سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 374

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

أَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1 :

حضرت! حاجی عبدالمنان صاحب مدظلہ نے فرمایا تھا کہ فرض حج کو ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کے بعد نفلی حج جتنے بھی کر لئے جائیں ان کا اجر فرض حج کو نہیں پہنچ سکتا۔تب سے میرے ذہن میں یہ سوال تھا کہ حج ضائع کیسے ہوتا ہے اور کون سے اعمال حج کو ضائع کرنے کا سبب بنتے ہیں؟ اس حوالے سے میں نے اپنے احوال حضرت جی کو پرسنل نمبر پر حج سے واپس آنے پر بھیجے تھے جو درج ذیل ہیں:

السلام علیکم حضرت جی!اپنی ایک غلطی بتانی ہے اور ایک سوال پوچھنا ہے ۔میں نے غلطی یہ کی کہ مدینہ منورہ میں میرے میاں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ماں بہنوں کے لئے کیا تحائف لے جائیں تو میں نے وہاں ان کے ساتھ تین چار بار شاپنگ کی لیکن واپس آنے کے لئے ایئر پورٹ پر پہنچی تو بہت افسوس ہوا کہ میں نے قیمتی وقت ضائع کر دیا۔ شاپنگ کی بجائے سلام عرض کر لیتی تو بہت اچھا تھا۔اپنی اس بے وفائی پر توبہ و استغفار کیا لیکن حضوری کی جو کیفیات حج کے بعد حاصل ہوئی تھیں وہ کھو گئیں۔ آئندہ کے لئے یہ طے کیا کہ پھرجانا ہوا تو رشتہ داروں کے لئے چیزیں لینے کی بجائے ان کی طرف سے صدقہ کر دیں گےجو ان کو آخرت میں گفٹ کی صورت میں مل جائے۔

جواب:

یہ بالکل ٹھیک ہے ماشاء اللہ ۔بعض لوگوں کو ذرا جلدی پتا چل جاتا ہے بعض کو ذرا دیرسے پتا چلتا ہے لیکن یہ بات بالکل صحیح ہے کہ وہ بہت اونچی جگہیں ہیں، وہاں وقت کو بالکل ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ آج کل (اللہ معاف فرمائے) لوگوں نے اس مبارک سفر کو پکنک بنا لیا ہے اور حکومتیں بھی ان کو سیاحت یعنی tourism کی طرف لے جا رہی ہیں ۔ اس کو باقاعدہ حج ٹورز کہا جاتا ہے۔ یہ ٹورز نہیں ہے، یہ تو ایک فریضہ ہےاس لئے اس کی ادائیگی کوٹور کا نام دینا تو بہت غلط حرکت اور گستاخی ہے۔ لیکن لوگ اس بات کو اہمیت نہیں دیتے۔ وہاں کے تحائف میں سب سے بہترین چیز مدینہ منورہ کی کجھوراور مکہ مکرمہ کے زم زم کا پانی ہے، وہاں کا اس سے بڑا تحفہ کسی کو نہیں دیا جا سکتا ، اگر اس تحفہ پہ راضی نہیں ہوتا تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ تحفے کے طور پر دوسری چیزیں خریدنا خواہ مخواہ کی سردردی ہے جس میں انسان خواہ مخواہ نقصان اٹھاتا ہے۔

سوال نمبر2:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی! میرا نام محمد راشد ہے اور میں اسلام آباد سے بات کر رہا ہوں۔ حضرت جی! آپ نے مجھے ذکر دیا تھا 200 مرتبہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ، 400 مرتبہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوْ، 400 مرتبہ حق، اور 100 مرتبہ اللّٰہ۔ اس ذکر کو کرتے ہوئے میرا مہینہ مکمل ہونے والا ہے۔ برائے کرم اب مجھے بتا دیں کہ اس کے بعد میں نے کیا ذکر کرنا ہے؟ کتنا کرنا ہے اور کتنے عرصے کے لئے کرنا ہے؟ جزاک اللہ حضرت جی ۔

جواب:

اب 200 مرتبہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ ، 400 مرتبہ مرتبہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوْ،600 مرتبہ حق اور 100 مرتبہ اللّٰہ کر لیا کریں۔

سوال نمبر3:

السلام علیکم اس بات میں تھوڑی بہت وضاحت فرما دیجئے کہ مسنون ذکر 100 مرتبہ سوم کلمہ، 100 مرتبہ درود شریف، 100 مرتبہ استغفار ۔اس میں درود ابراہیمی ضروری ہے یا وقت کی کمی کے باعث کوئی شارٹ درود پڑھا جا سکتا ہے؟ اور کیا استغفار پورا پڑھنے میں صرف استغفر اللہ کافی ہے؟

جواب:

درود شریف کے بارے میں تو میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ کوئی مختصر درود جو مستند ہو جیسے "صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ الأُمِّیِّ" تویہ بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ استغفار میں مختصر استغفار" اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّی مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ "ہے، اس کو پڑھا جا سکتا ہے اور کلمہ سوم تو ایک ہی ہے اس لئے تو اس میں کوئی اشتباہ نہیں ہے۔ 

سوال نمبر4:

السلام علیکم شاہ صاحب! اللہ آپ کو صحت اور ایمان کی دولت عطا فرمائے بلکہ اس میں اضافہ فرمائے۔ میں نے اللہ کے کرم اور آپ کی رہنمائی سے نیچے دیا ہوا ذکر مکمل کر لیا ہے، آگے رہنمائی کی درخواست ہے۔ 200 مرتبہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ ، 400 دفعہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوْ ، 600 دفعہ حَق اور 1200 دفعہ اللّٰہ جہری طور پر۔ والسلام۔ 

جواب:

اب 200 دفعہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ ، 200 دفعہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوْ ، 200 دفعہ حق اور 2000 ہزار مرتبہ اللّٰہ جہری طور پر کر لیں۔

سوال نمبر5:

السلام علیکم حضرت! جزاکم اللہ خیراً کثیرا۔ اللہ پاک آپ سے راضی ہو۔ اس دفعہ کی مجلس سوال جواب میں الحمد للہ آپ کے جواب کو سن کر مجھے خوف و رجا کے درمیان اعتدال تھوڑا تھوڑا سمجھ آنا شروع ہو گیا ہے۔ مجھے اعتدال کا بہت مسئلہ ہے، اللہ پاک مجھے معاف فرمائے اور میری اصلاح فرمائے، آمین ثم آمین۔ 

جواب:

اللہ کا شکر ہے کہ آپ کو یہ بات سمجھ آ گئی۔ کیونکہ اعتدال کے ساتھ ہی سب چیزیں فائدہ دیتی ہیں۔ جیسے میں اکثر کہا کرتا ہوں تربیت دل کی حالت ،نفس کی حالت اور عقل کے اعتدال ہی کا نام ہے۔یعنی ان کو اعتدال پہ لایا جائے یا دوسرے لفظوں میں شہوات یا غضب کو اعتدال پہ لایا جائے۔ اس لئے اعتدال بہت ضروری ہے،اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ کو اس بات کی سمجھ آ گئی، آپ اللہ پاک سے دعا بھی کرتے رہیں خواہ مخواہ وسوسوں میں مبتلا نہ ہوں اور کوئی بات ہو تو بعد میں پوچھ لیا کریں۔ 

سوال نمبر6:

السلام علیکم! میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیا عمرہ کی ادائیگی کے لئے بنک سے قرضہ لیا جا سکتا ہے؟

جواب:

میں بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ مجھے یا تو یا صاف انگریزی میں سوال لکھیں یا پھر صاف اردو لکھیں۔ رومن خط نہ لکھا کریں اس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ ممکن ہے آپ کو پہلی دفعہ بتایا جا رہا ہو لیکن آئندہ خیال رکھیں۔ آپ کو تو انگریزی آتی ہے، آپ نے لکھا ہے: please guide me on this اس لئے آپ یا تو انگریزی لکھا کریں یا صاف اردو لکھا کریں ۔اردو رسم الخط میں لکھنا سیکھ لیں اس میں آپ کا فائدہ ہو گا۔ بہرحال! عمرہ کی ادائیگی فرض نہیں ہے، حج فرض ہے، جب عمرےکی ادائیگی فرض نہیں ہے اور اگر آپ کے پاس حلال پیسے نہیں ہیں تو پھر آپ کیوں خواہ مخواہ جانا چاہتی ہیں؟ یہ پکنک تو نہیں ہے، یہ تو شریعت کا ایک حکم ہے، اس میں شریعت کے تمام تقاضے ملحوظ رکھنے ضروری ہیں ۔ اس حالت میں اگر آپ چلی گئیں تو یہ عمرے کی بجائے پکنک ہو جائے گی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی چوری کے لوٹے سے وضو کر لے یا کسی پہ ڈاکہ ڈال کے چھینے ہوئے مال کو خیرات کر دے۔ اس لئے اس طرح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ 

سوال نمبر7:

السلام علیکم حضرت! میں فلاں ہوں، حضرت! جب بھی مربیہ باجی سے بات کرنی ہوتی ہے اورنہیں ہو پاتی تو مجھے بہت رونا آتا ہے اور دل چاہتاہے کہ آپ سے بات کر وں چاہے صرف سلام ہی کیوں نہ ہو۔ آج بھی یوں ہی ہوا، میرے پاس آپ سے کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے ،اس لئے یہ کہہ دیا ۔

جواب:

وعلیکِ السلام۔

سوال نمبر8:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! الحمد للہ، حضرت والا کی برکت سے بہت فائدہ محسوس کیا۔ حضرت والا نے مکتوب 294 کی جو تشریح فرمائی ہے بالخصوص حضرت نے جو مثالیں قائم فرمائی ہیں ان سےمشکل مضامین آسان ہو گئے البتہ بعض باتیں ایسی ہیں جن کی حضرت نے تشریح تو فرمائی لیکن کم علمی و فہمی کی بنیاد پر نہیں سمجھ میں آ سکیں۔ وہ حضرت کی خدمت اقدس میں رہنمائی کے لئے عرض ہیں:

اولاً حضرت والا نے جو تشریح فرمائی کہ صفات ثمانیہ حقیقیہ، یعنی اللہ تعالیٰ کی آٹھ حقیقی صفات، ان میں مخلوق کے ساتھ تعلق three sub categories میں حیات سب سے بالا اور تکوین سب سے قریب تر رکھتی ہے۔ ان میں ام اور جڑ صفت حیات ہے۔ باقی صفات یعنی علم، قدرت، ارادہ، سمع و بصر و کلام درمیانی ہیں مگر اس میں اضافت کا غلبہ ہے اور سب سے قریب تر مثال کے طور پر تکوین ہےکیونکہ اس میں مخلوق کے ساتھ بہت زیادہ تعلق ہے اس لیے ایک گروہ نے اختلاف بھی فرمایا ہے جیسا کہ حضرت نے فرمایا ۔اس طرح حضرت والا نے فرمایا کہ جو صفت علم ،صفت حیات کے قریب تر ہےکیونکہ یہ سرکار دو عالم ﷺ کا مبدأ تعین ہے۔ یہ حضرت والا حقیقت توحید و رسالت اور حقیقت جذب و سلوک میں پہلے بھی اس کی تشریح فرما چکے ہیں، البتہ اس پہ سوال یہ ہے کہ آپ نے فرمایا صفت علم حقیقت محمدی کا مبدأہے اور شان علم…… پھر وہ جملہ حضرت نے پورا نہیں فرمایا کیونکہ آگےتشریح فرما رہے تھے۔ تو سوال یہی عرض ہے کہ کیا شان علم مقام احمدی کے لئے ہے؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرت والا نے حقیقت جذب و سلوک میں صفحہ 80 پر شیونات اور صفات میں فرق کو یوں فرمایا تھا کہ جیسے انسان کا کچھ الفاظ کہنے کا ایک ارادہ ہوتا ہے تو جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شان ہر لمحہ بدلتی رہتی ہے جس سے صفات وجود میں آتی ہیں تو انسان کا الفاظ کہنے کا جو ارادہ ہوتا ہے اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا ہے لیکن جو الفاظ منہ سے نکلتے ہیں وہ وجود خارجی اختیار کر لیتے ہیں مگر ان کو ہمارے ساتھ ہی ایک صفت اور کلام کے طور پر منسوب کیا جائے گا ۔ اس لئے یہ سوال عرض خدمت ہے کہ شان علم کے متعلق مزید وضاحت فرمائیں۔

جواب:

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس میں مربی کا لفظ آتا ہے اور مربی وہ اسم ہے جو اسم صفت سے نکلتا ہے اور اسماء اور صفات کے بارے میں یہ بات ہوئی تھی کہ وہ خارج میں ہوتے ہیں لہٰذا صفت چونکہ خارج میں ہوتی ہے اور اس سے اسم وجودمیں آتا ہے اور اس میں مربی آپ ﷺ کا علیم ہے جو وہاں پر باقیوں کا رب الارباب ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ حقیقت محمدی کا تعلق شان علم کے بارے میں ہے کیونکہ شیونات ذات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں لہٰذا حقیقت محمدی کا مبداء تعین شان علم ہے۔ اگر آپ دیکھیں تو یہ سب آپ کو حقیقت توحید و رسالت میں مل جائے گا، وہاں اس پہ تفصیل موجود ہے۔ 

سوال نمبر9:

دوسرا سوال خدمت اقدس میں یہ عرض ہے کہ الحمد للہ، حضرت والا نے جیسے فرما دیا کہ سرکار دو عالم ﷺ تو اصل الاصل ہیں اور ان کے نیچے باقی انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام جیسا کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام، موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام، عیسٰی علیہ الصلوۃ والسلام کے زیر قدم جو بھی اولیاء کی جماعتیں ہوں گی تو وہ ان کے ذریعے لیں گے۔ گویا کہ یہ دو واسطوں سے اللہ کی ذات اور شہود کا پردہ ہے۔ یہاں پر حضرت کی خدمت میں یہ سوال عرض ہے کہ باقی انبیاء علیھم الصلوۃ و السلام کا کیا معاملہ ہے کیونکہ یہاں اور سب ہی جگہوں پر پانچوں اولوالعزم انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام کا ذکر فرمایا جاتا ہے اور ان کے نیچے ان کی جماعتیں ہوتی ہیں تو الحمد للہ اس تشریح سے یہ بات تو سمجھ میں آ گئی جو حضرت نے train کی اور کمپارٹمنٹ کی بڑی عمدہ مثال بیان فرمائی جس سے بات ذہن نشیں ہو گئی کہ ان انبیاء کے اپنے اپنے زیر قدم جزئیات کی جو جماعتیں ہیں تو وہ انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام گویا کہ ان کے لئے کلی کی طرح ہو گئے اور سرکار دو عالم ﷺ سب کی چھت بن گئے کیونکہ پوری کائنات کوفیض آپ ﷺ کے ذریعے ہی تقسیم کیا جا رہا ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:"إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ" کیاباقی انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام کےبھی اپنے اپنے گویا کہ کمپارٹمنس ہیں اپنی اپنی categories ہیں اور کیا ان کے نیچے بھی جماعت ہے جو ان کے زیر قدم ہے، یا بس یہی انبیاء کی categories ہیں؟ اور اگر انہی انبیاء کی categories ہیں تو باقی انبیاء کس category میں آتے ہیں؟

جواب:

چونکہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق اسماء الحسنیٰ صفات ہیں اور ان کو محدود نہیں کیا جا سکتا کیونکہ صفات حقیقی یہی ہیں لیکن اللہ جل شانہ کی ان کے علاوہ اور بھی لا تعداد صفات اور اسماء مبارکہ ہیں ۔آپ فرماتے ہیں کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ باقی انبیاء کرام ان اولو العزم انبیاء کے ساتھ انہی آٹھ صفات میں سے بعض صفات میں شریک ہوں لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ باقی صفات میں ان صفات کے ذریعے ان کو ملتا ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ باقی حضرات جو انبیاء نہیں ہیں اولیاء ہیں وہ کسی نبی کے زیر قدم ہوتے ہیں اورجو انبیاء ہیں وہ کلیات ہوتے ہیں۔ تو یا تو ان کی یہی کلیات ہوں گی جو ان کے ساتھ شیئر کر رہے ہوں گے یا ان کو دوسری صفات سے مل رہا ہو گا لیکن بہرحال انبیاء کا معاملہ چونکہ ممتاز ہے یعنی وہ اولیاء کی طرح نہیں ہیں جیسے اصحاب باقی اولیاء کی طرح نہیں ہیں اس طرح اصحاب باقی انبیاء کی طرح نہیں ہیں اور باقی انبیاء آپ ﷺ کی طرح نہیں ہیں تو اس درجہ بندی کے لحاظ سے جو انبیاء کرام ہیں وہ یا تو ان صفات میں ان کے ساتھ شریک ہیں یا باقی صفات ان کے لئے کلیات ہوں گے۔

سوال نمبر10:

حضرت کی خدمت میں تیسرا سوال یہ عرض ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی نور اللہ مرقدہ نے اس بات کو واضح کرنے کے لئے کہ انبیاء علیھم الصلوۃ و السلام کا مقام ہمیشہ افضل ہے بڑے سے بڑا ولی اللہ آ جائے، قطب غوث آ جائے لیکن وہ انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام سے افضل نہیں ہو سکتا ، اور سوال یہ قائم فرمایا تھا کہ انبیا ءعلیھم الصلوۃ و السلام اصل الاصل سے حقیقت محمدی کے پردے کے ساتھ ہیں گویا کہ بس ایک درجہ نیچے ہیں اور جو محمدی مشرب اولیاء اللہ ہیں یا ان کی جماعت، جو اپنے شیخ کے ذریعے حقیقت محمدی تک پہنچ چکے ہیں، اس طرح بہت کم ہوتا ہے، تو پھر اس میں فرق کیا رہا ؟ اس میں حضرت والا نے تشریح فرمائی کہ انبیاء علیھم الصلوۃ و السلام کے ساتھ امتیازی شان یہ ہے کہ ان کو ایک خاص شہود ہے جو ان کے تعین مبادی کے ساتھ دیا گیا وہ عینک کی مانند ہے جو ان کو خاص گلاسز دیئے گئے جس کے ذریعے وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خاص شہود کرتے ہیں جو اولیاء کرام کو نہیں ملتا۔ یہاں پر خدمت میں یہ سوال عرض ہے کہ یہ تو انبیاء علیھم الصلوۃ و السلام کو حاصل ہے لیکن پھر عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام جب واپس تشریف لائیں گے تو یہ خاص نعمت ان کو ملے گی یعنی اس کو بھی ایک خاص نعمت کہہ سکتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کے امتی ہو کر اور جو سنتیں سرکار دو عالم ﷺ چھوڑ گئے ان پر عمل کر کے ان کو حقیقت محمدی تک شہود کے وہ عینک دیئےجائیں گے جو صرف ایک امتی کو دیئے جا سکتے ہیں تو کیا یہ امت محمدی ﷺ کی قابل رشک بات ہے؟ اور کیا یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام نے دعا کی کہ مجھےامت محمدی ﷺ میں سے بنایا جائے تاکہ ان کو یہ توفیق دی جائے اور عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کی قبول ہو گئی۔ جیسے حضرت والا نے فرمایا کہ امام الانبیاء تو حضور پاک ﷺ ہیں اور سب آپ ﷺ کے جھنڈے ہی کے نیچے ہوں گے تو یہی تیسرا سوال ہے کہ کیا یہ خاص نعمت عیسیٰ علیہ السلام کو دی جائے گی اور کیا اس میں ہم شریک ہیں کہ سنت پہ عمل کر کے حقیقت محمدی تک پہنچ سکیں۔

جواب:

ایک بات تو طے ہے کہ نبی تک کوئی ولی نہیں پہنچ سکتا۔ عیسیٰ علیہ السلام جس وقت تشریف لائیں گے تو ان کی نبوت ختم نہیں ہو گی لیکن ان کی نبوت نافذ نہیں ہو گی۔ چونکہ آپ ﷺ کی نبوت نافذ ہے لہٰذا وہ یہاں پر امتی کی حیثیت سے آئیں گے لیکن چونکہ نبی ہوں گے لہٰذا نبی کا شہود بھی ان کو حاصل ہو گا اور تبعیت کا شہودبھی ان کو حاصل ہو گا۔ اگر دیکھا جائے تو عام طور پر انبیاء کرام کا شہود جس کو آپ عینک کے انداز میں لے لیں یا بینائی کی قوت کے انداز میں لے لیں بڑھ جاتا ہے، بے شک فیض وصالِ عریاں ان کو بھی ایک واسطے سے حاصل ہے اور وصال عریاں محمدی مشرب والوں کو بھی ایک واسطے کے ساتھ حاصل ہے لیکن چونکہ انبیاء کی اپنی بینائی یا اپنی عینک یا شدت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ وہ محمدی مشرب تبیعت کے طور پہ ہوتے ہیں اور انبیاء کرام اصل کے طور پر ہوتے ہیں تو تبعیت کو اصل سے بھلا کیا نسبت؟ وہ ان تک کبھی نہیں پہنچ سکتے لہٰذا محمدی مشرب والے اگرچہ اولیاء میں ممتاز ہیں لیکن انبیاء کے ساتھ ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کیونکہ اصل بھی ہیں اور اولو العزم نبی بھی ہیں اور تشریف لائیں گے تو تبعیت بھی ان کو حاصل ہو جائے گی۔ یہ اضافی چیز ان کو ملی تو اس لحاظ سے کہ ان کو اصل اور تبعیت دونوں ملی ہیں ان کا مقام کافی بڑھ جائے گا۔ حضرت کی تحقیق کے مطابق ہزار سال کے بعد چونکہ حقیقت محمدی کی نشست خالی ہو چکی ہے اور آپ ﷺ کی روحانیت حقیقت احمدیت تک پہنچ چکی ہے اس وقت اسی مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اصلیت اور تبیعت دونوں کے ملاپ کی وجہ سے نافذ کر دیا جائے گا۔ یقیناً یہ ان کا بہت بڑا مقام کہ وہ دونوں کام کریں گے یعنی ان کے پاس نبوت بھی ہو گی جو اصل ہے اور ساتھ ساتھ تبعیت کی شان کے طور پر وہ آپ ﷺ کی امتی کا کردار بھی ادا کریں گے اور شریعت کو اس لحاظ سے نافذ کریں گے۔ جیسے جہاد چونکہ آپ ﷺ کی پیشین گوئی کی وجہ سے رک چکا ہو گا تو اس کو حضرت عیسٰی علیہ السلام اس وقت نافذ کر دیں گے۔ ہم اس میں اختلاف نہیں کر سکتے کیونکہ آپ ﷺ کی نبوت قیامت تک جاری رہے گی ان شاء اللہ۔ 

سوال نمبر11:

آخر میں یہ عرض ہے کہ مرشدی و مولائی نے جس طریقے سے مکتوبات کی روشنی میں فنا کی تشریح فرمائی کہ یہ عینی نہیں ہے بلکہ یہ وصل نظری ہے کیونکہ وصل ہو، قرب ہو یا مشاہدہ ہو، یہ سب عینی نہیں ہے بلکہ نظری ہے جیسے حدیث جبرائیل علیہ السلام میں ہے کہ "اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ" حضرت کی وضاحت کا بہت فائدہ ہوا۔ اس سے عقائد کا بھی تحفظ ہوا اور جو لوگ صوفیاء کرام کے اس قول پر کہ انہوں نے کہا کہ :’’میں دریا کا ایک قطرہ تھا اور میں جب قطرے میں جا کے مل گیا تو خود دریا ہو گیا‘‘ حلول کا اعتراض کرتے ہیں، ان کا بھی جواب ہو گیا اور بات صاف ہو گئی کہ حلول نہیں ہو گا لیکن آثار، اعمال، خیالات، افکار سب شریعت کے موافق ہوں گے اور سنت پاک ﷺ کی تابع داری ہو گی۔ جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء۔

جواب:

دیکھیں یہ بات بھی بالکل صاف ہے کہ ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ (الشوری: 11) کہ اللہ جل شانہ کی طرح کوئی نہیں ہے۔ مخلوق اور خالق کے درمیان کوئی نسبت ہو ہی نہیں سکتی۔ جب دو مختلف جنس چیزوں کو آپس میں جمع نہیں کیا جا سکتا جیسے ہم کہتے ہیں کہ دو کیلے اور تین آم کتنے ہوتے ہیں؟ تو جواب یہی ہے کہ دو کیلے اور تین آم ہی ہوتے ہیں تو مخلوق اور خالق ان کا وصال کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا تو ان کا اس طریقے سے وصال ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ وصال کی بات ہو گئی، اس طرح دیکھنے کے بارے میں فرمایا۔ دیکھنا نسبتاً وصال سے کم درجے کی بات ہے۔ دیکھنے کا جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ "لَنْ تَرَانِی" یعنی تُو مجھے نہیں دیکھ سکے گا تو پھر وصال تو اس سے بھی آگے کی بات ہے۔ البتہ ایک بات جو بطور اعزاز کے فرمائی کہ "مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ" یعنی ”جو اللہ کا ہو گیا اللہ اس کا ہو گیا اس کا مطلب ہے کہ جو فنا فی اللہ ہو گیا وہ باقی باللہ ہو گیا یعنی جو اللہ کے لئے سب کچھ مٹا چکا تو اللہ تعالیٰ اس کو سب کچھ دے دیتا ہے۔ جب یہ بات سمجھ میں آ جائے کہ یہ اللہ جل شانہ اعجاز کے طور پہ دے دیتے ہیں یعنی اللہ جل شانہ اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ حدیث قدسی میں ہے کہ پھر میں اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کے پیر ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے یعنی باقی باللہ کی صفات بن جاتی ہیں، اس وجہ سے اس میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن وصال والی یہ بات کہ قطرہ دریا میں مل گیا ان معنوں میں صحیح ہو سکتی ہے کہ میں اللہ کا ہو گیا تو اللہ میرا ہو گیا اس طرح اللہ پاک کی ساری چیزیں ہو گئیں۔ جیسے بہلول رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ اس آدمی کی کیا بات کرتے ہو جس کی مرضی کے مطابق سب کچھ ہوتا ہے۔ ہارون الرشید کے پاس یہ بات پہنچی، اس نے کہا کہ آپ نے خدا بننے کا دعویٰ کب سے کیا ہے؟ وہ کہنے لگے کہ میں نے تو دعویٰ نہیں کیا، اس نے کہا کہ جب آپ کہتے ہیں کہ سب کچھ میری مرضی کے مطابق ہوتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا بھائی! میں نے اپنی مرضی اللہ کی مرضی میں فنا کر دی ہے تو جو اللہ کی مرضی ہے وہی میری مرضی ہے، اس طرح ساری چیزیں میری مرضی کے مطابق ہو رہی ہیں۔ اس لئے یہ ساری اعتباری باتیں ہیں جیسے "کَاَنَّکَ تَرَاہُ" چونکہ حدیث شریف میں موجود ہے اس لئے میں نے اس کی مثال دی کہ اس کا مطلب ہے اس کا اثر ایسا ہونا چاہیے جیسے دیکھ لیا ہو۔ اثر مطلوب ہے کیونکہ دیکھنا ممکن نہیں ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرۃ: 286) انسان جو کام نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ اس کا حکم نہیں دیتا لہٰذا دیکھنا مطلوب نہیں ہے۔ اثر لینے کے لئے ایسی کیفیت انسان کے اوپر طاری ہو جائے کہ جیسے وہ دیکھ رہے ہوں اور واقعتًا ایسا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام آپ ﷺ کے پاس آتے تھے اور پوچھتے تھے یا رسول اللہ ہم حمام میں کیسے کپڑے اتاریں اللہ میاں دیکھتے ہیں۔ تو یہ ایک کیفیت ہے جس کو بھی حاصل ہو جائے۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ پیر لمبے نہیں کرتے تھے، کسی نے پوچھا کہ حضرت! کیا وجہ ہے آپ پیر کیوں لمبے نہیں کرتے؟ فرمایا اللہ میاں سے حیا آتی ہے۔ اب اللہ میاں سے انسان کو حیا آنے لگے تو پھر گناہ نہیں کرے گا۔ یہی چیزیں مطلوب ہیں لہٰذا انہی باتوں کو حاصل کرنا چاہیے۔ باقی بنیادی بات شریعت کی ہے جیسے میں نے input اور output کی بات کی تھی کہ بھائی اپنا input ایسا کر دو کہ output شریعت ہو۔ یعنی اصل چیز شریعت پر عمل ہے، باقی ادھر اُدھر کی باتیں چھوڑیں۔ شریعت پر آپ جس طریقے سے بھی آ جائیں تو ٹھیک ہے۔ طریقت میں بھی یہی بات ہے کہ آپ اپنے قلب، نفس اور عقل کے موانع دور کر کے شریعت پر چلنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر لیں۔

سوال نمبر12:

شیخ صاحب! میرا یہ ذکر complete ہو گیا ہے آگے گائیڈ کریں۔ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ 200 مرتبہ، لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حق حق 400 مرتبہ اور اللّٰہ 100 مرتبہ۔

جواب:

بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ رومن میں نہ لکھا کریں لوگ رومن میں لکھتے ہیں۔ میں بار بار اس لئے کہتا ہوں کہ اگر کسی کو نہ معلوم ہو تو اس کو معلوم ہو جائے۔ یا تو سیدھی طرح انگریزی لکھیں یا پھر اردو فونٹ میں لکھیں تاکہ مجھے تکلیف نہ ہو۔ اب آپ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ 200 مرتبہ، لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حق حق 600 مرتبہ اور اللّٰہ 100 مرتبہ کریں۔

سوال نمبر13:

السلام علیکم حضرت کامل مغفرت اور گناہوں سے بچنے کی دعا فرمائیں۔ 

جواب:

اللہ جل شانہ سب کی کامل مغفرت فرمائیں اور گناہوں سے ہمیں بچائے۔ آمین۔ 

سوال نمبر14:

کیا چاند گرہن یا سورج گرہن حاملہ عورت پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ چاند گرہن کیسے ہوتا ہے؟ اور نماز کسوف کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:

نماز کسوف کا طریقہ حدیث شریف میں موجود ہے، اسی کے مطابق انسان کو عمل کرنا چاہیے باقی رہا یہ سوال کہ کیا سورج اور چاند گرہن حاملہ عورت اور اس کے بچے پر اثر انداز ہوتے ہیں تو یہ میڈیکل کی بات ہے، میرے سامنے ایک ڈاکٹر صاحب بیٹھے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں ان سے کوئی اثر نہیں ہوتا۔ البتہ یہ سوال کہ چاند گرہن کیسے ہوتا ہے تو چونکہ یہ میری فیلڈ ہے تو اس کے لئے میں عرض کروں گا کہ در اصل چاند زمین کے گرد گھومتا ہے اور زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اس چکر میں ہر مہینے ایسا ہوتا ہے کہ چاند، زمین اور سورج ایک لائن میں آ جاتے ہیں۔ یہ چودھویں اور یکم کے چاند کے وقت ہوتا ہے۔ یکم کے چاند کے وقت یہ اس طرح آتے ہیں کہ چاند زمین کے لئے رکاوٹ بن جاتا ہے، اس کا سایہ جب زمین کے اوپر پڑتا ہے تو اس سے سورج چھپ جاتا ہے۔ سورج چھپ جانے کا مطلب ہے سورج گرہن ہونا۔ چودھویں کے چاند کے وقت زمین سورج اور چاند کے درمیان میں آ جاتی ہے، جس سے چاند پر زمین کا سایہ پڑتا ہے جس سے چاند چھپ جاتا ہے اور چاند کے چھپنے کو چاند گرہن کہتے ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب ہر مہینے کیوں نہیں ہوتا؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین اور چاند کے مداروں میں ساڑھے پانچ درجے ڈگری کا وقفہ ہوتا ہے۔ اب اگر وہ بالکل ایسے موقع پہ آ جائے جس پر یہ زمین کے مدار کو کاٹ رہے ہوتے ہیں تو اس وقت سورج گرہن ہو جائے گا۔ جہاں اس کا سایہ پڑے گا وہاں مکمل سورج گرہن ہو گا اور جہاں مکمل سایہ نہیں ہو گا وہاں تھوڑا سا سورج گرہن ہو گا۔ پھر اس میں تفصیلات ہیں دوسری طرف اگر ایک کونا ہے تو دوسرے کونے پہ جب یہ آپس میں دونوں قطع کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت مکمل چاند گرہن ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں سورج جب چھپ جائے تو وہ بالکل چھپ جاتا ہے لیکن چاند بالکل چھپتا نہیں ہے، بس اس کا رنگ بدل جاتا ہے یعنی وہ بالکل red بن جاتا ہے۔ اس کی reflection کی وجہ سے اس کی لائٹ تو آتی ہے لیکن وہ لائٹ پوری نہیں ہوتی لہٰذا کلر چینچ ہو جاتا ہے۔ البتہ سورج گرہن میں ایک خطرہ ہے کہ اگر اس کو کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے تو اس سے برین میں موجود نظر کا سنٹر ہے جل سکتا ہے۔ میرے خیال میں اگر سورج گرہن کو دو منٹ دیکھیں تو وہ بالکل جل جاتا ہے اس وجہ سے ان کو یا کسی ایکسرے فلم کے through دیکھیں یا کسی اور indirect طریقے سے دیکھیں، direct نہ دیکھیں ورنہ یہ بہت خطرناک صورت حال ہو جاتی ہے۔ اس کے لئے اگر تصویروں کے ساتھ مزید تفصیل دیکھنی ہو تو ہماری کتاب فہم الفکیات میں موجود ہے، وہاں ملاحظہ فرما لیں۔

سوال نمبر15:

السلام علیکم حضرت جی! میرے والدین اللہ پاک کے فضل سے زیارت مدینہ منورہ کر چکے ہیں اور مکہ مکرمہ پہنچ کر ایک عمرہ بھی کر لیا ہے۔ وہ بتا رہے ہیں کہ مکی صاحب کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں تو اس میں مسئلہ تو نہیں ہے۔ 

جواب:

نہیں جی! اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ 

سوال نمبر16:

حضرت!آپ خانقاہوں کے لئے ایک منشور بنائیں، فضائل اعمال کی طرح ان کے لئے کوئی کتاب بھی لکھیں۔

جواب:

در اصل یہ بات تب ممکن ہے جب خانقاہوں والے اس طرح چاہیں،کیونکہ وہ خود مختار ہیں۔ البتہ کتاب فہم التصوف اسی نیت سے لکھی گئی ہے کہ خانقاہوں میں اس کی تعلیم ہو۔ اس لئے اگر کوئی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

سوال نمبر17:

السلام علیکم حضرت جی!میں دبئی سے اسلام بات کر رہا ہوں ، کیاخواب کے ذریعے استخارے کا پتہ چل سکتا ہے؟

جواب:

خوابوں کی باتیں استخارہ میں نہیں ہوا کرتیں ، آپ بس یہ دیکھیں کہ اس وقت آپ کا دل کیا کہہ رہا ہے، یعنی دل تبدیل ہوا ہے یا نہیں ہوا۔ سات دن استخارہ کر لیں اس کے بعد آپ کے دل کی جو کیفیت ہو گی اس کے مطابق عمل کر لیں۔

سوال نمبر18:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی! میرا نام محمد راشد ہے اور میں اسلام آباد سے بات کر رہا ہوں۔ حضرت جی! آپ نے مجھے ذکر دیا تھا 200 مرتبہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ ، 400 مرتبہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُو، 400 مرتبہ حق، اور100 مرتبہ اللّٰہ ۔ اس کو مہینہ ہونے والا ہے، اس کے بعد میں نے کیا ذکر کرنا ہے؟ کتنا کرنا ہے؟ اور کتنے عرصہ کے لئے کرنا ہے؟ جزاکم اللہ ۔ 

جواب:

اب 200 مرتبہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ ، 400 مرتبہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُو ، 600 مرتبہ حَقْ اور 100 مرتبہ اللّٰہ ۔یہ ایک مہینہ تک کے لئے کریں۔

سوال نمبر19:

السلام علیکم حضرت!

I have a question about عقیقہ, a lady wants to perform her son’s عقیقہ as she will do it in one seventh part of ox, is it correct if it is wrong how she is going to do in ox? 

جواب:

جی ہاں! یہ ٹھیک ہے۔عقیقہ کے لئے چھوٹا جانور قربان کیا جا سکتا ہے اور بڑے جانور کا حصہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ جس وقت عقیقہ مسنون ہے اس وقت کرنا چاہیں تو چھوٹا جانور ٹھیک ہے اوراگر کوئی قربانی کے وقت میں کرنا چاہیں تب بھی کر سکتی ہیں۔اس میں بچی کے لئے ایک حصہ اور بچے کے لئے دو حصے رکھنے ہوتے ہیں۔

سوال نمبر20:

السلام علیکم میرے عزیز محترم مرشد دامت برکاتھم! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں ان شاء اللہ ۔حضرت جی! آج صبح حَقْ حَقْ کے ذکر کے دوران مجھے دل میں ایسے محسوس ہوا جیسے کوئی drill چلا رہا ہے۔ تسبیح پوری ہونے پر وہ کیفیت بھی رک گئی۔

جواب:

ٹھیک ہے، دل پر اس کا اثر ہو رہا ہے۔ ایک دفعہ میں نے اپنے شیخ سے کہا تھا کہ حضرت میں جب اللہ اللہ کا ذکر کرتا ہوں تو میرے سینے میں کچھ گرمی سی محسوس ہوتی ہے تو فرمایا ٹھیک ہے، ذکر کا اثر ہے۔ ذکر کےمختلف اثرات ہوتے ہیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال نمبر21:

Respected Hazrat sahab, this is ……from Abu Dhabi,

اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو بہت ساری نعمتیں عطا فرمائے اور اسی طرح آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آپ کی برکت سے میری اور میری فیملی کی religious direction ٹھیک ہوئی ہے الحمد للہ ۔

I am regular in نماز, تسبیحات and ذکر

آپ سے دعا کی درخواست ہے۔

جواب:

یقیناً میں ان شاء اللہ دعا کروں گا۔ اللہ جل شانہ آپ کو دونوں جہاں کی خوشیاں نصیب فرما دے اور دین پر سلامتی اور استقامت عطا فرما ئے۔ آئندہ رومن میں نہ لکھا کریں، یہ مجھے تکلیف دیتی ہے۔ 

سوال نمبر22:

یہ ایک صاحب کا سوال ہے جن کے ساتھ میں واک کرتا ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 22 جولائی کی واک میں صلح رحمی کے بارے میں آپ نے کچھ باتیں کی تھیں، وہ باتیں اگر آپ سوال و جواب کے سیشن میں لوگوں کو بتا دیں تو دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ ہو جائے گا ۔

جواب:

ٹھیک ہے، ان شاء اللہ میں سنا دیتا ہوں،جو انہوں نے لکھا ہے۔ خود ہی لکھا ہے ماشاء اللہ۔

مقامات سلوک کے بارے میں تحقیق

فرمایا: مقامات سلوک کے بارے میں ہر سالک کے لئے طریقہ مختلف ہوتا ہے مثال کے طور پر مقام قناعت میں اگر کوئی سالک چل رہا ہے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قناعت کرتے کرتے وہ کنجوسی کی طرف چلا جائے تو ایسی صورت میں اس کے لئے مقام زہد کو بھی حاصل کرنا ضروری ہو جاتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شیخ اس کو ایک ہی وقت میں دونوں مقامات میں چلائے۔ قناعت کی وجہ سے وہ فضولیات میں خرچ سے رکے گا اور زہد کی وجہ سے وہ خیر کے کاموں میں خرچ کرے گا یعنی اپنے اوپر تو خرچ نہیں کرے گا لیکن دینی کاموں میں خرچ کرتا رہے گا۔

میرے خیال میں ان کو بات پوری طرح سمجھ نہیں آئی، در اصل میں نے کہا تھا کہ مقام قناعت کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ انسان میں حرص نہیں ہونا چاہیے،یعنی چیزوں کی کثرت پہ نظر نہیں کرنی چاہیے اپنی ضرورت اور اللہ پاک کی مشیت پر نظر کرنی چاہیے، یہ تھیوری تھی اور زہد اس کے اوپر عمل یعنی اس کا پریکٹیکل ہے۔ جس وقت آپ اس پہ عمل کریں گے اور ایسا نہیں کریں گے اور اپنے آپ کو اس سے بچائیں گے اور اپنے آپ کو un-necessary چیزوں میں نہیں involve کریں گے تو یہ زہد ہے۔ حضرت حاجی صاحب ترنگزئی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ سال میں ایک دن اپنے گھر سے دو جوڑے کپڑے اپنی بغل میں دبا کے باہر تشریف لاتے اور فرماتے کہ گھر کو لوٹ لو تو لوگ جو چیز گھر میں ہوتی اس کو لے جاتے اور ان کے پاس صرف وہی دو جوڑے کپڑے رہ جاتے۔ اگلے سال اللہ تعالیٰ اور دے دیتے تو وہ پھر یہی کرتے۔ حاصل یہ ہے کہ زہد کا مطلب ہے کہ اپنے ساتھ غیر ضروری بوجھ نہ رکھیں،جتنی ضرورت ہواتنا لے لیں ۔ہم نے خواہ مخواہ اپنے گھروں میں بہت ساری ایسی چیزیں رکھی ہوتی ہیں جن کی ہمیں ضرورت نہیں ہوتی۔ خواتین کے بارے میں ہمارے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ وہ کپڑوں کے لئے صندوق لیتی ہیں اور صندوق کے لئے کپڑے لیتی ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا جاتا ہے۔

انسان کو قناعت پسند ہونا چاہیے۔ قناعت بہت بڑی دولت ہے، انسان کی tensions کی کمی میں اس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ انسان کی جو tensions ہوتی ہیں وہ اسی وجہ سے ہوتی ہیں بلکہ احساس کمتری بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ جب اس میں قناعت نہ ہو اور حرص ہو۔ ہمارے ایک بزرگ تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے، انہوں نے فرمایا لوگ اس لئے پریشان ہیں کہ قسمت سے زیادہ چاہتے ہیں اور وقت سے پہلے چاہتے ہیں ۔اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی قسمت میں جتنا لکھا ہے اس پہ قناعت کر لیں تو ٹھیک ہے۔ اللہ کا فیصلہ صحیح ہوتا ہے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ محنت میں کمی نہ کریں ، ایسا نہ ہو کہ گھر میں یہ سوچ کر بیٹھ جائیں اور کوئی کام ہی نہ کریں کہ بس جتنا اللہ پاک نے چھپڑ پھاڑ کر دے دیا وہی ٹھیک ہے۔ جیسے تقدیر اور توکل کے معاملہ میں لوگ غلط treatment کر لیتے ہیں۔ہر چیز کی اپنی اپنی صحیح سمجھ ہونی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے۔ جیسے شعر ہے:

توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا

پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر

اپنے گھر والوں پر بھی اعتدال کے درجے میں خرچ کرنا چاہیے اور فضول خرچی سے بچنا چاہیے۔ اس سے جو بچت ہو اس کو جمع کرنے کی بجائےدینی کاموں میں خرچ کرنا چاہیے۔ فرمایا آج کل بازار میں جو بچوں کے کپڑے ملتے ہیں ان میں کافی مسائل ہوتے ہیں، اکثر خلاف شرع ہوتے ہیں، اس وجہ سے اکثر خواتین کو کہتا ہوں کہ بچوں کے لئے خود کپڑے بنائیں اور سلائی سیکھ لیں اگر عید یا شادی بیاہ کے لئے کوئی اچھی کوالٹی کی سلائی نہیں کر سکتیں تو محلے میں ایسی خواتیں ہوتی ہیں جو معاوضے پر سلائی کرتی ہیں ان سے سلوائیں اور بازار کے کپڑے خریدنے سے اجتناب کریں۔ یہ کپڑے خواہ مخواہ اپنے بچوں کو گویا کہ کفار کے ساتھ مشابہت کرا دیتے ہیں ۔جو صحیح لباس ہے وہ پہنیں۔

صلہ رحمی

مقام سلوک میں جو چار مقام ہم نے ساتھیوں کو بتائے ہیں ان میں صلہ رحمی سے بعض ساتھیوں نے یہ سمجھا ہے شاید رشتہ داروں کا حال احوال پوچھنا ہے اور وہ اس پر اس طرح عمل کرتے رہے کہ رشتہ داروں کو فون کر کے ان کا احوال پوچھتے یا جا کر ان کا احوال پوچھتے۔ یہ روزانہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اس طرح کریں کہ پہلے کسی رشتہ دار کے بارے میں سوچ لیا کریں کہ اس کا مجھ پر کیا حق ہے اور اس میں بھی اس کی فوری ضرورت کو دیکھا کریں اور اس میں یہ سوچیں کہ میں یہ فوری طور پر کیسے پورا کر سکتا ہوں۔ دوسری بات یہ کہ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ حق تلفی قریبی رشتہ داروں کی ہوتی ہے جیسے اپنے گھر والے اور ان میں بھی اکثر بہن بھائیوں کی حق تلفی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ان کو لوگ consider نہیں کرتے اس وجہ سے ان کے حقوق نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ بچوں اور والدین کے حقوق بہن بھائیوں سے زیادہ ہیں لیکن ان کی طرف دھیان ہوتا ہے اس وجہ سے ان میں حق تلفی اتنی نہیں ہوتی لیکن بہن بھائیوں کی حق تلفی زیادہ ہوتی ہے۔ تیسری بات حق تلفی میں اہم چیز مناہی سے بچنا ہے تو حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ اپنے شرور سے اپنے رشتہ داروں کو بچائیں جیسے ان کے ساتھ حسد نہ کریں، ان کی غیبت نہ کریں، ان کے لئےبھلائی کا سوچیں جیسے پشتو کا ایک محاورہ ہے کہ "تیری خیر سے میری توبہ ہے لیکن اپنے شر سے مجھے بچا" یہ بہت اہم بات ہے، صلہ رحمی میں اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ 

سوال نمبر23:

السلام علیکم حضرت جی! میں فلاں ہوں، حضرت! میں ریسرچ کے حوالے سے مختلف لوگوں سے اس سلسلہ میں جاننے کے لئے پوچھنا چاہ رہی تھی کیونکہ میں نے بھی ابھی پڑھا ہے تو اندازہ کر سکوں کہ کس کی supervision میں کام آگے بڑھاؤں اور کس سے discussion کروں تاکہ کچھ اندازہ ہوصحیح جا رہی ہوں جیسے PIEAS بھی ایک ادارہ ہے اور آپ نے فرمایا کہ سٹوڈنٹس یہاں کام کریں۔ مجھے ابھی یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کسی ادارے سے تو منسلک نہیں البتہ امی کے شوگر کے علاج کے سلسلے میں فلاں صاحب کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بات کرنے گئی تو ان سے وہاں کچھ discussion کی تھی تو انہوں نے بتایا کہ وہ بھی مصروف ہیں اور دو تین researches کر رہے ہیں۔ ان سے بات توکی لیکن ابھی کچھ confuse ہوں جیسے میں نے جو آرٹیکل نکال کے پڑھنے ہیں تو اس کے ذریعے پرانا کام پڑھ رہی ہوں اور ابھی تک کچھ نیا نہیں نکالا۔جو بھی مسواک پر کام ہے اس کی ریسرچ کر رہی ہوں اس میں مجھے ایک جگہ اکٹھا کرنے کے لئے review articles ملے ہیں لیکن اب reference بنانے کے لئے پھنس گئی ہوں۔ فلاں ڈاکٹر صاحب نے کسی نئی چیز یا نقطہ کو تلاش کرنے کے لئے بتایا تو مجھے ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آ رہا۔

جواب:

در اصل یہ لیڈی ڈاکٹر ہیں اور ڈینٹل سرجن ہیں ، میں نے ایک بار عرض کیا تھا کہ سنت طریقوں کے دنیاوی فوائد پر ریسرچ کرنی چاہیے تو یہ اس پر ریسرچ کر رہی ہیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ مسواک پر ریسرچ کر لیں۔ چونکہ یہ ایک لکڑی ہے اور لکڑی کسی درخت کی ہے تو اس کے اندر کچھ نیچرل چیزیں ہیں اور جو نیچرل چیزیں انسان استعمال کرتا ہے وہ اسے فائدہ دیتی ہیں ۔ سادہ برش ایک علیحدہ چیز ہے لیکن اس پر پیسٹ لگایا جائے تو چونکہ پیسٹ کے اندر ایک ڈرگ ہے اور مثال کے طور پراگر کوئی بچہ پیسٹ کھا لے تو اس کو نقصان دیتا ہے۔ زبان کے نیچے بہت نازک حصہ ہے جہاں انسان کی absorption بہت تیز ہوتی ہے۔ جس گولی کو جلدی اثر انداز کرنا ہو اسےڈاکٹر حضرات زبان کے نیچے رکھنے کا کہتے ہیں جس سے پتہ چلا کہ زبان کے نیچے کی جگہ زیادہ sensitive ہے اور پیسٹ تو ادھر بھی جاتا ہے ۔اس لحاظ سے میں نے کہا کہ ریسرچ کر لیں کہ اس سے کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں اور مسواک سے کیا کیا فائدے ہیں۔ یہ میں نے صرف ایک چیز بتائی ہے، اصل بات یہ ہے کہ سنت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ آپ ﷺ کوئی کام بھی نہیں کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے جو وحی کی ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فائنل چیز دی جاتی ہے اس میں ریسرچ کی ضرورت نہیں ہوتی اس میں اتنی ریسرچ ہونی چاہیے کہ آیا واقعی سنت سے ثابت ہے یا نہیں ۔ اس پہ یہ ریسرچ نہیں ہوتی کہ یہ چیز ٹھیک ہے یا نہیں۔ جیسے علماء کہتے ہیں کہ جس چیز کا حکم ہو اس میں استخارہ جائزنہیں ہے۔ جیسے نماز پڑھنے کا حکم ہے اس لئے اس میں استخارہ جائز نہیں کہ میں نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں۔ کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے حکم ہے، آپ اس میں استخارہ کیوں کریں گے۔ اسی طرح یہ کہ حج کروں یا نہ کروں پر استخارہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔

یہ فائنل چیز ہے اس لئے آدمی کو نہیں سوچنا نہیں چاہیے۔در اصل دنیاوی چیزوں میں ریسرچ ہوتی ہے کیونکہ دنیاوی چیزیں scientific اور from the scratch evolve ہوتی ہیں لہٰذا ان میں ریسرچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو یوں سمجھ لیں آج جو کنڈیشن ہے عین ممکن ہے کہ کل اس کی کنڈیشن نہ ہو مثال کے طور پر ہم cholesterol کا اور پتا نہیں کن کن چیزوں کا بہت شور سنتے تھے لیکن آج کل ساری چیزیں change ہو گئی ہیں۔ شوگر کی theory change ہو گئی ہے، شوگر میں پہلے انسولین دیا جاتا تھا اب شوگر کی treatment کے لئے بعض طریقوں سے انسولین روکا جاتا ہے۔یہ ساری تھیوریاں change ہو رہی ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ جن پر اتنا عرصہ لوگ کام کر رہے تھے وہ تھیوری غلط ثابت ہو گئی تو اسی طریقے سے موجودہ تھیوریوں کے بارے میں بھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کب تک رہیں گی۔ ہم لوگ ایک scientific چیز کے لئے جو variable ہے اس پہ ایک eternal چیز جو سنت ہے یا جو شریعت کی بات ہے اس کو کیسے judge کر سکتے ہیں؟ جو لوگ سنت طریقے کو سائنس پر جانچتے ہوں ان سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہو گا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ آپ سنت طریقوں کے فوائد سائنس کے ذریعے سے ڈسکس کریں تو اس سے آپ کو یہ فائدہ ہو گا کہ آپ کو اس کے دنیاوی فائدے مل جائیں گے، آپ کا ایمان مزید مضبوط ہو جائے گا۔ آپ non-Muslims کو زیادہ اچھے طریقے سے قائل کر سکیں گےکیوں کہ جو non-Muslims مسلمان ہوتے ہیں ان میں سے اکثر ایسی وجوہات سے ہوتے ہیں کہ انہوں نے قرآن یا حدیث شریف کی کوئی ایسی بات سن لی یا پڑھ لی جو ان کی ریسرچ کے عین مطابق ہوتی ہے۔ مثلًافرعون کی لاش دریافت ہوئی تو اس پر ریسرچ کرنے والےفرانسیسی سائنسدان مورے کا انٹرویو میں نے سنا ہے جس میں اس نے کہا کہ میں نے جب اس کی dead body دیکھی تو اس پہ مجھے سمندری salt کے اثرات ملے، مجھے پتا چل گیا کہ یہ سمندر میں رہا ہے، اس قسم کی کچھ اور نشانیاں بھی تھیں جن کی قرآن کی باتوں سے تصدیق ہوتی ہے لہٰذا جس وقت وہ ریسرچ اس نے publicize کرنا چاہی تو پادریوں نے اس کو روکا کہ اس کو publicize نہ کریں کیونکہ اس سے قرآن کی تصدیق ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو ظاہر کرنا ہوتا ہے تو کون روک سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ میری professional dishonesty ہو گی کہ میں جو چیز صحیح سمجھتا ہوں اس کو چھپا لوں، یہ نہیں ہو سکتا ،میں اس کو ضرور شائع کروں گا ۔ اس وقت اس نے شائع کیا پھر بعد میں مسلمان بھی ہو گیا ۔ اس قسم کے بہت سارے واقعات ہیں ، حتیٰ کہ فرانس میں ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے پاس ایک میوزیشن آیا اوراس نے کہا کہ میں نے قرآن پاک کو harmonium میں بجایا تو سارا قرآن بج گیا لیکن ایک آیت نہیں بج رہی تو میں اس سلسلہ میں آپ سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کیوں نہیں بج رہی۔ انہوں نے کہا کہ بتاؤ تو اس نے پڑھا: ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَ رَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ أَفْوَاجًا﴾ (النصر: 1،2) انہوں نے کہا اس کی ایک قرأت "افواجا "بھی ہے تو وہ اچھل پڑا کہ اب بج گیا اور اس کے بعد ایمان بھی لے آیا۔ اب میوزک کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن موسیقیت ہے۔ موسیقی اور موسیقیت میں بڑا فرق ہے، موسیقی اس چیز کو کہتے ہیں جو آپ ساؤنڈ کو organize کرتے ہیں یعنی یوں سمجھ لیجیے کہ اس سے آپ musical strokes کے ذریعے سے آپ اس سے synthetically ایک ساؤنڈ organize کر لیں تو یہ میوزک ہے لیکن مثال کے طور پر آپ خوبصورت لہجے میں تجوید کے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں تو اس سے موسیقیت تو پیدا ہوتی ہے، اسی طرح آپ نعت پڑھتے ہیں تو اس کے ساتھ بھی موسیقیت پیدا ہوتی ہے، اس کو تغنی کہتے ہیں اور تغنی پہ پابندی نہیں ہے۔ ہمارے تقویم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ فاضل دیوبند تھے ، ان کی آواز میری طرح عام سی تھی، انہوں نے واقعہ سنایا کہ میں دیوبند میں ایک دفعہ قرآن پڑھ رہا تھا ،جب میں نے قرآن جتنا پڑھنا تھا، پڑھ لیا تو رک گیا ، اچانک کسی کونے سے ایک پنڈت باہر نکل آیا ،وہ پیچھے چھپ کے سن رہا تھا ۔اس نے کہا کہ کیوں روکا؟ انہوں نے کہا میں نے جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا اس لئے بند کر دیا ۔پنڈت کہنے لگا کہ تم کون سی بھیروی گا رہے تھے؟ بھیروی سر کو کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھیروی کیا ہوتی ہے؟ کہنے لگا کہ کمال ہے، اتنی بہترین بھیروی گا رہے تھے اور کہتے ہو کہ بھیروی کیا ہوتی ہے۔ یعنی یہ چیز قرآن کے اندر موجود ہے، یہ نثر ہے، شعر نہیں ہے لیکن شعر اس تک نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ پاک نے اس کو ایک اعجاز دیا ہے ۔

جامعہ ازہر کے عربی لینگویج کے کچھ سپیشلسٹ آپس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے لگے کہ لوگ کہتے ہیں قرآن میں بڑی بلاغت ہے لیکن ہمیں تو اس میں بلاغت نظر نہیں آئی۔ جو لوگ آج کل بڑے broad-minded بنتے ہیں ان کی آپس میں اس قسم کی بات بھی ہوتی ہے، تو ان میں ایک سمجھ دار آدمی بیٹھے ہوئے تھے ،انہوں نے ان سے کہا کہ اگر آپ یہ کہنا چاہیں کہ جہنم بہت بڑی ہے تو اپنی اپنی عربی میں بتائیں کہ کیسے کہیں گے؟ تو کسی نے کہا: " إِنَّ جَہَنَّمَ وَسِیْعَۃٌ " وغیرہ ۔ وہ مسکرا رہے تھے، انہوں نے کہا اب قرآن نے اس کو اس طرح کہا ہے: ﴿یَوْمَ نَقُولُ لِجَہَنَّمَ ھَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ ھَلْ مِن مَّزِیْدٍ﴾ (ق: 30) ترجمہ:" جس دن ہم کہیں گے جہنم سے کیا تو بھر گئی تو وہ کہے گی کیا اور بھی ہے" یہ سن کرسب نے اپنی رانیں پیٹ لیں کہ واقعی اس طرح کوئی نہیں کہہ سکتا ۔ یہ بلاغت نہیں تو اور کیا ہے؟ بالکل وہی بات ہے کہ جہنم بہت بڑی ہے لیکن آدمی اس طریقے سے کہے تو اس میں کوئی بلاغت نہیں اور اگر یہ کہے تو کمال ہے کہ وہی بات بلاغت کی انتہا پر ہے۔

سوال نمبر24:

السلام علیکم حضرت جی! امی کا وظیفہ آدھا گھنٹہ قلبی دعا کا ایک مہینہ پورا ہو گیا ہے۔

جواب:

ان کو اس میں فائدہ ہوتا ہے تو ایک گھنٹے کا دے دیں ۔

سوال نمبر25:

السلام علیکم! جب سے میرے father کی death ہوئی ہے on 3rd July, 2018 مجھ سے وہ مراقبہ میں consistency نہیں ہے۔ مجھ سے مراقبہ ٹھیک نہیں ہو رہا ۔

جواب:

consistency آپ کی اپنی effort ہے ،ہو رہی ہے یا نہیں ہو رہی اس کی آپ مکلف نہیں ہیں لہٰذا اگر نہیں ہو رہی اور آپ consistently کر رہی ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے، حالات اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں،دوبارہ ٹھیک ہو جائے گا لیکن اگر آپ نے کوشش ہی چھوڑ دی ہے تو پھر کیسے ٹھیک ہو گا ؟ جب چیز خراب ہو تو اس وقت زیادہ کوشش ہونی چاہیے بنسبت ٹھیک ہونے کی حالت کے۔

یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو میں سمجھانے میں اکثر نا کام ہوتا ہوں کہ میرے پاس کوئی آتا ہے یا مجھے کوئی خط لکھتا ہے یا مجھے کوئی میسج بھیجتا ہے کہ آپ نے جو وظیفہ یا ذکر دیا تھا وہ میں نہیں کر سکا ،مجھے معاف کر دیں تو میں ان سے کہتا ہوں کہ جب آپ کو ڈاکٹر کوئی دوائی دے اور ایک ہفتہ کے بعد دوبارہ آپ جائیں تو ڈاکٹر صاحب سے کہہ دیں کہ ڈاکٹر صاحب! مجھے معاف کر دیں میں وہ دوائی نہیں کھا سکا تو جو ڈاکٹر صاحب آپ کو کہیں گے وہ میں بھی آپ کو کہتا ہوں۔ کیا وہ آپ کو دو کلو میٹھائی کا ڈبہ دے کر شاباش دیں گے کہ جاؤ بھائی !آپ کو مبارک ہو، آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ ظاہر ہے، کسی نے اپنے پیروں پہ کلہاڑی مارنی ہے تو کوئی کسی کے ساتھ کیا کر سکتا ہے؟ جو آدمی ٹھیک نہیں ہونا چاہتا تو اس پہ سوچنا ہی نہیں ہے کہ جاؤ اپنا جو کام کرنا ہے۔اس کے علاوہ آپ اس کی منتیں تو نہیں کریں گے۔ ڈاکٹر تو آپ سے فیس لیتا ہے اور ہم تو فیس نہیں لیتے، ایک مفت کا علاج ہے اگر کوئی نہیں کروانا چاہے تو very good، پھر ہم کیا اس کی خدمت کر سکتے ہیں؟

اس مسئلہ میں خود اپنے فائدے اور نقصان کو دیکھنا چاہیے کہ اس میں ہمارا فائدہ ہےیا نقصان ہے۔شیطان ہمارے ساتھ لگا ہوا ہے، وہ ہمیشہ ہمیں نقصان کی طرف لے جائے گا اور نفس امارہ بھی نقصان کی طرف لے جائے گا۔ یہ دو چیزیں ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہیں ،ایک شیخ ہوتا ہے یا اگر آپ کا کوئی خیر خواہ ہو گا تو وہی آپ کو خیر کی دعوت دے سکتا ہے۔ اب اگر آپ اپنے خیر خواہوں کو ناراض کر لیں تو آپ کو کیا فائدہ ہو گا؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔

اس سلسلے میں میں ایک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ لوگوں میں مشائخ اور پیروں کے ساتھ تعلق کی جو غلط فہمیاں ہیں کہ بعض لوگ پیروں کو عامل سمجھ لیتے ہیں اور بعض لوگ عاملوں کو پیر سمجھ لیتے ہیں جس سے بڑا نقصان ہوتا ہے۔ پیر کا تعلق صرف اصلاح نفس ،اصلاح قلب اور اصلاح عقل کے ساتھ ہوتا ہے اور کسی چیز کے ساتھ نہیں ہوتا اور نہ اس کے علاوہ اس کی کوئی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں پہلے تھوڑی نرمی تھی ، لیکن اب تو میں اس کو چھیڑتا بھی نہیں ہوں۔ جب ہم خیابان میں تھے تو یہاں کے کوئی صاحب ادھر چلے گئے مجھے کہا کہ میرا یہ مسئلہ ہے تو اس کو میں نے ایک وظیفہ بتایا۔اس نے کہا کمال ہے، جس کے پاس بھی جاتا ہوں وہ کچھ نہ کچھ پڑھنے کا بتاتا ہے، خود کچھ نہیں کرتا تو میں نے کہا میں تیرے باپ کا نوکر نہیں ہوں، جاؤ اپنا کام کرو،تم خود اپنے لئے کچھ نہیں کرنا چاہتے تو میں کیوں تمھارے لئے کروں؟ میرے اور کام نہیں ہیں؟ بہر حال !ان کو عقل آ گئی ۔آج کل یہ بڑے مسائل ہیں کہ لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ جیسے کوئی اور فارغ ہے اور یہ بہت مصروف ہیں۔ ظاہر ہے بھائی !اپنے اپنے وقت اور روٹین کی بات ہوتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ لوگ دعا کا mis-interpret کرتے ہیں ۔ دعا یقیناً کرنی چاہیے لیکن محنت کر کے دعا کرنی چاہیے یعنی جو آپ کے بس میں نہیں ہے اس کے لئے دعا ہے۔ جیسے آپ نے اسباب اختیار کر لیے جو آپ کے بس میں ہیں لیکن اسباب کا مؤثر ہونا آپ کے بس میں نہیں ہے اس کے لئے دعا کرنی چاہیے۔مثال کے طور پر امتحان دینا میرے بس میں ہے لیکن امتحان میں پاس ہونا میرے بس میں نہیں ہے تو اب میں محنت کر کےامتحان دے دوں گا اور اس کے بعد دعا کروں گا کہ یا اللہ !مجھے امتحان میں پاس کر دے۔ اگرمیں امتحان نہ دوں اور دعا کروں کہ یا اللہ! مجھے پاس کر دے تو لوگ مجھے پاگل خانے لے جائیں گے کہ یہ کیسی احمقانہ بات ہے۔ اسی طرح کھانا آپ کے بس میں ہے لیکن پیٹ بھرنا اللہ تعالیٰ کے بس میں ہے، وہ اللہ پاک ہی کرے گا، جوع البقر ایک بیماری ہے جس میں انسان کھاتا رہتا ہے اور اس کا پیٹ نہیں بھرتا بھلے پھٹ جائے، اس طرح استسقاء ایک بیماری ہے جس میں پانی انسان پیتا ہے لیکن پیاس نہیں بجھتی ۔ اگر اللہ پاک نہ چاہے تو آپ اس سے پیٹ نہیں بھر سکتے۔ اس لئے آپ اسباب کو اختیار کر کے پھر اللہ پاک سے مانگیں۔ لیکن لوگ اس میں یہی گڑ بڑ کرتے ہیں ،وہ سمجھتے ہیں کہ بس کوئی دعا کرے گا اور ہمارا سارا کام اسی طریقے سے ہو جائے گا۔ اگر کوئی فول بننا چاہتا ہے، اپنا وقت ضائع کرنا چاہتا ہے تو کرے۔ ہم تو صحیح اور سچ بتائیں گے کہ بھائی! اس کا طریقہ اس طرح نہیں ہے، اگر کوئی آپ کو بے وقوف بنانا چاہتا ہے اور بے وقوف بننےکے لئے آپ تیار ہیں تو ان کے پاس چلے جائیں وہ آپ کو بنا لیں گے۔ وہ یہاں تک بھی کہہ دیں گے ہم آپ کے لئے نمازیں پڑھ لیں گے ہم آپ کے لئے روزے رکھ لیں گے ایسے بھی لوگ ہیں وہ کہیں گے کہ ہم آپ کے لئے نمازیں پڑھ لیتے ہیں، ہم آپ کے لئے روزے رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب فراڈ ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے شر سے بچائے ۔

سوال نمبر26:

حضرت! کہا جاتا ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو تو اس کا کیامطلب ہے؟

جواب:

در اصل جب انسان کسی کے ساتھ احسان کر دے تو اس سے اس کو طمع ہونی شروع ہو جاتی ہے اور سارا مسئلہ یہی ہے۔ ہمارے ایک ساتھی کسی گاؤں کے ہیں لیکن کافی مالدار لوگوں میں سے ہیں ۔ وہ مجھے اپنا experience بتا رہے تھے کہ اگر گاؤں میں ہم کسی کے ساتھ ذرہ بھر بھی نرمی کر لیں تو وہ لوگ جوتوں سمیت ہمارے سر پہ بیٹھنے کے لئے آ جاتے ہیں، اور واقعی یہ بات صحیح ہے تھوڑا سا کسی کے ساتھ احسان کردیں تو وہ پہلے اپنی جگہ بناتے ہیں اورپھر آپ کے اوپر چڑھ دوڑتے ہیں اور آپ سے وہ expect کرتے ہیں جو آپ نہیں کر سکتے اور یہ طمع کی وجہ سے ہے اور کچھ نہیں۔

اس کا توڑ یہ ہے کہ آپ جتنا کسی کے ساتھ اللہ کے لئے احسان کر سکتے ہیں ،کریں اور بالکل پروا نہ کریں ۔ جو کرنا ہے اللہ کے لئے کریں، اگر آپ اس کے لئے کریں تو انسان آپ سے کبھی بھی راضی نہیں ہو گا ،انسان اللہ تعالیٰ سے راضی نہیں ہے تو ہم سے کہاں راضی ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ بہت قدردان ہے، وہ آپ کی ادنیٰ سے ادنیٰ چیز کو بھی قبول فرما لے گا۔

سوال نمبر27:

یہ جو بات ہوئی ہے کہ بچوں کے کپڑوں میں کفار کی مشابہت ہوتی ہے کیا یہ تصویروں کی وجہ سے فرمایا؟

جواب:

ہاں!بے حیائی کی تصویریں ہوتی ہیں، جیسے چھوٹی بچیوں کے لئے بلاؤز وغیرہ اگرچہ وہ بچیاں ہوتی ہیں لیکن آپ نے ان کی مشابہت تو کروا دی۔ اب باقاعدہ سلیولیس کپڑے ہوتے ہیں جن میں سلیوز علیحدہ آتی ہیں، اگر ان کو کوئی جوڑنا چاہے تو جوڑ لے اور کوئی نہ جوڑنا چاہے تو نہ جوڑے ۔ اس طرح سارا کلچروہی بن جاتا ہے۔ جو بچپن سے اس طرح کے کپڑے پہننے کے عادی ہو جائیں تو بعد میں ان کو کیسے صحیح کپڑے پہنائیں گے؟

سوال نمبر28:

جو بندہ فوت ہو جائے اس کے لئے نفل پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب:

جی بالکل پڑھ سکتے ہیں، آپ میرے والد کے لئے پڑھ لیں۔

سوال نمبر29:

جب مسلمان مؤمنین کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں تو گویا کہ ہم اللہ سےدعا کر رہے ہیں کہ یا اللہ! یہ گناہ گار ہے، اس کو معاف کر دے ۔ کیا یہ ٹھیک ہے؟

جواب:

جی ہاں!یہ ٹھیک ہے، غائبانہ دعا قبول ہوتی ہے اس لئے میت کے لئے ہمیشہ دعا کرنی چاہیے ۔ جنازہ میں ہم کیا دعا کرتے ہیں :"اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَ مَیِّتِنَا وَ شَاھِدِنَا وَ غَائِبِنَا وَ صَغِیْرِنَا وَكَبیْرِنَا الخ"

وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ