اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی آپ سے بارہا سنا کہ ہم سب کی کامیابی کا دار و مدار اعمال پر نہیں بلکہ مغفرت پر ہے لہٰذا دنیا میں ہماری سب سے بڑی حاجت اللہ تعالیٰ سے مغفرت کروانا ہے کیونکہ مرنے کے بعد مغفرت نہیں مانگی جا سکتی۔ اس سلسلے میں آپ سے ایک حدیث مبارکہ سنی جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی حاجت روائی کے لئے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ مقرر کرتا ہے جو اس کے لئے وہی دعا کرتا ہے۔
ایک مسنون دعا ہے:
”اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِلْمُوْمِنِیْنَ وَالْمُوْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ“۔
ترجمہ: ”اے اللہ! تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بخش دے“۔
اس دعا کو اس نیت اور یقین سے پڑھنا کیسا ہے کہ میں یہ دعا پڑھوں گی تو اللہ تعالیٰ فرشتے مقرر فرمائیں گے جو میری مغفرت کی دعا کریں گے؟ چند سالوں سے بڑے اہتمام سے یہ دعا میرے معمول میں ہے۔
جواب:
جی ہاں اس نیت سے یہ دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ اچھا معمول ہے، اسے جاری رکھیں۔
سوال نمبر2:
الحمد للہ درج ذیل ذکر بلا ناغہ کرتے ہوئے ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے:
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 100 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 100 مرتبہ، ”حَقْ“ 100 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 100 مرتبہ۔
آئندہ کے لئے سبق بتا دیجیے۔
جواب:
اب اگلے ایک ماہ کے لئے اس ذکر کو درج ذیل ترتیب سے کریں:
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 200 مرتبہ، ”حَقْ“ 200 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 100 مرتبہ۔
ابتداءً ہم سالک کو صرف ذکر جہری کا عادی بناتے ہیں اس کے ساتھ کوئی تصور کرنے کے لئے نہیں کہتے کیونکہ ابتداء میں ذرا سا تصور بھی کسی اور چیز کا آ جائے تو توجہ کم ہو جاتی ہے۔ جب سالک ذکر کی طرف متوجہ ہونا سیکھ لیتا ہے تب ہم اسے ذکر کے ساتھ ساتھ تصور بھی بتاتے ہیں۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تصور کرے کہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ کے ساتھ دنیا کی محبت میرے دل سے نکل رہی ہے اور ”اِلَّا اللّٰہ“ کے ساتھ اللہ کی محبت دل میں آ رہی ہے۔ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“ کے ذکر میں یہ تصور کرے کہ میرا محبوب اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ ”حَقْ“ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تصور کرے کہ اللہ حق ہے اور اس کی ہر بات حق ہے۔ ”حَقْ“ کا ذکر کرنے سے پہلے ہم یہ آیت بھی پڑھ لیتے ہیں:
﴿وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا﴾ (الإسراء: 81)
ترجمہ: ”حق آن پہنچا، اور باطل مٹ گیا، اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے“۔
اور یہ تصور کرے کہ باطل چیزیں ہمارے دلوں سے نکل رہی ہیں اور حق آ رہا ہے۔ ”اَللہ“ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تصور کرے کہ اللہ جل شانہ محبت کے ساتھ مجھے دیکھ رہے ہیں۔
یہ ذکر ایک ماہ تک کرنا ہے جبکہ تسبیحات والا ذکر عمر بھر کے لئے ہے۔
سوال نمبر3:
حضرت جی میں نے ایک صاحب کو نماز کی دعوت دی تو وہ کہنے لگے کہ کوئی مجھے یہ بتا دے کہ نماز پڑھنے کا مقصد کیا ہے اور نماز پڑھنا ضروری کیوں ہے؟ اور اذان میں ”اَللّٰہُ اَکْبَرُ“ چار بار کیوں کہا جاتا ہے؟ اگر کوئی میرے ان سوالوں کا جواب دے دے تو میں نماز پڑھنا شروع کر دوں گا۔ مجھے اس کی یہ بات بڑی عجیب لگی کیونکہ پہلی دفعہ کسی نے ایسے سوال کئے تھے۔ یہ سوال کل شام سے بار بار میرے دماغ میں گھوم رہے ہیں اس لئے آپ کو لکھ دیئے ہیں۔ اس آدمی کو میں نے کہا کہ تم مجلس میں آیا کرو تو بہتری ہو سکتی ہے، وٹس ایپ کے ذریعے یہ باتیں نہیں ہو سکتیں۔ انہوں نے کہا: ان شاء اللہ پوری کوشش کروں گا۔
جواب:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا تھا کہ مغرب کی نماز میں تین رکعتیں کیوں ہیں اور باقی نمازوں میں جفت رکعتیں کیوں ہیں؟ ویسے تو اس سوال کے کئی علمی جوابات بھی ہیں لیکن چونکہ اس کا دماغ خراب تھا اس لئے اس کو حضرت نے دوسرا جواب دیا۔ فرمایا: تمھاری ناک آگے کو لگی ہے پیچھے کو کیوں نہیں لگی؟ اس نے کہا کہ اللہ پاک نے بنایا ہی ایسے ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ تمہارے سوال کا بھی یہی جواب ہے کہ اللہ پاک نے ایسے ہی حکم دیا ہے کہ ایک نماز کی رکعتیں طاق پڑھو باقی کی جفت پڑھو۔
ایسے سوال کرنے والے لوگوں کو ایسا ہی جواب ملتا ہے۔ بے چاروں کو اللہ پاک ہدایت دے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ زیادہ بات چیت کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ یہ بالکل کنارے پہ کھڑے ہوتے ہیں، بہت جلدی کفریہ باتیں کرنے لگتے ہیں۔ یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے جو انہوں نے کی ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ الجھنا نہیں چاہیے۔ ان کو صحیح راستے پہ لانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ کسی طرح ان کو صالحین کی مجالس میں لایا جائے اور اچھے ماحول میں لایا جائے تاکہ ان کا دل نرم ہو جائے اور سننے کے قابل ہو جائے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ بحث مت کیا کریں اس سے اپنے ایمان کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اللہ پاک حفاظت فرمائے۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم!
As per your advice, I am doing forty days ذکر. I have done almost thirty plus. Yesterday was .جمعہ I usually go to a mosque which offers جمعہ late, but yesterday as I went they had changed time and جمعہ was already done. There was no جمعہ in any other mosque as I searched around, so I had to offer ظہر prayer. Is this allowed or I have to restart my counting again? Please advise. I didn’t have any قضا نماز and ذکر days جزاک اللہ.
جواب:
دوبارہ نئے سرے سے ذکر شروع کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جہاں سے آپ کا سلسلہ منقطع ہوا وہیں سے دوبارہ شروع کر لیں۔
جمعہ تاخیر سے پڑھنا مناسب نہیں ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ جتنا جلدی ممکن ہو جمعہ پڑھ لیا کریں، ویسے بھی جمعہ ہر موسم میں اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے۔ لہٰذا اگر آپ اول وقت میں ہی جمعہ پڑھنے کی ترتیب بنا لیں تو مستحب پر بھی عمل ہو جائے گا اور جمعہ چھوٹنے کا خطرہ بھی نہیں رہے گا۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم۔ حضرت جی جب سے سنتوں پر عمل کرنا شروع کیا ہے تب سے رسول اللہ ﷺ کی محبت دل میں بڑھ رہی ہے اور سنتوں پر عمل کرنا آسان ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور عظمت بہت بڑھ گئی ہے اور مخلوقِ خدا کی عزت بہت بڑھ گئی ہے۔ لوگوں کے حقوق پورے کرنا آسان ہو گیا ہے۔ امی کے دل میں بھی اب دنیا کی محبت بہت کم ہو گئی ہے۔ جب دنیا دار لوگوں کو دیکھتی ہیں تو کہتی ہیں کہ یہ مجھے دیوانے لگتے ہیں۔
جواب:
ما شاء اللہ بڑے اچھے حالات ہیں۔ اللہ جل شانہ ذکر کی مزید برکات نصیب فرما دے۔
سوال نمبر6:
حضرت جی میں نے ڈراموں سے توبہ کی ہے۔ از راہِ کرم میرے لئے استقامت کی دعا کیجئے گا کیونکہ پہلے بھی بہت دفعہ ڈرامے دیکھنا چھوڑے مگر پھر شروع کر دیئے۔ اس بار اللہ استقامت نصیب فرمائے۔
جواب:
اگر غلطی ہو جائے اور اس غلطی سے انسان سبق سیکھ لے تو وہ تجربہ بن جاتا ہے، اس تجربہ سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔ آپ ذرا اس پر غور کر لیں کہ توبہ کرنے کے با وجود دوبارہ ڈرامے دیکھنا کیوں شروع کرتی ہیں۔ کوئی وجہ تو لازمی ہو گی۔ آپ کے خیال میں اس کی جو جو وجوہات ہیں وہ مجھے لکھ کر بھیجیں۔
سوال نمبر7:
Question for Question Answer Session on Monday for حضرت .اقدس
When we do علاجی ذکر should we ponder on the meaning of the words or just recite it and allow the words to exert their effects?
جواب:
علاجی ذکر کے بارے میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ابتداءً ہم سالک کو صرف ذکر جہری کا عادی بناتے ہیں اس کے ساتھ کوئی تصور کرنے کے لئے نہیں کہتے کیونکہ ابتداء میں ذرا سا تصور کسی اور چیز کا آ جائے تو توجہ کم ہو جاتی ہے۔ جب سالک ذکر کی طرف متوجہ ہونا سیکھ لیتا ہے تو اس کے بعد ذکر کے ساتھ ساتھ تصور بھی بتاتے ہیں۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تصور کرے کہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ کے ساتھ دنیا کی محبت میرے دل سے نکل رہی ہے اور ”اِلَّا اللّٰہ“ کے ساتھ اللہ کی محبت دل میں آ رہی ہے۔ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“ کے ذکر میں یہ تصور کرے کہ میرا محبوب اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ ”حَقْ“ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تصور کرے کہ اللہ حق ہے اور اس کی ہر بات حق ہے۔ ”حَقْ“ کا ذکر کرنے سے پہلے ہم یہ آیت بھی پڑھ لیتے ہیں:
﴿وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا﴾ (الإسراء: 81)
ترجمہ: ”حق آن پہنچا، اور باطل مٹ گیا، اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے“۔
اور یہ تصور کرے کہ باطل چیزیں ہمارے دلوں سے نکل رہی ہیں اور حق آ رہا ہے۔ ”اَللہ“ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تصور کرے کہ اللہ جل شانہ محبت کے ساتھ مجھے دیکھ رہے ہیں۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم!
I’ve sent a mail to you. السلام علیکم I’m فلاں.
Inتکبیر تحریمہ which is correct after making the intention for Salah, while saying اللہ اکبر raise both the hands up to the shoulders (بہشتی زیور) or in the standing position a woman should raise her hands close to her shoulders and then lowering them recite اللہ اکبر and place her hands on her chest? (ابراہیم ڈیسائی)
جواب:
آپ بہشتی زیور والی بات مان لیں۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم۔ حضرت جی آپ کا ایک ملفوظ ہے:
”بعض اوقات ہم اس بات کا اندازہ اچھی طرح نہیں لگا سکتے کہ کون چاہتا ہے کہ اس سے پوچھا جائے اور کون چاہتا ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ کون اپنی خوشی کا کھل کر اظہار کرنا پسند کرتا ہے اور کون نہیں پسند کرتا جب تک کہ ہم لوگوں کی نفسیات کا بغور جائزہ لینے کی کوشش نہ کریں، حتیٰ کہ بعض اوقات ہم سگے بہن بھائیوں کے رویوں کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے“۔ اس بارے میں کچھ وضاحت فرما دیں۔
جواب:
میں نے ایک بیان میں اس موضوع پر بات کی تھی، لیکن سائلہ کچھ زیادہ تفصیل میں چلی گئی ہیں۔ میری بات کا مقصد صرف یہ تھا کہ لوگوں کی رعایت کرنی چاہیے۔ خوشی غمی کا خیال رکھنا چاہیے۔ موقع کی رعایت کرنی چاہیے، محل کا خیال رکھنا چاہیے، کس سے بات کی جا رہی ہے اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اگر کسی کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کا مزاج کیسا ہے تو اس سے گفتگو اور معاملہ اسی کے مطابق کرنا چاہیے اور اگر مزاج کے بارے میں معلوم نہ ہو تو وہ رویہ اختیار کیا جائے جو زیادہ محتاط ہو۔ محتاط رویہ سے مراد یہ ہے کہ کسی کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے کیونکہ اکثر لوگ ذاتی معاملات میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔ مثلاً آپ کسی سے پوچھیں کہ کہاں جا رہے ہو؟ ہو سکتا ہے وہ اس پر برا نہ مانے اور بتا دے لیکن اس بات کا امکان بھی ہے کہ آپ کا مخاطب ایسے سوال پہ برا مانتا ہو۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ایسی بات پوچھی ہی نہ جائے۔ وہ کام کرنا چاہیے جس میں نقصان کا خدشہ ہی نہ ہو۔
ایک مرتبہ میں نے ڈاکٹر وجاہت اللہ بنگش صاحب E.N.T Specialist سے پوچھا کہ مجھے اپنی بیماری کے سلسلے میں کیا پرہیز کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا: آپ intelligent پرہیز کریں، intelligent پرہیز یہ ہے کہ ہر اس چیز سے پرہیز کریں جو آپ کے خیال میں نقصان دہ ہو۔
میں بھی یہی عرض کرتا ہوں کہ لوگوں سے intelligent رویہ رکھیں یعنی ہر اس چیز سے بچیں جس سے نقصان کا اندیشہ ہو۔ اس سے زیادہ تفصیلات میں نہ جائیں ورنہ پاگل پن کا خدشہ ہے۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کی صحت اور زندگی میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔ حضرت جی جماعت کی نماز کا چلہ چل رہا ہے ایک آدھ جماعت رہ گئی تھی جو بعد میں دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر پڑھ لی۔ کیا یہ جماعت کی نماز میں شمار ہو گی؟
جواب:
ان شاء اللہ یہ نماز با جماعت شمار ہو گی۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ شاہ صاحب الحمد للہ، اللہ کے فضل سے اور آپ کی دعاؤں سے آج درج ذیل ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ پورا ہو گیا ہے: ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ 200 مرتبہ، ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ، ”اَللّٰہ“ 500 مرتبہ۔
جواب:
اب اگلے ایک ماہ کے لئے باقی ذکر اِسی طرح کرتے رہیں صرف ”اَللّٰہ“ کی تعداد بڑھا کر 1000 مرتبہ کر لیں۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم! حضرت اگر میں فرض نماز کے بعد پہلے ”سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبرُ“، درود پاک، استغفار، آیت الکرسی اور کلمہ طیبہ والا وظیفہ کر لیا کروں اور سنتیں بعد میں پڑھ لیا کروں تو کیسا ہے؟
جواب:
نماز کے بعد والے اذکار سنتوں سے پہلے بھی پڑھ سکتے ہیں اور بعد میں بھی پڑھ سکتے ہیں، دونوں کا اختیار ہے، جیسے چاہیں کر لیں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم۔ حضرت بعض اوقات صورتحال ایسی ہوتی ہے جو نقصان دہ ہوتی ہے مگر اس سے بچا بھی نہیں جا سکتا اور نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا جیسے کوئی مخلوط دعوت ہو یا کوئی ایسی جگہ جہاں موسیقی ہو۔ اسی طرح بعض صحبتیں ایسی ہوتی ہیں جو نقصان دہ ہوتی ہیں مگر ان سے بچنا اور انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا جیسے گھر والے یا رشتہ داروں سے ملنا جلنا۔ ان صورتوں میں ایسے مواقع اور ایسے لوگوں کے شر سے خود کو کیسے بچایا جائے؟
جواب:
ایسے مواقع پر اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے درج ذیل باتوں کا دھیان رکھیں:
ایک تو یہ سمجھیں کہ بعض اوقات لوگ لا پروائی کرتے ہیں۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ صورتحال سنبھالی جا سکتی ہے مگر لوگ محض اپنی سستی اور لا پروائی کے سبب اس صورتحال کو سنبھالنا نا ممکن سمجھتے ہیں۔ بارہا آپ نے دیکھا ہو گا کہ کسی کو متعدی بیماری ہے اور لوگ اس مریض کے ساتھ نہیں ملتے، ڈرتے ہیں کہ ہمیں نقصان نہ ہو جائے لیکن اگر کسی کے اندر متعدی قسم کی برائی ہو تو اس سے ملنے جلنے اور بات کرنے سے بالکل نہیں ڈرتے کہ کہیں ہمیں یہ بیماری نہ لگ جائے کیونکہ اس کے بارے میں فکر نہیں ہوتی۔ لہٰذا اگر اپنے ایمان اور روحانیت کی فکر ہو اور سستی و لا پروائی سے کام نہ لیا جائے تو کافی حد اس قسم کے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی ایسی جگہ پر پھنس جائیں جہاں روحانی نقصان سے بچنا ممکن نہ ہو تو جب تک اس مجلس میں رہیں ”یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم“ کا ورد کرتے رہیں۔ اپنی نظروں کی حتی الامکان حفاظت کریں۔ اگر ممکن ہو تو کانوں میں ائیر پلگ لگا لیں۔
اگر اپنی اصلاح کی سچی فکر ہو، اپنی روحانیت اور ایمان کو بچانے کی حقیقی پروا ہو اور اس کے لئے تھوڑا سا مجاہدہ برداشت کر لیا جائے تو ان شاء اللہ اس قسم کی صحبتوں اور مواقع کے شرور و نقصانات سے حفاظت ہو سکتی ہے۔
ان صاحب کا جواب آیا ہے: لکھتے ہیں:
”آپ کے جواب سے مجھے یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ ایسی تقریبات اور دعوتیں جو مخلوط ہوں ان میں شرکت سے بغیر جذباتی ہوئے انکار کر دیا کروں۔ گھر کے اندر ہر وقت چونکہ ٹی وی چلتا رہتا ہے اور موسیقی کی آواز کانوں میں آتی رہتی ہے اس کے لئے ایئر پلگ استعمال کر لوں اور خود کو حتی الوسع اپنے کمرے تک محدود رکھوں، ضرورت کے وقت ہی باہر آؤں، دعا کی درخواست ہے اللہ اس کو میرے لئے آسان کر دے اور استقامت دے دے۔
جواب:
آمین۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو استقامت عطا فرمائے۔
سوال نمبر14:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ میں ابھی حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آپ کا بیان سن رہا تھا۔ اس سے مجھے تصوف اور صوفیا کے اقوال کو سمجھنے میں کافی مدد ملی۔ ہمارے یہاں مغربی لوگ صوفیا کے اقوال کی بالکل غلط تاویل پیش کرتے ہیں اور صوفیا کے اقوال کے ذریعے دہریت پھیلاتے ہیں۔ بلکہ ان کا کہنا ہے کہ یہ کلام Madonna بھی پڑھتی ہے۔ وہ اس عبارت کو بھی پیش کرتے ہیں:
"I took the moral of the Quran and I left burns to the dogs"
حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کے وہ اقوال جو ہمارے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ان کے حوالہ سے میرے ذہن میں بہت عرصہ سے ادیانِ کفر سے متعلق کچھ شبھات تھے جو الحمد للہ آپ کے بیان کی برکت سے زائل ہوئے ہیں۔
جواب:
الحمد للہ۔
سوال نمبر15:
السلام علیکم حضرت جی مجھے تقریباً چار ماہ سے لطیفۂ خفی پر مراقبہ احدیت تعلیم ہوا ہے، چالیس منٹ کا مراقبہ ہوتا ہے، پانچ، پانچ منٹ تمام لطائف پہ اور پندرہ منٹ لطیفہ خفی پہ۔ پچھلا پورا ہفتہ اس میں ناغہ رہا ہے۔ اب پھر سے آغاز کیا ہے۔
جواب:
بعض حضرات انفعالی طبیعت کے ہوتے ہیں اور مراقبات لے لیتے ہیں، ایسے حضرات کو بعد میں اس قسم کے مسائل پیش آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے مراقبات و معمولات میں ہم کچھ کمی کر دیتے ہیں کیونکہ ناغہ کی نسبت تھوڑے معمولات جو پابندی سے کئے جائیں وہ زیادہ مفید ہیں۔ ناغہ بے برکتی کا ذریعہ ہوتا ہے، اس سے دل ٹوٹ جاتا ہے اور مایوسی ہونے لگتی ہے جو زیادہ نقصان دہ ہے۔ آپ مجھ سے ملاقات کر لیں میں آپ کو اس بارے میں سمجھا دوں گا۔
سوال نمبر16:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت مولانا سید شبیر احمد صاحب۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں۔ میرا نام محمد حنیف ہے اور میں U.K سے بول رہا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی کے شیخ دنیائے فانی سے چلے گئے ہوں تو اس سالک کے لئے یہ بات کتنی ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے اللہ والے کے ساتھ بیعت ہو جائے؟ جزاک اللہ۔
یا سیدی! ایک دوسری بھی بات عرض کرنا تھی۔ چند روز پہلے میں نے سید فاروق حسنی صاحب سے یہ بات پوچھی کہ مراقبہ کے دوران میرے لطائف بہت زیادہ حرکت میں آ جاتے ہیں اور اس حرکت کی وجہ سے مجھے بہت زیادہ جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مراقبہ کے دوران بہت سستی ہو جاتی ہے۔ سید فاروق صاحب نے مجھے ایک عمل دیا کہ درود شریف اول آخر، سورۃ فاتحہ اور سورۃ الاخلاص تین مرتبہ پڑھ کر مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو ایصال ثواب کر دیا کریں اور اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا مانگا کریں کہ یہ حرکت ختم ہو جائے۔ میں نے یہ عمل کیا اور ایک ہی بار کرنے کے بعد الحمد للہ ساری حرکت بند ہو گئی اور اب مجھے کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہو رہی۔ اگر اس سلسلے میں آپ مزید مجھے کچھ اور بتا سکتے ہیں یا رہنمائی کر سکتے ہیں تو آپ کا بے حد شکریہ ہو گا۔ جزاک اللہ۔
جواب:
اس کے جواب میں میرا ایک سوال ہے کہ ایک آدمی نے کسی ڈاکٹر سے علاج شروع کیا، مثلاً ٹی بی کا علاج شروع کیا ہو اور وہ ڈاکٹر فوت ہو جائے تو اس کے لئے کتنا ضروری ہے کہ دوسرے ڈاکٹر سے علاج شروع کروا لے؟ آپ جو اس سوال کا جواب دیں گے اس میں آپ کے سوال کا جواب بھی مل جائے گا۔
آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض ہے کہ اس سلسلہ میں میرا مسلک بہت واضح ہے کہ بیک وقت کئی ڈاکٹروں سے علاج نہیں کروانا چاہیے، بے شک کسی کو علاج کا پتا بھی ہو لیکن اگر آدمی پہلے سے ہی کسی کے زیر علاج ہو تو دوسرے سے علاج نہیں کروانا چاہیے کیونکہ ہر معالج کا زاویۂ نظر مختلف ہوتا ہے اور بیک وقت دو معالجوں سے علاج کروانے سے مریض کو نقصان ہو سکتا ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ پہلے آپ اچھی طرح تسلی کر لیں کہ آپ کی مناسبت کس کے ساتھ زیادہ ہے۔
آپ پہلے ایک شیخ کے ساتھ تھے، ان سے آپ نے فیض حاصل کیا، ان کی وفات ہو گئی تو اب آپ ان کے لئے ایصال ثواب کرتے رہیں۔ ان کی وفات کے بعد اگر آپ کا کسی شیخ کے بارے میں شرح صدر ہو جائے کہ اب مجھے اس سے بیعت کرنا چاہیے تو اس سے بیعت کر لیں پھر انہیں اپنے سارے احوال بتائیں، وہ آپ کی رہنمائی فرمائیں گے، اور جب آپ اچھی طرح سوچ بچار کے بعد کسی ایک شیخ کو متعین کر لیں تو پھر انہی کو اپنے سب احوال بتائیں اور انہی سے اصلاح کروائیں۔ دو تین شیوخ سے بیک وقت سوالات مت پوچھیں، اس سے نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ کسی ایک کے بارے میں فیصلہ کر لیں جس کے بارے میں بھی آپ کا شرح صدر ہو۔ اس کے بعد ان شاء اللہ بنیاد سے بات چلے گی اور اُن تمام چیزوں کو دیکھا جائے گا جن سے آپ کو فائدہ ہوتا ہے اور جن سے آپ کو نقصان ہوتا ہے۔ اس طرح ایک متوازن طریقۂ کار کے تحت کام شروع ہو جائے گا۔
سوال نمبر17:
حضرت والا محبی و محبوبی السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ دعا گو ہوں۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ خیریت و عافیت سے ہوں گے۔ حضرت والا کی برکت، توجہ اور دعاؤں کا ثمرہ ہے کہ اللہ کا فضل و کرم بہت رہا۔ تعلیم مبارکہ، تصانیف مبارکہ اور مجالس مبارکہ سے میں خود، میرے گھر والے اور دوست احباب بہت فائدہ محسوس کر رہے ہیں اور دوسرے لوگوں کو مطلع بھی فرما رہے ہیں بالخصوص ہفتہ کی مجلس مبارکہ مثنوی شریف کو تین مرتبہ سننے کی سعادت و توفیق ہوئی اور ہر بار پہلے سے زیادہ نفع پایا، بالخصوص حضرت والا نے جو نئی مثالوں سے ان باتوں کو واضح فرمایا تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ پہلے بھی یہ بات سمجھ میں آئی تھی لیکن اب اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھ میں آئی ہے۔ مثلاً حضرت والا نے اپنی جملہ تصانیف مبارکہ اور مجالس مبارکہ میں بارہا نفس، قلب اور عقل کی مجددانہ انداز میں جو تمیز فرمائی ہے، اور اس کی جو نئی مثال حضرت نے قائم فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ دل، نفس اور روح کی کُشتی کا میدان ہے۔ الحمد للہ اس ایک مثال سے کتنی ہی باتیں سمجھ میں آ گئی ہیں کہ قلب کے مقام میں نفس و روح دونوں کی ملاقات ہوتی ہے۔ جب شیخ کی سرپرستی میں مجاہدات و ریاضت سے نفس کو الگ کر دیا تو پھر روح ملاء اعلیٰ تک پہنچ جائے گی ورنہ اگر صرف دل پہ محنت ہو گی تو سالک بزرگی، خود پسندی اور جاہ و شہرت کی طرف بھاگے گا۔ اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔ (آمین) حضرت والا آپ نے ذرائع اور مقاصد کو پھر سے بیان فرمایا یہ بہت ہی اہم تھا اس سے بہت زیادہ فائدہ ہوا۔ پہلے بھی آپ اس بارے میں بیان فرما چکے تھے لیکن دوبارہ سننے سے دل میں یہ بات مزید رچ بس گئی کہ ذریعہ کبھی مقصد نہیں بن سکتا۔ ہمارا مقصد طریق صحابہ پہ چلنا ہے، صحابہ کے نقش قدم پہ چلنا ہے، صحابہ کا طریقہ ہی ہمارا مقصد ہے جو آج کے دور میں بظاہر سادہ لگتا ہے کہ صحابہ کرام نہ ذکر جہری کرتے تھے نہ مراقبات و اشغال کرتے تھے جبکہ ہم یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ در اصل ہم نے ان ذرائع سے کام لے کر آنا اسی طریقے پر ہے جو صحابہ کا طریقہ ہے۔ حضرت والا کی تعلیم مبارکہ سے یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ اصلاح زندہ شیخ ہی کر سکتا ہے اگرچہ خواب اور مکاشفات کے ذریعے بزرگوں سے رہنمائی مل سکتی ہے اور اسباق بھی شاید مل سکتے ہیں جیسے کہ بزرگوں کی سوانح حیات سے معلوم ہوتا ہے لیکن اصلاحِ نفس کا کام زندہ شیخ ہی کر سکتا ہے جو اپنی نگرانی میں ریاضات و مجاہدات کرواتا ہے۔ اصلاح اسی طرح ممکن ہے۔ جزاکم اللہ خیرا احسن الجزاء۔
جواب:
در اصل ہماری تو کوئی حیثیت نہیں ہے، ہم تو بہت کمزور لوگ ہیں لیکن ہمارے بڑوں نے ان موضوعات پہ کافی سیر حاصل باتیں کی ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ ذریعہ کو ذریعہ سمجھا جائے اور مقصد کو مقصد سمجھا جائے۔ اس بات میں ذرہ بھر تردد نہ ہو کہ مقصد مقصد ہے اور ذریعہ ذریعہ ہے۔ جب ذرائع اور مقاصد کی بات بالکل واضح ہو جائے تو سالک کو بہت جلدی فائدہ ہوتا ہے۔ ان ذرائع کو اختیار کرنا، انہیں استعمال کرتے ہوئے راہ سلوک پر چلنا سیر الی اللہ ہے اور سلوک کے مقامات طے ہونے کے بعد طریقِ صحابہ پر تا دمِ آخر چلتے رہنا یہ سیر فی اللہ ہے۔ سیر فی اللہ میں صحابہ کے طریقہ پہ چلنا ہوتا ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا ہوتا۔ جب تک انسان کی اصلاح نہ ہوئی ہو تب تک طریق صحابہ پہ چلنا آسان نہیں ہوتا۔ کیونکہ نفس، عقل اور قلب میں خرابی ہوتی ہے۔ اس خرابی کو دور کرنا چاہیے۔ اس خرابی کو دور کرنا سیر الی اللہ ہے یعنی دنیاوی چیزوں سے کٹ کے اپنا رخ اللہ کی طرف کرنا، دنیا سے اپنا رخ موڑ کے اللہ کی طرف کرنا سیر الی اللہ ہے اور جب رخ اللہ کی طرف ہو جائے تو عمل کے میدان میں طریق صحابہ کی پیروی کرتے رہنا سیر فی اللہ ہے۔ یہ واقعی بہت اہم بات ہے۔
سوال نمبر18:
یہ سوال پہلے بھی حضرت کی خدمت اقدس میں عرض کیا گیا تھا اور حضرت نے اس کا جواب بھی عنایت فرمایا تھا وہ جواب تو مطلوبہ شخص تک پہنچا دیا گیا ہے البتہ حضرت اس پر مزید وضاحت فرما دیں تو بڑا کرم ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ بعض حضرات توحیدِ مطلب کو اتنا آگے لے جا رہے ہیں کہ شخصیت پرستی اور شیخ پرستی تک بات پہنچا رہے ہیں۔ اس پر دلیل یہ دیتے ہیں کہ شیخ کے دئیے ہوئے غیر شرعی حکم میں بھی اصل میں شریعت پر عمل ہوتا ہے وہ صرف ظاہری طور پر غیر شرعی ہوتا ہے حقیقت میں شریعت کے مطابق ہوتا ہے اور اس پر حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کا واقعہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام نے کچھ کام ایسے کئے جو بظاہر غیر شرعی تھے لیکن در حقیقت وہ اللہ کے حکم کے مطابق تھے۔ حضرت جی ہمیں تو ایسی باتوں میں صاف گمراہی نظر آتی ہے۔ ان کو کیسے سمجھایا جائے؟ حضرت والا اگر اس کی وضاحت فرما دیں تو بہت کرم ہو گا، لوگوں کو بہت فائدہ ہو گا۔ جزاکم اللہ خیر۔ السلام علیکم
جواب:
”حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْل نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعمَ النَّصِیْر“ یہ بہت اہم سوال ہے اس کا جواب دینے سے پہلے اللہ پاک کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ لوگوں کے جذبات کا معاملہ ہے، جذبات اور احساسات بڑے نازک ہوتے ہیں، بعض دفعہ اسی وجہ سے انسان رہ جاتا ہے۔
تصوف میں ہمیں دو کام کرنے ہوتے ہیں۔ سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ۔ سیر الی اللہ سیر فی اللہ کے لئے ذریعہ ہے۔ سیر فی اللہ اصل مقصد ہے۔ جیسے صحت کا حصول مقصد اصلی ہے جبکہ علاج اس کا ذریعہ ہے، صحت کو حاصل کرنے کے لئے علاج کو بطور ذریعہ اختیار کیا جاتا ہے، جب صحت حاصل ہو جائے تو اس کے بعد علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر علاج ہی کو مقصد سمجھا جائے تو نقصان ہو گا۔
ہم شیخ سے تعلق اس لئے قائم کرتے ہیں کہ ہم سیر فی اللہ پہ آ جائیں، اللہ کے راستہ پہ آ جائیں، صحابہ کے طریقے پہ آ جائیں۔ ہمارا اصلی مقصد سیر فی اللہ پہ آنا ہوتا ہے، شیخ اس مقصد تک رسائی کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ اب اگر شیخ اللہ کے راستہ تک پہنچانے کی بجائے اس سے دوری کا ذریعہ بن جائے تو پھر کیا کیا جائے گا؟ جواب ظاہر ہے کہ پھر ہمیں اپنا ذریعہ بدلنا پڑے گا اور کوئی ایسا شیخ ڈھونڈنا پڑے گا جو ہمیں اللہ سے دور کرنے کی بجائے اللہ کے راستہ تک لے چلے۔
آج کل اس قسم کے حالات ہیں کہ لوگوں کی گمراہیوں کی تاویلیں کی جا رہی ہیں۔ تاویلوں سے کام نہیں ہوتا۔ جب عالمِ اسلام کے جید مفتیان کرام کا فتویٰ آ چکا ہے اور با قاعدہ دو سال اس پہ ریسرچ ہو چکی تو اب یہ بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ ہم شریعت پہ آنے کے لئے تصوف کو اختیار کرتے ہیں، تصوف پر آنے کے لئے شریعت کو نہیں اختیار کرتے۔ ہمارا مقصد تصوف نہیں ہے بلکہ شریعت ہے اور تصوف اس کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا ہم لوگ شریعت کی پاسداری کریں گے اور شریعت کی حفاظت کے لئے کوشش کریں گے۔ شریعت کی حفاظت اسی میں ہے کہ شریعت کے جائز کو جائز سمجھا جائے اور نا جائز کو نا جائز سمجھا جائے۔ بلا شبہ شریعت کی جائز کردہ چیز کو نا جائز سمجھنا بڑی جسارت ہے لیکن شریعت کے نا جائز کردہ کو نا جائز نہ سمجھنا اس سے بھی بڑی جسارت ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو شریعت کی پاسداری کرنی چاہیے اور اس کے لئے ہمیں ایسے مشائخ کے پاس جانا چاہیے جو کامل ہوں۔ شیخ کامل کی آٹھ نشانیاں ہم کئی بار بتا چکے ہیں۔ جن میں سے پہلی نشانی یہ ہے کہ اس کا عقیدہ درست ہو۔ دوسری نشانی یہ ہے کہ فرض عین درجہ کا علم حاصل ہو۔ تیسری نشانی یہ ہے کہ شریعت پر اس کا عمل ہو۔ مستحبات میں تو گنجائش ہے لیکن فرائض و واجبات میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ ایک شیخ کو اللہ تعالیٰ نے کسی ایک نوع کے مستحبات میں زیادہ درک دیا ہوا ہو اور دوسرے شیخ کو کسی اور نوع کے مستحبات میں درک دیا ہوا ہو، لہٰذا اس میں ہم حساب نہیں کریں گے بلکہ ہم یہ حسن ظن رکھیں گے کہ ان کو اللہ پاک نے کسی ایک شعبہ میں زیادہ انہماک دیا ہوا ہے۔ ہم کسی سے یہ نہیں کہیں گے کہ فلاں شیخ اشراق پڑھتا ہے یا نہیں پڑھتا، تہجد پڑھتا ہے یا نہیں پڑھتا، ہم اس کی جستجو نہیں کریں گے لیکن اگر حرام کا ارتکاب پایا جائے گا تو پھر ہم اسے شیخ کامل نہیں کہہ سکتے، اس کے ہاتھ پہ بیعت نہیں کر سکتے۔ ان باتوں کو مد نظر رکھ کر دیکھنا چاہیے کہ ہم حق پر ہیں یا نہیں ہیں، حق کا ساتھ دے رہے ہیں یا نا حق کا ساتھ دے رہے ہیں۔
اب اس بات کی تشریح بھی بتا دیتا ہوں جس میں کہا گیا ہے کہ شیخ اگر کوئی غیر شرعی بات بھی کہے تو وہ بظاہر غلط ہو سکتی ہے لیکن در حقیقت وہ شریعت کے مطابق ہی ہو گی۔ در اصل حافظ شیرازی کا ایک شعر ہے ؎
بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نہ بود ز راہ و رسم منزل ہا
ترجمہ: ”اگر تجھے پیر مغاں کہے تو مصلیٰ شراب سے رنگ لے۔ اس لیے کہ سالک منزلوں کی رسم و راہ سے بے خبر نہیں ہوتا ہے “
یعنی شیخ اگر مصلی کو شراب سے رنگنے کا حکم دے تو اس کی بات مان لو کیونکہ جتنا وہ جانتا ہے اتنا تم نہیں جانتے۔ یہ شعر در اصل مبتدی سالکین کے لئے ہے۔ اگر کسی مبتدی کو شک کی بیماری ہو، جیسے بعض لوگ شکی مزاج ہوتے ہیں جو کسی ایک چیز پہ نہیں ٹکتے، وہ صحیح چیز کو بھی مشکوک نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ شعر ایسے آدمی کے بارے میں کہا گیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر وہ کسی ایک جگہ پر ٹک جائے تو اسے صحیح باتیں سمجھ میں آ جائیں گی اور کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ورنہ اگر ابتدا میں ہی انسان اپنے شکوک و شبہات کی پیروی کرتا جائے گا تو کسی ایک جگہ پر ٹک نہیں سکے گا اور اصلاح کے لئے کسی جگہ پہ ٹکنا ضروری ہوتا ہے۔ جب وہ ایک جگہ پر نہیں ٹکے گا تو اس کی اصلاح نہیں ہو سکے گی۔ لہٰذا ان نشانیوں کو سامنے رکھ کر شیخ تلاش کیا جائے۔ ان نشانیوں میں تیسری نشانی شریعت پر عمل ہے۔ اگر شریعت پر عمل میں دراڑ ہے اور وہ دراڑ فرائض و واجبات میں ہے تو اس کی معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حرام سے بچنا فرض ہے اور فرض کو چھوڑنا حرام ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جسے ہم شیخ بنا رہے ہیں وہ شریعت کے امور کا خیال رکھتا ہو۔ مثلاً پردہ کے بارے میں شریعت نے بڑی وضاحت کے ساتھ احکام دیئے ہیں۔ آپ ﷺ نے اگر پردہ کا خیال رکھا ہے تو اور کون ہے جس کو اس سلسلے میں رخصت دی جائے۔ لہٰذا اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہیے، امورِ شریعت میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔ اپنے آپ کو بچانا بہت ضروری ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو صحیح فیصلہ کی توفیق عطا فرمائے۔
جن لوگوں کو اشکال ہے ان سے میں عرض کروں گا کہ ہر نماز کے بعد وہ سات دفعہ یہ دعا ”اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ“ بہت آہ و زاری کے ساتھ کیا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر حق کھول دے۔
سوال نمبر19:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت والا! میں آپ کے سامنے اور اللہ کے سامنے صاف صاف توبہ کرتا ہوں کہ میں نے محمد حنیف صاحب کو ان کے مسئلہ کا علاج بتایا، لیکن بتا دینے کے فوراً ہی بعد جب مجھے احساس ہوا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ آپ سے پوچھنے کا مشورہ دینا چاہیے تھا تو میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ آج کی سوال و جواب کی مجلس میں حضرت کی خدمت میں عرض کر دیں، اس سے میری بھی اصلاح ہو جائے گی اور آپ کی بھی رہنمائی ہو جائے گی جزاکم اللہ خیراً۔ حضرت میں معذرت چاہتا ہوں۔ اب آپ نے مجلس مبارکہ میں اس سوال و جواب کے بارے میں جو وضاحت فرمائی اس سے بہت ساری باتیں سمجھ میں آئیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
جواب:
میں وہ تبصرہ عرض کرتا ہوں جو ڈاکٹر ارشد صاحب نے میرے بیان پر کیا تھا۔ لکھتے ہیں: ”جو بیان آپ نے بھیجا ہے اس میں عجیب نورانیت ہے، بہت مفید بیان ہے ان شاء اللہ اس سے بہت فائدہ پہنچے گا۔ میں تو اس بیان کو سن کر کچھ دیر کے لئے مبہوت رہ گیا۔ اس بیان میں صحیح اسلامی تصوف کی روح سے آگاہ کیا گیا ہے۔ ما شاء اللہ بہت پر اثر بیان تھا۔ اللہ پاک اس کے لئے لوگوں کے دلوں کو کھول دے“۔
میں نے انہیں جواب میں لکھا کہ: یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ جب ان چیزوں کی ضرورت پڑ گئی تو اللہ پاک نے ان چیزوں کو ظاہر کر دیا اور اس کے لئے ہمیں استعمال کر لیا۔
ڈاکٹر صاحب نے جواب میں لکھا کہ میرا بھی یہی خیال ہے کہ صرف کثرتِ ذکر اور گھنٹوں مراقبات میں گزارنے سے اصلاح نہیں ہوتی، اصلاح تو تب ہی ہو گی جب نفس امارہ سے پیچھا چھوٹے گا، ذکر کی فضیلت سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن آکسیجن کا کام اور ہے خوراک کا کام اور ہے، آکسیجن سے پیٹ نہیں بھرتا۔
بہر حال اس چیز کو عام کرنے کی اور لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے تاکہ ذرائع اور مقاصد میں فرق لوگوں کو اچھی طرح سمجھ میں آ جائے کیونکہ اسی کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
سوال نمبر20:
ایک صاحب جو حال ہی میں بیعت ہوئے ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ حضرت آپ کی اجازت درکار ہے اور ابو ظہبی جانے کے لئے دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
اللہ جل شانہ آپ کو خیریت سے وہاں پہنچا دے، وہاں کے شرور سے حفاظت فرمائے اور وہاں کے فائدے نصیب فرمائے۔
سوال نمبر21:
حضرت جی مجھے ڈانٹیے گا مت ورنہ میں بات نہیں کر پاؤں گی۔ فلاں صاحب بھی مجھے ڈانٹتے ہیں حالانکہ ساری دنیا میں وہی تو میرے رہبر ہیں، لیکن اب وہ بھی گم ہوتے جا رہے ہیں۔ میری کوئی بات بری لگے تو معاف کر دیجیے گا۔ میں آئندہ تنگ نہیں کروں گی۔ میں مجبور ہوں ایسے ہی بات کرتی ہوں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ تمھیں بولنا نہیں آتا۔
جواب:
ڈانٹنا میرا شوق نہیں کہ ہر ایک کو ڈانٹ دوں، ڈانٹنا صرف ان لوگوں کو ہوتا ہے جو مجھ سے اپنی اصلاح کروانا چاہتے ہیں، جو مجھ سے اصلاح نہیں کروانا چاہتے انہیں میں نہیں ڈانٹتا۔ لوگ سمجھتے ہیں شاید باتوں سے اصلاح ہو جاتی ہے، باتوں سے اصلاح نہیں ہوتی، باتوں سے تو صرف علم بڑھتا ہے، اصل اصلاح تو نفس مطمئنہ کے حصول سے ہوتی ہے جو مجاہدے سے حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح عورتیں کپڑے دھوتی ہیں تو سخت ہاتھوں کے ساتھ زور زور سے کپڑا پٹختی ہیں، واشنگ مشین میں دھوئیں تو کپڑوں کو اچھا خاصا چکر لگواتی ہیں تب کہیں جا کر میل نکلتا ہے پھر کپڑوں کو اچھی طرح نچوڑا جاتا ہے، پھر سکھایا جاتا ہے تب کپڑوں کی دھلائی کا کام پورا ہوتا ہے۔ اسی طرح اصلاح میں ایسے مراحل ہوتے ہیں جن میں مجاہدہ ہوتا ہے، ریاضت ہوتی ہے اور زجر و تنبیہ بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم سے اگر کوئی اصلاح لیتا ہے تو ہم اسے ضرورت پڑنے پر ڈانٹتے بھی ہیں۔
ایک آدمی نے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آ کر کہا کہ آپ نے میرے بیٹے کو بگاڑ دیا ہے۔ حضرت نے فرمایا: ہاں بگاڑا ہے، ہمارے پاس جو بھی آئے گا اس کو ہم بگاڑیں گے، آخر ہمیں بھی تو کسی نے بگاڑا ہے۔
ہم بھی کہتے ہیں کہ ہمیں بھی کچھ حضرات نے ڈانٹا ہے اور وہ ڈانٹ ہمارے لئے بہت بڑی نعمت کا ذریعہ بنی ہے لہٰذا ہم بھی اپنے ان متعلقین کو بوقت ضرورت ڈانٹیں گے جو ہم سے اصلاح کرواتے ہیں۔ جن کا ہمارے ساتھ اصلاح کا تعلق نہیں ہے ان کو ہم نہیں ڈانٹیں گے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو میرے دوست ہیں (وہ مرید کو دوست کہتے تھے) جو میرے دوست ہیں میں ان کی ننانوے خوبیوں کو نہیں دیکھتا بلکہ ایک برائی کو دیکھتا ہوں اور جو میرے دوست نہیں ہیں یعنی مرید نہیں ہیں ان کی ننانوے برائیوں کو نہیں دیکھتا بلکہ ایک خوبی کو دیکھتا ہوں۔
جو ہمارے سلسلہ میں نہیں آئے اور جو اپنی اصلاح ہم سے نہیں کروانا چاہتے انہیں ہم کچھ نہیں کہتے لیکن جو ہمارے پاس آئے گا اور ہم سے اپنی اصلاح کروائے گا اس کی ذمہ داری ہم پر ہے اس لئے اگر اسے ڈانٹنے کی ضرورت ہو گی تو ہم ڈانٹیں گے۔
میری طبیعت مقصدیت کی طرف زیادہ جاتی ہے اس لئے جو اپنی ہمت نہیں استعمال کرنا چاہتے اور سمجھتے ہیں کہ محض چُف سے علاج ہو جائے گا تو ہمارے نزدیک ایسا نہیں ہوتا بلکہ عمل کرنا پڑتا ہے ہمارے پاس ایسا ہی طریقہ کار ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر22:
السلام علیکم حضرت اگر ہم نے اپنی اصلاح کا ارادہ کیا ہو اور سلوک طے کرنے کی نیت سے اس راستے پر چلنا بھی شروع کر دیا لیکن سلوک طے ہونے سے پہلے اگر ہمیں موت آ گئی تو پھر کیا ہو گا؟
جواب:
اگر آپ ہمت کے ساتھ سلوک طے کرنے میں لگے ہوں اور غافل نہ ہوں اور موت آ جائے تو اس کا معاملہ ویسا ہی ہو گا جیسے اس آدمی کے ساتھ ہوتا ہے جو قرآن مجید حفظ کرنا شروع کر لے اور حفظ مکمل ہونے سے پہلے اس کی موت آ جائے تو ان شاء اللہ وہ حافظوں میں اٹھایا جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی واقعی ترتیب پہ چلنا شروع کر لے، اپنی اصلاح سے غافل نہ ہو اور اس کے لئے جو بتایا جائے اس پر عمل کرنا شروع کر لے اور اسی دوران اللہ تعالیٰ اس کو اپنے پاس بلا لے تو اللہ تعالیٰ اسے کاملین میں اٹھائے گا۔
اللہ کے ہاں بڑی آسانی ہے، گڑبڑ ہمارے یہاں ہے۔ ہمارے دلوں میں یہ گڑبڑ ہوتی ہے کہ اگر میں خلیفہ نہ بنا تو کیا ہو گا۔ بس اس چکر سے بچ جاؤ پھر بادشاہی ہی بادشاہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں تو بہت آسانی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں خلیفہ بننا ضروری نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنی اصلاح کی کوشش معتبر ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ کوئی اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا بلکہ ہر کوئی اللہ کے فضل سے جنت میں جائے گا۔ تو کیا اس وجہ سے عمل چھوڑ دیا جائے؟ ہرگز نہیں، عمل ضرور کیا جائے لیکن یہ عقیدہ رکھا جائے کہ جنت میں پھر بھی اللہ کا فضل ہی لے جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جس کو دیکھتے ہیں کہ یہ کام کر رہا ہے اور اس کے دل میں سچی طلب ہے تو اللہ پاک اس کی کمی کو دور کر دیتے ہیں، اپنا فضل فرما دیتے ہیں اور اس کو منزل تک پہنچا دیتے ہیں لہٰذا عمل جاری رکھنا چاہیے۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ بس مفت میں سارا کچھ ہو جائے اور عمل کی طرف نہ جائے، اپنے آپ کو طفل تسلیاں دے تو ایسا آدمی اپنے نقصان کا ذمہ دار خود ہے۔
جو کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ضرور دیتا ہے۔ اللہ نے خود فرمایا ہے کہ جو مجھ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اسے میں ضرور بالضرور ہدایت کے راستے سجھاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں تو بڑی آسانی ہے اللہ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ ہمارا ہے۔ ہم اپنی نیتیں درست کر لیں تو سارا کچھ ٹھیک ہے۔
یہ ساری باتیں اس شخص کے لئے نہیں کہہ رہا جس نے سوال کیا ہے، یہ بڑا مخلص ساتھی ہے۔ میں عمومی بات کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ اکثر اوقات نیت خالص نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ کی رضا کی بجائے خلافتوں کے چکر میں پڑ جاتے ہیں، ہمیں ان چیزوں سے نکلنا چاہیے اور اپنی اصلاح کو اصل مقصد بنانا چاہیے۔ اس معاملے عورتیں بڑی سُکھی رہتی ہیں کیونکہ انہیں خلیفہ بننا ہی نہیں ہوتا لہٰذا انہیں اس کا خیال بھی نہیں ہوتا، اس لئے ان کا پہلا ہی قدم اخلاص پہ مبنی ہوتا ہے اور وہ ان چیزوں سے بچی رہتی ہیں نتیجتاً ان کو ترقی جلدی نصیب ہوتی ہے۔ اگر ہم بھی اپنے دلوں سے یہ خیالات نکال دیں تو ہم بھی جلدی منزل تک پہنچ جائیں گے۔ بعض ساتھی ایسے بھی ہیں جو با قاعدہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! کہیں میں خلیفہ نہ بن جاؤں، مجھے اس آزمائش سے بچا۔ ما شاء اللہ یہ اچھی بات ہے۔ ہمارا مقصد اللہ کو راضی کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا خلافت پہ منحصر نہیں ہے۔ خلافت تو ایک ذمہ داری ہے۔ اگر خود بخود مل جائے تو پیچھے نہ ہٹے لیکن اگر نہ ملے تو اس کے درپے نہ ہو۔ یہی طریقہ کار درست ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ عطا فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ