سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 373

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

أَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم حضرت! اللہ پاک آپ سے راضی ہوں، ایک سوال عرض ہے اگر مناسب سمجھیں تو رہنمائی فرما دیں۔ حضرت ایک کمزور مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ کے ساتھ نیک گمان رکھنے کا کیا طریقہ ہے؟ اس کی حدود اور اس کےآداب کیا ہیں؟ یہ بات حق ہے کہ ساری خیر ہی مستعار ہے لیکن جب یوں کہا جاتا ہے کہ :

میں تو برا ہوں لیکن میری لاج ہے کس کے ہاتھ نہ پوچھو

اور

کس لئے حشر کا ڈر ہو قاسم مجھے میرا آقا ہے وہ میرا مولا ہے وہ

جن کے قدموں میں جنت بنائی گئی جن کے ہاتھوں سے کوثر لٹایا گیا

حضرت! بڑے لوگ تو یہ کہہ سکتے ہیں جو بہت عارف ہیں اور اسباب اختیار کر چکے ہیں اور اپنی نیتیں صاف کر چکے ہیں ۔کیا ہم جیسے بھی ایسا کہہ سکتے ہیں اور اگر کہہ سکتے ہیں تو کس نیت اور کیسےاحتیاط کے ساتھ کہہ سکتے ہیں؟

جواب:

در اصل ہر چیز میں اعتدال ضروری ہوتا ہے۔ اس وجہ سےاَلْإِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَ الرَّجَا“ فرمایا گیا ہے کہ ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اتنا خوف میں مبتلا ہو جائے کہ امید منقطع ہو جائے تو اس کو کہا جائے گا کہ امید کو غالب کرو اور یہ آیت اس کے سامنے لائی جائے گی﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ۚ إِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا﴾(الزمر: 53) اور اگر کوئی شخص بے خوف ہو جائے اور اسے اتنی امید ہو جائے کہ اس کو خوف باقی نہ رہے تو اس کو خوف یاد دلایا جائے گا کیونکہ وہ اس بے خوفی کی وجہ سے بے اعتدالی میں پڑ جائے گا۔ جن حضرات کا آپ نے ابھی ذکر کیا ہے ان کا معاملہ الگ تھا۔ در اصل ایک شخص اپنے بس کے مطابق اپنی پوری کوشش کرتا ہے لیکن وہ اپنی کوشش کو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اللہ پاک کے ساتھ انسان کی محبت کی وجہ سے ناکافی سمجھتا ہے تو اس کی یہ حالت ہو جاتی ہے۔ وہ عقلًا یہ بات نہیں کرتا بلکہ یہ اس کا حال ہوتا ہے۔ مثلًا حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کس مقام پہ تھے؟ لیکن وہ جب اپنے آپ پر منافق کا گمان کرنے لگے تو لوگوں نے کہا کہ حضرت! آپ کے بارے میں تو آپ ﷺ کی مبشرات ہیں ،آپ ﷺ نے آپ کو بشارتیں دی ہیں اور آپ ﷺ کی بات تو غلط نہیں ہو سکتی تو حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ بات بالکل صحیح ہے، آپ ﷺ کے سامنے جو ہماری زندگی گزری ہے اس کے بارے میں تو الحمد للہ! ہمیں اطمینان ہے لیکن اس کے بعد کا ہمیں نہیں پتا، اس کے بارے میں ہمیں کون تسلی دے گا۔

ایک مرتبہ حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ روضۂ اقدس پہ کھڑے رو رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ یا رسول اللہ! ایک درخت جب آپ کا منبر بن گیا اور آپ اس پر تشریف فرما ہوئے، وہ آپ کے فراق میں رونے لگا تو آپ تشریف لے آئے اور اس کے اوپر ہاتھ رکھ لیا اور وہ ہچکی لیتے لیتے چپ ہو گیا اور اس کارونابند ہو گیا ۔آج ہمارے سر پہ کون ہاتھ رکھے گا؟ اور پھر رونے لگے۔ ان کا حال یہ تھا، محبت کی وجہ سے ان کو تسلی کی ضرورت تھی تو ان کے لئے یہ باتیں بہت اہم تھیں۔ اس طرح مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے حضرات کے لئے تو یقینًا یہ بات تھی لیکن آج کل یہ fashion بنا ہوا ہے کہ فسق و فجور اورشراب و کباب اورعیش کی باتیں کریں گے اور جب ان کو کوئی تنبیہ کرےتو کہتےہیں کہ اللہ غفور و رحیم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے غفور و رحیم ہونے میں تو شک نہیں ہے لیکن اللہ کے قانون کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ اللہ پاک کی سنت عادیہ بھی ایک چیز ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے پھر ایسے ہی لوگ پیدا ہوتے ہیں جیسےایک انگریز کتے کو لے جا رہا تھا تو کسی نے اس سےپوچھا کہ اس کتے کو ساتھ کیوں لے جا رہے ہو؟ اس نے کہا کہ میں اس لئے لے جا رہا ہوں کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ جہاں کتا ہوتا ہے وہاں فرشتے نہیں آتے، کتا پاس ہونے سے عزرائیل علیہ السلام نہیں آئے گا۔ اس نے کہا کہ آخر کتے کو مارنے کے لئے بھی کوئی فرشتہ آئے گا یا نہیں؟ جو اس کے لئے آئے گا وہ تیرے لئے بھی آ جائے گا۔ تو ایسے لوگوں کے لئے تو ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔

حاصل یہ کہ ان کے لئے تو یہ باتیں بالکل ٹھیک تھیں البتہ ہم لوگ پہلے اپنے عمل اور اپنی اصلاح کے اوپر توجہ دیں اور امید رکھیں کہ ان شاء اللہ، اللہ پاک ہمارے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائیں گے۔ یعنی کوشش میں کمی نہ کریں اور امید کو ہاتھ سے نہ جانے دیں تو سبحان اللہ بات بالکل صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم میرا نام اختر عالم خان ہے اور کراچی سے تعلق ہے۔ اگر آپ کا کوئی گروپ ہو تو اس خاکسار کو شامل کر لیں تاکہ میں بھی دینی سرگرمیوں سے مستفید ہو سکوں۔

جواب:

ٹھیک ہے اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن آپ اپناتھوڑا سا مزید تعارف کرا دیں کہ آپ کا کس کے ساتھ تعلق ہے اور آپ کےکیا مشاغل ہیں تو آپ کو ان شاء اللہ ضرور گروپ میں شامل کر دیا جائے گا۔

سوال نمبر 3:

کیا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے اعمال قرآنی کے اذکار کی عمومی اجازت ہے؟

جواب:

دراصل اگراجازت ہو تب بھی تو ان چیزوں کے پیچھے پڑنے میں مسائل زیادہ ہیں کیونکہ پھر یہی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہو جاتا ہے۔ چونکہ اس میں دنیا شامل ہے اس لئے اس طرف توجہ زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے جب تک انسان کی اصلاح مکمل نہ ہو ایسی چیزوں کی طرف توجہ کرنا مجھے خطرناک لگتا ہے کیونکہ بڑے بڑے لوگ عملیات کی طرف توجہ کر کے ضائع ہو گئے ہیں۔ عملیات میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن پہلے اپنی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ 

سوال نمبر4: 

السلام علیکم!

As I was informed you about my Sweden plan I will leave by august 15 ان شاء اللہ so I wouldn’t be able to do your prescribed ذکر there because I am going live and going live and shared accommodation so can you please change my ذکر by that by than that is short and that I can recite in my heart, right now, I am doing 20 تسبیحات of اللہ اللہ and I have to do it a little loud waiting for your response. 

جواب:

آپ بیشک اس کو loud نہ کریں اور جب تک آپ وہاں ہیں اس کو دو حصوں یعنی صبح شام میں تقسیم کر لیں۔ صبح 1000 دفعہ اور شام کو 1000 دفعہ اور اس کو دل کی توجہ کے ساتھ زبان سے کر لیں لیکن زبان کی آواز صرف آپ کو سنائی دے کسی اور کو نہ سنائی دے توان شاء اللہ کافی ہے۔

سوال نمبر5:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت اللہ کے فضل سے اور آپ کی دعاؤں سے 18 جولائی کو میرا مندرجہ ذیل ذکر کا ایک ماہ پورا ہو گیا ہے: لَآإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ 200 مرتبہ، : لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوْ 400 مرتبہ، حَق 600 مرتبہ، حَق اللّٰہ 500 مرتبہ، حَق ھُو 500 مرتبہ۔ حقَ اللّٰہ کے ذکر کے دوران یہ تصور کیا کہ اللہ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ حضرت! کبھی کبھی لوگوں کی غیبت ہو جاتی ہے جس کے بعد دل پر کافی بوجھ محسوس کرتا ہوں۔

جواب:

اب آپ باقی اذکار کو ویسے رہنے دیں اور صرف حَقْ ھُوْ کو ھُوْ حَقْ کر لیں۔ غیبت کے علاج کے لئے آپ خاموشی والا مراقبہ کر لیں اور 20 منٹ تک اس کو پہنچا دیں تو ان شاء اللہ العزیز آپ کو سوچنے کا موقع ملے گا اور آپ کو پتا چلے گا کہ میں کون سا کام کروں کون سا کام نہ کروں۔

سوال نمبر6:

السلام علیکم حضرت جی !میں فلاں ہوں، آپ کی تراویح کے کلام مبارک سے بھی فائدہ ہوا الحمد للہ۔

میں نے دنیا کا یہاں خوب تماشا دیکھا

ہر طرف میں نے تو بس اس کا چرچا دیکھا

کیسے کہوں کہ اس نے بلایا نہیں مجھے

کافی ہے اپنے در سے ہٹایا نہیں مجھے

اس کو تشریح کے ساتھ سن کر یہ لگتا ہے جیسے مجھے یہ سمجھایا جا رہا ہو۔ اس کو سن کر الحمد للہ اس کی توفیق ہوئی اور کچھ وقت کے لئے ایمان بہت بڑھ جاتا ہے، اللہ پر بھروسے و توکل کی کیفیت ہو جاتی ہے۔ کوشش کرتی ہوں کہ سنتی رہوں تاکہ پریشانی کی طرف دھیان نہ جائے لیکن ابھی ملی جلی کیفیت رہتی ہے کبھی اچھی کیفیت ہے کبھی بری لیکن الحمد للہ بار بار سننے سے فائدہ ہوتا ہے اور یاد دہانی ہوتی رہتی ہے۔ ابھی الحمد للہ صحت بھی پہلے سے بہتر ہو رہی ہے اور ایک clinic میں کام بھی مل گیا ہے۔ اللہ پاک کا شکر ادا کر رہی ہوں، آپ دعا فرما دیں کہ اللہ عزوجل اور بھی آسانی فرما دیں۔

جواب:

سبحان اللہ! یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ کو کلام سے فائدہ ہو رہا ہے اور واقعتاً یہ کلام ہوتا بھی اسی لئے ہے کیونکہ یہ ایک جذبات بنانے والی چیز ہے اورجب انسان کے کسی چیز کے جذبات بن جاتے ہیں تو ان جذبات کے مطابق کام کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد کے موقع پر لوگ ایسے اشعار پڑھتے تھے جن سے جذبہ پیدا ہوتا تھا اور جذبے کے ساتھ ان کے لئے لڑنا بہت آسان ہو جاتا تھا حتیٰ کہ کفار کی عورتیں بھی گاتیں اور ان کو جنگ پر ابھارتیں تو ان کے لئے بھی لڑنا آسان ہو جاتا ۔ جذبہ صحیح بھی ہو سکتا ہے غلط بھی ہو سکتا ہے، غلط جذبے کے اشعار انسان کو غلط اعمال کی طرف لے جاتے ہیں اور صحیح جذبات کے اشعار انسان کو صحیح اعمال پہ لے آتے ہیں۔ یعنی محرکِ باطن ہیں لہٰذا اگر کسی کو شاعری کا ذوق ہو اور اس کو اچھے اشعار مل جائیں تو یقیناً اس سے فائدہ ہوتا ہے اور بہت سارے کام آسان ہو جاتے ہیں۔ آپ ان کو پڑھتی اور سنتی رہیں، ان شاء اللہ آپ کو فائدہ ہو گا۔

سوال نمبر7:

السلام علیکم میرے عزیز محترم مرشد دامت برکاتہم! امید ہے کہ آپ ان شاء اللہ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی! مجھے لوگوں سے ملنے والی کیفیت تنگ کر رہی ہے، اس کو میں کیسے روکوں ؟مجھے ڈر ہے کہ کہیں کئی قسم کے غلط لوگوں کے بارے میں سوچوں اوریہ ان کو یا مجھے خسارے میں نہ ڈالیں۔

جواب:

ہاں ٹھیک ہے، اپنی صحبت کو control رکھنا چاہیے اور ہر شخص کے ساتھ ملنے جلنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جن کے ساتھ ضرورت اور مجبوری ہو اور انسان ان سے نہ ملنا چاہے تو وہاں حفاظت ہوتی ہے۔ اگرچہ نقصان کا پھر بھی اندیشہ ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کا ارادہ بچنے کا ہوتا ہے لہٰذا اللہ پاک حفاظت فرما ہی دیتے ہیں۔ لیکن اگر ضرورت نہ ہو ،بلا ضرورت ایسے لوگوں کے ساتھ ملے تو نقصان definite ہے، پھر نقصان لازمًا ہو جاتا ہے لہٰذا ایسے لوگوں کے ساتھ بلا وجہ نہیں ملنا چاہیے۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک کنجڑا اگر پورا دن نعرہ لگائے کہ لے لو امرود، لے لو امرود تو اس کو کوئی نقصان نہیں ہو گا لیکن اگر کوئی شخص اپنے منہ سے ذرہ بھر بھی کوئی بات بلا ضرورت نکالے تو اس کے دل میں ظلمت آ جائے گی۔ اس لئے بلا ضرورت ایسے لوگوں کے ساتھ نہ ملا جائے۔ ہاں !ضرورت کے موقع پر انسان اپنا حصار بھی کر لیا کرے اور اللہ پاک سےمدد بھی مانگےتو ان شاء اللہ خیر ہو گی۔

سوال نمبر8:

السلام علیکم حضرت جی! آج فجر کی نماز پھر قضا ہو گئی۔ والد صاحب بھی نہیں اٹھا سکے۔

جواب:

ہمارا طریقہ یہ ہے کہ اس کے لئے 3 روزے رکھنے ہوتے ہیں تو آپ 3 روزے رکھے لیں اور اپنے اس failure اور ناکامی کا analysis کر لیں کہ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ وہ وجہ بھی مجھے بتائیں اور اس کا علاج بھی سوچ کر مجھے بتائیں۔

سوال نمبر9:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی! اگر کچھ دن گزر جائیں اور آپ سے بات نہ ہو تو ایسا لگتا ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں رہا اور عجیب بے چینی ہوتی ہے اور آپ سے فوراً فون پر بات کرنے کو دل کرتا ہے لیکن کوئی بات پوچھنے یا کرنے کی نہیں ہوتی یا یاد نہیں آ رہی ہوتی تو میں اپنی طرف سےفوری طور پر کوئی سوال بنا کر آپ کو فون کر لیتا ہوں۔جب آپ سے بات ہو جاتی ہے تو سکون آ جاتا ہے۔ آج بھی میں نے آپ کو فون کیا تھا لیکن آپ پشاور میں تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کچھ دنوں سے کوئی عبادت کرنے کا دل نہیں کرتا، مسجد سے جلد اٹھ کر آ جاتا ہوں۔معمولات پورے کرنے میں بڑی مشکل ہو رہی ہے لیکن الحمد للہ! آپ کی برکت سے ہو رہے ہیں۔ اللہ پاک آپ اور آپ کے سب گھر والوں سے راضی ہو۔

جواب:

ماشاء اللہ شیخ کی محبت بڑی اچھی بات ہے۔ آپ تھوڑا سا اس کو یاد کر لیا کریں کہ شیخ نے مجھے کہا تھا کہ عبادات میں سستی نہیں کرنی، بس اس کو یاد کر کر کے عبادت اچھی طرح کر کے مجھے بتا دیا کریں، ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔

سوال نمبر10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! "ہر کسی کی استعداد مختلف ہوتی ہے، بعض لوگوں کا ایک دن میں تزکیہ ہو جاتا ہے" آپ نے اس کا جو جواب فرمایا ہے میرے خیال میں اس میں نیت کا خاص عمل دخل ہے۔ چونکہ میں ابھی آگے نہیں بڑھا تو یقیناً میری نیت میں بھی فرق ہے لیکن سمجھ نہیں آ رہی۔ آپ سے انتہائی عاجزانہ درخواست ہے کہ میری نیت درست کروا دیں کہ ایک سالک کی کیا نیت ہونی چاہیے؟ نیز شیخ کی مجلس میں کس نیت سے حاضر ہونا چاہیے؟

جواب:

آسان طریقے سے آپ کو یہ بات سمجھادیتا ہوں۔ آپ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو آپ کی کیا نیت ہوتی ہے؟ کیا ڈاکٹر کے پاس ان کے ساتھ گپ شپ لگانے کی نیت ہوتی ہے یا ان کے clinic کو دیکھنے کی نیت ہوتی ہے؟ یا کیا وہاں لوگوں سے ملنے کی نیت ہوتی ہے؟ یا وہاں کچھ کتابیں پڑی ہوں تو آپ کی کتابوں کو دیکھنے کی نیت ہوتی ہے؟ جو نیت وہاں ڈاکٹر سے ملنے کی ہوتی ہے وہی نیت شیخ کے ساتھ ملنے کی بھی کریں کہ بیمار ہوں اور اس کے لئے معالج سے ملنا ہے اور اپنے احوال بھی بتانے ہیں اور ان کی صحبت میں بھی بیٹھنا ہے اور وہاں کے ماحول میں بھی رہنا ہےتاکہ میری اصلاح ہو اور مجھے جلدی صحت ہو جائے۔ بس اس نیت کے ساتھ مل لیا کریں، باقی اس طرح پراسراریت میں نہ جائیں۔ یہ پراسراریت کی چیزیں انسان کو پیچھے کر دیتی ہیں ۔ جیسے میں نے ابھی آپ سے سادہ بات کی ہے اسی سادگی کے ساتھ آپ ملا جلا کریں اور جو بتایا جائے اس پہ آپ عمل کر لیا کریں ،ان شاء اللہ العزیز اللہ تعالیٰ رستہ نکال دیں گے۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ جٰھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69) ترجمہ: "جو میں راستہ مجھ تک پہنچنے کے لئے کوشش اور محنت کرتے ہیں ان کو ضرور بضرور ہدایت کے رستے سجھاؤں گا"۔یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔

سوال نمبر11:

ایک عالم صاحب نے مجھے یہ بھیجا ہے کہ میں ووٹ کیوں نہیں ڈالتا۔انہوں نے بڑی تفصیل سے بات کی کہ اسلام اپنا سیاسی عقیدہ خود پیش کرتا ہے اور یہاں پر لوگ اس میں آ جاتے ہیں پھر اس میں یہ ہوتا ہے اور اس میں بڑی تفصیلات لکھی ہیں۔ پھر ووٹنگ سے متعلق بھی کئی اشکالات پیدا ہوتے ہیں، مثال کے طور پر جو لوگ ووٹ کو مشورہ قرار دے کر دینی فریضہ سمجھتے ہیں وہ اس طرف خیال نہیں کرتے کہ کیا ووٹ یا مشورہ مملکت اسلامی میں سے ہر ایک سے لینا ضروری ہوتا ہے یا پھر صرف ارباب حل و عقد ہی اس کے مکلف ہیں؟

جواب:

یہ سب theoretical باتیں کی ہیں، practical بات اس میں کوئی نہیں ہے تو میں نے پھرتفصیلًا جواب دیا۔ کیونکہ انہوں نے بڑا لمبا article لکھا ہےتو اتنا وقت تو آپ کے پاس بھی نہیں ہو گا اورہمارے پاس بھی نہیں ہے کہ پورا پڑھ کر سناؤں۔ میں نے جواب دیا کہ ہم ووٹ اس لئےڈالتے ہیں کیونکہ اس system سے ہمارے حکمران بنتے ہیں۔ اگرچہ یہ system صحیح نہیں ہے لیکن ووٹ نہ ڈالنے کے نقصانات کے پیش نظر علماء کرام ووٹ ڈالنا ضروری سمجھتے ہیں جیسے کہ دار العلوم کراچی اور بنوری ٹاؤن اور دیگر مدارس کے دار الافتاؤں سے فتوے آئے ہیں۔ اگر ووٹ نہ ڈالنے میں نقصان نہ ہوتا تو میں بھی ووٹ نہ ڈالتا ۔ وہ نقصان کیا ہے؟ مثلاً ایک امید وار ٪80 خراب ہے، دوسرا ٪ 85 اورتیسرا ٪ 20 تو اب جن کے منتخب ہونے کا امکان ہو تو دیکھیں اس میں کم سے کم خراب کون ہے اور اس کو ووٹ دیں۔ مثلاً اگر آپ اس کو ووٹ نہیں دیں گے تو آپ نے زیادہ سے زیادہ خراب یعنی ٪80 کے ساتھ ٪50 مدد کی ہے۔ اس کو دیکھ کر کہ ہماری غفلت سے زیادہ خراب لوگ نہ آئیں، علماء ووٹ ڈالنا ضروری سمجھتے ہیں ۔

بعض کا خیال ہے کہ ووٹ نہ ڈالنے کی post باقاعدہ سازش کے ذریعے سے پھیلائی جا رہی ہے کیونکہ اس سے صرف دین دار لوگ ہی متاثر ہوں گے اور ان کے ووٹ کم ہو جائیں گے۔﴿ فَاعْتَبِرُوْا یَا أُوْلِی الْأَبْصَارِ﴾ (الحشر: 2) دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ جو یہود کا agent ہے اس کو کسی صورت میں ووٹ نہیں دینا چاہیے چاہے وہ بہت اچھا بھی نظر آئے کیونکہ اس کی اچھائی یہود کے لئے ہے اسلام کے لئے نہیں ہے۔ مجھے ایک صاحب نے کہا تھا کہ میں فلاں party میں نہیں جاؤں گا، میں اپنی داڑھی کا فائدہ اس کو نہیں دینا چاہتا یعنی اچھائی کا فائدہ اچھوں کو ملنا چاہیےبروں کو نہیں ملنا چاہیے۔ خیر! اللہ کا شکر ہے، میرے خیال میں حضرت کو بات سمجھ آ گئی اور انہوں نے پھر جامعہ دار العلوم کراچی کا ایک اعلان forward کیا جس میں انتخابات کے لئے 3 روزہ تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔

وہ اعلان یہ ہے:"آج مورخہ 23 جولائی 2018 بعد از نماز عصر حضرت شیخ الاسلام مولانا محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے جامعہ مسجد جامعہ دار العلوم کراچی میں طلبہ سے مختصر خطاب کیا جس میں سیاست سے متعلق جامعہ دار العلوم کراچی کا مزاج ،انتخابات کی شرعی حیثیت، ان کی موجودہ اہمیت اور اس سے متعلق چند مسائل پر بات کی گئی ۔بعد ازاں حضرت والا نے فرمایا کہ چونکہ اکثر طلبا کا ووٹ اپنے اپنے علاقوں میں ہوتا ہے اس لئے جامعہ میں آج بروز پیر عصر سے لے کر جمعرات تک چھٹی رہے گی۔ چونکہ درمیان میں جمعہ بھی آ رہا ہے اس لئے اس خیال سے طلبہ کو کل 4 چھٹیاں مل گئی ہیں۔ جامعہ دار العلوم کراچی میں حضرت نائب صدر شیخ الاسلام مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے "ووٹ کی اہمیت اور ووٹ کس کو دینا چاہیے" پر خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ووٹ دینا ایک شرعی فریضہ ہے۔ ہم کسی کو نہیں کہتے کہ ووٹ کس کو دیں اور کس کو نہ دیں، آدمی کا ضمیر خود اچھے اور برے کی تمیز کر سکتا ہے۔ ہاں! یہ کہتا ہوں کہ ووٹ اس کو دو جو اسلام دوست، محب وطن اور دین دار ہو ۔ پھر فرمایا کہ اس سے قبل تو جامعہ میں یہ تھا کہ اکثریت کراچی کے طلبہ کی ہوتی تھی تو اس لئے وہ طلبہ ووٹ کے لئے جاتے اور واپس آ جاتے لیکن اس سال اکثریت دور کے طلبہ بالخصوص K.P.K کے طلبہ کی ہے لہٰذا آج شام 5 بجے سے جمعہ تک مکمل تعطیل چھٹی ہو گی تاکہ طلبہ اس شرعی فریضےمیں شرکت کر سکیں جو علماء کا زیادہ حق ہے۔ یہ بالکل وہی بات ہے اور میرے خیال میں باقی مدارس والوں نے بھی چھٹیاں کی ہیں ۔ جامعہ فریدیہ اور بنوری ٹاؤن نے بھی کی ہوں گی ، کیونکہ میرے پاس ان کی طرف سے جو اطلاع نامہ آیا ہے مجھے لگتا ہے یہ غالبًا ان کی طرف سے بھی ہے کیونکہ اس میں ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر رحمۃ اللہ علیہ کا نام بھی لکھا ہوا تھا واللہ اعلم بالصواب۔ بہرحال! ممکن ہے کہ ادھر بھی ان شاء اللہ ہو چکی ہوں گی ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اس چیز کی اہمیت ہے اور ہمیں اس کی اہمیت کا احساس کرنا چاہیے۔صحیح لوگوں کو ووٹ ڈالنا چاہیے اور جس طرح وقت اور پیسوں کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اس طرح اپنا ووٹ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ووٹ کے بارے میں ایک بہت اچھی بات ہے کسی اور نے بھی بھیجی ہے:

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ووٹ کے بارے میں فتوی

"انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کو چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بھی حرام ہے۔ اس کو محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل تماشہ سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے۔ آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں شرعاً آپ یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریہ، اپنے علم و عمل اور دیانت داری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امید وار سے بہتر ہے جس کام کے لئے انتخابات ہو رہے ہیں ۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:

1) آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمائندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا وہ اس سلسلہ میں جتنے اچھے یا برے اقدامات کرے گا ان کی ذمہ داری آپ پر عائد ہو گی۔ آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں برابر کے شریک ہونگے۔

2) اس معاملہ میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو اسکا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے، ثواب بھی اور عذاب بھی محدود، جبکہ قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے، اس کا ادنیٰ سا نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لئے اس کا ثواب و عذاب بھی بہت بڑا ہے۔

3) سچی شہادت کا چھپانا ازروئے قرآن حرام ہے۔اس لئے آپ کے حلقہ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریہ کا حامل ہو اور دیانت دار نمائندہ کھڑا ہو تو اس کو ووٹ نہ دینا گناہ کبیرہ ہے۔

4) جو امیدوار نظریہ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے۔اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو کہ گناہ کبیرہ ہے۔

5) ووٹ کو پیسوں کے عوض میں بیچ دینا بدترین قسم کی رشوت ہے اور چند ٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے۔ دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لئے اپنا دین قربان کر دینا چاہے کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں کیوں نہ ہو، دانش مندی نہیں ہو سکتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا "وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسروں کی دنیا کے لئے اپنا دین کھو بیٹھے" ۔

در اصل اس وقت ووٹ ڈالنے کے خلاف جو post پھیلائی جا رہی ہے یہ مجھے ایک سازش لگ رہی ہے جو باقاعدہ planning کے ساتھ تیار ہوتی ہے اوراس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دین دار لوگ ووٹ نہ ڈالیں ۔یہ دین دار لوگوں کا ووٹ جب کم ہو گیا تو نقصان دین کا ہو گا۔ اس لئے اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ ووٹ ڈالنا چاہیے اور صحیح لوگوں کو ڈالنا چاہیے اور اس اصول کو میں نے بالکل کھل کے بتایا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ یہود کے agent کو نہیں دینا چاہیے ،یہ تو out of course ہے یعنی اس کے بارے میں تو سوچنا بھی فضول ہے کہ وہ کتنا قابل ہے اور کتنا ہوشیار ہے اور کتنا اچھا ہے۔ دوسرا وہ لوگ جو corruption میں مبتلا ہیں یا کسی وجہ سے بھی خراب ہیں یا آپ کو کوئی بالکل اچھا نہیں ملتا جیسا کہ آج کل یہی chance ہے تو دیکھو خرابی کی نوعیت کیا ہے۔ یعنی کوئی %80 خراب ہے، کوئی %60 ،کوئی %50 ،کوئی 40 ،کوئی 30 اورکوئی 20 تو ان میں سے جو بھی منتخب ہونے کا اہل ہو ان میں کم سے کم خراب کو ووٹ دے دو ۔ان میں کم سے کم خراب کو ووٹ دے دو تو گویا کہ آپ نے خرابی کم کر دی ہے۔ دیکھو منفی 40 سے منفی 20 پہ آنا مثبت ہے اور منفی 20 سے منفی 25 پہ جانا، منفی ہے اور 15 سے 20 پہ آنا یہ بھی منفی ہے۔ اسی طریقے سے جو کم خراب ہے جب آپ اس کو ووٹ دیں گے تو آپ نے خرابی کم کر دی اور ایک مثبت کام کر لیا۔ خرابی کو کم کرنا اچھائی ہے۔ دو منفیوں کی ضرب سے مثبت بنتی ہے تو مطلب یہ ہے کہ خرابی بھی منفی ہے اور کم کرنا بھی منفی ہے تو جب دو منفی جمع ہو جاتے ہیں تو یہ مثبت ہے لہٰذا اسی اصول پہ کام کرنا چاہیے اور صحیح جگہ ووٹ ڈالنا چاہیے۔

سوال نمبر12: 

Respected شیخ صاحب I have question for today’s question answer session kindly narrate the way مجاہدہ is truly done according to the guidance of the شیخ what are the important does and don’ts، don’ts in this method may اللہ bless you and forgive me.

جواب:

اتنی بات تو واضح ہے کہ مجاہدہ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ دوسری بات بھی واضح ہے کہ مجاہدہ خود اپنے لئے تجویز نہیں کرنا چاہیے۔ تیسری بات بھی واضح ہے کہ شیخ اگر تجویز کر لے تو اس کو ضرور کرنا چاہیے تو میرے خیال میں اتنی theory کافی ہے باقی practical ہے۔ practically جو ہو گا تو پھراس کے حساب سے بات ہو گی۔ جزاک اللہ۔

سوال نمبر13: 

حضرت جی if any سالک see his شیخ in dreams again and again should he tell his شیخ every time?

جواب:

در اصل یہ بشارت ہے کہ یہ بندہ شیخ کی روحانی نظروں میں ہے۔ شیخ کو اس کا پتا ہونا ضروری نہیں ۔ اللہ پاک اس کو استعمال کر رہا ہوتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ اس کو استعمال کر رہا ہوتا ہے تو جس مرید کے خواب میں بار بار شیخ آتا ہے تو وہ دو وجوہات سے آ سکتا ہے، یا وہ مریدکوئی اچھا کام کر رہا ہو تو اس پہ شاباش ہو گی اور یا کوئی برا کام کر رہا ہو تو اس سے منع کر رہا ہو گا۔ اگر ایسی بات ہے تو بتانے کی ضرورت نہیں ہے، بس اس پر عمل کر لے لیکن بہرحال اگر confusion اور تردد ہو تو شیخ کو بتا سکتے ہیں ،اس میں کوئی paralogy نہیں ہے۔

سوال نمبر14:

ایک ساتھی نے اپنا پورا خواب سنایا اور پھر کہا کہ حضرت! مجھے احساس ہے کہ یہ چیزیں ضمنی ہیں اور اصل چیز معمولات اور رابطہ ہے۔

جواب:

جب آپ کو پتا ہے تو پھر اصل چیزوں پہ زور دیں۔

سوال نمبر15: 

السلام علیکم!

I have completed the 40 days regularly recitation of

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ 300 times, لَآ حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ 200times. please suggest and guide next. جزاک اللہ

جواب:

اب آپ عمر بھر کے لئے تیسرا کلمہ پورا 100 دفعہ، درود شریف 100 دفعہ، استغفار 100 دفعہ شروع کر لیں اور میں نے card پہ نماز کے بعد کے لئے آپ کوجو وظیفہ دیاہے وہ بھی عمر بھر کے لئے ہے۔ ایک وظیفہ اور شروع کر لیں جوایک مہینہ کے لئے ہے لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ جہری طور پر 100 دفعہ، لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُو100 دفعہ، حق 100 دفعہ اور اللّٰہ 100 دفعہ۔ یہ جہری طور پر لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ ، لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ کرنا ہوتا ہے۔

سوال نمبر16:

السلام علیکم حضرت جی! میں فلاں ہوں۔ غضِ بصر کے بعد 10 منٹ خاموشی کا مجاہدہ ابھی بھی جاری ہے تقریباً 6 ماہ ہونے لگے ہیں۔ اب میں اپنے گھر والوں سے بھی پوچھتی ہوں کہ مجھ میں کچھ کمی محسوس ہوئی؟ تو کچھ کہتے ہیں کہ ہاں بہت زیادہ ہوئی اور کچھ کہتے ہیں ابھی زیادہ نہیں۔ اگر کوئی سوال کر لے تو میں اکثر اوقات غیر ضروری تفصیلات دیتی ہوں۔ میں اپنے آپ کو خاموش رکھنے کی کوشش کرتی ہوں یا کبھی کبھی کوئی بات جس کو بتانے کا لوگوں کو کوئی نفع نہ ہو تو نظر انداز کرتی ہوں، لیکن اگر کوئی شخص باتوں کو کرید کر مجھ سے پوچھے تو پھر باتیں آہستہ آہستہ بولتی ہوں اور بعد میں یاد آتا ہے کہ یہ باتیں مجھے بتانے کی تو کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس طرح کوئی اگر مجھے بحث میں ڈال دے تو پھنس جاتی ہوں اور بعد میں یاد آتا ہے کہ اس بحث کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ البتہ گناہ کی چیزوں سے زیادہ تر بچ جاتی ہوں الحمد للہ۔ ابھی بھی اس کو جاری رکھوں یا نیا مجاہدہ لوں؟ مجھے اکثر کسی چیز سے بھی زیادہ تسلی نہیں ہوتی، اس کے علاوہ پریشانی میں کوئی تنگ کرے تب بھی آگے سے کوئی جواب دے دیتی ہوں۔

جواب:

ان شاء اللہ اس میں فائدہ ہے، اس کو جاری رکھیں کیونکہ یہ چیزیں آہستہ آہستہ نکلتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ برسوں کا آرام تو آہستہ آہستہ نکلتا ہے۔ مایوس بھی نہیں ہونا چاہیے اور ساتھ ساتھ ہمت سے جاری رکھنا چاہیے۔ ان شاء اللہ، اللہ پاک مدد فرمائیں گے۔ 

سوال نمبر17:

یقین اور ایمان میں کیا فرق ہے؟ یقین کس بات کو کہتے ہیں اور ایمان کس بات کو؟

جواب:

ایمان دل میں آتا ہے اور یقین عقل سے آتا ہے۔

سوال نمبر18:

حضرت! قناعت اور زہد میں کیا فرق ہے؟

جواب:

قناعت theory ہے، زہد practical ہے۔ یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فیض ہے کہ مختصر جواب دے رہا ہوں۔

سوال نمبر19:

احساسات اور جذبات میں کیا فرق ہے؟ احساس کس چیز کو کہتے ہیں اور جذبات کس چیز کو کہتے ہیں؟

جواب:

احساس sens کو کہتے ہیں ۔آپ کی five senses ہوتی ہیں تو ان five senses میں آپ جو feel کرتے ہیں وہ آپ کے احساسات ہیں۔ اس سے دل کے اوپر جو اثر ہوتا ہے وہ آپ کے جذبات بن سکتے ہیں۔ وہ اچھے بھی ہو سکتے ہیں، برے بھی ہو سکتے ہیں یعنی جذبات دل میں ہوتے ہیں ۔مثلاً آپ کو کسی کے دکھ کا احساس ہو گیا اور آپ کے دل میں جذبہ پیدا ہوا کہ اس کی مدد کروں تو احساس تو آپ کو اس سے ہو گیا لیکن اس کے بعد آپ کادل اور عقل فیصلہ کرتے ہیں کہ میں کیا کروں ۔ ایک شخص بھیک مانگ رہا ہے، اور وہ بہت اچھی طرح بھیک مانگ رہا ہے یعنی بڑا expert ہے تو انسان کو احساس ہو جاتا ہے کہ یہ غریب ہے میں اس کو کچھ دے دوں ۔ یعنی وہ اس کا اثر لے لیتا ہے اور یہ جذبہ بن جاتا ہے کہ میں help کروں۔ عقل اس کو کہتی ہے کہ نہیں، یہ professional ہے، وہ analyze کر لیتی ہے کہ یہ دوسروں کا حق مار رہا ہے، مجھے تحقیق کرنی چاہیے کہ اس کو دوں یا نہ دوں۔

سوال نمبر20:

میرے 30 دن کا ذکر لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ ، لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُو ، حق اور اللّٰہ 100، 100 مرتبہ

complete ہو گیا ہے۔ میرے لئے مزید کیا حکم ہے؟

جواب:

اب آپ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ 200 مرتبہ، لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُو 200 مرتبہ ، حق 200 مرتبہ اور 100 مرتبہ اللّٰہ۔

سوال نمبر21:

میرا مراقبہ ﴿ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ (ھود: 107) پورا ہو گیا ہے۔

جواب:

﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ (ھود: 107)کا ایک اثر ہوتا ہے، اور وہ اثر یہ ہے کہ ہر کام اللہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کر لیتا ہے، اس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ یعنی ہر چیز میں اللہ تعالیٰ پر نظر پڑنی چاہیے ۔یہ اس کا ثمرہ ہے، کیا اس کا ثمرہ آپ محسوس کرتے ہیں؟ اس کو فی الحال جاری رکھیں ۔

دراصل یہ تو بنیادی چیز ہے،یہ ہونا بہت ضروری ہے چاہے کوئی مراقبہ کرے یا نہ کرے۔ مراقبےسے صرف یہ مدد ملتی ہے کہ اس چیز کی طرف انسان کا دھیان جاتا ہے۔ حضرت صوفی اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ بیٹھے بیٹھے فرمایا نماز کے لئے ذہن سازی کر لیں ۔ کبھی کسی نے سوچا ہے نماز کے لئے ذہن بنانے کا؟ نماز تو ہر وقت انسان پڑھتا ہے۔ اب اگر وہ یہ سوچے کہ میں نماز کیسے پڑھوں؟ اس میں مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟ اس کامیں اگر استحضار کر لوں تو اس کی نماز میں کچھ فرق پڑے گا یا نہیں پڑے گا؟ یعنی کام تو ہر وقت ہم نے کرنا ہے لیکن مراقبے سے یا اس قسم کی کسی اور چیز سے وہ چیز آسانی سے حاصل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ مراقبات اسی لئے کئے جاتے ہیں۔ ابھی آپ کے اصل مراقبات ہیں ان میں آپ نے جتنی محنت کی ہے اس کا output آپ کو مل رہا ہے۔ لطائف کے چلنے سے آپ کا کوئی output نہیں تھا ۔وہ تو میدان سج رہا تھا ۔وہ دل کو ان تمام چیزوں میں استعمال ہونے کے لئے activate کیا جا رہا تھا۔ پہلے لطائف کا دور کرایا گیا ،اس کے بعد مراقبہ احدیت کا دور کرایا گیا اس میں لطائف کا میدان سج گیا اور مراقبہ احدیت جو فیض لینے کا رستہ ہے وہ طے ہو گیا یعنی آپ نے زمین پہ آب پاشی کے نظام کو بہتر کر لیا ۔ اب اس میں کچھ بونے کی باری ہے تو ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ (ھود: 107) کے ذریعے ہم ایک خاص قسم کی چیز کو اس میں بو رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق ہو جائے کہ اللہ پاک ہی سب کچھ کرتا ہے۔ ہماری دوسروں پہ نظر نہ ہو۔ اس کا فائدہ ہو جائے گا۔ اس کے بعد صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ ہے۔ باری باری یہ چیزیں آتی رہیں گی ۔یہ ساری باتیں عملی ہیں theoretical نہیں ہیں۔ آج کل کے نقشبندی حضرات نے ان کو theoretical بنا دیا ہے۔ وہ صرف اس خیال میں رہتے ہیں، اس کے جو output کی طرف ان کا دھیان نہیں جاتا کہ اصل چیز کیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ بعض لوگ یہ مراقبات فارسی زبان میں کرتے ہیں حالانکہ خود ان کی زبان فارسی نہیں ہوتی۔ بھئی !فارسی زبان میں آپ کو کیا پتا چل رہا ہے کہ آپ نے کیا کیا ہے؟ یہ قرآن تو نہیں ہے کہ صرف پڑھو اور فائدہ ہو۔ وہاں تو تلاوت کا علیحدہ ثواب ہے،اس میں تو ثواب بھی نہیں ہے۔ اس کی تو یہ ضرورت اور function ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت کا حکم ہے، آپ حکم پر آپ عمل کر رہے ہیں لیکن ان مراقبوں کے الفاظ کو ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟ اللہ کی طرف سے تو کوئی حکم نہیں ہے، نہ حضور ﷺ کی طرف سے حکم ہے۔ یہ باقی باتیں تو ظنی ہیں۔ ا ن چیزوں کی طرف لوگوں کا دھیان نہیں جاتا، اسی وجہ سے مشغول رہتے ہیں لیکن ان کا فائدہ نہیں ہوتا حالانکہ یہ بہت مفید چیزیں ہیں، یہ اس کا مقصد ہے۔

سوال نمبر22:

فطرت یا سیرت کا جو لفظ بولا جاتا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب:

فطرت nature کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نےجس چیز کوجس طرح پیدا کیا ہے اس کو فطرت کہتے ہیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے تو مطلب یہ ہے کہ جو ہماری natural ضروریات ہیں ،اس میں ان کا حل موجود ہے۔ مثلًا یہ کہ جب آپ مر جائیں تو اس کے بعد آپ صحیح جگہ پہ چلے جائیں، یہ ضرورت ہے، اوراس کا انتظام اسلام میں ہے ۔آپ کو کھانے پینے کی ضرورت ہے تو اس کی اجازت اسلام میں ہے۔ حلال سے فائدہ ہوتا ہے، حرام سے نقصان ہوتا ہے تو حلال کی آپ کو اجازت ہے حرام کے بچنے کا حکم ہے۔ تو اسلام natural یعنی قدرتی مذہب ہے کیونکہ اس میں آپ کی تمام ظاہری و باطنی دنیاوی اور آخرت کی ضروریات کا خیال رکھا گیا ہے۔ اسلام سے زیادہ مکمل مذہب کوئی نہیں ہے کیونکہ اسلام میں آپ کی تمام چیزوں کا خیال رکھا گیا ہے ۔ صحابۂ کرام فرماتے تھے کہ ہمیں آپ ﷺ بیت الخلا جانے کا اور رفع حاجت کرنے کا طریقہ بھی بتاتے تھے۔ اسلام کے علاوہ کون سے مذہب میں یہ سب بتایا گیا ہے؟ یہی تو فطرت ہے۔

سیرت در اصل یہ ہے کہ ہمارے باطنی components مثلاً شہوت، غضب،عقل اور جذبات اعتدال پہ آ جائیں۔ اگر باہر کے components جیسے آنکھیں، کان، ناک ، چہرہ ؛یہ تمام متوازن ہوں ،آپس میں ان کا proportion صحیح ہو ،نہ چھوٹے ہوں نہ بڑے ہوں، نہ بہت کالے ہوں نہ بہت سفید ہوں ،نہ بہت سرخ ہوں تو پھر وہ آدمی خوبصورت لگتا ہے۔ اسی طرح ہمارے اندرونی اعضا ہیں۔ اندرونی اعضا سے مراد جیسے عقل ،دل ،نفس وغیرہ بھی بالکل اس طرح ہوں جیسے ہونے چاہیے تو یہ ہماری خوبصورتی ہے۔

سوال نمبر23:

جو 4 بڑے سلاسل ہیں یہ تو جو بزرگ تھے ان کے طریقوں کے نام نہیں ہیں۔ جو بعض کہتے ہیں کہ نقشبندی سلسلہ کی نسبت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہے اور باقی سلاسل کی باقی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نسبت ہے۔ حالانکہ یہ بزرگ تو بعد میں آئے ہیں تو ہم ان کو ان کے ساتھ کیسے جوڑ سکتے ہیں؟

جواب:

ان بزرگوں کے بعد میں آنے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ نسبت اوپر سے آ رہی ہے۔ جن کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے نسبت آئی ہے تو ان کو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت والے کہتے ہیں، جن کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے آئی ہے تو ان کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے کہتے ہیں۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ نقشبندی سلسلہ بھی علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہے البتہ اس میں ایک شاخ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہے پورا سلسلہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے نہیں آیا کیونکہ جس بزرگ سے یہ سلسلہ چلا ہے ان کا بنیادی بیعت والا تعلق حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کے سلسلے سے تھا اور بیعت اصل چیز ہوتی ہے۔ جیسے مجھے اجازت حضرت صوفی صاحب نے دی ہے لیکن بیعت تو میں حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے تھا تو مجھ پہ رنگ ان کا ہے۔ یہ جو بات ہے کہ چاروں سلسلے علی رضی الله تعالیٰ عنہ کی طرف سے ہی ہیں یہ ٹھیک ہے البتہ نقشبندی سلسلے میں حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے راستے سے ایک شاخ ابوبکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ کی طرف سے ہے۔چونکہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کا ننھیال حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ کے خاندان سے تھا اس لئے اس ذریعے سے ان کو ابوبکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ کی نسبت ملی ہے۔ پھر وہ نسبت حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ کے پاس آئی۔ اس طریقے سے ان کو نقشبندی سلسلے کی شاخ ملی ہے۔ لیکن ان سلسلوں میں افضل غیر افضل کی بات کرنا بالکل غیر اہم ہے۔ اصل تو اس کا output ہوتا ہے اور output اصلاح ہے۔

خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی چشتی سلسلے میں 24 گھنٹے میں اصلاح ہوئی تھی اور اصلاح بھی ایسی ہوئی تھی کہ 90 لاکھ لوگ ان کے ہاتھ پہ مسلمان ہوئے تھے۔ تو کیا خیال ہے اس کو ہم کم سمجھیں گے؟ اس طرح شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ یا دوسرے حضرات کو دیکھ لیں۔ چونکہ اصل مقصود اصلاح ہے، سلسلہ مقصود نہیں ہے لہٰذا ان باتوں میں پڑنا ہی نہیں چاہیے۔ جس کو جس سلسلےسے مناسبت ہو اسی طرف جانا چاہیے۔

سوال نمبر24:

خواہش کیا چیزہوتی ہے؟ مثلاً پڑھنے کی خواہش ہے، اچھی زندگی گزارنے کی خواہش ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ نفس سے بچنا چاہیے تو کیا ادھر اس طرح کی چیز آ جاتی ہے یا نہیں؟ جیسے اچھی خواہشات اس میں شامل ہیں؟

جواب:

خواہشات جتنی بھی ہیں، وہ نفس کے ذریعے سے ہوتی ہیں البتہ ان کی filtration عقل کے ذریعے ہوتی ہے۔ اگر عقل کے اوپر نفس غالب ہے تو پھر filtration نہیں ہوتی، عقل اسی کا فیصلہ دیتا ہے جو نفس چاہتا ہے۔ جس کی اصلاح ہو چکی ہوتی ہے تو اس کے سامنےاگر کوئی ایسی بات آ جائے جو صحیح نہیں ہو تو اس کی عقل اس کو وہاں روک لے گی کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے وہ مجاہدہ کر کے اپنے نفس کے اس حصے کو ٹھیک کر لے گا۔ جیسے حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ صحابی تھے لیکن ان کو جب احساس ہوا کہ نئے کپڑے پہننے سے ان کے نفس میں کچھ اثر پیدا ہوا تو ان کو فورًا تنبہ ہوا کہ اس کی فورًا correction ہونی چاہیے تو انہوں نے وہ کپڑے اتار دیے اور فرمایا کہ معاویہ! آپ نے مجھے ہلاک کر دیا تھا، میرے دل پر اس کا اثر ہونے لگا تھا۔ ان کا یہ sense والا نظام develop ہو گیا تھا اس لئے انہیں sense ہو گیا اور اس کے فوراً بعد ان کی عقل نے correction کر دی۔ sense کرنا دل کا کام ہے اور filter کرنا عقل کا کام ہے۔ حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے بھی یہی کیا تھا ۔ جب انسان کی یہ چیزیں ٹھیک ہو جاتی ہیں تو پھر ان میں جتنی گنجائش ہوتی اتنا ہی وہ کر سکتے ہیں۔ جیسے foolproof system میں کوئی چیز جتنی ہونی چاہیے اتنی ہی گزرتی ہے اس سے زیادہ نہیں گزرتی، وہ وہیں رک جاتی ہے یعنی جس کا system بالکل foolproof ہو جاتا ہے اوران کی مکمل اصلاح ہو جاتی ہے تو اس وقت ان کے سامنے کوئی غلط چیز لے بھی آئے تب بھی ان کا دل اس پہ convince نہیں ہوتا اور اس کی عقل اس کو نہیں مانتی۔ جو اچھی چیزیں ہیں جن کی شریعت نے اجازت دی ہے تو وہ منع نہیں ہوتیں۔ جیسے عثمان رضی الله تعالیٰ عنہ کو اللہ پاک نے بہت دولت دی تھی ۔ شریعت نے دولت کمانے سے نہیں روکا البتہ شریعت کے حقوق ان کو پتا تھے لہٰذا اس کے مطابق وہ استعمال کرتے تھے۔ سلیمان علیہ السلام کو کتنا کچھ دیا تھا؟ آج کل آپ پڑھ لکھ کر کہیں C.S.S میں چلے جائیں اور پھر deputy commissioner بن جائیں گے یا کہیں police inspector بن جائیں گے۔ بادشاہ بننا تو بہت بڑی بات ہے، اور ایسا بادشاہ بننا جس سے پہلے ویساکوئی بادشاہ نہ ہو اور بعد میں آنے والوں میں بھی ویسا کوئی بادشاہ نہ ہو تو اس سے زیادہ کیا بات ہو سکتی ہے؟ لیکن چونکہ پیغمبر تھے اور تمام چیزوں کو جانتے تھے لہٰذا اس بادشاہت کو شریعت کا غلام بنا دیا۔ بس آدمی یہ کام سیکھ لے آدمی تو پھر کوئی پابندی نہیں ہے، نہ اچھے عہدے پہ پابندی ہے نہ اچھے کپڑے پہ پابندی ہے نہ اچھے کھانے پینے پہ پابندی ہے، بس اس پہ پابندی ہے کہ آپ کے دل کو نقصان نہ ہو اور آپ کے دین کو نقصان نہ ہو۔

سوال نمبر25:

حضرت جو معمول کا ذکر اور مراقبہ بتایا جاتا ہے اس سے زیادہ تو نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر کسی وقت میں وساوس آ رہے ہوں اور اس وقت مراقبے کی طرف متوجہ ہونے سے وساوس سے وہ بندہ بچ رہا ہو تو کیا معمول سے زیادہ کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

وساوس کے بارے میں ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ ان کی طرف توجہ ہی نہیں دینی چاہیے، ان کی پروا ہی نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرماتے تھے کہ وساوس بجلی کے تار کی طرح ہیں، ان کو ہٹانے کی نیت سے بھی اگر ہاتھ لگاؤ گے تو بڑھیں گے۔ لہٰذا وساوس کو صفر سے ضرب دو کہ یہ کچھ بھی نہیں ہیں ۔ ہمارے پشتو میں اس کے لئے بڑی اچھی ضرب المثل ہے: وہ کہتے ہیں:" سپی به غاپی کاروان به پرې تیریږی" یعنی "کتے بھونک رہے ہوں گے اور کوے گزر رہے ہوں گے" کتوں کے بھونکنے کا تو کوؤں کو کوئی نقصان نہیں ہے اور نا ان کو پتا ہوتا ہے۔ آپ حیران ہوں گے، یہ ایک practical واقعہ ہے اور اس میں مبالغہ نہیں ہے۔ ایک کتا بلی کے پیچھے بھاگ رہا تھا، بلی کی نسبت کتے کی speed زیادہ ہوتی ہے اور چھلانگ بھی زیادہ بڑی مار سکتا ہے لیکن بلی کا جسم چھوٹا ہوتا ہے۔ سامنے ایک جال تھا جس میں ایک چھوٹا سا سوراخ تھا جس میں بلی گزر سکتی تھی لیکن کتا نہیں گزر سکتا تھا۔ جیسے ہی وہ بلی اس کے پاس پہنچی تو وہ فوراً missile کی طرح shoo کر کے اندر سے گزر گئی اور بالکل آرام سے بیٹھ گئی جیسے اس کو ذرا بھر بھی پروا نہیں ہے کہ کتا قریب کھڑا ہے۔ یعنی اس کو اتنا sense تھا کہ اب میں محفوظ ہوں اور اب مجھے کتا کچھ نہیں کہہ سکتا لہٰذا اس نے tension نہیں لی۔ کیا آپ بلی سے زیادہ کمزور ہیں؟

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ