سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 351

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر1

حضرت آپ کے سلسلے میں جو ختمِ قرآن کی ترتیب ہوتی ہے کیا میں اس میں شرکت کر سکتی ہوں، اس کا کیا طریقۂ کار ہے۔

جواب:

الحمد للہ دو ختموں کا سلسلہ پہلے سے کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ خواتین اپنے گھروں میں ختم کرتی ہیں جب قرآن پاک مکمل ہو جاتا ہے تو ہمیں اطلاع مل جاتی ہے پھر ہم دعا کرا دیتے ہیں۔ خواتین کے اصرار پر ہم نے تیسرا ختم قرآن بھی شروع کرایا ہے۔ آپ اس میں شامل ہو سکتی ہیں۔ آپ کو بتا دیا جائے گا کہ کون سا سپارہ آپ کے لئے ہے۔

سوال نمبر2

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی میں قرآن پاک مع تجوید سیکھنے کے لئے مفتی اسماعیل طورو صاحب کی ویڈیوز  اور آڈیوز کی مدد لینا چاہتا ہوں۔ آپ کی اجازت اور دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ استقامت اور قرآن پاک کو صحیح پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

جواب:

آڈیوز کے بارے میں تو یقیناً اجازت ہی اجازت ہے کیونکہ تجوید کے ساتھ قرآن پاک کو سیکھنا ایک اچھا عمل ہے۔ چاہے جس کی آڈیو سے بھی تجوید سیکھیں اگر ان کی اپنی تجوید صحیح ہو تو اس کو ضرور سنیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔ آج کل ایسی سی ڈیز ملتی ہیں جو تجوید سکھاتی ہیں، نیٹ پر بھی اس قسم کی معلومات ملتی ہیں، ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

ویڈیوز کے بارے میں یہ عرض ہے کہ حضرت مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ سے ایک دفعہ ٹیلی  ویژن والوں نے کہا تھا کہ اگر آپ ٹیلی ویژن پر آنے کے لئے تیار ہو جائیں تو لوگوں کو بڑا فائدہ ہو گا۔ حضرت نے جواب دیا تھا کہ ہم جائز طریقوں سے دین کے فروغ کے مکلف ہیں، نا جائز طریقوں سے دین کے فروغ کے مکلف نہیں ہیں۔ اس لئے بے شک قرآن پاک کی تجوید ہی کیوں نہ ہو، اس کے لئے ویڈیوز والا طریقہ جائز نہیں ہے۔ جن حضرات نے ویڈیوز کو جائز قرار دیا ہے وہ بھی اب پریشان ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے ایک طوفان برپا ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے حفاظت نصیب فرمائے۔ اچھے اچھے لوگ جو ان چیزوں سے بچنا چاہتے تھے، وہ بھی ان میں پڑ گئے ہیں۔ اللہ جل شانہ اس کے شر سے ہم سب کو محفوظ فرمائے۔ 

سوال نمبر3:

السلام علیکم۔ میرے اندر یہ غلطیاں ہیں:

(1) غصہ زیادہ آتا ہے بعض اوقات اس کے تقاضے پر عمل بھی ہو جاتا ہے۔

(2) جو مجلس ذکر  یا درود شریف میں نہ بیٹھے اس سے دل متنفر ہو جاتا ہے۔

(3) صبر کا مادہ نہیں ہے۔

(4) عجب کا مرض ہے۔

(5) مال کی محبت ہے۔

جواب:

غصہ زیادہ آنا کوئی مسئلہ نہیں ہے، غصہ کا غلط اظہار کرنا مسئلہ ہے۔ بعض موقعوں پہ غصہ آنا ضروری ہوتا ہے لیکن غصہ کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ موقع محل دیکھ کے اس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اگر موقع ہو تو غصہ کرنا چاہیے، موقع نہ ہو تو نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے لئے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ شریعت کے مطابق ہم کہاں پر غصہ کر سکتے ہیں، کہاں نہیں کر سکتے اور کتنا کر سکتے ہیں؟ مثلاً ایک قاری صاحب پڑھا رہے ہیں، ان کے لئے ضروری ہے کہ جو طالب علم نہیں پڑھتے انہیں تنبیہ کریں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تنبیہ کس حد تک ہونی چاہیے؟ اس کا آسان فارمولا یہ ہے کہ ایک تو اس تنبیہ کرنے میں نفس شامل نہ ہو، دوسرا یہ کہ جتنی ضرورت ہو اتنی تنبیہ کرے اس سے زیادہ نہ ہو۔ اگر ایسی تنبیہ کرتا ہے تو یہ محمود ہے۔ لیکن اگر اس تنبیہ میں نفس شامل ہو، تو پھر غصہ کا اظہار کرنا جائز نہیں ہو گا مثلاً ایک تھپڑ سے کام ہو سکتا ہو لیکن اِس کا نفس چاہے کہ اسے دو یا تین تھپڑ لگا دوں تو صرف اپنی چاہت اور اپنے نفس کے تقاضا کی وجہ سے ایک تھپڑ زیادہ لگانا جائز نہیں ہو گا۔ بس اتنا کافی ہے جس سے اس کو فائدہ ہو جائے۔ بعض بچے بالکل نا سمجھ ہوتے ہیں۔ اگر ان کو مارا جائے تو ان کو پتا بھی نہیں چلتا کہ ہمیں کیوں مار پڑی۔ مار کھانے کے بعد دوبارہ وہی حرکت کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسے بچوں کو سمجھانے کے لئے کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ ان کو سمجھانے کے لئے دوسرے طریقے استعمال کرنے چاہئیں۔ جتنی تنبیہ کی ضرورت ہو اتنی ہی کرنی چاہیے اس سے زیادہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔

غصہ کے شرور سے محفوظ رہنے کا ایک فوری علاج ہے اور ایک مستقل علاج ہے۔ مستقل علاج یہ ہے کہ پورا سلوک طے کیا جائے جبکہ فوری علاج یہ ہے کہ:

جب غصہ آئے تو یہ سوچے کہ اگر مجھ پر اللہ پاک کا غصہ ہو تو میں کیا چاہوں گا؟ اگر میں اللہ پاک سے مغفرت کا طلب گار ہوں گا اور چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے تو مجھے بھی معاف کر دینا چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب کسی پہ غصہ آئے تو فوراً اس کا اظہار نہیں کرنا چاہیے اور فوراً سزا نہیں دینی چاہیے بلکہ کچھ وقت رک کر اس بات پہ سوچ و بچار کی جائے کہ جس پہ غصہ آ رہا ہے اس کی کتنی غلطی ہے اور اس پہ کتنی سزا دینے کی ضرورت ہے، اس کے بعد مناسب اور مہذب طریقے سے غصہ کا اظہار کیا جائے اور ضرورت کے مطابق سزا دی جائے۔

اگر غصہ کنٹرول سے باہر ہو رہا ہو تو جس پہ غصہ آ رہا ہے، اگر وہ چھوٹا ہے تو اسے اپنے سامنے ہٹا دے، اگر بڑا ہے تو خود وہاں سے ہٹ جائے۔ اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو لیٹ جائے، پانی پی لے۔ اپنے آپ کو کسی کام میں مصروف کر دے تاکہ وہ وقت گزر جائے جس میں غصہ کا غلبہ ہوتا ہے، کیونکہ یہ تھوڑی دیر کے لئے ہوتا ہے اس کے بعد عقل آ جاتی ہے۔

آپ نے لکھا ہے کہ جو مجلس ذکر  یا درود شریف میں نہ بیٹھے اس سے دل متنفر ہو جاتا ہے۔

آپ کا یہ عمل درست نہیں ہے۔ اگر کوئی مجلس ذکر یا درود شریف کی مجلس میں نہیں بیٹھتا تو اس سے متنفر ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ ذکر علاجی ہو گا یا ثوابی ہو گا، درود شریف تو ہے ہی ثوابی ذکر۔ ثوابی ذکر مستحب ہوتا ہے اور مستحب کے ترک پر  ملامت کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسا کام نہ کرے جسے چھوڑنے پر دین میں کوئی ملامت نہیں ہے تو اس سے متنفر نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں اگر کوئی آدمی ثوابی ذکر نہیں کرتا تو اسے ترغیب ضرور دی جا سکتی ہے۔ ایسے آدمی کو ثوابی ذکر کی ترغیب دی جائے، ذکر اور درود پاک کے فضائل بتائے جائیں کیونکہ عین ممکن ہے اس کو فضائل معلوم نہ ہوں یا اس کا احساس نہ ہو۔ بہرحال ترغیب دے سکتے ہیں لیکن ملامت نہیں کر سکتے اور متنفر ہونا تو کسی طور پر درست نہیں ہے۔ واجب اور سنت مؤکدہ کے ترک پر ملامت کی جا سکتی ہے لیکن مستحب کے ترک پر ملامت نہیں کر سکتے۔

ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔ ایک بزرگ رات کو تہجد کے لئے اٹھے تو ان کے ساتھ ایک بچہ بھی اٹھ گیا۔ دونوں نے تہجد کی نماز پڑھی۔ بچہ کہنے لگا: حضرت اللہ کا شکر ہے اللہ پاک نے ہمیں تہجد کی نماز نصیب فرمائی، دیکھیں باقی سب لوگ سو رہے ہیں انہوں نے تہجد نہیں پڑھی۔ حضرت نے فرمایا: کاش آپ بھی تہجد نہ پڑھتے، کیونکہ دوسروں کے بارے میں غیبت کرنا حرام ہے جبکہ تہجد پڑھنا مستحب عمل ہے۔ آپ ایک مستحب عمل کر کے خوش ہو رہے ہیں اور حرام کام کا ارتکاب کر بیٹھے ہیں۔ اگر آپ بھی تہجد نہ پڑھتے تو اچھا تھا، کم از کم غیبت سے تو بچے رہتے۔

مستحب عمل کی ترغیب دینی چاہیے۔ جو چیز انسان خود پسند کرتا ہے دوسرے کے لئے بھی اسے پسند کرنا چاہیے لیکن متنفر نہیں ہونا چاہیے۔ مثلاً آپ کسی کو حلوہ کھلانا چاہتے ہیں اور وہ نہیں کھا رہا تو کیا آپ اس سے متنفر ہو جائیں گے؟ ظاہر ہے آپ اسے ترغیب دے سکتے ہیں لیکن متنفر ہونا کوئی عقلمندی کی بات نہ ہو گی۔ اس کی مرضی ہے چاہے کھائے یا نہ کھائے۔

ایک پوائنٹ آپ نے یہ لکھا ہے کہ آپ میں صبر کا مادہ نہیں ہے۔

در اصل انسان کے اندر بے صبری کا مادہ ہوتا ہے صبر کا مادہ نہیں ہوتا، صبر پیدا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس بے صبرا ہے، اس میں زبردستی صبر پیدا کرنا پڑتا ہے، اسے صبر کی عادت ڈالنی پڑتی ہے۔ اسی کے لئے مجاہدہ ہے، اسی کے لئے تمام ترتیبیں ہیں۔ ان ترتیبوں اور طریقوں پہ عمل کرنا پڑے گا۔

عجب کے مرض کا علاج بہت آسان ہے۔ عجب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھنے لگتا ہے۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ اس میں عجب ہے، وہ اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو یہ کہے کہ اگر پہلے تم اچھے تھے بھی تو اب اچھے نہیں رہے۔ کیونکہ اب تم نے اپنے آپ کو اچھا سمجھ لیا، تم میں عجب آ گیا ہے اور عجب حرام ہے، حرام کے مرتکب ہو کر تم کیسے اچھے ہو سکتے ہو۔ اس سوچ کے ذریعے خود ہی عجب کا علاج ہو جائے گا۔ جب کوئی اپنے آپ کو حرام کا مرتکب سمجھے گا تو پھر عجب کیوں کرے گا پھر تو عجب کر ہی نہیں سکتا۔ عجب تو تب ہو گا جب اپنے آپ کو بزرگ سمجھتا ہو، اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہو۔ اگر اپنے اندر اپنے کو اچھا سمجھنے کی برائی کا احساس کر کے اپنے آپ کو برا سمجھے گا تو عجب خود بخود ختم ہو جائے گا۔ عجب کا یہی علاج ہے۔

جہاں تک مال کی محبت کی بات ہے، اس کا واقعی علاج کرنا چاہیے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ سب مالی فرائض پورے کیے جائیں جیسے زکوٰۃ، فطرانہ وغیرہ دل پہ جبر کر کے ادا کرتے رہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی اچھے لوگوں کی دعوت کرنی چاہیے تاکہ نفس کے اوپر زد پڑے اور مال کی محبت کم ہو۔ بہرحال یہ فوری علاج ہے۔ اصل علاج وہی ہے کہ نفس کی اصلاح کرائیں اور سلوک طے کریں۔ مقامات سلوک میں ایک مقام قناعت آتا ہے اس کے بعد ایک مقام زہد آتا ہے، یہ مقامات تفصیل سے طے ہو جائیں تو ان شاء اللہ مال کی محبت ختم ہو جائے گی۔

سوال نمبر4:

حضرت جی مجھ میں یہ خامی ہے کہ باطنی شریعت پر چلنے میں کمی محسوس کرتا ہوں۔

جواب:

باطنی شریعت تو بہت وسیع ہے۔ ذرا غور و فکر کرکے متعین کریں کہ وہ کون کون سے باطنی شعبے ہیں جن میں آپ کمی محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً خشوع ایک باطنی شعبہ ہے، تواضع اور اخلاص وغیرہ یہ سب باطنی شعبے ہیں۔ آپ بتا دیں کہ وہ کون سا شعبہ ہے جس میں آپ کمی محسوس کرتے ہیں تاکہ اس کے مطابق جواب دیا جا سکے۔ اگر آپ اپنے اندر تکبر اور عجب محسوس کرتے ہیں تو عجب کا علاج میں نے کئی بار عرض کیا ہے کہ جب انسان کو اپنے اندر عجب محسوس ہو تو یہ سوچے کہ پہلے اگر میں اچھا بھی تھا تو اب اچھا نہیں ہوں کیونکہ اب میرے اندر عجب آ گیا ہے اور عجب حرام ہے، ایک حرام کا مرتکب ہوتے ہوئے میں اچھا کیسے ہو سکتا ہوں۔

عجب اور تکبر میں فرق یہ ہے کہ عجب میں صرف اپنے آپ کو اچھا سمجھا جاتا ہے جبکہ تکبر میں دوسروں کو حقیر بھی سمجھا جاتا ہے۔ جسے لگتا ہو کہ اس میں تکبر کی بیماری ہے وہ اپنے آپ کو سمجھائے کہ جسے میں حقیر سمجھ رہا ہوں، عین ممکن ہے کسی عمل کی وجہ سے وہ اللہ کی بارگاہ میں مجھ سے اچھا ہو یا بعد میں کوئی اچھا عمل  کر کے مجھ سے زیادہ درجہ کا مستحق ہو جائے اور اسے حقیر سمجھنے کی سزا کے طور پر میرا درجہ مزید پست کر دیا جائے۔ اس کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ انسان انجام پہ نظر کر لے کہ بعد میں کیا ہو سکتا ہے۔ شیطان کے انجام کو ذہن میں لائے کہ شیطان بھی تکبر کی وجہ سے مارا گیا تھا۔

﴿أَبٰی وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِيْنَ (البقرۃ: 34)

ترجمہ: ”اس نے انکار کیا اور متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور کافروں میں شامل ہو گیا“۔

حالانکہ شیطان بہت بڑا عالم و فاضل اور عابدو زاہد تھا لیکن صرف تکبر کی وجہ سے مار کھا گیا۔

تکبر کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کلین شیو کو اپنے سے کم سمجھنا اور خود کو ایسے لوگوں سے بہتر سمجھنا۔ گناہ کو گناہ سمجھنا تو لازم ہے لیکن گناہ گار کو حقیر سمجھنا لازم نہیں ہے۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ یہ گناہ گار ابھی توبہ کر لے اور آپ سے بھی اچھا ہو جائے۔ گناہ تو گناہ ہی رہے گا لیکن وہ آدمی توبہ کرنے کے بعد گناہ گار نہیں رہے گا۔ لہذا گناہ کو برا سمجھنا چاہیے مگر گناہ گار کی حقارت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنا چاہیے، اس کے لئے دعا کرنی چاہیے اور اسے اپنے آپ سے مآل میں ممکنہ طور پر اچھا سمجھنا چاہیے۔ یہ سوچا جائے کہ عین ممکن ہے وہ کسی ایسے گناہ میں مبتلا ہو جو توبہ کرنے سے مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہو جبکہ میں تو تکبر میں مبتلا ہوں اس کا علاج بہت مشکل ہے، اس لحاظ سے میرا مرض زیادہ قوی ہے، میری برائی اس سے زیادہ بڑی ہے۔ اس برائی کے ہوتے ہوئے میں اپنے آپ کو کیسے اچھا سمجھ سکتا ہوں۔ ان طریقوں پہ عمل کرنے سے ان شاء اللہ وقتی طور پر علاج ہو جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ مستقل علاج کے لئے اپنی تربیت کرواتے رہیں۔

سوال نمبر5:

حضرت جی۔ ظاہری طہارت میں علماء کرام اور ہمارے سلسلے کے حضرات کے علاوہ باقی سب سے اپنی طہارت کو بہتر سمجھتا ہوں۔ باقی لوگوں کے بارے میں اچھا گمان رکھنا محال ہے، اس لئے جماعت کی امامت خود کرواتا ہوں۔

جواب:

اول تو فقہی مسائل کے اندر جو وسعتیں ہیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ان کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ دوم یہ کہ اگر آپ کو دوسرے لوگوں پر شک کرنے کی بیماری ہو اور آپ اپنے آپ کو دوسروں کی نسبت زیادہ پاک سمجھتے ہیں، صرف شک کی بنا پر دوسروں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تو یہ غلط بات ہے۔ اگر کوئی واقعتاً طہارت کا خیال نہیں کرتا اور اس بارے میں آپ کو یقینی طور پر معلوم ہے تو پھر آپ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ دل میں اس کے ساتھ یہ رویہ رکھیں کہ اس کے گناہ کو ضرور برا سمجھیں لیکن اس گناہ گار کی حقارت دل میں نہیں لانی چاہیے، بالخصوص علماء کرام کے بارے میں ہمیشہ اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ 

سوال نمبر6: 

کسی کے تعریف کرنے پر زبان سے اس کا انکار کرنا لیکن دل میں خوشی کا پیدا ہونا کیسا ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے۔ 

جواب:

جو خوشی غیر اختیاری ہے، وہ ہو یا نہ ہو اس پہ آپ سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ وہ ہوتی رہے آپ اس میں اختیار کو شامل نہ ہونے دیں۔ اپنے آپ کو یہ سمجھائیں کہ کسی کے تعریف کرنے سے کیا ہوتا ہے، اصل تعریف تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے، اگر اللہ تعالیٰ تعریف فرمائے تو پھر خوشی کی بات ہے ورنہ بندے کے تعریف کرنے سے کیا ہوتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ میں خوش فہمی میں مبتلا ہو جاؤں اور مجھے نقصان ہو جائے، لہٰذا بندہ میری تعریف نہ ہی کرے تو اچھا ہے۔ اپنی تعریف سے دل کا تنگ ہونا فطری بات ہے اور اپنی تعریف پر خوش ہونا کمزوری کی بات ہے۔ اپنی تعریف پر خوش نہیں ہونا چاہیے بلکہ ڈرنا چاہیے کہ مبادا اس کی وجہ سے میں کسی وبال میں نہ پڑ جاؤں۔ 

سوال نمبر7:

حضرت جی۔ جب کسی کی پروموشن ہو تو دل میں خیال آتا ہے کہ میری بھی ہو جائے لیکن اس خیال کو یہ سوچ کر دفعہ کرتا ہوں کہ میں بہت سے لوگوں سے بہتر پوزیشن  پر ہوں۔ حضرت جی! باطن کے متعلق سوچوں تو بڑی پیچیدگی محسوس ہوتی ہے اور شک میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔ بس اس بات کی تسلی ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے آپ سے تعلق کی عظیم نعمت عطا فرمائی ہے تو آپ کے فیوض و برکات سے اصلاح بھی ہو جائے گی۔

جواب:

یہ ایک اچھا گمان ہے اور ہمیں اچھا گمان ہی کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی سے اچھی امید رکھنی چاہیے لیکن اس وجہ سے اپنے آپ کو اچھا نہیں کہنا چاہیے ہاں اپنے آپ کو اس وجہ سے خوش قسمت ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اللہ پاک نے اچھا ماحول دے دیا ہے۔

اگر کسی کی پروموشن ہونے پہ آپ کے دل میں یہ بات آ جائے کہ میری پروموشن بھی ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس کو رشک کہتے ہیں۔ رشک جائز ہے، حسد جائز نہیں ہے۔ حسد اس کو کہتے ہیں کہ کسی کے پاس نعمت دیکھ کر آپ کے دل میں یہ خیال آئے کہ یہ نعمت اس کے پاس نہ رہے۔ یہ حسد ہے اور حرام ہے۔ البتہ اگر کسی کی پروموشن ہو گئی اور آپ کہتے ہیں اللہ کرے میری بھی ہو جائے بلکہ آپ اس سے دعا کروا لیں جس کی پروموشن ہوئی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے یہ اچھی بات ہے۔ اسے رشک کہتے ہیں، رشک کر سکتے ہیں مگر حسد نہیں کرنا چاہیے، حسد سے بچنا چاہیے۔

سوال نمبر8:

السلام علیکم۔ آج بہت عرصہ بعد ذکر کرنے کی توفیق ہوئی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ توفیق قائم رہے۔ حضرت جی میرا دل کر رہا ہے کہ میں پہلا ذکر چالیس دن تیسرے کلمہ والا دوبارہ کر لوں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟

جواب:

جی ہاں۔ کچھ لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ آپ یوں کریں کہ سانس بھی دو تین ماہ میں بس ایک دو بار لے لیا کریں۔ کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں؟ آپ جیسے لوگوں کو سمجھانا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ بعد میں خود ہی سمجھ میں آ جائے گی۔ یہ بات الگ ہے کہ اس وقت عمل نہیں ہو سکے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے انجام سے ہم سب کو محفوظ فرمائے۔

دیکھیں بیماری کے لئے تو دوائی ہوتی ہے لیکن دوائی چھوڑنے کے لئے کوئی دوسری دوائی نہیں دی جا سکتی۔ انسان خود اپنے بارے میں سوچے میں کہ کدھر جا رہا ہوں۔ اگر خدانخواستہ غلط راستے پہ جا رہا ہے تو خود اپنے آپ کو سمجھائے۔ یہ کم قسمتی کی بات ہوتی ہے کہ آدمی اپنے بھلے کا نہ سوچے۔ دوبارہ ذکر کرنے سے بات نہیں بنتی، کب تک آپ دوبارہ دوبارہ ابتدائی ذکر کرتے رہیں گے۔ ہمت کر کے جو ذکر آپ کو دیا گیا ہے اسی کو صحیح شروع کر لیں۔ اگر آپ زیادہ نہیں کر سکتے تو کم کروا لیں۔ اس طرح آپ کی ترقی کی رفتار بھی کم ہو جائے گی لیکن کم سے کم ذکر جاری تو رہے گا۔  دو باتیں اکٹھی نہیں ہو سکتیں کہ آپ کا ذکر کم ہو اور ترقی زیادہ ہو۔ اگر آپ زیادہ تیز نہیں چل سکتے تو کم رفتار سے چلیں لیکن چلیں تو سہی، دوام تو رکھیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے:

”أَحَبُّ الْأعْمَالِ إلىَ اللهِ أدْوَمُهَا وَ إنْ قَلَّ“ (صحیح بخاری: 6465)

ترجمہ: ”اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ وہ اعمال ہوتے ہیں جو دائمی ہوں اگرچہ کم ہی ہوں“۔

لہٰذا اگر آپ ذکر کم کروانا چاہیں تو اس کے لئے میں تیار ہوں لیکن آپ کی طرف سے دوام ضروری ہے، یہ نہیں کہ کبھی کبھی کر لو اس کے بعد بے فکر ہو جاؤ۔ یہ طریقہ اپنے آپ کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔  

سوال نمبر9:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی بعض اوقات دل حق پر گواہی دینے لگتا ہے، عقل قائل ہو جاتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب بس ایک ہی جست کا فاصلہ ہے لیکن اچانک نفس جاہل ہو جاتا ہے۔ دل عقل کو سمجھاتا ہے کہ مہلت نہیں ہے۔ عقل کہتی ہے ہر کام کا ایک وقت معین ہے۔ یہ کشمش ہو رہی ہوتی ہے کہ کوئی حادثہ آتا ہے اور سب کچھ پس و پیش میں پڑ جاتا ہے۔ ایک عرصہ اسی طرح گزرتا ہے پھر یہی سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔

جواب:

اس میں کوئی شک نہیں کہ نفس کا علاج ضروری ہے۔ نفس  مین سسٹم ہے، دل اور عقل اس کے ساتھ  متعلق ہیں۔ نفس بنیادی چیز ہے اس کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا:

﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (الشمس: 9)

ترجمہ: ” فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے“۔

لہٰذا نفس کا علاج لازمی ہے۔ آپ نے بالکل درست کہا کہ دل حق کی گواہی دینے لگتا ہے۔ جب دل حق کی گواہی دینے لگے تو سمجھ لیں کہ دل بن گیا ہے، اس کو سمجھ آ گئی ہے، عقل بھی قائل ہو گئی ہے لیکن نفس مان نہیں رہا۔ نفس کو منوانے کے لئے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، ہمت کرنی پڑتی ہے، نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے۔ جب تک نفس کی اصلاح نہ ہو جائے اس وقت تک انسان کامیاب نہیں ہو سکتا۔ نفس کی اصلاح کے لئے دس مقامات سلوک طے کرنے کی محنت لازمی ہے۔ جب تک یہ نہ ہو اس وقت تک  سارے معاملے اور چیزیں ڈانواں ڈول رہتی ہیں۔ 

سوال نمبر10:

حضرت جی۔ الحمد للہ خواتین کے گروپ میں ہر ہفتہ سنت بھیجنے کا معمول جاری ہے۔ اب تک یہ سنتیں بھیجی گئی ہیں۔ کھانے کی سنت، سونے کی سنت، قضائے حاجت کی سنت، مسواک کی سنت، وضو کا مسنون طریقہ، غسل کا مسنون طریقہ، نماز کا مسنون طریقہ، لباس پہننے اور اتارنے کا مسنون طریقہ، سلام کے آداب بمعہ مصافحہ و معانقہ۔ حضرت جی رہنمائی کی درخواست ہے کہ آئندہ کون سی سنتیں بھیجی جائیں۔

جواب:

آپ اسوہ رسول اکرم ﷺ“ کا مطالعہ جاری رکھیں۔ روزمرہ کی سنتوں میں سے جن پہ فوراً بغیر کسی حرج کے عمل شروع ہو سکتا ہو۔ وہ شئیر کرنا شروع کر دیں۔ بالخصوص جو سنتیں گھر کے اندرونی ماحول سے متعلق ہیں ان کے بارے میں مطالعہ کر لیں اور ان میں سے منتخب سنتیں گروپ میں بھیجنا شروع کر دیں۔

سوال نمبر11:

محترم المقام حضرت صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ گذشتہ کچھ ماہ سے گومگو کی صورتحال ہے۔ استخارہ کی دعا، طریقہ اور اجازت عطا کیجئے۔ بیرون ملک سے ملازمت چھوڑ کر واپس پاکستان آنا چاہتا ہوں۔ دعا کی درخواست ہے۔

جواب:

انسان کو گو مگو کی کیفیت میں نہیں رہنا چاہیے۔ جب ایسی کیفیت ہو تو شرح صدر کے لئے یہ دعا کرے: 

﴿رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِي يَفْقَهُوْا قَوْلِي (طٰهٰ: 25-27)

ترجمہ: ”پروردگار ! میری خاطر میرا سینہ کھول دیجیے۔ اور میرے لیے میرا کام آسان بنا دیجیے۔ اور میری زبان میں جو گرہ ہے اسے دور کر دیجیے“۔

جس چیز میں تردد ہے اس کے بارے میں استخارہ بھی کرے۔ استخارہ کی دعا کا طریقہ اور دعا مسنوں دعاؤں کی کتب میں لکھے ہوئے ہیں۔ بہشتی زیور میں دیکھ لیجئے گا وہاں اس کا طریقہ لکھا ہوا ہے  کہ عشاء کی نماز کے بعد دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھ لے اس کے بعد استخارہ کی دعا کرے اور دعا میں جہاں ”ھٰذَا الْاَمْر“ کے الفاظ آتے ہیں وہاں اس کام کا تصور کر لے جس کام کے بارے میں تردد ہو۔

یاد رہے کہ لوگ استخارہ کی نماز کے بعد نیند اور خواب ضروری سمجھتے ہیں۔ حالانکہ استخارہ میں خواب اہم نہیں بلکہ شرح صدر اہم ہے۔ استخارہ کے بعد آپ کے دل میں جو بات مضبوطی سے جم جائے وہی اس کا جواب ہے۔

استخارہ کے لئے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ آپ ﷺ کی سنت ہے، سنت میں سب کے لئے اجازت ہوتی ہے کسی اور سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ آپ ﷺ کی طرف سے اجازت ہے لہذا اس میں کسی اور سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اپنا استخارہ خود کر لیں دوسروں سے استخارہ کروانا آپ ﷺ سے ثابت نہیں ہے، نہ کسی صحابی کا دوسرے صحابی کے لئے استخارہ کرنا ثابت ہے۔ اگر کسی کو علم ہو تو ہمیں بتا دے ہمیں تو ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا۔  

سوال نمبر 12: 

شیخ صاحب میری اہلیہ آپ سے بیعت کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لئے خانقاہ آنا ضروری ہے یا فون پہ بھی ہو سکتی ہے؟ اس سلسلہ میں رہنمائی فرمائیں۔ 

جواب:

خواتین کے لئے ہم نے خانقاہ آنا لازم نہیں کیا ہے، ان کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ ٹیلی فون پر بیعت ہو جائیں۔ اگر خانقاہ میں آئے گی تب بھی انٹرکام کے ذریعے سے ہی بیعت ہو گی، لہٰذا بات تو ایک ہی ہے، آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل، چاہے آپ خانقاہ میں بیٹھی ہوں چاہے گھر میں بیٹھی ہوں بیعت تو فون کے ذریعے ہی ہو گی۔ البتہ خواتین کے لئے ہم یہ ضرور سفارش کرتے ہیں کہ اتوار کے دن 11 سے 12 بجے کے دوران خواتین کے لئے مخصوص بیان ہوتا ہے اس میں آ جایا کریں کیونکہ اس کا اپنا ایک فیض ہے۔ یہاں آ کر جب دوسری خواتین کے ساتھ بیٹھتی ہیں بیان سنتی ہیں تو ان کا اپنا ایک ماحول بن جاتا ہے اور ایک دوسرے سے اثر لیتی ہیں۔ اس بیان کے لئے تو خانقاہ آ سکتی ہیں لیکن بیعت کے لئے آنے کی ضرورت نہیں ہے، بیعت ٹیلی فون پر ہو سکتی ہے۔ ٹیلی فون پر بیعت کا وقت سوا دو بجے دن ہے۔ دن کے سَوا دو بجے کال کر کے بیعت کر لیں۔ پہلے مجھے میسج کر لیں تاکہ میں alert رہوں، کال سے پہلے وضو بھی کر لیں تو زیادہ بہتر ہے اس طریقے سے ان شاء اللہ بیعت ہو جائے گی۔

سوال نمبر13: 

ایک صاحب کے ہاں بیٹی ہوئی ہے۔ وہ ان ناموں میں سے کوئی بھی نام پوچھ رہے ہیں اور عقیقہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ انہوں نے یہ نام بھیجے ہیں:

ابیحہ، مناہل، حوریہ، ہنیہ، ماہ نور۔

جواب:

یہ سارے ماڈرن قسم کے نام دکھائی دیتے ہیں۔ یہ نام بھی رکھ سکتے ہیں کوئی حرج نہیں ہے لیکن صحابیات کے نام پہ رکھنا یا کوئی ایسا نام رکھنا جس کا معنیٰ اچھائی کے لحاظ سے واضح ہو، ہمارے بزرگوں نے اس پہ اعتماد کیا ہو تو میرے خیال میں وہ زیادہ بہتر ہے۔ اگر آپ نے انہی ناموں میں سے کوئی نام رکھنا ہے تو مناہل یا حوریہ میں سے کوئی ایک رکھ لیں۔ ماہ نور“ نام بھی ٹھیک ہے، غلط تو نہیں ہے لیکن اس کے معنی میں کوئی سپیشل بات نہیں ہے، جو بھی چاند ہوتا ہے وہ نورانی ہی ہوتا ہے۔ بہرحال اگر یہ نام رکھنا چاہیں تو بھی کوئی حرج کی بات نہیں، لیکن میں یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ مردوں کے لئے عبد اللہ، عبدالرحمٰن، آپ ﷺ کے اسمائے گرامی، صحابہ کرام کے ناموں اور بزرگوں کے ناموں میں سے کوئی نام رکھا جائے۔ اللہ پاک نے ان حضرات کے ناموں میں بھی برکت رکھی ہے اس کو وصول کرنا چاہیے۔ ماڈرن ناموں میں صرف اپنی خواہش پوری کرنے والی بات ہے، برکات نہیں ہوتیں۔

سوال نمبر13:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ الحمد للہ آج مثنوی شریف کی مجلس کا رنگ ہی اور تھا۔ بہت ہی پر نور، گویا یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں خانقاہ کے کونے میں بیٹھا ہوا ہوں اور حضرت بیان فرما رہے ہیں۔ الحمد للہ بہت ہی گہرے علوم کی بارش ہو رہی تھی۔ بہت ہی فائدہ محسوس کیا اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ بالخصوص حضرت والا نے نماز کی حقیقت کو جس انداز سے بیان فرمایا۔ جو نقشہ نماز کا کھینچا، آج تک ایسا نقشہ میں نے نہ کبھی سنا ہے، نہ کبھی سوچا ہے، نہ کبھی تصور میں آیا ہے۔ ہم حقیقت نماز اور پتا نہیں کیا کیا مراقبے کیا کرتے تھے لیکن اس ایک مجلس میں نماز کی جو حقیقت حضرت والا نے کھولی ہے اور جو عجیب انداز سے آپ نے بیان فرمایا ہے وہ بے مثال ہے۔ ہم پہلا درجہ یہ سمجھتے تھے کہ عبادت کرتے ہوئے یہ تصور کرو کہ اللہ کے سامنے ہیں مگر وہ استحضار بھی تمام وقت نہیں رہ پاتا تھا۔ آپ نے فرما دیا  کہ پہلے اس سے نیچے کی سٹیج طے کرو کہ الفاظ کے ساتھ تمھارا دل لگ جائے۔ آپ نے جو نفس کا خاص نقشہ آج کھینچا کہ نفس دل کو آنے نہیں دیتا ہے تو گویا جیسے ذہن میں ایک دم  منظر سا آ گیا کہ کس طرح نفس دل کو روک رہا ہے، زنجیروں سے کھینچ رہا ہے۔ جو قلب و نفس کی کشمکش کی وضاحت فرمائی کہ نفس قلب کو آنے نہیں دیتا، اس کی جو ایک نئے انداز سے تشریح فرمائی وہ بہت فائدہ مند تھی۔ جبلت اور نفس میں جو امتیاز اور فرق آپ نے بیان فرمایا، الحمد للہ خوب وضاحت کے ساتھ سمجھ میں آ گیا۔ اس کے علاوہ آپ نے اس حوالے سے بات کی کہ دور حاضر کا ایک فتنہ ہے کہ سائنس کو ہر چیز پر ترجیح دی جائے اور اسلام کو سائنس کے ذریعے ثابت کرنا چاہیے۔ حضرت نے اس کا  جو منطقی انداز سے عقلی طور پر اور دلائل کے ساتھ خود سائنس کی بنیاد پر رد فرمایا ہے وہ بہت ہی فائدہ مند ہے۔ اس خاص بیان کا بالخصوص ہمارے ہاں بہت ہی فائدہ ہو گا۔

اس بارے میں ایک سوال خدمت اقدس میں عرض ہے کہ حضرت والا نے مثنوی شریف سے یوں فرمایا: اس میں عین کسی شخص کی شناخت کے لئے مقرر کیا ہوا نام مثلاً حمزہ، ابو بکر یا زید، اس کے اصلی معنی مراد نہیں ہوں گے بلکہ صرف اس کی شناخت کے لئے ہوں گے“ حضرت والا نے اس کی تشریح یوں فرمائی کہ ”اگر کسی شخص کا نام بہادر خان رکھ دیں تو وہ بہادر نہیں ہو جائے گا اگر وہ سب سے بزدل شخص ہو یا کمزور ترین شخص ہو اس کا نام بہادر رکھ دینے سے وہ بہادر نہیں ہو جائے گا بس اس کی شناخت ہو گی کہ یہ اس کا نام ہے البتہ اگر کوئی شخص بہادر ہو تو اسے بہادر کہہ سکتے ہیں لیکن اس کا نام نہیں ہو گا اس کا نام وہی ہو گا جو اس کے والدین نے اس کے لئے مقرر کیا ہو“۔

حضرت جی اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نام کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور کسی شخص کی صفات اس کی اپنی ہیں، نام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بات کو ہم کیسے reconcile (مصالحت) کریں اس بات سے جو سرکار دو عالم ﷺ نے فرمائی ہے کہ نام کے اثرات ہوتے ہیں اور ایک حدیث میں فرمایا کہ بچہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اس کو اچھا نام دیا جائے۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اگر نام سے وصفی نسبت کے بلند ہونے  کی توقع اور امید نہ ہو تو اچھا نام دینے کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی شخص کا نام عبد اللہ یا عبد الرحمٰن رکھا گیا ہے تاکہ اس نام کا اس کے اوپر یہ اثر ہو کہ وہ اللہ کا سچا بندہ بنے، اللہ کی اطاعت کرے صادق و امین بنے۔ صرف نام رکھنے سے وہ ایسا بن تو نہیں جائے گا لیکن اس کا روحانی اثر اس کی  شخصیت پر ضرور ہوتا ہے۔ جو تقریر مثنوی شریف میں فرمائی اس سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ نام کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ حضرت اس کو کیسے  reconcile کیا جاوے۔ یقیناً میرے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ اس لئے رہنمائی اور اپنی اصلاح کے لئے آپ کی خدمت میں سوال عرض ہے۔ جزاک اللہ خیراً السلام علیکم و رحمۃ اللہ علیہ و برکاتہ۔

جواب:

ماشاء اللہ اچھا سوال ہے، اچھی فکر ہے۔

اس میں غور طلب بات یہ ہے کہ اچھے نام رکھنا سنت ہے اور اچھے نام کا اثر بھی ہوتا ہے لہذا اچھا نام رکھنا چاہیے لیکن یہ بات یاد رہے کہ صرف اچھا نام رکھنا مطلوب نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی ضروری ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر ماں باپ اس کو نصرانی بنا دیتے ہیں یا یہودی بنا دیتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ صرف فطرت پر پیدا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ کسی کی شخصیت کے اچھا یا برا بننے میں اس کی تربیت کا بھی حصہ ہے۔ ایک شخص نے اچھا نام رکھ لیا لیکن تربیت اچھی نہیں کی تو اچھے نام کا اثر ضرور ہو گا لیکن تربیت نہ کرنے کا نقصان بھی ہو گا اور اگر وہ نقصان غالب آ گیا تو نام کا اثر پیچھے رہ جائے گا۔ اس لئے سارے کام کرنے چاہئیں۔ اس کی مثال دعا کی طرح ہے۔ انسان دعا ضرور کرے، دعا کا حکم دیا گیا ہے:

﴿اُدْعُوْنِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ (مومن: 60)

بلاشبہ دعا کرنی چاہیے لیکن محض دعا پہ رکے نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسباب بھی اختیار کرنے چاہئیں۔ اگر دعا کر لی اور اسباب اختیار نہیں کئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عملی طور پر اپنی دعا کی قبولیت نہیں چاہتا بس زبانی طور پر چاہتا ہے۔ جو لوگ دعا بھی کرتے ہیں اور عملی اسباب بھی اختیار کر رہے ہوں وہ اپنی دعا کی قبولیت عملی طور پر بھی چاہتے ہیں۔ لہٰذا انسان کو اچھا نام بھی رکھنا چاہیے اور اچھا بنانے کے لئے مزید عملی اسباب بھی اختیار کرنے چاہئیں۔

در اصل آپ نے سوال Input کا کیا ہے اور حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے  output کی بات کی ہے، ان دونوں میں فرق ہے۔ Input میں تو مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ بھی اس کے خلاف نہیں ہیں کہ نام اچھا رکھنا چاہیے۔ لیکن اگر کسی میں حقیقت میں وہ صفت نہیں ہے تو صرف نام کی بنا پہ اسے ویسا نہیں مانیں گے۔ مثلاً آپ نے بہادر خان نام رکھ لیا لیکن وہ بہادر نہیں بنا تو اس کو صرف بہادر خان نام کی وجہ سے ہم بہادر نہیں کہہ سکتے۔ نام تو اس کا بہادر خان ہے لیکن وہ حقیقت میں بہادر نہیں ہے۔ یہی حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نام کے لحاظ سے تو اس کو بہادر خان کہا جائے گا اس کی پہچان بہادر خان کے نام سے ہو گی لیکن اس کی صفت بہادر والی نہیں ہے۔ اگر بہادر خان کہہ کر پکارا جائے تو بہادر خان ہی اٹھے گا چاہے وہ بزدل ہی کیوں نہ ہو، حاضری اس کی لگے گی۔ جب کہ در حقیقت وہ بہادر نہیں ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اچھا نام رکھنے سے بلا شبہ اثر ہوتا ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ساتھ تربیت کے باقی اسباب اختیار نہ کئے جائیں اور نام کے برعکس تربیت غالب آ جائے تو پھر نام کا اثر پیچھے رہ جاتا ہے۔ امید ہے اس تفصیل سے بات واضح ہو گئی ہو گی۔

سوال نمبر14:

السلام علیکم۔ حضرت مجھے خاموشی کا مجاہدہ ملا تھا۔ حج کے دنوں میں آپ نے مؤخر کرنے کا فرمایا تھا۔ کیا اب دوبارہ شروع کر لوں یا کوئی اور مجاہدہ کر لوں۔

جواب:

جس حج کی آپ بات کر رہے ہیں اسے تو کئی ماہ ہو چکے ہیں، اب تو اگلے حج کی درخواستیں بھی جمع ہو چکی ہیں۔ آپ نے کافی جلدی پوچھ لیا، تھوڑا اور انتظار کر لیتے۔ خیر اب پوچھا ہی ہے تو بتا دیتا ہوں۔ خاموشی کا مجاہدہ اس طرح ہوتا ہے کہ جہاں آپ کی  من پسند گفتگو ہو رہی ہو، بعض لوگوں کی پسندیدہ گفتگو سیاست ہوتی ہے بعض لوگوں کی کرکٹ میچ اور بعض لوگوں کی کوئی اور ہوتی ہے۔ آپ کا جو  پسندیدہ موضوع ہے اس پہ جب بات ہو رہی ہو تو وہاں زبردستی پندرہ منٹ کے لئے خاموش بیٹھیں، پندرہ منٹ تک کوئی  بات نہ کریں، بے شک دل میں بہت طلب ہو رہی ہو کہ میں اس پر بات کر لوں لیکن بات نہ کریں، اس وقت چپ رہیں۔ یہ خاموشی کا مجاہدہ ہے۔ اس کا مقصد اپنے نفس کو لگام لگانا ہے، بے لگام نہیں چھوڑنا۔ اپنے ارادے سے اس سے کام کروانا ہے۔ نفس کی مثال گاڑی کی سی ہے، جب تک گاڑی آپ کے ارادے کے مطابق دائیں بائیں مڑ رہی ہے تب تک تو ٹھیک ہے، لیکن اگر آپ گاڑی کے ارادے کے مطابق دائیں بائیں موڑ رہے ہیں تو پھر خطرے کی بات ہے۔ اگر ایسا ہے تو یقینا گاڑی میں کچھ خرابی ہے، اسے ٹھیک کروانا پڑے گا۔ اسی طرح ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کا ارادہ نہ ہو اور آپ بول پڑیں، ہاں ارادتاً بولا جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ ارادتاً بولیں گے تو اس میں آپ کی عقل استعمال ہو گی اور عقل تب کام کرے گی جب آپ کو موقع ملے گا۔ کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو۔ بھائی تولو گے تو تب جب تولنے کا موقع ملے گا۔ اگر آپ بے تکان بولے جا رہے ہوں تو تولنے کا موقع کہاں ملے گا؟ اس لئے آپ خاموشی سیکھ لیں جب خاموشی سیکھ لیں گے تو خاموشی کے دوران سوچنے کا موقع ملے گا تب آپ عقل سے فیصلہ لیں گے مجھے بولنا چاہیے یا نہیں بولنا چاہیے؟ بعض دفعہ نہ بولنے میں بہت فائدہ ہوتا ہے لیکن انسان بول لیتا ہے، جس پر بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔

کہتے ہیں: بات نے زبان سے کہا کہ مجھے سوچ سمجھ کر منہ سے نکالنا کہیں ایسا نہ ہو کہ تم مجھے منہ سے نکالو اور میں تمہیں شہر سے نکلوا دوں۔ بعض دفعہ انسان ایسی بات کر لیتا ہے کہ جس پہ سارے ماحول کو خراب کر لیتا ہے اور لوگ واقعی اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔

حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں ایک طالب علم تھے۔ طالب علموں کو بولنا چاہیے کیونکہ انہیں ضرورت ہوتی ہے انہیں سوال کرنا چاہیے، لیکن وہ طالب علم کبھی سوال نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ امام صاحب نے ازراہ ہمدردی ان سے فرمایا کہ آپ بات بالکل نہیں کرتے، کبھی کبھی بات کر لیا کریں کچھ پوچھ لیا کریں، آپ کے علم میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا: جی اب پوچھا کروں گا ان شاء اللہ۔ ایک دن حضرت نے کوئی مسئلہ سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ جب سورج غروب ہو جائے تو پھر یہ کام کرنا چاہیے۔ اس طالب علم نے فوراً سوال کیا کہ حضرت اگر کسی دن سورج ہی غروب نہ ہوا تو پھر کیا کریں گے۔ حضرت نے یہ سن کر فرمایا: بیٹا آپ کا خاموش رہنا ہی بہتر ہے، آپ خاموش رہا کریں۔

اب دیکھیں، وہ جاہل تھا لیکن اس کی خاموشی نے اس کی جہالت کو چھپایا ہوا تھا، جیسے ہی وہ بول پڑا اس کا کام خراب ہو گیا۔ 

سوال نمبر15:

السلام علیکم۔ میری اہلیہ جب بھی برا خواب دیکھتی ہے تو اکثر و بیشتر سچ نکلتا ہے جس کی وجہ سے ہم دونوں میاں بیوی کو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ صورتحال بہت عرصہ سے جاری ہے۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسا کیوں ہے۔ اگر آپ اس میں کچھ وضاحت اور حل ارشاد فرمائیں تو آپ کی مہربانی ہو گی۔

جواب:

اس میں دو باتیں ہیں۔ ایک تو خواب کے بارے میں مسنون طریقہ ہے، ہمیشہ اس کا خیال رکھا جائے کہ جب کوئی برا خواب نظر آئے تو بائیں طرف (اگر بائیں طرف قبلہ نہیں ہے تو) رخ کر کے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم“ پڑھ کر تین دفعہ تھتکار دے اور وہ خواب کسی کو نہ بتائے تو اس کا اثر ختم ہو جائے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر اللہ پاک نے تقدیر میں کچھ لکھا ہے، وہ واقعی ہونا ہے اور آپ کو اس کا خواب آ گیا تو وہ کام آپ کے خواب کی وجہ سے نہیں ہو گا بلکہ وہ کام تقدیر میں لکھا ہوا تھا اگر  خواب نہ بھی آتا تو وہ ہونا ہی تھا، اس لئے خواب کا آنا اس کام کی وجہ نہیں ہے، وہ تو اس وجہ سے ہوا کہ تقدیر میں لکھا تھا۔

مجھے ایک صاحب نے ٹیلی فون کیا کہ شاہ صاحب جب سے میں نے آپ کا دیا ہوا وظیفہ پڑھنا شروع کیا ہے تب سے بیمار ہوں۔ میں نے کہا آپ کہاں ہوتے ہیں؟ کہتا ہے میں سیٹلائیٹ ٹاؤن میں ہوتا ہوں۔ میں نے کہا یہ تو بڑا اچھا ہوا آپ نے مجھے بہت زبردست انفارمیشن دے دی اس سے تو ہم کافی کام لے سکتے ہیں۔ وہ حیران ہو گیا کہ اس سے کون سا کام لیا جا سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ سنٹرل ہسپتال کے قریب رہتے ہیں، میں آپ کے پاس آتا ہوں، سنٹرل ہسپتال کا وزٹ کرتے ہیں، وارڈوں میں پھریں گے، کاغذ قلم تیار رکھنا، ہر مریض سے انٹرویو کریں گے کہ آپ نے کون سا وظیفہ پڑھا تھا کہ آپ کو یہ بیماری ہو گئی، ہم وظیفہ بھی نوٹ کریں گے اور بیماری بھی نوٹ کریں گے، پتا چل جائے گا کہ فلاں فلاں وظیفہ پڑھنے سے فلاں فلاں بیماری ہوتی ہے، چلو اس پہ کام کرتے ہیں۔ وہ میری بات سن کر بہت ہنسا اور سمجھ گیا۔

دراصل یہ چیزیں نہ خوابوں کی وجہ سے ہو سکتی ہیں، نہ وظیفوں کی وجہ سے ہو سکتی ہیں اور نہ ہی کسی کے سامنے آنے کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔ خواہ مخواہ بد شگونیاں نہیں کرنی چاہئیں اور تسلی کے لئے سنت طریقہ پہ عمل کر کے مطمئن رہنا چاہیے۔ بعض دفعہ بدگمانی سے بھی کوئی چیز واقع ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں اللہ پاک سے اچھی امید رکھو۔ انسان اللہ تعالیٰ سے جیسی امید رکھتا ہے اس کے ساتھ ویسا ہی ہو جاتا ہے۔ اللہ پاک نے حدیث قدسی میں فرمایا ہے:

”اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ“ (صحیح مسلم: 6805)

ترجمہ: ”میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں“۔

اس لئے ایک تو:

اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھی امید رکھنی چاہیے۔

دوسرامسنون طریقہ پہ عمل کرنا چاہیے۔

تیسرا‘ کسی بھی اچھائی اور برائی کو تقدیر کی طرف سے سمجھنا چاہیے، کسی خواب کی وجہ سے نہیں سمجھنا چاہیے، کسی وظیفہ کی وجہ سے نہیں سمجھنا چاہیے۔

چوتھی اور اہم بات یہ ہے کہ دعا کا راستہ کھلا ہوا ہے، جب کوئی ایسا خواب آئے تو فوراً دعا کرنی چاہیے کہ اے اللہ مجھے اس کے شر سے محفوظ فرما دے۔ اگر وہ کام ہو بھی گیا تو کم از کم اس دعا کا اجر آپ کو مل جائے گا۔ اچھے طریقوں کو اختیار کرنا چاہیے اور اللہ پر پر نظر ہونی چاہیے۔

سوال نمبر16: 

السلام علیکم حضرت آپ نے فرمایا تھا دین میں اضافہ بدعت ہے اور دین کے لئے اضافہ مستحب ہے۔ اس کی وضاحت فرما دیں تو بہت مہربانی ہو گی۔

جواب:

دین میں اضافہ سے مراد یہ ہے کہ کوئی چیز دین میں نہ ہو اور آپ اس کو دین سمجھیں تو یہ دین میں اضافہ ہے۔ مثلاً آپ سمجھیں کہ جمعہ کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے۔ اب یہ چیز دین میں نہیں ہے۔ اس کی یہاں تک حفاظت کی گئی ہے کہ فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی جمعہ کے دن روزہ رکھنا چاہے تو اکیلے جمعہ کے دن کا نہ رکھے اس کے ساتھ ایک دن پہلے بھی روزہ رکھ لے یا ایک دن بعد میں بھی رکھ لے تاکہ جمعہ کے ساتھ روزہ رکھنا خاص نہ ہو جائے۔

دین کے لئے اضافہ مستحسن ہے۔ میں نے مستحب نہیں کہا بلکہ مستحسن کہا ہے۔ کیونکہ مستحب ایک دینی اصطلاح ہے۔ مثلاً مینار آپ ﷺ کے دور میں نہیں ہوا کرتے تھے جبکہ آج کل کوئی بھی مسجد مینار کے بغیر نہیں ہوتی حتیٰ کہ حرمین شریفین کی مساجد بھی مینار والی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مینار کی ضرورت ہے۔ شہروں میں بہت سی عمارتیں ہوتی ہیں تو یہ پتا کیسے چلے گا کہ فلاں عمارت مسجد کی ہے۔ اس کا بہترین طریقہ مینار ہے، مینار ہو تو دور سے پتا چل جائے گا کہ یہ مسجد ہے۔ اس میں ایک اور فائدہ بھی ہو جاتا ہے کہ لاؤڈ سپیکر بھی مینار میں رکھ دیتے ہیں جس سے آواز دور دور تک پہنچ جاتی ہے۔

میں ایک دفعہ رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں جا رہا تھا۔ شام کا وقت تھا۔ مجھے مغرب کی نماز پڑھنی تھی تو میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ کوئی مسجد مل جائے۔ دور سے ایک مینار نظر آیا اور میں نے وہاں جا کر نماز پڑھ لی۔ اب دیکھیں مینار کا فائدہ ہو گیا۔ مینار اور اس جیسی چیزیں جو دین کے کام پورا کرنے میں مدد دیں، ایسی چیزوں کے استعمال کو دین کے لئے استعمال کہا جائے گا۔ اور دین کے لئے چیزوں کا استعمال کرنا مستحسن ہے۔

سوال نمبر17: 

السلام علیکم۔ حضرت جی پچھلے تین ماہ سے میرے مراقبہ کی تفصیل یہ ہے:

پندرہ منٹ لطیفہ قلب پر ”اَللہ اَللہ“ سننے کا تصور، پھر پندرہ منٹ یہ تصور کہ اللہ کا فیض آپ ﷺ کے قلب اطہر پر آ رہا ہے، آپ ﷺ کے قلب اطہر سے میرے شیخ کے قلب پر، میرے شیخ کے قلب سے میرے قلب پر آ رہا ہے۔ پھر ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ کے ساتھ مندرجہ ذیل اسماء الحسنیٰ سات مرتبہ دل میں پڑھتی ہوں۔

”اَلرَّحْمٰنُ، الرَّحِیْمُ، اَلسُّبْحَانُ، اَلْحَکِیْمُ، اَلْفَتَّاحُ، اَلنُّوْرُ، اَلسَّلَامُ، اَلْھَادِیُ، اَلْقَوِیُّ، اَلْمُنْعِمُ، اَلْوَدُوْدُ، اَلْغَفَّارُ، اَلسَّتَّارُ، اَلْجَوَّادُ، اَلْوَارِثُ، اَلْحَافِظُ، اَلْحَفِیْظُ، اَلنَّاصِر، اَلنَّصِیْرُ“

اس کے بعد دس منٹ تک دل میں دعائیں مانگتی ہوں۔ حضرت جی پہلا حصہ اچھی طرح محسوس ہو جاتا ہے اور دوسرے حصہ کی کچھ خاص سمجھ نہیں آ رہی ہے بس خانہ پری کر کے ہو جاتا ہے لیکن میں اس فیض کے تصور کو نہیں سمجھ سکی۔ فیض کیا ہوتا ہے اور اس میں تصور کیا کرنا ہوتا ہے؟ مراقبہ کا تیسرا حصہ بھی الحمد للہ اچھا رہا ہے اور مجھے اس تعلق مع اللہ سے بہت تقویت ہوتی ہے۔ مراقبہ کا پہلا اور آخری حصہ چار سال سے جاری ہے۔ اللہ پاک میرے شیخ کو دونوں جہاں کی خوشیاں عطا فرمائے آمین۔

جواب:

باقی سب معمولات آپ ٹھیک کر رہی ہیں لیکن شاید مراقبہ احدیت کو نہیں سمجھ پا رہیں۔

مراقبہ احدیت میں در اصل ایک حقیقت کو محسوس کرنا ہوتا ہے۔ یعنی ایک کام ایسا ہے جو کائنات میں ہو رہا ہے لیکن آپ کو اس کا احساس نہیں ہے، آپ نے اسے محسوس کرنا ہے، محسوس کرنے کے لئے آپ کو پہلے تصور کرنا ہو گا کہ ایسا ہو رہا ہے تصور کرتے کرتے آہستہ آہستہ محسوس ہونا شروع ہو جائے گا۔

یہ ایک حقیقت ہےکہ اللہ جل شانہ ہی سے سب کچھ ہوتا ہے اللہ ہی سب کچھ دیتا ہے لیکن اللہ پاک نے ہر چیز کے لئے اسباب اور ذرائع بنائے ہیں۔ سب سے پہلا ذریعہ آپ ﷺ کو بنایا۔ آپ ﷺ کے ذریعے سے تمام تکوینی اور تشریعی فیوض ملتے ہیں۔ فیض سے مراد ہر قسم کی نعمت ہے۔ مثلاً آپ کسی کی مجلس میں بیٹھتے ہیں اس مجلس میں بیٹھ کے آپ کو اچھی اچھی باتیں سمجھ میں آ جاتی ہیں تو یہ اس مجلس کا فیض ہے۔ کسی اچھے کام کی توفیق ہو جاتی ہے تو یہ اس کا فیض ہے۔ کوئی اچھی چیز اور کوئی نعمت مل جاتی ہے تو یہ اس کا فیض ہے۔ فیض کسی ایک خاص چیز کا نام نہیں ہے، بعض لوگ اس کو نور سمجھتے ہیں، یہ نور بھی نہیں ہے، نور اس کا صرف ایک جزو ہے، فیض کا مفہوم بہت  وسیع ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی بھی خیر جو آپ کو مل سکتی ہے اسے فیض کہتے ہیں۔ فیوض کا اصل منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، پھر اس فیض کے دنیا تک پہنچنے کا ذریعۂ اول آپ ﷺ کی ذات ہے اور ذریعۂ ثانی شیخ ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے آپ نے اس کو صرف محسوس کرنا ہے۔ محسوس کرنے کا طریقہ مراقبہ احدیت ہے۔ آپ کے پانچ  Sensing points ہیں جن کے ذریعہ آپ فیض کو وصول کر سکتے ہیں دل ہے، روح ہے، سر ہے، خفی ہے، اخفیٰ ہے۔ انہی پانچوں پہ مراقبہ احدیت کروایا جاتا ہے تاکہ سارے Sensing points۔ جاری ہو جائیں اور اس فیض کو محسوس کرنے لگیں۔

ہر چیز ذکر کرتی ہے انسان کا دل بھی ایک چیز ہے یہ بھی ذکر کرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ آپ نے مراقبہ میں دل کے ذکر کو سننے کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ اسی طرح فیض موجود ہے، آپ ﷺ کے ذریعے آپ کے شیخ تک اور آپ کے شیخ کے ذریعے آپ تک پہنچ رہا ہے، آپ نے مراقبہ میں اس فیض کو صرف محسوس کرنا ہوتا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ مراقبہ احدیت اصل میں ان حقائق کو محسوس کرنا ہے جن سے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے مراقبہ کریں گی تو ان شاء اللہ خانہ پری نہیں رہے گی۔

سوال نمبر18:

حضرت جی آپ نے فرمایا ہے کہ نماز میں پڑھے جانے والے الفاظ کے ساتھ دل کی توجہ کا ہونا ضروری ہے۔ یہ ہم جو ذکر کرتے ہیں کیا اس سے یہ چیز پختہ ہو جاتی ہے؟

جواب:

آپ نے بالکل ٹھیک سمجھا ہے۔ ہم لوگوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ عرب نہیں ہیں، ہمارے ذہن میں ترجمہ آتا ہے، براہ راست عربی الفاظ سے مفہوم نہیں آتا۔ مثلاً جب ہم ”اَللّٰہُ اَکْبَر، سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم، سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی“ کہتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ان الفاظ سے فی الفور اللہ کی عظمت اور بڑائی کا مفہوم آنا چاہیے، لیکن ہمارے ذہن میں پہلے ان الفاظ کا ترجمہ آتا ہے اس کے بعد بڑائی اور عظمت کا مفہوم آتا ہے۔ جب آپ کا دل ان الفاظ کے ساتھ اس طرح مانوس ہو کہ الفاظ بولتے ہی آپ کے ذہن میں اللہ کی عظمت آئے تو یہ ہے حقیقی معنوں میں دھیان اور یہ ذکر کرتے رہنے سے حاصل ہوتا ہے، ذکر در اصل اسی چیز کی مشق ہوتی ہے کہ کامل دھیان حاصل ہو جائے۔

سوال نمبر19: 

حضرت جی۔ بچہ فطرتاً دین پہ پیدا ہوتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچے کے اندر حسد، بغض وغیرہ روحانی بیماریاں نہیں ہوتیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟ 

جواب:

در اصل بچے میں فطرتی طور پر نفس امارہ موجود ہوتا ہے، لہٰذا نفس امارہ کی خرابیاں بھی موجود ہوتی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ چھوٹے بچے گھر میں ماسٹر بنے پھرتے ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ سب چیزیں بس میری ہوں، وہ اپنی چیزوں کے مالک بھی ہوتے ہیں، لڑائی جھگڑے کرتے ہیں، مارتے بھی ہیں، دوسروں کو ناراض کرتے ہیں خود بھی ناراض ہوتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں نفس امارہ کی وجہ سے  فطرتی طور پر پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔ بچہ بچپن میں یہ سب کام معصومیت میں کرتا ہے، پھر اگر درست تربیت نہ ہو تو یہی چیزیں بڑے ہونے پر پروان چڑھ جاتی ہیں اور برے رُخ سے سامنے آتی ہیں۔

سوال نمبر20:

حضرت جی اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ بچے کو طریقت کی لائن پہ کب ڈالا جائے؟

جواب:

مفتی رفیع عثمانی صاحب کے بڑے بھائی نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو خط لکھا۔ ان کی لکھائی ذرا کمزور تھی، جیسے بچوں کی ہوتی ہے۔

حضرت نے ان کو جواب میں لکھا کہ ”اپنا خط اچھا کر لو، خوشخط لکھنا سیکھ لو“ پھر فرمایا: ”دیکھو میں ابھی سے آپ کو صوفی بنا رہا ہوں“۔

معلوم ہوا کہ تصوف اور تربیت بچپن ہی سے شروع کر دینی چاہیے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن