سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 371

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال نمبر1:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ قبلہ شاہ صاحب میرا نام محمد زبیر ہے اور میں سائیکالوجی سے وابستہ ہوں۔ میرے بہت سے ساتھی سائیکالوجی سے وابستہ ہیں وہ سائیکالوجی میں پی ایچ ڈی ہولڈر ہیں اور پریکٹیکلی کام کر رہے ہیں۔ اس میں کچھ techniques اور therapies ایسی ہیں جن میں مجھے تحفظات ہیں اور میں نے ابھی تک ان کو سیکھنے کے لئے کلاسز میں شرکت نہیں کی۔ آپ کی خدمت عالی میں یہ گزارش ہے کہ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ آج کل ماہرین نفسیات ریکی، این ایل پی، او ایم ڈبلیو اور مختلف طرح کی Psycho-therapies کو استعمال کر رہے ہیں جن سے بڑے مثبت نتائج آتے ہیں، خصوصاً Tension, anxiety, frustration, depression اور ایسے کچھ امراض جن کا علاج عامل حضرات کرتے ہیں، ان میں بھی اِن ٹیکنیکس کے بڑے مثبت نتائج آتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے ہپناٹزم کے متعلق بالکل کلیئر فرما دیا کہ یہ روحانیت نہیں ہے، اسی طرح یہ حضرات ریکی وغیرہ کو بھی روحانیت سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ روحانیت ہے جبکہ میں اس معاملے میں بالکل کلیئر ہوں۔ مجھے ان ساتھیوں کے ساتھ ملنا بھی ہے اور بات چیت بھی ہونی ہے۔ وہ کہتے تھے اگر کوئی شیخ کامل و اکمل اس بات کو کلیئر کر دے یا کوئی سائنٹسٹ اس کو کلیئر کر دے تو ہم بات مان لیں گے۔ آپ کی خدمت عالی میں یہ گزارش ہے کہ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ ان چیزوں کا سیکھنا کیسا ہے، پھر ان کا استعمال کیسا ہے۔ خصوصاً ریکی کے اندر جو equipment کرائی جاتی ہے، یہ کہتے ہیں کہ یہ symbols حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام سے آئے ہیں اور باقاعدہ اس کا استعمال کرتے ہیں، اس کی پریکٹس کرتے ہیں، اس کے بڑے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں، ان کا سیکھنا شرعاً جائز ہے یا نا جائز اور کیا ان کا تعلق روحانیت سے ہے یا نہیں ہے؟ امید ہے آپ یقیناً اصلاح فرمائیں گے۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

جواب:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ بہت ضروری سوال ہے، لیکن ہمارا جواب کافی سادہ ہو گا۔

کچھ چیزوں کا تعلق انسان کی Physical life سے ہوتا ہے اس کے ٹیسٹ ہو سکتے ہیں، اس کی تھیوری کلیئر ہوتی ہے اور کچھ سائنسی اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ چاہے وہ غلط بھی ہو لیکن وہ Development procedure سے گزر رہی ہوتی ہے اور اس میں مسلسل ترقی ہو رہی ہوتی ہے جیسے ایلوپیتھی ہے، ہومیوپیتھی اور آکیو پنکچر ہے اسی طرح حکمت کے علاج ہیں۔ ان سب کے اپنے اپنے اصول ہیں جن کے مطابق یہ طریقے کام کرتے ہیں اور اس کے زرلٹس وغیرہ بھی آتے ہیں لیکن ان کو کبھی کسی نے روحانی نہیں کہا۔

یہ تو تھی فزیکل چیزوں کی بات۔ کچھ چیزیں metaphysical ہوتی ہیں ان پر Physical laws applicable نہیں ہوتے جیسے جنات سے متعلق باتیں، ان کے علاوہ اور بھی کئی چیزیں ہیں۔ ان کو بھی لوگ روحانی سمجھتے ہیں، یہ بھی روحانی نہیں ہیں۔ جنات کا spiritualism کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اگرچہ ان کا وجود metaphysical ہے، Physical laws اس پر applicable نہیں ہیں لیکن اس کا spiritual کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ روحانیت کا تعلق تین چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے نفس، عقل اور دل۔ ان تین چیزوں کے ساتھ جو علاج متعلق ہیں جن کو ہم اصلاحِ نفس، اصلاحِ قلب اور اصلاحِ عقل کہتے ہیں۔ یہ تینوں چیزیں یعنی نفس، عقل اور دل آپس میں ملے ہوتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان پہ بڑی تحقیق کی ہے اور جس کتاب میں انہوں نے یہ ساری چیزیں دی ہیں اس کا سٹارٹ انہوں نے روح سے کیا ہے۔ روح پہ بڑی لمبی بحث کی ہے۔

اس سے پتا چلا کہ اصل روحانی چیز دل، نفس اور عقل کی اصلاح ہے، اس کے ذریعے سے روحانیت پیدا ہوتی ہے، اُس روحانیت کے ذریعے سے ترقی ہوتی ہے اور اس سے جو کمالات حاصل ہوتے ہیں اور اللہ کا جو قرب حاصل ہوتا ہے یہ روحانیت ہے۔ اس کے علاوہ باقی جتنی بھی چیزیں ہیں خواہ وہ physical ہیں یا metaphysical ہیں وہ اور ان کے زریعے حاصل ہونے والے کمالات کو روحانیت نہیں کہہ سکتے۔

عین ممکن ہے کہ جس چیز کو آج ہم metaphysical سمجھتے ہیں کل اس کو physical سمجھنے لگیں ہو سکتا ہے ہم کچھ طبع قوانین سے ان کی تشریح کر پائیں اور انہیں فزیکل قرار دے دیں۔

میں آپ کو ایک واقعہ بتاتا ہوں۔ پودوں میں نر پودے بھی ہوتے ہیں اور مادہ پودے بھی ہوتے ہیں۔ جہاں نر اور مادہ پودے قریب قریب ہوتے ہیں وہاں پھل بہت لگتا ہے۔ ایگریکلچر کا پورا کام اس کی سمجھ پر مبنی ہے، depend ہے۔ آپ ﷺ کے دور میں چونکہ ٹونے ٹوٹکے ہوتے تھے، شرک سے بھی بچنا تھا تو آپ ﷺ نے پہلے اس سے منع فرمایا جب منع فرمایا تو اگلے سال پھل اتنا زیادہ نہیں آیا۔ صحابہ کرام نے آپ ﷺ کی خدمت میں یہ ماجرا عرض کیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ یہ ٹوٹکا کس وجہ سے اور کس بنیاد پہ کرتے ہو۔ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ اصل میں پودوں کا آپس میں کچھ اس طرح کا تعلق ہوتا ہے کہ اگر ہم نر و مادہ پودوں کو ساتھ ساتھ لگائیں تو زیادہ پھل آتا ہے۔ اس وقت کے مطابق جو سسٹم انہیں معلوم تھا اس کے بارے میں انہوں نے بتا دیا۔ آپ ﷺ نے سن کر فرمایا: ٹھیک ہے پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی اس میں کوئی شرکیہ چیز شامل نہیں ہے۔ یہ ایک Physical system ہے۔ آپ ﷺ کے سامنے وہ چیز آ گئی۔ یہ نہیں کہ آپ ﷺ کو پہلے معلوم نہیں ہو سکتا تھا، یہ اصل میں اللہ تعالیٰ کی تربیت کا ایک نظام ہے کہ ان چیزوں کو اس روحانیت سے علیحدہ کرنا تھا۔ آپ ﷺ نے ان کی بات سن کر فرمایا:

”اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُم“ (صحیح مسلم: 6128)

ترجمہ: ”اپنے دنیاوی امور کے بارے میں تم بہتر جانتے ہو“۔

اس سے باقاعدہ ایک قانون بن گیا کہ دنیا کی چیزیں دنیاوی قوانین کے مطابق ہی ہوں گی جب تک کہ ان قوانین میں دین کی مخالفت نہ ہو رہی ہو۔ کیونکہ نبی دنیا کی چیزوں کے لئے نہیں آتے۔ نبی سائنٹیفک ریسرچ کے لئے نہیں آتے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ ﷺ کی باتوں سے سائنٹیفک ریسرچ کی بہت ساری چیزیں نکالی جا سکتی ہیں، لیکن آپ ﷺ کے آنے کا مقصد سائنٹیفک ریسرچ نہیں تھا۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے آپ ﷺ نے زندگی گزارنے کے جو طریقہ ہائے کار بتائے ان طریقوں میں سنت کے راستے میں بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جن پہ آج کل سائنس ریسرچ کر رہی ہے اور سائنس کے مطابق وہ چیزیں اور طریقے بالکل درست اور فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی ﷺ کو وحی کے طور پہ بتلائی گئی تھیں، سائنس بھی اللہ پاک نے ہی بنائی ہے اس لئے اگر وحی سے ثابت شدہ کوئی چیز آج سائنٹیفکلی ثابت ہو جاتی ہے تو اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ سائنس کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ وہ اللہ پاک کی بنائی ہوئی چیزوں میں غور کر کے اللہ پاک تک پہنچا جائے۔

معدہ کس نے بنایا ہے؟ اللہ نے بنایا ہے۔ دماغ کس نے بنایا ہے؟ اللہ نے بنایا ہے۔ neurons کس نے بنائے ہیں؟ اللہ پاک نے بنائے ہیں۔ یہ ساری چیزیں اللہ پاک نے بنائی ہیں۔ اب اگر اللہ پاک اپنی بنائی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز وحی کے طور پہ اپنے نبی کو بتا دے تو اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ اللہ پاک کو اس کے لئے کسی ریسرچ کی ضرورت نہیں ہے، لہذا جو چیز reveal ہو گئی اس کے لئے ریسرچ کی ضرورت نہیں ہے ہاں ریسرچرز اس کو شناخت کر سکتے ہیں، اس کے ذریعے بہت ساری چیزوں کو جان سکتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ جن چیزوں کو آج ہم metaphysical چیزیں سمجھتے ہیں عین ممکن ہے بعد میں یہ چیزیں physical بن جائیں۔ اسی طرح جن چیزوں کو ہم روحانی سمجھتے ہیں وہ روحانی نہیں ہیں۔ بلکہ اصل میں روحانیت یہی ہے جو میں نے آپ کو بتا دیا۔ دل، نفس اور عقل سے متعلق چیزیں ہی در اصل spirituality ہے۔

باقی جہاں تک آپ نے دوسری چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ ریکی، این ایل پی اور او ایم ڈبلیو وغیرہ۔ ان چیزوں کے بارے میں جتنا مجھے معلوم ہے اس کے مطابق ریکی علاج کا ایک طریقہ کار ہے، اس کے ذریعے Psycho treatment ہو سکتی ہے، اس کے ذریعے tensions وغیرہ کا علاج کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ physical چیز ہے اسے روحانی نہیں کہہ سکتے، اگر ہم اسے روحانی مانیں تو پھر اس کے لئے ہمیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اس کا تعلق نفس، عقل اور قلب کے ساتھ ہے۔ جب تک اس کا تعلق ان تین چیزوں کے ساتھ ثابت نہیں ہوتا تب تک ہم یہ کہیں گے اور سمجھیں گے کہ ریکی وغیرہ روحانی چیزیں نہیں ہیں، ہاں یہ ضرور کہیں گے کہ یہ metaphysical چیزیں ہیں۔ پھر metaphysical میں یہ دیکھیں گے کہ آیا اس کے جو رولز ہیں وہ Physical laws کے قریب آ رہے ہیں یا نہیں آ رہے، اگر Physical laws کے قریب آ رہے ہیں تو پھر یہ ایک Physical system ہے، پھر آپ اس کو physical طریقہ سے treat کریں گے، اس کی باقاعدہ ریسرچز سامنے آئیں گی، اس میں discussions ہوں گی، نئی نئی چیزیں develop ہوں گی اور نئی نئی improvements آئیں گی۔

جیسے سائیکالوجی بھی ایک سائنس ہے۔ یہ بھی سائنس کا ایک حصہ ہے۔ سائیکالوجی کے اندر سائنٹفک طریقوں سے ریسرچ ہوتی ہے، اس سے لوگ learn کر سکتے ہیں۔ اگر ریکی کو کچھ لوگوں نے مذہبی چیزوں کے ساتھ ملایا ہے تو پھر ہمیں اس کو باقاعدہ طور پر ثابت کرنا پڑے گا تب ہم اس کو روحانی یا مذہبی کہہ سکتے ہیں اگر ثابت نہ ہو سکیں تو پھر صرف metaphysical انداز میں لے لیں اور روحانیت میں اسے شامل نہ کریں، مذہب میں شامل نہ کریں، جیسے عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس کو وابستہ کر رہے ہیں۔ اس وقت عیسی علیہ السلام کی انجیل موجود نہیں ہے، جو موجود ہے اس میں تحریف ہو چکی ہے، جب اصل کتاب میں ہی تحریف ہو چکی ہے تو باقی چیزوں کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں۔ بالفرض اگر انجیل ہو بھی تو ہم قرآن مجید کے ہوتے ہوئے اسے نہیں پڑھ سکتے۔

ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تورات پڑھ رہے تھے، آپ ﷺ سخت ناراض ہوئے اور آپ ﷺ کی طبیعت پہ بڑا تکدر آیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی ﷺ کے چہرہ مبارک کے تغیر کو دیکھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بہت سختی سے کہا: عمر تیری ماں تجھے روئے، نبی ﷺ کے چہرہ کو دیکھ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب آپ ﷺ کا چہرہ دیکھا تو بہت نادم ہوئے اور فرمانے لگے: ”میں اللہ کے رب ہونے پر، آپ ﷺ کے رسول ہونے پر اور اسلام کے اپنا دین ہونے پر راضی ہوں“۔ اور بار بار یہی کہتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک نارمل ہوا۔ پھر فرمایا: عمر یاد رکھو اگر اس وقت موسیٰ علیہ السلام بھی آ جائیں تو ان کو بھی میرے طریقہ پہ چلنا ہو گا۔

لہذا ہمارے پاس قرآن ہی ہے اور قرآن ہی حتمی ہے۔ باقی چیزوں کے بارے میں ہم سوائے اس کے کچھ نہیں کہیں گے: ”لَا نُصَدِّقُ و لَا نُکَذِّبُ“ (ہم نہ ان کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ تکذیب کرتے ہیں)۔

اسرائیلیات سے نقل شدہ تمام چیزوں کے بارے میں ہمارا مذہب یہی ہے کہ نہ ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں نہ ان کی تکذیب کرتے ہیں۔ تکذیب اس لئے نہیں کرتے کہ ہمارے پاس تکذیب کے لئے دلیل نہیں ہے۔ تصدیق اس لئے نہیں کرتے کہ ہمارے پاس تصدیق کے لئے دلیل نہیں ہے۔ لہذا ہم اس کو As it is چھوڑ دیتے ہیں۔

اس لئے اگر آپ ریکی وغیرہ کا ایک علاج کے طور پہ مطالعہ کریں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اگر اس کو مذہبی چیز کے طور پر لیں اور اس سے عقیدہ میں فساد آ جائے تو پھر ٹھیک نہیں ہے۔

میں آپ کو اس کی مثال دیتا ہوں۔ ہمارے ایک ساتھی ہیں اللہ جل شانہ انہیں سلامت رکھے۔ میرے استاذ بھی ہیں، ماشاء اللہ دینی گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ ان کو migraine کی بیماری ہے۔ migraine ایک physical بیماری ہوتی ہے۔ اس کے علاقہ میں ایک ہندو ہے جو اس کا دم کرتا ہے اور لوگ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ ان کے رشتہ داروں نے ان سے کہا آپ بھی اس سے دم ڈلوا لیں۔ اس نے کہا: میں اس بیماری سے مر تو سکتا ہوں لیکن دم نہیں ڈلواؤں گا۔ انہوں نے کہا: اس سے علاج کروانے میں بھلا کیا برائی ہے، عیسائیوں سے بھی تو لوگ علاج کرواتے ہیں، یہودیوں سے بھی علاج کرواتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ علاج ایک physical چیز ہے، اس میں عقیدہ شامل نہیں ہوتا، علاج کروانے سے میرے دین کے اوپر کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن جس چیز سے میرے دین کے اوپر فرق پڑ رہا ہو وہ میں نہیں کروں گا۔ دم کا معاملہ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ دم کو ایک دینی، مذہبی اور روحانی چیز سمجھتے ہیں۔ دین کے ساتھ اس کا تعلق سمجھتے ہیں۔ اگر میں اس کے دم سے ٹھیک ہو گیا تو مجھے کچھ نہیں ہو گا، کیونکہ مجھے پتا ہے یہ کیا چیز ہے، لیکن ہمارے رشتہ داروں کے ایمان میں فرق پڑ سکتا ہے، کسی اور کو نقصان ہو سکتا ہے تو میں یہ نقصان کیوں ہونے دوں۔ میں نے کہا: ماشاء اللہ، اسے کامل ایمان کہتے ہیں۔

اسی نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ نے اس کو ایک مذہبی کام بنا لیا تو اس کے لئے دلیل چاہیے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت ساری چیزوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ جیسے آپ ﷺ نے خیال رکھا، پہلے نہیں ہونے دیا لیکن جس وقت پتہ چل گیا کہ اس کا تعلق دین اور عقیدہ کے ساتھ نہیں ہے یہ ایک physical چیز ہے تب فرمایا کہ تم اپنے دنیوی امور کو بہتر جانتے ہو۔ لہٰذا physical چیزوں میں تو ہم کچھ نہیں کہیں گے اگر اس کی Physical definitions ہو چکی ہو اور اس کا تعلق Physical systems سے ہو، اس کا Physical analysis ہو اور Physical procedures ہوں، پھر اس میں ہم کچھ نہیں کہیں گے، یہی کہیں گے کہ ”اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُم“ اور بات ختم کر دیں گے۔ لیکن اگر آپ اس کو روحانی بنانا چاہیں گے یا اس کا تعلق کسی مذہب کے ساتھ جوڑیں تو پھر اس مسئلہ میں ہمیں احتیاط کرنی پڑے گی۔ اس کی تفصیلات فی الحال مجھے معلوم نہیں ہیں، کیونکہ میں اس شعبے کا ماہر نہیں ہوں۔ مجھے اس کی تفصیلات کا علم نہیں ہے لہذا اس کے بارے میں اصول میں نے بتا دیا ہے۔ میرے خیال میں آپ یہ اصول سمجھ گئے ہوں گے۔

باقی رہی این ایل پی کی بات۔ این ایل پی سے مراد Neurolinguistic programming ہے۔ اس کا تعلق دماغ سے ہے۔ یہ بھی ایک Physical system ہے۔ neurons ایک physical چیز ہے، اگر میں اس کو physical انداز میں سٹڈی کر لوں تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر اس کو spiritual انداز میں لوں گا تو پھر ٹھیک نہیں ہو گا۔ یہ روحانی نہیں ہے۔

نقشبندیہ سلسلہ میں یہ جو لطائف کا دور ہوتا ہے، اس کو ہندی میں چکر کہتے ہیں اور باقاعدہ ان چکروں کے ذریعے علاج کرتے ہیں، ان کے ہاں یہ باقاعدہ ایک تھراپی ہے۔ تو یہ بھی فزیکل چیزیں ہیں۔ یہ لطائف اور چکر Sensing points ہیں ان Sensing points کو آپ دین کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں اور دنیا کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

وہ لوگ جو اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں انہوں نے اپنے رخ سے اس کو سٹڈی کیا ہے، ہم نے اپنے رخ سے سٹڈی کیا ہے۔ یہ منصوص چیزیں نہیں ہیں، بلکہ تجرباتی چیزیں ہے انہوں نے تجربات کر کے اپنے نتائج نکالے اور ہم نے اپنے نتائج نکالے۔ ہمارے نزدیک اس کا روحانیت کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہاں ہم نے اس کو روحانیت کے لئے استعمال کیا ہے۔ لوگ اس کو دنیا کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔

اب قلب کی مثال لے لیں۔ لوگ کہتے ہیں دل دھڑک رہا ہے تو یہ دھڑکنے والا دل ایک فزیکل چیز ہے۔ لیکن دل کا جو تعلق روح کے ساتھ ہے اور روح کا تعلق ملاء اعلیٰ کے ساتھ ہے، یہ چیز روحانی ہے، وہ لوگ یہ سٹڈی نہیں کر سکتے، وہ لوگ اس کو جانتے بھی نہیں اور اس کو مانتے بھی نہیں، جب جانتے نہیں تو مانیں گے کیسے۔ جیسے آسمان کے بارے میں وہ لوگ کہتے ہیں کہ آسمان در حقیقت کوئی چیز نہیں ہے، یہ تو نظر کی حد ہے۔ وہ اس لحاظ سے درست کہتے ہیں کہ ان کو اس سے آگے کچھ نظر نہیں آتا اور انہیں اس کے علاوہ کچھ معلوم بھی نہیں۔ لیکن ہمارے لئے آسمان نظر کی حد نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ آسمان ایک ٹھوس چیز ہے، جو ہمیں اوپر نظر آ رہا ہے ممکن ہے یہ آسمان نہ ہو، بلکہ آسمان اس سے کہیں اوپر ہو، کیونکہ یہ نیلا تو ہمیں نظر آتا ہے، کوئی آدمی چاند پہ پہنچ کے دیکھے تو وہاں آسمان نیلا نہیں نظر آتا، بلکہ کالا نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں فضا نہیں ہے۔ یہ جو ہمیں آسمان نیلا نظر آتا ہے یہ فضا کی ریفلیکشن کی وجہ سے نیلا نظر آتا ہے۔ چاند پر چونکہ فضا ہی نہیں ہے اس لئے ریفلیکشن بھی نہیں ہے اس لئے وہاں پر آسمان کالا ہے۔

اس قسم کی چیزیں physical ہوتی ہیں، یہاں تک تو معاملہ physical ہے اس سے اوپر کا معاملہ فزیکل نہیں ہے۔ اصل آسمان جس کے بارے میں قرآن نے بتایا ہے وہ real چیز ہے، ہم لوگ مانتے ہیں لیکن وہ لوگ نہیں مانتے۔ ہم ان کو الزام نہیں کرتے، ہم کہتے ہیں تم اتنا صحیح کہتے ہو کہ واقعی تمہیں نظر نہیں آ رہا۔ جبکہ ہمیں نظر آ رہا ہے، ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آ رہا، لیکن ہم اللہ پاک کو مانتے ہیں، پیغمبر ﷺ کو مانتے ہیں اور وحی کو مانتے ہیں۔ اللہ پاک نے کچھ چیزوں کو وحی کے ذریعے اپنے پیغمبر تک پہنچایا اور پیغمبر نے ہم تک پہنچایا، ہم اس ذریعے سے اس کو مانتے ہیں، یہ ہمارا ایمان بالغیب ہے۔ لہذا ہم مانتے ہیں وہ نہیں مانتے اور ہم ان سے گلہ بھی نہیں کرتے۔ کیونکہ اصل چیز تو ایمان ہے اور ایمان ان میں ہے نہیں تو ہم ان سے کیسے گلہ کریں گے!

بہرحال اگر ہم ان تمام چیزوں کو صرف سٹڈی کے طور پر لیں پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر آپ ریکی کو ایک Physical treatment کے طور پر لیتے ہیں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ اگر آپ کوئی Spiritualism attach کرتے ہیں اور ان چیزوں کے ذریعے attach کرتے ہیں جو ہمارے مذہب میں ممنوع ہیں تو پھر اس میں حرج ہے، ہم اس کو ٹھیک نہیں سمجھتے۔ اسی طرح این ایل پی کو physical طریقے سے لینا چاہتے ہیں تو لے سکتے ہیں، آپ اس کو بھی اور اس کی سائنسی تحقیقات کا بھی مطالعہ کر لیں، ان کا آپس میں relevance جان لیں اور اس کے علاج کے طریقے کو سمجھ لیں تو بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، ”اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُم“ کے مطابق یہ بات درست ہو گی۔

او ایم ڈبلیو کے بارے میں مجھے ابھی تک کوئی ریسرچ معلوم نہیں ہوئی، میں نے نیٹ پہ دیکھا ہے لیکن مجھے پتا نہیں چلا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اگر آپ اس کے بارے میں بتا دیں تو میں اس کے بارے میں کچھ عرض کر سکوں گا۔ لیکن اصول میں نے بتا دیا، اس کو مد نظر رکھ کر آپ کو ساری چیزوں کا علم ہو سکتا ہے۔

میرے ایک ساتھی ہیں، اس کو ڈپریشن ہے، اس نے مجھے آج ہی یہ سٹوری سنائی ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے Severe depression ہو گئی، بہت سخت خوف چڑھ گیا۔ وہ ساتھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان چیزوں کو پڑھتا رہتا ہے تو اسے بعض بزرگوں کے اشعار یاد آ گئے، ان اشعار کی وجہ سے اس کی ڈپریشن ختم ہو گئی۔

اب دیکھیں یہ بھی ایک علاج ہے، لیکن ہم اسے روحانی علاج نہیں کہیں گے بلکہ نفسیاتی علاج کہیں گے۔ کیونکہ Psychological treatment کا ایک اہم حصہ یہ ہے کہ نفسیاتی بیماری کا علاج انسان کے اندر ہی موجود ہوتا ہے آپ نے بس اس کو ابھارنا اور streamline کرنا ہوتا ہے، اسے صحیح رخ دینا ہوتا ہے جس رخ سے فائدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مایوسی ہے، آپ کو کوئی چیز نہیں سمجھ آ رہی جس کی وجہ سے مایوسی ہے، جیسے ہی آپ کو وہ چیز سمجھ آ جائے گی مایوسی ختم ہو جائے گی۔ اب یہ مایوسی ایک چیز کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے تھی، جب اسے سمجھ لیا تو مایوسی ختم ہوگئی۔

میرے پاس بھی اس قسم کے کیسز آتے رہتے ہیں۔ میں نہ psychiatris ہوں نہ ڈاکٹر ہوں، لہذا میں ان چیزوں کا risk نہیں لے سکتا۔ البتہ میں یہ بتا دیتا ہوں کہ دیکھو دو سٹیجز ہیں۔ ایک Psychological stage ہے اور ایک Psychiatric stage ہے۔ Psychological میں انسان کے neuron کا مسئلہ نہیں ہوتا سارا مسئلہ خیالات کا ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کی کوچنگ اس طرح کر لیں کہ اس کی سوچ بدل جائے تو وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ اگر وہ کوچنگ سے ٹھیک ہو سکتا ہے تو ذکر سے بھی ٹھیک ہو سکتا ہے، وظیفہ سے بھی ٹھیک ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر neuron کا مسئلہ ہو تو اس میں کیمیکل چیزیں involve ہو جاتی ہیں۔ پھر مریض کو کچھ دوا بھی دینا پڑتی ہے۔ کیونکہ کیمیکلز کا مسئلہ حل ہوئے بغیر وہ آپ کی بات سمجھ ہی نہیں سکے گا۔ کوچنگ تو اس وقت ہو گی جب کم از کم وہ آپ کی بات سمجھ تو سکتا ہو، جس وقت تک وہ بات سمجھ ہی نہ سکتا ہو تب تک آپ اس کی کیا کوچنگ کریں گے۔ آپ کچھ کہہ رہے ہیں اور وہ کچھ سمجھ رہا ہے، ایسی صورت میں پہلے آپ کو neurons کو کنٹرول کرنے کے لئے ٹریٹمنٹ کرنا پڑے گا۔ جب وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں تو ان کو بات سمجھ میں آ جاتی ہے، تب ہم کہتے ہیں کہ اب ہم بھی علاج کر سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس علاج کی range میں آ گیا ہے۔ جب تک وہ range میں نہیں ہے تب تک ہم اس کو untouchable کہتے ہیں۔

اس قسم کی باتیں میں نے کافی دیکھی ہیں۔ خود میرے ساتھ ایک واقعہ ہوا۔ ایک psychiatric ڈپریشن میں چلا گیا۔ وہ ایف آر سی پی کر رہا تھا، ایف آر سی پی Psychiatry میں کوئی سپیشلائزیشن ہوتی ہے۔ خیر وہ ڈپریشن میں چلا گیا، میرے پاس آیا، مجھے کہتا ہے شاہ صاحب میں رو سکتا ہوں؟ میں نے کہا: یہ تو آپ کا پیدائشی حق ہے، بالکل روئیں! مجھے اس پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا اس کے بعد اس نے مجھے اپنے دفتر کے، گھر کے اور دوسرے احوال بتائے۔

میں سمجھ گیا، میں نے اسے کہا: ڈاکٹر صاحب بات یہ ہے کہ آپ خود اس چیز کے ماہر ہیں، میں تو ماہر نہیں ہوں۔ میں آپ کو صرف ایک suggestion دوں گا، Think about it sometimes۔ negative چیزیں تو ہمہ وقت آپ کے سامنے ہیں جو آپ کو تکلیف اور نقصان دے رہی ہیں، کچھ چیزیں ایسی بھی ہوں گی جو آپ کو فائدہ پہنچا رہی ہوں گی۔ آپ ایک لسٹ بنا لیں اور positive چیزیں جو آپ کو فائدہ پہنچا رہی ہیں وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے اس لسٹ میں لکھیں۔

کہنے لگے: شاہ صاحب میں آپ کی بات تو نہیں سمجھ سکا لیکن آپ کے ہاں آ کر مجھے سکون ہوا ہے اگر آپ اجازت دیں تو کبھی کبھی آ جایا کروں؟

میں نے کہا: ٹھیک ہے تشریف لایا کریں۔

پھر وہ مہینے میں ایک دفعہ آیا کرتا، میں اپنے ساتھ اسے واک پہ لے جایا کرتا تھا۔ اس طرح تقریباً اس کے پانچ چھ وزٹ ہو گئے، گویا پانچ چھ مہینے گزر گئے۔ آخری وزٹ پہ اس نے مجھے کہا: شاہ صاحب میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں۔ میں نے کہا: اب ان شاء اللہ آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ واقعی ایسا ہی ہوا۔ اگلی دفعہ جب آیا تو کہتا ہے کہ میں اسی فیصد تک نارمل ہو گیا ہوں، اب صرف Mode stabilizer پر ہوں۔ میں نے کہا: مبارک ہو اللہ تعالیٰ آپ کو مزید صحت عطا فرما دے۔

انہوں نے مجھے کہا: آپ ہمارے کالج آئیں اور اس پر لیکچر دیں ہے، آپ کے پاس بہت نالج ہے۔

میں نے کہا: میں ہرگز لیکچر نہیں دوں گا، کیونکہ آپ کو مسئلہ تھا آپ میرے پاس آئے آپ کا مسئلہ حل ہوا تو آپ کو قدر بھی آئی۔ جن لوگوں کو مسئلہ ہی نہیں وہ میری بات کیوں سنیں گے؟ وہ کہیں گے بھائی تم ڈاکٹر نہیں ہو، انجینئر ہو اپنی انجنیرنگ کرو ہمیں ڈاکٹری کیوں سناتے ہو۔ اگر وہ مجھے ایسا کہیں گے تو ان کی بات صحیح ہو گی۔ میں کیوں خواہ مخواہ ان کے سامنے اپنی ہیئت کذائی کر لوں۔ اس لئے میں ان کو تو نہیں پڑھاؤں گا، البتہ آپ کو پڑھا سکتا ہوں آپ وہاں جا کر انہیں پڑھا دینا۔

پھر کہنے لگے: اچھا ٹھیک ہے۔ لیکن آپ میرے ٹیچر کے ساتھ ضرور ملیں۔

میں نے کہا: ان کے ساتھ ضرور مل سکتا ہوں۔

ان کے ٹیچر سے ملاقات ہوئی اور کافی لمبی گفتگو ہوئی۔ وہ ٹیچر بھی convince ہو گئے۔ کہتے ہیں میں مانتا ہوں کہ تصوف بڑی پاور فل چیز ہے۔

بہرحال ان سب چیزوں کو آپ بطور ایک فن کے اور ایک تعلیم کے لے سکتے ہیں، ان کا مطالعہ کر سکتے ہیں ان کو سیکھ سکتے ہیں، مگر ان کا تعلق روحانیت اور مذہب کے ساتھ نہ جوڑیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال نمبر2:

السلام علیکم، حضرت جی آپ نے فرمایا تھا کہ استخارہ کی مسنون دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے اور دعائیں کرتے وقت نفسیاتی طور پر کسی ایک طرف جھکاؤ نہیں ہونا چاہیے۔

اگر کوئی فیصلہ کرنا ہو، وقت کم ہو لیکن اگر دل میں کسی بات کے بارے میں کچھ آ رہا ہو تو اکثر دعائیں پڑھنے کے بعد بھی اس طرف ذہن جاتا رہتا ہے، ذہن ایک بات پر فوکس نہیں ہوتا، ایسے میں کیا کیا جائے۔ مجھے یہ پتا ہے کہ میں بالکل سمجھدار نہیں ہوں، لیکن ہر چھوٹی چھوٹی بات پر آپ سے مشورہ کرنے لگوں تو یہ بھی مناسب نہیں کہ بار بار آپ کو تکلیف دوں۔ فوراً کوئی فیصلہ کرنا ہو تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی۔ نفسیات سے الگ ہو کر کیسے استخارہ ہو سکتا ہے؟

جواب:

نفسیات سے الگ ہو کر فیصلہ کرنے کا تو میں نے نہیں کہا تھا۔

استخارہ سے مراد یہ ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ آپ کے دل پر بھیجے اسے آپ کا نفس متاثر نہ کرے یا آپ کا کوئی خیال متاثر نہ کر ے، وہ صرف اور صرف وہی چیز ہو جو استخارہ سے آپ کے دل میں آئی ہو۔

استخارہ میں اللہ پاک سے مانگنا ہوتا ہے اور اس میں یہی بات اصل ہوتی ہے کہ چونکہ ہمیں اللہ سے مانگنا ہے اس لئے مانگنے میں جتنا اخلاص ہو گا اللہ تعالیٰ کی طرف جتنی توجہ ہو گی، اللہ کی طرف سے اتنی مدد آئے گی۔ اس لئے آپ دل سے مانگیں اور اس چیز کو بھی ذہن میں رکھیں کہ یا اللہ! میں کچھ بھی نہیں جانتی، جو بھی تیری طرف سے ہو اس کی طرف میری رہنمائی فرما دے اور مجھے اس میں کسی شک یا کسی غلطی کے حوالے نہ کرنا۔ استخارہ کے ساتھ یہ دعا بھی پڑھ لیں تو ان شاء اللہ امید ہے کامیابی ہو جائے گی۔ ”یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِی شَانِیْ کُلَّہ وَ لَا تَکِلْنِی اِلیٰ نَفْسِیْ طَرْفَةَ عَیْن“ جو دعا آپ نے پڑھی ہے یہ بھی اچھی ہے ”اللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَهٗ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَه“۔

سوال نمبر3:

جب تک ہم نفس اور شیطان کے اثر میں ہیں، قلب، نفس اور عقل کی اصلاح نہیں ہوئی تو صحیح طور سے رجوع الی اللہ کیسے ممکن ہے؟

جواب:

عاجزی کے ساتھ ممکن ہے۔ آدمی کہہ دے یا اللہ! مجھے تو کچھ بھی نہیں آتا، رونا شروع کر دے اور اللہ تعالیٰ سے مانگے تو اللہ تعالیٰ ضرور سیدھا راستہ دکھاتے ہیں۔

سوال نمبر4:

حضرت جی السلام علیکم۔ میرے سوالات خیال کے متعلق ہیں۔ کیا خیال دل میں آتا ہے یا دماغ میں، کیا خیالات اندر سے پیدا ہوتے ہیں یا باہر سے کوئی الہام کرتا ہے، برے خیالات کہاں سے آتے ہیں اور اچھے خیالات کہاں سے آتے ہیں، برے خیالات سے کیسے بچیں رہنمائی فرمائیں؟ جزاک اللہ۔

جواب:

ان سب چیزوں پر ہم اپنی کتاب فہم التصوف میں بحث کر چکے ہیں۔ اس کا پورا ایک chapter اس موضوع پر ہے، جس کا نام ”باب الخواطر“ ہے۔ خواطر خیالات کو کہتے ہیں۔ میں کچھ دیر پہلے اسی باب کو دیکھ رہا تھا۔ اس کا کچھ حصہ سنا دیتا ہوں۔ فہم التصوف کے صفحہ نمبر 342 پر خواطر کے عنوان کے تحت لکھا ہے:

”کسی بندے کے دل میں جو خیال آتا ہے اسے خاطر کہتے ہیں وہ کبھی خیر ہوتا ہے کبھی شر ہوتا ہے، خیر کا خیال کبھی من جانب اللہ ہوتا ہے کبھی فرشتے کی جانب سے ہوتا ہے، جس کا نام ملہم ہے اور کبھی شیطان کی جانب سے بھی ہوتا ہے۔ شر کا خیال شیطان کی طرف سے یا نفس کی طرف سے اور کبھی کبھی حکمتاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو خیر ہوتی ہے وہ اکراماً ہوتی ہے یا اتمام حجت کے لئے ہوتی ہے اور جو شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے وہ امتحاناً ہوتا ہے اور محنت میں ڈالنے کے لئے ہوتا ہے۔ ملہم کی طرف سے ہمیشہ خیر ہی دل پر وارد ہوتی ہے، کیونکہ اس کا کام ہی یہی ہے، یہ مرشد ناصح کی طرف سے ہوتا ہے اور جیسے شیطان انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے اس طرح ملہم بھی انسان کے ساتھ ہوتا ہے، یعنی ایک شیطانی چینل اور ایک رحمانی چینل“۔

میں اکثر کہتا ہوں شیطان کی طرف سے جو خیر ہوتی ہے وہ مکر و استدراج ہوتا ہے یہ صورتاً تو خیر نظر آتا ہے لیکن اس کے اندر شر چھپا ہوتا ہے، مثلاً کسی اعلیٰ خیر کو روکنے کے لئے کسی جھوٹی خیر میں مبتلا کرنا۔ اور جو شر ہوتا ہے وہ اغوا کرنے کے لئے یا ذلیل کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ نفس کی طرف سے جو شر ہوتا ہے وہ بے راہ روی کے لئے یا راہ حق کے مجاہدات سے بچنے کے لئے ہوتا ہے اس میں بہت کم خیر ہوتی ہے۔ نفس کی بات جس کو ہم حدیث نفس کہتے ہیں وہ بھی تو خیال ہی ہوتا ہے، حدیث نفس میں یہی ہوتا ہے کہ نفس کی خواہشات سامنے آتی ہیں، اسی طرف انسان کا ذہن جاتا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ دل میں خیال آتا ہے اور دماغ سے ہم اس کا analysis کرتے ہیں۔ خیالات کی دنیا بھی ایک دنیا ہے اور اس کے ذریعے سے اچھے کام بھی ہو سکتے ہیں اور غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں۔

سوال نمبر5:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت اقدس کی خدمت میں دو سوال عرض ہیں۔

1: بعض دفعہ نا سمجھی میں اگر اپنے شیخ کے مزاج یا تصوف کے اصول کے خلاف کوئی کام ہو جائے اور خواب میں اس کی تنبیہ ہو جائے تو کیا پھر بھی اس غلطی کا بیان کرنا ضروری ہے؟

جواب:

شیخ کو وہ ساری باتیں بتانی ضروری ہوتی ہیں جو اصلاح سے متعلق ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے خواب سے جو مطلب لیا ہے وہ صحیح ہے یا غلط، اس کا پتا آپ نہیں لگا سکتے، اس کی نشاندہی شیخ ہی کر سکتا ہے۔ کہتے ہیں: ”رَاْیُ الْعَلِیْلِ عَلِیْلٌ“ بیمار کی رائے بھی بیمار ہوتی ہے۔ لہذا عین ممکن ہے کہ نفس کے چنگل میں پھنسا ہوا آدمی خواب کی تعبیر بھی نفس کے مطابق ہی لے لے۔ اس وجہ سے شیخ کو بتانا ضروری ہے۔ عین ممکن ہے کہ شیخ وہی بات کر لے جو آپ سمجھ رہے ہوں اس سے تائید ہو جائے گی اور اگر تائید نہ ہوئی تو کوئی تبدیلی تبدیلی ہو جائے گی، دونوں صورتوں میں آپ کا فائدہ ہے، بہرحال بتانا چاہیے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب میں ٹھیک ہو جاؤں گا پھر شیخ کو بتاؤں گا۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے اور بہت عام غلطی ہے۔ میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ یہی کام آپ جسمانی بیماری میں بھی کیا کریں، ڈاکٹر کے پاس تب جایا کریں جب آپ کی بیماری ٹھیک ہو جائے، پھر ان کو سمجھ آتی ہے کہ وہ کیا غلطی کر رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ گناہ ہو گیا، توبہ بھی ہو گئی اور اس گناہ سے حفاظت بھی ہو گئی۔ کیا اب شیخ کو بتانا چاہیے یا نہیں بتانا چاہیے۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ بتانا چاہیے۔ اس کی وجہ ہے کہ توبہ سے وہ گناہ تو معاف ہو گیا لیکن اس کے اثرات آپ کے اوپر ہو سکتے ہیں۔ آپ یہ بات نہیں معلوم کر سکتے کہ آپ پر اثرات ہیں یا نہیں، لیکن شیخ کو پتا چل سکتا ہے، وہ آپ کو بتائے گا کہ آپ کے اوپر اس گناہ کے اثرات ہیں یا نہیں اور اس کے مطابق آپ کو آگے چلائے گا۔

آرمی اور ائیر فورس جوائن کرنے والے لوگوں کا میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے ڈاکٹر ان کی میڈیکل ہسٹری دیکھتے ہیں اور ریکارڈ رکھ لیتے ہیں، بعد میں ان کی جوائننگ اسی حساب کی جاتی ہے۔ ان لوگوں کو اپنا پچھلا ریکارڈ بتانا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح روحانی علاج کی بات ہے کہ اس میں ہر وہ چیز شیخ کو بتانا ہوتی ہے جس کا تعلق اصلاح کے ساتھ ہو۔

سوال نمبر6:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت والا مرشدی و مولائی کی خدمت اقدس میں رہنمائی و ہدایت کے لئے سوال عرض ہے۔ ایک صاحب اور ان کی اہلیہ کی طرف سے ایک سوال آیا۔ کہتے ہیں ہماری اور ہماری اہلیہ کی بیعت ایک عرب شیخ سے ہے جن کا تعلق شاذلی سلسلہ سے ہے۔ وہ بیرون ملک میں ہوتے ہیں کبھی کبھار ادھر آتے ہیں تو ان کی عمومی مجلس میں ہم شریک ہو جاتے ہیں۔ اہلیہ مستورات کی مجلس میں شریک ہوتی ہیں اور میں مسجد میں آ جاتا ہوں۔ سال میں ایک دو دفعہ ان کی زیارت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا، وٹس ایپ، ٹیکسٹ میسج، کال یا ایل میل وغیرہ کسی طریقے سے ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوتا۔ ان کا نمبر ہی نہیں دیا جاتا۔ البتہ کچھ حضرات ایک ویب سائٹ چلاتے ہیں وہ جوابات دیتے رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر ہم کسی اور سے رہنمائی لے لیں تو کیا یہ ہمارے شیخِ بیعت کی بے ادبی تو نہیں ہوگی۔

جواب:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ انتہائی نازک سوال ہے۔ جواب دینے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ میں تصوف کے چند Determined concepts کو سامنے رکھ کر اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

تصوف کس لئے ہے؟

میرے نزدیک تصوف اصلاح کے لئے ہے۔ اصلاح نفس، اصلاح قلب اور اصلاح عقل کے لئے تصوف سے کام لیا جاتا ہے۔ اصلاح ایک فن ہے، یہ محض برکت نہیں ہے۔ اگر محض برکت کی بات ہوتی تو دعا سے بڑی برکت والی اور کیا چیز ہوتی۔ پھر تو آدمی دعا کر کے فارغ ہو جائے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ صرف دعا سے اصلاح نہیں ہوتی، بلکہ اس میں کچھ اور چیزوں کی ضرورت ہے۔ اور وہ چیزیں ہیں شیخ کی رہنمائی میں علاج اور شیخ سے مسلسل رابطہ۔

عموماً ایسا ہوتا ہے کہ بعض مشائخ کا حلقہ کافی وسیع ہو جاتا ہے، اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ سال میں ایک دو دفعہ ہی ان سے ملاقات ہو سکتی ہے وہ بھی اجتماعی طور پر نہ کہ انفرادی ملاقات۔ اور اصلاح کے لئے اتنی ملاقات کافی نہیں ہے، اگر کافی ہے تو چلو پھر ڈاکٹری کی لائین میں ایسا کریں کہ کسی ڈاکٹر کے لیکچر میں سال میں ایک دو بار بیٹھ جایا کریں اس سے علاج ہو جائے گا۔ تو ایسا ممکن نہیں ہے۔

اب اس بات پہ کچھ غور کر لیتے ہیں کہ شیخِ بیعت کے ہوتے ہوئے کسی اور سے اصلاح کروانے میں پہلے شیخ کی بے ادبی تو نہیں؟ جہاں تک ادب کا تعلق ہے اس بارے میں یہ عرض ہے کہ شیخ کا ادب بھی ضروری ہے اور طریق کا ادب بھی ضروری ہے۔ کیونکہ طریق بنیادی اصلاح کے لئے ہے۔ اگر آپ طریق کا ادب کرتے ہیں تو اس میں یہ ہو گا کہ آپ کو اپنے شیخ کی غیر موجودگی میں کم از کم شیخ تعلیم تو ہر صورت میں چاہیے۔ جس کا آپ کے ساتھ رابطہ ہو سکتا ہو۔ اس میں اپنے شیخِ بیعت کا ادب اس طرح کر لیں کہ اگر شیخ تعلیم سے فائدہ ہو رہا ہے تو اس کو اپنے شیخ کا فیض سمجھیں اور سمجھیں کہ اللہ پاک نے اس شیخ کی برکت سے مجھے یہ موقع عطا فرما دیا ہے کہ مجھے شیخ تعلیم مل گیا اور میری اس کے ذریعے اصلاح ہو رہی ہے۔ اگر یہ نیت ہو تو کسی اور سے اصلاح کروانے میں اپنے شیخ تعلیم کی بے ادبی نہیں ہو گی آپ اپنے پرانے شیخ سے لاتعلق بھی نہیں ہوں گے اور آپ کا علاج بھی ہو جائے گا۔

بیعت ضروریات اصلاح میں سے نہیں ہے بلکہ برکات اصلاح میں سے ہے۔ اس صورت میں بیعت نہ کرے لیکن شیخ تعلیم کے ساتھ ایسے ہی تعلق رکھے جیسے بیعت والے شیخ کے ساتھ کیا جاتا ہے، کیونکہ اس وقت وہ آپ کے لئے شیخ تعلیم ہے۔ شیخ تعلیم ایک ہی ہوتا ہے اس لئے کئی لوگوں کے ساتھ تربیت کا تعلق نہ رکھے۔ اس میں یہ بات دیکھے کہ جن سے رابطہ ہو سکتا ہو جن سے فائدہ ہو سکتا ہو ان سے ایسے ہی رابطہ رکھے جیسے اپنے شیخ کے ساتھ رکھتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اپنے پرانے شیخ کے ساتھ عقیدت کا تعلق برقرار رکھے، محبت کا تعلق برقرار رکھے ان کے لئے دعائیں کرتا رہے اور دعائیں لیتا رہے، تربیت شیخ تعلیم سے کرواتا رہے۔ اگر یہ طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس میں نہ کوئی بے ادبی ہے نہ کوئی خیانت ہے۔ خیانت اس لئے نہیں ہوئی کہ آپ نے اپنی ضرورت کے مطابق کام کیا ہے، کیونکہ آپ کی ضرورت ہے مجبوری ہے، اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو جس مقصد کے لئے آپ نے بیعت کی تھی وہ مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ یہ دو باتیں ذہن میں رکھے تو بات سمجھ میں آ جائے گی ان شاء اللہ۔

سوال نمبر7:

اگر کسی اور اللہ والے شیخ سے رہنمائی لے تو کیا اپنے پہلے شیخ کو اطلاع دینی پڑے گی کہ ہم نے ایسا کیا یا نئی بیعت کئے بغیر بھی کسی سے رہنمائی لے سکتے ہیں؟

جواب:

بتانا اس وقت مفید ہو گا جب پہلا شیخ اس دوسرے شیخِ تعلیم کو جانتا ہو گا، اگر نہ جانتا ہو تو پھر بتانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس سے خواہ مخواہ کا تردد ہو گا۔ آپ شیخِ تعلیم سے اپنی اصلاح کرواتے رہیں اور اپنے شیخ کے ساتھ عقیدت بھی برقرار رکھیں۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا نہ خیانت ہے نہ بے ادبی ہے اور نہ ضرورت سے غفلت ہے۔ تینوں باتیں ایک ہی جگہ اکٹھی ہو جائیں گی۔

سوال نمبر8:

السلام علیکم۔ میرا سوال سلوک سے متعلق ہے۔ سلوک میں اپنے مختلف احوال مختلف موقعوں پر مربی کو بتانے کے بعد سالک نے دیکھا کہ وہ جن احوال کو اچھا سمجھتا تھا ان پر ڈانٹ پڑی ہے اور جن کو برا سمجھتا ہو ان پہ تسلی ملی ہے۔ اس سے سالک اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرا اچھے اور برے کا تعین کرنے کا پیمانہ خراب ہے۔ اس سے سالک کا اپنی عقل اور سمجھ پر سے اعتماد اٹھ گیا اب اس کو شیطان اور اپنے نفس سے خطرہ محسوس ہونے لگا کہ یہ دونوں خراب ہیں میں ان کے پاس رہ کر کہیں محروم نہ رہ جاؤں اس حالت میں دل فوراً مربی کی طرف بھاگتا ہے کہ وہی ذریعہ ہیں اللہ کی طرف رہنمائی اور تحفظ کا، تو اللہ کے فضل و کرم سے مربی کی رہنمائی کے سایہ میں خود کو محفوظ پاتا ہے کہ میری حالت کتنی ہی بگڑی ہو مگر مربی مجھے اکیلا نہیں چھوڑے گا بلکہ ان شاء اللہ ایک نہ ایک دن مجھے اس حالت تک پہنچا ہی آئے گا جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔

جیسے ایک بزرگ نے اپنے مرید کے امتحان کے لئے اس کے اوپر کوڑا پھینکوایا تھا پہلی بار اس کا رد عمل ویسا نہیں تھا جیسا ہونا چاہیے تھا، لیکن اس کے شیخ نے اسے اس حالت پر چھوڑا نہیں بلکہ اس مقام پر پہنچایا جس پر اسے پہنچنا تھا۔ اس طرح سالک کو بالکل تسلی ہو جاتی ہے اور وہ اپنا سب کچھ اپنے مربی کے حوالہ کرتا ہے۔ اس حالت پر میرے ذہن میں یہ سوال ہے کہ سب کچھ مربی کے حوالے کر دینا کیا درست ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مربی پہ سب کچھ اس لئے چھوڑ رہا ہے کہ اپنی ذمہ داری سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! بڑا تکنیکی سوال ہے۔ اصل میں یہاں دو چیزیں ہیں دونوں کو درست طریقے سے سمجھنا اور عمل کرنا ہوگا۔ جو کام سالک نے خود کرنا ہے وہ شیخ پہ نہ چھوڑے اور جو شیخ کا ہے وہ خود نہ کرے۔ اس پہ غور کرنے سے ساری بات سمجھ میں آ جائے گی۔ یہ بالکل ایسی بات ہے کہ آپ سبب اختیار کر لیں اور مسبب الاسباب سے مانگیں، کیونکہ سبب میں جان ڈالنے والا اللہ ہے اور اس کا حکم ہے کہ اسباب اختیار کرو۔ اس لئے سبب خود اختیار کریں، اور دعا اللہ سے مانگیں۔ نہ تو اللہ کا حکم ٹوٹے اور نہ ہی اللہ پاک سے غفلت ہو۔ یہ دونوں کام ہونے چاہئیں۔

اگر کسی کو مربی پر اتنا اعتماد ہو گیا ہے کہ وہ سوچتا ہے میں سب کچھ اب مربی کے حوالے کرتا ہوں تو الحمد اللہ یہ بڑی دولت ہے۔ تجربہ یہ کہتا ہے کہ جس سالک کو جتنا زیادہ اعتماد مربی پہ ہو گا اس کی اصلاح اتنی جلدی ہوگی۔ علاج بتانا مربی کا کام ہے اسے مکمل طور پر مربی کے حوالہ کر دے اور اس علاج پر عمل کرنا خود سالک کی ذمہ داری ہے، اس لئے اپنی ذمہ داری سے ذرا بھی غافل نہ ہو۔ اس طریقے پر عمل کرے تو ان شاء اللہ خیر ہی خیر ہے۔

سوال نمبر9:

السلام علیکم حضرت! چھوٹے بیٹے کے پاس زیادہ دیر بیٹھوں یا رات کو اسے سلانے لگوں تو مجھے اچانک غصہ آ جاتا ہے۔ رات بھی ایسا ہوا تھا۔ جب اسے سلا رہا تھا تو اچانک غصہ آیا، میں نے اس کو غصہ میں آ کے مارا جس پہ بعد میں مجھے ندامت و افسوس اور دکھ ہوا، میں نے تہجد میں صلوۃ التوبہ پڑھ لی تھی اور کافی دیر تک استغفار بھی کیا لیکن دل ابھی تک بوجھل اور نادم ہے۔ میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اللہ پاک آپ کو عقل نصیب فرما دے یہ عقل کی کمی کی بات ہے۔ آپ کے مارنے سے اس کو کیا فائدہ ہوا؟ اگر کوئی فائدہ ہوا ہے پھر تو آپ کا مارنا ٹھیک ہو سکتا ہے، لیکن اگر کوئی فائدہ نہیں ہوا تو آپ نے غلط بات کی ہے۔ بہرحال جس غلطی سے تجربہ حاصل ہو اور آئندہ کے لئے وہ نہ دہرائی جائے تو وہ غلطی غلطی نہیں رہتی۔ اب آپ اس سے تجربہ حاصل کر لیں اور آئندہ کے لئے دھیان رکھیں کہ جس کام کا فائدہ نہ ہو اسے نہ کریں۔

سوال نمبر10:

السلام علیکم میرے عزیز و محترم مرشدی دامت برکاتھم! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں ان شاء اللہ۔ حضرت ایک دو دن سے مجھے نور کے چھوٹے چھوٹے flashes نظر آنا شروع ہو گئے ہیں کبھی لال رنگ کے، کبھی سفید رنگ کے اور کبھی نیلا رنگ کے بھی نظر آتے ہیں۔

جواب:

ان چیزوں کی طرف توجہ نہ دیا کریں یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔

سوال نمبر11:

حضرت جی آپ کا ایک ملفوظ پڑھا جس میں آپ نے لکھا ہے کہ انسان کے اندر ایک indication ہوتا ہے جب آدمی سے غلط بات ہو جائے تو اس کے لطائف پھڑکنے لگتے ہیں۔ حضرت جی میرے ساتھ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جب غصہ آئے یا کوئی اور بات ہو جائے تو لگتا ہے کوئی چیز ہے جو میرے اندر کافی زور زور سے ہلنے لگ گئی ہے جیسے دل کی دھڑکن ایک دم سے تیز ہو جاتی ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

یہ اصل میں ایک physical چیز ہے یہ روحانی چیز نہیں ہے۔ جب انسان غصہ میں ہوتا ہے تو اس کا دل تیزی سے دھڑکتا ہے اور خون بھی جوش مارنے لگتا ہے چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ اس حالت کا spiritualism کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ غصہ میں یہ آثار ایک کافر کو بھی پیش آتے ہیں اور مسلمان کو بھی اسی طرح پیش آتے ہیں۔ سب کے ساتھ یہ معاملہ ایک طرح ہی ہے۔

جو بات میں نے کی ہے وہ یہ تھی کہ بعض لوگوں کے لطائف بالکل باریک ہوتے ہیں محسوس نہیں ہوتے لیکن جس وقت کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو غلطی کی وجہ سے وہ تھوڑی دیر کے لئے کثیف ہو جاتے ہیں اور محسوس ہونے لگتے ہیں۔

سوال نمبر12:

کسی نے سوال کیا: حضرت معمولات کرنے کو دل نہیں چاہتا، ذکر بھی جلدی میں کرتا ہوں، نماز بھی بس ایسے ہی پڑھتا ہوں۔ بالکل دل نہیں لگ رہا حالانکہ میں دو مہینے فری بھی ہوں۔

اس پر میں نے جواب دیا کہ میرا آپ کو جواب دینے کو دل نہیں کرتا۔ دل نہیں چاہتا کہ آپ کو جواب دوں۔ آپ بتائیں کیا کروں؟

اس پر ان کا جواب آیا: حضرت معاف کر دیجئے اب سے ان شاء اللہ پوری کوشش کروں گا۔

جواب:

اللہ کا شکر ہے کہ انہیں عقل تو آ گئی، اب اسے maintain رکھنا ہے ایسا نہ ہو کہ پھر کبھی آپ کی عقل یہی بات سوچنے لگ جائے، اور آپ کے سب اعمال صفر سے ضرب ہو جائے۔ یہ بات انسان کو سمجھنی چاہیے کہ جو چیزیں انسان کو دوائی کے طور پہ دی جاتی ہیں انہیں کھانا خود ہوتا ہے۔ ڈاکٹر آپ کے لئے دوائی نہیں کھا سکتا اور کوئی دوائی نہیں کھا سکتا وہ آپ نے خود کھانی ہے۔ انسان کو اس سلسلے میں عقل سے کام لینا ہوتا ہے۔ عقل کی بات یہ ہے کہ فائدہ و نقصان اپنا ہے۔ ایک آدمی اپنی خیر نہیں چاہتا تو اس کے ساتھ کیا کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے ڈاکٹر عمر صاحب ذرا جذباتی ہیں۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ اگر آپ کے پاس ایسا مریض آئے جس نے دوائی نہ کھائی ہو تو انہوں نے کہا کہ میں اسے ایک کلو مٹھائی دوں گا کہ جاؤ شوق سے یہ کھاؤ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کی بات بالکل صحیح ہے۔ اب ایسے آدمی کے ساتھ کیا کیا جا سکتا ہے جو خود اپنا علاج نہیں کرنا چاہتا۔ یہ میری ایک statement ہے کہ جو خود کشی کرنا چاہتا ہے اس کو نہیں بچایا جا سکتا۔ اس کے ساتھ آپ کیا کریں گے کب تک پکڑیں گے جب بھی اسے موقعہ ملے گا وہ اپنے آپ کو مار دے گا۔ انسان کو ان چیزوں میں عقل سے کام لینا چاہیے۔

سوال نمبر13:

ایک صاحب نے مجھے کچھ آڈیوز بھیجی ہیں جن میں سے ایک آڈیو میں یہ بات کی ہے کہ آج کل کچھ لوگ ایسے ہیں جو لیڈیز کو یا گھر کے کسی فرد کو ٹیلی فون کر کے کہتے ہیں کہ ہم آرمی کی طرف سے بات کر رہے ہیں، آپ سے کچھ معلومات لینی ہیں۔ معلومات کے نام پہ آپ سے پوری انفارمیشن لے لیتے ہیں پھر وہ معلومات ڈاکوؤں کے پاس چلی جاتی ہیں جس کی بنا پر ان کے لئے ڈاکہ ڈالنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی انفارمیشن بالکل کسی کو بھی نہ دیا کریں چاہے وہ کوئی بھی ہو ان کو کہہ دیں کہ قانوناً یہ درست ہی نہیں ہے، آپ مجھ سے ٹیلی فون پر یہ معلومات حاصل ہی نہیں کر سکتے۔

جواب:

یہ بات صحیح ہے۔ اس طرح فون پر اپنی معلومات کسی کو نہیں دینی چاہئیں، اگر کوئی مانگے تو کہہ دیں کہ میرے پاس آؤ، اپنی شناخت کراؤ تو ہم آپ کو معلومات دے دیں گے، بغیر شناخت کے کسی کو اپنی معلومات دینے سے نقصان کا خطرہ ہے۔

سوال نمبر14:

حضرت جی گھر کے اندر مسائل کی تعلیم اور فضائل کی تعلیم دونوں ساتھ ساتھ چلتی رہنی چاہئیں؟

جواب:

فضائل کی تعلیم تو خیر جاری رہنی چاہیے، مسائل کی تعلیم دو طریقے سے ہو سکتی ہے۔ یا تو ہفتہ میں کوئی ایک دن مختص کر لیں۔ اس دن ذرا تفصیل سے تعلیم ہو۔ کیونکہ مسائل میں پورا سمجھانا ہوتا ہے۔ مسائل میں ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہوتا کہ آج ایک بات سمجھائی، کل دوسری، پرسوں تیسری، اس سے نقصان کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے ہفتہ میں ایک دن مختص کریں، اور اس وقت میں پورا مسئلہ سمجھا دیں۔ اس طریقہ پر عمل کریں تو امید ہے فائدہ ہوگا

سوال نمبر15:

حضرت جی! کسی کو کوئی عہد و منصبت سپرد کرنے کے لئے کیا چیز دیکھنی چاہیے، اہلیت یا دین داری؟ مثلاً کسی فوج کا سپہ سالار بے دین بھی ہے لیکن اہل ہے تو وہ اس دوسرے دین دار سے تو بہتر ہو گا جس میں اہلیت نہیں ہے، کیونکہ کم از کم اس میں اُس کام کی اہلیت تو ہے۔

جواب:

اس کا انحصار کام کی نوعیت پہ ہے، کام کو دیکھ کر اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ اس کام کے لئے اہلیت کو ترجیح دی جائے یا دینداری کو۔ اگر کوئی ڈاکٹر ہے یا انجینئر ہے یا ڈرائیور ہے اس کو رکھتے ہوئے تو آپ اہلیت کو ترجیح دیں گے۔ لیکن اگر وہ ملک کا فیصلہ کرنے والا ہے تو اتنی بڑی چیز آپ ایک بے دین آدمی کے سپرد نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا کریں گے تو خطرہ ہے کہ وہ آپ کے سارے ملک کو بے دینوں کے حوالے کر دے گا۔ یہاں وہ اصول نہیں چلے گا۔ اس لئے ایسے معاملہ میں دینداروں کو چننا چاہیے۔ اگر سارے بے دین ہوں تو ان میں جو سب سے کم بے دین ہے اس کو چن لیں۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہودی ایجنٹ کو تو Out of course کر لیں، اسے تو بالکل ووٹ نہیں دینا چاہیے۔ باقیوں میں دیکھ لیں کہ کون ایسا ہے جس میں سب سے کم خرابی ہے، اس کو ووٹ دے دیں۔

سوال نمبر16:

حضرت جو لوگ Psychologically disturbed ہوتے ہیں imbalanced ہوتے ہیں ان کو مشائخ کی طرف refer کر سکتے ہیں؟

جواب:

جی ہاں! ایسے لوگوں کو مشائخ کے پاس لے جا سکتے ہیں لیکن صرف ان مشائخ کی طرف جو ان چیزوں کو جانتے ہوں اور ان کے بارے میں کافی حد تک معلومات رکھتے ہوں اور فرق کر سکتے ہوں کہ ان کا مسئلہ نفسیاتی ہے یا کوئی اور ہے۔

سوال نمبر17:

حضرت کسی کو چلانے کے لئے آپ کا بنیادی ذکر یہ بتائے بغیر دیا جا سکتا ہے کہ یہ ذکر حضرت شبیر احمد صاحب کا بتایا ہوا ہے؟

جواب:

دیکھیں میں نے یہ اجازت سب کو دی ہے صرف آپ کو نہیں۔ سب کو بتا رہا ہوں کہ ہمارا ابتدائی معمول چالیس دن والا جس کو دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔ کوئی ہماری ویب سائٹ پڑھ کر خود شروع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس میں کوئی نقصان والی بات نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے بنیاد بنتی ہے اور بن کر مضبوط ہوتی ہے۔ اگر کسی نے اس ذکر کے ذریعے اپنی بنیاد بنا لی اور کسی شیخ سے اپنی اصلاح کروا لی تو ہمیں اس پہ کیا اعتراض ہے! ہمیں اس پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مقصد تو اس کی بنیاد بنانا ہے، بنیاد بن گئی اور ہمارے پاس ہی آ گیا تو ٹھیک ہے ہم بھی خدمت کر لیں گے، اگر کسی اور کے پاس چلا گیا تو بھی ٹھیک ہے، وہاں سے اس کی اصلاح ہو جائے گی۔ لہٰذا یہ ذکر کوئی بھی کر سکتا ہے اور آگے کسی کو بھی دے سکتا ہے اور یہ ذکر مردوں اور اور خواتین دونوں میں برابر ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن