگر آپ کی خدمت کروں تو اس احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ اللہ پاک آپ کو آپ ﷺ کے اور بھی قریب کرے۔ یہ سب لکھنے سے ڈرتا بھی ہوں اس لئے بس اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔

جواب:

ماشاء اللہ اچھی بات ہے۔ الحمد للہ اللہ پاک کی توفیق سے اگر اللہ پاک نے آپ ﷺ کی محبت نصیب فرمائی ہے اور آپ ﷺ کے ساتھ تعلق نصیب فرمایا ہے تو یہ بڑی سعادت ہے۔ ہمارا طریقہ بھی یہ ہے کہ فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ۔ یہ 3 stages ہیں۔ شیخ کے ذریعے سے انسان آپ ﷺ تک پہنچتا ہے اور آپ ﷺ کے ذریعہ سے اللہ تک پہنچتا ہے۔ یہ طریقہ تو ہمارے ہاں مشہور ہے۔

سوال23: 

حضرت جی شیخ کی محفل میں کرسی پہ بیٹھنا بے ادبی میں آئے گا؟

جواب:

عذر کی وجہ سے ہو تو پھر بے ادبی میں شمار نہیں ہوگا، مثلاً بیماری کی وجہ سے اگر کوئی مجبور ہے تو عذر میں تو نماز کے احکامات بھی بدل جاتے ہیں۔ اور اگر بغیر عذر کے ہو تو بے ادبی میں شمار ہو گا اور ایسا شخص پھر شیخ کی مجلس ہی سے محروم ہو گا۔

سوال24:

مسجد میں کرسی پہ بیٹھ کر نماز پڑھنا، تلاوت کرنا، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب:

اس میں بھی وہی عذر والی condition ہے لیکن عذر واقعی عذر ہونا چاہیے۔ اگر واقعی عذر ہے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ اس میں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو مسجد میں کرسی پہ بیٹھ کر نماز پڑھنے اور دوسرے اعمال کرنے سے بچنا چاہیے، ایسا تب تک نہیں کرنا چاہیے جب تک اس کے بغیر کوئی دوسرا حل ہی نہ ہو۔ مثلاً اگر آپ زمین پہ بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھ سکتے ہوں تو پھر کرسی پہ بیٹھ کر نہ پڑھیں۔ اسی طرح اگر کرسی پہ بیٹھ کے نماز پڑھنا مجبوری ہو تو فرض نماز پڑھ کر گھر چلے جائیں کیونکہ مسجد میں ایسا کرنا صرف مجبوری اور ضرورت کے تحت ہے اور فرض نماز تو ضرورت ہے کہ وہ مسجد کے علاوہ ہو ہی نہیں سکتی، لیکن باقی اعمال تلاوت اور سنن و نوافل وغیرہ گھر میں پڑھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں نے تو اس کو fashion بنا لیا ہے۔ مساجد میں کرسی پر بیٹھ کر گپیں ہانکتے ہیں۔ لہٰذا مسجد میں کرسی پہ بیٹھنا صرف ضرورت اور مجبوری کے وقت بس اتنی ہی دیر کے لئے جائز ہوگا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ بہت ساری جگہوں پہ تو ضرورت نہیں ہوتی مثلاً ایک شخص کے لئے ایک کرسی ایسی بھی موجود ہے کہ زمین کے اوپر بیٹھ کر اس سے انسان ٹیک لگا لیتا ہے، ایسی صورت میں یہ کرسی preferable ہے کیونکہ اس میں انسان نیچے بیٹھا ہوا ہے او اس کی ٹیک لگی ہوئی ہے۔ اس کا کام بھی ہو رہا ہے اور بے ادبی کے زمرے میں بھی نہیں آ رہا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بعض دفعہ نمازی کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ وہ معذوری کی وجہ سے رکوع و سجدہ میں پاؤں کو زیادہ bend نہیں کر سکتا جھک نہیں سکتا۔ تو اس کے لئے بہتر ہے کہ وہ نیچے بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھ لے۔ اگر نیچے بیٹھ کر پڑھنا اتنی دیر کے لئے بھی ممکن ہو جتنی دیر میں نماز پڑھ لی جاتی ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ ممکن ہوتا ہے تو ایسی صورت میں بہتر یہی ہے کہ نیچے بیٹھ کر اشارے کے ساتھ نماز پڑھ لے۔ سجدہ اور رکوع اگر نہیں کر سکتا تو نہ کرے، وہ اشارے سے کر لے، لیکن اس طرح کرسی پہ بیٹھ کر نماز پڑھنا، یہ انتہائی مجبوری کی حالت میں کرنا چاہیے جب کوئی اور صورت ممکن ہی نہ ہو۔ اس میں یہاں تک بھی گنجائش ہے کہ اگر ایک آدمی گھٹنا موڑ نہیں سکتا تو زمین پہ بیٹھ ٹانگ لمبی کر لے اور نماز پڑھ لے۔ الغرض کرسی سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔

سوال25:

ایک صاحب نے ایک سوال کیا ہے اور کچھ مشورہ مانگا ہے۔

جواب:

اس بارے میں عرض ہے کہ چونکہ یہ آج کل یہ بازار گرم ہے کہ لوگ علما کرام کے بارے میں باتیں کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے بھی اس مسئلہ کو اٹھایا ہے اور یہ بہت غلط بات ہے۔ لیکن اس فورم پر اس کا تفصیلی جواب نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ اگر میں اس کا جواب دوں گا تو میں عین ممکن ہے کہ دوسرے لوگ جو ان باتوں کو صحیح سمجھتے ہیں، خواہ مخواہ ان کی ہمارے ساتھ ایک discussion شروع ہو جائے۔ بعض دفعہ ایسی discussion نہ کرنا‘ کرنے سے بہتر ہوتا ہے کیونکہ discussion کرنے سے وہ برائی پھیل جاتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا statement ہے کہ آپ جس برائی کو control نہیں کر سکتے اس پر بات کرنے سے بچنا چاہیے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس موضوع پہ بات کرنے سے بچ جائیں کیونکہ ”برائی برائی“ کرنے سے برائی پھیلتی ہے ختم نہیں ہوتی۔ اس لئے ایسی صورت میں‘ میں اس قسم کے مسئلے discuss نہیں کرتا۔ personally تو بات چیت کر لوں گا لیکن اس طرح main frame کے اوپر نہیں لاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پھر اور مسائل پیدا ہوتے ہیں مثال کے طور پر ابھی خاکوں کے بارے میں بات آ رہی تھی۔ کئی حضرات نے یہ بات اٹھائی کہ اگر انہوں نے خاکے غلط بنائے ہیں تو تم اس کی تشہیر کیوں کر رہے ہو، اس کو کیوں پھیلا رہے ہو۔ اس کے بارے میں بات کرنا بھی ایسا ہے جیسے اس میں شریک ہونا خواہ آپ اس کے اوپر لعنت ہی کیوں نہ بھیج رہے ہوں۔ اگر آپ نماز میں شیطان کے اوپر لعنت بھیجیں تو نماز ہو جائے گی؟ بالکل نہیں ہو گی۔ ہر چیز کا اپنا موقع ہوتا ہے لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ ہر کام کو کر لیا جائے۔ اگر کوئی کام غلط بھی ہو اور اسے ٹھیک کرنا ہو تو غلط کو ٹھیک کرنے کے لئے ٹھیک طریقہ بھی ہونا چاہیے۔ اگر آپ غلط کو غلط طریقہ سے ٹھیک کریں گے تو غلطی مزید بڑھے گی۔ اس وجہ سے میں ایسی چیزیں نہیں discuss کرنا چاہتا جس سے خواہ مخواہ لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات بڑھ جائیں اور ان کو بجائے فائدہ کے نقصان ہو جائے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ بعض باتیں لوگوں کے ذہنوں میں وسوسہ کی صورت میں ہوتی ہیں۔ اب وہ وسوسہ کسی کے ذہن میں ہے اور میں نے اس کے ان وسوسوں کو بیان کر دیا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ عین ممکن ہے کہ وہ اتنا گہرا مسئلہ ہو کہ مجھے اس کو سمجھانے کے لئے 3 دن چاہیے ہوں، تو کیا میرے پاس اس پلیٹ فارم پر 3 دن ہوں گے؟ کم از کم اس platform پر تو میں 3 دن نہیں دے سکتا، تھوڑا ہی time دے سکتا ہوں اور تھوڑے ٹائم میں ادھورا جواب دینے سے اس کا وسوسہ ختم نہیں ہوگا بلکہ وہ مزید پختہ ہو جائے گا۔ ایک دفعہ میں نے کسی جگہ بیان کیا۔ بیان کے بعد ایک صاحب آئے اور کہنے لگے بیان میں آپ نے فلاں، فلاں اور فلاں بات discuss نہیں کی۔ میں نے کہا جو میں نے discuss کی ہیں ان میں سے کوئی غیر ضروری تھی۔ کہنے لگے نہیں ضروری تو ساری باتیں تھیں۔ میں نے کہا مجھے بیان کے لئے ایک گھنٹہ ہی ملا تھا میں ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت نہیں لے سکتا تھا۔اور اتنے وقت میں ساری باتیں تو نہیں ہو سکتیں چند باتیں ہی ہو سکتی ہیں، کچھ نہ کچھ رہنا تو لازمی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر میں وہ باتیں کرتا جو آپ بتا رہے ہیں، ہو سکتا ہے وہ کسی اور کی choice کے مطابق نہ ہوتیں، پھر وہ مجھے کہتا کہ آپ نے یہ باتیں کیوں نہیں کیں۔ اب میں پوری دنیا کو satisfy تو نہیں کر سکتا۔ اس لئے take your time آپ انتظار کریں ان شاء اللہ وہ باتیں کسی اور بیان میں discuss ہو جائیں گی۔ ہر چیز ایک وقت میں نہیں ہو سکتی۔ لوگ ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ شاید ہم ہر بات ان کے خیال کے مطابق کریں گے۔ پشتو میں کہتے ہیں ما مه شمیره درګډ یم کہ میں تمہارے ساتھ اس میں نہیں ہوں لیکن تمہارے ساتھ ہوں۔ ایسی باتیں ایسے platform پر نہیں کرنی چاہئیں، short قسم کا سوال ہو، conceptual question ہو، تصوف سے متعلق ہو اس کے لئے ہم حاضر ہیں ان شاء اللہ العزیز۔

سوال 26:

حضرت جی میرا ذکر ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“ 200 مرتبہ ”اِلَّا اللّٰہ“ 400 مرتبہ ”اللّٰہُ اللّٰہ“ 600 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 400 مکمل ہو گیا ہے۔

جواب:

اب اس میں آپ آخری ذکر یعنی ”اللّٰہ“ میں 100 اور ملا دیں تو ”اللّٰہ“ کا ذکر 500 دفعہ ہو جائے گا۔ جو مراقبات مکمل ہو گئے ہیں اس کی تفصیل بتا دیجئے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ