اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْن واَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
حضرت جی! میں اپنے احوال بیان نہیں کر سکتا، بہت بار کوشش کی مگر آپ کے سامنے بات کرتے ہوئے اصل بات بھول جاتا ہوں اور اگر لکھنے کی کوشش کروں، تو لکھ نہیں پاتا۔ آپ رہنمائی فرما دیں۔
اور دوسری بات یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اگر مجھے گناہ کا خیال آ جائے اور پھر آپ کا خیال آئے کہ اگر میرے شیخ مجھے اس حالت میں دیکھ لیں، تو کہیں وہ مجھے اپنے سے جدا نہ کر دیں، تو اس کی وجہ سے الحمدُ للہ گناہ کا خیال تو ختم ہو جاتا ہے۔ مگر کیا اس طرح اپنے شیخ کے بارے میں خیال آنا اور اللہ تعالی کے بارے میں نہ آنا صحیح ہے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر وقت دیکھ رہا ہے۔
جواب:
عقل کو استعمال کرنا بہت ضروری ہے، بعض دفعہ انسان دل کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے لیکن عقل اس کو سہارا دیتی ہے، تو ایسے وقت میں انسان کو عقل سے کام لینا چاہئے، چنانچہ جیسا کہ آپ فرما رہے ہیں کہ میں آپ کے سامنے بات نہیں کر سکتا، تو یہ دل کی بات ہے لیکن عقل یہ کہتی ہے کہ بات کرنا تو ضروری ہے، چاہے جس طریقے سے بھی ہو۔ ایسی صورت میں انسان لکھ لے، چونکہ لکھتے وقت شیخ سامنے نہیں ہوتا، تو انسان لکھ سکتا ہے، یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے، جو hints ہیں وہ پہلے لکھ لیا کریں، پھر ان کی تفصیل لکھ لیا کریں، تو کام ہو جائے گا۔
دوسری بات کو ایسے سمجھو کہ اگر انسان نے تین سیڑھیوں پہ چڑھنا ہو لیکن جس سیڑھی پہ چڑھ رہا ہے اس کا خیال ہو اور تیسری سیڑھی کا خیال نہ ہو، تو کیا کہیں گے کہ وہ غلط کر رہا ہے؟ نہیں، کیونکہ پہلی سیڑھی کا خیال تو پہلے آئے گا، اس کے بعد دوسری سیڑھی کا، پھر تیسری سیڑھی کا۔ اسی کو کہتے ہیں: فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول، فنا فی اللہ۔ فنا فی اللہ تک تو تیسری سیڑھی پر چڑھنے کے بعد پہنچنا ہے، پہلی سیڑھی پر اگر انسان کو اللہ پاک کی منشاء یعنی گناہ سے بچنا نصیب ہو جائے، تو اس کا شکر ادا کرنا چاہئے، اس پہ پریشان نہیں ہونا چاہئے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بہترین ذکر وہ ہے جو انسان کو گناہ سے روکے، اس لئے اگر آپ کو شیخ کے ذکر سے گناہ سے بچنا نصیب ہو جائے، تو آپ کے لئے محض شیخ کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ذریعہ ہوگا، لہذا اس سے پریشان نہیں ہونا چاہئے، اس کو اللہ پاک کا فضل سمجھنا چاہئے، کیونکہ شیخ کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے، جیسا کہ دروازے کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، لیکن جس دروازے سے اندر داخل ہو کر انسان اپنے مقصود تک پہنچتا ہے، اس دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ پس شیخ بھی ایک دروازہ ہے، جس کے ذریعے سے انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے، لہذا اس ذریعے کی بھی قدر کرنی چاہئے، اس پر پریشان نہیں ہونا چاہئے۔
سوال نمبر 2:
حضرت! آپ کا بیان لائیو سنتے ہوئے جب disconnect (منقطع) ہو جائے، تو اس وقت بھی خاموش بیٹھنا چاہئے یا اس وقت میں استغفار یا کوئی اور ذکر کر سکتے ہیں؟
جواب:
اس وقت آپ کوئی بھی ذکر کر سکتے ہیں، کیونکہ اس وقت تو آپ کچھ سن نہیں رہے ہوتے۔
سوال نمبر 3:
حضرت! آپ میرے روحانی والد ہیں، میں کھل کر آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ اگر میں آپ سے شرم کروں تو پھر کدھر جاؤں؟ حضرت! مشائخ عظام کی صحبت کی برکت اور اللہ کے فضل سے اللہ تعالی کی محبت کا کچھ ذرہ مجھے بھی نصیب ہوا ہے، جس کی بدولت ذکر کرتے وقت ذکر کرنے کو دل کرتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے جب سے آپ کا سلسلہ شبیریہ نصیب فرمایا ہے، اس کے بعد سے میرا یہ معمول ہے کہ جو وقت بچ جاتا ہے اس میں میں کلمہ، استغفار اور درود شریف پڑھتا ہوں، جیسا کہ یہ سلسلہ مبارکہ کے معمولات میں بھی ہیں۔گھر میں صبح کے وقت بیوی کو اور شام کے وقت بچوں کو میں تعلیم کرتا ہوں، بیوی کو خطبات حکیم الامت، بچوں کو صحابہ کرام اور اولیاء اللہ کی زندگی سے درس دیتا ہوں، اور جو ساتھی ساتھ ہیں، انہیں اب فہم التصوف پڑھاتا ہوں، اور مزید آپ کے بیانات سنواتا ہوں، اور دو ابتدائی کتب بھی جو آپ نے ارشاد فرمائی ہیں یعنی تصوف کا خلاصہ اور زبدۃ التصوف ساتھیوں کو دیتا ہوں،
حضرت! آپ سے اس دعا کی درخواست ہے کہ ان سب احوال میں سے اگر کوئی حال اچھا ہو، تو وہ مقام بن جائے اور جو ریاکاری اور برائی ہو، وہ آپ کی برکت سے مجھ سے دور ہو جائے۔
حضرت! میں اصلاح کے لئے حاضرِ خدمت ہوں، مکمل طور پر اپنے آپ کو آپ کے حوالے کرتا ہوں، تاکہ مرنے سے پہلے پہلے مجھے صحابہ کرام اجمعین کا طریقہ نصیب ہو جائے۔
حضرت! میں محنت زیادہ کروں گا، اور کبھی کوئی گستاخی ہو جائے، تو مجھے اس وجہ سے معافی دیجئے گا کہ آپ کی خدمت میں یہ گستاخی یقیناً میری کم علمی کی وجہ سے ہوئی ہوگی، میں آپ سے اس کرم کا خواستگار ہوں۔
آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بیٹے ہیں اور میرے بڑے دو سال پہلے ایمان کی دولت سے فیض یاب ہوئے ہیں، آپ کریموں کی اولاد ہیں اور میں جاہل ابن جاہل ہوں، اس تمام بے ادبی پر معافی کا طلبگار ہوں۔
جواب:
یہ آپ کا حسنِ ظن ہے، اللہ تعالیٰ آپ کے اس حسنِ ظن کو قبول فرمائے، آمین! ہمارے حق میں بھی، اور آپ کے حق میں بھی، کیونکہ اصل تو یہ ہے کہ مقصود حاصل ہونا چاہئے، چاہے جس ذریعے سے بھی ہو۔
فارسی کی ایک ضرب المثل ہے: "پیر خسس ما را بسس" اگر پیر تنکا بھی ہو، تو میرے لئے کافی ہے۔ پس اگر کسی کے جذبات اپنے پیر صاحب کے بارے میں یہ ہوں کہ وہ قطب عالم ہے، تو اس کو اپنے پیر سے قطبِ عالم جیسا فیض ملے گا، یہ اللہ تعالی کا کام ہے، فیض اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔
بہرحال! یہ آپ کا حسنِ ظن ہے، اللہ تعالیٰ آپ کے حسنِ ظن کے مطابق آپ کے ساتھ بھی معاملہ فرمائے اور ہمارے ساتھ بھی، ہمیں بھی اللہ تعالیٰ اس کا فائدہ پہنچائے۔
بہرحال! الحمدُ للہ، آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ ماشاء اللہ، آپ کو ان کاموں میں مگن رہنا چاہئے۔ گھر والوں کی فکر بھی بہت ضروری ہے، کیونکہ گھر والے اگر ساتھ نہ ہوں، تو پریشانی بھی ہوتی ہے اور ان کا حق بھی زیادہ ہے، اس وجہ سے ان کو تعلیم کرنا بہت اچھی بات ہے اور فہم التصوف کی تعلیم بھی بہت اچھا کام ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے اوپر یہ بے انتہا فضل ہوا کہ اللہ پاک نے یہ دولت نصیب فرما دی اور اس میں بڑے بڑے اکابر اولیاء اللہ کی نسبتوں کو جمع فرما دیا، لہٰذا یہ بھی بہت اچھا کام ہے۔ اور بیانات بھی سنوانے چاہئیں، کیونکہ یہ بیانات بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہامی ہوتے ہیں، جو اللہ تعالی نصیب فرما دیں، تو اس کا کرم ہوتا ہے، اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے، ہم خود کمزور ہیں، اس کے محتاج ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کے اچھے احوال کو مقام بنا دے اور اللہ تعالیٰ ہمیں سلسلہ کی برکت سے ریاکاری اور برائی سے دوری نصیب فرما دے۔
اور واقعی بنیادی چیز صحابہ کا طریقہ ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے، یہ بہت ہی اہم بات ہے، آج کل کے لحاظ سے یہ چیز تو پرانی ہے لیکن نئے لباس میں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"مَا اَنَا عَلَیۡہِ وَاَصْحَابِیۡ"۔ (سنن ترمذی: 2641)
ترجمہ: "(وہ جماعت نجات پائے گی) جو اس طریقے پر ہوگی، جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں"۔
جس پر میں چلا ہوں، جس پر میرے صحابہ چلے ہیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے، لہذا اصول قیامت تک یہی ہے کہ صحابہ کرام کے طریقے پر چلنے میں کامیابی ہے۔ اور اس کی تیاری سیر اِلی اللہ ہے، جس کو ہم سلوک طے کرنا کہتے ہیں اور جس وقت یہ تیاری ہو جائے، تو پھر اس تیاری سے فائدہ اٹھانا اور صحابہ کرام کے طریقوں پر چلنا، ان کو اپنانا، یہ عین ہمارے مقصود کو حاصل کرنے کے لئے ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی سمجھ بھی عطا فرمائے اور اس کے مطابق عمل بھی نصیب فرما دے۔
سوال نمبر 4:
ایک خاتون نے نوٹ کر کے بھیجا ہے کہ ملفوظات حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ سبق نمبر 155 میں ہے کہ برسوں کی ریاضت کے بعد یہ سمجھنا کہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔
ایک سلسلہِ گفتگو میں حکیمُ الامت حضرت اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ برسوں کے مجاہدہ اور ریاضت کے بعد اگر کسی کو یہ سمجھ میں آ جائے کہ مجھے کچھ حاصل نہیں ہوا، تو اس کو سب کچھ حاصل ہوگیا لیکن آج کل تو بھول کر بھی یہ خیال نہیں ہوتا، دعویٰ ہی دعویٰ ہے۔
چنانچہ اب ذرہ ذرہ سے بچے شیخ الحدیث، شیخ التفسیر، شیخ الادب کہلائے جانے پر نازاں ہیں مگر ابھی تک کوئی شیخِ شرارت نہیں ہوا۔
اس میں خاتون نے پوچھا کہ یہاں شیخ الشرارت سے کیا مراد ہے؟
جواب:
سب سے پہلے تو ہم اس ملفوظ کے مطلب اور فائدہ کو جاننے کی کوشش کریں کہ اس کا فائدہ کیا ہے؟ مجاہدہ اور ریاضت کس لئے کیا جاتا ہے؟ دراصل مجاہدہ اور ریاضت کا اگر کوئی صحیح مقصد نہ ہو، تو پھر یہ جوگ بن جاتا ہے، اس لئے مجاہدہ اور ریاضت بے ضرورت کیا بھی نہیں جاتا، جب کوئی ضرورت ہوتی ہے، تو یہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً: ایک انسان جو دین کا کام کر رہا ہے لیکن مجاہدہ نہ کرنے کی وجہ سے اس کو اچھی طرح کر نہیں پا رہا، اس کی مشقت کو نہیں اٹھا سکتا، اس کو نیند آ جاتی ہے، یا کھانے، پینے کی فکر میں وہ اصل مقصد سے ہٹ جاتا ہے اور بعد میں وہ کوشش کرتا ہے لیکن اس وقت ٹائم گزر چکا ہوتا ہے۔
ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ پشاور یونیورسٹی میں تھے اور تبلیغی جماعت کے امیر بھی تھے، حضرت مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو پوری دنیا کے امیر تھے، انہوں نے ایک دفعہ ان کو پیغام بھیجا کہ ہاسٹل میں جو عرب طلبا تعلیم پا رہے ہیں، ان کی دنیاوی زندگی اگر اچھی نہیں ہوئی یعنی اگر وہ اپنے کورسز میں، اپنے اپنے subjects (مضامین) میں، کامیاب نہ ہوئے، تو ان کے والدین کبھی بھی ان کو دین کے لئے فارغ نہیں کریں گے، لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کو تیاری کروائی جائے کہ یہ دنیا میں بھی کامیاب ہو جائیں تاکہ دین کے لئے ان کا راستہ کھلے۔ یہ مولانا انعامُ الحسن صاحب رحمہ اللہ علیہ کی فکر تھی، حضرت نے ڈاکٹر فدا صاحب سے کہا کہ ان کے لئے کچھ کریں، کیونکہ ڈاکٹر فدا صاحب حضرت کے حلقہ میں تبلیغی جماعت کے بڑے فعّال حضرات میں سے تھے، ڈاکٹر صاحب نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت! ان عرب طلبا کا یہ معمول ہے کہ یہ پہلے گشتیں کرتے ہیں، پھر جب گشت کے بعد آتے ہیں، تو مختلف موضوعات پر بڑی لمبی چوڑی discussion (بحث) کرتے ہیں اور پھر چونکہ بیرے کے ہاتھ سے نہیں کھانا چاہتے، نمازی کے ہاتھ سے کھانا چاہتے ہیں، تو یہ خود کھانا پکاتے ہیں اور جب کھانا پکانے بیٹھتے ہیں تو آپس میں اچھا خاصا بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور پھر تھک جاتے ہیں اور لیٹ جاتے ہیں، صبح اٹھ کر دوبارہ وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ تیاری کیسے کریں گے؟
دیکھیں: چاہے دنیا کا کام ہو، یا دین کا کام ہو، وہ مشقت اور ریاضت کے بغیر نہیں ہو سکتا، عین وقت پر جو سستی ہوتی ہے، وہ انسان کو محروم کر دیتی ہے اور یہ سستی ایک دفعہ نہیں ہوتی بلکہ روزانہ ہوتی ہے، جیسا کہ کھانے کی ضرورت روزانہ ہوتی ہے، اس طرح سستی چڑھتی رہتی ہے اور انسان کا کام postpond (ملتوی) ہوتا رہتا ہے۔چنانچہ ریاضت اور مجاہدہ اس کے لئے ضروری ہے تاکہ انسان دین کا کام ایسے انذاز سے کر سکے کہ اس کے اندر اس سے کوئی کمی نہ ہو۔
لیکن مجاہدہ سے مقصود کیا ہے؟ مجاہدہ سے مقصود اپنے رب کی معرفت اور اپنے نفس کی عبدیّت کو حاصل کرنا اور اپنے نفس کو عبدیّت کے مقام تک پہنچانا ہے۔ اور رب کی معرفت روح کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے، تو اس کے لئے عروج کی ضرورت ہے اور عروج کا نتیجہ پھر نزول ہوتا ہے، اس سے عبدیّت آتی ہے اور عبدیّت میں انسان اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا۔
پس فرمایا کہ برسوں کی ریاضت اور مجاہدے کے بعد اگر کوئی سمجھے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں، تو اس کو مقصود حاصل ہوگیا، یعنی عبدیّت حاصل ہوگئی، اور جب عبدیت حاصل ہوگئی، تو اس کو سب کچھ حاصل ہوگیا، کیونکہ عبدیّت سب سے بڑا مقام ہے، چنانچہ قرآن پاک میں ہے:
﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۠﴾ (الفجر: 27-30)
ترجمہ: "اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پا چکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آ جا کہ تو اس سے راضی ہو اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
جب تک کوئی انسان اپنے آپ کو اگر کچھ سمجھتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا، کیونکہ اس کی ساری محنت رائیگاں چلی گئی۔
جیسے شیطان نے بڑی محنت کی تھی لیکن اس نے اپنے آپ کو کچھ سمجھا، جب اپنے آپ کو کچھ سمجھا تو کیا ہوا؟ وہ کدھر چلا گیا؟ لیکن جب برسوں کے ریاضات و مجاہدات کے بعد انسان اگر اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھے، تو مقصود حاصل ہوگیا، یعنی کہ وہ یہ سمجھ گیا کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں، کیونکہ ''وَمَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ'' جس نے اپنے آپ کو پہچانا یعنی اپنی کمزوریوں،اور کوتاہیوں کو پہچانا، اور ان کو دور کرنے کی تدبیر کی، تو اس نے رب کو پہچانا۔
حضرت نے یہ فرمایا، لیکن آج کل بھول کر بھی یہ خیال نہیں ہوتا، دعویٰ ہی دعویٰ ہے، علم کی بزرگی یا عمل کی بزرگی چڑھ جاتی ہے۔آج کل لوگ شیخُ الحدیث، شیخُ التفسیر اور شیخُ الادب کہلانے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں، لیکن اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ شیخُ الشّرارت ہوتے ہیں، کیونکہ اگر نفس فعال ہے، تو یہ اس کی شرارت ہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی حقیقت کو نہیں پہچانتے یعنی کہ انسان وہ اپنی عبدیت کو حاصل نہیں کرتے۔ لیکن جو اپنی اصل حالت کو پہچان رہا ہو اور اپنے آپ کو شیخُ الشرارت سمجھے، تو اس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اور جو اپنے آپ کو شیخُ الحدیث، شیخ التفسیر کہتا ہے، تو اس نے خاک اپنے آپ کو پہچانا، اس نے تو اپنے آپ کو نہیں پہچانا۔ حضرت کے ملفوظ کا مطلب یہ ہے۔ میرے خیال ہے کہ اب آپ کو شیخُ الشرارت کا بھی پتا چل گیا ہوگا۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم۔
حضرت جی! دس منٹ ذکرِ قلبی کے دوران بھی ذہن میں وسوسے آ جاتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل دھڑک ہی نہیں رہا، گھبراہٹ محسوس ہونے لگتی ہے، اور رونے کو دل کرتا ہے، ذکر کے وقت میں سوچ میں گھو جاتا ہوں، یہ دس منٹ سوچ ہی میں گزرتے ہیں، میں بہت پریشان ہوں۔ میں رہنمائی کا طلبگار ہوں۔
جواب:
میں نے اس کو جواب دیا کہ فیصل آباد اجتماع میں آ جائیں، کیونکہ ہر چیز کے لئے کچھ محنت کرنی ہوتی ہے، بغیر محنت کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اگر آپ صرف روتے ہی رہنا چاہتے ہیں تو پھر روتے رہیں۔ صرف رونا تو مقصود نہیں ہے، مثلاً: ایک آدمی جو پڑھائی میں محنت نہیں کر رہا اور وہ روتا رہتا ہے تو کیا وہ رونے سے پاس ہو جائے گا؟ ہرگز نہیں، رونے سے تو کوئی پاس نہیں ہوگا، بلکہ محنت سے پاس ہوگا۔
عرفی رحمۃ اللہ علیہ بڑے مشہور شاعر گزرے ہیں، وہ فرماتے ہیں:
عرفی اگر بگریہ میسر شدے وصال صد سال مینتواں بتمنا گریستن
اے عرفی! اگر رونے سے وصال میسر ہو سکتا ہو، تو میں سو سال تک رونے کے لئے تیار ہوں۔ اس لئے کہ ہمارا کام صرف رونا نہیں ہے بلکہ محنت، مجاہدہ اور ریاضت کرنا ہے، تم اتنا مجاہدہ کر لو کہ فیصل آباد اجتماع میں آ جاؤ۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم۔
حضرت! کامل مغفرت، ہدایت پر استقامت اور عافیت دارین کے لئے دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
آمین! لَکُمْ وَلَنَا وَلِکُلِّ الْمُسْلِمِیْنَ۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
حضرت جی! آپ ﴿سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ﴾ (یٰس: 58) کے وظیفہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ تہجد کے وقت کسی بھی حاجت کے لئے پڑھ سکتے ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا آدمی یہ وطیفہ دو حاجتوں کی نیت کے ساتھ پڑھ سکتا ہے؟
جواب:
یہ مسئلہ مشہور ہے کہ آپ ایک نفل عمل میں کئی نیتیں کر سکتے ہیں، مثلاً: آپ مسجد میں چلے گئے تو تحیۃُ المسجد پڑھنا بھی آپ کے لئے نفل ہے اور اعلیٰ درجہ کا نفل ہے، اور اشراق کے وقت آپ مسجد گئے، اور ساتھ ہی آپ اشراق کی نماز بھی پڑھنا چاہتے ہیں، اور ابھی ابھی آپ نے وضو کیا ہے، آپ صلوۃ تحیۃُ الوضو بھی پڑھنا چاہتے ہیں، تو دو رکعات میں آپ یہ تینوں نیتیں کر سکتے ہیں، اگر آپ دو رکعات میں صلوۃ تحیۃُ الوضو کی نیت بھی کر لیں اور صلوٰۃ تحیۃُ المسجد کی نیت بھی کر لیں اور اشراق کی نماز کی نیت بھی کر لیں، تو اللہ تعالیٰ آپ کو تینوں نمازوں کا اجر عطا فرمائیں گے۔
اسی طرح آپ ﴿سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ﴾ (یٰس: 58) والے وظیفہ میں مختلف نیتیں کر سکتے ہیں، ایک سے زیادہ نیتوں کے ساتھ آپ یہ وظیفہ پڑھ سکتے ہیں۔
سوال نمبر 8:
حضرت جی! آپ نے کہا تھا کہ آپ کو "یَا ھَادِیْ، یَا نُوْرُ" پڑھنے کی تلقین کریں گے۔
جواب:
اصل میں "یَا ھَادِیْ، یَا نُوْرُ" اس میں اللہ پاک کے دو صفاتی نام ہیں اور "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ" میں اللہ تعالیٰ کے دو خصوصی کاموں کے ذریعے سے اللہ تعالی کو یاد کرنا ہے، ایک صفاتی نام: "یَا ھَادِیْ" ہے، یعنی اللہ جلَّ شانہٗ ہی ہدایت دیتا ہے۔
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: "اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
اللہ پاک ہی ہدایت دیتے ہیں، البتہ اس کی صفتِ ھادی کا مظہرِ اول آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں، لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ میں کامیابی اور ہدایت ہے۔ جیسے اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾ (الفاتحہ: 4-5)
ترجمہ: "(اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
صراطِ مستقیم ان لوگوں کا راستہ ہے، جن کے اوپر انعام ہوا ہے، اور انعام پانے والوں میں سب سے پہلا نمبر انبیاء علیہم السلام کا ہے اور انبیاء علیہم السلام میں سب سے پہلا نمبر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ ہدایت کے لئے خاص ہے، بہرحال! یہ "یَا ھَادِیْ" کی وضاحت ہے۔
"یَا نُوْرُ"، اللہ جلّ شانہٗ کی صفتِ نور بھی بہت ہی زیادہ وسیع ہے۔ جیسے اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ (النور: 35)
ترجمہ: "اللہ تمام آسمانوں اور زمین کا نور ہے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
یعنی اللہ جلّ شانہٗ آسمانوں اور زمین کو اپنے نور سے منور کرنے والا ہے۔ ہدایت بھی نور ہے اور نور بذاتِ خود نور ہے، جو ظلمتوں کو دور کرنے والا ہے اور اس وقت ماحول میں ظلمات بہت ہی زیادہ ہیں، یہ بات میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔ حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں ذکر کیا تھا کہ آج کل اللہ تعالیٰ کی صفتِ مُضِلّ کی تجلی ہو رہی ہے، لہذا آج کل جو خیر کے ذرائع ہیں، وہاں سے بھی شر پھل رہا ہے۔
لاہور میں کچھ لوگوں نے خواب دیکھا تھا کہ دوسرے لوگوں کے گھروں میں پانی کے نلکے سے مٹی اور کیچڑ آ رہا ہے جبکہ ہمارے گھر کے نلکے میں سے پانی آ رہا ہے، الحمدُ للہ۔
آج کل یہ مسئلہ بہت زیادہ ہے کہ خیر کی جگہ شر آ رہا ہے، خانقاہیں جس مقصد کے لئے بنی تھیں وہاں پر اس کی محنت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مختلف چیزوں میں مبتلا ہو رہے ہیں، اسی طرح مدرسوں میں بھی لوگ مختلف چیزوں میں مبتلا ہوگئے ہیں، اسی طرح مختلف دینی جماعتوں میں بھی خیر کی جگہ شر کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، جس کے اثر سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا ضروری ہے۔
لوگوں کو ان اوراد و اذکار "یَا ھَادِیْ، یَا نُوْرُ" اور "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ" کا باقاعدہ الگ الگ چلہ کرانے کے لئے ایک پروگرام ترتیب دیا جا رہا ہے، جب یہ پروگرام مرتب ہو جائے گا، تو آپ سب کو بتا دیا جائے گا، ان شاء اللہ۔ اس میں جلدی نہیں مچانی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ آپ ان اوراد کو پڑھنا شروع کر لیں، آپ روزانہ 111 مرتبہ "یَا ھَادِیْ، یَا نُوْرُ" اور "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ" پڑھا کریں، اس سے آپ کو فائدہ پہنچنا شروع ہو جائے گا،البتہ باقاعدہ چلہ بعد میں شروع ہوگا۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم۔
سیدی مرشدی حضرت جی! آپ کی توجہ اور دعاؤں سے میں روزانہ سید فاروق کے پاس تجوید اور قواعد کی مشق کرتا ہوں، سبق کے دوران ان کا فیض بہت شامل حال ہوتا ہے۔
جواب:
الحمد للہ، اللہ تعالیٰ اس کو اور بھی بڑھا دے، آمین۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم۔
حضرت! آپ کی دعاؤں سے دو مہینے ہوگئے ہیں کہ آپ کے بتائے ہوئے ذکر کے مطابق میں 200 مرتبہ "لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"، 400 مرتبہ "لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ" اور 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور دس منٹ کا ذکرِ قلبی اور مراقبہ کر رہا ہوں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ مجھے ذکر کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے، زیادہ تر مجھے خاموشی سنائی دیتی ہے اور سانس کے ساتھ کبھی اللہ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور مجھے ذکرِ قلبی سینہ کے درمیان محسوس ہوتا ہے اور دل کے مقام پر محسوس نہیں ہوتا، میں اس کو زبردستی دل کے مقام پر لے کے جاتا ہوں، جس سے کبھی کبھی مجھے بہت دباؤ سا محسوس ہوتا ہے اور اس کے علاوہ Routine life میں عام اوقات میں سینہ کی طرف اللہ اللہ کبھی محسوس ہوتا ہے لیکن یہ pick نہیں ہو رہا ہوتا، میں دل کی طرف دھیان کرتا ہوں، تو "اللہ، اللہ" محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے، کام کاج کے دوران پتا نہیں چلتا کہ دل "اللہ، اللہ" کر رہا ہے یا نہیں؟ لیکن جب میں اس طرف دھیان کرتا ہوں، تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ ابھی سٹارٹ ہوا چاہتا ہے، یعنی مجھے تھوڑا سا push کرنا پڑتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دنیا کے کام کاج میں میرا دل نہیں لگتا، دنیا کے کاموں میں کچھ بیزاری سی محسوس ہوتی ہے۔ اب پتا نہیں یہ ذکر کا اثر ہے یا پھر اور دنیاوی پریشانی ہے کہ دنیا سے کبھی کبھی بیزاری سی محسوس ہوتی ہے۔
اب آپ بتا دیں کہ مزید مجھے کیا پڑھنا ہے اور کس طرح اس کو لے کر چلنا ہے؟
مزید کچھ سوالات میں نے آپ کو بھیجے ہیں اگر آپ کے پاس ٹائم ہو تو جواب دے دیجئے گا شکریہ۔
جواب:
سب سے پہلے یہ بتا دیتا ہوں کہ ذکرِ قلبی ہے جو آپ کو سینہ میں محسوس ہوتا ہے، وہ در اصل ذکرِ قلبی ہی ہوتا ہے جو مختلف مقامات پر محسوس ہوتا ہے، اس لئے ہمارے چشتی حضرات کے نزدیک صرف ایک لطیفہ ہے اور وہ لطیفہِ قلب ہے، باقی لطائف ان کے ہاں مکشوف نہیں ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ باقی جگہوں پہ جو اثرات ظاہر ہوتے ہیں، وہ اصل میں اسی لطیفہ قلب ہی کے مختلف آثار ہیں، لہذا آپ کو اگر سینہ پر محسوس ہو، دل پر محسوس نہ ہو، تو اس کی کوئی پروا نہیں ہے، آپ زبردستی اس کو دل پر لے جانے کی کوشش نہ کریں، آپ صرف اپنے دل پر توجہ کریں کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے، لیکن اگر وہ کسی اور جگہ محسوس ہو تو آپ اس کی فکر نہ کریں، آپ کی توجہ دل پر ہونی چاہئے، آپ کو اگر سینہ پر محسوس ہو رہا ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ یہ ذکر قلبی ہی کا اثر ہے اور وہ دل ہی کا کام ہے جو ہو رہا ہے۔ اور روٹین لائف میں عام اوقات میں سینہ پر جو محسوس ہوتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ دل کا ذکر حاصل ہو چکا، لیکن اس کے الوان مختلف ہیں، یہ مختلف طریقے سے حاصل ہو رہا ہے۔ جیسے میں نے آپ کو بتایا ہے، اس کے مطابق دس منٹ کے لئے آپ باقاعدہ دل کے اوپر توجہ کر کے بیٹھ جایا کریں کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے اور میں اس کو سن رہا ہوں۔
سوال نمبر 11:
There are a few more questions in addition to my audio message. Kindly reply to them if possible. If I feel قلب doing Zikr can I do some other Zikr on my heart over it?
جواب:
اگر اپنے آپ کو confuse (پریشان) کرنا چاہتے ہو، تو آپ اس کے ساتھ کوئی اور ذکر کر لیں، کیونکہ ذکرِ قلبی اور ذکرِ لسانی دونوں ہی ذکر ہیں، خواہ مخواہ ان دونوں میں مخالفت کیوں لائیں، یعنی اگر آپ زبان کے ساتھ بھی ذکر کرنا چاہتے ہیں تو ذکر قلبی کے دوران زبان کے ساتھ اللہ اللہ کر لیا کریں، لیکن ابھی چونکہ آپ مبتدی ہیں، تو بہتر یہ ہے کہ آپ ذکرِ قلبی کے دوران زبان کے ساتھ کوئی ذکر نہ کریں، یہ دس منٹ تو اس طرح ذکر کر لیں، اس کے علاوہ بقیہ اوقات میں سے کسی وقت میں جب خود بخود ذکرِ قلبی ہو رہا ہو، تو تب آپ بے شک زبان کے ساتھ بھی ذکر کر لیا کریں، اس میں کوئی حرج نہیں، یہ اچھا عمل ہے، لیکن دن، رات میں کسی بھی وقت دس منٹ آپ صرف ذکر قلبی کر لیا کریں تاکہ اس میں آپ کو یکسوئی حاصل ہو۔
سوال نمبر 12:
What are the benefits of someone feeling ذکر قلبی?
جواب:
یہ سوال شیخ کے ساتھ وابستہ ہے، مبتدی کی کوئی غرض اس کے ساتھ وابستہ نہیں ہے، یعنی اگر کوئی شیخ مجھ سے پوچھے گا کہ اس کے کیا فوائد ہیں، تو میں اس کے فوائد اس کو بتاؤں گا، مثلاً: آپ ڈاکٹر ہیں، تو طریقہ کار بتانے کے لئے بعض باتیں آپ patients (مریضوں) کو بتاتے ہیں لیکن اگر patient دیگر بعض باتیں آپ سے پوچھ لے، تو آپ کہتے ہیں: بھائی! آپ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ وہ بعض باتیں involved ہوتی ہے، مختلف چیزیں اس کے ساتھ شامل ہوتی ہے، ان تمام باتوں کی pre-requisites (شرائط) کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اصل چیز انسان سمجھا نہیں سکتا، جیسے Schrodinger equation جو کافی لمبا اور مشکل equation ہے اور یہ Higher classes (اعلی درجات) میں پڑھایا جاتا ہے، لیکن اگر میٹرک کا سٹوڈنٹ مجھ سے Schrodinger equation کے بارے میں پوچھے کہ یہ کیا ہوتا ہے؟ کیا میں اس کو سمجھا سکوں گا؟ حتیٰ کہ میٹرک کے سٹوڈنٹ کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ایٹم ناقابلِ تقسیم ذرہ ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ میٹرک کے بعد ایم ایس سی والے، بی ایس سی والے اساتذہ کرام ان میٹرک پاس طلبہ کو خود بتاتے ہیں کہ ایٹم کی بے انتہا تقسیمیں ہیں۔ لیکن اگر میٹرک پڑھنے والے سٹوڈنٹ کو یہ بتا دیں، تو وہ confuse ہو جائے گا، لہذا ہر چیز اپنے اپنے موقع پر بیان کی جاتی ہے۔
میرے خیال میں یہ سوال قبل از وقت ہے، آپ اس کی طرف توجہ نہ کریں۔
سوال نمبر 13:
Can a سالک desire to meet Allah’s Auliyas spirits and personalities to get فیض or one should not desire this as it also comes under domain of کشف?
جواب:
در اصل مقصود سے ذرہ بھر بھی نہیں ہٹنا چاہئے، کشف ایک طریقہ ہے، اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہتا ہے، یہ راستہ کھول دیتا ہے، لیکن کشف کی desire (خواہش) مقصود سے ہٹنا ہے، کیونکہ ہم کشف کے لئے پیدا نہیں ہوئے ہیں، ہم عمل کے لئے پیدا ہوئے ہیں، ہم اعمال کریں، کشفیات کے پیچھے نہ پڑیں، ان کو چھوڑ دیں، البتہ اللہ تعالیٰ خود ہی اگر کشف دینا چاہے، تو یہ ان کا کام ہوگا، اور وہ اس کے لئے راستہ بھی کھول دے گا، لیکن از خود ان چیزوں میں نہیں پڑنا چاہئے، ہمیں صرف اپنے شیخ کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہئے، کیونکہ ہمارا مقصود شیخ سے حاصل ہوگا۔
حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایک مجلس میں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ہوں اور اسی مجلس میں میرے شیخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہوں، تو میں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایک نظر بھی نہیں دیکھوں گا، اگرچہ حاجی صاحب، حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کی طرف دیکھیں کیونکہ ہمارا مقصد حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ کیا زبردست فیصلہ فرمایا کہ ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم کسی اور کی طرف دیکھیں۔ آپ اگر دیگر شیوخ، یا ان کی ارواح کے ساتھ ملنا چاہتے ہو، تو آپ اپنے شیخ کے ساتھ کیوں نہیں ملتے، ان کے ساتھ رابطہ کیوں نہیں کرتے۔
اپنے شیخ کے ساتھ اپنا رابطہ مضبوط کریں اور سنت طریقہ پر چلنا شروع کر لیں اور ہر کام اللہ تعالی کے لئے کر لیں۔ یہی اصل مقصود ہے، اس سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال نمبر 14:
Is it true that when someone has started to learn سلوک does Allah test him with worldly problems? If yes there is someone who is already depressed of these worldly problems and wants to seek peace in the spiritual world then should Allah still test him with more problems?
جواب:
اللہ تعالی کی domain (ڈومین) کے بارے ہم بات نہیں کر سکتے، اللہ تعالی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ خود ہی تمام چیزوں کو جانتا ہے، البتہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو جاننے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت علیم ہے، اس وجہ سے اس کو تمام چیزوں کا سب سے زیادہ علم حاصل ہے، اسے ہر چیز کی باریکی کا بھی علم حاصل ہے، اگر ایک چیونٹی کالی اور اندھیری رات میں کالے پتھر پر چل رہی ہو، تو اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ بھی رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے پیروں کی آہٹ بھی سن رہا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ علیم ہے۔ لہذا جب اللہ پاک علیم ہے، تو وہ ساری چیزوں کو جانتا ہے۔ وہ آپ کے بارے میں بھی جانتا ہے کہ آپ کے لئے کیا چیز مناسب ہے اور کیا چیز مناسب نہیں ہے۔
اللہ جلّ شانہٗ کی ایک صفت حکیم بھی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے، اگر اللہ تعالی آپ پر کچھ problems (مسائل) بھیج رہے ہیں تو اس سے آپ پریشان نہ ہوں۔
problems (مسائل) دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک problem اختیاری ہوتا ہے اور ایک problem غیر اختیاری ہوتا ہے، یعنی مشکلات دو قسم کی ہوتی ہیں: کچھ مشکلات اختیاری ہوتی ہیں، اور کچھ مشکلات غیر اختیاری ہوتی ہیں، یا یوں سمجھیں کہ مجاہدہ دو قسم کا ہوتا ہے: مجاہدہ اختیاری، اور مجاہدہ غیر اختیاری۔ مجاہدہ اختیاری تو آپ شیخ کی تعلیم اور مرضی کے مطابق کرتے ہیں، لیکن مجاہدہ غیر اختیاری میں شیخ کی مرضی بھی نہیں چلتی، وہ تو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق آتا ہے، اس میں شیخ بھی مداخلت نہیں کر سکتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ اللہ پاک اس طریقے سے اس کی تربیت کر رہے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کو سب چیزوں کا علم ہوتا ہے، لہذا دوسرے مسائل کے ہوتے ہوئے بھی اگر ضرورت ہو تو وہ مزید مجاہدات اور مشکلات بھیج سکتا ہے۔
البتہ اگر اللہ تعالی کی محبت حاصل ہو تو یہ مشکلات کباب کی لذت کی طرح بن جاتی ہیں، کباب میں مرچیں بہت ہوں تو تیز مرچ کا شوقین انسان اس کباب کو کھا رہا ہوتا ہے، حالانکہ اس کے ناک کے اوپر پسینہ بھی آ رہا ہوتا ہے اور وہ سو سو بھی کر رہا ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اس کباب کو کھا رہا ہوتا ہے، اگر اس وقت کوئی اس کو کہہ دے کہ نہ کھاؤ، آپ کو تکلیف ہو رہی ہے، تو وہ کہتا ہے کہ اسی میں تو مزہ ہے۔
بہرحال! اگر مجاہدات کے ساتھ محبت کی چاشنی شامل ہو تو مجاہدات کا رنگ بدل جاتا ہے۔
سوال نمبر 15:
Is مجاہدہ سلوک same for all or is it according to someone’s capability, health or person?
جواب:
اختیاری مجاہدہ ایسا ہی ہے، چنانچہ شیخ ہر وقت ہر مرید کو ایک جیسا مجاہدہ نہیں دیتا، اور سب کے لئے ایک جیسا مجاہدہ recommend (تجویز) نہیں کرتا بلکہ وہ ہر ایک کی حالت و ضرورت اور اس کی صحت، ان تمام چیزوں کو دیکھ کر مجاہدہ تلقین کرتا ہے، لہذا یہ شیخ کی ذمہ داری ہوتی ہے، اور وہ اس ذمہ داری کو پورا کرتا ہے۔
البتہ اللہ تعالیٰ حکیم ذات ہے، لہذا وہ جو مناسب سمجھتا ہے، بھیج دیتا ہے۔
سوال نمبر 16:
When we see someone die and bury him in graves our eman freshes but we soon forget all when we go back to our world and life activities. Why is it human nature to forget his end and death? How to keep it alive in our memory?
جواب:
دو چیزوں کو آپ بھول گئے، جس کی وجہ سے آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا۔ اگر آپ یہ دو چیزیں یاد رکھتے تو آپ یہ سوال نہ کرتے، ایک یہ کہ ہمارے ساتھ شیطان بھی ہے، دوسرا یہ کہ ہمارے ساتھ نفس بھی ہے، شیطان ہمیں اعمال سے غافل کر دیتا ہے، مثلاً: آپ راستے میں چلتے ہوئے ذکر کرنا چاہتے ہیں اور آپ نے ذکر شروع بھی کر لیا اور آپ کی پوری نیت ہے کہ آپ راستہ چلتے ہوئے ذکر جاری رکھیں گے، لیکن شیطان آپ کو ادھر ادھر کے نظاروں میں ایسا گم کر دیتا ہے کہ آپ کو ذکر کرنا یاد ہی نہیں رہتا، دو تین گھنٹے گزرنے کے بعد آپ کو یاد آتا ہے کہ او ہو! میں تو ذکر کرنا چاہتا تھا، لیکن تب ذکر کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ شیطان تو ایسا کرتا ہے، لہذا ان چیزوں کو یاد رکھنے کے لئے آپ کو خود ہی طریقہ کار ڈھونڈنا پڑے گا، مثلاً: ذکر کو یاد رکھنے کے لئے ہاتھ میں آپ تسبیح لے لو اور موت کو یاد رکھنے کے لئے آپ جنازوں میں شرکت کرو اور وقتاً فوقتاً ایسی کتابیں پڑھتے رہو، جن سے موت کی یاد تازہ ہوتی رہے۔ یہ آپ کو خود ہی اختیاری طور پر یاد رکھنا پڑے گا، ورنہ نفس آپ کو یہ کام بھولا ہی دے گا۔
سوال نمبر 17:
It is one of the important beliefs to believe that everything happens as Allah’s will. How to take this if something bad happens or against our desire as we usually feel negative when some problems occur in our life or some plan fails? How to accept our digest value in our life thinking that all happens as Allah’s will?
جواب:
یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ سب کچھ اللہ تعالی ہی کرتا ہے، لیکن یہ دنیا دارُ الاسباب ہے، یہاں اللہ تعالی ہر کام اسباب کے تحت کرتا ہے، جیسا کہ ہم اگر کسی پنکھے کو بند کرتے ہیں، وہ پنکھا سرکٹ کے close ہونے کی وجہ سے بند ہوتا ہے، لیکن بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بٹن کے دبانے سے بند ہوتا ہے، چنانچہ جس نے بٹن کے اوپر انگلی رکھی ہوتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ پنکھا اس نے بند کر دیا، حالانکہ وہ سرکٹ کے close ہونے کی وجہ سے بند ہوا ہے، اگر یہ سرکٹ درمیان میں نہ ہو تو پنکھا نہ چلے گا اور نہ بند ہوگا۔ جیسے بجلی پنکھے کو چلا بھی رہی ہے اور بند بھی کر رہی ہے، اسی طرح اللہ تعالی سارا کچھ کروا بھی رہے ہیں اور سارا کچھ stop بھی کروا رہے ہیں، لہذا positive اور negative سب چیزوں میں سرکٹ کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ہی قدرت ہے، البتہ لوگ ان میں کسی نا کسی طریقے سے استعمال ہوتے ہیں، تو یہ امور تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اللہ جلّ شانہٗ کی حکمت کو دیکھنا چاہئے کہ اللہ پاک نے حکمت کے ساتھ ان تمام چیزوں کو پیدا کیا ہوتا ہے، لہٰذا ہم حکمتِ خداوندی کو یاد رکھیں، تاکہ شیطان ہمارے ایمان کو خراب نہ کر سکے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلق کو نقصان نہ پہنچا سکے، اور یہ کوشش کریں کہ ہماری ساری توجہ اپنے actions اور اپنے اعمال پر ہو کہ ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوں، مثلاً: کسی کی موت واقع ہوگئی، ہمارا دل تو نہیں چاہتا کہ کوئی مر جائے لیکن وہ مر گیا، تب شیطان ہمیں اللہ تعالی سے دور کرنا چاہے گا۔ لیکن نہیں، اس وقت ہمارا دھیان اللہ تعالیٰ کی طرف جانا چاہئے، اور اس میں اللہ جلّ شانہٗ کی رضا سمجھ کر ہمیں اللہ تعالی سے راضی رہنا چاہئے، تاکہ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے راضی ہو جائے، اس کو اللہ تعالی کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنانا چاہئے۔
البتہ اضطراری طور پر آنکھوں سے آنسو نکل آئیں تو اس پر پابندی بھی نہیں ہے بلکہ وہ رحمت ہے، ایسے موقع پہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مبارک آنکھوں سے بھی آنسو نکلے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا زبان سے ہم وہی کہتے ہیں جو اللہ چاہتا ہے، لہذا ایسی چیزوں میں ہم لوگ اپنی تکلیف کا ادراک اگر کر لیں، تو اس کو منجانب باللہ سمجھیں کہ اس میں ہمارا فائدہ ہے۔ مثلًا اگر کسی کی وفات نہ ہو، تو کیا اس زمین کے اوپر چلنے کے لئے جگہ بچے گی؟ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں، اور ایسے ہی اللہ تعالی کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے، اس وجہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کو دل میں مستحضر رکھنا چاہئے اور اس پر ہمیں ایمان رکھنا چاہئے اور اس پر ہمیں صابر رہنا چاہئے، لیکن اپنے اعمال پر بھی نظر رہنی چاہئے کہ اس وقت شریعت کا کیا حکم ہے اور ہمیں کیا کرنا ہے؟ پس جو شریعت کا حکم ہو، ہمیں وہی کرنا چاہئے۔
سوال نمبر 18:
Please say some sentences about the value of this material world in the eyes of Allah and his Prophet and how to remove حب دنیا as we see our sinful hearts filled with it. Any special Zikr to decrease this?
جواب:
حبِّ دنیا کے موضوع پر ہمارے تفصیلی بیانات ہو چکے ہیں، میرے خیال میں حبِّ دنیا لکھ کر آپ ہماری ویب سائٹ پر سرچ کر لیں، وہاں آپ کو بہت بیانات مل جائیں گے، ان بیانات کو آپ سن لیں، البتہ یہ کہ حبِّ دنیا کو دل سے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ خوب سمجھ لیجئے! ذکر الہیٰ سے دل بنتا ہے اور دنیا کی محبت دل سے نکلتی ہے، ہم نے "لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" کا ذکر آپ کو تلقین کیا ہے، آپ یہ اس تصور کے ساتھ کریں کہ "لَآ اِلٰہَ" کے ساتھ دنیا کی محبت نکل رہی ہے اور "اِلَّا اللہ" کے ساتھ اللہ کی محبت آ رہی ہے، اس سے ان شاء اللہ آپ کو فائدہ ہوگا۔
سوال نمبر 19:
It is said that where there is Zikr there is the shower of رحمت of Allah and where there is sin there is نحوست. Now we live in a non-muslim country where there is no Zikr or mosque but there is gambling, alcohol, زنا and شرک and activities like those around us. Does this have some effect on our hearts and should we plan to live and die in Muslim country or these places?
جواب:
ہم بھی جرمنی میں رہے ہیں، ہمیں علم ہے کہ وہاں یہ چیزیں ہوتی ہیں، اس وجہ سے جرمنی کو ہم نے کبھی اپنا گھر نہیں سمجھا، بلکہ ہم واپس آنا ضروری سمجھتے تھے، حالانکہ پروفیسر صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ میں وہاں رہ جاؤں، لیکن ہم تقریباً اس کو dodge دے کر واپس آ گئے. چنانچہ وہاں کی زندگی میں یہ چیزیں ہیں، بالخصوص وہاں آپ کو مسجد سے اذان نہیں سنائی دیتی، حالانکہ اس کا بہت بڑا factor ہوتا ہے، اذان کی آواز سن کر شیطان بھاگتا ہے، لیکن جس ماحول میں اذان نہ ہوتی ہو، اس میں تو شیطان کے مزے ہوں گے، لہٰذا واقعتاً آپ کی یہ بات صحیح ہے کہ اس کی نحوست ہوتی ہے۔
البتہ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دینے کے لئے وہاں جاتا ہے، تو اس کے ساتھ اللہ تعالی کی خصوصی مدد ہوتی ہے، کیونکہ داعی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ہوتی ہے، چنانچہ جو کسی چیز کا داعی ہوتا ہے، اگر وہ صحیح معنوں میں داعی ہے، تو اس کے اوپر دوسری دعوت اثر نہیں کرتی، لیکن اگر وہ صحیح معنوں میں داعی نہیں ہے تو پھر وہ مدعو ہو جاتا ہے۔
اس لئے کہتے ہیں کہ ہر انسان ہر وقت میں یا داعی ہوتا ہے یا مدعو ہوتا ہے، اگر وہ داعی نہیں ہوتا، تو مدعو ہو جاتا ہے۔ اس لئے صرف دعوت کی نیت سے وہاں رہنا ہو، ضرورت کے مطابق انسان بقیہ کام کاج کر لے، لیکن وہاں رہنے سے ہمارا مقصد کام کاج کرنا نہ ہو، بلکہ ہمارا وہاں رہنے کا مقصد دعوت ہو، تب ان شاء اللہ، ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ہوگی، ورنہ یہی بات ہے کہ "ہر کہ در کانِ نمک رفت، نمک شد" جو نمک کی کان میں چلا گیا، وہ نمک بن گیا۔ باقاعدہ پورے پورے گدھے نمک کی کان میں پھنس گئے اور وہ بالکل نمک ہوگئے، لیکن گدھے کی shape البتہ اس وقت موجود ہوتی ہے، یہ چیز مسلّم ہے، اس قسم کی چیزیں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے ہم لوگوں کو ماحول کی خرابیوں سے بچنےکا سامان کرنا ہوگا، ورنہ ہم پر اس کے اثرات نمودار ہوتے رہیں گے۔
مثلاً: کیچڑ برس رہا ہو اور آپ راستہ پہ چل رہے ہوں، تو آپ کے اوپر کیسے کچھ نہ پڑے گا؟ وہ آپ پر پڑے گا، اس سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا۔
اسی طرح اپنے آپ کو ماحول کے برے اثرات سے بچانے کے لئے وہاں صحیح لوگوں کے ساتھ آپ کو رابطہ رکھنا پڑے گا، ذکر و اذکار اور دعائیں کرنا پڑیں گی، راتوں کو اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہو کر گڑگڑانا پڑے گا، تبھی ان نحوستوں کو دور کیا جا سکتا ہے، ورنہ یہ نحوستیں انسان کو لے ڈوبتی ہیں۔
جو لوگ وہاں رہنے کو prefer کرتے ہیں، خواہ وہ ولی اللہ کیوں نہ ہوں، ہم ان کو اور کچھ نہیں کہتے، اتنا ہم سے وہ سن لیں کہ ان کی Second generation کے ایمان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، اور Third generation کے بارے میں تو بہت ہی کم امکان ہوتا ہے کہ وہ اسلام پر بھی قائم رہے گی، اور fourth کے بارے میں آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ کیا ہوگا۔
یہ ہمارا آنکھوں دیکھا حال ہے، اس میں دوسری کوئی رائے نہیں ہے۔ البتہ اگر وہ داعی کے طور پر رہ رہا ہو اور اپنی اولاد کو بھی داعی بنا دے، جیسا کہ وہاں پر بعض علماء رہتے ہیں، انہوں نے مدرسے بنائے ہیں، وہ علم پھیلا رہے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی علماء بنا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ یہ سلسلہ چلا رہے ہیں، تو یہ لوگ محفوظ ہیں، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جو نتیجہ ہے، وہ سامنے آ ہی جاتا ہے۔
سوال نمبر 20:
What type of سکون does Allah’s Zikr produce in heart as I see many people who are practicing Muslims but their life is full of struggle and problems. Like for example my uncle’s family who is very religious suffered with many life problems. My uncle recently died in poverty and my aunt has got فالج and is now bedridden. His only son is jobless and has two children. This family is also مرید of a religious سلسلہ. How to explain this? Why does Allah make such pious people's life so hard or our angle here to see this situation is wrong?
جواب:
میرے خیال میں آپ کا سوال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال سے ملتا جلتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور چٹائی کے اثرات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک جسم کے جلد کے اوپر موجود تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے اور کہا کہ یا رسول اللہ! دونوں جہانوں کے سردار کی یہ حالت ہے اور قیصر و کسریٰ مزے لوٹیں، یہ کیسی چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا: عمر! تجھے یہ پسند نہیں ہے کہ قیصر و کسریٰ تو یہاں کے مزے لوٹیں اور تیرا دوست جنت میں چلا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بالکل، مجھے یہی پسند ہے۔
بس یہی بات ہے، یہ جگہ مسلمان کی مستقل رہائش گاہ نہیں ہے۔
Muslim is only preparing himself for Jannah. He is only practicing for that. This is just a job یعنی position.
مسلمان یہاں جاب پر ہے، وہ یہاں جاب کے لئے آیا ہے، یہاں مزے لوٹنے کے لئے نہیں آیا۔
آپ دیکھتے رہتے ہیں کہ جو لوگ گاڑیوں کے مکینک ہوتے ہیں، وہ محنت کرتے ہیں، اور گاڑیوں کے نیچے پڑے ہوتے ہیں، تیل ان کے اوپر آ رہا ہوتا ہے لیکن وہ کام میں مگن ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ اس کے بدلے پیسے لیتے ہیں، اور بعض لوگ اس سے اتنے پیسے کما لیتے ہیں کہ وہ پلازے کھڑے کر دیتے ہیں۔
ہمارے مہمند لوگ شہر میں ایک سوئی اور ایک بوری لاتے ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد وہ پلازے کھڑے کر دیتے ہیں، کیونکہ وہ محنت کرتے ہیں، جب وہ محنت کر رہے ہوتے ہیں، اس محنت کے وقت میں وہ کیسے نظر آتے ہیں، اور جب محنت کا ان کو نتیجہ ملتا ہے، تو کیسا نظر آتا ہے۔
چنانچہ ہم لوگ نتیجہ کے لئے کر رہے ہیں اور نتیجہ آخرت میں ملے گا، جس چیز کا نتیجہ آخرت میں ملنا ہے، اس کو ہم دنیا میں کیسے claim کریں، یہ دنیا بدلے کی جگہ ہے ہی نہیں، یہ دنیا دارُ العمل ہے اور آخرت دارُ الجزاء ہے،
ایک عالم نے اپنا ایک واقعہ لکھا کہ ان کے استاذ کا آخری وقت تھا، استاذ نے ان سے کہا کہ یہ قریب صراحی پڑی ہوئی ہے، اس سے مجھے پانی دو، کہ آخری وقت میں پیاس لگتی ہے، میں جیسے ہی پانی لینے گیا تو جلدی کی وجہ سے صراحی الٹ گئی اور پانی گر گیا اور میں دوسری جگہ پانی لینے کے لئے گیا، جب واپس آیا تو اس وقت تک استاذ جی فوت ہوگئے تھے۔ کہتے ہیں: مجھے بہت افسوس ہوا کہ میں حضرت کی آخری خواہش بھی پوری نہیں کر سکا۔
دوسری طرف ان کے رشتہ داروں میں بہت گناہگار اور سیاہ کار شخص تھا، اس نے موت کے وقت خواہش کی کہ کوئی تلی ہوئی مچھلی کھلائے، اب مچھلی ایک rare (نایاب) چیز ہے، وہ ہر وقت نہیں ہوتی، یہ کتنا مشکل ہے؟ لیکن عین اسی وقت ایک مچھلی والا آیا، اس نے کہا: مچھلی، مچھلی، ایک آدمی باہر چلا گیا اور مچھلی لے آیا اور مچھلی اس کو کھلائی، وہ شخص مچھلی کھا کر فوت ہوا۔ کہتے ہیں: میں بڑا حیران ہوا کہ یا اللہ! میرا استاذ اتنا پاکیزہ انسان تھا، وہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتا تھا، اور اس کی آخری خواہش صرف پانی تھا اور پانی موجود بھی تھا لیکن وہ پی نہیں سکا، اور دوسری طرف وہ گناہ گار تھا، اس کی آخری خواہش مچھلی تھی، اور مچھلی موجود بھی نہیں تھی، لیکن اس کو وہ میسر ہوگئی، یہ کیا ہوا؟
پھر اس نے خواب دیکھا جس میں اس کو بتایا گیا کہ تیرے استاذ کا صرف ایک گناہ رہ گیا تھا، جو کہ ابھی معاف نہیں ہوا تھا، میں نے کہا کہ اس مجاہدہ میں اس کو ڈال کر اس کا یہ گناہ بھی معاف کر دوں، چنانچہ وہ پاک ہو کر میرے پاس آ گیا۔ اور یہ جو گناہگار شخص تھا، اس نے ایک نیکی کی ہوئی تھی، میں نے اس کو دنیا میں ہی مچھلی کی صورت میں اس کا صلہ دے دیا۔
یہ وہی نقطۂ نظر میں فرق والی بات ہے، یقیناً اس میں نقطۂ نظر کا فرق ہے، آپ اس نقطۂ نظر میں اللہ جلّ شانہٗ کی حکمت کو شامل کر لیں، پھر اس نظر سے اس کو دیکھیں، تو آپ کی بہت ساری چیزیں clear (صاف) ہو جائیں گی اور اگر آپ نے اپنی نظر سے دیکھا، تو اس سے بھی زیادہ خطرناک نتیجہ ہو سکتا ہے۔
سوال نمبر 21:
You recently informed that there could be some signs of calamity coming to our country and ask us to do استغفار and recite درود شریف. Please update us about this. Is this danger still there or has gone because of Allah’s رحمت?
جواب:
بہرحال ہمیں جو بتایا گیا ہے، ہم نے وہ بتایا ہے اور وہ چیز جاری رہنی چاہئے جب تک کوئی ایسی بات پیش نہ آئے اور درود شریف فائدہ مند عمل ہے، اگر ہم یہ مستقل طور پہ پڑھتے رہیں، اگرچہ وہ چیز دور بھی ہو چکی ہو، تو پھر بھی یہ ہمیں فائدہ دے گا، لیکن اگر وہ چیز موجود ہے اور ہم نے روک دیا تو ظاہر ہے کہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، لہذا اس چیز کو جاری رکھنا چاہئے۔
سوال نمبر 22:
Last question is personal. Most of the time, I feel the failure of my life or past wrong decisions like I should not have done this or that etc and I am becoming lazy and impractical. I try to postpone life tasks to the next day and then postpone them further the next day. I feel I am locked behind in this world and will also be a failure in سلوک. My dreams are also disturbing. Maybe it keeps me entangled like troubled thoughts. My nerves feel weak as well but الحمد للہ I am very punctual in Zikr and do whatever you have advised without any loss of a single day. Kindly suggest some extra Zikr to come out of this cycle of depression.
جواب:
ڈپریشن انسان ہی کے کسی نقطۂ نظر کا نتیجہ ہوتی ہے، جیسے ابھی آپ نے discuss کیا، چنانچہ اس کا ایک نقطۂ نظر ہوتا ہے، جب انسان Worldly things کو اپنا goal (مقصد) سمجھ لیتا ہے اور اس میں کمی پاتا ہے، تو ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے اور جس وقت Worldly things (دنیاوی چیزوں) کو اپنا goal نہ سمجھے، بلکہ اس کو راستے کا ذریعہ سمجھ لے، تو پھر جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ بھیجے، وہ اس پر راضی ہوتا ہے۔
حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر فاقہ تھا، حالانکہ بادشاہِ وقت ان کا مرید تھا، بادشاہِ وقت جس کا مرید ہو، اس کے گھر میں بھی فاقہ۔ اگر بادشاہ کو پتا چل جاتا، تو کیا فاقہ رہتا؟ لیکن یہ ان کی اس حد تک احتیاط تھی کہ بادشاہ کو اپنے فاقہ کی خبر بھی نہیں ہونے دی۔
شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی واقعہ ہے کہ ان کے پاس بادشاہ نے باقاعدہ رقعہ بھیجا کہ میں نے ملکِ نیمروز آپ کی جاگیر میں دے دیا، تاکہ خانقاہ کی ضروریات آپ اس سے پوری کریں، ماشاء اللہ! آپ کی خانقاہ سے خلقِ خدا کو بہت فائدہ پہنچ رہا ہے، اس خانقاہ کے لئے یہ ملک نیمروز آپ کو جاگیر دیتا ہوں۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ کی زبان فارسی تھی، حضرت نے فارسی میں کچھ اشعار کہے:
چوں چتر سنجری رخ بختم سیاہ باد
در دل اگر بود ہس ملک سنجرم
زانگہ کہ یافتم خبر از ملک نیم شب
من ملک نیم روز بیک جو نمی خرم
یعنی اے بادشاہ! اگر میں تیرے ملکِ نیمروز کی طرف محض ایک نظر بھی دیکھوں، تو میرا بخت تیری چھتری کی طرح سیاہ ہو جائے، مجھے نیم شب یعنی آدھی رات کے وقت تہجد کی نماز کی دولت مل چکی ہے، میں ملک نیمروز کو ایک جو کے بدلے میں بھی نہیں خریدنا چاہتا، یہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا جواب ہے۔
خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ اگر آپ چاہیں، تو یہ احد کا پہاڑ میں سونے کا بنا دوں، یہ آپ کے ساتھ ساتھ چلے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا جواب دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اے اللہ! مجھے یہ پسند ہے کہ ایک وقت کھاؤں اور اس پر آپ کا شکر کروں اور جس وقت نہ ملے تو میں اس پر صبر کروں۔
بس یہی بات ہے کہ ہمارا target (ہدف) یہ نہیں ہونا چاہئے۔
Worldly things are not our target.
البتہ اللہ پاک دے دیں، تو ہم شکر ضرور کریں، لیکن ہمارا target (ہدف) یہ نہیں ہے، ہمارا target (ہدف) اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، لہذا اگر آپ اپنے اس ذکر اور اس تعلق کے ذریعے سے اس target (ہدف) کو achieve (حاصل) کر سکیں، یعنی اس target (ہدف) کی طرف آپ divert (برطرف) ہو جائیں، تو یہی آپ کی بڑی کامیابی ہوگی، یہی آپ کو ڈپریشن سے بھی نکال دے گی، یہی آپ کو تمام غلط سوچوں سے بھی نکال دے گی، ہم اس کا حل اس بات کو سمجھتے ہیں۔
سوال نمبر 23:
السلام علیکم۔
حضرت جی! میں معمولات کے چارٹ یعنی اعمال: تہجد، اشراق، چاشت، علاجی ذکر، مسنون تسبیحات اور تلاوت وغیرہ کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر میرے پاس وقت کم ہو، تو ترجیحات کی ترتیب کیا ہونی چاہئے، یعنی کون سے عمل کو ترجیحِ اول اور کون سے کو ترجیحِ دوم، سوم، ہونی چاہئے؟ اور اسی طرح باقی اعمال: تلاوت، درود شریف، مناجات، کیا مبتدی کے لئے بھی یہ سب ضروری ہیں؟
جواب:
ہم معمولات یعنی تہجد، اشراق، چاشت، علاجی ذکر، مسنون تسبیحات اور تلاوت وغیرہ کا ذرا تھوڑا سا جائزہ لیتے ہیں۔ تہجد، اشراق، چاشت، یہ تینوں اعمال وقت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، یعنی ہر وقت آپ یہ اعمال نہیں کر سکتے اور یہ تینوں اعمال نفل ہیں، لہذا ان اوقات میں اگر آپ کا کوئی فرض ترک ہو رہا ہے، مثلاً: کوئی بیمار ہے اور اس کو آپ ہسپتال لے جا رہے ہیں، تو تب آپ تہجد وغیرہ چھوڑ سکتے ہیں، کیونکہ یہ نفل ہیں، لیکن اگر ایسی بات نہیں ہے، تو محض سستی کی وجہ انہیں نہیں چھوڑنا چاہئے، یعنی ان سے Higher value (اعلٰی قدر) کی کوئی چیز اگر ان کی وجہ سے فوت ہو رہی ہے تو اس وقت آپ اپنے نوافل کو چھوڑ سکتے ہیں، ورنہ ہمارے پاس اپنی protection (تحفظ) کے لئے نوافل کا اچھا خاصا ذخیرہ ہونا چاہئے۔
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کے پاس کروڑوں روپے ہوتے ہیں، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ہم کسی وقت کہیں پریشان نہ ہوں، تو اور بھی کماتے ہیں، اسی طرح آپ بھی اس اثاثہ کو نہ چھوڑیں، یہ ان اعمال کا معاملہ ہے۔ اور بقیہ معمولات: علاجی ذکر، تلاوت اور مسنون ذکر، یہ تین اعمال مستحب ہیں اور ان کا وقت بھی خاص نہیں، یہ کسی بھی وقت کیے جا سکتے ہیں، اگر ان اعمال کو ترتیب دیئے گئے وقت میں کرنا مشکل ہو، تو آپ اپنے ان اعمال کے لئے وقت شفٹ کر سکتے ہیں یعنی کوئی ایسا مسئلہ پیش آ جائے، جس میں آپ کو چانس نہیں مل رہا، تو آپ ان کا ٹائم شفٹ کر لیں، مثلاً: آپ سفر میں ہیں، اور موقع نہیں مل رہا، تو آپ ان کا وقت شفٹ کر لیں، اور دوسرے وقت میں ان کو کر لیں، کریں ضرور، بالکل چھوڑیں نہیں، بلکہ کبھی اس طرح بھی ہو جاتا ہے کہ سفر کے دوران گاڑی میں بیٹھ کر بھی انسان ان اعمال کو کر سکتا ہے، چنانچہ اگر آپ گاڑی خود نہ چلا رہے ہوں تو آپ سفر کے دوران بھی یہ اعمال کر سکتے ہیں، آج کل موبائل پر سب کچھ آ جاتا ہے، اگر موبائل ساتھ ہو تو اس کے اوپر آپ کی تمام چیزیں موجود ہوں گی، اس طرح آپ اپنے یہ معمولات کر سکتے ہیں۔ البتہ اگر بالکل ہی مشکل ہو جائے، تو علاجی ذکر کو اولیت حاصل ہے، جس میں مراقبہ بھی ہے، تمام معمولات میں اس کو اولیت اس لئے حاصل ہے کہ یہ علاج ہے۔
اور باقی مسنون اذکار غذا ہیں، علاج اور غذا میں اگر تقابل آ جائے تو علاج کو preference (ترجیح) حاصل ہے، لیکن یہ بہت عجیب بات ہے کہ لوگ مراقبہ اور علاجی ذکر کو چھوڑ دیتے ہیں، اور باقی معمولات کو کر لیتے ہیں۔ یہ غلط ترتیب ہے، صحیح ترتیب یہ ہے کہ علاجی ذکر کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑنا چاہئے، اس کی کوشش کرنی چاہئے، کیونکہ یہی آپ کو فائدہ پہنچائے گا۔
اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے آپ درمیان میں ایک دن دوائی چھوڑ دیں، تو اس سے resistance (مزاحمت) ہو سکتی ہے، لہٰذا دوائی کو نہیں چھوڑنا چاہئے، البتہ کھانے پینے کو postpone (ملتوی) کیا جا سکتا ہے، اس سے اور کچھ نہیں ہوگا، صرف یہ ہے کہ بھوک ہی لگے گی، اور بھوک کے بھی اگر آپ عادی ہو چکے ہیں، تو پھر وہ بھی نہیں لگے گی۔
سوال نمبر 24:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
مکتوبات شریفہ میں آج کل جو مضامین آ رہے ہیں، وہ بہت اونچے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی قدر عطا فرمائے اور ان سے آج کل جو کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، اللہ تعالی آپ کی برکت سے وہ ہمیں عطا فرمائے۔
مکتوب نمبر 45 میں آیا کہ ممکن تمام کا تمام عرض ہے، اس کی ذات معدوم ہے، ہر شخص اپنی طرف لفظ اَنا سے جو اشارہ کرتا ہے، وہ اصل میں اللہ تعالی کی طرف ہی ہے، جو سب کو تھامے ہوئے ہے، چاہے وہ اس کو جانے یا نہ جانے۔ آپ نے اس کو بیان کرتے ہوئے غالباً فرمایا تھا کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے عجب وغیرہ کی جڑ ختم فرما دی ہے۔ حضرت! سوال یہ ہے کہ موجودہ حالت میں جب کہ میرے نفس کی اصلاح ابھی نامکمل ہے، اس مضمون کو سوچتے وقت میرے اوپر جو کیفیت عارضی سی طاری ہوتی ہے، وہ کیسی ہے؟ نیز اس ملفوظ کے بارے میں اگر مناسب ہو، تو کچھ ارشاد فرمائیں۔
جواب:
عارضی کیفیت بھی nucleation یعنی سٹارٹ کے لئے بہت اہم ہوتی ہے، کیونکہ عارضی کیفیت جذب جیسی ہوتی ہے، اور جذب سے کام لیا جائے تو وہ کیفیت مستقل ہو جاتی ہے، لہذا وہ عارضی کیفیت بے شک گاہے گاہے ہی ہو لیکن اس سے فائدہ ہوتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تھے، وہ جب راستہ میں آ رہے تھے، تو وہ کہہ رہے تھے کہ حنظلہ منافق ہوگیا، حنظلہ منافق ہوگیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں جو میری حالت ہوتی ہے، وہ حالت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس سے باہر نہیں ہوتی، یہ تو منافقت ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ تو میرے ساتھ بھی ہوتا ہے، جا کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے بارے میں پوچھ لیتے ہیں، دونوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر باہر بھی تمہاری حالت ایسی ہو، جیسی کہ میری مجلس میں تمہاری حالت ہوتی ہے، پھر تو فرشتے تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کرنے لگیں، یعنی ایسا تو گاہے گاہے ہوتا ہے۔
اگر ہمیں مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ کی برکت سے عارضی طور پر بھی یہ کیفیت حاصل ہو، تو اس پر بھی ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس سے کم از کم ہمیں اس کیفیت کی چاشنی حاصل ہو جاتی ہے، پھر اس کے بعد اس کیفیت کو ہم کسب کے ذریعے سے حاصل کر سکتے ہیں، یعنی اس کے اوپر محنت کر سکتے ہیں، یہ ہمارے لئے محنت کا domain (دائرۂ کار) بن جاتا ہے، اس وجہ سے اس کو بھی welcome کرنا چاہئے۔
سائل نے جو کہا کہ اس مکتوب شریف کے بارے میں بتائیں۔ اب چونکہ وقت کم ہے اس لئے اتنے وقت میں مکتوب شریف نہیں پورا ہوسکتا، اس وجہ سے ہم معذرت خواہ ہیں۔
سوال نمبر 25:
حضرت جی! اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی زندگی میں برکت عطا فرمائے، حضرت جی! پہلے میں آپ کا بیان کام کے دوران سنتا تھا اور فائدہ بھی محسوس ہوتا تھا لیکن جب سے آپ نے منع فرمایا کہ بیان کے وقت کوئی کام نہ کریں، تو تب سے بیان سننا بھی مؤخر ہوگیا ہے، Software projects کی deadlines کی وجہ سے وہ وقت نکال نہیں پاتا۔ دوسرا یہ کہ حضرت! اس مہینہ صبح کی نماز کے لئے جاگنا بہت مشکل ہوگیا ہے، حالانکہ اب نماز کافی دیر سے قضا ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود تین نمازیں قضا ہوگئیں۔
جواب:
میرے خیال میں پہلے آپ اس relationship کو خود ہی دریافت کر لیں کہ آپ نے بیان سننا چھوڑ دیا، تو آپ کی نمازوں پر اس کا اثر پڑ گیا، آپ اپنی زبان سے خود ہی کہہ رہے ہیں کہ بیان سننا چھوڑ دیا، تو نمازوں پر بھی اثر پڑ گیا، اس سے معلوم ہوا کہ بیان سننا آپ کے لئے کتنا اہم ہے، اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں کچھ نہ کروں، سارا کچھ خود بخود ہو جائے، تو یہ طریقہ نہ ہمیں آتا ہے اور نہ کسی اور کو آتا ہے۔ لیکن جب آپ دنیا کی کسی چیز کے لئے پلاننگ کر سکتے ہیں اور اس کو حاصل کرنے کے لئے آپ کوئی procedure (طریقہ کار) بنا سکتے ہیں، تو اپنی عقل سے کام لیتے ہوئے اس کے لئے بھی کچھ procedure بنا لیں کہ کیسے آپ بیان سن سکتے ہیں۔
میں نے جو کہا تھا کہ بیان کے دوران کوئی کام نہیں کرنا چاہئے، یہ اس لئے کہا تھا کہ اس کی ناقدری نہ ہو، لیکن اس سے زیادہ ناقدری آپ کر ہی رہے ہیں کہ اس کی منشا کے اوپر آپ عمل نہیں کر رہے ہیں اور نماز تک کو چھوڑ رہے ہیں، اس سے یہ بہتر ہے کہ اگر آپ کام کے دوران بیان سن سکتے ہیں تو سن لیا کریں، کیونکہ وہ اس سے کم نقصان ہے، یہ زیادہ نقصان ہے۔ بہرحال! اگر آپ اس کے لئے کچھ اور management (انتظام) نہ کر سکیں، تو پھر یہ بھی ایک قسم کی management ہوگی۔
سوال نمبر 26:
ایک صاحب نے کہا کہ کسی نے خانقاہ گروپ میں یہ ایک شعر شئیر کیا ہے:
نقشبندیہ عجب قافلہ سالار انند
کہ برند از رہِ پنہاں بحرم قافلہ را
جواب:
اصل میں میں نے اس پر بڑی تفصیلی بات کی ہے، لیکن پتا نہیں لوگ کیوں بھول جاتے ہیں، میرے خیال میں خانقاہ گروپ پر ایسی چیزیں نہیں شیئر کرنی چاہئیں، اور اگر شیئر کرنی بھی ہوں، تو مشورہ ضرور کر لیں، کیوں اس شعر کا متبادر فی الذہن مفہوم یہ ہے کہ نقشبندیت طریقہ، یہ عجیب قافلہ ہے، جو لوگوں کو آسانی کے ساتھ حرم کی طرف لے جا رہا ہے، یہ بالکل صحیح بات ہے، بشرطیکہ نقشبندیت اصل اور صحیح معنی میں ہو، آج کل کہاں ہے اصل نقشبندیت، صرف دعوے ہی دعوے ہیں اور دعوے اتنے بڑے بڑے کہ آدمی حیران و پریشان ہو جاتا ہے کہ یہ کیا کر رہے ہیں، ایسے وقت میں اس قسم کے اشعار اگر آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کریں گے تو مسئلہ پیدا ہوگا، بس وہ سارے لوگ اسی میں مست ہو جائیں گے کہ ہم تو بس پہنچے ہوئے ہیں۔
میں نے کاکا خیلوں کا شجرہ لکھا تھا اور بڑے زبردست اشعار میں منظوم شجرہ لکھا تھا، مجھے اپنے دادا حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ اس سے تو کاکاخیل مست ہو جائیں گے اور سمجھیں گے کہ ہم بزرگ ہیں، تم پھر اس کا کیا حل کرو گے؟ حالانکہ اس میں باتیں بالکل صحیح تھیں، میں نے اس میں اپنے سارے بزرگوں کے وسیلے سے دعائیں کی تھیں، کاکاخیل قوم کے فضائل کا کچھ بھی بیان نہیں تھا، لیکن اس سے کاکاخیل قوم یہ نتیجہ نکال سکتی تھی کہ ہم ان بزرگوں کی اولاد ہیں، بس ہمارا کام ہوگیا، اس لئے مجھے اس پر تنبیہ کی گئی، تو اس وقت میں نے پانچ اشعار اور شامل کیے، جن میں سے پہلا شعر الحمد للہ حدیث شریف پر مبنی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: بیٹی! تم میری وجہ سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بچو گی، خود تمہیں عمل کرنا پڑے گا، سوچیں: حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا کتنی پاک باز خاتون تھیں، لوگ جن کو پنج تن پاک کہتے ہیں ان میں ایک فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی ہیں، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو یہ سمجھایا۔ میں نے پہلے شعر میں یہ بیان کیا، اور دوسرا شعر میں یہ مفہوم بیان کیا کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ سید ہونے کا فائدہ دنیا میں ہے، ورنہ آخرت میں انسان عمل سے آگے جائے گا، یہ بات بھی حدیث شریف کے مطابق ہے، کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ جس کسی کو اس کے عمل نے پیچھے کر دیا، اس کو اس کا نسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔ یہ بالکل صحیح بات ہے۔
تیسری بات میں نے یہ کہی کہ ہمارے جتنے بزرگ تھے، وہ باقاعدہ عمل کرنے والے تھے، وہ پدرم سلطان بود کے نعرے نہیں لگاتے تھے کہ ہمارے آباء و اجداد بہت بڑے ہیں، وہ اس پر خوش نہیں رہے، نتیجۃً ہمارے جتنے بھی آباء و اجداد گزرے ہیں، الحمد للہ وہ اپنے اپنے طور پر صاحبِ نسبت ہوئے ہیں، اپنے آباء و اجداد کی وجہ نہیں بلکہ انہوں نے اپنے اپنے طور پر محنت کی، اللہ تعالیٰ نے ان کو صاحب نسبت بنا دیا، یہی وجہ ہے کہ شجرہ میں مسلسل صاحبِ نسبت بزرگ آ رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی چیز سے منفی نتیجہ نکل سکتا ہے تو اس کو دیکھنا چاہئے، اور اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ چنانچہ اس سے منفی نتیجہ نکلتا ہے۔
نقشبندی حضرات کہتے ہیں: ولایت صغریٰ اور ولایت کبریٰ۔ ہمیں اس پر بھی تنبیہ ہوئی ہے کہ ان اصطلاحات کو ختم کرو، یہ استعمال نہ کرو، اس سے لوگوں کو اپنے ولی ہونے کا گمان ہوتا ہے، جبکہ انسان جب صحیح معنوں میں کامل ہوجاتا ہے، تو وہ اپنے آپ کو بقول حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے فرنگ سے بھی برا سمجھتا ہے، جب تک انسان اپنے آپ کو فرنگ اور خنزیر سے برا نہ سمجھے اس وقت تک وہ عارف نہیں ہوتا۔ یہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے۔ ہم یہ نہ بتائیں اور وہ بتائیں تو پھر نتیجہ کیا ہوگا؟
مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایسی بات کہہ سکتے ہیں، اگر وہ کہہ دیں تو ان کی بات بالکل صحیح ہے، انہوں نے اپنی شان اور اپنے وقت کے مطابق کہا ہے، لیکن جس دور میں آج کل ہم رہ رہے ہیں، اس دور میں ایسے اشعار ہمیں نقصان پہنچائیں گے۔
بعض حضرات نے یہ کہا تھا کہ دیگر سلاسل میں جہاں لوگوں کی انتہا ہے، نقشبندی سلسلہ میں الحمدُ للہ وہاں سے ہماری ابتدا ہے۔ ایک صاحب کو حضرت مجدد صاحب کی زیارت ہوئی، حضرت نے انتہائی جلال میں فرمایا کہ ان لوگوں سے پوچھو: کیا تمہیں پتا چل گیا کہ تمہاری انتہا کیا ہے اور ان کی انتہا کیا ہے؟ یہ چیز صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے، تم کہاں جانتے ہو، حضرت نے یہ بڑے جلال میں فرمایا۔
یہ باتیں گپ شپ کی نہیں ہیں، اپنے آپ کو گپ شپ میں نہیں پھنسانا چاہئے، آئندہ ہمارے خانقاہ گروپ پر اس قسم کی چیزیں شیئر نہ کی جائیں، پہلے پوچھا جائے کہ کیا میں اس کو شیئر کر سکتا ہوں؟ اس کے بعد ایسی چیزیں شیئر کرنی چاہئیں، کیونکہ یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے، اور اپنے آپ کو خراب کرنے والی بات ہے۔
ہم ان چیزوں کو غلط نہیں کہتے، جیسے حضرت رحمہ اللہ نے کسی زمانہ میں مجھے کتابوں سے روکا تھا، فرمایا تھا کہ تم صرف حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات اور مواعظ پڑھ سکتے ہو، اس کے علاوہ تمام کتابوں کا مطالعہ تمہارے لئے ممنوع ہے، پھر حضرت رحمہ اللہ نے خود ہی فرمایا کہ یہ مت سمجھنا کہ بقیہ کتابیں غلط ہیں، سب کتابیں صحیح ہیں، لیکن بعض دفعہ ڈاکٹر مریض کو ملائی سے بھی روک دیتے ہیں، بس یہی بات ہے۔
ہم بھی یہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کا طریقہ یہ نہیں ہے، سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے نصیحت کی درخواست کی، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس صدی کے مجدد ہیں، لہذا ان کی بات کی بہت قدر کرنی چاہئے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا اور کہا: اتنے بڑے علامہ کو میں کیا نصیحت کر سکتا ہوں، البتہ ایک نصیحت جو میں اپنے آپ کو کرتا رہتا ہوں، وہ میں سب کو کر سکتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو جتنا مٹا سکیں، مٹائیں ، بس اسی میں ہماری کامیابی ہے، اس نصیحت کو سن کر سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ پر گریا طاری ہوگیا اور راستہ بھر روتے رہے۔
میرا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو اپنے بزرگوں کے آئینے میں دیکھنا چاہئے کہ ان لوگوں کا طریقہ کیا تھا اور ہم لوگ کن چیزوں میں پڑے ہوئے ہیں، ہم طفل تسلیوں میں پڑے ہوئے ہیں، جبکہ عمل اور عبدیت کاملہ کو سب چیزوں پر فوقیت ہے۔ قرآن میں ہے:
﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۠﴾ (الفجر: 27-30)
ترجمہ: "اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پا چکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آ جا کہ تو اس سے راضی ہو اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
یہ چیز قرآن کی نص سے ثابت ہے، لہذا اس کے مقابلہ میں ہم ساری چیزوں کو بھول سکتے ہیں، پہلے نفس کی اصلاح ہے، نفس امارہ کو نفس مطمئنہ بنا دو، پھر خود بخود عبدیت مل جائے گی، اس کے بعد ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کے لئے جنت کے دروازے کھول دے گا، یہی ہمارا طریقہ ہے اور اسی پر ہم چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کامیاب فرما دے۔
سوال نمبر 27:
حضرت جی! کیا بندہ یہ کہہ سکتا کہ یا اللہ! مجھے سب سے چھپا دیں۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک اس سے دین کا کوئی کام لینا چاہتا ہو اور بندہ اپنے آپ کو چھپانا چاہ رہا ہو تو ایسی صورت میں انسان اپنے لئے کیا دعا کرے؟
جواب:
تم اپنے لئے وہی مانگو جو تم اپنے لئے بہتر سمجھتے ہو اور اللہ تعالیٰ وہی کرے گا جو اس کے علم میں تمہارے لئے بہتر ہوگا۔ اس confusion میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
سوال نمبر : 28:
کیا کسی فوت شدہ شخص کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرنے کے بعد اس کے ساتھ بہت اچھا معاملہ ہوا، وہ جنت میں چلا گیا۔
جواب:
آخرت کی باتیں اللہ ہی کو معلوم ہیں، ہمیں جس کے بارے میں یقینی طور پہ پتا نہ ہو، اس کے بارے میں ہم یقینی طور پر کیا کہہ سکتے ہیں، البتہ آپ یہ کہہ دیں کہ میرے خیال کے مطابق بڑے نیک آدمی تھے۔
سوال نمبر 29:
حضرت! یہ بتائیں کہ معاشرے میں اگر ایک بندے پر ظلم ہو رہا ہو، اس کا جانی یا مالی نقصان ہوا ہو، جس نے اس پر ظلم کیا ہے اس کے بارے میں اس کے دل میں نفرت پیدا ہوگی. کیا یہ چیز کینہ میں آتی ہے یا نہیں؟
جواب:
ما شاء اللہ! بہترین بات پوچھی ہے۔
اصل میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ﴾ (النساء: 148)
ترجمہ: "اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائی علانیہ زبان پر لائی جائے، الا یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
جس کا حاصل یہ ہے کہ کوئی کسی کی برائی نہیں کر سکتا، مگر یہ کہ اس پر ظلم کیا گیا ہو، جس پر ظلم کیا گیا ہے، وہ اس کی برائی کہہ سکتا ہے، البتہ اگر نہ کہے، تو یہ عزیمت ہے، لیکن اگر وہ کہہ دے، تو اس پر کوئی سزا نہیں ہے، کیونکہ اس نے اپنی مظلومیت کو بیان کیا ہے۔
اگر اس کو صرف اتنا ہی مطلوب ہو کہ جتنا مجھے نقصان پہنچا ہے، میں اتنا ہی نقصان اس کو پہنچا دوں، اگر یہ ممکن ہو، تو اس صورت میں وہ مجرم نہیں ہوگا، لیکن اس کا فیصلہ کرنا کہ میں کتنا اقدام کروں تاکہ اس کے جرم سے زیادہ نہ ہو جائے، بڑی مشکل ہوتا ہے، لہٰذا preference (ترجیح) پھر بھی معافی کو ہی ہوگی، البتہ اگر یہ اس کے خلاف کوئی مقدمہ کرتا ہے، تو شرعاً اس کو اجازت ہے، کیونکہ اس کے اوپر ظلم ہوا ہے، وہ شرعی عدالت میں اپنے ظلم کے مقابلہ میں اس کے خلاف کیس کر سکتا ہے۔
عدالت کی طرف سے جو فیصلہ ہو، اس پر اسے مطمئن ہو جانا چاہئے، پھر دل میں مزید کوئی بات نہیں رکھنی چاہئے، اور اپنے کیسز مضبوط بنائے، اور عدالت میں فیصلہ کا دار و مدار گواہوں کی گواہی پر ہوتا ہے، اس وجہ سے اگر کیس ہار جائے، تو یہ سوچ لے کہ ایک دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں فیصلہ ہو جائے گا، لہذا اس کو مزید نہیں بڑھانا چاہئے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ