اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
گزشتہ ہفتہ ایک صاحب کو ان کی کسی غلطی پر کچھ تنبیہ کی گئی تھی، ان کا جواب آیا ہے کہ میں اپنے الفاظ اور سوچ پر شرمندہ ہوں، آپ سے معافی چاہتا ہوں، دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اچھی بات ہے۔ غلطی سے تجربہ اور علم حاصل کرنا اور اس علم پہ عمل کرنا ایک مبارک بات ہے۔ ہمارے یہاں کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہوتی اس لئے ڈانٹنے کا مقصد کسی کو ذلیل کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ مقصد ہوتا ہے کہ اسے جو کام دیا گیا ہے وہ کرنے کی توفیق ہو جائے اور ضیاعِ وقت کے نقصان سے بچایا جائے۔ اگر کسی کو اس تنبیہ سے فائدہ ہو جائے تو یہ فائدہ اس تعریف سے زیادہ بہتر ہو گا جو کسی اچھے کام پر کی جاتی ہے کیونکہ منفی سے بچنا زیادہ ضروری ہے۔ گناہ سے بچنا ضروری ہے۔ اصلاح فرض عین ہے اور فرض عین کا ترک حرام ہوتا ہے اس لحاظ سے اصلاح کے کاموں میں سستی کرنا بھی حرام ہوگا۔ جب ہمارے ہاں کوئی اصلاح سے متعلق کاموں میں غلطی کرتا ہے تو ہمیں اسے تنبیہ کرنی ہی ہوتی ہے۔ اگر ایسے مواقع پر تنبیہ نہ کی جائے تو یہ ہماری طرف سے ایک غفلت ہو گی۔ یہ تنبیہ کسی کا دل دکھانے کے لئے نہیں ہوتی بلکہ سنبھالنے کے لئے اور درستگی کی طرف لانے کے لئے ہوتی ہے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم۔ حضرت شیخ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ دو سوال عرضِ خدمت ہیں۔
1۔ گرد و نواح کے شہروں میں کچھ حضرات کے ہاں ذکر بالجہر یا درود شریف کی مجالس ہوتی ہیں۔ یہ حضرات‘ حضرت شیخ الحدیث زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء کے خلفاء ہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے کہ ہمارے لئے صحبت صالحین کی نیت سے ان مجالس میں جانا کیسا ہے۔
2۔ میرا ابھی ابتدائی ذکر/تیسرا کلمہ چل رہا ہے۔ آپ کے بیانات کے اخیر میں ذکر بالجہر ہوتا ہے، بیان سننے کے بعد جب ذکر ہو رہا ہوتا ہے تو کیا میں بھی ساتھ ساتھ وہ ذکر کر سکتا ہوں یا پھر اس دوران سکوت اختیار کروں۔
جواب:
اچھا سوال ہے۔ پوچھ پوچھ کے چلنا بڑی اچھی بات ہوتی ہے۔ آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ جو حضرات مجالس ذکر منعقد کرتے ہیں اگر وہ صحیح العقیدہ ہوں تو ان کی صحبت میں بیٹھنا منع نہیں ہے۔ کسی کی صحبت میں بیٹھنا اس وقت منع ہوتا ہے جب اصلاح میں کوئی رکاوٹ پیش آئے، لیکن یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہے اس لئے آپ صحبت صالحین کی نیت سے ایسی مجالس میں شرکت کر سکتے ہیں۔ میں بھی مولانا عزیز الرحمٰن صاحب کے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ میں نے اپنے شیخ سے اس کے بارے میں پوچھا تھا کہ حضرت میں کس نیت سے مولانا کی مجلس میں شامل ہوا کروں۔ حضرت نے فرمایا تھا کہ صحبت صالحین کی نیت سے شامل ہو جایا کرو۔ صحبت صالحین کی نیت سے آپ ضرور اچھی مجالس میں شریک ہو سکتے ہیں البتہ تربیت اپنے شیخ کے علاوہ کسی اور سے نہیں کروانی چاہیے اور نہ ہی اپنے احوال کسی اور کو بتانے چاہئیں۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جی بالکل آپ ذکر بالجہر میں شامل ہو سکتے ہیں، اجتماعی مجلس کی برکت سے وقت سے پہلے بھی ذکر بالجہر کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا بشرطیکہ آپ اپنے شیخ سے پوچھ کر شروع کریں۔ لہٰذا آپ اس میں شامل ہو سکتے ہیں اور ذکر کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم!
Is it permissible to watch videos of animals and can women watch videos showing only women?
جواب:
جانداروں کی ویڈیوز تصویر کے حکم میں آتی ہیں، اس کے احکام تصویر والے ہی ہوتے ہیں، جیسے رحمت کے فرشتے اس جگہ نہیں آتے جہاں جانداروں کی تصاویر ہوں ایسے ہی جہاں جاندار کی ویڈیو چل رہی ہو گی وہاں بھی رحمت کے فرشتے نہیں آئیں گے۔
ایک مسئلہ آج کل گردش کر رہا ہے جس کی وجہ سے لوگ متردد ہیں اس کے بارے میں ذرا سمجھانے کی ضرورت ہے، اس لئے عرض کرتا ہوں۔ آج کل بعض حضرات ڈیجیٹل تصویر کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں اس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو گئے ہیں، لوگ اس معاملہ میں آزاد ہو گئے ہیں اور ویڈیوز وغیرہ کے بارے میں پروا نہیں کرتے۔ بعض حضرات کے نزدیک فتویٰ کی رو سے خواہ ویڈیو اور ڈیجیٹل تصاویر جائز ہی ہوں اس کے باوجود ان کا روحانی نقصان تو ہوتا ہی ہے۔ یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ جہاں ویڈیوز وغیرہ چلتی ہیں وہاں پر رحمت والی چیزیں نہیں آتیں۔ اگر کسی وقت ضرورتاً ویڈیو استعمال کی جائے تو جائز ہے لیکن بلا ضرورت ویڈیوز بالکل نہیں استعمال کرنی چاہئیں۔
موبائل پر قرآن پاک کے بارے میں پہلے یہ فتویٰ تھا کہ چونکہ موبائل کی سکرین پر نمودار ہونے والے قرآن مجید کے الفاظ در حقیقت الفاظ نہیں ہوتے اس لئے اس سکرین پر جب قرآن نمودار ہو تب بھی اسے بغیر وضو کے ہاتھ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن ابھی کچھ دن پہلے جامعہ فاروقیہ سے فتویٰ جاری ہوا ہے کہ جب موبائل کی اسکرین پر قرآن کے حروف نمودار ہوں تو اسے قرآن ہی سمجھا جائے اور اسے بغیر وضو ہاتھ نہ لگایا جائے، اس کے احکام قرآن پاک والے ہی ہوں گے۔
اسی فتویٰ کو دیجیٹل تصاویر پر جاری کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب ڈیجیٹل تصویر موبائل پر یا کمپیوٹر کی سکرین پر نمودار ہو تو اس کا حکم جواز و غیر جواز میں اصل تصویر والا ہی ہو گا۔
بہرحال ویڈیوز اور تصاویر اگر جاندار کی ہوں تو خواہ ڈیجیٹل ہوں یا کسی اور قسم کی ہوں، ان سے بچنا ہی چاہیے کیونکہ اس سے روحانی نقصان ہوتا ہے۔ مدتوں ذکر کرنے سے دل کو جو فائدہ ہوتا ہے وہ تھوڑی دیر کی بے احتیاطی سے ضائع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اپنے آپ کو اس سے بچانا چاہیے۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم۔ حضرت جی گذشتہ تین دنوں میں قیلولہ، والدین کے ساتھ صلہ رحمی، بھائی بہنوں کے ساتھ صلہ رحمی کی سنتوں پر عمل کر رہی ہوں۔
جواب:
ماشاء اللہ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ سنتوں پر عمل کرنے کے لئے ترتیب بنانی چاہیے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”اسوہ رسول اکرم ﷺ“ اس انداز میں پڑھنا کہ اس کو عمل میں لایا جائے بہت مفید ہے۔ آپ اس پر عمل کر رہی ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو مزید ترقی عطا فرما دے اور مزید بھی اچھا سلوک عطا فرما دے۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم۔ حضرت جی میرے دل میں لوگوں کی محبت نہ آئے بس اللہ کی محبت ہو، اس کے لئے میں کیا پڑھوں، ازراہ کرم میری رہنمائی فرمائیں۔ میں بہت پریشان ہوں، بس اللہ سے محبت کرنا چاہتی ہوں۔
جواب:
اللہ جل شانہ مزید توفیقات سے مستفید فرمائے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر چیز کو حاصل کرنے کا طریقہ ہوتا ہے، اللہ کی محبت حاصل کرنے کا بھی طریقہ ہے جسے اختیار کرنا پڑے گا۔ کسی کسی کو اس طریقہ پہ چلے بغیر بھی اللہ کی محبت مل جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس پہ قادر ہے۔ جیسے کچھ لوگ ظاہری اسباب اختیار کئے بغیر بھی مال دار ہو سکتے ہیں لیکن اگر کوئی خود چاہتا ہے کہ مالدار ہو جائے تو اسے ظاہری اسباب اختیار کرنے پڑیں گے۔ اسی طرح صحت کسی بھی طریقے سے حاصل ہو سکتی ہے لیکن لوگ ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں اور باقاعدہ طریقے سے صحت حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا اللہ پاک کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے اس کا مخصوص طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ آپ کو اپنے قلب، عقل اور نفس کی اصلاح کرنی پڑے گی۔ جب ان تینوں کی اصلاح ہو جائے تو پھر واقعی اللہ پاک کی صحیح محبت حاصل ہو سکتی ہے۔ جب تک نفس کی اصلاح نہیں ہو گی تب تک نفس آپ کے اوپر سوار رہے گا، آپ کو اللہ کی طرف متوجہ ہی نہیں ہونے دے گا بلکہ آپ کو ہمیشہ دنیا کی طرف اور اپنی خواہشات کی طرف متوجہ رکھے گا لہٰذا آپ کو اس کی اصلاح کرنی ہی پڑے گی۔ ان اسباب کو اختیار کئے بغیر اللہ کی محبت حاصل کرنے کی صرف خواہش کرتے رہنا ایسا ہی ہے جسے ہم محاورۃً خیالی پلاؤ پکانا کہتے ہیں۔
دنیا اور نفس کی خواہشات اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لئے حجابات ہیں، جب تک یہ حجابات موجود ہیں آپ پر اللہ کی معرفت نہیں کھل سکتی۔ یہ چیزیں دلوں کو اپنی طرف موڑتی ہیں جس کے نتیجے میں انسان اللہ پاک کی محبت سے ہٹ جاتا ہے۔ اللہ کی محبت حاصل کرنے کے لئے پہلے ان چیزوں کو دور کرنا پڑے گا اور انہیں دور کرنے کے لئے نفس کی اصلاح کرنی پڑے گی نفس کی اصلاح کے بعد ہمارا دل صحیح راستے پہ آ جائے گا، نفس کی اصلاح کے بغیر دل میں وقتی طور پر ابال تو آ سکتا ہے لیکن ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔ آپ کو اس راہ پہ چلتے ہوئے جو مراقبات و مجاہدات اور معمولات بتائے جائیں گے ان سب کا مقصد یہی ہوگا کہ آپ کے دل میں اللہ کی محبت اور چاہت کو ایسا ٹھہراؤ آ جائے کہ آپ اس کی خاطر نفس کی خواہشات کو چھوڑ دیں۔ لہٰذا آپ رابطہ رکھیں اور ہدایات کے مطابق چلتی رہیں، ان شاء اللہ آپ کو ایک دن یہ نعمت حاصل ہو جائے گی۔ اللہ پاک ہم سب کو نصیب فرما دے۔ آمین۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت کاکا صاحب دامت برکاتھم میں امید کرتا ہوں کہ آپ خیر و عافیت سے ہوں گے۔ میرا ماہانہ ذکر 200، 400، 500 اور 600 پورا ہو گیا ہے۔ دس منٹ مراقبہ کرتا ہوں، جس میں ذہن منتشر رہتا ہے۔ عقل کی اصلاح کے بارے میں رہنمائی فرما دیں۔ جزاک اللہ۔
جواب:
(یہ صاحب مجھے کاکا صاحب کہتے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا انداز ہے یہ کاکا خیل کو کاکا صاحب کہتے ہیں۔ اللہ انہیں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نقش قدم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین)
آپ نے اپنا جو ذکر لکھا ہے 200، 400، 500، 600۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کی ترتیب کچھ غلط لکھ دی ہے، اس کی ترتیب یوں ہے: 200، 400، 600، 500۔ اس ترتیب کو درست کر لیں اور مراقبہ کی کیفیت بتا دیں کہ مراقبہ میں اللہ اللہ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے یا نہیں۔ ذہن کا منتشر ہونا اور بات ہے، اللہ اللہ کا ذکر محسوس ہونا اور بات ہے۔ بعض دفعہ اللہ اللہ کا ذکر ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے پھر بھی ذہن منتشر رہتا ہے، جیسے بہت شور میں انسان کسی بات کو سن رہا ہو۔ آپ مراقبہ کی کیفیت بتائیں پھر اس کے بارے میں کچھ عرض کروں گا۔
عقل کی اصلاح کے بارے میں یہ عرض ہے کہ جب آپ کی روح نفس کے شکنجہ سے آزاد ہو جائے گی، پھر آپ کی عقل سِرّ بن جائے گی تب اس کی اصلاح ہو جائے گی۔ اسی کے لئے ہم سلوک طے کرتے ہیں اور یہ سارے مراقبات کرتے ہیں۔ آپ سلوک طے کرتے رہیں ان شاء اللہ عقل کی اصلاح بھی ہو جائے گی۔
سوال نمبر7:
الحمد للہ میرا غض بصر والا مجاہدہ ختم ہو چکا ہے، اگلا مجاہدہ کیا ہو گا۔ اگر میں اپنے بارے میں خود سوچوں تو یوں لگتا ہے شاید اگلا مجاہدہ کھانے پینے کا ہو گا کیونکہ میرے خیال میں بد نظری، کھانا پینا اور غیبت بہت عام مرض ہیں۔ آپ کوئی مناسب مجاہدہ بتا دیں۔
جواب:
آپ فی الحال خاموشی والا مجاہدہ شروع کر لیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس موقع پہ آپ کو بہت زیادہ بولنے کی خواہش ہو وہاں کم از کم دس منٹ خاموش رہیں۔ اگر کوئی گفتگو ہو رہی ہو اور آپ کو بہت زیادہ خواہش ہو کہ میں بھی اس میں حصہ لوں تو وہاں دس منٹ خاموش رہیں۔ بزرگوں نے فرمایا ہے پہلے تولو پھر بولو۔ اب تولیں گے تو تب ہی جب تولنے کا وقت ملے گا، بے تکان بولیں گے تو تولنے کا وقت کیسے ملے گا۔ پہلے خاموش رہنا سیکھنا ہوتا ہے اس کے بعد تول کے بولنا سیکھنا ہوتا ہے۔ آپ فی الحال یہی مجاہدہ شروع کریں باقی مجاہدے اپنے وقت پہ آ جائیں گے۔ سوال نمبر8:
السلام علیکم۔ حضرت جی میں نے ایک ماہ پہلے آپ سے خاموشی کا مجاہدہ لیا تھا جس پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن کچھ مشکل میں ہوں، رہنمائی درکار ہے۔ شروع میں بیماری کی وجہ سے کسی سے بات کرنے کو دل نہیں کرتا تھا، پھر سمجھ نہیں آتی تھی کہ میری پسندیدہ گفتگو کون سی ہے، من پسند موضوع کون سا ہے۔ میرے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے کہ اگر میں کبھی مجاہدہ کی نیت سے خاموشی اختیار کر لوں تو دو منٹ سے پہلے دوسرا شخص مجھ سے کوئی سوال کر لیتا ہے یا کہیں اور چلا جاتا ہے اور بات ختم ہو جاتی ہے، اس طرح دس منٹ پورے نہیں ہو پاتے۔ میں نے اس بارے میں سوچا کہ میں کب بولنا پسند کرتی ہوں تو پتا چلا کہ جب مجھے کوئی انفارمیشن ملے اور اس کے متعلق مجھ سے کوئی پوچھے یا کوئی میرے شعبہ کے متعلق کچھ پوچھے یا مجھے کوئی پریشانی ہو، میں ان تینوں معاملات میں کافی بولتی ہوں اور امی، بھابھی، بہن بھائی وغیرہ ہر ایک کو بتاتی پھرتی ہوں۔ بتانے کے بعد خیال آتا ہے کہ شاید میں اس بات کو نہ بتانے کا مجاہدہ کر سکتی تھی اور خاموش بھی رہ سکتی تھی۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ کوئی بات ہو رہی ہوتی جس کے بارے میں بولنے کو میرا دل چاہ رہا ہوتا اور میں مجاہدہ کرتے ہوئے چپ ہو جاتی لیکن وہ بات چیت پورے دس منٹ نہیں چلتی تھی بس دو تین منٹ کے بات ختم ہو جاتی تھی۔ میں اسی کشمکش میں رہتی ہوں کہ کس بات پہ مجاہدہ کروں، کہاں کروں اور کہاں نہ کروں۔
جواب:
آپ ایسا کریں کہ روز آپ کو جتنا موقع ملے اتنی دیر خاموش رہا کریں، خواہ وہ موقع ایک ایک یا دو دو منٹ کا ہی کیوں نہ ہو۔ ان مختلف مواقع کو جمع کر کے دس منٹ پورے ہو جائیں گے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب کئی عورتیں جمع ہوتی ہیں تو ساری عورتیں بولتی ہیں، یہ عورتوں میں ایک بری عادت ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ ساری بولے جا رہی ہیں، یہ سنتی کس وقت ہیں؟ ایسے وقت میں آپ خاموشی کا مجاہدہ آسانی کے ساتھ کر سکتی ہیں۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم۔ حضرت جی کسی نے ابھی فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں اور فجر کی جماعت کھڑی ہو جائے تو وہ کیا کرے، سنتیں پڑھے یا جماعت میں شامل ہو جائے؟ اور اگر جماعت میں شامل ہوتا ہے تو سنتوں کی قضا کب پڑھے، فرضوں کے بعد یا نماز اشراق کے ساتھ؟
جواب:
ویسے تو یہ سوال افتاء سے متعلق ہے لہٰذا مفتیان کرام سے پوچھنا چاہیے لیکن چونکہ یہ فرض عین علم میں شامل ہے اس لئے جس کو اس کا جواب معلوم ہو وہ دے سکتا ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ احناف کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ جب جماعت کھڑی ہو جائے اور آدمی کو امید ہو کہ میں جماعت کی نماز مکمل ہونے سے پہلے پہلے سنتیں پڑھ کر جماعت میں شامل ہو جاؤں گا تو پھر وہ سنتیں پڑھ لے، خواہ جماعت میں قعدہ میں ہی شامل کیوں نہ ہو، لیکن اگر وقت اتنا کم ہو کہ آخری قعدہ بھی نہ مل سکتا ہو تو پھر جماعت میں شامل ہو جائے اور سنتوں کی قضا اشراق کے ساتھ پڑھ لے کیونکہ نماز فجر کے بعد طلوع شمس تک نماز پڑھنا ممنوع ہے۔
سوال نمبر10:
حضرت جی کیا جذب حاصل کرنے کے لئے یہ آیت پڑھ سکتے ہیں:
﴿اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ﴾ (الشوری: 13)
ترجمہ: ”اللہ جس کو چاہتا ہے چن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جو کوئی اس سے لو لگاتا ہے اسے اپنے پاس پہنچا دیتا ہے۔“
میں نے حضرت حکیم اختر صاحب کی تحریر میں اس کے بارے میں پڑھا تھا۔
جواب:
در اصل جذب کسبی اصلاح کا ایک ذریعہ ہے مقصود نہیں ہے، جبکہ جذب وہبی اللہ تعالیٰ خود دیتا ہے۔ آپ اپنی طرف سے جذب کے حصول پر زور نہ دیں، جو آپ کو بتایا جائے بس وہی کرتی رہیں، البتہ اصلاح کی دعا ضرور کیا کریں۔ اصل مقصود اصلاح ہے۔ جو معمولات آپ کو دیئے جائیں وہ کرتی جائیں ان شاء اللہ العزیز آپ کو جذب حاصل ہو جائے گا، اس کے بعد سلوک طے کرنا ہو گا۔
سوال نمبر11:
حضرت جی آپ نے فرمایا تھا کہ مجاہدات سے نفس کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ ازراہِ کرام کوئی مجاہدہ دیں جس سے غصہ ختم ہو جائے اور صبر و تحمل آ جائے۔
جواب:
در اصل ”صبر“ مقاماتِ سلوک میں سے ایک مقام ہے، جب سالک مقامات سلوک تفصیل سے طے کرتا ہے اسی دوران یہ مقام طے ہونے پر انسان میں صبر و تحمل آ جاتا ہے اور غصہ کا علاج بھی ہو جاتا ہے۔ ابھی آپ کے مقامات سلوک شروع نہیں ہوئے، جب وہ شروع ہوں گے تب غصہ کا مستقل علاج ہو گا۔ جب تک مقامات سلوک شروع نہیں ہوتے تب تک آپ اس کے وقتی علاج سے کام چلا سکتی ہیں۔ غصہ کا وقتی علاج عقل کے ذریعے سے ہوتا ہے، سوچ کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے جب آپ کو غصہ آئے تو اگر سامنے والا آپ سے بڑا ہے تو وہاں سے ہٹ جائیں، اگر چھوٹا ہے تو اسے سامنے سے ہٹا دیں۔ پانی پی لیں، بیٹھ جائیں، اپنے آپ کو کسی اور کام میں مشغول کر لیں۔ ان طریقوں پر عمل کرنے سے وقتی طور پر غصہ کے شر سے بچا جا سکتا ہے۔
جہاں تک صبر کا تعلق ہے، وہ بھی مستقل طور پر تو تبھی حاصل ہو گا جب مقاماتِ سلوک طے ہوں گے، اس سے پہلے آپ صبر اس طرح حاصل کر سکتی ہیں کہ آپ یہ سوچیں اگر میں نے صبر نہیں کیا تو مجھے کون سا فائدہ ہو جائے گا، کیا بے صبری سے مصیبت ختم ہو جائے گی؟ ختم تو نہیں ہو گی، ہاں بڑھ ضرور سکتی ہے۔ اس مصیبت اور پریشانی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر اس کو برداشت کر لیں۔
فی الحال ان وقتی علاجوں سے کام چلائیں، ان شاء اللہ جب آپ مقامات سلوک طے کر لیں گی تب اس کا صحیح علاج ہو جائے گا۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی! فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول، فنا فی اللہ، مقام ریاضت، مقام توبہ وغیرہ، کیا یہ سب مقامات درجہ بدرجہ خود بخود ہی طے ہوتے جاتے ہیں یا ان سب کا الگ الگ سبق اور مشق ہوتی ہے، نیز یہ فرما دیجیے کہ مرید کو ان کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے یا اپنے معمولات پر توجہ دینی چاہیے؟ جزاک اللہ خیراً۔
جواب:
در اصل فنا فی الشیخ انسان کی اپنی ایک حالت ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ اپنے شیخ کے ساتھ اتنی محبت ہو کہ اس کے لئے اپنی خواہشات کو چھوڑ سکے، اپنی ترجیحات کو چھوڑ سکے، جس چیز سے شیخ روکے، رک جائے۔ یہ فنا فی الشیخ ہے۔ انسان یہ عقلاً بھی حاصل کر سکتا ہے اور طبعاً بھی کر سکتا ہے۔ طبعاً ہو جائے تو بڑی نعمت ہے لیکن اگر کسی کو عقلاً حاصل ہو تو یہ بھی کافی ہے۔ انسان دیکھے کہ میں اسی راستے سے اپنی منزل حاصل کر سکتا ہوں، اللہ پاک میرے شیخ کے دل میں ڈالے گا کہ میرے لئے کون سی چیز ٹھیک ہے اور کون سی چیز غلط ہے، لہٰذا مجھے ان کی طرف ہی متوجہ رہنا چاہیے، جو بھی اللہ ان کے دل میں ڈالے مجھے اس کو فوراً قبول کرنا چاہیے اور اس پہ عمل کرنا چاہیے۔ فنا فی الشیخ کی برکت سے فنا فی الرسول نصیب ہو جاتا ہے کیونکہ سالک جب شیخ کو سنت کی اتباع کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کے دل میں سنت کی عظمت آ جاتی ہے جس سے وہ فنا فی الرسول ہو جاتا ہے، جب فنا فی الرسول کی کیفیت کامل ہوتی ہے تو فنا فی اللہ کا درجہ بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ توحید ہی کی دعوت دیتے تھے، اللہ تعالیٰ کے لئے سب کچھ کرنے کا درس دیتے تھے، آپ ﷺ کی دعا میں، ذکر میں اور ہر کام میں للہیت، اللہ پاک کی محبت اور اللہ پاک ہی کی طرف رجوع ہوتا تھا۔ جب انسان اس بات کو دیکھتا ہے تو وہ فنا فی اللہ ہو جاتا ہے۔ یہ سارے مراحل قدم بہ قدم خود طے ہوتے چلے جائیں گے۔ آپ کو صرف اور صرف ان معمولات کی طرف توجہ دینی چاہیے جو آپ کو شیخ کی طرف سے بتائے جائیں۔ آپ کا کام بس یہی ہے۔ پہلا درجہ فنا فی الشیخ کا ہے، دوسرا درجہ آپ کو اسی کے ذریعے سے ملے گا اور تب ملے گا جب پہلا درجہ مکمل ہو گا۔ اگر آپ صحیح عمل کریں گی، معمولات پابندی سے کریں گی اور شیخ کے ساتھ محبت ہو گی تو باقی سب چیزیں خود بخود ملتی چلی جائیں گی۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم۔ مجھے عربی زبان سیکھنے کا بہت شوق ہے۔ عمرہ کے دوران اس میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ جامعہ بنوریہ کراچی کے حضرات آن لائن عربی کورس شروع کر رہے ہیں، ایک سالہ کورس ہے چار ہزار روپے ماہانہ فیس ہے۔ آپ محترم سے مشورہ درکار ہے کہ کیا کروں۔ کل تک ان کو اپنے داخلہ کے بارے میں بتانا ہے۔ اپنے شوہر سے سب سے پہلے اجازت لے لی ہے۔
جواب:
بلا شبہ عربی زبان سیکھنا بہت اچھی بات ہے اور دینی کتابوں کو سمجھنے کے لئے بہت مفید ہے۔ آپ اس کورس میں داخلہ لینے سے پہلے ایک اصول سمجھ لیں کہ علم کی دو قسمیں ہیں: ایک فرض عین علم اور دوسرا فرض کفایہ علم۔ جہاں تک فرض عین علم کا تعلق ہے تو وہ اردو میں بھی موجود ہے جبکہ فرض کفایہ درجہ کے علم کے لئے عربی کی کتابوں کا علم ضروری ہوتا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ فرض پہلے پڑھے جاتے ہیں یا وتر پہلے پڑھے جاتے ہیں اور کیا اگر فرض نہ پڑھیں تو وتر ہو جائیں گے؟ جنازہ تیار ہو اور فرض نماز کا وقت ختم ہو رہا ہو تو آپ کیا پڑھیں گے، جنازہ یا فرض نماز؟ یقیناً فرض نماز کو پہلے پڑھنا لازمی ہے کیونکہ نماز فرض عین ہے اور نماز جنازہ فرض کفایہ ہے، فرض عین کے لئے فرض کفایہ مؤخر کیا جا سکتا ہے۔
اگر آپ نے فرض عین علم کورس کیا ہوا ہے اور فرض عین علم آپ کو حاصل ہے تو آپ عربی سیکھنا شروع کر لیں لیکن اگر فرض عین علم نہیں سیکھا ہوا تو وہ سیکھ لیں اور بعد میں عربی کا کورس کر لیجئے گا۔
میں حیران ہوتا ہوں کہ لوگ قرآن پاک کا ترجمہ پڑھتے ہیں، حدیث شریف کا ترجمہ پڑھتے ہیں لیکن فقہ کا علم حاصل نہیں کرتے حالانکہ فقہ کا جاننا فرض عین سے متعلق ہے اور فرض عین کے بارے میں اللہ پاک سوال کریں گے، جیسے نماز کے بارے میں آپ سے پوچھا جائے گا۔
روز محشر کہ جانگداز بود
اولین پرسش نماز بود
روزے کے بارے میں آپ سے پوچھا جائے گا، اسی طرح ان تمام چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو فرض عین کے تحت شامل ہیں۔ اس لئے آپ کو سب سے پہلے یہ علم حاصل ہونا چاہیے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ پہلے آپ فرض عین علم کورس کر لیں بعد میں عربی کا کورس بھی کر لیں بلکہ پورا درس نظامی بھی کر لیں تو ہم نہیں روکتے لیکن پہلے فرض عین علم حاصل کریں۔
مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لوگ آٹھ سال کے لئے مدرسوں میں جانے کو تیار ہیں لیکن دو مہینے فرض عین علم کو دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ آٹھ سال والا علم فرض کفایہ ہے جبکہ دو مہینوں والا علم فرض عین ہے، پہلے دو مہینے لگا لیں پھر آٹھ سال بھی لگا لینا، اگر آپ آٹھ سال کے اندر مر گئے اور فرض علم نہ سیکھا تو کیا کریں گے؟ لہٰذا پہلے فرض عین علم حاصل کریں بعد میں باقی چیزیں کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر14:
السلام علیکم۔ حضرت ایک شخص ہوٹل چلاتا ہے اور وہ اپنی آمدن میں سے کچھ پیسے اسلام مخالف سرگرمیوں میں بھی استعمال کرتا ہے یا ایسے لوگوں کو چندہ دیتا ہے۔ اس ہوٹل میں جو کھانا ملتا ہے وہ حلال ہوتا ہے۔ کیا اس ہوٹل سے کھانا پینا اور ان کی سروسز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟ جزاک اللہ۔
جواب:
یہ سوال در اصل مفتیوں سے پوچھنے کا ہے اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کو مفتیوں کے نمبر دے سکتے ہیں، آپ ان سے استفسار کر لیں کیونکہ اس مسئلہ میں کافی جزئیات اور تفاصیل درکار ہیں، ان سب پہلوؤں کو دیکھ کر مفتیان کرام آپ کو جواب دے دیں گے۔
سوال نمبر15:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی لطیفۂ سِرّ کا مراقبہ کرتے ہوئے دو مہینے سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ الحمد للہ آپ کی برکت سے لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح اور لطیفہ سِر جاری ہیں اور محسوس بھی ہو رہے ہیں۔ لطیفہ قلب دس منٹ، لطیفہ روح دس منٹ اور لطیفہ سر پندرہ منٹ کر رہا ہوں۔
جواب:
اگر یہ تینوں لطائف چل رہے ہیں تو پھر آپ لطیفۂ خفی بھی شروع کر لیں اور ترتیب اس طرح کر لیں: دس منٹ لطیفۂ قلب، دس منٹ لطیفۂ روح، دس منٹ لطیفۂ سِر اور پندرہ منٹ لطیفہ خفی۔
سوال نمبر16:
حضرت جی میں تہجد کے وقت مراقبات کرتا ہوں، اگر مجھے اٹھنے میں کچھ تاخیر ہو جائے تو مراقبات کے دوران فجر کی اذان ہو جاتی ہے، کیا ایسی صورت میں باقی مراقبات نماز کے بعد مکمل کیے جا سکتے ہیں؟
جواب:
جی ہاں باقی مراقبات نماز کے بعد مکمل کئے جا سکتے ہیں۔
سوال نمبر17:
حضرت جی آپ نے مجھے کچھ غلطیوں پر تنبیہ فرمائی تھی، الحمد للہ اس تنبیہ کا نتیجہ اچھا چل رہا ہے، دوبارہ ذکر قضاء نہیں ہوا اور ان شاء اللہ نہیں ہو گا۔ ایک بات یہ سمجھ میں آئی ہے کہ جب آپ کی طرف سے تنبیہ ہوتی ہے تب زیادہ فائدہ ہوتا ہے اور آپ کی طرف سے جب تنبیہ ہوتی ہے تو دل آزاری نہیں ہوتی۔ میں خود کو خوش قسمت انسان سمجھتا ہوں کہ کوئی تو ہے جو مجھے ہمیشہ متوجہ کر دیتا ہے جب میں پٹڑی سے اتر جاتا ہوں۔ مجھے یہ بات اب سمجھ آ رہی ہے کہ جیسے آپ مجھے روک لیتے ہیں ایسے کوئی نہیں روک سکتا۔ اللہ کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے کہ آپ جیسا شیخ ملا ہے ورنہ پتا نہیں میرا کیا حال ہو جاتا اور میں اب تک کیا کچھ کر جاتا۔ مجھے یہ بات اچھی طرح سمجھ آ گئی ہے کہ سلسلہ کے بغیر، آپ کی دعا اور تنبیہ کے بغیر کوئی اور چیز کام نہیں دے سکتی۔ اللہ سے دعا ہے کہ میرے جیسے بھٹکے ہوئے تمام حفاظِ قرآن کو آپ جیسا شیخ مل جائے۔ اللہ تعالیٰ مجھے آپ کے ملفوظات و ارشادات پر پورا پورا عمل نصیب فرمائے آمین۔
جواب:
بس شیخ کی ہدایات کے مطابق معمولات کی پابندی کرتے رہیں اور اللہ سے مدد مانگتے رہیں ان شاء اللہ العزیز آہستہ اہستہ اصلاح ہو جائے گی۔
سوال نمبر18:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت فرض عین علم کا کورس کرنا زیادہ مفید ہے یا ہم خود کتابوں سے بھی حاصل کر سکتے ہیں؟
جواب:
ہماری ویب سائٹ tazkia.org پر فرض عین علم کا مکمل کورس موجود ہے، آپ وہاں سے وہ کورس کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر19:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
I wanted to ask حضرت about his views on the idea of جذب and سلوک. One of the main problems حضرت said is that جذب should have been used to kick start the سلوک but it is used in itself. This is the reason why some poole went stray who just focused on جذب. I wanted to ask about that lesson in the light of one of مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ’s ملفوظ which suggested that ابلیس had been through سلوک but he didn't have جذب and I attach the pdf ان شاء اللہ so that حضرت can ractify this misunderstanding.
پی ڈی ایف یہ ہے:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جذب کوئی معمولی چیز نہیں ہے بڑی دولت ہے، بڑی نعمت ہے۔ بغیر جذب کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ شیطان محض سالک تھا اس میں جذب نہ تھا اس لئے گمراہ ہوا۔ جذب کی قدر کرنی چاہیے اور جو ذریعہ ہے جذب کے پیدا ہونے کا اس کی بھی قدر اور احترام کرنا چاہیے۔ اولیاء اللہ کی صحبت اور صالحین کی صحبت کی برکت سے جذب حق پیدا ہوتا ہے، اس سلسلہ میں ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ”اصل وصول جذب ہی سے ہوتا ہے اور ایسا واصل پھر راجع نہیں ہوتا۔ مولانا نے عجیب مثال دی کہ جیسے ایک بار آدمی بالغ ہو جائے تو پھر نابالغ نہیں ہوتا۔ شیطان واصلین میں نہ تھا کیونکہ اس میں جذب نہ تھا اس وجہ سے گمراہ ہوا۔
جواب:
ماشاء اللہ بہت اچھا سوال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عطا فرمائے۔ اگر یہ سوال نہ کیا جاتا تو اس سے کچھ شبہات پیش آ سکتے تھے جو ان شاء اللہ اب پیش نہیں آئیں گے۔
ہم تصوف میں صرف دو چیزوں کی اصلاح کا ذکر نہیں کرتے بلکہ تین چیزوں کی اصلاح کا ذکر کرتے ہیں۔ نفس، قلب اور عقل۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ بہت پہلے سے چلی آ رہی ہے۔ یہ چیزیں بہت پہلے سے چلی آ رہی ہیں، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں میں موجود ہیں، خواجہ شاہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں میں موجود ہیں، جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں میں موجود ہیں، بلکہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر کا تو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حوالہ بھی دیا ہے۔ ان سب تحریروں کے مطابق یہ بات مسلمہ ہے کہ تصوف میں ان تینوں کی اصلاح کو مدنظر رکھا جائے، ان تینوں میں سے کسی ایک کی اصلاح میں کمی تکمیل سے محروم کر دیتی ہے۔ لہٰذا تینوں کو ٹھیک کرنا پڑے گا اور تینوں کو ٹھیک کرنے کے اسباب اختیار کرنا پڑیں گے۔
آپ نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظ کا حوالہ دیا ہے۔ آپ کو شاید علم ہو گا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ کیا تھا۔ حضرت اگرچہ اجازت چاروں سلاسل میں دیتے تھے لیکن ان کا اپنا طریقہ چشتی تھا۔ چشتی، سہروردی اور قادری سلسلہ میں سلوک پہلے طے ہوتا ہے، جذب بعد میں عطا کیا جاتا ہے۔ خود حضرت نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ سلوک کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بچہ چلتا ہے اور والدین اسے کہتے ہیں آ جاؤ آ جاؤ، وہ ان کی آواز سن کر چلنا شروع کرتا ہے لیکن دو قدم چل کے گر جاتا ہے، والدین پھر حوصلہ افزائی کرتے ہیں، پکارتے ہیں تو وہ پھر چلنا شروع کرتا ہے لیکن دو قدم چل کے گر جاتا ہے، جب بار بار گرتا ہے تو رونا شروع کر دیتا ہے، جب رونے لگتا ہے تو والدین اس کو آ کر اٹھا لیتے ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں کہ راہ سلوک میں انسان جو پٹخنیاں کھاتا ہے ان سے اس کے دل میں عاجزی پیدا ہوتی ہے، اللہ کی طرف رجوع پیدا ہو جاتا ہے وہ رونے لگ جاتا ہے، جب آخر کار رو پڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو جذب عطا فرما دیتے ہیں۔ یہ وہ جذب ہے جو سلوک کے بعد ملتا ہے۔ یہ جذب وہبی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی جذب کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس کی قدر کرنی چاہیے، اور اسی کے بارے میں فرمایا ہے کہ شیطان کے پاس یہ نہیں تھا، یہ بھی اِسی کے بارے میں فرمایا ہے کہ جب جذب حاصل ہو جائے تو پھر انسان واپس نہیں ہوتا۔
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ہمارے ہاں وصول بذریعہ جذب ہوتا ہے، تکمیل بذریعہ جذب ہوتی ہے اس سے مراد جذب وہبی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ کوئی شخص بھی جنت میں اپنے اعمال کے ذریعے سے نہیں جا سکتا اللہ کے فضل سے جائے گا۔ اللہ کا فضل یہی جذب وہبی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہر انسان جنت میں تو اللہ کے فضل سے ہی جائے گا اس کے باوجود دنیا میں عمل اختیار کرنا پڑے گا، پورا قرآن عمل کی دعوت سے بھرا ہوا ہے۔ عمل خود بھی کرنا پڑے گا اور عمل کی دعوت بھی دینی پڑے گی لیکن جنت میں داخلہ اللہ کے فضل سے ہی ہو گا۔
اللہ پاک اپنا ہاتھ ہمیشہ اوپر رکھتا ہے۔ اللہ پاک نے خود حدیث قدسی میں فرمایا ہے کہ جو میری طرف ایک بالشت آتا ہے تو میری رحمت اس کی طرف دو بالشت جاتی ہے، جو میری طرف ایک ہاتھ آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دو ہاتھ جاتی ہے، جو میری طرف چل کے آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دوڑ کے جاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب آپ کوشش کریں گے تو اللہ پاک ضرور قبول فرمائیں گے۔ اللہ پاک سے قبولیت کی امید رکھنی چاہیے۔ اچھی امید ضروری ہے۔ اللہ پاک سے ہماری امید یہی ہے کہ اللہ پاک ہمیں قبول فرمائیں گے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس امید کے بھروسے عمل چھوڑ بیٹھیں، اعمال میں سستی کرتے رہیں اور کہتے رہیں کہ اللہ پاک غفور رحیم ہے۔ ایسا کرنا عاجزی نہیں ہے بلکہ جسارت ہے۔ عاجزی یہ ہے کہ پوری محنت اور کوشش کرو اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو۔ جب پوری محنت و کوشش کرنے کے بعد بھی خود بخود کچھ حاصل نہیں ہو گا تو رونا آئے گا، اللہ کے سامنے گڑگڑاؤ گے عاجزی دکھاؤ گے تو پھر اللہ پاک تمہاری عاجزی قبول فرمائے گا۔ اگر آپ نے پہلے ہی کہہ دیا کہ اللہ غفورٌ رّحیم ہے وہ معاف کر ہی دے گا اس لئے مجھے کوشش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو اس سے بجائے فائدہ کے نقصان ہی ہو گا۔
جذب وہبی اور اللہ کی محبت کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللہ کے عشق میں بھول جائے اس طرح فنا ہو جائے کہ اس کے سامنے اللہ پاک کے حکم سے بڑی کوئی چیز نہ رہے۔ شیطان کو یہی چیز حاصل نہیں ہوئی تھی، وہ فنا فی اللہ نہیں ہوا تھا بلکہ وہ غرض کی محبت کر رہا تھا، خلافت کے چکر میں تھا، جب اس کو خلافت نہیں ملی تو اس کی محبت کا دعویٰ دھرا کا دھرا رہ گیا، اس کا سارا علم کافور ہو گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس میں حقیقی جذب نہ تھا، وہ صرف ظاہری اعمال کر رہا تھا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں ہی یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ شیطان کو اس کے نفس نے گمراہ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کے نفس کی اصلاح نہیں ہوئی تھی، اس کا تو ابھی سلوک بھی طے نہیں ہوا تھا۔ سلوک کا آخری مقام مقامِ رضا ہے، وہ ابھی اس مقام تک نہیں پہنچا تھا، اگر مقام رضا تک پہنچ گیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے حکم پر اعتراض نہ کرتا۔ در حقیقت وہ تو سچا سالک بھی نہیں تھا، صرف غرض کا بندہ تھا، اپنے اوپر ظلم کر بیٹھا، یہ نہ دیکھا کہ میرا معاملہ اللہ ذات کے ساتھ ہے جو دلوں کی حالت کو جانتا ہے۔ اللہ جل شانہ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے جن میں اس کے ایمان و رضا کی ساری قلعی کھل گئی۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ شیطان کسی نبی کے سامنے بڑا رویا، کہنے لگا کیا میرے لئے کوئی نجات کا راستہ ہے، اگر ہے تو بتائیے کہ میں ہمیشہ کے لئے مردود ہونے سے بچ جاؤں۔ اس نبی نے اللہ پاک سے دعا کی کہ یا اللہ یہ چاہتا ہے کہ مجھے معافی مل جائے، اگر کوئی راستہ ہے تو بتائیے۔ اللہ پاک نے فرمایا کہ ہاں ایک راستہ ہے، یہ آدم علیہ السلام کی قبر کو سجدہ کر دے تو ہم اسے معاف کر دیں گے۔ اس نبی نے جب اسے یہ بتایا تو وہ کہنے لگا کہ یہ تو نہیں ہو سکتا۔ اصل میں وہ اللہ کی بات ماننا چاہتا ہی نہیں تھا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے کہ شیطان سالک تھا، راہ سلوک طے کر رہا تھا، ابھی درمیان میں تھا، عمل کر رہا تھا لیکن اس کا عمل اخلاص سے خالی تھا، اسے اللہ کے ساتھ اس درجہ کی محبت نہیں تھی کہ وہ اللہ کا ہر حکم مان لیتا۔
یاد رکھئے نفس، قلب اور عقل تینوں کی اصلاح ضروری ہے۔ صرف نفس کی اصلاح بھی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ قلب اور عقل کی اصلاح بھی ضروری ہے۔ دل میں اللہ کی محبت اور ایمان کا ہونا لازم ہے۔ قلب اور عقل کے بغیر صرف نفس کو قابو کر لینا تو جوگ ہے۔ اسی طرح صرف دل کی اصلاح بھی کافی نہیں ہے۔ اگر دل کی اصلاح کر لی مگر نفس کی اصلاح نہ کی تو نفس کے راستے دل میں دوبارہ گندگیاں آ جائیں گی۔ اسی طرح صرف عقل کی اصلاح بھی کافی نہیں ہے بلکہ تینوں چیزوں کی اصلاح ضروری ہے۔
امید ہے اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ ہم نقشبندی سلسلہ میں سلوک سے پہلے جس جذب کی بات کرتے ہیں اس سے مراد جذب کسبی ہے، جذب کسبی اس لئے حاصل کیا جاتا ہے تاکہ سالک مقامات سلوک طے کرنے کے لئے تیار ہو سکے۔ جیسے ہی بقدر ضرورت جذب کسبی حاصل ہو جاتا ہے فوراً سالک کو سلوک طے کرنے پر لگا دیا جاتا ہے۔ جبکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظ میں جس جذب کی بات ہو رہی ہے اس سے مراد جذب وہبی ہے، سلوک طے کرنے کے بعد جب سالک فنا فی اللہ ہو جاتا ہے تب اللہ پاک کی طرف سے یہ جذب عطا کیا جاتا ہے۔ شیطان کو یہی جذب وہبی اور فنا فی اللہ حاصل نہیں تھا، اس لئے وہ اپنا نقصان کر بیٹھا۔ نیز جذب کسبی والا طریقہ صرف سلسلہ نقشبندیہ میں ہے باقی تینوں سلاسل پہلے سلوک طے کراتے ہیں، سلوک کی تکمیل اور فنائیت کے حصول کے بعد اللہ پاک جذب وہبی عطا فرما دیتے ہیں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ نصیب فرما دے۔
سوال نمبر19:
حضرت جی میرے ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا تھا کہ پہلے فرض عین علم حاصل کرنا چاہیے اس کے بعد عربی زبان کی تعلیم اور باقی فرض کفایہ درجہ کے علوم حاصل کر سکتے ہیں۔ میں فرض عین کورس کے لئے تیار ہوں۔ میں نے کچھ سالوں پہلے تعلیم الاسلام پڑھی تھی اب ان شاء اللہ دوبارہ شروع کروں گی۔
جواب:
ہمارے ہاں خواتین کے لئے فرض عین علم کورس کا افتتاح ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی عربی کا کورس بھی شروع ہو رہا ہے، میں انتظامیہ سے کہوں گا کہ آپ کو بھی کورس میں شامل کر لیں۔ فرض عین کورس کا طریقہ یہ ہے کہ وٹس ایپ پہ ہی آپ کو لیکچرز بھیجے جائیں گے، آپ ان کو سنیں گی۔ کورس کی تکمیل کے بعد وٹس ایپ پر ہی آپ سے امتحان لیا جائے گا۔ یہ تقریباً دو اڑھائی مہینے کا کورس ہے، آپ اس میں اپنا نام رجسٹر کروا لیں اور کورس مکمل کر لیں۔
سوال نمبر20:
حضرت ہمارے معاشرہ میں جس طرح دوسرے دینی کاموں کو اہمیت دی جاتی ہے، تصوف کو ویسی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس کی کیا وجہ ہے، نیز یہ فرما دیجئے کہ تصوف کی کتنی اہمیت ہے؟
جواب:
حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے ایک ساتھی نے پوچھا کہ حضرت آپ بھی وہی اعمال کرتے ہیں جو ہم کرتے ہیں، آپ بھی نماز پڑھتے ہیں ہم بھی نماز پڑھتے ہیں، آپ بھی ذکر کرتے ہیں ہم بھی ذکر کرتے ہیں، آپ بھی تلاوت کرتے ہیں ہم بھی تلاوت کرتے ہیں۔ جو اعمال ہم کرتے ہیں وہی آپ کرتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ آپ آپ ہیں اور ہم ہم ہیں، ایسا کیوں ہے، آپ میں اور ہم میں فرق کیا ہے؟
حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جملے میں اس سوال کا جواب دیا، فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے اعمال آپ کا نفس کھا جاتا ہے۔
اس بات کو سمجھیں کہ نفس اعمال کیسے کھا جاتا ہے۔ مثلاً جو آدمی صوفی نہیں ہو گا وہ جو بھی اچھا عمل کرے گا، اس کی نظر خود اپنے اوپر جائے گی کہ یہ نیک عمل میں نے کیا۔ جبکہ صوفی آدمی کی نظر اپنے اوپر کبھی نہیں جائے گی، اس کی نظر اللہ پر جائے گی، وہ سوچے گا کہ یہ محض اللہ کا کرم ہے کہ اس نے نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائی، دوسرے نمبر پر اس کی نظر اپنے شیخ پر جائے گی کہ میرے شیخ کی رہنمائی کی وجہ سے میری اصلاح ہوئی جس وجہ سے مجھ سے نیک عمل صادر ہوئے ورنہ میں اس قابل کہاں تھا۔ تصوف کے ذریعہ سب سے بڑی چیز یہی حاصل ہوتی ہے کہ اپنے اوپر نظر نہیں جاتی۔
دوسری بات یہ دیکھیں کہ انسان کے سارے اچھے اعمال نفس کھا جاتا ہے، اس لئے نفس کا علاج کرنا چاہیے۔ اور اس کے بعد قلب اور عقل کا علاج کرنا چاہیے۔ ان تینوں کا علاج تصوف کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اب آپ غور کریں کہ جس کام کی وجہ سے انسان کے اعمال محفوظ رہتے ہیں، انسان جہنم سے بچ جاتا ہے، نفس اور شیطان کی ریشہ دوانیوں سے بچ جاتا ہے وہ کام کتنا ضروری ہو گا۔ پہلے وقتوں میں تصوف باقاعدہ ایک لازمی چیز ہوتی تھی۔ لوگ پہلے شریعت کا علم حاصل کرتے اس کے بعد فوراً کسی شیخ کامل کی تلاش میں نکلتے، باقاعدہ قافلوں کی صورت میں جاتے تھے۔ اگرچہ معاشرے کے اندر اس کی اہمیت کم ہے لیکن ہمیں اس کی اہمیت کا احساس کرنا چاہیے۔
معاشرے میں تصوف کی اہمیت کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دین کے معاملے میں ہر ایک کی اپنے اوپر نظر ہے ہر آدمی کہتا ہے کہ میں خود سب کچھ کر سکتا ہوں، حالانکہ وہ دنیا کے سارے کام خود نہیں کرتا، دنیا میں انجینئر کا کام انجینئر سے لینا چاہتا ہے، ڈاکٹر کا کام ڈاکٹر سے لینا چاہتا ہے، استاذ کا کام استاذ سے لینا چاہتا ہے، لوہار کا کام لوہار سے لینا چاہتا ہے لیکن دین کے بارے میں ہر آدمی یہ رویہ رکھتا ہے کہ قرآن بھی خود سیکھنا چاہتا ہے، حدیث، فقہ اور تصوف بھی خود سیکھنا چاہتا ہے، ان کاموں کے لئے کبھی کسی کے پاس نہیں جاتا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ تصوف کی اہمیت کا احساس نہیں ہے۔ سب سے پہلے اپنی کمی کا احساس کرنا ہوتا ہے، پھر اس کمی کو پورا کرنے کے لئے کسی علم کی ضرورت ہوتی ہے اس کے بعد اس علم کے سکھانے والے کے پاس جانا پڑتا ہے اور ہمیں صحیح معنوں میں انسان بنانے والا علم یہی تصوف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔
کہتے ہیں پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ مستقل مزاجی سے اپنے راستے پر چلتے رہیں، ایک دن منزل پر پہنچ جائیں گے۔ دو باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ غفلت بھی ٹھیک نہیں اور تعجیل بھی ٹھیک نہیں۔ غفلت میں یہ ہوتا ہے کہ جو کرنا چاہیے وہ نہیں کیا جاتا۔ تعجیل میں یہ ہوتا ہے کہ جس چیز سے بچنا ہوتا ہے اسی میں توجہ لگا دی جاتی ہے۔ ان دونوں چیزوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ تعجیل میں یہ ہوتا ہے کہ مثلاً آپ بہت بھوکے ہیں، آپ کو سخت بھوک لگی ہے، آپ روٹی پکانا چاہتے ہیں یا سالن پکانا چاہتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ بس ایک منٹ میں کھانا تیار ہو جائے، ایک منٹ میں کھانا تیار تو نہیں ہو گا بلکہ خراب ہو جائے گا، جل جائے گا، کچھ روٹی کچی اور کچھ جلی رہ جائے گی جس کے نتیجے میں پیٹ خراب ہو جائے گا۔ جلدی مچانے سے کام خراب ہوتا ہے اور غفلت سے بھی کام خراب ہوتا ہے۔ اس کے درمیان درمیان رہنا ہے، غفلت سے نکلنا ہے تعجیل سے بچنا ہے۔
کلام
یہ اچھلنا یہ کودنا یہ بزرگی تو نہیں
بزرگ سمجھنا اپنے آپ کو بندگی تو نہیں
پچاس ہزار سال عبادت اولیاء سمجھنا
اپنے خود ساختہ جذب کو یہ بے شرمی تو نہیں
اپنی خود ساختہ اداؤں پہ جو نازاں تم ہو
تم جس کو نور ہو سمجھے یہ تیرگی تو نہیں
نقشبندیت میں اچھل کود یہ کیا کہتے ہو
نفس کی خواہش ہے یہ تقلیدِ سرہندی تو نہیں
نقشبندیت ہے با وقار طریقہ سلوک
یہ تیرا طرز نمائندگی اس کی تو نہیں
کاش تم شبیرؔ کی یہاں مان لو اور سمجھ جاؤ
آنا اک بار ہے وہاں سے پھر واپسی تو نہیں
تشریح:
پاکستان میں ایک فرقہ ہے جس کے لوگ اپنے آپ کو نقشبندی مجددی کہتے ہیں، لیکن ان کی مجالس میں صرف اچھل کود ہوتی ہے۔ لوگ ایسے بے اختیار ہو جاتے ہیں کہ ان کو پکڑنے کے لیے چار پانچ لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر پچاس ہزار سال کوئی عبادت کرے تب اس مقام پہ پہنچے گا۔ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہمیں سلطان الاذکار حاصل ہو گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو نقشبندی کہتے ہیں حالانکہ طریقۂ نقشبندیہ انتہائی خاموشی اور وقار والا طریقہ ہے۔ مذکورہ بالا کلام انہی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا گیا ہے۔
کلام
کیا کہا تازہ جام و مینا کا
ہم شراب کہن کے ہیں رسیا
تشریح:
ہمارے ایک ساتھی ہیں، ایک مرتبہ میں نے انہیں کوئی کلام بھیجا تو انہوں نے کہا: کیا تازہ جام و مینا ہے؟ تو اس پر میں نے یہ جواب دیا تھا۔
یہ پرانی محبت ڈھونڈنے واسطے
جذب کسبی کا جو ہے ہاتھ تھاما
سب پرانا ہے گو کہ دور نیا ہے
پھر کروں کیا میں نے یہ خوب سوچا
مذہب تو آخری بتاتا ہے بات
سائنس جدید کو سامنے ہے لاتا
ساتھ مشکلات بھی لاتا ہے جدید
آخری بات تک نہیں پہنچ پاتا
کیونکہ سائنس تو ہے ترقی پذیر
اور جو مذہب ہے ترقی یافتہ
تو ترقی پذیر کے واسطے چھوڑنا
ترقی یافتہ بے وقوف کا نعرہ
یوں بے وقوف ہمیں بننا نہیں
شبیرؔ اس سے بچائے ہم کو اللہ
وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن