اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت اتوار والے دن مستورات کی نشست کا کیا وقت ہوتا ہے، کتنے بجے بیان شروع ہوتا ہے اور کتنے بجے دعا ہوتی ہے؟
جواب:
اتوار والے دن مستورات کے لئے بیان 11 بجے شروع ہوتا ہے اور 12 بجے اختتام پذیر ہوتاہے۔ ہر ماہ ایک اتوار کے دن جوڑ بھی ہوتا ہے اس میں 3 گھنٹے کا درس ہوتا ہے۔گویا کہ ہر اتوار عمومی درس 1 گھنٹے کا ہوتا ہے جبکہ جوڑ والے اتوار میں تین گھنٹے کا درس ہوتا ہے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم حضرت جی! میں موبائل کے استعمال کے دوران گناہ کی چیزوں سے بچنے کی کوشش کرتی ہوں۔ پہلے اس تجسس میں ویڈیو ڈاؤن لوڈ کر لیتی تھی کہ پتا نہیں اس میں کیا ہو شاید کوئی اچھی چیز ہی ہو لیکن الحمد للہ آپ کی سختی کے بعد اب بالکل نہیں کرتی۔ میسجز میں اموجی بھی استعمال نہیں کرتی۔تصاویر سے بچنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن کبھی کبھی کوئی تصویر دیکھ لیتی ہوں جس پر افسوس ہوتا ہے اور دل میں خیال آتا ہے کہ حضرت نے ان چیزوں سے منع فرمایا تھا، میں ان کی طرف رغبت کو control کیوں نہیں کر پائی۔ کبھی WhatsApp پر غلطی سے کوئی status کھل جائے تو تصویر یا گانا سامنے آ جاتا ہے تو اس سے ایک دم طبیعت پر بوجھ آ جاتا ہے اور سوچتی ہوں کہ میں کوئی اچھا status دیکھنا چاہتی تھی جس میں کوئی اچھی بات، آیت یا حدیث ہو اور غلطی سے کچھ غلط بھی سامنے آ گیا اور میرا نقصان ہو گیا۔ کنٹرول تو بہت کرتی ہوں پھر بھی کبھی کسی Profile picture میں کوئی تصویر نظر پڑ جاتی ہے تو ایک دم تجسس میں دیکھ لیتی ہوں مکمل طور پر نہیں بچ پاتی کہ بالکل التفات ہی نہ ہو۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ کیا کروں؟
جواب:
ہر انسان اپنی کوشش کا مکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر حالت کو جانتے ہیں۔ اگر اچانک کوئی چیز سامنے آ جائے تو اس پہ گرفت نہیں ہوتی جب تک اس میں ارادہ شامل نہ ہو جائے۔ مثلاً اچانک سامنے کوئی ایسی چیز آ جائے جو جائز نہیں ہے، اس پر نظر پڑ جائے تو اس پہ گرفت نہیں ہے لیکن اس کو جاری رکھنے پہ گرفت ہو گی۔ اگر فوراً وہاں سے اپنی نظر ہٹا دے تو اس پر بے حد اجر ملتا ہے۔ تقویٰ اسی کو کہتے ہیں کہ جیسے ہی انسان کی نظر کسی گناہ والی چیز پر پڑے تو اپنی نظر اس سے فوراً ہٹا لے، اگر ایسا کرے گا تو اس نظر پڑنے کے گناہ کی بجائے ثواب ہوگا۔ لہٰذا اس طرح پیش آنے والے حالات سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ ایسی جگہوں اور ماحول سے ضرور بچنا چاہیے جہاں پر انسان کو نقصان ہو سکتا ہو۔ جس طرح انسان ایسی جگہوں پر نہیں جاتا جہاں جسمانی بیماری لگنے کا خطرہ ہو اسی طرح ایسی جگہوں پہ جانے سے بھی بچنا چاہیے جو گناہ کی جگہیں ہوں، جہاں انسان کو گناہ میں مبتلا ہو جانے کا خدشہ ہو۔ اپنے آپ کو بچانے کا عمل بھی تقویٰ کہلاتا ہے۔ خدا نخواستہ اچانک نظر پڑ جائے تو فوراً نظر ہٹا لینا بھی تقویٰ ہے۔ اسی تقویٰ پر ہی سب اجر ہیں۔ تقویٰ کے بارے میں تو فرمایا گیا ہے:
﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ﴾ (یونس: 62)
ترجمہ: ”یا درکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، اور تقوی اختیار کیے رہے۔ “
جب ایمان کے ساتھ تقویٰ مل جاتا ہے تو یہ ولایت بن جاتی ہے۔ گناہ کے موقع کا سامنے اور آنا اور انسان کا اپنے آپ کو اس سے محفوظ رکھنا یہی تقوی ہے اور اسی پر ولایت کا حصول منحصر ہے، لہٰذا ایسے حالات سے ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ انہیں موقع سمجھ کر ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
لیکن یاد رہے کہ یہ ساری بات ان مواقع سے متعلق ہے جب ایسے حالات از خود اور اچانک پیش آ جائیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ سوچیں چونکہ گناہ سے بچنے پر تقویٰ حاصل ہوتا ہے لہٰذا میں جان بوجھ کر کسی ایسی جگہ جاتا ہوں جہاں گناہوں کی کثرت ہے اور ہر کوئی فسق و فجور میں مبتلا ہے، میں وہاں جا کر گناہوں سے بچوں گا اور تقویٰ حاصل کروں گا۔ یہ طریقہ درست نہیں ہوگا۔ بلکہ ایسے حالات و مقامات سے بچنا چاہیے، از خود ان میں نہیں پڑنا چاہیے۔
میرے ساتھ جرمنی میں یہ واقعہ ہوا تھا کہ جب میں university سے اپنے گھر جاتا تھا تو میرا راستہ کچھ اس طرح کا ہوتا تھا کہ میں یونیورسٹی سے نکل کر بالکل سیدھا ایک گلی تک جاتا، اس گلی سے دوبارہ 90 ڈگری پر مڑ جاتا تو اپنے گھر پہنچ جاتا تھا، آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک rectangular قسم کا راستہ بن جاتا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ وقت بہت کم تھا، مغرب کی نماز کے قضا ہونے کا خطرہ تھا، میں نے چاہا کہ جلدی پہنچ جاؤں، اس لئے ایک شارٹ کٹ راستہ اختیار کیا، اس راستے پہ پہلے کبھی نہیں گیا تھا۔ جیسے ہی میں اس راستے پہ گاڑی موڑ کر داخل ہوا تو پتا چلا کہ یہ تو بہت غلط جگہ ہے، وہ وہاں کا بازارِ حسن تھا۔ بس میں نے فوراً رومال اپنے سر پہ اس طرح ڈالا کہ صرف سامنے کی جگہ نظر آتی تھی دائیں بائیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ انہوں نے میرے اوپر آوازے بھی کسے۔ لیکن میں جلدی جلدی ادھر سے نکل آیا۔ اب چونکہ میرا ارادہ تو وہاں جانے کا نہیں تھا اور اس کے بعد پھر میں کبھی نہیں گیا کیوں کہ مجھے پتا تھا کہ اس طرف یہ چیز ہے، اس لئے نہیں گیا۔ اگر میں یہ سوچتا کہ وہ گناہ کی جگہ ہے چلو وہاں سے گناہ کیے بغیر گزرتا ہوں تاکہ ثواب ہو اور اس نیت سے جاتا تو ثواب نہ ہوتا، کیونکہ مجھے پتا ہوتا کہ وہاں یہ ماحول ہے۔ جب پہلے سے پتا ہو کہ فلاں جگہ گناہ ہیں تو پھر وہاں جا کر بچنا تو بعد کی بات ہے، وہاں جانا ہی منع ہے۔ لہٰذا اگر اچانک غلطی سے ایسا ہو جائے تو اس پہ اجر بھی ہے ثواب بھی ہے تقویٰ کا اجر ملتا ہے، لیکن جب پتا ہو کہ یہاں پر ایسی چیز ہے تو پھر اس سےد ور رہنے پر ہی ثواب ملے گا۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم حضرت !مجھے یہ ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے: 200 مرتبہ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، 400 مرتبہ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو“، 400 مرتبہ ”حَق“ اور 100 مرتبہ اللہ۔ اس کے علاوہ درود شریف، استغفار اور تیسرے کلمہ کا ورد حسب معمول جاری ہے۔ مزید رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اب آپ یوں کریں کہ 200 مرتبہ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، 400 مرتبہ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو“، 600 مرتبہ ”حَق“ اور 100 مرتبہ اللہ کر لیں۔ باقی درود شریف اور استغفار اور تیسرا کلمہ عمر بھر کے لئے جاری رہیں گے۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم حضرت میرا سوال لفظ ”مولیٰ“ کے بارے میں ہے۔ یہ لفظ ”مولانا“ اور ”مولائی“ کی شکل میں صحیح العقیدہ حضرات سے سننے میں آیا ہے،جس کی وجہ سے اس کے معنی بھی معلوم ہیں اور یہ الفاظ استعمال میں بھی ہیں، لیکن اہل تشیع کی طرف سے لفظ ”مولیٰ“ غلط عقیدے کے ساتھ سننے میں آیا ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ سے میرا دل یہ لفظ استعمال کرنے کو نہیں مانتا تھا۔ لیکن اب صحیح العقیدہ حضرات سے بھی یہ لفظ سنا تو اپنی سوچ کو بدلنے کی کوشش کی ہے لیکن دل ڈرتا ہے۔ حضرت اس لفظ کے معنی اور اس کے متعلق ہمارا عقیدہ کیا ہے، یہ بتا دیجئے۔ آپ سے سننے کے بعد ان شاء اللہ اس لفظ کو صحیح طور پہ استعمال کرنا آسان ہو جائے گا۔
جواب:
مولیٰ اصل میں آقا کو کہتے ہیں۔ عربی زبان میں لفظ مولیٰ مختلف معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً آزادہ کردہ غلام کو مولیٰ کہتے ہیں، اور آقا کو بھی مولیٰ کہتے ہیں۔ مرتبہ اور درجہ میں بڑے آدمی کو بھی مولیٰ کہا جاتا ہے، ہمارے ہاں لفظ ”مولانا“ اسی معنی میں مستعمل ہے۔ لہٰذا لفظ مولیٰ کے استعمال میں کوئی غلط یا قبیح بات نہیں ہے، بلا تردد استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ لفظی معنی پیچھے رہ جاتا ہے اور اصطلاحی معنی غالب آ جاتا ہے۔ مثلاً لفظ ”رحمۃ اللہ علیہ“کا لغوی معنی تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس پہ رحمت ہو۔ اس معنی کے لحاظ سے ”رحمۃ اللہ علیہ“ سب کے لئے بولا جا سکتا ہے، کسی گروہ کے ساتھ خاص نہیں ہے، لیکن بعد میں اصطلاحاً یہ لفظ اولیا اللہ کے لئے خاص ہو گیا۔ لہٰذا اب چونکہ لوگوں کو غلط فہمی ہو سکتی ہے لہٰذا ہر ایک کے لئے رحمۃ اللہ علیہ نہیں کہتے بلکہ صرف ان کو کہتے ہیں جن کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ ولی اللہ تھے۔ اس طرح ”علیہ السلام“ اصطلاحاً پیغمبروں کے لئے استعمال ہوتا ہے جبکہ لفظی معنی کے لحاظ سے یہ ہر مسلمان کو کہا جا سکتا ہے کہ اس پر سلامتی ہو۔ لیکن چونکہ یہ اب ایک term بن گئی ہے ایک اصطلاح بن گئی لہٰذا اب اس کو اصطلاحی معنوں میں استعمال کیا جائے گا تب ہی اس کا صحیح فائدہ ہو گا۔ لفظی معنوں میں استعمال کرنے سے کچھ نہ کچھ کنفیوژن ہوگی۔ اس طرح ”امام“ کا لفظ ہے۔ امام ہر اس آدمی کو کہہ سکتے ہیں جو آپ سے آگے جا رہا ہو اور آپ اس سے پیچھے ہوں لیکن آپ ہر آگے جانے والے کو امام نہیں کہتے حالانکہ اگر آپ کہیں تو لغوی طور پر بالکل درست ہوگا۔ لیکن چونکہ اب یہ لفظ اصطلاحی معنوں کے لئے خاص ہو گیا ہے اس لئے اسے اسی معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ اصطلاحی طور پر امام اس کو کہتے ہیں جو آپ کا مذہبی رہنما ہو جس کو پوری دنیا نے امام تسلیم کیا ہو۔
مجھ سے ایک صاحب نے کہا کہ کیا ہم امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہہ سکتے ہیں۔ میں نے کہا: خدا کے بندے یہ تم کیا سوال کر رہے ہو۔ اس سوال کی توضرورت بھی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس کا جواب اظہر من الشمس ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑپوتے امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ دو سال جو میں نے امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ گزارے ہیں، اگر وہ نہ گزارے ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا۔ ہمارا امام کہتا ہے کہ امام حسین کے پڑپوتے کے ساتھ اگر میں نہ ہوتا تو ہلاک ہو جاتا، اس کو ہم امام کہتے ہیں تو جس سے انہوں نے فیض حاصل کیا ان کے پردادا کو امام کیوں نہیں کہہ سکتے۔
بہرحال اصطلاحی معنوں میں ”مولیٰ“ بڑے مرتبے والے کو کہتے ہیں۔ لہٰذا اس لفظ کو انہی معنوں میں اس کو استعمال کیا جائے۔
حدیث شریف میں آیا ہے:
”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌ مَوْلَاہُ“(ترمذی شریف، حدیث نمبر: 3713)
ترجمہ: ”میں جن کا مولا ہوں،علی بھی اس کے مولا ہیں“
تو یہ بات بالکل ٹھیک ہے اس میں کیا حرج ہے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں،خلیفہ راشد ہیں۔ اگر آج کے دور کے کسی آدمی کو ہم مولا کہہ سکتے ہیں، مولانا کہہ سکتے ہیں تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کیوں نہیں کہہ سکتے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم اہل تشیع کی ساری چیزوں کو غلط نہیں کہتے۔ ان کی جو چیزیں صحیح ہیں، ان کو ہم صحیح کہتے ہیں۔ جیسے اہل بیت کے ساتھ محبت کرنا۔ ہم بھی اہل بیت کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ ہمیں اہل بیت کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں کوئی دشمنی نہیں ہے بلکہ ہم ان کو بہت اعلیٰ مقام والے سمجھتے ہیں۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اور حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما، ان سب حضرات کو ہم بہت اعلیٰ درجہ کے صحابی و اہل بیت سمجھتے ہیں۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ جو غلط عقیدے اہل تشیع نے اماموں کے ساتھ منسوب کئے ہیں کہ وہ پیغمبروں سے بھی اونچے ہیں، یہ غلط عقائد ہمارے لئے قابل اعتراض ہیں لہٰذا ہم ان کو نہیں مانتے۔ اس لئے ایسا نہ سمجھا جائے کہ ہم ان کی ساری باتوں کو رد کرتے ہیں۔ ان کی صحیح باتوں کوہم بھی مانتے ہیں۔
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اگر کوئی کافر مجھے کہہ دے کہ نماز پڑھو تو کیا میں اس وجہ سے نماز نہیں پڑھوں گا کہ اس کی ترغیب مجھے کافر نے دی ہے؟ میں نماز تو پڑھوں گا، ہاں اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ کافر کی ساری باتیں صحیح ہیں۔اسی طرح ہم اہل تشیع کی صحیح باتوں کو مانتے ہیں لیکن ان صحیح باتوں کی وجہ سے ان کی غلط باتوں کو نہیں مان سکتے اور غلط باتوں کی وجہ سے ان کی صحیح باتوں کا انکار نہیں کر سکتے۔ اصول یہ ہے ہر چیز کو merit پہ رکھو۔ merit کے اوپر اگر وہ چیز صحیح ہے تو سب کی صحیح ہے اور اگر غلط ہے تو کسی کی بھی ہو، غلط ہے۔
اگر ایک صحیح العقیدہ آدمی جھوٹ بول رہا ہے تو اس کے جھوٹ کو اس بنا پر صحیح نہیں کہا جائے گا کہ اس کا عقیدہ درست ہے۔ اس کا عقیدہ میں صحیح مانتا ہوں لیکن اس کے جھوٹ کو صحیح نہیں مان سکتا۔ لہٰذا کسی صحیح العقیدہ آدمی کی غلط چیز کو میں غلط کہوں گا اور کسی غلط عقیدے والے کی صحیح چیز کو میں صحیح کہوں گا۔ ترمذی میں ایک حدیث شریف مذکور ہے:
” اَلْكَلِمَةُ الحِكْمَةُضَالَّةُ الْمُوْمِنِ“ (ترمذی، حدیث نمبر: 2687)
ترجمہ: ”دانائی کی بات مؤمن کی گم شدہ میراث ہے“۔
جہاں سے بھی ملے اس کو حاصل کر لے۔ ہمارے ہاں تو تنگ نظری ہے ہی نہیں۔ ہم تو الحمد للہ بڑے وسیع النظر ہیں۔ ہمارے ہاں تو بہت کچھ آسانیاں ہیں کیونکہ ہم لوگ الحمد للہ چاروں کو مانتے ہیں۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب کو مانتے ہیں لہٰذا ہمارے لئے کیا پریشانی ہے۔
ایک دفعہ میں نے کسی کو کہا کہ میرے سامنے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جتنی تعریف کی جائے میں اس پر خوش ہوتا ہوں مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوتی، پریشانی کیوں ہو! مجھے پتا ہے کہ شیخین حضرت ابو بکر صدیق اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، یہ دونوں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں۔ یہ تو مجھے عقیدے کے لحاظ سے معلوم ہے۔ اب مثال کے طور پر میں اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کے اوپر فکس کر لیتا ہوں۔ اس کے بعد میں نیچے والے ہاتھ کو جتنا بھی اوپر کروں تو اوپر والا ہاتھ مزید اونچا ہوتا جائے گا۔ لہٰذا میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جتنا بھی اونچا مقام دوں گا،عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ کا مقام خود بخود اونچا ہو رہا ہے۔ لہٰذا مجھے کیا پریشانی ہے۔
ایک دفعہ ایک انگریز نے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کہا تھا: کمال کی بات ہے جن کا چھوٹا محمد اتنا بڑا مقام رکھتا ہے تو ان کے بڑے محمد کا مقام کتنا اعلیٰ ہوگا۔
بعض لوگ تنگ نظری کرتے ہیں ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیادہ تعریف ہو گئی، حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف زیادہ ہو گئی تو گویا کہ نعوذ باللہ من ذالک صحابہ کی مخالفت ہو گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کیا یہ حضرات صحابی نہیں ہیں؟ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی نہیں ہیں، حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما صحابی نہیں ہیں؟
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ دیکھا کہ آپ ﷺ کے کندھے پر حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوار ہیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ماشاء اللہ کیا سواری پائی ہے۔ یعنی ایسا خوش نصیب بچہ ہے کہ آپ ﷺ کے کندھے پہ سوار ہے۔ آپ ﷺ نے جواباًفرمایا: سوار بھی تو کتنا اچھا ہے۔
صحابہ کی آپس میں بڑی محبتیں تھیں۔یہ لوگوں نے عجیب چکر چلائے ہیں کہ ایسی کہانیاں سناتے ہیں جس سے ایسا لگے کہ ان میں ایک دوسرے کے خلاف کوئی بات تھی۔ ہم لوگوں کو اس سے بچنا چاہیے۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت اقدس کی خدمت میں عرض ہے کہ لطیفۂ اخفیٰ پہ مراقبہ کو 40 دن سے اوپر ہو گئے ہیں۔ الحمد للہ سارے لطائف محسوس ہوتے ہیں۔ ذکر یہ چل رہا ہے۔ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ 200 دفعہ، ”اِلَّا اللّٰہ“ 400 مرتبہ ”اَللّٰہُ اللّٰہ“ 600 دفعہ اور ”اللّٰہ“ 100 دفعہ۔ حضرت جی آگے رہنمائی فرما دیجیے۔
جواب:
ماشاء اللہ لطیفہ اخفیٰ کو 40 دن سے اوپر ہو گئے ہیں۔ اب ماشاء اللہ آپ کے لطائف چل پڑے ہیں۔ آپ نے مکمل تفصیل نہیں لکھی، آپ کا خط نا مکمل ہے۔ آپ نے یہ بتایا کہ پانچوں لطائف کا ذکر کر رہے ہیں یا صرف اسی ایک کا ہی ذکر کر رہے ہیں، یا مراقبہ احدیت کا ذکر کر رہے ہیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے مشارب کے ذکر کی تفصیل نہیں لکھی۔ یہ مکمل تفصیل لکھ کر بھیجیں تاکہ مجھے پتا چلے۔ پھر میں آپ کو مزید بتاؤں گا ان شاء اللہ۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم حضرت اللہ پاک اللہ پاک آپ سے راضی ہو۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ ایک کمزور مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نیک گمان رکھنے کا کیا طریقہ اور حدود وآداب ہیں۔
بزرگوں کے کچھ اشعار کا مفہوم ہے کہ چاہے میں جتنا بھی برا ہوں، پھر بھی مجھے حشر کا کیا ڈر، جب میرا آقا و مولا وہ ہستی ہے جن کے قدموں میں جنت بنائی گئی جن کے ہاتھوں سے کوثر لٹایا گیا۔ جن بزرگوں سےا یسے کلمات منقول ہیں وہ تو ایسا کہہ سکتے ہیں کہ ان کی نیتیں اور دل صاف ہو چکے اور وہ گناہوں سے پاک تھے۔ کیا ہم جیسے لوگ بھی ایسا کہہ سکتے ہیں، اگر کہہ سکتے ہیں تو کس نیت سے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
سوال بہت اچھا ہےاس لئے جواب پہ ذرا غور فرمائیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں کیا خیال ہے۔ ان کے پاس تو آپ ﷺ تھے۔ آپ ﷺ ان کے ساتھ تھے آپ ﷺ کی دعائیں بھی ان کے ساتھ تھیں۔ کیا اس کے باوجود صحابہ عمل نہیں کرتے تھے؟ وہ عمل کرتے تھے اور ایسا کرتے تھے کہ اگر کسی کی تکبیر اولیٰ فوت ہو جاتی تو اس پہ تعزیت کی جاتی تھی۔ آج کل تکبیر اولی چھوٹنے پر تعزیت ہوتی ہے؟ آپ ﷺ کی تمام برکات مہیا ہونے کے باوجود ان کے اعمال بڑے شاندار تھے، پھر بھی وہ ڈرتے تھے اور ہر دم خوف و رجا کے درمیان رہتے تھے۔ ہمارا بھی یہی طریقہ ہونا چاہیے کہ ہم امید تو یہی رکھیں کہ ہم آپ ﷺ کی امت ہیں اور آپ ﷺ کی امت پر اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم و رحم ہے لہٰذا اللہ پاک ہمیں معاف کر دیں گے لیکن اس معافی کی امید کی بنیاد پر گناہوں پہ جرات نہیں کرنا چاہیے۔ ورنہ نبی ﷺ کے ساتھ وہ رشتہ ہی صحیح نہیں بنے گا جس کی بنا پر مغفرت کی امید ہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ دو کاغذوں کو آپس میں ملا کر درمیان میں کوئی چپکانے والا مواد نہ لگائیں تو کیا وہ آپس میں ملے رہیں گے؟ جی نہیں، جوں ہی انہیں چھوڑا جائے گا وہ الگ الگ ہو جائیں گے۔ لہٰذا اعمال صالحہ اور خوف و رجا کے درمیان رہنا یہی وہ رسی ہے جو امت کو آپ ﷺ کے ساتھ باندھتی ہے۔ لہٰذا ڈر کے ساتھ امید لازم ہے اور امید کے ساتھ ڈر لازم ہے۔ وہ امید جو آپ کو نڈر کر لے، غلط ہے کیونکہ اللہ پاک کا ارشاد ہے:
﴿مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْکَرِیْم﴾ (الا نفطار: 6)
ترجمہ: ”تجھے کس چیز نے اپنے اس پروردگار کے معاملے میں دھوکا لگا دیا ہے جو بڑا کرم والا ہے۔ “
اور وہ ڈر جو آپ کو مایوس کر ے وہ بھی غلط ہے، کیونکہ
﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحَمَةِ اللّٰہ﴾ (الزمر: 53)
ترجمہ: ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ “
یہ اللہ پاک کا حکم ہے۔
یہ دونوں چیزیں خوف اور امید قرآن سے ثابت ہیں، ہم قرآن کی مخالفت نہیں کر سکتے لہٰذا ہم لوگوں کو امید بھی رکھنی چاہیے اور ساتھ ساتھ ڈر بھی ہونا چاہیے۔ اعمال بھی اختیار کرنے چاہئیں اور وسیلے بھی پکڑنے چاہئیں۔ جو اُن حضرات نے اشعار میں کہے ہیں، یہ وسیلے ہی ہیں۔ وسیلہ پکڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے، وسیلہ پکڑا جا سکتا ہے لیکن اس کی وجہ سے اعمال نہیں چھوڑے جا سکتے اعمال کرنا لازم ہے اور وسیلہ پکڑنے میں فائدہ ہے۔ یہ ساری چیزیں integrated ہیں ان کو جدا جدا نہ کیا جائے ورنہ پھر مشکلات ہیں، مسائل ہیں اگر اس چیز کو آپ سمجھ گئیں تو یہ میرے خیال میں ان شاء اللہ سارا کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت والا مرشدی مولائی کی خدمت اقدس میں کچھ سوالات رہنمائی و ہدایت اور اپنی اصلاح کے لئے عرض ہیں۔
بدھ کے روز مکتوبات شریفہ کی مجلس میں جو تشریح حضرت نے فرمائی وہ بڑے گہرے مضامین پہ مشتمل تھی۔ الحمد للہ بہت فائدہ محسوس ہوا البتہ اپنی کم فہمی اور کم علمی کی وجہ سے کچھ باتیں سمجھ میں نہیں آئیں۔ ان کے بارے میں رہنمائی کے لئے حضرت کی طرف رخ ہے۔
اولاً حضرت مجدد الف ثانی نور اللہ مرقدہ نے کچھ اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے فرمایاکہ اربابِ سلوک ہمارے ساتھ فنا و بقا میں شامل ہیں البتہ وہ طویل مدت اور مجاہدے کے بعد اپنے مقصود تک پہنچتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ طویل مدت کی وجہ کیا ہے اور کیا طویل مدت سے سلوک طے کرنے کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ یہاں مقصود سے مراد کیا ہے۔ کیا سلوک کا طے ہونا، مقامات کا طے ہونا یا فنا کے بعد بقا باللہ حاصل ہونا ہونا یا جذبِ وہبی عطا ہونا۔ ان میں سے یہاں کیا مراد ہے۔
جواب:
دیکھیں پہلے وقتوں میں جن سلاسل کے اندر جذب مروج نہیں تھا وہ سلوک ہی سے ابتدا کرتے تھے۔ سلوک سے ابتدا کرنے کا مطلب ہے کہ شروع ہی سے سالک کو مجاہدوں اور ریاضتوں پہ لگایا جاتا تھا۔ اگر شیخ کے ساتھ محبت کی lubrication نہ ہو تو مجاہدے اور ریاضتیں کافی وقت لیتے ہیں۔وہ ایک لمبا راستہ ہے، اتنا جلدی طے نہیں ہوتا۔ بعد ازاں حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے جذب کسبی introduce کرایا، اور یہ ترتیب رکھی کہ ابتدا ہی سے مجاہدوں اور ریاضتوں پہ نہیں لگاتے تھے بلکہ جذب کسبی حاصل کرواتے تھے۔ پھر اس جذب کے ذریعہ سلوک طے کرواتے تھے تو سلوک جلدی طے ہوجاتا تھا۔
اس جذب کسبی کے بارے میں مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ جس کو جذب کسبی حاصل ہوجائے اسے ایک قسم کی مرادیت حاصل ہو گئی ہے۔ جیسے جذب وہبی کا حصول مکمل مرادیت ہے، ایسے ہی جذب کسبی کا حصول جزوی قسم کی مرادیت ہے۔ جذب وہبی میں ایک بندہ کو اللہ پاک کی طرف ایسا کامل جذب و شوق حاصل ہوتا ہے کہ وہ کبھی واپس نہیں آ سکتا، جبکہ جذب کسبی میں وقتی مرادیت اور وقتی جذب و شوق ہوتا ہے جس کا فائدہ اٹھا کر سلوک طے کرادیا جاتا ہے۔ اس سے سلوک طے کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔
اگر کوئی اس آسان طریقے سے سلوک طے کر لے تو ماشاء اللہ بہت اچھا ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آخر کسی حکمت کی وجہ سے ہی ان حضرات نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے۔ لیکن اس میں دو باتیں یاد رہیں۔
اول یہ کہ اب جتنے بھی مروجہ طریقے ہیں چشتیہ سہروردیہ، قادریہ وغیرہ۔ آج کل سب سلاسل میں جذب پہلے لیا جاتا ہے، ذکر اذکار سے شروع کروایا جاتا ہے، ان ذکر اذکار سے وہی جذب سالکین کو حاصل ہو جاتا ہے، اور ایک قسم کی مرادیت ان کو حاصل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اب کسی سلسلہ میں کوئی فرق نہیں رہا۔ اس لئے آج کل کوئی نقشبندی نہیں کہہ سکتا کہ ہم افضل ہیں، کیونکہ اب سارے ایک ہی line پر چل پڑے ہیں۔
میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نیکی کے حریص تھے۔ غریب صحابۂ کرام آپ ﷺ کے پاس گئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مالدار ہم سے بہت آگے چلے گئے وہ تو خیرات بھی کرتے ہیں صدقات بھی کرتے ہیں اور بہت سارے نیک کام دولت کے ذریعے کر لیتے ہیں، ہمارے پاس تو وہ چیزیں نہیں ہیں ہم کیسے ان کے ساتھ مقابلہ کر سکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں آپ کو کچھ کلمات سکھاتا ہوں اگر تم وہ پڑھتے رہو گے تو کوئی تمہارے درجہ تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ کلمات نہ پڑھے۔ آپ ﷺ نے ان کو وہ کلمات سکھا دیئے۔ مالدار صحابہ کو ان کلمات کا پتا چلا تو انہوں نے بھی وہی کلمات پڑھنا شروع کر لئے۔ اس پر پہلے والے صحابہ دوبارہ آپ ﷺ کے پاس گئے اور عرض کی: یا رسول اللہ! انہوں نے بھی وہ پڑھنا شروع کر لیا ہے، اب ہم کیا کریں۔ فرمایا: اب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک چیز دی ہے تو میں کیسے ان سے واپس لے سکتا ہوں، اللہ پاک نے ان کو نواز دیاہے تو اس کی مرضی ہے۔
اب اگر نقشبندی حضرات کو جذب کسبی مل گیا، پھر دوسروں نے بھی اس کو لے لیا، اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ان سے واپس لینا چاہیے۔ یہ تو ایسی بات ہو جائے گی جیسے میں نے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا،اب اگر کوئی دوسرا اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے تو میں اس کے ساتھ لڑ پڑوں کہ یہ تو میرے بیٹے کا نام ہے تو نے کیوں رکھا ہے۔ ہم تو خوش ہوتے ہیں کہ بھئی اچھی بات ہے الحمد للہ ایک اچھا رواج پڑ گیا اور لوگ یہ نام رکھنے لگے۔
مجھ سے شروع شروع میں کچھ حضرات بیعت ہوئے تھے، اللہ پاک نے ان کو سلسلے کی برکت سے نوازا اور انہیں بڑا فائدہ ہوا۔ بعد میں جب مریدین کی تعداد بہت بڑھ گئی اور ان کو معلوم ہوا کہ اب بہت سارے لوگ بیعت ہو گئے ہیں تو وہ ڈر گئے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ اب تو آپ کے ساتھ بہت سے لوگ بیعت ہو گئے ہیں اب ہمارا کیا ہو گا۔ میں نے ان سے کہا: دیکھو اگر ایک آدمی کو میس کا منیجر بنایا جائے اور اسے انتظامیہ کی طرف سے سو آدمیوں کے لئے کھانا ملتا ہو جسے وہ ان میں تقسیم کر دیتا ہو۔ اگر اس میس میں انتظامیہ کی طرف سے کھانا کھانے والوں کی تعداد بڑھا کر ایک ہزار کر دی جائے اور منیجر کو ان سب کے لئے کھانا دے دیا جائے تو کیا خیال ہے ایسا ہوگا کہ کسی کو مل جائے اور کسی کو نہ ملے؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوگا کیونکہ انتظامیہ کی طرف سے اب کھانا بڑھا کر ہزار آدمیوں کا کر دیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہی معاملہ ہے کہ اصل میں فیض دینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے اگر وہ ہزار کو دلوانا چاہے تو اس کی طرف سے ہزار آدمیوں کا فیض ہی ملے گا۔ کسی کو اس بات کا خوف کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر لوگ زیادہ ہوگئے تو شاید مجھے نہ ملے۔ جب دینے والا اللہ پاک ہے تو سب کو ملے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ نقشبندی سلسلے میں جو فیض تھا نقشبندی طریقے پہ چلنے والوں کے لئے وہ فیض اب بھی ہے۔ اگر کوئی نقشبندی سلسلے کو ہی چھوڑ دے اور اپنی طرف سے کوئی اور چیز بنا لے تو پھر ان کی اپنی مرضی ہے، پھر جو کچھ بھی ہو گا اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ حساب کر لے گا۔ لیکن اگر کوئی اس طریقے پہ کما حقہ چلتا ہے تو اس کی فضیلتیں ضرور حاصل ہوتی ہیں۔
حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا اپنی اس وقت کی حالت کے مطابق فرمایاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حضرت نے 287 نمبر مکتوب شریف میں بہت ہی زیادہ غور دلانے والی باتیں فرمائی ہیں۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ میں تو کہتا ہوں ترقی وہی کرتا ہے جو ڈر ڈر کے چلتا ہو، جس کو خیال ہو کہ کہیں میں گر نہ جاؤں، اس ڈر سے پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہو۔ جو فخر کرتا ہو وہ تو اپنے آپ کو گرا دے گا۔ حضرت نے یہ باتیں support کرنے کے لئے فرمائی ہیں لہٰذا ان سے یہ مطلب نہیں لینا چاہیے۔
دوسرا سوال آپ نے یہ پوچھا کہ مقصود سے کیا مراد ہے۔ مقصود سے مراد اللہ کی رضا ہے۔ جب ہم ہر حال میں اللہ پاک سے راضی ہو جائیں تو اللہ بھی ہم سے راضی ہو گیا۔ ہم اللہ پاک سے تب راضی ہوں گے جب ہمارا نفس مطمئنہ ہو جائے گا۔ نفس پورا سلوک طے کرنے کے بعد مطمئنہ بنتا ہے۔ یہ پورا طے کرنا ضروری ہے، چاہے نقشبندی سلسلے کے ذریعے سے طے کر لیا جائے، چاہے چشتی، سہروردی یا قادری کے ذریعے سے کر لیا جائے۔
ایک بات اور عرض کروں کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ پاک نے 24 گھنٹے کے اندر اندر نواز دیا تھا، ان کو یہ سارے مقامات نصیب فرما دیئے تھے۔ یہ بات کتابوں میں لکھی ہوئی ہے کہ 24 گھنٹے کے بعد ان کے شیخ نے ان کو اجازت دے دی تھی۔ لیکن وہ ایسے با وفا تھے کہ اس کے بعد 20 سال تک شیخ سے جدا نہیں ہوئے۔ اس 20 سالہ رفاقت کا اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ صلہ دیا کہ جب ان کے شیخ نے ان کی تشکیل کی، انہیں حکم دیا کہ جاؤ اب کام کرو۔ تب یہ حج پہ گئے اور حج سے فراغت کے بعد ہندوستان تشریف لائے۔ ہندوستان میں 90 لاکھ لوگ ان کے ہاتھ پہ مسلمان ہوئے۔ اللہ نے ان کو اتنا زیادہ نوازا۔
شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”قَدَمِيْ هٰذَا عَلٰى رَقَبَةِ كُلِّ وَلِيٍّ لِلّٰه“ یعنی میرا قدم سارے کے سارے اولیا اللہ کی گردنون پر ہے۔ اس وقت شیخ عبد القادر جیلانی مامور من اللہ تھے۔ جنہوں نے ان کی بات نہیں مانی ان کی پوری کی پوری ولایت ختم ہو گئی۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ حضرت کیا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمان بعد والوں کے لئے بھی ہے یا صرف ان کے اپنے ہمعصر اولیاء کے لئے تھا۔ حضرت مجدد صاحب کا جواب سننے کے قابل ہے، فرمایا: میں اپنے اوپر تو ان کا یہ فرمان مانتا ہوں۔ لیکن اصل میں یہ اسی وقت کے اولیاء اللہ کے لئے تھا، نہ ان سے پہلے زمانے کے لئے تھا نہ بعد والوں کے لئے ہے۔ کیونکہ پہلوں میں صحابہ ہیں اور بعد والوں میں امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ رہے ہیں۔ اور یہ دونوں شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے افضل ہیں۔ لہٰذا ان کا یہ فرمان ان کے اپنے زمانہ کے اولیاء کے لئے تھا۔
یہ سب تفصیلات عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر سلسلہ کا اپنا مقام ہے، ہر سلسلے کی اپنی خوبیاں ہیں، اس لئے سلسلوں کی بنیاد پر یہ بحث نہ کریں کہ فلاں سلسلہ افضل اور فلاں غیر افضل ہے۔ بلکہ یہ بات ضروری ہے کہ سلوک طے ہورہا ہے یا نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جس کا سلوک طے ہو گیا اس کو مقام رضا حاصل ہو گیا اور جس کو مقام رضا حاصل ہو گیا اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو گیا، جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو گیا وہ اللہ کا سچا بندہ بن گیا اورجو اللہ پاک کا سچا بندہ بن گیا وہ جنتی بن گیا۔ جیسا کہ قرآن پاک کی درج ذیل آیتوں میں فرمایا گیا ہے:
﴿یَآ أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِى إِلٰى رَبِّکَ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً فَادْخُلِى فِى عِبَادِى وَادْخُلِى جَنَّتِى﴾ (الفجر: 30-27)
ترجمہ: ” (البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پاچکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں۔ اور داخل ہوجا میری جنت میں۔ “
سوال نمبر8:
اگر کسی کا اپنے شیخ کے ساتھ مسلسل رابطہ رہنا ممکن نہ ہو، بلکہ بہت کم رابطہ رہتا ہو سال میں ایک آدھ دفعہ کے علاوہ رابطہ ممکن نہ ہو۔ اور وہ کسی دوسرے شیخ سے رہنمائی لے لیں، تو کیا انہیں پہلے شیخ کو اس کی اطلاع دینا ضروری ہو گی یا اس کے بغیر بھی کسی اور شیخ سے اصلاح کرا سکتے ہیں۔
جواب:
جن کا اپنے شیخ سے رابطہ ممکن نہیں ہے، اور سال میں ایک آدھ دفعہ کے علاوہ رابطہ نہیں ہو پاتا، ایسی صورت میں ان شیخ بزرگ کی برکت تو حاصل ہوتی رہے گی لیکن تربیت نہیں ہو سکتی۔ رہی بات یہ کہ اپنے شیخ کو اطلاع دیں یا نہ دیں، یہ حالات و مواقع پر منحصر ہے، اگر انہیں اطلاع دینے سے ان کی طبیعت پہ بوجھ آنے کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں اطلاع نہ کرنا زیادہ مفید ہے۔ ہاں اگر انہیں بتانے میں ایسا کوئی مسئلہ نہ ہو تو بتایا بھی جا سکتا ہے۔ لیکن پہلی صورت میں بہتر یہ ہے کہ ان کو اطلاع دیئے بغیر انہی کو اپنا شیخ سمجھتے ہوئے شیخِ تعلیم کسی اور کو بنا لیا جائے۔ اسی میں فائدہ ہے۔
سوال نمبر9:
الحمد للہ حضرت کی تمام مجالس مبارکہ اور جملہ تصانیف سے یہ بات واضح ہوئی کہ تمام سلسلے ایک ہیں اور تمام اللہ سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں۔ سب کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ سالک کامل شریعت پر سنت کے مطابق صحابہ کے طریقے پر عمل کرنے لگ جائے۔ البتہ حضرت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مختلف سلاسل کی مختلف امتیازی شان ہے۔ تمام سلاسل میں کاملین اولیا اللہ گزرے ہیں، البتہ وہ اپنی اپنی امتیازی شان سے پہچانے جاتے ہیں۔ مثلاً نقشبندی سلسلے میں لطائف کے اجرا کے ذریعے اور مختلف طریقوں سے جذب کسبی حاصل کیا جاتا ہے لیکن اس میں یہ خطرہ بھی ہے کہ کہیں سالک جذب کسبی کو جذب وہبی سمجھ کر اپنےآپ کا کامل مان لے اور مجذوب متمکن بن جائے۔ حضرت! یہ جو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں جذب کسبی ہوتا ہے وہ تو زیادہ تر قلب کی مستی اور محبت کا عالم ہے۔اور چشتیہ سلسلے میں جو ہم اللہ کی یاد میں محبت اور ثقل دیکھتے ہیں،وہ ثقل کون سا ہے۔ چشتیہ سلسلے میں بکثرت اس کا رواج رہا ہے کہ سماع کے ذریعے ان کو سکر کی حالت میں لائیں۔ لیکن حضرت والا کے مطابق صحو سکر سے افضل ہے۔ حضرت اس کے اوپر تھوڑی سی روشنی فرما دیں۔
جواب:
سماع سکر کے لئے نہیں کیا جاتا۔ سکر ایک غیر اختیاری چیز ہے۔ سکر کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس درجہ کا جذب ہو جائے اس درجہ کی محبت ہو جائے کہ باقی تمام چیزوں کا علم اس سے سلب ہو جائے، اسے کسی بات کا پتا نہ رہے صرف اللہ پاک کے وجود کا علم رہے، کسی اور چیز کے وجود کا علم نہ رہے۔ اس حالت کو سکر کہتے ہیں۔ اس کی نیت کی ہی نہیں جا سکتی، کیونکہ یہ ایک غیر اختیاری اور غیر ارادی چیز ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے غالباً مکتوب نمبر 285 میں بڑی تفصیل کے ساتھ فرمایا ہے کہ بعض متوسط حضرات کو سماع کی ضرورت پڑتی ہے۔ انہیں عروج کی ضرورت ہوتی ہے جس کو سماع کے ذریعے حاصل کرایا جاتا ہے۔ اور بعض منتہی حضرات کو بارِ وجود سے کچھ دیر relaxکرنے کے لئے سماع کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہر حال اس میں تفصیلات بہت زیادہ ہیں، میں مختصراً اتنا عرض کروں گا کہ سماع سکر کے لئے نہیں کیا جاتا۔ سکر تو ایک غیر اختیاری اور غیر ارادی چیز ہے۔ یہ ایک Side effect ہے، Main effect نہیں ہے۔ Main effect تو صحو ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ صحو حاصل ہو جائے، لیکن سکر کے بعد حاصل ہونے والے صحو میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ چیزیں جو انسان کے نفس کی طرف سے پریشان کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ سے غافل کرتی ہیں وہ ساری چیزیں سکر میں dissolve ہو جاتی ہیں۔
اس کو ہم نے اپنی ایک غزل میں بھی بیان کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جذب و سکر در اصل وحدت کے دریا میں ڈبکی لگانا ہے۔ سالک کو اللہ تعالیٰ سے جب بہت محبت ہوتی ہے تو اس محبت کی وجہ سے یہ ڈبکی لگوائی جاتی ہے، یہ از خود نہیں لگائی جاتی۔ ڈبکی لگوانے کے بعد اللہ تعالیٰ اس سے سالک کو نکال لیتے ہیں، اس سے نکلنے کے بعد صحو حاصل ہوتا ہے جس میں ان کا علم واپس آ جاتا ہے، سکر سے پہلے والے علم اور بعد والے علم میں فرق یہ ہوتا ہے کہ پہلے صرف علم برائے علم ہوتا ہے لیکن سکر کے بعد والے علم میں یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ اس علم میں سے میرا مقصود کیا ہے اور کونسی چیز میرا مقصود نہیں ہے، اس لئے وہ اس علم کی بنیاد پر مقصود کو سامنے رکھتا ہے غیر مقصود چھوڑ دیتا ہے۔ اس کی دلچسپی ہمہ وقت اپنے مقصود میں ہوتی ہے، اسی کو صحو کہتے ہیں، اسی کو وحدت الشہود کہتے ہیں، یہی وہ تمام چیزیں ہیں جو ہمارے لئے مقصود ہیں۔
سوال نمبر10:
حضرت جی! پانچوں لطائف چل رہے ہیں۔ 55 منٹ کا مراقبہ چل رہا ہے۔ چاروں لطائف پر 10، 10منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ پر 15 منٹ کا مراقبہ جاری ہے۔
جواب:
آپ کا لطائف کا دور مکمل ہو گیا ہے۔ اب آپ مراقبہ احدیت شروع کر سکتے ہیں۔ ابھی یہ پانچوں لطیفوں پر پانچ پانچ منٹ کا مراقبہ کرتے رہیں۔ اور ان کے بعد 15 منٹ کے لئے مراقبہ احدیت کر لیا کریں جس میں یہ تصور کریں کہ اللہ کی شان عالی کے مطابق اس کا فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آرہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب پر اور میرے شیخ کے قلب سے میرے قلب میں فیض آ رہا ہے۔ یہ مراقبہ احدیت کا پہلا حصہ ہے اس کو روزانہ 15 منٹ کرنا شروع کر دیں۔
سوال نمبر11:
میری زبان بہت بے قابو ہو رہی ہے، آپ سے دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
یہ اچھا ہوا کہ دوا کی درخواست نہیں کی صرف دعا کی درخواست کی ہے۔ ویسے بھی آج کل trend یہی ہے کہ دعا دوا سے زیادہ important ہے۔ لیکن ستم یہ ہے کہ یہ لوگ دنیاوی معاملات میں ایسا نہیں کرتے بلکہ دنیاوی بیماری میں پہلے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب سے کہتے ہیں کہ آپ کچھ کریں۔ جب ڈاکٹر صاحب فیل ہو جائیں تو پھر کہتے ہیں جی اب آپ دعا کریں۔ ڈاکٹر صاحب بھی آخر میں کہتے ہیں کہ بس اب دعا کریں۔
یاد رکھیں ہر معاملے میں اصل طریقہ یہی ہے کہ پہلے دوا کرو پھر دعا کرو۔ بلکہ پہلے اور آخر کو چھوڑو دعا اور دوا دونوں ہی کرو کیونکہ پہلے اور آخر کو آپ adjust نہیں کر سکو گے۔
آپ کے سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ اپنی زبان کو قابو میں کرنے کے لئے دعا بھی کریں اور دوا بھی کریں۔ اگر آپ کو interest ہے تو دوا میں بتا دیتا ہوں۔ دوا یہ ہے کہ خاموشی کا مراقبہ کر لیں، خاموشی کا مجاہدہ کر لیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس topic میں آپ کو زیادہ interest ہو اس میں آپ نے 10 منٹ تک خاموش رہنا ہے۔ جس میں آپ زیادہ دلچسپی رکھتی ہوں اور بولنے کو دل کرتا ہو اس میں 10 منٹ تک آپ نے خاموش رہنا ہے اور یہ مجاہدہ پورا ایک مہینہ کرنا ہے۔ جب بھی آپ کے سامنے کوئی ایسا دلچسپ topic ڈسکس ہو رہاجس میں آپ ضرور بولنا چاہیں تو وہاں آپ 10 منٹ کے لئے خاموش رہیں۔ طبیعت میں بے چینی تو آئے گی، لیکن علاج ہو جائے گا۔ یہ مجاہدہ آپ کو ان شاء اللہ العزیز سیدھا راستہ دکھائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بزرگوں نے فرمایا ہے پہلے تولو پھر بولو۔ جب تک آپ کو تولنے کا وقت نہیں ملے گا،تولیں گے کیسے۔ اس لئے یہ دس منٹ کی خاموشی آپ کی مدد کرے گی اور آپ اچھی طرح تول سکیں گی کہ مجھے کیا بولنا ہے اور کیا نہیں بولنا۔ اگر 10 منٹ کی خاموشی کا مجاہدہ آپ نے کامیابی سے پورا کر لیا تو آپ ہر موقع پر 10 منٹ خاموش رہ سکیں گی، ان 10 منٹ میں آپ سوچ لیا کریں گی کہ میں کون سی چیز بولوں کون سی چیز نہ بولوں، آپ کو سوچنے کا وقت مل جائے گا۔ آپ مجاہدہ کر لیں اس کے بعد ان شاء اللہ آپ کو زبان پر قابو حاصل ہو جائے گا۔
سوال نمبر12:
حضرت! اس ماہ میں میری فجر کی نماز 2 بار قضا ہو گئی ہے۔
جواب:
ہمارے ہاں اس کا قانون یہ ہے کہ ایک نماز قضا ہونے پر بطور جرمانہ 3 روزے رکھنے پڑتے ہیں۔ آپ دو نمازوں کے لئے چھ روزے رکھ لیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نفس کو تکلیف ہو اور اس کو احساس ہو جائے۔ بجائے اس کے کہ آپ کو موت کے بعد پتا چل جائے کہ اس سے کیا تکلیف ہوتی ہے، پہلے ہی پتا چل جانا بہتر ہے اس لئے نفس کو تکلیف دینے کے لئے یہ روزے رکھوائے جاتے ہیں۔ اور جن وجوہات کی وجہ سے نمازیں قضا ہوئی ہیں وہ دھونڈ کر مجھے بتا دیں اور آئندہ ان چیزوں سے بچنے کی کوشش کریں جن کی وجہ سے نماز قضا ہو ئی ہے۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم یا سیدی مرشدی دامت برکاتھم! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں۔ حضرت جی آپ کو ایک اطلاع دینی تھی۔ آج کل مجھے ایک عجیب سی کیفیت محسوس ہو رہی ہے جس کو میں بہت زیادہ notice کر رہا ہوں۔ وہ یہ کہ اگر میں کسی کے بارے میں سوچ لوں یا مجھے کسی کا خیال آ جائے تو وہ شخص مجھے دن میں کہیں نہ کہیں مل جاتا ہے اور یہ مسلسل ہو رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر مجھے کسی ایسے کے بارے میں خیال آیا جس سے میں تین چار سال سے نہیں ملا، ان سے بھی ملاقات ہوجاتی ہے۔
جواب:
ہمارے حضرت فرمایا کرتے تھے کہ یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں ان کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے۔ ایسی چیزیں ہوتی رہتی ہیں، اس سے بھی مختلف چیزیں پیش آ سکتی ہیں ہمارے ساتھ بھی اس قسم کی چیزیں پیش آئی ہیں۔ ان چیزوں سے نہ قرب ہوتا ہے اور نہ ہی بُعد ہوتا ہے۔ غیر اختیاری چیزوں سے نہ قرب حاصل ہوتا ہے نہ بُعد حاصل ہوتا ہے۔ یہ ایک حال ہوتا ہے اور کسی چیز کا ایک اثر ہوتا ہے۔ اصل میں وہ چیز important ہے جس کا یہ effect ہے، اس کو consider کرنا چاہیے، اس اثر کو نہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو خواب میں جنت نظر آ جائے تو کیا خیال ہے وہ جنتی ہو گیا؟ ظاہر ہے خواب میں جنت نظر آنے سے جنتی نہیں ہوا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ایسے اعمال کرنے چاہئیں جو اسے جنتی بنا دیں۔ اگر وہ جنت کے اعمال کر رہا ہے تو بے شک اسے جنت نظر نہ آئے پھر بھی ان شاء اللہ اسے جنت مل جائے گی۔ لہٰذا ہمیں ایسی چیزوں کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے۔ اپنے آپ کو ان چیزوں سے یکسو رکھنا چاہیے۔ ان کو راستے کے کھیل تماشے سمجھنا چاہیے۔ راستے میں بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں، ان سے دھیان بچا بچا کر اپنے آپ کو منزل کی طرف گامزن رکھنا چاہیے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک گاڑی میں کوئی بیٹھا ہو، اس کے تمام شیشے بند ہوں، اس کو کچھ بھی نظر نہ آ رہا ہو اور وہ اپنی منزل پر پہنچ جائے۔ دوسرا آدمی گاڑی میں سفر کر رہا ہو، ساری کھڑکیاں کھلی رکھی ہوں، اسے راستے کی ساری چیزیں مل رہی ہیں، اچھی چیزیں نظر آ رہی ہیں، بری چیزیں بھی نظر آ رہی ہیں۔ ایسا آدمی خطرہ میں ہے۔ اگر گاڑی کسی جگہ کھڑی ہو جائے، اسے یہ جگہ پسند آئے اور وہ گاڑی سے نیچے اترکر جگہ دیکھنے لگ جائے، اسی اثنا میں گاڑی چل پڑے تو عین ممکن ہے کہ یہ اپنی منزل سے سے رہ جائے۔ اس وجہ سے ایسی چیزوں کی طرف بالکل توجہ نہیں کرنا چاہیے، اپنے آپ کو اپنی منزل کی طرف یکسو کرنا چاہیے۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ بعض دفعہ محبوب کے سامنے دوسری چیزیں لا کر اس کا امتحان لیا جاتا ہے کہ وہ ان چیزوں میں پڑتا ہے یا میری طرف آتا ہے۔ اگر آپ محبوب کی طرف جا رہے ہوں اور وہ آپ کا امتحان لینے کے لئے بہت خوبصورت چیزیں آپ کے سامنے رکھ دے اور آپ اسی میں مشغول ہو جائیں تو وہ کہے گا کہ یہ سچا محبوب نہیں ہے اس کو یہی پسند ہے، اس کو چھوڑ دینا چاہیے۔ آپ بتائیں ایسا آدمی کامیاب ہو گا یا ناکام ہوگا؟ ناکام ہو جائے گا۔ لہٰذا ایسی چیزوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔
سوال نمبر14:
حضرت! نماز پڑھتے ہوئے اور ذکر کرتے ہوئے میرا دماغ دنیا کے کاموں کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ کوشش کرتا ہوں کہ یکسوئی حاصل ہو مگر پھر تھوڑی دیر بعد واپس دنیا میں کھو جاتا ہوں۔
جواب:
اصل میں بات یہ ہے کہ ہموار زمین پر گڑھا ہو جائے تو اس ہموار زمین کے اوپر جتنا پانی کھڑا ہو گا وہ سارا اس گڑھے میں آ جائے گا۔ اسی طرح میرا دل اگر دنیا کی بہت ساری چیزوں میں نماز سے پہلے اور نماز میں مشغول ہے تو جب مجھے یکسوئی ملے گی تو دل میں دنیا کا خیال ہی آئے گا۔
میں آپ کو اس کی ایک physical مثال دیتا ہو جو خود میرے ساتھ پیش آئی ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ مجھے نزلہ زکام ہوتا ہے، اس حالت میں جب میں نماز کے اندر کھڑا ہو جاتا ہوں اور سجدہ کی جگہ پر نظر جماتا ہوں تو سارا زکام ناک کے راستے سے بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس سے میں کافی تنگ ہوتا ہوں لیکن کیا کروں یہ physical چیز ہے۔ میں باقاعدہ کوئی رومال وغیرہ رکھتا ہوں تاکہ زکام مسجد میں نہ گرے۔ یہی چیز نماز میں نفسیاتی طور پر بھی پیش آتی ہے کہ جب انسان focus کرتا ہے اسے یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے تو اردگرد کی ساری چیزیں اس کی طرف آنے لگتی ہیں۔ آدمی محسوس کرتا ہے کہ شاید نماز سے پہلے یہ چیزیں نہیں تھیں۔
اگر آپ نے نماز کو صحیح کرنا ہے اور نماز کے اندر یکسوئی پیدا کرنی ہے تو ارد گرد کی چیزیں نماز سے کچھ دیر پہلے ہٹا دیا کریں۔ ایک دفعہ صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بیٹھے بیٹھے فرمایا کہ چلو بھئی نماز کے لئے ذہن بنائیں۔ نماز کا وقت ہونے والا تھا، فرمایا: نماز کے لئے ذہن بنائیں۔ کبھی کسی سے سنا ہے کہ نماز کے لئے ذہن بنائیں؟ نہیں سنا ہوگا لیکن یہ ایک practical چیز ہے کہ آپ نماز میں جانا چاہتے ہیں تو پہلے ان چیزوں کو ہٹا دیں پھر نماز کے اندر چلے جائیں۔ ایسا کرنے سے یہ چیزیں پیش نہیں آئیں گی۔ اگر پھر بھی خیالات وغیرہ آئیں تو اس کا حل ایک ہی ہے کہ آپ اس کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ بالکل سنی ان سنی او ردیکھی ان دیکھی والا معاملہ کردیں۔ اس کی طرف توجہ نہ کریں اگر توجہ ہو جائے تو جیسے ہی یاد آ جائے فوراً دوبارہ نماز میں آ جائیں۔ اس طرح کرتے ہوئے بے شک آپ 10 مرتبہ بھی نکل گئے پھر واپس آ گئے تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن ان خیالوں میں جی نہ لگاؤ اس کے اندر involve نہ ہو تو پھر کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ یہ ایک غیر اختیاری چیز ہے اور غیر اختیاری پہ پکڑ نہیں ہے۔ بہرحال وہ اعلیٰ درجہ کی یکسوئی جس میں یہ چیزیں نہ ہوں وہ تبھی ملے گی جب آپ ان چیزوں کو پہلے سے ہٹا دیں۔
سوال نمبر15:
حضرت آپ نے 18 رمضان المبارک کے بیان میں فرمایا تھا کہ ہمارے سلسلے کے مرد حضرات تکبیر اولیٰ کے ساتھ نمازوں کا چلہ شروع کر لیں۔ اس حوالے سے میں نے اطلاع کرنا تھی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے آج میرا چلہ مکمل ہو گیا ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
جواب:
اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے۔ اصل میں یہ چلہ اس لحاظ سے important ہے کہ اس کی بڑی فضیلت بتائی گئی ہے۔ جو شخص تکبیر اولیٰ کا چلہ کر لے تو اس کو 2 پروانے ملتے ہیں ایک پروانہ نفاق سے بری ہونے کا اور ایک پروانہ دوزخ سے خلاصی کا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مجھے تم دو چیزوں کی ضمانت دو، میں تم کو جنت کی ضمانت دے دیتا ہوں، ایک جو دو جبڑوں کے درمیان ہے دوسری جو دو ٹانگوں کے درمیان ہے۔ اور فرمایا کہ سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور نماز اس وقت پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔
اسی طرح زبان نبوت سے مختلف چیزوں پہ وعدے فرمائے گئے ہیں۔ ان وعدوں کے حصول کے لئے آدمی کو کوشش کرنا چاہیے اور اس چلہ میں کافی مجاہدہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں انسان کو پابند ہونا پڑتا ہے وہ جہاں بھی جائے گا تو پہلے سوچے گا کہ میں جہاں جا رہا ہوں وہاں نماز کہاں اور کتنے بجے ہو گی، کہیں میں اس سے لیٹ نہ ہو جاؤں، اس لئے وہ وقت سے 5، 6 منٹ پہلے جانا ہی چاہے گا۔ الحمد للہ اس سے بہت سارے برکات حاصل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو نصیب فرما دے (آمین)
سوال نمبر16:
جمہوری نظام میں کوئی بھی قانون بنانے کے لئے ایوان زیریں اور ایوان بالا کے دو تہائی ممبران کی منظوری ضروری ہے۔ اگر دو تہائی تعداد منظور نہ کرے تو قانون نہیں بنتا۔ اللہ کے احکام مثلاً چور کی سزا ہاتھ کاٹنا اور زنا کی سزا وغیرہ کو پاکستان کا قانون بنانے کے لئے دونوں ایوانوں کے دو تہائی ممبران اور صدر منظور کرے تو قانون بن سکتا ہے ورنہ نہیں بن سکتا۔ ایسا نظام جس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو قانون بنانے کے لئے بندوں سے منظوری درکار ہو کیا یہ نظام مشرکانہ نہیں ہے، کیا اس میں انسان نعوذ باللہ زیادہ طاقتور نہیں ہے کہ اگر انسان چاہے تو اللہ کے بتائے ہوئے حکم یا قانون کو مسترد کرلے۔ ایسے نظام میں ووٹ دینا، ووٹ لینا یا کسی طرح سے بھی شامل ہونا شرک نہیں ہے؟ پتا چل جانے کے بعد اپنی ذات کو اس شرک سے بچانا اور کم از کم گھر والوں، دوستوں عزیز و اقارب اور گرد و نواح کے لوگوں کو بتانا ہمارے ذمہ ہے۔
جواب:
بعض نادان دوست کسی کی سازش کے شکار ہو کر ایک post share کر رہے ہیں کہ ووٹ ڈالنا شرک ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے قانون کو بندوں سے منظور کروایا جاتا ہے۔ بے شک یہ بہت قبیح حرکت ہے اور ہمارا طریقہ نہیں ہے لیکن چونکہ اب ہمارے حکمران اسی طریقے سے بن رہے ہیں اس وجہ سے ان کے لئے میدان کھلا نہیں چھوڑ سکتے۔ آج ترکی میں جو دشمنوں کی سازش ناکام بنا دی گئی ہے وہ کیسے ہوا، اسی طریقے سے ہوا کہ جو نظام چل رہا تھاوہ اسی کے زریعے پاور میں آئے اور پھر اپنا نظام بنانا شروع کیا اور بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ان نادان دوستوں سے عرض ہے جو یہ post share کر رہے ہیں کہ اس سے فائدہ کس کا ہو رہا ہے اور نقصان کس کا ہو رہا ہے ظاہر ہے جو لوگ اس کو دیکھ کر ووٹ نہیں دیں گے وہ اچھے ہی لوگ ہوں گے، اور ان کے ووٹ نہ دینے سے اچھے لوگوں کے ووٹ کم ہوں گے یا دوسرے لفظوں میں اس سے خراب لوگوں کو 50 فیصد نفع ہو رہا ہے۔ کہ اچھے لوگ ووٹ نہیں ڈالتے تو برے لوگوں کی مخالفت کرنے والا کوئی نہیں رہتا۔ لہٰذا اس سے برے لوگوں کو ہی نفع ہو رہا ہے۔ اب تو دار العلوم کراچی اور بنوری ٹاؤن سے بھی ووٹ ڈالنے کے فتوے آ چکے ہیں۔ اس لئے ہم مستند علماء کے فتوے مانیں یا ان کے جن کا پتا ہی نہیں کہ کون ہیں۔
یہ لوگ بظاہر تو ایک بہت اچھی بات کر رہے ہیں لیکن نقصان بہت پہنچا رہے ہیں۔ آج کل فتنے کا دور ہے اس میں آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں، جذبات میں نہیں آنا ہوتا بلکہ عقل سے کام لینا ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے وہ دن جب میں جرمنی میں تھا۔ترک بھائیوں کے ساتھ ہمارے بڑے اچھے تعلقات تھے، میں ان کی مسجدوں میں نماز پڑھتا بلکہ کبھی کبھی نماز پڑھاتا بھی تھا۔ ان کے مولوی صاحب کے ساتھ میری اچھی دوستی تھی، وہ Clean shave تھے اور بسا اوقات قہوہ خانہ میں ساتھ ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ہم قہوہ خانہ میں بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے۔ میں نے اس مولوی صاحب سے مذاق مذاق میں کہا کہ دیکھو یہ آپ لوگوں نے تصویریں لگائی ہیں یہ کتنے اچھے لوگ ہیں پگڑیاں پہنی ہوئی ہیں داڑھی رکھی ہوئی ہے، لیکن آپ مولوی ہیں پھر بھی آپ کی داڑھی نہیں ہے۔ میں ویسے اس کے ساتھ گپ شپ لگا رہا تھا۔ ان کے سامنے ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا جو میری عمر کا تھا۔ اس وقت میری عمر تقریبا تیس سال تھی۔ انہوں نے مجھے کہا: برودر! میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں میں ان کے اوپر حکومت کی طرف سے جاسوس مقرر ہوں۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ اندر سارا کچھ تبدیل ہو چکا ہے، تمہیں بہت جلدی پتا چل جائے گا ان شاء اللہ اس قسم کے لوگ اوپر آئیں گے آپ تھوڑا انتظار کرو۔ مجھے یہ بات انہوں نے سن 1986۔ 87 میں کہی تھی۔ تقریبا 30 سال ہو گئے۔ آپ دیکھیں 30 سال کے بعد result آ گیا۔ زندہ قومیں اس طرح چلتی ہیں، ان کا ایک moto ہوتا ہے ان کی ایک ترتیب ہوتی ہے ان کے کچھ ارادے ہوتے ہیں۔ ہم زندہ قوم ہیں، مردہ تو نہیں ہیں کہ ہم احساس نہ کریں۔ ایک اصل طریقہ ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات وہ اس طرح بند کر دیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے پہنچنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی جگہ پہنچنے کے لئے سیڑھیاں چڑھ کے جانا پڑتا ہے۔ سیڑھیاں بند کر دئی گئی ہیں، تو اب اصل طریقہ تو سیڑھیاں چڑھ کے جانا ہی ہے لیکن وہ اس وقت ممکن نہیں ہے، تو پھر اپ رسی لٹکا کر اس کے ذریعے چڑھیں گے یا کوئی اور راستہ اختیار کریں گے۔ اس مسئلہ میں بھی یہی صورت ہے کہ جمہوریت ہمارا طریقہ نہیں ہے، جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ جمہوریت میں ایک شیخ الحدیث ایک جوا کھیلنے والے کے برابر ہے۔ ظاہر ہے طریقہ تو غلط ہی ہے لیکن چونکہ اب اسی ذریعے سے ہمارے حکمران بن رہے ہیں تو ہم اسے جیسے تیسے چھوڑ کر درمیان سے نکل نہیں سکتے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے بھی ہم اس سسٹم سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔ اس لئے ہمیں اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہاتھ پیر تو مارنے ہیں۔ اوراس وقت یہی طریقہ ہے کہ اب موجودہ system کے اندر رہ کر جو کچھ ہو سکتا ہے کریں۔ ہاں اللہ تعالیٰ آپ کو کسی وقت نظام درست کرنے کا موقعہ دے تو پھر دیر نہ کریں اور جب تک موقع نہیں ملتا تب تک اسی سسٹم میں رہتے ہوئے کام کریں۔
سوال نمبر17:
حضرت جی! مجھے غصہ بہت جلدی آ جاتا ہے برداشت کی بہت کمی ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ سب یہی کہتے ہیں تم نمازیں اور قرآن پڑھتی ہو، کیا فائدہ ان کو پڑھنے کا؟ حضرت جی میں خود اپنے غصہ کی وجہ سے بہت تنگ ہوں۔ میں سخت پریشان ہوں ازراہ کرم کچھ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
دیکھیں بات یہ ہے کہ اول تو آپ roman میں جو لکھتی ہیں اس سے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ بار بار اعلان کرنے کے باوجود آپ roman میں لکھتی ہیں۔ آپ اردو فونٹ انسٹال کر لیں اور صاف صاف لکھیں۔ رومن پڑھنے میں مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ اگر آپ اردو فونٹ نہیں لکھ سکتی تو پھر صحیح انگریزی لکھیں۔ لیکن آدھا تیتر آدھا بٹیر والی بات سے مشکل ہوتی ہے۔آپ اپنے غصہ کا تو خیال کرتی ہیں میرے غصہ کا خیال نہیں کرتیں۔
جہاں تک غصہ کا تعلق ہے تو غصہ ختم ہونا ضروری نہیں ہے۔ بعض اوقات غصہ موقع کے لحاظ سے ضروری ہوتا ہے۔ جس جگہ غصہ ضروری ہے وہاں غصہ نہ کرنا غلط ہوتا ہے اور جہاں غصہ ضروری نہیں ہے وہاں غصہ کرنا غلط بات ہوتی ہے۔ ایک تو یہ بات سیکھنی چاہیے کہ غصہ کہاں کرنا ہے کہاں نہیں کرنا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب تک انسان کا نفس کے اوپر control نہ ہو اس وقت تک ان چیزوں کی مکمل اصلاح ہو نہیں سکتی۔ جب نفس مطمئنہ نہ ہو تب ان بیماریوں سے پیچھا نہیں چھوٹتا۔ اور نفس مطمئنہ پورا سلوک طے کرنے سے حاصل ہو گا۔جب تک پورا سلوک طے نہ ہو تب تک اس سے بچنے کے لئے کچھ وقتی طریقے موجود ہیں آپ ان سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ طریقے یہ ہیں کہ اگر آپ کو بڑے پہ غصہ ہے تو وہاں سے ہٹ جائیں اگر آپ کو چھوٹے پہ غصہ ہے تو اس کو اپنے پاس سے ہٹا دیں۔ اگر آپ کھڑی ہیں تو بیٹھ جائیں، بیٹھی ہوں تو لیٹ جائیں، پانی پی لیں، اپنے آپ کو کسی کام میں مصروف کر لیں۔ کیونکہ غصہ میں کچھ وقت غصہ peak پر ہوتا ہے وہ وقت گزر جائے تو پھر ٹھیک ہو جاتا ہے، آدمی نارمل ہو جاتا ہے۔ اس time کو ذرا گزرنے دیں تو آپ اس کے برے اثرات سے بچ جائیں گی۔
باقی جو لوگ آپ کو کہتے ہیں کہ جب آپ کا غصہ پہ کنٹرول نہیں تو نمازوں اور تلاوت کا کیا فائدہ۔ آپ ان کو یہ بتائیں کہ اس وقت مجھے جو اپنے غصہ کی فکر ہے وہ اسی نماز اور تلاوت کی وجہ سے تو ہے ورنہ مجھے اس کی بھی فکر نہ ہوتی۔ یہ جو میں پوچھ رہی ہوں، اس لئے پوچھ رہی ہوں کہ مجھے اس کی فکر ہے۔ لوگوں کے طعنوں کی پروا نہیں کرنی چاہیے، اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ بعض لوگوں کو تو ان چیزوں کی پروا بھی نہیں ہوتی۔ بعض لوگوں کو تو کفر کی باتوں کی بھی پروا نہیں ہوتی۔ ان کو احساس ہی نہیں ہوتا لیکن الحمد للہ جن کو احساس ہے وہ تکلیف میں تو ہوں گے لیکن وہ تکلیف ان کے لئے اجر کا باعث بن جائے گی۔
سوال نمبر18:
A few nights ago I dreamed that I was talking with you الحمد للہ but I don’t remember the words.
جواب:
Doesn’t matter, it is very good to talk with شیخ because it is نسبت of شیخ and love for شیخ and these both are very good.
سوال نمبر19:
میرا سوال یہ ہے کہ جس طرح عمران خان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس نے دربار پہ جا کے سجدہ کیا ہے۔ اس سے ہم جیسے لوگوں کے لئے یہ شک پڑ گیا ہے کہ ہمیں اس کو ووٹ کرنا چاہیے یا نہیں۔ کہیں یہ شرک میں تو نہیں چلا گیا۔ اس کو ووٹ کر کے ہم اس گناہ میں تو نہیں شامل ہو جائیں گے۔
جواب:
آپ عمران خان کو درمیان سے ہٹا دیں۔ merit پہ سوال لائیں۔ تاکہ سیاسی بات نہ ہو۔غلط کام کوئی بھی کرے چاہے وہ سیاست دان ہو یا کوئی اور، وہ کام غلط ہی ہوگا۔ میں نے پاک پتن شریف میں خود دیکھا ہے۔ ہم بزرگوں کے مزاروں پر جاتے رہتے ہیں کیونکہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے،لیکن وہاں کوئی شرکیہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ جب ہم پاک پتن شریف گئے تھے تو وہاں کراچی سے ایک ڈالی آ رہی تھی۔ ہمیں پتا چل گیا تو ہم نے ایک چھوٹی سی مسجد میں پناہ لی تاکہ کہیں کچلے نہ جائیں۔ جس وقت وہ رش گزر گیا، چند لوگ رہ گئے تو پھر ہم باہر آئے تاکہ ہم بھی جائیں اور فاتحہ پڑھیں۔ جب ہم اندر گئے تو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ سجدے میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں ہے بلکہ میں آنکھوں دیکھا حال بتا رہا ہوں وہاں تو یہ حال ہے۔
اب میں عمران خان کے لحاظ سے میں بات کرتا ہوں کہ وہ تو نیا آدمی تھا لیکن اس کی بیوی نئی عورت نہیں تھی وہ اسی علاقے کی ہے، اس لئے اس نے تو لمبا سجدہ کیا اور عمران خان نے تو مختصر کر دیا۔ ایسے مشرکوں کے ساتھ relationship بھی بڑا مشکل ہے۔ ہم سیاسی بات تو نہیں کرتے لیکن یہ بتانا ضروری سمجھیں گے کہ کم از کم ہم اپنا leader اس جیسے شخص کو پسند نہیں کرتے جو اس قسم کی چیزوں کا کرنے والا ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ باقی سب بہت ہی اچھے لوگ ہیں۔ برائیاں سب میں ہیں ہمارا اصول صرف ایک ہے کہ ایک تو یہود کا agent کوئی نہ ہو، اگر یہود کا agent ہو گا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا کہ ہم اس کی طرف داری کریں، چاہے وہ فرشتہ صفت ہی کیوں نہ ہو۔ اگر استعمال ان کے لئے ہو رہا ہے تو پھر جتنی بھی اچھائیاں ہوں ان کا کیا فائدہ۔ مثلاً میری بڑی لمبی داڑھی ہے اور اگر یہی داڑھی یہودیوں کے لئے استعمال ہو جائے تو کیا خیال ہے یہ کام داڑھی ہونے کی وجہ سے معاف ہو جائے گا۔ لہٰذا اگر کوئی فرشتہ صفت آدمی بھی یہودیوں کا agent ہو تو ہم اس کو نہیں لا سکتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ باقی لوگ یہودیوں کے agent تو نہیں ہیں لیکن corrupt ہیں یا خراب ہیں، ان میں سارے ایک جیسے تو نہیں ہوں گے۔ سوچنا چاہیے کہ کون سا آدمی کم سے کم خراب ہے، جو سب سے کم خراب ہو اسے ووٹ کر دیں۔ اسے ”اہون البلیتین“ کا اصول کہتے ہیں۔
شیطان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کہتا ہے سارے خراب ہیں اس لئے تم آزاد ہو جو کرنا چاہو کرو۔ یہی سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ بھئی سب خراب ہیں لیکن سب ایک جیسے خراب نہیں ہیں۔ان میں سے دیکھو کون کتنا خراب ہے اور کس لحاظ سے خراب ہے۔ اس طرح دیکھو گے تو تمہارے لئے جواب جواب آسان ہو جائے گا۔
سوال نمبر20:
حضرت جیسا کہ آپ نے یہ فرمایا کہ جب سب لوگ خراب ہیں تو دیکھا جائے کہ کون سب سے کم خراب ہے، جو سب سے کم خراب ہو اسے چن لیا جائے۔ اگر اس طریقہ کو سامنے رکھیں تو پھر کچھ چھوٹی سی جماعتیں رہ جاتی ہیں جن کو اتنی support نہیں ہوتی۔ اگر ان کو ہم ووٹ دے بھی دیں تو وہ جیت نہیں سکتے۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے۔
جواب:
بالکل صحیح فرمایا۔ یہ Intelligent question ہے۔ اس میں یہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایجنڈے والی چھوٹی چھوٹی جماعتیں مل کر ایک بڑی جماعت بنا سکتی ہیں۔ جب وہ بڑی جماعت بنیں گی تو ان کے کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہو جائیں گے۔ یہ کام کئی چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں نے K.P.K سندھ اور بلوچستان میں کیا ہے۔ اور وہ کچھ علاقوں میں کامیاب بھی ہوئی ہیں۔ اگر کوئی ایسی صورت بنے تو آپ ان جماعتوں کو ووٹ دیں۔ آپ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ جن جماعتوں کے جیتنے کے امکان ہیں ان میں تقابل کر لیں اور جو ان میں سب سے کم خراب ہو اسے ووٹ دے دیں۔ جس کے جیتنے کا امکان ہو اور وہ سب سے زیادہ خراب ہو اسے ووٹ نہ دیں۔ کیونکہ اسی کا تو مقابلہ کرنا ہے۔ بہرحال اسی طرح عقلمندی کے ساتھ تقابل اور موازنہ کرکے ووٹنگ کی جا سکتی ہے۔
سوال نمبر21:
حضرت کیا سکر کی حالت سالک کے لئے خطرناک ہوتی ہے؟
جواب:
نہیں یہ خطرناک نہیں ہوتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک اس کی حفاظت کرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کی محبت میں سکر میں گیا ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ جو لوگ سکر میں ہوتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے لئے مسئلہ ہوتے ہیں۔ لوگ ان کو جانتے اور سمجھتے نہیں ہیں اس لئے ان کی باتوں اور حالات سے پریشان ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جو سکر میں چل رہے ہوں ان کے لئے شریعت کا صاف حکم ہے کہ انہیں معذور سمجھا جائے اور ان کی اقتدا نہ کی جائے۔ ان کی مثال ایسے ہی جیسے کسی آدمی نے نیند کی دوائی کھائی اور اسے ہوش نہیں رہا، چلتے چلتے کسی کے ساتھ ٹکرا گیا، اب اسے کوئی کیا کہے گا، کچھ کہہ بھی دے تو کسی معاملے میں اس کی اقتدا نہیں کرے گا۔ سکر میں مبتلا لوگوں کا بھی یہی حکم ہے۔
سکر کی تعریف یہ ہے کہ اس میں انسان کو سوائے اللہ کے باقی چیزوں کا علم نہیں ہوتا، چیزیں اس کو نظر نہیں آتیں۔ وہ باقی چیزوں کو دیکھ نہیں رہا ہوتا۔ آپ اس کو مجذوب کہہ سکتے ہیں لیکن وہ عارضی مجذوب ہوتا ہے مستقل مجذوب نہیں ہوتا جب صحو میں واپس آ جائے گا تو ٹھیک ہو جائے گا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ