سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 368

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

مجلس نمبر 368

آج پیر کا دن ہے اور اس دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں چونکہ ہماری عصر کی نماز کا وقت تبدیل ہو گیا ہے اس وجہ سے ہماری مجلس لیٹ ہو گئی ہے، پہلے ساڑھے پانچ بجے نماز ہوا کرتی تھی اور عید کے بعد سے پونے چھ بجے ہے۔

سوال نمبر 01:

Can I do Baiat with an additional buzurg for barka purpose? I just felt like doing one with Khan Bahadur Murwat Sahb, just for barkat?

جواب 01:

برکت اصل میں سلسلے سے آتی ہے اور سلسلہ اگر مختلف ہو مثلاً یہاں سے کوئی عربستان یا افریقہ جائے اور وہاں مختلف سلسلے کا کوئی بزرگ ہو تو اس سے اگر برکت کے لیے بیعت کر لے تو ٹھیک ہے اس کی بظاہر گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اگر ایک ہی سلسلے کے حضرات سے برکت کے لیے بیعت ہوں تو اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ جیسے مولانا زکریا صاحبؒ کے سلسلے اور حضرت تھانویؒ کے سلسلےکی برکت اگر آپ کسی بزرگ سے حاصل نہ کر چکے ہوں تو آپ ان بزرگوں سےوہ برکت حاصل کر سکتے ہیں، لیکن جب اسی سلسلے میں آپ پہلے سے بیعت ہیں تو پھر یہ محض وسوسہ ہے، کیونکہ برکت شیخ کا تجربہ ہوتا ہے اور برکت سلسلے کی ہوتی ہے، اس لیے سلسلہ اگر ایک ہے تو برکت بھی ایک ہے۔ ممکن ہے آپ کو ویسے ہی خیال آیا ہو کہ مجھےکوئی different چیز مل رہی ہے حالانکہ وہ different نہیں ہوتی۔

سوال نمبر 02:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ استاد محترم مجھے ایک ضروری مسئلہ میں رہنمائی درکار ہے۔ ہمارے گھر بیٹے کی آمد ہوئی تو ہم نے اس کا نام محمد رکھا جو اس کی پیدائش سے پہلے ہم نے سوچ رکھا تھا کہ اگر بیٹے کی ولادت ہوئی تو یہ نام رکھیں گے۔ گھر والے تو اس پر رضامند ہیں لیکن رشتہ دار طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ خالی محمد نام رکھنا بے ادبی ہے اس کے ساتھ لازمی کچھ اور ملایا جائے اور جو نام ملایا جائے وہی پکارا جائے محمد نہ کہا جائے، سمجھانے پر الٹی سیدھی باتیں کہی جا رہی ہیں یہاں تک کہا کہ تم اور تمھارے مفتی دونوں ہی ضدی ہیں۔ استاد محترم ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے برائے کرم رہنمائی فرمائیں جزاکم اللہ خیرا۔

جواب 02:

ایسی صورت میں نام تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بخارا میں ایک قبرستان ہے جس میں صرف ان لوگوں کو دفن کرنے کی اجازت ہے جن کا نام صرف محمد ہو اور وہ محدث بھی ہو تو اس میں کل چھ سو ایسے حضرات دفن ہیں جن کا نام صرف محمد ہے۔ یاد رہے کہ امام بخاریؒ کا نام بھی محمد بن اسماعیل بخاری تھا۔ تو اس سلسلے میں کوئی پریشر قبول نہیں کرنا چاہیے۔ پھر اس کا سوال آیا که رشتہ داروں کو کیا جواب دیا جائے؟ اس بارے میں بھی رہنمائی فرمائیں تا کہ بحث نہ ہو اور وہ لوگ بھی قائل ہو جائیں۔ تو چونکہ اس وقت میں اعتکاف میں تھا تو میں نے کہا میں اعتکاف میں ہوں، بعد میں ان کو طریقہ بھی بتاؤں گا اور ان کو قائل بھی کروں گا۔ کمال کی بات ہے لوگ مجھے فارغ سمجھتے ہیں کہ میرے پاس کوئی کام ہی نہیں ہے صرف ان کے سوالوں کے جوابات دینے کے لیے فارغ بیٹھا ہوں؟ خدا کے بندے اتنی بڑی بات بتا دی کہ چھ سو محدثین اس نام کے مدفون ہو چکے ہیں۔ محدث کوئی معمولی شخص تو نہیں ہوتا! اور جن میں محمد بن اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ امام بخاری بھی ہیں۔ اگر آپ رشتہ داروں کو مطمئن نہیں کر سکتے تو پھر سر جوڑ کر بیٹھ جائیں کہ زندگی کیسے گزارنی ہے؟ کیونکہ ہر چیز پر آپ سے رشتہ دار لڑیں گے اور الجھیں گے پھر آپ ہر چیز مجھ سے پوچھتے رہیں گے؟ یہ کیسا طریقہ ہے مجھے تو سمجھ نہیں آتی؟ ایسے لوگوں کا بچپنا پن تو تھوڑا سا ختم ہونا چاہیےکہ ذرہ برابر بوجھ بھی اپنے آپ پر نہ ڈالا جائے بلکہ دوسروں کی طرف ٹرانسفر کر دیا جائے۔ میں نے یہ بات اس لیے کی تاکہ اور لوگ بھی اس سے عبرت پکڑیں کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے، شیخ یا استاد کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ آپ کو ہر ہر چیز کا حل بتائیں گے کہ اب ان کو یہ بتاؤ اور اب یہ بتاؤ۔ یہ تو کوئی طریقہ نہیں که آپ دوسروں کے مسئلے اپنے سر لے کر ہماری طرف منتقل کر دیں۔ یہ طریقہ غلط ہے آئندہ اس سے احتیاط کرنی چاہیے۔

سوال 03:

السلام علیکم! حضرت جی میں پچیسویں پارے پر افطار سے پہلے ختم قرآن کی دعا کر سکتی ہوں؟ اور دوسرا آپشن یہ ہے کہ آخری دو پارے لیلۃ الجائزہ کے لیے چھوڑ دوں؟ حضرت جی کی طرف سے motivation کی طالب ہوں، جزاکم اللہ خیرا، والسلام۔

جواب 03:

تو یہ ایسی بات ہے جو جزئیات کی حد تک لے جانے والی ہے یعنی اتنا وقت تو نہیں ہوتا کہ کسی کے ایسے جزئیات کا بھی جواب دیا جائے، یہ تو آپ کے ذوق پر منحصر ہے۔

کسی نے حضرت تھانویؒ سے پوچھا تھا کہ حضرت! اگر لمبا درود شریف پڑھوں گا تو تھوڑی تعداد میں ہو گا اور اگر چھوٹا درود شریف پڑھوں گا تو زیادہ تعداد میں ہو گا، تو کون سا پڑھنا چاہیے؟ فرمایا جو آپ کا ذوق ہو، اگر آپ کا ذوق لمبا درود شریف پڑھنے کا ہے تو وہ پڑھ لیں بے شک تھوڑی تعداد میں پڑھ لیں تو اللہ تعالیٰ اس کا ثواب اس کے حساب سے دے گا اور اگر آپ چھوٹے درود شریف کا ذوق رکھتے ہیں تو چھوٹا پڑھ لیا کریں تو تعداد میں اضافہ ہوگا تو اسی سے اس کی compensation ہوجائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دلوں کو دیکھتا ہے اور اس کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ تو یہ جزئیات تک پوچھنے والی چیز ہے، اصلا لوگوں کو خود Confidence develop کرنا چاہیے کہ اس طرح کے سوالات نہ کریں بلکہ ذوق اپنانا چاہیے، ذوق سمجھنا چاہیے اور شیخ کا جو مزاج ہے سمجھنا چاہیے تو آپ کو بہت ساری چیزوں میں نفع ملے گا اور آپ کو خود فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا، یہی شیخ کا رنگ ہوتا ہے جس کو ہم شیخ کے رنگ میں رنگنا کہتے ہیں، تو رنگ اسی کو کہتے ہیں کہ آپ کے شیخ مختلف حالات میں کس قسم کا فیصلہ کرتے ہیں؟ اس انداز کو آپ اپنا لیں تو کام ہو جائے گا ورنہ پھر چھوٹی چھوٹی باتوں کو آپ پوچھیں گے۔ یہ تو ہر ایک کی زندگی میں مختلف اوقات میں مختلف چیزیں مختلف تفصیل کے ساتھ آئیں گی۔ تو اگر ہر ایک کو اتنی تفصیل کے ساتھ بتائے گا تو وہ اور کام کیا کر سکے گا ظاہر ہے وہ انہی کاموں میں لگا رہے گا۔ اصولی باتیں طے کرنی چاہئیں جزوی نہیں، جس میں بالخصوص ذوق پر انحصار ہو تو وہ خود کرنا چاہیے جیسے ان کی یہ بات کہ لیلۃ الجائزہ کی اپنی برکت ہے اور رمضان شریف کی اپنی برکت ہے، اب رمضان شریف Multiplication factor بہت زیادہ ہے اب آپ جس وقت جو عمل کریں گے تو اس کے حساب سے اس کا ثمرہ آئے گا۔ اور لیلۃ الجائزہ میں دعاؤں کی قبولیت کا مطلب، جس کو کہتے ہیں که مزدوری دی جاتی ہے۔ تو آپ علیحدہ سے اس رات معمولات کر لیں۔ یہ دو پارے میں نے اس لیے بتائے تھے کہ اس میں تقریباً ہزار آیتیں ہوتی ہیں تو وہ آدمی کہیں بھی پڑھ سکتا ہے اور ضروری نہیں کہ انہی کو پڑھ لے۔ ہاں یہ بات ہے کہ ان کو دوبارہ بھی پڑھ لیں تو کوئی بات نہیں مطلب انشاءاللہ مقصد حاصل ہو جائے گا۔ بہت سارے ساتھی اس طرح ہیں کہ وہ بلاوجہ جزئیات کی باتیں پوچھتے ہیں انسان کو خود ہی ادراک کرنا چاہیے کہ ایسے حالات میں انسان کیا کر سکتا ہے؟ اور مختلف جوابات تو مختلف اوقات میں دیئے گیے ہوتے ہیں اس سے اندازہ لگانا چاہیے تاکہ مسئلہ حل ہو جائے بالخصوص جب حلال و حرام کی بات نہ ہو بلکہ ذوق پر منحصر ہو اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو سمجھائی جائے اور یہ سمجھنے کی باتیں ہیں بھی نہیں بلکہ یہ ذوقیات کی باتیں ہیں۔ آپ جو بھی کام کریں گے وہ غلط تو نہیں ہو گا، یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی ٹھیک ہے پھر ذوق پر آپ فیصلہ کریں گے که آپ کا ذوق کیا ہے؟

سوال نمبر 04:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی یہاں سرحد میں تو عید کا اعلان کر دیا گیا ہے، کیا مجھے پنجاب کے رؤیت حلال کے مطابق روزہ رکھنا چاہیے یا سرحد کے مطابق عید کرنی چاہیے؟

جواب 04:

اصولاً تو وہاں کے اعلان کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ بات واضح ہے، مثال کے طور پر کوئی شخص جج نہیں ہے اور کسی مقدمہ کا فیصلہ کر کے چوراہے کے اوپر کسی قاتل کو پھانسی لٹکا دے تو پھر کیا ہو گا؟ حالانکہ قاتل کو پھانسی پہ لٹکایا، کیا اس کو شاباش دی جائے گی؟ نہیں بلکہ اس کو بھی پھانسی پہ لٹکایا جائے گا کیونکہ اس نے قانون کی خلاف ورزی کی، قانون ہاتھ میں لے لیا۔ تو ہر چیز کے اپنے احکامات ہوتے ہیں اسی کو حیت نافذہ کہتے ہیں۔ یعنی قانون کو implement کون کرے گا؟ اگر کوئی ادارہ نہ ہو اور وہ قانون نافذ کرنے کی کوشش کرے گا تو اس سے پھرanarchy پھیلتی ہے، فساد پھیلتا ہے، جس کی وجہ سے ایک سٹیٹ کے اندر کئی سٹیٹس بن جاتے ہیں اور جس سے پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

اب اگر حکومت نے کسی کو اختیار دیا ہے اور وہ اس اختیار کو غلط استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ تو اس سے اس کے بارے میں پوچھیں گے یہ نہیں که وہ معاف ہو گیا اگر اس نے صحیح کام نہیں کیا اور غلط فیصلے کیے۔ جیسا که وہ جج ہے اور اس نے غلط فیصلہ کیا تو اللہ تعالیٰ تو اس سے پوچھیں گے۔ لیکن آپ تو اس سے نہیں پوچھ سکتے مطلب یہ ہے کہ اس کا فیصلہ نافذ تو ہو جائے گا تو یہاں پر یہ والی بات ہے کہ اگر وہ غلط فیصلہ بھی کر لیں تو وہ سب کے اوپر ظاہراً اور باطناً نافذ ہو جائے گا، یہ ہے فقہ میں کہ ظاہراً بھی نافذ ہو جائے گا باطناً بھی نافذ ہو جائے گا۔

KPK والوں کی جو Independent committee جس کی کوئی شرعی حیثیت بھی نہیں ہے، تو بے شک ان کا فیصلہ صحیح ہو لیکن طریقہ کار غلط ہے، تو اس وجہ سے ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور پھر اس کو پنجاب کا فیصلہ کہنا یہ دوسری غلطی ہے یہ پنجاب کا فیصلہ تو نہیں ہے اس کے ساتھ سندھ بھی ہے اس کے ساتھ بلوچستان بھی ہے اس کے ساتھ کے پی کے، کا ٪50 سے زیادہ علاقہ ہے پورا ہزارہ، ڈیرہ اسماعیل خان ملاکنڈ اسٹیٹ، کوہاٹ، ڈسٹرک تو یہ ٪50 سے زیادہ بنتا ہے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں که پاکستان کے 70، 80 فیصد سے زیادہ بلکہ 85 فیصد کے علاقے پر ایک چیز نافذ ہے اور 15 فیصد لوگ اس کو نہ مانیں تو آپ ٪15 کا ساتھ دیں گے؟ یہ کون سا انصاف ہے؟ یہ اصولاً بھی غلط ہے اور شرعاً بھی۔ یہ کوئی پنجاب کا فیصلہ نہیں ہے کہ اس کو پنجابیوں کا فیصلہ قرار دیا جائے یہ تو سنٹرل کمیٹی ہے جس میں تقریباً ہر صوبے کا شخص ہوتا ہے اور ہر مسلک کا شخص ہوتا ہے، تو اصولاً یہ غلط ہے۔

حضرت مفتی رشید صاحبؒ کا مجھے یاد ہے، مفتی ذاکر اللہ صاحب مردان کے مفتی ہیں اور بڑے اونچے خاندان سے ان کا تعلق ہے وہاں تبلیغی جماعت کے جو امیر تھے حکیم بادشاہ صاحب یہ ان کے صاحبزادے ہیں، تین بھائی ہیں تینوں مفتی ہیں، تو مفتی ذاکر اللہ صاحب نے مجھ سے پہلے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن مجھ سے اس وقت رابطہ نہ ہو سکا تو انہوں نے پھر مفتی رشید احمد صاحبؒ سے رابطہ کیا اور ساری صورتحال بتا دی کہ چاند یہاں لوگوں نے دیکھ لیا ہے لہذا یہاں پر عید ہے اور میرا روزہ ہے تو کیا میں افطار کروں یا نہیں؟ علاقہ کے لحاظ سے فتویٰ پوچھا حالانکہ خود بھی مفتی تھے۔ تو حضرت نے جو جواب دیا تھا وہ سن لیجئے گا فرمایانہیں افطار نہیں کرنا لیکن لوگوں کو بھی نہ روکیں اس سے فساد ہو جائے گا، آپ اپنا روزہ جاری رکھیں اور لوگوں کو بے شک چائے وائے پلاتے رہیں لیکن اپنا روزہ افطار نہ کریں کیونکہ ان کی عید شرعاً صحیح نہیں ہے۔ تو آپ ان کے ساتھ عید نہ کریں بلکہ عید اعلان کے مطابق کریں، ہاں لوگوں کو اس کے بارے میں نہ بتائیں اور آپ اس کا اعلان بھی نہ کریں اور نا اس کی مخالفت کریں۔

یہ مفتی صاحب کا مفتی کو جواب تھا۔ تو آپ بتائیں اس سے زیادہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ خواہ مخواہ لوگوں نے اپنی دکانیں سجائیں ہیں اور صحیح بات تک پہنچ نہیں پا رہے۔ ایسی صورت میں چاند کیسے نظر آ سکتا ہے جب چاند افق پر نکلا ہی نہ ہو۔

ایک دفعہ میں ان کے ساتھ اجلاس میں بیٹھا ہوا تھا کہ انہوں نے کہا: چاند نظر آ گیا اور اتنی شہادتیں موصول ہوئیں۔ تو میں نےکہا: ہم تو یہاں اس فیصلے کے لیے مبصر کے طور پر بیٹھے ہیں اور ہمارے فیصلہ کا دن تو کل ہے؟ تو انہوں نے کہا که آپ کے کمیشنر نے مجھے کہا کہ آپ کا جو کمپیوٹر ہے یہ تو کسی کتاب میں نہیں ہے۔ تو میں نے کہا: کمپیوٹر تو کتاب میں نہیں ہے لیکن میں آپ سے ایک بات عرض کرتا ہوں بلکہ میں آپ کو لکھ کے دیتا ہوں کہ چاند آپ کو کل بھی نظر نہیں آئے گا اگر کل آپ نے چاند مجھے دکھا دیا تو میں آپ کا آج کا چاند مان لوں گا کیونکہ چاند ابھی دو ڈھائی گھنٹے کے بعد پیدا ہو گا تو یہ چاند ان لوگوں نے کیسے دیکھ لیا؟ جب میں نے یہ کہا تو فوراً ڈپٹی کمیشنر اور اسسٹنٹ کمیشنر میرے ساتھ ہو گیے اور ان سے کہنے لگے سر ان کی بات میں وزن ہے آپ ان کی بات سن لیجئے گا، خیر کل صبح سویرے اسسٹنٹ کمیشنر میرے پاس آیا اورکہا آؤ چلتے ہیں میں نے کہا کہاں؟ کہنے لگے ایک جگہ چلتے ہیں، مجھے وہاں کے پریس میں ساتھ لے گیے اور صحافیوں کو جمع کیا اور مجھ سے کہا ان کو بھی سمجھا دیں جو کل آپ ہمیں سمجھا چکے ہیں، تو میں نے جب وہاں چھوٹا سا بیان کیا تو سارے صحافی کہنے لگے جی سر آپ حکم کریں تو ہم روزہ افطار کرتے ہیں، میں نے کہا بھائی میں آپ کو روزے افطار کرانے کے لیے نہیں آیا ہوں صرف سمجھانے کے لیے آیا ہوں، تو انہوں نے کہا جی سر ہم سمجھ گیے بس آپ ہمیں لکھ کر دے دیں تاکہ ہم اس کو شائع کر دیں، آپ کی بات بالکل صحیح ہے، اگلے دن جب ہم پارا حصار چاند دیکھنے کے لیے گیے تو ایف سی کے سینکڑوں جوان، عوام، علماء کرام اور موسمیات والے آلوں سمیت ہمارے ساتھ گیے، آسمان الکل صاف تھا لیکن چاند نظر نہیں آ رہا تھا تو میں چیخ چیخ کر کہ رہا تھا اے لوگو وہ چاند کہاں گیا جو کل نظر آیا تھا؟ تو چاند کل نظر آیا ہی نہیں تھا ویسے ہی کمیشنر صاحب کو کہا گیا تھا که نظر آگیا۔ چونکہ میں نے کہا تھا کہ آپ مجھے دکھائیں گے اس لیے جب ہم ان کے آفس میں پہنچ گیے تو وہ لوگ غائب ہو گیے تھے وہ سامنے ہی نہیں آئے۔ بھائی جھوٹ کے پاؤں کہاں ہوتے ہیں؟ تھوڑا سا اندازہ کرنا چاہیے حقیقت کے ساتھ ٹکرانا تو آسان نہیں ہے، تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے اس لیے آئندہ ایسی باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ خیر انہوں نے بعد میں کہا کہ انشاءاللہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا، آئندہ ایسی بے احتیاطی نہیں ہو گی۔

یہ صرف آپ لوگوں کو سمجھانے کے لیے کہا که چلو ویسے بھی سوال کیا گیا ہے تو بات سمجھ میں آ جائے۔ چونکہ عید کے بعد اس قسم کے سوالات آتے ہیں اس وجہ سے میں نے سوچا کہ ان کے بھی جوابات دے دیئے جائیں تو بہتر ہوگا۔

سوال نمبر 05:

السلام علیکم میرے عزیز و محترم مرشد دامت برکاتهم۔

حضرت جی! میں نے نوٹ کیا ہے کہ مجھ میں حسد کی جو بیماری تھی وہ الحمداللہ تقریباً ختم ہو گئی ہے لیکن لوگوں کے بارے میں غلط اور برے خیالات والی بیماری ابھی بھی موجود ہے، اب کیا کیا جائے؟

جواب 05:

حسد کیا ہوتا ہے اور بد گمانی کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے بتایا ہے که حسد تقریباً ختم ہو چکا ہے لیکن بد گمانی في الحال موجود ہے۔ حسد اصل میں اللہ تعالیٰ کے فعل پر اعتراض ہے گویا کہ اللہ پاک نے ان کو کیوں ایسا دیا؟ اور مجھے نہیں دیا حالانکہ اللہ پاک کا جو فیصلہ ہے وہ اس پہ نہیں ہوتا کہ کتنا دینا چاہیے بلکہ اس لیے ہوتا ہے کہ اس کا امتحان کس چیز میں لینا چاہیے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ایک استاذ دو آدمیوں کا امتحان لینا چاہتا ہے، ایک کو ایک پرچہ دیتا ہے دوسرے کو دوسرا پرچہ اور ہر ایک سے اس کے پرچہ میں امتحان لیتا ہے۔ تو اب کسی شاگرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کہہ دے کہ آپ نے مجھ سے یہ سوال کیوں پوچھا ہے؟ یہ کسی کو حق نہیں ہوتا، وہ کہیں سے بھی سوال کر سکتا ہے، کہیں سے بھی پوچھ سکتا ہے۔ تو اللہ پاک کسی کا صبر میں امتحان لیتا ہے کہ اس کے اوپر ایسے حالات بھیجتے ہیں جس سے اس کا صبر دیکھتا ہے اور کسی کا شکر دیکھتا ہے یعنی اس کو اچھے حالات میں ڈال دیا اور دیکھتا ہے کہ وہ شکر کرتا ہے یا نہیں؟ حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر میں امتحان لیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا شکر میں۔ اور ایوب علیہ السلام نے وہ دکھایا کہ مشکل حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ اب کوئی یہ تو نہیں کہ سکتا کہ مجھ سے کون سی چیز میں امتحان لیا جائے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے، اس دنیا کی اپنی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے یہ تو ختم ہونے والی ہے یہ تو ایک امتحان گاہ ہے اور امتحان گاہ میں بھی تین گھنٹے ہوتے ہیں اس کی بھی آپ کی زندگی کے ساتھ ایک ratio ہوتا ہےاس زندگی کا تو آخرت کی زندگی کے ساتھ کوئی ratio ہی نہیں، پلک جھپکنے کے برابر بھی اس کا ratio نہیں ہے، تو اس میں اگر آپ کوکوئی حالت دی جائے تو یہ اصل حالت تو ہے نہیں، آپ کی اصل حالت تو جنت یا دوزخ میں ہے۔ آپ ان حالات میں دوزخ کے حالات کی طرف جا رہے ہیں یا جنت کے حالات کی طرف جا رہے ہیں، اور آپ کا پرچہ اسی کا ہے۔ تو اس وجہ سے جو لوگ حسد کرتے ہیں تو وہ اللہ پاک کے فیصلہ پہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان سے اس حالت میں کیوں پوچھا ہے؟ اور مجھ سے اس حالت میں کیوں پوچھا جا رہا؟ یہ بہت بڑا جرم ہے اور اس سے انسان کی نیکیاں ایسی جلتی ہیں جیسے آگ سے لکڑی جلتی ہے۔

اور بد گمانی ایسی چیز ہے جس میں انسان sure نہیں ہوتا کوئی چیز ہوتی نہیں صرف آپ کا اندازہ ہوتا ہے، آپ کو اندازے کا اختیار ہے لیکن اچھے اندازے کا، برے اندازے کا نہیں اس لیے فرماتے ہیں ﴿ظُنُّوْا الْمُومِنِیْنَ خَیْراً﴾ یعنی مؤمن کا دوسرے کے بارے میں گمان اچھا ہونا چاہیے۔ جب تک آپ کو پتہ نہیں ہے اس وقت تک آپ اس پر اچھا گمان کریں، اچھا گمان کرنے پر ثواب ملے گا اور بد گمانی کرنے پر آپ کو کچھ ملے گا نہیں اور ثواب سے محروم ہوں گے تو آپ ثواب کیوں ضائع کرنا چاہتے ہیں اور بد گمانی پر گناہ ملے گا ﴿اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْم(سورۃ الحجرات، آیت 12) بد گمانی پہ عذاب ہے، اس وجہ سے بد گمانی سے بچنا چاہیے۔ باقی اگر بات ثابت ہو جائے تو پھر صحیح ہے اگر آپ کو پتہ ہے کہ اس نے آپ کو گالی دی ہے تو آپ یہ نہیں کہ سکتے کہ میں اس کے ساتھ اچھا گمان کروں کہ اس نے مجھے گالی نہیں دی تو وہ آپ کو سنائی دی، گواہ موجود ہیں سب پتہ ہے تو ٹھیک ہے، آپ اس کے خلاف استخاصہ بھی کر سکتے ہیں وہ کوئی مسئلہ نہیں ہے شریعت آپ کو حق دیتی ہے، لیکن اگر معاف کر دیں تو آپ کو credit ملے گا۔ اگر آپ اس سے بدلہ لیں، بدلے سے مراد یہ ہے کہ اگر آپ اس کے خلاف عدالت میں جانا چاہتے ہیں تو آپ کا حق ہے لیکن ثبوت کے بعد، ثبوت آپ کے ذمے ہیں۔ اگر آپ خود کنفوژ ہیں که شاید دی ہوگی تو یہ گمان کی بات ہو گئی اور جب گمان کا معاملہ ہے تو پھر اچھا گمان کرو۔

میں نے اپنی آنکھوں سے ایسا عجیب نظارہ دیکھا ہے، یہ مولانا عبدالحق صاحبؒ جو اکوڑہ خٹک کے تھے، ان کی خدمت میں ہم جاتے تھے، ہمارے علاقے کے بزرگ تھے۔ تو ایک دفعہ میں ان کے پاس گیا تو حضرت کے جو ناظم تھے وہ حضرت سے دستخط لے رہے تھے جیسے کوئی اطلاع دینی ہوتی تو اطلاع دے رہے تھے اور کسی چیز پہ رائے لینا ہو تو رائے لے رہے تھے گویا کہ پورا ایک نظام چل رہا تھا تو وہ حضرت سے کہتے فلاں نے ایسا کیا ہے یعنی کوئی غلطی بتا دی تو حضرت اتنی زبردست تاویل ان کے لیے بناتے که اچھا! انہوں نے شاید اس وجہ سے کیا ہو گا، یعنی اپنے مخالفین کے لیے دلائل دے رہے تھے انہوں نے شاید اس لیے کیا ہو گا۔ میں حیران تھا کہ کتنے بڑے ظرف کی شخصیت ہے یعنی یہ کسی کی بات اپنے دل پہ لے ہی نہیں رہے بلکہ ان کے لیے دلائل خود ڈھونڈ رہے ہیں۔ انہوں نے شاید اس لیے کہا ہو گا تو یہ نیک گمان ہے ﴿ظُنُّوْا الْمُومِنِیْنَ خَیْراً﴾ ایسے لوگ واقعی چومنے کے قابل ہیں جن کا اتنا بڑا ظرف ہو اس کے باوجود وہ سب کچھ کر سکتے تھے۔ بہرحال اچھے گمان کے لیے تو دلیل کی ضرورت نہیں ہے اور بد گمانی کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ بس اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ کیا کرنا چاہیے؟

سوال نمبر 06:

السلام علیکم حضرت! میرے اذکار کو ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ، 300 مرتبہ لا الہ الا ھو، 300 مرتبہ حق اور 100 مرتبہ اللہ۔ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار 100، 100 دفعہ۔ مزید رہنمائی درکار ہے کوشش کر رہا ہوں کہ یکسوئی کے ساتھ کروں مگر درمیان میں ادھر ادھر کے خیالات آنے لگتے ہیں۔

جواب 06:

اب آپ ان شاء اللہ 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ ہی رکھیں گے اور 300 مرتبہ کی جگہ 400 مرتبہ لا الہ الا ھو اور 300 دفعہ کی جگہ 400 مرتبہ حق ہو گا اور 100 مرتبہ ہی اللہ ہو گا۔ اور یکسوئی جتنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہے اس پر اللہ پاک کا شکر ادا کریں اور خود بخود جو خیالات آنے لگیں ان کے ساتھ الجھنے کی کوشش نہ کریں۔ اس کو سمجھو کہ nois ہے جیسے باہر بچے شور کر رہے ہوں اور اس پر آپ کو کوئی کنٹرول نہ ہوں تو آپ اپنا ذکر وغیرہ جاری رکھتے ہیں اور آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اسی طرح جو ادھر ادھر کے خیالات آتے ہیں یہ بھی nois کی طرح ہیں اس کی پرواہ نہ کریں تب آپ اس سے یکسوئی میں جا سکیں گے۔ اگر آپ ان کے ساتھ الجھنے کی کوشش کریں گے تو یہ آپ کی یکسوئی کو distur کریں گے، بس یہی بات آپ اپنے ذہن میں رکھیں تو پھر ان شاء اللہ کوئی پریشانی نہیں ہو گی ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 07:

حضرت جی! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

عید

مبارک۔

عید

مبارک۔

جواب 07:

ایک صاحب نے مجھے عید مبارک بھیجا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا که میں کس کو کیا اور کیسے بھیج رہا ہوں؟ اس بارے میں میں نے صرف یہ بات کرنی ہے کہ یہ صرف چار کلمے ہیں یہ کوئی اتنی زیادہ لمبی تفصیل تو نہیں تھی کہ اس کو دوبارہ دیکھنا کوئی مشکل تھا، سینڈ کرنے سے پہلے دیکھو که کوئی غلطی تو نہیں ہے؟ جو آپ ٹھیک کر سکتے ہیں، اب اس کو تو ایک لائن میں بھی لکھا جا سکتا تھا لیکن دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔ ایک دفعہ حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتھم تشریف لائے تھے تو ان کے بیان میں ہم بھی گیے، حضرت نے یہ واقعہ سنایا که میرے بڑے بھائی نے حضرت تھانویؒ کو خط لکھا تو حضرت نے اس کے جواب میں لکھا کہ بیٹا اپنے خط کو ذرہ خوش خط کر لیں بہتر کر لیں تا کہ آپ کا خط پڑھنے سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔ فرمایا بیٹا میں آپ کو ابھی سے صوفی بنا رہا ہوں۔ آپ اس بات کا اندازہ کر لیں، ذرہ غور کر لیں کیا فرما رہے ہیں؟ بیٹا میں ابھی سے آپ کو صوفی بنا رہا ہوں صوفی بنانے کا مطلب کیا ہے کہ کسی کو تکلیف نہ دی جائے۔ آج کل تصوف میں اس conceptکو کوئی نہیں سمجھتا کہ کسی کو تکلیف سے بچانا بھی تصوف ہے۔ اگر میں گاڑی کھڑی کر رہا ہوں تو کہاں کھڑی کر رہا ہوں؟ کسی اور کی گاڑی کو مسئلہ تو نہیں ہو گا؟ کسی کے دروازے کے سامنے تو نہیں کھڑا کر رہا ہوں؟ کسی کی آزادی میں خلل تو نہیں ڈال رہا ہوں؟ یہ بظاہر چھوٹی چیزیں نظر آتی ہیں اور لوگ اس کو دنیا سمجھتے ہیں، دین نہیں، حالانکہ یہ دین ہے کیونکہ عبادت جس طرح دین ہے اسی طرح معاملات بھی دین ہے، معاملات وہ دین ہے جو آپ کی عبادات کے دین کی حفاظت کرتا ہے، اگر آپ نے معاملات کے دین کی حفاظت نہیں سمجھی اور معاملات غلط کیے تو آپ کی عبادات کی ساری نیکیاں ان لوگوں کے پاس چلی جائیں گی جن کے ساتھ آپ نے معاملات میں گڑ بڑ کی ہے۔ اور معاشرت تو اس سے بھی زیادہ آگے کی بات ہے کیونکہ اس میں صرف ایک کا حق نہیں ہوتا اس میں تو پورے معاشرے کا حق ہوتا ہے تو آپ نے معاشرے کا حق مارا تو ان کو جواب دینا پڑے گا تو آپ کی نیکیاں کدھر جائیں گی؟ اور ان سے معافی کی درخواست بھی مشکل ہے۔ مثلاً ایک آدمی کا آپ نے حق مارا تو آپ اس سے حق معاف کروا سکتے ہیں کسی بھی وقت معافی مانگ لیں یا ان کو حق پہنچا دیں لیکن اگر معاشرے کا حق مارا ہو تو پھر کیا کرو گے؟ اس کی مثال حدیث شریف میں موجود ہے کہ ایک دفعہ غنیمت کا مال تقسیم ہو رہا تھا تو اس میں ایک چادر ایک صحابی سے رہ گئی تو بعد میں پیش کی تو جب تقسیم ہو گیا تو آپ ﷺ نے ناراض ہو کے فرمایا اب میں اس کے ساتھ کیا کروں کس طرح لوگوں کو پہنچاؤں اس میں تو بہت سارے لوگوں کا حق ہے۔

لوگ اس کو نہیں دیکھتے بلکہ اس کو دین ہی نہیں سمجھتے حالانکہ یہ دین ہے۔ تو بات یہ ہے کہ جب آپ کوئی چیز کسی کو سینڈ کریں تو اس پہ ایک نظر ڈال لیا کریں کہ آیا میں صحیح چیز بھیج رہا ہوں یا نہیں؟ اگر اس میں کوئی اصلاح کی ضرورت ہو تو اسی وقت اصلاح کر لیں تا کہ آئندہ کے لیے آپ کو مسئلہ نہ ہو اور اس کو دین سمجھنا شروع کر لیں کہ یہ بھی دین کا حصہ ہے اور یہ حضرت تھانویؒ کے طرز کے مطابق تصوف ہے کہ دیکھو میں ابھی سے آپ کو صوفی بنا رہا ہوں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

سوال نمبر 08:

بہت زبردست سوال ہے که اگر 23 رمضان کو شب قدر تھی اور رات عبادت میں گزاری گئی مگر بندے کو پتہ نہیں چلا تو کیا شب قدر کا اجر ملے گا؟

جواب 08:

اس پر تو میں نے میں بڑی تفصیل کے ساتھ بات کی تھی کہ شب قدر نظر آنے سے تعلق نہیں رکھتا، نظر تو لاکھوں میں ایک کو آئے گا کہ آج شب قدر ہے اور وہ اس طرح که اس کو روشنی یا کوئی اور کیفیت محسوس ہو جائے گی کیونکہ اس کا تعلق کشف کے ساتھ ہے اور کشف ہر ایک کو نہیں ہوتا اور کشف کوئی بزرگی بھی نہیں ہے یہ تو مزاجوں کی بات ہے بعض لوگ مزاجاً کشفی ہوتے ہیں تو ان کو نظر آ جائے گا جو مزاجاً کشفی نہیں ہوں گے تو وہ ان کو نظر نہیں آئے گا۔ ممکن ہے کوئی بہت بڑا بزرگ ہی کیوں نہ ہو، جیسے بعض صحابہ کو کشف نہیں ہوتا تھا تو کیا کشف نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بزرگی میں کوئی فرق آئے گا؟ لیکن اگر آپ نے اس وقت عبادت کی تو شب قدر کا ثواب ہی ملےگا مثلاً اس میں آپ نے کوئی نماز پڑھی ہو یا تلاوت کی ہو تو اس کا اجر شب قدر کے حساب سے ہی ملے گا، کیونکہ شب قدر ایک لمحہ کے لیے نہیں ہوتی بلکہ پوری رات ہے بلکہ پتہ نہ چلنے میں زیادہ فائدہ ہے کیونکہ حضرت مولانا اشرف صاحب فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے ہم سے ایک لیلۃ القدر چھپا کر پانچ لیلۃ القدر عطا فرمائے ہیں، کیونکہ اگر آپ ہر طاق رات کو لیلۃ القدر سمجھیں گے تو ﴿اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بیْ﴾ میں بندے کے ساتھ اسی طرح معاملہ کرتا ہوں جو وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے، تو امید ہے اللہ تعالیٰ اس میں بھی ہمیں لیلۃ القدر کا ثواب دے گا اور اگر جفت راتوں میں بھی اس کا گمان رکھا جاتا ہو تو اس میں بھی لیلۃ القدر کا ثواب مل سکتا ہے، تو پھر دس راتوں کا ثواب مل جاتا، اس وجہ سے لیلۃ القدر کا معلوم نہ ہونا زیادہ بہتر ہے۔ بعض کشفی لوگ ہوتے ہیں ان کو اگر پتہ چل جائے تو میں ان کو منع کرتا ہوں که خبردار اگر کسی کو بتایا تاکہ لوگوں کی عبادت میں خلل نہ پڑے، اگر اللہ تعالیٰ ان کو پانچ لیلۃ القدر کا ثواب دینا چاہتا ہے تم کون ہوتے ہو ایک کا ثواب دلواؤ، اس لیے اس کو چھپاؤ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے جس چیز کو چھپایا ہے تو تم بھی اس کو چھپاؤ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے ﴿اَبْھِمُوْ مَا اَبْھَمَ اللّٰہُ﴾ جس کو اللہ نے مبہم رکھا ہوا ہے اس کو تم بھی مبہم رکھو۔ تم کون ہو بتانے والے؟ جب اللہ پاک نے راز فاش نہیں کیا ہے تو تم بھی راز کو راز رہنے دو۔ یہ حکمت کی بات ہے خواہ مخواہ اپنے آپ کو پریشانی میں ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال نمبر 09:

آج ایک دلچسپ سوال کیا گیا ہے اس کو میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ بھی ایک concept ہے، حْضرت جی اس شعر کا کیا مطلب ہے، رہنمائی فرمائیےگا؟

" بےکار سا قصہ ہوں ایک فرضی کہاوت ہوں

میں خاک کا ذرہ ہوں مٹنے کی علامت ہوں"

جواب 09:

ظاہر ہے کسی نے اچھی نیت سے عاجزی کے طور پر یہ بات کہی ہوگی، لیکن عاجزی بھی وہ جس میں فائدہ ہو اگر عاجزی میں نقصان ہونے لگے تو پھر نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ ﴿لَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْم﴾ (سورہ التین، آیت نمبر 4) اس آیت کو سامنے رکھ کر اس مفروضے پہ غور کریں، اس نے کہا میں فرضی سا ہوں اور بے کار سا ہوں۔ میں نے کہا دیکھو آپ اپنے بارے میں جو بھی گمان کریں لیکن اللہ پاک کیا فرماتے ہیں؟ ﴿لَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْم﴾ ٹھیک ہے آگے ﴿ثمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ﴾ (سورہ التین، آیت نمبر 5) بھی آیا ہے تو آپ کوشش کریں کہ ﴿لَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْم﴾ کی طرف ہو جائیں اور اس کے لیے عمل ﴿اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ والی آیت ہے، که اس کے لیے ایمان اور عمل ہے تو آپ ایمان اور عمل کی طرف چلے جائیں۔ لیکن یہ نہ کریں که جو خیر کی چیز آپ بن سکتے ہیں اس کو بھی آپ چھوڑ دیں، جو برا ہو سکتا ہے اس سے تو بچیں لیکن جو اچھا ہو سکتا ہے اس کو تو recognize کریں اس کو تو چھوڑیں نہیں۔ پھر میں نے لکھا کہ

"خاک بھی ہیں اور فانی بھی دنیا آنی جانی بھی

اس میں فنا سے جو ملے تو ہو اس پہ حیرانی بھی"

تو ماشاء اللہ یہ بات لوگوں کی سمجھ میں آگئی پھر میں نے اس شعرکو مکمل کیا:

"خاکی بادی ہونے کے ساتھ آگ بھی ہیں اور پانی بھی"

اس میں چار صفات ہیں،خاکی بھی ہوں، بادی بھی، اور آتشی اور پانی بھی، یہ چار صفات تو وہ جن کے ساتھ انسان بنتا ہے، ناری بھی اور نورانی بھی، وہ شعر کس طرح ہے؟

"یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی "

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری "

اتنا سب کچھ ہونے کے ساتھ یہ ہے سمجھانی بھی"

"کر عمل اچھا خود پر دل پر یہ بات لانی بھی

ہو عمل سنت پہ واسطے اس کے کروانی بھی"

" بھروسہ اس پہ ہو کہ دل میں یہ بات سمانی بھی

اس سے یہ دعا ہو قبول یہ عمل سارا ہو

سوچ لے پھر شبیر ان شاء اللہ انجام کیا پیارا ہو"

مطلب ہمارا کام یہ ہے کہ جو صفات اچھی ہیں یا اچھی ہو سکتی ہیں اس پہ زور دیں۔ جو کسی ایسے شخص کے پاس گیے تھے جو تواضع مفرد کرنے والے تھے یعنی بہت زیادہ تواضع کرنے والے تھے، تو جب کھانا لے آئے تو اس نے کھانے کو بول و براز کہ دیا تو اس عالم نے کہا یہ کیا کر رہے ہو ؟ کھانے کی بے حرمتی کر رہے ہو؟ بے شک یہ تیری چیز ہے، لیکن اللہ پاک نے پیدا کیا ہے۔ بعض لوگ پھر اس حد تک چلے جاتے ہیں۔ لیکن ہر چیز کا اپنا حق ہے آپ کی عاجزی اپنی جگہ پر لیکن جس کو اللہ نے شان دی ہے تمہیں اس کے خلاف نہیں کہنا چاہیے۔ اب انسان کو اللہ نے ایک شان دی ہے اس وجہ سے اس کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیئے۔ الا یہ کہ اپنے آپ کو ﴿ثمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ﴾ میں شمار کر لیں۔ لیکن انسان اس میں نہیں ہے انسان تو ﴿لَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْم﴾ میں ہے۔ البتہ اگر یہ اپنے آپ کو نہ سمجھے تو پھر جانوروں سے بھی بدتر ہے، تو اپنے آپ کو اس سے نکالیں لیکن جو راستہ اللہ نے اختیار کرنے کا فرمایا ہے اس کو ذہن میں رکھیں،کہ یہ بھی ایک راستہ ہے اور ادھر بھی جا سکتا ہوں۔ جنت بھی ہے، دوزخ بھی ہے، آپ اگر دوزخی اعمال کر رہے ہیں تو جنتی اعمال شروع کر دیں تو جنتی بن جائیں گے۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم حضرت! میں مراقبہ میں یہ تصور کرتا ہوں کہ فیض اللہ پاک سے آپ ﷺ کے قلب پر، ان کے قلب سے اپنے شیخ کے قلب پر، اس سے میرے قلب پر آ رہا ہے۔ اور یہ نیت کرتا ہوں کہ اللہ پاک محبت سے دل کو دیکھ رہے ہیں اور میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے جیسے آپ نے فرمایا تھا۔

جواب 10:

یہ جو مراقبات ہیں اس کو عرف میں مراقبہ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اس کو "دور لطائف" کہتے ہیں جس میں ہم کہتے ہیں کہ دل اللہ اللہ کر رہا ہے، یہ دور لطائف ہے۔ لطیفہ قلب کا ذکر ہے، پھر لطیفہ روح کا ذکر ہے، اول اللہ اللہ لطیفہ روح پر، پھر لطیفہ سر کا ہو گا، پھر لطیفہ خفی کا، پھر لطیفہ اخفیٰ کا ہو گا۔ پانچوں لطائف کا دور مکمل ہونے کے بعد پھر مراقبات شروع ہوتے ہیں۔ اس میں سے جو پہلا مراقبہ اَحدییت ہے اور پانچوں پر باری باری ہوتا ہے۔ گویا پہلے آپ اللہ اللہ باری باری ہر ایک پہ کر رہے ہوتے تھے۔ اب آپ پانچوں لطائف پہ باری باری یہی جو ابھی میں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ جیسے اس کی شان ہے اس کا فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے قلب پر اور میرے شیخ کے قلب سے میرے قلب میں آ رہا ہے تو آپ کو یہ مراقبہ کرنا ہوتا ہے، یہ مراقبہ اَحدیّیت ہے۔ پھر اس کے بعد یہی مراقبہ احدیّیت آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے میرے لطیفہ روح پر پھر اس طرح لطیفہ سر، لطیفہ خفی، آن پانچوں سے گزرنے کے بعد پھر ہم کہتے ہیں کہ یہ مشارب ہیں۔ پھر اس کے مراقبات شروع ہو جاتے ہیں وہ کیا ہیں؟ کہ یہی مراقبہ، قلب پر ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ (سورہ بروج، آیت 16) کا کرنا ہوتا ہے کہ اللہ پاک قادر ہیں اور اللہ سب کچھ کرتا ہے۔ اس اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے ہونے کا جو فیض ہے وہ آپ ﷺ کے دل مبارک پر آ رہا ہے آپ ﷺ کے دل مبارک سے میرے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے پھر میرے قلب پر آ رہا ہے تو اس طریقے سے یہ مختلف مراقبات ہیں، صرف یہی نہیں ہے بلکہ اس میں ترقی ہو رہی ہوتی ہے۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم حضرت جی! اس عید کے دنوں میں مراقبہ ذکر جہری بستر پہ کیا ہے، اور اتنی کم آواز سے کہ خود ہی محسوس ہو باہر آواز نہ جائے۔ اس ترتیب کی وجہ ایک واقعہ پیش آیا، ہوا یوں که رمضان کے آخری جمعہ کو مرحبا مسجد میں اپنے ساتھ بھتیجوں کو بھی لایا اور ذکر میں بھی ان کو بٹھایا تو گھر جا کے انہوں نے بتایا کہ وہاں سب لوگ جھوم جھوم کر ذکر کر رہے تھے تو اس پر بڑے بھائی سے تھوڑی سی بحث ہو گئی، تو اس نے کہا که یہ کہاں سے ثابت ہے؟ میں نے کہا ہاں اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں که تم بلند آواز سے ذکر کرو۔ تو انہوں نے کہا یہ جھوم جھوم کر کرنا سنت ہے کیا؟ میں نے کہا نہیں یہ دل کی بیداری کا ذریعہ ہے اور میں ثواب بھی نہیں سمجھتا، تو انہوں نے کہا که جو ثابت ہو وہ کرنا چاہیے، میں نے کہا صحابی جن کا نام شاید حضرت عبداللہ تھا وہ مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھ کر اونچی آواز سے اللہ اللہ کیا کرتے تھے تو حضرت عمر نے ان کو روکا تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کو نہ روکو۔ تو اس نے کہا ایک آدمی کے پیچھے کیا آپ سب لوگ دیوانے ہو جائیں گے؟ تو میں نے کہا: الحمد اللہ ہم سب اللہ کے دیوانے ہیں۔ تو انہوں نے کہا بحث کا وقت نہیں بڑے بھائی ہونے کے ناتے کہوں گا کہ نکل آؤ یہ صحیح راستہ نہیں، میں نے کہا کہ بھائی الحمد اللہ میں صحیح راستہ پہ ہوں آپ کی رہنمائی کا طالب ہوں؟

جواب 11:

یہاں تین باتیں ہیں، اول یہ که صحیح بات کیا ہے؟ اور لوگوں کی سمجھ کیا ہے؟ اور اس میں کرنا کیا ہے؟ تو صحیح بات یہ ہے کہ ایک ذریعہ ہوتا ہے اور ایک مقصد ہوتا ہے، اس وقت کثیر تعداد میں لوگ اس وجہ سے تصوف سے محروم ہیں کہ وہ ذرائع کی قدر نہیں کرتے اور مقاصد کو مانتے ہیں، مثلاً جنتی بھی صفات ہیں سب کے بارے میں ریاض الصالحین میں احادیث شریف موجود ہیں۔ صبر کے بارے میں موجود ہیں، شکر کے بارے میں موجود ہیں، توبہ کے بارے میں موجود ہیں، اخلاص کے بارے میں موجود ہیں، اس طرح تواضع کے بارے میں موجود ہیں، ان ساری چیزوں کے بارے میں احادیث شریف موجود ہیں تو ان سے کون انکار کر سکتا ہے؟ وہ تو حدیث شریف ہے اس وجہ سے اس سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ جتنے بھی شیوخ اور مشائخ ہیں وہ جب جمعہ کا خطبہ یا کسی بھی جگہ خطبہ دیتے ہیں، تو شروع اس سے کرتے ہیں که "میں تمھیں تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں" تو تقویٰ کیا ہے؟ یہ بھی ایک مقام کی وصیت ہے، لیکن تقوی کیسے حاصل کرنا چاہیے؟ صبر کیسے حاصل کرنا چاہیے؟ شکر کیسے حاصل کرنا چاہیے؟ اب جو ان ذرائع کو نہیں مانے گا تو محروم رہے گا۔ مطلب کوئی بھی اچھی چیز اس کو، جیسے مثال کے طور پر عالم ہونا، اگر مانتا ہو لیکن عالم بننے کے جو ذرائع ہیں اس کو نہ مانتا ہو تو وہ عالم بن سکتا ہے؟ کوئی ڈاکٹر ہونے کو تو مانتا ہو لیکن ڈاکٹر بننے کے لیے جو ذریعہ ہو اس کا انکار کرتا ہو توکیا وہ ڈاکٹر بن سکتا ہے؟ تو جب تک کوئی ذریعہ اختیار نہ کیا جائے، مقصد حاصل نہیں ہوتا۔

تصوف بھی ان ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے اس کو مقصد بنا کے پیش ہی نہیں کرنا چاہیے۔ یہ چونکہ ذریعہ ہیں تو بس ذریعے کے طور پر ہی کیا جائے۔ اب اگر کوئی اس کو نہیں مانتا تو آپ ان سے کہہ دیں که بھائی صاحب آپ کوئی اور ذریعہ اختیار کر لیں میرا ذریعہ تو یہی ہے میں اس کو مانتا ہوں۔ لیکن کوئی نہ کوئی ذریعہ تو آپ کو اصلاح کے لیے اختیار کرنا پڑے گا، جیسے کوئی چشتی ذریعہ اختیار کرتا ہے، کوئی نقشبندی کرتا ہے، کوئی سہروردی کرتا ہے۔ اب چشتی حضرات ذکر جہری کرتے ہیں نقشبندی حضرات قلبی ذکر کرتے ہیں تو کیا ان دونوں میں لڑائی ہو سکتی ہے؟ لڑائی تو ان میں ہے ہی نہیں، اگر کوئی اصلاح نقشبندی طریقے سے حاصل کرنا چاہے تو کرے، میں اس کو زبردستی چشتی کیوں بناؤں؟ اور جو چشتی طریقے سے حاصل کر سکتا ہے تو میں اس کو زبردستی نقشبندی کیوں بناؤں؟ مجھے اس سے کیا غرض کہ وہ سری طریقہ ہے، اور یہ جہری طریقہ ہے، اصلاح دونوں طریقوں سے حاصل ہو سکتی ہے۔ فرق یہ ہے که ہر ایک کے اپنے اپنے اصول و ضوابط ہیں۔ جیسے اگر کوئی ایلوپیتھی کے ذریعے سے علاج کرنا چاہے تو میں اس کو ہومیو پیتھی پہ کیوں مجبور کروں؟ اگر کوئی ہومیوپیتھی کے ذریعے سے علاج کرنا چاہتا ہے تو میں اس کو ایلوپیتھی پہ کیوں مجبور کروں؟ اس طرح اگر کوئی حکمت سے علاج کرانا چاہتا ہے، تو بے شک اس سے کرائے، میں اس کو دوسرے پہ کیوں مجبور کروں؟ بھائی! ٹھیک ہو جاؤ مقصد ٹھیک ہونا، صحت مند ہونا ہے۔ مقصد نہ ایلوپیتھی ہے، نہ ہومیوپیتھی ہے، نہ حکمت ہے، نہ اکوپنچر ہے۔ طریقے مختلف موجود ہیں ہومیوپیتھی کا بالکل اصول ایلوپیتھی سے سو فیصد مختلف ہے لیکن اس سے بھی صحت ہوتی ہے۔ ایلوپیتھی علاج بالمثل ہے اور ھومیوپیتھی علاج باضد ہے۔ تو ٹھیک ہے اصول ہی مختلف ہیں لیکن بہرحال علاج تو ہوتا ہے، اس سے فائدہ تو ہوتا ہے۔ اب اس بات میں کسی کے ساتھ الجھنے کی ضرورت نہیں ہے وہ کہتے ہیں بس ٹھیک ہے۔ آپ کو کسی اور طریقے سے فائدہ ہوتا ہے تو آپ خود ذمہ دار ہیں میں کیوں آپ کو ایک طریقہ پر مجبور کروں؟ یہ تو محض طریقہ ہے۔

یہی سوال میں نے عرب حضرات سے کیا تھا میں نے کہا: آپ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ تو کہنے لگے وہ تو بہت بڑے آدمی تھے، میں نے کہا وہ کیسے بڑے آدمی تھے؟ آپ اس کو بڑا آدمی مانتے ہیں؟ کہنے لگے ہاں، میں نے کہا: آپ یہ مانتے ہیں کہ وہ صوفی تھے؟ کیا اس نے تصوف کی کتابیں لکھی ہیں؟ تو وہ خاموش ہو گیے، میں نے کہا دیکھو! اگر تصوف غلط ہے تو وہ بڑا آدمی نہیں ہو سکتا، کیونکہ بڑا آدمی غلط چیز پر کتابیں نہیں لکھتا، اور وہ غلط کام بھی کر لے اور پھر بھی آپ کہیں کہ وہ بڑا آدمی تھا، کیسے بڑا آدمی تھا؟ پھر تو آپ کی یہ بات غلط ہو جائے گی۔ اور اگر وہ بڑا آدمی تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس چیز پر اس نے کتاب لکھی ہو وہ بھی صحیح ہوگی، بس یہی وہ بات تھی جس نے ان کو پھنسا دیا، بس پھنس گیے۔ پھر میں نے کہا: میرا خیال ہے آپ تصوف کو مانتے ہیں، کام کو مانتے ہیں صرف نام کو نہیں مانتے، اس نے کہا ہم تو کام کو دیکھتے ہیں نام کو نہیں دیکھتے، اس پر وہ ہمارے دوست ہو گیے الحمد اللہ۔ تو مقصد میرا یہ ہے کہ یہ لڑائیوں کی جگہ نہیں ہے یہ تو اصولی بات ہے ذرائع اور مقاصد، یہ ذرائع ہیں اس کو طریقت اس لیے کہتے ہیں، طریقت کیا چیز ہوتی ہے؟ آپ لاہور جا رہے ہیں، آپ موٹروے پہ بھی جا سکتے ہیں، آپ جی ٹی روڈ پر بھی جا سکتے ہیں، آپ بائی ایئر بھی جا سکتے ہیں، آپ کسی اور راستے سے بھی جا سکتے ہیں، مثال کے طور پر آپ کسی اور راستے سے ملتان جائیں پھر ملتان سے لاہور آ جائیں، یہ جائز ہے یا نا جائز؟ بس یہ مختلف راستے ہیں اس طرح سے آپ مختلف راستوں سے ایک مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ تو یہ ذرائع ہیں اور ذرائع کو ذرائع سمجھو پھر کوئی مسئلہ نہیں، ذرائع کو مقصد نہ بناؤ اور مقصد پورا کرنے کے جتنے بھی ذرائع ہیں ان سے اگر اصلاح حاصل ہو سکتی ہو تو کسی کو اس پر منحصر نہ سمجھو کہ صرف یہی طریقہ ہے۔

ہمارے پاس لوگ آتے ہیں حضرت ہمارا مراقبہ نہیں چل رہا؟ اچھا اگر تم اسم ذات کا ذکر کرو تو اس سے بھی مقصد حاصل ہو جائے گا ہم خواہ مخواہ اس پہ زبردستی نہیں کرتے که ضرور وہ اسی طریقے سے آئے، بھائی یہ بھی ایک طریقہ اور ذریعہ ہے مقصد نہیں، تو پھر کبھی مسئلہ نہیں ہو گا، اس میں غلطی آپ کی بھی ہے کہ آپ نے خواہ مخواہ اس کو مقصد بنا لیا یہ مقصد نہیں ہے یہ ذریعہ ہے اور صحابی کا جو عمل ہے وہ تو علاج کے لیے اس کو نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ اپنی کیفیت کی وجہ سے کر رہے تھے اور ہمارا جو ذکر ہے یہ علاجی ہے، ہم اس کو علاج کے لیے کر رہے ہیں۔ اس لیے جو ذکر علاج کے لیے ہو تو وہ ذریعہ ہوتا ہے اس پہ نہ ثواب ہے اور نہ گناہ ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ اپنے نفس کا علاج کرنا فرض عین ہے تو اس کا ثواب تو آپ کو ملے گا۔

حضرت صوفی اقبال صاحبؒ نے بڑی عمدہ بات کی ایک دفعہ فرمایا: ہم اس میں ثواب نہیں سمجھتے لیکن جو اس کام کے لیے تیار ہو جائے ان کو ثوابوں کے دہانے پر بٹھا دیتے ہیں۔ مثلاً دیکھو اگر کوئی ذکر کرتا ہے اس کی کیفیت بن گئی للہیت کی اور وہ اس کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو ثواب کے دہانے پہ بیٹھ گیا یا نہیں؟ جیسے حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ عارف کی دو رکعت کی نماز غیر عارف کی لاکھوں نمازوں سے افضل ہوتی ہے تو جو عارف بننے کے ذرائع ہوں گے اس کو اختیار کرے گا تو عارف بن جائے گا تو ثواب کتنا ہو گا؟ تو ثواب معرفتِ الہی میں ہے، ثواب آپ کے اس طریقے میں نہیں ہے لیکن اس طریقے سے وہ چیز جو حاصل ہو گئی تو اس نے آپ کو ثواب کے لحاظ سے کہاں پہنچا دیا؟ میری بات سمجھ میں آ گئی؟ یہ نکتے کی بات ہے اس کو سمجھنا چاہیے۔ تو ایک بات تو یہ ہے کہ جو ذکر ہے اس کوکسی کے لیے نہیں چھوڑنا چاہیے اور نہ کسی اور کے لیے اس کو کرنا چاہیے۔ آپ اپنی صحت کے لیے علاج کر رہے ہیں آپ کسی اور کے لیے نہیں کر رہے ہیں آپ بیمار ہیں، خدانخواستہ ٹی بی ہو گئی اب ڈاکٹر کے پاس روز جا رہے ہیں تو یہ آپ کسی پر احسان تو نہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنے ہی فائدے کے لیے اس کو کر رہے ہیں تو لہذا بحث اس پہ ختم ہو گئی که کسی سے جھگڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال 12:

حضرت اقدس مولائی و مرشدی السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! خدمت اقدس میں عرض ہے کہ معارف المعارف میں حضرت شہاب الدین سہروردی نوراللہ مرقدہ نے تحریر فرمایا کہ سالک کو اپنے اندر بھی زیادہ بات نہیں کرنی چاہیے، زبان کی بات پر تو سب مشائخ پابندی فرماویں اور ہمارے حضرت والا خاموشی کے مجاہدات عطا فرماویں تو یہ شہاب الدین صاحب فرماتے ہیں کہ اپنے اندر اپنے آپ سے بھی زیادہ بات نہیں کرنا اگرچہ بظاہر گناہ نہ معلوم ہوں، مگر اس سے بھی دل سخت ہو جاتا ہے۔

حضرت! یہ مضمون پوری طرح سے سمجھ میں نہیں آیا اور اندیشہ ہے کہ شاید اس سے میں غلط سمجھ لوں تو حضرت والا کی خدمت اقدس میں عرض ہے که ہدایت اور روشنی فرما دیں۔ اور اس مضمون کو سمجھنے کے لیے جو بات حضرت کی برکت سے تھوڑی بہت ہمیں سمجھ میں آئی ہے میرے خیال سے وہ یہ ہے کہ حضرت شہاب الدین سہروردی مرقدہ عافیت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں که اللہ کی یاد سے غفلت کے خیالات کو دل سے دور لے جائیں۔ حضرت! اس پر وضاحت فرما دیں بڑا کرم ہو گا جزاکم اللہ خیرا؟

جواب 12:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللہ تعالیٰ مجھےصحیح بات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنے آپ کے لیے عربی میں "نفس" کا لفظ استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن پاک میں ارشاد ہے ﴿لُوْمُوْ اَنْفُسَکُمْ﴾ (سورہ ابراہیم، آیت نمبر 22) اپنے آپ کو ملامت کرو، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ سے جو باتیں کرنا ہے یہ حدیث نفس ہو گیا۔ حدیث نفس، نفس کی خواہش کے مطابق ہے بات کرنا، تو نفس کچھ کہے گا اور آپ کچھ اور کہیں گے تو اس کے ساتھ جدال اختیار نہیں کرنا چاہیے اس سے بھی دل سخت ہوتا ہے۔ تو آپ اگر حدیث نفس کو بھی اہمیت دیں گے آپ اس کے ساتھ بات کریں گے تو آپ کا دل سخت ہوتا جائے گا، کیونکہ یہ مناظرہ ہے اور مناظرہ سے دل سخت ہوتا ہے۔ تو آپ نفس کے ساتھ مناظرہ کرتے ہیں که وہ ایک کہتا ہے اور آپ دوسری کہتے ہیں، آپ دلائل بھی نہ دو لیکن نفس کی بات کو وزن بھی نہ دو، بس آپ صرف شریعت کی بات کو وزن دو، جو بات شریعت نے کی ہو۔ نفس جو کچھ بھی کہے اس کو اگنور کرتے جاؤ، میں نے ابھی آپ کو بتایا خود بخود جو خیالات آتے ہیں تو اس کو noise سمجھو، اس کو ایک وسوسہ سمجھو تو جب آپ اس کووسوسہ سمجھیں گے تو قابل اعتبار نہیں ہوگا آپ اس کی طرف توجہ نہیں کریں گے تو آپ کا وقت ضائع نہ ہوگا۔ اس بارے میں بہت سارے لوگوں میں گڑ بڑ ہوتی ہے، بہت سارے لوگ تو شیطان کے ساتھ بھی مناظرہ کرتے ہیں یہ تو اور بھی زیادہ خطرناک ہے که یہ آپ کو ایسی پٹخنی دے گا کہ یاد آ جائے گا آپ کو، عقائد تک لے جائے گا آپ کو اور پھر اسی میں گڑ بڑ کرے گا کیوں کہ آپ کو ساری چیزیں تو فوری طور پر پتہ نہیں، اس لیے وہ کوئی ایسا داؤ کھیلے گا کہ آپ کی زبان سے ایسی بات یا دل سے ایسی بات نکالے گا کہ عقیدے میں فساد ڈالے تو اس کے ساتھ بحث ہی نہیں کرنی چاہیے، بس اس کو پرے رکھو۔

ہماری پشتو میں کہتے ہیں که کتے بھونکتے ہیں اور کوے جا رہے ہوتے ہیں اور ان کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی، جیسے جب ہم I-10 کی طرف واک کے لیے جاتے تھے وہاں بعض گھروں کے اندر بڑے بڑے کتے ہوتے تھے جب ہم ان کے گھروں کے سامنے سے جاتے تو وہ بھونکتے، ان کی اتنی دہشت ہوتی تھی کہ آدمی خوف سے ہل جاتا تھا، تو میں ساتھی سے کہتا تھا یہ صرف ایک وسوسہ ہے کیونکہ یہ کچھ کر تو سکتا نہیں۔ اگر آپ کو پتہ ہو کہ جو کتا باندھا ہوا ہے یہ آپ کے ساتھ کچھ نہیں کر سکتا تو آپ اس کے بھونکنے کا کچھ خیال رکھیں گے؟ نہیں بس آپ آرام سے گزر جائیں گے پرواہ ہی نہیں کریں گے بھونکے تو بھونکتا رہے ،کیونکہ وہ آپ کو کچھ کہہ تو نہیں سکتا۔ تو یہی بات شیطان کی بھی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ پاک نے شیطان کے شر کو صرف اس کے وسوسہ تک محدودکر دیا، اب شیطان آپ کے ساتھ کچھ کر نہیں سکتا لیکن اگر مانیں گے تو بہت کچھ کر سکتا ہے، اس کے ساتھ بحث کرو گے تو نہیں کر پاؤگے، کیونکہ آپ اس سے بڑے عالم تو نہیں ہیں، لہذا وہ آپ کو نقصان دےگا۔

اسی طرح نفس ہمارے اندر ہے اور وہ ہماری اندرونی تمام چیزوں کے ساتھ involved ہے، اس وجہ سے آپ اس کے ساتھ بھی بحث کریں گے تو مناظرہ کی کیفیت ہو جائے گی نتیجتاً آپ اپنے آپ کو خراب کر لیں لہذا اپنے نفس کے ساتھ بھی باتیں نہیں کرنی چاہئیں، ان کے ساتھ بھی بحث و مناظرہ نہیں کرنا چاہیے، بس آپ شریعت پر عمل کر لیں یا طریقت پر۔ مثال کے طور پر آپ ذکر جہری کرتے ہیں اور دوسرے نہیں، تو ٹھیک ہے، آپ اپنا ذکر جہری کرو نفس کی پرواہ نہ کرو وہ آپ کو کیا کہتا ہے؟ نماز پڑھنے کے دوران آپ کو خیالات آئیں تو پرواہ نہ کرو بس اپنی نماز پڑھو، بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ جو ”اللہ اکبر“ہے یہ الحمد اللہ آپ کے لیے ہر بار الارم ہے کہ تو کیا کر رہا ہے؟ اس وقت تجھے کیا کرنا چاہیے؟ باقی تمام چیزوں کو اگنور کر دو۔ جب آپ کہتے ہیں اللہ اکبر تو سب سے پہلے تکبیر تحریمہ ہے اس نے آپ کی ساری چیزیں حرام کر دیں جو باہر کی ہیں، اب آپ کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں کوئی آتا ہے سلام کرتا ہے آپ نے جواب نہیں دینا، آپ باہر چلے گیے۔

ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحبؒ نے اس کو ایک عجیب طریقے سے سمجھایا فرمایا: دیکھو کبھی آپ نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ جو آپ کے ساتھ بیٹھا ہو اور اچانک کہ دے السلام علیکم آپ کہیں گے کیا ہو گیا ہے بھائی آپ کو؟ آپ تو میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے تو یہ اچانک آپ نے کیسے سلام کیا لیکن یہ نماز میں ہم روز دیکھتے ہیں کہ جن کے ساتھ ہم بیٹھے ہیں، جس وقت نماز مکمل کر لیں تو کہتے ہیں السلام علیکم، السلام علیکم اس پہ آپ حیران نہیں ہوتے وجہ کیا ہے کہ وہ ادھر تھے ہی نہیں وہ تو اللہ کے پاس تھے، اب آپ کے پاس واپس آ گیے۔ لہٰذا اب آپ کو سلام بھی کیا اور آپ کے ساتھ بات چیت بھی کر سکتے ہیں سارا کام اب شروع ہو گیا، تو اسی طریقے سے جس وقت آپ ادھر تھے ہی نہیں تو آپ کی ہر چیز بالکل اللہ کے ساتھ ہے لہذا جب بھی اللہ اکبر آپ نے کہ دیا اللہ بڑے ہیں باقی چیزیں ساری چھوٹی ہیں Don’t consider ان کو آپ بالکل consider ہی نہ کریں۔ کوئی خیال آ رہا ہے، کوئی وسوسہ آ رہا ہے، کوئی چاہت ہو رہی ہے، کوئی خارش ہو رہی ہے پرواہ ہی نہ کریں، جب اس طرح کریں گے ان شاء اللہ العزیز آپ کی نماز نماز بن جائے گی اور آپ کا ہر عمل درست ہو جائے گا، اگر آپ اس طریقے سے کریں گے کہ بس آپ پرواہ نہ کریں نفس کی باتوں کی بھی پرواہ نہ کریں، شیطان کی باتوں کی بھی پرواہ نہ کریں۔ اور حضرت تھانویؒ کے بقول اگر ویسے آپ کے ساتھ کوئی الجھے اور ان چیزوں کو نہ مانتا ہو تو اس کے ساتھ بھی بحث نہ کریں کیوں اس کے لیے یہ سزا کافی ہے کہ اس سے محروم ہے "با مدعی مگوید اسرار عشق و مستی" جو نہیں ماننے والا اس کے ساتھ عشق مستی و اسرار کی باتیں نہ کرو اس کے لیے یہ سزا کافی ہے کہ وہ اس سے محروم ہے بس اس کو آپ چھوڑ دو اور اطمینان کے ساتھ کام کرو۔ آپ کو پرواہ ہی نہیں ہو گی، آپ کو بس یہ خیال رکھنا چاہیے۔

سوال نمبر 13:

(حضرت فرماتے ہیں) مجھے کے پی کے ایک جگہ سے ان کی عید پر عید مبارک آئی جو ان کی تھی ہماری نہیں تھی تو میں نے کیا جواب دیا ہوگا؟

جواب 13:

میں نے جواب میں کہا بھائی آج ہماری عید نہیں ہے، مختصر بات کی۔

سوال نمبر 14:

ایک صاحب نے لکھا ہے حضرت جی!

I have missed tahajjud and fajr jamaat on the first day of shawwal?

جواب 14:

میں نے پہلے عرض کیا تھا که عید کے بعد سے شیطان کھل گیا ہے تو اس نے تو چکر چلانا ہے اس کا اہتمام کرنا ہماری ذمہ داری ہے اہتمام کرنے کے بارے میں، میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں حضرت سید شاہ عطاء اللہ بخاریؒ بہت زبردست مقرر تھے ختم نبوت کے خطیب تھے بہت زیادہ لوگ ان کی تقریریں سننے کے لیے آیا کرتے تھے حتیٰ کہ نہرو بھی ان کا قرآن سننے کے لیے آیا کرتا تھا، تقریر ایسی ہوتی تھی که جب عشاء کے بعد شروع کرتے تو فجر کی آذانیں ہو جاتیں اور ان کی تقریر جاری رہتی تھی، لوگ اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے، ایک دفعہ اسی طرح اجتماع میں تقریریں ہوئیں اور فجر میں تھوڑا سا گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ وقت باقی تھا کہ بات ختم ہو گئی۔ تو سید شاہ عطاء اللہ بخاریؒ تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گیے مولانا حسین مدنیؒ بھی ساتھ تھے تو کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ کوئی میرے پاؤں کی مالش کر رہا ہے اور کہا کہ عجیب مالش تھی کہ ہاتھ سے پاؤں کو دبایا جا رہا تھا لیکن نیند بھی اس سے متاثر نہیں ہو رہی تھی بلکہ اس سے اور آرام مل رہا تھا، عجیب! میں حیران تھا کہ یہ کس کے ہاتھ ہو سکتے ہیں جب آنکھیں کھولیں تو حضرت مدنیؒ تھے وہ میری مالش کر رہے تھے، فرمایا که میں اچھل کے بیٹھ گیا، میں نے کہا: حضرت میرے دوزخ میں جانے کی کوئی کسر رہ گئی ہے کہ آپ مجھے پہنچانا چاہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کیوں خیریت تو ہے؟ میں نے کہا، آپ کیوں میری مالش رہے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: نہیں ایسی بات نہیں ہے، اصل میں وقت چونکہ بہت مختصر تھا تو میں نے کہا کہیں آپ کی آنکھ لگ نہ جائے اور نماز فجر نہ رہ جائے۔ بات سمجھ میں آ رہی ہے۔ اس میں میسج یہ ہے کہ اگر اپنے اوپر اعتماد نہ ہو کہ میں اٹھ سکوں گا یا نہیں؟ اور وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے پوری رات میں نے گزار لی ہے، اب میں تھوڑی دیر کے لیے سوؤں گا تو پھر دوبارہ اٹھ نہیں سکوں گا تو پھر سوئے ہی نہ بلکہ دن میں نیند پوری کر لے۔ عید مبارک دینا لازم نہیں اور فجر کی نماز فرض ہے، آپ بے شک کسی کو عید مبارک نہ کہیں بس عید کی نماز پڑھ لیں اور پھر سو جائیں اور آرام سے پانچ چھ گھنٹے نیند پوری کر لیں اور پھر ظہر سے پہلے نماز کے لیے اٹھ جائیں۔ نہ آپ کسی کو عید مبارک کہیں نہ کوئی آپ کو کہے، کیوں که یہ کوئی فرض و واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، کہہ سکتے ہیں۔ آپ نے واجب ادا کر لیا یعنی عید کی نماز آپ نے پڑھ لی، اس کے بعد آپ ظہر تک فارغ ہو، ظہر کی نماز کے لیے پھر اٹھ جائیے گا اور درمیان میں مستحبات تو ہیں لیکن جب مستحب اور فرض میں تقابل آئے تو فرض کو ادا کریں گے اور مستحب کو چھوڑ دیں گے۔

اس طرح تہجد کی نماز مستحب ہے لیکن اگر کسی کا معمول ہے تو اس کے لیے مستحب سے کچھ قدر زیادہ ہے کیونکہ اس کا معمول ہے اور اس کے اوپر بہت سارے فوائد آپ کو ملنے ہیں، لہذا اس کی پابندی کریں، اسی طرح جماعت کی بھی پابندی کیجیے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ غلطی یہ ہوئی ہے که یا تو اٹھنے کا پورا اہتمام نہیں تھا یعنی الارم کا یا کسی کے جگانے کا، کیونکہ ھم بھی اسی طرح کرتے ہیں۔ آپ جب بارہ بجے کے بعد سوئیں گے تو اس رات تہجد کیسے پڑھ پائیں گے؟ ایسے ہی اگر آپ بارہ بجے کے بعد سو رہے ہیں تو تہجد پڑھ کر سو جائیں، اور اگر آپ کو رہ جانے کا اندیشہ ہو تو پھر کسی کی ڈیوٹی لگا لیں اور اپنے آپ کو اٹھانے کا بندوبست کر لیں، اگر جماعت میں وقت کم ہو تو انتظار کرنا چاہیے اور نماز پڑھ کر پھر سو جانا چاہیے اللہ تعالیٰ آسان فرمائے۔