سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 356

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

مجلس سوال و جواب نمبر 356

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال نمبر1:

السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ جب نفس یا دل کسی معمول بور ہو جائے، چاہے وہ ذکر سے ہو، دینی کاموں سے یا بیانات سننے سے ہو۔ ایسے وقت میں تفریح کے لئے آپ کیا تجویز کرتے ہیں جس سے حلال انداز میں دل و دماغ کی بشاشت واپس لائی جا سکے؟ میں نے اپنے دوستوں میں بعض عرب صوفی حضرات کو دیکھا ہے کہ وہ ایسے وقت میں ”قصیدۂ بردہ شریف“ سنتے ہیں یا سیر پہ چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ یوٹیوب پہ ویڈیوز وغیرہ دیکھتے ہیں یا کچھ شاعری وغیرہ سن لیتے ہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ ایسے وقت کیا کام کئے جائیں کہ جس طبیعت ہشاش بشاش ہو جائے، فائدہ بھی ہو، نفس کا حق بھی ادا ہو جائے اور روحانی لحاظ سے کوئی نقصان بھی نہ پہنچے۔

جواب:

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان مسلسل کوئی کام نہیں کر سکتا۔ مسلسل بیٹھا ہو تو بھی تھک جاتا ہے، مسلسل لیٹا ہو تو بھی تھک جاتا ہے، مسلسل کھڑا ہو تو بھی تھک جاتا ہے، مسلسل بول رہا ہو تو بھی تھک جاتا ہے، مسلسل خاموش ہو تب بھی تھک جاتا ہے۔ کسی بھی کام میں تسلسل ہو تو ایک مخصوص وقفہ کے بعد تھکاوٹ آ ہی جاتی ہے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ کام کی ترتیب کو تھوڑا سا تبدیل کر لیا جائے۔ ایسا کرنے جسمانی تھکاوٹ تو ضرور باقی رہ سکتی ہے لیکن نفسیاتی تھکاوٹ نہیں رہے گی۔ ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کہ جو کام روزانہ کرتے ہیں ایک ہفتہ ایک وقت میں کر لیں اگلے ہفتہ اس کا وقت تبدیل کر لیں یا تھوڑی سی جگہ تبدیل کر لیں۔ اس طرح کی ترکیبوں سے بھی تھکاوٹ کم ہوتی ہے۔

کام کے دوران جب ذہنی اور نفسیاتی طور پر آدمی تھک جائے تو نعتیہ کلام کلام بھی سنا جا سکتا ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ مزامیر کے ساتھ نہ ہو۔ اگر ذوق کے مناسب ہو تو عارفانہ کلام بھی سنا اور پڑھا جا سکتا ہے۔ اس سے انسان کے قلب کو روحانی تقویت پہنچتی ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت جو اچھے انداز میں کی گئی ہو اسے بھی سنا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر سیر و تفریح کے لئے کسی ایسی جگہ پہ چلا جائے جہاں غیر محرم نہ ہوں اور فسق و فجور کے کام نہ ہوتے ہوں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ کسی اچھی جگہ پر تیراکی بھی کی جا سکتی ہے۔ جو کام بھی نا جائز نہیں ہے اور جس کام میں فسق و فجور اور غیر محرموں سے اختلاف کا خطرہ نہ ہو اسے تفریح کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے کہ تفریح کو کام نہ بنایا جائے بلکہ تفریح ہی رہنے دیا جائے۔ اگر یہ اصول پیش نظر رہے تو  نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی ایسے مفتی صاحب سے رابطہ رکھیں جس پر آپ کو بہت زیادہ اعتماد ہو کہ وہ شبہ سے بچتے ہیں، اور جس چیز کے بارے میں آپ کے ذہن میں سوال آئے اسے مفتی صاحب سے پوچھ لیا کریں اور اگر وہ اسے جائز بتائیں تو پھر کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال نمبر2:

کبھی طویل سفر کا اتفاق ہو تو سفر کے دوران کیا کیا جائے؟ آپ کے بیانات سنے جائیں، قرآن شریف سنا جائے، ذکر کیا جائے یا بس آرام کیا جائے؟ نیز یہ بھی بتا دیجئے کہ کیا ایسے ناول پڑھے جا سکتے ہیں جن کوئی غیر شرعی بات نہ ہو؟ میں نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ پڑھا تھا کہ مصنف کے قلب کی حالت اس کی تحریر سے بھی منتقل ہوتی ہے، اگر وہ کافر ہے تو اس کی ظلمت شدید ہوتی ہے۔ اس میں اندیشہ ہے کہ کہیں اس کے کفر کا اثر پڑھنے والے تک نہ آ جائے۔ اس سلسلے میں رہنمائی فرما دیجئے۔

جواب:

سفر میں قرآن سننے کے معاملے میں مجھے کچھ تحفظات ہیں کیونکہ جب قرآن پڑھا جا رہا ہو تو اس کی طرف مکمل توجہ کرنی چاہیے۔ اگر قرآن کو بے توجہی کے ساتھ سنا جائے تو یہ قرآن کی بے ادبی ہے، یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے جسے چلتے پھرتے کر لیا جائے بلکہ با قاعدہ صحیح طریقے سے با ادب بیٹھ کر غور سے قرآن پاک سننا چاہیے۔ اس لئے اگر سفر کے دوران قرآن پاک کے سماع کی طرف توجہ نہ ہو پائے تو قرآن پاک نہ سنا جائے البتہ اگر آپ قرآن پاک کی تفسیر سننا چاہیں تو بلا تردد سن سکتے ہیں، اس کی طرف توجہ خود بخود ہو جاتی ہے۔ بیانات بھی سن سکتے ہیں، ان میں بھی زیادہ تر کسی آیت کی تفسیر یا حدیث کی تشریح ہوتی ہے۔ عارفانہ کلام بھی سنا جا سکتا ہے۔ اگر طبیعت پر بوجھ محسوس ہو تو پھر صرف آرام کرنا چاہیے۔

جہاں تک ناولوں کی بات ہے، اس بارے میں، میں تو یہ کہتا ہوں کہ مذہبی ناولوں میں بھی ظلمت ہوتی ہے کیونکہ اس میں کردار نگاری اور واقعات بیان کرتے ہوئے سچی باتوں کے ساتھ جھوٹ ملایا گیا ہوتا ہے۔ جیسے یوسف بن تاشفین اور محمد بن قاسم  وغیرہ پر مبنی ناولوں میں ان کے ناول نگاروں نے لوگوں کے چسکے کے لئے کچھ جھوٹی کہانیاں بھی شامل کی ہیں۔ اتنے بڑے مقام کے لوگوں کے ساتھ ایسی چیزوں کو منسوب کرنا درست نہیں ہے، لہٰذا ناول اگر مذہبی بھی ہوں تو ان میں ظلمت کا خطرہ ہے جبکہ غیر مذہبی ناولوں میں تو تقریباً تمام باتیں دین و مذہب کے خلاف ہی ہوتی ہیں۔ ایسی چیزوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔

سوال نمبر3:

Hope you are fine. I wish you the best of life! اللہ کا شکر ہے I have been praying and reciting words that you have generally given regularly اللہ کا شکر. Heart is responding well, just having a few troubles nowadays with my job etc. I requested you if it is possible do dua  for me. I shall be thankful.

Yours obediently فلاں.

جواب:

میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ جل شانہ آپ کے مسائل کو حل فرما دے۔ ذکر کو بالکل نہ چھوڑیں، جس طرح ذکر بتایا گیا ہے اسی طرح کرتے رہیں بالخصوص علاجی ذکر میں تو بالکل ناغہ نہ کریں کیونکہ ناغہ سے ذکر کا اثر کم ہو جاتا ہے اور کئی دوسرے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کو جو فائدہ ہو رہا ہے اس پہ اللہ کا شکر کریں۔ اللہ تعالیٰ اس کو اور بھی بڑھا دے۔ آمین۔ 

سوال نمبر4:

حضرت جی السلام علیکم۔ آپ کی دعاؤں اور توجہ کی برکت سے نمازوں میں بہتری آ رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے قبل شاید ہی کوئی نماز توجہ سے پڑھی ہو۔ اپنی غفلت پہ بہت روتا ہوں، اللہ سے معافی مانگتا ہوں اور حقیقی نماز کے لئے دعا بھی کرتا ہوں۔ حضرت جی پہلے روزگار کے لئے نمازیں پڑھا کرتا تھا اب اس سے توبہ کی ہے۔ نفس کی خباثت اور شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پردہ سا اٹھ گیا ہو، سوچ بھی بدل گئی ہے۔ حضرت آپ سے دعاؤں کی التجا ہے۔

جواب:

اللہ کا شکر ہے کہ آپ کو ان چیزوں کی توفیق ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے پردہ ہٹا دیا۔ آپ کام کے لئے تلاش جاری رکھیں اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن اس سوچ کا ذہن کے اوپر یوں حاوی ہو جانا کہ مایوسی طاری ہو جائے اور اعمال میں خلل آ جائے، یہ بات درست نہیں ہے۔ اگر اب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بچا لیا ہے تو یہ اللہ پاک کا خاص فضل ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا مزید فضل شاملِ حال فرما دے۔ آمین۔

سوال نمبر5:

حضرت جی کیا رجب کے با برکت مہینے کے لئے کوئی خاص وظیفہ ہے؟

جواب:

رجب کا مہینہ اس لحاظ سے عام مہینہ ہی ہے، رمضان شریف یا شعبان کے مہینہ کی طرح نہیں ہے۔ البتہ ماہ رجب ایک با برکت مہینہ ضرور ہے۔ اس ماہ میں آپ جو اعمال کریں گی ان کے اجر میں ثواب کے علاوہ اس ماہ کی برکت بھی شامل ہو جائے گی۔ آپ تلاوت کریں گی، ذکر کریں گی، نوافل پڑھیں گی یا کچھ اور طاعات کریں گی تو ان کے اجر میں اس ماہ کی برکت سے مزید اضافہ ہو جائے گا۔ اس لئے اپنے آپ کو انہی اعمال میں مشغول رکھیں جو پہلے سے کر رہی ہیں، ان کے علاوہ اس ماہ کے لئے کوئی خاص عمل نہیں ہے۔

سوال نمبر6:

السلام علیکم۔ حضرت جی آپ نے تجویز فرمایا تھا کہ صدقہ کی مد میں دی جانے والی رقم دیتے ہوئے زکوٰۃ کی نیت کر لیا کریں۔ الحمد للہ ہم ایسے ہی کرتے ہیں۔ احسن جاوید صاحب نے جب حسین کی قمیض چیک کی تو فرمایا کہ اس کو نظرِ بد کا مسئلہ بہت زیادہ ہے اس کے لئے صدقہ کرتے رہا کریں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے کہ کیا یہ صدقہ بھی زکوٰۃ  کی نیت سے دوں؟ والسلام۔

جواب:

جی نہیں یہ صدقہ، صدقے کی نیت سے ہی دیا جائے گا۔ کیونکہ یہ صدقہ عام صدقے کی طرح نہیں ہے بلکہ اس میں با قاعدہ نیت کی جا رہی ہے کہ ہم یہ صدقہ بلاؤں کو دور کرنے کے لئے دے رہے ہیں۔ اس لئے اس میں زکوۃ کی نیت نہیں کر سکتے۔ زکوۃ کی نیت اُس صدقے میں کر سکتے ہیں جس میں مطلق صدقہ کے علاوہ اور کوئی ارادہ نہ ہو۔

سوال نمبر7:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی پہلے میں دنیا کی زیادہ فکر کرتی تھی، اب بھی اکثر معاملات میں دنیا کی فکر ہوتی ہے لیکن وہ غیر اختیاری طور پہ ہوتی ہے، اختیاری طور پر یہی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی اصلاح اور آخرت کی زیادہ فکر کروں۔ اگرچہ اس کا عملی اظہار ابھی کافی کم ہے لیکن ذہنی طور پر اس کے بارے میں پہلے سے زیادہ متفکر اور پریشان رہتی ہوں۔ ”تسہیل المواعظ“ کا ایک ملفوظ پیشِ خدمت ہے اس کی وضاحت فرما دیجئے:

جتنی پریشانی ہوتی ہے اللہ کے غیر کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے ہوتی ہے جن لوگوں کا اللہ سے تعلق نہیں وہ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں“۔

جواب:

در اصل صرف پریشانی آنے سے یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جس پہ پریشانی آئی ہے اس کا اللہ کے ساتھ تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ پریشانی آنے کے بعد بندہ کا ردِّ عمل کیا ہے، اس ردِّ عمل پر فیصلہ کیا جائے گا کہ یہ پریشانی اس کے گناہوں کی سزا ہے، اللہ کی طرف سے آزمائش ہے یا اس کے درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے اور اسی سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اس بندہ کا اللہ کے ساتھ تعلق ہے یا نہیں۔

اگر انسان پر کوئی مصیبت آئے اور وہ اس پر جزع فزع کرنا شروع کر دے تو یہ مصیبت اس کے گناہوں کی سزا ہوتی ہے۔ اگر انسان اس پہ صبر کر لے تو یہ مصیبت اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور اگر انسان اس پہ یہ سوچ کر شکر کر لے کہ میں تو اس سے بڑی مصیبت کا مستحق تھا یا اللہ تیرا شکر ہے کہ کم مصیبت آئی، تھوڑے پہ بچ گیا، تو یہ مصیبت اس کے رفع درجات کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

آپ اپنے حال کو بہتر جانتی ہیں کہ آپ پریشانی میں کیسا محسوس کرتی ہیں۔ اپنے احساسات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کر لیں کہ درج بالا تین حالتوں میں سے آپ کی حالت کون سی ہے۔ تکالیف ہر انسان پہ آتی رہتی ہیں۔ ان کی اصل وجہ تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہے کہ کس آدمی پر کیوں آتی ہیں۔ ہمارا کام یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان تکالیف پہ صبر کر کے انہیں اپنے لئے گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ بنا لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسباب کے درجے میں ان تکالیف کا علاج اور حل بھی تلاش کرتے رہیں، یہ بھی اللہ کا حکم ہے۔ اسباب کے درجے میں پریشانی کا حل تلاش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ہاں جزع فزع نہ ہو، شکوہ شکایت نہ ہو اور وہ تکلیف رجوع الی اللہ کا سبب بن جائے تو اس طریقے سے مصائب و مشکلات کو اپنے لئے فائدہ کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی ایسی فکر کرنا کہ انسان آخرت کو نظر انداز کر دے، جائز نہیں ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ جائز دنیا کی فکر کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ مثلاً آپ ڈاکٹر ہیں اور آپ اپنے لئے ملازمت تلاش کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن دنیا کے کسی بھی کام میں یوں مصروف نہیں ہو جانا چاہیے کہ انسان کی آخرت متاثر ہو جائے۔ آخرت میں بہتری لانے والے اعمال کو مستقل بنیادوں پہ کرتے رہنا چاہیے۔

آپ اپنی اصلاح کی کوشش جاری رکھیں، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آپ اس کی فکر کر رہی ہیں۔ تکالیف و مصائب پہ صبر کریں اور ظاہری اسباب کے درجے میں ان کا حل تلاش کریں اور اللہ پاک سے دعا بھی کرتی رہیں۔

سوال نمبر8:

السلام علیکم حضرت جی میں سات دنوں کے لئے سفر پر جا رہا ہوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ میرے لئے دعا فرما دیں کہ وہاں کی برائیوں سے حفاظت میں رہوں، عافیت کے ساتھ یہ سفر گزر جائے اور جس مقصد کے لئے جا رہا ہوں وہ پورا ہو جائے۔

جواب:

میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ وہاں آپ کی حفاظت فرمائے، عافیت میں رکھے اور آپ کے وہاں جانے کو آپ کے لئے اور وہاں کے لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنا دے۔

سوال نمبر9:

السلام علیکم۔ حضرت جی آج فجر کی نماز قضاء ہو گئی، غور کرنے پر اس کی یہ وجوہات سمجھ میں آئیں کہ رات کے ایف سی کھایا تھا، لیٹ سویا تھا، میچ دیکھتے ہوئے دیر ہو گئی تھی، بیگم ناراض سوئی ہوئی تھی اور ابا جی کہیں گئے ہوئے تھے۔

جواب:

فجر کی نماز کا قضاء ہونا واقعتاً بڑی محرومی ہے۔ آپ نے جو وجوہات بتائی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ اصل اور بنیادی وجہ آپ کا تاخیر سے سونا ہے۔ آئندہ جب آپ دیر سے سوئیں تو اس کا پورا انتظام کر کے سویا کریں کہ آپ کو جگانے والا کوئی نہ کوئی ضرور موجود ہو۔ ہمارا قانون یہ ہے کہ کوئی ایک نماز قضاء کر لے تو اس کے لئے تین روزے رکھنے ہوتے ہیں اس لئے آپ تین روزے رکھ لیں۔

سوال نمبر10:

اگر طلوع آفتاب 06:30 پر ہو تو کیا اشراق 9 یا 10 بجے تک پڑھ سکتے ہیں؟

جواب:

نمازِ اشراق کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ و جہہ کا ایک قول ہے کہ ”ہم اشراق کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب سورج اتنا بلند ہوتا جتنا عصر کے وقت ہوتا ہے اور چاشت کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب سورج اتنا بلند ہوتا جتنا ظہر کے وقت ہوتا ہے“۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے حساب کر کے دیکھ لیا کریں، جو وقت بنے اس کے اندر پڑھ لیا کریں۔

سوال نمبر11:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت مرشدی و مولائی حضرت اقدس کی خدمتِ پاک میں سوال عرض ہے کہ حضرت والا کی زندگی کو دیکھ کر اور حضرت کے صبر و استقلال کو دیکھ کر کے دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی تکلیفوں اور صدموں  میں صبر کی توفیق نصیب فرمائے اور صبر کی آخری حد تک پہنچائے۔ پھر حدیث یاد آئی کہ سرکارِ دو عالم ﷺ نے فرمایا:

”اَلصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْاُوْلٰی“ (صحیح بخاری: 1302)

ترجمہ: ”صبر تو وہی جو صدمہ کے شروع میں کیا جائے“۔

حضرت والا اس حدیث کو ایک سالک کی حیثیت سے ہم کیسے اپنائیں اور کیسے سمجھیں کہ جب تکلیف آتی ہے اگر انسان اس وقت صبر نہ کر سکے تو بعد میں جو صبر اختیار کرے گا کیا وہ صبر میں شمار نہیں ہو گا؟ از راہِ کرم اس کی وضاحت فرما دیجیے۔

جواب:

صدمہ پہنچنے کے بعد بھی جب انسان صبر کرتا ہے تو وہ صبر ہی ہوتا ہے حتیٰ کہ بعد میں جب کبھی تکلیف یاد آنے پر ”اِنَّا للّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعوْن“ پڑھ لے تو اسے وہی ثواب ملے گا جو تکلیف پہنچنے پر ملا تھا۔

جب کوئی صدمہ پہنچے تو اسی وقت ابتدا میں چونکہ صبر کرنا مشکل ہوتا ہے اس لئے اس کا اجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اجر بقدر تکلیف ملتا ہے، آغاز میں تکلیف زیادہ ہوتی ہے، اگر اس وقت وہ اس تکلیف کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر کوئی جزع فزع نہ کرے تو اس کا اجر بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن بعد میں اس کا اجر ختم نہیں ہوتا البتہ یہ ضرور ہے کہ بعد میں چونکہ تکلیف ذرا کم ہو چکی ہوتی ہے اس لئے اجر بھی اس تکلیف کے بقدر ملتا ہے۔ البتہ صبر کی دعا نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”صبر کی دعا بلا کی دعا ہے“۔ لہذا بلا کی دعا نہیں کرنی چاہیے اور اگر بلا آ جائے تو پھر صبر کرنا چاہیے۔ یعنی تکلیف آنے پہ صبر چھوڑنا نہیں چاہیے اور خود صبر مانگنا نہیں چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو مضبوط سمجھنا خطرناک بات ہے، اپنے آپ کو کمزور سمجھ کر عافیت مانگنی چاہیے اور عافیت مانگنے کے باوجود اگر اللہ تعالیٰ امتحاناً صبر بھیج دیں تو پھر اس کا حق ادا کرنا چاہیے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرما دے۔

سوال نمبر12:

ایک سوال خدمت اقدس میں عرض ہے کہ ہماری چند مخلص دوستوں سے گفتگو ہو رہی تھی جس کے دوران مجدد الف ثانی قدس سرہ کے مکتوبات شریف کی روشنی میں حضرت والا کی تعلیماتِ مبارکہ زیرِ گفتگو آئیں تو ان کو بہت فائدہ محسوس ہوا۔ مکتوبات کی دو تین مجالس میں ان کی برابر حاضری بھی رہی ہے۔ انہوں نے ایک پیر صاحب سے بیعت کی ہوئی ہے، ان پیر صاحب کا ایک بیان ہمیں بھیجا جس میں پیر صاحب فرما رہے تھے کہ ”سلوک سیڑھی کی مانند ہے اور جذب لفٹ کی مانند ہے۔ لفٹ کے ذریعے اوپر جانے والا منزل کو جلدی پہنچتا ہے جبکہ سیڑھی کے ذریعے جانے والے کو کافی زیادہ وقت لگتا ہے۔ لہٰذا جذب کے ذریعے جلدی منزل تک رسائی ہو جاتی ہے جبکہ سلوک کے راستے پر چلنے والے کو پاپڑ بیلنے پڑیں گے، مجاہدات و ریاضات کرنے پڑیں گے“۔ اس سلسلے میں ان پیر صاحب نے حضرت جنید بغدادی اور دیگر مشائخ کی سیرت طیبہ کا حوالہ بھی دیا۔

حضرت جی ان کی بات سے ہمیں یہ سمجھ میں آیا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ یا در اصل منزل تک پہنچنے کے دو طریقے ہیں، یا جذب کا طریقہ ہے یا سلوک کا طریقہ ہے، جس طریقہ کو بھی اختیار کر لو منزل تک پہنچ جاؤ گے۔ اگر کسی کو جذب ہو گیا، اللہ نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مثلاً جگر مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت تھانوی قدس سرہ کے ہاتھ پہ بیعت کی شراب سے توبہ کی اور بالآخر اسی توبہ پر وفات پائی۔ بس ایک جھٹکے سے وہ حضرت سے بیعت ہو گئے اور اللہ نے ان کو جذب عطا کر دیا، گویا ان کو کوئی پاپڑ نہیں بیلنے پڑے، سلوک طے نہیں کرنا پڑا بس قبولیت ہو گئی۔

حضرت جی ہمیں تو یہ بات حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کے بر عکس معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کے مطابق سلوک کے دس مقامات طے کرنا لازمی ہے۔ جذب حاصل ہوا ہو یا نہ ہوا، سلوک کے بغیر منزل تک رسائی نہیں ہو سکتی۔

حضرت جی اس سوال کا جواب وضاحت کے ساتھ ارشاد فرما دیں۔ وہ دوست حضرات بھی یہ سوال و جواب کی مجلس سن رہے ہیں اور جواب کے منتظر ہیں۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

جواب:

یہ بہت اہم سوال ہے۔ ابھی وقت کی کمی کی وجہ سے مختصر جواب عرض کر دیتا ہوں بعد میں تفصیل سے بتا دوں گا۔

جذب کی دو قسمیں ہیں۔ (1) جذبِ وہبی۔ (2) جذبِ کسبی۔

جذبِ وہبی یہ ہے کہ سیر الی اللہ طے کرنے کے لئے انسان اپنے طور پر کوشش و محنت کرتا ہے، انسان ہونے کی وجہ سے اگرچہ اس کی کوشش محدود اور نا کافی ہوتی ہے لیکن اس کے اخلاصِ نیت اور اللہ کے فضل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ کوشش مقبول ہو جاتی ہے۔ جب اس کی کوشش قبول ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور جذبِ وہبی عطا فرما دیتے ہیں۔ یہ جذب یعنی جذبِ وہبی سلوک کے مقامات طے کرنے کے بعد عطا ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی مثال یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ جیسے کوئی چھوٹے بچے کو جو بمشکل کھڑا ہو سکتا ہو اور چلنے کی کوشش کرتا ہو، اسے کھڑا کر کے اپنی طرف بلاتا ہے، بچہ چلنے کی کوشش کرتا ہے اور گر جاتا ہے، رونے لگتا ہے، لیکن اس کا والد اپنی جگہ پر بیٹھ کر اسے پھر اپنی طرف بلاتا ہے، بچہ دوبارہ اٹھ کر ایک دو قدم چلتا ہے پھر لڑکھڑا کر گر جاتا ہے اور رونے لگتا ہے، دو تین مرتبہ ایسا ہی ہوتا ہے، آخر والد کو اس پر پیار آ جاتا ہے اور وہ خود آگے بڑھ کر بچہ کو اٹھا لیتا ہے۔ جب انسان اللہ پاک کی معرفت کے لیے کوششیں کرتا ہے تو اللہ پاک آخر کار اس کی کوششیں قبول فرما کر خود اسے اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔

دوسری قسم جذب کسبی ہے۔ جذب کسبی سلوک سے پہلے اذکار و مراقبات کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دل نرم ہو جائے اور وہ سلوک کی سختیاں برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ اس جذب کو حاصل کرنے کے بعد سلوک شروع کرنا اور سلوک طے کرنا ضروری ہے۔

جگر مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہی حالت تھی کہ انہوں نے ابتداء ہی سے سلوک طے کرنا شروع کر دیا تھا، شراب سے توبہ کر لی تھی اور تمام منکرات چھوڑ دیے تھے۔ اب کا مجاہدہ یہی تھا کہ دوبارہ مرتے دم تک انہو نے شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔

بہر حال جذب اور سلوک کی بات کرتے ہوئے جذب کسبی اور جذب وہبی کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔ جذب کسبی سلوک سے پہلے ہوتا ہے اور اس کے بعد سلوک طے کرنا لازم ہے جبکہ جذبِ وہبی سلوک طے کرنے کے بعد اللہ پاک جس کو چاہے خود عطا فرماتے ہیں، اپنی منشا کے مطابق کسی کو جلدی اور کسی کو دیر سے عطا فرماتے ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جذب اور سلوک دونوں ہی راستے ہیں، چاہے جذب کے ذریعے پہنچ جائیں یا سلوک کے ذریعے پہنچ جائیں، ان کی یہ بات حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔ جو ایسا کہے مکتوب نمبر 287 کا جواب اس کے ذمہ ہو گا۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن