سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 380

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
مسجد نبوی - مدینہ منورہ





اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ

بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ جزاکم اللہ خیرا۔ (اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے)۔ آپ نے بہت ہی قیمتی نصیحتیں فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ دل و جان سے اس پہ عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ صحیح معنوں میں فرض عین درجہ کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، دین کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں، فہم عطا فرمائیں اور نفس و شیطان کے شر سے، خاص اپنے فضل و توفیق سے محفوظ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ ہمیں جوڑا ہے اس پہ استقامت عطا فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں جہانوں میں اس کے ساتھ دائماً منسلک رہنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اور کبھی بھی آپ کی شفقتوں سے محروم نہ فرمائیں۔ حضرت دعاؤں کی بہت زیادہ درخواست ہے، بالخصوص یہ کہ اللہ پاک ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائیں جن سے اللہ تعالیٰ آخرت میں یہ فرمائیں گے کہ میں تم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے راضی ہو گیا اب کبھی ناراض نہ ہوں گا۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ (آمین)

سوال نمبر1:

السلام علیکم حضرت آپ کو حج کی بہت مبارک ہو۔ موجودہ فرض عین علم کورس میں نماز کے پرچے میں اول position حاصل کی اور پہلے والے فرض عین کورس میں عقائد کے پرچے میں تیسری position حاصل کی تھی۔ اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔  

جواب:

آمین۔ بہت بہت مبارک ہو۔ فرض عین علم کورس جو ہم لیڈیز کو وٹس ایپ پر کرواتے ہیں، اس سے عورتوں کو بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ ہمارے تمام ساتھیوں کو چاہیے کہ اپنے گھر کی خواتین کو اس کے ساتھ منسلک کریں اور کم از کم انہیں فرض عین علم کا course ضرور کروائیں۔ اس مین ان کا اور آپ کا اپنا فائدہ ہے کیونکہ جب فرض عین درجہ کے مسائل ان کو معلوم ہوں گے تو گھر کے اندر دین کے اوپر عمل کرنا آسان ہو گا۔ عموماً انسان عمل کے لئے تیار نہیں ہوتا، اگر عمل کے لئے تیار ہو بھی جائے اور مسئلہ کا پتا نہ ہو تو ہر وقت پوچھنے کا موقع نہیں ہوتا، اگر پوچھنے کا موقع بھی مل جائے تو ہر وقت پوچھنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ ایسی کئی رکاوٹیں بن جاتی ہیں۔ ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لئے ہم نے خواتین کے لئے فرض عین علم کورس کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس میں انہیں شامل کرکے اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع دینا چاہیے۔  

سوال نمبر2:

السلام علیکم میں آپ کی ایک انتہائی نالائق مرید ہوں۔ نہایت بے احتیاطی اور بے شرمی سے آپ کو message پر تنگ کرتی ہوں۔ میری ہر وہ بات جو آپ پر ناگوار گزری ہو میں اس کے لئے تہہ دل سے معافی کی طلب گار ہوں۔

جواب:

میں کسی کے میسج پر ناراض نہیں ہوتا شرط یہ ہے کہ وہ میسج اصولی طور پر صحیح ہو۔ اصولی طور پر صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اصل مسئلہ کے بارے میں ہو۔ اصل مسئلہ اپنی اصلاح کا ہے۔ اگر وہ میسج اپنی اصلاح کے بارے میں ہے تو سبحان اللہ بسر و چشم، ہم اسی لئے تو بیٹھے ہیں۔ ہمارا کام ہی یہی ہے کہ ہم لوگوں کی ان کے نفس کی اصلاح کرنے میں مدد کریں۔ البتہ عملیات وغیرہ اور گھر کے حالات وغیرہ کی باتوں کی میں زیادہ توجہ نہیں کرتا۔ کیونکہ اس سے اصلاح والا کام متاثر ہو جاتا ہے۔ عملیات والی line تو ہم نہیں چلاتے، ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان چیزوں سے دور دور رہیں۔ البتہ اصلاح کے متعلق اگر کوئی میسج کرے تو ہمیں خوشی ہوتی ہے اور ہم اس کی حتی الامکان خدمت کرتے ہیں، لیکن اس کا بھی ایک طریقہ کار ہے، اس طریقہ کار کے مطابق ہی میسجز کرنے چاہئیں۔ اصلاح کے بارے میں میسج کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ جو بات پوچھنے کی ہے براہ راست وہی پوچھیں، زیادہ تمہید باندھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ طویل میسج پڑھنے میں بہت وقت لگتا ہے، اور وقت بہت قیمتی ہے۔ اس لئے وقت کا خیال رکھ کر مختصر طور پر اصل مسئلہ بیان کیا جائے۔

سوال نمبر3:

السلام علیکم۔ آج صبح اپنی نالائقی اور عبادت میں دل نہ لگنے پر خفا اور پریشان تھی۔ ابھی خواب میں دیکھا کہ دو شرارتی بچوں کو میں آپ کے پاس لے آتی ہوں۔ آپ ایک بچے کے سر کو پکڑ کر توجہ کرتے ہیں، توجہ کی وجہ سے میرے سر میں درد ہو جاتا ہے، میں آپ کو سر درد کا بتاتی ہوں تو آپ مسکرا رہے ہوتے ہیں۔ کبھی ذہن میں آتا ہے کہ وہ آپ نہیں کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہوتے ہیں۔

جواب:

عبادت میں دل نہ لگنا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن عبادت میں دل نہ لگانا مسئلہ ہے۔ اپنی طرف سے عبادت میں دل لگانے کی کوشش کی جائے۔ عبادت کے وقت ان تمام چیزوں کو اپنے سے دور ہٹا دیں جو عبادت میں مخل ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی television دیکھ کر آئے اور نماز پڑھنے لگ جائے تو نماز پڑھتے وقت television کی ساری باتیں اس کے دماغ میں گھوم رہی ہوں گی، اسی طرح کوئی music سن کے نماز پڑھنے کے لئے آیا ہو تو اس کے دماغ میں وہی چیزیں چلتی رہیں گی۔ اس لئے اپنے ماحول کو صاف کریں، عبادت میں جی لگنے کا انتظار نہ کریں بلکہ جی لگانے کی کوشش کریں۔ جی لگنے میں آپ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے، لیکن جی لگانے میں آپ کا control ہے۔

روایات میں آتا ہے کہ رو رو کے دعا مانگا کرو اور اگر رونا نہ آئے تو رونے والے کی شکل بنا کے دعا مانگو۔ عبادت میں دل لگانے کی بھی یہی مثال ہے کہ خود سے جی نہ لگے تو جتنا ہم اختیاری طور پر جی لگا سکتے ہیں وہ ضرور لگائیں۔ اگر ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کریں پھر بھی جی نہ لگے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اس سے زیادہ کی آپ مکلف نہیں ہیں خود سے جی نہ لگے تو اس پہ اللہ کی طرف سے کوئی پکڑ نہیں ہے۔ لہٰذا ہم جی لگانے کی کوشش ضرور کر لیں، اس کے لئے حالات ایسے پیدا کر لیں کہ اپنے آپ کو ڈسٹرب کرنے والی چیزوں سے ڈسکنیکٹ کر لیا کریں۔

جب نماز شروع کریں تو تکبیر تحریمہ کے ذریعہ اپنے آپ کو باقی تمام چیزوں سے disconnect کر لیا کریں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہمارے دل میں کوئی خیال ہی نہ آئے، یہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ جو خیالات خود آتے رہیں، ان پہ پکڑ نہیں ہو گی اس لئے ان کی فکر نہ کریں۔

خواب میں آپ نے جو دو شرارتی بچے دیکھے، ان میں سے ایک شیطان ہے اور دوسرا نفس ہے۔ توجہ نفس پر ہی ہوتی ہے شیطان پر نہیں ہو سکتی۔ جب نفس پر زور ہوتا ہے تو اس کا اثر دماغ پہ پڑتا ہے۔ نفس پہ دباؤ ڈالنا آپ کی اصلاح کے لئے مفید ہے۔ الله جل شانهٗ آپ کو حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات نصیب فرمائے۔  

سوال نمبر4:

السلام علیکم۔ استاد جی آپ مجھے محرم میں بسم اللہ لکھنے کے بارے میں بتا دیں کہ یہ کتنی بار لکھنی ہے، کیا اس کا کوئی مخصوص وقت ہے؟ اور کیا یہ صرف کسی مخصوص وجہ سے لکھی جاتی ہے؟ کیا اس کو لکھ کر دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں یا صرف اپنے لئے لکھنا ہے۔ 313 بار لکھنے کے بعد اگر دوسروں کو دم کیا جائے تو وہ اثر کرتا ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں وضاحت فرما دیں۔  

جواب:

ہم نے یہ بات بارہا بتائی ہے کہ ہم عملیات کے حوالے سے خدمت نہیں کرتے۔ یہ چیزیں ہماری domain میں نہیں ہیں۔ البتہ آپ نے جو سوال پوچھا ہے۔ اس کے بارے میں اس کا علمی پس منظر بتا دیتا ہوں۔

حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص یکم محرم کے دن 113 مرتبہ اپنے ہاتھ سے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرّحِیم لکھے تو اس کی بہت ساری نقصان دہ چیزوں سے حفاظت ہو جاتی ہے۔ حضرت نے بس اتنا ہی لکھا ہے، جو تفصیلات آپ پوچھ رہے ہیں ان کے بارے میں کچھ نہیں لکھا، اس لئے ہم بھی اس سے زیادہ نہیں بتا سکتے۔ بہرحال آپ عملیات کی طرف زیادہ توجہ نہ کریں، بس اپنی اصلاح کے لئے کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے۔  

سوال نمبر5:

اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:

﴿قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا ۚ هُوَ مَوْلٰىنَا ۚ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (التوبہ: 51)

ترجمہ: ”کہہ دو کہ : اللہ نے ہمارے مقدر میں جو تکلیف لکھ دی ہے ہمیں اس کے سوا کوئی اور تکلیف ہرگز نہیں پہنچ سکتی۔ وہ ہمارا رکھوالا ہے، اور اللہ ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے۔“

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو تکلیف اللہ نے لکھ دی ہے اس کے علاوہ ہمیں اور کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی۔ دوسری طرف ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ جادو کا اثر ہوتا ہے۔ اس آیت اور جادو کے اثرات سے نزول و مصائب اور تکالیف میں تضاد نظر آتا ہے۔  

جواب:

ہو سکتا ہے بظاہر تضاد نظر آتا ہو لیکن در حقیقت کوئی تضاد نہیں ہے۔ جو تقدیر میں لکھا ہوا ہے وہ پہنچ کے رہے گا۔ اسی طرح ہر ایک کو وہ پہنچے گا جس کے لئے وہ کوشش کرے گا۔ یہ دونوں چیزیں ثابت ہیں۔ آپ جو اعمال کر رہے ہیں ان کا آپ کو فائدہ پہنچے گا اور جو لکھا ہوا ہو گا اسی طریقے سے ہو گا۔

سوال نمبر6:

حضرت السلام علیکم۔ میں نے ایک ماہ گناہوں پر توبہ کرنے کا عمل کر لیا ہے۔ اگلا سبق بتا دیجئے جزاک اللہ خیرا۔  

جواب:

اچھی بات ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو گناہوں سے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرما دی۔ اب نیک اعمال کی نیت کرنا شروع کر لیں۔ نیک اعمال سے مراد سنت کے مطابق چلنا ہے۔ اس کے لئے اسوۂ رسول اکرم ﷺ کا مطالعہ شروع کریں۔ پہلے اس کو اچھی طرح سمجھ لیں اور جب سمجھ میں آ جائے تو پھر جن سنتوں کے بارے میں آپ کا خیال ہو کہ آپ ان پر فوراً عمل کر سکتے ہیں، ان پر فوراً عمل شروع کیجئے گا۔ اور ان میں آہستہ آہستہ اضافہ کرتے رہیے گا۔ یہ سلسلہ جاری رکھیں تاکہ آپ کو زیادہ سے زیادہ سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق ہو جائے۔  

سوال نمبر7:

السلام علیکم حضرت جی۔ میری دلی خواہش تھی کہ university join کرنے سے پہلے آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو جاتا جیسا کہ آپ جرمنی جانے سے پہلے اپنے شیخ کے پاس تشریف لے گئے تھے۔ میری کوشش تو تھی کہ مدینہ منورہ میں حاضر ہو جاتا لیکن ابھی تک ویزے شروع نہیں ہوئے۔ میری کل کی flight ہے آپ سے دعاؤں اور ایمان کی سلامتی کی درخواست ہے۔ کیا کسی شخص سے یہ استدعا کی جا سکتی ہے کہ روضۂ اقدس پر شیخ مرید کی طرف سے سلام عرض کر دے میری خواہش تھی لیکن ڈر تھا کہ کہیں اس طرح کی درخواست خلاف ادب نہ ہو اللہ پاک آپ کو صحت وعافیت اور قبولیت والی حاضری مدینہ منورہ میں عطا فرمائے، حضرت نبی آخر الزمان خاتم النبی کی توجہ اور نظر کرم ہر وقت آپ کے ساتھ ہو اور اس برکت سے سلسلے کے ساتھیوں کی قبولیت اور دین کی وقعت اور بلندی ہو۔ آمین میں اپنے تمام ساتھیوں کی طرف سے سلام پیش کر رہا ہوں۔

جواب:

آمین۔

اللہ آپ کی حاضری قبول فرمائے۔

سوال نمبر8:

ایک صاحب نے مجھے 2، 3 WhatsApp کئے اور اپنے کچھ گریلو مسائل کے متعلق بڑے تفصیلی اور طویل میسجز بھیجے۔

جواب:

ان کی خدمت میں جواب عرض ہے کہ بھئی میں حج پڑھوں یا آپ کے لمبے میسجز پڑھوں۔ خدا کے بندے میں آپ کو طریقہ کار بتانے پر وقت لگاؤں یا یہاں کے معمولات کروں۔ لوگ ہمیں بلا وجہ خواہ مخواہ بہت ساری چیزوں میں involve کرتے ہیں۔ اگر واقعی کسی مسئلے میں ہمارا مشورہ چاہیے تو پھر ہمارا انتظار کریں کہ ہم لوگ حج سے فراغت کے بعد پاکستان پہنچ جائیں اس کے بعد ان شاء اللہ یہ سب باتیں ہو سکتی ہیں لیکن یہاں حج کے دوران ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہماری ذمہ داری اصلاحی کام کے ساتھ متعلق ہے ہم اتنا ہی کر سکتے ہیں اس سے زیادہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔  

سوال نمبر9:

السلام علیکم حضرت جی۔ میری لگاتار فجر کی دو نمازیں قضا ہو گئی ہیں جس کا مجھے بہت افسوس ہے۔ حالانکہ میں نے اور گھر والوں نے الارم بھی لگا کر رکھے ہوئے تھے۔ پہلے دن تو گھر میں کوئی نہیں اٹھا تھا لیکن دوسرے دن باقی لوگ اٹھے تھے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم دونوں نے نماز پڑھ لی ہے، اس ہمیں لئے کسی نے نہیں اٹھایا۔ اب ہم دونوں نے چھے چھے روزے رکھنے کا ارادہ کیا ہے۔ گھر والوں نے 3 روزے رکھ لئے لیکن میرے لئے لگاتار چھ روزے رکھنا تھوڑا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لئے ہفتہ اور اتوار کو روزہ رکھنے کا سوچا ہے کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے یا لگاتار چھ روزے رکھوں۔  

جواب:

چونکہ آپ کے special حالات ہیں، آپ یہی دو دو روزے رکھیں تو ان شاء اللہ ٹھیک ہو جائے گا۔  

سوال نمبر10:

السلام علیکم حضرت جی۔ دفتر کی جانب سے مجھے ایک ہفتے کے لئے کولمبو جانا پڑ رہا ہے۔ کل صبح 3 بجے روانگی ہے اور اگلے ہفتے کے دن واپسی ہو گی۔ حضرت جی! یقیناً وہاں غفلت اور بے پردگی کا ماحول ہو گا۔ میرے لئے کوئی ہدایت اور نصیحت کی بات فرمائیے۔ وہاں میرے لئے سب سے بڑا challenge یہ ہو گا کہ کوئی غیر ملکی خاتون ہاتھ آگے بڑھا کر سلام کرتی ہے تو عین اس وقت میں کیسے جان چھڑاؤں۔ مجھے اس کے بارے سمجھ نہیں آ رہی کہ عین اس وقت کیا کیا جائے۔ حضرت جی آپ سے دعاؤں کی درخواست ہے۔ میرے لئے کوئی خاص احتیاط ہو تو ارشاد فرمائیے۔

جواب:

احتیاط تو یہ ہے کہ اپنی نظر کی حفاظت کریں اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی خاتون ہاتھ ملانا چاہتی ہو تو آپ نظریں نیچی رکھ کر ہاتھ کے اشارہ سے ہی سلام کر لیں، ہاتھ نہ ملائیں۔ پھر بھی ان کو سمجھ نہ آئے تو بے شک ان کو بتا دیں۔ میرے خیال میں وہ خواتین اتنی سمجھ دار ضرور ہوتی ہیں، سمجھ جاتی ہیں کہ یہ ہاتھ نہیں ملانا چاہتے۔

بہرحال آپ بجائے ہاتھ ملانے کے صرف یہ کریں کہ سلام کے لئے ہاتھ اٹھا لیں، زبان سے السلام علیکم کہہ دیں پھر ہاتھ نیچے کر لیں اور اپنی نظریں بھی نیچی رکھیں۔ ان شاء اللہ العزیز اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔  

سوال نمبر11:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ لاہور سے قاضی اکرام عرض کر رہا ہوں۔ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ آج کل میں آپ کا دیا ہوا علاجی ذکر کر رہا ہوں۔ ایک ہفتے سے بہت مشکل میں ہوں، بالکل بے بس ہوں۔ معمولات کرنے میں بے حد مشکل ہوتی ہے اور ذکر کرتے ہوئے ایک عجیب سی پریشانی اور مشقت محسوس ہو رہی ہے حالانکہ پہلے کبھی اس طرح نہیں ہوتا تھا۔ میں اس وجہ سے بہت پریشان ہوں۔ حالت یہ ہے کہ جو ذکر کرتا ہوں وہ دماغ اور زبان تک محدود رہتا ہے، لاکھ کوشش کر رہا ہوں اس بات پر فوکس کرنے کی‘ کہ یہ ذکر میرے دل کی طرف جائے لیکن نہیں ہو پا رہا۔ ایک ڈیڑھ ہفتے سے یہ مسئلہ مسلسل جاری ہے۔ پہلے میں برداشت کرتا رہا ہوں لیکن اب مجھے بہت الجھن ہو رہی ہے۔ اس معاملہ میں مجھے آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ازراہ کرم آپ شفقت فرمایئے گا۔ اس وجہ سے مجھے بہت پریشانی ہے، میرے دوسرے معمولات بھی مکمل طور پر ڈسٹرب ہو رہے ہیں۔ الحمد للہ پانچ وقت کی نمازیں تکبیر اولیٰ کے ساتھ ادا ہو رہی ہیں مگر ذکر میں بے حد مشقت محسوس ہو رہی ہے، ذکر کرتے ہوئے میری ایسی کیفیت ہوتی ہے جیسے کوئی جانور رسی تڑا کے بھاگنا چاہ رہا ہو، حالانکہ میں چاہتا ہوں کہ آرام سے صحیح طور پر مکمل طریقے سے ذکر کروں، کوشش بھی کرتا ہوں جسم و جان پر بے حد بھاری ہو جاتا ہے۔ ابھی اس وقت آپ سے بات کرتے ہوئے میری مٹھی بہت مضبوطی سے بند ہے اور مجھ سے یہ چیز برداشت نہیں ہو پا رہی۔ حضرت والا بہت شکریہ بہت نوازش۔

جواب:

آپ کا پر درد میسجز سن لیا ہے۔ اس میں گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ سالکین کے ساتھ یہ چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔ قبض اور بسط دن اور رات کی طرح ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ اب کوئی آدمی دن کو کام کرتا ہے، رات ہونے لگے تو کیا وہ رونا شروع کر لے کہ رات ہو گئی ہے؟ ظاہر ہے رات کی اپنی حکمتیں ہیں رات کو بجائے رونے کے رات کے فائدے اٹھانے چاہئیں۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ ایک گر کی بات آپ کو بتاتا ہوں۔ آپ اپنے ذہن کو یہ بات بتا دیں کہ اگر ذکر کرنا میرے لئے آسان ہو، میں شوق کے ساتھ ذکر کروں تو اس سے مجھے ذکر کا فائدہ ہوگا اور اگر میرا دل ذکر سے اچاٹ ہو، دل ذکر کرنے کو نہ چاہتا ہو اس کے باوجود میں ذکر کروں ہوں تو اس سے دو فائدے ہوں گے، ایک مجاہدہ کا فائدہ جس سے استعداد بڑھے گی، دوسرا ذکر کا فائدہ جس سے دل بنے گا۔ اس دوسری صورت میں دل اور نفس دونوں کا علاج ہے۔ اس لئے آپ پروا نہ کریں، اللہ تعالیٰ کی حکمت اور قدرت کا تقاضا یہی ہو گا کہ وہ اس وقت آپ کو مجاہدہ اور ذکر دونوں کا اجر دینا چاہتے ہیں، اس لئے آپ ذکر کرتے رہیں، مشقت کے باجود کرتے رہیں اور دونوں فائدے حاصل کرنا شروع کریں۔ نفس کے علاج کا کام بھی لیں اور دل کی اصلاح تو ذکر کے ساتھ ہوتی ہی ہے۔ اسے ایک دوائی کی طرح سمجھیں دوائی تلخ ہو تب بھی مریض اسے صحت کے حصول کی خاطر پیتا ہے۔ لہٰذا آپ اسے دوائی سمجھ کر کرتے رہیں اور اس پر مطمئن رہیں کہ فائدہ بہرحال ہو رہا ہے۔

سوال نمبر10:

حضرت جی۔ نبی پاک ﷺ کے در پر میرا عاجزانہ سلام کہیے گا۔ میرے لئے دعا فرمائیں کہ نبی پاک ﷺ کی خواب میں زیارت ہو جائے۔ ان کی سنتوں پر چلنا آسان ہو جائے اور وہ اپنی نظر رحمت فرما دیں۔

جواب:

جس جس نے مجھے سلام پیش کرنے کا کہا ہے سب کی طرف سے سلام کہتا ہوں۔

آپ ﷺ کی خواب میں زیارت کے لئے بے شک آپ دعا کر لیا کریں، دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ ایسی چیز ہے کہ اللہ جل شانه جس کے لئے اسے مناسب سمجھتے ہیں اس کو مل جاتی ہے۔ آپ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہیں کہ درود شریف کی کثرت کریں اور سنتوں کے مطابق چلنے کی کوشش کریں۔ جتنا آپ سنتوں کے مطابق چلیں گی اور درود شریف زیادہ پڑھیں گی تو امید ہے کسی نہ کسی وقت کرم ہو جائے گا۔ اگر اللہ پاک کو اس بارے میں آپ کے لئے کچھ اور منظور ہوا تو وہ بھی آپ کے لئے بہتر ہو گا۔ کیونکہ بعض دفعہ جب کوئی ایسی نعمت ملتی ہے تو انسان اس پر بہت زیادہ مطمئن ہو کر کام چھوڑ دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بس میں بزرگ بن گیا ہوں۔ ہر ایک کے ساتھ اللہ پاک کا الگ معاملہ ہوتا ہے۔ آپ درود شریف کثرت سے پڑھیں اور سنتوں کے اوپر چلنے کی پوری کوشش کریں۔ میں دعا ضرور کرتا ہوں لیکن اس کے لئے عمل کی دعوت دی گئی ہے۔ نبی ﷺ کی اطاعت میں اعمال کرنا ہر شخص کی ذمہ داری ہے آپ یہ ذمہ داری پورا کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ اللہ پاک مدد فرمائیں گے۔  

سوال نمبر11: 

Dear حضرت شاہ صاحب, I pray that you are fine. I have a question. I feel that my soul wants to get better but my نفس is tiring me down every day. I fight but I feel like I don’t involve myself enough. Is it normal or do I miss something important? What is the cure? Please also can you pray for my daughter who is sick with a lot of fever!

جواب:

I pray for your daughter. May اللہ grant her صحت as soon as possible! And as for your question, it is clear that one's heart sometimes feels what is good but the نفس does not accept it. So therefore, in the beginning, one is to again جذب and one is to complete سلوک. So therefore withجذب you will be ان شاء اللہ given path to complete the سلوک, to complete the 10 stations of سلوک. So ان شاء اللہ العزیز it will be at your on time and I pray for you. May اللہ grant you all the capabilities of performing the things accordingly. Do not disturb yourself, you are on the right path and try your best.

سوال نمبر12:

 السلام علیکم حضرت جی اس ہفتے بڑا نقصان ہوا ہے، ایک ہی ہفتے میں 8، 11 اور 12 تاریخ کو فجر کی نماز قضاء ہو گئی۔ جرمانے کے روزے یکم محرم سے نو محرم تک لگاتار رکھنے کا ارادہ ہے۔ کیا اس کے بعد عاشورہ کے روزے رکھنے ہوں گے؟ پھر خیال آیا کہ لگاتار رکھنے کی ممانعت ہے تو پوچھ لیتا ہوں۔ ابھی 4 روزے رکھے ہیں، آگے رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:

جہاں تک لگا تار روزے رکھنے کی ممانعت کی بات ہے، تو اس بارے میں حضرت عمر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے میرے کثرت عبادات نماز روزہ اور اس کے متعلق علم پر مجھ سے فرمایا کہ ایسا نہ کیا کرو، بلکہ کبھی روزہ رکھا کرو کبھی افطار کیا کرو۔ اسی طرح رات کو نماز بھی پڑھا کرو اور سویا بھی کرو۔ تمھارے بدن کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمھاری بیوی کا بھی حق ہے اور اولاد کا بھی حق ہے، ملنے والوں کا بھی حق ہے۔  

در اصل حضرت عبد اللہ بن عمر اور ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہما یہ دونوں حضرات بہت زیادہ مجاہدہ کرنے والوں میں سے تھے۔ یہ مسلسل روزے رکھنے سے ممانعت کا حکم ان کے خاص حالات کی وجہ سے انہی کو دیا گیا تھا۔ اصل مطلب اس حکم سے یہ تھا کہ ہر چیز کی اپنی اپنی اہمیت ہے اس لئے جس چیز کا وقت ہو اس چیز کو اہمیت دیا کرو۔

پورا مہینہ مسلسل روزے رکھنا اور بات ہے اور یہ آپ کے جو نو روزے ہیں ان کو مسلسل رکھنا اور بات ہے، یہ نو روزے مسلسل رکھنے سے ممانعت نہیں ہے۔ لہٰذا آپ یہ نو روزے رکھ سکتی ہیں۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ جو لوگ مجاہدہ کے طور پر روزے رکھتے ہیں ان کو ہم سمجھائیں گے کہ یہ روزے ایک خاص طریقہ کار سے رکھو، یوں نہ رکھو کہ مسلسل رکھتے ہی چلے جاؤ اور مہینے گزر جائیں۔ ہر ایک کے حالات کے مناسب اسے ترتیب بتا دی جاتی ہے۔

سوال نمبر13:

السلام علیکم۔ مراقبہ کرتے ہوئے ایک مہینہ مزید ہو گیا ہے۔ ذکر اور مراقبہ میں کوئی ناغہ نہیں ہوا۔ کیا مزید یہ جاری رکھوں؟ دل کی کیفیت اب پہلے سے بہتر ہے، کچھ ایک دو منٹ ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

جی ہاں ابھی یہی معمول جاری رکھئے۔ جب پورے دس منٹ تک ذکر محسوس ہونے لگے گا تب ان شاء اللہ آگے سبق اور معمولات دئیے جائیں گے۔ آپ ہر ماہ پابندی سے اطلاع کرتی رہیں اور ساتھ معمولات کا چارٹ بھی بھیج دیا کریں۔  

سوال نمبر14:

السلام علیکم محترم مرشدی دامت برکاتھم۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں۔ حضرت جی میرا حافظہ بہت کمزور ہے میں نحوکے قواعد پڑھ کر سمجھ لیتا ہوں لیکن انہیں یاد رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ جب دوبارہ وقت پڑھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے گویا پہلی بار پڑھ رہا ہوں۔ حضرت جی میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میرے دل و دماغ اپنے علوم کے حصول کے لئے کھول دے۔

جواب:

اس کے لئے آپ ایک عمل شروع کر لیں۔ جمعہ کی رات کو سورہ یٰس شریف، سورۃ تبارک الذی، سورہ دخان پڑھ لیا کریں۔ اس کی مفصل ترتیب اور طریقہ فضائل اعمال میں حفظ قرآن کے سلسلے میں دیا گیا ہے۔ آپ اس معمول کو شروع کر لیں۔ ان شاء اللہ العزیز اس سے آپ کا حافظہ ٹھیک ہو جائے گا۔  

سوال نمبر15:

حضرت السلام علیکم۔ آپ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ خانقاہ آنا بذات خود ایک بہت بڑا عمل ہے۔ اس کی وضاحت فرما دیں اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ آمین۔

جواب:

خانقاہ میں لوگ اصلاح کے لئے آتے ہیں۔ اپنی اصلاح کے لئے کسی جگہ پر جانا ایک کوشش ہے اور کوشش کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہے:

﴿وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ”اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انھیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے“۔

اس کوشش کو اگر اللہ پاک قبول فرمائے تو آپ کو ہدایت کا رستہ سجھا دیں گے۔ کوشش کرنا بذات خود بہت بڑا عمل ہے۔ اس عمل کو جاری رکھنا چاہیے۔

سوال نمبر16:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت۔ یہ فقراء اور مساکین کون ہوتے ہیں۔ اگر ہمیں فقراء اور مساکین کی مدد کرنی ہے تو کیسے پتا چلے کہ صحیح حقدار کون ہے۔ بظاہر کچھ لوگ بہت غریب نظر آتے ہیں، ان میں سے کئی بوڑھے ہوتے ہیں ان کی داڑھی بھی ہوتی ہے بظاہر دین دار نظر آتے ہیں۔ جب میں ان کو پیسے نہیں دیتا تو دل میں خیال آتا ہے کہ اللہ کا بندہ مانگ رہا ہے ہو سکتا ہے واقعی ضرورت مند ہو اور تو نے پیسے ہوتے ہوئے بھی اسے نہیں دیئے۔ روزانہ ایسا ہوتا ہے اس کا کیا حل ہے۔ اللہ پاک آپ سے اور آپ کے گھر والوں سے راضی ہو۔

جواب:

در اصل آج کل باقاعدہ اس کام کے گینگز اور گروپس بنے ہوئے ہیں۔ وہ ضعیف کمزور لوگوں کو گاڑیوں میں لاتے ہیں کسی خاص جگہ پر چھوڑتے ہیں، شام کو انہیں واپس لے جاتے ہیں۔ پیسے وغیرہ ان مانگنے والوں کے پاس نہیں جاتے، بلکہ ان کے مالکوں کے پاس جاتے ہیں۔ اس لئے آپ ان غریبوں کو جو پیسے دیتے ہیں وہ در اصل اِن غریبوں کو نہیں دے رہے ہوتے بلکہ اُس مافیا اور گینگ کو دے رہے ہوتے ہیں۔

اس وجہ سے جو لوگ راستوں اور بازاروں میں مانگ رہے ہوتے ہیں ان کے بارے میں انسان یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ممکن ہے ان میں کچھ لوگ مستحق ہوں اور بعض لوگ مستحق نہ ہوں۔

در اصل ہم کسی خاص صورت پر بھروسہ نہیں کر سکتے، آج کل ہر ہر طریقہ استعمال کیا جا چکا ہے۔ پہلے لوگ راستے میں کھڑے ہوئے لوگوں کو لیفٹ دے دیا کرتے تھے، لیکن لوٹنے والوں نے لفٹ کو بھی لوٹنے کے لئے استعمال کیا، کئی لوگوں کا نقصان ہوا اس لئے اب لوگ لفٹ نہیں دیتے۔

ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنی خیرات و زکوۃ اور صدقات کو مستحقین تک پہنچانے کے لئے آپ کو اپنے علاقہ میں ایک ترتیب کے ساتھ کام کرنا پڑے گا۔ آپ لوگوں سے باقاعدہ طور پر سن گن لیا کریں اور معلوم کیا کریں کہ آپ کے آس پاس سفید پوش غریب لوگ کون ہیں۔ سفید پوش غریبوں کا حق زیادہ ہوتا ہے جو غریب ہوتے ہیں لیکن اپنی غربت چھپاتے ہیں۔ اس کے بعد ان لوگوں کا حق ہے جو بتا دیتے ہیں لیکن جھوٹ نہیں بولتے وہ واقعی غریب ہوتے ہیں۔ اپنے آس پاس ایسے لوگوں کو ڈھونڈیں جو مجبور ہیں، روزگار نہیں مل رہا، بیوائیں ہیں، یتیم ہیں، ایسے لوگوں کو تلاش کر کے ان لوگوں کو اپنے صدقات وغیرہ دیا کریں۔ اس طرح آپ مطمئن ہو جائیں گے کہ میں نے اپنی duty پوری کر دی ہے۔ اگر راستے میں مانگنے والوں کو دینے لگ جائیں تو اصل مستحق لوگ رہ جائیں گے۔ اس لئے تھوڑی سی کوشش کر کے تحقیق کر لیا کریں اور مستحقین تک اپنے صدقات پہنچایا کریں۔ اپنے علاقے میں اس سلسلے میں خود محنت کریں تاکہ آپ کا فائدہ ہو اور مستحقین کا بھی فائدہ ہو۔  

سوال نمبر17:

السلام علیکم حضرت۔ تقریباً دو ہفتے پہلے ایک خواب دیکھا تھا۔ ابھی تک شش و پنج میں تھا کہ آپ سے ذکر کروں یا نہیں۔ اب اس کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں یہ آپ ہی بتا دیجیے۔

خواب میں کوئی جاننے والا تھا۔ کون تھا یہ یاد نہیں ہے۔ بس اتنا یاد ہے کہ وہ ایک جان پہچان والا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ حضور ﷺ تشریف لائے ہیں ان کی میزبانی میں نے کرنی ہے۔ زمانہ آج کا تھا۔ اس کے بعد دیکھا کہ ایک شخص کے ساتھ بیٹھا ہوں اور دل میں سوچ رہا ہوں کہ میری خوش قسمتی کی کوئی انتہا نہیں کہ حضور ﷺ کے کمرے میں ہوں۔ اب میری دنیا کی حالت وغیرہ سب ٹھیک ہو جائے گی۔ پھر دیکھا کہ اس شخص کو گاڑی میں کہیں لے کے جا رہا ہوں۔ اس سے سوال پوچھتا ہوں کہ اگر آپ حضور ہیں اور اس زمانہ میں آئے ہیں تو قرآن پاک چودہ صدیاں پہلے کیسے آیا اس میں آپ کا ذکر کیسے تھا۔ جواب ملا: کیا اللہ کے اختیار میں نہیں کہ قرآن پاک میری آمد سے پہلے نازل کرے اس میں میرا ذکر ہو۔

میں نے سوچا ممکن تو ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ کی جو سیرت لکھی ہے وہ کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔

جواب میں اس شخص نے پوچھا کہ سیرت کیا ہوتی ہے۔

اس پر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کوئی چکر باز ہے اور افسوس ہوا، ساری خوشی دھری کی دھری رہ گئی۔ پھر دیکھا کہ وہ شخص اپنی حقیقت کھلنے کے بعد جا رہا ہے اور میں اسے مشورہ دیتا ہوں کہ جس ہستی کا نام تم نے استعمال کیا ہے کم از کم ان کے بارے میں معلومات ضرور حاصل کرنا کیا پتا تمھیں ہدایت مل جائے۔ پھر وہ شخص ایک مرد سے عورت کے روپ میں نظر آتا ہے۔ اس موقع پر میری آنکھ کھل گئی۔

جواب:

اس خواب میں انتباہ ہے اس بات پر کہ انسان دینی باتوں سے بھی دھوکہ کھا سکتا ہے، شیطان آدمی کو بہکانے کے لئے دینی باتوں کو بھی استعمال کرتا ہے، اور دینی باتوں میں جو دھوکہ ہوتا ہے وہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس لئے آپ کو علما کرام کے ساتھ بہت زیادہ جڑنے کی ضرورت ہو گی تاکہ آپ کو دینی باتوں کے ذریعے کوئی اور خیال آئے تو آپ اس سے محفوظ رہ سکیں۔ الحمد للہ کیونکہ آپ سلسلہ میں آ گئے ہیں، سلسلہ میں آنے کے بعد ہدایت کے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں۔ جو آپ کو خواب میں دکھایا گیا یہ بھی ایک ہدایت کا نظام ہے۔ آپ کے دل میں ایسے سوال ڈالے گئے کہ آپ کو خود یقین ہو گیا کہ یہ کوئی چکرباز ہے۔ ایسے چکر بازوں سے بچنا چاہیے۔ جس علاقے میں آپ رہتے ہیں وہاں آج کل یہ کوششیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں کہ لوگوں کو آپ ﷺ سے برگشتہ کیا جائے اور قادیانیوں و احمدیوں کی طرف راغب کیا جائے۔ قادیانی اور احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں۔ ان کا لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کا طریقہ قریب قریب ایسا ہی ہوتا ہے جیسا آپ کو خواب میں دکھایا گیا۔ آخر میں جب یہ آدمی عورت کے روپ میں نظر آتا ہے، تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ یہ سب دنیا کے حصول کے لئے کر رہے ہیں۔ خواب میں عورت سے مراد دنیا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

سوال نمبر18:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت والا آپ کی خدمت میں یہ بات عرض کرنی تھی کہ حضرت والا کی عجیب برکت ہے عجیب توجہ ہے کہ کافی عرصے سے میں نے یہ غور کیا کہ ہمارے سید صبیح صاحب سوال و جواب کی مجلس کا جو آڈیو کلپ منتخب کرتے ہیں وہ اسی موضوع پر ہوتا ہے جس کی مجھے ضرورت ہوتی ہے، میرے لئے بہت مفید ہوتا ہے۔ ایسا کئی بار ہوتا ہے کہ میرے ذہن میں کوئی سوال ہوتا ہے، ارادہ ہوتا ہے کہ حضرت سے پوچھوں گا لیکن اس سے پہلے ہی پیام سحر پر صبیح صاحب آ جاتے ہیں۔ بارہا میں نے سوچا، ان سے پوچھوں کہ آپ انتخاب کیسے کرتے ہیں۔ یہ سب حضرت کی برکت اور سلسلہ کی برکت ہے، حضرت کی توجہ اور دعا کا اثر ہے کہ یہ غیبی نظام حرکت میں ہے اور اس طریقے سے سبحان اللہ بہت فائدہ ہوتا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ۔ اس سے ایک تو صبیح صاحب کی کوشش کی قبولیت کا امکان نظر آ رہا ہے۔ واقعتاً میں خود بڑا حیران ہوتا ہوں۔ جب وہ سوال select کرتے ہیں، اس کا جواب تو مجھے یاد نہیں ہوتا کہ میں نے اس کا کیا جواب دیا ہے۔ میں دوبارہ سنتا ہوں تو پتا چل جاتا ہے کہ اچھا میں نے اس کا جواب یہ دیا تھا۔ الحمد للہ مجھے بھی خوشی ہوتی ہے۔ یہ ساری باتیں ضروری ہیں۔ اب ہم نے سوال و جواب کی مجالس کو website پہ اپ لوڈ کرنا شروع کر دیا ہے۔ introduce کر دیا ہے، اب اس پہ سرچ انجن کے ذریعے سوالوں کی سلیکشن ہو سکے گی اور مطلوبہ سوال کا جواب آسانی سے سرچ ہو سکے گا ان شاء اللہ العزیز۔

ہمیں ایک بزرگ نے جو چاروں سلسلوں کے شیخ ہیں فرمایا: شبیر صاحب! آپ نے یہ جو سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا ہے، آج کل کا اصل تصوف یہی ہے۔

کیونکہ ان سوالوں کے جوابات میں جو طریقے اور مسائل کے حل بتائے جاتے ہیں یہی اصل تصوف ہے۔ کتابوں میں تو پرانا تصوف ہے۔ جیسے میڈیکل کے شعبے میں نئی ریسرچ اور جدید تحقیق پرانی سے زیادہ کار آمد ہوتی ہے اسی طرح تصوف میں جدید تحقیقات زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ چونکہ یہ سوالات آج کل کے دور کے ہیں ان کے جوابات بھی آج کے زمانہ کے ہیں اور دور حاضر سے مطابقت رکھتے ہوئے ان میں سالکین کے سوالات کا جوابات اور روحانی مشکلات کا حل بتایا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ اصل تصوف ہیں۔

حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ بھی در اصل ان سوالوں کے جوابات ہی ہیں جو لوگوں نے خطوط لکھ کر پوچھے تھے۔ حضرت نے انہیں جوابات دئیے جس کے نتیجے میں مکتوبات وجود میں آئے، ان سے بے بہا فائدہ ہوا اور اب تک ہو رہا ہے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی سوالات کئے گئے تھے، جن کے جوابات کو تربیت السالک میں جمع کیا گیا ہے۔ یہ دو جلدوں میں چھپ چکے ہیں۔

اس وجہ سے ہم کوشش کرتے ہیں کہ سوال و جواب کا سلسلہ چلتا رہے اور اس سے ہم سب کو رہنمائی ملے۔  

سوال نمبر19:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت! اپنے ملک یا شہر سے حضور ﷺ پر درود سلام بھیجنے میں اور جو آدمی روضۂ اقدس کے پاس موجود ہو اس کے ذریعے سلام بھیجنے میں فضیلت و برکت کے لحاظ سے کیا فرق ہے؟

خواب میں حضور ﷺ کو یوں دیکھنا جیسے انہوں نے کوئی بات فرمائی ہو، الفاظ یاد رہ جائیں لیکن حضور ﷺ کو واضح طور پر دیکھا نہ ہو صرف شبیہ محسوس کی ہو، کیا یہ واقعی حضور ﷺ کی زیارت شمار ہو گی یا شیطان کا دھوکہ ہو گا۔

خود پر منافق ہونے کا گمان اور اپنے ایمان میں شک محسوس ہوتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے ایمان زبان سے دل میں نہیں اتر رہا۔ کچھ دنوں سے میری یہی حالت۔ کافی پریشانی میں رہا ہوں۔ ڈر لگتا ہے کہ اگر اللہ کی طرف سے مہر لگ جائے تو میرا کیا بنے گا۔ یہ بتاتے ہوئے ایسا خیال آیا کہ یہ بھی نفس کی ایک چال ہے۔ حضرت میں کیا کروں۔

جواب:

جو حقیقی طالب ہوتا ہے یہ نہیں دیکھتا کہ کونسی چیز زیادہ اور کونسی چیز کم ہے وہ تو کم سے کم بھی نہیں چھوڑتا۔ نبی ﷺ پر درود و سلام کے جتنے بھی ذریعے ہیں وہ سارے کے سارے اچھے ہیں۔ آپ دور سے سلام بھیجیں یا جو زیارت کے لئے گیا ہو ان کے ذریعے سے بھیجیں، دونوں میں فائدہ، برکت، رحمت اور فضیلت ہے بلکہ بار بار درود و سلام بھیجنے کے جتنے بھی مواقع ملتے رہیں ہر موقع پر کوشش کرنی چاہیے کہ یہ موقع ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ اس معاملے میں فضیلتوں کے بارے میں گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمیں اپنے مقصد سے غرض ہے۔ اگر کم فضیلت سے ہمارا کام ہو جائے تو ہمارے لئے کم فضیلت بھی زیادہ فضیلت کے برابر ہو گئی۔ فضیلت تو اجر کے لئے ہے اصل مقصد ہے اصلاح ہو جائے تو پھر اور کیا چاہیے۔

لہٰذا ہمیں ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور سلام پہنچانے کے ہر موقع کو استعمال کرنا چاہیے۔ آپ ﷺ کا خواب میں یوں نظر آنا کہ خواب دیکھنے والے کے ذہن میں یقین ہو کہ یہ حضور ﷺ ہی ہیں، تو پھر وہ حضور ﷺ ہی ہوتے ہیں، اِلا یہ کہ کوئی ایسی بات فرمائی ہو جو شریعت کے مطابق نہ ہو تو پھر اس کی مختلف تاویلیں ہو سکتی ہیں۔ ایک تاویل یہ ہو گی کہ نبی ﷺ نے کوئی بات شریعت سے متضاد نہیں فرمائی، خواب دیکھنے والے کے سننے میں غلطی ہے اس نے ٹھیک سے سنا نہیں۔ دوسری تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ کو صرف شبیہ نظر آئی وہ کوئی اور چیز تھی۔ لہٰذا جو کچھ بھی خواب میں نظر آئے اسے شریعت پر پیش کر لیں اگر وہ بات شریعت کا مطابق ہے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔ اِس صورت میں اگر وہ بات آپ ﷺ نے فرمائی ہو پھر تو بہت بڑی بات ہے اور اگر ویسے ہی آپ کو خیال بھی آیا ہے تو وہ بھی آپ ﷺ کی برکت سے آیا ہے۔

خود پر منافق ہونے کا گمان تو اچھا ہے لیکن اپنے آپ کو منافق سمجھنا ٹھیک نہیں ہے۔ جب انسان کا عمل ایمان کے مطابق نہ ہو تو اس کو منافق ہونے کی علامت کہا گیا ہے، لہٰذا اپنے اوپر منافق ہونے کا گمان اس بات کی دلیل ہے کہ آپ یہ سوچ رہی ہیں کہ میں ٹھیک سے عمل نہیں کر پا رہی۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اپنے آپ کو منافق اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ منافق کافر سے بھی بد تر ہوتا ہے اور اپنے ایمان پر شک نہیں ہونا چاہیے۔ ایک شک ہوتا ہے اس بات پر کہ میں عمل ٹھیک نہیں کر رہی، اور ایک شک اس بات پر ہوتا ہے کہ میرے دل میں ایمان ہی نہیں ہے۔ ایمان پر شک کرنا ہماری فقہ حنفی میں جائز نہیں ہے۔ ایمان پر یقین ہونا چاہیے۔

لہٰذا آپ اپنے آپ کو منافق نہ سمجھیں ہاں منافق والی حالت سمجھ سکتی ہیں۔ منافق والی حالت سے مراد یہ ہے کہ جیسے منافق جھوٹ بولتا ہے اسی طرح اگر مسلمان جھوٹ بولتا ہے تو وہ منافق والا کام کر رہا ہے۔ یہ حالت درست کرنے کی تو ہے لیکن ایمانی طور پر منافق ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔

گناہ سے کوئی کافر نہیں ہوتا، ایمان کا تعلق ماننے سے اور قبول کرنے سے ہے۔ اگر آپ ایمان مفصل جانتی ہیں اور آپ کا اس پر دل سے یقین ہے بس یہ کافی ہے آپ مسلمان ہیں اور مومن ہیں۔ لہٰذا اس کے بارے میں شک نہ کریں اس میں شک نہیں ہونا چاہیے۔ اصل چیز قبولیت ہے قبولیت کے لئے دعا کرنی چاہیے اور کوشش جاری رکھنا چاہیے۔ اسی سے ہدایت کے راستے کھلیں گے اس وقت آپ محفوظ نظام میں ہیں لہٰذا گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے۔

سوال نمبر20:

حضرت مجھے ایک ڈرامہ میں کام کرنے کی آفر آئی تھی، میں نے جا کر آڈیشن دیا اور سلیکشن بھی ہو گئی۔ در اصل میں نے ان سے چیک بھی لکھوا لیا تھا میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ اگر ڈرامہ میں کام کر کے کماؤں گا تو وہ محنت کر کے ہی کماؤں گا محنت کرکے کماؤں گا تو وہ حلال بھی ہوگا۔

اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ کیا کروں۔

جواب:

دیکھیں کوئی شخص بات کر رہا ہو اور اسے کوئی کہے کہ تو ڈرامہ کر رہا ہے تو کیا وہ خوش ہوتا ہے یا ناخوش ہوتا ہے۔ اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ وہ ناخوش ہوتا ہے تو پھر آپ ایسا کام نہ کریں جس پر انسان ناخوش ہوتا ہو۔

باقی صرف محنت سے کمائی حلال نہیں ہو جاتی۔ بینک میں ملازمت میں محنت نہیں ہوتی؟ چوری اور ڈاکہ میں محنت نہیں ہوتی؟ گانے بجانے میں بحنت نہیں ہوتی؟ بہت محنت ہوتی ہے مہدی حسن تقریباً ہزاروں کی تعداد میں ڈنڈ پیلتا تھا کیونکہ اس سے سانس لمبی ہوتی ہے۔ کیا زیادہ محنت سے وہ چیز جائز ہو جاتی ہے؟ نہیں صرف محنت سے کوئی چیز جائز نہیں ہوتی۔  

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن