سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 353

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر1:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی ابھی فجر کی نماز میں سورۂ حشر کا آخری رکوع پڑھا گیا جب یہ آیت آئی:

﴿وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ (الحشر: 19)

ترجمہ: ”اور تم ان جیسے نہ ہو جانا جو اللہ کو بھول بیٹھے تھے، تو اللہ نے انھیں خود اپنے آپ سے غافل کر دیا۔ وہی لوگ ہیں جو نافرمان ہیں“۔

تو ایک دم دل میں خیال آیا کہ کتنا ہی عرصہ اللہ کی یاد سے غافل گزرا، فسق میں گزرا۔ اب استغفار کر رہا ہوں کہ زندگی کا بیشتر حصہ غفلت میں گزر گیا اور ساتھ ساتھ ذہن اس سوچ میں ہے کہ ابھی کچھ دیر کے بعد جب روزمرہ کے کام میں مشغول ہوں گا تو پھر کیا ہو گا۔ برائے مہربانی کوئی ایسا طریقہ بتا دیں کہ کوئی لمحہ بھی اللہ کی یاد سے خالی نہ ہو چاہے میں کسی بھی کام میں مصروف ہوں۔

جواب:

ماشاء اللہ بہت اچھی فکر ہے۔ واقعتاً قرآن سے ہدایت لینے کا نظام قیامت تک چلتا رہے گا۔ آپ کو بھی جو یہ خیال آیا، یہ اصل میں قرآن کا کمال ہے۔ قرآن ایک انتہائی بلیغ کلام ہے۔ جو لمحہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل گزرتا ہے اس پر فسق کا اطلاق تو نہیں کر سکتے کیونکہ فسق اعلانیہ گناہ کو کہتے ہیں جبکہ اللہ کی یاد کے بغیر وقت گزرنے کو غفلت کہتے ہیں اور غفلت بذات خود بہت بڑا نقصان ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے، جو ذکر کر رہا ہے وہ زندوں میں شمار ہے اور جو ذکر نہیں کر رہا وہ مردوں میں شمار ہے۔

آپ نے پوچھا کہ کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ میں غفلت میں نہ پڑوں۔ ہمارے ہاں آج کل یہی بات چل رہی ہے کہ جب نفس کا سلوک طے ہوتا ہے تو نفس مطمئنہ حاصل ہو جاتا ہے۔ انسان کو غافل کرنے والا نفس امارہ ہی ہے کیونکہ وہ انسان کو اپنے شوقوں، شہوتوں اور خواہشات میں لگا لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کر دیتا ہے۔ جس وقت انسان ان شہوات کی دنیا سے نکل آئے، اس کا نفسِ امّارہ نفسِ مطمئنہ بن جائے تو پھر وہ شریعت کے مطابق کام کرے گا، اس کے نفس میں سے شریعت کے لئے مخالفت اور مزاحمت ختم ہو جائے گی پھر وہ معرفت کے ذریعے مزید ترقی کرے گا تو کیفیت احسان بھی حاصل ہو جائے گی اور کیفیت احسان کے ساتھ کیفیت حضوری بھی ہوتی ہے۔ کیفیت حضوری یہ ہے کہ انسان کو ہر لمحہ اس بات کا استحضار رہتا ہے کہ میں اللہ کے سامنے ہوں۔ یہی اصل ذکر ہے۔ ذکر صرف زبان سے نہیں ہوتا۔ ذکر اس کو کہتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ یاد رہے۔ یہاں بھی یہی فرمایا گیا ہے:

﴿وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ (الحشر: 19)

ترجمہ: ”اور تم ان جیسے نہ ہو جانا جو اللہ کو بھول بیٹھے تھے، تو اللہ نے انھیں خود اپنے آپ سے غافل کر دیا۔ وہی لوگ ہیں جو نافرمان ہیں“۔

جس کو اللہ یاد ہے وہ ذاکر ہے اس نے بھلایا نہیں ہے، عتاب تو بھلانے پر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی اللہ تعالیٰ کو بھولا نہیں، کوئی اور کام کر رہا ہے اس میں اللہ کو نہیں بھولا، دوستوں سے مل رہا ہے اس میں بھی اللہ کو نہیں بھولا، کھانا کھا رہا ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں بھولا، جتنی دیر تک اس کی آنکھ کھلی ہے وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں بھولا۔ جب انسان ایسا ہو جائے تو پھر غافلین و فاسقین میں شمار نہیں ہو گا۔ انسان کو یہی مرتبہ حاصل کرنا چاہیے۔ نفس مطمئنہ کے حصول کے بعد ان شاء اللہ ساری برکات حاصل ہو جائیں گی لہٰذا سب سے پہلے نفس مطمئنہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ اسی کے لئے سلوک طے کرنا ہوتا ہے۔ الحمد للہ ہمارے ہاں اس پہ کام شروع ہو چکا ہے سلوک کے دس مقامات طے کرنے کی ترتیب شروع ہو چکی ہے۔ آپ بھی اس موقعہ سے فائدہ اٹھائیں اور جلد سے جلد سلوک طے کر لیں۔ ان شاء اللہ جب سلوک طے ہو جائے گا تو سیر فی اللہ میں داخل ہو جائیں گے۔ سیر فی اللہ میں انسان نفس کی  مزاحمت سے باہر نکل آتا ہے نتیجتاً اسے عبادت میں کیفیتِ احسان اور عبادت کے علاوہ کے اوقات میں کیفیتِ حضوری حاصل ہو جاتی ہے۔ نفس کی اصلاح مکمل کر لیں، سلوک کے دس مقامات مکمل کر لیں تو ان شاء اللہ یہ چیز آپ کو حاصل ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے۔

سوال نمبر2:

السلام علیکم۔ حضرت جی فی الحال چھینک اور جمائی کی سنت بھیجی ہے اور باقی کے لئے فہرست بنائی ہے۔

جواب:

اس کام کو جاری رکھیں۔ سنتوں پہ چلنے کا کام بڑا ہی مبارک کام ہے۔ اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔

سوال نمبر3:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی مراقبہ کے دوران اللہ اللہ محسوس نہیں ہوتا۔ شروع میں محسوس ہوتا تھا۔

جواب:

آپ اپنی کوشش جاری رکھیں۔ حالات بدلتے رہتے ہیں بعض دفعہ بد پرہیزی ہو جاتی ہے بعض دفعہ کوئی اور چیز غالب آ جاتی ہے لیکن آپ کی کوشش جاری رہنی چاہیے۔ آپ کی کوشش ہی ذکر میں شمار ہو گی اصل مقصد اللہ کو یاد رکھنا ہے۔ یہ ہر حالت میں ہو سکتا ہے۔ جب انسان مراقبہ کے لئے بیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کے لئے ہی بیٹھتا ہے۔ آپ اپنے مراقبہ میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کو سننے کی جو کوشش کر رہے ہیں یہ بھی ذکر میں شمار ہو رہی ہے لہٰذا آپ اس کو جاری رکھیں اور مایوس نہ ہوں۔ ان شاء اللہ اپنے وقت پر ساری چیزیں حاصل ہو جائیں گی۔

سوال نمبر4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی آپ نے بتایا تھا کہ ظہر اور مغرب کے درمیان زیادہ تر درود شریف پڑھا جائے۔ یہ فرما دیجئے کہ درود شریف میں آپ کونسا صیغہ زیادہ پسند فرماتے ہیں جس میں تکرار آسان ہو۔

جواب:

درود شریف کا کوئی بھی صیغہ پڑھا جا سکتا ہے جو زبان پہ زیادہ آسانی سے ادا ہو جائے۔ ہم زیادہ تر یہ پڑھتے ہیں: ”وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ“ یہ صحیح حدیث شریف کے مطابق مکمل درود شریف ہے اور آسانی سے پڑھا بھی جا سکتا ہے۔ اگر کسی کو عادت ہو جائے تو ایک گھنٹہ میں تین ہزار سے زیادہ بار پڑھا جا سکتا ہے۔  

سوال نمبر5:

میں جب بھی نبی ﷺ کی سیرت کے بارے میں پڑھتی ہوں تو کبھی کبھی دل میں بہت ہی نا پسندیدہ خیال آتے ہیں، ان خیالات سے بہت پریشان ہوتی ہوں۔ کبھی کبھی اپنا آپ مرتد محسوس ہونے لگتا ہے۔ کتنی دفعہ ارادہ کیا کہ آپ محترم کو بتاؤں مگر شرمندگی کی وجہ سے نہ بتا سکی۔

جواب:

خود بخود خیالات آنے پر کوئی گناہ یا مواخذہ نہیں ہوتا، یہ وساوس ہوتے ہیں اور وساوس انسان کی اپنی طرف سے نہیں ہوتے بلکہ شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان کی پروا نہ کریں اور ان پر اپنا دھیان نہ لگائیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر آپ کو ان سے تکلیف ہوتی ہو تو اس پر اجر ملے گا۔ لہٰذا اس کے بارے میں آپ کوئی فکر نہ کریں۔ انسان صرف ان چیزوں کا مکلف ہے جو وہ کر سکتا ہو۔ اس پر قرآن پاک کی نص موجود ہے:

﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286)

ترجمہ: ”اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا“۔

لہٰذا ایسی چیزوں سے بالکل نہ گھبرائیں۔ 

سوال نمبر6:

السلام علیکم! ایک سوال مجھے بہت پریشان کرتا ہے کہ انسان کو جو ملازمت ملتی ہے کیا وہ پہلے سے تقدیر میں لکھا ہوتا ہے؟ انسان جتنا پیسہ اپنی ساری زندگی میں کماتا ہے کیا یہ بھی اس کی تقدیر ہے؟ کیا انسان اپنی تقدیر سے کم یا زیادہ پیسہ کما سکتا ہے؟ ازراہِ کرم قرآن اور حدیث شریف کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

قرآن و حدیث کی روشنی میں دو باتیں جان لیں:

﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰهِ رِزْقُهَا﴾ (ھود: 6)

ترجمہ: ”اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمے نہ لے رکھا ہو“۔

﴿لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰیۙ﴾ (النجم: 39)

ترجمہ: ”انسان کو خود اپنی کوشش کے سوا کسی اور چیز کا (بدلہ لینے کا) حق نہیں پہنچتا“۔

یہ دونوں باتیں بیک وقت میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس جاندار کا جو رزق مقرر کر دیا ہے وہ اس کو ملے گا۔ دوسری بات یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ اب بات یوں ہے کہ جس کے لئے انسان کوشش کرے گا وہی اس کے لئے لکھا ہو گا۔ ہم لوگ عمل کے مکلف ہیں نتیجہ کے مکلف نہیں ہیں۔ لہٰذا ہم وہ کام کر لیں جو ہمارے ذمہ ہے، جس کے ذمہ نتیجہ ہے وہ اپنا کام کر لے گا اس کے بارے میں آپ فکر نہ کریں۔ انسان کو اللہ جل شانہ نے اسباب کو اختیار کرنے کا مکلف کیا ہے۔ یہی اللہ پاک کا حکم ہے کہ اسباب کو اختیار کریں، نتیجہ اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے۔ مثلاً میں ڈاکٹر  کے پاس جاتا ہوں تو ڈاکٹر مجھے ٹھیک نہیں کر سکتا، چونکہ مجھے بیماری کی صورت میں معالج کا سبب اختیار کرنے کا حکم ہے لہٰذا میں ڈاکٹر کے پاس جاؤں گا۔ آگے اللہ پاک چاہے گا تو اس کے دل میں صحیح بات ڈال دے گا اور میرا کام ہو جائے گا اور اللہ پاک اس کے بغیر بھی کر سکتا ہے۔ ہمیں اجازت ملی ہے کہ ہم اسباب کو اختیار کریں۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں دعا کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمایا:

﴿وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ (غافر: 60)

ترجمہ: ”اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا“۔

لہٰذا آپ دعا میں اپنے لئے بہترین سے بہترین چیز مانگیں پھر جو اللہ پاک کی طرف سے اس پر فیصلہ ہو گا اس کے مطابق ہو جائے گا۔

اگر آپ اپنے اس سوال کو اس طرح حل کرنا چاہتے ہیں جیسے ریاضی کا کوئی سوال ہو اور دو جمع دو چار کی طرح کا فارمولا مل جائے تو جان لیں کہ ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت ساری چیزیں ہمارے ذہنوں سے اوپر کی ہیں۔ اگر آپ اس کو اسی طریقے سے حل کرنا چاہیں گے تو بڑے سے بڑا کمپیوٹر بھی  جام ہو جائے گا۔ بعض چیزوں کی وجہ سے کیلکولیٹر بھی ایرر دینے لگتا ہے۔ ہمارا دماغ بھی محدود ہے اگر اس کی طاقت سے زیادہ کا سوال اس سے پوچھیں گے تو یہ کام نہیں کرے گا نتیجتاً یا تو آپ پاگل ہو جائیں گے یا دیوانے ہو جائیں گے اور نا کام ہو جائیں گے، کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔ لہٰذا آپ اتنا ہی سوچیں جتنا آپ برداشت کر سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ اپنے سر کے اوپر فکر سوار نہ کریں، ایک عملی زندگی اختیار کر لیں، خواہ مخواہ اپنے آپ کو الجھنوں میں نہ ڈالیں۔

سوال نمبر7:

السلام علیکم۔ آپ نے مجھے جو ذکر دیا تھا وہ میں کر رہا ہوں۔ سو سو دفعہ درود شریف، استغفار اور تیسرا تیسرا کلمہ۔ اس کے علاوہ بلند آواز کے ساتھ ”اَللّٰہ“ 100 مرتبہ، ”حَقْ“ 100 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 100 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 100 کرتا ہوں۔

پہلے یہ ذکر چلتے پھرتے کرتا تھا اب الحمد للہ ایک نشست میں بیٹھ کے کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ جو ٹائم ہو اس میں کیا ذکر کیا کروں، کیونکہ میرے پاس تھوڑا سا وقت مزید ہوتا ہے۔

جواب:

یہ جو آپ نے بیٹھ کے ایک نشست میں ذکر کرنا شروع کر لیا ہے یہ بہت اچھی بات ہے لیکن آپ نے جو ترتیب بتائی ہے یہ درست نہیں ہے۔ اگر آپ نے صرف بتانے میں غلطی کی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر آپ کر ہی اس طرح رہے ہیں تو اس ترتیب کو درست کر لیں صحیح ترتیب اس طرح ہے:

”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 100 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 100 مرتبہ، ”حَقْ“ 100 مرتبہ، ”اَللّٰہ“ 100 مرتبہ۔

اگر اس ذکر کو کرتے ہوئے ایک ماہ پورا ہو گیا ہے تو اب اس کو بڑھا کر اس طرح کر لیں۔

”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 200 مرتبہ، ”حَقْ“ 200 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 100 مرتبہ۔

ان اذکار کے بعد مزید فارغ وقت مل جاتا ہے تو اگر وہ وقت فجر سے لے کر دوپہر تک ہے تو اس میں ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ“ جتنا ہو سکے پڑھا کریں، اگر وہ وقت دوپہر سے مغرب تک ہے تو اس میں درود شریف جتنا زیادہ ممکن ہو پڑھیں اور اگر مغرب کے بعد کا وقت ہے تو اس میں استغفار جتنا زیادہ ممکن ہو پڑھ لیا کریں۔

سوال نمبر8:

میں سوال و جواب کے پرانے میسجز سن رہا تھا جس سے مجھے پتا چلا کہ میں نے پہلی بار 2013 میں آپ سے ذکر لیا تھا پھر سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اس کے بعد گذشتہ سال اگست میں دوبارہ آپ نے مجھے یہی ذکر دیا تھا اور کہا تھا کہ کچھ عرصہ جاری رکھوں۔ اب میں ان شاء اللہ ذکر پہ مداومت کروں گا۔ ہر مہینے میں کچھ نہ کچھ معمولات رہ جاتے ہیں۔ معمولات کا چارٹ میں باقاعدگی سے بھیجتا ہوں۔

جواب:

ہمارے پاس مریدوں کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک قسم کے مرید وہ ہوتے ہیں جو اپنی اصلاح کرانا چاہتے ہیں، ان کے لئے ہمارا طریقہ کار الگ ہوتا ہے۔ دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو صرف اہل حق کے ساتھ  شامل ہونا چاہتے ہیں، اپنی اصلاح نہیں چاہتے، ان کے لئے ہمارے ہاں طریقہ کار الگ ہوتا ہے۔ آپ اپنے آپ کو کس قسم میں شامل کر رہے ہیں یہ تو مجھے نہیں معلوم لیکن میں آپ سے یہ کہوں گا کہ اگر آپ اپنی اصلاح کے لئے میرے ساتھ رابطہ میں ہیں تو پھر یہ سمجھ لیں کہ اصلاح  طبی علاج کی طرح ہوتی ہے۔ کیا خیال ہے ڈاکٹر آپ کو دوائی بتا دے اور آپ کہہ دیں چلو ٹھیک ہے میں اس کی پہلی خوراک ایک مہینہ تک کھا کے دیکھتا ہوں کہ یہ مجھ سے کھائی جا سکتی ہے یا نہیں، پھر اگلے مہینے اگلی خوراک کے بارے میں پوچھوں گا، بتائیں اگر اس طرح علاج کروائیں گے تو علاج ہو پائے گا؟ ظاہر ہے کبھی نہیں ہو پائے گا۔ در اصل علاج میں اپنی مرضی نہیں چلانی ہوتی۔ اپنی مرضی چلانے سے اصلاح نہیں ہوا کرتی۔ بہت کچھ ہو سکتا ہے لیکن اصلاح نہیں ہوتی۔ اب آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے یہ تو مجھے نہیں معلوم۔ بہر حال اگر فیصلہ کرنا ہے تو ان چیزوں کو مد نظر رکھیں کہ اگر آپ اپنی اصلاح چاہتے ہیں تو پھر جو ہدایات ہم آپ کو دیں آپ نے انہی کے مطابق چلنا ہوگا لیکن اگر آپ کا ارادہ نہیں ہے تو میں آپ سے زبردستی تو نہیں کر سکتا جو آپ کی مرضی وہ آپ کر لیں۔

سوال نمبر9:

السلام علیکم!

Sir, I am فلاں from راولپنڈی. I’m sister of فلاں. I have been doing 15 minutes مراقبہ for four months but I can’t attain full attention. Please guide me about it.

جواب:

ماشاء اللہ۔ آپ چار مہینے سے یہ معمول کر رہی ہیں جو کہ اچھی بات ہے۔ پندرہ منٹ کا مراقبہ توجہ بڑھانے کے لئے ہی ہے۔ اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کو پہلے ہی دن  پوری توجہ حاصل ہو جائے تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ ذکر غفلت سے نکالنے کے لئے ہوتا ہے۔ ابتدائی ذکر تو غفلت کے ساتھ ہی کرنا پڑے گا، جتنا جتنا آپ ذکر کریں گی اتنی اتنی غفلت کم ہوتی جائے گی اور آپ کا ہر اگلا ذکر پچھلے ذکر سے بہتر ہو گا۔ آپ رابطہ برقرار رکھیں۔ مہینہ میں کم از کم ایک دفعہ ٹیلی فون کر لیا کریں۔ معمولات کا چارٹ ہماری ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کر لیں اور اسے با قاعدگی سے بھر کے بھیجا کریں تاکہ آپ جلد سے جلد ترقی کریں۔ انسان کو ان کاموں میں حریص ہونا چاہیے۔ دنیا کے کاموں میں ہم بڑے حریص ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی اپنا کورس ادھورا نہیں چھوڑتا لیکن آخرت کی کامیابی کے کورسز کی ہم کوئی فکر نہیں کرتے۔ ہمیں آخرت کے معاملہ میں بہت زیادہ حریص ہونا چاہیے۔ نفسِ امارہ انسان کو خراب کرنے کے لئے ہوتا ہے اور نفس مطمئنہ انسان کو  شریعت پر عمل کرنے میں مدد کرنے کے لئے ہے۔ آپ جلد از جلد نفس امارہ کے جال سے نکلیں تاکہ روحانیت کا سفر شروع کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما دے۔

سوال نمبر10:

السلام علیکم۔ حضرت جی آپ کو بتانا تھا کہ مراقبۂ دل اور روح کافی عرصہ سے کر رہا ہوں۔ کبھی تو کوئی کیفیت نہیں ہوتی اور دو دن سے جو کیفیت ہو رہی ہے وہ بیان کرنا مشکل ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے بند کمرہ ہو جہاں روشنی ہی روشنی ہو اچانک جیسے وہاں سے دھکے دے کر کوئی نکالتا ہے جس سے شدید جھٹکا لگتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ اگر میں نے آنکھ نہ کھولی تو دیوانہ ہو جاؤں گا ساتھ ہی پورا جسم درد سے بھر جاتا ہے۔ مہربانی کر کے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

یہ احوال ہیں اور احوال بدلتے رہتے ہیں۔ ہم لوگوں نے اپنے مقام کی طرف بڑھنا ہے۔ آپ اپنا مراقبہ جاری رکھیں اور جو طریقہ کار بتایا گیا ہے اس کے مطابق چلتے رہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کی برداشت آنا شروع ہو جاتی ہے۔

سوال نمبر11:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی مراقبہ کے دوران یا نماز میں بعض دفعہ دل تیز دھڑکنے لگ جاتا ہے اور سانس پھول جاتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ نیز کیا مراقبہ کے دوران ایسی کیفیت پیش آ جائے تو آگے سبق لینا چاہیے یا اسی کو جاری رکھنا چاہیے۔ جزاک اللہ فی الدارین۔

جواب:

انسان کو ترقی کرتے رہنا  چاہیے۔ دل تیز دھڑکنے میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے وہ وقتی طور پر ہوتا ہے اس کے بعد انسان اس کے ساتھ عادی ہو جاتا ہے۔ بہر حال آپ اپنی کیفیات مجھے لکھتے رہیں۔ آگے کا سبق ضرور لینا چاہیے۔

سوال نمبر12:

حضرت والا مرشدی و مولائی حفظکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ کچھ مستورات اپنے گھروں سے مجلس مبارکہ آن لائن سنتی ہیں اور ایک صاحب جو کام اور اپنی دوسری مصروفیات کے دوران حضرت والا کا درس آن لائن سننے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی طرف سے خدمتِ اقدس میں سوال عرض ہے کہ اگر ہم تمام مجالس نہ سن سکیں تو کون سی مجلس ایسی ہے کہ جو ہمیں ہر صورت سننی چاہیے اور چھوڑنی نہیں چاہیے۔ میں نے ان کو بس اتنا عرض کیا کہ آپ حضرت شاہ صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ سے رابطہ کر لیں، حضرت آپ کے دیگر مشاغل و مصروفیات کا جائزہ لے کر آپ کے لئے جو تجویز کریں گے وہی مفید ہو گا۔ اُس وقت تو یہ جواب دیا لیکن پھر مشورہ دیا کہ آج کی مجلسِ سوال و جواب ضرور سن لیں اس میں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ کام اور دیگر ذمہ داریوں کے باوجود اگر نیت اور تھوڑی سی کوشش کر لیں تو اللہ راستہ نکال ہی دیتا ہے۔ اپنی مثال بھی عرض کر دی کہ آن لائن مجلس مبارکہ میں اہتمام سے حاضری کا معمول ہے شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ کسی بیماری کی وجہ سے کبھی ناغہ ہوا ہو۔ الحمد للہ اس سے ان کی ہمت افزائی ہوئی انہوں نے کہا کہ حضرت صاحب سے بھی رابطہ کریں گے لیکن آپ ہماری طرف سے سوال عرض کر دیں۔ ان حضرات و خواتین کی طرف طرف سے حضرت والا کی خدمت میں رہنمائی کی گزارش ہے۔ جزاکم اللہ خیر احسن الجزا۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔

جواب:

یہ بہت اہم سوال ہے۔ ایک بار میں نے اپنے ایک بزرگ سے اس بارے میں پوچھا تھا انہوں نے فرمایا تھا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں ذہن سازی ہے جبکہ تریبت السالک اور ملفوظات میں تربیت ہے۔ آپ کو دو چیزیں چننی چاہئیں، ایک ذہن سازی کے لئے اور ایک تربیت کے لئے۔ میرا مشورہ یہ ہو گا کہ آپ ذہن سازی کے لئے خواتین والا بیان سنا کریں جو ہمارے ہاں اتوار کے روز گیارہ سے بارہ بجے تک ہوتا ہے۔ اس کو با قاعدگی کے ساتھ سنا کریں، اس میں خواتین کے لئے ذہن سازی ہے۔ اور تربیت کے لئے مجلس سوال و جواب سنا کریں، اس میں تربیت ہوتی ہے۔ ہم ان شاء اللہ جلد ہی ویب سائٹ پر سوال و جواب کی تمام مجالس اپ لوڈ کر دیں گے۔ جس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ پرانے سوالات کے جوابات بھی پڑھ اور سن سکیں گے۔

یہ ترتیب تو خواتین کے لئے ہے جبکہ مرد حضرات ذہن سازی کے لئے مثنوی شریف کا درس سنا کریں کیونکہ مکتوبات شریفہ کا ذوق ہر ایک کو نہیں ہوتا، جنہیں یہ ذوق ہو انہیں بہت فائدہ ہوتا ہے لیکن مثنوی شریف سب کے لئے ہے لہٰذا ذہن سازی کے لئے مثنوی شریف  کا درس سن لیا کریں اور تربیت کے لئے سوال و جواب کی مجالس سن لیا کریں۔

یہاں ایک اہم بات عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ جو ہماری سوال و جواب کی مجلس ہے اس کی نا قدری نہیں کرنی چاہیے کیونکہ تربیت اسی میں ہے۔ جسے ہم لوگ سلوک طے کرنا کہتے ہیں وہ اسی میں ملتا ہے۔ آج کل بعض حضرات کے ہاں صرف ذکر اور مراقبہ پر زور لگایا جاتا ہے اس کے علاوہ اور کسی چیز کے بارے میں بات نہیں کی جاتی، نہ تکبر کے بارے میں پوچھتے ہیں نہ حسد کے بارے میں پوچھتے ہیں، نہ ریا کے بارے میں پوچھتے ہیں، نہ اخلاص کے بارے میں پوچھتے ہیں اور نہ ہی دوسری روحانی بیماریوں کی اصلاح کی طرف توجہ ہوتی ہے، حالانکہ سلوک نفس کے رذائل کو دور کرنے کا نام ہے۔ سوال و جواب کی مجلس میں سالکین و سالکات اپنی کیفیات و احوال بتاتے ہیں اس کے مطابق ان کو جواب دیا جاتا ہے۔ اس سے سننے والوں کو بھی اپنے نفس کے رذائل کا علاج کرنے کے طریقے ملتے ہیں۔ مجھے ایک شیخ نے ہدایت کی کہ سوال و جواب کی مجالس کو محفوظ رکھیں آج کل کا سلوک یہی ہے اور ان کی یہ بات بالکل صحیح ہے۔ لہٰذا یہ مجلس باقاعدگی سے سنا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھیوں کو توفیق دے کہ جن مجالس کی ٹائپنگ وغیرہ رہتی ہے وہ مکمل کریں تاکہ انہیں ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا جا سکے۔ ان چیزوں کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ہماری ایک چھوٹی سی کتاب ہے ”تصوف کا خلاصہ“، اس سے جتنا فائدہ ہوا ہے شاید ہی ہماری کسی اور کتاب سے ہوا ہو۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں تربیت ہے اور تصوف کی اصطلاحات کی تشریح ہے۔

بہر حال میری تجاویز یہی ہیں کہ خواتین مجلسِ سوال و جواب اور خواتین کے بیان کو سننے کا التزام رکھیں اور مرد درسِ مثنوی شریف اور مجلسِ سوال و جواب کو سننے کا التزام رکھیں۔ اس کے علاوہ باقی نوادرات ہیں، مکتوبات شریفہ میں بہت بڑے علوم ہیں، قدر دان تو اس کو نہیں چھوڑتے۔ ہمارا عارفانہ کلام بھی ایسے ہی ہے جیسے مثنوی شریف کا درس ہے بس اتنا فرق ہے کہ ہماری شاعری کی زبان اور اس میں استعمال شدہ اصطلاحات آج کل کے دور کے مطابق ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں ”عبقات“ کا درس ہوتا ہے، جو حضرات شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ ایک دروازہ کی حیثیت رکھتا ہے جس سے ہو کر وہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی الہامی تعلیمات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

سوال نمبر13:

This is a question for a Question Answer Session.

السلام علیکم حضرت

I wanted to ask you about what you said in one of your talks about all the phase that comes to the world is through رسول اللہ .صلی اللہ علیہ وسلم This is something that we find amongst the بزرگان دین. They mentioned this type of thing. What I wanted to know is an اشارہ for this from the text including the fact that the Prophet Muhammad (s.a.w) is رحمۃ العالمین and the fact that he has the شفاعۃ الکبرٰی for all the امم and the fact that even the prayer is not  acceptable without the درود. He is the first to enter paradise. But in terms of all of the خیر of the دنیا coming through him, is there any specific proof text that we use for this and this would be nice to know that this is something which is the belief of our بزرگان  which also have the basis in Quran and Sunnah. One of the things is that people who are against تصوف in England say these types of things don’t have any toleration in the Quran and the Sunnah. I did see that I think مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ he brings this type of ideas well. He is a مجدد, so I presume he must have found something for it and also many poems that are accepted by the Muslims like بوصیری رحمہ اللہ ‘s بردہ and he says,

وکُلُّھُمْ مِّنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ مُلْتَمِسٌ

غَرْفًا مِّنَ الْبَحْرِ اَوْ رَشْفًا مِّنَ الدِّیَمِ

So there must be some basis for this. So, I want the few enlightenments ان شاء اللہ and you will enlighten me. if you feel that is something that is of no benefit then again الحمد للہ. جزاک اللہ خیر۔

جواب:

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ جل شانہ نے دو قسم کے نظام بنائے ہیں، تشریعی اور تکوینی۔ دونوں نظاموں کی اللہ جل شانہ نے پوری ایک ترتیب بنائی ہے اور اسی ترتیب کے مطابق سب کچھ چلتا ہے۔ دو قسم کے فیوض ہوتے ہیں۔ (1) شرعی فیوض۔ (2) تکوینی فیوض۔

شرعی فیوض سے مراد شریعت کی برکات اور آخرت کے انعامات ہیں۔ ان کے بارے میں تو کوئی سوال کر ہی نہیں سکتا، کیونکہ یہ فیوض آپ ﷺ کا طریقہ ہیں اور اللہ جل شانہ کو آپ ﷺ کا طریقہ پسند ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)

ترجمہ: ”(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا“۔

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب: 21)

ترجمہ: ”حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے“۔

معلوم ہوا کہ جتنے بھی شرعی فیوض ہیں وہ آپ ﷺ کی تعلیمات ہیں، ہم ان تعلیمات کو اپناتے ہیں تو ان فیوض کی برکات ہمیں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ تمام فیوض آپ ﷺ ہی کے ذریعے سے ہمیں ملے ہیں۔

تکوینی فیوض کے بارے میں بھی ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ ہم ان فیوضات کے حصول کا ذریعہ بھی آپ ﷺ ہی کو سمجھتے ہیں۔ یہ برکات بھی آپ ﷺ ہی کے ذریعے آتی ہیں۔

یہ نبی ﷺ کا ایک بہت بڑا فیض ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک ایک بھی اللہ اللہ کرنے والا آدمی موجود رہے گا۔ ظاہر ہے یہ اللہ اللہ کرنا آپ ﷺ نے ہی سکھایا ہے۔ لہٰذا قیامت تک دنیا کا باقی رہنا، اس کا ذریعہ آپ ﷺ ہی ہیں۔

آپ ﷺ اللہ پاک کے رحمت کے نظام کا سرچشمہ ہیں جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا:

﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾ (الانبیاء: 107)

ترجمہ: ”اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے“۔

تمام جہانوں پر اللہ کی رحمتوں کا مختلف طریقوں سے مسلسل نازل ہوتے رہنا یہ بھی آپ ﷺ کا فیض ہے۔

زمین پر انسانوں اور جنوں کے گناہوں کی وجہ سے فسادات و عذابات آتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری ہے:

﴿ظَهَرَ ٱلْفَسَادُ فِى ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِى ٱلنَّاسِ﴾ (الروم: 41)

ترجمہ: ”لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا“۔

اس لحاظ سے نبی ﷺ کا ایک عظیم فیض یہ ہے کہ جو شخص آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر چلتا ہے اور آپ ﷺ کے طریقہ پہ چلتا ہے تو وہ بحر و بر میں آنے والے تکوینی فسادات و عذابات سے محفوظ رہتا ہے۔

اگر ہم نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے کو اپناتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھال لیتے ہیں، نبی ﷺ کا یہ ظاہری اور تشریعی فیض لے لیتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ تکوینی نظام کو خود ہی ہمارے حق میں کر دیتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے طریقہ پہ چلتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تکوینی نظام ان کے ماتحت کر دیئے تھے۔ وہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ صحابہ کرام نے جنگل میں پڑاؤ ڈالا۔ ان کے امیر نے جنگل کی طرف رخ کر کے اعلان کیا کہ ہم محمد کے غلام آئے ہوئے ہیں اور یہاں بسیرا کریں گے، اے جنگل کے جانورو! تم یہاں سے نکل جاؤ۔ لوگوں نے دیکھا کہ سب جانور اپنے اپنے بچوں کو منہ میں لئے ہوئے جنگل سے نکل رہے ہیں۔

اسی طرح فارس سے جنگ کے دوران دریا سامنے آ گیا، اسے پار کرنے کے لئے کوئی پل موجود نہیں تھا۔ صحابہ کرام نے اپنے گھوڑوں کو دریا میں ڈال دیا اور اللہ کی قدرت سے گھوڑے پانی پہ چلنے لگے۔ دوسری طرف سے ایرانیوں نے دیکھا تو حیرت کے مارے کہنے لگے: ”دیوان آمدند دیوان آمدند“ یعنی دیو آ گئے، دیو آ گئے۔

ان واقعات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب صحابہ کرام نے تشریعی فیض کو اپنا لیا اور شریعت پر عمل کو حرزِ جاں بنا لیا تو اللہ پاک نے تکوینی نظام کو ان کے لئے مسخر کر دیا۔

قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اے انسانو! ہم نے تمہارے لئے آسمان و زمین کو مسخر کیا ہے۔ انسانوں کے بڑے آپ ﷺ ہی ہیں تو سب سے پہلے اور کامل طور پر زمین و آسمان کو آپ ﷺ کے لئے مسخر کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کے بعد یہ سب چیزیں اس کے لئے مسخر ہوں گی جو آپ ﷺ کے طریقے پہ چلے گا۔ جو انسان جتنا آپ ﷺ کے طریقے پہ چلے گا اس کے ساتھ اتنی زیادہ اللہ تعالیٰ کی تکوینی امداد ہو گی۔

ایک مرتبہ مجھ سے کسی نے کہا کہ لوگ کہاں پہنچ گئے اور آپ کون سی باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: یہ بتاؤ کہ صحابہ کرام دنیا دار تھے یا ہم دنیا دار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم دنیا دار ہیں۔

میں نے کہا: دنیا میں صحابہ کرام کامیاب تھے یا ہم کامیاب ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ صحابہ کرام زیادہ کامیاب تھے۔

میں نے کہا کہ پھر ہم انہی صحابہ کرام کی ہی تو باتیں کر رہے ہیں، اور صحابہ کرام صرف آپ ﷺ کے طریقے پہ چلتے تھے اور کچھ بھی نہیں کرتے تھے۔ صرف اس طریقے پر مکمل طور پر چلنے کی برکت تمام تکوینی نظام ان کے حق میں کام کرتے تھے۔

لہٰذا اتنی بات تو مسلم ہے کہ اللہ جل شانہ کے فیوض و برکات آپ ﷺ کے ذریعے تقسیم ہوتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے:

﴿اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰہُ یُعْطِی﴾ (صحیح بخاری: 71)

ترجمہ: ”بے شک میں تقسیم کرنے والا ہوں اللہ تعالیٰ عطا فرمانے والے ہیں“۔

ہمارا تو اس بات پر ایمان ہے اور ہم اس کو دل سے مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عطا فرماتے ہیں اور تقسیم کا ذریعہ آپ ﷺ ہیں۔ اسی طرح کچھ اللہ والوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے تکوینی نظام کی ذمہ داریاں سونپی ہوتی ہیں انہیں اصحابِ خدمت کہتے ہیں۔ یہ اصحابِ خدمت فرشتوں کی طرح ہوتے ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ دنیا کا نظام چلاتے ہیں۔ دونوں نظام ہر وقت چل رہے ہوتے ہیں۔ تشریعی نظام مرشدین کے ذریعے چل رہا ہے جبکہ تکوینی نظام اصحاب خدمت اور فرشتوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے لیکن یہ مستور ہے۔ ان سب نظاموں کے سربراہ آپ ﷺ ہیں۔

خلاصہ یہ کہ دونوں قسم کے فیوض یعنی تکوینی اور تشریعی آپ ﷺ ہی کے ذریعے ملتے ہیں، اللہ پاک کی طرف سے تمام فیوض اور رحمتیں و برکتیں آپ ﷺ پر نازل ہو تی ہیں وہاں سے پوری کائنات کی طرف جاتی ہیں، آپ ﷺ تمام فیوض کا سرچشمہ ہیں۔

سوال نمبر14:

السلام علیکم حضرت!

How can we stop lying? Please guide a few steps not to lie professionally or at home as professionally we lie all the time and I believe it’s a curse for living a true life. I want to get rid of this sin which has become a habit in my life.

Regards.

جواب:

اللہ تعالیٰ آپ کو اس گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ایک بات اچھی طرح سمجھیے کہ ہر چیز کے اسباب ہوتے ہیں۔ ان اسباب کو اپنانے یا چھوڑنے سے مطلوبہ چیز کا حصول ہوتا ہے یا اس سے نجات پائی جا سکتی ہے۔ تین چیزیں انسان کی زندگی کو تبدیل کر سکتی ہیں۔ ایک دل ہے، ایک نفس ہے اور ایک عقل ہے۔ فوری نتیجہ چاہتے ہو تو عقل کو استعمال کر لو اور اپنے آپ کو سمجھاؤ کہ آخر میں جھوٹ کس لئے بول رہا ہوں، نہ تو دنیا کی کامیابی اس پر منحصر ہے اور نہ ہی آخرت کی کامیابی، تو میں جھوٹ کیوں بولوں لہٰذا میں سچ بولوں گا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ جہاں جہاں شریعت نے مجھے گنجائش دی ہے وہاں پر اس گنجائش کو استعمال کرلوں گا لیکن اگر شریعت نے گنجائش نہیں دی تو میں ہر حال میں سچ بولوں گا۔ انسان بعض دفعہ صرف اپنے آپ کو بہادر بتانے کے لئے، بعض دفعہ اپنے آپ کو سخی بتانے کے لئے اور بعض دفعہ اپنے آپ کو ذہین بتانے کے لئے جھوٹ بول دیتا ہے۔ یہ انتہائی فضول عمل ہے کیونکہ دوسروں کے ذہن میں اچھا بننا انسان کے بس میں نہیں ہے اور یہ باتیں بہت جلدی کھل جاتی ہیں۔ لہٰذا یہ حرکت فوراً چھوڑ دینی چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ انسان مکمل تربیت کروائے۔ چونکہ انسان نفس کی خواہش کے لئے جھوٹ بولتا ہے اس لئے چاہیے کہ نفس کی تربیت کروا لے، دل کو دنیا کی محبت سے صاف کر لے اور اپنی عقل کو سمجھا لے۔ ذکر و فکر کے ذریعے اپنی عقل کو جلا بخش دے۔ بس یہ تین کام کرنے ہوتے ہیں اور اسی کے لئے آپ نے بیعت کی ہے۔ آپ اس بیعت کی برکات  کو مکمل طور پر اخذ کریں۔ اپنے معمولات کا چارٹ باقاعدگی کے ساتھ ہر مہینہ بھیجتے رہیں۔ ساتھ ساتھ جو ذکر کا معمول بتا دیا جائے وہ بلا ناغہ کرتے رہیں اور رابطہ میں کمی نہ کریں۔ ان شاء اللہ آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ ان روحانی بیماریوں سے نجات نصیب فرما دیں گے۔  

سوال نمبر15:

حضرت جی آپ فرماتے ہیں کہ جو تکبر بصورت تواضع ہو وہ بہت خطرناک ہوتا ہے اس کا پتا امتحان کر کے چلتا ہے۔ عام حالات میں ایسا ہوتا ہے کہ مجھے لوگ پسند کرتے ہیں اور تعریف کرتے ہیں تو میں بھی اوپر سے یہی کہتی ہوں کہ کس کا دل کیسا ہے یہ تو اللہ ہی کو پتا ہے لیکن دل میں خوشی ہوتی ہے اور اچھا لگتا ہے، شکر کی ایک کیفیت بھی طاری ہوتی ہے۔ لیکن ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ تکبر اور خود پسندی تو نہیں۔ اگر کوئی مجھے برا کہہ دے تو برا لگتا ہے حالانکہ لوگ جو بھی کہیں اس سے فرق نہیں پڑتا، ہمیں تو اپنے آپ کو برا ہی سمجھنا چاہیے۔ جب میں کوئی اچھا کام کرتی ہوں تو کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ میری تعریف ہو، اس سے میرا حوصلہ بڑھتا ہے، اگلی بار شوق سے وہ کام کرتی ہوں۔ بے شک نیت تو عام طور پر یہی ہوتی ہے کہ اللہ پاک کو راضی کرنے کے لئے کر رہی ہوں جیسے اچھا کھانا پکانا وغیرہ لیکن اگر تعریف نہ ہو تو دل چھوٹا ہو جاتا ہے، اب اگر اللہ کے لئے کر رہی تھی تو لوگوں کے کہنے نہ کہنے سے فرق نہیں پڑنا چاہیے، پھر ایسا کیوں ہے، کیا ایسا اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے ہے؟

جواب:

جو تکبر بصورت تواضع ہو وہ واقعی بہت خطرناک ہوتا ہے لیکن وہ اور چیز ہوتی ہے آپ اس کو ٹھیک سے سمجھی نہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ہم لوگ کہتے ہیں کہ جی ہم بڑے حقیر فقیر پر تقصیر ہیں لیکن اگر کوئی ہمیں سچ مچ حقیر فقیر سمجھنا شروع کر دے اور ہمارے ساتھ حقیر فقیر جیسا سلوک کرے تو ہم آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ تکبر جو بصورت تواضع ہوتا ہے۔ اس میں انسان کو پتا ہوتا ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ انسان کا اپنی تعریف پر خوش ہونا تکبر کی اس قسم میں نہیں آتا۔ بلکہ اپنی تعریف پر خوش ہونا نفس کی ایک خواہش ہے جس کی آپ مخالفت کریں گی تو آپ کو اجر ملے گا۔ اب چونکہ یہ خواہش نفس کی طرف سے ہے اس لئے آپ اس کی پروا نہ کریں۔ اگر کوئی آپ کی تعریف کر لے پھر بھی پروا نہ کریں اور اگر نہ کرے تب بھی پروا نہ کریں۔ خود بخود جو خوشی ہو وہ آپ کے اختیار میں نہیں ہے، خود بخود جو رنج ہو وہ بھی آپ کے اختیار میں نہیں ہے اس لئے ان کی پروا نہ کریں اور اختیاری اعمال پر غیر اختیاری کیفیات کا اثر نہ آنے دیں۔ عملاً اپنے آپ میں ان کیفیات کی وجہ سے کوئی تبدیلی نہ لائیں۔

یہ ایک الگ بات ہے کہ اگر کوئی آپ کی تعریف نہیں کرتا تو دل چھوٹا ہو جاتا ہے۔ در اصل دل چھوٹا نہیں ہوتا دل اتنا ہی رہتا ہے، آپ بس یہ خیال رکھیں کہ اس سے آپ کا کوئی حرج نہیں ہوتا۔ بس آپ اپنا کام جاری رکھیں، ان شاء اللہ العزیز آپ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ 

سوال نمبر16:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

Saturday بدگمانی on my daughter, it was my fault. Due to my own worries, I scolded  her. She didn’t reply back nor did she say anything back but vented all her anger in the message to you. I am sorry! I made استغفار and توبہ and said sorry to her the next day. 

On Wednesday, words of dislike for a cat, I got annoyed at the patient but it was not thinking bad about him. I was doing some work and was disturbed and the way he spoke annoyed me. So I scolded him but I felt very bad immediately. After trying to speak kindly to compensate, I missed three Tahajjuds, one Vitar and two Sunnah. It was this month. 

جواب:

تہجد کی نماز کی قضاء آپ نے کر لی ہو گی۔ باقی چیزوں پہ آپ توبہ کر چکی ہیں، یہ بڑی اچھی بات ہے۔ جو چیزیں آپ نوٹ کر رہی ہیں وہ نوٹ کرتی رہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ اگر کوئی غلطی ہو جائے جس سے دنیا یا آخرت کا کوئی نقصان ہو، اس نقصان کی تلافی تو نہیں ہو سکتی لیکن یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی غلطی سے سیکھیں، تجربہ حاصل کریں اور دوبارہ ویسی غلطی نہ کریں تاکہ بار بار نقصان نہ ہو۔ حدیث شریف میں بھی آتا ہے کہ اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے چاہیے کہ کچھ اچھا کام بھی کر لے تاکہ اس کی  کچھ تلافی ہو جائے۔ آپ بھی  کوئی نیک کام کر لیں، صدقہ وغیرہ کر لیں ان شاء اللہ اللہ پاک بہتری فرمائیں گے۔ بہر حال توبہ اور انابت دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلیں گی۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن