اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ
بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
ایک خاتون نے اطلاع کی تھی کہ حضرت جی روزانہ 300 مرتبہ ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ کا ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے۔
میں نے اس سے پوچھا : اس کے ساتھ کوئی تصور کرنے کا بتایا تھا یا نہیں؟
انہوں نے کہا: نہیں۔
میں نے کہا: اب یہ ذکر کرتے ہوئے آپ ساتھ ساتھ یہ تصور کریں کہ مجھے اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرا یہ تصور قائم ہو جاتا ہے۔
میں نے کہا: بس اسی کے ساتھ ایک مہینہ اور ذکر کریں۔
انہوں نے پھر یہ لکھا کہ میں ایک بات بھول گئی تھی کہ تصور 5 منٹ قائم کرنا ہے یا 10 منٹ۔
جواب:
جتنے وقت آپ ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ کر رہی ہیں، اتنے وقت ہی یہ تصور کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿فَاذْکُرْوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ﴾ (البقرہ: 152)
ترجمہ: ”مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔“
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت ہم ذکر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ بھی ہمیں یاد کر تا ہے۔ اس لئے ہمیں اتنی دیر تک یہ تصور قائم کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں محبت کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی، میرا ذکر قلبی پہلے 3 لطائف قلب، روح سر کے مقامات پر 10، 10 منٹ کا چل رہا ہے۔ ذکر جہری سات تسبیحات ہیں۔ بیماری کی وجہ سے ہونے والے ناغے کے بعد بھی لطیفۂ قلب پر اللہ اللہ کا ذکر محسوس ہوتا ہے جبکہ باقی دو لطائف پر کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ اس بارے میں مزید رہنمائی فرمادیں۔
جواب:
آپ کا لطائف کا ذکر کچھ کمزور ہو گیا ہے اس وجہ سے اب آپ کو دوبارہ کچھ محنت کرنی پڑے گی۔ آپ ایسا کریں کہ 10 منٹ کے لئے لطیفۂ قلب پر یہ تصور کر لیا کریں کہ اللہ اللہ ہو رہا ہے اور 15 منٹ کے لئے لطیفۂ روح پر یہی تصور کریں۔
سوال نمبر3:
ایک خاتون نے پوچھا ہے کہ آپ نے مجھے 1000 مرتبہ جہری طور پر ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ کرنے کا حکم فرمایا تھا۔
جواب:
اب آپ وہی جہری ذکر 1500 مرتبہ کر لیا کریں۔
سوال نمبر4:
حضرت! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کا سایہ ہم پر سلامت رکھے۔معمولات کا chart مع حفظ عبید بھائی کو email کر دیا ہے۔ الحمد للہ، آپ کی زیارت کے بعد ذکر میں پابندی ہو رہی ہے اور اس سے بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ آپ کا سایہ ہم پہ سلامت رکھے۔
جواب:
اللہ کا شکر ہے کہ آپ کو فائدہ ہوا ہے۔ اللہ پاک کی طرف سے کچھ ایسا انتظام ہے کہ اپنے شیخ سے رابطہ ہونے پر فائدہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا شیخ سے رابطہ مسلسل قائم رکھیں، چاہے وہ خط کے ذریعے سے ہو، چاہے email کے ذریعے سے ہو، چاہے telephone کے ذریعے سے ہو۔ جتنا آپ کا رابطہ مضبوط ہو گا اتنا آپ کو فائدہ زیادہ ہو گا۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم! حضرت جی قلبی ذکر 15 منٹ قلب لطیفۂ قلب پر اور 10 منٹ لطیفۂ روح پر ملا ہوا ہے۔ پہلے ذکر کے بعد کبھی سر درد کبھی سینہ میں بوجھ محسوس ہوتا تھا، ذکر کے دوران توجہ میں کمی رہتی تھی۔ جب آپ نے اصلاح فرمائی اس کے بعد توجہ میں اضافہ ہوا اور طبیعت پر بوجھ میں بھی کمی ہو گئی تھی۔ ذکر کے بعد تھوڑا سکون اور نیند بھی آتی تھی۔ طبیعت پر پہلے جیسا بوجھ نہیں پڑ تا تھا اور ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ محسوس ہونے لگ گیا تھا۔ لیکن جب سے clinic جانا شروع کیا ہے، ہر وقت کلینک سے متعلق چیزیں اور مریضوں کے نام ذہن میں رہتے ہیں۔ میری توجہ بالکل کم ہو گئی ہے اور وہی پرانی کیفیت لوٹ آئی ہے، طبیعت پر بوجھ محسوس ہوتا ہے، سر درد ہوتا ہے اور اللہ اللہ کا ذکر محسوس بھی کم ہو رہا ہے۔ کافی کوشش کر رہی ہوں لیکن زیادہ فائدہ نہیں ہو رہا۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
ذکر قلبی پر ایسی چیزوں سے برا اثر پڑتا ہے جو انتشار والی ہوتی ہیں اس لئے جنہیں ذکر قلبی دیا جاتا ہے، انہیں ساتھ ساتھ یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ ذہن کو انتشار میں ڈالنے والی تمام چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کریں، اسی لئے ذکر کرتے وقت آنکھیں بھی بند کی جاتی ہیں، بعض اوقات لائٹس بھی آف کر دی جاتی ہیں۔ یہ ساری انتظامی باتیں ہوتی ہیں۔ چونکہ آپ کے انتشار میں اضافہ ہوا ہے جس کا اثر ذکر پر پڑا ہے، اس لئے آپ یہ ذکر باقاعدگی سے کریں چاہے محسوس ہو یا نہ ہو۔ اپنی کوشش جاری رکھیں دوبارہ محسوس ہونا شروع ہو جائے گا، اگر کچھ عرصہ تک محسوس نہ ہوا تو کوئی اور حل تجویز کریں گے۔
سوال نمبر6:
حضرت السلام علیکم! میں نے ایک ماہ گناہوں پر توبہ کرنے کا عمل مکمل کر لیا ہے اگلا سبق بتا دیجئے۔ معمول کے ذکر و مراقبہ کے علاوہ مزید لسانی ذکر نہیں ہوتا۔ کیا مستقل قلب پر توجہ رکھ سکتا ہوں اور جہری طور پر اللہ اللہ کر سکتا ہوں؟
جواب:
اگلا سبق یہ ہے کہ آپ ڈاکٹر عبد الحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب اسوۂ رسول اکرم ﷺ لے لیں اور اس میں ذکر کردہ سنتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد دیکھیں کہ کون سی سنتوں پر آپ فوراً عمل شروع کر سکتے ہیں۔ ان پر نشان لگا لیں اور عمل کرنا شروع کریں۔ ایک ہفتہ کے بعد مجھے report کریں۔
سوال نمبر7:
حضرت، الحمد للہ 8 دن سے میرا مراقبہ جاری ہے۔ معمولات کا chart بلا ناغہ بھر رہی ہوں۔ میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ chart میں تو اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں جیسے تلاوت قرآن مجید، تہجد وغیرہ۔ یہ سب کب سے شروع کرنی چاہئیں؟
جواب:
تلاوت قرآن کم از کم ایک پاؤ روزانہ کر لیا کریں۔ باقی چیزوں کے بارے میں آپ مجھے بتا دیں کہ چارٹ میں موجود تمام چیزوں میں سے کون سی چیزیں آپ ابھی شروع کر سکتی ہیں، میں آپ کی اس بارے میں رہنمائی کر دوں گا۔
دین بہت صاف اور واضح ہے۔ جو اختیار میں ہے اس میں سستی نہیں کرنی چاہیے اور جو اختیار میں نہیں ہے اس کے درپے نہیں ہونا چاہیے۔ اس اصول پر اگر آپ عمل کریں گے تو ان شاء اللہ العزیز کبھی ناکامی نہیں ہو گی۔ اس پر عمل کر لیں خواہ مخواہ وسوسوں کی طرف نہ جائیں۔ فرض عین درجے کا علم حاصل ہونا چاہیے اس میں کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے بعد اختیاری کاموں میں اختیار استعمال کرنا چاہیے اور غیر اختیاری (جیسے کیفیات وغیرہ تو اس) کے درپے نہ ہوں، ہاں اگر یہ خود بخود نصیب ہوں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور نہ نصیب ہوں تو بس اللہ تعالیٰ کی تشکیل سمجھ لیں کہ اللہ پاک نے میرے لئے ایسے ہی تشکیل کی ہے۔
سوال نمبر8:
جب انسان کے ایمان کا level بہت low ہو رہا ہو، وہ اللہ سے بہت دور ہو رہا ہو تو اس condition میں کیا کرنا چاہیے۔
جواب:
ایسا آدمی اس condition میں کہ جن لوگوں بارے میں اس کا گمان ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہیں، شریعت پر عمل کرتے ہیں، ایسے لوگوں کی صحبت میں رہنا شروع کر دے۔ ایسے لوگوں کے قریب نہ رہے جو وسوسے ڈالنے والے لوگ ہوں۔ Social media پر ایسی چیزیں نہ پڑھی جائیں جن سے ایمان کمزور ہوتا ہو۔ اس کے علاوہ ایسے آدمی کو قرآن پاک کی تلاوت کثرت سے کرنی چاہیے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کے اوپر فضل فرما دے۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت اقدس کی خدمت میں سوال عرض ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ تو غفور و رحیم ہے، ہم پر ہماری جان سے زیادہ مہربان ہے۔ سکرات سے پہلے جو انسان شعوری توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اسے محض اپنے فضل و کرم سے معاف فرما سکتے ہیں، اور معاف فرما بھی دیتے ہیں، اسی کی امید رکھنی چاہیے۔ البتہ وہ حضرات جن کو اپنی موت کا وقت 2، 3 ماہ پہلے ہی معلوم ہو جاتا ہے، مثلاً cancer کی بیماری لگ جائے اور ڈاکٹر بتا دیں کہ بس 2، 3 ماہ تک مزید زندگی رہے گی۔ اب انہیں موت لاحق ہونے والی ہے، موت ان کے سامنے کھڑی ہے، لیکن یہ سکرات میں نہیں ہیں۔ فقہاء لکھتے ہیں کہ اگر یہ لوگ شعوری توبہ کر لیں تو ان کی توبہ بھی قبول ہے۔ اسی بارے میں سوال ہے کہ ایسے لوگوں کی توبہ کیونکر قبول ہے، کیونکہ بظاہر ان کی توبہ میں اخلاص نظر نہیں آتا بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ موت کے ڈر سے توبہ کر رہے ہیں۔ ایک انسان جسے اپنی موت کا پتا چل جائے تو وہ بھی موت کے سامنے کھڑا ہے، اس کی توبہ تو قبول ہے لیکن جو سکرات کے عالم میں ہو اور توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول نہیں ہے۔ بظاہر یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ایسا کیوں ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے۔ کیا یہی بات ہے کہ اللہ کی قدرت ہر چیز سے بے نیاز ہے، ہو سکتا ہے اس کا کینسر ٹھیک ہو جائے۔ اس لئے اس کی توبہ بھی قبول ہو جاتی ہے۔ حضرت اس بارے میں وضاحت اور رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
ماشاء اللہ بہت اچھا سوال ہے۔ ہر مسلمان ایمان بالغیب کا مکلف ہے۔ جب کوئی چیز غیب سے مشاہدہ میں آ جائے اس وقت کا ایمان یا توبہ معتبر نہیں ہے۔ مشاہدہ دو طرح کا ہے، ایک مشاہدہ معرفت اور علم سے ہوتا ہے، اور ایک مشاہدہ کھلی آنکھوں دیکھنے سے ہوتا ہے۔ یہاں دوسری قسم کا مشاہدہ مراد ہے۔ موت کے وقت یہ دوسری قسم کا مشاہدہ ہوتا ہے، اسی کو سکرات کہتے ہیں، انسان کھلی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے یہ دنیا اور وہ دنیا شروع ہو گئی ہے، اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی۔ جب یہ حالتِ سکرات شروع نہیں ہوتی تب تک ایمان بالغیب ہی ہوتا ہے کیونکہ موت کے وقت سے پہلے تک دوسری دنیا کی چیزیں کھلی آنکھوں نہیں دیکھ سکتا۔ چاہے معلوم بھی ہو جائے کہ موت آنے والی ہے لیکن جب تک وہ خاص حالت طاری نہیں ہوتی جس میں انسان دوسری دنیا دیکھتا ہے، تب ایمان بالغیب، ایمان بالغیب ہی رہتا ہے اور توبہ قبول ہو سکتی ہے کیونکہ ایمان بالغیب کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا لیکن جیسے ہی ایمان بالغیب کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اس کے بعد کافر کو پتا چل جائے گا کہ واقعی اس دنیا کے بعد ایک آخرت بھی ہے تب سب کہیں گے کہ ہم ایمان لائے، لیکن ان کا قبول نہیں ہوتا۔ ایمان ان کا قبول ہے جو یہاں اِ س دور میں ہیں اِس جہان میں ہیں وہاں کے حالات ابھی ان پر نہیں کُھلے۔ ایسی صورت میں ان کا ایمان قبول ہو جاتا ہے۔ کینسر کا قریب الموت آدمی ڈاکٹروں کے علم کی حد تک تو جانتا ہے کہ موت آنے والی ہے لیکن اس نے اپنی آنکھوں سے ابھی کچھ نہیں دیکھا اس لئے اس پہ سکرات کا عالم نہیں آیا، لہٰذا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم! ایک الجھن کا شکار ہوں۔ میری خالہ جگر کے cancer کی وجہ سے وفات پا گئیں۔ تشخیص ہونے تک cancer پھیل چکا تھا اور ہر ڈاکٹر نے لاعلاج قرار دے دیا تھا۔ اس کے بعد وہ 2 ماہ کا عرصہ زندہ رہ پائیں۔ جب کوئی آدمی ایسی حالت میں ہو تو اس کے لئے کیا دعا کرنا چاہیے؟ کیونکہ بظاہر شفا کے لئے حیلہ علاج تو باقی نہیں رہا، ہاں اسباب کے بغیر اللہ پاک شفا عطا فرما بھی سکتے ہیں، تو اس کے لئے شفا کی دعا مانگی جا سکتی ہے؟ یا یہ دعا مانگی جائے کہ بس اللہ آسان معاملہ فرمائیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں؟
جواب:
بیماری کسی بھی قسم کی ہو، مریض کے لئے ہر صورت میں شفا کی دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اسے اپنی طرف سے شفا عطا فرما دیں۔ پشتو میں بوڑھیاں دعا کرتی ہیں ان میں ایک دعا یہ بھی ہے
”الله تعالیٰ دې دَمنګی اوبه دارو کړه“
”اللہ تعالیٰ تیرے لئے گھڑے کا پانی دوا بنا دے“
میں نے خود دیکھا ہے کہ وہ پانی دوا بن بھی جاتا ہے۔ دعا ضرور کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی کام مشکل نہیں۔ تو آپ ضرور دعا کیا کریں دعا کے بعد اللہ تعالیٰ کا جو فیصلہ ہو اس پر دل سے راضی ہونا چاہیے۔ اگر اللہ تعالٰی چاہے تو مُردوں کو بھی زندہ کر سکتا ہے۔ یہ سب قوانین وغیرہ مخلوق کے لئے ہیں، اللہ پاک کے اوپر تکوینی قانون لازم نہیں ہے لہٰذا اللہ پاک اس کے خلاف کر سکتے ہیں۔ جب اللہ پاک عام قانون کے خلاف کوئی بات ظاہر کریں تو اسے خرق عادت کہتے ہیں۔ جیسے معجزہ یا کرامت ہے۔ اللہ پاک کسی کو بغیر کسی دوائی کے بھی درست کر سکتے ہیں۔ اسباب کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں اور بغیر اسباب کے بھی اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں۔ بیماری کے علاج کا ایک ذریعہ تو دوائی ہوتی ہے، اگر دوائی سے علاج نہ ہو تو پھر ایک سبب دم درود بھی ہوتا ہے۔ اسے بھی اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ پاک اس کے ذریعے بھی شفا دیتے ہیں۔ بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ مریض کے لئے آسانی کی دعا بھی کرنی چاہیے اور شفا کی دعا بھی کرنی چاہیے پھر اللہ تعالیٰ جو صورت مقرر کر دیں اس پر دل سے راضی ہونا چاہیے۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم! امید ہے آپ اللہ کے کرم سے خوش اور صحت مند ہوں گے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں سنت کے مطابق کھانا نہیں کھا پاتا ہوں، اس کو کیسے control کروں۔ کیا اس کا بھی کوئی مجاہدہ ہوتا ہے؟
جواب:
سنت پہ چلنا ہر حالت میں ممکن ہے، بات صرف اتنی ہے کہ آپ اپنے آپ کو اس کے لئے ذرا convince کریں۔ سنت طریقے کے مطابق بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ ابتدا میں دعا پڑھنا اخیر میں الحمد للہ کہنا، اور نوالہ درمیانہ بنانا، ان چیزوں کا خیال رکھیں۔ اس کے علاوہ اگر اگر آپ کھانے کے درمیان ایک مرتبہ کھڑے ہو جائیں تو آپ کو یہ پتا چل جائے گا کہ میں نے کتنا کھایا ہے۔ بیٹھ کر کھانے سے کئی مرتبہ پتا نہیں چلتا اور زیادہ کھانے کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر آپ تھوڑی دیر کے لئے کھڑے ہو جائیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ ان چیزوں کو عمل میں لائیں، ان شاء اللہ یہ چیز کنٹرول میں آ جائے گی۔
سوال نمبر12:
حضرت! محبت اور عقیدت میں کیا فرق ہے؟ یہ کیسے پتا چلے گا کہ مجھے اپنے شیخ کے ساتھ محبت ہے یا عقیدت۔
جواب:
عقیدت کا تعلق عقل سے ہوتا ہے اور محبت دل کی چیز ہے۔ محبت میں دل غالب ہوتا ہے، محبت میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ اگر سارے لوگ محبوب کے بارے میں برا کہیں، تب بھی پروا نہیں ہوتی اور محبت قائم رہتی ہے، جبکہ عقیدت ایسی نہیں ہوتی، اگر معتقد کو کوئی بتا دے یا اس کے دل میں کوئی بات آ جائے تو عقیدت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
محبت بھی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک ذاتی محبت، دوسری صفاتی محبت۔ ذاتی محبت سے مراد یہ ہے کہ اس کی ذات کے ساتھ محبت ہو۔ اگر کسی کو کسی سے ذاتی محبت ہو جائے تو اس محبت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ صفات کی محبت یہ ہوتی ہے کہ کسی کی ذات سے محبت نہ ہو بلکہ اس کی کسی خوبی کی وجہ سے محبت ہو، یہ محبت ذرا خطرے میں ہوتی ہے، اگر کبھی وہ صفت نہ رہی، یا مخفی ہو گئی، یا کسی اور صفت سے بدل گئی تو اس محبت میں کمی ہو سکتی ہے، یہ محبت ختم ہو سکتی ہے۔
مثلاً ایک شخص کسی سے اس وجہ سے محبت کرتا ہے کہ وہ بہت سخی ہے۔ اب کسی وقت اس نے سخاوت چھوڑ دی، چاہے اس کی وجہ صحیح ہی کیوں نہ ہو، لیکن سخاوت نہیں رہے گی تو محبت میں فرق پڑ جائے گا، کیونکہ اس محبت کی بنیاد ایک صفت سخاوت تھی۔
سوال نمبر13:
سورۃ النساء میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے رک جاؤ جن سے ہم نے تمہیں روکا ہے تو ہم تمھارے چھوٹے چھوٹے گناہ معاف کر دیں گے۔ حضرت بڑے گناہ کون سے ہیں اور چھوٹے گناہ کون سے ہیں۔
جواب:
میرے خیال میں آپ نے بہشتی زیور نہیں پڑھی ہے۔ وہ پڑھ لیں تو بڑے گناہ بھی معلوم ہو جائیں گے اور چھوٹے گناہ بھی معلوم ہو جائیں گے۔
سوال نمبر14:
عموماً ہم ذکر کرتے ہوئے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور یہ تصور کرتے ہیں کہ ہمارے دل میں اللہ کی محبت آ رہی ہے اور دنیا کی محبت دل سے جا رہی ہے۔ اگر ہم کعبہ کے سامنے بیٹھے ہوں تو یہی تصور کر کے آنکھیں کھول کے ذکر کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
جی بالکل! خانہ کعبہ کا مقام چونکہ special ہے۔ وہاں اگر آنکھیں کھول کر بھی تصور کر لیں کہ خانہ کعبہ سے فیض آ رہا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ وہاں پر ایسا کیا جا سکتا ہے۔
سوال نمبر15:
کچھ سلسلوں میں سنت پر عمل پہ بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ ایک کتاب ”نمازیں سنت کے مطابق پڑھیں“ میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ہمارے سلسلہ میں ابتدا ہی سے مرید کو سنتوں پر ڈالا جاتا ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ کچھ سلسلوں میں سنت پر کیوں اتنی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے؟
جواب:
میرا خیال تو یہ ہے کہ سارے سلسلے سنت پر ہی لاتے ہیں۔ مثلاً چشتی سلسلہ کو دیکھ لیں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ کامیابی آپ ﷺ کے سنتوں پر قدم بقدم چلنے میں ہے۔
نقشبندی سلسلہ بھی یہی کہتا ہے۔ قادری سلسلہ بھی اسی پہ لاتا ہے، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں اس چیز کا واضح ذکر ہے۔ سہرودی سلسلہ بھی اسی پیغام کو عام کرتا ہے۔ ”عوارف المعارف“ میں صاف صاف ملفوظ ہے کہ ”دل صاف ہو، عقل فہیم سنت اور نفس قابو ہو تو پھر بات بنتی ہے۔“
معلوم ہوا کہ سارے سلسلے جلد یا بدیر سنتوں پر ہی لاتے ہیں۔ ہاں ترتیب میں کچھ فرق ضرور ممکن ہے۔ مثلاً ایک شخص کو بالکل ابتدا میں کام لگا دیا جائے اور دوسرے کو اس کے لئے کچھ تیاری کروا کے پھر کام پہ لگا دیا جائے۔ کام پہ تو ہر صورت میں لگنا ہی ہے۔ جیسے ابھی ایک شخص نے بات کی کہ وہ کھانا سنت کے مطابق کھانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا۔ اس کو معلوم تو ہے کہ سنت پر چلنا چاہیے تبھی تو کوشش کر رہا ہے لیکن اس میں ناکام ہو رہا ہے۔ اس کو اس سنت پر کامیابی سے عمل کے لئے کوئی طریقہ بتانا ہوگا، وہ طریقہ تو سنت نہیں ہوگا لیکن وہ سنت پر لانے کے لئے ایک اضافی ذریعہ کہلائے گا۔ انہی مختلف ترتیبوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ سلسلے فورًا سنتوں پر عمل پہ لگاتے ہیں، اور کچھ سلسلے پہلے ذرا تیاری کرواتے ہیں۔ ہم تو سب کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہیں کہ سارے سلسلوں میں ایسا ہی ہے۔ البتہ تقدیم و تاخیر ضرور ہوسکتی ہے، تو یہ management کی بات ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال نمبر16:
حضرت موسیقی کے بارے میں آپ ﷺ کا قول ہے کہ مجھے موسیقی کے آلات کو توڑنے کے لئے بھیجا گیا ہے لیکن ہم کچھ تصوف سے متعلق لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ موسیقی سے شغف رکھتے ہیں، اور پوچھنے پر وہ قوالی کا حوالہ دیتے ہیں اور سماع کی باتیں کرتے ہیں، بڑے بڑے مزاروں کا حوالہ دیتے ہیں، اس سب سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ جائز ہے۔ اس بارے میں کچھ رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
آپ ﷺ کی حدیث شریف اور سنت رسول کا تو کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا، ہمیں اپنے آپ کو اس کے مطابق لانا پڑے گا۔ مزامیر کی گنجائش تو بالکل نہیں ہے کہ مزامیر استعمال کئے جائیں۔ کچھ لوگ دف کے بارے میں بتاتے ہیں کہ آپ ﷺ کے سامنے دف استعمال ہوا۔ در اصل وہ ابتدائی دور کی بات تھی، بعد میں دف بھی استعمال نہیں ہوا۔ سیرت نبوی میں آخری باتیں زیادہ معتبر ہیں۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ جو چشتیہ سلسلے کے بڑے بزرگ ہیں۔ عموماً لوگ چشتیہ سلسلہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں سماع قوالی وغیرہ ہوتی ہے۔ بالخصوص خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کو تو اس کا تقریباً بانی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ”فوائد الفواد“ میں سماع کی کچھ شرئط بتائی ہیں کہ اگر یہ شرائط پائی جائیں تو پھر سماع جائز ہے، ورنہ نہیں۔ وہ شرائط درج ذیل ہیں:
1۔ کلام عارفانہ ہو۔
2۔ پڑھنے والا بھی عارف ہو اور سننے والے بھی عارفین ہوں۔
3۔ سماع کی محفل میں کوئی عورت اور بچہ نہ ہو۔
4۔ آلات چنگ و رباب نباشد۔ موسیقی کے آلات نہ ہوں۔
معلوم ہوا کہ تصوف کا کوئی سلسلہ موسیقی کو پروموٹ نہیں کرتا۔ جو لوگ تصوف کے نام پر ایسا کر رہے ہیں وہ اپنی طر ف سے کر رہے ہیں۔
حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ سے کہا گیا کہ حضرت آپ کا فلاں خلیفہ ایسی جگہ موجود تھا جہاں مزامیر کے ساتھ سماع ہو رہا تھا۔ حضرت نے اس خلیفہ سے پوچھا کہ کیا یہ بات درست ہے؟ تم نے ایسا کیوں کیا۔ اس نے کہا: حضرت میں اس وقت اکیلا تھا وہاں کوئی میرا ساتھ دینے والا نہیں تھا۔ میں نے اس لئے نہ روکا کہیں فتنہ برپا نہ ہو جائے۔ اس پر حضرت نے فرمایا اگر تم ان کو کچھ کہہ نہیں سکتے تھے تو کم از کم خود تو اس جگہ کو چھوڑ سکتے تھے۔
اب دیکھ لیں۔ چشتیہ سلسلے ہی کے ایک بہت بڑے بزرگ کا عمل بھی آ گیا، قول بھی آ گیا۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ لوگوں نے اپنی طرف سے یہ باتیں بنائی ہوئی ہیں۔ ان چار شرائط کے بغیر سماع جائز نہیں ہے، بلکہ اگر یہ شرائط پائی جائیں تب بھی غیرضروری طور پر سماع نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے کچھ آداب ہیں، کچھ طریقہ کار ہے، کچھ ضرورتیں ہیں، اگر آداب کو ملحوظ رکھ کر مخصوص طریقے سے ضرورت کے مطابق کرنا پڑے تو کیا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات انسان سخت قبض کی حالت میں ہوتا ہے اس وقت جائز سماع سے اس کو کچھ بہتری محسوس ہو سکتی ہے۔ اس قسم کی ضرورت ہو، شیخ کی طرف سے اجازت و وضاحت ہو اور سب شرائط پائی جائیں تب سماع کی گنجائش ہے ورنہ نہیں ہے۔
سوال نمبر17:
اگر استخارہ ایک سے زیادہ امور کے بارے میں کرنا ہو تو کیا ان سب امور کے لئے ایک ہی استخار کر سکتے ہیں؟ یا ہر کام کے لئے الگ استخارہ کیا جانا چاہیے؟
جواب:
آپ ماشاء اللہ scientist ہیں اور science میں جب بھی تحقیق کی جاتی ہے تو elimination ضروری سمجھتے ہیں۔ مخلوط چیزوں پہ research نہیں ہو سکتی کیونکہ اس سے confusion پیدا ہو گی، اس لئے ایک ایک کر کے ہر موضوع پہ الگ ریسرچ ہوتی ہے۔ اسی طرح استخارہ بھی ہر مسئلہ کے لئے الگ کرنا چاہیے تاکہ آپ کو صحیح جواب ملے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن