اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ
بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔ لوگوں کی بہت ساری ضروریات ہوتی ہیں وہ جہاں کوئی خیر دیکھتے ہیں چاہتے ہیں کہ ان کی ضرورت کی ہر چیز وہیں سے مل جائے۔ مثلاً اگر ان کو پتا چل جائے کہ یہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں تو بہت سارے لوگ اس میں فقہی سوالات بھی بھیج دیتے ہیں۔ اگر ہمیں فقہی سوالات کے جوابات معلوم بھی ہوں تو ہم دو وجوہات کی بنا پر ان کے جوابات نہیں دیا کرتے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ عادت ہو جائے گی پھر ہم سے لوگ فقہی باتیں ہی پوچھا کریں گے تصوف سے متعلق سوالات کم ہو جائیں گے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم کلی طور پر فقہ سے متعلق نہیں ہیں اس لئے ہم اس کی باریکات تک نہیں جا سکتے۔ مفتیان کرام چونکہ اس کے ساتھ ہر وقت تعلق رکھتے ہیں لہٰذا اس کی باریکات کو جانتے ہیں۔ اگر کوئی جزئیہ ایسا ہو جس کی بنا پر مسئلہ میں فرق پڑتا ہو تو مفتیان کرام کو پتا چل جائے گا لیکن ہمیں اس کا پتا نہیں چلے گا، ممکن ہے ہم غلط جواب دے بیٹھیں۔ اس کے علاوہ فقہی مسائل کے جوابات کے لئے بہت سے دار الافتاء ہیں، ان لوگوں نے آن لائن جوابات دینے کے سلسلے بھی شروع کر رکھے ہیں۔ جب افتا کے ماہر لوگ موجود ہیں تو پھر وہ لوگ اس شعبے میں کیوں آئیں جو اس کے ماہر نہیں ہیں، یہ درست نہیں ہے کہ مناسب اور صحیح لوگوں کے ہوتے ہوئے غیر مناسب لوگوں سے پوچھا جائے۔
اس کے علاوہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس معاملے میں ایک بہت اہم بات ارشاد فرمائی ہے۔ حالانکہ حضرت تقریباً ہر فن کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ آپ نے ہزار سے زیادہ کتابیں مختلف فنون پر لکھی ہیں، اس کے باوجود حضرت فرماتے تھے کہ دوسرے فنون کے لئے لوگ موجود ہیں لیکن تصوف کا شعبہ ایسا ہے جہاں لوگ ضرورت سے بہت کم ہیں لہٰذا مجھے اگر صرف اس کے لئے چھوڑ دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے، باقی باتیں مجھ سے نہ پوچھی جائیں۔ اگر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ باوجود اس کے کہ سارا کچھ کر سکتے تھے اور کرتے بھی رہے وہ ایسے فرما رہے ہیں تو پھر ہمارا کون سا منہ ہے کہ باقی سب سوالات کے جوابات دینا شروع کر دیں۔ اس لئے میرے خیال میں دوسرے فنون اور شعبوں سے متعلق چیزیں اسی فن کے لوگوں تک ہی محدود کر دی جائیں اور تصوف سے متعلق چیزوں کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے تو یہی بہتر ہے۔
سوال نمبر1:
میں جس وقت ذکر کرتا ہوں تو آپ کا خیال ذہن میں لے آتا ہوں اور یوں تصور کرتا ہوں کہ آپ کے سامنے بیٹھا ہوں، اس طرح میری توجہ برابر رہتی ہے اور ذکر مجھے فائدہ پہنچاتا ہے۔ کیا میں یہ صحیح کرتا ہوں؟
جواب:
مشائخ کے ہاں پہلے یہ طریقہ استعمال کیا جاتا تھا۔ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اس کے قائل ہیں۔ اسے تصور شیخ کہتے ہیں، تصور شیخ کا بنیادی concept یہ ہے کہ جب کوئی شیخ کی مجلس میں بیٹھا ہوتا ہے تو زیادہ بہتر توجہ حاصل ہوتی ہے اور کام بہت اچھے طریقے سے کرتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شیخ کے قریب کھڑا ہو کر جماعت میں نماز پڑھ رہا ہو تو اس کا شیخ کی طرف دھیان تو نہیں ہو گا لیکن اس کی نماز زیادہ کامل ہو گی کیونکہ وہ سمجھ رہا ہو گا کہ میں اپنے شیخ کے پاس کھڑا ہوں۔ اس کیفیت کی وجہ سے اس کی نماز زیادہ اچھی ہو گی۔ اگر وہ تلاوت کر رہا ہو گا یا دوسرے نیکی کے کام کر رہا ہو گا ان میں زیادہ للہیت پائی جائے گی۔ شیخ کے پاس حقیقت میں موجود ہونے کا ایک اثر ہے، اس اثر کو تصور کے ذریعے سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جیسے حدیث میں آتا ہے ”اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَانَّکَ تَرَاہُ وَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ“ (صحیح بخاری: 15) اس میں بھی تصور اور توجہ ہی کا ذکر ہے کہ آدمی یہ تصور کر لے جیسے وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ در حقیقت اللہ کو کوئی دیکھ تو نہیں سکتا لیکن اگر تصور کرے کہ میں دیکھ رہا ہوں تو اس کا فائدہ ہوتا ہے، اس کو کیفیت احسان کہتے ہیں۔ اس پہ بہت زور دیا گیا ہے۔
اسی طرح اگر ہم شیخ کے ساتھ حقیقت میں موجود نہ ہوں لیکن شیخ کے تصور کے ساتھ ہوں تو اس کا بھی فائدہ ہوتا ہے لیکن آج کل کا دور ایسے فتنہ کا دور ہے کہ اچھی چیزوں کا بھی بعض دفعہ نقصان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے آج کے دور میں تصور شیخ سے منع کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ تصور اتنا پختہ ہو جاتا ہے کہ بندہ واقعی سمجھنے لگتا ہے جیسے میں شیخ کے ساتھ بیٹھا ہوں یہاں تک کہ بعض دفعہ ندائے غیب کا مسئلہ ہو جاتا ہے اور ندائے غیب ممنوع ہے، اس سے اعتقاد میں خلل پڑ جاتا ہے۔ اس نقصان کی وجہ سے اب تصور شیخ سے منع کیا جاتا ہے۔ اگر خود بخود کسی کو تصور آ جائے کہ میں شیخ کے ساتھ بیٹھا ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن از خود خیال لانا نہیں چاہیے، اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پہلے ایسا کیا جاتا تھا اور کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا لیکن آج کل کا دور الگ طرح کا ہے، اب ایسا تصور نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر خود بخود آ جائے تو ہم بھی منع نہیں کرتے کیونکہ اس کے ذریعے سے واقعی فائدہ ہوتا ہے۔ اگر اللہ پاک اپنی طرف سے لے آتا ہے تو ٹھیک ہے اللہ پاک اس کو سنبھال بھی لے گا۔ ہاں اگر سالک خود بخود لاتا ہے تو پھر اس کا ذمہ دار بھی وہی ہوگا۔
ہمارے شیخ کا معمول تھا کہ جو لوگ اس تصور کو خود لاتے تھے حضرت انہیں منع فرماتے تھے اور جن کو خود خیال آجاتا تھا انہیں منع نہیں فرماتے تھے۔ ایک بار میں نے خود پوچھا تھا کہ حضرت مجھے آپ کا خیال آ جاتا ہے۔ فرمایا کوئی بات نہیں مبارک ہو یہ تو محبت کی وجہ سے ہے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت معافی چاہتا ہوں کہ میں نے آپ کو تصاویر بھیجیں، در اصل یہ میرے آباء و اجداد کی نشانیاں ہیں جو ہمارے پاس سٹیمپس کی صورت میں موجود ہیں، یہ انڈیا میں ہوتے تھے۔ یہ تصاویر بہت پرانے دور کی ہیں تقریباً چھ سات سو سال پرانی ہیں، جو کہ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہیں اور کافی اچھی حالت میں ہیں اس لئے میرا دل کر رہا تھا کہ آپ کے ساتھ شئیر کروں۔
جواب:
چونکہ اس بات کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا اس کا جواب موخر کیا جاتا ہے۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم جزاک اللہ خیر۔ حضرت جی!
For your guidance, indeed I don’t want دنیا and want to prepare myself for Akhira ان شاء اللہ. حضرت جی! Is it alright, if I complete my daily معمولات whenever I get time during the day or should I have to fix a time because with my daughter I can’t fix my time? So is it necessary to do معمولات on a fixed time?
جواب:
خواتین کے ساتھ اس قسم کے مسائل آتے ہیں بالخصوص جب ان کی چھوٹی اولاد ہو تب اس قسم کے مسائل زیادہ ہوتے ہیں۔ آپ دو اصول ذہن میں رکھیں اور ان پہ عمل کریں تو آپ کو فیصلہ کرنے میں مشکل نہیں ہو گی۔
کسی منزل تک پہنچنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ منزل تک پہنچنے کے لئے جو راستہ مقرر ہے اس پر مستقل مزاجی کے ساتھ چلتے جائیں، رستے میں کہیں بھٹکیں نہ اور واپس بھی نہ مڑیں تو یہ راستہ بڑی جلدی طے ہو جاتا ہے اور انسان منزل تک نسبتاً جلدی پہنچ جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تھوڑا سا سفر طے کریں پھر راستے سے ہٹ کر کسی اور طرف لگ جائیں یا واپس آ جائیں، پھر دوبارہ سفر شروع کریں، پہلے اس راستے پر پہنچیں پھر آگے چلنا شروع کریں۔ اس طریقے سے بھی مسافر اپنی منزل تک پہنچ تو جاتا ہے لیکن اس طرح کرنے میں کافی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ بہرحال پھر بھی یہ دوسرا طریقہ بالکل نہ چلنے سے تو بہتر ہے۔ جو آدمی چلنا شروع ہی نہ کرے وہ تو پہنچ ہی نہیں پائے گا، رک رک کے چلنے والا بالکل نہ چلنے والے سے بہتر ہے۔
آپ کے مسئلہ کے حل کے لئے بہتر تو یہی ہے کہ اپنا ایک وقت مقرر کر لیں اسی وقت میں معمولات کیا کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ چونکہ آپ کی مجبوری بھی ہے، اس وجہ سے آپ کے لئے گنجائش ہے کہ آپ پندرہ منٹ، آدھا گھنٹہ، یا ایک گھنٹہ اپنے معمولات کو وقت سے آگے پیچھے کر سکتی ہیں، اس میں اتنا حرج نہیں ہے لیکن اس سے زیادہ فرق نہ ڈالیں، اگر ایک گھنٹہ سے زیادہ لیٹ ہونے لگا تو پھر آہستہ آہستہ آپ کی عادت ہی ختم ہو جائے گی اور اس سے بہت نقصان ہو گا۔ لہٰذا آپ اول تو پوری کوشش کریں کہ مقررہ وقت پر اپنے معمولات ادا کر یں لیکن اگر کسی دن ممکن نہ ہو تو وقت آگے پیچھے کر سکتی ہیں لیکن اس کی مقدار ایک گھنٹہ سے زیادہ نہ ہو۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم حضرت جی۔ میرے پاس کپڑے دھونے کا انتظام بیت الخلاء کے اندر ہے، جگہ کافی کھلی ہے۔ اکثر کپڑے دھوتے ہوئے حضرت والا کے بیانات ایئر فونز کے ذریعے سنا کرتی ہوں۔ ابھی خیال آیا کہ اس میں کسی قسم کی بے ادبی تو نہیں ہے؟ حضرت جی رہنمائی فرمائیے کہ اس عمل کو جاری رکھوں یا چھوڑ دوں؟
جواب:
یہ ایک فقہی مسئلہ ہے مناسب یہ ہے کہ کسی مفتی صاحب سے پوچھا جائے۔ ابھی میں اپنی معلومات کے مطابق بتا دیتا ہوں لیکن آپ اس پہ فیصلہ نہ کریں، حتمی مسئلہ کسی مفتی صاحب سے پوچھیں۔ ہماری معلومات کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ اگر بیت الخلاء ایسا ہی ہو جیسے آج کل فلش سسٹم ہوتا ہے، اور بالکل صاف ستھرا ہو اس میں کوئی گندگی وغیرہ نہ پڑی رہتی ہو تو پھر وہ ناپاکی والے حکم میں نہیں آتا۔ اس میں آدمی بات وغیرہ کر اور سن سکتا ہے۔ لیکن چونکہ اس میں بھی شبہ ہے، ہو سکتا ہے کچھ حضرات حتمی مسئلہ اس طرح نہ بتائیں، احتیاط کے پہلو کو ترجیح دیں اس وجہ سے فائنل بات یہ ہے کہ کسی مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھ لیں۔
سوال نمبر5:
مفتی صاحب نے بیان میں فرمایا کہ اگر آدمی اپنے علاقہ کے تھانہ کی حدود سے نکلے اور 48 میل سفر کا ارادہ ہو تو وہ مسافر کہلائے گا۔ تھانہ سے کیا مراد ہے کیا تھانہ اور پولیس چوکی ایک ہی حکم میں آتی ہے؟
جواب:
کتابوں میں جو لکھا اس کے مطابق مسئلہ یوں ہے کہ جب آدمی شہر کی حدود سے باہر نکلے تب مسافر بنے گا۔ شہر کی حدود سے مراد یہ ہے کہ جہاں تک شہر سمجھا جاتا ہے۔ تھانہ یا چوکی صرف علامت کے طور پر ہے کہ اس کے بعد وہ شہر نہیں رہتا کوئی اور علاقہ شروع ہو جاتا ہے لیکن اگر کسی طرف تھانہ نہیں ہے تو حدود تو اس طرف بھی ہوں گی۔ اس وجہ سے اصل بات حدود کی ہے، تھانہ یا چوکی حدود ختم ہونے کی صرف ایک علامت ہے۔ عرف میں جس مقام کو اس شہر کی آخری حد سمجھا جاتا ہے وہی شہر کی آخری حد ہوگی۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی۔ اکثر دل میں قبر اور قیامت کا بہت زیادہ خوف طاری ہو جاتا ہے اور آنسو نکل آتے ہیں۔ اللہ پاک آپ سے اور آپ کے گھر والوں سے راضی ہوں۔
جواب:
یہ ایک حال ہے اور یہ حال ان شاء اللہ مبدل بہ اعتدال ہو جائے گا۔ نہ تو اتنا خوف چاہیے کہ انسان کام نہ کر سکے اور نہ ہی اتنی امید چاہیے کہ انسان بے فکر ہو جائے۔ دونوں باتوں کے درمیان رہنا چاہیے کیونکہ ایمان خوف اور امید کے درمیان ہوتا ہے، لہٰذا درمیان کی حالت کو حاصل کرنا پڑے گا۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم شاہ صاحب۔ اللہ آپ کو صحت اور ایمان کی دولت عطا فرمائے اور اس میں اضافہ فرمائے۔ میں نے اللہ کے کرم اور آپ کی رہنمائی میں دیا ہوا ذکر مکمل کر لیا ہے۔ 200 دفعہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، 400 دفعہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“، 600 دفعہ ”حَق“ اور 300 دفعہ ”اَللّٰہ“ جہری طور پر۔
آگے رہنمائی کی درخواست کرتا ہوں۔
جواب:
اب آپ 200 دفعہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، 400 دفعہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“، 600 دفعہ ”حَق“ اور 500 دفعہ ”اَللّٰہ“ جہری طور پر پڑھ لیا کریں۔ باقی چیزیں وہی ہیں۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم حضرت۔ آپ سے کچھ سوالات پوچھنے ہیں۔
ایمان مضبوط بنانے کے لئے کوئی خاص عمل بتا دیجیے۔
سجدہ تلاوت سنت ہے یا واجب؟
توبہ کیسے کرنا چاہیے جو اللہ کو قبول ہو اور دوبارہ وہ گناہ نہ ہو؟
جواب:
جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے اور جن چیزوں کی وجہ ایمان باقی رہتا ہے انہی کو مضبوط بنانے سے ایمان مضبوط ہو گا۔ اس بارے میں سورۃ بقرہ کا پہلا رکوع بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
﴿الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ﴾ (البقرۃ: 3، 4)
ترجمہ: ”جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔ اور جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں۔“
اس کے مطابق غیب پر ہمارا مضبوط ہو جائے، نماز کا قیام اور راہ خدا میں خرچ کرنا ہماری فطرت بن جائے، قرآن و سنت ہر بڑے اور چھوٹے معاملہ میں ہمارے رہنما بنیں اور ہمارا آخرت پر کامل یقین ہو جائے تو پھر ہمارا ایمان مضبوط بنتا جائے گا۔
ایمان بالغیب، ایمان بالرسول اور ایمان بالآخرۃ یہ تین چیزیں ایسی ہیں جو دل میں پختہ ہوں تو اعمال کرنا آسان ہو جاتے ہیں۔ جبکہ نماز قائم کرنا اور راہ خدا میں خرچ کرنا یعنی بدنی اور مالی عبادات کا اہتمام کرنا اور ان میں حتی المقدور کوشش کرنا، یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کو صحیح طریقے سے عمل میں لایا جائے تو ایمان پختہ ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ایمانی تذکروں کو سننے سے، صحبت صالحین سے، کثرت ذکر سے اور موت کی یاد سے ایمان زیادہ بڑھتا ہے اور اعمال کی بھی توفیق ہوتی ہے۔
سجدہ تلاوت سنت ہے یا واجب؟
سجدۂ تلاوت واجب ہے۔
توبہ کیسے کرنا چاہیے جو اللہ کو قبول ہو اور دوبارہ گناہ نہ ہو؟
میں یہ تو بتا سکتا ہوں کہ ایسی توبہ کے کیا شرائط ہیں جو اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو۔ ایسی توبہ میں تین چیزیں ہونی چاہئیں۔ (1)۔ اس بات پر شرمندگی ہو کہ میں نے غلط کام کیا۔ (2)۔ جس گناہ سے توبہ کر رہا ہے اس سے رک جائے۔ (3)۔ اس گناہ کو آئندہ نہ کرنے کا عزم کر لے۔
بنیادی شرطیں یہی تین ہیں ان کے علاوہ دو اضافی چیزیں اور بھی ہیں:
(4) چوتھی اضافی چیز یہ ہے کہ اگر اس گناہ کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے تو اس بندہ سے وہ حق معاف بھی کروائے، جب تک وہ بندہ معاف نہیں کرے گا تب تک معافی نہیں ہوتی۔
(5) اگر وہ گناہ کسی ایسی عبادت سے متعلق تھا جسے وقت پہ ادا نہ کریں تو قضا لازم ہوتی ہے، جیسے نماز روزہ وغیرہ۔ تو پھر اس کی قضا جلد جلد پوری کرے۔
اگر کوئی اس قسم کی توبہ کرے گا تو اللہ پاک سے یہی امید کرنی چاہیے کہ وہ توبہ قبول فرما لیتا ہے کیونکہ اللہ پاک توّاب ہے، توبہ قبول فرمانے والا ہے، رجوع کرنے کو بہت پسند فرماتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے یہی امید کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتے ہیں۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم سر۔ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے اللہ آپ کو لمبی عمر عطا فرمائے۔ میں نے ایک جگہ پڑھا ہے کہ ہم اللہ سے جیسا گمان رکھتے ہیں اللہ پاک ہمارے ساتھ اسی گمان کے مطابق سلوک کرتے ہیں۔ ازراہ کرم اس بارے میں یہ بتا دیں کہ اللہ پاک سے مثبت اور اچھے گمان رکھنے کے لئے ہمیں کیا عمل اختیار کرنے چاہئیں۔ آپ نے جو ذکر دیا تھا وہ جاری و ساری ہے بس تھوڑے سے دن باقی ہیں۔ جیسے ہی ذکر کے دن مکمل ہو جائیں گے تو میں آپ سے دوبارہ رجوع کروں گا۔ اللہ آپ کو لمبی عمر عطا فرمائے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ السلام علیکم۔
جواب:
یہ سوال تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی پوچھے کہ نماز پڑھنے کا حکم ہے تو میں کیا کرون کہ نماز پڑھی جائے، بھئی کرنا کیا ہے، نماز پڑھو۔ اسی طرح اللہ سے مثبت گمان رکھنے کے لئے یہی ضروری ہے کہ اس سے اچھا گمان رکھو۔ پہلے تو اس کے تمام احکام پر حتی المقدور عمل کرو پھر اس سے اچھا گمان رکھو کہ وہ انہیں قبول فرمائے گا اور دنیا و آخرت میں کامیاب فرمائے گا۔
آج کل کا مسئلہ ہے کہ لوگ خود کچھ نہیں کرتے، کہتے ہیں بس کوئی پھونک مار دی جائے اور سب کچھ خود بخود ہو جائے۔
یہ تو بالکل واضح چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مثبت امید رکھنا چاہیے کیونکہ اللہ جل شانہ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے۔ یہ confirm بات ہے اس کے اندر کوئی غلو نہیں ہے کوئی کمزوری نہیں ہے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جب اللہ پاک ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہیں تو اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھنی چاہیے اور اپنے اوپر خطا کا گمان رکھنا چاہیے۔
ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دورانِ گفتگو فرمایا: میں جو بات کر رہا ہوں اگر یہ صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے۔
اپنی طرف غلطی کا گمان کرنا چاہیے اور اللہ کی طرف سے اچھا گمان کرنا چاہیے۔ یہ ہر معاملے اور ہر عمل کی بات ہے۔ اگر مزید سمجھنا ہو تو سورۃ کہف میں حضرت خضر علیہ السلام کے جو تین واقعات بیان ہوئے ہیں ان کے الفاظ میں غور کریں جواب مل جائے گا۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم۔
حرمین شریفین میں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ ان کے راستے حدود حرم سے علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں۔ عام دنوں میں چیک پوسٹوں پر مسلم یا غیر مسلم کی شناخت نہیں کی جاتی بظاہر ہر کوئی آ جا سکتا ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم حدود حرم میں داخل ہو جائے تو کیا ہوتا ہے اس بارے میں مختلف لوگوں سے مختلف باتیں سنی ہیں۔ آپ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔ کچھ لوگ قانونی پہلو کا ذکر کرتے ہیں کہ اگر حدودِ حرم میں غیر مسلم پکڑا جائے تو کیا ہوتا ہے۔ آپ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ روحانی طور پر کیا کچھ ہوتا ہے۔ اکثریت کہتی ہے کہ اللہ کے فضل سے ایسے لوگ جلد یا بدیر مسلمان ہو جاتے ہیں۔ کچھ نے کہا کہ غیر مسلموں کی مزاحمت محسوس ہوتی ہے۔ اس پر کچھ روشنی ڈالیں۔
جواب:
اس پر میں روشنی ضرور ڈالوں گا لیکن پہلے آپ تھوڑی سی روشنی اس پر ڈالیں کہ اس سوال کا جواب ملنے سے آپ کی کتنی اصلاح ہو جائے گی۔ آپ اپنی اصلاح سے بالکل بے فکر ہیں اور ان چیزوں کی فکر آپ کو زیادہ ہے۔ اگر آپ سے اس کے بارے میں قبر میں پوچھا جائے گا پھر تو اس کا جواب ضروری ہے لیکن اگر آپ سے اس کے بارے میں پوچھ نہیں ہو گی تو پھر اس کو چھوڑیں اور جن چیزوں کے بارے میں پوچھ ہونی ہے ان کے جواب جان لیں اور ان چیزوں کی تیاری کرلیں، اپنی اصلاح کروا لیں۔
قبر میں پوچھا جائے گا کہ تمہارا رب کون ہے، تمہارا دین کیا ہے، تمہارا رسول کون ہے۔ اس لئے آپ رب کی معرفت، رسول کی اطاعت اور دین پر عمل کی تیاری کر لیں۔
قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ کامیاب وہ شخص ہے جس نے نفس کے رذائل کو دبا کر تزکیہ حاصل کر لیا، اس لئے آپ نفس کی اصلاح کروا لیں، کیونکہ جس نے نفس کو ایسے ہی چھوڑ دیا قرآن پاک کے مطابق وہ شخس تباہ و برباد ہو گیا۔
آپ آرام سے بیٹھے ہوئے ایسے سوال کرتے ہیں جن کا آپ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تو بحثوں والے سوال ہیں ان بحثوں والے سوالوں میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کا جواب اگر دیا بھی جا سکے تو ان سوالوں کے لئے اس فورم کو استعمال کرنا ہی نہیں چاہیے۔ آپ اس طرح کریں کہ اپنی اصلاح کے اوپر توجہ دیں یہ چیز بہت ضروری ہے، موت سے پہلے پہلے اصلاح فرض عین ہے۔ آپ کی کوشش ہر لمحہ یہ ہونی چاہیے کہ میں جہنم سے بچ جاؤں، میری نماز میں خرابی نہ رہے، میرا کوئی عمل ریا کی وجہ سے ضائع نہ ہو جائے، کہیں میں تکبر کی وجہ سے مارا نہ جاؤں۔ یہ باتیں آپ کے لئے سوچنے کی ہیں۔ اس وجہ سے اُن باتوں کی فکر میں زیادہ نہ پڑیں جو صرف بحث کی باتیں ہیں، ان باتوں کی فکر کریں جو آپ کے لئے اہم اور ضروری ہیں۔ میں ازروئے ہمدردی یہ باتیں کہہ رہا ہوں۔ میں نے آپ کو بعض سوالوں کے جوابات دے دیئے، لیکن ان چیزوں میں پڑنے کا ہمارا ذوق نہیں ہے۔ اس لئے یہ بات ضروری ہے کہ انسان ان بحثوں میں بالکل نہ پڑے، لوگ بہت ساری سیاسی بحثیں بھی کرتے ہیں، فقہی بحثیں بھی کرتے ہیں اور بال کی کھال اتارتے ہیں لیکن جب عمل کی بات آتی ہے تو عمل صفر ہوتا ہے۔ اس لئے انسان کو عمل پہ آنا چاہیے اور عمل کی کیفیت صحیح ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سوچ کی توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت کی خدمت اقدس میں سوال عرض ہے۔ بدھ کے روز مکتوبات شریفہ کی مجلس مبارکہ میں حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کا فرمان زیرِ بیان آیا کہ بعض لوگوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے متعلق کلام و مکالمہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ کلام و متکلم والا ربط نہیں ہے بلکہ خالق و مخلوق والا ربط ہے۔ یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام نے جو کلام کیا شجر مبارکہ کے ساتھ‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ تو یہ خالق و مخلوق والا معاملہ تھا نہ کہ کلام کا متکلم کے ساتھ۔ پھر فرماتے ہیں کہ اسی طریقے سے جبرائیل علیہ الصلوۃ و السلام نے جو قرآن مقدس اللہ تبارک و تعالیٰ سے سنا وہ بھی خالق و مخلوق والا تھا نہ کہ کلام و متکلم والا۔
سوال یہ ہے کہ ہم لوگ جس قرآن پاک کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا کلام جانتے ہیں، اس کو ہم اللہ کی صفت سمجھتے ہیں نہ کہ اللہ کی مخلوق۔
عقیدہ کے طور پر ہم مانتے ہیں کہ قرآن پاک اللہ کا کلام ہے نہ کہ اللہ کی مخلوق ہے۔ حضرت والا نے بھی بارہا اس کا ذکر فرمایا ہے۔ امام احمد بن حنبل کے واقعات بھی سامنے ہیں اور اہل سنت والجماعت کا عقیدہ پیش نظر ہے۔ اس مضمون کو کیسے سمجھیں تاکہ غلطی نہ ہو۔ رہنمائی کے لئے مشکور رہوں گا۔
دوسرا سوال خدمت اقدس میں عرض ہے کہ حضرت والا نے مکتوبات شریفہ کے بیان کے ضمن میں فرمایا کہ کلام نفسی اور کلام لفظی مشترک ہیں، اس کی نسبت اللہ کی طرف ایسی نہیں کی جا سکتی جیسے اللہ نے یہ خود کہا ہے۔
حضرت اس مضمون کو کیسے سمجھیں۔ ہم روزانہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا، اور یہ کہتے ہیں صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْم (اللہ نے سچ کہا ہے)۔ جبکہ پہلی تصریحات کے مطابق یہ کلام ایسا نہیں جیسے اللہ نے خود کہا ہو۔ اس تعارض کو کیسے حل کیا جائے۔ جزاکم اللہ خیر۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
جواب:
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سوال کافی نازک ہے۔ ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا ہے۔ بات کو سمجھنے کے لئے چند چیزیں سامنے رکھنی پڑیں گی۔
ایک تو یہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو صفات اور ذات کی بحث چھیڑی ہے۔ حقیقتِ جذب و سلوک میں ذات اور صفات کی بحث موجود ہے اسے اس بات کو سمجھنے کے لئے دوبارہ پڑھنا چاہیے۔
شان کا تعلق ذات کے ساتھ ہے۔ صفات شان سے ظہور میں آتی ہیں۔ صفات خارج میں ہوتی ہیں۔ شیون ذات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔
کلام الہی اللہ پاک کی صفت ہے۔ صفت خارج میں ہوتی ہے۔ ہم کلام کو صفت مانتے ہیں۔ صفات کا تعلق شان سے ہوتا ہے اور شان کا تعلق ذات سے ہوتا ہے۔ یہ صفت کلام بھی شان سے ظہور میں آئی ہے یہ خود شان نہیں ہے۔ شان کا تعلق ذات کے ساتھ ہے، صفت تو خارج میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض صفات اللہ پاک اور انسان میں مشترک ہو جاتی ہیں، جیسا کہ صفت کریم، صفت رحیم وغیرہ۔
اس سے معلوم ہوا کہ صفت کا تعلق شان کے ساتھ ہوتا ہے اور شان کا تعلق ذات کے ساتھ ہوتا ہے۔ بلاشبہ صفت شان سے ظہور میں آتی ہے لیکن وہ خود شان نہیں ہوتی، حضرت نے یہ ساری بات بہت تفصیل سے سمجھائی ہے۔
حضرت نے مختلف جگہوں پہ مکتوبات شریفہ میں ایک بات ارشاد فرمائی ہے، وہ یاد رکھنی چاہیے کہ انسان معرفت باری تعالیٰ میں ایک سفر طے کرتا ہے جسے تشبیہ سے تنزیہ تک کا سفر فرمایا ہے۔ ابتداءً انسان تشبیہ میں ہوتا ہے۔ اللہ پاک کی ذات وراء الوراء ہے اللہ پاک کی ذات کو کوئی دیکھ نہیں سکتا اور اس کی کوئی مثال بھی نہیں ہے۔ اس وجہ سے وہ تشبیہ میں ہوتا ہے، جو مختلف تجلیات تنزل کے طور پہ ہوتی ہیں وہ ان سے استنباط کرتا ہے اور اللہ پاک نے بھی اسی لئے کچھ ایسے انتظام کئے ہوئے ہیں جس کے ذریعے سے لوگ خالق کو نہ دیکھ سکنے کے باوجود بھی وہ فائدہ حاصل کر سکیں جو خالق کو دیکھنے کے ساتھ حاصل ہو سکتا ہے۔ ان میں سے ایک تو خانہ کعبہ کی تجلئ مسجودی ہے۔ خانہ کعبہ خدا نہیں ہے لیکن اس کی طرف ہم ایسے سجدہ کرتے ہیں جیسے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں کیونکہ اللہ کے حکم کے مطابق وہاں تجلی مسجودی ہے ہم اللہ کے حکم سے اسی تجلی مسجودی کی طرف سجدہ کرتے ہیں۔ چونکہ حکم اللہ کا ہوتا ہے لہٰذا یہ سجدہ اللہ کو ہی ہوتا ہے۔ یہ اللہ پاک نے انسان کی سمجھ اور استطاعت کے مطابق ایک انتظام فرمایا ہے۔ اس طرح کلام کی بھی تجلی ہے موسیٰ علیہ السلام کے سامنے جو چیز ظہور میں آئی وہ اللہ پاک کے کلام کی تجلی تھی۔
اللہ تعالیٰ جب کسی چیز پہ اپنی تجلی فرماتے ہیں، وہ تجلی خدا نہیں ہوتی لیکن اس سے وہ چیز ظہور میں آ جاتی ہے جس سے فائدہ حاصل ہو جاتا ہے جس کے لئے وہ تجلی نازل کی جاتی ہے۔
اب آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں۔ اللہ جل شانہ اس قرآن پاک میں ہمارے ساتھ اس طرح بات نہیں کر رہے ہوتے جس طرح ہم لوگ اسباب کے ساتھ بول رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں بولنے کے لئے زبان چاہیے لیکن اللہ پاک کے لئے زبان ہونا ضروری نہیں ہے۔
قرآن کریم میں بعض جگہ اللہ پاک کے لئے اعضا کا ذکر آیا ہے، کہیں ید (ہاتھ) کا ذکر آیا اور کہیں ساق (پنڈلی) کا ذکر آیا ہے، یہ در اصل اللہ پاک کی مخصوص تجلیاں ہیں۔ چونکہ انسان براہ راست اللہ پاک کو نہیں سمجھ سکتا، تو پھر اسے انسانی ذہن کے مطابق ہی سمجھایا گیا، انسان کے پاس ایسی کوئی مثال نہیں ہے جو اس کے ذہن سے باہر کی ہو، اگر اس کے ذہن و عقل کی پہنچ سے باہر کی ہوگی تو وہ اسے سمجھے گا ہی نہیں، اس لئے انسان کی عقل کے دائرہ میں اتر کر اللہ پاک کی بعض صفات کو اس طرح ذکر کیا گیا کہ اللہ کا ہاتھ بھی اور پنڈلی بھی ہے، چونکہ انسان انہی الفاظ میں سمجھ سکتا ہے، ورنہ درحقیقت اس سے مراد یہ نہیں کہ اللہ پاک کے یہ سب اعضاء ہیں، بلکہ اس سے مراد اللہ پاک کی قدرت اور مخصوص تجلیات ہیں۔ انہیں ان الفاظ میں ذکر کرنے کی ضرورت یہ ہے کہ انسان تشبیہ کے بغیر سمجھ نہیں سکتا، لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ تشبیہ صرف سفر کا ایک پڑاؤ ہے، اللہ پاک کو ہمہ قسم کی تشبیہ سے پاک ماننا بھی ضروری ہے۔ اس پاک ماننے کو تنزیہ کہتے ہیں۔ انسان تشبیہ سے تنزیہ کا یہ سفر طے کرتا ہے۔ جتنی زیادہ تشبیہ میں انسان ہوتا ہے اتنا دور ہوتا ہے، جتنا جتنا تنزیہ کے قریب ہوتا جاتا ہے اتنا اتنا اس میں کمال کی صفات آتی جاتی ہیں۔ عمر بھر اس کا تشبیہ سے تنزیہ کا سفر جاری رہتا ہے۔
کیونکہ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا تنزیہ کا سفر بہت آگے کا تھا خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے انہوں نے اس میں بہت سفر کیا تھا، ظلال سے آگے کو گزر گئے تھے۔ اس لئے اپنے حال اور اپنے وقت کے مطابق بات کر رہے ہیں، یہ باتیں اس انداز میں ان کے زمانہ میں کرنا ضروری تھا۔
شیخ کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ مرید کو تشبیہ سے آہستہ آہستہ تنزیہ کی طرف لائے اگر کوئی بالکل ہی تنزیہ کی بات پہلے کر لے تو مرید چل نہیں سکے گا اور اگر اس کو تشبیہ سے نکالا نہیں جائے گا تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
اس لئے اصل شیخ وہ ہوتا ہے جو موقع کے مطابق پہلے مرید کے ساتھ تشبیہ والا معاملہ کرتا ہے پھر آہستہ آہستہ اس کو تنزیہ کی طرف لاتا ہے۔ شیخ کا کمال یہی ہوتا ہے۔ وہ روح کے ذریعے سے اللہ پاک سے لیتا ہے اور نفس کے ذریعے لوگوں کو دیتا ہے۔
”عبقات“ میں تجلیات کی بحث بہت اہم ہے۔ اگر تجلیات کا مفہوم صحیح معنوں میں سمجھ آ جائے تو یہ سب اشکالات حل ہو جاتے ہیں۔
عبقات میں تجلیات کی بحث پڑھتے ہوئے ہم نے یہ مثال دی تھی کہ سمیولیشن سافٹ وئیر میں ایک ڈرائیونگ سیکھنے والا پروگرام ہوتا ہے، اس کے ذریعے جب کوئی ڈرائیونگ سیکھتا ہے تو اس کے سامنے ساری چیزیں ویسی ہی ہو رہی ہوتی ہیں جیسے اصل میں ہوتی ہیں، اس میں gear بھی تبدیل کیا جا رہا ہوتا ہے، سٹیرنگ سے گاڑی موڑتے بھی ہیں۔ وہ یہ سب کچھ اپنے ہاتھ سے کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے کرنے سے یہ ساری چیزیں وقوع پذیر سکرین پر ہی ہو رہی ہوتی ہیں۔ اس میں اور آدمی میں صرف ارادہ کا تعلق اور نسبت ہوتی ہے۔
اسی طرح اللہ پاک اور اس کے کلام کی مثال ہے۔ اللہ پاک نے اپنے ارادے سے اس کلام کو پیدا کیا، لیکن چونکہ اس کے اسباب ایسے نہیں جیسے ہمارے اسباب ہیں اور اس کا کچھ حصہ ہماری طرح ہے، لہٰذا وہ کلام لفظی مشترک ہو گیا، اس کے کچھ حصے ہماری طرح ہیں اور کچھ کا تعلق ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ تو اس میں اللہ والی جو بات ہے اسے تو ہم محسوس ہی نہیں کر سکتے۔ اللہ پاک کی تنزیہ میں کوئی جتنا جتنا آگے جائے گا وہ اسے اپنی استطاعت کے مطابق محسوس کرتا جائے گا۔ تجلی اعظم کا concept بھی اسی لئے ہے کہ تجلی اعظم ہماری آخری حد ہے اس سے آگے کوئی نہیں جا سکتا۔
اسی وجہ سے اس بات میں اختلاف ہے کہ آپ ﷺ نے معراج شریف کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے یا نہیں۔ جو حضرات کہتے ہیں کہ دیکھا ہے ان کا موقف یہ ہے کہ دراصل آپ ﷺ اس مکان سے نکل کر لا مکاں میں چلے گئے تھے اس وجہ سے اللہ پاک کا دیدار کر پائے کیونکہ اللہ پاک کا دیدار اِس مکان میں ہو ہی نہیں سکتا۔ کچھ حضرات فرماتے ہیں کہ نہیں، نبی ﷺ نے اللہ پاک کو دیکھا ہی نہیں ہے۔
بہرحال قرآن پاک کو بے شک اللہ پاک نے پیدا فرمایا ہے لیکن اس کی تخلیق ایسی نہیں ہے جیسی ہماری ہے اور یہ اس طرح کی مخلوق نہیں ہے جیسے ہم ہیں۔ بلکہ اس کی تخلی صفات کے لحاظ سے ہے اس لئے ہم یوں کہتے ہیں کہ یہ اللہ جل شانہ کی صفت ہے، صفت کا تعلق شیون کے ساتھ ہے کہ صفت شیون کے ذریعے سے ظہور میں آتی ہے اور شان کا تعلق اللہ کی ذات کے ساتھ ہے۔
جب یہ معلوم ہوا کہ قرآن پاک کلام الٰہی ہے، باری تعالیٰ کی صفت ہے، اور خارج میں واقع ہوتی ہے ذات میں نہیں۔ تو اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ خارج میں واقع ہونے کی وجہ سے اس کے سمجھنے کے لحاظ سے کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن کا تعلق ہمارے ساتھ ہوگا، اور شان سے اس کا ظہور ہونے کی وجہ سے اس کا باقی حصہ ایسا ہوگا جس کا تعلق ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ صفت کے بارے میں حضرت نے بہت تفصیل کے ساتھ فرمایا ہے کہ یہ خارج میں واقع ہوتے ہیں ذات میں نہیں۔ اگر یہ بات آپ کی سمجھ میں آ گئی ہو تو ان شاء اللہ العزیز آپ اس پر کچھ غور کر سکیں گے۔ باقی یہ ہے کہ یہ تو تشبیہ سے تنزیہ کا سفر ہے آپ جتنا جتنا آگے بڑھیں گے اتنی اتنی سمجھ آتی جائے گی۔
سوال نمبر12:
صفات کو تنزل کیسے کہہ سکتے ہیں؟
جواب:
صفات کو تنزل نہیں کہتے۔ صفات کا تعلق شیون کے ساتھ ہے اور شیون کا تعلق ذات کے ساتھ ہے۔ اس بحث میں نہ پڑیں بلکہ یوں کہیں کہ صفات کا ظہور شیون سے ہے، شان کا تعلق ذات کے ساتھ ہے اور صفات خارج میں وجود رکھتی ہیں۔
Question 13:
السلام علیکم my beloved حضرت شاہ صاحب, I needed to tell you that I haven't made my اوراد for two days. I am not on the straight path and my عبادت are not so good. I am ashamed so I will continue during 45 days ان شاء اللہ. I would also tell you about some of my problems. I am from Muslim family الحمد للہ but my family especially my mother did not pray once and my brothers were educated with basics of Islam. I am from Tunisian origin, my parents are divorced and it’s hard for me to see them for the true Islam. My father prays but tells us فقہ is not important. He is more interested in technologies, physics, mathematics and primary science. I love them but I afraid my orthodox practice of Islam will scare them and my wife will feel that my husband is extremist in the future. My father is old, seventy years now and I won’t to be hard with him or indicate so. I pray اللہ سبحانہ و تعالیٰ to guide them in duas ان شاء اللہ.
بارک اللہ beloved حضرت شیخ for your attention. May اللہ preserve you and I will do my اوراد
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
Answer:
سبحان اللہ. I am very happy to hear from you that you are following auraads and if you miss it then you feel tension and you try to complete it. Of course one has to complete it because it is like medication and medication should not be stopped. It should be taken continuously. But if there are some problems then one can miss. But there are two types of it. One misses so he misses it forever and one is this that one thinks I have not turned good and he turns back so it is good for him. So I think you are among those who will come back. So ان شاء اللہ العزیز you will be ان شاء اللہ continuously acting upon procedures because تصوف is actually a practice to follow Sharia in true sense, to prepare ourselves to follow Sharia in true sense because there are some problems of nafs and there are some problems of heart, spiritual heart, and there some problems of mind which can stop us from practicing upon Sharia. So these problems have to be removed. So if these problems are overcome then one is prepared to do what is to be done according to Sharia. Anyhow if you have some problems with parents, be good with them in those areas where you are allowed to be with them and don’t be with them in the area where you are not allowed to be with them. For example, I can’t speak but for example if there would be کافر so what you would do, you would respect them it was necessary even at that time but that respecting doesn’t mean that you would leave Islam for them. That would not be allowed. So similarly they are not کافر but they are not up to the mark for example Muslims and they don’t understand what you understand and what you think that it is right so don’t leave right for their wrong but don’t detach yourself from them. You should be with them in those things where you should be with them and you should not be with them where you are not supposed to be with them as per Islamic instructions. So therefore, if there are some problems in their understanding so start dua for them and do خدمت of them but you should have those concepts which are correct and you should not leave these for them. For example فقہ, what is فقہ? It is actually understanding the Quran and Hadees for practice. It is فقہ. Because if you don’t follow fiqh so you can’t practice Islam because you can’t learn by heart the whole Quran with all مسائل and احادیث with their مسائل. It’s not easy for normal people. So for this تقویٰ is needed, علم is needed which فقہاء is having. So it was developed in the beginning and they made recipes of practice for normal muslims. So, normal muslims are getting the advantages of that. So if for example, if they don’t understand it so don’t be bad with them because of this but you should not be bad because of them. These things should be separated. So ان شاء اللہ العزیز I think you will understand what are my instructions and if you ask me then I shall tell you the truth because it is my duty. If you ask me something and if I don’t tell you truth so this will be against اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ that one who is asked should be faithful to them who asks him. So therefore, I should be very faithful to you and answer you with the correct answer. May اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant us توفیق to act upon those things!
سوال نمبر14:
السلام علیکم مرشدی میرا دل بہت گندہ ہے۔ میں اپنے دل میں ایک بھی نور کی کرن نہیں دیکھتا اور دماغ بھی گندہ ہے۔ یہ کس طرح نورانی بنے گا۔ یہ ایسا ہو جائے کہ اچھے کاموں کے بارے میں وسوسہ کوئی بھی آئے راہ حقیقت کو نہ چھوڑوں۔ معمولات پورے کر رہا ہوں۔
جواب:
اپنے دل کو گندا سمجھنا تو اچھی بات ہے لیکن اس گندگی پر مطمئن ہونا اچھا نہیں ہے لہٰذا جو اپنے دل کو گندا سمجھتا ہے اس کا مطلب ہے وہ صفائی کی فکر میں ہے۔ تو یہ حالت اچھی ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک شخص نے کہا کہ میں نے اپنے دل کو ایک پھولدار صندوق سمجھا تھا اور سمجھا تھا کہ یہ تو بہت خوبصورت ہے لیکن اندر دیکھا تو اس میں گوہ ہی گوہ تھا گند ہی گند تھا۔
حضرت نے فرمایا: ان شاء اللہ یہ جو گند آپ کو نظر آ رہا ہے یہ بنے گا کھاد اور اس سے بنیں گے کیفیات کے پھول اور پھل۔ آپ بھی اپنے دل میں گند محسوس ہونے کی وجہ سے پریشان نہ ہوں، معمولات اور شیخ سے رابطہ کی بدولت ان شاء اللہ العزیز یہ دل نورانی بنے گا اور اعمال کی توفیق ہو گی۔
Question 15:
I recite and read the translation daily الحمد للہ. I have made my mind that with the توفیق of اللہ I will avoid the sin that we discussed yesterday. اللہ accept our توبہ! Do pray for me especially.
Answer:
Why not I have to pray for you and for me and for all. May اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant us توفیق to do good and not to do bad. This should be our intention but we should prepare ourselves for this and that is, we should treat our heart to avoid the محبت Of دنیا and have to correct our ایمان, purify and make it strong. And also, we should train our نفس to perform good things that we have to do.
Question 16:
حضرت جی I am feeling good condition in my heart for last few weeks, love of اللہ, but I am also facing more شہوت these days. Whenever I go to sleep شیطان tries to make me نجس, by dirty dreams, حضرت جی I have finished نورانی قاعدہ but I want to continue to learn the قرآن پاک by heart. حضرت جی I have read the book of مفتی عبد الرؤف سکھروی about Meeras in which مفتی صاحب pointed out this point that after the تجہیز and تکفین of میت it’s most important فرض to divide میراث among the وارثین.
حضرت جیI want to talk with my brothers about this. I am in a dilemma whether I should talk with them now or not. Kindly suggest it to me.
جواب:
ما شاء اللہ۔ اچھی بات ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ کو اچھی کنڈیشن حاصل ہو گئی ہے اللہ تعالیٰ اس کو مزید بڑھائے۔ باقی شہوت کا ہونا کوئی بری بات نہیں ہے یہ تو ہمارے اندر ڈالی گئی ہے۔ اسے پورا کرنے کے لئے جائز طریقے arrange ہونے چاہئیں۔ یہ بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے۔
جو اختیار میں نہیں ہے جیسے خواب وغیرہ، اس میں کوئی جرم بھی نہیں ہے لیکن جاگتے ہوئے اس سے detract نہیں ہونا چاہیے غلطی کی طرف نہیں جانا چاہیے۔
نورانی قاعدہ جو آپ نے پڑھنا شروع کیا ہے اس کو بڑھائیں۔ قرآن پاک حفظ کرنا مستحب ہے لیکن اس کا یاد رکھنا بہت بڑی ذمہ داری ہے، اگر آپ بعد میں اس ذمہ داری کو نبھا سکیں تو ضرور حفظ کریں لیکن اگر بعد میں یہ ذمہ داری نہیں نبھا سکتے تو پھر حفظ نہ کریں بلکہ یوں کریں کہ جو سورتیں آپ کو زیادہ پسند ہیں پہلے ان سورتوں کو آپ یاد کر لیں اور ان کو سنبھالیں، اگر وہ سنبھل جائیں تو پھر تھوڑی تھوڑی مقدار کرکے حفظ کرنا شروع کر دیں۔
حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا کرتے تھے، وہ کچھ عرصہ نہیں آئے، حضرت نے معلوم کیا کہ کیوں نہیں آ رہے تو انہوں نے بتایا کہ مجھے ایک نورانی صورت بزرگ نے کہا تھا کہ قرآن حفظ کر لو اس کے بڑے فضائل ہیں۔
شاہ صاحب نے اس سے کہا: آپ کو پتا ہے کہ وہ بزرگ شیطان تھا۔
وہ آدمی حیران ہوگیا اس نے کہا: بھلا شیطان مجھے حفظ قرآن کی کیوں نصیحت کیوں کرنے لگا؟
حضرت نے فرمایا: شیطان کو پتا ہے کہ تو قرآن حفظ نہیں کر سکتا، عمر بھر اس میں لگا رہے گا، اور اخیر میں قرآن بھول جانے کا گناہ سر پہ لے کے جائے گا اس لئے وہ تمھیں فوری چیز اصلاح نفس سے کاٹ کر اس چیز میں لگا رہا ہے جو ابھی تم نہیں کر سکتے۔
مفتی صاحب نے بالکل صحیح کہا ہے کہ میراث کم از کم تین دنوں میں تقسیم ہو جانا چاہیے۔ لیکن آپ خود بات کریں گے تو مناسب نہیں رہے گا اس لئے آپ کسی بھی اچھے صالح آدمی سے یہ بات کروا لیں جس کی آپ کے بھائیوں کی نظر میں کچھ value ہو۔ مفتی عبد الرؤف سکھروی صاحب سے ان کی بات کروا دیں تو زیادہ بہتر ہے۔
سوال نمبر17:
حضرت جی لذتوں کو توڑنے والی چیز موت کی یاد کا اہتمام کیسے کیا جائے۔
جواب:
اس کے لئے ایک دعا ہے:
”اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْ الْمَوْتِ وَ فِیْمَا بَعْدَ الْمَوت“
ترجمہ: ”اللہ میرے لئے موت اور موت کے بعد والی چیزوں میں برکت ڈال دیجیے“۔
اس کو ہر نماز کے بعد پانچ دفعہ دہرانا چاہیے۔ اس کے علاوہ جو چیزیں موت کی یاد کے ساتھ منسلک ہیں ان کا اہتمام کرنا چاہیے، جیسے جنازہ کے ساتھ جانا یا کسی وقت بیٹھ کر یہ بات سوچنا کہ مرنا ہے۔ اس قسم کی چیزوں سے فائدہ ہوتا ہے۔
سوال نمبر18:
میں جب باھر نکلتا ہوں تو دل میں یہ آتا ہے کہ لوگ مجھے اچھا سمجھیں۔
جواب:
اس خیال کو رد کرنا چاہیے۔ اور یہ سوچ رکھنی چاہیے کہ میں ایسا ہو جاؤں کہ اللہ جل شانہ مجھے اپنا سمجھیں، میں اللہ کا بن جاؤں، بس یہ خیال کریں۔ لوگوں سے نظریں ہٹا کر اللہ کی طرف لانی چاہئیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن