اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
گاؤں میں عید کے تیسرے دن صبح والد صاحب کو کہا کہ فلاں صاحب سے ملنے کے لئے جانا ہے آپ ان کو فون کریں۔ والد صاحب نے فون کیا تو ان صاحب نے فرمایا: اس وقت میں ایک جنازے کے لئے جا رہا ہوں، آپ عصر کے وقت آ جائیں۔ میں نے والد صاحب کو کہا: ٹھیک ہے عصر کے بعد چلے جائیں۔ عصر تک میں خود بھول گیا اور والد صاحب کو یاد نہیں دلایا۔ اس طرح وعدہ خلافی کا مرتکب ہوا۔ پھر اگلے دو دنوں میں بھی نہیں گیا۔ کل پنڈی واپس آنے کے بعد ان صاحب کو فون کر کے معذرت کر لی۔ انہوں نے بہت محبت سے بات کی اور فرمایا: شبیر صاحب کو میری طرف سے حج کی مبارک باد اور سلام کہہ دیں۔
اسی طرح ہفتے والے دن صبح ایک کتب خانہ والے کو فون کیا کہ آپ کے پاس شبیر کاکا خیل صاحب کی کچھ کتابیں رکھی تھیں وہ فروخت ہو چکی ہیں یا نہیں۔ اس نے کہا: کچھ خاص نہیں۔ میں نے کہا: ان کو اکٹھا کر لیں میں عصر کے بعد لینے آ جاؤں گا۔ لیکن اس دن بھائی کے سسرال چلے گئے۔ عصر سے پہلے واپس آ گئے مگر میں پھر بھی کتب خانہ نہیں گیا حالانکہ میرے پاس وقت تھا۔
ان دونوں واقعات میں اپنی غلطی کا احساس جلدی نہیں ہوا بلکہ جب پنڈی واپس ہوا تو ان غلطیوں کا احساس ہوا پھر توبہ استغفار شروع کیا، جس طرح مقام توبہ میں بتایا گیا ہے۔ اس استغفار کو جاری رکھا ہوا ہے۔ مزید رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
توبہ کرنا اچھی بات ہے اللہ تعالیٰ سب کو توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ توبہ کا اصل مفہوم سمجھنا چاہیے بالخصوص ان لوگوں کو ضرور سمجھنا چاہیے جو مقام انابت میں چل رہے ہیں۔ اصل توبہ شعوری توبہ ہوتی ہے۔ شعوری توبہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو بخوبی علم ہو کہ میں کس چیز سے توبہ کر رہا ہوں، توبہ کرنے کے بعد پھر نہ کرنے کا عزم بھی ہو۔
ایک مبتدی شخص کو تو ہم یہی بتائیں گے کہ توبہ کر لو ان شاء اللہ یہ کافی ہو جائے گا، لیکن جو شخص باقاعدہ سلوک کی راہ پہ چل رہا ہو اسے بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے، اس کے لئے توبہ وہی شمار ہو گی جو شعوری توبہ ہوگی۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک صاحب نے آپ ﷺ سے کہا کہ آپ یہیں ٹھہریں میں ابھی آتا ہوں۔ یہ کہہ کر جو گئے تو پھر 2، 3 دن کے بعد آئے، جب واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ ابھی تک وہیں موجود ہیں۔ انہیں بہت افسوس ہوا کہ آپ ﷺ میری وجہ سے یہاں کھڑے رہے۔
وعدہ کر کے بھول جانا غلط بات ہے، وعدہ خلافی کرنے والے کے لئے بہت سخت الفاظ ہیں۔ فرمایا:
”لَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَهٗ“ (مسند احمد: 12567)
ترجمہ: ”اس شخص کا کوئی دین نہیں جس کے لئے عہد (کی کوئی اہمیت) نہیں“۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی کے دین کے بارے میں کوئی بات حتمی طور پہ نہیں کی جا سکتی جو وعدے کو پورا نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ کسی بھی وقت وعدہ خلافی کا مرتکب ہو کر اپنے آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ شیخ کو اپنے احوال کی صرف اطلاع کرنا کافی نہیں بلکہ اس پر شیخ جو ہدایات دے ان پر عمل کرنا بھی ضرور ہے، اگر وہ احوال کسی گناہ کے بارے میں ہوں تو شیخ کو اطلاع تو ضرور دے، لیکن صرف اطلاع کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ دوبارہ اس گناہ کو نہ کرنے کا عہد اور عزم کرنا ضروری ہے۔ اطلاع اس لئے ہوتی ہے کہ انسان شیخ کو اس بات کا گواہ بنا لے کہ اب میں دوبارہ یہ کام نہیں کروں گا، پھر اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔ صرف زبان سے کہہ دینے سے کام نہیں بنتا۔ اگر صرف کہنے سے کام بنتا تو سب عیسائی ایماندار اور دیندار ہوتے۔ عیسائیوں کے ہاں باقاعدہ اقرار کا عقیدہ ہوتا ہے، وہ پادریوں کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں میں نے یہ غلطی کی، میں نے یہ غلطی کی اور میں نے یہ کیا، اپنے سارے گناہ بتا دیتے ہیں۔ پادری ان کو کہتے ہیں: اچھا تو نے چونکہ اقرار کر لیا اس لئے ہم نے تجھ کو معاف کر دیا۔ یہاں تک کہ اسے معافی کی سند بھی دیتے ہیں۔ ان کے ہاں یہ بڑا Professional system چلتا ہے۔ یہ Professional system ہمارے ہاں نہیں ہے، ہمارے ہاں سچی توبہ ضروری ہے صرف اقرارِ گناہ کافی نہیں ہے بلکہ دوبارہ نہ کرنے کا عزم و ارادہ بھی ضروری ہے۔
گناہ سے شعوری طور پر توبہ کرنا ضروری ہے بالخصوص وہ گناہ جس میں دوسروں کا نقصان ہو اس میں تو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ صرف آپ نے اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ دوسرے کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اس وجہ سے فوری طور پر ان کو اطلاع کر دیں کہ میں نے غلطی کی تھی اور مجھے اپنے شیخ نے بتایا ہے کہ ان سے معافی مانگو، آئندہ کے لئے میں ایسا نہیں کروں گا۔
اس کے علاوہ اپنے نفس کو کچھ سزا دیں اور اپنے اوپر جرمانہ لگائیں۔ میرے خیال میں اس وقت آپ کو یہ مشورہ دوں گا کہ ایک ہزار روپے صدقہ کریں اور آئندہ کے لئے یہ غلطی نہ کرنے کا عہد کر لیں۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم، میرے عزیز محترم حضرت مرشد دامت برکاتہم۔ امید ہے آپ خیریت سے ہیں۔ بس آپ کو اطلاع دینی تھی کہ آپ کی دعاؤں سے الحمد للہ اوراد و اذکار ٹھیک جا رہے ہیں۔ اب نمازیں بھی زیادہ سے زیادہ مسجد میں ادا کی جا رہی ہیں۔ کل میں اپنی اہلیہ کے ساتھ بازار گیا۔ وہاں کچھ گانے بج رہے تھے جن کی آواز اب بھی مجھے وقتاً فوقتاً تنگ کر رہی ہے۔ غلطی میری اپنی ہے کہ وہاں کھڑے ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ آئندہ اس طرح نہیں ہو گا، ان شاء اللہ۔
جواب:
الحمد للہ جو توفیقات ہو رہی ہیں ان پر اللہ پاک کا شکر ادا کریں، میں بھی شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق عطا فرمائی۔ واقعی ایسی چیزوں کو نہیں سننا چاہیے، اگر ایسی چیزوں سے بچا جا سکتا ہو تو بچنا چاہیے ایسی جگہوں پر اگر ضرورت کے لئے جانا ہو تو صرف ضرورت کے وقت ہی وہاں جائیں زیادہ دیر نہ کریں لیکن اگر پھر بھی کچھ ایسی صورت حال پیش آئے تو اس کے بعد کچھ اچھی نعتیں سن لیں تاکہ نعتوں کی آواز اور اثرات ان گانوں وغیرہ پر چھا جائیں اور گانوں کی آوازیں آپ کو تنگ نہ کریں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم!
We have performed حج. We are now in مدینۃ المنورۃ. I guess you will be visiting مدینۃ المنورۃ . I want to attend the other lectures of yours. Will you send your timings and locations?
Answer:
I am sorry we shall be visiting ان شاء اللہ مدینۃ المنورۃ at round 11 or 12 of september probably. We would have gone from there. Anyhow, you can listen our lectures on website on the site address in that ان شاء اللہ العزیز . It’s broadcasted nowadays from 5 to around 6:30, so you can visit our website and you can attend these مجالس through the net.
سوال نمبر4:
ایک صاحب نے لکھا ہے کہ آپ کے بتائے ہوئے ذکر کے علاوہ جب ذہن پریشان ہو تو ذہن کو calm کرنے کے لئے ﴿حَسْبِیَ اللہُ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم﴾ (التوبہ: 129) کا ورد کرتا ہوں۔ کیا اسے جاری رکھ سکتا ہوں۔
جواب:
جی بالکل یہ ورد کر سکتے ہیں لیکن ہمیں بتا کر اور اجازت لینے کے بعد کر سکتے ہیں۔ ہر ذکر جو آپ کرنا چاہیں پہلے اس کی اجازت لے لیں کیونکہ بعض اذکار بعض کے لئے مناسب نہیں ہوتے۔ یہ دوائی کی طرح ہیں، ہر دوائی ہر ایک کے لئے یکساں طور پر مناسب نہیں ہوتی۔
ہماری پاکستانی و ہندوستانی ثقافت میں یہ بات عام ہے کہ جس دوائی سے کوئی خود ٹھیک ہو جائے وہ سمجھتا ہے کہ باقی لوگ بھی اس سے ٹھیک ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ ضروری نہیں ہے۔ ایک ہی بیماری اگر دو لوگوں کو ہو تو ضروری نہیں کہ دونوں کا علاج ایک ہی دوا میں ہو، کیونکہ آدمی مختلف ہیں طبیعتیں مختلف ہیں۔ ہر طبیعت کا علاج اپنے اپنے طریقے پر ہوتا ہے۔ جس طرح ہر دوائی ہر بیمار کے لئے مناسب نہیں ہوتی اسی طرح بعض اذکار بعض کے لئے مناسب نہیں ہوتے۔
ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید باہر جا رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا: حضرت میں اللہ اللہ کر لیا کروں؟ حضرت نے فرمایا: کر لیا کرو۔ جب وہ باہر نکلے تھوڑی دیر کے بعد کسی کو بھیج کر اسے واپس بلایا۔ وہ واپس آئے تو فرمایا: درود شریف پڑھ لیا کرو بس یہ کافی ہے۔۔ جب وہ چلا گیا تو فرمایا: اگر اس کو میں نہ روکتا تو یہ اللہ اللہ کرتا، اس کا مزاج ایسا ہے کہ اس سے یہ پاگل ہو سکتا تھا۔
کچھ لوگوں کا مزاج ایسا ہوتا ہے کہ وہ ذکر برداشت نہیں کر سکتے۔ خود مجھے بھی حضرت بہت تھوڑا ذکر دیتے تھے، بہت controlled ذکر دیا کرتے تھے۔
علاجی ذکر باقاعدہ بتا کر اور پوچھ کر کرنا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب علاجی ذکر چل رہا ہو تو اس کے ساتھ باقی اذکار کی adjustment کرنی پڑتی ہے اگر adjustment ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ دوسرے اذکار سے روک دیا جائے گا۔ اس لئے کہا کہ اجازت ضرور لینی ہے۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم!
I have a really big problem of getting too excited and happy whenever I am going through good times. I cannot maintain myself calm after achieving something. I am really among one of those who like to show off what we have. I try hard to stop thinking and maintain my calmness when I am overjoyed. I really want to maintain my normal nature. Thanks Allah for his mercy whether something good happens to me or I am going through bad times. Because of this I sometimes expect too much from my life and when my expectations break I feel sad وعلیکم السلام
جواب:
Yes it is abnormal thinking but it gradually vanishes but if someone expects them to finish soon it makes the way long. Trust in شیخ for the sake of Allah is its treatment.
اصل میں انسان جب جلد بازی جب کرتا ہے تو process پہ مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے اسے anxiety ہوتی ہے۔ اس anxiety کی وجہ سے اس طریقہ کار کے اثرات پہ فرق پڑ جاتا ہے، وہ اثرات نہیں رہتے جو ہونے چاہئیں تھے، نتیجتاً اس کا راستہ بڑا لمبا ہو جاتا ہے اور اس کو زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ ایسی صورت میں اگر شیخ پر اعتماد ہو تو پھر آسانی رہتی ہے۔ جیسے میرے ساتھ ہوا کہ مجھے میرے شیخ زیادہ ذکر نہیں دیتے تھے۔ اب اگر میں تنگ ہو جاتا اور کہتا کہ حضرت میرے بعد بیعت ہونے والے کو زیادہ ذکر دیتے ہیں اور مجھے تھوڑا دیتے ہیں آخر کیوں تھوڑا دیتے ہیں، تو اس سے نقصان میرا ہی ہوتا۔ ایسی صورت میں اگر میں خود کو نہ بچاتا تو بہت مشکل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے بچا لیا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حضرت نے فرمایا جتنا ذکر کر سکتے ہو جو ذکر کرنا چاہتے ہو کر لیا کرو۔ ساری پابندیاں ہٹا دیں۔ لہٰذا جلدی نہیں مچانی چاہیے جلدی مچانے سے بہت ہی نقصان ہوتا ہے۔
جس نے یہ سوال بھیجا ہے اس کے ساتھ نفسیاتی مسئلہ بھی ہے۔ وہ over sensitive ہے over sensitive ہونے کی وجہ سے بہت جلدی مایوس ہو جاتی ہے اور بہت جلدی خوش بھی ہو جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ جل شانہ ہر ایک کی محنت کو دیکھ رہا ہے وہ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔ میری زبان کی کیا حیثیت ہے میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ اللہ پاک قرآن پاک میں خود فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ﴾ (هود: 115)
ترجمہ: ”اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔“
انسان کو دیکھنا چاہیے کہ اللہ پاک کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتے لہٰذا اس کو مطمئن ہونا چاہیے خواہ مخواہ متذبذب نہیں ہونا چاہیے، مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
بعض دفعہ یہ بھی نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے کہ کسی نئے آنے والے کو کچھ زیادہ دیا جا رہا ہے تو انسان سمجھتا ہے کہ شاید میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں تو بڑی عجیب بات ہے کہ جس کو زیادہ ڈانٹا جاتا ہے وہ زیادہ قریب ہوتا ہے۔ جن کو نہیں ڈانٹا جاتا انہیں خطرہ ہونا چاہیے کہ شاید میں ان کے دل سے دور ہوں مجھ پر اعتبار نہیں ہے، میں ڈانٹے جانے کے قابل نہیں ہوں۔ جس کو ڈانٹا جا رہا ہے وہ اس قابل ہے کہ اس کو ڈانٹا جائے کیونکہ وہ اتنا قریب ہے کہ ڈانٹ سے بھاگے گا نہیں۔ جو بالکل ہی آخری حدود پہ کھڑا ہو اس کو ڈانٹنے سے خطرہ ہے کہ وہ بھاگ نہ جائے اس لئے اس کو نہیں ڈانٹا جاتا۔ اس وجہ سے ہمارے ہاں یہ بات ہے کہ جس کو زیادہ ڈانٹا جائے ہم اس کو زیادہ محبوب سمجھتے ہیں۔ جیسے حضرت خواجہ مجذوب رحمۃ اللہ علیہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بہت قریب تھے اور سب سے زیادہ ڈانٹ بھی وہی کھاتے تھے۔ معمولی باتوں پر بہت ڈانٹ پڑتی تھی، کیونکہ ان کے قلب و روح کی صفائی بہت کرنی تھی۔ کیونکہ وہ اپنے تھے اس لئے ان کو ڈانٹا جا سکتا تھا۔
انسان کو ان چیزوں سے نہیں ڈرنا چاہیے، مایوس بھی نہیں ہونا چاہیے اور معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ رکھنا چاہیے۔ شیخ سے تربیت کا تعلق رکھنا چاہیے اپنی تربیت خود نہیں کرنی چاہیے۔ ایک آدمی کہتا ہے میرے لئے اللہ کافی ہے اور اپنی تربیت خود شروع کر دے تو اللہ پاک یقیناً کافی ہے لیکن اللہ پاک نے ذریعہ بنایا ہوا ہے اور اس ذریعہ کا احترام یہی ہے کہ آپ اس کام کے لئے اس کے ذریعہ کو استعمال کریں۔ اگر آپ ذریعہ کو استعمال نہیں کرتے تو یہ ذریعہ کی بے احترامی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے نظام کی مخالفت ہے۔ اپنے شیخ کی تربیت لینے کے لئے شیخ کے ساتھ رابطہ ضروری ہے لیکن تعلق اللہ کے ساتھ مضبوط کرنا چاہیے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتے، اس لئے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ آگے بڑھنا اور دوسروں کی ترقی پہ خوش ہونا چاہیے۔ اگر کوئی اور روحانی ترقی کرتا یا کرتی ہے تو اس پہ خوش ہونا چاہیے کہ شکر ہے وہ ترقی کر رہے ہیں۔ بے شک اپنی نظروں سے کوئی گر رہا ہو یہ کوئی بری بات نہیں ہے اچھی بات ہے لیکن دوسروں کی ترقی سے اگر ناخوش ہو رہا ہو یا اس کو مایوسی ہو رہی ہو تو یہ خطرہ کی بات ہے۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے اس سے آئندہ کے لئے بچنا چاہیے۔
سوال نمبر6:
My dear حضرت والا, I feel that you are fine on this holiday. I finish today this ورد you gave me for one month. I am now waiting for further instructions and
200 time “لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ”
300 tmies “لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو”
300 times “حَق” and
100 times “اللہ”
100 times استغفار
100 times درود شریف and 100 times “لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ”
Answer:
So you have finished these اَلْحَمْدُ للہِ and now you should do 200, you have finished 200 times “لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ”
300 times “لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو”
300 times “حَق” and 100 times “اللہ” and in this an addition you are goind to make is100 times استغفار
100 times درود شریف
100 times third . Third کلمہ is
”سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ للہ وَ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ وَ لَا حَوْلَ وَ لاَ قُوَّةَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم“
Now you should do all the same just increase “لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو”
100 times, it means you will be doing 400 times now and “حق” also you will be doing 400 times. The rest all will be the same ان شاء اللہ and I wish you the best. I wish you best in the best condition as far as the ذکر is concerned and that I have told you the rule whether for example you, you don’t come and contact me because of some reason, so you should maintain that previous ذکر till the contact. Some people leave it. I tell them if they can’t contact me so they leave that. So that is wrong. There should be no gap when you complete your one month ذکر and you start to contact me and if you have contact then you will be informed for the next and until you are informed for the next you will continue the previous one for that much time.
سوال نمبر7:
حضرت جی۔ کچھ روز پہلے دفتر میں کچھ consultant آئے تھے جو اپنا دو ہفتے کا تجزیہ مکمل کر چکے تھے۔ ان سے پوچھا کہ آپ لوگوں کی دبئی کے دفتر کے Finance process کے بارے میں کیا رائے ہے اور اس کا آپ لوگ عمان کے دفتر سے کس طرح موازنہ کرتے ہیں۔ میں دبئی office کے ساتھ ساتھ عمان اور دیگر ممالک کے Finance process دیکھتا ہوں لیکن چونکہ عمان کے دفتر کا ساتھی بھی میرے ساتھ جدہ سے آیا ہے اور عمان کا طریقہ پہلے سے کافی بہتر ہے اس لئے مجھے ذاتی طور پر کوئی کاوش نہیں کرنی پڑتی۔ اس حوالے سے مجھے لگا شاید یہ میرا موازنہ میرے عمان کے ساتھی سے کرنا چاہتے ہیں جب کہ مجھے report کرتے ہیں اور ہمارا دف میں کافی دوستانہ تعلق ہے۔ اب چونکہ دبئی office کا seutp نیا ہے اور دبئی office۔ Regional office کے ساتھ Corporate office بھی ہے اس لئے اس کا موازنہ بنتا ہی نہیں تھا لیکن اس سوال نے مجھے Defensive position میں ڈال دیا اور میں meeting کے بعد 2 روز تک اپنا مقابلہ عمان کے colleague سے کرتا رہا 2 دن کے بعد میں taxi میں جا رہا تھا، کسی بات پر Taxi driver نے کہا کہ میں رزق کے معاملہ میں مقابلہ نہیں کرتا ہوں اپنا کام کرتا ہوں اور اللہ پر توکل رکھتا ہوں۔ یہ سوچ کر خود پہ شرمندگی بھی ہوئی اور بوجھ بھی بفضلہ تعالیٰ دور ہو گیا ہے۔ وہ 2 دن جو انتہائی بوجھ اور frustration میں گزارے تھے، ان کا اثر کم ہو گیا۔ حضرت یہ بوجھ اور پریشانی کہیں حب جاہ، توکل کی کمی یا کسی اور روحانی مرض کی وجہ سے تو نہیں؟ براہ کرم بیماری کی تشخیص اور علاج تجویز فرمائیں۔
جواب:
اس میں موازنے والی بات نہیں ہے بلکہ اس میں اپنی کارکردگی کو بہتر کرنے والی بات ہے۔ خود احتسابی اچھی چیز ہے۔ اگر انسان خود احتسابی کرتا ہو اور اس کے حساب سے اپنی پروگریس بہتر کرتا ہو تو یہ ایک اچھی بات ہے۔ کیونکہ ہمارا رزق کا معاملہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے رزق دینا تو اللہ نے ہی ہے لیکن ہمارے ذمہ یہ ہے کہ ہم اس رزق کے لئے وہ اسباب اختیار کریں جو خود اللہ نے مقرر کیے ہوئے ہیں۔ خود احتسابی کے ذریعے اپنی پروگریس بہتر کرنا بھی انہی اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ البتہ اس خود احتسابی کو دنیاوی پوزیشن لینے کے لئے اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یہ غلط بات ہو گی۔ جیسے خود داری اور تکبر بالکل ساتھ ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ آدمی بعض دفعہ تکبر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں خود داری کر رہا ہوں اور بعض دفعہ خود داری کرتا ہے اس کو تکبر کا ڈر ہوتا ہے۔ ہر ایک کے اپنے اپنے Point of view کی بات ہے۔ آپ کو ہمیشہ Positive side لینا چاہیے اور Positive side یہی ہے کہ آپ اپنے آپ کو ہمیشہ improve کرنے کی کوشش کریں، اور اپنے ساتھی سے، اپنے شاگرد سے اور اپنے subordinate سے، سب سے سیکھا کریں۔ یہی بڑائی کی بات ہوتی ہے۔ ہم نے بڑے لوگوں کو ایسے ہی دیکھا ہے کہ بڑے لوگ چھوٹے لوگوں سے سیکھتے ہیں اور واقعتاً اگر کسی کو تکبر نہ ہو تو وہ معمولی معمولی شخص سے بھی سیکھ سکتا ہے، اگر تکبر ہو تو بڑے سے بڑے آدمی سے بھی نہیں سیکھ سکتا۔ اس وجہ سے آپ اس کو ہمیشہ کے لئے اس انداز میں لے لیا کریں کہ اگر اس قسم کی بات ہو تو اس میں اپنے لئے بہتری اور سیکھنے کا پہلو نکال لیا کریں۔ اگر کوئی اچھی کارکردگی دکھا رہا ہے تو سوچیں کہ مجھے اس جیسی کارکردگی دکھانے کے لئے کیا کرنا چاہیے اور اس سے کیا سیکھنا چاہیے اور اپنے آپ کو کیسے امپروو کرنا چاہیے۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم و رحمۃ و برکاتہ!
May اللہ سبحانہ و تعالیٰ accept your حج and may your duas be accepted آمین and عید مبارک!
جواب:
جَزَاکَ اللہُ اَحْسَنَ الْجَزَاء بھٰذَا الدُّعَاءِ۔
سوال نمبر9:
حضرت۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ ہی کی محبت ہونی چاہیے، اللہ کے غیر کی محبت دل میں نہیں ہونی چاہیے۔ بعض اوقات اس میں ایک کنفیوژن پیش آتی ہے کہ اگر اللہ کے غیر کی محبت نہیں ہونی چاہیے تو آپ ﷺ کی محبت بھی اللہ کے غیر کی محبت ہوئی۔ یہ وسوسہ کئی بار آتا ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
یہ وسوسہ انتہائی فضول وسوسہ ہے اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں واضح طور پر فرمایا ہے:
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)
ترجمہ: ”(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا“۔
نبی پاک ﷺ سے محبت کرنا اللہ کے غیر سے محبت کرنا نہیں ہے، کیونکہ اللہ نے خود ہی فرما دیا کہ مجھ سے محبت کی شرط ہی یہ ہے کہ نبی کی اتباع کرو۔
اس کے علاوہ حدیث شریف میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا اس وقت تک، جب تک مجھے اپنے والدین سے، اپنی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ بلکہ اپنی جان سے بھی محبوب نہ سمجھے۔ ہمیں آپ ﷺ ہی کے ذریعے سے دین ملا ہے۔ آپ جو سوال کر رہے ہیں آپ ﷺ کے دین کے لحاظ سے ہی کر رہے ہیں۔ اسی دین کے سلسلے میں ہی آپ ﷺ نے ارشادات فرمائے ہیں اس لئے ان کے ساتھ محبت ہونی چاہیے۔ ہم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ شیخ کے ساتھ جو محبت ہوتی ہے وہ بھی اللہ کے لئے ہوتی ہے ورنہ شیخ کے ساتھ محبت کا کوئی تک نہیں بنتا۔ اس کے ساتھ محبت کی کوئی اور وجہ نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تک پہنچنا ہے، جو آپ کو اللہ تعالیٰ تک پہنچائے وہ بھی آپ کا محبوب ہے لیکن اس کی محبت اللہ کے لئے ہے، اس لئے اسے اللہ کے غیر کی محبت نہیں کہیں گے۔
ایک دعا ہے:
”اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ“
ترجمہ: ”اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور ہر اس شخص کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہو اور ہر اس عمل کی محبت مانگتا ہوں جو تیری محبت تک پہنچائے“۔
اب دیکھیں یہ ساری چیزیں بھی تو اللہ تعالیٰ کا غیر ہیں، لیکن خود نبی پاک ﷺ نے یہ دعا تعلیم فرمائی ہے اور یہ دعا کروائی ہے کہ اے اللہ ہمیں ان اعمال اور ان لوگوں کی محبت عطا فرما جو تجھ تک پہنچائیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ وہ محبت جو اللہ ہی کے لئے ہو اور اللہ تک لے جائے وہ اللہ کے غیر کی محبت کے تحت نہیں آتی۔ جو غیر کی محبت ممنوع ہے اس سے مراد وہ غیر ہے جس سے اللہ نے روکا ہے، جیسے نفس کی خواہشات وغیرہ۔ لہٰذا ایسی محبت بالکل نہیں ہونی چاہیے جو اللہ پاک سے دور لے جائے۔
سوال نمبر10:
حضرت جی۔ بعض اوقات کسی غلط کام یا گناہ کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوتا ہے لیکن جانتے بوجھتے ہوئے بھی کنٹرول نہیں رہتا اور وہ غلطی ہو جاتی ہے، بعد میں احساس ہونے پر بندہ معافی بھی مانگ لیتا ہے، لیکن پھر دوبارہ اسی طرح وہ غلطی ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
اس کا حل یہ ہے کہ شعوری توبہ کرنا چاہیے۔ مثلاً اگر کوئی اس قسم کی بات بار بار ہو رہی ہے تو اپنے آپ کو alert رکھے اور اپنے اوپر کوئی جرمانہ عائد کر لے کہ اگر دوبارہ مجھ سے یہ ہوا تو یہ جرمانہ ادا کروں گا۔ پھر جب ایسی غلطی ہو تو وہ جرمانہ ادا بھی کرے۔ یہ طریقہ کار اختیار کرنے سے آہستہ آہستہ اس غلطی سے چھٹکارا مل جائے گا۔
سوال نمبر11:
شیطانی وسوسوں کی یلغار بہت زیادہ ہو تو ان سے کس طریقے سے لڑا جائے؟
جواب:
ان کا حل یہ ہے کہ ان سے لڑا نہ جائے کیونکہ شیطانی وساوس کے ساتھ لڑنا وساوس کو مزید بڑھانا ہے۔ شیطان یہی چاہتا ہے کہ آپ اس کے ساتھ مشغول ہوں اللہ کے ساتھ مشغول نہ ہوں۔ اگر آپ اس کے وساوس کے جواب دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے اس کا کام پورا ہو رہا ہے۔ آپ اس کو صفر سے ضرب دیں کہ تیری بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے، بکتے رہو بس بات ختم۔ وساوس کا یہی حل ہے۔
سوال نمبر12:
شیطانی وساوس اور نفسانی خیالات میں فرق کیسے کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
نفسانی خیالات کو حدیثِ نفس کہتے ہیں اور شیطانی خیالات کو وسوسۂ شیطانی کہتے ہیں۔ حدیث نفس میں ایک ہی قسم کا خیال بار بار آتا ہے، اور شیطانی وسوسہ ایک ہی طرح کا نہیں ہوتا الگ الگ سوچیں آتی ہیں۔ اگر دل میں ایک ہی خیال جما ہو تو وہ حدیث نفس ہے اور اگر تبدیل ہو ہو کے آ رہا ہو مختلف پینترے بدل بدل کے آ رہا ہو وہ شیطانی وسوسہ ہے۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت اقدس کی خدمت میں سوال عرض ہے کہ جب شیخ صاحب مرید کو جذب کسبی کے راستے سے سلوک کے راستے پر چلا دیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسے نیکی کی توفیق مل جائے گناہوں سے بچنا آسان ہو جائے اور مقامات سلوک طے کرنے کے لئے آسانی ہو جائے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد عام عبادات میں مشقت محسوس کرے، عبادات کرنے کی کوشش کرے مگر جی نہیں لگ رہا ہو۔ وہی عبادات جو پہلے بڑی آسان اور اچھی لگ رہی تھیں اب ان کی ادائیگی میں مشکل محسوس ہو تو کیا یہ جذبِ کسبی کی کمی کی وجہ سے ہے؟
جواب:
بہت اچھا سوال ہے۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بڑی عجیب انداز سے تشریح فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں ایک صبح کاذب ہوتی ہے اور ایک صبح صادق ہوتی ہے۔ صبح کاذب یہ ہے کہ انسان کو جذب کسبی میں ایسا شوق اور جذبہ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے لئے اعمال بہت آسان ہو جاتے ہیں۔ یہ شوق و جذبہ عارضی ہے۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ متوسط کے زمرے میں آتا ہے۔ مبتدی کے مرحلے سے تو اوپر ہے لیکن منتہی نہیں ہے۔ یہ ابھی صبح کاذب والی حالت میں ہے یعنی روشنی تو ہے لیکن یہ روشنی حتمی نہیں ہے بلکہ ختم ہونے والی ہے۔ جب یہ روشنی ختم ہو گی اس کے بعد پھر اندھیرا ہو گا، پہلے جیسا شوق اور جذبہ نہیں رہے گا، اب یہ تمام اعمال کو اپنی ہمت، محنت، مشقت اور مجاہدہ سے کرنا شروع کرے گا۔ اور اس کی اتنی زیادہ مشق کرے کہ اپنے لئے روٹین بنا لے اور سمجھے کہ یہ تو میں نے کرنا ہی ہے، چاہے خوش ہو کے کروں یا مشقت برداشت کر کے کروں۔ تو اب سمجھا جائے گا کہ اسے صبح صادق مل گئی ہے۔ اب اس کو اپنے اعمال کا صحیح اجر ملنا شروع ہوگا۔
مثلاً اڑیل جانور کو آپ سدھا لیں اور اس کے اوپر بوجھ ڈالیں تو کیا اس کو بوجھ محسوس نہیں ہو گا؟ بوجھ تو محسوس ہو گا لیکن چونکہ آپ اسے سدھا چکے ہوں گے اس لئے بوجھ کو اٹھائے گا اڑی نہیں کرے گا۔ اگر یہی جانور سدھایا ہوا نہ ہو تو اڑی کرے گا بوجھ برداشت ہی نہیں کرے گا۔ جذب کی بھی یہی مثال ہے، جب تک جذب نہیں تھا تب تک وہ تیار ہی نہیں تھا جذب کی وجہ سے کام پر تیار ہو گیا لیکن یہ جذب چونکہ عارضی تھا وہ ختم ہو گیا اور اس نے اس کے ذریعے سلوک طے کر لیا اب سلوک طے کرنے کے بعد اس کو بوجھ محسوس تو ہوتا ہے لیکن وہ اس کو اٹھاتا ہے اور اس سے انکار نہیں کرتا۔ اسی بات کا اسے اجر ملتا ہے کہ باوجود بوجھ محسوس ہونے کے اس نے بوجھ کو اٹھایا ہوا ہے اور برداشت کر رہا ہے۔
جذب کسبی آخری منزل نہیں ہوتی۔ یہ ایک عارضی چیز ہے جو صرف ضرورت کے تحت ضرورت کے بقدر ہوتی ہے۔ بس آپ اپنی ضرورت اس سے پوری کر لیں اس کے ذریعے سلوک طے کر لیں۔ یہ نہیں کہ آپ اس کے لئے رونا دھونا شروع کر لیں کہ وہ تو چلا گیا، اس کے بغیر گزارا نہیں ہے۔ جذب کسبی عارضی اور وقتی تھا، اسے ایک خاص مقصد کے لئے استعمال کیا گیا تھا وہ مقصد سلوک کی راہ پہ چلنا تھا۔ اب آپ سلوک طے کر لیں، سلوک طے ہونے کے بعد آپ اپنا کام شروع کر لیں اگر اس میں تکلیف نہ ہو تو بہتر ہے، تکلیف ہو تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دونوں صورتوں میں اجر مل رہا ہے۔ تکلیف ہو رہی ہے تو مجاہدہ اور عمل دونوں کا اجر مل رہا ہے، اور اگر تکلیف نہیں ہو رہی تو سبحان اللہ آپ کو جذب وہبی مل گیا ہے۔ بہرحال شریعت پر عمل میں مشقت محسوس ہو یا آسانی سے ہوں، دونوں صورتوں میں کام ایک ہی کرنا ہے کہ شریعت کے احکام پر کاربند رہنا ہے اور نواہی سے بچے رہنا ہے۔
سوال نمبر14:
حضرت جی۔ انسان اپنے فرائض ادا کرتا ہو اور حرام سے بچتا بھی ہو گناہوں کو گناہ بھی سمجھتا ہو۔ لیکن کچھ گناہ ایسے ہیں جنہیں وہ چھوٹے گناہ سمجھتا ہے اور کئی بار کر بھی لیتا ہے۔ جب دینی حلقوں میں بیٹھتا ہے تو انہیں چھوڑنے کا ارادہ بھی کرتا ہے مگر بعد میں انہیں چھوڑ نہیں پاتا۔ اس کے لئے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
اس کے لئے باقاعدہ سلوک طے کرنا ضروری ہے۔ اس کو احساس تو ہے اس کی عقل قائل ہے لیکن ابھی اس کا نفس قائل نہیں ہے، نفس مطمئنہ حاصل نہیں ہے۔ وقتی طور پر کسی جذبے کی وجہ سے، دینی محفل کے اثر کی وجہ سے، شوق کی وجہ سے وہ ان گناہوں کو چھوڑنے پر تیار بھی ہو جاتا ہے لیکن بعد میں نہیں چھوڑ پاتا، یہ سب نفس کی وجہ سے ہے۔ نفس وقتی طور پہ دب جاتا ہے لیکن بعد میں پھر سر اٹھاتا ہے۔اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنی چاہیے، شیخ کامل سے تربیت کروانی چاہیے تاکہ ہمیشہ کے لئے نفس کو قابو میں رکھنا حاصل ہو جائے۔
سوال نمبر15:
اگر انسان کے دل میں ایسے احساسات شروع ہو جائیں کہ جہاں لوگ زیادہ دنیا کی گفتگو کر رہے ہوں اسے وہاں کوفت محسوس ہونی شروع ہو جائے اور وہاں دل نہ لگے، فورًا وہاں سے ہٹ جائے اور بار بار اس کو یہ احساس ہو کہ اس کی اپنی بہت ساری چیزیں خراب خراب ہیں، تو یہ نفس کی کون سی سٹیج ہوتی ہے۔
جواب:
اس مرحلہ کو نفس لوامہ کہتے ہیں۔ اب یہ نفس لوامہ کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، اس کو احساس ہونے لگ گیا ہے کہ غلط کیا ہے صحیح کیا ہے اور تھوڑی بہت عقل کو بھی سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے۔ اس کو اب محنت یہ کرنی ہے کہ نفس مطمئنہ حاصل ہو جائے، تاکہ دوبارہ گناہوں کی طرف واپس نہ جا سکے۔
سوال نمبر17:
اپنے شیخ کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟
جواب:
شیخ سے محبت کے اظہار کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو وہ بتائے اس پر عمل کریں۔ یہی کافی ہے۔ آخر شیخ اندھا تو نہیں ہوتا۔ وہ اس چیز کو بھانپ لیتا ہے۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ شیخ اس شخص کی بہت قدر کرتا ہے جس کی محبت فطری ہو۔ فطری سے مراد یہ ہے کہ اس میں کوئی Additional input نہ ہو۔ ایسی محبت رکھنے والے شخص کی شیخ زیادہ حوصلہ افزائی کرتا ہے اور جو فطری محبت نہیں کرتا بلکہ دکھاوا کرتا ہے اس کا درجہ پہلے سے کافی کم ہوتا ہے۔ بہرحال اصل محبت وہی شمار ہوتی ہے جو خالصتاً اللہ کے لئے ہو اور جس کا بنیادی مقصد اپنی اصلاح ہو۔ اس مقصد کے ساتھ اگر وہ loyal ہو تو اس پر شیخ کو بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔
سوال نمبر17:
بعض لوگ کسی شخص کے بارے برملا اظہار کر دیتے ہیں کہ یار یہ بندہ مجھے بہت برا لگتا ہے، بس اسے دیکھنا ہی مجھے اچھا نہیں لگتا۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ اس بارے میں کیا عمل اختیار کرنا چاہیے؟
جواب:
دیکھیں ایک شخص آزاد ہے اس کو تو آپ نہیں کچھ کہہ سکتے کیونکہ بہت سارے لوگ ان چیزوں کو اہم سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ آپ ان کے بارے میں کیا comment کریں گے۔ کہنا تو بعد کی بات ہے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایسا ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے۔ اس بارے میں یہ عرض ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی ایسی وجہ سے برا لگتا ہے جو اُس کے اختیار میں نہیں ہے، پھر تو یہ برا لگنا فضول ہے۔ مثلاً ایک شخص اندھا ہے، اور کوئی کہے کہ یہ مجھے اندھا ہونے کی وجہ سے برا لگتا ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہوگی۔ کیونکہ اس کا اندھا ہونا، لنگڑا ہونا معذور ہونا اس کے بس میں نہیں ہے۔ کسی کا چہرہ ایسا ہے کہ آپ کو اچھا نہیں لگتا اس وجہ سے اس کو برا سمجھنا، یا کوئی نچلے خاندان کا ہے، اس وجہ سے اسے برا سمجھنا، ان چیزوں کا کوئی تک نہیں ہے کیونکہ یہ سب کچھ ان کے بس میں ہی نہیں ہے، یہ غیر اختیاری چیزیں ہیں۔
ہاں اگر کوئی شخص ایسا برا کام کرتا ہے جسے چھوڑنا اس کے اختیار میں ہے اور وہ نہیں چھوڑتا، اس وجہ سے کوئی اس سے نفرت کرتا ہے یا وہ کسی کو برا لگتا ہے، تو اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔ مثلاً کوئی غیبت کرتا ہے یا چوری کرتا ہے یا دھوکہ دیتا ہے یا بد معاشی کرتا ہے اور آپ اس کو برا سمجھتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بزرگ فرماتے ہیں: اپنے آپ کو بچاؤ اور دوسروں کو بھی بچاؤ۔ دوسروں کے بچانے کے لئے آپ اس کی اصلاح کے فکر مند ہو جاؤ اس کے لئے دعا کرنا شروع کر دو، ان کو اچھے لوگوں کے ساتھ ملا سکتے ہو تو ملاؤ۔ خود کو بچانے کے لئے اس کے شر سے بچتے رہو، لیکن برے سے نفرت نہ کرو۔ جیسے کسی کے چہرے پہ کالک لگی ہوئی ہو اور اس کا چہرہ برا لگ رہا ہو تو آپ اس کالک کے ساتھ نفرت کریں اور اسے اُس کے چہرے سے جلدی جلدی صاف کروائیں کیونکہ وہ غلط چیز ہے جب اسے صاف کروا دیں تو اُس کا چہرہ خوب صورت نظر آئے گا۔ اس کی برائی کی ساتھ نفرت کرو لیکن اس بندے سے نفرت نہ کرو کیونکہ اس کے دل میں ایمان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو تکبر سے بھی بچانا چاہیے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن