اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
حضرت جی آپ سے ایک بات کرنا چاہتی ہوں۔ پہلے مجھے ختم قرآن کا پتا نہیں تھا۔ حال ہی میں پتا چلا ہے کہ ایک ماہ میں دو قرآن پاک پڑھے جاتے ہیں اور ایک عورت نے ایک سپارہ جمعہ کے دن پڑھنا ہوتا ہے۔ حضرت جی ہم عورتیں ایام مخصوصہ میں قرآن پاک نہیں پڑھ سکتیں لیکن اس ختم قرآن میں صرف اسی سپارہ کو شامل کیا جاتا ہے جو جمعہ کو پڑھا گیا ہو۔ از راہ کرم کوئی ایسی ترتیب بنا دیں کہ اس با برکت ختم قرآن میں سب شامل ہو سکیں اور اس سے فیض حاصل کر سکیں۔ خانقاہ میں تقریباً ستر، اسی خواتین ہیں۔ اگر سب ختم قرآن میں حصہ لیں تو قرآن پاک زیادہ تعداد میں پڑھا جا سکتا ہے اور سب خواتین کی شمولیت بھی ہو جائے گی، کوئی خاتون اس برکت سے محروم نہیں رہے گی۔
جواب:
یہ اچھی تجویز ہے۔ خواتین کے اگلے جوڑ میں اس تجویز پر مشورہ کر لیا جائے گا۔ خواتین کے تمام معمولات خواتین ہی کی ذمہ داری میں ہوتے ہیں، وہی خواتین اس کی ترتیب بناتی ہیں جن کے ذمہ خواتین سے متعلقہ امور لگائے گئے ہیں۔ ان تک یہ بات پہنچا دی جائے گی پھر جیسے وہ مناسب سمجھیں گی ویسی ترتیب بنا لیں گی۔
البتہ یہ تصحیح کر لیں کہ ایک مہینے میں دو ختم نہیں ہوتے بلکہ ایک ہفتہ میں دو ختم قرآن ہوتے ہیں۔ بہر حال آپ کی تجویز ذمہ دار خواتین تک پہنچا دی جائیں گی وہ اس کا حل نکال لیں گی۔
سوال نمبر2:
میں ایک ڈاکٹر ہوں اور میں نے آپ کے ساتھ بیعت کی ہوئی ہے۔ آج کل کے احوال یہ ہیں کہ کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا۔ جی چاہتا ہے کہ یہ شعبہ بھی چھوڑ دوں۔ گناہ اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ دل کرتا ہے سب چھوڑ دوں اور کچھ ایسا کروں کہ بس روتے روتے مر جاؤں۔ یہ زندگی نہیں گزار سکوں گی۔ میں مراقبہ بھی نہیں کرتی۔ کیا کروں؟ ازراہِ کرم جواب ضرور دیجئے گا۔
جواب:
ڈاکٹر صاحبہ! آپ نے جس شعبہ کو اختیار کیا ہے اور اس کے لئے جو قربانی دی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے فوائد و ثمرات ضرور حاصل کریں۔ اس شعبے اور پیشے کی بہترین بات یہ ہے کہ اس میں صرف آپ کے مسائل ہی حل نہیں ہو رہے بلکہ دوسروں کے مسائل بھی حل ہو رہے ہیں۔ مثلاً عورتیں اگر بیمار ہو جائیں اور خواتین ڈاکٹر نہ ہوں تو وہ کس کے پاس جائیں گی؟ ظاہر ہے مرد ڈاکٹروں کے پاس جائیں گی۔ اس سے ان کی حیا کو مسئلہ ہو گا۔ اب آپ ڈاکٹر بن چکی ہیں اس لئے اب اس پیشے کو چھوڑنے کا ارادہ یا فیصلہ درست نہیں ہے۔ اگر آپ ڈاکٹر بننے کے لئے پہلے سال داخلہ لیتے وقت مجھ سے مشورہ کرتیں تو شاید میں کوئی اور مشورہ دیتا، اُس وقت ہمارے سامنے اور آپشن بھی ہوتے لیکن اِس وقت آپ کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اب آپ ڈاکٹر بن گئی ہیں تو یہ کریں کہ اچھی ڈاکٹر بن جائیں۔ جہاں تک گناہ کی بات ہے تو گناہوں پہ سچی توبہ و استغفار کریں، مجھ سے مشورہ کر لیں اور اپنے سارے حالات تفصیل سے مجھے بتا دیں۔ ان شاء اللہ میں آپ کی رہنمائی کروں گا کہ آپ گناہوں سے کیسے بچ سکتی ہیں۔
مسائل کو حل کرنے کی طرف پیش قدمی کی بجائے مایوس ہو جانا بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ مایوسی عمل سے روک دیتی ہے لہٰذا اتنا مایوس ہو جانا کہ انسان عمل ہی نہ کر سکے، یہ کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہے۔ ما شاء اللہ آپ ڈاکٹر ہیں، بہت سارے کام کر سکتی ہیں، گناہ بھی چھوڑ سکتی ہیں۔ یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔ آپ جلد سے جلد مجھے اپنے حالات لکھ کر بھیجیں اور مسائل کی تفصیل لکھیں کہ کس نوعیت کے مسائل ہیں تاکہ میں اس سلسلہ میں آپ کی خدمت کر سکوں۔ آپ کو ایک کامیاب ڈاکٹر بننا چاہیے۔ میں نے آپ کے لئے دعا کی ہے۔ اللہ پاک قبول فرمائے (آمین)۔
سوال نمبر3:
ایک خاتون نے مجھ سے بیعت اور تربیت کے بارے تفصیلات پوچھی تھیں۔ میں نے انہیں جواب میں بیعت و تربیت کا مفہوم اور شیخ کی آٹھ نشانیاں لکھ بھیجیں اور کہا کہ ان آٹھ نشانیوں کو جانچنے کے بعد آپ جسے مناسب سمجھیں، اس کے ہاتھ پہ بیعت ہو جائیں۔
اس پر اس کا جواب آیا کہ میرے گھر کے مرد اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ میں کسی مرد شیخ کے ہاتھ پہ بیعت کر لوں۔
میں نے کہا کہ پھر میں آپ کا کسی خاتون سے رابطہ کروا دیتا ہوں، کیونکہ بیعت ہونا لازم نہیں ہے بلکہ تربیت لازم ہے۔ خواتین آپ کی تربیت کر سکتی ہیں۔ اس کے بعد میں نے ان کو ایک خاتون کا فون نمبر بھیجا، شاید ان کا رابطہ ہو چکا ہو۔
اب دوبارہ ان کا میسج آیا ہے، مجھ سے پوچھ رہی ہیں کیا میں پیر ذو الفقار صاحب سے رابطہ کر لوں؟
میں یہ میسج دیکھ کے حیران ہوا کہ کبھی ایک بات کہتی ہیں اور اگلی بار اس کے برعکس دوسری بات پوچھتی ہیں۔ پہلے کہہ رہی تھیں کہ مردوں سے بیعت نہیں ہو سکتی کیونکہ ہمارے گھر کے مرد اس کی اجازت نہیں دیں گے اور اب پیر ذوالفقار صاحب سے بیعت ہونے کے بارے میں پوچھ رہی ہیں۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ آپ اُن سے بھی بیعت ہو سکتی ہیں لیکن پہلے آپ نے بتایا تھا کہ آپ کے گھر والے مرد پیروں کے ساتھ رابطہ پہ اعتراض کریں گے تو پھر آپ میری بات پہ عمل کر لیں، آپ کو تو اصلاح چاہیے اور آپ کے حالات کے مطابق اگر عورت میسر ہو تو زیادہ بہتر ہے۔
اس کا جواب آیا: لیکن سَر! اللہ کے لئے تو سب سے لڑ جانا چاہیے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا، جسے اللہ چاہیے ہو اسے ڈھونڈنا تو ہے۔ بے شک آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
جواب:
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پہلے اپنے طور پر کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں پھر کسی سے مشورہ مانگتے ہیں اور اس مشورہ سے ان کی نیت صرف یہ ہوتی ہے کہ جو فیصلہ میں نے کیا ہے ان کی زبان سے اس کی تائید ہو جائے۔ ایسے لوگوں کو کسی سے مشورہ نہیں مانگنا چاہیے۔ مشورہ تو یہ ہوتا ہے کہ کسی کو اپنے حالات بتا دو اور وہ جو مشورہ دے اس پہ عمل کر لو۔ لیکن اگر آپ پہلے ہی اپنے ذہن میں ایک فیصلہ کر چکی ہیں یا کر چکے ہیں اور مشورہ صرف اس لئے مانگ رہے ہیں کہ سامنے والا اس فیصلہ کی تائید کرے اور آپ کی منشا کے مطابق مشورہ دے تو یہ بات درست نہیں ہے۔ یہ سامنے والے کے وقت کا ضیاع ہے۔ آپ سب سے پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ اپنی اصلاح کروانی ہے یا نہیں کروانی۔ اگر اصلاح کروانی ہے تو پھر جس سے مشورہ لیں وہ جو مشورہ دے اسے سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ مجھے یہ مشورہ کیوں دیا جا رہا ہے اور کس چیز کے لئے دیا جا رہا ہے۔ آپ نے مجھے ایک مسئلہ بتایا کہ گھر کے مرد‘ مردوں سے اصلاح نہیں کروانا چاہتے۔ میں نے جواب دیا کہ ما شاء اللہ اچھی بات ہے، آپ مردوں سے اصلاح نہ کروائیں آپ خواتین سے اصلاح کروا لیں۔ اب آپ کہتی ہیں کہ انہیں فون کیا تو انہوں نے اٹھایا نہیں۔ ہر ایک کے اپنے اوقات ہوتے ہیں۔ آپ پہلے ان سے میسج کر کے معلوم کر لیں کہ مجھے آپ سے اس سلسلہ میں بات کرنی ہے میں کس وقت فون کروں۔ ایسا تو نہیں ہے کہ آپ کے لئے لوگ ہر وقت دست بستہ کھڑے ہوں گے۔ ہر چیز کے اپنے اوقات ہوتے ہیں۔ جو وقت دیتا ہے اس کے وقت کی قدر کرنی چاہیے، خیال کرنا چاہیے۔ ہر شخص کے اپنے حالات ہوتے ہیں، اپنے ذاتی مشاغل ہوتے ہیں۔
لوگوں کے عجیب و غریب احوال ہیں۔ اپنی اصلاح کروانا چاہتے ہیں تو وہ بھی احسان جتا کر کہ گویا میں اپنی اصلاح کروا رہا ہوں تو اب میرا خیال رکھا کرو، میں بہت بڑا کام کر رہا ہوں۔ حالانکہ اصلاح کا مطلب ہے اپنی آخرت بنانا۔ اپنی آخرت بنانا ہر شخص کی اپنی ذمہ داری ہے۔ کوئی اس کی مدد کرے یا نہ کرے یہ کام ہر صورت میں اس کے اپنے ذمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں خود اسی سے پوچھے گا۔ اگر کوئی اصلاح میں اس کی مدد کر رہا ہے تو اس مدد کو صحیح طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ جو لوگ قدر کرتے ہیں ان کو مزید دیا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر ایسے لوگ موجود ہوں جو آپ کی اصلاح میں آپ کی مدد کر سکیں تو شکر کرنا چاہیے۔ الحمد للہ ایسے لوگ مردوں میں بھی موجود ہیں اور خواتین میں بھی موجود ہیں۔ اگر آپ گھر والوں کی وجہ سے مرد شیخ سے رابطہ نہیں کر سکتیں تو آپ خواتین سے رابطہ رکھیں، ان شاء اللہ آپ کو اس سے فائدہ ہو گا۔
ہدایت:
ایک خاتون نے میسج کیا ہے اور صرف السلام علیکم لکھا ہے، اپنا تعارف بھی نہیں لکھا اور مقصد بھی نہیں لکھا۔
ایسے لوگوں سے میری گزارش ہے کہ میسج میں سب سے پہلے اپنا تعارف کرایا کریں کیونکہ اتنے سارے لوگوں کے نمبر یاد رکھنا ممکن نہیں ہے۔
ایک دفعہ کسی صحابی نے آپ ﷺ کا دروازہ بجایا تو آپ ﷺ نے پوچھا کون؟ انہوں نے کہا: میں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں‘‘ کیا ہوتا ہے؟ اپنا نام بتاؤ۔
اس سے معلوم ہوا کہ پہلے اپنا تعارف کرانا چاہیے کیونکہ یہ آداب میں سے ہے۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم حضرت جی درج ذیل معمولات کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے۔ پندرہ منٹ بائیں طرف قلب پر اور دس منٹ دائیں طرف روح کے لطیفہ پر مراقبہ جاری ہے۔ کسی دن کچھ وقت زیادہ اچھا محسوس ہوتا ہے اور کسی دن بہت ہی کم محسوس ہوتا ہے۔ کبھی قلب پر زیادہ بہتر لگتا ہے، کبھی روح پر اچھا محسوس ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار بالکل نہیں محسوس ہوتا بلکہ قلب پر توجہ کے بعد بھی روح ہی کی طرف ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ایک بات یاد رکھیں کہ جن لوگوں کو ذکر بالکل محسوس نہیں ہوتا ان کی تو ہمیں فکر ہوتی ہے لیکن جن لوگوں کو کبھی محسوس ہوتا ہو، کبھی نہ ہوتا ہو ان کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ یہ احوال کی بات ہے، کبھی انسان کسی ایک حال میں ہوتا ہے کبھی کسی اور حال میں ہوتا ہے، اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ جو کمی ہو گی آہستہ آہستہ پوری ہو جائے گی۔ آپ یہ نہ سوچیں کہ کتنا محسوس ہو رہا ہے، بس آپ کوشش کریں کہ آپ روزانہ بیٹھا کریں اور تصور کیا کریں کہ فلاں جگہ پر ذکر ہو رہا ہے۔ یہ جو آپ فرما رہی ہیں کہ قلب پر توجہ کے بعد بھی روح پر ہی زیادہ اثر ہوتا ہے، تو ایسا ہونا بھی ممکن ہے، اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ آپ یہی معمولات جاری رکھیں۔ ان شاء اللہ اپنے وقت پر یہ ساری چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم حضرت جی۔ سمن آباد لاہور سے اعظم بات کر رہا ہوں۔ میری ابتدائی تسبیحات پوری ہو گئیں ہیں۔ اگلا سبق بتا دیں۔ اللہ پاک آپ کو صحت اور تندرستی عطا فرمائے۔ بہت شکریہ۔
جواب:
اب آپ دو ذکر مزید کریں گے۔ ایک تو روزانہ بلا ناغہ سو سو مرتبہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار پڑھا کریں۔ اس کے علاوہ ایک مہینہ تک روزانہ بلا ناغہ درج ذیل ذکر کرنا ہے:
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 100 مرتبہ، اس طرح کہ ”لَاۤ اِلٰہَ“ دل سے نکلتا ہوا محسوس ہو اور ”اِلَّا اللہ“ دل میں آتا ہوا محسوس ہو۔
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 100 مرتبہ اس طرح کہ ”لَاۤ اِلٰہَ“ دل سے نکلتا ہوا محسوس اور ”اِلَّا“ باہر سے ”ھُوْ“ کی ضرب کے ساتھ دل میں آتا ہوا محسوس ہو۔
”حَقْ“ 100 مرتبہ اس طرح کہ گویا دل بول رہا ہے ”حَقْ، حَقْ“۔
اور ”اَللّٰہْ اَللّٰہْ“ 100 مرتبہ اس طرح کہ گویا دل بول رہا ہے: ”اَللّٰہْ اَللّٰہْ“۔ اس کے ساتھ یہ تصور کرنا ہے کہ اللہ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
سوال نمبر6:
ایک خاتون جو مجھ سے کافی عرصہ پہلے بیعت ہوئی تھیں انہوں نے مجھے لکھا: السلام علیکم حضرت جی:
I am فلاں. It's been a long time since I contacted you. I kept on thinking of contacting you. I am in the U.A.E living with my husband. My معمولات are not regular. I have a little daughter and she keeps me busy. Please guide me how to manage معمولات with my daughter?
جواب:
اس پر میں نے جواب دیا کہ مجھ سے رابطہ کرنے کا سوچتی رہیں اس دوران اپنا مراقبہ ہی کر لیتیں تو بہتر ہوتا۔ صرف آپ ہی کی بچی ایسی نہیں ہے جو آپ کو مصروف رکھتی ہے باقی مائیں بھی اپنے بچوں کے کاموں میں مصروف ہوتی ہیں لیکن وہ بھی اپنے معمولات کرتی ہیں، یہ کوئی عذر نہیں ہے۔
ان کا جواب آیا کہ حضرت جی میری اپنی سستی ہے جو آپ سے رابطہ نہیں کرتی اور معمولات بھی با قاعدگی سے نہیں کرتی مگر میں چاہتی ہوں کہ معمولات با قاعدگی سے کروں۔
میں نے کہا کہ آپ نے فرمایا میں چاہتی ہوں کہ معمولات با قاعدگی سے کروں لیکن سستی کی وجہ سے نہیں کر پا رہی۔ معمولات دوائی کی طرح ہیں۔ ڈاکٹر بیماری کے علاج کے لئے دوائی دے سکتا ہے لیکن اس دوائی کو کھانے کے لئے کوئی اور دوائی تو نہیں دے سکتا، اگر مریض خود دوائی نہ کھائے تو پھر اس کا کیا علاج ہو؟ اگر آپ کے پاس اس کا جواب ہے تو دے دیں ورنہ اپنا وقت بھی ضائع نہ کریں اور میرا وقت بھی ضائع نہ کریں۔
ان کا جواب آیا کہ میں پوری کوشش کروں گی کہ اب معمولات میں با قاعدگی ہو سکے۔
میں نے پوچھا کہ آپ کے معمولات کون سے تھے؟
انہوں نے کہا: مراقبہ پندرہ منٹ، سو مرتبہ تیسرا کلمہ، سو مرتبہ درود شریف، سو مرتبہ استغفار، آدھا پارہ تلاوت۔
میں نے کہا اس کو شروع کر لیں اور مہینہ پورا ہونے کے بعد معمولات کا چارٹ اور اس کی تفصیل بھیج دیں۔ انسان کو سیدھی بات کرنی چاہیے:
﴿قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا﴾ (الأحزاب: 70)
ترجمہ: ”اور سیدھی سچی بات کہا کرو“۔
لہٰذا سیدھی اور ٹھیک بات کیا کریں۔ تذبذب والی بات انسان کو نقصان پہنچاتی ہے۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم!
آج کل سوشل میڈیا پر بالخصوص وٹس ایپ اور فیس بک پر آڈیو، ویڈیو کلپس بھیجے جاتے ہیں۔ ان میں علماء حق کے بیانات ہوتے ہیں جو مختلف مشرب کے علماء کی باتوں اور وعظ و نصیحت کے موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اختلافِ طبع یا اختلاف ذرائع کی وجہ سے بعض اوقات ان کلپس اور بیانات سے ذہن میں انتشار پیدا ہوتا ہے اور توحید مطلب میں خلل پڑتا ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ ان حالات میں ایسا کیا کیا جائے جس سے توحید مطلب میں خلل پیدا نہ ہو اور بندہ کی توجہ اپنی اصلاح، اپنے سلسلے اور اپنے شیخ سے تعلق پر مرکوز رہے۔ میں نے اپنے متعلق مشاہدہ کیا ہے کہ بعض اوقات مختلف کتب کو پڑھنے اور بیانات کو سننے سے ذہن میں کافی انتشار پیدا ہوتا ہے اور توجہ کا ایک چیز پہ مرکوز رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔
جواب:
ما شاء اللہ۔ بڑا اچھا سوال ہے۔ مزاج مختلف ہوتے ہیں بعض اوقات ایک مزاج کی چیز دوسرے مزاج کو نقصان پہنچا سکتی ہے خواہ وہ چیز بذات خود اچھی ہی کیوں نہ ہو۔ اس وجہ سے اپنے مزاج کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ وحدتِ مطلب کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان کا دل و دماغ ایک ہی سمت میں سوچے اور اسی سمت میں ترقی کرے، راہ میں کوئی خلل اور رکاوٹ نہ ہو۔
ایک دفعہ میں نے ایک کتاب پڑھی تھی۔ وہ کتاب بڑی اچھی تھی اور اس کے مصنف بڑے اعلیٰ درجے کے بزرگ تھے۔ اس کتاب کا اثر مجھ پر یہ ہوا کہ مجھے پوری رات نیند نہیں آئی۔ صبح میں جب اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور رات کو نیند نہ آنے کا تذکرہ کیا تو حضرت نے مجھ سے پوچھا کہ کون سی کتاب پڑھی ہے۔ میں نے بتایا تو فرمایا: آئندہ آپ کے اوپر یہ کتاب پڑھنا بند ہے، بلکہ آپ کے اوپر باقی تمام کتابوں کا مطالعہ بھی بند ہے، آپ نے صرف حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ و ملفوظات پڑھنے ہیں، یاد رکھنا کہ جو کتاب آپ نے پڑھی وہ کتاب غلط نہیں ہے بہت اچھی کتاب ہے اور باقی کتابیں بھی اچھی ہیں لیکن آپ کے لئے منع ہیں، بعض دفعہ ڈاکٹر مریض کے لئے ملائی بھی روک دیتے ہیں، ملائی بذات خود تو اچھی چیز ہے لیکن اس مریض کے حق میں مضر ہوتی ہے۔
جہاں تک سوشل میڈیا پر آنے والے بیانات کا معاملہ ہے، اس میں آپ یہ کریں کہ صرف ان کلپس اور بیانات کو سنیں اور وہی تحریریں پڑھیں جن کے ساتھ آپ کی مناسبت ہے ان کے علاوہ اور کوئی چیز نہ پڑھیں، نہ سنیں اور نہ ہی دیکھیں۔
آپ حضرات کو پتا ہو گا کہ ٹانگے والے اپنے گھوڑے کی آنکھوں پر کھوپچے چڑھا لیتے ہیں جن کی وجہ سے اس کی نظر دائیں بائیں کی بجائے صرف سامنے پڑتی ہے اور وہ ادھر ادھر نہیں دیکھ سکتا، صرف سامنے ہی دیکھ سکتا ہے۔
آپ بھی اسی طرح اپنے دل و دماغ کی حفاظت کریں اور اپنے آپ کو یکسو رکھیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ یکسوئی ہو چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو۔ اس یکسوئی کو متاثر نہ ہونے دیں جب تک آپ کو ان تمام چیزوں پر اتنا قابو نہ ہو جائے کہ کسی بھی دوسری بات سے آپ کے توحید مطلب میں خلل نہ پڑے، تب تک اسی طرح اپنی حفاظت کرتے رہیں۔ اللہ پاک مدد فرمائیں۔
سوال نمبر8:
حضرت جی آپ نے اپنے ایک بیان میں جذب حاصل کرنے، جذب کو قابو کرنے اور نفس کو قابو کرنے کے لئے درج ذیل دعائیں بیان فرمائی ہیں۔ بیان کا وہ حصہ درج ذیل ہیں:
”سلوک طے کرنے اور نفس کا علاج کرنے کے لئے ان تین دعاؤں کو اپنا معمول بنا لیں۔ ان کے ذریعے ان شاء اللہ قلبی اعمال بھی درست ہو جائیں گے اور نفس بھی قابو میں آ جائے گا۔ ”یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لَنَا شَانَنَا کُلَّہٗ وَ لَا تَکِلْنَا اِلٰی اَنْفُسِنَا طَرْفَۃَ عَیْنٍ“۔ ”یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ“ کے بارے میں بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ اسم اعظم ہے اس میں اللہ جل شانہ کی ساری صفات کی طرف اشارہ ہے۔
جذب کا محرک محبت ہے۔ جذب کو حاصل کرنے کے لئے یہ دعا پڑھا کریں ”اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ و حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ“ اور جذب کو کنٹرول کرنے کے لئے یہ دعا پڑھیں: ”یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبَنَا عَلٰی دِیْنِکَ یَا مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلیٰ طَاعَتِکَ“
مہربانی فرما کر عقل اور اس سے متعلق فکر کے لئے بھی دعائیں بتا دیجئے۔
جواب:
مجھے یہ تو یاد نہیں کہ یہ کب کا بیان ہے لیکن یہ بات صحیح ہے کہ قلب کی اصلاح کے لئے بھی مسنون دعائیں موجود ہیں اور نفس کی اصلاح کے لئے بھی مسنون دعائیں موجود ہیں۔
جہاں تک عقل سے متعلق دعاؤں کی بات ہے تو اس بارے میں عرض ہے کہ عقل کے ذریعے چونکہ ذکر و فکر ہوتا ہے اس لئے عقل میں برکت کے لئے یہ آیات پڑھی جا سکتی ہیں:
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا١ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (آل عمران: 190-191)
ترجمہ: ”بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انھیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے“۔
اس کے علاوہ یہ دعا بھی پڑھا کریں:
”اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلیٰ ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ“
ترجمہ: ”اے اللہ اپنی یاد اور اپنا شکر کرنے میں میری مدد فرما“۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتی رہا کریں کہ یا اللہ میرا اپنی فکر کے اوپر کوئی قابو نہیں ہے، تو اپنے فضل و کرم سے اس کو بہترین صورت عطا فرما دے۔ جو فکر میرے لئے بہترین ہو وہ فکر مجھے نصیب فرما دے۔
سوال نمبر9:
ایک صاحب نے یہ میسج بھیجا ہے:
حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ و ملفوظات اور تالیفات کے بارے میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ کی رائے گرامی یہ ہے:
”میرے نزدیک اس دور میں دین کی صحیح سمجھ پیدا کرنے کے لئے اور دین کا صحیح طریقہ سیکھنے کے لئے حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تالیفات اور ان کے مواعظ و ملفوظات سے بڑھ کر کوئی شے مؤثر نہیں۔ کوئی مجھے شخصیت پرستی کا طعنہ دے تو دیا کرے، مجھے یہ کہے کہ جانبداری سے کام لے رہا ہے تو کہا کرے۔ پہلے یہ بات تقلیداً مان لی تھی اب تحقیقاً کہہ رہا ہوں کہ اس دور میں دین کی سمجھ اور عمل کا مزاج و مذاق جو حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف و مواعظ اور ملفوظات میں ملے گا اس دور میں کہیں اور نہیں ملے گا“۔ (دار العلوم کراچی 1430ھ میں دورہ حدیث کے طلباء سے خطاب)
جواب:
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس صدی کے مجدد ہیں۔ عام بزرگ اور مجدد میں یہ فرق ہوتا ہے کہ عام بزرگوں کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے، وہ اس کے مطابق اصلاح کرتے ہیں اور بلا شبہ ان کے ذریعے لوگوں کی اصلاح ہوتی ہے جبکہ مجدد پوری صدی کے لوگوں کے لئے رہنما ہوتے ہیں۔ اس صدی کے اندر جو مشکلات و مسائل پیش آ سکتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کا حل مجدد پہ کھول دیتا ہے اس وجہ سے مجددین حضرات ہر بات نہیں کرتے بلکہ وہی بات کرتے ہیں جو اس وقت کے لحاظ سے بے انتہا ضروری اور کام کی بات ہوتی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی معاملہ تھا اور جن کی مناسبت حضرت مجدد صاحب کے ساتھ تھی ان کو اس وقت بہت زیادہ فائدہ ہوا۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں جن کی مناسبت حضرت شاہ صاحب کے ساتھ تھی ان کو ہی زیادہ فائدہ ہوا۔ سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں جن کی مناسبت حضرت سید صاحب کے ساتھ تھی ان کو ہی زیادہ فائدہ ہوا۔ موجودہ صدی کے مجدد حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، ان کے مواعظ و ملفوظات میں دور حاضر کے تقاضوں کا خیال رکھا گیا ہے لہٰذا ان میں موجودہ دور کے مسائل کا حل ملتا ہے۔
حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ ایک بات فرمائی تھی۔ ڈاکٹر حفیظ اللہ چیمہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت کے خلیفہ تھے اور بڑے بزرگوں میں سے تھے۔ ان کے بیٹے بھی ڈاکٹر تھے۔ ڈاکٹر چیمہ صاحب بیمار ہو گئے لیکن علاج کے سلسلے میں اپنے بیٹوں کی بات نہیں مانتے تھے۔ ان کا قیام مدینہ منورہ میں تھا اور حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی میں مدینہ میں مقیم تھے۔ صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ڈاکٹر چیمہ صاحب کو فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب دین میں پرانی بات چلتی ہے اور ڈاکٹری میں نئی بات چلتی ہے لہٰذا آپ اپنی بیماری کے معاملے میں بیٹوں کی بات مان لیا کریں اس میں آپ کا فائدہ ہو گا کیونکہ آپ کی ڈاکٹری پرانی ہو چکی ہے اور ان کی ڈاکٹری نئی ہے۔
تصوف بھی ڈاکٹری ہے اس میں بھی روحانی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے لہٰذا اس میں نئی تحقیق اور نئی بات چلے گی۔ جو نیا مجدد ہو گا اس کی بات چلے گی اور اسی سے فائدہ ہو گا۔ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب نے جو بات فرمائی ہے وہ بالکل درست ہے اور کام کی بات ہے۔ ہمیں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ و ملفوظات سے بہت استفادہ کرنا چاہیے۔ جن لوگوں کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے وہ ہشاش بشاش ہوتے ہیں ان کو کچھ پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ اس دور کی تمام پریشانیوں کا علاج حضرت نے بتایا ہوا ہے۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم حضرت۔ میں یورپ میں رہتا ہوں۔ اپنے دفتر میں ہی نماز پڑھتا ہوں اور اکثر اوقات نماز مختصر پڑھتا ہوں۔ اتنا دھیان نہیں رہتا کہ نماز میں کیا پڑھا، کیا نہیں پڑھا۔ ذہن کام میں گھوم رہا ہوتا ہے۔ اکثر شیطان کی طرف سے ایسے وساوس آتے ہیں کہ تم کبھی کسی ایک پیر کے ساتھ نہیں ٹک سکتے، تمہاری اصلاح نہیں ہو گی وقت ضائع کر رہے ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ وساوس کی پروا نہیں کرنی چاہیے لیکن ان سے ذہنی بوجھ تو ہوتا ہے جس کی وجہ سے تنگی ہوتی ہے۔ آپ کے بتائے ہوئے ابتدائی اذکار بلا ناغہ کرتے ہوئے دس دن ہو گئے ہیں۔
جواب:
ما شاء اللہ۔ اچھی ابتداء ہے۔ اللہ مدد فرمائے۔ آپ مغربی ملک میں رہتے ہیں، مغربی ممالک میں مسائل تو ہوتے ہیں لیکن آپ مایوس نہ ہوں؎
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
ان مسائل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مغربی ممالک میں شریعت پر عمل اور اپنی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ مغربی ملکوں میں بڑے بڑے بزرگ گزرے ہیں، ان کو اللہ پاک نے اپنی نسبتیں بھی نصیب فرمائی ہیں تعلق بھی نصیب فرمایا ہے۔ ان شاء اللہ آپ کو بھی اللہ پاک اپنا تعلق نصیب فرمائیں گے شرط یہ ہے کہ آپ مستقل مزاجی سے اس لائن پہ چلتے رہیں۔ مغربی ملک میں ہونے کی وجہ سے اعمال کرنے میں آپ کے لئے مشکل تو ہے لیکن اس مشکل کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ جو جو اعمال آپ کے لئے مشکل ہوں گے اور اس مشکل کے با وجود آپ ان اعمال کو استقامت کے ساتھ کریں گے تو یہ آپ کا مجاہدہ ہو جائے گا اور مجاہدے سے انسان کی اصلاح بھی ہوتی ہے اور اجر بھی ملتا ہے۔ لہٰذا آپ فائدہ حاصل کرنے کا یہ سنہری موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ہم جرمنی میں دو سال رہے ہیں اور ہمیں اس کا تجربہ ہے کہ بیرونی ممالک بالخصوص مغربی ممالک میں اعمال کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے لیکن جو آدمی اپنے اعمال استقامت کے ساتھ کرنے کی ٹھان لے اللہ پاک کی طرف سے اس کی خصوصی مدد ہوتی ہے۔ جب ہم جرمنی میں تھے۔ تب وہ فکر جو ہمارے مشائخ نے ہمارے دلوں میں راسخ کی تھی اس کی برکت سے بعض دفعہ ایسی کیفیت ہوتی تھی کہ ہم اپنے آپ کو زمین سے ایک فٹ اوپر سمجھتے تھے، بے حد بسط اور خوشی کی کیفیت ہوتی تھی، اللہ تعالیٰ کا تعلق پہلے سے زیادہ نصیب ہوتا تھا۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہاں پر ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہاں پر بہت اچھے حالات بھی آ سکتے ہیں لیکن یاد رکھیں کہ ایک دن میں ایسا نہیں ہو گا بلکہ اس کے لئے آپ کو کوشش کرنی ہو گی۔
جہاں تک اصلاح نہ ہو سکنے کا وسوسہ آنے کی بات ہے تو سمجھ لیں کہ شیطان کام ہی یہی ہے کہ وہ اچھی چیز سے لوگوں کو بد ظن کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اس کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کا اسلحہ چھیننے کی کوشش کرتا ہے تاکہ آپ اس کا مقابلہ ہی نہ کر سکیں۔ آپ کا اسلحہ ذکر ہے۔ شیطان کسی بھی طرح آپ سے ذکر چھیننے کی کوشش کرے گا۔ آپ کا اسلحہ مشائخ کے ساتھ تعلق ہے، شیطان کسی بھی طریقے سے مشائخ سے منقطع کرنے پہ زور لگائے گا۔ اسی لئے وہ ایسے وسوسے ڈالتا ہے کہ تم کبھی ایک پیر کے ساتھ نہیں ٹک سکتے، تمہاری اصلاح تو ہونی نہیں ہے بس وقت کا ضیاع ہی ہو گا اس لئے اس کام کو ہی چھوڑ دو۔
فقہ میں ایک اصول ہے جسے ”اَھْوَنُ الْبَلِیَّتَیْن“ کا اصول کہتے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب کبھی ایسی صورت پیش آ جائے کہ آپ کے پاس صرف دو آپشن موجود ہوں، دونوں میں خرابی ہو اور کسی ایک کو اختیار کرنا بھی ضروری ہو تب اس آپشن کو اختیار کریں جو اَھْوَنُ الْبَلِیَّتَیْن ہو یعنی جس میں دوسرے کی نسبت کم خرابی ہو۔ علماء کرام آج کل کی سیاست کے لئے اسی اصول کو اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں کہ سیاست کا کوئی گروہ ایسا نہیں ہے جو مکمل طور پر صحیح ہو سب میں بہت ساری خرابیاں ہیں لیکن آپ سب کے درمیان موازنہ کر لیں اور آپ کے نزدیک جس جماعت میں سب سے کم خرابی ہو اسے ووٹ دے دیا کریں۔
آپ بھی اسی اصول کو اپنائیں۔ کسی ایک پیر کے ساتھ ٹکے رہیں گے تو کچھ نہ کچھ اصلاح ہوتی رہے گی ہو سکتا ہے کچھ خرابیاں باقی رہیں اور بہت دیر سے ٹھیک ہوں لیکن اصلاح کا کام جاری رہے گا۔ لیکن اگر کسی پیر کے ساتھ نہیں رہیں گے تو بالکل خسارے میں پڑنے کا خطرہ ہے اور یہ بڑی خرابی ہے۔ مکمل خرابی سے بہتر ہے کہ انسان کم خرابی میں رہے ہیں اور ایسی ترتیب میں شامل رہے کہ اس کی خرابیاں بتدریج کم ہوتی رہیں۔ اس لئے شیطان کے وسوسہ کی پروا نہ کریں اور اپنی طرف سے پوری کوشش جاری رکھیں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: ”اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انھیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے“۔
آپ کو بھی اللہ پاک راستے سُجھا دیں گے بس کسی ایک جگہ ٹک جاؤ اور کوشش جاری رکھو تو ان شاء اللہ مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ جو ذکر آپ کر رہے ہیں اس میں ناغہ مت ہونے دیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت مولانا شبیر احمد صاحب امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے، میں نے چند راتوں سے استخارہ کیا ہے اور میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں آپ سے بیعت ہو جاؤں۔
جواب:
اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کو ہمارے ساتھ مناسبت ہے تو آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے شامل ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہوئے کہ یا اللہ! اگر میرے لئے اس سلسلہ میں خیر ہے تو اس کو مزید بڑھا دے اور مجھے اس میں قبول فرما لے۔ اللہ پاک کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے وہ آپ کو بھی سلسلہ کی برکات سے نواز دیں گے۔
سوال نمبر12:
حکیم الامت حضرت تھانوی قُدِّسَ سِرُّہٗ اپنی تصانیف میں فرماتے ہیں کہ ”شیخ سے اگر طبعی مناسبت ہو تو بہت اچھی بات ہے البتہ کم از کم مناسبت عقلی ضرور ہونی چاہیے بلکہ مقصود مناسبت عقلی ہی ہے“۔ اس ملفوظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فرما رہے ہیں کہ مناسبت عقلی کو مناسبتِ طبعی پر فوقیت حاصل ہے۔ یہ مضمون سمجھ میں نہیں آیا کہ عقلی مناسبت کو طبعی مناسبت پر فوقیت کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ بات تو تسلیم ہے کہ قلبی مناسبت غیر اختیاری ہے لیکن اس کو عقلی مناسبت پر فوقیت کیوں حاصل ہے؟
جواب:
ایک بات یاد رکھیے:
﴿لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا﴾ (البقرۃ: 286)
ترجمہ: ”اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا“۔
اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے سمجھیں کہ اگر طبعی مناسبت کسی انسان کے بس میں نہیں ہے تو اللہ پاک اُس سے اِس کا مطالبہ بھی نہیں کریں گے۔ ایسا آدمی عقلی مناسبت کا ہی مکلف ہو گا۔ کیونکہ عقلی مناسبت ہر انسان کے اختیار میں ہو سکتی ہے۔ عقلی مناسبت یہ ہوتی ہے کہ انسان مختلف لوگوں کے درمیان مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھ موزانہ کر کے فیصلہ کرتا ہے کہ فلاں شیخ کے ساتھ میری مناسبت زیادہ ہے۔ مثلاً کسی آدمی کے سامنے تین مشائخ کا نام ہے اور اسے ان تینوں حضرات میں سے کسی کے ساتھ طبعی مناسبت محسوس نہیں ہو رہی۔ اب وہ عقلی مناسبت معلوم کرے گا، جس کا طریقہ یہ ہو گا کہ وہ یہ معلوم کرے کہ ان میں سے کس کے ساتھ میرا رابطہ سب سے زیادہ آسانی سے ہو سکتا ہے، میں ان میں سے کس سے سب سے زیادہ استفادہ کر سکتا ہوں، کس کی بات میرے دل و دماغ کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ اس طرح کے پہلو سامنے رکھ کر جس کے بارے میں عقل فیصلہ کرے کہ یہ شخص میرے لئے مناسب ہے، تو اس سے تعلق قائم کر لے۔ یہ جو اس آدمی نے عقلی طور پر غور و فکر کیا ہے اور موزانہ کیا ہے اور غور و فکر کے بعد عقلی طور پر ایک شیخ سے زیادہ استفادہ کے بارے میں معلوم ہوا ہے، اسی کو عقلی مناسبت کہتے ہیں۔ یہ مناسبت ہر انسان حاصل کر سکتا ہے اس لئے اول نمبر پر ہر آدمی اسی کا مکلف ہے۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ کسی پر مزید کرم فرما کر طبعی مناسبت بھی نصیب فرما دے تو یہ آدمی شطاریہ کے گروہ میں چلا جائے گا۔ شطاریہ کا طریقہ بہت سریع الاثر ہے۔
لہٰذا اس میں اشکال کی کوئی بات نہیں ہے کہ عقلی مناسبت مطلوب و مقصود ہے۔ مقصود وہی چیز بن سکتی ہے جو ممکن ہو۔ اور باقی فضل تو اللہ پاک کا جب بھی ہو جائے جس پر بھی ہو جائے یہ اس کی مرضی ہے، نیز یہ بھی اس کا کرم ہے کہ وہ اسے مزید عنایت فرما دے اور اس کی اپنے شیخ کے ساتھ طبعی مناسبت بھی ہو جائے۔
بزرگوں نے لکھا ہے کہ بعض دفعہ عقلی مناسبت ہی طبعی مناسبت بن جایا کرتی ہے، عقلی محبت طبعی محبت بن جاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر طبعی محبت و مناسبت محسوس نہ ہو تو ساری کوشش عقلی مناسبت پیدا کرنے پر لگائی جائے کیونکہ مقصود تو یہی ہے۔ اگر کوئی عقلی مناسبت کا حق ادا کرے تو پیچھے نہیں رہے گا۔ البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ طبعی محبت میں آسانی نسبتاً زیادہ ہوتی ہے، اس میں انسان کو قوت ارادی لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہمارے سلسلہ کے اندر اللہ پاک نے یہ کرم رکھا ہے کہ یہاں محبت کا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ اب یہ کس طرح ہوتا ہے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن ہمارے ہاں طبعی محبت ہو جاتی ہے اور اتنی ہو جاتی ہے کہ جو لوگ بعض دفعہ کسی وجہ سے چھوڑ دیں وہ بھی واپس آ جاتے ہیں، انہیں کسی اور جگہ قرار نہیں حاصل ہوتا، ان کو ایسی لگی ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے بالآخر واپس آ ہی جاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے جس پر بھی ہو جائے۔ ہم پر بھی اللہ کا کرم تھا کہ ہمیں اپنے حضرت کے ساتھ طبعی محبت نصیب فرمائی گئی تھی۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ، میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ میرا ذہنی انتشار اتنا بڑھا ہوا تھا کہ اگر حضرت نہ ہوتے تو شاید میں کسی سے بیعت نہ ہو سکتا۔ بس اللہ پاک نے پہنچا دیا جہاں پہنچانا تھا، جہاں کے لئے میں تھا اللہ پاک نے وہاں پہنچا دیا۔
اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بجا فرمایا کہ عقلی مناسبت مقصود ہے۔ کیونکہ طبعی مناسبت انسان کے بس میں نہیں ہے۔ اگر آپ کو طبعی مناسبت نہیں مل رہی تو پھر عقلی مناسبت لے لو، ممکن ہے اسی کو اللہ تعالیٰ طبعی بنا دے۔
سائل کی طرف سے اس جواب کے بعد میسج:
اللہ اکبر۔ ایک دم بات واضح ہو گئی۔ ماشاء اللہ جزاکم اللہ خیرا۔ الحمد للہ۔ اللہ نے حضرت والا کی برکت سے طبعی مناسبت پیدا فرما دی ہے اور اس کے کرشمہ پہ میں حیران ہوں۔
حضرت صاحب کی طرف سے جواب:
یہ ہمارے سلسلہ کی برکت ہے۔ الحمد للہ، اللہ پاک نے ہمارے سلسلہ میں یہ نعمت اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے۔ اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہوتی تو میرا خیال ہے کہ اس دور میں مجاہدہ کی روایت کا احیاء نہ ہو سکتا۔ کیونکہ اس لائن پہ لوگ بہت کم قائم رہتے ہیں۔ یہ چیز بہت مشکل تھی لیکن مناسبت طبعی موجود ہونے کی وجہ سے بہت آسانی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بعض سالکوں کو اتنا جلدی عطا فرمایا کہ اس پر میں خود بھی حیران ہوتا ہوں۔ بس اللہ پاک کا کرم ہے، اس پہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، شکر سے مزید اضافہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنے فضل کی بارشیں برساتا رہے۔ آمین۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم شاہ صاحب۔ کبھی کبھی مراقبہ کے دوران اور درود پاک پڑھتے وقت دل بہت سرد معلوم ہوتا ہے۔ میرے گناہ بہت زیادہ ہیں اور میں شاید اس قابل نہیں کہ درود پڑھوں اس لئے پہلے بہت استغفار کرتی ہوں۔ کیا میں آپ کے بتائے ہوئے ذکر کے علاوہ درود شریف جاری رکھوں؟
جواب:
شیطان مختلف بہانوں سے انسان کو سعادت سے محروم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک دفعہ میں حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ٹانگے میں جا رہا تھا۔ میں پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا جبکہ حلیمی صاحب اگلی سیٹ پر۔ سفر کے دوران انہوں نے یک دم پیچھے مڑ کر دیکھا اور فرمایا: ”شبیر! یاد رکھو درود شریف بغیر وضو کے بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ شیطان پہلے تو وضو نہیں رہنے دیتا، پھر کہتا ہے کہ بغیر وضو کے درود شریف نہیں پڑھ سکتے اس لئے درود شریف نہ پڑھو۔ حالانکہ اگر زبانی قرآن بغیر وضو کے پڑھ سکتے ہو اور ذکر اگر بغیر وضو کے کر سکتے ہو تو درود شریف بھی پڑھ سکتے ہو“۔
لہذا یہ صرف شیطان کا وسوسہ ہے کہ گناہ گار ہو، درود شریف پڑھنے کے قابل نہیں ہو اس لئے درود شریف پڑھنا ہی چھوڑ دو یا بہت کم پڑھو۔ آپ اس وسوسہ میں نہ آئیں اور فرائض و واجبات اور معمولات پورے کرنے کے بعد حتی الامکان زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھا کریں۔
آپ نے کہا کہ آپ کے گناہ بہت زیادہ ہیں اس لئے درود شریف پڑھنے سے شرمندگی ہوتی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو گناہوں کی تلافی شروع کر دیں۔ گناہوں کی تلافی کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ آپ توبہ و استغفار جاری رکھیں۔ دوسری یہ کہ جب بھی آپ کو محسوس ہو کہ آپ سے کوئی گناہ ہوا ہے تو اس کے برابر کوئی نیکی کر لی جائے تاکہ اس کی تلافی ہو جائے۔ آپ گناہوں کی تلافی کے لئے جو نیکی کرتی ہیں اس نیکی کی جگہ درود شریف ہی پڑھ لیا کریں درود شریف بہت بڑی نیکی ہے اور اس کے بارے میں واضح طور پر حدیث میں آیا ہے کہ درود شریف پڑھنے پر نیکیاں ملتی ہیں، درجات بلند ہوتے ہیں اور گناہ معاف ہوتے ہیں۔ آپ گناہوں کی وجہ سے درود شریف سے نہ رکیں بلکہ درود شریف کی وجہ سے گناہ چھوڑ دیں۔ درود شریف کی وجہ سے گناہ چھوٹ جاتے ہیں یہ ہمارے تجربہ کی بات ہے۔
ہمارے ایک ساتھی بلا کے سگریٹ نوش تھے۔ بہت سارے لوگوں نے اور ڈاکٹروں نے ان سے کہا کہ آپ سگریٹ نوشی نہ کریں لیکن وہ سگریٹ نوشی نہیں چھوڑ سکے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ انہیں درود شریف پڑھنے کی عادت ہو گئی۔ اس کے بعد ایک دن اس نے سگریٹ نوشی بالکل ہی ترک کر دی۔ میں نے ان پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہوا؟ ما شاء اللہ یہ تو بڑی کامیابی کی بات ہے، آخر آپ نے سگریٹ نوشی چھوڑی کیسے؟ کہنے لگے: بس یہ خیال آ گیا کہ جس منہ سے درود شریف پڑھتا ہوں اس منہ کے لئے سگریٹ پینا کوئی اچھی بات نہیں ہے، اس سوچ کے بعد سگریٹ نوشی چھوڑ دی۔
آپ بھی اسی بات پہ غور کریں اور گناہوں کا خیال آنے پر درود شریف پڑھنا مت چھوڑیں۔ ذرا سوچیں کہ ایک انتہائی گناہ گار انسان ہے، مسلسل گناہ کر رہا ہے اور اذان شروع ہو جاتی ہے۔ اس کے کانوں میں ”حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ“ کی آواز آتی ہے۔ اسے کیا کرنا چاہیے؟ کیا اس کی یہ سوچ درست ہو گی کہ میں تو بڑا گناہگار ہوں مجھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے؟ اس قسم کی سوچ بالکل غلط ہو گی بلکہ اس کے لئے تو نماز پڑھنے جانا زیادہ ضروری ہے تاکہ اس کے گناہ معاف ہوں۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پہ ارشاد فرمایا: لوگ کہتے ہیں کہ سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی۔ میں کہتا ہوں کہ شکر کرو کہ حج کو چلی گئی کسی اور جگہ نہیں گئی۔
لہٰذا مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر14:
السلام علیکم۔ حضرت جی، فنا فی الشیخ کیسے ہوتے ہیں؟
جواب:
مجھے آپ فنا فی الدنیا کے بارے میں بتا دیں میں آپ کو فنا فی الشیخ کے بارے میں بتا دوں گا۔ آپ نے دنیا کی فکر میں فنا لوگ دیکھے ہوں گے۔ میں نے تو فنا فی Laplacian بھی دیکھا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ فنا فی Laplacian کیا ہوتا ہے؟ ہمارے ایک کولیگ جو ریاضی کے پروفیسر تھے۔ ریاضی ان کے اوپر اتنی طاری تھی کہ جب وہ حج پہ گئے تو اپنے ساتھ Mathematics کی کتاب لے گئے تھے۔ ریاضی ان کے لئے ایک مشغلہ کی طرح تھی اس کے ساتھ شغل فرماتے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ اپنے کسی ساتھی سے کہا:
Wherever I see, Laplacian is functioning.
میں تو جس طرف بھی دیکھتا ہوں مجھے یہی نظر آتا ہے کہ ہر Laplacian کا اصول کام کر رہا ہے مثلاً چائے کیسے ٹھنڈی ہو رہی ہے؟ جواب: Laplacian۔ اگر stresses ہے تو اس میں بھی Laplacian۔ electrostatic ہے تو اس میں بھی Laplacian۔
Laplacian در اصل انجینئرنگ میں ایک مساوات کا نام ہے۔ تو وہ فنا فی Laplacian ہو چکے تھے۔ میرا خیال ہے کہ اب آپ فنا فی الشیخ کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے کہ آپ کا شیخ کے ساتھ اتنا تعلق ہو جائے کہ آپ کو ان کی باتیں ہر وقت یاد آنے لگیں، آپ کو ہر وقت ان کے ساتھ ملنے کا خیال ہو، کسی نہ کسی بہانے آپ ان کے ساتھ ہونا چاہتے ہوں، ان کی بات سن کے اس پر عمل کرنا چاہتے ہوں اور وہ جو بھی آپ کو بتائیں اس کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوں، آپ کو ان کی ڈانٹ میں بھی فائدہ محسوس ہوتا ہو۔ یہ فنا فی الشیخ ہے۔ جو آدمی فنا فی الشیخ ہوتا ہے اس کے لئے شیخ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ اس سے اگلی منزل فنا فی الرسول ہے۔ جب آدمی فنا فی الرسول ہو جاتا ہے تو اس کو ہر چیز سنت کے مطابق اچھی لگتی ہے۔ وہ اتباعِ سنت کو ہی اپنی کامیابی کا ذریعہ سمجھتا ہے، اسی پہ سب کچھ نثار کرتا ہے اور نبی ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے چلتے فنا فی اللہ کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر اسے ہر کام میں، ہر بات میں، ہر چیز اللہ ہی اللہ نظر آتا ہے۔
؏ جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔
اسے ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوتی ہے اور اس کی ہر چیز اللہ کے لئے ہوتی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو نصیب فرمائے۔
سوال نمبر15:
ایک خاتون نے مجھے میسج کیا تو میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور کہاں سے بات کر رہی ہیں؟ اس نے کہا کہ میں انسان ہوں اور زمین پر رہتی ہوں۔
جواب:
اب یہ کوئی جواب تو نہیں تھا۔ ظاہر ہے سارے انسان ہیں اور سب ہی زمین پر رہتے ہیں تو کیسے پتا چلے گا کہ کون بات کر رہا ہے۔ ایسے فلسفیوں کے ساتھ بات کرنا میرے لئے بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے سب سے درخواست ہے کہ جب بھی کوئی بات کرے تو واضح بات کرے۔ قرآن کا بھی حکم یہی ہے:
﴿قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا﴾ (الأحزاب: 70)
ترجمہ: ”اور سیدھی سچی بات کہا کرو“۔
لہٰذا اس طرح کی باتیں ہمارے ساتھ نہیں چل سکتیں کیونکہ ہم خود کھل کے بات کرنا چاہتے ہیں درمیان میں کوئی ابہام نہیں رکھنا چاہتے۔ جو بھی ہمارے ساتھ رابطہ رکھے تو اسی طرح رکھے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن