خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال 01:
حضرت میرے ذکر کو مہینہ ہو گیا ہے۔ میرا ذکر یہ تھا 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 200 مرتبہ ’’اللہ‘‘، 200 مرتبہ ’’اللہُ اللہ‘‘، 500 مرتبہ ’’حق‘‘، اور پانچ پانچ منٹ سب لطائف پر ’’اللہ‘‘، مراقبہ شانِ جامع پندرہ منٹ پورے جسم پر ٹھیک ہو رہا ہے۔ رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
اب آپ مراقبہ شان جامع کی بجائے مراقبہ حقیقتِ قرآن شروع کر لیں، چونکہ یہ ہماری کتاب "طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی جدید ترتیب" میں موجود ہے، اگر سمجھ نہ آئے تو پوچھ لینا۔ یہ صرف مراقبہ شان جامع کی جگہ ہے، باقی ساری چیزیں وہی ہیں۔
سوال 02:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت یہ ایک ساتھی کی طرف سے سوال ہے، جو ایک بزرگ سے اصلاحی تعلق رکھتے ہیں اور ان سے اجازت ہے اور خانقاہ میں آتے رہتے ہیں، مکتوبات شریفہ کا درس بھی attend کرتے ہیں اور آپ سے بہت محبت اور عقیدت ہے، ایک چیز کی ان کو پریشانی تھی جس میں ان کو رہنمائی درکار تھی، انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ کی زیارت بہت سارے ایسے لوگ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جو بظاہر شریعت کے پابند نہیں ہوتے اور ان کے کہنے کے مطابق یہ بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنا واقعہ سنایا کہ ایک غلط سلسلہ ہے اس کے ایک key آدمی کو انہوں نے سمجھایا اور وہ تقریباً سمجھ گئے تھے کہ شریعت اصل ہے اور اصل چیز شریعت پر عمل ہے، وہ convince ہو گیا، لیکن پھر اس نے آ کے بتایا کہ اس کو خواب میں آپ ﷺ کی زیارت ہوئی ہے اور انہوں نے پرانے گمراہ سلسلہ کی تائید فرمائی ہے۔ تو اس نے اس ساتھی کو کہا کہ اب میں آپ ﷺ کی بات مانوں یا آپ کی؟ تو یہ ساتھی کہہ رہا تھا کہ حضرت اس سلسلہ میں کوئی رہنمائی فرمائیں کہ آج کل یہ چیز بہت زیادہ ہو گئی ہے اور چونکہ آپ ﷺ کی خواب میں زیارت کو اس طرح آسانی کے ساتھ ردّ نہیں کیا جا سکتا جس طرح باقی خواب ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ سے ان کی درخواست تھی کہ کوئی رہنمائی فرمائی جائے، کیونکہ ایسا کوئی criteria آ جائے تا کہ اس طرح کے لوگوں کو سمجھایا جا سکے جن کو حق پہ نہ ہونے کے باوجود آپ ﷺ کی بار بار زیارتیں ہونے کا گمان گزرتا ہے، ان کے بارے میں کس طرح کا طرزِ عمل رکھا جائے؟
جواب:
سوال بہت اچھا ہے، پریکٹیکل سوال ہے۔ لیکن اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں کچھ بنیادی چیزوں کو چھیڑنا ہو گا۔ سب سے پہلے یہ ہے کہ دین متین جو واضح بَیّن شریعت پر ہے، قطعی چیزوں پر ہے، ظنی چیزوں پر نہیں ہے، اس قانون کو اچھی طرح ذہن نشین کیا جائے، اس میں کوئی ظنی بات ہم لوگ اس طرح استعمال نہیں کر سکتے کہ اس سے کسی قطعی بات کا رد ہو جائے، یہ نا ممکن ہے۔ جیسے پانی خود بخود اوپر سے نیچے آ سکتا ہے، نیچے سے اوپر نہیں جا سکتا یہ ایک بدیہی چیز ہے، اس طرح دین میں یہ بھی ایک بدیہی چیز ہے کہ ظنی چیز قطعی چیز کی تائید میں تو استعمال ہو سکتی ہے، ظنی چیز قطعی چیز کی تردید میں استعمال نہیں ہو سکتی، یہ بالکل پکا اصول ہے اس سے زرا بھر آگے پیچھے کوئی انحراف نہیں ہو سکتا۔ پہلی بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ قطعی چیز کیا ہے؟ قطعی چیز قرآن ہے اور سنت ہے، باقی خواب، کشف، الہام یہ ظنی ہیں۔ اگر خواب، کشف اور الہام سے ان قطعی چیزوں کی تائید ہوتی ہو تو پھر ٹھیک ہے یہ تو معرفت کے حصول کے ذریعے ہیں، لیکن اس سے اس کی اگر تردید ہو، مخالف ہو تو پھر وہ نہیں استعمال کیا جائے گا۔ مثلاً خواب میں اگر کوئی آپ ﷺ کی زیارت کا دعویٰ کرتا ہے، بے شک وہ کتنا ہی پاک باز انسان کیوں نہ ہو، کیا اس کو کوئی صحابی مانتا ہے؟ آپ ﷺ کی زیارت سے صحابیت کا تعلق ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ظنی چیز ہو گئی، اس کو صحابی کوئی نہیں مانتا، چاہے کوئی کتنا بڑا اونچا بزرگ کیوں نہ ہو۔ ہمارے جتنے بھی بڑے بڑے اکابر ہیں الحمد اللہ ان میں سے اکثر کو آپ ﷺ کی زیارت ہوئی ہے، لیکن ان کو کوئی بھی صحابی نہیں مانتا، بلکہ وہ خود بھی اپنے آپ کو صحابی نہیں سمجھتے، تو پتہ چلا کہ یہ اس کو ظنی چیز مانتے ہیں، لہذا آپ ﷺ کی وہ بات جو خواب میں ہو اگر وہ اس واضح شریعت اور بین شریعت کی حق میں ہو تو ما شاء اللہ اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کم از کم اس بات کو مانا تو نہیں جا سکے گا، بلکہ اس کی علماء کرام نے بڑی تشریحیں کی ہیں مثلاً بعض دفعہ ایسی خواب بطورِ تنبیہ کے ہوتی ہے کہ تم ایسا کر کے دیکھو، پھر تمہیں دیکھا جائے گا۔ جیسے خواب میں کوئی آپ ﷺ کو دیکھے اور آپ ﷺ ان کو فرماتے ہیں کہ شراب پیو، اب شراب کی شریعت میں ممانعت ہے، اگر کوئی اس طرح سنتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گویا اس کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ شراب مت پیو۔ دوسری بات یہ ہے کہ جیسے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس پہ کلام فرمایا ہے۔ فرمایا کہ آپ ﷺ کی زندگی میں آپ ﷺ نماز پڑھا رہے تھے تو جو قرات فرما رہے تھے اس میں لات و عزا کی بات آ رہی تھی، اس میں شیطان نے کچھ ایسی آواز create کر دی جس سے باقی پیچھے لوگوں کو پتہ چلا کہ جیسے آپ ﷺ فرما رہے ہیں کہ ہاں ان سے بھی کچھ ہوتا ہے۔ بعد میں صحابہ کرام نے بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے ایسا نہیں پڑھا، اور جو قریب تھے انہوں نے بھی کہا کہ اس طرح تو نہیں پڑھا گیا۔ اب پیچھے کیسے آواز چلی گئی؟ شیطانی نظام چل رہا ہے، تو آپ ﷺ کا چہرہ مبارک اگر نظر آ جائے اسی حلیہ میں جس طرح کتابوں میں لکھا ہے پھر تو اس کو ہم آپ ﷺ ہی کی بات مانیں گے لیکن ان کی آواز جو ہم تک پہنچ رہی ہے اس کے اندر اگر زندگی میں تصرف ہو سکتا ہے تو بعد میں کیوں نہیں ہو سکتا! کیونکہ ہمارا جو کان کا diaphragm ہے ممکن ہے وہ شیطان کے کنٹرول میں ہو جائے، کیونکہ وہ شیطان کے کنٹرول میں ہو سکتا ہے۔ اب اس سے وہ کون سی بھی آواز create کر دے۔ تو وہ ظنی چیز ہے تو اس کو نہیں مانا جائے گا۔ لہذا اس کی بڑی تفصیلات آئی ہیں۔ موٹی سی بات ہے کہ اگر کوئی شخص آپ ﷺ کی زیارت کرتا ہے اور آپ ﷺ اس کو کوئی ایسی بات فرما رہے ہیں جو قرآن و سنت کے عین مطابق ہے تو یہ بشارت ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس کو ہم کہیں گے کہ یہ ظنی چیز ہے اور ظنی چیز کے ذریعے سے قطعی چیز کو نہیں رد کیا جاسکتا، کیونکہ قرآن اور سنت کے اندر ہی اصول طے کیا گیا ہے، قرآن میں ہے کہ اگر کبھی تم میں اختلاف ہو جائے تو اس اختلاف کو قرآن و سنت پہ پیش کر لو وہاں سے فیصلہ لے لو، تو قطعی چیز وہی ہو گی، فیصلہ ادھر سے لیا جائے گا، لہذا اگر کوئی اس قسم کی بات ہے تو ہم لوگ کہیں گے کہ ان کو اس قسم کی باتوں کا شیطانی نظام نے دھوکہ دے دیا، لہذا شیطانی نظام سے بچنے کے لئے ہمیں صحیح چیزوں کو اختیار کرنا پڑے گا یعنی قرآن و سنت کی بات کرنی پڑے گی۔ آج کل یہ چیز اس لئے زیادہ ہو گئی ہے کہ شیطانی نظام بہت زیادہ مضبوط ہو گیا بہت پھیل گیا ہے، یہاں تک پھیل گیا کہ اس وقت physical systems اس میں involve ہو گئے ہیں، ایسے شیطانی نظام کے چکروں میں سائنس بھی involve ہو گئی۔ مثلاً قدرت اللہ شہاب پہ جو جادو ہوا تھا، انجیکشن کے ذریعے سے ہوا تھا، اب انجیکشن ایک سائینٹیفک چیز ہے، اس نے با قاعدہ تفصیل لکھی ہے، پوری تفصیل شہاب نامہ میں کوئی بھی پڑھ سکتا ہے۔ اس طریقے سے آج کل جو جادو کے نظام rays کے ذریعے سے ہوتے ہیں اور اسی طرح یہ جو قالینوں/کارپٹ کے اندر جو تصویریں ہوتی ہیں ان کے ذریعے سے آج کل بہت عام ہو گیا ہے۔ ہمارے جاننے والے حضرات بتاتے ہیں کہ آج کل مسجدوں کے اندر جو قالینیں کم قیمت پر سپلائی کی جاتی ہیں ان کے اندر یہ فتنہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر یہ چیزیں built-in ہوتی ہیں۔ بعض لوگوں نے با قاعدہ اس کی تصویریں لے لے کر اس کو expose کیا ہے، پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی شکل ہے، جیسے شیطانی شکل ہو یا اس قسم کی چیزیں اس سے بنتی ہیں۔ جائے نمازوں میں یہ چیزیں بن رہی ہیں۔ اب تو یہ چیزیں بہت زیادہ پھیل گئی ہیں scientifically یہ چیزیں grow کر گئی ہیں۔ لہذا اب ہمیں بہت زیادہ محتاط ہونا پڑے گا۔ میں تو بعض ایسے سلسلوں کو جانتا ہوں کہ جن میں گمراہی بہت زیادہ گھسی ہوئی ہے۔ ایک صاحب کا میں آپ کو بتا سکتا ہوں نام نہیں لیتا ورنہ پھر بحث شروع ہو جائے گی ورنہ مجھے کوئی ڈر نہیں ہے لیکن ہم خواہ مخواہ اپنے ٹاپک سے ہٹ جائیں گے اور ایک بلا وجہ ٹینشن شروع ہو جائے گی، تو میں ٹینشن میں نہیں جانا چاہتا لیکن بات سمجھانا چاہتا ہوں۔ ایک اس طرح کا کوئی سلسلہ تھا جس میں کوئی آدمی پھنسا ہوا تھا، اس کو میں اپنے شیخ کے پاس لے گیا ہمارے شیخ کو اس سلسلے کے بارے میں بڑی چیزیں کلئیر تھیں، اس سے بڑا منع فرماتے تھے۔ ان کے پاس لے گیا تو وہ بات حضرت نے بڑی تفصیل سے بتائی لیکن اس کو بات سمجھ نہیں آئی۔ پھر اس کو میں اسلام آباد میں مولانا شریف ہزاروی صاحب کے پاس لے گیا وہ بھی ان چیزوں کو جانتے تھے، انہوں نے کہا مجھے ایک آدمی کا پتہ ہے میں آپ کو ان کے پاس لے جاتا ہوں تو ان کے پاس لے گئے وہ اس سلسلے کے اس وقت کے سربراہ کے خلیفہ تھے لیکن ان سے منحرف ہو گئے تھے، ان کو بڑی تفصیلی چیزوں کا علم تھا۔ ایسا ہوا کہ اس کے پاس جب وہ گئے تو انہوں نے کہا میں نے تو یہ ارادہ کیا تھا کہ میں آئندہ اس پر بات نہیں کروں گا لیکن مولانا نے مجھے پھر پھنسا دیا تو چلو میں جتنا کہہ سکتا ہوں تو میں بات کر لیتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے تفصیل سے بات کی کہ وہ جو سربراہ تھا، شیخ تھا اس نے کس طریقے سے مجھ سے کسی زمین پر نا جائز قبضہ کروایا۔ کیونکہ وہ بڑے دبنگ آدمی تھے صحت مند تھے اور کافی لڑاکا آدمی تھے، ہزارہ کے سائیڈ کے تھے۔ تو زمین پر ناجائز قبضہ کروایا اور اس کو بھی پتہ ہے کہ نا جائز ہے اور شیخ کو بھی پتہ ہے کہ نا جائز ہے لیکن کروا لیا، جب کروا لیا تو کہتے ہیں کہ اس دن مجھے یہ پتہ چل گیا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے؟ نا جائز قبضہ اور شیخ، یہ کیسے! کہتے ہیں اس کو پتہ چل گیا، اندازہ ہو گیا، تو کہتے ہیں کہ آج مراقبہ اندرونی ہال میں ہو گا اور اندرونی کمرے میں جا کر میں نے مراقبہ کیا، تو کہتے ہیں مجھے کہا کہ آنکھیں بند کر لو، میں نے آنکھیں بند کر لیں، مجھ سے پوچھا کہ کیا نظر آ رہا ہے؟ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ رومال نظر آ رہا ہے۔ تو کہا کہ یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کے پاس بھیجا ہے، یہ آپ کو اس لئے دیا گیا کہ آپ نے اپنے شیخ کی خدمت کی۔ پھر کہتا ہے کہ اب آنکھیں کھول لیں۔ جب آنکھیں کھول لیں تو کہتا ہے کہ وہ تکیہ اٹھاؤ۔ تکیہ اٹھایا تو اس کے نیچے وہ رومال پڑا ہوا تھا، وہی اسی shape کا۔ کہتا ہے دیکھو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کے پاس یہ رومال بھیجا ہے۔ کہتے ہیں یک دم مجھے خیال آ گیا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھے ایک نا جائز کام پر کیسے انعام دے سکتے ہیں، یہ سارا فراڈ ہے۔ کہتے ہیں جیسے میں نے یہ سوچا تو اس کو اندازہ ہو گیا، بڑے expert لوگ ہوتے ہیں، بس وہ سمجھ گیا کہ بھائی یہ مجھ سے منحرف ہو گیا۔ تو مجھ پر قاتلانہ حملہ کروا دیا اپنے چوکیدار سے۔ کہتے ہیں اس کو میں نے disarm کر دیا۔ اور میں ان کے پاس لے گیا چوکیدار کو، میں نے کہا یا یہ ہو گا یا میں ہوں گا۔ اس نے کہا یہ نہیں ہو گا آپ ہوں گے۔ اس کو نکال دیا۔ چھے مہینے کے بعد اس کو پھر بلایا تو میں نے کہا کہ آپ نے اس کو کیوں بلایا؟ تو کہتے ہیں کہ اس نے توبہ کی ہے۔ میں نے کہا توبہ؟ اس نے جرم میرے خلاف کیا ہے توبہ آپ کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ اس نے حملہ مجھ پہ کیا ہے میں اس کو معاف کروں تو کروں، آپ کیسے معاف کر سکتے ہیں؟ میں نے کہا کہ میں جا رہا ہوں، میں چلا آیا، اپنے گاؤں آ گیا۔ اس کے بعد میرے پیچھے اپنا داماد بھیجا کہ حضرت آپ کو شامل کرانا چاہتے ہیں، کچھ جائیداد میں آپ کو حصہ دلوانا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا مجھے آپ کی جائیداد میں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، جاؤ اپنا کام کرو، اس نے بہت کہا۔ لیکن میں نے بھی آخر شیخ سے کچھ سیکھا تھا۔ میں نے کہا کہ آنکھیں بند کرو، جب اس نے آنکھیں بند کیں، میں نے کہا کیا نظر آ رہا ہے؟ کہتا ہے دربارِ رسالت پر بڑا رش ہے۔ میں نے کہا کھول دو آنکھیں، یہ نوشہرہ کا اڈا میں نے تیرے دماغ پر مارا ہے۔ یعنی توجہ کی قوت۔ آج کل یہ چکر ہے۔ توجہ سے کام لیا جا رہا ہے اور یہ چیز توجہ میں create کی جاتی ہے، اس وجہ سے آج کل یہ توجہ والا چکر بہت چل رہا ہے، اس وجہ سے ہمیں بالکل clear cut ہونا چاہیے۔ اور وہ کیا ہے؟ ظنی چیز ظنی ہے قطعی چیز قطعی ہے، قطعی کے مقابلہ میں ظنی آئے گی تو ظنی چیز کی کوئی حیثیت نہیں ہے ظنی کی بات نہیں مانیں گے۔ بس پکی بات ہے، اس میں درمیان میں شیطان کو راستہ نہیں ملتا اور درمیان میں اس میں گڑ بڑ ہو جائے تو پھر شیطان کو راستہ ملے گا، بے شک آپ کو پتہ نہیں ہو گا بعد میں پتہ چل بھی جائے لیکن جتنا کام خراب اس نے کیا ہو گا راستہ میں وہ تو کیا ہو گا۔ اللہ کا شکر ہے چونکہ ہمیں اپنے شیخ نے یہ چیزیں سمجھائی ہیں، اس لئے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر فدا صاحب نے ایک دفعہ ہمیں کہا تکلیف تو آپ لوگوں کو بہت ہوئی خاص مسئلہ میں، لیکن ان شاء اللہ آپ کبھی دھوکہ نہیں کھا سکیں گے۔ اللہ کا شکر ہے اور اس کا فضل و کرم ہے کہ دھوکہ بہت دور سے معلوم ہو جاتا ہے کہ بھائی اس میں گڑ بڑ ہے، کوئی مسئلہ ہے۔ آج کل ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ایک صاحب کی طرف سے، اس کے بارے میں جب مجھے کچھ بھی معلومات نہیں تھیں، اس وقت بھی میرا دل اس کے لئے کھلا نہیں تھا، دل قبول نہیں کرتا تھا اس کو، حالانکہ میرے پاس معلومات کوئی نہیں تھیں اور اب میرے پاس بہت ساری معلومات ہیں، لیکن اس وقت کیا بات تھی اس وقت تو معلومات نہیں تھی، اب تو ان معلومات نے ثابت کر دیا کہ اس وقت دل کی کیفیت صحیح تھی، لیکن اس کو میں ظاہر نہیں کر سکتا تھا، کیوں کہ میری ظنی بات تھی، ظنی بات کو میں نہیں سامنے لا سکتا تھا، اور میں کسی کو اس پہ convince نہیں کر سکتا تھا، اب جو مجھے انفارمیشن ملی ہے اس کی بنیاد پر میں convince کر سکتا ہوں کیونکہ یہ قطعی باتیں ہیں، قطعی بات کو بنیاد بنایا جائے گا۔ ایک دفعہ ایک گمراہ سلسلے کا کوئی شخص ہمارے پاس آیا کہ ہمارا ان سے رابطہ نہیں ہو رہا کسی طریقے سے، مجبوری ہے۔ کیا کریں، اب میں آپ کے پاس آپ کی تربیت میں آنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا چلو پھر آیا کریں، اگر آپ کا ان سے رابطہ نہیں ہے تو ٹھیک ہے۔ جب آنا شروع کیا تو ہم نے کہا کہ ہمارا طریقہ تو یہ ہے کہ معمولات کے چارٹ بھرنے پڑتے ہیں، معمولات کا چارٹ آپ بھر لیا کریں، طریقہ سیکھ لو ان سے، یہ لے لو چارٹ اور اس کو با قاعدہ بھرنا ہو گا۔ پہلا چارٹ جو اس نے بھرا تو اس میں فجر کی نماز بالکل نہیں تھی۔ میں نے کہا یہ کیا ہے؟ کہتا ہے یہ تو میرا مسئلہ ہے میں فجر کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ میں نے کہا کمال ہے، مراقبات تو آپ کے اتنے اونچے اونچے اور نماز کی یہ حالت! نماز کے مقابلہ میں مراقبات کی کیا حیثیت ہے، جو اصل چیز ہے وہ آپ کی ہے نہیں، اگر یہ چیز نہیں ہے تو ان چیزوں کا میں کیا مطلب لوں؟ آپ کو تو ہواؤں میں اڑا رہے ہیں۔ اس کے خود اس کے الفاظ تھے کہ واقعی میں اپنے آپ کو ایسا سمجھتا تھا کہ میں تو بہت اونچا چلا گیا ہوں، میں تو بہت کامل ہو گیا ہوں اور آپ نے بالکل صفر سے مجھے ضرب دے دیا۔ اور کہتے ہیں آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ پھر اس شیخ کے بارے میں کہا کہ وہ پوری مسجد کو توجہ سے ہلا سکتے ہیں، اس وجہ سے جوق در جوق لوگ ان سے بیعت ہو جاتے ہیں لیکن بعد میں کچھ نہیں ہوتا۔ یہ توجہ کے کرشمے ہیں۔ الحمد اللہ آج کل جو ہم نے کام شروع کیا ہے اللہ کے فضل و کرم سے، بزرگوں کی دعاؤں سے وہ یہی کام ہے کہ ان چیزوں کے بارے میں لوگوں کو الارم کریں۔ بھائی یہ چیزیں سطحی ہیں، یہ چیزیں ظنی ہیں، یہ چیزیں مقصود نہیں ہیں، ان چیزوں کے اندر پڑ کر آپ اپنے مقصود کو بھول سکتے ہیں، اصل چیز کی طرف آؤ، جو اصل چیز ہے وہ ہے شریعت پر عمل، اور شریعت پر عمل کرنے میں جو معرفت حاصل ہوتی ہے وہ ان چیزوں سے حاصل ہوتی ہے۔ معرفت آپ حاصل کر لیں لیکن شریعت کو آپ چھوڑ کے تو معرفت حاصل نہیں کر سکتے، شریعت کو چھوڑ کے معرفت نہیں وہ تو وسوسہ ہے۔ شریعت کے اوپر رہتے ہوئے آپ ما شاء اللہ حقائق تک جو پہنچیں گے اس سے آپ کو معرفت حاصل ہو گی، اس سے آپ علم الیقین سے حق الیقین تک پہنچیں گے۔ ﴿وَمَا خَلَقتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56) اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر ’’لِیْعْرِفُوْنِ‘‘ فرمائی ہے جو معرفت سے ہے۔ لہذا معرفت اور عبدیت کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے باقی چیزیں نہیں ہیں، ہمیں اپنے آپ کو ان تمام چیزوں میں educate کرنا پڑے گا۔ اللہ کرے کہ ہم لوگ صحیح چیزوں پہ عمل کریں اور جو زوائد ہیں ان کے پر اتنا زور نہ دیں جس سے ہماری مقصودی چیزیں متاثر ہو جائیں۔
سوال 03:
حضرت جی! علم کیا ہے، عقل کیا ہے اور ان دونوں کا آپس میں تعلق کیا ہے؟
جواب:
واہ جی کمال ہے۔ علم کا عرفی معنی ہے جاننا، اور عقل ایک ایسی صلاحیت ہے جس سے اپنی جانی ہوئی چیز سے آپ مفید کام لینے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جو چیزیں آپ جانتے ہیں اس کو آپ صحیح طور سے کر سکتے ہوں، کیونکہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص کے پاس بہت علم ہو لیکن اس علم کو استعمال کرنے کی صلاحیت اس میں نہ ہو، معلومات اس کے پاس بہت ہوں گی، فیصلے اس کے غلط ہوں گے۔ بعض لوگ بہت تھورے علم سے بھی بہت صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ عقل مند زیادہ ہے۔ یہ عقل کی عرفی تعریف ہے۔ علم کی بھی میں نے عرفی تعریف بتائی اور عقل کی بھی میں نے عرفی تعریف بتائی ہے، دنیا کے لحاظ سے تو یہ بات کافی ہے میرے خیال میں اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اب ہم صحیح معنوں میں علم کی تعریف کر لیتے ہیں، صحیح معنوں میں علم یہ ہے کہ جیسے مخلوقات و موجودات ہیں، تکوینی نظام ہے تو یہ جو موجودات اور مخلوقات ہیں بقول مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ یہ وجودی تجلی کے ذریعے سے عدم سے وجود میں آئی ہیں، اس وجہ سے ان کی اصل حقیقت کچھ بھی نہیں، البتہ اللہ پاک نے جتنا چاہا ان کو ظاہر کر دیا، لہذا یہ جو دنیا کا علم ہے اور جو مشاہدات ہیں یہ سطحی ہیں بمقابلہ اللہ پاک کی طرف سے جو علم آتا ہے قران کے ذریعے سے اور سنت کے ذریعے سے، وہ قطعی ہے۔ اس وجہ سے اگر اِس علم کا مقابلہ اُس علم کے ساتھ ہو گا تو اِس علم کو surrender کرنا پڑے گا۔ جیسے حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے کیا تھا، ان کا بیٹا فوت ہوا تھا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کیا میں اللہ پاک سے دعا کروں کہ آپ کو آپ کا بیٹا جنت میں دکھا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ اب مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ میں جنت میں دیکھ لوں۔ مجھے اپنی آنکھوں سے زیادہ آپ کی بات پر یقین ہے۔ تو جو چیز ہمیں نظر آ رہی ہے اپنی آنکھوں سے اس میں غلطی ہو سکتی ہے، میری آنکھ غلطی کر سکتی ہے، لیکن آپ (ﷺ) کی بات غلط نہیں ہو سکتی، لہذا آپ نے جب فرمایا دیا تو بس مجھے اس پر زیادہ یقین ہے۔ اس وجہ سے مجھے اپنے طور پر جو نتائج مل رہے ہیں یہ میرے مشاہدات ہیں، لیکن قرآن میں جو چیزیں نظر آ جائیں جیسے ﴿یَمْحَقُ اللہُ الرِّبوٰا وَ یُرْبِی الصَّدَقَاتِ﴾ (البقرہ: 276) ’’اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے‘‘۔ یہ اللہ پاک نے فرمایا ہے جب کہ مشاہدات میں یہ چیز نظر آتی ہے کہ سود سے پیسہ بڑھتا ہے اور صدقات سے پیسے کم ہوتے ہیں، مشاہدہ یہی ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ نہیں! سود ختم کرتا ہے چیزوں کو اور صدقات سے چیزیں بڑھتی ہیں۔ اب مجھے بتاؤ کیسے آپس میں تطبیق کریں گے؟ یہ بھی علم ہے جو نظر آ رہا ہے مشاہدات کے ذریعے سے کہ سود سے پیسہ بڑھ رہا ہے، کیوں پیسہ بڑھ رہا ہے؟ بھائی سود میں بنیاد ہی یہی ہے کہ آپ سود کی بنیاد پر پیسے لیں، مطلب پیسوں کے اوپر پیسے لیتے ہیں، سود اس کے علاوہ اور کیا ہے؟ تو پیسوں کے اوپر پیسے لیتے ہیں تو پیسے بڑھ رہے ہیں، یہ مشاہدہ ہے، لیکن اللہ پاک فرماتے ہیں کہ نہیں! ایسے نہیں ہے پیسے ختم ہوتے ہیں ﴿یَمْحَقُ اللہُ الرِّبوٰا﴾۔ اب وہ علم ادھر سے آ رہا ہے اب کیسے اس کو justify کریں گے، اب مجھے ایک event کا یاد ہے، ویسے تو بہت سارے بتا سکتا ہوں لیکن وہ جو بالکل clear cut ہے وہ میں بتاتا ہوں، اس کا الحمد اللہ جب بھی میں نے کسی کو سنایا ہے تو وہ دوسری بات نہیں کر سکے، اللہ کا شکر ہے۔ ہمارے ایک ٹیچر تھے 1980 کی بات ہے، انہوں نے مکان بنایا پانچ لاکھ کا جی نائن میں اور ہماری وہاں دعوت کی، ہم بھی مبارک باد دینے کے لئے چلے گئے، انہوں نے کھانا کھلایا، پھر جس وقت ہم واپس آ رہے تھے کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے مکان بنایا تو کیسے feel کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مکان بنا تو لیا لیکن نا بناتا تو اچھا تھا۔ جس نے سوال کیا تھا وہ بڑے حیران ہو گئے۔ کہتے کہ لوگ تو بڑے خوش ہوتے ہیں جب مکان بناتے ہیں آپ اس پہ افسوس کر رہے ہیں اور وہ بھی اسلام آباد میں مکان بنایا ہے دس مرلے کا ڈبل سٹوری۔ انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو (ان دنوں کی بات ہے جب ذرہ سستا وقت تھا، early 80sکی بات ہے) اگر میں اس مکان کو کرایہ پہ دوں گا تو اس پہ زیادہ سے زیادہ کرایہ مجھے بارہ سو روپے ملے گا اور میں اس کو بینک میں اگر فکس کرا دوں تو مجھے چھ ہزار روپے ملے گا پانچ لاکھ روپے پہ، تو میں نے نقصان کر لیا یا نہیں، یہ ان کا statement ہے، اب فوت ہو گئے ہیں وہ، لیکن بہر حال یہ ان کی early statement ہے 80s میں۔ ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ فوت ہو گئے ہیں، ہم خود analysis کرتے ہیں کہ اگر یہ مکان جو انہوں نے بنایا اور جو اب بھی موجود ہو گا ان شاء اللہ اس کی اس وقت کیا قیمت ہو گی جی نائن میں دس مرلے کی؟ لوگ کہتے ہیں کہ تین کروڑ کے لگ بھگ اس کی قیمت ہو گی۔ اب تین کروڑ سے پانچ لاکھ کو منفی کر لیں کیوں کہ بینک نے تو اس کے پانچ لاکھ تو نہیں بڑھانے تھے وہ اس کے اوپر انٹرسٹ دیتے چھ ہزار پر month لیکن پانچ لاکھ تو پانچ لاکھ ہی رہتے۔ تو پانچ لاکھ کے مقابلہ میں تین کروڑ کم ہیں یا زیادہ ہیں؟ کچھ بھی نہیں۔ اب دیکھو کرایہ کی بات۔ اس وقت کرایہ بارہ سو روپے مل رہا تھا اب اس مکان کا کرایہ کیا ہو گا؟ اب اسی ہزار سمجھ لیں، اسی ہزار کو بارہ سو کے ساتھ ایڈ کر لیں پھر average نکالیں تو تقریباً یہ per month regular یہ ہو گا تو forty one thousand, forty thousand آپ لے لیں تو یہ forty thousand اور چھ ہزار کا؟ تو چونتیس ہزار کا یہ فرق کرایہ میں اور principal amount میں تین کروڑ سے پانچ لاکھ کم کریں تو دو کروڑ پچانوے لاکھ۔ ﴿یَمْحَقُ اللہُ الرِبوٰا و یُرْبِی الصَّدَقَات﴾ ثابت ہو گیا یا نہیں؟ دو اور دو چار کی طرح ثابت ہو گیا، لیکن تیس سال میں ثابت ہوا۔ اس وقت نظر نہیں آتا بس یہی مشاہدہ ہے۔ تو تیس سال میں جب اتنا چینچ آتا ہے تو جب موت کے بعد نظر آئے گا پھر کیا کرو گے؟ یہ ہے ہمارے مشاہدہ کی حیثیت۔ اب میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ وہ علم جو آپ کو ادھر سے مل رہا ہے وہ علم مشاہدہ کی بنیاد پر نہیں غیب پر ہے، ایک بات۔ اور وہ عقل جو آپ کی ان اخباری بنیادوں کے پر بنا ہو یعنی غیب کے علم کی بنیاد پر، وہ کیا عقل ہو گی! بس یوں سمجھ لیجئے کہ وہ عقل وہ ہے اور وہ علم وہ ہے اور یہ علم یہ ہے اور یہ عقل یہ ہے۔ لہذا جس طرح یہ عقل والے لوگ اس عقل کی بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے، یعنی دنیا کی عقل والے اس عقل کی بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے، کیونکہ اس کے درمیان میں ایمان بالغیب involved ہے۔ اس کو آدمی نہیں سمجھ سکتا، اِلَّا یہ کہ اللہ اس کو ایمان عطا فرما دے اور ایمان بالغیب کے ساتھ ساتھ اس کو اللہ جل شانہ معرفت نصیب فرما دے۔ معرفت کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ وہ جو چیز موت کے بعد آپ کو نظر آنی تھی وہ یہاں نظر آ جائے، یہ معرفت کی بہترین definition ہے۔ اب میرے خیال میں relation مل گیا، subject to condition دنیا کی عقل کی بات کر رہے ہو تو دنیا کے علم کے ساتھ compare کر لو، ایمان بالغیب والی عقل کی بات کر رہے ہو تو ایمان بالغیب والے علم کے ساتھ compare کر لو۔ چونکہ ایمان بالغیب کے مقابلہ میں کسی اور چیز کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے لہذا اُس علم اور عقل کے مقابلہ میں یہ علم اور عقل کچھ بھی نہیں ہے۔
سوال 04:
اِستفتاءِ قلب(دل سے پوچھنے) کی کہاں تک گنجائش رکھنی چاہیے، فیصلہ عقل سے کریں یا اِستفتاءِ قلب سے؟ اکثر میں کنفوژ ہوتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ قلبی فتوے لیتا ہوں اور عقل سے فیصلہ کم کرتا ہوں۔
جواب:
اللہ اکبر! بڑا نازک مسئلہ آپ نے چھیڑا ہے۔ اِستفتاءِ قلب کا فتوی وہ لے سکتا ہے جس کا قلب قلب سلیم بنا ہو، جس کا نفس نفس مطمئنہ ہو، یہ صحابہ سے کہا گیا تھا کیونکہ صحابہ پہلے سے اس کمال پہ تھے، وہ پہلے سے نفس مطمئنہ حاصل کر چکے تھے، کیفیت احسان حاصل کر چکے تھے۔ ہم لوگ اگر اس کو لینے لگیں تو پھر ہم نفس کو قلب سمجھیں گے، کیونکہ نفس نے روح کو پکڑا ہوا ہے، آپ کا قلب روح کا پابند ہے تو آپ کا قلب بھی اس نے پکڑا ہوا ہے، آپ کا قلب کون سا فتویٰ دے گا؟ وہ نفس کا فتویٰ دے گا، جیسے لوگ کہتے ہیں میرا دل کرتا ہے، دل نہیں کرتا نفس کرتا ہے، پھر کہتے ہیں موسیقی روح کی غذا ہے، روح کی غذا نہیں ہے نفس کی غذا ہے۔ کیونکہ لوگ نفس کو قلب سمجھنے لگتے ہیں، نفس کو روح سمجھنے لگتے ہیں، سمجھ ان کی نفسانی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے اِستفتاءِ قلب کا جو فیصلہ ہے وہ منتہی حضرات ہیں کے لئے ہے، کیونکہ منتہی حضرات طریقہ صحابہ پر آ جاتے ہیں، لہذا جو صحابہ سے کہا گیا تھا وہ ان سے بھی کہا جاسکتا ہے ان کو پھر شرح صدر ہوتا ہے۔ حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ارشاد فرمایا تھا (اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے، اس کا مجھے بہت فائدہ ہوا) کہ شاہ صاحب لوگوں کو آپ دین کا کام کرتے ہوئے دیکھیں آپ کا دل بھی چاہے گا کہ میں بھی ان کی طرح کروں، خبر دار! ایسا نہیں کرنا، اپنے شرح صدر پہ چلنا ہے۔ اب یہ وہی چیز تھی۔ شرح صدر سے مراد یہ ہے کہ آپ کے لئے اللہ پاک نے کیا رکھا ہے، دوسروں کے لئے نہیں، دوسروں کے لئے ممکن ہے کہ دوسری چیز میں خیر رکھی ہو، آپ کے لئے کسی اور چیز میں خیر رکھی ہو، آپ ان کو دیکھ کر تو نہیں کر سکتے، جیسے کسی کے لئے ایک دوائی ہے اس نے کام کیا اور وہ ٹھیک ہو گیا اور وہی بیماری آپ کو بھی ہے اور آپ کہتے ہیں کہ کوئی بات نہیں ڈاکٹر صاحب سے پوچھنے کی ضرورت نہیں، میں بھی یہ دوا استعمال کرتا ہوں۔ عین ممکن ہے کہ وہ دوائی آپ کے لئے مفید نہ ہو، کیونکہ آپ کی طبیعت مختلف ہے، آپ کے حالات مختلف ہیں لہذا ضروری تو نہیں کہ آپ کے لئے بھی وہ دوائی ٹھیک ہو۔ یہ مرض عام لوگوں میں ہے جس سے بڑا نقصان ہوتا ہے اس طریقے سے یہ استفتاء قلب کا مسئلہ بھی ہے یہ ہر ایک کے لئے نہیں ہے یہ ان لوگوں کے لئے ہے جن کو اللہ جل شانہ نے بصیرت قلبی سے نوازا ہوتا ہے، ان کا قلب قلبِ سلیم ہو، نفس نفسِ مطمئنہ ہو۔
سوال 05:
"اَللّٰھُمَّ خِرْ لِی وَاخْتَرْ لِی" کب استعمال کرتے ہیں قلبی سوچ میں؟
جواب:
دیکھو! "اَللّٰھُمَّ خِرْ لِی وَاخْتَرْ لِی" دعا ہے۔ آپ استخارے کی جب کوشش کرتے ہیں تو استخارے میں اللہ تعالیٰ آپ کی رہنمائی فرماتے ہیں اور اس میں بھی انسان کو پوری کوشش کرنی ہوتی ہے کہ اپنی نفسانیت سے detach ہو جائے، اس میں لوگوں کے ساتھ خوابوں کا جو معاملہ ہونے لگا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جب تک جاگ رہا ہوتا ہے اس وقت تک اپنے شعور کا پابند ہوتا ہے اور شعور اگر نفسانی ہو تو detract ہو سکتا ہے، اس وجہ سے لوگ کہتے ہیں کہ خواب والی بات ہے، لیکن اگر ایک انسان ان تمام چیزوں کو پورا کر لے تو امید ہے کہ اللہ پاک حفاظت فرما دیں گے۔
سوال 06:
کیا بتایا ہوا مراقبہ پانچ منٹ سے زیادہ کر سکتا ہوں؟
جواب:
تھوڑی سے تفصیلات بتا دیں گے تو پھر عرض کروں گا۔ آپ کا مراقبہ کون سا ہے اور آپ اس کو زیادہ کیسے کر سکتے ہیں؟
سوال 07:
حضرت یہ اپنے آپ سے کیسے آپ نکلتے ہیں؟
جواب:
جیسے ایک دفعہ حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ اپنے آپ سے نکلنا ہوتا ہے یہ بات علمی نہیں، حالی ہے وہ حال جب آپ کو حاصل ہو جائے گا تو سمجھ آ جائے گی۔
سوال 08:
ووٹ کے بارے میں ایک دفعہ جو ہماری گفتگو ہوئی تھی ایک ساتھی نے اس کو انگریزی میں translate کر کے concised form میں مجھے بھیجا ہے کہ آپ اس کو دیکھیں، کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ ووٹ کے حوالے سے اصول آپ نے تجویز کئے ہیں ان کو میں نے انگلش میں لکھ کر شیئر کیا الحمد اللہ اس سے بھی فائدہ ہوا، انگلش میں اس لئے کہ غلامانہ سوچ کی وجہ سے اس سے لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
(حضرت: بات بالکل صحیح ہے، بات اس نے غلط نہیں کی ہے، موٹے موٹے الفاظ اس سے لوگ bluffing کرنا شروع کر لیتے ہیں اس سے مسائل ہو جاتے ہیں، بہر حال مقصد چونکہ اچھا ہے، پتہ نہیں اس نے کیا لکھا ہے میں نے ابھی پڑھا نہیں)
Principles suggested by learned scholars regarding votes casting
1.?Should I vote
Answer: Vote casting is not just a national obligation but a religious obligation as well. According to Ulema not casting a vote is a sin and it is in a way implicitly supporting oppression
2.
Whom to vote?
Answer: There is a principle that if we are to choose among two evils, choose a lesser one. It is said if there are three candidates, one has eighty percent evil, second is sixty percent and third is twenty percent, choose the third
3.
Whom not to vote?
Answer: It is agreed upon that, if those who are working on foreign agenda to distort Islamic identity of our nation in the discourse of curbing extremism and are willing to compromise national security by neutralizing strategic assets of our country in the name of change and remodeling should not be voted for.
جواب:
میرے خیال میں بات بالکل صحیح کی ہے، کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ان کو فیور بالکل نہیں کرنی چاہیے، وہ لوگ ہیں جو بیرونی ایجنڈے پہ کام کرتے ہیں یعنی یہودیوں کے ایجنڈے پہ کام کر رہے ہیں، امریکہ کے ایجنڈے پہ کام کر رہے ہیں، یو کے، اسرائیل۔ ان کو تو بالکل نہیں دینا، وہ بے شک فرشتہ صفت نظر آئیں پھر بھی نہیں دینا کیونکہ جتنا وہ اچھا نظر آئے گا اتنا ہی زیادہ خطرناک ہو گا کیونکہ اس کا output غلط ہو گا۔ third point سے یہ مطلب ہے۔ second point سے یہ مطلب ہے کہ جن کو دیا جا سکتا ہے یعنی وہ بیرونی ایجنڈے پہ کام نہیں کر رہے لیکن کرپشن ان میں ہے، خرابیاں ان میں ہیں کیونکہ آج کل بالکل ٹھیک تو بہت کم ملتا ہے تو اب جب بالکل ٹھیک available نہیں ہے تو جو کم خراب ہے وہی ٹھیک ہے، وہی بہتر ہے lesser evil والی جو بات ہے تو lesser evil یہ مثال دی ہے کہ کوئی ٪80 خراب ہے، کوئی ٪60 خراب ہے کوئی ٪20 خراب ہے تو کم از کم ٪20 سب سے کم خراب ہے لہذا ان کو دے دو، کیوں کہ آپ نے اگر ٪20 والے کو ووٹ نہیں دیا تو آپ نے ٪80 والے کو سپورٹ کیا ٪50، کیوں کہ آپ اس کو کم کر سکتے تھے روک سکتے تھے، لیکن روکا نہیں تو آپ نے ٪50 کو سپورٹ کر لیا، لہذا یہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ کیونکہ ٪80 کو ووٹ دینا تو آپ نے برائی کو سپورٹ کر لیا۔ ٪20 کو ووٹ دینا وہ اچھائی کو سپورٹ کرنا ہے اور آپ نے ووٹ بالکل نہیں دیا تو آپ نے ٪80 کو ٪50 کو سپورٹ کر لیا، کیونکہ اس کی مخالفت نہیں کی۔ یہ گویا کہ اچھا ایجنڈا اس نے بنایا ہے ما شاء اللہ ٹھیک ہے۔
سوال 09:
ایک صاحب سے میری تھوڑی سی discussion ہوئی تھی واٹس ایپ پر، وہ تھوڑا سا میں سمجھا دوں کیونکہ اس سے آپ لوگوں کو فائدہ ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی پوچھنا تھا کہ آیا کسی شخص کو اپنے کامل شیخ کے ساتھ اگر نسبت حاصل ہو جائے اور اللہ پاک کے فضل سے وہ ترقی کرتے کرتے وہ نسبت القائی اور پھر اصلاحی اور پھر اللہ پاک کا مزید کرم ہو تو نسبت اتحادی ہو جائے تو تب بھی تکلفاً اس سے وہ دس مقامات حاصل کرنے ہوں گے سلوک کے؟
جواب:
اس کا جواب کافی مشکل تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ سوال ایسا تھا۔ جواب یہ تھا کہ: خواتین کے لئے جب معصومی طریقے پر لطائف کا دور متعارف کرایا تو سب سے پہلے میں نے اپنے اوپر کرایا بعد میں ان کو کروایا ہے۔ اس لئے ان دس مقامات سے نہیں گزرے ہیں تو مجددی نسبت کیسے حاصل ہو گی؟ اور یہ جو آج کل کے ضروری ہے، کیسے کروائیں گے جب خود اس سے نہیں گزرے ہوں گے؟ کہا کہ: پھر دعا فرمائیں کہ میں عاجز مرد بنوں اور نسبت اتحادی بھی حاصل ہو کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ اس کے لئے دعا کی جا سکتی ہے۔ میں نے کہا: صرف دعاؤں پر رہنے والی عادت آپ کی نہ بن جائے جیسا آج کل دستور ہے۔ آج کل یہ دستور ہے کہ بس دعا کریں جی، میں نے کچھ نہیں کرنا آپ دعا کریں، یہ آج کل مسئلہ ہے، اس وجہ سے میں اس کو کافی پکڑنے کی کوشش کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ توفیق دے۔ اس نے جواب دیا کہ ان شاء اللہ اسباب بھی اختیار کروں گا۔ میں نے کہا: تصوف دعا اور اسباب کو جمع کرنے کی پریکٹس ہے، جبکہ لوگوں نے اس کو فقط وظیفوں کا میدان بنا لیا ہے۔ دنیا میں اسباب اختیار کرتے ہیں اور موقع ملے تو دعا بھی کرتے، کراتے ہیں، اور تصوف میں دعا اور وظیفہ بس۔ مقاماتِ سلوک اصل میں یہی چیز ہے یعنی با قاعدہ آپ نے ایک پریکٹس کرنی ہے اس میدان سے گزرنا ہے۔ پھر آگے اس نے کہا: حضرت اپنے شیخ کے پاس بیٹھنے، سننے سے بھی شیخ کے قلب سے اخلاق حمیدہ حاصل ہوتے ہیں جو مشاہدے سے ثابت ہے، باقی اس وقت کون سا وظیفہ کرنا ہے مسنون ذکر اور اعمال؟ میں نے کہا: جی درست ہے اپنے احوال بتانا بالخصوص اپنے عیوب بتانا، اس سوچ کے ساتھ جب کبھی سپیشلسٹ کے ساتھ بیٹھنا نصیب ہو تو آدمی اس موقع سے خوب فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنے امراض کھول کھول کے بیان کر کے اس کے بارے میں ہدایت لے رہا ہوتا ہے، اگر آپ کا کوئی میڈکل سپیشلسٹ دوست آپ کے گھر آ جائے تو جتنی دیر آپ اس کے پاس بیٹھیں گے تو خاموش رہیں گے؟ کیا کریں گے؟ میں آپ کو مثال دے دوں، ایک دفعہ میں ایک شادی میں شرکت کے لئے اچانک پہنچ گیا، ویسے مجھے نہ invite کیا گیا تھا میرے دوست تھے لیکن بے تکلف تھے، مجھے invite بھی نہیں کیا اور نہ مجھے پتہ تھا کہ اس کی شادی ہے اور گیا تو اس کی شادی تھی وہ بہت خوش ہو گیا کہ اچھا ہوا کہ آپ پہنچ گئے، میں نے تو آپ کو invite اس لئے نہیں کیا کہ آپ کی طبیعت ایسی ہے، میں نے کہا جب پہنچ گیا تو بس پہنچ گیا، مجھے تو پتہ نہیں تھا کہ آپ کی شادی ہو رہی ہے۔ اس کے بعد پھر ایسا ہوا کہ میں اس مجلس میں بیٹھا تھا، تو میرے جو دوسرے دوست ڈاکٹر تھے recently MBBS کر کے آئے تھے Russia سے اور وہیں سوشل سیکورٹی کی سکیم ہے میں ڈاکٹر لگ گئے تھے اور وہاں بڑے مالدار چغادری خان جو ہمارے صوبہ کے پی کے میں خان ہیں، وہ بھی invited تھے، آپ یقین کریں اس ڈاکٹر کی اتنی خوشامد کر رہے تھے وہ بڑے بڑے لوگ، کبھی ایک ان کو بیماریاں بتائے کبھی دوسرا ان کو بیماریاں بتائے، کبھی تیسرا ان کو بیماریاں بتائے اور یہ بڑے پرتپاک انداز سے ان کو بتاتے تھے یہ کرنا ہے اور یہ کرنا ہے وہ کرنا ہے یہ کرنا ہے، وہ بڑا دولہا بنے ہوئے تھے میدان کے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کو اپنی دنیا کتنی عزیز ہے، لیکن اگر کوئی شیخ ایسی محفل میں چلا جائے تو اس کے لئے کیا ہوتا ہے؟ کیا اس کے لئے یہی ہوتا ہے پرتپاک استقبال؟ بلکہ ان پر احسان کر کے ان کے پاس بیٹھا جاتا ہے کہ دیکھو میں آپ کی مجلس میں بیٹھا ہوں کتنا اچھا آدمی ہوں میں آپ کو چھوڑ کے نہیں گیا، میں آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں، آپ کو میری respect کرنی چاہیے۔ ناراض بھی ہو جاتے ہیں، آپ تھوڑا سا توجہ نہ دیں تو ناراض ہو جاتے ہیں اور سپیشل توجہ نہ دیں تو پھر بھی ناراض ہو جاتے ہیں۔ ہم لوگ جس طرح کرتے ہیں یہ ہمارا آئینہ ہے۔ لہذا میں نے ان کو کہا کہ اول تو وظیفے اور دعاؤں پہ نہیں رہنا، یہ secondary ہیں، آپ نے اسباب اختیار کرنے ہیں اور دعا بھی کرنی ہے، وظیفہ بھی اگر آپ کو سبق کے طور پہ دیا جائے تو وہ بھی کرنا ہے، لیکن محض وظیفے پہ نہیں رہنا اور بات دعا پہ نہیں چھوڑنا۔ آج کل یہ پرابلم ہے اور اس چیز کو جڑ سے نکالنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ جڑوں کے اندر گھس گیا ہے نس نس کے اندر گھس گیا ہے تو آپ کہیں گے ایک چیز سے نکالیں گے دوسری جگہ سے پتہ چلے گا اوہ یہ تو ابھی تک ادھر پھنسا ہوا ہے یہ تو ابھی نکلا نہیں ہے پھر کسی اور بات سے پتہ چلے گا اوہ یار یہ تو ابھی ادھر ہی ہے۔ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم اسباب اور دعا کو جمع کرتے ہیں، یہی سنت رسول بھی ہے اور یہی ہمارا طریقہ ہے، اس پر الحمد اللہ ہم چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سوال 10:
کسی صاحب کو تھوڑا سا ایک غلط کام کرنے کی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ اس پہ دو روزے رکھ لیں تو انہوں نے کہا حضرت جی میرے دو روزے مکمل ہو گئے ہیں سزا والے اور جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا عقل بھی ٹھکانے آ گئی ہے۔ اپنے نفس سے بہت ڈر لگتا ہے اور اس کی اصلاح کے لئے کافی فکر مند ہوں کہ گناہ نہ کرنے کے اتنے بڑے بڑے وعدے کرتا ہوں چند لمحوں میں سارا کچھ ادھر ادھر ہو جاتا ہے۔
جواب:
اللہ پاک اس نفس کے شر سے بچائے اور اس کی اصلاح کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔ آمین! لیکن اس کے لئے طریقہ کار وہی ہے کہ پہلے جذب اور پھر سلوک۔
سوال 11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ! حضرت کیا حال ہیں آپ کے؟ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت میرا جو ذکر ہے، جو معمولات آپ نے مجھے عطا فرمائے تھے اس کے مطابق میرا علاجی ذکر 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 300 مرتبہ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُو‘‘، 300 مرتبہ ’’حَق‘‘ اور 100 مرتبہ ’’اللہ‘‘ ہے۔ اس کو ایک مہینہ ہو گیا ہے۔
جواب:
اب 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُو‘‘، 400 مرتبہ ’’حَق‘‘ اور 100 مرتبہ ’’اللہ‘‘ ایک مہینے کے لئے آپ پڑھیں گے۔
سوال 12:
السلام علیکم! حضرت جی میں فلاں ہوں۔ حضرت جی شیخ کی دعا و توجہ کیا مرید پر ہر وقت ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے؟ مجھے بار بار ایسا لگتا ہے جیسے گناہ سے بچایا جا رہا ہو، جیسے نفس اور شیطان تو پھنساتے ہیں لیکن کوئی نہ کوئی راستہ حفاظت کا بھی بن جاتا ہے، الحمد للہ! اور میں اس سے باہر آ جاتی ہوں یا نکل جاتی ہوں، اور دل میں آتا ہے کہ یہ آپ کی توجہ اور دعا ہے۔ غلطی اور گناہ کا کبھی اتنا اندازہ نہیں ہوتا تھا اب زیادہ احساس ہو رہا ہے اور پھر توبہ کی توفیق بھی ہو جاتی ہے اور ساتھ میں بچ جانے پہ اللہ کا بہت شکر کرتی ہوں، اچھے کاموں کی توفیق ہو تو بار بار الحمد اللہ کہتی ہوں، خوش ہو کر کہ اللہ پاک مجھ پر فضل فرما رہے ہیں اور کوشش کرتی ہوں کہ بے دھیانی میں کسی اچھی بات کو اپنی طرف منسوب نہ کروں، پہلے کبھی ایسا ہو جاتا تھا کہ سوچ میں آتا تھا کہ میں نے فلاں کام کیا، بار بار خیال آتا ہے کہ سب کچھ اللہ پاک کے فضل سے ہو رہا ہے، حالانکہ یہ خیال بھی کچھ وقت رہتا ہے پھر اب یہ نہیں سوچتی کہ مجھ میں یہ بھی برا ہے تاکہ مایوسی سے گڑبڑ نہ ہو، بلکہ جتنی توفیق مل جائے شکر ادا کرتی ہوں کہ اتنی تو مل رہی ہے اور حوصلہ دیتی ہوں اپنے آپ کو جیسا کہ آپ فرماتے ہیں اتنا جلدی سب کچھ ٹھیک نہیں ہوتا اس پہ وقت لگتا ہے۔
جواب:
الحمد اللہ یہ بہت ہی معتدل سوچ ہے کہ انسان لگا رہے، لگا رہے، لگا رہے، لگ جائے گی اس اصول پر، ڈرتا رہے ڈرتا رہے اور کام کرتا رہے اور پھر جب کام ہو جائے تو اس پر بھی ڈرتا رہے اور پھر اللہ پاک سے اس کی قبولیت کی دعا کرتا رہے، کرتا رہے اور جو کچھ اللہ پاک نصیب فرما دے اس پر شکر کرتا رہے کہ اللہ تیرا شکر ہے اور جو غلطی ہو اس پر نادم ہو اور توبہ کرتا رہے، اس طریقے سے ان شاء اللہ چلتا رہے تو کافی فائدہ ہوتا ہے۔ اپنے شیخ کے ساتھ تعلق قائم رکھیں، کیونکہ سلسلے کی برکات کا شیخ سے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور سلسلے کی برکات بے انتہا ہیں ان کو ہم شمار نہیں کر سکتے۔
Question 13:
I sent at sshabir@yahoo.com and received the following message from yahoo, "We are unable to deliver your message because the email account you are trying to reach is over quota." Kindly guide me or let me know if any other email address I can send thanks
Answer:
Yes, I am sending another address and that is sshabbirkakakhel@gmail.com. I am also writing it and sending it to you.
سوال 14:
السلام علیکم، امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت مجھ میں سستی بہت آئی ہے، نماز تو پڑھ لیتی ہوں اصلاحی ذکر بھی کر لیتی ہوں، لیکن رمضان کے بعد مراقبہ، قرآن کی تلاوت میں ناغے ہو رہے ہیں، مجھے معلوم ہے کہ غلطی میری سستی ہے، یہ بھی معلوم ہے کہ سستی کا علاج چستی ہے، پھر بھی نہیں کر پاتی، شاید آپ کی ڈانٹ کھا کر ناغے سے بچوں۔
جواب:
اس کے بجائے آپ مجھے ڈانٹئے کہ میں آپ کو اب تک کیوں نہیں سمجھا سکا کہ اختیاری میں اختیار سے کام لینا ہوتا ہے اور نفس کی سستی کی بات نہیں ماننی یہی مسئلے کا حل بھی اور اس کا علاج بھی۔ اس کا جواب آیا کہ الحمد اللہ اب سمجھ گئی۔ ظاہر ہے اس میں تو میں فیل ہو رہا ہوں کہ میں ان کو یہ نہیں سمجھا سکا کہ یہ کیا بات ہے۔
سوال 15:
السلام علیکم! میرے عزیز محترم مرشد، امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے ان شاء اللہ۔ حضرت جی مجھے مراقبہ کی اجازت نہیں ہے لیکن معمولات کے دوران یا شیخ کے بیانات سننے کے دوران میرے شیخ مرشد سے اتنا فیض ملتا ہے کہ پھر بغیر ارادے کے آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اور unintentionally اتنے گہرے مراقبہ میں چلا جاتا ہوں گویا کہ نیند میں ہوں، چونکہ خود بخود وقتی طور پر ہو رہا ہے تو مجھے ان حالات و مواقع پر کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
بس آپ کو وہی کرنا ہے جس کا آپ کو حکم ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ اپنے شیخ کی طرف متوجہ رہیں کہ جو فیض ان کے قلب پر آ رہا ہے اس سے میری طرف بھی آ رہا ہے، اللہ تعالیٰ نصیب فرما دے۔
سوال 16:
حضرت محترم قبلہ! السلام علیکم، ’’حَق اللہ‘‘ ذکر کے دوران یہ تصور کروں کہ اللہ تعالیٰ مجھے محبت سے دیکھ رہے ہیں، ’’حَق ھُو‘‘ ذکر کے دوران کیا تصور کروں؟ کیا میں اس میں بھی یہی تصور کروں کہ اللہ تعالیٰ مجھے محبت سے دیکھ رہے ہیں؟
جواب:
اس میں یہ تصور کر لیں کہ حق تو وہی ہے، وہی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے۔
سوال 17:
ڈاکٹر ارشد صاحب کو میں نے اپنی کتاب بھیجی تھی تو انہوں نے یہ تبصرہ بھیجا ہے۔
ما شاء اللہ اس کتاب میں تو سلوک کی تمام علمی اور عملی تفصیلات کا ضروری خلاصہ آ گیا ہے، باقی عمل تو مرید نے خود ہی کرنا ہے، لیکن جس کا عمل کرنے کا ارادہ ہو تو یہ ایک کتاب ہی اس کے لئے کافی ہے۔ الحمد اللہ! بڑا کام ہو گیا ہے اللہ پاک برکت عطا فرمائے۔ آمین۔
جواب:
میں نے کہا ثم آمین۔
سوال 18:
السلام علیکم! ریکی اور سلوا میتھڈ spirituality ہے یا کچھ اور؟ پیشنٹ پہ ان کو استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
دیکھیں یہ ان لوگوں کی کوششیں ہیں ہماری چیزوں کو استعمال کرنے کی، ہماری چیزوں کو سٹڈی کر لیتے ہیں پھر اپنے مقاصد کے لئے وہ استعمال کرتے ہیں۔ تصور کو کنٹرول کرنے والی چیزیں ہیں یا تصور کو استعمال کرنے والی چیزیں ہیں وہ ہمارے ہاں ہیں، تو وہ اس طریقے سے کرتے ہیں کہ جیسے اب لطائف ہیں، انڈینز اس کو چکر کہتے ہیں تو وہ ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں با قاعدہ، بہت مہنگے کورسز اس کے تھے یہ ہمارے پی ٹی سی ایل والوں کے لئے arrange کئے تھے وہاں کی منیجمنٹ نے، ہمارے ساتھی کہہ رہے تھے کہ ہم نے ان کو بتایا یہ تو ہمارے ہاں مفت ہوتے ہیں اور بہت اچھے ہوتے ہیں یہ آپ لوگوں نے کیا کیا؟ اس طرح وہ لوگ کرتے ہیں اس پہ بڑے کماتے ہیں اور اس کا لیول بہت کم ہوتا ہے ہماری چیزوں سے، لیکن چونکہ عوام ہماری چیزوں کو جانتی نہیں ہے اور ان کے پروپیگنڈے یا وہی انگریزی کا اثر اور دوسری چیزوں سے اثر اور غلامانہ ذہن ہے۔ چنانچہ وہ ان کے داؤ میں آ جاتے ہیں۔ تو یہ چیزیں ہیں ورنہ اور کچھ نہیں ہے۔
سوال 19:
نماز کے خشوع میں جیسے ذکر و اذکار میں آدمی بڑھتا جائے گا تو باطن میں اس کا اثر ہو گا، لیکن جو ظاہر کی محنت ہے نماز کے اندر جسم کے خشوع کی، کیا الگ سے بھی اس پہ توجہ کرنی ہے؟
جواب:
دیکھیں تین چیزیں ہیں، نوٹ کر لیں اچھی طرح۔ ایک ہے علم جس کو ہم نماز کا علمِ ظاہری کہتے ہیں، اس کو سیکھنا ہوتا ہے کیونکہ اس کے بغیر آپ نماز اس طریقے پہ پڑھ ہی نہیں سکتے جس طریقہ پہ آپ ﷺ نے پڑھی ہے، اس کا حاصل کرنا ضروری ہے That is the minimum requirement۔ اس کے بعد دو چیزیں ٹھیک کرنی ہیں دل ٹھیک ہو گا تو آپ کا دھیان ٹھیک ہو گا۔ اور نفس ٹھیک ہو گا تو نفس میں resistance نہیں ہو گی۔ نماز میں آپ جو کرنا چاہتے ہیں اس کو کر سکیں گے۔ جیسے آپ کو جو خارش ہو رہی ہے تو نفس کو تکلیف ہو رہی ہے، اب آپ اگر خارش کریں گے تو وہ نفس کی requirement ہے تو اگر آپ کا نفس، نفس مطمئنہ ہو چکا ہو گا تو اس کی طرف آپ توجہ نہیں دیں گے، اس طریقے سے آپ نماز میں کوئی عمل کثیر کر رہے ہوں گے وہ بھی نفس کی وجہ سے کر رہے ہوں گے، نماز کے اندر جو آپ کے خیالات ہیں یعنی حدیثِ نفس وہ بھی نفس کی وجہ سے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جب تک آپ کا نفس نفسِ مطمئنہ نہیں ہوتا آپ نماز صحیح طریقے سے نہیں پڑھ سکتے، اور جب تک آپ کا دھیان صحیح نہ ہو تو کیفیت احسان حاصل نہیں کر سکتے، یہ دونوں چیزیں آپ کو حاصل کرنی ہیں، ایک دل کے ذریعے سے ہے اور ایک نفس کے ذریعے سے ہے۔ جب یہ چیزیں ٹھیک ہوں گی تو پھر ان شاء اللہ یہ ساری باتیں ٹھیک ہوں گی۔ لیکن جو آپ نے بتایا ہے تو وہ minimum requirement علم ہے۔
سوال 20:
السلام علیکم! حضرت جی، میں فلاں ہوں میرے معمولات کے چارٹ میں الحمد للہ بہت ہی کم کوئی ناغہ ہوتا ہے شاید ایک یا کوئی دو۔ تو کیا میں سوالنامہ کی شکل میں پرچہ پر کر کے لاہور بھیج سکتی ہوں؟ جس میں لکھ دوں کہ کون کون سے معمولات کر رہی ہوں اور کہاں گڑ بڑ ہوئی، میں موبائل پر صرف کمی لکھ لیتی ہوں کیونکہ روز چارٹ فل کرنا مشکل لگتا ہے، جب اکٹھے کر رہی ہوں تو الجھن ہوتی ہے ایک ایک خانہ بھرتے ہوئے جیسے اشراق، چاشت کم پڑھی جاتی ہے نیند کا پتہ نہیں، تو پکا معمول نہیں ہے جب پڑھ لوں تو لکھ دیتی ہوں، اس کے علاوہ سورہ نمل کی آیت 62 گھر کے حالات کے لئے آپ نے بتائی ہے تو پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں کہ پوری ہو جائے لیکن مشکل ہوتی ہے، جتنی مرتبہ پڑھی جاتی ہے چارٹ میں لکھتی ہوں۔ فجر کا مسئلہ اگر کبھی نیند کی وجہ سے ہو تو وہ بھی لکھ دیتی ہوں، ابھی تو نہیں ہے لیکن جیسے چھ یا آٹھ مہینے میں ایک یا دو بار، حالانکہ اب بہت فکر کر کے جاگی رہتی ہوں اگر وقت کم ہو تو، حضرت میں یہ چارٹ پُر کرنے میں سستی کی وجہ سے بول رہی ہوں۔ آپ فرما دیجئے۔
جواب:
آپ چونکہ مصروف لوگوں میں ہیں تو آپ اس کا جو سوالنامہ ہے اس کو صحیح طریقے سے ڈھنگ سے فل کر کے کام پورا کر سکتی ہیں۔
سوال 21:
حضرت، یہ جو بہشتی زیور ہے اگر ہم انفرادی طور پہ اس کو مختلف جگہوں سے بار بار پڑھتے رہا کریں تو اس سے شریعت کا مزاج سمجھ آ جائے گا؟
جواب:
دو کتابیں ہیں اگر وہ آپ پڑھ لیں اچھی طرح تو ان شاء اللہ فرض عین درجہ کا علم حاصل ہو جاتا ہے، ایک بہشتی زیور ہے دوسری تعلیم الاسلام ہے۔
سوال 22:
حضرت گھر میں بچوں کے لئے، باقیوں کے لئے فضائلِ اعمال ہی کافی ہے؟
جواب:
نہیں، فضائلِ اعمال سے علم تو حاصل نہیں ہوتا اس سے تو صرف اعمال کے فضائل حاصل ہوتے ہیں، مسائل تو پتہ نہیں چلتے۔
سوال 23:
پھر گھر میں سب کو مسائل سکھانے کے لئے کون سی کتاب بہتر رہے گی۔
جواب:
بچوں کے لئے تعلیم الاسلام اور بڑوں کے لئے بہشتی زیور۔
سوال 24:
جو دس مقامات ہیں، ان مقامات میں سے کچھ روز چھوٹے موٹے اللہ تعالیٰ امتحان میں لے لیتا ہے، کچھ بہت عرصہ کے بعد جیسے صبر ہے، تکلیف روز نہیں ہوتی کبھی کبھی آتی ہے، کچھ تکلیفیں چھوٹی سی ہوتی ہیں، کچھ اچانک بڑی آ جاتی ہیں، بعض اوقات چھوٹی تکلیف ہوتی ہے جس پر بندہ صبر کر لیتا ہے، جب بڑی ہوتی ہے تو شور کر دیتا ہے۔ یہ کب پتہ چلتا ہے کہ اب یہ چیز حاصل ہو گئی ہے، یہ زندگی کے ساتھ ہی ہے؟
جواب:
ہمیں اس میں مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کہ کب یہ مکمل ٹھیک ہو جائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں تو زندگی گزارنی ہے شریعت کے مطابق، اس میں جو جو عمل ہم نے کرنے ہیں اگر ان میں نفس مزاحمت کرتا ہے تو اس کو ان مقامات کے ذریعے سے کنٹرول کرنا ہوتا ہے، آپ اس کو شریعت پہ application کا عمل سمجھ کر عمر بھر کے لئے تیار ہو جائیں۔ باقی آپ جب اپنے شیخ کو بار بار اپنی تمام چیزوں کے احوال بتائیں گے تو اس سے اس کو idea ہو گا کہ کس حد تک ہو چکا ہے، اور جس چیز کی کمی ہو گی اس پہ وہ زیادہ emphasis کرے گا، جس چیز کی تکمیل ہو چکی ہو گی اس کی طرف کم نظر کرے گا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔