سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 391

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

حضرت! سارے خیر کے کام اللہ تعالی کے پیارے حبیب ﷺ کے ذریعے سے ہمیں ملے ہیں۔ اب اگر کوئی مسلمان خیر کا عمل کرتا ہو، اور عمل کرتے وقت سنت پر عمل کرنے کی نیت نہ ہو، بلکہ وہ شخص خالی الذہن ہو، تو کیا وہ عمل مقبول ہوگا؟ یا بعد میں جب خیال آئے، تو اس وقت اللہ تعالی سے دعا کر لے کہ اے اللہ! اس عمل کو قبول فرما۔

جواب:

حدیث مبارکہ میں آتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ"۔ (مسلم شریف: 4927)

ترجمہ: "تمام اعمال کا مدار نیت پر ہے"۔

یعنی آدمی کے لئے صرف عمل کر لینا کافی نہیں، بلکہ عمل سے پہلے نیت کا درست ہونا بھی ضروری ہے۔ مثلاً: اگر کوئی شخص داڑھی رکھ لے، لیکن داڑھی رکھنے سے اس کی نیت یہ ہو کہ اس سے میں اپنے گلے کی گیلڑ کو چھپاؤں گا، اس صورت میں اس کو داڑھی کا ثواب نہیں ملے گا، البتہ داڑھی کے دنیوی فوائد اسے حاصل ہو جائیں گے۔ اس کی مثال وضو کی طرح ہے، جیسے اگر کوئی شخص وضو کرے، لیکن وضو کی نیت نہ کرے، تو اس صورت میں اس شخص کا وضو ہو جائے گا، اور اس وضو سے پڑھی گئی نماز بھی ہو جائے گی، لیکن اس شخص کو وضو کا ثواب نہیں ملے گا کیونکہ وضو کا ثواب تب ملتا ہے جب آپ وضو کی نیت کریں، لہٰذا مسلمان کو چاہئے کہ ہر نیک کام سے پہلے نیت کر لے۔ خالی الذہن ہو کر کام نہیں کرنا چاہئے، لیکن اگر خالی الذہن ہو کر کام کر لیا، تو دنیا کے اعتبار سے اس کا جو فائدہ ہے، وہ اسے ضرور ملے گا۔ اور ہر اچھا کام اچھے کام کو کھینچتا ہے، اس لحاظ سے یہ کام دوسرے اچھے کاموں کو بھی کھینچے گا۔ لیکن ہر عمل سے پہلے نیت کرنی چاہئے، تاکہ اس عمل کا ثواب بھی ملے، اور ہر کام سے پہلے سنت پر عمل کرنے کی نیت کرنی چاہئے۔ بلکہ ابتدا ہی سے سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی نیت کر لینی چاہئے، اس صورت میں جس جس سنت پر عمل ہوگا، ان شاء اللہ! اس عمل کا ثواب بھی ضرور ملے گا، لیکن ہر عمل سے پہلے اگر نیت کی تجدید کی جائے تو اس کا زیادہ فائدہ ہے، اور اس کے بہت زیادہ اثرات ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 2:

حضرت! میرے اندر اخلاص کی بہت کمی ہے، کیونکہ میں نیک عمل اس لئے کرتا ہوں کہ لوگوں کے سامنے میری عزت ہو، مثلا: چہرے پر داڑھی اس لئے رکھی ہوئی ہے تاکہ میری عزت ہو۔

جواب:

جو چیز اختیاری ہے اسے اختیاری سمجھنا چاہئے، جو چیز غیر اختیاری ہے اسے غیر اختیاری سمجھنا چاہئے۔ جو اختیاری ہے اسے کرتے کیوں نہیں؟ اور جو غیر اختیاری ہے اس کے بارے میں پریشان کیوں ہوتے ہو؟

یہ اصولی بات ہے۔ اب آپ دیکھیں کہ یہ ساری باتیں جو کی گئیں ہیں، کیا یہ اختیاری ہیں یا غیر اختیاری؟ مثلا: داڑھی رکھنا اختیاری ہے، اور اس میں یہ نیت کرنا کہ میں سنت پر عمل کر رہا ہوں، یہ بھی اختیاری عمل ہے، لہذا داڑھی رکھنے میں یہ نیت کر لے کہ میں آپ ﷺ کی سنت پر عمل کر رہا ہوں، اس میں جو دنیا کا فائدہ ہے، وہ خود بخود انسان کو مل جاتا ہے، اس کی نیت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ یا جیسے کوئی شخص روشن دان اس نیت سے بنائے کہ اس میں سے اذان کی آواز آئے گی، اس نیت پر اس شخص کو ثواب ملے گا، اور اس میں روشنی، ہوا خود بخود آئے گی، اس کے لئے نیت کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس ثواب کے لئے نیت کی ضرورت تھی۔ اس وجہ سے ہر عمل سے پہلے نیت کر لینی چاہئے، تاکہ ثواب سے محرومی نہ ہو۔ اور اس کے دنیاوی فائدے وہ خود بخود ملیں گے۔ باقی انسان کو بلاوجہ وسوسوں میں بالکل نہیں پڑنا چاہئے، کیونکہ جب انسان وسوسہ میں پڑ جائے، تو پھر وہ عجیب و غریب کام کرتا ہے، جیسے! ایک صاحب تھے، وہ جب امام کے پیچھے نماز پڑھتے تو نیت کرتے وقت امام کی کمر پر انگلی رکھ کر کہتے پیچھے اس امام کے، کیونکہ امام کی اقتدا کس طرح کرنی ہے، نیت کا طریقہ معلوم نہیں تھا، پورے الفاظ ذہن میں نہیں آتے تھے اس لئے وہ یہ عمل کر لیتے تھے۔ لہذا انسان ایسا وہمی بھی نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ نیت کرنے میں سستی بھی بالکل نہیں کرنی چاہئے۔

سوال نمبر 3:

حضرت جی! جب میں سکول اور کالج میں پڑھتا تھا، تو بس میں سفر کرتا تھا، لیکن کرائے والا جب آتا تھا، تو میں اسےکرایہ ادا نہیں کرتا تھا، کیونکہ سٹوڈنٹ مفت سفر کرتے ہیں، کرایہ نہیں دیتے، اس لئے میں بھی نہیں دیتا تھا، لیکن اب اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے کہ ہمارا یہ عمل غلط ہے، برائے کرم آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ میں اب اس کا ازالہ کیسے کر سکتا ہوں؟ اللہ تعالی آپ کو سلامت رکھے آمین۔

جواب:

آپ یہ سوال مفتیان کرام سے پوچھیں، جو وہ فرما دیں اس پر عمل کر لیں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔

حضرت! کل ہمارے ہاں ہمارے پیر و مرشد کا ماہانہ رسالہ آیا تھا، جسے میں پڑھ رہی تھی، اس میں حضرت صاحب نے اپنی ایک کمی کا ذکر کیا، جس کی وجہ سے کل سارا دن میں پریشان رہی تھی، سوچ رہی تھی کہ جب اتنی بڑی ہستی کو اپنی کمی نظر آتی ہے، تو مجھے اپنی کمی نظر کیوں نہیں آتی؟ کل سارا دن میرا افسوس میں گزرا، اور سوچتی رہی کہ آنجناب سے تعلق جوڑے ہوئے مجھے تین سال ہوگئے ہیں، لیکن میں تین سالوں میں اپنی کچھ بھی اصلاح نہیں کر سکی۔ یعنی باطنی حالات کے اعتبار سے جس طرح میں پہلے دن تھی اسی طرح میں آج ہوں، کیونکہ آج بھی مجھے اپنی خامیوں کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا۔

جواب:

چلیں آپ کو اپنی یہ خامی تو نظر آ گئی کہ آپ کو اپنی خامیاں نظر نہیں آتیں۔

سوال نمبر 5:

اس پر اس نے کہا کہ حضرت جی! آپ کی بات بالکل مناسب ہے، مگر میں اپنی خامیاں کیسے معلوم کروں؟ اگرچہ میرا سوال غیر مناسب ہے، مگر میں کسی اور سے یہ سوال کر بھی نہیں سکتی، معافی چاہتی ہوں۔

جواب:

اس سوال پر میں ایک قصہ سناتا ہوں، قصہ یہ ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں ایک صاحب ٹھہرے ہوئے تھے، حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا بھی اس طرح کا ایک لیٹر بکس تھا، جس طرح کا ہمارے ہاں لیٹر بکس ہے۔ جو لوگ اپنے احوال بیان کرنا چاہتے تھے، وہ خط لکھ کر اس لیٹر بکس میں ڈال دیتے تھے۔ اور پھر وہ خطوط حضرت کو موصول ہو جاتے تھے، حضرت ان کو پڑھ کر جواب دیتے، تاکہ سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ہر کسی کو پتہ چل جائے کہ میرے سوال کا جواب مل رہا ہے۔ یہ حضرت کا معمول تھا۔ اور جب کبھی ضرورت محسوس ہوتی تو مخاطب بھی کر لیتے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے کہا کہ حضرت! آپ نے مجھے اپنی خامیوں کے بارے میں لکھنے کا فرمایا کہ میں آپ کو اپنے عیوب لکھوں۔ جس پر حضرت میں نے بہت کوشش کی، لیکن مجھے اپنے عیوب نظر ہی نہیں آ رہے، میں کیا کروں؟ اس پر حضرت نے فرمایا کہ بھائی میں کسی کے عیوب کی ٹوہ میں نہیں رہتا کہ اب میں آپ کے عیوب کی ٹوہ میں لگ جاؤں، اور آپ کو بتانا شروع کر دوں کہ آپ میں یہ عیب ہے، اور یہ عیب ہے، اور پھر فرمایا کہ آپ کو اپنے عیوب نظر نہیں آتے، گویا آپ لاعلاج ہیں، اور لاعلاج لوگوں کا میں علاج نہیں کرتا، آپ اپنے گھر جائیں، اور جب تک آپ کو اپنے ایک دو نہیں، بلکہ سیکڑوں عیوب نظر نہ آئیں، اس وقت تک آپ کو مجھے خط لکھنے کی بالکل اجازت نہیں، اور نہ ہی مجھ سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور پھر فرمایا کم بخت یہ تو سوچا ہوتا کہ میزان کا ترازو قائم ہے، اور ہمارے اعمال تولے جا رہے ہیں، اب آپ کے اعمال پیش ہو رہے ہیں، اس وقت آپ دیکھیں کہ میرا کون سا عمل ہے جو اللہ کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہے۔ یہ کہہ کر فرمایا جاؤ اور جب تک تمہیں اپنے عیوب نظر نہیں آتے، اس وقت تک تمہارا یہاں رہنا بالکل فضول ہے۔ وہ چلے گئے، اور تقریباً ایک مہینے کے بعد ان کا خط آیا، جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ حضرت! آپ کا دیا ہوا مراقبہ میں نے کیا، اس مراقبہ سے ماشاء اللہ مجھے اپنے اتنے عیوب نظر آئے کہ میں ان کو گن نہیں سکتا، اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اپنے عیوب آپ کو لکھنا شروع کر لوں؟ اور پھر کہا کہ میں اپنے دل کے بارے میں سمجھتا تھا کہ جیسے ایک منقش صندوق ہے، اس پر خوبصورت بیل بوٹے ہیں، لیکن جس وقت میں نے اس کا دروازہ کھولا، تو میں نے دیکھا کہ اس کے اندر گند ہی گند ہے۔ حضرت نے جب اس خط کو دیکھا تو فرمایا مبارک ہو، الحمد للہ! فائدہ ہوگیا۔ اور پھر فرمایا کہ اب آپ مجھے اپنے عیوب لکھ سکتے ہیں، البتہ ایک وقت میں صرف ایک عیب لکھیں۔ اور فرمایا جو گند آپ نے اپنے دل کے اندر دیکھا ہے، یہ گند ان شاء اللہ! کھاد بنے گا، اور اس سے ان شاء اللہ! پھل پھول بنیں گے۔ اصل میں یہی چیز ہوتی ہے، لیکن انسان سوچتا نہیں ہے، وہ اپنے نفس میں گم ہوتا ہے، وہ یہ نہیں سوچتا کہ میں کیا ہوں، کون سا عمل میرا اس قابل ہے، جو میں اللہ کے سامنے پیش کر سکتا ہوں، یہ بات ہمیں مستحضر رکھنی چاہئے۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

حضرت جی! اگر کسی شخص کی نماز قضاء ہو، جس کی وجہ سے وہ بطور سزا چھ روزے لگا تار رکھ لے، کیا یہ درست ہے؟

اور اگر سحری کے لئے الارم لگایا ہو، لیکن پھر بھی آنکھ نہ کھلے، اور صحت بھی اس قابل ہو کہ سحری کھائے بغیر بھی آسانی سے روزہ رکھ سکتا ہو، تو اس صورت میں روزہ رکھنے کو ترجیح دی جائے یا چھوڑنے کو؟

جواب:

اس سوال کے جواب کے دو رخ ہیں، ایک رخ فتوے کا ہے، اور ایک رخ تربیت کا ہے، جو فتوے کا رخ ہے، وہ تو بالکل ظاہر ہے کہ اگر روزہ رکھے گا تو روزہ ہو جائے گا، اور ویسے بھی آج کل موسم شدید نہیں ہے، سردی ہے، اور اس موسم میں بغیر سحری کھائے بھی روزہ رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، صرف تھوڑی سی تکلیف ہوتی ہے، لیکن کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

اور دوسرا رخ تربیت کا ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ بطور تربیت جرمانے کے روزے بھی رکھیں۔

سوال نمبر 7:

Aslam o Alaikum. I want to share few thoughts in my mind. Let me summarize it as short as I can. Nineteen years ago, I started my job with salary from only few thousands rupees. I had much financial responsibility like my younger sister with her five children was living with us الحمد للہ. With time, my salary increased and I fulfilled many responsibilities but still I am an elder person. My family and my two sisters are dependent on me and my brother to support. When it was needed, I moved to the UK and changed my job at that time. I thought it was good for me. I earned money with the passage of time and brought it home etc, but in the meanwhile my friends earned more and promoted more in career and money while I was left behind in both careers and money. Now my friends tease me that I am left behind and they earned a lot more money etc. With this background, now despite so much progress I still feel insecure about my financial future. I feel in case of any financial crisis like health problems or if my sister needs money how I will cope with the situation and so on because being a doctor I have seen people suffering due to lack of financial resources when they are in crisis especially in illness. Is it ناشکری، حسد or I am not trusting Allah توکل. I am comparing myself to others. Compared to fifteen years back Allah has given me a lot but still my mind feels insecure about the future. Although I do شکر to Allah, why still I feel worried deep in my heart and feel bad to see my colleagues have progressed more and I am left behind? How can I change my thought process?

جواب:

اس کے جواب سے پہلے میں ایک لطیفہ سناتا ہوں، لطیفہ بھی کیا، اصل میں تو یہ کسی صاحب سے سوال کیا گیا تھا کہ زمین و آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ یعنی کتنے ڈانگ فاصلہ ہے؟ وہ کہنے لگا یہ تو ڈانگ پر منحصر ہے، اب اگر یہ ڈانگ زمین سے آسمان تک ہو، تو اس صورت میں ایک بھی ڈانگ نہیں۔

خیر! بات یہ ہے کہ اگر آپ کی پریشانیاں اس وجہ سے ہیں کہ اگر آپ پر بہت بڑی بیماری آجائے، تو فی الحال آپ کی جو آمدنی ہے، وہ اس بیماری کے علاج کے لئے کافی نہیں ہے۔ دیکھیں! آپ نے کہا کہ بہت بڑی بیماری آ جائے۔ جبکہ بہت بڑی بیماری کی تو کوئی حد ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اگر آپ پاکستان کے سب سے زیادہ مالدار بن جائیں، اور پھر کوئی ایسی بیماری آ جائے کہ اتنے پیسوں سے بھی ٹھیک نہ ہو، تو پھر بتائیں کیا کریں گے؟ لہٰذا انسان کو اتنا توکل ضرور ہونا چاہئے کہ انسان کم از کم اپنی زندگی اطمینان کے ساتھ گزار سکے، اور کسی گناہ کا ارتکاب نہ کرے، اتنا توکل ضروری ہے۔ لہٰذا یہ صرف شیطانی وساوس ہیں، جو آپ کو گھیرے ہوئے ہیں، بس آپ کو جو کچھ ملا ہے، اسی پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ اور شکر کرنے میں آپ کو دو فائدے حاصل ہوں گے۔ پہلا فائدہ: آپ کو تسکین مل جائے گی، اور دوسرا فائدہ: یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے مال کو اور بڑھا دیں گے۔ کیونکہ آپ اس مال پر شکر کریں گے، تو اللہ تعالیٰ اس کو اور بڑھا دیں گے۔ اور ناشکری کی صورت میں مزید مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ لہذا آپ ان باتوں کو بالکل بھول جائیں کہ کیا ہوگا؟ اور کیا نہیں ہوگا۔ کیونکہ جو بھی ہوگا اس وقت بھی آپ اللہ ہی سے مانگیں گے، اور اب بھی آپ اللہ تعالیٰ ہی سے مانگیں گے۔ لہذا اب آپ اللہ تعالیٰ سے مانگنا شروع کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر کوئی ایسی مصیبت نہ آنے دے۔

اور آپ یہ دعا بھی ضرور پڑھ لیا کریں:

﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَآ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ (البقرہ: 286)

ترجمہ: "اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے کوئی بھول چوک ہو جائے، تو ہماری گرفت نہ فرمائیے۔ اور اے ہمارے پروردگار! ہم پر اس طرح کا بوجھ نہ ڈالیے، جیسا آپ نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اور اے ہمارے پروردگار! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیے، جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو، اور ہماری خطاؤں سے درگزر فرمائیے، ہمیں بخش دیجیے اور ہم پر رحم فرمائیے۔ آپ ہی ہمارے حامی و ناصر ہیں، اس لیے کافر لوگوں کے مقابلے میں ہمیں نصرت عطا فرمائیے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

یہ قرآنی دعا ہے، لہذا آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسی کسی بیماری میں مبتلا نہ کرے، جس کو آپ حل نہ کر سکیں، اس صورت میں آپ کو دعا کا بھی ثواب ملے گا، اور اللہ تعالیٰ آپ کے مسئلہ کو بھی حل فرما دے گا۔ اور باقی غیر ضروری وساوس میں بالکل نہ پڑیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے، آپ سے بھی زیادہ غریب لوگ موجود ہیں، اور ان کے مسائل آپ سے زیادہ ہیں، لیکن وہ ان وسوسوں میں مبتلا نہیں ہیں۔ بلکہ میں نے تو ایسے لوگوں کو دیکھا ہے کہ ایک وقت کا کھانا بھی مشکل سے ان کے پاس ہوتا ہے۔ لیکن وہ اس پر بھی شکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ مالک ہے۔ مجھے حال ہی میں ایک واقعہ کسی نے واٹس ایپ پر بھیجا تھا، پورا واقعہ تو مجھے یاد نہیں ہے، البتہ کچھ کچھ یاد ہے، غالباً گوجرانوالہ والے کے ایک حکیم صاحب تھے، حکیم صاحب کا طریقہ کار یہ تھا کہ ہر روز اپنی بیوی سے پوچھتے کہ آج آپ کو سودا سلف کے لئے کتنے پیسے چاہئیں؟ بیوی ہر روز سارا سامان ایک پرچی پر لکھ دیتی، اور پرچی ان کو دے دیتی، حکیم صاحب پرچی جیب میں رکھ لیتے، اور اپنی دکان پر چلے جاتے، دکان پر جا کر مریضوں کو دوائی وغیرہ دیتے، اور جب دیکھتے کہ پرچی پر لکھے گئے پیسے پورے ہوگئے ہیں، تو اسی وقت دکان بند کر دیتے، اگرچہ پیسے ایک گھنٹے میں پورے ہو جائیں، یا آدھے گھنٹے میں پورے ہو جائیں، یا چار گھنٹے میں پورے ہو جائیں، بس دکان اسی وقت بند کر دیتے جب پرچی پر لکھے گئے پیسے پورے ہو جاتے۔ گویا یہ انکا توکل تھا۔ ایک دفعہ ان کی بیوی نے لکھا کہ بیٹی جوان ہوگئی ہے، اس کے لئے جہیز کا سامان چاہئے، اور اتنا جہیز ہونا چاہئے، حکیم صاحب نے اپنے معمول کے مطابق دکان پر آ کر پرچی کھولی، تو پرچی دیکھ کر حیران ہوگئے کہ اب میں کیا کروں گا، کیونکہ ظاہری بات ہے کہ جہیز کا سامان ایک دن کی آمدنی سے پورا نہیں ہوتا، حکیم صاحب اسی پریشانی میں بیٹھے سوچ رہے تھے کہ اب میں کیا کروں گا کہ اچانک ایک صاحب آئے، اور آکر سلام کیا، حکیم صاحب نے سلام کا جواب دیا، اور ان کو بیٹھنے کی جگہ دی، ان صاحب نے کہا حضرت! آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ حکیم صاحب نے جواب دیا نہیں، میں نے آپ کو نہیں پہچانا، ان صاحب نے کہا کہ آپ نے مجھے اس لئے نہیں پہچانا کیونکہ میں کافی عرصہ بعد آپ کے پاس آیا ہوں، اور پھر کہنے لگا کہ ایک مرتبہ میں نے آپ سے دوائی لی تھی، اس دوائی سے مجھے بہت فائدہ ہوا تھا، اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک موذی بیماری سے نجات دے دی تھی۔ اسی وجہ میرے دل میں ایک تمنا تھی کہ میں آپ کی کوئی خدمت کروں، لیکن مجھے کوئی موقع نہیں مل رہا تھا، پھر کہنے لگا ہماری ایک بھتیجی تھی، جس کی شادی ہونے والی تھی، اور اس کے لئے ہم نے سارا سامان تیار کر رکھا تھا، لیکن وہ اچانک فوت ہوگئی، اب وہ سامان ہمارے پاس ہے، میں نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا، اور میں نے کہا کہ اس حکیم صاحب کے بارے میں پہلے سے میں نے سوچ رکھا تھا کہ ان کی کوئی خدمت ضرور کروں گا، لیکن موقع نہیں مل رہا تھا، اور اب یہ موقع ہے، مشورہ کر کے یہ سامان میں آپ کے لئے لایا ہوں، آپ اسے قبول فرما لیں۔ حکیم صاحب بھی یہ معاملہ دیکھ کر بہت حیران ہوگئے۔

بات اصل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے کی اللہ تعالی ضرور مدد فرماتے ہیں۔ اور یہی بات اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان فرماتے ہیں:

﴿وَمَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ (الطلاق: 3)

ترجمہ: "اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے، تو اللہ اس (کا کام بنانے) کے لئے کافی ہے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

معلوم ہوا کہ اتنا توکل انسان کو ضرور کرنا چاہئے، تاکہ بلاوجہ پریشان نہ ہو، ورنہ اپنے آپ کو ذہنی مریض بنا دے گا۔ لہذا آپ کو شکر کرنا چاہئے، اور اتنا توکل ضرور کرنا چاہئے، جس سے کم از کم آپ اس طرح کے وساوس سے بچ سکیں۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔

حضرت! چند سوالات دل میں پیدا ہوئے ہیں، کچھ دن میں نے غور و فکر بھی کیا ہے، اور حضرت والا کی تصانیف مبارکہ کا مطالعہ بھی کیا ہے، خصوصی طور پر "حقیقت جذب و سلوک" کے صفحات 113 سے 115 تک دیکھے ہیں، مگر اپنی کم فہمی کی بنا پر جواب حاصل نہیں کر سکا۔ عموماً جب کبھی کوئی سوال ذہن میں آتا ہے، تو حضرت والا کی غیبی دعا، اور توجہ کی برکت سے جواب مل جاتا ہے، اور خود بھی دعا کی توفیق ہوتی ہے، اور اکثر تو یوں ہوتا ہے کہ اگر اس دن کی مجلس میں جواب نہیں ملا، تو ہفتے کی کسی نہ کسی مجلس مبارکہ میں بندہ کو اللہ تعالیٰ جواب عنایت فرما دیتے ہیں۔ الحمد اللہ! مگر اپنے گناہوں کی وجہ سے چند سوالات ہیں، جن کے لئے یہ مذکورہ نعمت حاصل نہیں ہوسکی۔ لہذا اب حضرت والا کی خدمت میں انہی سوالات کو عرض کرنے کی جرات کرتا ہوں۔ مگر ڈر بھی لگ رہا ہے کہ کہیں ڈانٹ ہی نہ پڑ جائے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جب ہر شخص کی جبلت اور اس کا مزاج مختلف ہوتا ہے، اور یہ بات بھی جو حضرت والا نے واضح فرما دی تھی کہ وہ اسم مربی، جس کے ساتھ کسی شخص کو مناسبت ہوتی ہے، وہ بھی ہر شخص کا مختلف ہوتا ہے، اور یہ بات بھی حضرت والا نے سمجھا دی تھی کہ یہ کام شیخ کا ہوتا ہے، اگر وہ مناسب سمجھے تو مرید کو ایک خاص ترتیب سے گزار کر جس میں ذکر اور مجاہدہ دونوں ہوتے ہیں، اسم مربی کے ذریعے وہ فنا فی اللہ ہوسکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جو شخص فنا فی اللہ کسی اسم مربی کے ذریعے ہوتا ہے، تو پھر وہ کامل فنا کیسے حاصل کر سکتا ہے؟ جبکہ یہ فعل صفاتی ہے، نہ کہ شیوناتی، اور خارجی حجابات صفات کے قائم رہتے ہیں، جیسا کہ حضرت والا نے صفحہ نمبر 114 میں فرمایا ہے، اس میں کبھی کامل معرفت نہیں ہوتی، اس سے بظاہر یہ معلوم ہوا کہ اگر سالک نے اسم مربی سے فنا فی اللہ حاصل کیا، تو کامل معرفت سے سالک رہ جائے گا۔ کیا شیونات سے فیض پانے والے کا بھی اسم مربی مختلف ہوتا ہے؟ یعنی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے ننانوے ناموں میں اور بھی کوئی اسم ہوتا ہے؟

جواب:

آپ کا سوال بہت گہرا ہے، اور فکر پر مبنی ہے، اس لئے جواب دینا بھی ضروری ہے۔ آپ نے اسم مربی کے بارے میں جو بات لکھی ہے، یہ بات آپ کی بالکل صحیح ہے، کیونکہ اسم کا تعلق صفات کے ساتھ ہوتا ہے، اور صفات کے ذریعے جو فنا ہوتا ہے، وہ کامل نہیں ہوتا، بلکہ وہ دوبارہ اپنی حالت کی طرف عود کر سکتا ہے، یہ بات تو بالکل صحیح ہے، لیکن اس بات کو کہ، صفات کے ذریعے سے جو اصلاح ہوتی ہے وہ کامل نہیں ہوتی، اتنا معمولی بھی نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ کئی دفعہ صفات کے ذریعے ذات سے محبت ہو جاتی ہے۔ مثلاً: ایک شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے رحیم ہونے پر عاشق ہوگیا، یا کریم ہونے پر عاشق ہوگیا، اور اب وہ اسی میں مگن ہے، اور اسی کیفیت میں وقت گزارتے گزارتے اس کو ذات کے ساتھ محبت ہوگئی، اور یہ معاملہ عموماً مردوں اور عورتوں دونوں کے ساتھ ہوتا ہے، یعنی انسانوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ اگر کسی شخص کو، کوئی انسان کسی بھی وجہ سے پسند آ جائے، مثلاً: ایک بڑا ادیب ہے، اور وہ آپ کو پسند آ جائے، یا کوئی بڑا شاعر ہے، وہ آپ کو پسند آجائے، یا کوئی بہت کرم کرنے والا ہے، وہ آپ کو پسند آجائے، پھر اسی پسند کی وجہ سے آپ کو اس کی ذات کے ساتھ محبت ہو جائے، تو پھر یہ ہوگا کہ آپ کو اس کے کرم والی بات تو یاد نہیں رہے گی، لیکن آپ اس پر عاشق ہوں گے، اور آپ اس کو کسی چیز سے نہیں روکیں گے، بلکہ ہر وقت اس کے گن گائیں گے۔ اور ایسی صورت میں اگر وہ آپ کے اوپر اپنا کرم بند بھی کر دے، پھر بھی آپ اس کے عاشق رہیں گے، کیونکہ محبت ذات تک پہنچ گئی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص صفات سے ذات تک پہنچ جائے، تو یہ بھی ممکن ہے۔ البتہ اسم مربی کے ذریعے جو اصلاح ہوتی ہے، اس میں فرض عین کے درجہ کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ باقی جو تفصیلی اصلاح ہے، وہ ان ہی چیزوں میں منحصر ہے۔ لیکن صفات کو اتنا روکھا سمجھنے میں تھوڑا بے ادبی کا پہلو ہے۔

ایک دفعہ جرمنی میں، میں کسی کے ہاں مہمان ہوا، وہاں ان کے کھانے میں مولی بھی تھی، چونکہ مولی نہیں کھاتا تھا، اس لئے میں نے مولی نہیں کھائی، مہمان نے مجھ سے کہا کہ آپ نے مولی کیوں نہیں کھائی؟ میں نے جواب دیا کیونکہ آپ ﷺ نہیں کھاتے تھے، اس پر انہوں نے ایک عجیب بات کی، انہوں نے کہا، اس وقت جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین موجود تھے، آپ ﷺ نے ان کی طرف کھانا کر دیا تھا، اور فرمایا: میرے پاس جو آتے ہیں، وہ آپ لوگوں کے پاس نہیں آتے۔ یہ بات سنتے ہی فوراً ان کے ہاتھ سے میں نے مولی لے لی، اور کھا لی، اور پھر میں نے کہا کہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے تو بڑا نہیں ہوں۔ اس سے آپ آسانی سے بات سمجھ جائیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ صفات کے ذریعے آپ ﷺ کے سوا باقی انبیاء علیہم السلام کو بھی دیتے ہیں، تو کیا ہم انبیاء علیہم السلام سے بڑے ہوگئے۔ لہٰذا اللہ کی پسند پر اپنی پسند کو قربان کرنا چاہئے۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے صفات کے ذریعے سے دے رہے ہیں، تو میں انکار کرنے والا کون ہوتا ہوں؟ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا پہ راضی ہونا، مقام رضا ہے، اور یہ آپ کو حاصل ہوسکتا ہے، اور اس سے آپ کی ترقی جلدی ہوسکتی ہے، اور مقامِ رضا آخری مقامات میں سے ہے، لہذا اس طرح کی بات ذہن میں نہیں لانی چاہئے۔

اسی طرح محمدی مشرب کے بارے میں بھی، بعض لوگ کئی دفعہ کہتے ہیں کہ ہم محمدی مشرب کیوں نہیں ہیں؟ اس بات پر میں آپ کو عرض کروں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے فعل پر اعتراض کرنے سے بچنا چاہئے، یہ بات بہت اہم ہے، خصوصا روحانیات میں تو اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہئے، مثال کے طور پر "نَعُوۡذُ بِاللہِ مِنۡ ذٰلِکَ" اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ میں محمد ﷺ کیوں نہیں ہوں، تو اسے کیا کہا جائے گا؟ یہ بہت بڑی بے ادبی ہوگی۔ اسی طرح یہ بات ہے۔ اگرچہ آپ ﷺ کی محبت کی وجہ سے انسان کہہ دے، تو اسے معذور سمجھا جائے گا، البتہ محمدی مشرب مانگنے اور اس کے لئے دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس میں شکایت کا کوئی پہلو نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ اللہ جل شانہٗ رب العلمین ہے اور وہ سب کا رب ہے، لہٰذا اسی چیز کو دیکھتے ہوئے انسان کو اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی رہنا چاہئے، اور یہ بات بعض دفعہ کوئی محبت کی وجہ سے کہتا ہے، جبکہ بعض دفعہ کوئی نفس کی وجہ سے کہتا ہے، جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اپنے آپ کو اس قابل سمجھنا کہ میں منتخب شخص ہوں، اور یہ سوچ نفس کی وجہ سے ہوتی ہے، اس لئے یہ بہت خطرناک سوچ ہوتی ہے، لہٰذا اس پر استغفار کرنا چاہئے۔ البتہ محبت کی وجہ سے دعا بے شک کر سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ کے لئے اسے دینا کوئی مشکل بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ قوانین ہمارے لئے ہیں، نہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے، اللہ تعالیٰ اپنے قوانین کا خود پابند نہیں ہے۔ لہذا وہ جب چاہے دے سکتا ہے، اس لئے دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس کو نفس کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ لیکن اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ ذہن میں انبیاء علیہم السلام کا معاملہ ہونا چاہئے۔

ایک دفعہ میرے سامنے ایک صاحب نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مخالفت کی، میں نے اسے کہا کہ اگر مجھے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساتھ نصیب ہوا تو یہ میرا بہت اونچا مقام ہوگا، اس پر اس نے کہا کہ کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا صحابی ہے، اور صحابی ہونا کوئی معمولی چیز ہے؟ کہاں وہ اور کہاں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا، ہم لوگ کہاں پر ہیں۔ لیکن بہرحال خواہش تو ہوسکتی ہے کہ اگر میرا مقام اتنا اونچا ہو کہ میں ان کے ساتھ ہو جاؤں، تو یہ میرا بہت اونچا مقام ہوگا، اور یہ بات بالکل صحیح ہے۔ اور وہ صاحب تھے بھی سید، تو ظاہر ہے میں بھی سادات میں سے تھا، تو وہ کہنے لگا کہ آپ یہ کیسی بات کر رہے ہیں؟ میں نے کہا خدا کے بندے وہ صحابی رسول ہیں، اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان جو مشاجرات ہوئے ہیں، ان میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل صواب میں سے تھے، یعنی وہ حق پر تھے، اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اجتہادی خطا پر تھے۔ کیونکہ اختلاف اجتہادی تھا، یہ ساری بات جاننے کے باوجود میں کہتا ہوں کہ صحابی، صحابی ہے۔ اسی طرح حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام تک شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نہیں پہنچ سکتے، حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نہیں پہنچ سکتے، کیونکہ وہ صحابی ہیں۔ لہٰذا یہ بات اگر ہم ذہن میں رکھیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ یہ معاملہ ہے، تو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ اگر ہم ہو جائیں تو کتنی بڑی خوش قسمتی ہے۔ لہذا ایسی باتیں نہیں سوچنی چاہئیں، یہ تو اصولی باتیں ہیں، جو حضرت نے فرما دی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہم ان وسوسوں میں پڑ جائیں کہ ہم محمدی مشرب کیوں نہیں ہیں، فلاں کیوں نہیں ہیں، اس طرح کی باتوں کی طرف بالکل نہیں جانا چاہئے۔

اور اسم مربی والا جو طریقہ ہے، اس میں ضروری نہیں کہ ہر ایک کو اس سے گزارا جائے، کیونکہ یہ طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے، اور مجھے نہیں لگتا کہ آج کل کے حال میں کوئی شیخ اسم مربی کے ذریعے سے کسی کی تربیت کر رہا ہو، اور نہ ہی میں نے کبھی سنا ہے، بلکہ پہلی دفعہ ہم نے حضرت کے "مکتوب شریف" میں پڑھا ہے، اس لئے یہ واحد طریقہ نہیں ہے، اس لئے جو شیونات والے ہیں، ان کے لئے اللہ تعالیٰ جو بھی طریقہ پسند کر لیں۔ بہرحال یہ اصولی بات ہے کہ اسم مربی کے ذریعے سے انسان کی اصلاح ہوسکتی ہے، اور اگر باقی لوگوں کی ہوسکتی ہے، تو شیونات والوں کی کیوں نہیں ہوسکتی۔ پہلی بات تو یہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شیونات والے بھی اگر ناقدری کریں تو وہ بھی مقام حاصل کرنے سے رک سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین: 4)

ترجمہ: "کہ ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہترین سانچے میں ڈھالا ہوا ہے، تو کیا ہر انسان اس کا حق ادا کرتا ہے؟ نہیں! ہر انسان اس کا حق ادا نہیں کرتا۔ مثلاً سب سے بڑی بات کہ سادات کی بڑی فضیلت ہے۔ لیکن شمر بن ذی الجوشن بھی ان میں تھا، تو ان کے ساتھ ہم کیا معاملہ کریں گے؟ یعنی فضیلت اور چیز ہوتی ہے، اور فضیلت کا لازماً حاصل ہونا اور چیز ہے، آپ کے اندر اللہ تعالیٰ نے صلاحیت رکھی ہے، اگر آپ اس کو استعمال کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، لیکن اگر نہ کریں تو پھر کس کا قصور ہے؟ اسی طرح ایک شخص ہے، وہ صفات کے ذریعے سے لیتا ہے، لیکن محنت کرتا ہے، اور بہت آگے چلا جاتا ہے، اور دوسرا شخص شیونات والا ہے، لیکن وہ محنت نہیں کرتا، بلکہ اپنی جگہ پہ کھڑا ہے، تو اب اس بنیاد پر فیصلہ نہیں ہوگا، بلکہ عمل والی بات جاری رہے گی، جیسا کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ سادات کی جو فضیلت ہے، وہ دنیا میں ہے، آخرت میں تو اعمال کی بات ہوگی، اسی طرح وہاں پر بھی اعمال کی بات ہوگی، لہذا اعمال کو سنبھالنا چاہئے، اور اپنے اعمال کو ٹھیک کرنا چاہئے۔

سوال نمبر 9:

محمدی مشرب کو شیون سے فیض ملتا ہے، باقی اولیاء اللہ کو جو مختلف انبیاء کے مشارب پر ہیں، ان کو صفات کے ذریعے سے فیض ملتا ہے، اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ غیر اختیاری ہے، تو عمل کیا حقیقتاً غیر اختیاری ہے؟ اور غیر اختیاری محمدی مشرب کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ سکتے ہیں تاکہ کامل معرفت کے حصول کا ذریعہ بنے؟

جواب:

یہ بات غالباً میں کر چکا ہوں کہ واقعی یہ غیر اختیاری ہے، اللہ تعالیٰ کی تشکیل ہے، اور انبیاء کرام کو جو صفات کے ذریعے سے ملتا ہے یہ بھی اللہ کا قانون ہے۔ لیکن اس سے انبیاء علیہم السلام کا مقام کم نہیں ہوتا۔ لہٰذا آپ دعا بے شک کر لیا کریں، لیکن اس کی ناقدری نہیں کرنی، کیونکہ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کے ساتھ لگایا ہوا ہے، تو اس تک وہ پہنچنے کی کوشش کرے، جیسے! حضرت نے "مکتوبات شریفہ" میں فرمایا ہے، "نظر برقدم" نظر برقدم کا مطلب یہ ہے کہ نظر قدم پر ہونی چاہئے، یعنی اس کی انتہا پر۔ مقصد یہ ہے کہ نظر اس پر ہونی چاہئے، اور عمل اس کے مطابق ہونا چاہئے، نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑنا چاہئے۔

سوال نمبر 10:

"فہم التصوف" میں صفحہ نمبر 314 پر حضرت والا نے توابع احوال یعنی سائیڈ ایفیکٹ کا بیان فرمایا کہ ہر عمل کا ایک مبدا ہوتا ہے، جو اس عمل کا محرک ہوتا ہے، اور ایک منتہا ہوتا ہے، جو عمل میں مقصود ہوتا ہے۔ مثلاً: مصیبت زدہ کی مدد کرنا مقصود ہے، پس مصیبت زدہ کو دیکھ کر آدمی کا دل کڑھتا ہے، اور اِس میں اُس کے ساتھ مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، یہ تأثر ہے، جو عمل کی وجہ بنا ہے، پھر اس کے بعد وہ عمل آدمی کر لیتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ مبادی سے پاک ہے، اس لئے جو کرنا چاہتا ہے، بغیر تأثر کے کر لیتا ہے۔ پس اگر کوئی شخص کڑھنے کی کیفیت سے گزرے بغیر مصیبت زدہ کی مدد کرے، تو اس کے اخلاق اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا عکس ہیں، اور وہ زیادہ کامل ہے۔ بنسبت اس شخص کے جو اس کیفیت سے گزرنے کے بعد عمل کرے۔ پس اگر کسی کو مقامات کے بغیر ہی کیفیات حاصل ہیں، تو وہ زیادہ کامل ہے۔ اس بات کو خوب سمجھنا چاہئے۔ احوال میں بعض وہ ہوتے ہیں، جن میں کسی کے نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا، ان کو "احوال غیر محتمل الضرر" کہتے ہیں، اور بعض میں نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس بات سے یہ اصول سمجھ آیا کہ کیفیات مقصود نہیں، بلکہ مقامات مقصود ہیں۔

نمبر (2) اگر کوئی کیفیت کے بغیر مقامات حاصل کر لے تو وہ زیادہ کامل ہے۔

نمبر (3) کیفیات دو اقسام پر مبنی ہیں، ایک وہ جس میں نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا، اور دوسری وہ جس میں نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بغیر تأثر، یا درد دل کی کیفیت کے، کسی مصیبت زدہ کی مدد کرتا ہے، تو اس کو زیادہ کامل کیسے جانیں؟ جبکہ قرآن کریم میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے سورۂ فتحِ مبین میں فرمایا ہے:

﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ (الفتح: 39)

ترجمہ: "محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

اور رسول اللہ نے ﷺ فرمایا:

"مَثَلُ المُؤْمِنِيۡنَ فيۡ تَوَادِّهِمْ وتَرَاحُمِهِمْ وتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الۡجَسَدِ إِذَا اشْتَكٰى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعٰى لَهٗ سَائِرُ الۡجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالۡحُمّٰى"۔ (مسلم:6586)

ترجمہ:"مسلمانوں کی ایک دوسرے سے محبت، ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور ایک دوسرے کی طرف التفات اور تعاون کی مثال ایک جسم کی طرح ہے۔ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے، تو باقی سارا جسم بیداری اور بخار کے ذریعے سے (سب اعضاء کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر) اس کا ساتھ دیتا ہے"۔

ان نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی دوسرے شخص (جو مصیبت زدہ ہو، اور مؤمن بھی ہو) اس کے درد کو محسوس کرنا، اور اس کی مدد کرنا مقصود ہے۔ تو پھر یہ کیفیت مقصود کیوں نہیں؟

جواب:

اس کو میں خلطِ مبحث کہوں گا، خلط مبحث اس طرح کہ یہاں "رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ" کی جو بات ہے، وہ رحیم سے ہے۔ اور رحیم کیا ہے؟ یہ کیفیت ہے؟ یا مقام ہے؟ رحم کرنا مقام ہے۔ اور کیفیت تو اس صورت میں ہے کہ کسی کی تکلیف کو دیکھ کر رونے کی شکل بن جائے، لیکن اس کی مدد نہ کی جائے۔ رونے کی شکل بن جانا کیفیت ہے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بڑی اچھی مثال دی ہے۔ فرمایا کہ ایک شخص ہے، وہ بیٹھا ہوا کھانا کھا رہا ہے، اور اس کے پاس ایک مریل کتا بیٹھا ہوا بھوک سے مر رہا ہے، اور یہ شخص اس کے لئے رو رہا ہے، اتنے میں ایک دوسرا شخص اس کے پاس آتا ہے، اور وہ اس سے پوچھتا ہے کہ کیوں رو رہا ہے؟ جواب میں رونے والا شخص کہتا ہے مجھے اس کتے پر ترس آ رہا ہے، دیکھو یہ بھوک کی وجہ سے مر رہا ہے، اس پر وہ شخص کہتا ہے کہ آپ اسے اپنے کھانے میں سے کچھ کھلا دو، تو وہ فورا کہتا ہے کہ اتنی محبت بھی نہیں ہے۔ دوسرا آدمی (جس کو رونے کی کوئی کیفیت حاصل نہیں ہے لیکن) جا کر اس کے لئے کھانے کی کوئی چیز لے آتا ہے، اور اس کو کھلا دیتا ہے۔ تو یہاں پر رونے والا شخص کیفیات والا ہے، جبکہ دوسرا شخص مقام والا ہے۔ اس مثال سے یہی بات حضرت نے سمجھائی ہے کہ تأثر سے مراد علامات ہیں، جو اس کے اوپر ظاہر ہوگئیں۔ جبکہ دوسرے آدمی پر علامات تو ظاہر نہیں ہوئیں، لیکن اس کے دل تک بات پہنچ جاتی ہے، اور وہ دل سے کام کروا بھی دیتا ہے، یہ قویٰ پر منحصر ہے۔ مردوں اور عورتوں میں یہی فرق ہے۔ مثلاً عورت کے سامنے اگر کوئی بچہ دریا میں گر گیا، تو وہ رونا شروع کر دے گی، جبکہ مرد کے سامنے اگر گر گیا تو وہ فورا چھلانگ لگا کر اس کو بچا لےگا۔ کیونکہ ہر شخص کا اپنا اپنا domain ہے۔ یعنی عورتوں میں تأثر زیادہ ہے، جبکہ مردوں میں تاثر کم ہے، لیکن پاورفل ہے۔ اسی طرح مضبوط تار سے آواز زیادہ نکلتی ہے یا باریک تار سے؟ مضبوط تار سے تو آواز نکلتی ہی نہیں، اس پر تو بڑا زور لگانا پڑتا ہے۔ لہذا ایسے آلات سے آواز آئے گی، ورنہ نہیں۔ تو جو مضبوط تار ہوتی ہے، وہ مضبوط ہوتی ہے، لیکن اس سے آواز کم نکلتی ہے۔ مردوں اور عورتوں میں یہ بنیادی فرق ہے کہ عورتوں میں تأثر زیادہ ہوتا ہے، لیکن عمل کی قوت کم ہوتی ہے، جبکہ مردوں میں تأثر کم ہوتا ہے، لیکن عمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے۔ تو اس لحاظ سے تخلق باَخلاقِ اللہ جو فرمایا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ کی طرح اخلاق بناؤ، یعنی اللہ تعالیٰ بے لوث ہے، تو تم بھی بے لوث ہو جاؤ، کوئی طلب نہ کرو۔ اللہ جل شانہٗ بے انتہا دینے والا ہے، تم بھی جتنا دے سکو بے انتہا دے دو۔ اللہ جل شانہٗ رحم کرنے والا ہے، تم بھی رحم کرو۔ اللہ تعالیٰ کرم فرماتے ہیں، تم بھی کرم کرو۔ اللہ پاک عذر قبول فرماتے ہیں، تم بھی عذر قبول کر لو۔ اللہ پاک معاف فرماتے ہیں، تم بھی معاف کرو۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق ہیں۔ یہ جو چیزیں ہیں، انہیں میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ اگر ہم لوگوں کو یہ پتہ چل جائے کہ اصل مقامات ہیں، اور مقامات اگر مل جائیں، آثار بے شک نظر نہ آئیں، لیکن عمل نظر آئے، کیونکہ عمل ہی مطلوب ہے، تو ہم آثار کی فکر چھوڑ کر مقامات کی فکر کریں۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔

حضرت! نظر پھسلنے کا مجاہدہ کیسے کریں؟ جس طریقے سے نظر کی حفاظت کا مجاہدہ 40 دن کا ہے، کچھ اس طرح کی ترتیب ہے؟ والسلام۔

جواب:

نظر پھسلنے کا کوئی مجاہدہ نہیں ہوتا، ورنہ آپ نظر پھسلتے پھسلتے اس میں مبتلا ہو جائیں گے۔ مجاہدہ صرف وہی ہے، جو میں نے کہا ہے، وہ مجاہدہ جب پکا ہو جائے، تو آپ کی نظر یقیناً پھر پھسلے گی، یعنی اگر آپ کو ممنوع جگہ کی طرف دیکھنا ضروری ہوا، تو اس پر آپ کی نظر نہیں ٹکے گی، بلکہ وہ پھسلے گی، کیونکہ آپ کے دل میں خوف ہوگا کہ کہیں میں گناہ میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ اس لئے نظر پھسلے گی۔ لیکن اس کے لئے کوئی علیحدہ مجاہدہ نہیں ہے، بلکہ وہی مجاہدہ ہے جو غیر محرم کو نہ دیکھنے کا ہے۔ مثلا: حیادار ایک دیہاتی بچی جو کبھی اپنے گھر سے نہ نکلی ہو، اس کو اگر آپ ڈاکٹر کو دیکھانے کے لئے بھی گھر سے لاتے ہیں، تو اس کے لئے ایک، ایک پیر من من بھاری ہوگا، باہر نہیں جا سکے گی۔ بہت مشکل ہوگی اس کے لئے۔ لیکن اگر ایک دفعہ وہ باہر آ گئی، اور آگے پیچھے چلتی رہی، تو عین ممکن ہے کہ ایک وقت ایسا آ جائے کہ پھر گھر کے اندر ٹھہرنا اس کے لئے مشکل ہو جائے۔ البتہ اگر وہ مجاہدہ کر کے پھر گھر میں ٹھہر جائے، اور باہر نہ نکلے، تو پھر اس کو وہ کیفیت حاصل ہوسکتی ہے، لیکن فی الحال اس کو ٹھہرنا مشکل ہوتا ہے، اور مجاہدہ بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن: بہرحال اگر مجاہدہ کر لے تو دوبارہ ٹھہرنا آسان ہوسکتا ہے۔ اسی طرح نظر کا مجاہدہ بھی ہے، جس وقت انسان نظر کا مجاہدہ کر لیتا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ نظر پھر اوپر نہیں اٹھتی۔ اب اگر آپ اوپر نظر اٹھائیں گے بھی، تو بس اتنی اٹھائیں گے، جتنی کی ضرورت ہے۔ اور دیکھیں گے بھی اتنا، جتنے کی ضرورت ہے۔ اس سے زیادہ نہیں، کیونکہ اندر کی پولیس بیدار ہو چکی ہوگی، اور وہ اس کو کنٹرول کرے گی۔ یہ استادوں کے لئے، اور ڈاکٹروں کے لئے بہت ضروری مجاہدہ ہوتا ہے، کیونکہ ڈاکٹروں کو بعض دفعہ خواتین مریض دیکھنی ہوتی ہیں، اس لئے اگر ان کا یہ مجاہدہ مضبوط ہوا، تو ماشاء اللہ!۔ جیسے: ڈاکٹر عبد الحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا تھا کہ حضرت! میرا تو ایسا مطب ہے، اور اس میں مرد بھی آتے ہیں، عورتیں بھی آتی ہیں، تو میں کیا کروں؟ اس پر حضرت نے فرمایا: پھر اپنی نظر کو پتھر بنا دو۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے پھر نظر پتھر کر دی۔ اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے۔

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 69)

ترجمہ: "اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے"- (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

یہ قرآن پاک کی نص ہے، تو جو لوگ کوشش اور محنت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے میں، اور اس کی بات کو ماننے میں، تو اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کے راستے سجھاتے ہیں۔ جس کے لئے جس قسم کا راستہ ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو نصیب فرما دیتے ہیں۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔

حضرت شاہ صاحب! ایک چیز جو ذہن میں بار بار آ رہی تھی، آپ سے رہنمائی چاہئے، جیسے ہماری عام زندگی کے اندر ہم لوگ professional desires کے اندر goals بناتے ہیں، اور پھر اس کو achieve (حاصل کرنا) کرنے کے لئے، ایک لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں، strategy (حکمت عملی) بناتے ہیں، تاکہ ہم اس کو visualize (تصور کرنا) کر سکیں۔ اور اس goal کو اور اس تک پہنچنے کے لئے جو required effort ہے، وہ ہم کر سکیں۔ تو کیا تصوف میں بھی کچھ goals (مقاصد) ہیں؟ جو ہم بنا سکتے ہیں۔ اور اس کو visualize کریں، جیسے مثال کے طور پر کوئی یہ goal بناتا ہے کہ میں اللہ کی رضا کو حاصل کروں، اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کروں، اور پھر اس کے لئے وہ تگ و دو کرتا ہے۔ تو اس طرح کے کیا ہم goals اپنی زندگی کے اندر بنا سکتے ہیں؟ تاکہ ہم اس کا مکمل احاطہ کر سکیں، نا صرف اپنی Professional life یا career-wise زندگی، بلکہ ساتھ ہی اپنے دیگر معمولات بھی، اور تمام تر چیزوں کا اس میں احاطہ ہو جائے۔ تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی نظر میں، اور اللہ تعالیٰ کے معاملات میں بھی، ہم پایۂ تکمیل تک پہنچیں۔ اور اچھی جگہ پر پہنچ جائیں۔ اور Professional life میں بھی اس سے ہم کافی رہنمائی لیتے رہیں۔ بہت شکریہ جی، السلام علیکم۔

جواب:

سوال کافی اچھا ہے، لیکن اس کا جواب اس طرح نہیں دیا جا سکتا، جس طرح مانگا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اصلاح نفس ہے، اس کا طریقہ کار باقی چیزوں سے procedure-wise (طریقہ کار کے اعتبار سے) مختلف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں دنیا کا عکس ہے۔ اس لئے اس میں انسان کو صحیح picture (تصویر) نظر نہیں آتی۔ مثلاً: اگر کوئی شخص دریا کے کنارے پر لگے ہوئے درخت پر چڑھ رہا ہو، اور آپ اس کو پانی میں دیکھیں، تو آپ اس کو نیچے جاتے ہوئے محسوس کریں گے، آپ کو لگے گا کہ وہ نیچے جا رہا ہے۔ اور جب وہ نیچے آ رہا ہو، تو آپ کو لگے گا کہ اوپر آ رہا ہے۔ اب result (نتیجہ) مختلف ہے۔ actual (حقیقت) کیا ہے، اور دکھائی کیا دیتا ہے۔ اسی طرح سے یہاں پر بھی یہ صورتحال ہے کہ جو آدمی بیمار ہے، وہ اپنے آپ کو صحت مند سمجھ رہا ہے۔ اور جو صحت مند ہے، وہ اپنے آپ کو بیمار سمجھ رہا ہے۔ میں اکثر اس کی مثال دیتا ہوں کہ جیسے: مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جو کتابیں ہیں ان میں حضرت اپنے لئے سیاہ کار، خطاکار، گناہگار جیسے الفاظ لکھتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟ ہم اس کو مان لیں کہ حضرت ایسے ہی تھے۔ حضرت ایسے تو نہیں تھے، لیکن حضرت اپنے آپ کو بالکل ایسا ہی محسوس کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے، کیونکہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ان کی بڑی بے تکلفی تھی، اس لئے حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے کہا، یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے؟ یہ کیسے کپڑے پہنے ہوئے ہیں؟ جائیں اور کپڑے بدلیں۔ اس پر انہوں نے کہا، حضرت! میرا باطن گندا ہے، ظاہر کے درست ہونے سے کیا ہوگا؟ حضرت آئے، اور بے تکلفی سے ان کے گریبان میں ہاتھ ڈالا، اور ہاتھ نیچے لے آئے تو سارا کرتا پھٹ گیا، حضرت نے کہا اب جاؤ اور دوسرا کرتا پہن لو۔

حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا خود اپنا واقعہ ہے کہ جب ان کو حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت دے دی، تو انہوں نے کسی کو نہیں بتایا، البتہ لوگوں کو پتہ چل گیا، اور لوگ آئے کہ حضرت جی! بیعت ہونا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا میں اس قابل نہیں ہوں۔ یہ سن کر وہ لوگ بہت حیران ہوئے کہ حضرت نے تو ان کو اجازت دی ہے، اور یہ کہتے ہیں کہ میں اس قابل نہیں ہوں، لوگوں نے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ پر جا کر شکایت کر دی کہ وہ تو اس طرح کہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم نے اجازت تو دی ہے۔ اس بات پر حضرت مدنی کو صاحبزادگان نے بلا لیا، جب حضرت وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا، حضرت! ہمیں آپ کی شکایت پہنچی ہے، کیا آپ نے ہمارے والد کو جھوٹا کہا ہے؟ حضرت نے کہا "اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ" میں اپنے شیخ کو کیسے جھوٹا کہہ سکتا ہوں؟ انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ادھر بیعت کرنے گئے، تو وہ کہتے ہیں، میں اس قابل نہیں ہوں۔ حضرت آپ کو قابل سمجھ رہے ہیں، اور آپ اپنے آپ کو ناقابل سمجھ رہے ہیں، کون سچا ہے آپ بتائیں؟

ایسے ہی جب ہمارے مفتی مختار الدین شاہ صاحب مدظلہ العالی کو اجازت ملی، تو انہوں نے بھی چھپایا ہوا تھا۔ تو ان کے پیچھے حضرات بھیجے، جب حضرات وہاں پہنچ گئے، تو انہوں نے حضرت سے کچھ نہیں کہا بلکہ لوگوں کو انہوں نے کہا کہ آپ لوگ کتنے خوش قسمت ہیں کہ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ آپ کے گاؤں میں ہیں۔ اس بات پر وہ بہت غصے ہوگئے کہ آپ نے یہ کیوں کہا؟ انہوں نے کہا کہ آپ اپنا غصہ پی لیں، ہم نے حق بیان کیا ہے، آپ کی جو مرضی ہو وہ کر لیں، ہم نے کوئی جھوٹ نہیں کہا، بات تو ہم نے سچی کی ہے۔ حضرت نے کہا آپ نے یہ اعلان کیوں کیا؟ انہوں نے کہا اعلان کو چھوڑیں۔ اتنے میں ایک آدمی آیا، جو ان کا رشتہ دار تھا، غالباً کزن تھا، اس نے کہا میں بیعت ہونا چاہتا ہوں، حضرات نے کہا اس کو بیعت کریں، انہوں نے کہا کہ میں نہیں کرتا۔ حضرات نے کہا چلو ٹھیک ہے، آپ بیعت نہ کریں، لیکن ہم بھی آپ کے ہاں کھانا نہیں کھاتے، اب پٹھانوں کو یہ کہنا کہ آپ کے ہاں کھانا نہیں کھاتے، یہ تو بہت بڑی مصیبت ہوتی ہے۔ تو وہ بڑی منتیں کرنے لگے، انہوں نے کہا نہیں، جب تک آپ ان کو بیعت نہیں کریں گے، اس وقت تک ہم کھانا نہیں کھائیں گے۔ اور پھر ان سے بیعت کروائی۔

بہرحال کچھ لوگ تو چاہتے ہیں کہ ہمیں اجازت مل جائے، اور جن لوگوں کو اجازت ملی، وہ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ جب اصلاح ہو جاتی ہے، تو انسان اپنی نظروں میں گر جاتا ہے۔ نزول کی کیفیت یہی ہوتی ہے کہ اپنی نظروں میں گر جانا۔ اب آپ اس کے لئے کون سے steps (اسٹپس) بنائیں گے؟ اس لئے بات شیخ پر چھوڑی جاتی ہے، شیخ ہی کسی کے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ یہ ایسا ہے، اور یہ ایسا ہے۔ تو اس قسم کے steps میں آپ نہ ٹِکیں، اس پر ہمارا ایک شعر ہے۔

اس کو بازار کی دنیا میں نہیں لانا شبیر

یہ تو بس عشق کے میدان کی ندا ہوتی ہے


بہرحال یہ بازار میں لانے والی چیزیں نہیں ہیں۔ بلکہ یہ تو اخلاص کی دنیا ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی دنیا ہے۔ لہذا جن کو اپنے شیخ پر اعتماد ہوگا، وہ اپنے شیخ کی بات کو سمجھیں گے۔ اور اگر کسی اور چیز کی ضرورت ہوگی، تو وہ چیز اس میں نہیں مل سکتی۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم۔

حضرت! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو صحت، عافیت، اور معاملات میں برکت عطا فرمائے۔ (آمین) میں نے نومبر کے معمولات کا گوشوارہ ارسال کر دیا ہے، مزید رہنمائی درکار ہے، ستمبر میں آپ نے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ ’’حَقْ‘‘، 600 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 200 مرتبہ پڑھنے کی ہدایت فرمائی تھی، اور ساتھ میں تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار بھی۔ اکتوبر میں routine (باقاعدگی) سے جاری نہیں رکھ پایا، مگر نومبر میں پابندی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور ربیع الاول میں درود بھی پڑھ رہا ہوں۔

جواب:

ما شاء اللہ! یہ ڈاکٹر صاحب ہیں، جنہوں نے یہ لکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے میں عرض کروں گا کہ ایسی ورزش کے بارے میں کیا خیال ہے کہ کبھی کریں کبھی نہ کریں۔ کیا ایسے ٹھیک ہے؟ کیا اس طرح فائدہ ہوگا کہ دوائی کبھی کھائیں کبھی نہ کھائیں، جب تک صحت مند نہ ہوں۔ کیا خیال ہے؟ ڈاکٹر صاحب! کچھ گنجائش ہے اسی طرح جب دل چاہے تو کھائیں جب دل نہ چاہے تو نہ کھائیں؟ ایسی چیزوں کی گنجائشیں نہیں ہیں۔ انسان ناغہ کرتا ہے، تو بہت دور چلا جاتا ہے، پھر اس کو کور کرنے کے لئے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس وجہ سے ناغے چھوڑیں، اور اپنے ذکر کو صحیح معنوں میں پورا کر لیں۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 100 مرتبہ ہے۔ اور تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار یہ 100 100 مرتبہ تو عمر بھر کے لئے ہیں۔ اور نماز کے بعد والا جو ذکر ہے، جب یہ پورا مہینہ اہتمام کے ساتھ کر لیں، پھر مجھے بتائیں، ان شاء اللہ پھر آگے بتائیں گے۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم۔

حضرت! پچھلے ایک مہینے سے ان سنتوں پر عمل شروع کیا ہے، الحمد للہ! اور نوے فیصد استقامت کے ساتھ عمل کر رہا ہوں۔ دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھنا، مسواک کرنا، جمعہ کے دن اول وقت میں مسجد جانا، غسل کرنا، رات کو قمیض اتار کر بستر چھاڑ کر سونا، کوئی بھی کام کروں تو سیدھے ہاتھ سے کرنا، گھر میں داخل ہونے، اور باہر جانے کی دعا پڑھنا، اکڑوں بیٹھ کر کھانا کھانے کی سنت، دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کرنا، ناخن سنت کے مطابق کاٹنا پانچے ٹخنے سے اوپر رکھنا، کھانا بھوک باقی رکھ کر کھانا، سونے سے پہلے دعائیں پڑھنا، جب کپڑے سلوانے ہوں تو دائیں پٹی کو بائیں پر سلوانا۔ ان شاء اللہ: آج سے قضاء عمری شروع کر دی ہے، آپ دعا فرما دیں کہ اللہ پاک استقامت عطاء فرمائے۔ اور آپ نے سوال و جواب کی مجلس میں فرمایا تھا کہ سنتوں پر عمل کرنے کا ایک گروپ بننا چاہئے، حضرت! وہ کب تک بن جائے گا؟

جواب:

ان شاء اللہ: میں ذمہ داروں سے عرض کرتا ہوں کہ وہ گروپ بنا دیں۔

ناخن سنت کے مطابق کاٹنے کی جو آپ نے بات کی ہے، ناخن سنت کے مطابق کاٹنے کا کون سا طریقہ ہے؟ علماء نے بتایا ہے کہ یہ سنت نہیں ہے۔ خیر بہرحال اس طریقے سے کاٹیں، لیکن اس کو سنت نہ سمجھیں۔ باقی یہ سنتیں آپ نے جہاں سے لی ہیں، اس کی تفصیل مجھے بتا دیں کہ کون سی کتاب سے لی ہیں؟ تاکہ اس پر بات ہوسکے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ