خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدْ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
آج پیر کا دن ہے اور اس دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں، سب سے پہلے واٹس ایپ پر جو سوال آتے ہیں ان کے بارے میں عرض کیا جاتا ہے، پھر اس کے بعد messages اور emails کے ذریعے سے جو سوالات آ چکے ہوتے ہیں ان کے بھی جوابات دیئے جاتے ہیں، پھر حاضرین میں سے اگر کوئی سوال کرنا چاہتے ہیں تو بھی کوشش کی جاتی ہے که ان کی تشنگی دور کی جائے۔
سوال نمبر 01:
سیدی حضرت شاہ صاحب واجب الاحترام السلام علیکم اللہ پاک آپ کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے اور تا دیر آپ کے فیوض و برکات سے فائدہ ہوتا رہے، حضرت صوفی صاحب نور اللہ مرقدہ کے انتقال کے بعد بار بار خیال آ رہا تھا کہ آپ کی خدمت اقدس میں عرض کروں کہ آپ تک پہنچنے کے لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جو مختلف مواقع مہیا کئے، ان میں حضرت صوفی صاحبؒ بھی تھے۔ 2003 میں جب میں کراچی سے لاہور آیا تو کراچی کے علماء نے فرمایا تھا کہ حضرت صوفی صاحب سے رابطہ رکھیں، اپنے ناکارہ پن کی وجہ سے میں استفادہ تو نہیں کر سکا، نہ ہی اس وقت تصوف کا کوئی اندازہ تھا۔ صحبت صالحین کی نیت سے مجالس میں جایا کرتا تھا، حضرت کے انتقال کے بعد دل سے بات نکلتی ہے کہ نوافل کی برکت سے اللہ جل شانہ نے مجھے اپنے شیخ تک پہنچا دیا اور دل میں خیال آ رہا تھا کہ بسا اوقات تعلیمات کی سمجھ نہ بھی آئے، محض تعلیم میں شرکت سے بہت سارے نا معلوم انوارات و برکات اور عافیت کے در کھل جاتے ہیں، اس وقت حضرت صوفی صاحبؒ نے دو کام کرنے کو کہے تھے: داڑھی رکھ لو اور شادی کر لو، دونوں ہی کوہ گراں محسوس ہوئے تھے اور بعد میں دونوں کو اللہ پاک نے عطا فرما دیا تھا یہ تو ظاہری اعمال تھے۔ باطنی اعمال کا علم تو میں نے آپ کی خدمت میں سیکھا، گو که یہ ظاہری اعمال سے بھی خشک محسوس ہوتے ہیں لیکن آج سمجھ میں آ رہی ہے کہ جُڑے رہنے سے کیا کیا برکات نصیب ہوتے ہیں۔ اس استفادہ کا اندازہ انسان اس وقت نہیں کر سکتا۔ اللہ پاک ہمیں اپنے شیخ سے مکمل استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔
جواب 01:
یہ ہمارے ایک ساتھی کے جذبات ہیں جو ان کے حضرت صوفی صاحبؒ کی وفات پر بن گئے ہیں۔ بہرحال بات تو صحیح ہے کہ اگر انسان جڑا رہے تو کام چل پڑتا ہے۔ کہتے ہیں لگے رہو، لگے رہو تو لو لگ جائے گی۔ بزرگوں نے چھوٹے چھوٹے فقروں میں بہت قیمتی باتیں فرمائی ہوتی ہیں۔ اسی طرح کہتے ہیں: ڈرتے ڈرتے کام کرو، کام کرتے کرتے ڈرا کرو۔ یہ ساری باتیں سمجھانے کے لئے مختلف طریقوں سے بزرگوں نے حالات کے مطابق، لوگوں کے مزاج کے مطابق، معلومات کے مطابق، ارشاد فرمائی ہوتی ہیں۔
سوال 02:
السلام علیکم حضرت جی! آپ سے ایک بات پوچھنی تھی وہ یہ که فلاں ابھی میٹرک میں ہے ، ذہین تو بہت ہے ماشاء اللہ لیکن فی الحال اس کی کنڈیشن ایسی ہے که جب آن لائن گیم کھیلتا ہے تو پھر نماز بھی پڑھتا ہے، بات بھی سنتا ہے اور سکول کا کام بھی کرتا ہے لیکن اگر ایسا نہ کیا جائے تو بالکل باغی ہو جاتا ہے، پھر کسی کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور گانے اور فلمیں ٹی وی پر دیکھتا ہے اور نمازیں بھی چھوڑ دیتا ہے، سمجھانے سے بھی نہیں سمجھتا، اس صورت میں حضرت اس کو فون میں گیم کھیلنے دوں؟ کہ کم از کم نماز تو پڑھ لے ایسا کرنے سے میں گنہگار تو نہیں ہوں گی یا اس کا مجھ پر کوئی اثر تو نہیں آئے گا۔
جواب 02:
اگر کوئی گیم ایسا ہے جس میں کوئی تصویریں وغیرہ نہ ہوں، جس میں صرف وقت تو ضائع ہوتا ہو لیکن اور گناہ نہ ہوتا ہو تو پھر اس میں چونکہ وہ بچہ ہے بلکہ بچہ نہیں بڑا ہے لیکن بچوں کی طرح ہے تو اس کے لئے پھر کچھ گنجائش ہے۔ لیکن اگر اس میں تصویریں وغیرہ ہیں تو پھر انسان گناہ گار ہو جاتا ہے۔ ایک گناہ کو چھوڑنے کے لئے دوسرا گناہ کرنا ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔
سوال نمبر 03:
السلام علیکم کیا حال ہے شاہ صاحب! ٹھیک ہیں ،خیر و عافیت ہے، صحت طبیعت ٹھیک ہے، رمضان مبارک ہو۔ جو آپ نے ذکر دیا تھا مجھے اس کا ایک مہینہ پورا ہو گیا ہے۔ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار یہ تو تا حیات ہے جو ساتھ ہی کر رہا ہوں۔ اس کے علاوہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ 200 دفعہ اور لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ 300 دفعہ اور حَق 300 دفعہ اور اسم اللہ 100 دفعہ اس کا ایک مہینہ پورا ہو گیا ہے، دو دن اوپر ہو گئے، وقت پر اطلاع نہیں دے سکا۔ حضرت! اگلی ترتیب بتا دیجئے؟ جزاک اللہ خیرا۔
جواب 03:
اب لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ 400 مرتبہ اور حَق 400 مرتبہ اور اسم اللہ 100 مرتبہ اس کے علاوہ 100، 100 مرتبہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار ہیں، یہ عمر بھر ہی جاری رہے گا ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 04:
شیخ صاحب آپ نے آخری ذکر ایک monthکرنے کو کہا تھا، پر میں ڈنمارک چلا گیا اور وہ ذکر میں نے دو month تک کیا اور پچھلے ایک month سے زیادہ ہو گیا ہے که مجھ سے وہ ذکر چھوٹ گیا ہے اور اب دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہوں آپ کی رہنمائی چاہیے۔ میرا آخری ذکر یہ تھا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ 200 بار، لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ 200 بار، اور حَق 200 بار، اور اسم اللہ 100 بار۔
جواب 04:
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ 200 بار، لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ 300 بار، حَق 300 بار اور اسم اللہ 100 بار کر لیں اور جو ذکر چھوٹ گیا ہے اس کے لئے اپنے آپ کو تنبیہ کریں کہ یہ آپ اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، کیونکہ جب انسان ذکر نہیں کرتا تو اس کا دل نہیں بنتا اور جب دل نہ بنے تو نفس کی اصلاح نہیں ہوتی، نتیجتاً سارا کام رک جاتا ہے اور عین ممکن ہے ایسی جگہ پہ پہنچ جائے کہ پھر ادھر سے اصلاح نہ ہو سکے۔
سوال نمبر 05:
السلام علیکم محترم! 16 مئی کو اللہ کے فضل وکرم اور آپ کی دعاؤں سے مندرجہ ذیل ذکر کو ایک ماہ پورا ہو گیا ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ 400 مرتبہ، حَق 600 مرتبہ اور حَق اَللہ 1000 مرتبہ۔ حَق اَللہ کے ذکر کے دوران یہ تصور کیا کہ اللہ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ میرے احوال فی الحال یہ ہیں که تین ماہ سے کوشش کر رہا ہوں کہ کم بولوں، غیر ضروری بات بالکل نہ کروں، جس پر عمل درآمد کافی مشکل رہا اور اب رمضان شریف میں ان شاء اللہ پکا ارادہ ہے کہ زبان کا استعمال صرف اللہ کی رضا کے لئے ہو۔ آپ سے دعاؤں کی درخواست اور اللہ سے مدد کی امید ہے۔ اس سے پہلے آپ مجھے نظر کی حفاظت کا مجاہدہ دے چکے ہیں وہ مجاہدہ الحمد اللہ پورا ہوا اور بہت فائدہ بھی ہوا۔
جواب 05:
یہ ذکر تو رمضان شریف میں فی الحال جاری رکھیں البتہ رمضان شریف کے معمولات کا چارٹ ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے اس کو ڈاؤن لوڈ کر لیں اور ایک ترتیب، جس پہ آپ عمل کر سکتے ہیں، منتخب کر لیں اور اس پر عمل شروع فرما لیجیے۔ اور باقی کم بولنے کی عادت بنانا یہ بہت اچھا ہے، اللہ جل شانہ ہمیں زبان کے غیر ضروری استعمال سے محفوظ فرمائے۔ آمین
سوال نمبر 06:
السلام علیکم، میرے عزیز و محترم حضرت مولانا شبیر احمد شاہ صاحب دامت برکاتھم! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے، حضرت جی! آپ کو صرف اس بات کی اطلاع دینی تھی که الحمد للہ اب نماز میں میرا جی لگنا شروع ہو گیا ہے، خدانخواستہ اگر میری سنت یا نوافل رہ جائیں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ گویا میرے فرائض چھوٹ گئے ہیں ایک اور راز کی بات یہ بھی ہے کہ ہر نماز میں جب concentrate کرتا ہوں، ذہن میں اللہ پاک کا دھیان لاتا ہوں تو میرا لطیفہ نفس forehead میں خوب حرکت میں آتا ہے اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ میرا سر بہت کشادہ اور تازہ ہو رہا ہے الحمد اللہ، اس طرح کا احساس تقریباً ہر عبادت میں شروع ہو گیا ہے خصوصاً نماز میں۔ باقی ذکر و اذکار، قرآن، نوافل اور تراویح وغیرہ، پاک مرشد کی توجہ و برکات سے ٹھیک جا رہے ہیں۔
جواب 06:
الحمد اللہ، اللہ جل شانہ اور بھی سلسلے کے فیوض و برکات نصیب فرما دے۔
سوال نمبر 07:
حضرت! ایک اور سوال پوچھنا ہے کہ میں رمضان شریف میں روزانہ پندرہ پارے پڑھتا ہوں یعنی ہر دو دن میں ختم قرآن کرتا ہوں کیا میری یہ routine صحیح ہے؟
جواب07:
جی اگر آپ اس کو صحیح طور پہ چلا سکتے ہیں تو یہ بہت مبارک ہے کیونکہ رمضان شریف قرآن کا مہینہ ہے اور قرآن پاک کی تلاوت زیادہ کرنی چاہیے۔ اللہ جل شانہ آپ کو اور ہم سب کو زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن کی توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر 08:
Also may I ask if there is a dua we can recite when we are sad or we are stressed?
جواب 08:
﴿سَلَامٌ قَوْلاً مِّن رَّبِّ رَّحِیْم﴾ (یٰس: 58)
You can recite it 100 times at that time and also after offering prayers, when you are asking dua, so there is one masnoon dua ”اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ“ (مسند احمد، حدیث: 5506)
you can recite it three times In Sha Allah after prayer
سوال نمبر 09:
السلام علیکم حضرت جی! مجھ میں بزرگی کا مرض معلوم ہوتا ہے بہت زیادہ کوشش کرتا ہوں مگر یہ نہیں نکل رہا، برائے مہربانی علاج فرما دیں۔
جواب 09:
اپنے آپ کو نیک اور بزرگ سمجھنا ایک بیماری ہے اگر آدمی اپنے آپ کو نیک اور صالح سمجھتا ہو تو سمجھ جائے که وہ بزرگ نہیں ہے کیونکہ اس بیماری کے ہوتے ہوئے کوئی بزرگ نہیں بن سکتا تو جب بھی بزرگی محسوس ہو تو اپنے آپ کو کہ دیں کہ ٹھیک ہے لیکن میں نیک نہیں ہوں، پہلے اگر تھا بھی تو اب نہیں ہوں، اس بیماری کا علاج یہی ہے کہ آدمی اپنے آپ کو سمجھائے کہ اگر میں پہلے تھا بھی، تو اب نہیں ہوں۔ ہمارے حضرت کے ہاں اس کا علاج ایک اور صاحب کرتے تھے وہ نیم مجذوب آدمی تھے وہ حضرت کے خادموں میں سے تھے، پڑے رہتے تھے، وہ فرماتے تھے بزرگا! بزرگی بڑی دور ہے بڑی لمبی کجھور ہے۔ یہ بزرگی کا جو مرض ہے اس میں کوئی شک نہیں که یہ بہت خطرناک مرض ہے لیکن جس کو لاحق ہے تو وہ مان لے کہ میں بیمار ہوں بزرگ نہیں ہوں، اور جب بزرگ نہیں تو problem نہیں، بس بات ختم ہو گئی۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم حضرت! شیطان نماز میں ہمارے دل میں وساوس ڈالتا ہے جس کی ہمیں پرواہ نہیں کرنی ہوتی، لیکن جب شیطان رمضان میں قید کر لیا جاتا ہے اس کے باوجود نماز میں ہمارے ذہن میں وساوس آتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ ذہن میں اس وجہ یہ آئی کہ ہماری جبلت میں برائیاں ہیں جن پہ قابو نہیں پایا گیا ہوتا۔ نفس کی تربیت کرکے جبلت کی برائیاں ختم کی جا سکتی ہیں جو رمضان میں اپنا زور دکھاتی ہیں۔
جواب 10:
اصل میں آپ کی analysis میں دو غلطیاں ہیں، ایک یہ کہ شیطان قید ہوتا ہے لیکن نفس قید نہیں ہوتا اس لیے ”حدیث النفس“ تو جاری رہتا ہے، آپ جس کو وساوس شیطانی کہتے ہیں وہ اصل میں حدیث النفس ہے اس وجہ سے آپ اس کو چھوڑ دیں، آپ اس کی پرواہ نہ کریں، جیسے آپ شیطان کے وساوس کی پرواہ نہیں کرتے اسی طرح نفس کے وساوس کی بھی پرواہ نہ کریں اس کا علاج یہی ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جبلت کی بات نہیں ہوتی کیونکہ جبلت کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا البتہ نفس کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے تو نفس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے جب نفس ٹھیک ہو جائے گا تو حدیث النفس نہیں ہو گا، البتہ جبلت کی کمزوریاں ہیں وہ تو رہیں گی، لیکن ان کے خلاف کر کے آپ اجر کمائیں گے ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم شاہ صاحب!
How one will know that he is progressing in his Islah tarbiya. How does collective gathering جوڑ have impact on tarbiyat as one can spare time for it but he is consistent in his day acts, daily acts? Jazaka Allah.
جواب 11:
اصل میں آپ نے جو بات پوچھی ہے کہ انسان کیسے اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ ترقی کر رہا ہے؟ اب اگر وہ اپنے طور پر اندازہ لگائیں گے تو وہ دو وجوہات سے غلط ہو گا یا اس کی اصلاح ہو چکی ہو گی یا نہیں ہو چکی ہو گی۔ اگر نہیں ہو چکی ہے تو اس کی ریڈنگ غلط ہے اور اگر ہو چکی ہے تو اپنے آپ کو اور زیادہ برا سمجھے گا کیونکہ اس کو تمام چیزوں کی اہمیت معلوم ہو چکی ہو گی اور چونکہ اپنے آپ میں وہ نہیں دیکھ رہا ہو گا تو اس پر وہ کہے گا کہ میری اصلاح نہیں ہوئی ہے ورنہ وہ اور بھی زیادہ پریشان ہو گا۔ مثال کے طور پر مولانا زکریا صاحبؒ اپنی کتابوں میں اپنے آپ کو پتہ نہیں کیا کیا لکھتے تھے۔ تو کیا حضرت نعوذ باللہ من ذالک جھوٹ بولتے تھے؟ یا حضرت واقعی ایسے تھے؟ دونوں باتیں نہیں تھیں، صرف یہ بات ہے کہ احساس زیادہ ہو گیا تھا۔ جیسے انسان کی نظر بہت تیز ہو جاتی ہے اور معمولی معمولی چیزوں کو بھی نوٹ کرتا ہے تو اسی طرح وہ اپنے آپ کو کمزور سمجھتے تھے۔ تو آپ کو بات سمجھ میں آ گئی ہو گی کہ اپنے طور پر اندازہ لگانا ٹھیک نہیں ہے البتہ جن کے ساتھ آپ ہیں وہی آپ کے بارے میں اندازہ لگا سکتے ہیں که آپ ٹھیک ہیں یا نہیں؟ اگر بیمار خود اپنے آپ کو ٹھیک کہے تو ضروری نہیں کہ وہ ٹھیک ہو، لیکن اگر ڈاکٹر کہ دے کہ ٹھیک ہو گیا تو پھر ظاہر ہے وہ ٹھیک ہو گا۔ اس وجہ سے ہمیں اس کے بارے میں خیال رکھنا چاہیے۔
جوڑ کی جہاں تک بات ہے ماشاء اللہ بہت اچھا اس کا اثر ہوتا ہے کیونکہ بعض چیزیں ماحول سے انسان حاصل کرتا ہے۔ جوڑ میں چونکہ اصلاح کا ماحول ہوتا ہے اور سب لوگ اس کے لئے آئے ہوتے ہیں، لہذا ایک دوسرے سے سیکھتے رہتے ہیں، سیکھنےکا جذبہ بھی سیکھنا چاہیے، انسان دوسروں سے سیکھتا ہے لہذا جوڑ میں شرکت کرنی چاہیے۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن