اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
خدمت اقدس میں سوال عرض خدمت اقدس ہے۔ الحمد للہ حضرت والا کی دعاؤں سے یہ سمجھ میں آیا کہ کیفیات نہ تو اختیاری ہیں اور نہ ہی مقصود ہیں۔ البتہ سالک کا مختلف عبادات اور مختلف اوقات میں زیادہ دل لگنے میں کیا راز ہے؟ مثلاً کبھی قرآن مجید کی تلاوت، راتوں میں دعا، استغفار اور نفل نمازوں میں بہت دل لگتا ہے، اس کے برعکس بعض اوقات صرف درود پاک پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔
جواب:
اگر ایک بات سمجھ میں آ گئی ہے تو پھر کسی دوسری بات کی ضرورت ہی نہیں، وہ بات یہ ہے کہ کیفیات نہ مقصود ہیں نہ اختیاری ہیں۔ جب کیفیات اپنے اختیار میں ہی نہیں ہیں تو وہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی تشکیل ہے، اس میں بندے کا کچھ اختیار نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ان کیفیات کا سبب ہماری شامت اعمال بھی ہو سکتی ہے، مثلاً اگر کسی وقت ہمارا کوئی عبادت کرنے کو نہیں چاہ رہا تو یہ ہماری شامت اعمال بھی ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں ہم نے اس کو نہیں دیکھنا کہ کس چیز کو جی چاہتا ہے اور کس چیز کو جی نہیں چاہتا بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ اس وقت اللہ پاک کا حکم کیا ہے۔ جس چیز کا حکم ہے اسی کو ترجیح دینی ہے۔ مثلاً با جماعت نماز کھڑی ہو گئی اور میرا جی چاہتا ہے کہ میں ذکر بالجہر کروں تو اس وقت مجھے نماز پڑھنا چاہیے۔ اگر میں اس وقت ذکر بالجہر کروں گا تو شریعت کی مخالفت سمجھی جائے گی۔ اس لئے اس وقت میں اپنے جی چاہنے کی پرواہ نہیں کروں گا بلکہ شریعت کے حکم پر عمل کروں گا۔ اس میں یہ بات بھی ہے کہ اگر شریعت کا کوئی حکم پورا کرنے کا وقت ہے، اس پر عمل کرنے کو میرا جی بالکل نہیں چاہتا پھر بھی اگر میں شریعت کے حکم پہ عمل کرتا ہوں تو میرا اجر بڑھ جائے گا۔
جب یہ دو باتیں مجھے سمجھ میں آ گئیں کہ کیفیات نہ اختیاری ہیں نہ مقصود ہیں اور دوسری بات یہ کہ جی چاہتا ہو یا نہ چاہتا ہو ہر صورت میں عمل شریعت پر ہی کرنا ہے تو اب مجھے صرف یہ دیکھنا ہے کہ شریعت کا حکم کیا ہے، اگر وہ حکم وہی ہو جس پہ عمل کرنے کو جی چاہتا ہے تو اس پہ شکر کرے اور اگر کوئی ایسا حکم ہو جس کے لئے جی نہیں چاہتا ہو تو اس پہ صبر کرے اور اس حکم پر عمل کرے۔ اس طرح اگر کوئی نا جائز کام کرنے کو جی چاہے تو اس سے اپنے آپ کو روکے، صبر کرے اور اگر کسی نا جائز چیز کو جی نہ چاہے تو اس پہ شکر کرے۔
ہمارا کام بس ارادے سے متعلق ہے، کیفیت سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، ہاں کیفیت کے اچھا یا برا ہونے کی وجہ سے مشکل یا آسانی ضرور ہوتی ہے اور اسی کے حساب سے اجر بھی کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ کبھی عبادات کو جی چاہنا اور کبھی نہ چاہنا اس میں یہی حکمت ہو سکتی ہے کہ اللہ پاک مختلف اوقات میں ہمارا امتحان لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار حکمتیں ہو سکتی ہیں اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کا کون احاطہ کر سکتا ہے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم حضرت جی کافی عرصہ قبل مجھے آپ سے خاموشی کا مجاہدہ ملا تھا۔ مجھے نفس کے ساتھ مقابلہ کرنے میں بہت مشکل ہو رہی تھی۔ آپ نے فرمایا تھا کہ نفس سے ہرگز نہیں ہارنا اس لئے کوشش میں لگی ہوئی ہوں۔ اب کچھ کچھ مواقع پہ اپنے آپ کو کنٹرول کر لیتی ہوں۔ کوشش کرتی ہوں کہ غیر ضروری بات کی ابتدا مجھ سے نہ ہو۔ ابھی بھی لگتا ہے کہ بہت محنت درکار ہے۔ اگر میرا کسی سے بات کرنے کو دل ہی نہ کر رہا ہو ایسے وقت میں خاموش رہنا تو مجاہدہ نہیں ہے، اس لئے کشمکش میں پڑ جاتی ہوں کہ کس وقت مجاہدہ کروں اور کس وقت نہیں۔ آپ دعا فرما دیں کہ اللہ پاک مزید استقامت عطا فرمائے اور رمضان کی برکت سے اس مجاہدہ کو اچھی طرح کرنے کی توفیق عطا فرما دے اور میں زبان کے شر سے محفوظ رہوں۔
جواب:
اگر ایک وقت میں شریعت کی طرف سے کسی کام کا حکم ہو، اسی کام میں انسان کا جی بھی لگتا ہو تو اس پر شکر کرے۔ اگر آپ خاموشی کا مجاہدہ کر رہی ہیں اور بولنے کو دل ہی نہیں چاہتا تو اس پہ شکر کریں اور مجاہدہ جاری رکھیں، جب کبھی بولنے کو جی چاہے اور مجاہدہ کرنا پڑے تو صبر کریں، مجاہدہ کریں اور اس پر قابو پانے کی کوشش کریں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم! حضرت جی میرا یہ قلبی ذکر چل رہا ہے، پندرہ منٹ لطیفۂ قلب اور دس منٹ لطیفۂ روح پر باقاعدگی سے ذکر کر رہا ہوں۔ دونوں جگہ ایک جیسا ہی محسوس ہوتا ہے اور لگا تار محسوس نہیں ہوتا کبھی کم اور کبھی زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ یہ احوال کی بات ہے، یہ نہ سوچیں کہ ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا بس کرتے رہیں۔ لہٰذا کوشش جاری ہے۔
جواب:
آپ صحیح سمجھے ہیں، کوشش جاری رکھیں توجہ میں کمی نہ کریں باقی جو ہو رہا ہو اس کی پرواہ نہ کریں۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم۔ حضرت والا دامت برکاتھم۔ ان شاء اللہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے فیوض و برکات مجھے نصیب فرمائے۔ ذکر کے معمول میں دو دفعہ ناغہ ہوا ہے اور ایک دفعہ ظہر کی نماز قضاء ہوئی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ الارم بجا تو میں نے نیند میں ہی بند کر دیا دوبارہ آنکھ کھلی تو عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ باقی معمولات تہجد، اشراق، اوابین، منزل، مناجات مقبول، چار پارے قرآن مجید کے اور تراویح کی نماز میں تلاوت انفرادی ہے۔ الحمد للہ انٹرنیٹ سے مکمل پرہیز ہے۔ چاشت کی نماز میں دو دن سے ناغہ ہو رہا ہے۔
جواب:
جو ظہر کی نماز قضاء ہوئی ہے، ماہ رمضان کے بعد اس کے تین روزے رکھ لیں۔ ہمارے ہاں یہ طریقہ ہے کہ اگر کوئی نماز قضا ہو جائے تو اس کے تین روزے رکھنے ہوتے ہیں تاکہ نفس کو چانس نہ ملے۔ نیند میں الارم بند کرنے والے مسئلہ کا حل یہ ہے کہ الارم بھی لگایا کریں اور ساتھ ساتھ لوگوں سے بھی کہہ دیا کریں کہ مجھے فلاں وقت جگا دینا، اس کے علاوہ یہ کام کریں کہ اتنے فاصلہ پہ الارم رکھ لیا کریں کہ کم از کم لیٹے لیٹے اسے بند نہ کر سکیں۔ ان شاء اللہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔
سوال نمبر5:
حضرت شیخ سید شبیر صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ میرا نام محمد اسد انصاری ہے اور میں آپ کے مرید سید فاروق علی کا بہنوئی ہوں۔ آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہ رہا تھا۔ اظہار کرنے میں کوئی بھی بے ادبی کی بات ہو جائے تو مجھے معاف کر دیجئے گا۔
پہلا سوال یہ ہے کہ حضور ﷺ حدیث جبریل علیہ الصلوۃ و السلام میں فرماتے ہیں: ”احسان یہ ہے کہ عبادت ایسے کرو جیسے تمھیں اللہ تعالیٰ نظر آ رہا ہو“۔ اس کا مطلب اور تفسیر کیا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو تو ہم نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ہم جب ہر دن وہی اوراد و لطائف کرتے ہیں تو اس پڑھنے میں یہ چیز کیسے حاصل کر سکتے ہیں کہ دھیان نہ چھوٹے، توجہ نہ بٹے اور ہم بور نہ ہوں۔
تیسرا اور آخری سوال یہ ہے کہ کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے یہ مانگا درست ہے کہ یا اللہ ہمیں ولی بنا دے۔ یا ہمیں صرف یہ دعا مانگنی چاہیے کہ اے اللہ ہمیں بس مکمل طور پر اپنا فرمانبردار بنا دے اور ولایت وہ خود جس کو چاہیں دے دے۔
جواب:
و علیکم السلام۔
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو ایسے عبادت کر جیسے خدا کو دیکھ رہا ہے۔
انگریزی میں اس کے لئے "As if" کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام ہو تو نہیں رہا لیکن اثرات ایسے پڑ رہے ہیں جیسے ہو رہا ہو۔ ہمیں اثرات سے غرض ہے، اس سے غرض نہیں کہ حقیقت میں وہ کام ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا۔ حقیقت کا معاملہ تو مُسَلَّم ہے کہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرما دیا کہ تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ اس لئے ان دنیا کی آنکھوں سے اللہ پاک کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن اگر دیکھ سکتا تو اس کا جو اثر ہوتا وہ اثر اب بھی حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ عبادت اس کیفیت کے ساتھ کی جائے کہ جیسے اللہ پاک ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ اگر ہم یہ تصور کریں گے تو وہی اثرات حاصل ہوں گے جو حقیقی طور پہ دیکھ سکنے سے مل جاتے۔
اس کو آپ اس مثال سے سمجھیں کہ آپ کسی مزدور سے کام کروا رہے ہیں اگر آپ اس کے سر پہ کھڑے ہو کر کام کرواتے ہیں یا کسی کو اس پہ نگران مقرر کرتے ہیں جو اس کا کام دیکھتا رہے تو وہ ٹھیک کام کرے گا لیکن اگر اس پہ کوئی نگران نہیں تو اس بات کا کافی امکان ہے کہ وہ کام میں سستی کرنے لگے۔ یہاں بھی یہی بات ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں اوامر و نواہی کا مکلف بنایا ہے، ہم نے اس پر ہر حال میں عمل کرنا ہے۔ ہر حال میں ہر موقع پر شریعت کے اوامر و نواہی کے مطابق چلنا تب ہی آسان ہو سکتا ہے جب ہمیں ایسی کیفیت نصیب ہو جائے جیسے ہم اللہ پاک کو دیکھ رہے ہیں، حقیقت میں تو نہیں دیکھ رہے ہوں گے لیکن کیفیت ایسی ہو گی جیسے دیکھ رہے ہیں۔
مثلاً ایک مقولہ ہے: ”مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا“ موت آنے سے پہلے ہی مر جاؤ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سچ میں مر جاؤ بلکہ یہ مطلب ہے کہ مرنے کیفیت اپنے اوپر طاری کرو اور مرنے سے پہلے مرنے کی کیفیت کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مراقبات اسی لئے ہوتے ہیں، مراقبوں میں انہی چیزوں کو visualize کیا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ چیز ہوتی نہیں ہے لیکن اس کو visualize کرنا ہوتا ہے۔
یہ جو آپ فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی دیکھ نہیں سکتا، اسے مراد یہ ہے کہ حقیقت میں کوئی نہیں دیکھ سکتا، جبکہ حدیث میں کھلی آنکھوں دیکھنے کا ذکر نہیں آیا ہے بلکہ یوں آیا ہے کہ یوں عبادت کرو گویا کہ اسے دیکھ رہے ہو اس کے سامنے عبادت کر رہے ہو۔
ہمارے تمام مراقبات اسی کیفیت پر منحصر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا ذکر بطور تصور اور خیال کے آیا ہے مگر اس کیفیت کا دوسرا حصہ بالکل یقینی ہے۔ فرمایا: اگر تو اللہ کو نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تمہیں دیکھتا ہی ہے۔ پہلا حصہ تصوراتی اور خیالی ہے جبکہ دوسرا حصہ یقینی اور حقیقی ہے۔ آپ نے اس حقیقی بات کو ہر صورت مستحضر رکھنا ہے، یاد رکھنا ہے، یہی کیفیت احسان ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ہم جب ہر دن وہی اوراد و لطائف کرتے ہیں تو اس پڑھنے میں یہ چیز کیسے حاصل کر سکتے ہیں کہ دھیان نہ چھوٹے، توجہ نہ بٹے اور ہم بور نہ ہوں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک Continuous progress ہے۔ یہ محبت کا معاملہ ہے۔ جس وقت آپ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت ہو رہی ہو گی اس وقت آپ کو یہ وقت نا کافی محسوس ہو گا جتنا آپ کو دیا گیا ہے۔ ہمیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ مراقبات وغیرہ کا جتنا وقت آپ نے مقرر کیا ہے اس سے زیادہ وقت کر لیا کریں؟ میں کہتا ہوں کہ نہیں اس سے زیادہ نہیں کرنا، جتنا بتایا ہے اتنا ہی کرو۔
اگر محبت بڑھ رہی ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ چاہیں گے کہ اس سے بھی زیادہ وقت یہ معمولات کئے جائیں لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو بھی کوئی حرج نہیں، کسی کام میں رغبت نہ ہونے کے باوجود اسے کرنا استقامت ہے اور استقامت بھی ایک مستقل عمل ہے۔ استقامت اسی کو کہتے ہیں کہ آپ کا جی نہیں چاہتا تب بھی آپ کرتے ہیں، ہر حال میں کرتے ہیں خواہ آپ بور ہی کیوں نہ ہو رہے ہوں۔ آخر انسان دنیاوی طور پر جو ڈیوٹیز کرتا ہے اس میں بھی تو بور ہوتا ہے لیکن کیا وہ ڈیوٹی چھوڑ دیتا ہے، آپ جانتے ہیں کہ بور ہونے کے باوجود ڈیوٹی نہیں چھوڑتا۔ اگر کسی مریض کا دوائی کھانے کو دل نہیں کرتا تو کیا وہ دوائی کھانا چھوڑ دیتا ہے؟ اگر چھوڑ دے گا تو مزید بیمار ہو جائے گا بلکہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا، اس لئے وہ دل نہ چاہنے کے باوجود بھی دوائی کھاتا ہے۔
اسی طرح جب آپ ان معمولات کو دوائی سمجھیں گے اپنا علاج سمجھیں گے تو آپ اس کی پروا نہیں کریں گے کہ میں اس کو کیسا feel کر رہا ہوں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کو اللہ تعالیٰ کا قرب اور محبت نصیب ہو رہی ہو گی پھر تو کوئی فکر ہی نہیں ہو گی، جتنا وقت اب تک دے رہے ہیں وہ بھی آپ کو ناکافی لگنے لگے گا۔
تیسرا اور آخری سوال یہ ہے کہ کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے یہ مانگا درست ہے کہ یا اللہ ہمیں ولی بنا دے۔ یا ہمیں صرف یہ دعا مانگنی چاہیے کہ اے اللہ ہمیں بس مکمل طور پر اپنا فرمانبردار بنا دے اور ولایت وہ خود جس کو چاہیں دے دے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ نبی بننے کی دعا تو نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ تو اب ناممکن ہے، اللہ پاک کی طرف سے یہ سلسلہ ختم کیا جا چکا ہے البتہ ولی بننے کی دعا کی جا سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ در اصل ولایت دو چیزوں کے امتزاج کا نام ہے، ایمان اور تقویٰ۔ اگر ایمان کے ساتھ تقویٰ حاصل ہو جائے تو آدمی ولی بن جاتا ہے۔ ولایت کی دعا مانگنا اور ایمان و تقویٰ کی دعا مانگنا ایک ہی بات ہے۔ جیسے ہم ایمان کی دعا مانگتے ہیں، حصولِ تقویٰ کی دعا مانگتے ہیں اسی طرح ولایت کی دعا بھی مانگی جا سکتی ہے۔
آپ اللہ تعالیٰ سے ضرور مانگیں مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مانگنے کے بعد باقی فیصلہ اس پہ چھوڑ دیں۔ یہ نہیں کہ آپ چار دفعہ سوال کر کے کہہ دیں کہ میں ابھی تک ولی کیوں نہیں بنا جیسے بعض لوگ جلدی مچاتے ہیں، ایسا نہ کیا کریں فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا کریں۔ ہاں مانگیں ضرور۔ مانگنے کا تو باقاعدہ طور پہ حکم دیا گیا ہے۔
میں ایک صاحب سے گفتگو کر رہا تھا دوران گفتگو انہوں نے کہا میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ جنت البقیع مانگوں لیکن کیا کروں جی تو چاہتا ہے۔ میں نے اسے کہا: اس وقت ایک رباعی ہو گئی ہے میں آپ کو وہ سنا دیتا ہوں۔ وہی رباعی آپ بھی سن لیں۔
گو ہے تو خوش نصیبی تمنا بقیع کی
قسمت سے ہی ملتا ہے مل جانا بقیع کی
جب فضل پہ موقوف ہے تو پھر ہم بھی یہ مانگیں
محبوب کے پڑوس میں ٹھکانا بقیع کی
یعنی ہم اس قابل تو نہیں ہیں، لیکن مانگ تو سکتے ہیں، مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ مانگنے سے ہی مل جائے، کوئی وقت قبولیت کا ایسا آ جائے جس میں مانگی ہوئی دعا قبول ہو جائے۔ لہٰذا بغیر کسی تردد کے اللہ پاک سے ولایت مانگی جا سکتی ہے۔
البتہ اس کے لئے جو محنت اور کوشش ہے وہ بھی جاری رکھنی چاہیے۔ کوشش کے بغیر مانگنا، یہ تو تمنا والا بات ہو جائے گی اور محنت و کوشش کے ساتھ مانگنا ارادے والی بات ہو جائے گی۔ آپ ولی بننے کا ارادہ اور ارادہ کے بعد کوشش و محنت ضرور کریں۔ کوشش و محنت یہی ہے کہ نیک اعمال تقویٰ کے ساتھ شروع کر لیں۔ یہ ولایت کا راستہ ہے اسی پہ چلتے چلتے ان شاء اللہ آپ کو ولایت نصیب ہو جائے گا۔ اور جلدی نہ مچائیں، اس معاملہ میں جلدی مچانا جرم ہے۔
سوال نمبر6:
حضرت جی میرا مقامی مسجد میں سات سے آٹھ دن کے نفلی اعتکاف کا ارادہ ہے۔ مسجد میرے گھر سے آٹھ منٹ کے فاصلے پر ہے اور کھانے پینے کا انتظام بھی ہے۔ مسجد کے منتظمین حضرات پاکستانی ہیں۔ آپ دعا فرما دیں، اللہ آسانی عطا فرمائے۔
جواب:
اگر مسجد قریب ہے، کھانے پینے کا انتظام بھی ہے اور منتظمین حضرات بھی پاکستانی ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام سہولیات اور آسانیاں میسر ہیں، اس لئے اگر ممکن ہو اور آپ سات آٹھ دن کی بجائے دس دن کا اعتکاف کر سکتے ہوں تو مسنون اعتکاف کر لیں۔ مسنون اعتکاف پر ایک حج اور دو عمرہ کا ثواب ملتا ہے۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم۔ حضرت صلوٰۃ الحاجت پڑھنے کے مختلف طریقے ہیں۔ ایک طریقہ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فرمودہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۃ الکافرون، دوسری رکعت میں گیارہ مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھیں، پھر سلام پھیرتے ہی سجدے میں چلے جائیں اور سجدے میں دس بار درود ابراہیمی، دس بار تیسرا کلمہ، دس بار ”رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النّار“۔ اس کے بعد آخر میں اپنی حاجت ذکر کر کے دعا مانگیں۔ کیا میں یہ صلوٰۃ الحاجت پڑھ سکتا ہوں؟
جواب:
آپ نے جہاں یہ طریقہ پڑھا ہے اس کا حوالہ مجھے بھیج دیں تاکہ ہم تحقیق کرکے صحیح جواب دے سکیں۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ میرا نام محمد زبیر ہے۔ کوڑی چنا جامع مسجد ابو بکر میں، میں آپ سے بیعت ہوا تھا۔ آپ کو پہلی بار میسج کیا تو اپنا تعارف نہیں کرایا اس کے لئے معذرت خواہ ہوں، واقعی پہلے مجھے اپنا تعارف کروانا چاہیے تھا۔ آپ میرے لئے دعا کیجئے گا کہ اللہ مجھے ہدایت دے۔ میں اپنی اس غلطی پہ بڑا شرمندہ ہوں۔
جواب:
اکثر لوگ بغیر تعارف کے سوال کرتے ہیں، اس کا جواب دینا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ جب تک آدمی کو پتا نہیں ہو گا کہ کس سے مخاطب ہوں تو اس کا جواب کیسے دے سکے گا۔ اگر مجھے معلوم ہو کہ مجھ سے سوال کرنے والا کون ہے، ایک پروفیسر یا کوئی طالب علم ہے، کوئی مرد ہے یا عورت ہے، تو پھر میں درست جواب دے سکوں گا۔ پروفیسر کو جس انداز میں سمجھاؤں گا سٹوڈنٹ کو تو اس انداز میں نہیں سمجھا سکتا۔ ایک عالم مجھ سے پوچھ رہا ہے اور ایک راہگیر وہی سوال پوچھ رہا ہے، ان دونوں کو جواب دینے میں فرق ہو گا۔ بعض کو یہ کہنا پڑے گا کہ آپ کا سوال آپ کے حال کے مطابق نہیں ہے آپ کو اس کا جواب نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وہ سمجھے گا ہی نہیں۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کوئی سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: تو نہیں سمجھ سکتا۔ اس نے کہا: حضرت میں سمجھ لوں گا۔ فرمایا: کسی چھٹے درجے کے طالب علم کو بلا لو اور خود بھی بیٹھ جاؤ میں اس کا جواب دوں گا وہ سمجھ لے گا تو نہیں سمجھ سکے گا۔
اس لئے اصولی بات یہی ہے کہ تعارف کرانا چاہیے کیونکہ اس سے بہت ساری باتیں پہلے کھل جاتی ہیں اور سوال کا جواب دینے میں آسانی ہوتی ہے۔ ویسے بھی یہ دور ایسے فساد کا دور ہے کہ بعض لوگ تنگ کرنے کے لئے بھی میسج کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہم لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں کس سے مخاطب ہوں، اگر کوئی بلاوجہ تنگ کر رہا ہے تو میں اس پر اپنا وقت کیوں لگاؤں۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
حضرت لاہور سے قاضی اکرام عرض کر رہا ہوں۔ مجھے یہ علاجی ذکر دیا گیا تھا۔ 200 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ“، 200 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“، 200 مرتبہ ”حَق“ اور 100 مرتبہ ”اَللّٰہ“۔ کل اس ذکر کو کرتے ہوئے ایک مہینہ پورا ہو گیا ہے۔ اس کا اگلا وظیفہ عنایت فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور تندرستی عطا فرمائے اور آپ کا سایہ ہم پر سلامت فرمائے۔
جواب:
اب آپ اس ذکر کو اس ترتیب سے کریں۔ 200 مرتبہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، 300 مرتبہ ”لَا اِلٰہِ اِلَّا ھُو“، 300 مرتبہ ”حَق“ اور 100 مرتبہ ”اللہ“۔ رمضان شریف کے معاملات آپ ہماری ویب سائٹ Tazkia.org سے حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ بھی شروع کر لیں اور رمضان کے آخری عشرہ میں کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش ضرور کریں۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت کیا حال ہیں امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے۔ میرا سبق سلطان الاذکار تک پہنچ چکا تھا۔ ذکر کرتے وقت مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میرا دل ذکر کر رہا ہے، اس کے علاوہ باقی لطائف بھی چلتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ آپ سے مزید دعاؤں کی بھی درخواست ہے۔ اگر آپ شروع سے لگانا چاہیں تب بھی حاضر ہیں اور اگر آپ یہیں سے اسباق آگے جاری کر لیں تب بھی حاضر ہیں۔ ان شاء اللہ حکم کی تعمیل ہو گی۔ اپنی دعاؤں میں بھی یاد رکھیں اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
جواب:
آپ پانچوں لطائف قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ کا دور شروع کر لیں۔ پانچ پانچ منٹ روزانہ ان کا دور کر لیا کریں۔ پہلے قلب کا، پھر روح کا، پھر سر کا، پھر خفی کا، پھر اخفیٰ کا۔ اس کے بعد پندرہ منٹ کے لئے مراقبہ احدیت کر لیا کریں۔ اس کی ترتیب ہماری کتاب ”طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی جدید ترتیب“ میں مکمل تفصیل سے لکھی ہوئی ہے۔ اگر آپ کے پاس یہ کتاب نہیں ہے تو میں آپ کو اس کا پی ڈی ایف ورژن وٹس ایپ پہ بھیج سکتا ہوں۔ اس کتاب میں دی گئی ہدایات کے مطابق آپ مراقبۂ احدیت کریں۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم حضرت جی۔ اس ہفتہ کی سنت صفائی اور پاکیزگی پہ عمل کرنا شروع کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے گھر کے صحن کو بھی صاف کرو، یہودیوں کے مشابہ نہ بنو جو صحنوں کو پرا گندہ رکھتے ہیں۔
جسمانی آرائش میں جسم کو صاف رکھنا، کپڑوں کو صاف رکھنا اور بالوں کو صاف رکھنا اور کنگھی کرنا۔ اس پہ عمل کرنا شروع کیا ہے۔
جواب:
بہت خوب اللہ تعالیٰ اس عمل کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔ آپ ﷺ کی سنتوں پر عمل سے بہتر کام اور کیا ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنتوں کے مطابق ساری زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم۔ میں ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ کی تسبیح بھی پڑھ رہی ہوں اور ساتھ رمضان کے معمولات کرنے کی کوشش بھی کرتی ہوں۔ میرے دل کو کافی حد تک شفا مل گئی ہے اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب:
الحمد للہ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفا نصیب فرمائی۔ آپ فی الحال اس عمل کو جاری رکھیں۔ البتہ اس وقت جو رمضان شریف کے معمولات ہیں ان پہ کافی کوشش کر لیں کیونکہ یہ کمانے کے دن ہیں۔ عید کے بعد مجھے میسج کریں میں آپ کو باقی تفصیل بعد میں بتاؤں گا۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم حضرت۔ میں یہ اذکار کر رہی ہوں۔ دس منٹ دائیں اور بائیں سائیڈ پہ اللہ کا ذکر، 100 دفعہ درود پاک، 100 دفعہ استغفار اور 100 دفعہ تیسرا کلمہ۔ کیا ابھی اسی کو جاری رکھوں۔
نماز پہ عمل کرنے میں کوتاہی ہو رہی ہے۔ اس کی اصلاح کے لئے کچھ بتائیں۔
جواب:
آپ نے اذکار کی جو ترتیب بتائی ہے وہ درست نہی ہے۔ آپ الٹی ترتیب پہ ذکر کر رہی ہیں۔ صحیح ترتیب یہ ہے کہ پہلے دس منٹ left پر ذکر کیا جاتا ہے یعنی لطیفۂ قلب پر اور دس منٹ right پر یعنی لطیفۂ روح پر ذکر کیا جاتا ہے۔ اس ترتیب کو ٹھیک کر لیں۔ 100 دفعہ تیسرا کلمہ، 100 دفعہ درود شریف اور 100 دفعہ استغفار جاری رکھیں۔ آپ نے یہ نہیں بتایا کہ کیفیت کیسی ہے، ذکر محسوس ہو رہا ہے یا نہیں۔ ایک تو یہ ترتیب ٹھیک کر لیں، دوسرا کیفیت کے بارے میں بتائیں۔
آپ نے کہا کہ آپ نماز میں کوتاہی کرتی ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ اس پر مجھ سے کتنی شاباش چاہتی ہیں تاکہ میں آپ کو اتنی شاباش دے دوں۔ اس پر میں آپ کو اور کیا کہہ سکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو اپنی زندگی ضائع کرنے سے بچائے۔
سوال نمبر14:
السلام علیکم۔ حضرت صاحب ایک ہفتہ آپ کے دیئے ہوئے ذکر کی توفیق ہوئی مگر پانچ چھ دنوں سے ذکر میں بہت سستی ہو رہی ہے۔ جانتا ہوں سستی کا علاج چستی ہے مگر وہ چستی بالکل نہیں آ رہی ہے۔ آپ پلیز میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
بیماری کے لئے تو دوائی ہوتی ہے لیکن دوائی کھانے کے لئے کوئی اور دوائی ابھی تک ایجاد نہیں ہوئی۔ دوائی کھانے کے لئے ہمت کے استعمال کے سوا اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔
سوال نمبر15:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ یا سیدی و مرشدی دامت برکاتھم۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ یا سیدی ایک سوال ہے۔ ہم اکثر علماء کرام سے سنتے ہیں کہ جب انسان اپنی موت کی حالت میں ہوتا ہے تو شیطان اس کو بہت تنگ کرتا ہے اور یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کا ایمان اس سے چھین لیا جائے اور وہ دنیا سے گمراہی کی حالت میں چلا جائے۔ لیکن یہ بات کبھی سننے میں نہیں آئی کہ موت کے وقت نفس کا کیا حال ہوتا ہے۔ سکرات کے وقت نفس کیا کر رہا ہوتا ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں تو آپ کا بے حد شکریہ ہو گا۔ جزاک اللہ۔
جواب:
ماشاء اللہ بڑا عملی سوال ہے۔ دیکھیں شیطان خود کچھ نہیں کر سکتا وہ صرف وسوسہ ڈال سکتا ہے لیکن وسوسہ ڈالنے کے لئے اسے نفس کی مدد چاہیے ہوتی ہے، وہ دیکھتا ہے کہ نفس کو کیا چیزیں پسند ہیں اس کی پسند جان اور سمجھ کر اس کے ذریعے وسوسہ ڈالتا ہے۔ پس جس کو مال کے ساتھ محبت ہو گی شیطان اسے مال سے متعلق وساوس ڈالے گا اور مال سے متعلق ایسی باتیں اس کے دماغ میں لائے گا جن سے وہ اللہ تعالیٰ سے بد ظن ہو جائے اور اس کا ایمان خراب ہو جائے۔
اس سے آپ کے سوال کا جواب مل گیا کہ نفس کی حالت موت کے وقت بھی ویسی ہی ہوتی ہے جیسا اسے بنایا گیا ہوتا ہے، اگر اس کا علاج کیا گیا ہے تو پھر وہ نہیں بہک سکے گا، اگر اس کی اصلاح نہیں کی گئی تو شیطان اس وقت میں بھی نفس کے ذریعے انسان کو گمراہ کر سکتا ہے۔
موت سے پہلے پہلے نفس کا علاج اسی لئے کیا جاتا ہے تاکہ شیطان کو موقع ہی نہ ملے۔ اگر آپ کے نفس کا علاج ہو چکا ہو تو شیطان بے بس ہو جائے گا۔ کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا کہ جس نے اپنے نفس کے رذائل کو دبا دیا وہ شخص کامیاب ہو گیا۔ کامیابی کے بعد شیطان کچھ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ہمارا کام یہ ہے کہ موت سے پہلے پہلے نفس کا علاج کر لیں، اگر یہ ہو جائے تو پھر شیطان سکرات میں بھی کچھ نہیں کر سکے گا۔
سوال نمبر16:
السلام علیکم یا سیدی ایک بات عرض کرنی تھی۔ چند ماہ پہلے میں ایک باغ میں ورزش کر رہا تھا۔ دوڑنے کے دوران میرے بائیں کندھے کے قریب کی جگہ بالکل منجمد سی ہو گئی۔ میں ہسپتال گیا، انہوں نے چند ٹیسٹ کئے لیکن کوئی خاص نتیجہ نہیں نکل سکا۔ کل میرا C.T scan ہے۔ حضرت آپ میرے لئے دعا کیجئے گا کہ اللہ تعالیٰ بہتری کا معملہ کرے۔ جزاک اللہ۔
جواب:
دل سے دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو کامل شفا عطا فرمائے پریشان نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کی مدد پہ بھروسہ رکھیں۔ ہاں درود شریف پڑھتے رہیں اللہ تعالیٰ مدد فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ۔
سوال نمبر17:
السلام علیکم میرے عزیز محترم حضرت جی۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں۔ آپ کو اس بات کی اطلاع دینی ہے کہ مجھے ایک ہفتے سے قبض کی حالت کچھ زیادہ ہو رہی ہے۔ ماضی میں بھی ایسی حالت پیش آئی ہے لیکن اس طرح سخت انداز میں کبھی حالت قبض کا سامنا نہیں ہوا۔
وظائف اذکار وغیرہ مجھ سے نہیں چھوٹتے، لیکن نفس کو زیادہ دبا کر پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اگرچہ میرا گناہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے مگر اذکار کرنے کو میرا جی نہیں چاہتا۔ مجھے ڈر بھی لگتا ہے کہ میں اس بری کیفیت کی وجہ سے کہیں گمراہ نہ ہو جاؤں۔ امید ہے کہ میرے عزیز و محترم اس معاملہ میں رہنمائی فرمائیں گے۔
جواب:
یاد رکھیں کہ کسی پر حالت قبض طاری کرنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمتیں ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ اس میں بڑے فائدے ہوتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو اس کے بڑے قائل ہیں۔
آپ قبض کی وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ اگر قبض کی وجہ سے کسی امر پہ عمل کرنے کو جی نہیں چاہ رہا، آپ پھر بھی عمل کرتے ہیں، اسی طرح کوئی گناہ کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن آپ اپنے نفس پر دباؤ ڈال کر اپنے آپ کو گناہ سے روکتے ہیں، تو یہی حالت قبض آپ کے لئے بہت ہی زیادہ خیر اور اجر کا باعث بن جائے گی۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آسانی کا معاملہ فرمائے۔
سوال نمبر18:
Question آیا ہے۔
Sometimes, when a person does توبہ to اللہ for his past sins and shortcoming in acting upon the blessed Sharia and also develops contact with صالحین and مشائخ or even the خدام of the مشائخ but he doesn’t cut off, wipe out, delete and get rid of all those avenues that led him to sins, then eventually due to the نفس not having been substitute, this person finds himself involved exactly in the sins after a time this person then gets whispers that what is the point of all the efforts the ذکر, the رابطہ with شیخ punctuality in Salah and etc.? When I have landed into the same phase again yet in reality this person never really gives up the زنا of the eyes. He didn’t delete all these phone numbers of so-called friends who are not on the path of Sunnah. He still watches or listens to those things that feed his نفس like fuel. He still holds bad opinions of others and suspicion until one day it only takes the smallest of sparks to ignite into full flames of فجور and sinning. That’s why our مشائخ advise us to be an عاشق and be prepared to die than to be….not a question rather a reminder in a certain group.
سوال نمبر19:
حضرت جی میرے گھر کے کچھ افراد بیمار ہیں۔ میں اعتکاف میں بیٹھنا چاہتا ہوں کیا ایسی صورت میں اعتکاف میں بیٹھ سکتا ہوں۔
جواب:
اس قسم کا مسئلہ ہے تو پھر اعتکاف میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ آپ اپنے اعمال گھر پہ کر لیا کریں کیونکہ بیمار کی تیمار داری زیادہ ضروری ہے۔
سوال نمبر20:
Dear حضرت شاہ صاحب, I pray that you are fine! Is the Hijra an obligation for us Muslims who live in Europe? Our situation is going bad in France. They are talking about taking out the children of the Muslim family if they are found alone or to ban the Hijab پردہ in the streets. There is something called مراقبہ in the معمولات chart as we sometimes have to learn from you. Is it sometimes that we have to learn from you? May اللہ preserve you!
Answer:
Brother let me know more details of the situation and put it in the forum of علماء group to discuss your situation whether it is an obligation for you now or not because it is not simple decision? It is based on many things to come, to bring under consideration before the decision.
As far as the other thing is concerned, مراقبہ yes of course you can understand it and I think better you ask this question from فاروق حسنی صاحب because he will explain to you this in a better way in this language because he has gone through all these things and he will ان شاء اللہ guide you properly. He might be knowing the English books in which the procedure has been written or probably he has written some things about these things himself and he will communicate to you ان شاء اللہ.
سوال نمبر21:
السلام علیکم حضرت!
Is depression a disease of نفس?
Answer:
It is a medical disease but it may come from for example a person who is highly involved in حب مال and earning money and suddenly he has fallen in loss so he will feel it more as compared to the person who is not at this thing. So it is although medical disease and a person will have to take all types of medicines which are required for this purpose but in addition he has to do معالجہ of نفس as well, treatment of نفس from a شیخ because if it is done, so the root will be finished and there will be lesser medicine required to recover. So this is, you can say, double connected things and we can understand this situation.
یہ چیز اصل میں ہے تو Medical decease، لیکن ہو سکتا ہے کہ نفس کی وجہ سے ہو کیونکہ کسی کو حب مال ہے تو وہ مال کے بارے میں بڑا sensitive ہو گا، ایسے آدمی کو کوئی مالی نقصان ہو جائے تو وہ ڈپریشن میں چلا جائے گا کیونکہ اس کے لئے تو سب کچھ اس کا مال ہے، اگر اسے مال کے ساتھ اتنی محبت نہ ہوتی تو یہ بیماری اس کے لئے آنی جانی چیز تھی۔ اسی طرح کسی کو لذات کے ساتھ محبت ہو تو وہ چیزیں بند ہونے کی وجہ سے وہ ڈپریشن میں جا سکتا ہے، کسی کو جاہ کے ساتھ محبت ہو، الیکشن لڑ رہا ہو، ہار جائے اور ڈپریشن میں چلا جائے تو وہ جسمانی طور پر بھی بیمار ہو سکتا ہے۔ اگر ان کے نفس میں یہ رذائل نہ ہوتے تو جسمانی بیماری اتنے زیادہ نقصان نہ دیتی۔
لہٰذا جب کوئی بیماری نفس کی وجہ سے آئی ہو تو اس کا علاج دونوں طرح ہو گا، روحانی علاج بھی ہو گا نفس کے علاج کے ذریعے اور جسمانی علاج بھی ہوگا ڈاکٹروں اور حکیموں کے ذریعے۔ جب نفس کا علاج ہو جائے تو جسمانی علاج تھوڑی بہت دوائی سے بھی ہو جائے گا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْن