اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ
بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
نفسانیت میں دنیا کی محبت اور نفسانیت دونوں آ جاتی ہیں یا اس کا اطلاق صرف نفسانیت پر ہوتا ہے۔
جواب:
دیکھیں نفسانیت سے مراد نفس کے تقاضے ہیں۔ نفس کے تقاضوں کو ماننا نفسانیت کہلاتا ہے۔ اس میں جتنا زور ہو گا نفسانیت اتنی زیادہ ہو گی۔ نفس کے تقاضے تو بہت زیادہ ہیں لیکن سب تقاضوں کو 3 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ (1) حبِ جاہ، (2) حبِ باہ (3) حبِ مال۔ نفس کا ہر تقاضا انہی تین میں سے کسی نہ کسی کے تحت آتا ہے۔
حب جاہ سے مراد بڑا بننے کا شوق ہے۔ جیسے کسی کو حکومتی عہدوں کا شوق ہوتا ہے، کوئی بڑا چودھری اور خان بننے میں اپنی کوشش لگاتا ہے، کسی پہ بادشاہ بننے کا بھوت سوار ہوتا ہے۔ یہ سب حب جاہ کی مثالیں ہیں۔
حبِ باہ لذتوں کے چکر ہیں۔ مثلاً انسان کہتا ہے میری بڑی گاڑی ہو، میرا بڑا محل ہو، کھانا پینا بہت زیادہ اور بہترین ہو، عورتوں کے ساتھ تعلقات ہوں۔ ان چیزوں کا تعلق حب باہ سے ہے۔
حبِ مال۔ مال کی محبت اور اسے جمع کرنے کی نہ ختم ہونے والی ہوس کو حب مال کہتے ہیں۔
یہ تینوں نفس کی وجہ سے ابھرتے ہیں، انہی کا اثر دل پہ ہوتا ہے اور وہ بھی مکدر ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کو حبِ دنیا کہتے ہیں۔ دنیا کی محبت نفس کی خواہشات اور تقاضوں کا وہ گند ہے جو دل میں آ چکا ہے۔ اب نفس کے اس اثر کو دل سے دور کرنا پڑے گا اور نفس کو سیدھا کرنا پڑے گا۔ نفس کو سیدھا نہیں کریں گے صرف دل کو صاف کریں گے تو نفس دل میں مزید گند بھر دے گا کیونکہ نفس کی طرف سے مسلسل تقاضے آ رہے ہیں۔ لہٰذا دل کو صاف کرکے نفس کو سیدھا کرنا پڑے گا تب معاملہ ٹھیک ہوگا۔ بہرحال آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں نفسانیت کا اطلاق نفس کے تقاضوں اور دنیا کی محبت دونوں پہ ہوتا ہے۔
سوال نمبر2:
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی ایک طویل عرصہ سے ایک روٹین پر زندگی گزار رہا ہے، وہ اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے لیکن کنٹرول نہیں کر پاتا، آخر واپس اسی پہلے والی نفسانی زندگی پہ چلا جاتا ہے۔ اس کا کیا حل ہے۔
جواب:
آپ نے درست کہا کہ بعض دفعہ انسان کوشش کرتا ہے لیکن کچھ چیزیں اس سے ہو نہیں پاتیں نتیجتاً وہ دوبارہ واپس آ جاتا ہے۔ تصوف میں اسی کی تربیت کی جاتی ہے کہ نفس کے تقاضوں کو مجاہدے کے ذریعے اتنا توڑا جائے اور دل کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا ملا دیا جائے کہ یہ دوبارہ واپس نہ جائے۔ نفس امارہ تو برائی کی طرف ہی مائل کرتا ہے اور نفس لوامہ بھی برائی میں مبتلا ہوتا ہے لیکن اس کو احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ میں غلطی پر ہوں لہٰذا توبہ بھی بار بار کرتا ہے۔ اس لئے نفس لوامہ نفس امارہ سے اچھا ہے لیکن ابھی پوری اصلاح نہیں ہوئی ہے۔ جب یہ نفس مطمئنہ بن جائے اس کے بعد انسان کا غلط چیزوں سے تعلق کٹ جاتا ہے پھر وہ اللہ پاک کی ہی مانتا ہے۔ تصوف کی ساری کوششیں اسی کے لئے ہوتی ہیں کہ نفس مطمئنہ حاصل ہو جائے۔ اسی کو نفسانیت توڑنا اور نفسانیت ختم کرنا کہتے ہیں۔ اس کے لئے 10 مقامات سلوک طے کرنا ضروری ہوتے ہیں، ان دس مقامات میں سے آخری مقام مقامِ رضا ہے، جب مقام رضا حاصل ہو جاتا ہے تو اس کو نفس مطمئنہ کہتے ہیں۔ ایسا شخص اللہ پاک کی ہر چیز پر راضی ہوتا ہے جب اللہ پاک کی ہر چیز پر راضی ہوتا ہے تو نفس سے تعلق کٹ جاتا ہے، پھر وہ واپس نہیں جاتا۔
مشائخ سے بیعت کرنا اور ان کے بتائے ہوئے طریقہ پہ چلنا در اصل اسی مقام رضا تک پہنچنے کا پروسیس ہے۔ اپنے مشائخ کے ساتھ جتنا زیادہ تعلق ہو گا، ان کی بات جتنی زیادہ مانے گا اتنا زیادہ فائدہ ہوگا اور اتنا جلدی مقام رضا تک رسائی ہوگی۔ شیخ اس طرح نہیں کرتے کہ ایک دن میں سب کچھ بتا دے اور آخری منزل تک پہنچا دے، بلکہ آہستہ آہستہ تدریجاً مزاج اور حالات کے مناسب تربیت کرتے ہیں، جیسے ڈاکٹر بھی بیماری کا علاج ایک دم نہیں کرتا بلکہ کچھ وقت ہوتا ہے، ایک دو ہفتے لگتے ہیں، بعض بیماریوں کے علاج پر مہینوں لگتے ہیں، وقت کے حساب سے روزانہ کی دوا دی جاتی ہے وہ دوا مستقل طور پر لی جائے تو بیماری ٹھیک ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سے شیخ بھی ساری دوا ایک دم نہیں دیتا سارا علاج ایک لمحے میں نہیں کرتا بلکہ آہستہ آہستہ سالک کو نفس مطمئنہ تک لے جاتا ہے۔ جب سالک کو نفس مطمئنہ حاصل ہو جائے پھر ان شاء اللہ معاملات آسان ہو جاتے ہیں۔
سوال نمبر3:
حضرت جی۔ ایک دنیا کی محبت ہے اور ایک آخرت کی محبت ہے کیا دونوں کو اعتدال میں رکھنا چاہیے یا پھر دنیا کی محبت بالکل ختم کر دینی چاہیے۔
جواب:
اصل محبت آخرت کی محبت ہے، کیونکہ آخرت میں انسان نے ہمیشہ کے لئے رہنا ہے جبکہ دنیا میں صرف تھوڑی دیر کے لئے رہنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ریلوے سٹیشن پر، یا ائیرپورٹ پر تھوڑی دیر کے لئے مسافر رکتا ہے اور پھر سفر پہ روانہ ہو جاتا ہے۔ جس سٹیشن پر تھوڑی دیر کے لئے رکتا ہے اگر وہ جگہ پسند کے مطابق ہو اچھی ہو تو بہت بہتر، اور اگر خواہش کے مطابق نہ ہو تو بھی زیادہ پروا نہیں کرتا، تھوڑا سا وقت گزار کر چلا جاتا ہے، اتنے وقت میں اگر کوئی تکلیف بھی ہو تو برداشت کر لیتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مجھے مستقل نہیں ٹھہرنا۔
اسی طرح دنیا کی تکلیف تھوڑی سی ہوتی ہے، اس کو انسان برداشت کر سکتا ہے لیکن آخرت کی تکلیف ختم نہیں ہوگی، اسے انسان کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا۔
البتہ شریعت نے ہمیں جتنی دنیا کے برتنے کی اجازت دی ہے مثلاً کھانے پینے کی اجازت دی ہے، یہ جائز دنیا ہے، سونے کی اجازت دی ہے یہ جائز دنیا ہے، شادی کی اجازت دی ہے یہ جائز دنیا ہے، بازار جانے کی اجازت دی ہے یہ جائز دنیا ہے اسی طرح اچھے کپڑے پہننے کی اجازت دی ہے یہ جائز دنیا ہے۔ یہ ساری دنیا ہی ہے، اسی دنیا کو اگر آپ شریعت کے مطابق استعمال کر لیں تو یہ دنیا بھی دین بن جائے گی۔
لہٰذا تصوف میں دنیا کو بھی دین بنا کر پیش کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں میں نیت درست ہو جاتی ہے، اللہ کو راضی کرنے کی نیت ہوتی ہے اس طرح دنیا کی چیزیں بھی دین بن جاتی ہیں۔
سوال نمبر4:
نیت کو ٹھیک کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب:
دونوں چیزیں ضروری ہیں، نیت بھی درست ہو اور اعمال بھی کئے جائیں۔ جو حضور ﷺ کے طریقے کے مطابق اعمال کرے گا اور نیت اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی ہوگی، وہ کامیاب ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نبی ﷺ کے طریقے کے مطابق اچھے اعمال کرنے کو ہی شریعت کہتے ہیں۔
سوال نمبر5:
حضرت جی آپ نے فرمایا کہ نفسانی خواہشات کو control کر کے ہی انسان اپنے نفس پہ قابو پاتا ہے اور پھر روحانیت و تقویٰ حاصل کرتا ہے۔ ایک انسان اپنی نفسانی خواہشات پر control کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کافی حد تک قابو پا بھی لیتا ہے لیکن کچھ مواقع پہ نفس کا تقاضا اتنا شدید ہوتا ہے یا حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ آدمی کو اسی تقاضے پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ اس سے محفوظ رہنے کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے؟
جواب:
اس سے بچنے کے لئے سب سے پہلے احتیاط سے کام لیا جائے۔ احتیاط سے مراد یہ ہے کہ ایسی جگہ پہ بالکل نہ جائے جہاں جا کر نفس گناہ کا تقاضا کرے، ایسی جگہوں سے اپنے آپ کو بچائیں۔ کہیں پر بھی غلطی کا امکان ہو، گرنے کا ڈر ہو وہاں نہ جائیں۔ اگر پہلے سے ایسی جگہ پر موجود ہوں تو اس جگہ کو چھوڑ دینا چاہیے تاکہ انسان محفوظ رہ سکے۔
سب سے پہلی چیز احتیاط ہے۔ احتیاط کے باوجود بھی اگر کچھ ایسے حالات پیش آئیں تو سمجھے کہ یہی کمانے کا موقعہ ہے اور ہمت کرکے اپنے آپ کو ثابت قدم رکھے، اور تقویٰ حاصل کرے۔
سوال نمبر6:
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر انسان کا رزق مقرر ہے، لیکن کسی کا رزق کم ہوتا ہے کسی کا زیادہ۔ اس میں کیا حکمت ہے؟
جواب:
سب کا رزق برابر نہیں ہے، کم ہو یا زیادہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے۔ کسی کا کم رزق اور کسی کا زیادہ رزق مقرر کرنے کی حکمت امتحان اور آزمائش ہے۔
سوال نمبر7:
اگر کسی شخص کے پاس کھانے کی چیزیں موجود ہیں لیکن کسی بیماری کی وجہ سے وہ کھا نہیں سکتا۔ کیا وہ چیز اس کے رزق میں شمار نہیں ہو گی؟ کیونکہ بے شک اس کے پاس وہ چیز ہے لیکن وہ استعمال نہیں کر سکتا۔
جواب:
جی ہاں بالکل! وہ رزق اس کے پاس موجود تو ہے لیکن اس کی قسمت میں اسے استعمال کرنا نہیں لکھا۔ ایسے بہت سارے لوگ جو بہت مالدار ہیں لیکن کھا نہیں سکتے۔ یہ بھی ایک طرح سے رزق کی کمی ہے، یا آپ اسے رزق میں برکت کا نہ ہونا بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے کمایا تو بہت رزق جمع تو بہت کیا لیکن در حقیقت وہ اتنا ہی استعمال کر سکے جتنا در حقیقت ان کے لئے لکھا گیا تھا۔
سوال نمبر8:
ایک آدمی کی لوگ بہت ہی عزت کرتے ہیں لیکن اسے پتا ہے کہ وہ حقیقت میں کیا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں بہت گناہ گار ہوں پھر بھی اللہ تعالیٰ اس کو عزت دیتا ہے۔ اس بارے میں کچھ وضاحت فرما دیں۔
جواب:
اگر وہ آدمی توبہ و استغفار کرتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ وہ اس پہ غرہ نہ کرے کہ مجھے لوگ اچھا سمجھ رہے ہیں۔ کیونکہ لوگوں کے اچھا سمجھنے سے کوئی صحیح معنوں میں اچھا نہیں ہو جاتا۔ ہاں یہ بات ہے کہ جو لوگ اسے اچھا سمجھ رہے ہیں ان کو ضرور فائدہ ہوگا کیونکہ ان کے دل میں اس کے لئے کوئی بدگمانی نہیں ہے وہ اسے اچھا ہی سمجھ رہے ہیں، انہیں اس پر اجر ملے گا۔ لیکن اس کو دل میں شرمندہ ہونا چاہیے کہ اگر میں حقیقت میں اچھا نہیں ہوں لیکن لوگ مجھے اچھا سمجھتے ہیں تو مجھے حقیقت میں بھی اچھا ہو جانا چاہیے۔
سوال نمبر9:
حضرت جی۔ جس طرح صفا پہ نیت کی ہے کیا استلام میں بھی خانہ کعبہ کی طرف نیت کرنی ہے؟
جواب:
استلام نہیں بلکہ کانوں تک ہاتھ اٹھانے ہیں جیسے تکبیر تحریمہ کرتے وقت ہاتھ اٹھاتے ہیں اور صرف پہلی بار ہاتھ اٹھانے ہیں تمام مواقع پر ایسا نہیں کرنا۔ دعا سب جگہ مانگنی ہے صفا پر بھی مانگنی ہے مروہ پر بھی مانگنی ہے اور درمیان میں بھی مانگتا رہے ۔ جب سعی کر رہے ہوں تب خصوصی طور پر یہ دعا مانگیں۔ ”رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ، وَ اِنَّکَ أَنْتَ الْأَعَزُّ الْأَكْرَمُ“۔ اس کے علاوہ باقی مواقع پہ جو دعائیں یاد ہوں وہ مانگتے رہیں۔ اگر کچھ یاد نہ ہو تو ”سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ“ پڑھتے رہیں۔ اس دوران اگر کوئی ضروری بات چیت کرنی پڑ جائے تو وہ بھی صرف ضرورت کی حد تک کر سکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔
سوال نمبر10:
کیا سعی کے لئے وضو شرط ہے؟
جواب:
نہیں سعی کے لئے وضو شرط نہیں ہے بلکہ صرف مستحسن ہے۔
سوال نمبر11:
طواف کے دوران ایک کندھا کھلا رکھنا اور ایک ڈھانپے رکھنا، اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
اسے اضطباع کہتے ہیں اور یہ طواف کے سات چکروں میں ہوتا ہے اگر احرام کی حالت میں ہوں۔ اور یہ صرف طواف کے ساتھ مخصوص ہے، طواف کے علاوہ باقی اعمال کرتے وقت کندھے ڈھک لیے جائیں گے۔
سوال نمبر12:
کہتے ہیں خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے وقت جو دعا کی جائے وہ مقبول ہوتی ہے، اس بارے میں اور اس وقت مزید اعمال کے بارے میں وضاحت فرما دیں۔
جواب:
جب خانہ کعبہ پہ پہلی نظر پڑے تب آپ نے دعا کرنی ہے، جب تک آپ کی آنکھیں نہ جھپکیں تب تک جو دعا کریں گے اس کی قبولیت کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس کے بعد آپ جب بھی ایک حالت سے دوسری حالت میں جائیں تو تلبیہ پڑھ لیا کریں۔ جیسے اب ہم بیٹھے ہیں، جب اٹھنے لگیں تو لبیک پڑھ لیں۔ مجلس میں شامل ہو رہے ہیں تو لبیک پڑھ لیں۔ نماز ختم ہو رہی ہے تو لبیک پڑھ لیں۔ اس دوران ہمارے لئے سب سے بہتر ذکر لبیک ہے۔ البتہ تلبیہ کا صحیح طریقہ سمجھنا چاہیے اس میں بہت لوگ گڑبڑ کرتے ہیں اور اس کی وجہ صرف صرف T.V ہے۔ جیسے یہ لوگ ٹی وی پر دیکھتے ہیں ویسے ہی کرتے ہیں، اب ٹی وی پر جو لوگ یہ دکھا رہے ہوتے ہیں انہیں مسائل کا علم نہیں ہوتا وہ بے چارے ایکٹر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ٹی وی پر جب تلبیہ پڑھا جاتا ہے تو ہر فقرہ کو وقف کر کے پڑھتے ہیں، لبیک۔ اللھم لبیک۔ لا شریک لک لبیک۔ اور سب اکٹھے پڑھ رہے ہیں۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔ اس طرح توڑ توڑ کر پڑھنا اور اکٹھے پڑھنا صرف سکھانے کے لئے ہے، ورنہ حج کرتے وقت تلبیہ پڑھنا ایک انفرادی عمل ہے۔ اسے پڑھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس میں چار وقف ہوتے ہیں۔ ”لَبَّيْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْک، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْک، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْک لَا شَرِیْکَ لَک“ اس کو 3 دفعہ پڑھنے کے بعد ایک دفعہ درود شریف پڑھیں پھر دعا کریں اس کے بعد دوبارہ تلبیہ پڑھیں ”لَبَّيْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْک، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْک، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْک لَا شَرِیْکَ لَک“ اسی طرح ہر بار 3 دفعہ پڑھ کر درود شریف پڑھیں پھر دوبارہ شروع کر لیں۔ مرد بلند آواز سے پڑھیں گے اور عورتیں دھیمی آواز سے پڑھیں گی۔
سوال نمبر13:
جب عمرہ کا احرام ختم ہو جائے اس کے بعد بھی تلبیہ پڑھ سکتے ہیں؟
جواب:
جیسے ہی آپ طواف کی جگہ پہ آ گئے اور نیت کا وقت آ گیا، بس اس وقت تلبیہ ختم ہو گیا۔
سوال نمبر14:
جب ہم عمرہ یا حج کے لئے آ رہے ہوتے ہیں تو بہت سارے حضرات و خواتین ہمیں کہتے ہیں کہ ہمارے لئے بھی دعا کرنا۔ ان سب کے لئے کس طریقے سے دعا کی جائے کہ سبھی شامل ہو جائیں۔
جواب:
میں آپ کو اپنی ترتیب بتاتا ہوں کہ ایسی صورت میں میں کیا کرتا ہوں۔ اگر میں سب لوگوں کی بات پوری کروں اور ہر ایک کے لئے خصوصی دعا کروں تو پھر میں یہاں بیٹھ کر مسلسل دو تین گھنٹے دعائیں ہی کرتا رہوں گا اور یہ ممکن نہیں ہے۔ ہر آدمی کہتا ہے میرے لئے خصوصی دعا کریں اب سب کے لئے خصوصی کروں گا تو یہ خصوصی بھی عمومی بن جائے گا خصوصی نہیں رہے گا۔ اس لئے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ یہ دعا مانگ لیا کریں کہ یا اللہ جن لوگوں نے بھی مجھے دعا کے لئے کہا ہے ان کی دعائیں قبول فرما دے۔ اس طرح آپ کی دعا سب کے لئے ہو جائے گی۔ سلام بھیجنے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ آپ روضۂ رسول پر یہ کہہ دیں کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے جتنے لوگوں نے آپ کو سلام کے لئے کہا ہے میں ان کی طرف سے آپ کو سلام پہنچا رہا ہوں آپ سلام قبول فرما لیں۔ اگر سلام بھیجنے والے دو تین لوگ ہوں پھر تو ٹھیک ہے ان کا نام لے کر دعا مانگ سکتے ہیں اور سلام پہنچا سکتے ہیں لیکن اگر بہت زیادہ ہوں تو اس کا طریقہ وہی ہے جو میں نے بتایا۔
سوال نمبر15:
اپنے والدین کے لئے نفلی طواف کر سکتے ہیں؟
جواب:
جی ہاں جس کے لئے بھی آپ نفلی طواف کرنا چاہیں کر سکتے ہیں، عمرہ بھی کر سکتے ہیں اور اگر اپنا فرض حج ادا کر لیا ہو تو کسی اور کی طرف سے نفلی حج بھی کر سکتے ہیں۔
میں آپ کو ایک عجیب واقعہ سناتا ہوں۔ ہمارے ساتھ حج کے موقع عنایت اللہ ریاض صاحب تھے۔ یہ افغان مہاجرین کے commissioner تھے اور بڑے نیک آدمی تھے۔ انہوں نے یہ واقعہ سنایا۔ وہ چارسدہ کے علاقے کے تھے۔ چار سدہ کے علاقے کا آپ کو پتا ہی ہے وہاں پر دشمنیاں وغیرہ ہوتی ہیں لڑائیاں وغیرہ ہوتی رہتی ہیں ان کا culture ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہم نے جب اپنے لئے طواف کر لیا اپنے رشتہ داروں کے لئے بھی کر لیا اپنے دوستوں کے لئے بھی کر لیا تو پھر سوچنے لگے کہ اب کس کے لئے کر لیں۔ ہم نے کہا چلو اب دشمنوں کے لئے طواف کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پھر ہم نے اپنے دشمنوں کے لئے طواف کیا۔ اس بات کا ہمارے علاقے کے چند لوگوں کو پتا چل گیا انہوں نے وہاں جا کر ان لوگوں کو بتایا کہ جن کے ساتھ دشمنی تھی بھئی انہوں نے تو آپ کے لئے بھی طواف کیا ہے۔ ان لوگوں پر اتنا اثر پڑا کہ وہ آئے اور معافی مانگی کہ آپ نے دشمنی کے باوجود ہمارے لئے طواف کیا ہم دشمنی ختم کرتے ہیں۔
ایسے بھی لوگ دنیا میں ہوتے ہیں لوگ دوستوں کے لئے نہیں کر سکتے اور وہ دشمنوں کے لئے طواف کر گئے۔
سوال نمبر16:
حضرت جی۔ جب ہم اپنے دوستوں کے لئے یا کسی اور کے لئے طواف کریں تو ہمیں تو اتنا ہی ثواب ملے گا، ہمارے ثواب میں تو کوئی کمی نہیں ہوگی؟
جواب:
آپ کو اس نیک نیتی کا ثواب مل رہا ہے جو آپ اس کے لئے کر رہے ہیں۔ طواف کا ثواب تو اسی کو جا رہا ہے جس کے لئے آپ کر رہے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر بہت مہربان ہے، جو اس کی مخلوق کا بھلا سوچتا ہے وہ اس کا بھلا کرتا ہے، طواف کا ثواب تو اسی کو ملے گا، آپ کو اللہ اپنی طرف سے اجر دے گا۔
سوال نمبر17:
اگر کوئی پاکستان میں بیمار ہو تو اس کی صحت میں بہتری کی نیت سے کے لئے طواف کرنا بہتر ہوگا؟
جواب:
اس کے لئے دعا کرنا بہتر ہے، آپ اپنا طواف کریں اس کے بعد اس کے لئے دعا کر لیں کیونکہ اس کو تو دعا کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے طواف بھی کر سکتے ہیں، ممنوع نہیں ہے لیکن اسے ضرورت دعا کی ہے، اس لئے دعا کو ترجیح دیں۔
سوال نمبر18:
حج کے علاوہ دوسرے وقت میں اگر کسی کو حجر اسود کو بوسہ دینے کا موقعہ مل جائے تو اس کا کیا طریقہ ہے اس کے لئے کیا دعا کرنی چاہیے؟
جواب:
اس کا طریقہ کتابوں میں منقول ہے، لیکن ابھی میں آپ کو اپنی بات بتاتا ہوں۔ ابھی تک میں نے صرف ایک بار حجر اسود کو بوسہ دیا ہے۔ اندازہ کریں میں 1984 سے حج پہ آ رہا ہوں۔ لیکن صرف ایک دفعہ حجر اسود کو بوسہ دیا ہے اور وہ بھی اس طرح بوسہ دیا کہ مجھے پتا تھا کہ حجر اسود کو بوسہ دینا مستحب ہے اور دوسروں کو تکلیف پہنچانا حرام ہے۔ میں نے سوچا کہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے میں کسی کو تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔ حالانکہ ہمارے ساتھی بتاتے تھے کہ آج میں نے دو دفعہ حجر اسود کو بوسہ دیا، کوئی کہتا تین دفعہ دیا لیکن ہمیں جرات نہیں ہوتی تھی۔ خیر ایک دن میں نے کہا اچھا آج یوں کرتا ہوں کہ اپنے ہاتھ پیچھے باندھ لیتا ہوں تاکہ کسی کو دھکا دینے کی نوبت نہ آئے اور اگر مجھے کوئی دھکا دے تو اسے معافی ہے۔ یہ تہیہ کر کے میں لائن میں کھڑا ہو گیا۔ اس لائن کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ پیچھے سے لائن ٹھیک چلی آ رہی ہوتی ہے لیکن جب حجر اسود کے قریب والے پانچ چھ آدمیوں تک معاملہ پہنچتا ہے تو ایک دم بھگدڑ سی مچ جاتی ہے، سب اکٹھے ہی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جب آخری پانچ چھ آدمیوں تک میں پہنچا اس کے بعد مجھے نہیں پتا چلا کہ کیا ہوا، اچانک مجھے کسی نے دھکا دیا اور عین حجر اسود کے اندر گھسا دیا، میرا چہرہ بالکل حجر اسود کے اوپر پڑا ہوا تھا۔ میں نے سوچا آج جتنے بوسے دینا چاہتا ہوں دے لیتا ہوں۔ جتنی دیر میں بوسے دے سکتا تھا دیتا رہا پھر کسی نے مجھے کھینچ کر باہر نکال دیا۔ میرے ساتھ تو ایسا ہوا ہے اور زندگی میں ایک دفعہ ہی ہوا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں 72 دن کے لئے وہیں رہا تھا، ان دنوں رش کافی کم تھا، تب میرے ساتھ یہ معاملہ ہوا تھا، اب تو میں سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ مجھے پتا ہے کہ اگر بوسہ دینے کی کوشش کروں گا تو مجھ سے کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہو جائے گی، کسی مسلمان کو ضرور تکلیف پہنچ جائے گی، تو ایک مستحب کام کے لئے حرام تک کیوں پہنچوں۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ لوگ حجر اسود کو بوسے دے رہے ہیں آپ کیوں نہیں دے رہیں؟ فرمایا: میں اس گناہ کے کام میں شامل نہیں ہونا چاہتی۔ پوچھا گیا کہ حجر اسود کو بوسہ دینے میں گناہ کی کیا بات ہو سکتی ہے؟ فرمایا: اگر حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے عورتیں مرد اکٹھے آگے بڑھیں ایک دوسرے سے اختلاط ہو تو یہ گناہ کا کام بن جائے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کے حساب سے بات فرمائی، ان کو بے پردگی کا خدشہ تھا، اس لئے انہوں نے بوسہ نہیں دیا۔ میرے مدنظر یہ بات تھی کہ کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے اس لئے بوسہ نہیں دیا۔
ریاض الجنۃ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ حج کے بالکل آخری دنوں میں ہم ریاض الجنۃ جاتے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسے وقت میں جائیں جب رش بالکل کم ہو، کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے سامنے سے نہ گزریں، کسی کو تکلیف پہنچانے کا ذریعہ نہ بنے۔ اگر اس طرح ممکن ہو تو ٹھیک ہے ورنہ رش کے اوقات میں وہاں جانے کو ترجیح نہیں دیتے۔
سوال نمبر19:
اگر ہم ریاض الجنۃ میں عصر سے مغرب کے درمیان والے وقت میں جائیں تو اس وقت نوافل تو نہیں پڑھ سکتے، کیا تلاوت کر سکتے ہیں؟
جواب:
اصل بات یہ ہے کہ وہاں پر بیٹھنا نہیں چاہیے۔ اگر نفل پڑھنے کا وقت نہیں ہے تو بس دعا کر کے وہاں سے ہٹ جائیں۔ کیونکہ وہاں آپ کے علاوہ اور بہت سارے لوگ آئے ہیں، سب کا حق ہے کہ اس جگہ پر آ کر دعا وغیرہ کریں۔ اگر آپ ادھر بیٹھ گئے تو آپ نے دوسروں کا حق مار دیا۔ وہاں کئی لوگ بہت دھوکہ کرتے ہیں، نماز نہیں پڑھ رہے ہوتے نماز کی شکل بنا کے بیٹھے ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ان کی نماز ہی ختم نہیں ہو رہی ہو گی۔ آپ ہی بتائیں کیا ایسے لوگوں کو ثواب ملتا ہوگا؟ جو لوگ اس جگہ پر بھی دھوکہ دہی سے کام لے رہے ہیں ان کو کیا ثواب ملے گا۔
لوگوں نے دین کو چند معمولات کا مجموعہ بنا دیا ہے۔ حالانکہ دین تین چیزوں کا مجموعہ ہے۔ (1)عقیدہ۔ (2)اعمال، اور (3) کیفیت۔ عمل میں کیفیت نہ ہو تو عمل بے جان ہے۔ اگر عقیدہ صحیح نہیں ہے تو عمل اور کیفیت دونوں کا کچھ فائدہ نہیں۔ لہٰذا عقیدہ درست ہونا چاہیے، عمل صحیح ہونا چاہیے، حضور ﷺ کے طریقے کے مطابق ہونا چاہیے اور اس میں کیفیت بھی صحیح ہونی چاہیے۔ اگر کوئی ان تینوں میں سے کسی ایک میں بھی لا پرواہی کرتا ہے اپنے نفس کو درمیان میں شامل کر لیتا ہے تو اس کا دین کامل نہیں ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن