اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
السلام علیکم۔ حضرت جی کیا قلبی ذکر اور مراقبات سے جذب کا حاصل ہو جانا یقینی ہے؟ اگر یقینی نہیں تو ایسی قابل ذکر چیزیں کونسی ہیں جن کا اہتمام کرنے سے جذب حاصل ہو جائے۔ نیز یہ بتا دیجیے کہ اس کی کیا نشانی ہے کہ جذب جس مقصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا اس کے لئے استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے؟
جواب:
اس کے جواب میں‘ میں آپ سے ایک سرسری سا سوال کرتا ہوں جس سے آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔ یہ بتائیے ڈاکٹر لوگ جو دوائیاں دیتے ہیں کیا ان سے یقینی طور پر صحت حاصل ہو جاتی ہے؟ جواب ظاہر ہے کہ یقین تو نہیں ہوتا، ہاں امید ضرور ہوتی ہے۔ انسان دوائی اس امید پہ کھاتا ہے کہ صحت حاصل ہو جائے۔ تجربات و مشاہدات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمومی طور پر لوگ دوا کھا کر صحت مند ہو جاتے ہیں لیکن یقینی طور پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔
ایک بار ہمارے ایک کزن نے غلطی سے پسٹل ہاتھ میں لیا تو اسے گولی لگ گئی اور آر پار ہو گئی۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا۔ میں اور حلیمی صاحب ہسپتال میں اس کی عیادت کے لئے گئے۔ وہ بے چارہ بہت ڈسٹرب تھا۔ اس نے حلیمی صاحب سے پوچھا کیا میں بچ جاؤں گا؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو مجھے تو اپنا نہیں پتا کہ میں گھر بھی پہنچوں گا یا نہیں، تمہارے بارے میں کیا بتا سکتا ہوں۔
یہ کام تو اللہ پاک کے ہوتے ہیں، ہم صرف اسباب اختیار کرنے والے ہیں اور انہی اسباب میں سے چند اسباب یہ بھی ہیں جن سے جذب حاصل ہوتا ہے۔ اگر کوئی اخلاص اور اچھی نیت کے ساتھ یہ اسباب اختیار کر رہا ہے تو امید واثق ہے کہ ان شاء اللہ اسے جذب حاصل ہو جائے گا لیکن ہم یہ بات اس طرح نہیں کہہ سکتے جس طرح دو اور دو چار کی بات ہوتی ہے بلکہ اس طرح تو کسی بھی پرابلم کا حل نہیں بتایا جا سکتا۔
دوسری بات یہ پوچھی گئی ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ جس مقصد کے لئے جذب حاصل کیا گیا تھا جذب اس مقصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے یا نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جاننا مرید کا کام نہیں شیخ کا کام ہے۔ اگر شیخ کو محسوس ہوگا کہ اب اس حد تک جذب حاصل ہو چکا ہے جس سے مرید سلوک کا تعب اور تکلیف و مشقت برداشت کر سکتا ہے تو پھر شیخ اسے سلوک کی طرف لائے گا۔ آپ نے دودھ کے مجنون اور خون کے مجنون کے بارے میں سنا ہوگا۔ جب تک انسان دودھ کا مجنون ہے تو وہ صرف جذب ہو گا اور جب وہ خون کا مجنون بن جائے گا تو پھر وہ سلوک بھی شروع کر سکتا ہے۔ یہ فیصلہ شیخ کو کرنا ہوتا ہے کہ یہ خون کا مجنون ہے یا دودھ کا مجنون۔ یہ شیخ کے اجتہاد پہ منحصر ہے اور اگر شیخ کامل ہو، صحیح ہو تو اس معاملہ میں اللہ کی تائید اس کے ساتھ شامل ہوتی ہے، اور اس کا فیصلہ درست ہوتا ہے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم سَر! اللہ پاک کی محبت اور اللہ پاک کے خوف میں کیا فرق ہے؟
جواب:
عجیب سوال ہے۔ کیا آپ کو محبت اور خوف میں فرق نہیں معلوم؟ اللہ سے محبت کا مطلب ہے اللہ کی رضا چاہنا، اور اللہ سے خوف کا مطلب ہے اللہ سے ڈرنا۔ دراصل یہ دونوں کیفیات ہیں، یہ دو حالات ہیں اور دو مقامات ہیں، ایک محبت کی حالت، دوسری خوف کی حالت۔ بعض لوگ محبت کی وجہ سے بات مانتے ہیں، بعض لوگ خوف کی وجہ سے بات مانتے ہیں۔ رجا اور خوف دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہیں، دونوں کے درمیان بیلنس قائم رکھنا ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق یہ ہے کہ نوجوانی میں خوف غالب ہونا چاہیے اور بڑھاپے میں رجا غالب ہونی چاہیے۔
بہرحال محبت بھی ایک قلبی جذبہ ہے اور خوف بھی ایک قلبی حالت ہے۔ محبت میں انسان اپنے محبوب کے لئے سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے اور خوف میں جس چیز کا خوف ہوتا ہے اس سے بچنے کے لئے انسان سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ دونوں حالتیں اگر اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں تو بہت اونچی حالتیں ہیں۔
سوال نمبر3:
حضرت سب لوگ آخرت سے ڈرتے ہیں جو کہ صحیح ہے، لیکن ڈر کر اللہ کی عبادت کرنے اور محبت میں اللہ پاک کی عبادت کرنے میں کیا فرق ہوتا ہے؟
جواب:
میں تو یہاں تک کہوں گا کہ اللہ کی محبت اور جنت کی محبت میں بھی فرق ہے۔ کچھ حضرات جنت کے لئے کام کرتے ہیں اور کچھ حضرات اللہ کے لئے کام کرتے ہیں۔ یہ چونکہ بہت بڑا درجہ ہے اس لئے اس کا سمجھنا ذرا مشکل ہے کہ اللہ پاک کے لئے کام کرنے اور جنت کے لئے کام کرنے میں کیا فرق ہے۔ آج کل ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو اس مسئلہ میں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ جنت کیا چیز ہے وہ ذرا دنیا کے کسی فائدے سے انکار کر کے دیکھیں۔ جو لوگ یہاں دنیا میں پروموشن، پانچ پانچ روپے نفع، گھر اور ان تمام چیزوں کے لئے بہت کچھ داؤ پہ لگانے کے لئے تیار ہوں وہ جنت کو کیسے چھوڑیں گے۔ بات صرف یہ ہے کہ جنت سامنے نہیں ہے اور باقی چیزیں سامنے ہیں۔
﴿کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ﴾ (القیامۃ: 30)
ترجمہ: ”اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو“۔
یہ حضرت نے اس لئے فرمایا کہ بعض لوگوں نے شاعرانہ انداز میں اس طرح کی باتیں کی ہیں جن کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ جنت کوئی ایسی خاص چیز نہیں ہے جس کی خاطر اعمال کیے جائیں۔ یہ شاعرانہ باتیں ہیں جبکہ کیفیت کی بات اور ہوتی ہے۔ شاعروں نے تو بہت کچھ کہا ہوتا ہے وہ پروا نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کو بس واہ واہ چاہیے ہوتی ہے، تھوڑی سی محفل گرم ہو جائے اور واہ واہ مل جائے تو وہ کچھ بھی کہنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ در حقیقت جن کو اللہ کی محبت حاصل ہے، وہ بہت بڑے لوگ ہیں۔ حضرت سعید مرغشی رحمۃ اللہ علیہ جو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ تھے۔ ہمارے سلسلہ میں بھی ان کا نام آتا ہے۔ ”مشائخ چشت“ میں حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ موت کے وقت جنت ان کے سامنے کی گئی تو آسمان کی طرف دیکھ کے کہا: یا اللہ اگر میں نے سب کچھ اس کے لئے کیا ہے تو میں نے پوری زندگی ضائع کر دی۔ پھر جنت ہٹا دی گئی اور اللہ پاک نے اپنی تجلی فرما دی۔ بلاشبہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن یہ بڑے اونچے درجہ کے لوگ ہیں، ایسے لوگوں کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
دنیادار دینداروں کے مقام کو نہیں جانتے اور ان کے حالات و کیفیات کو نہیں جانتے۔ بے شک ان کو سمجھا بھی دیا جائے ان کو سمجھ نہیں آتی، وہ حیران ہوتے ہیں کہ دیکھو بھلا بادشاہی کون چھوڑ سکتا ہے، پوسٹ کون چھوڑ سکتا ہے، زمین کون چھوڑ سکتا ہے، اپنی بات کو کون چھوڑ سکتا ہے۔ وہ یہی سوچتے رہتے ہیں اور جو اللہ والے ہوتے ہیں وہ یہ سب کر بھی لیتے ہیں، ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ دنیا دار دینداروں کی بات نہیں سمجھتے اور جنت والے دیندار اللہ والے دینداروں کی بات نہیں سمجھتے ۔ ہر بعد والا پہلے والے کی رینج سے باہر ہوتے ہیں۔ بہرحال ہر قسم کے لوگ دنیا میں ہیں اور ہر ایک کا اپنا اپنا کام ہے۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم
فلاں is speaking. First of all I want to say sorry for not being in contact with you. It was because I was on the job from 12 to 02. I am continuing the معمولات، ذکر تسبیحات، all 5 نماز a day except فجر. I do it قضا. I listen to your بیانات. There is no progress in my daily life and I took a lot of time to control my anger a little bit. NowI have some control on my unwanted anger. I got many good jobs but after two or three months I had to quit. It means اللہ سبحانہ و تعالیٰ examines me in good times and bad times too. In my hard times, I get depressed and I do دعا.
اللہ سبحانہ و تعالیٰ sends me to spend on my kids expenditure and I don’t have to ask anyone. It is all because of Allah's blessing, حضرت . Kindly add me in the ladies WhatsApp group so that I can be in touch. حضرت جی you gave me ذکر of یَا فَتَّاح. I couldn’t continue it. May I start it again and if I start how many times and on which time and for how many days I should continue?
جواب:
یہ کہنا ایک عجیب عذر لنگ ہے کہ میں چونکہ 12 سے لے کے 2 بجے تک کام کر رہی تھی اس لئے آپ کے ساتھ رابطہ نہیں ہو سکا۔ یہ وقت تو صرف کال کرنے کے لئے مختص ہے جب کہ آپ نے مجھے وٹس ایپ کیا ہے، کال تو نہیں کی۔ وٹس ایپ تو پہلے بھی بھیج سکتی تھیں اس میں کوئی مشکل بات نہیں تھی۔
بات یہ ہے کہ لوگ اپنی مرضی کی اصلاح چاہتے ہیں۔ میڈیکل ڈاکٹرز کے ساتھ لوگ ایسا نہیں کرتے، ان کے ساتھ بڑے ریگولر رہتے ہیں، جیسے انہوں نے بتایا ہوتا ہے بالکل ویسا ہی کرتے ہیں اور انہیں پیسے بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہی لوگ دین کے معاملہ میں کافی فراخ دل ہو جاتے ہیں، جو مرضی ہوتی ہے وہ کرتے ہیں، پھر اگر کوئی قصور ہو جائے تو مشائخ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ آپ خود دیکھ لیں کہ آپ کو جو دوائی دی تھی وہ دوائی تو آپ نے کھائی نہیں، اس کو جاری نہ رکھا تو اس کے بعد نقصان کی ذمہ دار بھی آپ خود ہی ہوں گی۔ سب سے پہلے مجھے یہ بتائیں کہ کیا آپ نے اس کام سے توبہ کرنے کا ارادہ کیا ہے یا نہیں؟ آئندہ کے لئے پختہ ارادہ کریں کہ آپ ریگولر رہیں گی۔ اگر ٹیلی فون نہیں کر سکتیں تو وٹس ایپ کے ذریعے رابطہ میں رہیں گی اور جو کچھ آپ کو بتایا جائے گا وہ کریں گی۔ جب یہ پکا ارادہ کر لیں تو پھر میں آگے کچھ بتاؤں گا ورنہ بتانے کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔
سوال نمبر5:
حضرت جی یہ بات ذرا دیر سے سمجھ میں آئی کہ شیخ کی ڈانٹ اور سختی دراصل سالک سے محبت کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے آمین۔
جواب:
واقعی بڑی زبردست تحقیق ہے۔ شیخ کی ڈانٹ اور سختی سالک کی بھلائی کے لئے ہوتی ہے۔ یہ تو روز اول سے سمجھنے والی بات ہے۔ جب بھی انسان شیخ سے بیعت کرتا ہے تو اس بنیاد پہ کرتا ہے کہ یہ میری اصلاح کرے گا۔ آپ ہی بتائیں اصلاح کس طریقے سے ہوتی ہے۔ کیا پیار اور شفقت کی باتوں سے ہوتی ہے؟ کبھی کسی کو کپڑے دھوتے ہوئے دیکھا ہے کہ وہ نرم نرم ہاتھ سے کپڑے دھو رہا ہو؟ کپڑے دھوتے ہوئے سخت ہاتھ استعمال کرنا ہوتا ہے، صابن لگاتے ہیں، گرم پانی لگاتے ہیں، زمین پر پٹخ پٹخ کر مارتے ہیں تب کہیں جا کر کپڑے سے میل نکلتا ہے، ویسے نہیں نکلتا۔
بہرحال میں اتنی بات سمجھ گیا ہوں کہ اب آپ کی اصلاح کی نیت ہو گئی ہے۔ الحمد اللہ یہ مثبت بات ہے تب ہی آپ کو یہ بات بھی سمجھ آ گئی۔ اگر واقعی آپ کی اصلاح کی نیت ہے تو ان شاء اللہ ایسے ہی آپ کو ساری باتیں سمجھ آتی رہیں گی اور آپ ترقی کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ استقامت نصیب فرمائے۔
سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ سوال جواب کی مجلس کے لئے ایک سوال حضرت کی خدمت اقدس میں عرض ہے۔ میں نے مکتوبات شریفہ کے ابتدائی بیانات نہیں سنے تھے، پچھلے پندرہ دنوں سے وہ بیانات سننا شروع کیے۔ ان میں کچھ عقائد بیان کیے گئے ہیں جو بہت مشکل ہیں۔ میں بنیادی اصطلاحات سے واقف نہیں ہوں شاید اس لئے مجھے مشکل محسوس ہو رہی ہے۔ اگر آپ ان اصطلاحات کی کچھ وضاحت فرما دیں یا کسی بیان کے بارے میں بتا دیں جس میں ان کی تشریح کی گئی ہو تو آسانی ہو جائے گی۔ وہ اصطلاحات یہ ہیں، تنزل، عدم، تجلی اور ظل۔
حضرت نے ایک مقام پہ فرمایا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں عدم پہ تجلی ڈالی تو اس کی صفات وجودی کا تنزل ہوا، پھر اس کو ایک قسم کا وجود بخشا گیا۔ اس پہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تھا تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ بھی نہ تھا، عدم بھی نہ تھا یا ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ اللہ بھی ہے اور اللہ کے ساتھ عدم بھی ہے جو کہ غیر اللہ ہے، یا ہم یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذہن کے اندر عدم تھا۔ اس بارے میں میرے ذہن میں کچھ کنفیوژن ہے، آپ رہنمائی فرما دیں۔
اس کے علاوہ آپ نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی تشریح فرمائی تھی وہ سمجھ آ گئی تھی۔
اس بارے میں بھی کچھ وضاحت فرما دیں کہ صفت کے تنزل کا کیا معنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شان ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئ﴾ (الشوریٰ: 11) ہے اور اللہ تعالیٰ physicality اور مکان و زمان کے قیود سے پاک ہے تو ہم تنزل کو کس انداز میں لیں؟ بعض حضرات نے اس طرح تشبیہ دی ہے جیسے ایک لیمپ کی reflection ہوتی ہے، وہ ریفلیکشن خود لیمپ نہیں ہوتا بلکہ عکس ہوتا ہے۔ اسی طرح پانی میں چاند کی reflection ہوتی ہے وہ reflection چاند نہیں ہوتا بلکہ چاند کا عکس ہوتا ہے۔ کیا تنزل کو اسی معنی میں لیا جائے گا؟ اگر ان سب باتوں کی وضاحت فرما دیں تو عنایت ہوگی۔
جواب:
مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ پر ہمارے تمام بیانات الحمد للہ ہماری ویب سائٹ پر محفوظ ہی، آپ وہاں سے کوئی بھی مکتوب اور اس کی تشریح سن سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بات کو سمجھنے کے لئے تسلسل ضروری ہوتا ہے کیونکہ کچھ چیزیں سیاق و سباق سے مربوط ہوتی ہیں، اگر انہیں سیاق و سباق سے کاٹ کر پڑھا جائے یا سنا جائے تو انہیں سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ انہیں سمجھنے کے لئے کچھ اور سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے پھر اسے سمجھنے کے لئے کچھ اور سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے، اس طرح ایک سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔ مشکل صرف یہ ہوتی ہے کہ سیاق و سباق سے ہٹ کر چیز سمجھ نہیں آتی، ورنہ کوئی چیز اس طرح مشکل نہیں ہوتی کہ اس کو کوئی سمجھ ہی نہ سکے۔ لیکن بعض لوگوں کے لئے مسلسل مطالعہ اور سننا بھی مشکل ہوتا ہے، جب وہ مسلسل پڑھ نہیں پاتے یا مسلسل سن نہیں پاتے تو پھر وہ چیزیں ان کے لئے مشکل ہو جاتی ہیں۔
الحمد للہ جن لوگوں نے مکتوبات کو پڑھا اور سنا ہے انہیں ان چیزوں کے بارے میں پتا ہے اور وہ ان چیزوں کو جانتے ہیں۔ ہمارا باقاعدہ ایک گروپ بنا ہوا ہے جو ان تمام چیزوں کو ہینڈل کرتا ہے، اس کے ممبرز آپس میں رابطہ رکھتے ہیں۔ ہفتہ کے دن ہمارا جوڑ ہوتا ہے اس جوڑ میں اس مکتوبات والے گروپ کے ایڈمن حضرات اس ہفتہ کے اسباق کا خلاصہ گروپ میں پیش کرتے ہیں تاکہ یہ چیزیں جو مشکل ہیں آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ سکیں۔
ابھی میں آپ کے اس سوال کا جواب نہیں دوں گا کیونکہ اس جواب سے آپ کی کنفیوژن مزید بڑھے گی، مزید سوالات پیدا ہوں گے۔ ان اصطلاحات کو سمجھنے کے لئے کچھ بنیادی باتوں کا جاننا ضروری ہے وہ آپ ابھی نہیں جانتے اور میں وہ باتیں مکمل تفصیل کے ساتھ ابھی آپ کو نہیں سمجھا سکتا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک دفعہ کسی نے کوئی سوال پوچھا حضرت نے فرمایا اس کا جواب تم نہیں سمجھ سکو گے۔ اس نے کہا حضرت آپ بتا دیں میں سمجھ جاؤں گا۔ حضرت نے فرمایا: بھائی اسے سمجھنے کے لئے پہلے کچھ چیزوں کا جاننا ضروری ہے اور آپ کو وہ چیزیں نہیں آتیں اس لئے آپ نہیں سمجھ سکتے، آپ ایک چھٹے درجہ کا طالب علم لے آئیں اور اس کے ساتھ بیٹھ جائیں، میں آپ کے سوال کا جواب دوں گا، اُسے سمجھ آ جائے گی لیکن آپ کو نہیں آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سوال کا جواب سمجھنے کے لئے جن بنیادی باتوں کی سمجھ ہونا ضروری ہے وہ آپ کے پاس نہیں ہے، جبکہ چھٹے درجہ کے طالب علم نے وہ چیزیں پڑھی اور سمجھی ہوئی ہیں اس لئے اسے جواب آسانی سے سمجھ میں آ جائے گا۔
اصول یہی ہے کہ اگر کوئی علمی نکتہ سمجھنا ہو تو اس کے لئے کچھ بنیادی چیزوں کا علم حاصل ہونا چاہیے، پہلے وہ علم حاصل کیا جائے پھر اس نکتہ کو سمجھا جائے تو وہ بآسانی سمجھ آ جائے گا۔
اگر آپ ان چیزوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو پہلے مکتوب نمبر 234 پڑھ لیں اور اس کی شرح سن لیں۔ اس کے بعد آپ کو یہ اصطلاحات سمجھ آ جائیں گی اور اگر نہ بھی سمجھ آئیں تو مجھ سے پوچھ لیجیے گا، اس وقت میں جو جواب دوں گا آپ اسے سمجھنے کے قابل ہو چکے ہوں گے اور میرا جواب بآسانی سمجھ پائیں گے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ طالب علم سوال کرتا ہے کہ سر آپ کی بات سمجھ نہیں آئی تو استاد ان سے فرماتے ہیں: بھئی کہاں سمجھ نہیں آئی وہ جگہ بتاؤ، تاکہ پتا چلے کہ اس سے پہلے والی بات آپ کو سمجھ آ گئی یا وہ بھی نہیں آئی۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ سہارنپور گئے۔ وہاں مولانا خلیل الرحمٰن سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کچھ لوگ آئے ہوئے تھے، انہیں بہشتی زیور پر کچھ اشکال تھے، ان کی حضرت مولانا خلیل الرحمن سہارنپوری سے بحث ہو رہی تھی، حضرت انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے اور وہ ساری بات سن کر کہتے جی ہمیں سمجھ نہیں آ رہی۔ اتنے میں حضرت تھانوی صاحب وہاں پہنچ گئے۔ وہ پہنچے تو حضرت سہارنپوری کہتے ہیں کہ لو بھئی بہشتی زیور کا مصنف خود آ گیا ہے وہ جانے اور اس کا کام جانے، خود اسی سے اپنے اشکالات پوچھ لو، میں جا رہا ہوں۔ وہ تو یہ کہہ کر چلے گئے اور ان لوگوں کی حضرت تھانوی صاحب سے گفتگو شروع ہوئی۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان لوگوں سے پوچھا کہ یہ بتاؤ بہشتی زیور میں آپ کو صرف یہی باتیں سمجھ نہیں آئیں یا باقی باتیں بھی سمجھ نہیں آئیں؟ دو باتیں ہو سکتی ہیں یا تو آپ کو صرف یہی بات سمجھ نہیں آئی اور باقی ساری باتیں سمجھ آ گئی ہیں، اگر ایسا ہے تو پھر مجھے امتحان کا موقع دیں میں باقی چیزوں کے بارے میں آپ سے تحقیق کر لوں کہ واقعی سمجھ آئی ہیں یا نہیں آئیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کو یہ باتیں بھی سمجھ نہیں آئیں جن پہ اشکال ہے اور ان کے علاوہ باقی بھی سمجھ نہیں آئیں، اگر ایسا ہے تو پھر آپ یہ بتائیں کہ صرف ان پہ اشکال کیوں پیش آیا ہے، ایسی کیا تخصیص ہے کہ آپ صرف اِن کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور باقی کے بارے میں نہیں جاننا چاہتے۔ جب حضرت نے یہ کہا تو انھوں نے کتاب بغل میں دبائی اور یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ لگتا ہے آپ سوال کا جواب ہی نہیں دینا چاہتے۔
آپ کے لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ پہلے مکتوب نمبر 234 پڑھیں اور اس کی تشریح پر دئیے گئے ہمارے دروس سن لیں اور بار بار سنیں، پھر بھی سمجھ نہ آئے تو مجھ سے پوچھ لیجئے گا۔ امید ہے ان شاء اللہ العزیز سمجھ میں آ جائے گا۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم یا سیدی مرشدی دامت برکاتکم۔ کل پرسوں مجھے بہت فیض مل رہا تھا یہاں تک کہ بے ساختہ میرے منہ سے اللہ اللہ کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ آپ بہت دور ہونے کے باوجود بھی میرے بہت قریب ہیں اور میں اس بات پر بہت شکر گزار ہوں۔
جواب:
یہ سلسلہ کا فیض ہے۔ ہمارے سلسلہ میں الحمد للہ یہ نعمت ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ پاک آپ کو نصیب فرما رہے ہیں۔ یہ یکسوئی کی بھی علامت ہے۔ آپ چونکہ ایک طرف یکسو ہو گئے ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ بھی آپ کو عطا فرما رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مزید نصیب فرمائے۔ آمین۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت یہ بتا دیجیے کہ علاجی اور ثوابی ذکر کسی بھی ٹائم کئے جا سکتے ہیں یا ان کے لئے کوئی مخصوص ٹائم مقرر کرنا پڑے گا۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
جواب:
علاجی ذکر دوائی کی طرح ہوتا ہے اور دوائی تب ہی فائدہ پہنچاتی ہے جب متعین وقت پہ کھائی جائے۔ اگر آپ روزانہ الگ الگ ٹائم پر دوا کھائیں تو اس کا پورا فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر آپ ایک وقت مقرر نہیں کریں گے تو ممکن ہے کبھی آپ آٹھ گھنٹے کے وقفے بعد دوا کھائیں، کبھی دس گھنٹے بعد اور کبھی پندرہ گھنٹے بعد کھا رہے ہوں گے، ایسی صورت میں اس کا اثر نہیں ہوگا۔
آپ علاجی ذکر کے لئے کوئی ایک وقت مقرر کر لیں اور روزانہ اسی وقت پہ کر لیا کریں۔ ممکن ہے کسی کو جاب کی وجہ سے مخصوص وقت مقرر کرنے میں مسئلہ ہو، کچھ لوگوں کی جاب شفٹوں کے حساب سے ہوتی ہے، کچھ روز رات کی شفٹیں ہوتی ہیں کچھ روز دن کی شفٹیں ہوتی ہیں، اگر آپ کا یہ مسئلہ ہے تو آپ ایسا کریں کہ ایک وقت دن کے لئے مقرر کر لیں جب دن کی شفٹیں ہوں تو روزانہ اس وقت ذکر کیا کریں، اور ایک وقت رات کی شفٹوں کے لئے مقرر کر لیں جب رات کی شفٹیں ہوں تو روزانہ اسی وقت ذکر کیا کریں۔ لیکن ایسا نہ کریں کہ روزانہ الگ الگ وقت پہ ذکر کریں، اس طرح فائدہ نہیں ہوگا۔
جہاں تک ثوابی ذکر کا تعلق ہے تو اس میں وقت کے تعین کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ آپ صبح ایک دفعہ کہہ دیں ”سُبْحَانَ اللّٰہ“، دوپہر کو کہہ دیں ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہ“، سہ پہر کو کہہ دیں ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، شام کو کہہ دیں ”اَللّٰہُ اَکْبَر“، پھر بھی ثواب مل جائے گا۔ کیونکہ اس میں صرف ثواب مطلوب ہوتا ہے، جبکہ علاجی ذکر میں علاج مطلوب ہوتا ہے، علاجی ذکر میں اتنی ریلیکسیشن نہیں ہوتی۔ ثوابی ذکر میں آپ تھوڑا سا relaxed رہ سکتے ہیں لیکن اتنا relaxed نہ رہیں کہ چیزیں ختم ہی ہو جائیں جبکہ علاجی ذکر میں بالکل relax نہیں ہونا چاہیے اس میں ٹائم کی پابندی ضروری ہے۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت کاکا صاحب دامت برکاتکم العالیہ۔ چار دن سے فجر کی نماز میں ناغے ہو رہے ہیں، مجھے بہت دکھ ہے، دل بہت پریشان ہے۔ نمازوں کی قضاء کر لی ہے اور دو رکعت صلوۃ التوبہ پڑھ کر اللہ سے معافی بھی مانگی ہے۔ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے اے سی کا استعمال شروع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے نماز کے لئے اٹھنا مشکل ہو رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پہلے ایک ساتھی مجھے نماز کے لئے اٹھاتا تھا وہ پاکستان چلا گیا ہے، باقی ساتھی فجر کی نماز کے لئے نہیں اٹھتے۔ اب میں کوشش کر رہا ہوں کہ الارم یا کوئی اور طریقہ اختیار کر لوں۔ مراقبہ میں بھی تین بار ناغہ ہو گیا ہے، میں سستی اور غفلت کا شکار ہوں۔ باقی معمولات جاری ہیں۔ نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھتا ہوں، اشراق، چاشت، اوابین، تہجد سورہ یٰسین اور آدھا پارہ تلاوت قرآن روزانہ کا معمول ہے۔
جواب:
ایک دفعہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت کیا ہم ہمیشہ الارم کے محتاج رہیں گے؟ حضرت نے فرمایا کل کو یہ بھی پوچھ لینا کیا ہم زندہ رہنے کے لئے ہمیشہ کھانے کے محتاج رہیں گے؟ خدا کے بندے اگر تمہارے لئے الارم کے ذریعے اٹھنا ممکن ہوتا ہے تو تم الارم لگا دیا کرو۔
یہ تو ایسی ہی بات ہو گئی جیسے میں اسلامیہ کالج میں داخل ہوا تو ابتداءً میں ٹیسٹ کی تیاری نہیں کرتا تھا سارے ٹیسٹ بغیر تیاری کے دیتا تھا، میرا مقصد یہ ہوتا تھا کہ دیکھوں بغیر تیاری کے کتنے نمبر لے سکتا ہوں۔ دس دس نمبر کے ٹیسٹ ہوتے تھے، کبھی دس میں سے دو نمبر آ گئے کبھی تین نمبر آ گئے مگر مجھے پروا نہیں ہوتی تھی کیونکہ میں نے تیاری تو کی نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن میرے پرانے دوست آئے، انہوں نے پوچھا نمبر کیسے آ رہے ہیں۔ میں نے بتایا کہ میں ٹیسٹ کر رہا ہوں کہ بغیر تیاری کے کتنے نمبر لے سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا: چلو یہ تو پتا چل گیا کہ بغیر تیاری کے کتنے نمبر لے سکتے ہو اب یہ چیک کر لو کہ تیاری کر کے کتنے نمبر لے سکتے ہو۔ ہوشیار لوگوں کی باتیں سمجھنی اور سننی چاہئیں۔ میں نے ان کی بات پر عمل کیا اور اگلے ٹیسٹ میں سیکنڈ پوزیشن ملی۔
آپ الارم لگا کر اٹھنا شروع کر لیں اور سستی چھوڑ دیں۔ سستی کا علاج چستی ہے۔ قیامت میں یہ عذر قبول نہیں کیا جائے گا کہ مجھے سستی ہو جاتی تھی۔ آپ اپنے آپ کو تیار کر لیں اور اپنی غلطیوں سے سیکھیں، تجربہ حاصل کریں اور اس تجربہ سے فائدہ اٹھائیں، اگر غلطیوں سے فائدہ حاصل کر لیا تو ٹھیک ورنہ نقصان ہی نقصان ہے۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم۔ حضرت ہم نے بچپن سے سنا ہے کہ جب کوئی بڑا آئے تو کھڑا ہو جانا چاہیے مگر یہ بھی سنا ہے کہ کسی کے آنے پر کھڑا ہونا خلاف سنت ہے۔ آپ فرمائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
یہ کس نے کہا کہ کسی کے لئے کھڑا ہونا خلاف سنت ہے۔ عجیب و غریب لوگ ہیں اپنی طرف سے حکم لگاتے ہیں۔ آپ ﷺ اپنے لئے اٹھنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ یہ تواضع کی علامت ہے۔ اب ذرا غور کریں۔ آپ ﷺ نے اپنے لئے اٹھنے کو تو نا پسند فرمایا لیکن دوسروں کے لئے اٹھنے کو نا پسند نہیں فرمایا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ انصار کے قبیلہ کے سردار تھے۔ جب وہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے انصار سے فرمایا:
”قُوْمُوْا لِسَیِّدِکُمْ“ (صحیح البخاری: 6262)
ترجمہ: ”اپنے بڑے کے لئے کھڑے ہو جاؤ“۔
دیکھیں آپ ﷺ نے خود فرمایا کہ اپنے سردار کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔ آپ ﷺ کا اپنا عمل یہ تھا کہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا تشریف لاتیں تو ان کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے، ان کو اپنی جگہ پر بٹھاتے اور فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا طریقہ یہ تھا کہ جب آپ ﷺ تشریف لاتے تو اٹھ کر کھڑی ہو جاتیں اور آپ ﷺ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ تواضع کے طور پر دوسرے کے لئے کھڑا ہونا جائز ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جو یہ بات پسند کرے کہ لوگ اس کے لئے اٹھا کریں یہ تکبر کی صورت بنتی ہے، لہٰذا اپنے لئے یہ بات پسند نہیں کرنی چاہیے، سنت طریقہ یہی ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی آپ کے لئے اٹھتا ہے تو یہ ان کا فعل ہے آپ کا فعل نہیں ہے اور ان کے لئے خلاف سنت نہیں۔ دوسرے کے لئے کھڑا ہونا خلاف سنت نہیں ہے البتہ اپنے لئے کھڑے ہونے کو پسند کرنا خلاف سنت ہے۔ لہٰذا اپنے لئے نہ چاہے کہ کوئی کھڑا ہو لیکن اگر کوئی کسی کے لئے احتراماً کھڑا ہوتا ہے تو یہ خلاف سنت نہیں ہے۔
سوال نمبر10:
حضرت ہم اپنی نیکیوں کو کیسے بچائیں۔
جواب:
کہتے ہیں پوری داستان سننے کے بعد پوچھا کہ زلیخا مرد تھا یا عورت؟ آپ کی مثال بھی وہی ہے۔ ہم اتنے عرصہ سے یہی بات کر رہے ہیں اور آپ کو یہی بات نہیں معلوم کہ نیکیوں کو کیسے بچایا جاتا ہے۔ بھائی بات سن لو نیکی کمانا عبادات کے ذریعے سے ہوتا ہے، رفاہی کاموں کے ذریعے سے ہوتا ہے، صدقات و خیرات اور نفلی کاموں کے ذریعے سے ہوتا ہے، ان سب ذرائع سے انسان نیکیاں کماتا ہے لیکن معاملات میں سب نیکیاں گنوا بیٹھتا ہے۔ کسی کا حق مار دیا تو نیکیاں گئیں ان کے پاس، کسی کی غیبت کر لی تو نیکیاں گئیں ان کے پاس، کسی کو نقصان پہنچایا تو نیکیاں گئیں ان کے پاس، معاشرت میں کسی کا حق تلف کر دیا تو نیکیاں گئیں ان کے پاس، کسی کے ساتھ بد اخلاقی کر لی تو نیکیاں گئیں اس کے پاس۔ یہ چیزیں نیکیاں گنواتی ہیں اس لئے ان چیزوں سے بچنا چاہیے۔ سب سے بڑا خطرناک کام کفر ہے کیونکہ کفر سے سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے۔ اللہ پاک محفوظ فرمائے۔ کفر کے بعد دوسرے نمبر پر یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو نیکیاں ضائع کر دیتی ہیں۔ لہٰذا اپنے آپ کو کفر سے اور ان سب چیزوں سے بچائے رکھیں تو نیکیاں محفوظ رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم۔ حضرت جی ایک مشکل ہے، مجھ سے کسی کی پیٹھ پیچھے اکثر اس کے خلاف بات ہو جاتی ہے، بات چونکہ جھوٹ نہیں ہوتی اس لئے دل کہتا ہے کہ یہ تو سچ بات ہے کون سا کوئی جھوٹ ہے مگر یہ ہے تو غیبت۔ ہمیشہ تو ایسا نہیں ہوتا، کبھی کبھار ضرور ہو جاتا ہے، یہ بری عادت کیسے دور ہو سکتی ہے۔
جواب:
میں اکثر درخواست کرتا رہتا ہوں کہ اردو فونٹ میں لکھنا سیکھ لیں کیونکہ میرے لئے رومن فونٹ میں پڑھنا کافی پڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ بعض دفعہ مطلب کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔
بہرحال آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ غیبت کرنا یا کسی کا حق مارنا، اس کے اسباب سستی اور غفلت ہیں۔ انسان کو اپنے اوپر قابو ہونا چاہیے، اپنی زبان پر قابو ہونا چاہیے۔ ہم خاموشی کا مجاہدہ اسی لئے کراتے ہیں تاکہ انسان کو اپنی زبان پر قابو ہو جائے۔ ہم یہ مجاہدہ زیادہ تر خواتین کو کراتے ہیں۔ آپ کو بھی یہ مجاہدہ دیا تھا لیکن آپ کہتی ہیں کہ میں یہ مجاہدہ نہیں کر سکتی کیونکہ ہمارے گھر میں کوئی نہیں ہوتا۔ خاموشی میں یہی تو ہوتا ہے کہ انسان پہلے تول سکتا ہے پھر بول سکتا ہے۔ خاموش رہنا سیکھنے کے بعد انسان خاموشی کے وقفہ میں سوچ لیتا ہے کہ مجھے کون سی بات کرنی چاہیے اور کون سی نہیں کرنی چاہیے۔ جو اچھی اور صحیح بات ہو گی وہ کر لے گا اور جو صحیح نہیں ہو گی اسے چھوڑ دے گا۔ اس طریقے سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم!
I am فلاں. I will talk to you about my معمولات last month. I don’t have a laptop so I can’t send my معمولات sheet. Some days, I just tried to be regular in prayers and few تسبیحات. I don’t know why but I am facing too much difficulty to be regular in معمولات. I don’t have any routine and don’t understand how to manage because I have been irregular for so long. I am in the U.A.E and living with my husband and daughter. I have to do everything with taking care of my daughter too. I get so tired that sometimes I become too lazy to do any تسبیح or ذکر etc. My husband is also not regular in prayers. I am worried about myself and my husband too how to get back to routine and معمولات
ان شاء اللہ I have planning to return back to Pakistan in April or May. I need your guidance and duas for my Iman. I want to be regular in معمولات.
جواب:
اصل میں یہ ان کا قصور نہیں ہے، قصور ہمارے کلچر کا ہے۔ ہمارے کلچر میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ کہتے ہیں جو کرے گا شیخ کرے گا، ہم نے کچھ نہیں کرنا، بس شیخ کوئی ایسا طریقہ بتا دے کہ بغیر کسی محنت کے میرا سارا کام ہو جائے۔ ایسا کام ابھی تک ایجاد نہیں ہوا، جب ایجاد ہوا تب اس پہ سوچیں گے۔ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ بس شیخ ہی سب کچھ کر لے اور جب شیخ کرنے کو کچھ بتائے تو کہتے ہیں یہ تو بہت سخت ہے۔ مان لیا ہم سخت ہیں، ہمیں سختی کا ٹائٹل منظور ہے، ہم سخت لوگ ہیں لیکن آپ نے سخت لوگوں کو پیر کیوں بنایا ہے؟ آپ نرم لوگوں کے پاس چلے جائیں وہ نرمی کے ساتھ آپ کو جہنم پہنچا دیں گے۔ پھر یہی ہو سکتا ہے۔
یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ محنت آپ نے خود کرنی ہے۔ اگر دنیا کا کوئی کام در پیش ہو، تب ساری رکاوٹوں کے باوجود آپ وہ کام کر لیتے ہیں۔ ساری رکاوٹیں موجود ہوتی ہیں، بیٹی بھی ہوتی ہے، خاوند بھی ہوتا ہے، دوسرے سب عوارض بھی ہوتے ہیں، اس سب کے باوجود آپ کے دنیا کے کام نہیں رکتے وہ چلتے رہتے ہیں۔ خدا نخواستہ آپ بیمار ہوں اور آپ کا شوہر پاس نہ ہو تو کیا آپ ہسپتال نہیں جائیں گی؟ دوائی نہیں کھائیں گی؟ سب کچھ ہوگا ہسپتال بھی جائیں گی، دوائی بھی کھائیں گی، سب کچھ کریں گی لیکن دین کے کام کرتے ہوئے سارے بہانے سامنے آ جاتے ہیں۔ آپ لوگوں نے اس کو مخول بنایا ہوا ہے۔ ہم تو اس کو مخول نہیں سمجھتے۔ یہ کام انسان کو خود کرنا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کچھ نہ کریں، بس کوئی دعا کرے اور آپ کا کام ہو جائے۔ آپ ﷺ سے بڑھ کر کوئی دعا کرنے والا نہیں تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کا بھی ایک قانون ہے۔ آپ ﷺ نے امت کو ہمت کر نے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ ہمت کریں۔ سارے صحابہ کرام ہمت کرتے تھے، تابعین بھی ہمت کرتے تھے، تبع تابعین بھی ہمت کرتے تھے اور جن کو جو کچھ ملا، ہمت اور کوشش کرنے سے ملا ہے۔ اللہ جل شانہ کے لئے ساری مخلوق برابر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ پاک کسی کو بغیر محنت کے دے اور کسی کو محنت سے دے۔ اللہ پاک کا طریقہ اور سنت عادیہ یہ ہے کہ انسان محنت کرتا ہے اور اللہ فضل فرما دیتے ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کے لئے ظرف بنائیں، ظرف محنت کے ذریعے بنتا ہے۔ آپ اپنا ظرف بنائیں، اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلائیں، اللہ جل شانہ ضرور آپ کو وہ سب عطا فرمائیں گے جو آپ چاہتی ہیں لیکن اس کے لئے محنت آپ کو خود کرنی پڑے گی۔
میں ٹیچنگ بھی کرتا رہا ہوں۔ ہم ٹیچنگ کے دوران سٹوڈنٹس کو اکثر کہا کرتے تھے کہ ابھی تک کوئی ایسی ٹیکنیک ایجاد نہیں ہوئی کہ ٹیچر اپنے دماغ سے سارا علم اٹھا کر دوسرے کے دماغ میں فٹ کر دے، ابھی ایسا کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوا۔ انسان کو خود سیکھنا ہوتا ہے اور اس کے لئے محنت کرنی ہوتی ہے، اس میں ہمت کرنی ہوتی ہے۔ جب انسان کوشش و محنت اور ہمت کرتا ہے تو اللہ پاک توفیق عطا فرما دیتے ہیں۔
سوال نمبر13:
آج صبح قرآن پاک کی تلاوت شروع کی تو حلق کڑوا ہونا شروع ہوا لیکن تلاوت نہیں چھوڑی، بلکہ پوری کر لی۔ اگر ایسا دوبارہ ہو تو کیا کروں۔
جواب:
تلاوت نہ چھوڑیں، تلاوت مکمل کر لیا کریں۔ اس پر ہماری ایک غزل ہے وہ آپ سب کو سنا دیتا ہوں۔
منہ ہو کڑوا یا ہو میٹھا پر تلاوت کو نہ چھوڑ
ایسی چیزوں پہ جو اچھی ہوں اس عادت کو نہ چھوڑ
وسوسہ کوئی بھی آ سکتا ہے اچھے کاموں میں
وسوسہ کوئی بھی ہو راہ حقیقت کو نہ چھوڑ
تشریح: منہ تو کسی وجہ سے بھی کڑوا ہو سکتا ہے لیکن آدمی اس کو تلاوت کے ساتھ متعلق کیوں کرے۔
بد شگونی کبھی اچھے کاموں سے روک دیتی ہے
اس سے کیا ہو جو ملی ہے اس سعادت کو نہ چھوڑ
بعض دفعہ لوگ سمجھتے ہیں جنات کا اثر
ہو بھی تو جم کے رہنا استقامت کو نہ چھوڑ
حق کے ساتھ رہنا ہے ہر حال میں شبیر
رسول اللہ کی ہر حال میں متابعت کو نہ چھوڑ
سوال نمبر14:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ صَلَّ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ۔ حضرت والا ایک سوال ڈائری میں لکھا ہے کہ کچھ مجالس قبل حضرت والا نے یہ ملفوظ مبارکہ فرمایا تھا کہ تکوینی حضرات/اصحابِ خدمت کے پیچھے نہیں جانا چاہیے او دوسری جگہ فرمایا تھا کہ مجذوبوں کے پیچھے نہیں جانا چاہیے وہ Guided missile ہیں۔ تعلق اللہ سے جوڑنا چاہیے، کرنے والا فاعل حقیقی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے۔ آپ نے ایک بزرگ کا واقعہ بھی سنایا تھا جنہوں نے فرشتے سے کچھ کام کرنے کو کہا۔ انہوں نے کہا: اللہ سے کہو، پھر انہوں نے اللہ سے کہا، اس کے بعد انتظار کی بھی نوبت نہیں آئی اور کام پورا ہو گیا۔ اس وقت یہ سوال ذہن میں آیا تھا کہ مجذوبوں کے پیچھے نہیں جانا کیونکہ ان سے فائدہ نہیں ہوتا، یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن جو حضرات اصحاب خدمت ہیں اور مرشدین بھی ہیں اور لوگ ان سے بیعت بھی ہیں۔ کیا ان کے پیچھے بھی نہیں جانا چاہیے؟ آپ نے یہ جملہ فرمایا تھا کہ ان سے فائدہ نہیں ہوتا۔ ہم اس کو کس معنی میں سمجھیں۔ مثلاً حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مثال لے لیں جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مجاز تھے، ان سے لوگ بیعت بھی تھے، کیا لوگوں کو ان سے مناسبت تھی؟ یقیناً میرے سمجھنے میں بہت غلطیاں ہوئی ہیں، اس لئے رہنمائی اور اصلاح کی درخواست ہے۔ جزاکم اللہ خیرا السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
جواب:
جی ہاں آپ کو ایک بات سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ یہ جملہ کہ ”ان سے فائدہ نہیں ہوتا“ میں نے ان اہل خدمت کے بارے میں کہا جو صرف اہل خدمت ہوں جن کے ذمہ اور کوئی شعبہ نہ ہو۔ بعض حضرات ایسے ہوتے ہیں جن کے ذمہ تشریعی اور تکوینی دونوں کام ہوتے ہیں جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، وہ قطب تکوین بھی تھے اور شریعت کے اکابرین میں سے بھی تھے، اللہ پاک نے ان سے دونوں کام لئے۔ ایسے حضرات بہت تھوڑے ہوتے ہیں جن سے اللہ پاک دونوں طرح کے کام لیتے ہیں۔ مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی انہی میں سے تھے۔ جبکہ تکوینی حضرات کو اللہ تعالیٰ منصب تو دیتے ہیں لیکن ان کے منصب کو عموماً چھپا کے رکھتے ہیں۔ خود ان حضرات کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس کو چھپائیں، یہ چھپانا بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں کو اس کا پتا چلنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس وجہ سے مرشدین کو ظاہر کر دیا جاتا ہے اور اہل خدمت کو چھپا دیا جاتا ہے اور جو حضرات دونوں منصبوں کے حامل ہوتے ہیں ان کے مرشد ہونے کو ظاہر کر دیا جاتا ہے اور تکوینی ہونے کو چھپا دیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ بالکل اخیر میں پتا چلتا ہے کہ یہ حضرات تکوینی منصب بھی رکھتے تھے۔ عموماً لوگوں کو پتا نہیں چلتا اور جن کو پتا چلتا ہے ان کو یہ بھی ہدایت کر دی جاتی ہے کہ اوروں کو نہ بتائیں۔ ایسے لوگ ہوتے ہیں لیکن ان کی خدمت والی ڈیوٹی کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پتا چل بھی جائے تو خدمت والی ڈیوٹی سے آپ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ان کی مثال فرشتوں کی طرح ہوتی ہے۔ فرشتے کسی کی آہ و فریاد سے متاثر نہیں ہوتے، کسی کی منت سماجت سے متاثر نہیں ہوتے۔ اسی طرح یہ حضرات بھی کسی کے اچھے یا برے سلوک سے متاثر نہیں ہوتے۔ آپ ان کی کتنی ہی خدمت کر لیں ان کے آگے پیچھے کتنا ہی بھاگ لیں، آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ ان کا میدان ہی جدا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اگر اہل خدمت مرشدین بھی ہوں تو ان کے مرشدین ہونے کے لحاظ سے تو ان سے فائدہ اٹھایا جائے گا لیکن ان کی خدمت والی ڈیوٹی کو چھپا دیا جائے گا کیونکہ اس کے ظاہر ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
سوال نمبر15:
فلسفہ اور سائنس میں کیا فرق ہے؟
جواب:
فلسفہ کی اصل کچھ خیالات ہوتے ہیں، اس کے لئے کچھ علمی بنیاد بنائی جاتی ہے اور اس پہ غور و فکر اور بحث مباحثے کیے جاتے ہیں جبکہ سائنس ایک پریکٹیکل چیز ہے، اس کی بنیاد مشاہدات اور تجربات پر ہے، پھر ان تجربات سے حاصل ہونے والے نتائج پر ہے۔ پھر ان نتائج کو دوسرے لوگ استعمال کرتے ہیں اور مزید مشاہدہ کرتے ہیں پھر مزید تجربے کرتے ہیں اور مزید نتائج نکلتے ہیں۔ اس طریقے سے جو علم بڑھتا ہے اس کو سائنس کہتے ہیں یعنی تجربات اور مشاہدات کے ذریعے حقیقت کی تلاش یا حقیقت تک پہنچنے کا راستہ سائنس ہے۔ سائنس ایک پریکٹیکل چیز ہے جبکہ فلسفہ میں آدمی ذہن سے ہی ساری باتوں کا نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس میں کوئی عملی چیز نہیں ہوتی۔ البتہ جب فلسفہ تجرباتی صورت میں آ جائے، اس سے کچھ عملی شکلیں اور عملی چیزیں سامنے آنی شروع ہو جائیں تو وہ سائنس بن جاتا ہے۔ سائنس کو فلسفہ نقصان نہیں پہنچاتا لیکن الہٰیات کو فلسفہ نقصان پہنچاتا ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی ذات میں غور نہ کرو بلکہ اللہ کی صفات میں غور کرو۔ اللہ کی صفات میں غور کرنا سائنس ہے اور ایک اچھا عمل ہے۔ جبکہ اللہ کی ذات میں غور کرنا فلسفہ ہے اور یہ نقصان دہ کام ہے، آپ کو کچھ سمجھ نہیں آئے گا۔ کیونکہ آپ اسے دیکھ نہیں سکتے، اس کا مشاہدہ نہیں کر سکتے، اس کا تجربہ بھی نہیں کر سکتے، لہٰذا یہ محض فلسفہ بن جائے گا۔ جب الہیات میں فلسفہ آتا ہے تو اس سے بہت نقصان ہوتا ہے یہاں تک کہ ایمان بھی ضائع ہو سکتا ہے اسی لئے اس سے منع کیا گیا ہے۔ کئی لوگوں نے اس کام میں پڑ کے بہت نقصان اٹھایا ہے، ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
بس اللہ پاک اور آپ ﷺ نے جن چیزوں سے روکا ہے ان سے رک جانا چاہیے۔ اللہ کی ذات میں غور نہ کرو بلکہ اللہ کی صفات میں غور کرو اور ان سے نتائج نکالو۔
اللہ پاک کی صفات پہ غور کرنا دو قسم کا ہو سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اللہ پاک کی جو صفات قرآن پاک سے یا حدیث شریفہ سے ثابت ہیں ان میں غور کرنا کہ یہ اصل میں کیا ہیں، یہ ایک الگ قسم کا غور و فکر ہے، اس کو فقاہت کہتے ہیں، یہ فقاہت کے زمرے میں آتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اللہ پاک کی مخلوقات پر غور کرنا، یہ سائنس ہے۔ فقاہت کے رخ سے آپ قرآن اور حدیث پہ غور کرتے ہیں اس کی تشریحات سمجھتے ہیں اس سے استنباط مسائل پہ غور و فکر کرتے ہیں، یہ سب فقاہت کے زمرے میں آئے گا۔ دوسرا اللہ پاک کی مخلوقات میں غور کرنا اس لحاظ سے کہ اس کی مخلوقات کا مطالعہ کیا جائے، اس سے نتائج نکالے جائیں اور انہیں عملی زندگی میں استعمال کیا جائے یہ سائنس کہلاتا ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن