اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْد بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
حضرت جی اگر سوال میں کوئی غلطی ہو تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ ان کے ساتھ نہ بیٹھنے کی وجہ سے مجھے دو نقصان ہو سکتے ہیں ایک تکبر کہ مجھے اس سے اچھی صحبت حضرت والا دامت برکاتہم کی میسر ہے، دوسرا یہ کہ کہیں دین کے دوسرے شعبوں کی حقارت دل میں نہ آ جائے۔ اگر حضرت والا منع فرمائیں تو حکم کی بجا آوری پر یہ دونوں تفکرات اور وساوس ختم ہو جائیں گے۔
جواب:
جس جگہ صحبتِ نا جنس ہو اس جگہ سے بچنا چاہیے۔ اپنے شیخ اور شیخ سے متعلقہ کاموں کے مخالفین کے ساتھ بیٹھنے سے نقصان ہوتا ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی زندگی میں برکت عطا فرمائے (آمین)۔ حضرت جی میرے چار لطائف لطیفہ خفی تک مکمل ہو گئے ہیں۔ مراقبہ کرتے وقت سارے لطائف اب کم محسوس ہوتے ہیں لیکن کسی وقت خود بخود محسوس ہونے لگ جاتے ہیں، یا سوتے وقت زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اب آپ لطیفۂ اخفیٰ شروع کر لیں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی بچوں کو کس عمر میں بیعت کروائی جائے۔
جواب:
بچوں کو بیعت کرنے میں بزرگوں کے مختلف طریقے ہیں۔ کچھ حضرات بچوں کو بیعت نہیں کرواتے وہ کہتے ہیں کہ ان کو سمجھ نہیں ہے یہ بیعت کے تقاضوں پہ عمل نہیں کر سکیں گے جبکہ کچھ بزرگ بچوں کو بیعت کر لیتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ جیسے پہلے مشائخ طلباء کو بیعت نہیں کرتے تھے کیونکہ زمانہ طالب علمی میں سب سے اہم کام طلبِ علم ہوتا ہے اور اسی کو اولیت دی جاتی ہے، لیکن بعد میں حالات تبدیل ہو گئے اور بزرگوں نے طلبا کو بھی بیعت کرنا شروع کر دیا۔ بچوں کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔
تصوف میں ضرورت کے مطابق طریقے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ تصوف ایک تدریجی عمل ہے ایک practical چیز ہے یہ theory پہ نہیں چلتا یہ practical چیزوں کے ساتھ چلتا ہے۔ جیسے بیماریوں کے علاج وقت کے ساتھ اور بیماری کی نوعیت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ بیماری تبدیل ہوتی ہے تو علاج بھی تبدیل ہوتا ہے حالات تبدیل ہوتے ہیں لوگ تبدیل ہوتے ہیں علاقے تبدیل ہوتے ہیں۔ ہر ایک کے لئے اپنا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔
جب بزرگوں نے دیکھا کہ اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ طلباء کو عالم بننے کے بعد اپنی اصلاح کی فکر نہیں رہتی اور ان میں علم کی تعلی آ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی سے بیعت نہیں کرتے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ بزرگوں نے جب اس چیز کو بھانپ لیا تو انہوں نے طلباء کو بھی بیعت کرنا شروع کر لیا۔ اب تو شاید ہی کوئی بزرگ ایسا ہو جو طالب علموں کو بیعت نہ کرتا ہو کیونکہ اب وقت ایسا آ گیا ہے۔ وقت کے لحاظ سے چیزیں تبدیل ہوتی ہیں۔ بعینہٖ یہی بات بچوں کے بارے میں بھی ہو سکتی ہے۔ مشائخ حضرات پہلے بچوں کو بیعت نہیں کرتے تھے، خود میں بھی بیعت نہیں کرتا تھا، مجھے بھی بچپن میں بیعت نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔ اب بچے ایک دفعہ آپ کے ہاتھ سے نکل گئے، بڑے ہو گئے اور ان کے مزاج میں وہ چیزیں نہیں آئیں تو معاملہ خراب ہو جاتا ہے، بعد میں ان کے مزاج میں اِن چیزوں کو لانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔
بہرحال میں پہلے بچوں کو بیعت نہیں کرتا تھا، لیکن دو واقعات ایسے ہوئے جن کے بعد میں نے بچوں کو بیعت کرنا شروع کر دیا۔ ایک بچی بغیر پوچھے خود بیعت ہو گئی تھی اس کے حالات بڑے اچھے ہو گئے تھے۔ ایک یہ تجربہ ہوا اور دوسرا تجربہ یہ کہ ایک بچے کو میں نے ٹیلی فون کے ذریعے مسجد نبوی سے بیعت کیا تھا بعد میں اس کے بھی بڑے اچھے حالات سامنے آئے اور ابھی تک بہت اچھے چل رہے ہیں۔ اس سے مجھے پتا چل گیا کہ حالات بدل گئے ہیں اب بچوں کو بیعت کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے اچھے نتائج سامنے آ ئے ہیں۔ اس وجہ سے اب میں بچوں کو بیعت کرتا ہوں البتہ اتنے چھوٹے بچوں کو نہیں کرتا جن کو سمجھ ہی نہ ہو۔ بیعت کے لئے کم از کم اتنا شعور تو ہو کہ بڑا کون ہے چھوٹا کون ہے بات کس طرح مانی جاتی ہے۔ اتنا شعور ہونا ضروری ہے جو آٹھ دس سال میں آ جاتا ہے اس عمر میں بیعت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جس بچی اور بچے کی بات میں نے سنائی، بچی کی عمر غالباً چھ سات سال تھی اور بچہ تقریباً آٹھ سال کا تھا۔ لہٰذا اس معاملے میں چونکہ ہمیں تجربہ ہو چکا ہے اس وجہ سے اس کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ باشعور بچوں کو بیعت کرنے میں کوئی حرج نہیں، باقی ہر کسی کا اپنا ذوق ہے میں کسی پہ زور نہیں دوں گا جس کا جو ذوق ہو گا اس کے مطابق عمل کرے گا۔
سوال نمبر4:
بچوں تربیت اور اصلاح کا طریقہ کیا ہے؟
جواب:
اکثر مجھ سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہم بچوں کی تربیت کیسے کریں تو میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے میں کہتا ہوں بچوں کی تربیت کرنے والے کی تربیت پہلے ہونی چاہیے۔ اگر تربیت کرنے والے کی اپنی تربیت نہ ہوئی ہو تو وہ بچے کی تربیت کیسے کرے گا۔ جو کسی راستے پہ خود نہیں گیا دوسرے کو کیا لے کے جائے گا۔ لہٰذا سب سے پہلے اپنی تربیت شروع کروا لیں اسی کے ذریعے بچوں کی تربیت بھی ہو جائے گی۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی پہلے میں مدینہ میں موت اور جنت میں نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام اور آپ معیت کی دعا کرتا تھا۔ کچھ دنوں سے ذہن میں یہ سوچ آ رہی ہے کہ مجھ جیسا گناہوں سے لدا شخص کسی صورت بھی اس قابل نہیں کہ وہ اللہ سے اتنی عظیم ہستیوں کی معیت کی دعا کرے، میں کس منہ سے وہ مانگوں جس کی نہ میں نے کبھی نیک نیتی سے کوشش کی اور نہ کبھی وہ کر پایا جو اللہ کے نیک بندے اللہ کو راضی کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ حضرت جی اب بھی اپنی اتنی بڑی دعا سے شرم محسوس ہوتی ہے، آپ رہنمائی فرمائیں کیا اپنی خواہش کے مطابق یہ دعا کرنی چاہیے اگر کریں تو کس طریقے سے کریں۔
جواب:
یہاں مسئلہ اور ہے جس سے مانگنا ہے اس کی شان کے مطابق دعا کی جائے اپنی شان کے مطابق دعا کریں گے پھر تو شاید ہمیں زندہ رہنے کا بھی حق نہیں ہے چہ جائے کہ ہم کوئی اور چیز مانگ لیں لیکن چونکہ اللہ پاک کریم ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے کرم کو دیکھ کر مانگا کرو اور بڑی سے بڑی چیز مانگا کرو اور بڑی سے بڑی چیز کی نیت بھی کر لیا کرو۔ تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے لہٰذا آپ جتنی بڑی نیت کریں گے اللہ تعالیٰ آپ کو اتنا بڑا اجر دے گا اس لئے نیت بڑی سے بڑی کر لیا کرو۔
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ پاک سے اللہ کی شان کے مطابق مانگ لیا کرو اپنی شان کے مطابق نہیں ہاں اپنے گناہوں اور اپنی کمزوری پہ نظر ضرور ہو اور ان گناہوں پہ توبہ و استغفار بھی لازمی کیا جائے، لیکن اللہ پاک سے مانگنے میں کسی صورت رکنا نہیں چاہیے کیونکہ اللہ پاک نے خود حکم فرمایا ہے:
﴿فَادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ (المومن: 60)
ترجمہ: ”مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا“۔
یہ حکم عام ہے ہر ایک کے لئے ہے اس میں کسی شخص کی یا کسی چیز کی تخصیص نہیں کی گئی لہٰذا مانگو جو مانگ سکتے ہو، مانگنے میں کمی نہ کرو۔ البتہ مانگنے کا انداز سیکھو مانگنے کے آداب سیکھو، البتہ ڈھٹائی نہ کرو۔ ڈھٹائی سے مراد یہ ہے کہ ایسا مت کرو کہ عمل کا ارادہ اور کوشش بالکل بھی نہ کرو۔ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرو اور ساتھ ساتھ دعا بھی مانگو۔ ایسا نہ ہو جیسے پشتو کی ایک ضرب المثل ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک عورت ننگی حجرے میں چلی گئی اور کہتی ہے اے اللہ میری عزت رکھ لے۔ ایسی ڈھٹائی سے کام نہ لیا جائے بلکہ دعا مانگی جائے عاجزی کے ساتھ، اعتراف جرم کے ساتھ اور اپنی کمزوریوں کو مد نظر رکھ کر اللہ جل شانہ کی شان عالی پر نظر ہو، بہتر یہ ہے کہ آدمی رو رو کر دعا مانگے کیونکہ حدیث شریف میں اس کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ”رو رو کے مانگو اگر رونا نہیں آتا تو رونے کی سی شکل بنا لو“۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک نقل بھی قبول فرماتے ہیں اس لئے اگر اصل نہ ہو تو کم سے کم نقل کر لیا کریں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ڈھٹائی نہ ہو، ڈھٹائی بہت خطرناک چیز ہے۔
چونکہ دعا کے بارے میں سوال کیا گیا ہے اور دعا کے بارے میں ہمارا ایک کلام بھی ہے، اس مناسبت سے وہ سنا دیتا ہوں۔ ساتھ ساتھ سنانا اچھا رہتا ہے اس سے مزاج ذرا ٹھیک ہو جاتا ہے پتا چل جاتا ہے کہ کیا بات ہو رہی ہے۔
مانگنے کے لئے چشم تر چاہیے
اور ہر حال میں اس پہ نظر چاہیے
کیا نہیں اس کے ساتھ اس کا سوچو ذرا
اس حقیقت کا دل پہ اثر چاہیے
میں گناہ گار ہوں اس کا قابل نہیں
مانگنا اس سے بہرحال مگر چاہیے
صرف گناہ گار کہنے سے بات کیا بنے
کچھ تو دل میں حقیقت میں ڈر چاہیے
تشریح:
جیسے آج کل رواج ہے کہ اپنے آپ کو بڑا عاجز و مسکین بنا کر پیش کرتے ہیں کہ میں حقیر فقیر پر تقصیر، احقر بندۂ ناچیز وغیرہ، اس طرح کے سابقے لاحقے لگا کر خوب عاجزی ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ سارا ڈرامہ ہوتا ہے حقیقت میں وہ چیز حاصل نہیں ہوتی۔ تو ایسی ڈرامہ بازی نہ ہو آدمی واقعی دل سے سمجھتا ہو کہ میں گناہگار ہوں۔ ہم گناہگار تو ہیں ہی، اس پہ تو قسم بھی کھائی جا سکتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارے دل نے اس کو تسلیم کیا ہے یا نہیں کیا، اگر ہمارے دل نے تسلیم نہیں کیا تو ہم اپنے آپ کو گناہگار کہہ کر ڈرامہ کر رہے ہیں یہ ڈرامہ بازی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تو نہیں چل سکتی، اللہ کو تو ہر چیز کا پتا ہے۔ بلکہ اس قسم کی ڈرامہ بازی کا ہوشیار لوگوں کو بھی پتا چل جاتا ہے ان کو بھی دھوکہ نہیں دیا جا سکتا، اللہ پاک کو دھوکہ دینے کی تو سوچ بھی محال ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ”لَا یَخْدَعُ وَ لَا یُخْدَع“۔ نہ وہ دھوکہ دیتا ہے نہ دھوکہ کھاتا ہے۔ وہ دھوکہ نہیں دیتا اس کا مطلب ہے کہ دیندار ہے اور وہ دھوکہ نہیں کھاتا اس کا مطلب ہے کہ ہوشیار ہے اسے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح شرفاء کو پتا چل جاتا ہے کہ کون کس ٹون میں بول رہا ہے لیکن وہ زبان سے کہتے کچھ نہیں ہیں۔ پتا تو چل رہا ہوتا ہے کہ کیا چیز ہے اس لئے ڈرامہ بازی نہ ہو صحیح بات ہو، آدمی اپنے آپ کو گناہگار سمجھے اور پھر اللہ پاک سے مانگے تو اللہ پاک ضرور معاف فرماتے ہیں۔
اس کے محبوب کی سنت پہ چلتے رہو
بننا محبوب اس کا اگر چاہیے
اور ہر حال میں اس پہ نظر چاہیے
دل اسے جانے نفس اس کا مانے شبیرؔ
تشریح:
یہ صرف دو باتیں ہیں جیسے ایمان اور تقویٰ سے ولایت حاصل ہوتی ہے، جس میں ایمان اور تقویٰ ہے ولی اللہ ہے، اسی طرح یہاں پر بھی دو باتیں ہیں:
دل اسے جانے نفس اس کا مانے شبیرؔ
دل اللہ کو جانے اور نفس اللہ کی مانے۔ جاننے کا تعلق ہدایت کے ساتھ ہے ماننے کا تعلق ہدایت کا ثمرہ ہے۔ جاننا تو ضروری ہے ہی، لیکن ماننا بھی اسی درجے میں ضروری ہے۔ کسی کو راستہ معلوم ہے لیکن اس پہ چلتا نہیں تو اس کو راستہ معلوم ہونے کا فائدہ تو نہیں ہوا علمی فائدہ تو ہوا ہے مگر عملی فائدہ کوئی نہیں ہوا۔ مکمل فائدہ تب ہو گا جب علم بھی ہو اللہ پاک کی صفات کا پتا بھی ہو اللہ تعالیٰ کی معرفت بھی حاصل ہو اور ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کرتا ہو۔ دل اسے جانے اور نفس اس کی مانے، یہ دونوں باتیں ضروری ہیں اور یہی دو چیزیں ہمارے نقشبندی سلسلے کی بنیادی باتیں ہیں جنہیں آج کل لوگ بھول گئے ہیں کہ دل کا اپنا رول ہے اور نفس کا اپنا رول ہے۔
آج کل کے بعض نقشبندی حضرات نے دل کی بات تو تسلیم کی ہے لیکن نفس کی بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ نفس کی تربیت بھی چاہیے، وہ سمجھتے ہیں بس دل کی تربیت ہو گئی یہی کافی ہے۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں، اگر بادشاہ آپ کے ساتھ ہو جائے اور بادشاہ کے سارے کارندے آپ کے خلاف ہوں تو آپ کیا کریں گے، بادشاہ خود تو کچھ نہیں کرتا وہ کسی سے کرواتا ہے جن سے اس نے کام کروانا ہے وہی اس کی بات نہ مانیں تو بادشاہ کیا کرے گا وہ کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔
یہ وہ بات ہے جو لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ دل کا تعلق جاننے کے ساتھ ہے ہدایت کے ساتھ ہے، دل کے ذریعے سے علم کے درجے میں ہدایت حاصل ہوتی ہے پتا چلتا ہے کہ صحیح کیا ہے غلط کیا ہے لیکن نفس کے ماننے سے کام بنتا ہے۔ چونکہ نفس کے ماننے میں دل کا جاننا خود بخود میں شامل ہے لہٰذا اللہ پاک نے جو فرمایا:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا﴾ (الشمس: 9، 10)
ترجمہ: ” فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔“
اس میں اللہ نے مکمل فیصلہ سنا دیا کہ یقیناً کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو رذائل سے پاک کر دیا اور یقیناً تباہ برباد ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو اسی طرح چھوڑ دیا جس طرح وہ تھا۔ نفس کو پاکیزہ بنانے میں دونوں باتیں آ جاتی ہیں، دل اس کو جانے اور نفس اس کی مانے پھر بات بنے گی۔
اس کے محبوب کی سنت پہ چلتے رہو
بننا محبوب اس کا اگر چاہیے
تشریح:
سبحان اللہ کیا عجیب نکتہ ہے۔ یہ بات قرآن پاک میں فرمائی گئی ہے:
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾ (الاحزاب: 21)
ترجمہ: ” حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے“۔
اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آپ ﷺ کے طریقے پر چلنے میں کامیابی ہے بہترین نمونہ یہی ہے اس کے علاوہ اور کوئی نمونہ نہیں، لیکن آپ ﷺ کے طریقے پہ چلنے میں دو رکاوٹیں ہیں ایک شیطان دوسری نفس۔ جب تک یہ رکاوٹیں ہیں اس طریقہ پہ چلنا مشکل ہوگا۔ اس کی مثال یوں لے لیجیے کہ آپ کو راستہ معلوم ہے کہ اس پہاڑ کے پیچھے شہر ہے مجھے وہاں پہنچنا ہے لیکن آپ پہاڑ پر چڑھنے کے لئے تیار نہیں ہیں، پہاڑ کے علاوہ اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے تو کیا خیال ہے بہت زیادہ رونے پیٹنے سے پہنچ جائیں گے؟ ظاہر ہے رونے سے تو کام نہیں بنے گا ہمت سے کام بنے گا۔ ایک شخص بالکل نہیں رویا ہمت کر کے چڑھ گیا دوسرا آدمی مسلسل روتا رہا اور ہمت نہیں کی، ان میں سے کون کامیاب ہے؟ جو ہمت کرکے پہنچ گیا وہی کامیاب ہے۔
جب دل کی اصلاح ہو جاتی ہے تو وہ روتا ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں نفس اس سے گناہ کرواتا ہے لیکن اس کا دل رو رہا ہوتا ہے بے حد نادم ہوتا ہے او جب نفس کی اصلاح ہو جاتی ہے تو پھر انسان ہمت سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو جاتا ہے، پھر رکاوٹ نہیں رہتی۔ کیونکہ شیطان بھی نفس ہی کو استعمال کرتا ہے۔ اگر نفس کی اصلاح ہو گئی تو شیطان کچھ بھی نہیں کر سکتا کیونکہ شیطان آپ کے نفس کی خواہشات کے ذریعے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے اور آپ سے گناہ کروا لیتا ہے، اگر آپ کے دل اور نفس کی اصلاح ہو چکی ہے تو شیطان وسوسہ کے لئے نفس کو استعمال نہیں کر سکے گا وسوسہ سے کام خراب ہی تب ہوتا ہے جب نفس اس وسوسہ کی طرف چل پڑتا ہے اگر نفس وسوسہ کی طرف دھیان نہ دے تو وسوسہ بس ایک ہوائی چیز ہے آئی اور گئی اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا اور اگر نفس کی اصلاح نہ ہوئی تو وہ وسوسوں کو بہت دور سے کیچ کر لیتا ہے۔ مثلاً کہیں دور ڈھول بج رہا ہو اور جس کے دل میں ڈھول سننے کا شوق ہو تو تھوڑی تھوڑی آواز آنے پر ہی یہ تھرکنا شروع کرے گا اس طرف جانا شروع کرے گا اور اگر اصلاح ہو چکی ہے اور ان چیزوں کو چھوڑ چکا ہے تو بے شک اس کے قریب ہی میوزک بج رہا ہو یہ اس کی طرف توجہ بھی نہیں کرے گا بلکہ اُس کو اِس پہ اجر ملے گا۔
یہی بنیادی بات ہے نفس کی اصلاح کے بغیر کامیابی نہیں ہے اللہ پاک نے کامیابی نفس کے تزکیہ کے ساتھ مشروط کی ہے کہ فلاح وہ پائے گا جس نے نفس کا تزکیہ کر لیا۔ جو حدیث شریف میں آیا ہے وہ بھی بالکل صحیح ہے لیکن اس کو صحیح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جس کا دل درست ہو گیا اس کا سارا جسم درست ہو گیا اور جس کا دل خراب ہو گیا اس کا سارا جسم خراب ہو گیا۔
دل ایک حوض ہے اور اس کی طرف مختلف نہریں آتی ہیں۔ ایک نہر آنکھ سے آئی ہے، ایک نہر کان سے آئی ہے، ایک نہر دماغ سے آئی ہے، ایک نہر ہاتھ پاؤں سے آئی ہے ایک نہر دوسرے اعضاء سے آئی ہیں، یہ ساری نہریں گند لا رہی ہیں اور وہ گند دل میں پڑ رہا ہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ اگر مسلسل گند آ رہا ہو اور آپ نکال رہے ہوں، جتنا آپ نکالتے ہوں اتنا ہی اور آ جاتا ہو، تو آپ کیسے دل کو پاک کریں گے۔ دل کو پاک کرنے کے لئے آپ کو وہ راستہ بند کرنا پڑے گا جہاں سے گند آ رہا ہے۔ پہلا کام یہ کرو کہ اس نہر کو بند کر دو اس کو صاف کرو، دل میں جتنا گند جمع شدہ ہے اسے ذکر کے ساتھ نکالو۔ اب گند لانے والا راستہ بھی بند ہو گیا اور دل بھی صاف ہو گیا، اب اصلاح مکمل ہوئی ہے۔
پہلے دور میں تمام سلاسل میں نفس کا علاج پہلے کیا جاتا تھا، ان کا مطمح نظر یہ ہوتا تھا کہ نفس کا پہلے بندوبست کر لو اس کے بعد دل کا بندوبست کرنا آسان ہے۔ نفس کے علاج میں بہت سارا وقت لگتا تھا اس کی اصلاح کے بعد دل کی صفائی تھوڑی ہی دیر میں ہو جاتی تھی۔ شاہ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ نے کتنا ذکر کیا تھا، سارا وقت مجاہدے میں گزارا تھا، ذکر تو انہوں نے بہت تھوڑا کیا، بعد میں شاید ایک دو دن کیا ہو جبکہ مجاہدہ کئی مہینوں تک کرنا پڑا۔
تو پرانے دور میں تمام سلاسل میں پہلے سلوک طے کرایا جاتا تھا نفس کا علاج اولاً کیا جاتا تھا، بعد میں حضرت نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کو احساس ہوا کہ لوگ سلوک کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ ٹھیک ہے سلوک سے سارے مسئلے حل ہو جاتے ہیں لیکن لوگ سلوک طے کریں گے اس کے لئے تیار ہوں گے تبھی فائدہ ہوگا، کوئی تیار ہی نہیں ہو گا تو سلوک طے کرے گا بھی نہیں، نتیجتاً اس کا علاج بھی نہیں ہوگا۔ اس لئے ان کو تیار کرنے کے لئے دل پر پہلے اتنی محنت کر لو کہ کم از کم سلوک طے کرنے کے لئے تیار تو ہو جائے۔ جب تیار ہو جائے تو سلوک طے کرا دو۔ جس مقصد کے لئے حصول جذب کو ابتداء میں لایا گیا ہے اگر وہ مقصد ہی ختم کر دیا جائے تو پہلے حصول جذب مفید نہیں ہو گا بلکہ نقصان دہ ہو گا۔ اگر بعد میں سلوک طے ہی نہیں کرنا اور آپ جذب میں اڑ رہے ہیں تو ایسے ہے جیسے آپ نے جہاز اڑا تو دیا مگر اب نیچے نہیں لا سکتے پھر کیا کرو گے، جب تک فیول ہو گا تب تک تو اڑے گا اس کے بعد پتھر کی طرح گرے گا گر کر پاش پاش ہو جائے گا۔ ایسے مجذوبوں کا یہی حال ہوتا ہے جب تک وہ ہوا میں اڑ سکتے ہیں اڑیں گے اور پھر پتھر کی طرح گریں گے کیونکہ نفس کی کشش ثقل بڑی مضبوط ہے وہ کسی کو نہیں چھوڑتا۔ اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا عقل مند ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لئے کام کیا اور بے وقوف ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو کرنے دیا جو کرنا چاہا اور پھر بغیر توبہ کے اللہ پاک سے مغفرت کی امید کرتا رہا۔
اس تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ صرف دل کو پاک کرنا کافی نہیں ہے، دل کی اصلاح بھی ضروری ہے اور نفس کی اصلاح بھی ضروری ہے۔ یہ دونوں باتیں قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مکتوبات میں فرمایا کہ زیادہ علم کے حصول سے فنائیت نہیں ہو گی بلکہ حجابات ہوں گے۔ حضرت یہ کون سا علم ہے، علم بھی تو ضروری ہے۔ یہ واضح فرما دیجئے کہ اصلاح کے لئے سالک کو کتنے علم کی ضرورت ہے کہ علم اس کے لئے حجاب نہ بنے اور وہ فنائیت کی طرف بڑھ سکے۔
جواب:
پہلے یہ جان لیں کہ فنائیت کس کو کہتے ہیں۔ فنائیت علم کے فنا کو نہیں کہتے فنائیت کہتے ہیں اپنے نفس کے تقاضے فنا کرنے کو۔ نفس کا علاج ہو جائے گا تو فنائیت حاصل ہو جائے گی۔ نفس اور نفس کے تقاضوں کی فنائیت نفس مطمئنہ حاصل کرنے سے ہوتی ہے کہ نفس کے وہ تقاضے جو اللہ کے حکم سے ہٹانے والے ہیں وہ ختم ہو جائیں، مقام رضا حاصل ہو جائے تو نفس مطمئنہ حاصل ہو جاتا ہے۔
لہٰذا فنائیت نام ہے نفس کے تقاضوں کو فنا کرنے کا، نفس تو باقی رہے گا، لیکن پہلے وہ نفس امارہ تھا، اس کے شر کے تقاضے ختم ہو جائیں گے اور وہ نفس امارہ سے نفس مطمئنہ بن جائے گا۔ جب یہ چیز حاصل ہو جائے تو آپ کا علم صحیح استعمال ہو گا ورنہ علم صحیح استعمال نہیں ہو گا نفس اس علم کو بھی اپنے تقاضوں کے مطابق استعمال کروا لے گا۔ اس لئے فنائیت حاصل کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔
علم الیقین اور عین الیقین پہ تو حضرت مجدد صاحب کا پورا مکتوب ہے، جس کا خلاصہ دو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا لیکن اتنا عرض کروں گا کہ جب نفس کے تقاضے فنا ہوتے ہیں تو پھر اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت بھی حاصل ہو جاتی ہے اور اللہ جل شانہ کے حکم پر عمل کرنا بھی ممکن ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر7:
نماز پڑھتے ہوئے کسی آیت کا خیال آنا، کسی حدیث شریف کا خیال آنا، اللہ پاک کی کسی بات یا آپ ﷺ کا خیال آنا الغرض نماز کے دوران کسی بھی دینی بات کا ذہن میں آنا، کیا یہ بھی شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کو بھی فوری طور پہ رد کرنا چاہیے؟
جواب:
خیال آنے پہ پابندی نہیں ہے خیال لانے پر پابندی ہے۔ جو خیال خود آتے جائیں وہ کتنے ہی گندے خیال کیوں نہ ہوں ان کی پرواہ نہ کریں، بس اتنا کریں کہ ان کی طرف توجہ نہ کریں۔ جیسے ہم راستے میں جا رہے ہوں تو راستے میں کتنے غیر محرم آ جا رہے ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں نہیں دیکھتے ہمیں پتا بھی ہوتا ہے کہ غیر محرم گزر رہا ہے یا گزر رہی ہے مگر ہم ان کی طرف نہیں دیکھتے، جب تک ہم ان کی طرف نہیں دیکھتے ہمیں کوئی گناہ نہیں، اگر دیکھیں گے تو گناہ ہوگا۔ خیالات کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے یہ راستے پہ آنے جانے والے غیر محرم لوگ ہیں ان کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیے۔
آپ کو ایک عجیب بات بتاؤں۔ فقہ کا ایک قاعدہ ہے اسی سے یہ وساوس کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عورت آ رہی ہو آدمی کو اس کی شکل ٹھیک سے نظر نہیں آئی لیکن چال ڈھال سے یہ سمجھا کہ اس کی بیوی ہے اور اس کی طرف دیکھنے لگا، جبکہ درحقیقت وہ کوئی اور عورت تھی، لیکن یہ اسے بیوی سمجھ کر مسلسل دیکھ رہا ہے اور جب وہ قریب آئی تو معلوم ہوا کہ یہ تو کوئی اور ہے میری بیوی نہیں ہے، یہ جانتے ہی اس نے نظر ہٹا لی۔ فقہاء فرماتے ہیں کہ یہ آدمی ذرہ بھر گناہ گار نہیں ہے کیونکہ جیسے ہی اس کو پتا چل گیا کہ یہ کوئی اور ہے اس نے نظر ہٹا لی، پہلے جو دیکھ رہا تھا وہ اس نیت سے دیکھ رہا تھا کہ یہ میری بیوی ہے اور اعمال کا دارومدار نیوں پر ہے۔
اسی مسئلہ کو اپنے خیالات والے مسئلہ پر منطبق کر لیں اور خوب سمجھ لیں کہ خیال لانا اور خیال آنا، ان میں فرق ہے۔ کسی خیال کا خود آنا آپ کے لئے غیر اختیاری امر ہے اس لئے اس پر آپ کو کوئی گناہ نہیں جبکہ خیال لانا آپ کے اختیار میں ہے لہٰذا اگر خیال لائیں گے تو ذمہ دار بھی ہوں گے۔
یہ تو عام مسئلہ کی بات ہوگئی یعنی نماز وغیرہ کے علاوہ اوقات میں اگر آپ بری چیز کا خیال خود لائیں گے تو گناہ گار ہوں گے اور اگر یہ خیال خود آتا ہے تو آپ کو کوئی گناہ نہیں ہے۔ اسی طرح نماز کے دوران اگر کوئی خیال خود بخود آ جائے، خواہ وہ اچھا خیال ہو یا برا خیال ہو، کسی بھی قسم کا خیال خود بخود آ جائے تو کوئی گناہ نہیں۔ لیکن نماز کے دوران کسی قسم کا خیال خود سے لانا منع ہے، نماز کی حالت میں اچھے خیالات بھی نہیں سوچ سکتے۔ مثلاً میں یہ درس دے رہا ہوں۔ اب اچھی بات کا درس دینا اچھا کام ہے، اگر میں اللہ کے لئے دے رہا ہوں تو اس پہ ثواب ملے گا لیکن میں اگر یہی درس نماز میں سوچنا شروع کر لوں کیا خیال ہے اس پہ ثواب ملے گا؟ ہر گز نہیں بلکہ اگر میں جان بوجھ کر نماز میں درس کے بارے میں سوچنا شروع کر دوں تو گناہ ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ نماز کے دوران نماز کے علاوہ کوئی چیز کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ نماز میں صرف نماز ہی کی اجازت ہے۔ لہٰذا خیال لانا تو جائز نہیں ہے لیکن خود سے خیال آنے پہ پابندی نہیں ہے کیونکہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم۔ حضرت جی یہ بات سمجھا دیں کہ کسی خیال کے بارے میں یہ کیسے پتا چلے گا کہ جو خیال آ رہا ہے یہ نفس کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے۔
جواب:
آئندہ کے لئے جب بھی کوئی سوال بھیجے تو ساتھ اپنا نام بھی لکھ دیا کرے۔ یہ بات کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ نام لکھنے کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مجھے پتا چل جاتا ہے کہ میں کسی کو کس depth میں جا کر سمجھاؤں اگر پرانا آدمی ہو تو اس کے مطابق بات کروں گا، حوالے بھی دوں گا اور اگر بالکل نیا آدمی ہو تو دوسرے طریقے سے بات کروں گا۔ یہ بہت غلط عادت ہے کہ سوال بھیج دیا اور نام نہیں لکھا۔ کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹیلی فون نمبر سے معلوم کر لوں کہ فلاں ہے تو وہ غلط سمجھتا ہے، مجھے اپنے بیٹوں کے نمبر بھی نہیں معلوم، ان کا فون آ جائے تو مجھے فون نمبر سے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ فلانے کا نمبر ہے۔ یہ ایک فضول حرکت ہے ایسا نہیں کرنا چاہیے تکلیف ہوتی ہے اور شیخ کے ساتھ کبھی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے اس کو تکلیف ہو، اس سے مرید کو نقصان ہو جاتا ہے۔
اب سوال کا جواب دیتے ہیں۔ ایک حدیث نفس ہے اور ایک وسوسہ شیطانی ہے حدیث نفس‘ نفس کی وجہ سے آتی ہے اور نفس کی خواہشات کے مطابق ہوتا ہے مثلاً میری نگاہ مسلسل کسی غیر محرم کی طرف جا رہی ہے، اور دل میں غیر محرم کو دیکھنے کا خیال آئے جا رہا ہے تو یہ نفس کی طرف سے ہوگا کیونکہ نفس کی خواہش فکس ہوتی ہے وہ ایک ہی چیز کی مسلسل ضد کرتا ہے جبکہ شیطان کو کسی خاص چیز کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں وہ آپ کو گناہگار کرنا چاہتا ہے، آپ ایک چیز سے گناہگار نہیں ہوں گے تو دوسرے گناہ کا خیال آپ کے دل میں ڈال دے اس کا اثر آپ نے نہ لیا تو تیسرا ڈال دے گا کوئی یہودی نہیں بننا چاہتا اسے عیسائی بنا دے گا، عیسائی نہیں بننا چاہتا تو ہندو بنا دے گا، ہندو نہیں بننا چاہتا تو پارسی بنا دے گا۔ شیطان کو اس سے کیا کہ وہ ہندو ہو، پارسی ہو، سکھ ہو یا جو کوئی بھی ہو، اسے بس اس چیز سے مطلب ہے کہ یہ مسلمان نہ ہو۔ شیطان گناہ میں interested ہے لذت میں interested نہیں ہے، جبکہ نفس لذت میں interested ہے گناہ میں interested نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ نفس بالکل ایک جائز چیز کا خیال بار بار لائے مثلاً کوئی سفر پہ جائے اور اسے اپنی بیوی یاد آ رہی ہو تو یہ خیال ہے تو نفس ہی کی طرف سے لیکن اس پہ کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ بیوی اس کے لئے حلال اور جائز ہے۔ نفس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ گناہ ہی کا خیال کرے اور شیطان کے لئے ضروری نہیں کہ وہ لذت کا خیال کرے، شیطان گناہ میں interested ہے نفس لذت میں interested ہے۔ لذت لا محدود ہوتی اس میں حلال جلدی ختم ہو جاتا ہے اور حرام کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے لہٰذا نفس کا اینڈ گناہ پر ہوتا ہے لیکن ابتداءً اس کا تعلق گناہ سے ہونا ضرور ضروری نہیں ہے، اگر اس کا وہی شوق کسی جائز طریقے سے پورا ہو جائے تو سبحان اللہ، وہ مطمئن ہو جائے گا۔ اس کی کسوٹی یہ ہے کہ اگر مسلسل ایک چیز کا خیال بار بار آ رہا ہے، سوچ ایک ہی چیز میں پھنسی ہوئی ہے، سوئی ایک ہی خیال پہ اڑی ہوئی ہے تو سمجھو کہ نفس کی وجہ سے ہے اور اگر بار بار خیالات تبدیل ہو رہے ہیں طرح طرح کی چیزیں آ رہی ہیں تو سمجھو شیطان کی طرف سے ہے۔ اگر آپ کو یہ نہیں پتا چلتا کہ کون سا خیال نفس کی طرف سے ہے اور کون سا شیطان کی طرف سے، تو کوئی مسئلہ نہیں آپ یہ ذہن میں رکھیں کہ گناہ سے بچنا فرض ہے چاہے وہ نفس کی طرف سے ہو یا شیطان کی طرف سے ہو، اور گناہ سے بچتے رہیں، یہی کافی ہے۔ سوال نمبر9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی مجھ میں بزرگی کا مرض معلوم ہوتا ہے، خود کو بہت زیادہ سمجھا رہا ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں مگر بزرگی نہیں نکل رہی۔ برائے مہربانی علاج فرما دیں۔
جواب:
خواہ مخواہ وسواسی نہ بنیں۔ بزرگی کو نکالنا بہت آسان بات ہے۔ جب آپ کو بزرگی کا خیال آ جائے تو اپنے آپ کو سمجھائیں کہ اگر پہلے میں بزرگ تھا بھی تو اب نہیں رہا، کیونکہ اب مجھ میں بزرگی کا خیال آ گیا ہے، اپنی بزرگی کا خیال آنا عجب ہے، اب مجھ میں عجب آ گیا ہے اور جس میں عجب ہو وہ بزرگ ہو ہی نہیں سکتا، چونکہ میرے دل میں اپنی بزرگی کا خیال آیا اور عجب آیا اس لئے اب میں بزرگ نہیں رہا بلکہ اب تو گناہ گار ہوں کیونکہ عجب گناہ کبیرہ ہے۔ اگر آپ کے دل میں عجب ہے تو بزرگی نہیں ہے، اور بزرگی ہے تو عجب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ دونوں جمع تو نہیں ہو سکتیں۔ اگر آپ کے دل میں عجب ہے پھر بھی اپنے آپ کو بزرگ سمجھ رہے ہو تو پھر یا تو تم وسواسی ہو یا پھر سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔
حضرت عزیز جان مرحوم، ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خادم تھے، وہ اکثر لوگوں سے فرمایا کرتے تھے: ”بزرگا! بزرگی بڑی دور ہے، بڑی لمبی کھجور ہے“۔ واقعی ان کی بات درست ہے۔ بزرگی تو بڑی دور کی بات ہے ہم انسان بن جائیں تو بہت بڑی بات ہے۔ بہت بڑی بات ہے اگر ہم صحیح انسان ہی بن جائیں۔ بزرگی کو کیا کرو گے پہلے انسان بننے کی کوشش کر لو۔ یہ فیصلہ اللہ پہ چھوڑ دو، تم وہ کرو جو تمھارا کام ہے۔
؏ کار خود کن کار بیگانہ مکن۔
اپنا کام کرو دوسرے کا کام نہ کرو۔
یہ قبولیت والا کام بھی اللہ پاک کا ہے۔ تمہارا کام اس سے مانگنا ہے، دینا اللہ کا کام ہے، بزرگ بنانا اللہ کا کام ہے تمھارا کام نہیں ہے، تمھارا کام مانگنا، عمل کرنا اور صحیح راستے پہ چلنا ہے، باقی سب اللہ پاک کا کام ہے۔
سوال نمبر10:
حضرت جی آپ کا کلام بچوں کے لئے کیسا ہے اگر ان کو سنوا دیا کروں۔ میرے کزن نا مناسب انداز کی نعتیں سنتے تھے میرے منع کرنے پر مجھ سے ٹھیک والی نعتیں مانگیں تو میں نے آپ کا کلام ان کو کاپی کر کے دیا ہے لیکن دل میں یہ کھٹکا ہے کہ پہلے آپ سے پوچھنا چاہیے تھا کہ اس کے لئے مناسب ہے یا نہیں، اگر آپ فرمائیں تو ڈیلیٹ کر دوں، ان بچوں کی عمر پانچ سے تیرہ برس تک کی ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ۔ بڑا اچھا اور عملی سوال ہے۔ میں نے اپنی یہ نعت ان کو بھیج دی ہے۔
اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے
اس کی سنت پہ چلوں اس کی تو ہمت دے دے
اور انہیں کہا کہ یہ نعت اس کو سنائیں، دیکھیں کہ ان پہ کیا اثر ہوتا ہے پھر مجھے بتا دیں تو میں اندازہ لگا لوں گا کہ ان کے لئے کتنا بہتر ہے کتنا نہیں ہے۔ اس خاتون نے یہ نعت ان بچوں کو سنوا کر جواب دیا کہ حضرت میری چچی تو چار منٹ سے زیادہ نہیں سن سکی اور رو پڑی، ان کے بھائی کے وفات کی وجہ سے ان کا دل نرم ہو گیا ہے یہ نعت تو دل میں سرایت کرتی ہے۔ پانچ سال والا بچہ concentrate نہیں کر پا رہا اس کو تو پتا بھی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے، دس سالہ بچے نے بہت شوق سے اس کو سنا اور بار بار اس کو پلے کر رہا ہے، تیرہ سالہ بچی نے بھی شوق اور ادب سے سنی۔
اس سے پتا چلا کہ دس سال، تیرہ سال کی عمر کے بچوں اور ان کی والدہ کے لئے ٹھیک ہے ان کو سنا سکتے ہیں۔ جبکہ پانچ سال والا بچہ ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہے، ان کو کسی اور طریقے سے سمجھانا ہو گا۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم
I will not let your hard work go in vain ان شاء اللہ. I will overcome my weaknesses and keep my true مقصد and مقصود in front of me. Need your duas forgive me.
جواب:
ٹھیک ہے جی الحمد للہ مبارک ہو، آپ کو اس کا حساس ہو گیا، اللہ تعالیٰ آپ کو اور بھی نوازے۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو مزید بلند فرمائے اور ہم پہ آپ کا سایہ سلامت رکھے۔ ایک خواب گوش گزار کرنا تھا۔
جواب:
یہ خوابوں کا موقع نہیں ہے۔ ہم جاگتے کی باتیں کریں تو بڑی بات ہے۔
سوال نمبر13:
ایک صاحب نے لکھا ہے حضرت رمضان میں خانقاہ آنے کا خیال ہے۔
جواب:
نیک خیال ہے۔ اچھا خیال ہے۔
بعض لوگ دعاؤں کے لئے کہتے ہیں۔ دعاؤں کے لئے میرا یہ طریقہ ہے کہ میں اسی وقت کر لیتا ہوں ادھار نہیں رکھتا کیونکہ ہمارے کاموں کی نوعیت ایسی ہے کہ مصروفیت بے حد ہوتی ہے اور اگر کوئی کام اسی وقت نہ کیا جائے تو پھر رہ جاتا ہے۔ ابھی میں کہتا ہوں کہ یہ چیز اٹھاؤں گا اور جب وقت آئے گا تو میں بھول چکا ہوں گا وہ پڑی رہ جائے گی۔ جب اس قسم کی صورتحال ہے تو پھر میں کسی کے لئے کیا کہہ سکتا ہوں کہ وہ مجھے یاد رہے گا اس وجہ سے بہتر یہی ہے کہ جو کہتے ہیں میرے لئے دعا کریں تو میں اسی وقت کر لیتا ہوں تاکہ بعد میں دعا رہ نہ جائے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہر وقت ہر آدمی کے لئے اس طرح دعا نہیں کر سکتا کہ ہاتھ اٹھا کر بڑے لمبے طریقے سے دعا کر لوں یہ ممکن نہیں ہوتا ایسا خاص اوقات میں ہوتا ہے جیسے نماز کے بعد دعا ہوتی ہے، لیکن دل کی دعا ہر وقت ہو سکتی ہے اس کے لئے ہونٹ ہلنا بھی ضروری نہیں ہیں اور وہ دعا ہم فورًا کر دیتے ہیں۔
سوال نمبر14:
حضرت السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ آج کل اعمال میں بہت سستی ہو رہی ہے۔ تلاوت قرآن پاک، نفل نمازیں وغیرہ سب رک گیا ہے حالانکہ پہلے رمضان کی آمد پر جوش و خروش ہوتا تھا اور خوب اعمال ہوتے تھے۔
جواب:
میں نے جواب دیا کہ سستی کا علاج چستی ہے۔ چاہے دل پر جبر کے ذریعے سے ہو یا کسی بھی طرح ہو سستی کا علاج چستی ہی ہے۔ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے کہ آپ کہیں جب میرا دل چاہے گا تو میں کروں گا۔ اگر ایسا ہے تو پھر آپ اللہ کے لئے تو نہیں کر رہے اپنے دل کے لئے کر رہے ہیں۔ اللہ کے لئے تو تب ہو جب دل چاہے نہ چاہے آپ ہر صورت عمل کریں۔
جب میں جرمنی میں تھا وہاں ایک ٹی بی کے مریض سے ملاقات ہوئی جو سینیٹوری میں داخل تھا۔ بات چیت کے دوران اس نے مجھے کہا کہ اس بیماری کے علاج کے لئے مجھے کافی ساری دوائیاں صبح نہار منہ کھانی ہوتی تھیں جو سیدھا جا کے معدہ پہ لگتی تھیں۔ کہتے ہیں میں روتا تھا میں کہتا کہ میں نہیں کھا سکتا نرسیں اور ڈاکٹر کہتے چاہے رو کے کھاؤ، چاہے ہنس کے کھاؤ یہ تمھاری مرضی ہے کھانی تو پڑے گی اگر نہیں کھاؤ گے تو لا علاج ہو جاؤ گے۔ آپ کے معاملہ میں بھی یہی جواب ہے۔ چاہے رو کے عمل کر لو چاہے ہنس کے کر لو، کرنا تو پڑے گا۔ حضرت مجذوب رحمۃ اللہ علیہ نے اسی چیز کو سمجھانے کے لئے ایک شعر میں بات کی ہے فرمایا:
کہا سمندر کے سیر کا شوق ہے کہا کرو،
کہا طوفان کا ڈر ہے کہا طوفان تو ہو گا
کہا اونٹ کی سواری کا شوق ہے کہا کرو،
کہا کوہان کا ڈر ہے کہا کوہان تو ہو گا
میں نے بھی ایک شعر ساتھ لگا دیا:
کہا پڑھنے کا شوق ہے کہا پڑھو،
کہتے ہیں کہا امتحان کا ڈر ہے کہا امتحان تو ہو گا
لہٰذا اگر کچھ پانا ہے تو عمل ہر صورت کرنا پڑے گا۔
سوال نمبر15:
حضرت السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! آپ کی بہت سی باتوں پر صحیح عمل نہیں کر سکا، بالخصوص معمولات کا چارٹ نہیں بھرا۔ اس پہ بہت شرمندہ ہوں۔ اسی وجہ سے اب رابطہ میں بھی رکاوٹ آنے لگی ہے۔ آپ نے فرمایا تھا سونے سے پہلے اس کو فل کرنا اپنے اوپر لازم کر لو، اس وقت کبھی چارٹ گم ہو جاتا ہے کبھی نیند کا سخت غلبہ ہو جاتا ہے۔ میں جانتا ہوں یہ بچوں والی باتیں ہیں لیکن میری یہ ترتیب سستی اور بھولنے کے مرض کی وجہ سے ہے۔ اس رمضان المبارک میں ارادہ ہے کہ اپنے اندر مثبت تبدیلی لانے کی پوری کوشش کروں گا اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا کر دے کہ آپ ہم سے راضی ہو جائیں۔
جواب:
اس کے جواب میں ہم یہی کہیں گے۔ بھائی سستی کا علاج تو چستی ہے۔ اور وہ چستی خود بخود دکھانی پڑے گی۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کہ جب چستی آ جائے گی تب سب کچھ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا، بلکہ از خود کوشش و ہمت کرکے چستی اختیار کرنی پڑے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ کسی کام کو یاد رکھنے کے لئے آج کل کے جدید وسائل سے کام لینا چاہیے۔ جدید وسائل میں یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس اسمارٹ فون ہے تو کیا ہم اس پہ چیزیں نوٹ نہیں کر سکتے؟ آپ بھول سکتے ہیں یہ موبائل تو نہیں بھولے گا، یہ تو ساتھ ہی ہوتا ہے، اس لئے آپ اپنے معمولات کا چارٹ ہے اسی پر ایکسل میں بنا لیں اور اسی کو روزانہ فل کر لیا کریں۔ اس میں کیا مشکل ہے۔ آج کل تو بہت ساری چیزیں اس پہ آ گئی ہیں۔ بھولنے کی بیماری بہت سے لوگوں میں ہوتی ہے مگر اس کے بہت سارے علاج بھی ہوتے ہیں، ان علاجوں سے کام لینا چاہیے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک شہزادہ کی پرورش باندیوں میں ہوئی، کافی طویل عرصہ عورتوں کے درمیان رہنے سے وہ بھول گیا کہ میں مرد ہوں۔ ایک سانپ نکل آیا۔ باندیوں نے چیخنا شروع کر دیا کسی مرد کو بلاؤ کسی مرد کو بلاؤ سانپ نکل آیا کسی مرد کو بلاؤ۔ اس نے بھی ان کے ساتھ چیخنا شروع کیا کہ کسی مرد کو بلاؤ کسی مرد کو بلاؤ۔ ایک باندی نے بہت ادب سے کہا کہ حضور آپ بھی تو مرد ہیں۔ اس نے کہا اچھا یاد دلایا چلو بھئی ڈنڈا لے کے آؤ، ڈنڈا آیا تو اس نے سانپ کو مار دیا۔ اس کو اپنا مرد ہونا بھول گیا تھا، اسی طرح ان سائل کو اپنا الیکٹریکل انجینئر ہونا بھول گیا ہے۔ بہرحال آپ یہ ذرائع اختیار کر لیں ان شاء اللہ بھولنے والا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
نیند کا جو سخت غلبہ ہے آپ کو اسے manage کرنا پڑے گا۔ management کے لئے ایم ایس سی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اتنی management ہر ایک کو آتی ہے۔
آپ نے ٹھیک کہا کہ یہ بالکل بچوں والی باتیں ہیں۔ اب آپ بڑے ہو گئے ہیں اس لئے بچوں والی باتیں چھوڑ دیں۔
بے ترتیبی اور بھولنے کے مرض کو دور کیا جا سکتا ہے۔ میں نے ایڈمنسٹریٹرز کو دیکھا ہے انہوں نے اپنے ساتھ ڈائری رکھی ہوتی ہے۔ یہ ڈائری ان کے ساتھ ہر جگہ ہر وقت لازم و ملزوم ہوتی ہے۔ آج کل تو الیکٹرونک ڈائریاں آ گئی ہیں۔ یہ ڈائری اسی لئے ہوتی ہے کہ آپ نے جس کام کو کرنا ہے اس کو فوراً نوٹ کریں کہ میں نے یہ کرنا ہے جب وہ ہو جائے تو نوٹ کریں کہ یہ کام مکمل ہو گیا۔ یہ آپ کے بھولنے کے مرض کا علاج ہے۔ اپنی ڈائری کو maintain کرنا شروع کر لیں۔ لیکن ایسا بھی نہ ہو جیسے ایک مرتبہ آرمی میں جبری بھرتی ہو رہی تھی جس کے لئے Eye sight ٹیسٹ ہو رہا تھا۔
ڈاکٹر نے کہا: اس چارٹ کو دیکھو۔
اس نے کہا: کون سا چارٹ؟
اس نے کہا: جو سامنے دیوار پہ لگا ہے۔
کہتا ہے: کون سی دیوار؟
اس نے اپنے آپ کو اندھا بنایا ہوا تھا وہ آرمی میں جانا نہیں چاہتا تھا۔ تو ڈاکٹر نے کہہ دیا بھائی تم تو بالکل اندھے ہو تم آرمی میں بھرتی نہیں ہو سکتے۔ شامت اعمال کہ بعد میں وہ فلم دیکھ رہا تھا، وقفہ کے دوران لائٹ آن ہوئی تو دیکھا کہ پاس ہی وہ Eye sight ٹیسٹ کرنے والا بیٹھا ہے۔ یہ بڑا گھبرا گیا کہ اب تو پھنس گیا۔ اسی ڈاکٹر سے پوچھتا ہے کہ: یہ فلم میں سے بس کی آواز آ رہی ہے، یہ بس کدھر جا رہی ہے۔ اس نے کہا: کوئی بات نہیں جیل جا رہی ہے۔
بہرحال ایسا بھی نہ ہو کہ آدمی اب یہ کہے کہ بھائی ڈائری گم ہو جاتی ہے میں کیا کروں، تو پھر الیکٹرونک ڈائری پہ کام کر لو اپنا موبائل سنبھال لیا کرو اسی پہ سب کچھ نوٹ کر لیا کرو۔
اگر آپ کا ارادہ ہے کہ رمضان المبارک میں اپنے اندر مثبت تبدیلی لائیں گے تو میں دل سے دعا کرتا ہوں لیکن محض دعا پہ نہیں رہنا چاہیے کام کرنا چاہیے کام کرنا پڑتا ہے کام کر کے پھر دعا کی جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے بدر کے میدان میں تمام تیاری مکمل کر کے پھر دعا شروع کی۔ ہر چیز کا اپنا اپنا مقام ہے۔
سوال نمبر16:
حضرت جی میری کپڑے کی دکان ہے۔ وہاں زیادہ تر خواتین گاہک ہوتی ہیں۔ الحمد للہ اللہ جل شانہ نے مجھے داڑھی عطا کر کے ان لڑکیوں سے تو بچایا ہے مگر میرا نفس بہت بھٹکا ہوا ہے۔ میں نے زندگی میں شاید کوئی برا کام کیا ہو مگر اب الحمد للہ کچھ وقت جماعت کو دیتا ہوں، گذشتہ سال میں نے چلہ بھی لگایا، اس سے پہلے بھی میرا وقت لگا ہوا ہے۔ حضرت کچھ ایسا کریں کہ میری زندگی شیڈول کے ساتھ گزرے۔ سنت طریقے سے گزرے، میرا اللہ پاک سے تعلق بن جائے۔
جواب:
اس کا حل یہ ہے کہ میں آپ کو جو ذکر دوں اسے دوائی سمجھ کر کرنا، جس طرح دوائی میں ناغہ نہیں کیا جاتا اسی طرح ذکر میں بھی ناغہ نہیں کرنا۔ کیونکہ ناغہ کی صورت میں ڈاکٹر کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ اگر آپ علاج کے لئے تیار ہیں تو بتا دیں ورنہ صرف رسمی بات رہ جائے گی۔
سوال نمبر17:
عباسی حکومت کے آخر دور میں ایک وقت آیا جب مسلمانوں کے دار الخلافہ بغداد میں ہر دوسرے دن کسی نہ کسی دینی مسئلہ پر مناظرہ ہونے لگا جلد ہی یہ وقت بھی آ گیا جب ایک ہی دن بغداد کے الگ الگ چوراہوں پر الگ الگ مناظرے ہو رہے تھے پہلا مناظرہ اس بات پر تھا کہ ایک وقت میں سوئی کی نوک پہ کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں، دوسرا مناظرہ اس موضوع پر تھا کہ کوا حلال ہے یا حرام، تیسرے مناظرے میں یہ تکرار چل رہی تھی کہ مسواک کا شرعی حصہ کتنا ہونا چاہیے، ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ایک بالشت سے کم نہیں ہونا چاہیے اور دوسرے گروہ کا یہ ماننا کہ ایک بالشت سے چھوٹی مسواک بھی جائز ہے۔ یہ debate چل رہی تھی کہ ہلاکو خان کی قیادت میں تاتاری فوج بغداد کی گلیوں میں داخل ہو گئی اور سب کچھ تہس نہس کر گئی مسواک کی حرمت بچانے والے خود ہی بوٹی بوٹی ہو گئے، سوئی کی نوک پر فرشتے گننے والوں کی کھوپڑیوں کے اتنے منارے بن گئے جنہیں گننا بھی ممکن نہیں تھا، کوّے کے گوشت پر بحث کرنے والوں کے مردہ جسم کوے نوچ کر کھا رہے تھے۔ آج ہلاکو خان کو بغداد تباہ کئے سینکڑوں برس ہو گئے ہیں مگر قسم لے لیجئے اس سے مسلمانوں نے رتی بھر بھی سبق لیا ہو، آج مسلمان پھر ویسے ہی مناظرے سوشل میڈیا پر یا اپنی محفلوں، جلسوں اور مسجدوں کے منبر سے کر رہے ہیں کہ داڑھی کی لمبائی کتنی ہونی چاہیے یا پھر پاجامے کی لمبائی ٹخنوں سے کتنی نیچے یا کتنی اوپر شرعی اعتبار سے ہونی چاہیے، قوالی اور مشاعرے کرنا ہمارے مذہبی فرائض میں شامل ہونے لگے تمام فرقوں اور مسلکوں کے جھنڈا بردار صرف اور صرف اپنے فرقے کو جنت میں لے جانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اور دور حاضر کا ہلاکو خان ایک غیر مسلم ملک سب کو نیست و نابود کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے افغانستان، لیبیا عراق کے بعد شام میں بچوں کی کٹی پھٹی لاشوں کی گنتی کرنے والا کوئی نہیں، بے گناہوں کی کھوپڑیوں کے مینار پھر بنائے جا رہے ہیں، آدم علیہ السلام کی نسل کے نوجوانوں، بوڑھوں اور بزرگوں کی لاشوں کو کوے نوچ کر کھا رہے ہیں اور حوّا کی بیٹیاں اپنی عصمت چھپانے کے لئے چادر کا کونہ تلاش کر رہی ہیں۔ ہم خاموشی سے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں اگر مضمون اچھا اور سچا لگے تو ضرور شیئر کیجئے۔
جواب:
یہ شیئر کرنے پہ بہت زور دیا جاتا ہے۔ اکثر تو اس کے ساتھ کچھ مسائل ہوتے ہیں کچھ اپنے مفادات بھی ہوتے ہیں۔ یہ بات جو مذکورہ بالا پیغام میں کی گئی یہ بہت قیمتی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ قیمتی بات یہ ہے کہ موقع شناسی محل شناسی اور مردم شناسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر ایک کے ساتھ اتنی بات کی جائے جتنی ان کی ضرورت ہے۔ حدیث شریف کے مطابق بالکل علم کی بات نہ بتانا گونگا شیطان بننا ہے اور بلا وجہ مباحث میں پڑنا فتنے کا دروازہ کھولنا ہے۔ اعتدال پہ رہنا چاہیے کیونکہ آج کل انہی چیزوں کو بنیاد بنا کر لوگ صحیح چیزوں کو بھی ختم کر دیتے ہیں۔ یہ تو اعتدال سے باہر ہونے والی بات ہو گئی۔
مثلاً اخیر میں اس صاحب کی تان اس بات پہ ٹوٹی ہے کہ یہاں پاکستان میں لوگ داڑھی کی لمبائی پہ مناظرے کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پہ مناظرے ہوتے ہوں، قرآن و سنت اور حدیث و فقہ سے یہ بات واضح ہے کہ داڑھی کتنی لمبی اور کیسی ہونی چاہیے۔ اسی طرح انہوں نے پاجامے کے ٹخنوں سے نیچے ہونے کی مثال دی۔ حالانکہ اس بات کو بحث و مباحثہ میں لانا ہی غلط ہے، کیونکہ پاجامہ ٹخنوں سے اوپر رکھنا حضور ﷺ سے ثابت ہے، اور نیچے رکھنے والے کے بارے میں وعید آئی ہے۔ آپ ﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا کہ اگر آپ کو اتنا بھی پتا نہیں ہے تو چلو میری سنت سمجھ کر ایسا کرو کہ ٹخنے سے پاجامہ نیچے نہ لٹکاؤ۔
غلط چیز کی بنیاد پر صحیح چیزوں کو ختم کرنا بھی فتنہ ہے۔ ایسے لوگوں کے مسائل کچھ اور ہوتے ہیں یہ ایک چیز کو بنیاد بنا کر فائر کرتے ہیں اور صحیح چیزوں کو بھی اڑا دیتے ہیں۔ اس لئے ایسی چیزوں کو شیئر نہیں کرنا چاہیے۔ اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ کون سی چیز شیئر کروں کون سی شیئر نہ کروں۔ اکثر لوگ احادیث بغیر حوالہ کے بھیجتے ہیں اور شئیر کرنے پہ زور دیتے ہیں، ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ بغیر تحقیق کے بات آگے بڑھانا انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے۔ آج کل اس بارے میں لوگ چونکہ نہیں جانتے تو وہ افراط و تفریط میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
سوال نمبر18:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ حضرت پچھلے سوال و جواب کی مجلس میں آپ نے فرمایا تھا کہ لوگ مجھے اپنی غلطی بھیج دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ کافی ہے اس غلطی کا تدارک نہیں کرتے۔ کیا اس طرح کیا جائے کہ غلطی کے ساتھ اس کا Root cause بھی سالک اپنی سمجھ کے مطابق لکھ لیا کرے اور اس کا عارضی تدارک بھی آپ کی خدمت میں پیش کر لیا کرے؟ والسلام۔
جواب:
واقعتاً practical دنیا سے theoretical دنیا میں آنا بذات خود بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جو چیز practical ہے اس کو theoretical نہ بنائیں۔ جیسے میں نے پچھلی دفعہ کہا تھا کہ کچھ لوگ اعتراف برائے اعتراف کرتے ہیں، ان کا مقصد صرف اعتراف کرنا ہی ہوتا ہے، علاج کرنا نہیں ہوتا۔ جیسے کوئی ڈاکٹر کے پاس جا کر کہے کہ میں نے فلاں بد پرہیزی کی ہے فلاں بد پرہیزی کی ہے، اسے ڈاکٹر یہی کہے گا کہ بد پرہیزی نہ کرو، اس کے سوا ڈاکٹر اور کیا کر سکتا ہے۔
ایک دفعہ مجھے گلے کا کچھ مسئلہ ہوگیا، میں ایک ای این ٹی سپیشلسٹ کے پاس گیا وہ بڑے اچھے ڈاکٹر ہیں۔ میں نے کہا آپ کچھ پرہیز بتا دیں کہ کس چیز سے پرہیز کروں۔
انہوں نے کہا: آپ intelligent پرہیز کریں جس چیز سے آپ کو نقصان ہو اسے نہ کھائیں۔
ان کی بات درست تھی۔ آپ عقلمند آدمی ہیں سمجھدار آدمی ہیں آپ کو پتا ہے کیا ٹھیک ہے کیا غلط ہے تو غلط کو نہ کرو اور صحیح کو اختیار کرو۔ البتہ کسی امر میں تحقیق کی ضرورت ہو کہ وہ ٹھیک ہے یا غلط ہے اسے مفتیوں کے ساتھ ڈسکس کر لو۔ لیکن جب آپ کو پتا ہے کہ غلط ہے پھر کیوں کرتے ہو۔ پھر اس پر یہ رونا رونا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی، اس رونے سے تو کچھ ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گناہ معاف ہو جاتا ہے لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ رونے سے علاج نہیں ہوتا علاج کے لئے ہمت کی ضرورت ہے، ارادے کی ضرورت ہے، سمجھ کی ضرورت ہے۔ اگر سمجھ ہے تو پھر صرف ہمت کی ضرورت پڑے گی۔ آپ ہمت سے کام لیں ان شاء اللہ سب کام ٹھیک ہو جائیں گے۔
سوال نمبر19:
غیر رمضان کے معمولات کو رمضان میں لا سکتے ہیں؟
جواب:
جی ہاں، لا سکتے ہیں کیونکہ غیر رمضان کے معمولات تو کافی کم ہوتے ہیں یہ تو صرف رمضان شریف کی برکات کو حاصل کرنے کے لئے ہم رمضان میں زیادہ معمولات کرتے ہیں، اگر آپ رمضان میں کوئی خاص معمولات کرتے ہیں تو وہ مجھے لکھ کر بتا دیں میں پھر ان کے بارے میں تفصیل بتا دوں گا۔
میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔ ہمارے پاس بہت وقت ہوتا ہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم اپنے وقت کو صحیح استعمال نہیں کرتے، بہت سا وقت فضول کاموں میں ضائع کر دیتے ہیں۔ ہماری جو سیاسی discussion ہوتی ہیں کیا یہ ہمارے لئے ضروری ہیں؟ آپ حیران ہوں گے، مجھے تو اس کا تجربہ ہوا ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں جو لوگ سب سے زیادہ سیاست پہ گفتگو کرتے ہیں وہ ووٹ ڈالنے کے وقت چھٹی لے کر اپنے گھر چلے جاتے ہیں، ووٹ ہی نہیں ڈالتے۔ بھائی آپ نے اتنے سال discussion جو کی تھی وہ کس لئے کی تھی۔
آپ اپنے آپ کو فضول گفتگو اور اس جیسی چیزوں سے باہر نکالیں اور جو کام ہم نے نہیں کرنے ان میں نہ پڑیں۔ اپنے کاموں تک اپنے آپ کو محدود رکھیں۔ اس سے ہمارے پاس اتنا ٹائم بچ جائے گا کہ جتنے معمولات آپ کو دئیے آپ ان سے دوگنا کر سکیں گے۔
سوال نمبر20:
حضرت جی نعمت شاہ ولی اللہ کی پیشگوئیوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
پیشین گوئیاں مختلف نوع کی ہوتی ہیں۔ پیشین گوئیوں کی ایک قسم وہ ہے جو احادیث شریفہ سے ماخوذ ہے، انہیں تو ہم بلا کم و کاست لے سکتے ہیں کیونکہ وہ مخبر صادق ﷺ کی طرف سے آئی ہیں۔ ان کے علاوہ باقی پیشین گوئیوں کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ان میں کتنی authenticity ہے۔ ان کے ساتھ ہمارا معاملہ ”لَا نُصَدِّقُ وَ لَا نُکَذِّبُ“ والا ہونا چاہیے کہ نہ ہم ان کی تکذیب کرتے ہیں نہ ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو ان سے الگ رکھیں اور شریعت پر عمل کرنے کی نیت کر لیں۔ ہمارے ذمہ ہر وقت شریعت پر عمل کرنا لازم ہے۔ باقی پیشن گوئیوں میں سے جو پوری ہونی ہوں گی وہ اپنے وقت پہ ہو جائیں گی ان کے بارے میں پہلے سے معلوم ہو یا نہ ہو، کچھ خاص فرق نہیں پڑتا، جس چیز سے فرق پڑنا ہے ہمیں اس کو سامنے رکھنا ہے اور وہ شریعت پر عمل اور اللہ کی رضا کا حصول ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن