سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 357

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر1:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی آپ اکثر یہ فرمایا کرتے ہیں کہ ”دوسروں کی خدمت اپنے تحمّل کے مطابق کرنی چاہیے“، مجھے اس کا اندازہ نہیں ہو پاتا کہ اس سے کیا مراد ہے۔ میرا دل گھر کے بہت سے کام کاج کرنے کو نہیں چاہتا لیکن جب باقی لوگوں بالخصوص امی اور بھابھی کو دیکھتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ لوگ تو سارے کام کرتے ہیں، بات بات پر عذر بھی نہیں کرتے۔ ان کو دیکھ کر میں بھی کام کر لیتی ہوں۔ کئی مرتبہ میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ قیامت کے دن کہیں اللہ پاک اس کا حساب نہ فرما لیں کہ میرے بندوں کو مدد کی ضرورت تھی، تم نے اپنے آپ کو ترجیح دی، ان کی مدد کیوں نہ کی۔ اس سوال کے خوف سے جتنا کچھ مجھ سے ہو پاتا ہے کر دیتی ہوں۔ جب کوئی بھی مجھ سے کسی کام کا کہتا ہے تو یہ سوچ کر اس کا کام کر دیتی ہوں کہ کیا معلوم یہ شخص مجھ سے زیادہ تکلیف میں ہو، اگر میں اس کی جگہ ہوتی، حاجت کے وقت کسی کو کام کے لئے کہتی اور وہ مجھے انکار کر دیتا تو کیسا لگتا۔ ان وجوہات کی بنا پر میں کسی کو انکار نہیں کر پاتی۔ صحت کی صورتِ حال ایسی ہے کہ چھوٹے چھوٹے کام بھی نہیں ہو پاتے، معمولی سا کام کر کے تھک جاتی ہوں۔ پھر بھی یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ کس کس کو بتاتی پھروں کہ مجھ میں اس کی بھی ہمت نہیں، مجبوری میں کرتی رہتی ہوں اور ایک وقت آتا ہے کہ طبیعت بہت خراب ہو جاتی ہے، شدید چڑچڑی ہو جاتی ہوں اور شور کرنا شروع کر دیتی ہوں، پھر احساس ہوتا ہے کہ اتنا شور کر کے کام کرنے سے بہتر تھا کہ کچھ بھی نہ کرتی۔ علاج کے لئے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا ہے مگر ڈاکٹروں نے کوئی خاص وجہ تشخیص نہیں کی جس کا علاج کراؤں، البتہ سحر کا مسئلہ پہلے سے ہے، اس کا مستقل علاج کرا رہی ہوں۔ ان حالات میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کروں، اپنے رویے کو کیسے ٹھیک رکھوں، صاف منع کرتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے اور منع نہ کر کے کام کرتے رہنے سے بھی صحت خراب ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بعد میں زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔

جواب:

ہر شخص اپنے حالات اور معاملات کو بہتر جانتا ہے۔ اگر اس صورت حال میں آپ خود نہیں جانتی کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے اور کس حد تک کام کرنا چاہیے تو میں یہاں بیٹھے بیٹھے کیسے بتا سکتا ہوں، میرے لئے تو یہ اور بھی زیادہ مشکل بات ہے۔ البتہ میں اپنی اس بات کی وضاحت کر دیتا ہوں جس کا ذکر آپ نے سوال میں کیا ہے۔ میں جو کہا کرتا ہوں کہ ”دوسروں کی خدمت اپنے تحمّل کے مطابق کرنی چاہیے“، یہ ایک اصول ہے۔ اس اصول کو سامنے رکھ کر آپ اپنے حالات کا جائزہ لیں اور جو کام اپنے تحمل سے زیادہ معلوم ہو وہ نہ کریں۔ وہ کام جنہیں کرنے کے بعد آپ کو پریشانی ہو، اور مسائل پیدا ہوں، وہ سب آپ کے تحمل سے باہر ہیں۔ لہٰذا آپ ایسے کام مت کریں، اگر کچھ وجوہات کی بنا پر تحمل سے زیادہ کام کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو پھر خاموشی سے کرتی رہیں، مجھے بھی نہ بتائیں کسی اور کو بھی نہ بتائیں، پھر آپ با ہمت ہیں ہم آپ کو داد دیتے ہیں لیکن اگر آپ بعد میں پریشان، چڑچڑی اور بیمار ہوتی رہیں تو اس سے بہتر یہ ہے کہ وہ کام مت کریں۔ یقیناً آپ کو معلوم ہو گا کہ کون سے کام ایسے ہیں جنہیں کرنے سے ایسے مسائل پیش نہیں آئیں گے اور کون سے کام ایسے ہیں جنہیں کرنے سے جسمانی اور ذہنی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو سکتی ہے، لہٰذا وہ کام جنہیں کرنے سے حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہو انہیں دوسری وجوہات کی بنا پر بھی مت کریں اور اس بارے میں اپنے معالج اور ان لوگوں سے مشورہ لیتی رہیں جن سے آپ کا واسطہ ہے، جو آپ کو بہتر طور پر جانتے اور سمجھتے ہیں۔ ان شاء اللہ اسی میں خیر ہو گی۔ 

سوال نمبر2:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ میرے حالات اصلاحی لحاظ سے بہت خراب جا رہے ہیں۔ میرے میاں لڑکیوں سے باتیں کرتے ہیں اور میں ان کی ٹوہ میں لگ پڑتی ہوں کہ کہیں وہ بات تو نہیں کر رہے۔ ایسا کرتے کرتے میرے  اندر جاسوسی کا مرض آ گیا ہے اور میرے اپنے اعمال دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں، میں بڑی پریشان ہوں کہ مجھے کیا ہو رہا ہے، حتیٰ کہ میرا مراقبہ بھی بہت خراب ہو چکا ہے۔

جواب:

بلا شبہ آج کل کا ماحول اچھا نہیں ہے لیکن جب تک یقینی بات معلوم نہ ہو اس وقت تک حسنِ ظن رکھنا چاہیے۔ حسنِ ظن کا حکم ہر ایک کے لئے ہے بالخصوص میاں بیوی کے سلسلہ اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کیونکہ شیطان اس تعلق میں بہت زیادہ فتنہ ڈالتا ہے اس لئے میاں بیوی کو تو زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔ جب تک  کوئی یقینی بات نہ ہو اس وقت تک صرف شک کی بنیاد پہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر یقینی بات ہو تو اس کے بارے میں مشورہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ اسی اصول کو سامنے رکھیں کہ ”شک یقین کو زائل نہیں کر سکتا“۔ لہٰذا اپنے شک کی بنیاد پہ فیصلہ نہ کریں۔ مراقبہ تو ان سب چیزوں کی بہتری کے لئے ہے، اس کو ہر صورت خرابی سے بچانے کی کوشش کریں۔ مراقبہ کو اپنے ان مسائل کے علاج کے طور پر کیا کریں۔ بیماری جتنی بڑھ جاتی ہے، علاج کی امید بھی اتنی بڑھ جاتی ہے لہٰذا مراقبہ کو خراب مت کریں۔ آپ خود ڈاکٹر ہیں، ان چیزوں کی سمجھ آپ کو بہتر ہونی چاہیے۔

سوال نمبر3:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ میں پشاور سے علاءالدین بات کر رہا ہوں۔ ایک گزارش تھی کہ آپ کے مکتوبات شریفہ کے آڈیو بیانات میں ”حقیقت محمدی“ کے عنوان سے چار الگ درس ہیں، انہیں سنتے ہوئے اندازہ ہوا کہ غالباً آپ نے ان کی تشریح کہیں تحریری صورت میں بھی کی ہے۔ میں نے ویب سائٹ پہ تلاش کیا لیکن وہاں ایسی کوئی تحریر نہیں ملی۔ کیا ”حقیقت محمدی“ کے عنوان پہ آپ کی کوئی تحریر موجود ہے؟ اگر ہے تو میں اسے کس طرح حاصل کر سکتا ہوں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے۔

جواب:

مکتوباتِ مجدد الف ثانی میں ”حقیقت محمدی“ کے عنوان سے غالباً مکتوب نمبر 208 یا 209 ہے۔ اس کی تشریح پر ہمارے بیانات ہو چکے ہیں۔ اس پر ہم نے ایک کتاب بھی ”حقیقت توحید و رسالت“ کے نام سے لکھی ہے جو ابھی زیرِ طبع ہے۔ طباعت کے بعد آپ یہ کتاب منگوا لیجئے گا۔ جب تک یہ کتاب طباعت کے مراحل سے گزر نہیں جاتی اس وقت تک آپ آڈیو بیانات پر اکتفا کریں۔ ان شاء اللہ کتاب جلد چَھپ جائے گی۔ 

سوال نمبر4:

کسی نے یہ میسج بھیجا ہے کہ رمضان شریف کا پہلا روزہ 17 تاریخ کو ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے جو شخص رمضان شریف کی خبر سب سے پہلے لوگوں تک پہنچائے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہے۔

جواب:

جس نے یہ حدیث بھیجی ہے اس نے اس کے ساتھ کوئی سند نہیں لکھی۔ اگر یہ مستند بات ہے تو پھر سند کے ساتھ بھیجنی چاہیے تاکہ ہم لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں اور اگر سند نہیں ہے اور آپ نے اسے بغیر تحقیق کے نشر کر دیا ہے تو یہ جھوٹ کے زمرہ میں آتا ہے۔ اور یہ کوئی عام جھوٹ نہیں بلکہ آپ ﷺ پہ جھوٹ باندھنا ہے، جو انسان کے ایمان کے لئے بہت خطرناک بات ہے۔ لہٰذا پہلے اس کی تحقیق کر لیں، اگر واقعی ایسا ہی ہے تو ہمیں بھی اس کے بارے میں بتا دیجئے گا تاکہ ہم لوگ اس کو آگے بڑھائیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ توبہ کریں اور آئندہ کبھی یہ کام مت کریں۔

سوال نمبر5:

انجینئر ملک بشیر احمد بگوی صاحب نے ایک میسج بھیجا ہے۔ ”ضروری اعلان۔ اس سال 17 مئی بروز جمعرات پاکستان میں پہلا روزہ ہو گا ان شاء اللہ۔ اوقات سحر و افطار کا نقشہ شائع کرنے والے حضرات کسی مفتی صاحب سے تصدیق کروا لیں کہ  اس میں دیا گیا وقتِ فجر صحیح مسلم کی حدیث نمبر: 1094 کے مطابق ہے یا نہیں۔ ”ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی“ کا نقشہ اس کے مطابق ہے۔ دیگر شہروں کے لئے مولانا سید مقرب شاہ صاحب سے رابطہ کر لیں۔

جواب: 

اللہ جل شانہ ان صاحب کو ہدایت عطا فرما دے۔ یہ اپنی سمجھ کے مطابق تو دین کا کام کر رہے ہیں لیکن افسوس ہے کہ در حقیقت دین کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے حدیث کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ تسلی کر لیں کہ نقشہ صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق ہے یا نہیں۔

حدیث کی تشریحات فقہاء کے نزدیک الگ الگ ہوتی ہیں، فہم اور مراد میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔ ایک فقیہ دوسرے فقیہ کی فہم و مراد اور تشریح سے تو اختلاف کر سکتا ہے مگر حدیث سے اختلاف نہیں کر سکتا۔ تشریح کے ساتھ اختلاف کو حدیث کی مخالفت نہیں کہا جاتا۔

مجھے افسوس ہے کہ یہ صاحب معمر آدمی ہیں لیکن ان کو اصول کا پتا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو موت سے پہلے پہلے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جیسے انہوں نے لکھا ہے کہ تسلی کر لیں کہ وہ وقت اس حدیث کے مطابق ہو، اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جن فقہاء نے بظاہر اس حدیث کے مطابق مسئلہ نہیں بتایا بلکہ اس کی کوئی اور تشریح سمجھی ہے وہ سارے فقہاء حدیث کے مخالف ہیں۔ اس طرح ان سارے فقہاء کے اوپر تہمت لگ جاتی ہے کہ انھوں نے احادیث شریفہ کے مطابق مسئلہ نہیں سمجھا۔

ایک حدیث شریف کی کئی تشریحات فقہاء سے منقول ہوتی ہیں۔ ایک امام صاحب ایک معنی بتاتے ہیں، دوسرے امام صاحب دوسرا معنی بتاتے ہیں، کیونکہ ہر فقیہ کی تحقیق الگ الگ ہے۔ تحقیق میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ علماء میں اختلاف رحمت ہے۔ ہم اس کو ختم نہیں کر سکتے لیکن اس کو ذاتیات بنانا اور بڑے بڑے مفتیان کرام پر پھبتیاں کسنا، مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بے ادبی کرنا، مفتی تقی عثمانی صاحب کی بے عزتی کرنا اور اپنے خیال میں اپنے آپ کو ہی بڑا مسلمان سمجھنا، یہ رویہ درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔

اس خدا کے بندے کو ابھی تک حیا نہیں آئی کہ سمجھ جائے۔ اللہ تعالیٰ اس کو جلد سے جلد توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

بعض فقہاء کا صحیح مسلم کی حدیث پر آپ کی سمجھ کے مطابق عمل نہ کرنا، یہ صحیح مسلم کے ساتھ اختلاف نہیں ہے بلکہ آپ کی تشریح کے ساتھ اختلاف ہے۔ ضروری نہیں کہ جو تشریح آپ کر رہے ہیں وہی صحیح ہو اور وہی حدیث کے مطابق ہو۔ میں اس کو فی الحال غلط بھی نہیں کہتا کیونکہ یہ تحقیق کی بات ہے۔ لوگ آپ کی بات بھی سن لیں، ہماری بات بھی سن لیں، مفتی شفیع صاحب کی بھی سن لیں، مفتی رشید احمد صاحب کی بھی سن لیں۔ یہ ہر ایک کی اپنی اپنی تحقیق ہے۔

مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ پاک نے بڑی وسعت ظرفی نصیب فرمائی تھی۔ انہوں نے مجھ سے ایک مسئلہ کی تشریح سن کر فرمایا کہ میں اس بارے میں اپنے تشدد سے رجوع کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کا اجر دے کہ اتنے بڑے مفتی ہونے کے باوجود انھوں نے رجوع فرما لیا، حالانکہ میں ان سے عمر میں بھی چھوٹا تھا اور علم میں کم حیثیت رکھتا تھا۔ دوسری طرف میرا معاملہ بھی یہ ہے کہ میں نے بظاہر حضرت کے ساتھ اختلاف کیا لیکن میرے دل میں ان کے عزت و احترام میں کوئی کمی نہیں آئی۔

جس وقت میں نے دار العلوم کراچی میں اس موضوع پر بیان کیا، اس وقت مفتی عبداللہ برمی صاحب (جو مفتی رشید احمد رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں) موجود تھے۔ بیان کے بعد جب میں باہر آیا تو انھوں نے میرا ہاتھ بڑی شفقت کے ساتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: ”شبیر صاحب اللہ آپ کو اجر دے، کوئی اختلاف کرے تو ایسا اختلاف کرے کہ اختلاف بھی پورا کیا اور ادب کو بھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیا“۔

آپ یقین جانیے کہ جس وقت دار العلوم کے ایک عالم، مفتی رفیع عثمانی صاحب کے سامنے ہمارے کام کی تشریح کر رہے تھے۔ اس دوران حضرت سوال کرتے تھے تو وہ عالم میری طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں فرماتے تھے کہ اس بارے میں استاد جی نے یوں کہا ہے۔

کاش مفتی عبداللہ برمی صاحب کی نقل، بشیر احمد بگوی صاحب کو بھی نصیب ہو جائے۔ اختلاف اچھی بات ہے، ہم اختلاف کو ختم نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں اختلاف کرو لیکن صحیح طریقے سے کرو اور ادب و احترام ملحوظ رکھ کے کرو۔ علمی اختلاف کو علمی اختلاف کے اندر رکھنا چاہیے، ذاتیات تک نہیں لے جانا چاہیے۔ اسی طرح علمی اختلاف کے ذریعے لوگوں کی نفسیات سے نہیں کھیلنا چاہیے۔

ایک مسئلہ ہے کہ نماز عشاء جلدی پڑھی جا سکتی ہے اور روزہ رکھتے ہوئے منتہائے سحر کے اخیر وقت تک کھانا کھایا جا سکتا ہے۔ اسے تحقیق کے طور پہ پیش کرنا ایک الگ بات ہے لیکن اگر آپ کا مقصد یہ ہو کہ لوگ اس مسئلہ پہ اس لیے عمل کریں کہ روزہ چھوٹا ہو جاتا ہے تو یہ درست نہیں ہو گا، ایسا کر کے آپ انہیں نفسانیت کی طرف بلا رہے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم اگر پہلے ہو تو پہلے کرنا پڑے گا اگر بعد میں ہو تو بعد میں کرنا پڑے گا۔ اس موضوع پر ہماری ایک مفصل کتاب آ رہی ہے۔ ان شاء اللہ اس میں ایسے اعتراضات کا شافی جواب دیں گے۔ میں صرف یہ بات کہتا ہوں کہ یہ صاحب بوڑھے آدمی ہیں اللہ کرے کہ ان کو توبہ کی توفیق ہو جائے۔

سوال نمبر6:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اس ہفتہ میں درج ذیل معاملات میں سنتوں پر عمل شروع کیا ہے:

مہمانی اور میزبانی کے حقوق۔ پڑوسیوں کے حقوق۔ رشتہ داروں کے حقوق اور عام مسلمانوں کے حقوق۔

جواب:

ماشاء اللہ۔ اللہ جل شانہ برکت عطا فرمائے۔ یہی اصل کام ہے۔ سنتوں پہ آہستہ آہستہ عمل شروع کرنا اور اس میں تدریجاً رسوخ پیدا کرنا بہت اچھا عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرما دے۔ 

سوال نمبر7:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ یہ میرا معمولات کا چارٹ ہے جو میرے حالیہ سہ روزہ کے پہلے دن سے شروع ہوا اور الحمد للہ ابھی تک جاری ہے۔

جواب:

بڑی اچھی بات ہے۔ اللہ جل شانہ مزید توفیقات سے نوازے۔ سہ روزہ کی بہت برکات ہوتی ہیں۔ جو لوگ خانقاہ میں وقت لگاتے ہیں ان پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خانقاہ ہوتی ہی اس لئے ہے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اللہ پاک مزید توفیق عطا فرمائے۔ 

ایک وضاحت:

اکثر لوگ مجھ سے خصوصی دعا کی درخواست کرتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سب کے لئے خصوصی دعا کرنا ممکن نہیں ہے۔ فرض کریں مجھے ایک ہزار لوگوں نے خصوصی دعا کے لئے کہا ہے، اگر میں ان سب کے لئے خصوصی طور پہ دعا کروں تو وہ دعا خصوصی نہیں رہے گی بلکہ عمومی ہو جائے گی۔ کیونکہ ہزار لوگوں کے لئے خصوصی دعا کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ ذرا حساب لگا کر دیکھیں کہ اگر ہزار لوگوں میں سے ہر ایک کے لئے صرف ایک فقرے پر مشتمل دعا ہی خصوصی طور پہ کی جائے تو کتنا وقت لگے گا۔ اگر میں اس کام میں لگ جاؤں تو پھر باقی سب کام رہ جائیں گے۔ اس وجہ سے میں سب کے لئے عمومی دعا کر لیا کرتا ہوں۔ اللہ پاک جانتا ہے کہ کون کتنا خصوصی ہے، جو جتنا خصوصی ہو گا اس کے لئے اللہ پاک ویسا ہی انتظام کر دے گا۔ آپ اللہ کے لئے خصوصی بن جائیں، ان شاء اللہ آپ کے لئے ساری چیزیں خصوصی ہو جائیں گی۔ لہٰذا لفظ ”خصوصی“ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ہاں صرف دعا کے لئے کہا جا سکتا ہے، دعا تو ہم سب کے لئے کرتے ہیں بلکہ جو لوگ مجھ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے دعا کا کہتے ہیں، ان کے لئے میں اسی وقت لئے دعا کر لیتا ہوں۔ اس طرح وہ دعا ان کے لئے خصوصی ہی ہو جاتی ہے۔

بہر حال خصوصیت والی باتیں چھوڑ دیں، ہمارے ہاں یہ کام ذرا مشکل ہے۔ میرے خیال میں امت کی عمومی بات کی اہمیت خصوصی سے زیادہ ہے۔ امت کا خیال رکھنا آپ ﷺ کی سنت ہے۔ ہمیں اس سنت پر عمل کرنا چاہیے اور سب کے لئے عمومی دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی دعاؤں کو قبول فرما دے۔

بعض حضرات اکثر مجھے خوابوں کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اس بات کو سمجھ لیں کہ ہمارے ہاں حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے طریقۂ کار پہ عمل ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کی بیداری کی باتوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں نیند کی باتوں کو نہیں۔ خواب ظنی ہوتے ہیں اور بیداری کی باتیں یقینی ہوتی ہیں۔ یقینی باتوں کو فوقیت دینی چاہیے۔ کبھی کبھار خواب کا تذکرہ بھی آ جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن اصل اہمیت خوابوں کو نہیں بلکہ جاگتے کی باتوں کو دینی چاہیے۔ اس راہ میں اصل چیز اپنی اصلاح اور اپنے نفس کا علاج ہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ اگر کسی کا ٹی بی کا علاج جاری ہو، درمیان میں اگر اس کو خواب میں بشارت دی گئی کہ آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ اس بشارت کی وجہ سے وہ علاج نہیں چھوڑتا۔ ہمارے ہاں زیادہ تر اپنے احوال بتائے جاتے ہیں، خوابوں پہ زیادہ زور نہیں دیا جاتا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:

نہ شبم نہ شب پرستم که حدیث خواب گویم

من ہمہ ز آفتاب وز آفتاب گویم

میں نہ رات ہوں نہ رات کا پرستار ہوں کہ میں رات کی باتیں کروں میں تو آفتاب کے ساتھ ہوں لہٰذا دن کی باتیں کرتا ہوں۔

سوال نمبر8:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ میں کراچی سے میسج بھیج رہی ہوں۔ دعا کی درخواست ہے۔ 

جواب:

یقیناً دل سے دعا کرتا ہوں۔ لیکن آپ یہ بات یاد رکھیں کہ جب شیخ کو خط لکھا جاتا ہے یا ان کو ای میل بھیجی جاتی ہے یا وٹس ایپ کیا جاتا ہے تو اس میں اپنے احوال لکھے جاتے ہیں۔ شیخ ڈاکٹر کی طرح ہوتا ہے۔ جیسے آپ کسی ڈاکٹر کے پاس کلینک میں جا کر دعا کی درخواست نہیں کرتے بلکہ ڈاکٹر کو اپنی بیماری بتاتے ہیں، ہاں بیماری کی تشخیص کے بعد علاج اور دوا تجویز کرنے کے بعد دعا کا بھی کہہ دیں تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر ڈاکٹر کو صرف دعا کا کہیں اور بیماری بالکل نہ بتائیں تو اس سے آپ کو صحت و تندرستی اور اس بیماری سے شفا نہیں ملے گی۔ جس طرح جسمانی بیماریوں کے لئے صرف دعا کافی نہیں ہے بلکہ ان کے لئے علاج ضروری ہوتا ہے، اسی طرح روحانی بیماریوں کے لئے بھی دعا کے ساتھ ساتھ علاج کی ضرورت ہے۔ صرف دعا کے لئے کہنا، یہ محض اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔ بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ صرف دعا سے سارے کام ہو جائیں گے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر آپ کھانا نہ پکائیں اور بس دعا کرتی رہیں کہ میرا پیٹ بھر جائے۔ اگر ایسا کرنے سے واقعی پیٹ بھر جائے تو آئندہ ایسا ہی کرتی رہیے لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ جب شیخ کو خط لکھا جائے یا میسج بھیجا جائے تو اس میں دعا کے درخواست کے ساتھ اپنے احوال بھی لکھنے چاہئیں۔ احوال سے مراد روحانی احوال ہیں، دنیا کے حالات مراد نہیں ہیں۔ احوال میں یہ بتایا جائے کہ جو اذکار اور معمولات شیخ نے بتائے تھے ان پر پابندی سے عمل ہو رہا ہے یا نہیں اور ان کے بارے میں کیا کیفیات ہیں اور اپنے اندر موجود روحانی بیماریوں کے بارے میں بتایا جائے۔ شیخ وہ احوال سن کر ان کا علاج بتا دے گا۔ اس کے بعد آپ کا کام شیخ کی ہدایات پہ عمل کرنا اور پابندی سے اطلاع کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

سوال نمبر9:

السلام علیکم! مارچ کا معمولات کا چارٹ وٹس ایپ کیا ہے۔ اس کے معمولات کی فہرست میں کچھ تبدیلی کی ہے۔ عشاء کے ساتھ چار نفل کی جگہ قضائے عمری لکھ دیا ہے۔ 

جواب:

ما شاء اللہ۔ یہ آپ نے بہت اچھا کیا ہے۔ قضائے عمری زیادہ بہتر ہے۔ قضائے عمری کا مطلب یہ ہے کہ قضا شدہ نمازوں کو ادا کرنا شروع کر دیا جائے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آخری جمعۃ الوداع کے دن اگر پانچ نمازیں پڑھ لی جائیں تو وہ ساری عمر کی قضا نمازوں کے لیے کافی ہو جاتی ہیں۔ یہ بدعت ہے۔ ہر نماز کی الگ قضا کرنی چاہیے۔ عشاء کے علاوہ سب نمازوں کے صرف فرضوں کی قضا پڑھی جائے جبکہ عشاء کی نماز کے فرض اور وتر دونوں کی قضا پڑھی جائے گی۔ اگر آپ ایسا کر رہی ہیں تو بہت اچھی بات ہے۔ اللہ جل شانہ آپ کو توفیقات سے نوازے۔

سوال نمبر10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

My current ذکر is

200 times  ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ and  400 times ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 

600 times ”حَقْ“

and

300 times ”اَللّٰہ“

This has been going on for more than one and half months. I am unable to perform two times during this period due to travel and health issues. Also, please guide how to improve concentrating and focusing everywhere during reciting Quran and other religious stuff. A lot of وساوس come to mind during prayer. I do say a lot of استغفار and ask Allah to correct my prayers and help me focus.

جواب: اب ذکر کی ترتیب یوں کر لیں:

”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 500 مرتبہ۔

توجہ اور یکسوئی کے حصول کے لئے صرف ایک ہی چیز کا خیال رکھیں کہ وسوسوں کی پروا نہ کریں۔ ابتداءً اتنا ہی کافی ہے۔ وسوسے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ کیونکہ وہ آپ کا فعل ہی نہیں ہے، وہ آپ کا کام ہی نہیں ہے، وہ آپ کی بات ہی نہیں ہے، اس کے بارے میں آپ سے پوچھا بھی نہیں جائے گا لہٰذا وساوس کی پروا بالکل نہ کریں۔

آپ نے میسج میں جو ”Religious stuff“ کے الفاظ لکھے ہیں، ان الفاظ سے بے ادبی کا خدشہ ہے۔ انگریزی ویسے بھی بے ادب زبان ہے۔ اگر آپ کو اس اصطلاح کے لئے انگریزی میں درست الفاظ معلوم نہیں ہیں تو اردو میں لکھ دیتے۔ ضروری تو نہیں کہ انگریزی میں ہی میسج لکھا جائے۔ اس پر استغفار کر لیں۔ اللہ کرے کہ جلد سے جلد آپ کو صحیح توفیقات نصیب ہو جائیں۔

سوال نمبر11:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت شاہ صاحب امید ہے کہ آپ خیر و عافیت سے ہوں گے۔ اللہ آپ کی عمر اور علم میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں آپ کے فیوض و برکات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔

حضرت جی میرا 200، 400، 600 اور 500 والا ماہانہ ذکر پورا ہو گیا ہے۔ دس منٹ کا مراقبہ اور باقی معمولات جاری ہیں۔ مراقبہ ابھی اتنا پکا نہیں ہوا لیکن پہلے سے بہتر ہے۔ آپ کے بیانات سے کافی فائدہ ہوتا ہے۔ پہلے آپ سے قلبی محبت کی وجہ سے بہت ترقی ہو رہی تھی۔ دن بدن زیادہ روحانیت دل میں آ رہی تھی۔ پانچوں نمازیں با جماعت جاری تھیں۔ معمولات کی پابندی ہو رہی تھی اور زبان پر ذکر جاری رہتا تھا۔ نماز، ذکر اور مراقبہ میں اللہ کی طرف دھیان قائم رہتا تھا۔ شیخ کی اطاعت اور رسول کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل نصیب ہوتا تھا۔ بعد میں کچھ بدپرہیزی، انٹرنیٹ کے فضول استعمال اور دل میں دنیا کی محبت کی وجہ سے کچھ نقصان ہوا لیکن الحمد للہ اب دوبارہ آپ کی برکت سے اور آپ کے سوالات و جوابات کے بیان سے بہت فائدہ ہو رہا ہے۔

جواب:

آپ ابھی سابقہ ذکر ہی جاری رکھیں اور سابقہ مراقبہ ہی جاری رکھیں کیونکہ ابھی تک وہ پختہ نہیں ہوا۔

یہ جو آپ فرما رہے ہیں کہ پہلے بڑی ترقی ہو رہی تھی اب اتنی نہیں ہو رہی۔ اس کی دو وجوہات ہیں جن میں سے ایک آپ بتا چکے ہیں اور دوسری میں بتا دیتا ہوں۔

جب پیالے میں پانی ڈالا جائے تو اس کا نچلا حصہ جلدی جلدی بھرتا ہے، لیکن اوپری حصہ چونکہ کھلا ہوتا اس لئے اسے بھرنے میں ذرا زیادہ وقت لگتا ہے۔ اس وجہ سے آپ کو فائدہ کم محسوس ہو رہا ہے، حالانکہ فائدہ اب بھی ہو رہا ہے۔ دوسری بات جو آپ نے خود بتائی ہے کہ انٹرنیٹ کا فضول استعمال کرتے ہیں۔ اس پر قابو پائیں۔ یہ ایک اختیاری چیز ہے، اختیاری چیز میں اختیار کو استعمال کرنا چاہیے۔ اختیاری چیز میں دعا کرنا تو دعا کے ساتھ مذاق ہے۔ مثلاً کوئی آدمی نماز پڑھنے پر قادر ہے، اس کے پاس وقت بھی ہے، کپڑے بھی پاک ہیں، صحت مند ہے اور سارے اسباب موجود ہیں پھر بھی اگر وہ کہہ دے کہ دعا کرو کہ میں نماز پڑھ لوں تو یہ دعا کے ساتھ مذاق ہو گا۔ ایسے لوگ کھانا کھانے کے بارے میں کبھی نہیں کہتے کہ دعا کریں میں کھانا کھا لوں، دعا کریں میں پانی پی لوں۔ دعا کا معاملہ صرف دین کے کاموں میں یاد آتا ہے۔

بلا شبہ دعا کی دین میں بہت اہمیت ہے بلکہ دعا عبادت کا مغز ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دعا کو اعمال کے نہ کرنے کے لیے ایک بہانہ بنا لیا جائے۔ اللہ پاک نے جو ہم لوگوں کی ذمہ داری لگائی ہے ہمیں چاہیے کہ اس ذمہ داری کو پورا کر کے قبولیت کی دعا کیا کریں۔

ایک مرتبہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ حضرت آپ میرے لئے دعا کریں کہ میں حج کر لوں، مجھے بلاوا آ جائے، حج نصیب ہو جائے۔ جس نے یہ بات کہی وہ ایک مالدار آدمی تھا، حضرت اسے جانتے تھے۔ حضرت نے جواب دیا کہ آپ مجھے اپنے اوپر اختیار دے دیں، جس دن حاجیوں کا جہاز روانہ ہو گا میں آپ کو ہاتھ پکڑ کر جہاز میں بٹھا دوں گا اور دعا بھی کر دیتا ہوں۔

حضرت کا مقصد یہ تھا کہ آپ مالدار آدمی ہیں، آپ کے لئے تمام اسباب مہیا ہیں اگر آپ چاہیں تو آرام سے حج پہ جا سکتے ہیں، ایسی صورت میں صرف دعا پہ تکیہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ عمل کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے۔

بہرحال آپ انٹرنیٹ کا غلط استعمال مکمل طور پر چھوڑ دیں اور رابطہ میں تسلسل رکھیں۔ ان شاء اللہ روحانی احوال میں بہتری آ جائے گی۔

ہدایت:

مجھے کسی نے علامہ اقبال کی ایک غزل بھیجی ہے۔ اگر یہ مجھ سے بیعت نہیں ہیں تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر یہ مجھ سے بیعت ہیں تو میں ان سے یہ کہوں گا کہ شیخ کو غزلیں نہیں بھیجا کرتے، یہ شیخ کی بے ادبی کے زمرہ میں آتا ہے۔ شیخ کے ساتھ ایسی بے تکلفی مناسب نہیں ہوتی۔ شیخ کو اپنے احوال بھیجیں، اپنا مسئلہ بتائیں، اپنی روحانی بیماریوں کا علاج دریافت کریں۔ ہر چیز کا اپنا اپنا موقع اور محل ہوتا ہے۔ بے شک یہ بڑی قیمتی چیزیں ہیں لیکن اپنے شیخ کو یہ چیزیں بھیجنا موقع محل کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر12:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ علیہ و برکاتہ۔

First may Allah preserve our حضرت شاہ صاحب and all brothers and sisters and Ummah! 

Question: Name: Nooruddin, country: Paris. Is there a good moment to perform the awrad before فجر, after فجر or it doesn’t matter?

جواب:

Yes there are some times where the people are rewarded more. For example at the time of تہجد, it is really in اول time because at that time اللہ سبحانہ و تعالیٰ sends messages through ملائکہ to the people asking, is there anyone to ask me about عافیت, about solution of some problems about anything? This continues till صبح صادق till فجر. So therefore, this moment can be catched by observing, you can say, by praying تہجد and after that ماشاء اللہ asking اللہ سبحانہ و تعالیٰ for help and also during the time of اشراق because  if somebody is not sleeping at the time  so there is something  special which is distributed to the people who are sitting there and waiting for the prayers of اشراق. So, اللہ سبحانہ و تعالیٰ grants that نعمت to them. And there are many others, for example, at the time of عرفات, many things are granted in مزدلفہ, in طواف, in حطیم, in حرم, and when one is in سفر. If anyone is sick it is also very important if he asks اللہ سبحانہ و تعالیٰ for help, اللہ سبحانہ و تعالیٰ sends help. So there, دعا is  very precious. Therefore, we should ask such people who are sick for prayers. So therefore, we should know these things and we should use these things. May اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant us توفیق to use these properly! 

2nd Question

Does a شیخ feel the intention of a مرید and where it becomes necessary for the disable to go near the شیخ physically?

Answer:

Very technical question but a good question. شیخ is not عالمِ غیب that he knows the intention of مرید but there is something which comes out of قرائن. It means, from the way of writing, from the way of speaking, from the body language etc. If an experienced person , even the worldly experienced person can guess what’s the intention of a person but that can be only a guess. Actual knowledge is with اللہ سبحانہ و تعالی. Therefore, we say واللہ اعلم بالصواب.  It means that اللہ سبحانہ و تعالیٰ knows what is there. But anyhow شیخ is granted some sort of کشف which is necessary for that. Through that, his شیخ understands to that extent which is necessary for تربیت (training) and the details cannot be explored. It is up to the اللہ سبحانہ و تعالیٰ. So this type of thing, I have heard from the مشائخ  that شیخ is granted to some extent some sort of کشف by which he can understand the  reasonable position of a disciple  so that he can guide him.  So therefore, we can  hope to contact مشائخ in a true way and hope for the best ان شاء اللہ العزیز.

And for the other thing  that is, when it becomes necessary to go near the شیخ?

Of course it is very good to be near the شیخ especially in the beginning but it’s up to the condition of the people. What is the condition, and اللہ سبحانہ و تعالیٰ knows the best. So therefore, if a person can do it, he can struggle for it and that will be helpful. May اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant us true knowledge of such things!

I have gone through the question of خانقاہ امدادیہ which I knew andI answered. If there is something left please inform me.

So with this الحمد للہ I think we have finished that part of WhatsApp questions and now we will come to emails ان شاء اللہ.          

سوال نمبر13:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

I am (فلاں). I talked to you about my معمولات last month. I don’t have a laptop so I can’t send معمولات sheets. Some worry is that I just tried to be regular in prayers and few تسبیحات, I don’t know why but why am I facing too much difficulty to be regular in معمولات? I don’t have any routine and don’t understand how to manage because I have been irregular for so long. I am in U.A.E and living with my husband and daughter and I have to do everything with taking care of daughter too. I get so tired that sometimes I become too lazy to do any تسبیح and ذکر etc. My husband is also not regular in prayers. I am worried about myself and husband too how to get  back to routine and معمولات, ان شاء اللہ? I am planning to return back to Pakistan on  April or May. I need your guidance and duas for my Iman. I want to be regular in معمولات.

جزاک اللہ

جواب:

میں اس مسئلہ کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہہ سکوں گا کیونکہ ہر ایک اپنے احوال کو بہتر جانتا ہے۔ آپ یہ بتائیے، کیا کسی بیمار خاتون کا ڈاکٹر کے سامنے یہ عذر پیش کرنا درست ہے کہ میں گھر کے کاموں میں مصروف تھی، اپنے خاوند اور بچوں کی ذمہ داریوں میں مشغول تھی، اس وجہ سے دوا نہیں کھا سکی، میرے پاس دوا کھانے کے لئے وقت نہیں ہوتا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ایسا عذر پیش کرنا انتہائی غلط اور اپنی ذات کے ساتھ دشمنی ہو گی۔ بلکہ جسمانی بیماریوں میں تو کوئی ایسا کرے گا ہی نہیں کہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے دوائی چھوڑ دے۔ اسی طرح اگر کوئی عامل ایک گھنٹہ کے معمولات بتا دے اسے کرتے ہوئے بھی عورتیں نہیں تھکتیں، اگر عامل کہہ دے کہ رات ایک بجے اٹھ کر یہ وظیفہ کیا کرو تو اس سے بھی نہیں اکتاتیں، لیکن جہاں اپنی اصلاح کی بات آئے وہاں شیطان یہ سب بہانے سامنے لا کھڑے کرتا ہے۔ آپ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ یہ صرف ترجیحات کی بات ہے اور کچھ نہیں ہے۔ انسان وہی کرتا ہے جسے وہ اپنی ترجیحات میں شامل رکھتا ہے۔ اگر آپ واقعتاً اپنے نفس کی اصلاح کی خواہمشند ہیں تو شیخ کی طرف سے بتائے گئے معمولات کو اول ترجیح پہ رکھیں اور معمولات میں حتی الوسع ناغہ نہ ہونے دیں۔

سوال نمبر14:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔  

This question is on behalf of the  brother نور الدین صاحب and his respected wife from France. They asked the question that in their free time during the day after having completed the تسبیحات that حضرت والا has given to them what else can  they recite extra in their free time, for example, during driving or coming back home? So, I said that this varies from مرید to مرید but حضرت usually encourages increase in استغفار and درود but ان شاء اللہ if حضرت والا can answer this for the couple, this would benefit them. 

جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزا۔

جواب:

I think I have answered. Anyhow it’s better to recite 

لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ

If your time between فجر and ظہر, and if you have time between ظہر and مغرب so you can recite   الصلوۃ النبی ﷺ and if you have time after مغرب so you can recite  استغفار because it indicates our life style that our life depends upon  لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ and برکت and رحمت is coming from  الصلوۃ علی النبی ﷺ and we need استغفار at the end. May اللہ سبحانہ و تعالی grant us توفیق to do all these things accordingly! 

ہدایت:

اختیاری مسائل کا حل بھی اختیاری ہوتا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اختیاری امور میں سستی نہ کرو اور غیر اختیاری امور کے پیچھے نہ پڑو۔

ہندوستان اور پاکستان میں ایک رسمِ بد چلی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید مشائخ کے پاس کوئی دم ہوتا ہے، کوئی پھونک ہوتی یا وہ کوئی ایسی دعا کرتے ہیں جس سے سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں، صرف ان کی دعا یا دم کے ساتھ نماز کی ادائیگی بھی شروع ہو جاتی ہے، انسان روزے رکھنے لگ جاتا ہے، ساری روحانی بیماریوں سے پاک ہو جاتا ہے الغرض انسان صرف ان کے دم کے ذریعے جنت پہنچ جاتا ہے۔ رہی یہ بات کہ ہم خود بھی کوئی محنت کریں تو یہ کام ہم بالکل نہیں کریں گے۔

اس خام خیالی سے نجات حاصل کریں اور ہمارے ساتھ تبھی رابطہ کریں جب آپ میں خود کچھ کرنے کا حوصلہ ہو، آپ میں یہ ہمت ہو کہ جو ہدایات شیخ دے گا ہم اس پہ بلا چوں و چراں عمل کریں گے چاہے اس میں اپنے اوپر جبر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ہمارے ہاں محنت سے کام ہوتا ہے، دم، پھونک اور عملیات ہمارے ہاں نہیں چلتے۔

سوال نمبر15:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی ہمارے معاشرے میں برائی کی نحوست زوروں پر ہے۔ گھر سے نکلتے ہی دل پر زنگ آنا شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی لوگوں سے بات کرتےکرتے اس نحوست کا اثر آنا شروع ہو جاتا ہے حالانکہ بندہ ذکر کی حالت میں ہوتا ہے۔ جب کبھی ایسا ہو تو ذکر یا عبادت کرنے میں دلچسپی نہیں رہتی اور یہ کیفیت بہت دیر تک رہتی ہے۔ اس سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا کیا طریقہ ہے۔

جواب:

سوال بڑا اچھا ہے، ان شاء اللہ اس کا جواب بھی بڑا اچھا ہو گا۔ ہم نے مانا کہ باہر کے ماحول میں نحوست ہوتی ہے، لیکن اگر آپ اس نحوست سے اپنے آپ کو بچا کے رکھیں تو اس کے اثراتِ بد سے بچ سکتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو حتی الامکان ”فجور“ سے بچائیں۔ یہ بات قرآن پاک سے معلوم ہوتی ہے کہ جو فجور“ سے بچے گا اس کو تقویٰ حاصل ہو گا۔ جہاں برائی کا ماحول ہو وہاں آپ اپنی اچھائی پہ قائم رہیں، اس سے بے شک آپ کو روحانیت زیادہ محسوس نہیں ہو گی لیکن آپ کا تقویٰ بہت بڑھ جائے گا۔ اچھائی کے حالات ہوتے ہوئے اچھائی کرنے والا بھی متقی ہے لیکن اس سے بڑے درجہ کا متقی وہ ہے جو برائی کے ماحول میں برائی سے بچتے ہوئے اپنی اچھائی پہ قائم رہے۔ اس میں یہ ضروری نہیں ہے کہ روحانیت دل میں محسوس بھی ہو۔ در اصل روحانیت دل کے حالات سے محسوس ہوتی ہے نفس کے حالات سے محسوس نہیں ہوتی۔ نفس روحانیت محسوس کرنے کی جگہ نہیں ہے بلکہ روحانیت محسوس کرنے کی جگہ دل ہے۔ جو انسان ذکر و فکر کرتا ہے اور لوگوں سے کٹ کے رہتا ہے اس کو نورانیت زیادہ محسوس ہوتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس کا مقام بہت اعلیٰ ہو۔ اعلیٰ مقام نفس کے مجاہدہ سے حاصل ہوتا ہے۔ نفس کے مجاہدہ سے تقویٰ مسلسل بڑھتا رہتا ہے لہٰذا انسان کا درجہ اور مقام بھی بڑھتا رہتا ہے۔

جب حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ جہاد کے سفر میں تھے تو ساتھیوں نے عرض کیا کہ حضرت اب وہ انوارات نظر نہیں آتے جو خانقاہ میں نظر آیا کرتے تھے۔ حضرت نے جواب دیا کہ جہاد کے انوارات ان تمام انوارات کو ہضم کر لیتے ہیں، اِس کے انوارات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ باقی انوارات نظر نہیں آتے۔

آج کے دور میں جو انسان برائیوں سے بچتا ہے اور اپنی اچھائی پہ قائم رہتا ہے وہ بھی جہاد میں ہی ہے، لہٰذا ایسے میں نورانیت دل میں محسوس نہ بھی ہو تو پروا کی بات نہیں ہے۔ بس اپنے آپ کو محفوظ رکھیں اور اپنے نفس کے فجور پہ قابو رکھیں۔ ان شاء اللہ یہی چیز آپ کے لئے کافی ہو جائے گی۔

سوال نمبر16:

حضرت جی کیا مجاہدے کے بھی انوارات ہوتے ہیں؟ تبلیغ میں پہلی دفعہ جو انوارات ہوتے ہیں، اگلی دفعہ وہ انوارات کم محسوس ہوتے ہیں؟ 

جواب:

در اصل انوارات اعمال سے آتے ہیں بالخصوص ذکر کے انوارات زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ ذکر و اذکار اور خلوت میں رہنے سے یہ انوارات بڑھتے ہیں اور زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ مجاہدے کے انوارات زیادہ محسوس نہیں ہوتے لیکن اس سے انسان کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ حدیث شریف ہے کہ جو شخص لوگوں کی ایذاؤں پر صبر نہیں کرتا اور علیحدہ رہتا ہے اس سے وہ آدمی افضل ہے جو لوگوں کے درمیان رہ کر ان کی ایذاؤں پہ صبر کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام اس کا اونچا ہو گا جس کا مجاہدہ زیادہ ہو گا، صرف انوارات کا احساس کرنے والے کا مقام اونچا نہیں ہو گا۔

سوال نمبر17:

ایک بات یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ ذکر کے انوارات جلدی آتے ہیں اور جلدی چلے جاتے ہیں لیکن مجاہدے کے اثرات و انوارات دیر سے آتے ہیں اور دیرپا ہوتے ہیں۔

جواب:

ہر چیز کی اپنی اپنی اہمیت اور اپنی اپنی ضرورت ہوتی ہے۔ دل کی اپنی اہمیت ہے، نفس کی اپنی اہمیت ہے، عقل کی اپنی اہمیت ہے۔ جو آدمی ان میں سے ایک کی اہمیت بھی کم سمجھتا ہے وہ اپنے ساتھ ظلم کرتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے صحابہ کرام کا اپنا مقام ہے، امہات المؤمنین کا اپنا مقام ہے اور اہل بیت کا اپنا مقام ہے۔ جو ان سب سے دین لے گا اسے پورا دین ملے گا اور جو ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دے گا اسے مکمل دین نہیں ملے گا، اس کا دین ناقص رہ جائے گا، اور جو ان میں سے کسی ایک کی بھی مخالفت کرے گا اسے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اسی طرح یہاں دل ہے، نفس ہے اور عقل ہے۔ جو آدمی ان تینوں کی اصلاح کرے گا اس کی اصلاح مکمل ہو گی اور جو آدمی ان میں سے ایک کو بھی چھوڑ دے گا اس کی اصلاح ادھوری رہ جائے گی۔ یہ تینوں آپس میں مربوط و متعلق ہیں۔ ان کی مثال دروازوں کی سی ہے۔ اگر آپ نے دو دروازے بند کر دیئے اور ایک دروازہ دشمن کے لئے کھلا چھوڑ دیا تو حفاظت نہیں ہو گی، حفاظت کے لیے تینوں دروازے بند کرنے پڑیں گے ۔ آپ نہ عقل کا فساد برداشت کر سکتے ہیں، نہ دل کا فساد برداشت کر سکتے ہیں اور نہ ہی نفس کا فساد برداشت کر سکتے ہیں لہٰذا تینوں کی اصلاح ضروری ہے۔ نفس کی اصلاح کا ذریعہ مجاہدہ ہے، دل کی اصلاح کا ذریعہ ذکر ہے اور عقل کی اصلاح کا ذریعہ فکر اور ذکر ہے۔ ان تینوں کو شیخ کی نگرانی میں کرنے سے اصلاح ہوتی ہے۔

نفس کا اپنا مقام اور اپنا کام ہے، اعضاء و جوارح سے متعلقہ خواہشات نفس کی طرف سے ہوتی ہیں، اس کے علاج سے نفس سے متعلقہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ دل کی اپنی کار کردگی ہے، ایمان، کفر، محبت اور نفرت کی جگہ دل ہے لہٰذا اگر کوئی شخص ذکر میں کمی کرتا ہے، اسے ان چیزوں میں کمی محسوس ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ عقل کا کام اشیاء کا فہم حاصل کر کے ان پر غور و فکر کرنا اور غور و فکر کے ذریعہ معرفت حاصل کرنا ہے، اگر اس کی اصلاح میں کمی رہ گئی تو معرفت نا مکمل رہے گی۔ لہٰذا صرف ذکر کافی نہیں ہے، صرف مجاہدہ کافی نہیں ہے، اسی طرح صرف عقلی غور و فکر بھی کافی نہیں ہے بلکہ تینوں ضروری ہیں۔

کچھ لوگ اپنے مجاہدہ پہ غرور کر کے باقی لوگوں کو اپنے سے کم سمجھنے لگتے ہیں اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان کی عقل کی اصلاح مکمل نہیں ہوئی ہوتی۔ اگر ان کی عقل کی اصلاح ہو جائے تو انہیں معرفت حاصل ہو جائے اور سمجھ آ جائے کہ دین کے سارے کاموں کی مستقل اہمیت ہے، لہٰذا دین کے کسی کام کو کم درجہ نہیں سمجھنا چاہیے۔

سوال نمبر18:

یہ بات مسلم ہے کہ علماء امت کا اختلاف رحمت ہے۔ اس سے کون سا اختلاف مراد ہے۔ کیونکہ بعض اختلافات للہیت کی وجہ سے ہوتے ہیں اور بعض اختلافات میں نفس کی آمیزش ہوتی ہے۔

جواب:

جس اختلاف میں نفس کی آمیزش شامل ہو اسے ”اختلاف“ نہیں بلکہ ”مخالفت“ کہتے ہیں۔ اور ایسا اختلاف جو مخالفت تک پہنچ جائے اس میں رحمت نہیں بلکہ امت کے لئے زحمت ہے۔ ایسا اختلاف کرنا بڑی خطرناک بات ہے، جہنم کی طرف لے جانے والی حرکت ہے۔ اس سے حتی الامکان بچنا چاہیے اور توبہ کرنی چاہیے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن