سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 354

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال نمبر1:

حضرت جی میں نے گذشتہ مجلس میں ایک سوال کیا تھا جس کا جواب بھی دیا گیا تھا۔ میں نے وہ جواب بار بار سن کر سمجھنے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی کچھ کنفیوژن ہے۔ اپنی تعریف سننے کی چاہت اور خواہش تو نفس کی طرف سے ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خواہش ہو لیکن آپ اس کو اپنے ارادہ سے پورا نہ کروائیں تو اس پر اجر ملے گا۔ حضرت جی یہ بات تو سمجھ آ گئی ہے لیکن اگر آپ کوئی مثال پیش فرما دیں تو وضاحت ہو جائے گی۔ ارادہ سے یہاں کیا مراد ہے؟ یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ تعریف سننے کی خواہش کو ارادہ سے کیسے پورا کر سکتے ہیں۔ کیا نفس کا کسی چیز کی خواہش کرنا محض ایک باطنی کیفیت نہیں؟

جواب:

خواہش کسی بھی چیز کی ہو سکتی ہے لیکن اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے کچھ دواعی ہوتے ہیں۔ دواعی سے مراد کچھ ایسی چیزیں جو اصل کام شروع کرنے سے پہلے کی جاتی ہیں۔ مثلاً: خواتین کے اندر یہ بہت بڑا مرض ہوتا ہے کہ یہ اپنے زیورات اور کپڑوں کا اظہار کرتی ہیں تاکہ لوگ ان کی تعریف کریں۔ جو زیور نظر آ رہے ہوتے ہیں ان کی تعریف تو لوگ کر ہی دیں گے لیکن بعض زیور مخفی ہوتے ہیں، اب یہ اپنے عمل سے کسی بہانے سے ایسے زیور کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ لوگوں کو نظر آ جائے۔ اسی طرح اگر کسی نے امتحان پاس کیا ہو تو اسے ظاہر کرنے کی کوشش کرنا یا کوئی اور اچھا کام کیا ہو مثلاً تہجد پڑھ لی ہو تو اس کو کسی طریقہ سے ظاہر کر دینا۔ یہ ظاہر کرنے کی کوشش اصل میں نفس کی خواہش کو پورا کرنا ہے۔ اگر آپ کی طرف سے یہ بات نہ ہو بے شک نفس کی خواہش ہو لیکن آپ اس خواہش کو سپورٹ نہ کریں اور اپنی نیکی خود سے ظاہر نہ کریں اور ظاہر کرنے کا ارادہ بھی نہ کریں بلکہ خود کسی کو پتا چل جائے اور وہ تعریف کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ آپ کی طرف سے اختیاری طور پر اپنی نیکی کے اظہار کا ارادہ بھی نہ ہو اور کوشش بھی نہ پائی جائے پھر آپ کے اوپر کوئی الزام نہیں ہے، اگر آپ کی طرف سے دونوں میں سے ایک چیز پائی گئی کہ آپ نے ارادہ کیا کہ میری نیکی کا کسی کو پتا چل جائے، یا اس بات کی کوشش کی تو پھر آپ کے اوپر الزام ہوگا۔  

سوال نمبر2:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ شاہ صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل اور آپ کی دعاؤں سے الحمد للہ آج مندرجہ ذیل اذکار کو ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے:

ذکر: ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 500 مرتبہ۔

جواب:

یہی ذکر جاری رکھیں، اس میں اتنا اضافہ کر لیں کہ ”اَللّٰہ“ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تصور رکھیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔

سوال نمبر3:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی کچھ دنوں پہلے آپ نے اپنے بیان میں ایک حدیث سنائی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ”دینے والی ذات اللہ کی ہے اور بانٹنے والا میں ہوں“۔ اس بارے میں میرا سوال ہے کہ اگر اس کی مزید وضاحت کر دی جائے تو بہت مناسب ہوگا کیونکہ کچھ لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ  directly دعاؤں میں نبی کریم ﷺ سے ہی مانگتے ہیں۔ ایسا کرنا درست ہے یا غلط ہے؟ پھر اگر یہ تکوینی نظام سے متعلق ہو تو لوگ اس میں آگے بڑھ کر دوسرے پیغمبروں اور اولیاء کرام سے بھی مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسے کچھ لوگ خضر علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے چلہ کرتے ہیں یا اس کے کچھ اذکار کرتے ہیں تاکہ وہ ہم سے ملیں اور ہماری مرادیں پوری کریں۔ اس طرح کے کام کرتے کرتے آہستہ آہستہ لوگ اس مسئلہ میں بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ یہ کہاں تک درست ہے ذرا وضاحت فرما دیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔ 

جواب:

شاید ہماری خانقاہ میں آپ کا آنا نہیں ہوا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو ہمارے ذوق کا پتا کیسے نہیں چلا حالانکہ ہم تو ان چیزوں کا بار بار اعلان کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے آپ ﷺ کے ذریعہ سورہ فاتحہ میں ہمیں مانگنے کا طریقہ سکھایا ہے جس میں یہ بھی بتایا ہے کہ ہم کس سے مانگیں۔

﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ (الفاتحۃ: 4)

ترجمہ: ”(اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں“۔

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں“ یہ تشریعی امور سے متعلق ہے اور ”تجھی سے مدد مانگتے ہیں“ یہ تکوینی امور سے متعلق ہے۔ دونوں چیزوں کے امام یقیناً آپ ﷺ ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم آپ ﷺ سے مانگا کریں۔ آپ ﷺ نے ہمیں مانگنے کا یہ طریقہ تو دعاؤں میں نہیں سکھایا کہ مجھ سے مانگا کرو۔ جتنی دعائیں آپ ﷺ سے منقول ہیں سب میں اللہ ہی سے مانگا گیا ہے، سب میں ”اَللّٰھُمَّ“ آتا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مانگنا صرف اللہ تعالیٰ سے ہے۔

اب ذرا تقسیم والی بات کی تشریح سمجھیں۔ مثلاً: ڈیپارٹمنٹل سٹور میں مالک سامان لاتا ہے اور اپنے کسی ملازم کو حکم دیتا ہے کہ اسے تقسیم کرو، تقسیم کا طریقہ کار یہ رکھو کہ جو آدمی آئے اسے افطاری کا ایک ڈبہ میری طرف سے دے دیا کرو۔ اب یہ آدمی تقسیم کر رہا ہے اور لینے والوں میں سے ایک آدمی اس سے کہتا ہے کہ مجھے ایک کی جگہ دو دے دیں کیونکہ میری فیملی بڑی ہے تو وہ تقسیم کرنے والا کیا کہے گا؟ وہ یہی کہے گا کہ بھائی جی فلاں صاحب مالک ہیں آپ جا کر ان سے پوچھ لیں اگر وہ اجازت دے دیں تو میں آپ کو پچاس بھی دینے کے لئے تیار ہوں یہ میری چیز نہیں ہے میں آپ کو اتنے سے زیادہ نہیں دے سکتا جتنے کا حکم ہے۔ یہاں بھی یہی معاملہ ہے اللہ پاک مالک ہیں اور دینے والے ہیں جبکہ آپ ﷺ تقسیم کرنے والے ہیں۔ اللہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر آپ ﷺ کسی کو کچھ نہیں دے سکتے۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے:

﴿مَن ذَا ٱلَّذِىْ يَشْفَعُ عِندَهٗ إِلَّا بِإِذْنِهٖ﴾ (البقرۃ: 255)

ترجمہ: ”کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے؟“۔

ہمارا ایمان اور ذوق یہی ہے جو قرآن و حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی سے مانگنا جائز نہیں ہے۔ معلوم نہیں آپ کو پتا کیوں نہیں چلا کہ ہمارا ذوق کیا ہے۔ ہمارا ذوق پکا توحید کا ہے اور آپ ﷺ کے ادب کا ہے، آپ ﷺ کی شریعت پہ چلنے کا ہے اور آپ ﷺ کے ساتھ محبت کا ہے۔ یہی ہمارا ذوق ہے اور یہی ہمارا طریقہ ہے۔ آپ ﷺ کے ساتھ محبت ہمارا ایمان ہے لیکن سجدہ ہم اللہ ہی کو کرتے ہیں اور مانگتے اللہ تعالیٰ ہی سے ہیں۔ آپ ﷺ نے ہمیں یہی سکھایا ہے کہ صرف اللہ سے مانگو اس لئے آپ ﷺ کی محبت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مانگا جائے گا تو صرف اللہ کی ذات سے۔ اگر کوئی اس میں گڑ بڑ کرتا ہے تو اس کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں، وہ غلط کرتا ہے۔ اگر کوئی اس بات سے‘ کہ نبی ﷺ تقسیم کرنے والے ہیں، یہ مطلب لیتا ہے کہ آپ ﷺ سے مانگنا بھی جائز ہے، تو یہ اس کی غلط بات ہے، ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کو بھی تقسیم پہ لگا دے یہ اس کی مرضی ہے۔ مشائخ بھی خود اپنی مرضی سے کسی کو تھوڑا ہی دیتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی سے دیتے ہیں اللہ جل شانہ ان کے دل میں ڈال دیتے ہیں۔

کافی عرصہ پرانی بات ہے، میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مسجد نبوی میں ہوں اور مسجد نبوی میں ایک کاؤنٹر کھلا ہوا ہے جس سے چائے تقسیم ہو رہی ہے۔ میرے دل میں آتا ہے کہ مجھے بھی چائے مل جائے بہت اچھی چائے ہے۔ مجھے بتایا جاتا ہے کہ یہ جو تقسیم کر رہا ہے اپنی مرضی سے نہیں کر رہا، جن کے لئے اس کے دل میں ڈال دیا جاتا ہے یہ ان کو دے دیتا ہے۔ یہ سن کر میں آرام سے بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ اب تو کسی سے مانگنے کی بات ہی نہیں ہے۔ تھوڑی دیر میں مجھ تک بھی چائے پہنچ گئی۔ پھر میں چائے پی کر اس کی پیمنٹ کرنا چاہ رہا تھا، پیمنٹ کرنے کے لئے اسی کاؤنٹر پہ گیا تاکہ اس کی پیمنٹ کروں۔ جب میں نے پیسوں کی بات کی تو فرمایا بھائی اس کی پیمنٹ نہیں ہوتی اس کا اجر تو دل کے اندر ایک چیز ہوتی ہے جس سے یہ ملتی ہے یہ پیسوں سے نہیں ملتی۔

اس خواب کے مطابق دونوں باتیں بالکل کلیئر ہیں۔ ایک یہ کہ بلاشبہ آپ ﷺ سے فیض ملتا ہے لیکن اس کا آرڈر اوپر سے آتا ہے اور آپ ﷺ بھی جن کے لئے چاہتے ہیں ان کے لئے دعا کر دیتے ہیں، کیونکہ دعا مانگنا تو عبدیت کی علامت ہے وہ تو کسی کے لئے کوئی بھی مانگ سکتا ہے لیکن آپ ﷺ کا مانگنا اور ہے عام لوگوں کا مانگنا اور ہے۔ دوسری بات یہ کہ مانگا صرف اللہ سے جائے گا، کسی کو جو کچھ بھی ملے گا اسی کی مرضی اور منشا سے ملے گا۔

لہٰذا آپ ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن﴾ (الفاتحۃ: 4) کا سبق بہت اچھی طرح رٹ لیں اور دل میں اتار لیں۔ اس بات سے ایک انچ بھی آگے پیچھے نہ ہوں کہ سب کچھ اللہ پاک کرتے ہیں، سب کچھ اللہ پاک کا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ ﷺ شریعت لے کے آئے ہیں اور آپ ﷺ ہی کو اللہ پاک نے بہت ساری چیزوں کا ذریعہ بنایا ہے جیسے کئی چیزوں کا ذریعہ فرشتوں کو بنایا ہے اسی طرح کئی چیزوں کا ذریعہ انبیاء کو بنایا ہے۔ جبکہ آپ ﷺ کو دونوں چیزوں کا ذریعہ بنایا ہے، تکوینی امور کا بھی اور تشریعی امور کا بھی۔ مانگنا اللہ تعالیٰ ہی سے ہے کیونکہ نظام اس کا ہے، مالک وہی ہے اور مالک ہی سے مانگا جاتا ہے۔ آگے مالک کی مرضی ہے کہ جس کے ذریعے چاہے دلوا دے۔ مشائخ بھی اللہ پاک کی طرف سے ایک ذریعہ ہوتے ہیں روحانی فیض دینے کا۔ یہ نظام بھی اللہ پاک نے ہی بنایا ہے لیکن مشائخ سے مانگنا جائز نہیں ہے، مانگا اللہ سے ہی جائے گا۔ مشائخ بھی اپنی مرضی سے کچھ نہیں دے سکتے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے کسی مرید کو اجازت دے کر بعد میں واپس لے لی تھی۔ وہ صاحب غالباً حضرت کے رشتہ دار تھے اس لئے خاندان کی طرف سے بھی کافی تقاضا ہوا کہ ان کو خلاف واپس دیں کیونکہ ان کی بدنامی ہو رہی ہے تو ایک موقع پہ حضرت نے فرمایا: میرا بھی دل چاہتا ہے کہ اس کو اجازت دے دوں لیکن کیا کروں آپ ﷺ نہیں مان رہے۔

معلوم ہوا کہ مشائخ اپنی مرضی سے یہ چیز نہیں دیتے، اسی طرح نبی ﷺ کو بھی اللہ پاک کی طرح سے حکم ہوا ہوگا کہ وہ نہ دیں۔ یہ چیز ہماری ذاتی نہیں ہے اللہ پاک کی طرف سے ہوتی ہے، کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، یہ ایسی جگہ ہے جہاں پَر جل جاتے ہیں آدمی کچھ نہیں کہہ سکتا لہٰذا بات وہیں پہ ختم ہوتی ہے کہ صرف اور صرف اللہ پاک ہی سے مانگنا چاہیے۔

سوال نمبر4:

السلام علیکم حضرت!

Hope you are fine الحمد للہ! Why do I feel to cry and on my فلاں and فلاں activities, for example, birthday photographs and I am also afraid that it may become my habit. 

جواب:

انسان جذبات سے مجبور ہوتا ہے لیکن جذبات انسان کی فائنل چیز نہیں ہیں، انسان کو اپنی عقل سے کام لینا چاہیے۔ آپ اپنے جذبات کو سامنے نہ رکھیں بلکہ دیکھیں کہ شریعت کا حکم کیا ہے اور عقل کا تقاضا کیا ہے، پھر شریعت کے حکم پر عقل کے ذریعے عمل کریں، ادھر ادھر کی جذباتی باتوں پہ نہ جائیں۔ 

سوال نمبر5:

ایک خاتون نے مجھے اپنا معمولات کا چارٹ بھیجا ہے جس سے معلوم ہو رہا ہے جو معمولات ہم نے اسے دیئے ہیں ان کے علاوہ اس کے اپنی طرف سے بھی اچھے خاصے معمولات چل رہے ہیں اور پھر فرماتی ہیں کہ میرے مراقبہ میں ناغے ہو رہے ہیں۔

جواب:

جو معمولات ہم نے دیئے ہیں وہ تو آپ کرتی نہیں ہیں اور جو نہیں دیئے وہ اپنی مرضی سے کر رہی ہیں۔ ایسی صورت میں مراقبے میں ناغے تو ہوں گے۔ دیکھیں اپنی اصلاح فرض عین ہے، جو چیز فرض عین کو پورا کرنے کے لئے کی جا رہی ہے اس کی اہمیت بھی فرض جتنی ہی ہوگی۔ جو آپ کر رہی ہیں ان چیزوں کا آپ کو ثواب ملے گا لیکن ثواب تو بعد کی بات ہے پہلے اصلاح تو ہو جائے۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ کو ثواب مل جائے لیکن آپ حرام میں مبتلا ہو جائیں تو حرام سے بہت زیادہ نقصان ہو جائے گا یہاں تک کہ آپ کا حاصل شدہ ثواب بھی ضائع ہو جائے گا۔ لہٰذا آپ اپنی مرضی سے اپنے معمولات نہ بنائیں جو معمولات آپ کو بتائے جائیں ان کو ترجیح دیں۔

رائیونڈ مرکز میں ایک دفعہ رائیونڈ کے ایک بزرگ بیان فرما رہے تھے، وہ باہر جانے والی جماعتوں کو ہدایات دے رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے فرمایا: دیکھو ہم بھی آپ کو وظائف دیتے ہیں اور مشائخ بھی دیتے ہیں، چاہیے تو یہ کہ آپ دونوں کر لیں لیکن اگر وقت نہ ملے اور آپ کو صرف ایک کرنا پڑ جائے تو مشائخ والا ذکر نہ چھوڑیں، ہمارا دیا ہوا ذکر آپ مؤخر کر سکتے ہیں کیونکہ مشائخ کا ذکر دوا ہے اور ہمارا ذکر غذا ہے۔ غذا اور دوا میں جب مقابلہ آ جائے تو دوا کو ترجیح ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ مراقبہ کبھی نہ چھوڑیں باقی معمولات اگر ہو جائیں تو بہتر ہے، نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن مراقبہ اور ہمارے دیئے ہوئے دوسرے معمولات کسی صورت نہیں رہنے چاہئیں۔

سوال نمبر6:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی ابتدائی معمولات پابندی سے کر رہا ہوں، استقامت کے لئے دعا فرمائیں۔

جواب:

اللہ جل شانہ استقامت نصیب فرمائے۔ 

سوال نمبر7:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی شیخ اور مرید کے درمیان کی کونسی باتیں ایسی ہیں جو کسی اور سے ڈسکس نہیں کی جا سکتیں، اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:

تربیت کے لئے کسی اور کے ساتھ رابطہ نہیں کرنا چاہیے۔ تربیت والی چیزیں صرف اپنے شیخ کے ساتھ ہوتی ہیں البتہ ویسے اگر کوئی علمی بات ہو وہ آپ دوسروں کے ساتھ ڈسکس کر سکتی ہیں لیکن تربیت کی بات کسی اور کے ساتھ ڈسکس نہ کیا کریں۔ 

سوال نمبر8:

الحمد للہ heard your voice in the middle of new year here. I am in South Africa, North Capton. In the nearest villages even 40 kilometers, I guess I am only Muslim here. I was just listening to your کلام on اختلاف, and thinking فکر of دین. May Allah bring Islam to this land. People are very good at heart. A while ago, a lady was cleaning the room while I was sitting, she said, Sir, “can I clean?'' I replied, you know cleaning is half faith, please continue. I am fine, rather happy with cleanliness. May اللہ accept all here for Islam and bring change!

Answer:

Of course we are also praying for this. May اللہ grant Islam to all the people! But what is your role in this? That is important and for that reason you should live there with an exemplary profile so that people can understand Islam as the best religion. So, if you are there, so I think this is an opportunity to communicate the message of Islam, the true spirit of Islam to them by your character and if you are successful in this, actually that will be, you can say, the first drop of Islam in raining. So, if you will be initiator of that and I think as many people who accept Islam there in future will be ان شاء اللہ you will be getting اجر for them also. 

(ہدایت)

سوال و جواب کے بارے میں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مہربانی کر کے سوال جواب کے سیشن میں کوئی خاتون آڈیو میسج میں اپنا سوال نہ بھیجے، کیونکہ اس کو ہم سب کے سامنے سنا نہیں سکتے، اور خود سن کر مجلس میں اس کا جواب دینا، یہ ایک لمبا کام ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ٹیکسٹ میسج کی صورت میں بھیج دیا کریں، اس میں میرے لئے بڑی آسانی ہوتی ہے، میں بغیر نام کے سنا دیتا ہوں، متعلقہ خاتون کو بھی جواب پہنچ جاتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس سے استفادہ کر لیتے ہیں۔

سوال نمبر9:

السلام علیکم۔ حضرت جی باقی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے اس ہفتہ ان سنتوں پر عمل شروع کیا ہے: سونے کی سنت، قضائے حاجت کی سنت، دعا کی سنت، سرمہ کی سنت، بالوں میں تیل لگانے اور کنگھی کرنے کی سنت۔

جواب:

اللہ جل شانہ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے اور استقامت نصیب فرما دے۔

سوال نمبر10:

حضرت۔ ذکر کے دوران اپنے ماضی کے گناہ یاد آ جاتے ہیں جن کی وجہ سے ذکر میں توجہ ہی نہیں رہتی، دل کہیں، زبان کہیں اور دماغ کہیں ہوتا ہے۔ کیا کروں؟

جواب:

دیکھیں اگر آپ کو دورانِ ذکر ماضی کے گناہ یاد آ جاتے ہیں تو یہ آپ کے لئے ذکر کا ایک تحفہ ہے۔ آپ اس پہ استغفار کر لیا کریں اور آئندہ ان گناہوں سے بچنے کی نیت کر لیا کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ذکر میں توجہ نہیں رہتی تو یہ جان لیں کہ توجہ آئے گی بھی ذکر سے ہی، اس لئے اپنا ذکر زیادہ پابندی اور استقامت سے کیا کریں، تاکہ آپ کا دماغ اور دل صحیح جگہ پہ آ جائے، اسی کے لئے ساری کوشش ہے۔ ابتدا میں توجہ سے ذکر نہیں ہوتا غفلت سے ہی ہوتا ہے کیونکہ انسان گذشتہ بہت عرصہ سے غافل ہوتا ہے لیکن جب ذکر شروع کرتا ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ توجہ بڑھتی جاتی ہے۔ آپ بس اس بات کا خیال رکھیں کہ ناغہ بالکل نہ ہو، توجہ چاہے ہو پائے یا نہ ہو پائے ذکر کرتے رہیں ان شاء اللہ وقت کے ساتھ ساتھ توجہ بڑھتی رہے گی۔ کہتے ہیں: ”لگے رہو، لگے رہو، لگ جائے گی“۔ 

ہدایت:

دراصل مبتدی کو بڑی بڑی باتیں فائدہ پہنچانے کی بجائے نقصان پہنچاتی ہیں۔ آپ دوسرے لوگوں کے ٹیکسٹ شیئر کرنے کی بجائے اپنی اصلاح پر زور دیں تاکہ آپ کی اپنی اصلاح ہو جائے۔ ابھی آپ بہت ساری چیزیں نہیں سمجھتی ہیں اس لئے دوسرے ٹیکسٹ اور بڑی بڑی باتیں پڑھیں گی اور شئیر کریں گی تو ممکن ہے کہ صحیح راستہ پہ نہ جا سکیں۔ جیسے ابھی آپ نے جو باتیں کی ہیں، یہ آپ نے صرف آدھی بات کی ہے پوری بات نہیں کی۔ اللہ سے محبت کی ایک حالت جذب کی حالت ہے، اس کے ساتھ سلوک بھی ہوتا ہے۔ سلوک نفس کا ہوتا ہے جسے طے کرنے کے لئے مجاہدہ کرنا ہوتا ہے، مجاہدہ کرانے کے لئے شیخ ہوتا ہے وہ طریقہ بتاتا ہے۔ جس طرح آپ نے کہا اگر اس طرح آسان طریقہ ہو جائے پھر تو سارے لوگ ولی اللہ بن جائیں۔ یہ اتنا آسان نہیں ہوتا اس کے لئے محنت کرنی ہوتی ہے۔ دل پر محنت ہے، نفس کے اوپر محنت ہے، عقل کے اوپر محنت ہے ان تینوں محنتوں کو ملا کر‘ وہ بھی شیخ کی نگرانی میں ہوں تو صحیح نتیجہ ملتا ہے ورنہ صرف  فلسفہ رہ جاتا ہے۔ آپ فلسفہ کے پیچھے نہ جائیں عمل کے پیچھے جائیں۔

سوال نمبر11:

السلام علیکم حضرت۔ میں عاصم بول رہا ہوں۔ مجھے آپ سے کچھ باتیں پوچھنی تھیں۔ آپ نے مجھے ذکر بتایا تھا تو میں نے یہ کیا کہ ویب سائٹ سے آپ کا ایک درس ڈاؤن لوڈ کر لیا، درس کے آخر میں جب آپ ذکر کرواتے ہیں اس کی الگ سے ریکارڈنگ کر لی۔ اب میں جب ذکر کرنے لگتا ہوں تو ساتھ وہ لگا لیتا ہوں کیونکہ اس میں تھوڑی بہت تذکیر ہوتی رہتی ہے۔ اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو ٹھیک ہے ورنہ رہنمائی فرما دیں میں تصحیح کر لوں گا۔ شکریہ۔

جواب:

جی اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ آپ سیکھنے کے لئے کر رہے ہیں اور سیکھنے کے لئے یہ اچھا طریقہ ہے۔ جب آپ سیکھ لیں پھر اپنے طور پہ کر لیا کیجیے گا۔

سوال نمبر12:

کچھ دن پہلے میرے ایک دوست کو اشکال پیدا ہوا اور اس سے مجھ تک بھی اثر پہنچ گیا۔ ہم یہاں قسیم ریجن میں ہوتے ہیں۔ اگر ہم نے عمرہ کے لئے جانا ہے تو ہمارا میقات طائف بنتا ہے۔ یہاں سے گروپس کی شکل میں جاتے ہیں۔ بالفرض ہم  پیر کے دن نکلے ہیں تو طائف میں جا کے ہم احرام باندھتے ہیں اور پھر مکہ جا کے عمرہ ادا کرتے ہیں۔ اب اگر اس کے بعد ہمیں دوسرا عمرہ کرنا ہو تو اس کا احرام کہاں سے باندھیں گے؟ میں یہ کرتا تھا کہ مسجد عائشہ جا کے دوبارہ عمرہ کی نیت کرکے احرام باندھ کر آ کے دوبارہ عمرہ کر لیتا تھا۔ میرے دوست کے ساتھ یہ معاملہ ہوا کہ وہ قسیم سے مکہ کی طرف چلا۔ جانا تو طائف سے تھا تاکہ طائف میں احرام باندھا جا سکے لیکن اس کا  راستہ تبدیل ہو گیا اور وہ جدہ پہنچ گیا۔ جدہ میں موجود اس کے ساتھیوں نے کہا چونکہ تمھاری نیت قسیم سے ہی ہوئی ہے اس لئے تمھارا میقات طائف سے ہی ہو گا۔ پھر اس نے طائف جا کے احرام باندھا۔ لیکن اس کو پھر یہ بھی کہا گیا کہ بھائی یہ مسجد عائشہ ہم لوگوں کے لئے نہیں ہے یہ مخصوص لوگوں کے لئے ہے ہر کوئی یہاں آ کے احرام نہیں باندھ سکتا۔ میں نے اسے کہا کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تیمم کے لئے ایک ذریعہ بنایا تھا اسی طرح یہاں احرام کی سہولت ہونا اور عمرہ کی نیت کا ہو جانا بھی ان کی وجہ سے ہمیں مل گیا۔ اس وقت بھی ایک صحابی نے فرمایا تھا کہ اے ابو بکر کے خاندان والو تم اس امت کے لئے رحمت ہی ثابت ہوئے ہو۔ لہٰذا یہاں سے احرام باندھا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کو اس مسئلہ میں کافی تردد تھا۔ ہم نے یہاں کے علماء سے پوچھنے کی کوشش کی تو ان کے ہاں ذرا اور مسئلہ ہو جاتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ آپ کو دوسری دفعہ عمرہ کرنے کی کیا ضرورت ہے عمرہ تو ایک ہی دفعہ واجب ہے، آپ ویسے ہی طواف کر لیں اور اگر آپ نے عمرہ ہی کرنا ہے تو اس کا احرام آپ اپنے ہوٹل میں بیٹھ کے ہی باندھ سکتے ہیں اس کے لئے مسجد عائشہ جانے کی کیا ضرورت ہے۔ حضرت جی ازراہ کرم اس کی وضاحت فرما دیں۔

جواب:

بھائی آپ نہ میری بات مانیں نہ ان کی بات مانیں بلکہ صحابہ کرام کے طریقہ کو مانیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس میں وہ انکار نہیں کر سکتے۔ اصل بات یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں: میقات، حل، اور حدود حرم۔ جو لوگ میقات سے باہر رہتے ہیں ان کو آفاقی کہتے ہیں، جو لوگ میقات اور حدود حرم کے درمیان رہتے ہیں ان کو حل کہتے ہیں اور جو حدود حرم کے اندر رہتے ہیں وہ اہل مکہ ہیں۔ پس جو لوگ باہر سے جاتے ہیں یعنی آفاقی لوگ، وہ میقات سے نیت کریں گے، ان کے لئے تو یہی حکم ہے۔ جو حل کے اندر ہیں وہ اپنے گھر سے بھی نیت کر سکتے ہیں کیونکہ وہ حل میں پہلے سے ہیں اور اگر وہ گھر سے نہیں گئے تو حدود حرم سے باہر جس مقام پہ چاہے نیت کر سکتے ہیں حدود حرم صرف مسجد عائشہ کے پاس سے ہی نہیں گزرتی بلکہ حدود حرم مکہ کے چاروں طرف ہے لہٰذا آپ جس سائڈ سے بھی آئیں تو حدود حرم سے پہلے پہلے آپ عمرہ کی نیت کر سکتے ہیں۔ اب آپ مکہ مکرمہ پہنچ چکے ہیں آپ نے ایک عمرہ کر لیا اور دوسرا عمرہ کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ اب آپ اہل مکہ ہیں اس لئے آپ نے دوسرے عمرہ کی نیت کرنے اور احرام باندھنے کے لئے صرف حدود حرم سے باہر نکلنا ہے، حدود حرم سے آپ کسی طرف بھی باہر نکل سکتے ہیں، حدیبیہ بھی ایک مقام ہے، مسجد عائشہ بھی ایک مقام ہے، اس کے علاوہ اور بھی کئی مقامات ہیں جہاں سے باہر نکل کے آپ نیت کر کے پھر اندر آ جائیں اور عمرہ کر لیں۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے خاص تھا۔ مان لیتے ہیں کہ ان کے لئے خاص تھا لیکن عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کیا کہیں گے جنہوں نے اہل مکہ کے ساتھ باقاعدہ اجتماعی طور پر خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد بطور شکرانہ عمرہ کیا، اور اس عمرہ کا احرام انہوں نے مسجد عائشہ جا کر باندھا، کسی صحابی نے ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اس کا جواب ان کے پاس کیا ہے؟ یہ سارے خود بھی گمراہ ہیں دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی گمراہی سے ان کے شر سے ہمیں بچائے۔ آج کل اس قسم کے لوگ بہت زیادہ ہیں اس وجہ سے مستند علماء سے بات کرنی چاہیے۔ یہ دو دو کتابوں کے مفتیوں سے مسئلہ نہیں پوچھنا چاہیے۔ آج کل یہ بھی بڑا مسئلہ ہے کہ پانچ کتابیں حدیث کی پڑھ کر محدث بن جائیں گے اور دو کتابیں فتویٰ کی پڑھ لیں گے تو مفتی بن جائیں گے۔

میں نے آپ کو بالکل بنیادی باتیں بتائی ہیں آپ صرف انہی باتوں کو مانیں جو صحابہ کے عمل میں نظر آئیں۔ میں اپنی طرف سے بات نہیں کر رہا۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے اور انھوں نے تابعین کے ساتھ مل کر اجتماعی طور پر شکرانہ کا عمرہ کیا اور اس کا احرام مکہ سے باہر جا کر مسجد عائشہ سے باندھا ہے۔ اب اس میں کون سا اشکال ہے ان کے لئے تو کوئی خصوصی معاملہ نہیں تھا۔

دین متواتر ہے، تواتر سے ثابت ہے، ابھی تک متواتر یہی چل رہا تھا کہ جو لوگ مکہ میں موجود ہیں انہوں نے عمرہ کرنا ہو تو مسجد عائشہ سے احرام باندھ لیں۔ کیا اِن لوگوں پر نیا دین نازل ہو گیا ہے؟ پرانی کتابوں میں یہی مسائل لکھے ہوئے ہیں آپ ان کی نئی باتوں کو چھوڑیں اور اپنے دوست کو بھی سمجھائیں، خواہ مخواہ خراب نہ ہو، کنفیوز بھی نہ ہو۔ اس سے آپ لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے اور آئندہ ایسے لوگوں سے مسائل نہیں پوچھنے چاہئیں اور نہ ہی ان کی بات ماننی چاہیے۔ یہ اس قابل ہی نہیں کہ ان سے پوچھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔

سوال نمبر13:

السلام علیکم۔ حضرت خاموشی کا مجاہدہ چل رہا ہے۔ اس دوران ایک سے زائد باتیں ذہن میں آ جاتی ہیں۔ کیا سب میں خاموش رہنا ہے یا صرف ایک ہی بات جو صرف فوری بولنے کو جی چاہے اسی پر خاموش رہنا ہے۔ ایک بات پر خاموش رہنے میں بھی بھول جاتا ہوں اور اکثر بول پڑتا ہوں۔ سب سے آسان مجاہدہ یہی سمجھتا تھا لیکن یہ بہت مشکل ہے۔

جواب:

جتنی باتوں پہ آپ بولنا چاہتے ہیں ان سب باتوں پہ آپ خاموش رہیں اور ٹائم مقرر کر لیں کہ میں نے بیس منٹ خاموش رہنا ہے اس کے بعد بے شک آپ بول لیں۔ 

سوال نمبر14:

السلام علیکم و  رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی نماز کے دوران میں یہ تصور کر رہا تھا کہ اللہ دیکھ رہا ہے، اچانک یہ تصور آ گیا کہ شیخ دیکھ رہا ہے تو نماز میں خشوع و خضوع آ گیا۔ کیا یہ تصور کر سکتے ہیں، کیا یہ شرک میں تو نہیں آتا؟ جزاک اللہ خیرا۔ 

جواب:

یہ ایک خلاف واقعہ چیز ہے۔ آپ کہیں اور ہیں تو شیخ آپ کو کیسے دیکھ سکتا ہے۔ اس کے لئے آپ کو کچھ اور چیزیں ماننی پڑیں گی شیخ کو حاضر ناظر ماننا پڑے گا اس طرح عقیدہ میں فساد آ جائے گا لہٰذا اس تصور کی طرف نہ جائیں بس یہی تصور رکھیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور خود بخود شیخ کا خیال آ جائے تو صرف خیال آنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ بات کہ شیخ دیکھ رہا ہے یہ خلاف واقعہ بات ہے اس کو ذہن سے جھٹلا دیں۔ شیخ تو آپ کو تب بھی نہیں دیکھے گا جب آپ اور شیخ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہوں، آپ اس کے ساتھ ہی کیوں نہ کھڑے ہوں تب بھی وہ آپ کو نہیں دیکھے گا تو جب وہ دور ہو تب کیسے دیکھ سکتا ہے۔ یہ ساری باتیں خلاف واقعہ ہیں اس وجہ سے ان چیزوں کے اندر نہ جائیں بس اتنا تصور کریں کہ مجھے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے یہی سب سے بڑی بات ہے۔

سوال نمبر15:

I wanted to ask you two questions. The first one is more important. It is about when we are living in the West as you know because you have lived in those lands. In our day to day transactions with people, as a doctor or in any job, we have to meet all manner of people including females and some may be colleagues, some may be patients and there has to be some degree of eye contact. Otherwise if you look at the floor all the time, it would be difficult to practice, so what is the حل for this in the light of Sharia, and also in the light of Tariqa and its effects on the heart? That is the first point. 

جواب:

ڈاکٹر صاحب سب سے پہلے میں یہ درخواست کروں گا کہ آپ جب بھی سوال کریں تو Plain English میں بات کریں کیونکہ آپ اگر کسی مخصوص لہجہ میں بات کریں گے تو ہو سکتا ہے ہم اس لہجہ کے ساتھ  مانوس نہ ہوں کیونکہ ہم انگلینڈ سے باہر کے ہیں اس لئے انگلینڈ والوں کا لہجہ نہیں سمجھتے۔ انگلینڈ والوں کا لہجہ یقیناً اچھا ہے، صحیح انگلش ہے لیکن ہم اس سے زیادہ مانوس نہیں ہیں ہم تو  Plain English جانتے ہیں، یہاں ہمارے ٹیچرز Plain English میں بولتے تھے ہم خود بھی Plain English بولتے ہیں، بے شک وہ آپ لوگوں کے معیار سے بہت کم ہو لیکن سمجھانے اور سمجھنے کے لئے ٹھیک ہے۔ اس لئے آئندہ آپ جب بھی سوال کریں تو یا اردو میں کر لیا کریں یا Plain English میں کر لیا کریں جس کو ہم سمجھ سکیں۔

آپ نے Eye contact کی بات کی تو میں اس بارے میں کہوں گا کہ یا تو اپنے اندر اتنی روحانیت پیدا کر لو کہ آپ ان کو دیکھ کر بھی نہ دیکھیں۔ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خلیفہ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے یہی فرمایا تھا کہ تیری آنکھ پتھر ہو جائے۔ تو آپ بھی اپنی آنکھ کو روحانی طور پر پتھر کا بنا دیں پھر تو ایسا ہو سکتا ہے لیکن یہ تب ہو سکتا ہے جب آپ کا مقام بھی اتنا اونچا ہو۔

ہمیں خواہ مخواہ گنجائشوں کے پیچھے نہیں جانا چاہیے اور پوری کوشش کرنی چاہیے کہ Eye contact نہ ہو۔ اگر غلطی سے ہو جائے تو فوراً نظر ہٹانے کی کوشش کریں اور اس پر استغفار کر لیا کریں۔ اگر اس طرح ہم نے اجازت دے دی تو پھر لوگ اس کو بنیاد بنا لیں گے اور فتنہ کھڑا ہو جائے گا۔ لہٰذا اس کی اجازت تو نہیں دی جائے گی البتہ یہ بات ضرور ہے کہ مسلسل اپنے اللہ کی طرف توجہ رہے اور اس کا اثر نہ لیا جاتا ہو تو پھر ٹھیک ہے ورنہ اپنے لئے کوئی بندوبست کر لیا کریں۔

میں آپ کو حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا جواب سنا دیتا ہوں جو میرے شیخ تھے۔ کراچی کے ایک صاحب نے حضرت کو خط لکھا کہ حضرت میں کیا کروں نیچے دیکھتا ہوں تو جان جاتی ہے اور اوپر دیکھتا ہوں تو ایمان جاتا ہے۔ حضرت نے فرمایا: ایسا طریقہ سیکھ لو کہ جان بھی نہ جائے ایمان بھی نہ جائے۔ میری طرف سے بھی یہی جواب ہے۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے۔

سوال نمبر16:

And the second question was, I wanted to ask you, we know generally that مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ was the امام of ishq and love and it was also the way of حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ. They emphasized عشق طبعی over the عشق عقلی. But he was opposed in this by مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ who put the عشق عقلی over the عشق طبعی. So how do we understand this in the light of because wherever we are taking from the way of مولانا رومی in his understanding of love and these things? And may be to illustrate, I can share this ملفوظ from حضرت تھانوی so he could clarify from my mind.

جواب:

پہلے ایک اصولی بات سمجھ لیں۔ آپ نے جن بڑے بڑے لوگوں کی بات کی، حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی بات کی ہے۔ میں ان کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوں۔ اگر میں اپنی رائے بتاؤں تو وہ میری ہی  رائے ہو گی، اس کے ساتھ کوئی اختلاف بھی کر سکے گا۔ میں اپنی رائے آپ کو بتا دیتا ہوں لیکن میری رائے آپ کے لئے حجت نہیں ہے جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ پہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ والا طریقہ حجت نہیں تھا، حضرت کی اپنی رائے حب عقلی کی تھی اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا ذوق حب طبعی کا تھا۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ بھی فرماتے تھے کہ زندگی میں حب عقلی ہو اور موت کے وقت حب طبعی ہو جبکہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کا ذوق حب طبعی کا تھا۔ یہ ذوقیات کی باتیں ہیں۔ میرا ذوق اور رائے اس بارے میں یہ ہے کہ حب طبعی غیر اختیاری ہے اور حب عقلی اختیاری ہے۔ اگر کسی کو غیر اختیاری طور پر یہ نعمت نہیں ملی تو اختیاری طور پر نہ چھوڑے۔ اگر کسی کو غیر اختیاری والی نعمت نہیں ملی ہے تو وہ اختیاری نعمت نہ چھوڑے اور جس کو غیر اختیاری مل جائے اسے اختیاری کی طرف آنے کی ضرورت ہی نہیں۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جو حب عقلی کے قائل تھے انہوں نے خود فرمایا کہ شیخ کے ساتھ عقیدت اچھی چیز ہے لیکن میں محبت کی زیادہ قدر کرتا ہوں۔

چونکہ حب عقلی اختیار میں ہے انسان وہ کر سکتا ہے اور ﴿لَا یُکلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا﴾ (البقرۃ: 286) کے قانون کے مطابق غیر اختیاری چیز کا کوئی مکلف نہیں ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ یہ نعمت از خود دے دے، جیسے حاجی صاحب کو دی تھی، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو دی تھی، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی دی تھی، ان کے علاوہ اور بہت سارے حضرات کو دی تھی تو یہ اس کا انعام ہے۔ حب طبعی اللہ کی نعمت ہے جس کو اللہ چاہے نصیب فرما دیتا ہے۔ بعض مشائخ سے سنا ہے کہ ابتداءً حب عقلی ہوتی ہے، یہی بعد میں حب طبعی بن جاتی ہے۔ اس لحاظ سے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ والی بات کا معنی یہ ہوگا کہ بعض لوگوں کو زندگی میں حب عقلی حاصل ہوتی ہے اور موت کے وقت ان کو اللہ کی طرف سے حب طبعی عطا ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر کسی کو پہلے ہی سے اللہ تعالیٰ حب طبعی دے دے تو یہ اس کے اوپر اللہ پاک کا کرم ہے۔ میرے خیال میں محمدی مشرب والوں کو حب طبعی مل جاتی ہے۔ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کہیں یہ بات فرمائی ہے کہ محمدی مشرب والوں کو اللہ پاک کی تجلی ذاتی کا حصہ بھی مل جاتا ہے۔

در اصل حب طبعی میں فنا فی الذات ہوتی ہے اور فنا فی الذات سالک میں اور کوئی چیز نہیں چھوڑتی۔ جبکہ حب عقلی صفات کے ذریعے ہوتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا:

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ (آل عمران: 190)

ترجمہ: ” بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں“۔

اس آیت میں فرمایا کہ یہ عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ آگے فرمایا:

الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (آل عمران: 191)

ترجمہ: ” جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں“۔

یہاں فکر اور ذکر کی بات کی گئی ہے۔ فکر اور ذکر کے ذریعے آیات الہیٰہ اور کائنات کے اندر غور کرنے سے عقلی محبت حاصل ہو جاتی ہے۔ لیکن عقلی محبت میں کچھ مسائل ہیں۔ عقلی محبت کہیں کہیں فیل ہو جاتی ہے کیونکہ یہ صفات کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ بعض اوقات صفات کا رنگ بدلتا ہے، یا سالک صفات میں فنا نہیں رہتا تب عود کا خطرہ ہوتا ہے۔ بہرحال چونکہ اختیاری محبت یہی حب عقلی ہے اس لئے ہم دعوت تو اسی کی دیتے ہیں لیکن جن کو اللہ نے حب طبعی دی ہے اس سے انکار نہیں کرتے اور ان کو یہ نہیں کہتے کہ آپ بھی عقلی محبت کی طرف آ جائیں۔ اس لئے کہ ان کو تو اللہ پاک نے حب طبعی عطا کر دی ہے۔

ہماری ایک غزل کے پہلے شعر کا مرکزی خیال یہی ہے کہ جس کو اللہ پاک جو عطا فرما دے وہ اس پہ شکر کرے۔ ؎

کیسے کہوں کہ اس نے بلایا نہیں مجھے 

کافی ہے اپنے در سے اٹھایا نہیں مجھے

بس اس شعر پر غور کرو اس میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ عقلی محبت والے اپنے آپ کو کم نہ سمجھیں کیونکہ یہ بھی اس کی نعمت ہے کہ اس نے اپنی یہ محبت عطا فرمائی ہے، ہمیں واپس نہیں لوٹا دیا، اسی پہ شکر کرو۔ یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ جو اس کی طرف جا رہے ہیں ان کو واپس نہیں کرتا بلکہ آپ ﷺ کی حدیث شریف ہے کہ جو میری طرف ایک بالشت آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دو بالشت جاتی ہے، جو میری طرف ایک ہاتھ آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دو ہاتھ جاتی ہے، اور جو میری طرف چل کے آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دوڑ کے جاتی ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے اپنی محبت تو عطا فرمائی چاہے عقلی ہی عطا فرمائی۔

انسان کے بس میں حب عقلی ہی ہے، انسان اسی کو اختیار کر لے تو اللہ پاک اس کو واپس نہیں فرماتے اور اگر کسی کو اس سے بڑھ کر حب طبعی عنایت فرما دیں تو ان کا کرم ہے اس میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ کسی حب طبعی والے سے حسد نہیں کرنا چاہیے اور اپنی طرف سے حب عقلی کو چھوڑنا بھی نہیں چاہیے۔ بعض دفعہ حسد کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ ایک چیز خود کو حاصل ہے، دوسرے کو وہی چیز اس سے اونچے مرتبے پر حاصل ہے تو اس کے حسد میں آ کر اپنی کم درجہ والی چیز کو بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے اس طرف نہیں جانا چاہیے۔ ہمارے بزرگوں نے اپنے اپنے ذوق کی بات کی ہے۔ ان میں یہ حسد والی بات نہیں تھی، چونکہ ہم میں یہ بات آ سکتی ہے اس لئے ہمیں ان چیزوں پہ زیادہ ڈسکس نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بعض دفعہ یہ مسئلہ نازک بن جاتا ہے۔

سوال نمبر17:

حضرت والا عروج اور نزول کے متعلق کچھ تشریح فرما دیں تو بہت فائدہ ہو گا۔ بزرگوں کا قول ہے کہ جس کا عروج کامل نہیں ہوتا اس کا نزول بھی کامل نہیں ہوتا۔ اس قول کی وضاحت بھی فرما دیں۔ حضرت کی مثالوں سے اتنا سمجھ میں آیا ہے کہ اگر سلوک اور سیر الی اللہ کو سیڑھیوں کی مانند سمجھیں اور چودہ سیڑھیاں ہوں، اگر کوئی سالک پانچ سیڑھیوں کے بعد نیچے اترنا چاہے تو چونکہ اس کا عروج پانچ سیڑیوں تک تھا لہٰذا اس کا نزول بھی اتنا ہی ہو گا۔ کیا یہ سمجھ صحیح ہے؟ اس کو مزید سمجھا دیں تو آپ کا بڑا کرم ہو گا۔ جزاکم اللہ خیرا احسن الجزا۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔

جواب:

در اصل عروج فناء الفنا تک کا سفر ہے اور نزول بقا تک پہنچنے کا نام ہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ مثلاً میں اپنے نفس کا غلام ہوں نفس کی بات مانتا ہوں اور اس سے نکلنا چاہتا ہوں۔ اس سے نکلنے کے لئے مجھے یہ کرنا ہوگا کہ میں اپنے نفس کے شر سے نکل جاؤں۔ تو یہ جو میں نفس کے چنگل سے بچ رہا ہوں میری روح نفس سے علیحدہ ہو رہی ہے یہ مجھے فنائیت حاصل ہو رہی ہے اسی کو عروج کہتے ہیں۔ کیونکہ نفس سلف میں ہے اور روح علو میں ہے۔ پہلے روح نفس سے الگ ہو کر اوپر کو اٹھتی ہے، عروج کی طرف جاتی ہے۔ یہ عروج کا سفر ہوتا ہے پھر دوبارہ جب اللہ تعالیٰ آدمی کو قبول فرماتے ہیں، وہ اللہ کا بن جاتا ہے اور اللہ کے لئے سارے کام کرتا ہے تو یہ بقا ہے، یہ نزول ہے۔ مشائخ نے فرمایا ہے کہ بدایہ سے نہایہ کی طرف جانا عروج ہے اور نہایہ سے دوبارہ بدایہ کی طرف آنا نزول ہے۔ جب آدمی نزول طے کر کے بقا حاصل کر لیتا ہے تو پورا دائرہ مکمل ہو جاتا ہے۔ جیسے ایک مقام الف ہے جس میں آپ اپنی تمام خواہشات کے ساتھ ہیں، اس کے بعد آپ اپنی خواہشات کو ایک ایک کرکے مسلسل چھوڑتے جاتے ہیں حتیٰ کہ آپ کی خواہشات بالکل ختم ہو جاتی ہیں اور آپ فانی ہو جاتے ہیں، یہ عروج ہے اب آپ عروج پہ پہنچ گئے ہیں۔ اس کے بعد آپ دوبارہ واپس آ رہے ہیں اپنے نفس کی طرف اور دنیا کی طرف۔ پہلے ابتدا میں بھی آپ نفس کے ساتھ تھے اور اب واپس بھی نفس کی طرف آئیں گے لیکن اُس ساتھ اور اِس ساتھ میں فرق یہ ہے کہ پہلے آپ نفس کے غلام تھے اب نفس آپ کا غلام ہوگا۔ اس کو آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ وحدت الوجود سے وحد الشہود کی طرف آ رہے ہیں، اب آپ اپنے نفس کو اللہ کی رضا کے لئے استعمال کریں گے اللہ پاک کے قرب کا ذریعہ بنائیں گے جس سے آپ کو عبدیت حاصل ہو گی۔

﴿يَآ أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلیٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً﴾ (الفجر: 27-28) یہاں تک سیر الی اللہ ہے۔

﴿فَادْخُلِي فِي عِبَادِي﴾ (الفجر: 29)

اس میں بتایا گیا کہ اب واپس بندے بن جاؤ۔

﴿وَادْخُلِي جَنَّتِي﴾ (الفجر: 29-30)

اس کے بعد آپ کو اللہ پاک جنت سے نواز دیں گے۔

یہ جو آپ دوبارہ عبدیت کی طرف آ رہے ہیں یہ نفس کے ذریعے سے آنا ہوتا ہے۔ نفس مقام عبدیت پہ آ جاتا ہے اور یہاں یہ سفر ختم ہو جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ نفس سے یہ سفر شروع ہوا تھا اور واپس نفس پہ آ کر ہی ختم ہوا، یہ دائرہ نفس کے مقام سے شروع ہوا تھا اور گھوم کر وہیں پر تمام ہوا۔ بعض مشائخ نے اس کی تشریح دوسرے انداز میں کی ہے وہ اس سفر کو مبتدی، منتہی اور متوسط کے درجات میں تقسیم کرتے ہیں۔ مبتدی تو وہ ہے جو ابتدائی نقطہ پر ہے۔ متوسط وہ ہے جو نہایت پر ہے یعنی فانی ہو چکا ہے۔ ایسے لوگوں کے تمام کام ایسے ہوتے ہیں جو عام لوگوں کو بڑے پسند ہوتے ہیں۔ لیکن ابھی اس کا سفر پورا نہیں ہوا یہ واپس اپنے آپ میں نہیں آیا، اسے دوبارہ اپنے آپ میں آنا پڑے گا۔ منتہی وہ ہے جو عروج کی حالت سے ہوکر واپس نزول کی حالت میں آ چکا ہو۔

بظاہر مبتدی اور منتہی ایک جیسے نظر آتے ہیں لیکن ان میں بہت زیادہ فرق ہے۔ مثلاً تکلیف آنے پر مبتدی روتا ہے اپنے نفس کی وجہ سے اور منتہی روتا ہے اللہ کے لئے، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میری عاجزی ظاہر ہو کیونکہ عاجزی اللہ کو پسند ہے۔ جبکہ متوسط مصائب کے وقت ہنستا ہے، اس کو کوئی پروا نہیں ہوتی۔ لوگ اسی کو کامل سمجھتے ہیں کہ دیکھو یہ ایسی حالت میں بھی ہنس رہا ہے۔ مثلاً اس پہ کوئی سخت تکلیف آ جائے تو وہ کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ“۔ لوگ تو اس کو بہادر کہیں گے حالانکہ سنت طریقہ تو یہ ہے کہ ایسے وقت میں ”اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن“ پڑھا جائے۔ اصل مقام یہی ہے کہ انسان ہر چیز میں سنت طریقہ پہ آ جائے اور اپنے نفس کو بالکل چھوڑ دے اس کا سب کچھ اللہ کے لئے ہو جائے۔

کاملین کا عروج بہت اوپر ہوتا ہے اور ان کا نزول کا سفر بھی اتنا لمبا ہو جاتا ہے، کیونکہ جتنا اوپر جائیں گے اتنی اونچائی سے نیچے آنا پڑے گا۔ سب سے کامل نزول یہ ہے کہ انسان سنت طریقہ پہ آ جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کا نزول سب سے زیادہ ہے، حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کا نزول اتنا زیادہ تھا کہ آپ کا شیطان بھی مسلمان ہو گیا۔

آپ سیڑھیوں کی باتیں چھوڑیں اور دائرے والی بات سمجھیں تو زیادہ بہتر ہے اس میں آسانی ہے۔ یہ جو ہم آپ ﷺ کی مسنون دعائیں کر رہے ہیں اس میں نزول کی کیفیت کو آپ نوٹ کر رہے ہوں گے اگر اس کے ترجمہ پہ غور کر لیں تو آپ حیران ہوں گے کہ نبی ﷺ کس کس طریقہ سے مانگ رہے ہیں۔ ہمارے تصور میں بھی نہیں ہوتا کہ یہ چیزیں مانگنی چاہئیں تھیں اور نبی ﷺ کی دعائیں پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی مانگا ہوا ہے۔ آپ نبی کریم ﷺ کی دعاؤں کو دیکھیں:

”اَللّٰھُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِيْنِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، اَللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي، اَللّٰھُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ، وَمِنْ خَلْفِي، وَعَنْ يَّمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي، وَمِنْ فَوْقِي، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي۔ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغيثُ أَصْلِِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهٗ وَلَا تَكِلْنِي إِلٰى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ۔ اَسْئَلُكَ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَ بِکُلِّ حَقٍِ وَّ لَکَ بِحَقِّ السَّائِلِیْنَ عَلَیْكَ اَنْ تُقِیْلَنِی وَ تُجِیْرَنِیْ مِنَ النَّارِ بِقُدْرَتِكَ“۔

تھوڑا سا غور کر لیں کہ عرفات کے موقع پر آپ ﷺ نے نماز پڑھنے کے بعد زوال کے وقت سے دعائیں شروع کیں اور مغرب تک دعائیں مانگتے رہے۔ آج کوئی مانگ کے دکھائے۔ یہ نزول کی کیفیت ہے۔

”اَسْئَلُكَ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَ بِکُلِّ حَقٍِ وَّ لَکَ بِحَقِّ السَّائِلِیْن عَلَیْكَ اَنْ تُقِیْلَنِی وَ تُجِیْرَنِیْ مِنَ النَّارِ بِقُدْرَتِكَ۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ اَوَّلَ ھٰذَا النَّھَارِ صَلَاحًا وَّ اَوْسَطَہٗ فَلَاحًا وَّ آخِرَہٗ نِجَاحًا، اَسْأَلُکَ خَیْرَ الدُّنْیَا وَاْلآخِرَۃِ یَآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَ اخْسَاْ شَیْطَانِیْ وَ فُکَّ رِھَانِیْ وَ ثَقِّلْ مِیْزَانِیْ وَ اجْعَلْنِیْ فِی النَّدِیِّ الْاَعْلٰی۔ اَللّٰھُمَّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ۔ اَللّٰھُمَّ ربَّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ وَ مَا اَظَلَّتْ وَ رَبَّ الْاَرْضِیْنِ وَ مَا اَقَلَّتْ، وَ رَبَّ الشَّیَاطِیْنِ وَ مَا اَظَلَّتْ کُنْ لِّیْ جَارًا مِّنْ شَرِّ خَلْقِكَ اَجْمَعِیْنَ اَنْ یَّفْرُطَ عَلَیَّ اَحَدٌ مِّنْھُمْ اَوْ یَطْغٰی عَزَّ جَارُكَ وَ تَبَارَكَ اسْمُكَ۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ لَاشَرِیْکَ لَکَ سُبْحٰنَکَ۔ اَللّٰھُمَّ أَسْتَغْفِرُكَ لِذَنْبِي، وَأسْألُكَ رَحْمَتَكَ۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ وَوَسِّعْ لِیْ فِیْ دَارِیْ وَ بَارِكْ لِیْ فِیْ رِزْقِی اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْن۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَعَافِنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ۔ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ فِىْ قَلْبِىْ نُوْرًا وَّفِىْ بَصَرِىْ نُوْرًا وَّفِىْ سَمْعِىْ نُوْرًا وَّعَنْ يَّمِيْنِىْ نُوْرًا وَّعَنْ يَّسَارِيْ نُوْرًا وَّفَوْقِىْ نُوْرًا وَّتَحْتِىْ نُوْرًا وَّ اَمَامِىْ نُوْرًا وَّخَلْفِىْ نُوْرًا وَّ اجْعَلْ لِّیۡ نُوْرًا وَّ فِىْ لِسَانِىْ نُوْرًا وَّ عَصَبِىْ نُوْرًا وَّ لَحْمِىْ نُوْرًا وَّ دَمِىْ نُوْرًا وَّ شَعْرِىْ نُوْرًا وَّ بَشَرِىْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ فِىْ نَفَسِىْ نُوْرًا وَّ اَعْظِمْ لِىْ نُوْرًا اَللّٰهُمَّ اَعْطِنِىْ نُوْرًا“۔

یہ بخاری مسلم شریف کی دعا ہے ذرا اس کا ترجمہ سن لیں آپ کو پتا چل جائے گا کہ آپ ﷺ نے کیسی کیسی دعائیں مانگی ہیں۔

”یا اللہ نور کر دے میرے دل میں اور نور کر دے میری بینائی میں اور نور کر دے میری شنوائی میں اور نور کر دے میری داہنی طرف اور نور کر دے میرے بائیں طرف اور نور کر دے میرے پیچھے اور نور کر دے میرے سامنے اور میرے لئے خاص نور کر دے اور نور کر دے میرے پٹھوں میں اور نور کر دے میرے گوشت میں اور نور کر دے میرے خون میں اور نور کر دے میرے بالوں میں اور نور کر دے میری جلد میں اور نور کر دے میری زبان میں اور نور کر دے میری جان میں مجھے نور عظیم دے اور میرے اوپر نور کر دے میرے نیچے نور کر دے یا اللہ مجھے نور عطا کر“

”اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لَنَا أبْوابَ رَحْمَتِكَ وسَهِّلْ لَنَا أبْوابَ رِزِقْكَ، اَللّٰھُمَّ اعْصِمْني مِنَ الشَّيطَانِ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُكَ مِنْ فَضْلِك۔ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيْ خَطَاَيَايَ وَ ذُنُوْبِيْ كُلَّهَا۔ اَللّٰهُمَّ انْعَشْنِيْ، وَأَحْيِنِيْ، وَارْزُقْنِيْ، وَاهْدِنِيْ لِصَالِحِ الْأَعْمَالِ وَالْأَخْلَاقِ، إِنَّهٗ لَايَهْدِيْ لِصَالحِهَا وَلَايَصْرِ فُ سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَّرِزْقًا طَیِّبًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلًا۔ اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ، نَاصِیَتِيْ بِیَدِکَ، مَاضٍ فِيَّ حُکْمُکَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُکَ، أَسْئَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ھُوَ لَکَ، سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ، أَوْ عَلَّمْتَہٗٗ أَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ، أَوْ أَنْزَلْتَہٗ فِيْ کِتَابِکَ، أَوْ اِسْتَأْثَرْتَ بِہٖ فِيْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیْعَ قَلْبِيْ، وَنُوْرَ صَدْرِيْ، وَجِلَآئَ حُزْنِيْ، وَذَھَابَ ھَمِّيْ۔ اَللّٰهُمَّ اِلٰهَ جَبْرَائِیْلَ وَ مِیْكَائِیْلَ وَ اِسْرَافِیْلَ وَ اِلٰہَ اِبْرَاھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحَاقَ عَافِنِی وَلَا تُسَلِّطَنَّ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِكَ عَلَيَّ بِشَيْءٍ لَّا طَاقَةَ لِي بِهٖ۔ اَللّٰهُمَّ اكْفِنِىْ بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَ اَغْنِنِىْ بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَسْمَعُ کَلَامِیْ وَتَرٰی مَکَانِیْ وَتَعْلَمُ سِرِّیْ وَعَلَانِیَتِیْ وَلَا یَخْفٰی عَلَیْکَ شَیْءٌ مِّنْ اَمْرِیْ وَاَنَا الْبَآءِسُ الْفَقِیْرُ وَالْمُسْتَغِیْثُ الْمُسْتَجِیْرُ وَالْوَجِلُ الْمُشْفِقُ الْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفُ بِذَنْبِہٖ اِلَیْکَ اَسْأَلُکَ مَسْأَلَۃَ الْمِسْکِیْنِ وَاَبْتَھِلُ اِلَیْکَ اِبْتِھَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِیْلِ وَاَدْعُوْکَ دُعَآءَ الْخَائِفِ الضَّرِیْر وَدُعَآءَ مَنْ خَضَعَتْ لَکَ رَقَبَتُہٗ وَفَاضَتْ لَکَ عَبْرَتُہٗ وَ ذَلَّ لَکَ جِسْمُہٗ وَرَغِمَ لَکَ اَنْفُہٗ، رَبِّ لَا تَجْعَلْنِیْ بِدُعَآءِکَ شَقِیًّا وَّکُنْ بِیْ رَءُوْفًا رَّحِیْمًا یَاخَیْرَ الْمَسْءُوْلِیْنَ یَاخَیْرَ الْمُعْطِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ اِلَیْكَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوّتِي، وَقِلّةَ حِيلَتِي، وَهَوَانِي عَلَى النّاسِ، يَا أَرْحَمَ الرّاحِمِينَ أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِينَ وَأَنْتَ رَبّي، إلٰی مَنْ تَكِلُنِي؟ إلٰی بَعِيدٍ يَتَجَهّمُنِي؟ أَمْ إلٰی عَدُوٍّ مَلَّكْتَهٗ أَمْرِي؟ إنْ لَّمْ يَكُنْ بِكَ عَلَيّ غَضَبٌ فَلَا أُبَالِي، وَلٰكِنّ عَافِيَتَك هِيَ أَوْسَعُ لِي، أَعُوذُ بِنُورِ وَجْهِكَ الَّذِي أَشْرَقَتْ لَهُ الظُّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَيْهِ أَمْرُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ مِنْ أَنْ تُنْزِلَ بِي غَضَبَك، أَوْ يَحِلَّ عَلَيَّ سُخْطُكَ، لَكَ الْعُتْبٰى حَتّٰى تَرْضٰى، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوّةَ إِلَّا بِكَ“۔

ان دعاؤں میں معرفت بھی بہت زیادہ ہے اور عبدیت بھی بہت زیادہ ہے، دونوں چیزیں اس میں انتہا درجے کی مل رہی ہیں۔ ذرا ترجمہ دیکھیں:

”یا اللہ تو میری بات کو سنتا ہے میری جگہ کو دیکھتا ہے میرے پوشیدہ اور ظاہر کو جانتا ہے تجھ سے میری کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی میں مصیبت زدہ ہوں محتاج ہوں فریادی ہوں پناہ جو ہوں ترساں ہوں لرزاں ہوں اپنے گناہوں کا اقرار کرنے والا ہوں اعتراف کرنے والا ہوں تیرے آگے سوال کرتا ہوں جیسے بے کس سوال کرتا ہے تیرے آگے گڑگڑاتا ہوں جیسے گناہگار ذلیل خوار گڑگڑاتا ہے اور تجھ سے طلب کرتا ہوں جیسے خوفزدہ آفت رسیدہ طلب کرتا ہے اور جیسے وہ طلب کرتا ہے جس کی گردن تیرے سامنے جھکی ہوئی ہو اور اس کے آنسو بہہ رہے ہوں اور تن بدن سے وہ تیرے آگے فروتنی کئے ہوئے ہو اپنی ناک تیرے سامنے رگڑ رہا ہو یا اللہ تو مجھے اپنے سے دعا مانگنے میں ناکام نہ رکھ اور میرے حق میں بڑا مہربان نہایت رحیم ہو جا اے سب دینے والوں سے بہتر۔ یا اللہ میں تجھ ہی سے شکوہ کرتا ہوں اپنے ضعف قوت کا اور اپنی کم سامانی کا اور لوگوں کی نظر میں اپنی کم قیمتی اور بے وقعتی کا اے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے تو مجھے کس کے سپرد کرتا ہے کسی دشمن کے جو مجھے دبائے یا کسی دوست کے قبضہ میں جو میرے ساتھ کام دے رہا ہے اگر تو مجھ سے ناخوش نہ ہو تو مجھے ان میں سے کسی چیز کی پرواہ نہیں پھر بھی تیرا دیا ہوا امن ہی میرے لئے زیادہ گنجائش رکھتا ہے“۔

دیکھیں ایک ایک چیز مانگ رہے ہیں اور کس کس طریقے سے مانگ رہے ہیں۔

”اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُكَ قُلُوْبًا اَوَّاھًا مُّخْبِتَۃً مُّنِیْبَۃً فِیْ سَبِیْلِكَ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ اِیْمَاناً یُّبَاشِرُ قَلْبِیْ وَ یَقِیْناً صَادِقاً حَتّیٰ اَعْلَمَ اَنَّہٗ لَا اُصِیْبَنِیْ اِلَّا مَا کَتَبْتَ لِیْ وَرِضیً مِّنَ المَعِیْشَۃِ بِمَا قَسَّمْتَ لِیْ۔ اَللّٰھُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كَالَّذِي تَقُولُ وَخَيْرًا مِمَّا نَقُولُ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِك مِنْ مُنْكَراتِ الْاَخْلَاقِ وَالْاَعْمَالِ وَالْاَھْوَاءِ وَالْاَدْوَاء۔ نَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَكَ مِنْہُ نَبِیُّكَ مُحَْمَّدٌ ﷺ و مِنْ جَارِ السُّوءِ فِي دَارِ الْمُقَامَةِ فَإِنَّ جَارَ الْبَادِيَةِ يَتَحَوَّلُ وَ غَلَبَةِ الْعَدُوِّ وَ شَمَاتَةِ الْاَعْدَاءِ وَ مِنَ الْجُوْعِ فاِنَّہٗ بِئْسَ الضَّجِیْعُ وَ مِنَ الْخِیَانَةِ فَبِئسَتِ البِطَانۃُ وَ اَنْ نَّرْجِعَ عَلٰی اَعْقَابِنَا اَوْ اَنْ نُّفْتَنَ عَنْ دِیْنِنَا وَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ مِنْ لَّیْلَۃِ السُّوْءِ وَ مِنْ سَاعَۃِ السُّوْءِ وَ مِنْ صَاحِبِ السُّوْءِ“۔

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُكَ مِنْ خَیْرِ مَاسَئَلَكَ مِنْہُ نَبِیُّكَ وَ عَبْدُكَ وَ حَبِیْبُکَ مُحَمَّدٌ ﷺ وَ نَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَكَ مِنْہُ نَبِیُّکَ وَ حَبِیْبُکَ مُحَمَّدٌ ﷺ وَ اَنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیّ الْعَظِیْم سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔

سوال نمبر18:

غیبت کے بارے میں بتا دیجیے کہ اس کی معافی اور تلافی کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے؟

جواب:

اگر آپ نے کسی کی غیبت کی ہو تو سب سے پہلے اللہ کے حضور توبہ کر لیں۔ اس کے بعد جس کی غیبت کی ہو اگر وہ زندہ ہے اور آپ ان تک کسی بھی طرح اپنی بات پہنچا سکتے ہوں تو ان تک یہ بات پہنچا دیں کہ میرا کہا سنا معاف کر دیجیے گا، خواہ مل کر کہہ دیں، خواہ فون کر لیں یا میسج کر دیں کسی بھی ممکنہ طریقے سے ان سے معافی مانگ لیں۔ اور اگر وہ وفات پا چکے ہوں تو ان کے لیے ایصال ثواب کر لیں۔

سوال نمبر19:

السلام علیکم۔ حضرت جی کیا قلبی ذکر اور مراقبات سے جذب کا حاصل ہو جانا یقینی ہے؟ اگر یقینی نہیں تو ایسی قابل ذکر چیزیں کونسی ہیں جن کا اہتمام کرنے سے جذب حاصل ہو جائے۔ نیز یہ بتا دیجیے کہ اس کی کیا نشانی ہے کہ جذب جس مقصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا اس کے لئے استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے؟

جواب:

آج کل جو ہماری ترتیب چل رہی ہے اس میں اس قسم کے سوالات کا ہونا فطری ہے لیکن کیا ایسے سوالات ہونے چاہئیں یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں ہونے چاہئیں۔

جذب کا حاصل ہونا یقینی ہے یا نہیں اور کیسے معلوم ہوگا کہ جذب سلوک کے لئے استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے یا نہیں؟ اس کے لئے کوئی متعینہ اصول نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ شیخ کے شرح صدر کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس کے اصول اتنے زیادہ ہیں کہ وہ کتابوں میں نہیں سما سکتے جیسے ڈاکٹری کی بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کتابوں میں نہیں آ سکتیں۔ کتابوں سے آپ بنیادی چیزیں حاصل کر لیں گے لیکن بہت ساری چیزوں کے لئے آپ کو فوری طور پہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ انجینئرنگ میں بھی ایسی بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں جو کتابوں میں نہیں آ سکتیں، وہ تجربہ سے متعلق ہوتی ہیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ اگر شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا تو پھر یہ کام شیخ کا ہے مرید کا نہیں کہ وہ معلوم کر لے کہ میرا جذب مکمل ہو گیا ہے یا نہیں ہوا۔ کیونکہ اگر مرید اس میں لگ گیا تو اس کو کبھی جذب نہیں ہو گا کیونکہ جذب تو فنا کا نام ہے، جب تک وہ اس کے پیچھے لگا ہوا ہے تب تک فنا حاصل نہیں ہو سکتا، لہٰذا تب تک جذب بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا یہ معاملہ شیخ پر چھوڑنا چاہیے۔ شیخ جو بتائے اس پہ عمل کرتا رہے۔ جتنا اپنے شیخ پر آپ کا اعتقاد ہو گا اور اس کے ساتھ محبت ہو گی، جذب اتنی جلدی حاصل ہوگا۔ جیسا کہ شطاریہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ شطاریہ لوگ ساری منزلیں بہت جلدی طے کرتے ہیں کیونکہ وہ شیخ کے عاشق ہوتے ہیں اس لئے اس کی ہر بات مانتے ہیں، شیخ سلوک طے کرانے کے لئے جو مجاہدے اور ریاضتیں ان کے ذمے لگائے وہ خوشی سے کرتے ہیں، اس لئے ان کا سفر بہت جلدی طے ہو جاتا ہے۔

ہم نے علمی طور پر تو یہ بتا دیا ہے کہ جذب ضروری ہے اور اس کے بعد سلوک طے کرنا ضروری ہے۔ لیکن صرف اتنا جان لینے سے جذب حاصل نہیں ہوگا اور سلوک طے نہیں ہو گا، عملی طور پر ان چیزوں کے لئے آپ کو شیخ کے پیچھے ہی چلنا پڑے گا۔ ہم نے یہ چند اصولی بحثیں اس لئے سمجھانے کی کوشش کی ہے تاکہ لوگ گمراہ نہ ہو جائیں۔ باقی اس سفر کے ہر ہر پڑاؤ کی نشانیاں تب معلوم ہوں گی جب خود شیخ بن جائے گا تب اللہ پاک سکھا دے گا اور آپ کو خود پتا چل جائے گا، پھر یہ ساری باتیں خود بخود ہو جائیں گی لیکن فی الحال اپنا سارا معاملہ اپنے شیخ پر منحصر رکھیں۔ ان شاء اللہ العزیز اسی سے آپ کو جلدی فائدہ ہو گا ورنہ آپ تعجیل کے شکار ہو جائیں گے اور تعجیل بہت بڑے موانع میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان موانع سے بچائے۔ 

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن